Anguthe Chumne ki Hadees aur riwayat ki Tehqiq | Zaeef Hadees ki Maqbuliyat by AalaHazrat

 Ye AalaHazrat ka Risala Muneerul Ain fi Hukme Taqbeele Ibhamain hai. Jiska Urdu Text yahan aap sab ke samne pesh kiya ja raha hai. Isme AalaHazrat ne Anguthe Chumne ki Hadees bhi bayan farmayi hai aur us ki Maqbuliyat ke liye Usoole Hadees ke tamam ehkam bayan kiye hain. wo ye ki Fazilat me Zaeef Hadees Motabar hoti hai. 

 

رسالہ

(۱۳۰۱) منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین (۱۳۰۱)

(انگوٹھے چُومنے کے سبب آنکھوں کا روشن ہونا)

 

مسئلہ (۳۸۶) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اذان میں کلمہ اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ سُن کر انگوٹھے چُومنا آنکھوں سے لگانا کیسا ہے؟ بینّوا تؤجرُوا۔

 

فتوٰی

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط

الحمدللّٰہ الذی نورعیون المسلمین بنورعین اعیان المرسلین،والصّلاۃ والسلام علی نورالعیون سرورالقلب المحزون محمدنالرفیع ذکرہ فی الصلاۃ والاذان،والجیب اسمہ عند اھل الایمان، وعلی اٰلہ وصحبہ والمشروحۃ صدورھم لجلال اسرارہ والمفتوحۃ عیونھم بجمال انوارہ، واشھد ان لاالٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ،وان محمّداعبدہ ورسولہ بالھدی ودین الحق ارسلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہ وصحبہ اجمعین،وعلینا معھم وبھم ولھم یاارحم الراحمین اٰمین،قال العبدالذلیل للمولی الجلیل عبدالمصطفٰی احمدرضاالمحمدی السنی الحنفی القادری البرکاتی البریلوی،نوراللّٰہ عیونہ واصلح شیونہ مستعیذا برب الفلق من شرما خلق وحامداللّٰہ علٰی ماالھم ووفق۔

 

تمام خُوبیان اللہ کے لئے جس نے گروہِ انبیاء ومرسلین کے سربراہ کے نور سے تمام مسلمانوں کی آنکھوں کو روشنی بخشی، صلاۃ وسلام ہو اس پر جو آنکھوں کا نور، پریشان دلوں کا سرور یعنی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جن کاذکر اذان ونماز میں بلند ہے۔ جس کا اسم گرامی اہلِ ایمان کے ہاں نہایت ہی محبوب ہے اور آپ کی آل واصحاب پرجن کے مبارک سینے آپ کے اسرار ورموز کے جلال کیلئے کھول دئے، اور ان کی آنکھوں کو آپ کے انوار جمال سے منور فرمایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں وہ وحدہ، لاشریک ہے اور حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں جن کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ مبعوث کیا، اور ہم پر بھی رحمت ہو ان کے ساتھ، ان کے سبب اور ان کے صدقہ میں یاارحم الراحمین، مولٰی جلیل کا عبدِ ذلیل عبدالمصطفٰی احمد رضا محمدی، سُنّی، حنفی، قادری، برکاتی، بریلوی کہتا ہے اللہ تعالٰی اس کی آنکھوں کو منور فرمائے اور اس کے تمام احوال کی اصلاح کرے درانحالیکہ وہ رب الفلق کی پناہ میں آتا ہے تمام مخلوق کے شر سے اور حمد کرتا ہے اللہ کی اس پر جو اس نے عطا کی اور اس کی توفیق دے۔ (ت)

 

الجواب

حضور پُرنور شفیع یوم النشور صاحبِ لولاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک اذان میں سُنتے وقت انگوٹھے یا انگشتانِ شہادت چُوم کر آنکھوں سے لگانا قطعاً جائز، جس کے جواز پر مقام تبرع میں دلائل کثیرہ قائم، اور خود اگر کوئی دلیل خاص نہ ہوتی تو منع پر شرع سے دلیل نہ ہونا ہی جواز کے لئے دلیل کافی تھا، جو ناجائز بتائے ثبوت دینا اُس کے ذمّہ ہے کہ قائل جواز متمسک باصل ہے اورمتمسک باصل محتاجِ دلیل نہیں، پھر یہاں تو حدیث وفقہ وار شاد علما وعمل قدیم سلف صلحا سب کچھ موجود۔ علمائے محدثین نے اس باب میں حضرت خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبر وحضرت ریحانہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیدنا امام حسن وحسین وحضرت نقیب اولیائے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیدنا ابوالعباس خضر علی الحبیب الکریم وعلیہم جمیعا الصلاۃ والتسلیم وغیرہم اکابر دین سے حدیثیں روایت فرمائیں جس کی قدرے تفصیل امام علّامہ شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ تعالٰی نے کتاب مستطاب مقاصد حسنہ میں ذکر فرمائی اور جامع الرموز شرح نقایتہ، مختصر الوقایۃ وفتاوٰی صوفیہ وکنز العباد وردالمحتار حاشیہ درمختار وغیرہا کتبِ فقہ میں اس فعل کے استحباب واستحسان کے صاف تصریح آئی، ان میں اکثر کتابیں خود مانعین اور ان کے اکابر وعمائد مثل متکلم قنوجی وغیرہ کے مستندات سے ہیں اور اُن حدیثوں کے بارے میں اُن محدثین کرام ومحققین اعلام نے جو تصحیح وتضعیف وتجریح وتوثیق میں دائرہ اعتدال سے نہیں نکلتے اور راہِ تساہل وتشدّد نہیں چلتے حکمِ اخیر وخلاصہ بحث وتنقیریہ قرار دیا کہ خود حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے جو حدیثیں یہاں روایت کی گئیں باصطلاحِ محدثین درجہ صحت کو فائز نہ ہوئیں، مقاصد میں فرمایا:لایصحّ فی المرفوع مِنْ کُلّ ھٰذا شیئٌ ۱؎۔بیان کردہ مرفوع احادیث میں کوئی بھی درجہ صحت پر فائز نہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ المقاصد الحسنہ    حرف المیم    حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت    ص ۳۸۵)

 

مولانا علی قاری علیہ رحمۃ الباری موضوعاتِ کبیر میں فرماتے ہیں:کل مایروی فیئ ھذٰا فلایصح رفعہ البتۃ ۲؎۔اس بارے میں جو بھی روایات بیان کی گئی ہیں ان کا مرفوع ہونا حتمی صحیح نہیں۔ (ت)

 

 (۲؎ الاسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ (موضوعات کبرٰی)    حدیث ۸۲۹ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت    ص ۲۱۰)

 

علامہ ابن عابدین شامی قدس سرّہ السامی ردالمحتار میں علّامہ اسمٰعیل جراحی رحمہ اللہ تعالٰی سے نقل فرماتے ہیں:لَمْ یصِحَّ فیِ الْمَرْفُوْعِ مِنْ کُلِّ ھٰذَا شَیئٌ ۳؎۔بیان کردہ مرفوع احادیث میں کوئی بھی درجہ صحت پر فائر نہیں۔ (ت)

 

 (۳؎ ردالمحتار        باب الاذان        مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱/۲۹۳)

 

پھر خادمِ حدیث پر روشن کہ اصطلاحِ محدثین میں نفیِ صحت نفیِ حسن کو بھی مستلزم نہیں نہ کہ نفی صلاح وتماسک وصلوح تمسک، نہ کہ دعوٰی وضعِ کذب، تو عندالتحقیق ان احادیث پر جیسے باصطلاحِ محدثین حکمِ صحت صحیح نہیں یونہی حکمِ وضع وکذب بھی ہرگز مقبول نہیں بلکہ بتصریح ائمہ فن کثرتِ طُرق سے جبر نقصان متصوّر اور عملِ علمأ وقبولِ قُدما حدیث کے لئے قوی، دیگر اور نہ سہی تو فضائلِ اعمال میں حدیث ضعیف بالاجماع مقبول، اور اس سے بھی گزرے تو بِلاشُبہہ یہ فعل اکابرِ دین سے مروی ومنقول اور سلف صالح میں حفظ صحتِ بصر وروشنائی چشم کے لئے مجرب اور معمول، ایسے محل پر بالفرض اگر کچھ نہ ہوتو اسی قدر سند کافی بلکہ اصلاً نقل بھی نہ ہوتو صرف تجربہ وافی کہ آخر اُس میں کسی حکم شرعی کا ازالہ نہیں، نہ کسی سنّتِ ثابتہ کا خَلاف، اور نفع حاصل تو منع باطل، بلکہ انصاف کیجئے تو محدثین کا نفی صحت کو احادیث مرفوعہ سے خاص کرناصاف کہہ رہا ہے کہ وہ احادیثِ موقوفہ کو غیر صحیح نہیں کہتے پھر یہاں حدیث موقوف کیا کم ہے، ولہذا مولٰنا علی قاری نے عبارتِ مذکورہ کے بعد فرمایا:

 

قلت واذاثبت رفعہ الی الصدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فیکفی للعمل بہ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین ۱؎۔یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہی اس فعل کا ثبوتعمل کو بس ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تم پر لازم کرتا ہُوں اپنی سنّت اور اپنے خلفائے راشدین کی سنت۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔

 

 (۱؎ الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ (موضوعات کبرٰی)    حدیث ۸۲۹ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت     ص ۲۱۰)

 

تو صدیق سے کسی شَے کا ثبوت بعینہٖ حضور سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثبوت ہے اگرچہ بالخصوص حدیث مرفوع درجہ صحت تک مرفوع نہ ہو، امام سخاوی المقاصد الحسنۃ فی الاحادیث الدائرۃ علی الالسنۃ میں فرماتے ہیں:

 

حدیث:مسح العینین بباطن انملتی السبابتین بعد تقبیلھما عندسماع قول المؤذن اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ مع قولہ اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ رضیت باللّٰہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نبیا ذکرہ الدیلمی فی الفردوس من حدیث ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ لماسمع قول المؤذن اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ قال ھذا وقیل باطن الانملتین السبابتین ومسح عینیہ فقال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مَنْ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ خَلِیْلِیْ فَقَدْ حَلَّتْ عَلَیہِ شَفَاعَتِیْ وَلَایصِحَّ ۲؎۔

 

یعنی مؤذن سے اشھد انّ محمداً رسول اللّٰہ سُن کر انگشتانِ شہادت کے پورے جانبِ باطن سے چُوم کر آنکھوں پر ملنا اور یہ دُعا پڑھنا اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، رَضِیتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیناً وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَسَلَّمَ نَبِیا ط اس حدیث کو دیلمی نے مسند الفردوس میں حدیث سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ جب اس جناب نے مؤذن کو اشھد انّ محمداً رسول اللّٰہ کہتے سُنا یہ دُعا پڑھی اور دونوں کلمے کی انگلیوں کے پورے جانب زیریں سے چُوم کر آنکھوں سے لگائے، اس پر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جو ایسا کرے جیسا میرے پیارے نے کیا اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوجائے، اور یہ حدیث اس درجہ کو نہ پہنچی جسے محدثین اپنی اصطلاح میں درجہ صحت نام رکھتے ہیں۔

 

 (۲؎ المقاصد الحسنۃ    حروف المی   حدیث ۱۰۲۱ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ص ۳۸۴)

 

پھر فرمایا: وکذامااوردہ ابوالعباس احمد بن ابی بکرنالرداد الیمانی المتصوف فی کتابہ ''موجبات الرحمۃ وعزائم المغفرۃ'' بسند فیہ مجاھیل مع انقطاعہ عن الخضر علیہ السلام انہ قال من قال حین یسمع المؤذن یقول اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ، مرحبا بجیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ثم یقبل ابھا میہ ویجعلھما علی عینیہ لم یرمد ابدا ۱؎۔

 

یعنی ایسے ہی وہ حدیث کہ حضرت ابوالعباس احمد بن ابی بکررداد یمنی صوفی نے اپنی کتاب ''موجبات الرحمۃ وعزائم المغفرہ'' میں ایسی سند سے جس میں مجاہیل ہیں اور منقطع بھی ہے حضرت سیدنا خضر علیہ الصلاۃ والسلام سے روایت کی کہ وہ ارشاد فرماتے ہیں جو شخص مؤذّن سے اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ سن کر مرحبا بجبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کہے پھر دونوں انگوٹھے چُوم کر آنکھوں پر رکھے اس کی آنکھیں کبھی نہ دُکھیں۔

 

 (۱؎ المقاصد الحسنہ    حروف المیم    حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان ص ۳۸۴)

 

پھر فرمایا:

ثم روی بسند فیہ من لم اعرفہ عن اخی الفقیہ محمد بن البابا فیما حکی عن نفسہ انہ ھبت ریح، فوقعت منہ حصاۃ فی عینہ فاعیاہ خروجھا والمتہ اشد الالم، وانہ لماسمع المؤذن یقول اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ، قال ذلک فخرجت الحصاۃ من فورہ، قال الرداد رحمہ اللّٰہ تعالٰی، وھذا یسیر فی جنب فضائل الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۲؎۔

 

یعنی پھر ایسی سند کے ساتھ جس کے بعض رواۃ کو میں نہیںپہچانتا فقیہ بن البابا کے بھائی سے روایت کی کہ وہ اپنا حال بیان کرتے تھے ایک بار ہوا چلی ایک کنکری ان کی آنکھ میں پڑگئی نکالتے تھک گئے ہرگز نہ نکلی اور نہایت سخت درد پہنچایاانہوں نے مؤذن کواشھد ان محمدارسول اللّٰہ کہتے ہوئے یہی کہا فوراً نکل گئی رواد رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضائل کے حضور اتنی بات کیا چیز ہے۔

 

 (۲؎ المقاصد الحسنہ    حروف المیم    حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان ص ۳۸۴)

 

پھر فرمایا: وحکی الشمس محمد بن صالح نالمدنی امامھا وخطیبھا فی تاریخہ عن المجد احد القدماء من المصریین، انہ سمعہ یقول من صلیعلی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاسمع ذکرہ فی الاذان، وجمع اصبعیہ المسبحۃ والابھام وقبلھا ومسح بھما عینیہ لم یرمد ابدا ۱؎۔

 

یعنی شمس الدین محمد بن صالح مدنی مسجد مدینہ طیبہ کے امام وخطیب نے اپنی تاریخ میں مجد مصری سے کہ سلف صالح میں تھے نقل کیا کہ میں نے اُنہیں فرماتے سُناجو شخص نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ذکر پاک اذان میں سُن کرکلمہ کی اُنگلی اور انگوٹھا ملائے اور انہیں بوسہ دے کر آنکھوں سے لگائے اُس کی آنکھیں کبھی نہ دُکھیں۔

پھر فرمایا:

 

قال ابن صالح، وسمعت ذلک ایضا من الفقیہ محمد بن الزرندی عن بعض شیوخ العراق اوالعجم انہ یقول عندمایمسح عینیہ، صلی اللّٰہ علیک یاسیدی یارسول اللّٰہ یاحبیبَ قلبی ویانورَ بصری ویاقرۃ عینی، وقال لی کل منھما منذفعلہ لم ترمد عینی ۲؎۔

 

یعنی ابن صالح فرماتے ہیں میں نے یہ امر فقیہ محمد بن زرندی سے بھی سناکہ بَعض مشایخ عراق یا عجم سے راوی تھے اور اُن کی روایت میں یوں ہے کہ آنکھوں پر مَس کرتے وقت یہ درود عرض کرے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیکَ یاسَیدیْ یا رَسُوْلَ اللّٰہِ یاحَبِیبَ قَلْبِیْ وَیانُوْرَ بَصَرِیْ وَیا قُرَّۃَ عَینِیْ، اور دونوں صاحبوں یعنی شیخ مجد وفقیہ محمد نے مجھ سے بیان کیا کہ جب سے ہم یہ عمل کرتے ہیں ہماری آنکھیں نہ دُکھیں۔

 

پھر فرمایا:

قال ابن صالح واناوللّٰہ الحمد والشکرمنذسمعۃ منھمااستعملتہ، فلم ترمد عینی وارجوان عافیتھما تدوم وانی اسلم من العمی ان شاء اللّٰہ تعالٰی ۳؎۔

 

یعنی امام ابن صالح ممدوح نے فرمایا اللہ کے لئے حمد وشکر ہے جب سے مَیں نے یہ عمل اُن دونوں صاحبوں سے سُنا اپنے عمل میں رکھا آج تک میری آنکھیں نہ دُکھیں اور اُمید کرتا ہوں کہ ہمیشہ اچھی رہیں گی اور میں کبھی اندھا نہ ہوں گا اِن شاء اللہ تعالٰی۔

 

 (۱؎ و ۲؎ و ۳؎ المقاصد الحسنہ    حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان    ص ۳۸۴)

 

پھر فرمایا:

قال وروی عن الفقیہ محمد بن سعید الخولانی قال اخبرنی الفقیہ العالم ابوالحسن علی بن محمد بن حدید الحسینی، اخبرنی الفقیہ الزاھد ابلالی عن الحسن علیہ السلام، انہ قال، من قال حین یسمع المؤذن یقول اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ مرحبا بجیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ویقبل ابھامیہ ویجعلھما علی عینیہ لم یعم ولم یرمد ۱؎۔

 

یعنی یہی امام مدنی فرماتے ہیں فقیہ محمد سعید خولانی سے مروی ہُواکہ انہوں نے فرمایا مجھے فقیہ عالم ابوالحسن علی بن محمد بن حدید حسینی نے خبر دی کہ مجھے فقیہ زاہد بلالی نے حضرت امام حسن علی جدہ الکریم وعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے خبر دی کہ حضرت امام نے فرمایا کہ جو شخص مؤذن کو اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ کہتے سُن کر یہ دعا پڑھے مَرْحَبَا بِحَبِیْبِیْ وَقُرَّۃَ عَینِیْ مُحَمَّدِ ابْنِ عَبْدِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَسَلَّمْ ط اور اپنے انگوٹھے چُوم کر آنکھوں پر رکھے نہ کبھی اندھا ہو نہ آنکھیں دُکھیں۔

 

 (۱؎ المقاصد الحسنۃ    باب المیم    حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان    ص ۳۸۴)

 

پھر فرمایا:

وقال الطاؤسی،انہ سمع من الشمس محمد بن ابی نصر البخاری خواجہ،حدیث من قبل عند سماعہ من المؤذن کلمۃ الشھادۃ ظفری ابھامیہ ومسھما علی عینیہ،وقال عندالمس ''اللھم احفظ حدقتی ونورھما ببرکۃ حدقتی محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ونورھما لم یعم ۲؎۔

 

یعنی طاؤسی فرماتے ہیں اُنہوں نے خواجہ شمس الدین محمد بن ابی نصر بخاری سے یہ حدیث سُنی کہ جو شخص مؤذن سے کلماتِ شہادت سُن کر انگوٹھوں کے ناخن چُومے اور آنکھوں سے ملے اور یہ دُعا پڑھےاَللّٰھُمَّ احْفَظْ حَدَقْتَیَ وَنُوْرَھُمَا بِبَرْکَہٍ حُدَقَتَیْ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَنُوْرَھُمَا،اندھا نہ ہو۔

 

 (۲؎ المقاصد الحسنۃ    باب المیم    حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان    ص ۳۸۵)

 

شرح نقایہ میں ہے:

واعلم انہ یستحب ان یقال عند سماع الاولٰی من الشھادۃ الثانیۃ ''صلی اللّٰہ تعالٰی علیک یارسول اللّٰہ''وعند الثانیۃ منھا''قرۃ عینی بک یارسول اللّٰہ'' ثم یقال ''اللھم متعنی بالسمع والبصربعدوضع ظفری الابھامین علی العینین'' فانہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یکون قاعداً لہالی الجنۃ کذافی کنزالعباد ۱؎۔

 

یعنی خبر دار ہو بیشک مستحب ہے کہ جب اذان میں پہلی باراشھد ان محمداً رسول اللّٰہ سُنے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیکَ یارَسُوْلَ اللّٰہِ ط کہے اور دوسری بار قُرَّۃَ عَینِیْ بِکَ یارَسُوْلَ اللّٰہِ ط پھر انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں پر رکھ کر کہے اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ باِلسَّمْعِ وَالْبَصَرِط کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے پیچھے پیچھے اُسے جنّت میں لے جائیں گے، ایسا ہی کنزالعبادمیں ہے۔

 

 (۱؎ جامع الرموز    فصل الاذان        مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۱/۱۲۵)

 

علّامہ شامی قدس سرّہ السّامی اسے نقل کرکے فرماتے ہیں:ونحوہ فی الفتاوی الصّوفیۃ ۱؎یعنی اسی طرح امام فقیہ عارف باللہ سیدی فضل اللہ بن محمد بن ایوب سہر وردی تلمیذ امام علّامہ یوسف بن عمر صاحب جامع المضمرات شرح قدوری قدس سرہمانے فتاوٰی صوفیہ میں فرمایا) شیخ مشایخنا خاتم المحققین سیدالعلماء الحنفیہ بمکّہ المحمیہ مولٰنا جمال بن عبداللہ عمر مکی رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں:

 

سئلت عن تقبیل الابھامین ووضعھماعلی العینین عندذکراسمہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی الاذان، ھل ھو جائز ام لا،اجبت بمانصہ نعم تقبیل الابھامین ووضعھما علی العینین عند ذکر اسمہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی الاذان جائز،بل ھو مستحب صرح بہ مشایخنا فی غیر ماکتاب ۲؎۔

 

یعنی مجھ سے سوال ہواکہ اذان میںحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ذکر شریف سُن کر انگوٹھے چُومنا اور آنکھوں پر رکھنا جائز ہے یا نہیں، میں نے ان لفظوں سے جواب دیا کہ ہاں اذان میں حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک سُن کر انگوٹھے چُومنا آنکھوں پر رکھا جائز بلکہ مستحب ہے ہمارے مشایخ نے متعدد کتابوں میں اس کے مستحب ہونے کی تصریح فرمائی۔

 

 (۲؎ فتاوٰی جمال بن عبداللہ عمرمکی)

 

علامہ محدث محمد طاہر فتنی رحمہ اللہ تعالٰی''تکملہ مجمع بحار الانوار'' میں حدیث کو صرف لایصح فرماکر لکھتے ہیں: وروی تجربۃ ذلک عن کثیرین ۳؎یعنی اس کے تجربہ کی روایات بکثرت آئیں۔

 

 (۳؎ خاتمہ مجمع بحار الانوار    فصل فی تعینی بعض الاجابت المشتہرۃ الخ     نولکشور لکھنؤ        ۳/۵۱۱)

 

فقیر مجیب غفراللہ تعالٰی لہ کہتا ہے،اب طالب تحقیق وصاحب تدقیق،افادات چند نافع وسودمندپر لحاظ کرے، تاکہ بحول اللہ تعالٰی چہرہ حق سے نقاب اُٹھے اور صدر کلام میں جن لطیف مباحث پر ہم نے نہایت اجمالی اشارے کیے اُن کی قدرے تفصیل زیور گوشِ سا معین بنے کہ یہاں بسط کامل وشرح کا فل کے لئے تو دفتر وسیط،بلکہ مجلد بسیط درکار واللّٰہ الموفق ونعم المعین فاقول وباللّٰہ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق۔

 

افادہ اوّل:(حدیث صحیح نہ ہونے کے یہ معنٰی نہیں کہ غلط ہے) محدثین کرام کا کسی حدیث کو فرمانا کہ صحیح نہیں اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ غلط وباطل ہے،بلکہ صحیح اُن کی اصطلاح میں ایک اعلٰی درجہ کی حدیث ہے جس کے شرائط سخت ودشوار اور موانع وعلائق کثیر وبسیار،حدیث میں اُن سب کا اجتماع اور اِن سب کا ارتفاع کم ہوتا ہے، پھر اس کمی کے ساتھ اس کے اثبات میں سخت دقتیں، اگر اس مبحث کی تفصیل کی جائے کلام طویل تحریر میں آئے ان کے نزدیک جہاں ان باتوں میں کہیں بھی کمی ہوئی فرمادیتے ہیں ''یہ حدیث صحیح نہیں'' یعنی اس درجہ علیا کو نہ پہنچی، اس سے دوسرے درجہ کی حدیث کو حَسَن کہتے ہیں یہ باآنکہ صحیح نہیں پھر بھی اس میں کوئی قباحت نہیں ہوتی ورنہ حَسن ہی کیوں کہلاتی، فقط اتنا ہوتا ہے کہ اس کا پایہ بعض اوصاف میں اس بلند مرتبے سے جھُکا ہوتا ہے،اس قسم کی بھی سَیکڑوں حدیثیں صحیح مسلم وغیرہ کتب صحاح بلکہ عندالتحقیق بعض صحیح بخاری میں بھی ہیں، یہ قسم بھی استناد واحتجاج کی پُوری لیاقت رکھتی ہے۔ وہی علماء جو اُسے صحیح نہیں کہتے برابر اُس پر اعتماد فرماتے اور احکامِ حلال وحرام میں حجت بناتے ہیں،امام محقق محمد محمد محمد ابن امیرالحاج حلبی رحمہ اللہ تعالٰی حلیہ شرح منیہ(عـہ۱) میں فرماتے ہیں:قول الترمذی ''لایصح عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی ھذا الباب شیئٌ انتھٰی لاینفی وجود الحسن ونحوہ والمطلوب لایتوقف ثبوتہ علی الصحیح،بل کمایثبت بہ یثبت بالحسن ایضا ۱؎۔ترمذی کا یہ فرمانا کہ اس باب میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث نہیں ملی انتہی حسن اور اُس کے مثل کی نفی نہیں کرتا اور ثبوت مقصود کچھ صحیح ہی پر موقوف نہیں، بلکہ جس طرح اس سے ثابت ہوتا ہے یونہی حسن سے بھی ثابت ہوتا ہے۔

 

(۱؎ حلیۃ المحلی)

 

عـہ۱: ذکرہ فی مسئلۃ المسح بالمندیل بعد الوضوء ۱۲ منہ : وضو کے بعدتولیہ استعمال کرنے کے مسئلہ میں اس کو ذکر کیا ہے۔ ۱۲ منہ (ت)

 

اُسی (عـہ۲) میں ہے : علی المشی علی مقتضی الاصطلاح الحدیثی لایلزم من نفی الصحۃ نفی الثبوت علی وجہ الحسن ۲؎۔

 

یعنی اصطلاح علم حدیث کی رُو سے صحت کی نفی حسن ہوکر ثبوت کی نافی نہیں۔ ( ۲؎ حلیۃ المحلی)

 

عـہ۲: آخر صفۃ الصلاۃ قبیل فصل فیما کرہ فعلہ فی الصلٰوۃ ۱۲ منہ :

 

صفۃ الصلوٰۃ کے آخر میں فیما کرہ فعلہ فی الصلٰوۃ سے تھوڑا پہلے اسے ذکر کیاہے ۱۲ منہ (ت)

 

امام ابن حجر مکی صواعقِ محرقہ (۳عـہ) میں فرماتے ہیں:قول احمد ''انہ حدیث لایصح ای لذاتہ فلاینفی کونہ حسنا لغیرہ، والحسن لغیرہ یحتج بہ کمابین فی علم الحدیث ۱؎۔یعنی امام احمد کا فرمانا کہ یہ حدیث صحیح نہیں، اس کے یہ معنے ہیں کہ صحیح لذاتہ نہیں تو یہ حسن لغیرہ ہونے کی نفی نہ کریگا اور حسن اگرچہ لغیرہ ہو حجت ہے جیسا کہ علمِ حدیث میں بیان ہوچکا۔

 

عـہ۳: ذکرہ فی حدیث التوسعۃ علی العیال یوم العاشوراء فی اٰخر الفصل الاول من الباب الحادی عشر قبیل الفصل الثانی ۱۲ منہ

گیارھویں باب کی فصل اول کے آخر اور فصل ثانی سے تھوڑا پہلے عاشورا کے دن اہل وعیال پر وسعت والی حدیث میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ الصواعق المحرقہ    الفصل الاول فی الآیات الواردۃ فیہم    مطبوعہ مکتبہ مجیدیہ ملتان    ص ۱۸۵)

 

سندالحفاظ امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اذکار امام نووی کی تخریج احادیث میں فرماتے ہیں:من نفی الصحۃ لاینتفی الحسن ۲؎ اھ ملخصایعنی صحت کی نفی سے حدیث کا حسن ہونا منتفی نہیں ہوتا۔ اھ ملخصا

 

 (۲؎ نتائج الافکار فی تخریج احادیث الاذکار)

 

یہی امام نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر میں فرماتے ہیں :ھذا القسم من الحسن مشارک للصحیح فی الاحتجاج بہ وان کان دونہ ۳؎۔یعنی حدیث حسن لذاتہ اگرچہ صحیح سے کم درجہ میں ہے مگر حجت ہونے میں صحیح کی شریک ہے۔

 

 (۳؎ نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر    بحث حدیث حسن لذاتہ        مطبوعہ مطبع علیمی لاہور    ص۳۳)

 

مولٰنا علی قاری موضوعاتِ کبیر میں فرماتے ہیں:لایصح لاینافی الحسن ۴؎ اھ ملخصایعنی محدثین کا قول کہ یہ حدیث صحیح نہیں اُس کے حسن ہونے کی نفی نہیں کرتا۔ اھ ملخصا

 

 (۴؎ الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ    حدیث ۹۲۹    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت    ص ۲۳۶)

 

سیدی نورالدین علی سمہودی جواہر العقدین فی فضل الشرفین میں فرماتے ہیں:قدیکون غیر صحیح وھوصالح للاحتجاج بہ،اذالحسن رتبۃ بین الصحیح والضعیف ۵؎۔یعنی کبھی حدیث صحیح نہیں ہوتی اور باوجود اس کے وہ قابلِ حجّت ہے،اس لئے کہ حسن کا رتبہ صحیح وضعیف کے درمیان ہے۔

 

(۵؎ جواہر العقدین فی فضل الشرفین)

 

حدیث کان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ینھی ان ینتعل الرجل قائما ۶؎ (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے فرمایا نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھڑے ہوکر جوتا پہننے سے منع فرمایا۔ ت)

 

کو امام ترمذی نے جابر وانس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرکے فرمایا:کلا الحدیثین لایصح عند اھل الحدیث ۱؎۔دونوں حدیثیں محدثین کے نزدیک صحیح نہیں۔

 

 (۶؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی کراہیۃ المشی فی النعل الواحدۃ مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/۲۰۹)

(۱؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی کراہیۃ المشی فی النعل الواحدۃ    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/۲۰۹)

 

علامہ عبدالباقی زرقانی شرح مواہب میں اسے نقل کرکے فرماتے ہیں (عـہ) :نفیہ الصحۃ لاینافی انہ حسن کماعلم ۲؎۔صحت کی نفی حسن ہونے کے منافی نہیں جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے۔

 

عـہ: المقصد الثالث النوع الثانی ذکر نعلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ (م)

 

تیسرے مقصد دوسری نوع نعلِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ذکر میں اس کا بیان ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب    ذکر نعلہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم      مطبعۃ عامرہ مصر        ۵/۵۵)

 

شیخ محقق مولٰنا عبدالحق محدّث دہلوی رحمہ اللہ تعالٰی شرح صراط المستقیم میں فرماتے ہیں:حکم بعدم صحت کردن بحسب اصطلاح محدثین غرابت ندارد چہ صحت درحدیث چنانچہ درمقدمہ معلوم شددرجہ اعلٰی ست دائرہ آں تنگ ترجمیع احادیث کہ درکتب مذکور ست، حتی دریں شش کتاب کہ آنرا صحاح ستہ گویند ہم بہ اصطلاح ایشاں صحیح نیست،بلکہ تسمیہ آنہا صحاح باعتبار تغلیب ست ۳؎۔

 

اصطلاحِ محدثین میں عدمِ صحت کا ذکر غرابت کا حکم نہیں رکھتا کیونکہ حدیث کا صحیح ہونا اس کا اعلٰی ترین درجہ ہے جیسا کہ مقدمہ میں معلوم ہوچکا ہے اور اس کا دائرہ نہایت ہی تنگ ہے تمام احادیث جو کتابوں میں مذکور ہیں حتی کہ ان چھ۶ کتب میں بھی جن کو صحاح ستّہ کہا جاتا ہے۔ محدثین کی اصطلاح کے مطابق صحیح نہیں ہیں بلکہ ان کو تغلیباً صحیح کہا جاتا ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ شرح صراط المستقیم     لعبدالحق المحدث الدہلوی    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ص ۵۰۲)

 

مرقاۃ شرح مشکوٰۃمیں امام محقق علی الاطلاق سیدی کمال الحق والدین محمد بن الہمام رحمہ اللہ تعالٰی سے منقول:وقول من یقول فی حدیث انہ لم یصح ان سلم لم یقدح لانہ الحجیۃ لاتتوقف علی الصحۃ، بل الحسن کاف ۴؎۔یعنی کسی حدیث کی نسبت کہنے والے کا یہ کہنا کہ وہ صحیح نہیں اگر مان لیا جائے تو کچھ حرج نہیں ڈالتاکہ حجیت کچھ صحیح ہونے پر موقوف نہیں بلکہ حسن کافی ہے۔

 

 (۴؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ    الفصل الثانی من باب مالایجوز من العمل فی الصلاۃ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان     ۳/۱۸)

 

تو یہ بات خوب یاد رکھنے کی ہے کہ صحتِ حدیث سے انکار نفی حسن میں بھی نص نہیں جس سے قابلیت احتجاج منتفی ہو نہ کہ صالح ولائق اعتبار نہ ہونانہ کہ محض باطل وموضوع ٹھہرناجس کی طرف کسی جاہل کا بھی ذہن نہ جائیگاکہ صحیح وموضوع دونوں ابتداء وانتہاء کے کناروں پر واقع ہیں،سب سے اعلٰی صحیح اور سب سے بدتر موضوع اور وسط میں بہت اقسامِ حدیث ہیں درجہ بدرجہ،(حدیث کے مراتب اور اُن کے احکام) مرتبہ صحیح کے بعد حسن لذاتہٖ بلکہ صحیح لغیرہ پھر حسن لذاتہ، پھر حسن لغیرہ، پھر ضعیف بضعف قریب اس حد تک کہ صلاحیتِ اعتبار باقی رکھے جیسے اختلاطِ راوی یا سُوءِ حفظ یا تدلیس وغیرہا،اوّل کے تین بلکہ چاروں قسم کو ایک مذہب پر اسم ثبوت متناول ہے اور وہ سب محتج بہاہیں اور آخر کی قسم صالح،یہ متابعات وشواہد میں کام آتی ہے اور جابر سے قوّت پاکر حسن لغیرہ بلکہ صحیح لغیرہ ہوجاتی ہے،اُس وقت وہ صلاحیت احتجاج وقبول فی الاحکام کا زیور گرانبہاپہنتی ہے، ورنہ دربارہ فضائل تو آپ ہی مقبول وتنہا کافی ہے، پھر درجہ ششم میں ضعف قوی ووہن شدید ہے جیسے راوی کے فسق وغیرہ قوادح قویہ کے سبب متروک ہونا بشرطیکہ ہنوز سرحد کذب سے جُدائی ہو،یہ حدیث احکام میں احتجاج درکنار اعتبار کے بھی لائق نہیں، ہاں فضائل میں مذہب راجح پر مطلقاً اور بعض کے طور پر بعد انجبار بتعدد مخارج وتنوع طرق منصب قبول وعمل پاتی ہے،کماسَنُبَینُہ اِن شاء اللّٰہ تعالٰی (اِن شاء اللہ تعالٰی عنقریب ان کی تفصیلات آرہی ہیں۔ ت) پھر درجہ ہفتم میں مرتبہ مطروح ہے جس کا مدار وضاع کذاب یا متہم بالکذب پر ہو، یہ بدترین اقسام ہے بلکہ بعض محاورات کے رُو سے مطلقاً اور ایک اصطلاح پر اس کی نوعِ اشد یعنی جس کا مدار کذب پر ہو عین موضوع، یا نظرِ تدقیق میں یوں کہے کہ ان اطلاقات پر داخل موضوع حکمی ہے۔ان سب کے بعد درجہ موضوع کاہے،یہ بالاجماع نہ قابلِ انجبار،نہ فضائل وغیرہا کسی باب میں لائق اعتبار، بلکہ اُسے حدیث کہنا ہی توسع وتجوز ہے،حقیقۃً حدیث نہیں محض مجعول وافترا ہے، والعیاذ باللہ تبارک وتعالٰی۔ وسیرد علیک تفاصیل جل ذلک ان شاء اللّٰہ العلی الاعلٰی(اس کی روشن تفاصیل ان شاء اللہ تعالٰی آپ کے لئے بیان کی جائیں گی۔ ت)طالبِ تحقیق ان چند حرفوں کو یاد رکھے کہ باوصف وجازت محصل وملخص علم کثیر ہیں اور شاید اس تحریر نفیس کے ساتھ ان سطور کے غیر میں کم ملیں، وللّٰہ الحمد والمنۃ(سب خوبیاں اور احسان اللہ تعالٰی کیلئے ہے۔ ت)خیر بات دُور پڑتی ہے کہنا اس قدر ہے کہ جب صحیح اور موضوع کے درمیان اتنی منزلیں ہیں تو انکارِ صحت سے اثباتِ وضع ماننا زمین وآسمان کے قلابے ملانا ہے،بلکہ نفیِ صحت اگر بمعنی نفیِ ثبوت ہی لیجئے یعنی اُس فرقہ محدثین کی اصطلاح پر جس کے نزدیک ثبوت صحت وحسن دونوں کو شامل، تاہم اُس کا حاصل اس قدر ہوگا کہ صحیح وحسن نہیں نہ کہ باطل وموضوع ہے کہ حسن موضوع کے بیچ میں بھی دُور دراز میدان پڑے ہیں۔

 

میں اس واضح بات پر سندیں کیا پیش کرتامگر کیاکیجئے کہ کام اُن صاحبوں سے پڑاہے جو اغوائے عوام کے لئے دیدہ

ودانستہ محض اُمّی عامی بن جاتے اور مہر منیر کو زیردامن مکرو تزویر چھپانا چاہتے ہیں۔ لہذا کلماتِ علماء سے اس روشن مقدمہ کی تصریحیں لیجئے:

امام سندالحفّاظ وامام محقق علی الاطلاق وامام حلبی وامام مکی وعلامہ زرقانی وعلامہ سمہودی وعلامہ ہروی کی عبارات کہ ابھی مذکور ہُوئیں بحکم دلالۃ النص وفحوی الخطاب اس دعوٰی بینہ پر دلیل مبین کہ جب نفیِ صحت سے نفیِ حسن تک لازم نہیں تو اثباتِ وضع تو خیال محال سے ہمدوش وقرین۔

(حدیث کے صحیح نہ ہونے اور موضوع ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے)تاہم عبارات النص سُنئے:

 

امام بدرالدین زرکشی کتاب النکت علی ابن الصلاح پھر امام جلال الدین سیوطی لآلی مصنوعہ پھر علامہ علی بن محمد بن عراق کنانی تنزیہ الشریعۃ المرفوعہ عن الاخبار الشنیعہ الموضوعہ پھر علامہ محمد طاہر فتنی خاتمہ مجمع بحار الانوار میں فرماتے ہیں :بین قولنا لم یصح وقولنا موضوع بون کبیر، فان الوضع اثبات الکذب والاختلاق، وقولنا لم یصح لایلزم منہ اثبات العدم، وانما ھو اخبار عن عدم الثبوت، وفرق بین الامرین ۱؎۔یعنی ہم محدثین کا کسی حدیث کو کہنا کہ یہ صحیح نہیں اور موضوع کہنا ان دونوں میں بڑا بل ہے، کہ موضوع کہنا تو اسے کذب وافتراء ٹھہرانا ہے اور غیر صحیح کہنے سے نفیِ حدیث لازم نہیں،بلکہ اُس کا حاصل تو سلب ثبوت ہے،اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔

 

 (۱؎ مجمع بحارالانوار    فصل وعلومہ واصطلاحتہ    نولکشور لکھنؤ            ۳/۵۰۶)

 

یہ لفظ لآلی کے ہیں اور اسی سے مجمع میں مختصراً نقل کیا،تنزیہ میں اس کے بعد اتنا اور زیادہ فرمایا:وھذا یجیئ فی کل حدیث قال فیہ ابن الجوزی ''لایصح'' او''نحوہ'' ۲؎۔یعنی امام ابن جوزی نے کتاب موضوعات میں جس جس حدیث کو غیر صحیح یا اس کے مانند کوئی لفظ کہا ہے ان سب میں یہی تقریر جاری ہے کہ ان اوصاف کے عدم سے ثبوت وضع سمجھنا حلیہ صحت سے عاطل وعاری ہے۔

 

 (۲؎ تنزیہ الشریعۃ    کتاب التوحید فصل ثانی    دارالکتب العلمیۃ بیروت        ۱/۱۴۰)

 

امام ابنِ حجر عسقلانی القول المسددفی الذب عن مسند احمد میں فرماتے ہیں:لایلزم من کون الحدیث لم یصح ان یکون موضوعا ۳؎۔یعنی حدیث کے صحیح نہ ہونے سے موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔

 

 (۳؎ القول المسدد    الحدیث السابع    مطبوعہ دائرۃ المعارف النعمانیہ حیدرآباد دکن ہند    ص ۴۵)

 

امام سیوطی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں فرماتے ہیں:اکثر ماحکم الذھبی علی ھذا الحدیث،انہ قال متن لیس بصحیح وھذا صادق بضعفہ ۱؎۔یعنی بڑھ سے بڑھ اس حدیث پر امام ذہبی نے اتناحکم کیا یہ متن صحیح نہیں، یہ بات ضعیف ہونے سے بھی صادق ہے۔

 

 (۱؎ التعقبات علی الموضوعات    باب بدء الخلق والانبیاء     مکتبہ اشرعیہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۴۹)

 

علی قاری موضوعات میں زیر بیان احادیث نقل فرماتے ہیں :لایلزم عن عدم الصحۃ وجود الوضع کمالایخفی ۲؎۔یعنی کھلی ہُوئی بات ہے کہ حدیث کے صحیح نہ ہونے سے موضوع ہونا لازم نہیں آتا،

 

 (۲؎ موضوعات ملا علی قاری    بیان احادیث العقل حدیث ۱۲۲۳    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت    ص ۳۱۸)

 

اسی میں روزِ عاشورا سُرمہ لگانے کی حدیث پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی کا حکم ''لایصح ھذا الحدیث''(یہ حدیث صحیح نہیں۔ ت) نقل کرکے فرماتے ہیں :قلت لایلزم من عدم صحتہ ثبوت وضعہ وغایتہ انہ ضعیف ۳؎۔یعنی میں کہتا ہوں اس کے صحیح نہ ہونے سے موضوع ہونا لازم نہیں، غایت یہ کہ ضعیف ہو۔

 

 (۳؎ موضوعات ملاعلی قاری    بیان احادیث الاکتحال یوم عاشورا الخ    حدیث ۱۲۹۸ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت    ص ۳۴۱)

 

علامہ طاہر صاحبِ مجمع تذکرۃ الموضوعات میں امام سند الحفاظ عسقلانی سے ناقل:ان لفظ ''لایثبت'' لایثبت الوضع فان الثابت یشمل الصحیح فقط، والضعیف دونہ ۴؎۔یعنی کسی حدیث کو بے ثبوت کہنے سے اس کی موضوعیت ثابت نہیں ہوتی کہ ثابت تو وہی حدیث ہے جو صحیح ہو اور ضعیف کا درجہ اس سے کم ہے۔

 

 (۴؎ مجمع تذکرۃ الموضوعات    الباب الثانی فی اقسام الواضعین    کتب خانہ مجیدیہ ملتان    ص ۷)

 

بلکہ مولٰنا علی قاری آخر موضوعات کبیر میں حدیث البطیخ قبل الطعام یغسل البطن غسلا ویذھب بالداء اصلا(کھانے سے پہلے تربوز کھانا پیٹ کو خُوب دھودیتا ہے اور بیماری کو جڑ سے ختم کردیتا ہے۔ ت)کی نسبت قولِ امام ابن عساکر ''شاذلایصح''(یہ شاذ ہے صحیح نہیں۔ ت)نقل کرکے فرماتے ہیں:ھو یفیدانہ غیر موضوع کمالایخفی ۵؎۔یعنی اُن کا یہ کہنا ہی بتارہا ہے کہ حدیث موضوع نہیں جیسا کہ خود ظاہر ہے۔

یعنی موضوع جانتے تو باطل یا کذب یا موضوع یا مفتری یا مختلق کہتے نفیِ صحت پر کیوں اقتصار کرتے ، فافہم واللہ تعالٰی اعلم۔

 

 (۵؎ موضوعات ملاعلی قاری    حدیث البطیخ قبل الطعام حدیث ۱۳۳۳    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت   ص ۳۵۰)

 

تنبیہ: بحمداللہ تعالٰی یہاں سے ان متکلمین طائفۃ منکرین کا جہل شنیع وزور فظیع بوضوع تام طشت ازبام ہوگیا جو کلمات علمامثل مقاصد حسنہ ومجمع البحار وتذکرۃ الموضوعات ومختصر المقاصد وغیرہا سے احادیث تقبیلِ ابہامین کی نفی صحت نقل کرکے بے دھڑک دعوٰی کردیتے ہیں کہ اُن کے کلام سے بخوبی ثابت ہواکہ جو احادیث انگوٹھے چُومنے میں لائی جاتی ہیں سب موضوع ہیں اور یہ فعل ممنوع وغیر مشروع ہے، سبحان اللہ کہاں نفیِ صحت کہاں حکمِ وضع،کیا مزہ کی بات ہے کہ جہاں درجات متعددہ ہوں وہاں سب میں اعلٰی کی نفی سے سب میں ادنٰی کا ثبوت ہوجائیگا،مثلاً زیدکوکہیے کہ بادشاہ نہیں تو اُس کے معنی یہ ٹھہریں کہ نانِ شبینہ کو محتاج ہے،یا متکلمینِ طائفہ کو کہئے کہ اولیا نہیں تو اس کا مطلب یہ قرار پائے کہ سب کافر ہیں ولکن الوھابیۃ قوم یجھلون۔

 

افادہ دوم : (جہالتِ راوی سے حدیث پر کیا اثر پڑتا ہے)کسی حدیث کی سند میں راوی کا مجہول ہونا اگر اثر کرتا ہے تو صرف اس قدر کہ اُسے ضعیف کہاجائے نہ کہ باطل وموضوع بلکہ علما کو اس میں اختلاف ہے کہ جہالت قادح صحت ومانع حجیت بھی ہے یا نہیں تفصیل مقام یہ کہ (مجہول کی اقسام اور ان کے احکام)مجہول کی تین قسمیں ہیں:

اول مستور،جس کی عدالت ظاہری معلوم اور باطنی کی تحقیق نہیں،اس قسم کے راوی صحیح مسلم شریف میں بکثرت ہیں۔

 

دوم مجہول العین، جس سے صرف ایک ہی شخص نے روایت کی ہو۔وھذا علی نزاع فیہ،فان من العلماء من نفی الجھالۃ بروایۃ واحد معتمد مطلقا اواذاکان لایروی الاعن عدل عندہ،کیحیی بن سعید القطان وعبدالرحمن بن مھدی والامام احمد فی مسندہ،وھناک اقوال اٰخر۔اس قسم میں نزاع ہے بعض محدثین نے مطلقاً صرف ایک ثقہ راوی کی وجہ سے جہالت کی نفی کی ہے یا اس شرط کے ساتھ نفی کی ہے کہ وہ اس سے روایت کرتا ہے جو اس کے ہاں عادل ہے مثلاً یحیٰی بن سعید بن القطان،عبدالرحمن بن مہدی اور امام احمداپنی مسند میں اور یہاں دیگر اقوال بھی ہیں۔ (ت)

 

سومجہول الحال، جس کی عدالت ظاہری وباطنی کچھ ثابت نہیںوقدیطلق علی مایشمل المستور (کبھی اس کا اطلاق ایسے معنی پر ہوتا ہے جو مستور کو شامل ہوجائے۔ ت)

 

قسم اوّل یعنی مستور تو جمہور محققین کے نزدیک مقبول ہے، یہی مذہب امام الائمہ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کاہے، فتح المغیث میں ہے:قبلہ ابوحنیفۃ خلافا للشافعی ۱؎(امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اسے قبول کرتے ہیں امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس میں اختلاف رکھتے ہیں ۔ ت)

 

 (۱؎ فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث    معرفۃ من تقبل روایتہ ومن ترد    دارالامام الطبری بیروت    ۲/۵۲)

 

امام نووی فرماتے ہیں یہی صحیح ہے۔ قالہ فی شرح المھذب،ذکرہ فی التدریب،وکذلک مال الی اختیارہ الامام ابوعمروبن الصلاح فی مقدمتہ، حیث قال فی المسئلۃ الثامنۃ من النوع الثالث والعشرین ویشبہ ان یکون العمل علی ھذا الرأی فی کثیر من کتب الحدیث المشھورۃ فی غیر واحد  من الرواۃ الذین تقادم العھد بھم وتعذرت الخبرۃ الباطنۃ بھم ۱؎۔یہ شرح المہذب میں ہے، تدریب میں بھی اسے ذکر کیا،امام ابوعمروبن الصلاح نے اپنے مقدمہ میں اسے ہی اختیار فرمایا،انہوں نے تیسویں۳۰ نوع کے آٹھویں مسئلہ میں کہاہے اس رائے پر متعدد ومشہور کتب میں عمل ہے جن میں بہت سے ایسے راویوں سے روایات لی گئی ہیں جن کا عہد بہت پُرانا ہے اور ان کی باطن کے معاملات سے آگاہی دشوار ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ مقدمہ ابن الصلاح    النوع الثالث والعشرون    مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان    ص ۱۵۳)

 

اور دو۲ قسم باقی کو بعض اکابر حجّت جانتے جمہور مورثِ ضعف مانتے ہیں۔ امام زین الدین عراقی الفیہ میں فرماتے ہیں:

 

واختلفوا ھل یقبل المجھول        وھو علی ثلثۃ مجعول

مجھول عین من لہ راو فقط        وردّہ الاکثر والقسم الوسط

مجھول حال باطن وظاھر        وحکمہ الردلدی الجماھر

الثالث المجھول للعدالۃ        فی باطن فقط فقدرأی لہ

حجیۃ بعض من منع            ماقبلہ منھم سلیم (عـہ) فقطع ۲؎

 

 (مجہول کے بارے میں علماءِ حدیث کا اختلاف ہے کہ آیا اسے قبول کیا جائیگا یا نہیں؟اس کی تین۳ اقسام ہیں، مجہول العین جس کو صرف ایک شخص نے روایت کیا ہو، اسے اکثر نے رَد کردیا ہے۔اور دوسری قسم وہ مجہول ہے جس کے راوی کی ظاہری اور باطنی عدالت دونوں ثابت نہ ہوں اسے جمہور نے رَد کردیا ہے تیسری قسم وہ مجہول ہے جس میں راوی کی صرف باطنی عدالت ثابت نہ ہو،اسے بعض نے رَد کیاہے اور بعض نے قبول کیاہے اور قبول کرنے والوں میں امام سلیم ہیں تو انہوں نے قطعی قبول کیا ہے۔ ت)

 

عـہ: ای للامام سلیم بالتصغیر ابن ایوب الرازی الشافعی فانہ قطع بقبولہ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ (م)

اس سے مراد امام سلیم (تصغیر) ابن ایوب رازی شافعی ہیں ان کے نزدیک ایسی روایت کو قطعاً قبول کیا جائیگا ۱۲ منہ  

رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۲؎ الفیہ فی اصول الحدیث مع فتح المغیث معرفۃ من تقبل روایتہ ومن ترد دارالامام الطبری بیروت    ۲/۴۳)

 

اسی طرح تقریب النواوی وتدریب الراوی وغیرہما میں ہے بلکہ امام نووی نے مجہول العین کا قبول بھی بہت محققین کی طرف نسبت فرمایامقدمہ منہاج میں فرماتے ہیں:المجھول اقسام مجھول العدالۃ ظاھراً وباطنا،ومجھولھاباطنامع وجودھاظاھراوھو المستور،ومجھول العین،فاما الاول فالجمھورعلی انہ لایحتج بہ، وامّا الاخران فاحتج بھما کثیرون من المحققین ۱؎۔مجہول کی کئی اقسام ہیں،ایک یہ کہ راوی کی عدالت ظاہر وباطن میں غیر ثابت ہو، دُوسری قسم عدالت باطناً مجہول مگر ظاہراً معلوم ہو، اور یہ مستور ہے، اور تیسری قسم مجہول العین ہے، پہلی قسم کے بارے میں جمہور کا اتفاق ہے کہ یہ قابلِ قبول نہیں اور دوسری دونوں اقسام سے اکثر محققین استدلال کرتے ہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ مقدمہ للامام النووی من شرح صحیح مسلم    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ص۱۷)

 

بلکہ امام اجل عارف باللہ سیدی ابوطالب مکّی قدس سرّہ الملکی اسی کو فقہائے کرام واولیائے عظام قدست اسرارہم کا مذہب قرار دیتے ہیں،کتاب مستطاب جلیل القدر عظیم الفخر قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب کی فصل ۳۱ میں فرماتے ہیں :بعض مایضعف بہ رواۃ الحدیث وتعلل بہ احادیثھم، لایکون تعلیلا ولاجرحاً عند الفقہاء ولاعند العلماء باللّٰہ تعالٰی مثل ان یکون الراوی مجھولا،لایثارہ الخمول وقدندب الیہ، اولقلۃ الاتباع لہ اذلم یقم لھم الاثرۃ عنہ ۲؎۔یعنی بعض وہ باتیں جن کے سبب راویوں کو ضعیف اور ان کی حدیثوں کو غیر صحیح کہہ دیا جاتاہے، فقہاء وعلماء کے نزدیک باعثِ ضعف وجرح نہیں ہوتیں،جیسے راوی کا مجہول ہونااس لئے کہ اس نے گمنامی پسندکی کہ خود شرع مطہر نے اس کی ترغیب فرمائی یا اُس کے شاگرد کم ہُوئے کہ لوگوں کو اس سے روایت کا اتفاق نہ ہوا۔

 

 (۲؎ قوت القلوب    فصل الحادی والثلاثون باب تفضیل الاخبار    مطبوعہ دارصادر بیروت    ۱/۱۷۷)

 

بہرحال نزاع اس میں ہے کہ جہالت سرے سے وجوہِ طعن سے بھی ہے یا نہیں، یہ کوئی نہیں کہتاکہ جس حدیث کا راوی مجہول ہو خواہی نخواہی باطل ومجعول ہو، بعض متشددین نے اگر دعوے سے قاصر دلیل ذکر بھی کی علماء نے فوراً ردوابطال فرمادیاکہ جہالت کو وضع سے کیا علاقہ، مولانا علی قاری رسالہ فضائل نصف شعبان فرماتے ہیں:

 

جھالۃ بعض الرواۃ لاتقتضی کون الحدیث موضوعاً وکذا نکارہ الالفاظ، فینبغی ان یحکم علیہ بانہ ضعیف، ثم یعمل بالضعیف فی فضائل الاعمال ۱؎۔

 

یعنی بعض راویوں کا مجہول یا الفاظ کا بے قاعدہ ہونا یہ نہیں چاہتا کہ حدیث موضوع ہو، ہاں ضعیف کہو، پھر فضائل اعمال میں ضعیف پر عمل کیاجاتا ہے۔

 

(۱؎ رسالہ فضائل نصف شعبان)

 

مرقاۃ شرح(عـہ۱)مشکوٰۃ میں امام ابن حجر مکّی سے نقل فرمایا:فیہ راومجھول،ولایضر لانہ من احادیث الفضائل ۲؎ (اس میں ایک راوی مجہول ہے اور کچھ نقصان نہیں کہ یہ حدیث تو فضائل کی ہے)

 

عـہ۱:  ذکرہ فی باب فضل الاذان واجابۃ المؤذن آخر الفصل الثانی ۱۲ منہ (م)

فضیلتِ اذان اور جوابِ اذان کے باب کی فصل ثانی کے آخر میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ    باب الاذان فصل ثانی    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان    ۲/۱۷۱)

 

موضوعات کبیر میں استاذ المحدثین امام زین الدین عراقی سے نقل فرمایا:انہ (عـہ۲) لیس بموضوع وفی سندہ مجھول ۳؎ (یہ موضوع نہیں اس کی سند میں ایک راوی مجہول ہے)

 

عـہ۲: یرید حدیث عالم قریش یملؤ الارض علما ۱۲ منہ (م)

حدیث ''قریش کا ایک عالم زمین کو علم کی دولت سے بھر دیگا'' کے تحت اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۳؎ الاسرار المرفوعۃ فی اخبار الموضوعۃ    حدیث ۶۰۱ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان    ص ۱۵۷)

 

امام بدر الدین زرکشی پھر امام محقق جلال الدین سیوطی لآلی مصنوعہ میں فرماتے ہیں:لوثبتت (عـہ۳) جھالتہ لم یلزم ان یکون الحدیث موضوعامالم یکن فی اسنادہ من یتھم بالوضع ۴؎۔یعنی روی کی جہالت ثابت بھی ہوتو حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں جب تک اس کی سند میں کوئی راوی وضع حدیث سے متہم نہ ہو۔

 

 (۴؎ لآلی مصنوعہ        صلوٰۃ التسبیح        مطبوعہ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۲/۴۴)

 

عـہ۳: قالہ فی حدیث ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما فی صلاۃ التسبیح لکن اھملہ ابوالفرج بجھالۃ موسٰی بن عبدالعزیز ۱۲ منہ۔ (م)

صلوٰۃ التسبیح کے بارے میں حضرت عبداللہ ابنِ عباس کی حدیث میں اس کو ذکر کیاہے لیکن ابوالفرج نے موسٰی بن عبدالعزیز کی جہالت کی بنا پر اس کو چھوڑدیا ہے۔ (ت)

 

یہی دونوں امام تخریج احادیث رافعی ولآلی میں فرماتے ہیں:لایلزم (عـہ۱) من الجھل بحال الراوی ان یکون الحدیث موضوعا ۱؎۔راوی کے مجہول الحال ہونے سے حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔

 

عـہ۱: قالاہ فی حدیث وعبدتارک الحج فلیمت ان شاء یھودیا اونصرانیا ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ

ایسا بندہ جو حج کو ترک کرنے والا ہو اگر وہ چاہے تو یہودی یا نصرانی مرجائے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۱؎ لآلی مصنوعہ    صلوٰۃ التسبیح            مطبوعۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۲/۱۱۸)

 

امام ابوالفرج ابن الجوزی نے اپنی کتاب موضوعات میں حدیث من قرض بیت شعر بعد العشاء الاٰخرۃ لم تقبل لہ صلاۃ تلک اللیلۃ ۲؎ (جس نے آخری عشاء کے بعد کوئی (لغو) شعر کہا اس کی اس رات کی نماز قبول نہ ہوگی۔ ت) کی یہ علت بیان کی کہ اس میں ایک راوی مجہول اور دوسرا مضطرب کثیر الخطا ہے،

 

اس پر شیخ الحفاظ امام ابن حجر عسقلانی نے القول المسددفی الذب عن مسند احمد پھر امام سیوطی نے لآلی وتعقبات میں فرمایا:لیس فی شیئ مماذکرہ ابوالفرج مایقتضی الوضع ۳؎۔یہ علتیں جو ابوالفرج نے ذکر کیں ان میں ایک بھی موضوعیت کی مقتضی نہیں۔

 

 (۲؎ کتاب الموضوعات    فی حدیث انشاء الشعر بعد العشاء    مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۱/۲۶۱)

(۳؎ القول المسدد    الحدیث الثانی    مطبوعہ دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد دکن ہند    ص ۳۶)

 

امام ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں حدیثِ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فی تزویج فاطمۃ من علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما کی نسبت فرماتے ہیں:کونہ کذبا فیہ نظر، وانما ھو غریب فی سندہ مجھول ۴؎۔اس کا کذب ہونا مسلّم نہیں،ہاں غریب ہے اور راوی مجہول۔

 

 (۴؎ الصواعق المحرقہ    الباب الحادی عشر    مطبوعہ مکتبہ مجیدیہ ملتان        ص ۱۴۳)

 

علامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں (عـہ۲) : قال السھیلی فی اسنادہ (عـہ۱) مجاھیل وھو یفید ضعفہ فقط، وقال ابن کثیر منکرجدا وسندہ مجھول وھو ایضا صریح فی انہ ضعیف فقط،فالمنکر من قسم الضعیف، ولذا قال السیوطی بعدمااورد قول ابن عساکر ''منکر'' ھذا حجۃ لماقلتہ من انہ ضعیف، لاموضوع، لان المنکر من قسم الضعیف،وبینہ وبین الموضوع فرق معروف فی الفن،فالمنکر ما انفرد بہ الراوی الضعیف مخالفالرواتہ الثقات فان انتفت کان ضعیفا وھی مرتبۃ فوق المنکر اصلح حالامنہ ۱؎ اھ ملخصاامام سہیلی کہتے ہیں کہ اس کی سند میں مجہول راوی ہیں جو اس کے فقط ضعف پر دال ہیں۔ ابن کثیر نے کہا کہ بہت زیادہ منکر ہے اور اس کی سند مجہول ہے اور یہ بھی اس بات کی تصریح ہے کہ یہ فقط ضعیف ہے، کیونکہ منکر ضعف کی اقسام میں سے ہے،اسی لئے امام سیوطی نے ابنِ عساکر کے قول ''یہ منکر ہے'' وارد کرنے کے بعد فرمایا یہ میرے اس قول ''یہ ضعیف ہے'' کی دلیل ہے موضوع ہونے کی نہیں کیونکہ منکر ضعیف کی قسم ہے اس کے بعد اور حدیث موضوع کے درمیان فنِ اصول حدیث میں فرق واضح اور مشہور ہے منکر اس روایت کو کہتے ہیں جس کا راوی ضعیف ہو اور روایت کرنے میں منفرد اور ثقہ راویوں کے خلاف ہویہ کمزوری اگر منتفی ہوجائے تو صرف ضعیف ہوگی اور اس کا مرتبہ منکر سے اعلٰی ہے اور اس سے حال کے لحاظ سے بہتر ہے اھ ملخصا (ت)

 

عـہ۲: باب وفاۃ امہ ومایتعلق بابویہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ

باب وفاۃ امہ ومایتعلق بابویہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

عـہ۱: یعنی حدیث احیاء الابوین الکریمین حتی اٰمنا بہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ (م)

یعنی وہ حدیث جس میں ہے کہ حضور کے والدین کریمین زندہ ہوکر آپ کی ذات پر ایمان لائے یہ اس حدیث کے تحت مذکور ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب باب وفات امّہ ومایتعلق بابویہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر      ۱/۱۹۶)

 

خلاصہ یہ کہ سند میں متعدد مجہولوں کا ہونا حدیث میں صرف ضعف کا مورث ہے اور صرف ضعیف کا مرتبہ حدیث منکر سے احسن واعلٰی ہے جسے ضعیف راوی نے ثقہ راویوں کے خلاف روایت کیاہو، پھر وہ بھی موضوع نہیں، تو فقط ضعیف کو موضوعیت سے کیا علاقہ،امام جلیل جلال الدین سیوطی نے ان مطالب کی تصریح فرمائی واللہ تعالٰی اعلم۔

 

 

افادہ سوم : (حدیث منقطع کا حکم) اسی طرح سند کا منقطع ہونا مستلزمِ وضع نہیں،ہمارے ائمہ کرام اور جمہور علماء کے نزدیک تو انقطاع سے صحت وحجیت ہی میں کچھ خلل نہیں آتا۔  امام محقق کمال الدین محمد بن الہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں :ضعف بالانقطاع وھو عندنا کالارسال (عـہ۲) بعدعدالۃ الرواۃ وثقتھم لایضر ۱؎۔اسے انقطاع کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے جو کہ نقصان دہ نہیں کیونکہ راویوں کے عادل وثقہ ہونے کے بعد منقطع ہمارے نزدیک مرسل کی طرح ہی ہے۔ (ت)

 

عـہ۲: قولہ کالا رسال ای علی تفسیر وھو منہ علی اٰخر وھو علی اطلاق ۱۲ منہ (م)

قولہ کالارسال یعنی ایک تفسیر پر اور وہ یہ ہے کہ سند کے آخر سے راوی ساقط ہو اور وہ ارسال انقطاع علی الاطلاق ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ فتح القدیر  کتاب الطہارۃ  مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھّر    ۱/۱۹)

 

امام ابن امیرالحاج حلیہ (عـہ۱) میں فرماتے ہیں: لایضر ذلک فان المنقطع کالمرسل فی قبولہ من الثقات ۲؎۔یہ بات نقصان نہیں دیتی کیونکہ منقطع قبولیت میں مرسل کی طرح ہے جبکہ ثقہ سے مروی ہو۔ (ت)

 

عـہ۱:  اول صفۃ الصلاۃ فی الکلام علی زیادۃ وجل ثناؤک فی الثناء ۱۲ منہ (م)

صفۃ الصلوٰۃ کی ابتدا میں جہاں ثناء میں ''وجل ثناء ک'' کے الفاظ کے اضافہ میں کلام ہے وہاں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ

(ت)

 

 (۲؎ حلیۃ المحلی)

 

مولانا علی قاری مرقاۃ (عـہ۲) میں فرماتے ہیں:قال ابوداود ھذا مرسل ای نوع مرسل وھو المنقطع لکن المرسل حجۃ عندنا وعند الجمھور ۳؎۔ابوداؤد فرماتے ہیں کہ یہ مرسل یعنی مرسل کی قسم منقطع ہے لیکن مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک حجت ہے۔ (ت)

 

عـہ۲:  تحت حدیث ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یقبل بعض ازواجہ ثم یصلی ولایتوضأ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ (م)

اس کا ذکر المومنین کی اس حدیث کے تحت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی بعض ازواجِ مطہرات سے تقبیل فرماتے تو وضو کے بغیر یونہی نماز پڑھ لیتے تھے۔ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۳؎ مرقات شرح مشکوٰۃ    الفصل الثانی من باب یوجب الوضؤ    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۱/۳۴۳)

 

اور جو اُسے قادح جانتے ہیں وہ بھی صرف مورثِ ضعف مانتے ہیں نہ کہ مستلزم موضوعیت، مرقاۃ شریف میں امام ابن حجر مکی سے منقول:لایضر(عـہ۳) ذلک فی الاستدلال بہ ھھنا لان المنقطع یعمل بہ فی الفضائل اجماعا ۱؎۔یعنی یہ امر یہاں کچھ استدلال کو مضر نہیں کہ منقطع پر فضائل میں تو بالاجماع عمل کیا جاتا ہے۔

 

عـہ۳: تحت حدیث اذارکع احدکم فقال فی رکوعہ سبحان ربی العظیم ثلٰث مرات فقدتم رکوعہ قال الترمذی لیس اسنادہ بمتصل فقال ابن حجر ھو لایضر ذلک ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

اس حدیث کے تحت اس کا ذکر ہے کہ جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو وہ رکوع میں تین دفعہ ''سبحان ربی العظیم پڑھے اس طرح اس کا رکوع مکمل ہوجائیگا۔ ترمذی نے کہا اس کی سند متصل نہیں تو حافظ ابن حجر نےکہایہ نقصان دہ نہیں ۱۲منہ (ت)

 

(۱؂مرقات شرح مشکوٰۃ    الفصل الثانی من باب الرکوع    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان    ۲/۳۱۵)

 

افادہ چہارم : (حدیث مضطرب بلکہ منکر بلکہ مدرج بھی موضوع نہیں)انقطاع تو ایک امر سہل ہے جسے صرف بعض نے طعن جانا، علماء فرماتے ہیں: حدیث کا مضطرب بلکہ منکر ہونا بھی موضوعیت سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا،یہاں تک کہ دربارہ فضائل مقبول رہے گی۔بلکہ فرمایاکہ مدرج بھی موضوع سے جُدا قسم ہے، حالانکہ اُس میں تو کلام غیر کا خلط ہوتا ہے۔

 

تعقبات (عـہ۱) میں ہے : المضطرب من قسم الضعیف لاالموضوع ۲؎۔مضطرب، حدیث ضعیف کی قسم ہے موضوع نہیں۔ (ت)

 

عـہ۱: ذکرہ فی اٰخر باب الجنائز ۱۲ منہ (م)

باب الجنائز کے آخر میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الجنائز    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۶۲)

 

اُسی (عـہ۲) میں ہے: المنکر نوع اٰخر غیر الموضوع وھو من قسم الضعیف ۳؎۔منکر، موضوع کے علاوہ ایک دوسری نوع ہے جو کہ ضعیف کی ایک قسم ہے۔ (ت)

 

عـہ۲:  اول باب الاطمعۃ ۱۲ منہ (م)   باب الاطمعہ کے شروع میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۳؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الاطعمہ    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۳۰)

 

اُسی (عـہ۳) میں ہے : صرح ابن عدی بان الحدیث منکر فلیس بموضوع ۴؎۔ابنِ عدی نے تصریح کی ہے کہ حدیث منکر، موضوع نہیں ہوتی۔ (ت)

 

عـہ۳:  اول باب البعث ۱۲ منہ (م)   باب البعث کے شروع میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۴؎التعقبات علی الموضوعات     باب البعث     مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۵۱)

 

اُسی (عـہ۴) میں ہے : المنکر من قسم الضعیف وھو محتمل فی الفضائل ۵؎۔منکر، ضعیف کی قسم ہے اور یہ فضائل میں قابلِ استدلال ہے۔ (ت)

 

 (عـہ۴) قالہ فی اواخر الکتاب تحت حدیث فضل قزوین ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

 

 (۵؎ التعقبات علی الموضوعات     باب المناقب    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۶۰)

 

اُسی (عـہ۱) میں ہے :

رأیت الذھبی قال فی تاریخہ ''ھذا حدیث منکر لایعرف الاببشر وھو ضعیف انتھی'' فعلم انہ ضعیف لاموضوع ۱؎۔میں نے پڑھا ہے امام ذہبی نے اپنی تاریخ میں کہاکہ یہ حدیث منکر ہے، یہ بشر ضعیف کے علاوہ معروف نہیں انتہی،

 پس معلوم ہوا کہ یہ ضعیف ہے موضوع نہیں۔ (ت)

 

عـہ۱:  ذکرہ فی آخر باب التوحید ۱۲ منہ (م)    باب التوحید کے آخر میں اس کو ذکر کیا ہے۔

 

 (۱؎ التعقبات علی الموضوعات    باب التوحید    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۴)

 

اُسی (عـہ۲) میں ہے : حدیث ابی امامۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ''علیکم بلباس الصوف تجدواحلاوۃ الایمان فی قلوبکم'' علیکم الحدیث بطولہ، فیہ الکدیمی وضاع قلت، قالت البھیقی فی الشعب ''ھذہ الجملۃ من الحدیث معروفۃ من غیر ھذا الطریق، وزاد الکدیمی فیہ زیادۃ منکرۃ، ویشبہ ان یکون من کلام بعض الرواۃ فالحق بالحدیث انتھٰی، والجملۃ معروفۃ اخرجھا الحکم فی المستدرک والحدیث المطول من قسم المدرج لاالموضوع ۲؎۔

 

حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت میں ہے کہ تم صوف کا لباس پہنو اس سے تمہارے دلوں کو حلاوتِ ایمان نصیب ہوگی(طویل حدیث)اس میں کدیمی راوی حدیث گھڑنے والا ہے،میں کہتا ہوں کہ امام بیہقی نے شعب الایمان میں کہا ہے حدیث کا یہ حصہ اس سند کے علاوہ سے معروف ہے اور کدیمی نے اس میں ایسی زیادتی کی ہے جو منکر ہے اور ممکن ہے کہ یہ کسی راوی کاکلام ہو اور انہوں نے اسے حدیث کاحصہ بنادیاہو انتہی، اور اس جملہ معروفہ کی امام حاکم نے مستدرک میں تخریج کی ہے اور یہ طویل حدیث مدرج ہے موضوع نہیں۔ (ت)

 

عـہ۲: اول باب اللباس ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)   باب اللباس کے شروع میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ التعقبات علی الموضوعات      باب اللباس   مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ص ۳۳)

 

افادہ پنجم: (جس حدیث میں راوی بالکل مبہم ہو وہ بھی موضوع نہیں)خیر جہالت راوی کا تو یہ حاصل تھا کہ شاگرد ایک یا عدالت مشکوک شخص تو معین تھا کہ فلاں ہے، مبہم میں تو اتنا بھی نہیں، جیسے حدثنی رجل(مجھ سے ایک شخص نے حدیث بیان کی) یا بعض اصحابنا (ایک رفیق نے خبر دی) پھر یہ بھی صرف مورثِ ضعف ہے نہ کہ موجبِ وضع۔

 

امام الشان علامہ ابنِ حجر عسقلانی رسالہ قوۃ الحجّاج فی عموم المغفرۃ للحجّاج پھر خاتم الحفاظ لآلی میں فرماتے ہیں:

 

لایستحق الحدیث ان یوصف بالوضع بمجرد ان روایہ لم یسم ۱؎۔صرف راوی کا نام معلوم نہ ہونے کی وجہ سے حدیث موضوع کہنے کی مستحق نہیں ہوجاتی۔ (ت)

 

 (۱؎ اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ    کتاب اللباس    مطبعۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۲/۲۶۴)

 

 (تعددِ طرق سے مبہم کا جبر نقصان ہوتا ہے) ولہذا تصریح فرمائی کہ حدیث مبہم کا طرق دیگر سے جبر نقصان ہوجاتا ہے،تعقبات میں زیر حدیثاطلبوا الخیر عندحسان الوجوہ(حسین چہرے والوں سے بھلائی طلب کرو۔ ت)کہ عقیلی نے بطریق یزید بن ھارون قال انبأنا شیخ من قریش عن الزھری عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا روایت کی، فرمایا:اوردہ (یعنی اباالفرج) من حدیث عائشۃ من طرق، فی الاول رجل لم یسم، وفی الثانی عبدالرحمٰن بن ابی بکر الملیکی متروک، وفی الثالث الحکم بن عبداللّٰہ الایلی احادیثہ موضوعۃ،قلت عبدالرحمٰن لم یتھم بکذب، ثمّ انہ ینفردبہ بل تابعہ اسمٰعیل بن عیاش وکلاھما یجبران ابھام الذی فی الطریق الاول ۲؎ اھ مختصرا۔اسے اس(یعنی ابوالفرج)نے حدیثِ عائشہ سے مختلف سندوں سے روایت کیاہے، پہلی سند میں مجہول شخص ہے (نامعلوم)اور دوسری میںعبدالرحمن بن ابی بکر الملیکی متروک راوی ہے، تیسری میں حکم بن عبداللہ الایلی ہے جس کی احادیث موضوع ہیں،میں کہتا ہوں کہ عبدالرحمن متہم بالکذب نہیں، پھر وہ اس میں منفرد بھی نہیں بلکہ اسمٰعیل بن عیاش نے اس کی متابعت کی ہے اور ان دونوں نے اس ابہام کی کمی کا ازالہ کردیا جو سند اول میں تھا اھ مختصراً۔ (ت)

 

 (۲؎ التعقبات علی الموضوعات        باب الادب والرقایق    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۳۵)

 

 (حدیث مبہم دوسری حدیث کی مقوی ہوسکتی ہے) بلکہ وہ خود حدیثِ دیگر کو قوّت دینے کی لیاقت رکھتی ہے استاذ الحفّاظ قوۃ الحجاج پھر خاتم الحفاظ تعقبات (عــہ) میں فرماتے ہیں:

 

عـہ۱:باب الحج حدیث دعالامتہ عشیۃ عرفۃ بالمغفرۃ ۱۲ منہ (م)

یہ باب الحج کی اس حدیث کے تحت ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم نے عرفہ کی شام امت کے لئے بخشش کی دعا مانگی ہے۔ (ت)

 

رجالہ ثقات الا ان فیہ مبھما لم یسم فان کان ثقۃ فھو علی شرط الصحیح، وان کان ضعیفا فھو عاضد للمسند المذکور ۱؎۔اس کے رجال ثقہ ہیں مگر اس میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام معلوم نہیں ہے پس اگر وہ ثقہ ہے تو یہ صحیح کے شرائط پر ہے اور اگر وہ ثقہ نہیں تو ضعیف ہے مگر سندِ مذکور کو تقویت دینے والی ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ التعقبات علی الموضوعات        باب الحج    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ     ص ۲۴)

 

افادہ ششم: (ضعفِ راویان کے باعث حدیث کو موضوع کہہ دینا ظلم وجزاف ہے) بھلا جہالت وابہام تو عدمِ علم عدالت ہے اور بداہت عقل شاہد کہ علم عدم، عدم علم سے زائد، مجہول ومبہم کا کیا معلوم، شاید فی نفسہٖ ثقہ ہوکمامر اٰنفا عن الامامین الحافظین (جیسا کہ ابھی دوحافظ ائمہ کے حوالے سے گزرا ہے۔ ت) اور جس پر جرح ثابت، احتمال ساقط۔ ولہذا محدثین دربارہ مجہول رَد وقبول میں مختلف اور ثابت الجرح کے رَد پر متفق ہُوئے۔ امام نووی مقدمہ منہاج میں ابوعلی غسانی جیانی سے ناقل:

 

الناقلون سبع طبقات، ثلٰث مقبولۃ، وثلٰث متروکۃ والسابعۃ مختلف فیہا(الی قولہ)السابعۃ قوم مجھولون انفردوا بروایات، لم یتابعوا علیھا، فقبلھم قوم، ووقفھم اٰخرون ۲؎۔

 

ناقلین کے سات۷ درجات ہیں، تین۳ مقبول، تین۳ متروک، اور ساتواں مختلف فیہ ہے (اس قول تک) ساتواں طبقہ وہ لوگ ہیں جو مجہول ہیں اور روایات کرلینے میں منفرد ہیں، ان کی متابعت کسی نے نہیں کی، بعض نے انہیں قبول کیا ہے اور بعض نے ان کے بارے میں توقف سے کام لیا ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ مقدمہ منہاج للنووی من شرح صحیح مسلم    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ص ۱۷)

 

پھر علماء کی تصریح ہے کہ مجرد ضعف رواۃ کے سبب حدیث کو موضوع کہہ دینا ظلم وجزاف ہے، حافظ سیف الدین احمد بن ابی المجد پھر قدوۃ الفن شمس ذہبی اپنی تاریخ پھر خاتم الحفاظ تعقبات (عــہ) ولآلی وتدریب میں فرماتے ہیں:

 

صنف ابن الجوزی کتاب الموضوعات فاصاب فی ذکر(ہ) احادیث(شنیعۃ) مخالفۃ للنقل والعقل، (وما)ومما لم یصب فیہ اطلاقہ الوضع علی احادیث بکلام بعض الناس فی رواتھا، کقولہ فلان ضعیف اولیس بالقوی اولین ولیس ذلک الحدیث ممایشھد القلب ببطلانہ ولافیہ مخالفۃ ولامعارضۃ لکتاب ولاسنۃ ولااجماع ولاحجۃ بانہ موضوع سوی کلام ذلک الرجل فی رواتہ(راویہ) وھذا عدوان ومجازفۃ ۱؎ (انتھی)

 

ابن جوزی نے کتاب الموضوعات لکھی تو اس میں انہوں نے ایسی روایات کی نشان دہی کرکے بہت ہی اچھا کیا جو عقل ونقل کے خلاف ہیں، لیکن بعض روایات پر وضع کا اطلاق اس لئے کردیا کہ ان کے بعض راویوں میں کلام تھا، یہ درست نہیں کیا، مثلاً راوی کے بارے میں یہ قول کہ فلاں ضعیف ہے یا وہ قوی نہیں یا وہ کمزور ہے یہ حدیث ایسی نہیں کہ اس کے بطلان پر دل گواہی دے نہ اس میں مخالف ہے نہ یہ کتاب وسنّت اور اجماع کے معارض ہے اور نہ ہی یہ اس بات پر حجت ہے کہ یہ روایت موضوع ہے ماسوائے راویوں میں اس آدمی کے کلام کے اور یہ زیادتی وتخمین ہے۔ (ت)

 

عــہ:  قالہ تحت حدیث من قراٰیۃ الکرسی دبرکل صلاۃ مکتوبۃ لم یمنعہ من دخول الجنۃ الا ان یموت ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

یہ انہوں نے اس حدیث کے تحت کہا ہے جس شخص نے ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی اس کے جنت میں داخل ہونے کو موت کے علاوہ کوئی رکاوٹ نہیں ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ تدریب الراوی    النوع الحادی والعشرون    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/۲۷۸)

( التعقبات علی الموضوعات     باب فضائل القرآن    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۸)

 

افادہ ہفتم: (ایسا غافل کہ حدیث میں دوسرے کی تلقین قبول کرلے اس کی حدیث بھی موضوع نہیں) پھر کسی ہلکے سے ضعف کی خصوصیت نہیں، بلکہ سخت سخت اقسام جرح میں جن کا ہر ایک جہالتِ راوی سے بدرجہا بدتر ہے، یہی تصریح ہے کہ اُن سے بھی موضوعیت لازم نہیں، مثلاً راوی کی اپنی مرویات میں ایسی غفلت کہ دوسرے کی تلقین قبول کرلے یعنی دُوسرا جو بتادے کہ تُونے یہ سُنا تھا وہی مان لے، پر ظاہر کہ یہ شدّتِ غفلت سے ناشی اور غفلت کا طعن فسق سے بھی بدتر اور جہالت سے تو چار درجہ زیادہ سخت ہے، امام الشان نے نخبۃ الفکر میں اسباب طعن کی دس۱۰ قسمیں فرمائیں:

 

 (۱)    کذب: کہ معاذاللہ قصداً حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر افتراء کرے۔

(۲)    تہمت: کذب کہ جو حدیث اُس کے سوا دوسرے نے روایت نہ کی، مخالف قواعدِ دینیہ ہویا اپنے کلام میں جھُوٹ کا عادی ہو۔

(۳)    کثرت غلط    (۴)    غفلت     (۵)    فسق        (۶)    وہم

(۷)    مخالفتِ ثقات    (۸)    جہالت   (۹)    بدعت        (۱۰)    سُوءِ حفظ

اور تصریح فرمائی کہ ہر پہلا دوسرے سے سخت تر ہے،

 

حیث قال الطعن یکون بعشرۃ اشیاء بعضھا اشد فی القدح من بعض وترتیبھا علی الاشد فلاشد فی موجب الرد ۱؎ اھ ملخصا۔

 

الفاظ یہ ہیں کہ اسبابِ طعن دس۱۰ اشیاء ہیں، بعض بعض سے جرح میں اشد ہیں اور ان میں موجب رد

کے اعتبار سے ''فالاشد'' کی ترتیب ہے اھ ملخصا (ت)

 

 (۱؎ شرح نخبۃ الفکر    بحث المرسل الخفی    مطبوعہ مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور    ص۵۴)

 

پھر علماء فرماتے ہیں ایسے غافل شدید الطعن کی حدیث بھی موضوع نہیں، اواخر تعقبات میں ہے:فیہ یزید بن ابی زیاد وکان یلقن فیتلقن، قلت ھذا لایقتضی الحکم بوضع حدیثہ ۲؎۔اس میں یزید ابن ابوزیاد ہے اسے تلقین کی جاتی تو وہ تلقین کو قبول کرلیتا تھا، میں کہتا ہوں کہ یہ قول اس کی وضع حدیث کا تقاضا نہیں کرتا۔ (ت)

 

 (۲؎ تعقبات باب المناقب            مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ        ص۵۸)

 

افادہ ہشتم: (منکر الحدیث کی حدیث بھی موضوع نہیں) یوں ہی منکر الحدیث، اگرچہ یہ جرح امام اجل محمد بن اسمٰعیل بخاری علیہ رحمۃ الباری نے فرمائی ہو حالانکہ وہ ارشاد فرماچکے کہ میں جسے منکر الحدیث (عــہ۱) کہوں اُس سے روایت حلال نہیں، میزان الاعتدال امام ذہبی میں ہے:نقل ابن (عــہ۲) القطان ان البخاری قال کل من قلت فیہ منکر الحدیث فلا تحل الروایۃ عنہ ۳؎۔

 

 (۳؎ میزان الاعتدال فی ترجمہ ابان بن جبلۃ الکوفی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۱/۶)

 

ابن القطان نے نقل کیا ہے کہ امام بخاری نے فرمایا ہر وہ شخص جس کے بارے میں منکر الحدیث کہوں اس سے روایت کرنا جائز نہیں۔ (ت)

 

عــہ۱:  کانہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کان یتورع عن اطلاق الفاظ شدیدۃ مخافۃ ان یکون بعضہ من باب شتم الاعراض وقدوجب الذب عن الاحادیث فاصطلح علی ھذا جمعا بین الامرین ۱۲ منہ (م)

 

گویا امام بخاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سخت الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرتے تھے تاکہ کسی کی عزت دری لازم نہ آئے حالانکہ احادیث کی حفاظت ودفاع لازم ہے لہذا دونوں امور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ اصطلاح استعمال کی ہے ۱۲

منہ (ت)

 

عــہ۲: ذکرہ فی ابان بن جبلۃ الکوفی ۱۲ منہ (م)

ابان بن جبلہ الکوفی کے ترجمہ کے تحت اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

اُسی (عــہ۱) میں ہے:قدمر لنا ان البخاری قال من قلت فیہ منکر الحدیث فلایحل روایۃ حدیثہ ۱؎۔پیچھے امام بخاری کا یہ قول گزرچکا ہے کہ جس کے بارے میں مَیں منکر الحدیث کہہ دوں اس کی حدیث روایت کرنا جائز نہیں۔ (ت)

 

عــہ۱ : قالہ فی سلیمن بن داود الیمانی ۱۲ منہ (م)

سلیمان بن داؤد یمانی کے ترجمہ میں یہ تحریر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

(۱؎ میزان الاعتدال        فی ترجمہ سلیمان بن داود الیمانی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۲/۲۰۲)

 

بااینہمہ علما نے فرمایا ایسے کی حدیث بھی موضوع نہیں، تعقبات (عــہ۲) میں ہے:قال البخاری منکر الحدیث، ففایۃ امر حدیثہ انیکون ضعیفا ۲؎۔بخاری نے کہا یہ منکر الحدیث ہے تو زیادہ سے زیادہ اس کی حدیث ضعیف ہوگی۔ (ت)

 

عــہ۲:باب فضائل القرآن  ۱۲ منہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔باب فضائل القران میں یہ مذکور ہے ۔۱۲ منہ (ت)

 

(۲؎ التعقبات علی الموضوعات        باب فضائل القرآن        مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص ۹)

 

افادہ نہم: (متروک کی حدیث بھی موضوع نہیں) ضعیفوں میں سب سے بدتر درجہ متروک کا ہے جس کے بعد صرف (عــہ۳) مہتم بالوضع یا کذاب دجال کا مرتبہ ہے،

 

عــہ۳: بلکہ مولانا علی قاری نے حاشیہ نزہۃ النظر میں متروک ومہتم بالوضع کا ایک مرتبہ میں ہونا نقل کیا:

حیث قال فالمرتبۃ الثالثۃ فلان متھم بالکذب اوالوضع اوساقط اوھالک اوذاھب الحدیث وفلان متروک اومتروک الحدیث ۳؎ اوترکوہ ملخصاً اقول وکان ھذا القائل ایضا لایقول باستواء جمیع ماذکر فی المرتبۃ بل فیھا ایضا تشکیک عندہ وکانہ الی ذلک اشار باعادۃ فلان قبل قولہ متروک الا ان فیہ ان ساقطا ومابعدہ لایفوق متروکا ومابعدہ فافھم ۱۲ منہ (م)

ان کے الفاظ یہ ہیں تیسرا مرتبہ یہ ہے فلان مہتم بالکذب یا بالوضع یا ساقط یا ہالک یا ذاہب الحدیث اور فلان متروک یا متروک الحدیث یا لوگوں نے اسے ترک کردیا ہے اقول گویا اس قائل نے بھی تمام مذکور کو ایک مرتبہ میں برابر قرار نہیں دیا بلکہ اس میں بھی اس کے نزدیک تشکیک ہے۔ گویا انہوں نے اپنے قول ''متروک'' سے پہلے ''فلان'' کا اعادہ کرکے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے مگر اس میں کلام ہے کہ ساقط اور اس کا مابعد، متروک اس کے مابعد سے فوق وبلند مرتبہ نہیں ہوسکتے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۳؎ حاشیۃ نزہۃ النظر مع نخبۃ الفکر مراتب الجرح            مطبع علیمی        ص ۱۱۱)

 

میزان میں ہے:اردی عبارات الجرح، دجال کذاب، اووضاع یضع الحدیث ثم متھم بالکذب ومتفق علی ترکہ، ثم متروک ۱؎ الخجرح کے سب سے گھٹیا الفاظ یہ ہیں، دجال، کذاب، وضاع جو حدیثیں گھڑتا ہے اس کے بعد متہم بالکذب ومتفق علٰی ترکہ ہے پھر متروک کا لفظ ہے الخ (ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال    مقدمۃ الکتاب    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۱/۴)

 

امام الشان تقریب التہذیب میں ذکر مراتب دو روایتیں فرماتے ہیں:العشرۃ، من لم یوثق البتۃ وضعف مع ذلک بقادح والیہ الاشارۃ بمتروک اومتروک الحدیث اوواھی الحدیث اوساقط، الحادیۃ عشر، من اتھم بالکذب ''الثانیۃ عشر'' من اطلق علیہ اسم الکذب والوضع ۲؎۔دسواں مرتبہ یہ ہے کہ اس راوی کی کسی نے توثیق نہ کی ہو اور اسے جرح کے ساتھ ضعیف کہاگیا ہو، اس کی طرف اشارہ متروک یا متروک الحدیث یا واہی الحدیث اور ساقط کے ساتھ کیا جاتا ہے ''گیارھواں درجہ یہ ہے'' جو متہم بالکذب ہو، اور بارھواں درجہ یہ ہے کہ جس پر کذب ووضع کے اسم کا اطلاق ہو۔(ت)

 

 (۲؎ تقریب التہذیب    مقدمۃ الکتاب       مطبع فاروقی دہلی    ص ۳)

 

اس پر بھی علماء نے تصریح فرمائی کہ متروک کی حدیث بھی صرف ضعیف ہی ہے موضوع نہیں، امام حجر اطراف العشرۃ پھر خاتم الحفاظ لآلی عــہ۱ میں فرماتے ہیں:زعم ابن ھبان وتبعہ ابن الجوزی ان ھذا المتن موضوع، ولیس کماقال، فان الراوی وان کان متروکا عندالاکثر ضعیفا عندالبعض، فلم ینسب للوضع ۳؎ اھ مختصرا۔ابن حبان نے یہ زعم کیا اور ابن جوزی نے ان کی اتباع میں کہا کہ یہ متن موضوع ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اگرچہ راوی اکثر کے نزدیک متروک اور بعض کے نزدیک ضعیف ہے، لیکن یہ وضع کی طرف منسوب نہیں ہے اھ مختصر (ت)

 

عــہ۱: فی التوحید تحت حدیث ابن عدی ان اللّٰہ عزوجل قرأ طہ وٰیسین قبل ان یخلق آدم الحدیث ۱۲ منہ (م)

اس کا ذکر کتاب التوحید میں ابن عدی کی اس حدیث کے تحت ہے جس میں ہے کہ اللہ عزوجل نے طٰہٰ اور یس تخلیق آدم علیہ السلام سے پہلے پڑھا الحدیث ۱۲ منہ (ت)

 

 (۳؎ اللآلی المصنوعۃ    کتاب التوحید    مطبوعہ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۱/۱۰)

 

امام بدر زرکشی کتاب النکت علی ابن الصلاح، پھر خاتم الحفاظ لآلی عــہ۱ میں فرماتے ہیں:بین قولنا لم یصح وقولنا موضوع بون کبیر، وسلیمن بن ارقم وان کان متروکا فلم یتھم بکذب ولاوضع ۱؎ اھ ملخصا۔محدثین کے قول ''لم یصح'' اور ''موضوع'' کے درمیان بڑا فرق ہے سلیمان بن ارقم اگرچہ متروک ہے لیکن وہ متہم بالکذب اور متہم بالوضع نہیں اھ ملخصا (ت)

 

عــہ۱: فیہ تحت حدیثہ ایضا والذی نفسی بیدہ ماانزل اللّٰہ من وحی قط علی نبی بینہ وبینہ الابالعربیۃ الحدیث ۱۲ منہ (م)

اس میں اسی حدیث کے تحت یہ بھی ہے کہ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اللہ تعالٰی نے کسی نبی پر وحی نہیں فرمائی مگر اس کے اور اس کے نبی کے درمیان عربیت تھی الحدیث (ت)

 

 (۱؎ اللآلی المصنوعۃ   کتاب التوحید    مطبوعہ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۱/۱۱)

 

ابوالفرج نے ایک حدیث میں طعن کیا کہ ''الفضل متروک'' (فضل متروک ہے۔ ت) لآلی عــہ۲ میں فرمایا:فی الحکم بوضعہ نظر، فان الفضل لم یتھم بکذب ۲؎۔اس کو موضوع قرار دینا محلِ نظر ہے، کیونکہ فضل مہتم بالکذب نہیں۔ (ت)

 

عــہ۲:  فیہ ایضا تحت حدیث ابن شاھین لماکلم اللّٰہ تعالٰی موسٰی یوم الطور کلمہ بغیر الکلام الذی کلمہ یوم ناداہ الحدیث ۱۲ منہ (م)

اس میں حدیث ابن شاہین کے تحت یہ بھی ہی کہ جب اللہ تعالٰی نے موسٰی علیہ السلام سے طور کے دن گفتگو فرمائی تو یہ کلام اس کلام کی طرح نہ تھا جو انکے ساتھ ندا کے وقت کیا تھا، الحدیث ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ اللآلی المصنوعۃ   کتاب التوحید    مطبوعہ التجاریۃ الکبرٰی مصر     ۱/۱۲)

 

تعقبات عــہ۳ میں ہے :

اصبغ شیعی متروک عندالنسائی فحاصل عــہ۴ کلامہ ''انہ ضعیف لاموضوع'' وبذلک صرح البیھقی ۳؎۔اصبغ شیعہ ہے، امام نسائی کے ہاں متروک ہے، ان کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ ضعیف ہے موضوع نہیں، اور اسی بات کی تصریح بیہقی نے کی ہے۔ (ت)

 

عــہ۳: ذکرہ فی اول باب صلاۃ۔   باب الصلاۃ کے شروع میں اسے ذکر کیا ہے (ت)

عــہ۴ : الکنایۃ للذھبی ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)   اس سے امام ذہبی کی طرف کنایہ ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۳؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الصلوٰۃ        مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص ۱۱)

 

حدیث چِلّہ صوفیہ کرام قدست اسرارہم کہ : من اخلص للّٰہ تعالٰی اربعین یوما ظھرت ینابیع الحکمۃ من قلبہ علٰی لسانہ ۱؎۔جس شخص نے چالیس۴۰ دن اللہ تعالٰی کیلئے اخلاص کیا اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر جاری ہوجائیں گے۔ (ت)

 

 (۱؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الادب والد قائق    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۳۷)

 

ابنِ جوزی نے بطریق عدیدہ روایت کرکے اس کے رواۃ میں کسی کے مجہول، کسی کے کثیر الخطا، کسی کے مجروح، کسی کے متروک ہونے سے طعن کیا، تعقبات میں سب کا جواب یہی فرمایا کہ''مافیھم متھم بکذب ۲؎''یہ سب کچھ سہی پھر اُن میں کوئی مہتم بکذب تو نہیں کہ حدیث کو موضوع کہہ سکیں۔ یوں ہی ایک حدیث (عــہ)کی علت بیان کی:بشربن نمیرعن القاسم متروکان ۳؎ (بشربن نمیر نے قاسم سے روایت کی اور یہ دونوں متروک ہیں۔ ت) تعقبات میں فرمایا:بشرلم یتھم بکذب ۴؎ (بشر مہتم بالکذب نہیں۔ ت) حدیث ابی ہریرہ''اتخذاللّٰہ ابراھیم خلیلا''الحدیث (اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل بنایا، پوری حدیث۔ ت) میں کہاتفرد بہ مسلمۃ بن علی الخشنی وھو متروک ۵؎ (اس میں مسلمہ بن علی الخشنی منفرد ہے اور وہ متروک ہے۔ ت) تعقبات میں فرمایا:مسلمۃ وان ضعف فلم یجرح بکذب ۶؎ (مسلمہ اگرچہ ضعیف ہے مگر اس پر جرح بالکذب نہیں۔ ت) حدیثِ ابی ہریرہ''ثلٰثۃ لایعادون''(تین چیزیں نہیں لوٹائی جائیں گی۔ ت) پر بھی مسلمہ مذکور سے طعن کیا، تعقبات میں فرمایا:لم یتھم بکذب، والحدیث ضعیف لاموضوع ۷؎(یہ مہتم بالکذب نہیں اور یہ حدیث ضعیف ہے موضوع نہیں۔ ت)

 

عــہ: یعنی حدیث ابی امامۃ من قال حین یمسی صلی اللّٰہ تعالٰی علی نوح وعلیہ السلام لم تلدغہ عقرب تلک اللیلۃ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

اس سے مراد حدیث ابی امامہ ہے جس میں ہے کہ جس شخص نے شام کے وقت یہ کہا: ''صلی اللّٰہ تعالٰی علٰی نوح وعلیہ السلام'' تو اسے اس رات بچھّو نہیں ڈسے گا ۱۲ منہ (ت)

 

 ( ۲؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الادب والد قائق    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۳۷)

(۳؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الادب والد قائق    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ   ص ۴۶)

( ۴؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الادب والد قائق    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ     ص ۴۶)

(۵؎ التعقبات علی الموضوعات     باب المناقب   مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۵۳)

( ۶؎ التعقبات علی الموضوعات     باب المناقب   مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۵۳)

(۷؎ التعقبات علی الموضوعات      باب الجنائز      مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ص ۱۷)

 

سبحان اللہ! جب انتہا درجہ کی شدید جرحوں سے موضوعیت ثابت نہیں ہوتی، تو صرف جہالت راوی یا انقطاع سند کے سبب موضوع کہہ دینا کیسی جہالت اور عدل وعقل سے انقطاع کی حالت ہے ولکن الوھابیۃ قوم یجھلون۔

تذییل: یہ ارشادات تو ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالٰی کے تھے، ایک قول وہابیہ کے امام شوکانی کا بھی لیجئے، موضوعات ابوالفرج میں یہ حدیث کہ جب مسلمان کی عمر چالیس۴۰ برس کی ہوتی ہے اللہ تعالٰی جنون وجذام وبرص کو اس سے پھیر دیتا ہے اور پچاس۵۰ سال والے پر حساب میں نرمی اور ساٹھ۶۰ برس والے کو توبہ وعبادت نصیب ہوتی ہے، ہفتاد۷۰ سالہ کو اللہ عزوجل اور اُس کے فرشتے دوست رکھتے ہیں، اسی۸۰ برس والے کی نیکیاں قبول اور برائیاں معاف، نوّے۹۰ برس والے کے سب اگلے پچھلے گناہ مغفور ہوتے ہیں، وہ زمین میں اللہ عزوجل کا قیدی کہلاتا ہے اور اپنے گھر والوں کا شفیع کیا جاتا ہے، بطریق عدیدہ روایت کرکے اُس کے راویوں پر طعن کئے کہ یوسف بن ابی ذرہ راوی مناکیر لیس بشیئ ہے اور فرج ضعیف منکر الحدیث کہ واہی حدیثوں کو صحیح سندوں سے ملادیتا ہے اور محمد بن عامر حدیثوں کو پلٹ دیتا ہے ثقات سے وہ روایتیں کرتا ہے جو اُن کی حدیث سے نہیں اور عرزمی متروک اور عباد بن عباس مستحق ترک اور عزرہ کو یحیٰی بن معین نے ضعیف بتایا اور ابوالحسن کو فی مجہول اور عائز ضعیف ہے۔ شوکانی نے ان سب

 

مطاعن کو نقل کرکے کہا: ھذا غایۃ ماابدی ابن الجوزی دلیلا علی ماحکم بہ من الوضع، وقد افرط وجازف فلیس مثل ھذہ المقالات توجب الحکم بالوضع بل اقل احوال الحدیث ان یکون حسنا لغیرہ ۱؎۔ انتہی

 

یعنی ابن جوزی نے جو اس حدیث پر حکمِ وضع کیا اُس کی دلیل میں انتہا درجہ یہ طعن پیدا کیے اور بے شک وہ حد سے بڑھے اور بیباکی کو کام میں لائے کہ ایسے طعن حکمِ وضع کے موجب نہیں، بلکہ کم درجہ حال اس حدیث کا یہ ہے کہ حسن لغیرہٖ ہو۔

 

 (۱؎ زہر النسرین فی حدیث المعمرین للشوکانی)

 

واللّٰہ الھادی الٰی سبیل الھدٰی۔

 

افادہ دہم: (موضوعیتِ حدیث کیونکر ثابت ہوتی ہے) غرض ایسے وجوہ سے حکم وضع کی طرف راہ چاہنا محض ہوس ہے، ہاں موضوعیت یوں ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کا مضمون (۱) قرآن عظیم (۲) سنتِ متواترہ (۳) یا اجماعی قطعی قطعیات الدلالۃ (۴) یا عقل صریح (۵) یا حسن صحیح (۶) یا تاریخ یقینی کے ایسا مخالف ہوکہ احتمالِ تاویل وتطبیق نہ رہے۔

(۷)    یا معنی شنیع وقبیح ہوں جن کا صدور حضور پُرنور صلوات اللہ علیہ سے منقول نہ ہو، جیسے معاذاللہ کسی فساد یا ظلم یا عبث یا سفہ یا مدح باطل یا ذم حق پر مشتمل ہونا۔

(۸)    یا ایک جماعت جس کا عدد حدِ تواتر کو پہنچے اور ان میں احتمال کذب یا ایک دوسرے کی تقلید کا نہ رہے اُس کے کذب وبطلان پر گواہی (عـہ) مستنداً الی الحس دے۔

 

عـہ: زدتہ لان التواتر لایعتبر الافی الحسیات کمانصوا علیہ فی الاصلین ۱۲ منہ (م)

میں نے اس کا اضافہ کیا کیونکہ تواتر کا اعتبار حسیات کے علاوہ میں نہیں ہوتا جیسے کہ انہوں نے اصول میں اس کی تصریح کی ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۹)    یا خبر کسی ایسے امر کی ہوکہ اگر واقع ہوتا تو اُس کی نقل وخبر مشہور ومستفیض ہوجاتی، مگر اس روایت کے سوا اس کا کہیں پتا نہیں۔

(۱۰)    یا کسی حقیر فعل کی مدحت اور اس پر وعدہ وبشارت یا صغیر امر کی مذمّت اور اس پر وعید وتہدید میں ایسے لمبے چوڑے مبالغے ہوں جنہیں کلام معجز نظام نبوت سے مشابہت نہ رہے۔ یہ دس۱۰ صورتیں تو صریح ظہور ووضوحِ وضع کی ہیں۔

(۱۱)    یا یوں حکم وضع کیا جاتا ہے کہ لفظ رکیک وسخیف ہوں جنہیں سمع دفع اور طبع منع کرے اور ناقل مدعی ہوکہ یہ بعینہا الفاظ کریمہ حضور افصح العرب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں یا وہ محل ہی نقل بالمعنی کا نہ ہو۔

(۱۲)    یا ناقل رافضی حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں، جیسے حدیث:لحمک لحمی ودمک دمی(تیرا گوشت میرا گوشت، تیرا خُون میرا خُون۔ ت)

 

اقول انصافاً یوں ہی وہ مناقبِ امیر معاویہ وعمروبن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نے فضائل امیرالمومنین واہل بیت طاہرین رضی اللہ تعالٰی عنہم میں قریب تین لاکھ حدیثوں کے وضع کیں''کمانص علیہ الحافظ ابویعلی والحافظ الخلیلی فی الارشاد'' (جیسا کہ اس پر حافظ ابویعلی اور حافظ خلیلی نے ارشاد میں تصریح کی ہے۔ ت) یونہی نواصب نے مناقب امیر معٰویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں حدیثیں گھڑیں کماارشد الیہ الامام الذاب عن السنۃ احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ تعالٰی (جیسا کہ اس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی نے رہنمائی فرمائی جو سنّت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ ت)

 

 (۱۳)    یا قرائن حالیہ گواہی دے رہے ہوں کہ یہ روایت اس شخص نے کسی طمع سے یاغضب وغیرہما کے باعث ابھی گھڑکر پیش کردی ہے جیسے حدیث سبق میں زیادت جناح اورحدیث ذم معلمین اطفال۔

(۱۴)    یا تمام کتب وتصانیف اسلامیہ میں استقرائے تام کیاجائے اور اس کاکہیں پتانہ چلے یہ صرف اجلہ حفاظ ائمہِ شان کاکام تھاجس کی لیاقت صدہاسال سے معدوم۔

(۱۵)    یاراوی خود اقرار وضع کردے خواہ صراحۃً خواہ ایسی بات کہے جو بمنزلہ اقرار ہو،مثلاً ایک شیخ سے بلاواسطہ بدعوی سماع روایت کرے ، پھراُس کی تاریخِ وفات وہ بتائے کہ اُس کااس سے سننامعقول نہ ہو۔یہ پندرہ۱۵ باتیں ہیں کہ شاید اس جمع وتلخیص کے ساتھ ان سطور کے سوانہ ملیںولوبسطنا المقال علٰی کل صورۃ لطال الکلام وتقاصی المرام، ولسناھنالک بصددذلک (اگر ہم ہر ایک صورت پر تفصیلی گفتگو کریں تو کلام طویل اور مقصد دُورہوجائے گالہذا ہم یہاں اس کے درپے نہیں ہوتے۔ (ت)

 

ثمّ اقول(پھر میں کہتا ہوں۔ ت)رہا یہ کہ جو حدیث ان سب سے خالی ہو اس پر حکم وضع کی رخصت کس حال میں ہے ، اس باب میں کلمات علمائے کرام تین طرز پر ہیں:

(۱)    انکار محقق یعنی بے امور مذکورہ کے اصلاً حکم وضع کی راہ نہیں اگرچہ راوی وضاع، کذاب ہی پر اُس کا مدار ہو،امام سخاوی نے فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث میں اسی پر جزم فرمایا، فرماتے ہیں:مجرد تفرد الکذاب بل الوضاع ولوکان بعد الاستقصاء فی التفتیش من حافظ متبحرتام الاستقراء غیر مستلزم لذلک بل لابد معہ من انضمام شیئ مماسیاتی ۱؎۔یعنی اگر کوئی حافظ جلیل القدرکہ علمِ حدیث میں دریااور اس کی تلاش کا مل ومحیط ہو،تفتیش حدیث میں استقصائے تام کرے اور بااینہمہ حدیث کا پتا ایک راوی کذاب بلکہ وضاع کی روایت سے جدا کہیں نہ ملے تاہم اس سے حدیث کی موضوعیت لازم نہیں آتی جب تک امور مذکورہ سے کوئی امر اس میں موجود نہ ہو۔ (ت)

 

 (۱؎ فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث الموضوع دارالامام الطبری        بیروت    ۱/۲۹۷)

 

مولانا علی قاری نے موضوعاتِ کبیر میں حدیث ابن ماجہ دربارہ اتخاذ وجاج کی نسبت نقل کیا کہ اُس کی سند میں علی بن عروہ دمشقی ہے، ابن حبان نے کہا:وہ حدیثیں وضع کرتا تھا۔ پھر فرمایا:والظاھر ان الحدیث ضعیف لاموضوع ۲؎ (ظاہر یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے موضوع نہیں)

 

 (۲؎ الاسرار المرفوعہ فی اخبار الموضوعہ    حدیث ۱۲۸۲    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت    ص۳۳۸)

 

حدیث فضیلت عسقلان کا راوی ابوعقال ہلال بن زیدہے، ابنِ حبان نے کہا وہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے موضوعات روایت کرتاولہذا ابن الجوزی نے اُس پر حکم وضع کیا۔امام الشان حافظ ابن حجر نے قولِ مسدد پھر خاتم الحفاظ نے لآلی میں فرمایا:ھذا الحدیث فی فضائل الاعمال والتحریض علی الرباط،ولیس فیہ مایحیلہ الشرع ولاالعقل،فالحکم علیہ بالبطلان بمجردکونہ من روایۃابی عقال لایتجہ، وطریقۃ الامام احمد معروفۃ فی التسامح فی احادیث الفضائل دون احادیث الاحکام ۱؎۔یہ حدیث فضائل اعمال کی ہے، اس میں سرحد دارالحرب پر گھوڑے باندھنے کی ترغیب ہے اور ایسا کوئی امر نہیں جسے شرع یا عقل محال مانے تو صرف اس بنا پر کہ اس کا راوی ابوعقال ہے باطل کہہ دینا نہیں بنتا، امام احمد کی روش معلوم ہے کہ احادیث فضائل میں نرمی فرماتے ہیں نہ احادیث احکام میں۔ (ت)

یعنی تو اسے درج مسند فرمانا کچھ معیوب نہ ہوا۔

 

 (۱؎ القول المسدد    الحدیث الثامن    مطبوعہ مطبعۃ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد دکن ہند     ص ۳۲)

 

 (۲)    کذاب وضاع جس سے عمداً نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر معاذ اللہ بہتان وافتراء کرناثابت ہو،صرف ایسے کی حدیث کو موضوع کہیں گے وہ بھی بطریقِ ظن نہ بروجہ یقین کہ بڑا جھُوٹابھی کبھی سچ بولتا ہے اور اگر قصداً افترا اس سے ثابت نہیں تو اُس کی حدیث موضوع نہیں اگرچہ مہتم بکذب و وضع ہو، یہ مسلک امام الشان وغیرہ علماء کا ہے،

 

نخبہ ونزھہ میں فرماتے ہیں:الطعن اماان یکون لکذب الراوی بان یروی عنہ مالم یقلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم متعمد الذلک اوتھمتہ بذلک، الاول ھوالموضوع، والحکم علیہ بالوضع انما ھو بطریق الظن الغالب لابالقطع، اذقد یصدق الکذوب، والثانی ھو المتروک ۲؎ اھ ملتقطاطعن یا تو کذب راوی کی وجہ سے ہوگا مثلاً اس نے عمداً اپنی بات روایت کی جو نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نہیں فرمائی تھی یا اس پر ایسی تہمت ہو،پہلی صورت میں روایت کو موضوع کہیں گے اور اس پر وضع کا حکم یقینی نہیں بلکہ بطور ظن غالب ہے کیونکہ بعض اوقات بڑا جھُوٹابھی سچ بولتا ہے، اور دوسری صورت میں روایت کو متروک کہتے ہیں اھ ملتقطاً۔ (ت)

 

 (۲؎ شرح نخبۃ الفکر معہ نزھۃ النظر    بحث الطعن    مطبوعہ مطبع علیمی لاہور    ص ۵۴ تا ۵۹)

 

یہی امام کتاب الاصابہ(عـہ)فی تمیز الصحابہ میں حدیث ان الشیطان یحب الحمرۃ فایاکم والحمرۃ وکل ثوب فیہ شھرۃ (شیطان سُرخ رنگ پسند کرتا ہے تم سُرخ رنگت سے بچو اور ہر اس کپڑے سے جس میں شہرت ہو۔ ت) کی نسبت فرماتے ہیں:

 

قال الجوزقانی فی کتاب الاباطیل ھذا حدیث باطل واسنادہ منقطع کذاقال وقولہ باطل مردودفان ابابکر الھذلی لم یوصف بالوضع وقد وافقہ سعید بن بشیر، وان زادفی السند رجلا، فغایتہ ان المتن ضعیف اماحکمہ بالوضع فمردود ۱؎۔جو زقانی نے کتاب الاباطیل میں کہا کہ یہ روایت باطل ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اسی طرح انہوں نے کہا اور ان کا باطل کہنا مردود ہے کیونکہ ابوبکر ہذلی وضاع نہیں اور اس کی سعید بن بشیر نے موافقت کی، اگرچہ سند میں انہوں نے ایک آدمی کا اضافہ کیا ہے، زیاد سے زیادہ یہ ہے کہ متن ضعیف ہے لیکن اس پر وضع کا حکم جاری کرنا مردود ہے۔ (ت)

 

 (عـہ) ذکرہ فی ترجمۃ رافع بن یزید الثقفی ۱۲ منہ (م)

رافع بن یزید ثقفی کے ترجمہ میں اس کا ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ الاصابہ فی تمییز الصحابہ        القسم الاول ''حرف الراء''        مطبوعہ دارصادر بیروت    ۱/۵۰۰)

 

علی قاری حاشیہ نزھہ میں فرماتے ہیں:الموضوع ھو الحدیث الذی فیہ الطعن بکذب الراوی ۲؎۔موضوع اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کے راوی پر کذب کا طعن ہو۔ (ت)

 

 (۲؎ حاشیہ نزھۃ النظر مع نخبۃ         الفکر بحث الموضوع        مطبع علیمی لاہور    ص ۵۶)

علامہ عبدالباقی زرقانی شرح مواہب (عـہ۱) لدنیہ میں فرماتے ہیں:احادیث الدیک حکم ابن الجوزی بوضعھاورد علیہ الحافظ بماحاصلہ انہ لم یتبین لہ الحکم بوضعھااذلیس فیھا وضاع ولاکذاب نعم ھوضعیف من جمیع طرقہ ۳؎۔روایات دیک (مرغ) کو ابن جوزی نے موضوع قرار دیا ہے اور حافظ نے ان کا رد کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس کا مرفوع قرار دینا بیان نہیں کیاکیونکہ اس میں نہ کوئی وضاع ہے اور نہ کذاب، ہاں وہ جمع طرق کے لحاظ سے ضعیف ہے۔ (ت)

 

(۳؎ شرح الزرقانی علی المواہب    المقصد الثانی آخر الفصل التاسع        مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر ۳/۴۵۰)

 

عـہ۱: المقصد الثانی آخر الفصل التاسع ۱۲ منہ (م) دوسرے مقصد کی ساتویں فصل کے آخر میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)

 

اُسی میں حدیث (عـہ۲) کان لایعود الابعد ثلث ۴؎ (سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تین دن کے بعد عیادتِ مریض فرماتے تھے۔ ت) پر اس طعن کے جواب میں کہ اس میں مسلمہ بن علی متروک واقع ہے، فرمایا:

 

اوردہ ابن الجوزی فی الموضوعات وتعقبوا''بانہ ضعیف فقط،لاموضوع، فان مسلمۃ لم یجرح بکذب کماقالہ الحافظ ولاالتفات لمن غربزخرف القول فقال ھو موضوع کماقال الذھبی وغیرہ ۱؎۔ابنِ جوزی نے اسے موضوعات میں شامل کیا ہے محدثین نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے کہاکہ یہ صرف ضعیف ہے موضوع نہیں کیونکہ مسلمہ پر جرح بالکذب نہیں جیساکہ حافظ نے کہااور نہ توجہ کی جائے اس شخص کی طرف جس نے ملمع کاری سے دھوکاکھایا اور کہاکہ یہ موضوع ہے جیسا کہ ذہبی وغیرہ نے کہا۔ (ت)

 

عـہ۲: المقصد الثامن من الفصل الاول فی طبہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی

آٹھویں مقصدکی پہلی فصل سے طب نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں اس کاذکرہے ۱۲منہ (ت)

 

 (۴؎شرح الزرقانی علی المواہب  الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم    مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر ۷/۵۸)

 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر ۷/۵۹)

 

اُسی میں بعد کلام مذکور ہے:

المدارعلی الاسناد فان تفردبہ کذاب اووضاع فحدیثہ موضوع وان کان ضعیفا فالحدیث ضعیف فقط ۲؎۔مدار سندِ حدیث پر ہے اگر اسے روایت کرنے والا کذاب یا وضاع متفردہے تو وہ روایت موضوع ہوگی اور اگر ضعیف ہے تو روایت صرف ضعیف ہوگی۔ (ت)

 

 (۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم    مطبوعہ مطبعۃعامرہ مصر۷/۵۹)

 

انہیں ابن علی خشنی نے حدیث لیس عیادۃ الرمد والدمل والضرس (تین اشخاص کی عیادت لازم نہیں جس کی آنکھ میں تکلیف ہو جس کو پھوڑا نکل آئے اور داڑھ درد والے کی۔ ت)کو مرفوعاً روایت کیا اور ہقل نے یحیٰی بن ابی کثیر پر موقوف رکھا، تو شدّت طعن کے ساتھ مخالفت اوثق نے حدیث کو منکر بھی کردیا ولہذا بیہقی نے موقوف کو ''ھو الصحیح'' (وہ صحیح ہے۔ ت) بتایا، امام حافظ نے فرمایا:تصحیحہ وقفہ لایوجب الحکم بوضعہ اذمسلمۃوان کان ضعیفالم یجرح بکذب،فجزم ابن الجوزی بوضعہ وھم ۳؎ اھ نقلہ الزرقانی قبیل مامر۔اس کی تصحیح کاموقوف ہونا ہے جوکہ اس کے موضوع ہونے کو ثابت نہیں کرتی کیونکہ مسلمہ اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس پر کذب کاطعن نہیں،لہذا ثابت ہواکہ ابن جوزی کا ان کو موضوع قراردیناوہم ہے اھ اسے امام زرقانی نے پہلی حدیث سے کچھ پہلے نقل کیا ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ شرح الزرقانی علی المواہب    الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم    مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر    ۷/۵۸)

 

امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خلیفہ منصور عباسی سے ارشاد کہ اپنا منہ حضور پُرنور شافع یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کیوں پھیرتا ہے وہ تیرا اور تیرے باپ آدم علیہ الصلاۃ والسلام کا اللہ عزوجل کی بارگاہ میں وسیلہ ہیں،اُن کی طرف منہ کر اور اُن سے شفاعت مانگ کر اللہ تعالٰی ان کی شفاعت قبول فرمائے گا، جسے اکابر ائمہ نے باسانید جیدہ مقبولہ روایت فرمایا،ابن تیمیہ متہّورنے جزافاً بک دیا کہ ان ھذہ الحکایۃ کذب علٰی مالک''۔

 

 (اس واقعہ کا امام مالک سے نقل کرنا جھُوٹ ہے۔ ت) علامہ (عـہ۱) زرقانی نے اُس کے رَد میں فرمایا:ھذا تھوّر عجیب، فان الحکایۃ رواھا ابوالحسن علی بن فھر فی کتابہ فضائل مالک باسناد لاباس بہ، واخرجھا القاضی عیاض فی الشفاء من طریقہ عن شیوخ عدۃمن ثقات مشایخہ فمن این انھاکذب ولیس فی اسنادھا وضاع ولاکذاب ۱؎۔یہ بہت بڑی زیادتی ہے کیونکہ اس واقعہ کو شیخ ابوالحسن بن فہرنے اپنی کتاب ''فضائلِ مالک'' میں ایسی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں کمزوری نہیں اور اسے قاضی عیاض نے شفاء میں متعدد ثقہ مشائخ کے حوالے سے اسی سند سے بیان کیاہے لہذااسے جھُوٹا کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟حالانکہ اسکی سند میں نہ کوئی رواوی وضاع ہے اور نہ ہی کذّاب۔ (ت)

 

 (عـہ۱) المقصد العاشر الفصل الثانی فی زیارۃ قبر النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ

دسویں مقصد کی فصل ثانی فی زیادۃ قبرالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الثانی المقصد العاشر     مطبوعہ مطبعہ عامرہ مصر    ۸/۳۴۸)

 

افادہ نہم میں امام الشان وامام خاتم الحفاظ کا ارشاد گزرا کہ راوی متروک سہی کسی نے اُسے وضاع تو نہ کہا، امام آخر کا قول گزرا کہ مسلمہ ضعیف سہی اس پر طعنِ کذب تو نہیں، نیز تعقبات (عـہ۲) میں فرمایا:لم یجرح بکذب فلایلزم انیکون حدیثہ موضوعا ۲؎۔اس پر کذب کا طعن نہیں لہذا اس کی روایت کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا۔ (ت)

 

 (عـہ۲) باب فضائل القراٰن ۱۲ منہ

باب فضائل القرآن میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎التعقبات علی ا لموضوعات     باب فضائل القرآن     مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص۸)

 

 (۳)    بہت علماء جہاں حدیث پر سے حکمِ وضع اٹھاتے ہیں وجہ رد میں کذب کے ساتھ تہمتِ کذب بھی شامل فرماتے ہیں کہ یہ کیونکر موضوع ہوسکتی ہے حالانکہ اس کا کوئی راوی نہ کذاب ہے نہ متہم بالکذب۔ کبھی فرماتے ہیں موضوع تو جب ہوتی کہ اس کا راوی متہم بالکذب ہوتا یہاں ایسا نہیں تو موضوع نہیں۔ افادہ دوم میں امام زرکشی وامام سیوطی کا ارشاد گزرا کہ حدیث موضوع نہیں ہوتی جب تک راوی متہم بالوضع نہ ہو۔ افادہ پنجم میں گزرا کہ ابوالفرج نے کہا ملیکی متروک ہے،تعقبات میں فرمایامتہم بکذب تونہیں۔افادہ نہم میں انہی دونوں ائمہ کا قول گزرا کہ راوی متروک سہی متہم بالکذب تو نہیں۔ وہیں امام خاتم الحفاظ کے چار۴ قول گزرے کہ راویوں کے مجہول ، مجروح ، کثیرالخطا، متروک ہونے سب کے یہی جواب دیے۔ نیز تعقبات (عـہ۳) میں ہے:حدیث فیہ حسن بن فرقدلیس بشیئ، قلت،لم یتھم بکذب، واکثر مافیہ ان الحدیث ضعیف ۱؎۔اس حدیث کی سند میں حسن بن فرقد کوئی شیئ نہیں،میں کہتا ہوں کہ یہ متہم بالکذب نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (ت)

 

 (عـہ۳) آخر البعث ۱۲ منہ

باب البعث کے آخر میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ(ت)

 

 (۱؎ التعقبات علی الموضوعات        باب البعث    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص ۵۳)

 

اُسی میں(عـہ۱) ہے:

حدیث فیہ عطیۃ العوفی وبشربن عمارۃضعیفان ''قلت'' فی الحکم بوضعہ نظرفلم یتھم واحد منھما بکذب ۲؎۔اس حدیث کی سندمیں عطیہ اور بشر دونوں ضعیف ہیں،میرے نزدیک اس حدیث پر وضع کا حکم نافذکرنا محلِ نظر ہے کیونکہ ان دونوں میں سے کسی پر بھی کذب کی تہمت نہیں۔ (ت)

 

 (عـہ۱) آخر التوحید ۱۲ منہ      باب التوحید کے آخر میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ التعقبات علی الموضوعات     باب التوحید    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص ۴)

 

اسی میں (عـہ۲) ہے: حدیث اطلبواالعلم ولوبالصّین،فیہ ابوعاتکۃمنکر الحدیث ''قلت'' لم یجرح بکذب ولاتھمۃ ۳؎۔حدیث ''علم حاصل کرو اگرچہ چین جانا پڑے'' اس کی سند میں ابوعاتکہ منکر الحدیث ہے میں کہتا ہوں اس پر کذب اور تہمت کا طعن نہیں ہے۔ (ت)

 

(۳؎ التعقبات علی الموضوعات     باب العلم    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص ۴)

 

 (عـہ۲) اول العلم ۱۲ منہ     باب العلم کی ابتداء میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)

 

اُسی میں (عـہ۳) ہے :  حدیث فیہ عمار لایحتج بہ قال الحافظ ابن حجر، تابعہ اغلب واغلب شبیہ بعمارۃ فی الضعف، لکن لم ارمن اتھمہ بالکذب ۴؎۔اس حدیث کی سند میں عمارہ ہے، لہذا یہ قابلِ استدلال نہیں،حافظ ابنِ حجر کہتے ہیں کہ اس کی اغلب نے متابعت کی ہے اور اغلب ضعف میں عمارہ کے مثل ہے، لیکن میرے علم میں کوئی ایسا نہیں جس نے اس پر کذب کی تہمت لگائی ہو۔ (ت)

 

عـہ۳:  اول باب البعث

 

(۴؎التعقبات علی الموضوعات   باب البعث    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص ۵۱)

 

علامہ زرقانی نے شرح مواہب میں حدیثعالم قریش یملؤ الارض علماً (عالم قریشی زمین کو علم سے بھردے گا۔ت)کی نسبت فرمایا:یتصور وضعہ ولاکذاب فیہ ولامتھم ۵؎اس کا موضوع ہوناکیونکر متصور ہو حالانکہ نہ اُس میں کوئی کذاب نہ کوئی متہم۔

 

 (۵؎ شرح الزرقانی علی المواہب    المقصد الثامن فی انبائہ بالاشیاء المغیبات    مطبوعۃ المطبعۃ العامرہ مصر ۷/۲۵۹)

 

بالجملہ اس قدر پر اجماعِ محققین ہے کہ حدیث جب اُن دلائل وقرائن قطعیہ وغالبہ سے خالی ہو اور اُس کا مدار کسی متہم بالکذب پرنہ ہوتو ہرگز کسی طرح اُسے موضوع کہنا ممکن نہیں جو بغیر اس کے حکم بالوضع کردے یا مشدد مفرط ہے یا مخطی غالط یا متعصب مغالط واللّٰہ الھادی وعلیہ اعتمادی۔

 

افادہ یازدہم:(بارہا موضوع یا ضعیف کہنا صرف ایک سند خاص کے اعتبار سے ہوتا ہے نہ کہ اصل حدیث کے) جو حدیث فی نفسہٖ ان پندرہ۱۵ دلائل سے منزّہ ہو محدّث اگر اُس پر حکم وضع کرے تو اس سے نفس حدیث پر حکم لازم نہیں بلکہ صرف اُس سند پر جو اُس وقت اس کے پیشِ نظر ہے،بلکہ بارہا اسانید عدیدہ حاضرہ سے فقط ایک سند پر حکم مراد ہوتا ہے یعنی حدیث اگرچہ فی نفسہٖ ثابت ہے، مگر اس سند سے موضوع وباطل اور نہ صرف موضوع بلکہ انصافاًضعیف کہنے میں بھی یہ حاصل حاصِل ائمہِ حدیث نے ان مطالب کی تصریحیں فرمائیں تو کسی عالم کو حکم وضع یا ضعف دیکھ کر خواہی نخواہی یہ سمجھ لینا کہ اصل حدیث باطل یا ضعیف ہے، ناواقفوں کی فہم سخیف ہے،میزان الاعتدال امام ذہبی میں ہے:

 

ابراھیم بن موسٰی المروزی عن مالک عن نافع عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہماحدیث ''طلب العلم فریضۃ'' قال احمد بن حنبل ''ھذا کذب'' یعنی بھذا الاسناد والا فالمتن لہ طرق ضعیفۃ ۱؎۔ابراہیم بن موسٰی المروزی مالک سے نافع سے ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہماسے راوی ہیں کہ امام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو حدیث طلب العلم فریضۃ کو کذب فرمایااس سے مراد یہ ہے کہ خاص اس سند سے کذب ہے، ورنہ اصل حدیث تو کئی سندوں ضعاف سے وارد ہے۔(ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال    ترجمہ ابراہیم بن موسٰی المروزی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۱/۶۹)

 

امام شمس الدین ابوالخیر محمدمحمد محمد ابن الجزری استادامام الشان امام ابن حجر عسقلانی رحمہمااللہ تعالٰی نے حصن حصین شریف میں جس کی نسبت فرمایا:فلیعلم انی ارجو ان یکون جمیع مافیہ صحیحا ۲؎ (معلوم رہے کہ میں امیدکرتاہوں کہ اس کتاب میں جتنی حدیثیں ہیں سب صحیح ہیں)

 

 (۲؎ حصن حصین    مقدمہ کتاب            نولکشور لکھنؤ        ص ۵)

 

حدیث حاکم وابن مردودیہ کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ تعزیت نامہ ارسال فرمایاذکر کی، مولانا علی قاری علیہ رحمۃ الباری اُس کی شرح حرزثمین میں لکھتے ہیں:صرح ابن الجوزی بان ھذا الحدیث موضوع ''قلت'' یمکن ان یکون بالنسبۃ الٰی اسنادہ المذکور عندہ موضوعاً ۱؎۔ابنِ جوزی نے تصریح کی ہے کہ یہ روایت موضوع ہے ''میں کہتا ہوں'' ممکن ہے اس مذکورہ سند کے اعتبار سے ان کے نزدیک موضوع ہو۔ (ت)

 

 (۱؎ حرزثمین مع حصن حصین   تعزیۃ اہل رسول اللہ     عند وفاۃ    نولکشور لکھنؤ ص ۴۱۰)

 

اسی طرح حرزوصین میں ہے، نیز موضوعات کبیر میں فرماتے ہیں:مااختلفوا فی انہ موضوع ترکت ذکرہ للحذر من الخطر لاحتمال ان یکون موضوعا من طریق وصحیحا من وجہ اٰخر ۲؎ الخجس کے موضوع ہونے میں محدثین کا اختلاف ہے تو میں نے اس حدیث کا ذکر اس خطرہ کے پیشِ نظر ترک کیا کہ ممکن ہے یہ ایک سند کے اعتبارسے موضوع ہو اور دوسری سندکے اعتبار سے صحیح ہو الخ (ت)

 

 (۲؎ الاسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ    الدافع للمؤلف لتالیف ہٰذا المختصر    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان     ص ۴۵۔۴۶)

 

علّامہ زرقانی حدیث احیائے ابوین کریمین کی نسبت فرماتے ہیں:قال السھیلی ان فی اسنادہ مجاھیل وھو یفیدضعفہ فقط،وبہ صرح فی موضع اٰخر من الروض وایدہ بحدیث ولاینافی ھذا توجیہ صحتہ لان مرادہ من غیر ھذا الطریق،ان وجد، اوفی نفس الامر لان الحکم بالضعف وغیرہ انما ھو فی الظاھر ۳؎۔

 

سہیلی نے کہا ہے کہ اس کی سند میں راوی مجہول ہیں جو اس کے فقط ضعف پر دال ہیں اور اسی بات کی تصریح الروض میں دوسرے مقام پر کی ہے اور اس کوحدیث کے ساتھ تقویت دی اور یہ صحتِ حدیث کی توجیہ کے منافی نہیں کیونکہ اس کی مراد اس سند کے علاوہ ہے اگر وہ موجود ہو ورنہ نفس الامر کے اعتبار سے کیونکہ ضعف وغیرہ کا حکم ظاہر میں ہوتا ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ شرح زرقانی علی المواہب    باب وفاۃ امّہ ومایتعلق بابویہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم    مطبوعہ المطبعۃ العامرہ مصر۱/۱۹۶)

 

اور سُنئے حدیث ''صلاۃ بسواک خیرمن سبعین صلاۃ بغیر سواک ۴؎''(مسواک کے ساتھ نماز بے مسواک کی ستّر۷۰ نمازوں سے بہتر ہے) ابونعیم نے کتاب السواک میں دو۲ جید وصحیح سندوں سے روایت کی، امام ضیاء نے اسے صحیح مختارہ اور حاکم نے صحیح مستدرک میں داخل کیا اور کہا شرطِ مسلم پر صحیح ہے۔ امام احمد وابن خزیمہ وحارث بن ابی اسامہ وابویعلی وابن عدی وبزار وحاکم وبیہقی وابونعیم وغیرہم اجلّہ محدثین نے بطریق عدیدہ واسانید متنوعہ احادیث اُمّ المومنین صدیقہ وعبداللہ بن عباس وعبداللہ بن عمرو جابربن عبداللہ وانس بن مالک وام الدرداء وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم سے تخریج کی، جس کے بعد حدیث پر حکمِ بطلان قطعاً محال، بااینہمہ ابوعمر ابن عبدالبرنے تمہید میں امام ابن معین سے اُس کا بطلان نقل کیا،علّامہ شمس الدین سخاوی مقاصد حسنہ میں اسے ذکر کرکے فرماتے ہیں:

 

قول ابن عبدالبر فی التمھید عن ابن معین،انہ حدیث باطل، ھو بالنسبۃ لماوقع لہ من طرقہ ۱؎۔

 

یعنی امام ابن معین کا یہ فرمانا(کہ یہ حدیث باطل ہے اُس سند کی نسبت ہے جو انہیں پہنچی۔)

ورنہ حدیث تو باطل کیا معنے ضعیف بھی نہیں، اقل درجہ حسن ثابت ہے۔

 

 (۴؎ مسند احمد بن حنبل از مسند عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا   مطبوعہ دارالفکر بیروت  ۶/۲۷۲)

(۱؎ المقاصد الحسنۃ للسخاوی    حدیث ۶۲۵    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان    ص ۲۶۳)

 

اور سُنیے حدیث حسن صحیح مروی سنن ابی داؤد ونسائی وصحیح مختارہ وغیرہا صحاح وسنن : ان رجلا اٰتی النبی صلّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فقال ان امرأتی لاتدفع (عـہ) یدلامس قال طلقھا قال انّی احبھا قال استمتع ۲؎ بھا۔

 

ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میری بیوی کسی بھی چھُونے والے کے ہاتھ کو منع نہیں کرتی۔ فرمایا: اُسے طلاق دے دے۔ عرض کیا: میں اس سے محبت رکھتا ہوں۔ تو آپ نے فرمایا: اس سے نفع حاصل کر۔ (ت)

 

 (عـہ) ای کل من سألھا شیئا من طعام اومال اعطتہ ولم ترد ھذا ھوالراجح عندنا فی معنی الحدیث۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔ (م)

یعنی جو شخص بھی اس سے طعام یا مال مانگتا ہے وہ اسے دے دیتی ہے رَد نہیں کرتی، حدیث کے معنی میں ہمارے نزدیک یہی راجح ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

 

 (۲؎ سنن النسائی  باب ماجاء فی الخلع مطبوعہ المکتبۃ السلفیہ لاہور  ۲/۹۸)

 

کہ باسانید ثقات وموثقین احادیث جابر بن عبداللہ وعبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے آئی، امام ذہبی نے مختصر سُنن میں کہا: ''اسنادہ صالح'' (اس کی سند صالح ہے۔ ت) امام عبدالعظیم منذری نے مختصر سنن میں فرمایا:''رجال اسنادہ محتج بھم فی الصحیحین علی الاتفاق والانفراد ۳؎ (اس روایت کے تمام راوی ایسے ہیں جن سے بخاری ومسلم میں اتفاقا اور انفراداً استدلال کیا ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ مختصر سنن ابی داؤد    للحافظ المنذری باب النہی عن ترویج من لم یلد من النساء الخ مطبوعہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل۳/۶)

 

امام ابنِ حجر عسقلانی نے فرمایا: حسن صحیح (حسن صحیح ہے۔ ت) اس حدیث کو جو حافظ ابوالفرج نے امام احمد رحمہ اللہ تعالٰی کے ارشاد ''ولیس لہ اصل ولایثبت عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم''(اس کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی یہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ ت)( کی تبعیت سے لااصل لہ (اس کی کوئی اصل نہیں۔ ت) کہا امام الشان حدیث کا صحیح ہونا ثابت کرکے فرماتے ہیں:

 

لایلتفت الٰی ماوقع من ابی الفرج ابن الجوزی، حیث ذکر ھذا الحدیث فی الموضوعات، ولم یذکر من طرقہ الاالطریق التی اخرجھا الخلال من طریق ابی الزبیر عن جابر، واعتمد فی بطلانہ علی مانقلہ الخلال عن احمد، فابان ذلک عن قلّۃ اطلاع ابن الجوزی وغلبۃ التقلید علیہ، حتی حکم بوضع الحدیث بمجرد ماجاء عن امامہ، ولوعرضت ھذہ الطرق علی امامہ لاعترف علی ان للحدیث اصلا،ولکنہ لم تقع لہ فلذلک لم ارلہ فی مسندہ، ولافیمایروی عنہ ذکرااصلا لامن طریق ابن عباس ولامن طریق جابرسوی ماسألہ عندالخلال وھو معذور فی جوابہ بالنسبۃ لتلک الطریق بخصوصھا ۱؎ اھ ذکرہ فی اللالی (عـہ)۔

 

ابوالفرج ابن جوزی کی اس بات کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی کہ انہوں نے اس حدیث کو موضوعات میں شامل کیا ہے اور اس کی دیگر اسناد ذکر نہیں کیں ماسوائے اس سند کے جس کے حوالے سے خلال نے ابوالزبیر عن جابر روایت کیا اور اس کے بطلان میں اسی پر اعتماد کرلیا جو خلال نے احمد سے نقل کیا ہے، تو یہ بات ابن جوزی کے قلتِ مطالعہ اور غلبہ تقلید کو واضح کررہی ہے حتی کہ انہوں نے اپنے امام سے منقول محض رائے کی بنیاد پر حدیث کو موضوع کہہ دیا حالانکہ یہ سندیں اگر ان کے امام کے سامنے پیش کی جاتیں تو وہ فی الفور اعتراف کرلیتے کہ حدیث کی اصل ہے لیکن ایسا نہ ہوسکا اس وجہ سے یہ حدیث اصلاً ان کی مسند میں نہیں آئی اور نہ ہی اُن روایات میں جو ان سے مروی ہیں نہ سند ابن عباس سے اور نہ ہی سند جابر سے ماسوائے اس سند کے جس کے بارے میں خلال نے سوال کیا تھا اور امام احمد اس کے جواب میں معذور ٹھہرے کیونکہ ان کا جواب اسی سند کے اعتبار سے ہے اور اسے لآلی میں ذکر کیا ہے۔ (ت)

 

 (عـہ) فی اوخر النکاح      باب النکاح کے آخر میں اس کا ذکر کیا ہے (ت)

 

 (۱؎ اللآلی المصنوعہ    کتاب النکاح    مطبوعہ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۲/۱۷۳)

 

 (نتیجۃ الافادات) بحمداللہ تعالٰی فقیر آستان قادری غفراللہ تعالٰی لہ کے ان گیارہ(۱۱) افادات نے مہرنیمروز وماہِ نیم ماہ کی طرح روشن کردیا کہ احادیثِ تقبیل ابہامین کو وضع وبطلان سے اصلاً کچھ علاقہ نہیں، اُن پندرہ۱۵ عیبوں سے اس کا پاک ہونا تو بدیہی اور یہ بھی صاف ظاہر کہ اس کا مدار کسی وضاع، کذاب یا متہم بالکذب پر نہیں۔ پھر حکمِ وضع محض بے اصل وواجب الدفع، ولہذا علمائے کرام نے صرف ''لایصح'' فرمایا یہاں تک کہ وہابیہ کے امام شوکانی نے بھی بآنکہ ایسے مواقع میں سخت تشدّد اور بہت مسائل میں بے معنی تفرد کی عادت ہے، فوائد مجموعہ میں اسی قدر پر اقتصار کیا اور موضوع کہنے کا راستہ نہ ملا، اگر بالفرض کسی امام معتمد کے کلام میں حکمِ وضع واقع ہُوا ہوتو وہ صرف کسی سند خاص کی نسبت ہوگا نہ اصل حدیث پر جس کے لئے کافی سندیں موجود ہیں جنہیں وضع واضعین سے کچھ تعلق نہیں کہ جہالت وانقطاع اگر ہیں تو مورثِ ضعف نہ کہ مثبت وضع۔ بعونہٖ تعالٰی یہاں تک کی تقریر سے موضوعیتِ حدیث کی نسبت منکرین کی بالاخوانیاں بالابالا گئیں، آگے چلیے وباللہ التوفیق۔

 

افادہ دوازدہم۱۲: (تعدّدِ طُرق سے ضعیف حدیث قوّت پاتی بلکہ حسن ہوجاتی ہے)حدیث اگر متعدد طریقوں سے روایت کی جائے اور وہ سب ضعف رکھتے ہوں تو ضعیف ضعیف مل کر بھی قوت حاصل کرلیتے ہیں،بلکہ اگر ضعف غایت شدّت وقوّت پر نہ ہوتو جبر نقصان ہوکر حدیث درجہ حسن تک پہنچتی اور مثل صحیح خود احکامِ حلال وحرام میں حجّت ہوجاتی ہے۔مرقاۃ میں ہے: تعدد (عـہ۱) الطرق یبلغ الحدیث الضعیف الی حد الحسن ۱؎۔متعدد روایتوں سے آنا حدیثِ ضعیف کو درجہ حسن تک پہنچادیتا ہے۔

 

 (عـہ۱) اٰخر الفصل الثانی، باب مالایجوز من العمل فی الصلاۃ ۱۲ منہ (باب مالایجوز من العمل فی الصلوٰۃ کی فصل ثانی کے آخر میں اسے ذکر کیا ہے۔ ت)

 

 (۱؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ    فصل الثانی من باب مالایجوز من العمل فی صلاۃ    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۳/۱۸)

 

آخر موضوعات کبیر میں فرمایا:تعدد الطرق ولوضعفت یرقی الحدیث الی الحسن ۲؎۔طرقِ متعددہ اگرچہ ضعیف ہوں حدیث کو درجہ حسن تک ترقی دیتے ہیں۔

 

 (۲؎ الاسرار المرفوعہ فی اخبار الموضوعہ    احادیث الحیض    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان    ص ۳۴۶)

 

محقق علی الاطلاق فتح القدیر (عـہ۲) میں فرماتے ہیں:لوتم تضعیف کلھاکانت حسنۃ لتعدد الطرق وکثرتھا ۱؎۔اگر سب کا ضعف ثابت ہو بھی جائے تاہم حدیث حسن ہوگی کہ طُرق متعدد وکثیر ہیں۔

 

 (عـہ۲) ذکر فی مسئلۃ السجود علی کور العمامۃ ۱۲ منہ (عمامہ پر سجدہ کرنے کے مسئلہ میں اس کو ذکر کیا ہے۔ ت)

 

 (۱؎ فتح القدیر        صفۃ الصلوٰۃ بحث سجود علی العمامۃ    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۲۶۶)

 

اُسی (عـہ۱) میں فرمایا:جاز فی الحسن ان یرتفع الی الصحت اذاکثرت طرقہ والضعیف یصیر حجۃ بذلک لان تعددہ قرینۃ علی ثبوتہ فی نفس الامر ۲؎۔جائز ہے کہ حسن کثرت طرق سے صحت تک ترقی پائے اور حدیثِ ضعیف اس کے سبب حجت ہوجاتی ہے کہ تعدد اسانید ثبوتِ واقعی پر قرینہ ہے۔

 

 (عـہ۱) قالہ فی مسئلۃ النفل قبل المغرب ۱۲ منہ

 

 (۲؎ فتح القدیر        باب النوافل             مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر  ۱/۳۸۹)

 

امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ النورانی میزان الشریعۃ الکبرٰی (عـہ۲) میں فرماتے ہیںـ:قداحتج جمھور المحدثین بالحدیث الضعیف اذاکثرت طرقہ والحقوہ بالصحیح تارۃ، وبالحسن اخری، وھذا النوع من الضعیف یوجد کثیرا فی کتاب السنن الکبری للبیھقی التی الفھا بقصد الاحتجاج لاقوال الائمۃ واقوال صحابھم ۳؎۔بیشک جمہور محدثین نے حدیث ضعیف کو کثرتِ طرق سے حجت مانا اور اسے کبھی حسن سے ملحق کیا اس قسم کی ضعیف حدیثیں امام بیہقی کے سنن کُبرٰی میں بکثرت پائی جاتی ہیں جسے انہوں نے ائمہ مجتہدین واصحاب ائمہ کے مذاہب پر دلائل بیان کرنے کی غرض سے تالیف فرمایا۔

 

 (عـہ۲) الفصل الثالث من فصول فی الاجوبۃ عن الامام ابی حنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ

 

 (۳؎ المیزان الکبرٰی للشعرانی    فصل ثالث من فصول فی الاجوبۃ عن الامام    مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۶۸)

 

امام ابن حجر مکی صواعقِ محرقہ میں دربارہ حدیث توسعہ علی العیال یومِ عاشوراء امام ابوبکر بیہقی سے ناقل:ھذہ الاسانید وان کانت ضعیفۃ لکنھا اذاضم بعضھا الٰی بعض احدثت قوۃ ۴؎۔یہ سندیں اگرچہ سب ضعیف ہیں مگر آپس میں مل کر قوّت پیدا کریں گی۔

 

 (۴؎ الصواعق المحرقہ    الباب الحادی عشر فصل اول        مطبوعہ مکتبہ مجیدیہ ملتان    ص ۱۸۴)

 

بلکہ امام جلیل جلال سیوطی تعقبات (عـہ۳) میں فرماتے ہیں:المتروک اوالمنکر اذاتعددت طرقہ ارتقی الی درجۃ الضعیف الغریب، بل ربما ارتقی الی الحسن ۱؎۔یعنی متروک یا منکر کہ سخت قوی الضعف ہیں یہ بھی تعدد طرق سے ضعیف غریب، بلکہ کبھی حسن کے درجہ تک ترقی کرتی ہیں۔

 

 (عـہ۳) باب المناقب حدیث النظر علی عبادۃ ۱۲ منہ

 

 (۱؎ التعقبات علی الموضوعات    باب المناقب    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص ۷۵)

 

افادہ سیزدہم۱۳: (حدیث مجہول وحدیث مبہم تعدد طُرق سے حسن ہوجاتی ہے اور وہ جابر ومنجبر ہونے کے صالح ہیں) جہالت راوی بلکہ ابہام بھی اُنہیں کم درجہ کے ضعفوں سے ہے جو تعدد طرق سے منجبر ہوجاتے ہیں اور حدیث کو رتبہ حسن تک ترقی سے مانع نہیں آتے،یہ حدیثیں جابر ومنجبردونوں ہونے کے صالح ہیں،افادہ پنجم میں امام خاتم الحفاظ کا ارشاد گزرا کہ حدیث مبہم حدیث ضعیف سے منجبر ہوگئی، امام الشان کا فرمانا گزرا کہ حدیث مبہم حدیث ضعیف کا جبر نقصان کرے گی۔ ابوالفرج نے حدیث:

 

لیث عن مجاھد عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ولدلہ ثلثۃ اولاد فلم یسم احدھم محمدا فقدجھل ۲؎۔حضرت مجاہد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے تین۳ بیٹے ہوں اور ان میں سے کسی کا نام محمد نہ رکھے اس نے جہالت سے کام لیا۔ (ت)

 

پر طعن کیا کہ لیث کو امام احمد وغیرہ نے متروک کیا اور ابن حبان نے مختلط بتایا، امام سیوطی( عـہ۱) نے اس کا شاہد بروایت نضر بن شنقی مرسلاً مسند حارث سے ذکر کرکے ابن القطان سے نضر کا مجہول ہونا نقل کیا، پھر فرمایا:ھذا المرسل یعضد حدیث ابن عباس ویدخلہ فی قسم المقبول ۳؎۔یہ مرسل اُس حدیث ابن عباس کی مؤید ہوکر اسے قسم مقبول میں داخل کرے گی۔

 

 (۲؎ کتاب الموضوعات        باب التسمیۃ بمحمد    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۱/۱۵۴)

 

 (عـہ۱) لآلی کتاب المبتداء

 

 (۳؎ اللآئی المصنوعۃ        کتاب المبتدائ    دارالمعرفۃ بیروت    ۱/۱۰۲)

علّامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں (عـہ۲) فرماتے ہیں:فی اسنادہ جھالۃ لکنہ اعتضد فصار حسنا ۴؎۔اس کی اسناد میں جہالت مگر تائید پاکر حسن ہوگئی۔

 

 (عـہ۲) تحت حدیث ابنوا المساجد واخرجوا القمامۃ منھا ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ

 

 (۴؎ تیسیر شرح الجامع الصغیر للمناوی    حدیث ابنو المساجد کے تحت مکتبہ الامام الشافعی ریاض سعودیہ    ۱/۱۷۰)

 

افادہ چہاردہم ۱۴:(حصولِ قوت کو صرف دو سندوں سے آنا کافی ہے)حصولِ قوّت کیلئے کچھ بہت سے ہی طرق کی حاجت نہیں صرف دو۲ بھی مل کر قوت پاجاتے ہیں،اس کی ایک مثال ابھی گزری، نیز تیسیر میں فرمایا:ضعیف لضعف عمروبن واقد لکنہ یقوی بورودہ من طریقین ۱؎۔یعنی حدیث تو اپنے راوی عمروبن واقد متروک کے باعث ضعیف ہے مگر دو۲ سندوں سے آکر قوّت پاگئی۔

 

 (۱؎ تیسیر شرح الجامع الصغیر للمناوی حدیث    اکرموا المعزٰی کے تحت مکتبہ الامام الشافعی ریاض سعودیہ ۱/۲۰۴)

 

اُسی میں حدیث ''اکرموا المعزی وامسحوا برغامھا فانھا من دواب الجنۃ ۲؎''اسنادہ ضعیف لکن یجبرہ ماقبلہ فیتعاضدان ۳؎۔ (بکری کی عزت کرو اور اس سے مٹی جھاڑوکیونکہ وہ جنتی جانور ہے۔ ت)بروایت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یزید بن نوفلی کے سبب تضعیف کی پھر اس کے شاہد بروایت ابی سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو فرمایا:سند اس کی بھی ضعیف ہے لیکن پھر پہلی سند اس کی تلافی کرتی ہے تو دو۲ مل کر قوی ہوجائیں گے۔

 

 (۲؎ الجامع الصغیر مع فیض القدیر    حدیث ۱۴۲۱    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت        ۲/۹۱)

(۳؎ تیسیر شرح الجامع الصغیر    حدیث اکرمو المعزٰی کے تحت مکتبہ الامام الشافعی ریاض سعودیہ    ۱/۲۰۴)

 

جامع صغیر میں حدیث ''اکرموا العلماء فانہ ورثۃ الانبیاء ۴؎''(علماء کا احترام کرو کیونکہ وہ انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ ت) دو۲ طریقوں سے ایراد کی،اوّل: ابن عساکر عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔ دوم: خط یعنی الخطیب فی التاریخ عن جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔ علّامہ مناوی وعلّامہ عزیزی نے تیسیر وسراج المنیر میں زیر طریق اول لکھا:ضعیف لکن یقویہ مابعدہ ۵؎ (ضعیف ہے مگر پچھلی حدیث اسے قوّت دیتی ہے) زیرِ طریق دوم فرمایا:ضعیف لضعف الضحاک بن حجرۃ لکن یعضدہ ماقبلہ ۶؎ (ضحاک بن حجرۃ کے ضعف سے یہ بھی ضعیف ہے مگر پہلی اسے طاقت بخشتی ہے۔ ت) متتبعِ کلماتِ علماء اس کی بہت مثالیں پائے گا۔

 

 (۴؎ الجامع الصغیر مع فیض القدیر    حدیث ۱۴۲۸    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت        ۲/۹۳)

(۵؎ السراج المنیر شرح جامع الصغیر    زیرِ حدیث اکرموا العلماء مطبوعہ ازہریہ مصر    ۱/۲۷۰)

(۶؎ السراج المنیر شرح جامع الصغیر    زیرِ حدیث اکرموا العلماء مطبوعہ ازہریہ مصر    ۱/۲۷۰)

 

افادہ پانزدہم ۱۵: (اہلِ علم کے عمل کرنے سے بھی حدیثِ ضعیف قوی ہوجاتی ہے) اہلِ علم کے عمل کرلینے سے بھی حدیث قوت پاتی ہے اگرچہ سند ضعیف ہو۔ مرقاۃ (عـہ) میں ہے:

 

رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث غریب والعمل علی ھذا عند اھل العلم، قال النووی واسنادہ ضعیف نقلہ میرک، فکأن الترمذی یرید تقویۃ الحدیث بعمل اھل العلم، والعلم عنداللّٰہ تعالٰی کماقال الشیخ محی الدین ابن العربی انہ بلغنی عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، انہ من قال لاالٰہ الاللّٰہ سبعین الفا، غفراللّٰہ تعالٰی لہ، ومن قیل لہ غفرلہ ایضا، فکنت ذکرت التھلیلۃ بالعدد المروی من غیران انوی لاحد بالخصوص،فحضرت طعاما مع بعض الاصحاب وفیھم شاب مشھوربالکشف، فاذاھو فی اثناء الاکل اظھر البکأ، فسألتہ عن السبب، فقال اری امی فی العذاب،فوھبت فی باطنی ثواب التھلیلۃ المذکورۃ لھا فضحک وقال انی اراھاالاٰن فی حسن المآب فقال الشیخ فعرفت صحۃالحدیث بصحۃ کشفہ وصحۃ کشفہ بصحۃ الحدیث ۱؎۔یعنی امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث غریب ہے اور اہلِ علم کا اس پر عمل ہے سید میرک نے امام نووی سے نقل کیا کہ اس کی سند ضعیف ہے توگویا امام ترمذی عملِ اہل علم سے حدیث کو قوت دینا چاہتے ہیں واللہ تعالٰی اعلم اس کی نظیر وہ ہے کہ سیدی شیخ اکبر امام محی الدین ابن عربی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا مجھے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے حدیث پہنچی ہے کہ جو شخص ستّر ہزار بار لاالٰہ الا اللّٰہ کہے اس کی مغفرت ہو اور جس کے لئے پڑھا جائے اس کی مغفرت ہو، میں نے لاالٰہ الاللّٰہ اتنے بار پڑھا تھااُس میں کسی کے لئے خاص نیت نہ کی تھی اپنے بعض رفیقوں کے ساتھ ایک دعوت میں گیا اُن میں ایک جوان کے کشف کا شُہرہ تھاکھاناکھاتے کھاتے رونے لگا میں نے سبب پُوچھا، کہااپنی ماں کو عذاب میں دیکھتا ہُوں، میں نے اپنے دل میں کلمہ کا ثواب اُس کی ماں کو بخش دیا فوراً وہ جوان ہنسنے لگا اور کہا اب میں اُسے اچھی جگہ دیکھتا ہوں، امام محی الدین قدس سرہ فرماتے ہیں تو میں نے حدیث کی صحت اُس جوان کے کشف کی صحت سے پہچانی اور اس کے کشف کی صحت حدیث کی صحت سے جانی۔

 

عـہ: باب ماعلی الموموم من المتابعۃ اول الفصل الثانی ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ

 

 (۱؎ مرقات شرح مشکوٰۃ     الفصل الثانی    باب ماعلی الماموم من المتابعۃ    مطبوعہ امدادیہ ملتان    ۳/۹۸)

 

امام سیوطی تعقبات (عـہ) میں امام بیہقی سے ناقل تداولھا الصالحون بعضھم عن بعض وفی ذلک تقویۃ للحدیث المرفوع ۲؎(اسے صالحین نے ایک دوسرے سے اخذ کیا اور اُن کے اخذ میں حدیث مرفوع کی تقویت ہے)

 

 (عـہ) باب الصلاۃ حدیث صلاۃ التسبیح ۱۲ منہ

 

 (۲؎ التعقبات علی الموضوعات        باب الصلوٰۃ        مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص ۱۳)

 

اُسی (عـہ) میں فرمایا:قدصرح غیرواحد بان من دلیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علٰی مثلہ ۱؎۔معتمد علما نے تصریح فرمائی ہے کہ اہلِ علم کی موافقت صحتِ حدیث کی دلیل ہوتی ہے اگرچہ اُس کے لئے کوئی سند قابلِ اعتماد نہ ہو۔

 

یہ ارشاد علما احادیث احکام کے بارے میں ہے پھر احادیثِ فضائل تو احادیثِ فضائل ہیں۔

 

 (عـہ) باب الصلاۃ حدیث من جمع بین الصلاتین من غیر عذر فقداتی بابا من ابواب الکبائر اخرجہ الترمذی وقال حسین ضعفہ احمد وغیرہ والعمل علی ھذا الحدیث عنداھل العلم فاشار بذلک الی ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقدصرح غیر واحد ۳؎ الخ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

باب الصلوٰۃ کی اس حدیث کے تحت ذکر ہے جس میں ہے کہ جس نے دو۲ نمازیں بغیر عذر کے جمع کیں اس نے کبائر میں سے ایک کبیرہ کا ارتکاب کیا، اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسین نے کہا احمد وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور اہلِ علم کا اس حدیث پر عمل ہے، اس سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس حدیث نے اہلِ علم کے قول کے ذریعے قوت حاصل کی ہے اور اس کی تصریح متعدد محدثین نے کی ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۱؎ التعقبات علی الموضوعات            باب الصلوٰۃ    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل    ص ۱۲)

(۳؎ التعقبات علی الموضوعات    باب الصلوٰۃ    مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل        ص ۱۲)

 

افادہ شانزدہم ۱۶: (حدیث سے ثبوت ہونے میں مطالب تین قسم ہیں)جن باتوں کا ثبوت حدیث سے پایا جائے وہ سب ایک پلّہ کی نہیں ہوتیں بعض تو اس اعلٰی درجہ قوت پر ہوتی ہیں کہ جب تک حدیث مشہور، متواتر نہ ہو اُس کا ثبوت نہیں دے سکتے احاد اگرچہ کیسے ہی قوت سند ونہایت صحت پر ہوں اُن کے معاملہ میں کام نہیں دیتیں۔(عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں)یہ اصول عقائد اسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین درکار، علّامہ تفتازانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں:خبر الواحد علی تقدیر اشتمالہ علٰی جمیع الشرائط المذکورۃ فی اصول الفقہ لایفید الا الظن ولاعبرۃ بالظن فی باب الاعتقادات ۲؎۔حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقادمیں ظنیات کاکچھ اعتبار نہیں۔

 

 (۲؎ شرح عقائد نسفی    بحث تعداد الانبیاء    مطبوعہ دارالاشاعت العربیۃ قندھار    ص۱۰۱)

 

مولاناعلی قاری منح الروض الازہر میں فرماتے ہیں: الاحاد لاتفید الاعتماد فی الاعتقاد۱؎ (احادیث احاد دربارہ اعتقاد ناقابلِ اعتماد)۔

 

 (۱؎منح الروض الازہرشرح فقہ اکبر    الانبیاء منزھون عن الکباروالصغائر    مصطفی البابی مصر    ص۵۷)

 

 (دربارہ احکام ضعیف کافی نہیں) دوسرا درجہ احکام کا ہے کہ اُن کے لئے اگرچہ اُتنی قوت درکار نہیں پھر بھی حدیث کا صحیح لذاتہ خواہ لغیرہ یا حسن لذاتہ یا کم سے کم لغیرہ ہونا چاہئے، جمہور علماء یہاں ضعیف حدیث نہیں سنتے۔

 

 (فضائل ومناقب میں باتفاق علماء حدیثِ ضعیف مقبول وکافی ہے) تیسرا مرتبہ فضائل ومناقب کا ہے یہاں باتفاقِ (عـہ۱) علماء ضعیف (عـہ۲)حدیث بھی کافی ہے،مثلاً کسی حدیث میں ایک عمل کی ترغیب آئی کہ جو ایسا کرے گااتنا ثواب پائے گایاکسی نبی یاصحابی کی خُوبی بیان ہوئی کہ اُنہیں اللہ عزوجل نے یہ مرتبہ بخشا،یہ فضل عطا کیا، تو ان کے مان لینے کوضعیف حدیث بھی بہت ہے،ایسی جگہ صحت حدیث میں کام کرکے اسے پایہ قبول سے ساقط کرنا فرق مراتب نہ جاننے سے ناشیئ،جیسے بعض جاہل بول اُٹھے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں،یہ اُن کی نادانی ہے علمائے محدثین اپنی اصطلاح پر کلام فرماتے ہیں، یہ بے سمجھے خدا جانے کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں، عزیز ومسلم کہ صحت نہیں پھر حسن کیا کم ہے، حسن بھی نہ سہی یہاں ضعیف بھی مستحکم ہے، (عـہ۳) رسالہ قاری ومرقاۃ وشرح ابنِ حجر مکی وتعقبات ولآلی امام سیوطی وقول مسدّد امام عسقلانی کی پانچ عبارتیں افادہ دوم وسوم وچہارم ودہم میں گزریں،عبارتِ تعقبات میں تصریح تھی کہ نہ صرف ضعیف محض بلکہ منکر بھی فضائلِ اعمال میں مقبول ہے،بآنکہ اُس میں ضعف راوی کے ساتھ اپنے سے اوثق کی مخالفت بھی ہوتی ہے کہ تنہا ضعف سے کہیں بدتر ہے،

 

عـہ۱:ای ولاعبرۃ بمن شذ ۱۲منہ (یعنی کسی شاذ شخص کااعتبار نہیں ۔ت)

عـہ۲: الاجماع المذکور فی الضعیف المطلق کمانحن فیہ ۱۲منہ

عـہ۳:مسئلہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تحقیق وتنقیح فقیر کے رسالہ البشری العاجلہ من تحف اجلہ ورسالہ الاحادیث الراویہ لمدح الامیر المعاویہ ورسالہ عرش الاعزاز والاکرام لاول ملوک الاسلام ورسالہ ذب الاھواء الواہیہ فی باب الامیرمعاویہ وغیرھامیں ہے وفقنااللہ تعالی بمنہ وکرمہ لترصیفھاوتبیینھاونفع بھاوبسائر تصانیفی امۃ الاسلام بفھمھا و بتفہیمھا امین باعظم القدرۃ واسع الرحمۃ امین صلی اللہ تعالی وبارک وسلم علی سیدنامحمدوالہ وصحبہ وسلم ۱۲منہ رضی اللہ تعالی عنہ (م)

 

امام اجل شیخ العلماء والعرفاء سیدی ابوطالب محمد بن علی مکی قدس اللہ سرہ الملکی کتاب جلیل القدر عظیم الفخر قوت القلوب (عـہ۴) فی معاملۃ المحبوب میں فرماتے ہیں:الاحادیث فی فضائل الاعمال وتفضیل الاصحاب متقبلۃ محتملۃ علی کل حال مقاطیعھا ومراسیلھا لاتعارض ولاترد، کذلک کان السلف یفعلون ۱؎۔

 

 (۱؎ قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب   فصل الحادی والعشرون  مطبوعہ دارصادر مصر    ۱/۱۷۸)

 

فضائل اعمال وتفضیلِ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی حدیثیں کیسی ہی ہوں ہر حال میں مقبول وماخوذ ہیں مقطوع ہوں خواہ مرسل نہ اُن کی مخالفت کی جائے نہ اُنہیں رَد کریں، ائمہ سلف کا یہی طریقہ تھا۔

 

 

امام ابوزکریا نووی اربعین پھر امام ابن حجر مکی شرح مشکوٰۃ پھر مولانا علی قاری مرقاۃ (عـہ۱) وحرز (عـہ۲)ثمین شرح حصن حصین میں فرماتے ہیں:

 

قداتفق الحفاظ ولفظ الاربعین قداتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال ۲؎ ولفظ الحرز لجواز العمل بہ فی فضائل الاعمال بالاتفاق ۳؎۔یعنی بیشک حفاظِ حدیث وعلمائے دین کا اتفاق ہے کہ فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے۔ (ملخصاً)

 

 (عـہ۱) تحت حدیث من حفظ علی امتی اربعین حدیثا قال النووی طرقہ کلھا ضعیفہ ۱۲ منہ (م)

(عـہ۲) فی شرح الخطبۃ تحت قول المصنّف رحمہ اللّٰہ تعالٰی اتی ارجوان یکون جمیع مافیہ صحیحاً ۱۲ منہ (م)

 

 (۲؎ شرح اربعین للنووی        خطبۃ الکتاب       مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ص ۴)

(۳؎ حرز ثمین شرح مع حصن حصین    شرح خطبہ کتاب    نولکشور لکھنؤ        ص۲۳)

 

فتح المبین بشرح (عـہ۳) الاربعین میں ہے: لانہ ان کان صحیحا فی نفس الامرفقد اعطی حقہ من العمل بہ، والالم یترتب علی العمل بہ مفسدۃ تحلیل ولاتحریم ولاضیاع حق للغیر وفی حدیث ضعیف من بلغہ عنی ثواب عمل فعملہ حصل لہ اجرہ وان لم اکن قلتہ اوکماقال واشار المصنّف رحمہ اللّٰہ تعالٰی بحکایۃ الاجماع علٰی ماذکرہ الی الرد علی من نازع فیہ ۱؎ الخ

 

یعنی حدیث ضعیف پر فضائل اعمال میں اس لئے ٹھیک ہے کہ اگر واقع میں صحیح ہُوئی جب تو جو اس کا حق تھا کہ اس پر عمل کیا جائے حق ادا ہوگیا اور اگر صحیح نہ بھی ہوتو اس پر عمل کرنے میں کسی تحلیل یا تحریم یا کسی کی حق تلفی کا مفسدہ تو نہیں اور ایک حدیث ضعیف میں آیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جسے مجھ سے کسی عمل پر ثواب کی خبر پہنچی وہ اس پر عمل کرلے اُس کا اجر اُسے حاصل ہو اگرچہ وہ بات واقع میں مَیں نے نہ فرمائی ہو۔ لفظ حدیث کے یونہی ہیں یاجس طرح حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم نے فرمائے، امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی نے اس پر نقل اجماع علماسے اشارہ فرمایا جو اس میں نزاع کرے اُس کا قول مردود ہے۔ الخ

 

عـہ۳:فی شرح الخطبۃ ۱۲منہ ر ضی اللہ تعالی عنہ (م)

 

 (۱؎ فتح المبین شرح الاربعین)

 

مقاصد حسنہ (عـہ۱) میں ہے: قدقال ابن عبدالبر البرانھم یتساھلون فی الحدیث اذاکان من فضائل الاعمال ۲؎۔بے شک ابو عمر ابن عبدالبر نے کہا کہ علماء حدیث میں تساہل فرماتے ہیں جب فضائل اعمال کے بارہ میں ہو۔

 

عـہ۱: ذکرہ فی مسألۃ تقدیم الاورع ۱۲ منہ (م)     صاحبِ ورع وتقوٰی کی تقدیم میں اس کا بیان ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ المقاصد الحسنۃ     زیر حدیث من بلغہ عن اللّٰہ الخ     مطبوعہ درالکتب العلمیۃ بیروت    ص ۴۰۵)

 

امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر میں فرماتے ہیں : الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل الاعمال ۳؎۔یعنی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے گا بس اتنا چاہئے کہ موضوع نہ ہو۔

 

 (۳؎ فتح القدیر    باب الامامۃ    نوریہ رضویہ سکھّر        ۱/۳۰۳)

 

مقدمہ امام ابوعمرو ابن الصلاح ومقدمہ جرجانیہ وشرح الالفیۃ للمصنّف وتقریب النواوی اور اس کی شرح تدریب الراوی میں ہے :واللفظ لھما یجوز عنداھل الحدیث وغیرھم التساھل فی الاسانید الضعیفۃوروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیربیان ضعفہ فی فضائل الاعمال غیرھما ممالاتعلق لہ بالعقائد والاحکام وممن نقل عنہ ذلک ابن حنبل وابن مھدی وابن المبارک قالوا اذاروینافی الحلال والحرام شددنا واذاروینا فی الفضائل ونحوھا تساھلنا ۱؎ اھ ملخصا۔

 

محدثین وغیرہم علما کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل اور بے اظہار ضعف موضوع کے سوا ہر قسم حدیث کی روایت اور اُس پر عمل فضائلِ اعمال وغیرہا امور میں جائز ہے جنہیں عقائد واحکام سے تعلق نہیں، امام احمد بن حنبل وامام عبدالرحمن بن مہدی وامام عبداللہ بن مبارک وغیرہم ائمہ سے اس کی تصریح منقول ہے وہ فرماتے جب ہم حلال وحرام میں حدیث روایت کریں سختی کرتے ہیں اور جب فضائل میں روایت کریں تو نرمی اھ ملخصا۔

 

 (۱؎ تدریب الراوی    قبیل نوع الثالث والعشرون    مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/۲۹۸)

 

امام زین الدین عراقی نے الفیۃ الحدیث میں جہاں اس مسئلہ کی نسبت فرمایا عن ابن مھدی وغیر واحد (یعنی امام ابن مہدی وغیرہ ائمہ سے ایسا ہی منقول ہے) وہاں شارح نے فتح المغیث میں امام احمد وامام ابن معین وامام ابن المبارک وامام سفین ثوری وامام ابن عیینہ وامام ابوزکریاعنبری وحاکم وابن عبدالبر کے اسماء واقوال نقل کیے اور فرمایاکہ ابن عدی نے کامل اور خطیب نے کفایہ میں اس کے لئے ایک مستقل باب وضع کیا۔ غرض مسئلہ مشہورہے اور نصوص نامحصور اور بعض دیگر عبارات جلیلہ وافادات آئندہ میں مسطور ان شاء اللہ العزیز الغفور۔

 

تذییل: کبرائے وہابیہ بھی اس مسئلہ میں اہلِ حق سے موافق ہیں، مولوی خرم علی رسالہ (عـہ۱) دعائیہ میں لکھتے ہیں:ضعاف درفضائلِ اعمال وفیما نحن فیہ باتفاق علما معمول بہااست ۲؎ الخفضائل اعمال میں اور جس میں ہم گفتگو کررہے ہیں اس میں باتفاق علماء ضعیف حدیثوں پر عمل درست ہے الخ (ت)

 

عـہ۱:  نقل ھذہ العبارات الثلثۃ محقق اعصارنا وزینۃ امصارنا تاج الفحول محب الرسول مولانا المولوی عبدالقادر البدایونی ادام اللّٰہ تعالی فیوضہ فی کتابہ سیف الاسلام المسلول علی المناع بعمل المولد والقیام ۱۲ منہ (م)

یہ تینوں عبارات ہمارے دور کے عظیم محقق اور ہمارے ملک کی زینت تاج الفحول محب الرسول مولانا مولوی عبدالقادر بدیوانی ادام اللہ فیوضہ نے اپنی کتاب ''سیف الاسلام المسلول علی المناع بعمل المولد والقیام'' میں ذکر کی ہیں ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ رسالہ دعائیہ مولوی خرم علی)

 

مظاہر حق میں راوی حدیث صلاۃ اوّابین کا منکر الحدیث ہونا امام بخاری سے نقل کرکے لکھا: ''اس حدیث کو اگرچہ ترمذی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے لیکن فضائل میں عمل کرنا حدیث ضعیف پر جائزہے ۳؎'' الخ

 

 (۳؎ مظاہر حق    باب السنن وفضائلھا    مطبوعہ دارالاشاعت کراچی        ۱/۷۶۶)

 

اُسی میں حدیث فضیلتِ شبِ برات کی تضعیف امام بخاری سے نقل کرکے کہا: ''یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن عمل کرنا حدیثِ ضعیف پر فضائلِ اعمال میں باتفاق جائز ہے ۴؎ الخ''

 

 (۴؎ مظاہر حق اردو ترجمہ مشکوٰۃ شریف    باب قیام شہر رمضان    مطبوعہ دارالاشاعت کراچی    ۱/۸۴۳)

 

افادہ ہفدہم ۱۷:فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے حدیث ضعیف ثبوت استحباب کے لئے بس ہے۔ امام شیخ الاسلام ابوزکریا نفعنا اللہ تعالٰی ببرکاتہ کتاب (عـہ۲) الاذکار المنتخب من کلام سید الابرارصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 

قال العلماء من المحدثین والفقھاء وغیرھم یجوز ویستحب العمل فی الفضائل والترغیب والترھیب بالحدیث الضعیف مالم یکن موضوعا ۱؎۔

 

محدثین وفقہا وغیرہم علما نے فرمایا کہ فضائل اور نیک بات کی ترغیب اور بُری بات سے خوف دلانے میں حدیث ضعیف پر عمل جائز ومستحب ہے جبکہ موضوع نہ ہو۔

 

عـہ۲: اول الکتاب ثالث فصول المقدمۃ ۲۱ منہ (م)  یہ کتاب کے شروع میں مقدمہ کی تیسری فصل میں ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 ( ۱؎ کتاب الاذکار المنتخب من کلام سید الابرار صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم     فصل قال العلماء من المحدثین     مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت    ص ۷)

 

بعینہا یہی الفاظ امام ابن الہائم نے العقد النضید فی تحقیق کلمۃ التوحید پھر عارف باللہ سیدی عبدالغنی نابلسی نے حدیقہ ندیہ(عـہ۱) شرح طریقہ محمدیہ میں نقل فرمائے، امام فقیہ النفس محقق علی الاطلاق فتح القدیر (عـہ۲) میں فرماتے ہیں :الاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع ۲؎ (حدیث ضعیف سے کہ موضوع نہ ہو فعل کا مستحب ہونا ثابت ہوجاتا ہے)

 

(۲؎ فتح القدیر  فصل فی الصلاۃ علی المیت  مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۲/ ۹۵)

 

عـہ۱:  اواخر الفصل الثانی من باب الاول ۱۲ منہ (م)   باب اول کی فصل ثانی کے آخر میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

عـہ۲:  قبیل فصل فی حمل الجنازۃ ۱۲ منہ (م)  فصل فی حمل الجنازہ سے تھوڑا پہلے اس کو بیان کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

علامہ(۳۵) ابراہیم حلبی غنیۃالمستملی  (عہ۳)  فی شرح منیۃ المصلی میں فرماتے ہیں : (یستحب ان یمسح بدنہ بمندیل بعدالغسل) لماروت عائشۃ رضی اللّٰہ تعالی عنھا قالت کان للنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم خرقۃ یتنشف بھا بعدالوضوء رواہ الترمذی وھو ضعیف ولکن یجوز العمل بالضعیف فی الفضائل ۳؎۔ (نہاکر رومال سے بدن پُونچھنا مستحب ہے جیسا کہ ترمذی نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی کہ حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وضو کے بعد رومال سے اعضاءِ مبارک صاف فرماتے۔ ترمذی نے روایت کیا یہ حدیث ضعیف ہے مگر فضائل میں ضعیف پر عمل روا۔

 

عہ ۳ : فی سنن الغسل ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)     سنن غسل میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

(۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی سنن الغسل    سہیل اکیدمی لاہور    ص۵۲)

 

مولانا(۳۶) علی قاری موضوعاتِ کبیر میں حدیث مسح گردن کا ضعف بیان کرکے فرماتے ہیں:الضعیف یعمل بہ فی الفضائل الاعمال اتفاقاولذا قال ائمتنا ان مسح الرقبۃ مستحب اوسنۃ ۱؎۔فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر بالاتفاق عمل کیا جاتا ہے اسی لئے ہمارے ائمہ کرام نے فرمایا کہ وضو میں گردن کا مسح مستحب یا سنّت ہے۔

 

 (۱؎ موضوعات کبیر    حدیث مسح الرقبۃ    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ص ۶۳)

 

امام جلیل(۳۷) سیوطی طلوع(عہ۱)  الثریا باظہار ماکان خفیا میں فرماتے ہیں:استحبہ ابن الصلاح وتبعہ النووی نظر الی ان الحدیث الضعیف یتسامح بہ فی فضائل الاعمال ۲؎۔تلقین کو امام ابن الصلاح پھر امام نووی نے اس نظر سے مستحب مانا کہ فضائل اعمال میں حدیث ضعیف کے ساتھ نرمی کی جاتی ہے۔         عہ۱ : نقلہ بعض العصریین وھو فیما نری ثقۃ فی النقل ۱۲ منہ (م)

 

 (۲؎ الحاوی للفتاوٰی خفیا      دارالفکر بیروت    ۲/ ۱۹۱)

 

علامہ(۳۸) محقق جلال دوانی رحمہ اللہ تعالٰی انموذج العلوم (عہ۲) میں فرماتے ہیں: الذی یصلح للتعویل علیہ ان یقال اذاوجد حدیث فی فضیلۃ عمل من الاعمال لایحتمل الحرمۃ والکراھیۃ یجوز العمل بہ ویستحب لانہ مامون الخطر ومرجو النفع ۳؎۔

 

 (۳؎ نسیم الریاض شرح شفا    دیباجہ    مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان    ۱/ ۴۳)

 

اعتماد کے قابل یہ بات ہے کہ جب کسی عمل کی فضیلت میں کوئی حدیث پائی جائے اور وہ حرمت وکراہت کے قابل نہ ہوتو اُس حدیث پر عمل جائز ومستحب ہے کہ اندیشہ سے امان ہے اور نفع کی اُمید۔

اندیشہ سے امان یوں کہ حُرمت وکراہت کا محل نہیں اور نفع کی اُمید یوں کہ فضیلت میں حدیث مروی ہے اگرچہ ضعیف ہی سہی۔

 

حلیہ(۳۹) شرح(عہ۱) منیہ میں فرماتے ہیں :  الجمھور علی العمل بالحدیث الضعیف الذی لیس بموضوع فی فضائل الاعمال فھو فی ابقاء الاباحۃ التی لم یتم دلیل علی انتقائھا کمافیما نحن فیہ اجدر  ۱؎۔

 

جمہور علماء کا مسلک فضائل اعمال میں حدیث ضعیف غیر موضوع پر عمل کرنا ہے تو ایسی حدیث اُس اباحت فعل کے باقی رکھنے کی تو زیادہ سزا وار ہے جس کی نفی پر دلیل تمام نہ ہوئی جیسا کہ ہمارے اس مسئلہ میں ہے۔

 

عہ ۱: سنن الغسل مسئلۃ المندیل ۱۲ نہ (م)     سنن غسل میں رومال کے مسئلہ میں اسی کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

امام(۴۰) ابوطالب مکی قوت القلوب عہ۲ میں فرماتے ہیں : الحدیث اذالم ینافہ کتاب اوسنۃ وان لم یشھد الہ ان لم یخرج تاویلہ عن اجماع الامۃ، فانہ یوجب القبول والعمل لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کیف وقد قیل ۲؎۔

 

حدیث جبکہ قرآن عظیم یا کسی حدیث ثابت کے منافی نہ ہو اگرچہ کتاب وسنت میں اس کی کوئی شہادت بھی نہ نکلے، تو بشرطیکہ اُس کے معنی مخالفِ اجماع نہ پڑتے ہوں اپنے قبول اور اپنے اوپر عمل کو واجب کرتی ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کیونکر نہ مانے گا حالانکہ کہا توگیا۔

 

عہ۲ : فی الفصل الحادی والثلثین ۱۲ منہ (م)          اکتیسویں فصل میں اس کو بیان کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ قوت القلوب    الفصل الحادی والثلاثون     باب تفصیل الاخبار    مطبوعہ المطبعۃ المبنیۃ مصر    ۱/ ۱۷۷)

 

یعنی جب ایک راوی جس کا کذب یقینی نہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ایک بات کی خبر دیتا ہے اور اُس امر میں کتاب وسنّت واجماعِ اُمت کی کچھ مخالف نہیں تو نہ ماننے کی وجہ کیا ہے،

 

اقول اماقولہ قدس سرہ ''یوجب'' فکانہ یرید التاکد کماتقول لبعض اصحابک حقک واجب علی فقال فی الدرالمختار عہ۱ لان المسلمین توارثوہ فوجب اتباعھم ۱؎ اوان ملمحہ الٰی ماعلیہ السادات المجاھدون من الائمۃ والصوفیۃ قدسنا اللّٰہ تعالٰی باسرارھم الصفیۃ من شدۃ تعاھدھم للمستحبات کانھا من الواجبات وتوقیھم عن المکروھات بل وکثیر من المباحات کانھن من المحرمات اوان ھذا ھو الذھب عندہ فانہ قدس سرہما فیما نری من المجتھدین وحق لہ ان یکون منھم کماھو شان جمیع الواصلین الٰی عین الشریعۃ الکبری وان انتسوا ظاھرا الٰی احد من ائمۃ الفتوی ۲؎ کمابینہ عہ۲ العارف باللّٰہ سیدی عبدالوھاب شعرانی فی المیزان واللّٰہ تعالٰی اعلم بمراد اھل العرفان۔اقول امام ابوطالب مکی قدس سرہ، کے قول ''یوجب القبول'' سے تاکید مراد ہے جیسا کہ تُو اپنے قرض خواہ سے کہے کہ تیرا حق مجھ پر واجب ہے۔ درمختار میں ہے کہ یہ مسلمانوں کا تعامل ہے پس ان کی اتباع واجب ہے (وجوب بمعنی ثبوت ہے) یا اس میں اس مسلک کی طرف اشارہ ہے جو مجاہدہ کرنے والے سادات ائمہ وصوفیہ (اللہ تعالٰی ان کے پاکیزہ اسرار کو ہمارے لےے مبارک کرے) کا ہے کہ وہ مستحبات کی بھی اس طرح پابندی کرتے ہیں جیسا کہ واجبات کی اور مکروہات سے بلکہ بہت سے مباحات سے اس طرح بچتے ہیں کہ گویا وہ محرمات ہیں یا یہ ان (ابوطالب مکی) کا مذہب ہے کیونکہ ہم آپ قدس سرہ، کو مجتہدین میں شمار کرتے ہیں ان میں ہونا آپ کا حق ہے جیسا کہ ان تمام بزرگوں کا مقام اور شان ہے جو شریعت عظیمہ کی حقیقت کو پانے والے ہیں اگرچہ وہ ظاہراً اپنا انتساب کسی امام فتوی کی طرف کرتے ہیں۔ اس مسئلہ میں عارف باللہ سیدی عبدالوہاب شعرانی نے میزان میں تفصیلی گفتگو کی ہے اور اللہ تعالٰی اہلِ معرفت کی مراد کو زیادہ بہتر بہتر جانتا ہے۔ (ت)

 

عہ۱ : آخر باب العیدین ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)           باب العیدین کے آخر میں اس کا ذکر ہے (ت)

عہ۲ : فی فصل فان قال قائل فھل یجب عندکم علی المقلد الخ وفی فصل ان قال قائل کیف الوصول الی الاطلاع علی عین الشریعۃ المطھرۃ الخ وفی غیرھما ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

 

 (۱؎ درمختار        باب العیدین            مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱ /۱۱۷)

(۲؎ المیزان الکبرٰی    فصل ان قال قائل کیف الوصول الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۲۲)

 

افادہ ہیجدہم۱۸ :(خود احادیث حکم فرماتی ہیں کہ ایسی جگہ حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے) جان برادر اگر چشم بینا اور گوش شنوا ہے تو تصریحاتِ علما درکنار خود حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے احادیث کثیرہ ارشاد فرماتی آئیں کہ ایسی جگہ حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے اور تحقیق صحت وجودت سند میں تعمق وتدقق راہ نہ پائے ولکن الوھابیۃ قوم یعتدون۔ بگوشِ ہوش سُنیے اور الفاظِ احادیث پر غور کرتے جائیے، حسن بن عرفہ اپنے جزوحدیثی اور ابو الشیخ مکارم الاخلاقی میں سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما اور دارقطنی اور موہبی کتاب فضل العلم میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما اور کامل جحدری اپنے نسخہ میں اور عبداللہ بن محمد بغوی اُن کے طریق سے اور ابن حبان اور ابوعمر بن عبدالبرکات کتاب العلم اور ابواحمد ابن عدی کامل میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین فرماتے ہیں:من بلغہ عن اللّٰہ عزوجل شیئ فیہ فضیلۃ فاخذ بہ ایمانابہ ورجاء ثوابہ اعطاہ اللّٰہ تعالٰی ذلک وان لم یکن کذلک ۱؎۔جسے اللہ تبارک وتعالٰی سے کسی بات میں کچھ فضیلت کی خبر پہنچے وہ اپنے یقین اور اُس کے ثواب کی اُمید سے اُس بات پر عمل کرے اللہ تعالٰی اُسے وہ فضیلت عطا فرمائے اگرچہ خبر ٹھیک نہ ہو۔

 

 (۱؎ کنزالعمال بحوالہ حسن بن عرفہ فی جزء حدیثی حدیث ۴۳۱۳۲    مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۵ /۷۹۱)

 

یہ لفظ حسن کے ہیں، اور دارقطنی کی حدیث میں یوں ہے :اعطاہ اللّٰہ ذلک الثواب وان لم یکن مابلغہ حقا ۲؎۔اللہ تعالٰی اسے وہ ثواب عطا کرے گا اگرچہ جو حدیث اسے پہنچی حق نہ ہو۔

 

 (۲؎ کتاب الموضوعات    باب من بلغہ ثواب عمل فعمل بہ    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۳/ ۱۵۳)

 

ابنِ حبان کی حدیث میں یہ لفظ ہیں :کان منی اولم یکن ۳؎ (چاہے وہ حدیث مجھ سے ہو یا نہ ہو)

ابنِ عبداللہ کے لفظ یوں ہیں :وان کان الذی حدثہ کاذبا ۴؎ (اگرچہ اس حدیث کا راوی جھُوٹا ہو)

 

 (۳؎ مکارم الاخلاق لابی الشیخ)

 

امام احمد وابنِ ماجہ وعقیلی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ماجاء کم عنی من خیر قلتہ اولم اقلہ فانی اقولہ وماجاء کم عنی من شرفانی لا اقول الشر  ۱؎۔تمہیں جس بھلائی کی مجھ سے خبر پہنچے خواہ وہ میں نے فرمائی ہو یا نہ فرمائی ہو میں اسے فرماتا ہُوں اور جس بُری بات کی خبر پہنچے تو میں بُری بات نہیں فرماتا۔

 

 (۱؎ مسند امام احمد بن حنبل    مرویاتِ ابی ہریرہ   مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۲ /۳۶۷)

 

ابنِ ماجہ کے لفظ یہ ہیں :ماقیل من قول حسن فانا قلتہ ۲؎۔جو نیک بات میری طرف سے پہنچائی جائے وہ میں نے فرمائی ہے۔

 

 (۲؎ سنن ابن ماجہ  باب تعظیم حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ مطبوعہ مجتبائی لاہورص۴)

 

عقیلی کی روایت یوں ہے : خذوابہ حدثت بہ اولم احدث بہ ۳؎۔ وفی الباب عن ثوبان مولٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وعن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم۔اُس پر عمل کرو چاہے وہ میں نے فرمائی ہو یا نہیں۔ (اس بارے میں حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم  سے بھی روایت ہے۔ ت)

 

 (۳؎ کنزالعمال     بحوالہ عق الاکمال من روایۃ الحدیث، حدیث ۲۹۲۱۰ مطبوعہ موسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۰/ ۲۲۹)

 

خلعی اپنے فوائد میں حمزہ بن عبدالمجید رحمہ اللہ تعالٰی سے راوی: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی النوم فی البحر فقلت بابی انت وامّی یارسول اللّٰہ انہ قدبلغنا عنک انک قلت من سمع حدیثا فیہ ثواب فعمل بذلک الحدیث رجاء ذٰلک الثواب اعطاہ اللّٰہ ذلک الثواب وان کان الحدیث باطلا فقال ای ورب ھذہ البلدۃ انہ لمنی و اناقلتہ ۱؎۔میں نے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خواب میں حطیم کعبہ معظمہ میں دیکھا عرض کی یارسول اللہ میرے ماں باپ حضور پر قربان ہمیں حضور سے حدیث پہنچی ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا ہے جو شخص کوئی حدیث ایسی سُنے جس میں کسی ثواب کا ذکر ہو وہ اُس حدیث پر باُمید ثواب عمل کرے اللہ عزوجل اسے وہ ثواب عطا فرمائے گا اگرچہ حدیث باطل ہو۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہاں قسم اس شہر کے سب کی بے شک یہ حدیث مجھ سے ہے اور میں نے فرمائی ہے، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

 (۱؎ فوائد للخلعی)

 

ابویعلی اور طبرانی معجم اوسط میں سیدنا ابی حمزہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :من بلغہ عن اللّٰہ تعالٰی فضیلۃ فلم یصدق بھالم یتلھا ۲؎۔جسے اللہ تعالٰی سے کسی فضیلت کی خبر پہنچے وہ اسے نہ مانے اُس فضل سے محروم رہے۔

 

 (۲؎ مسند ابویعلی  انس بن مالک  حدیث ۳۴۳۰    مطبوعہ دارالقبلہ للثقافۃ الاسلامیہ جدہ سعودی عرب   ۳/۳۸۷)

 

ابوعمر ابن عبدالبر نے حدیث مذکور روایت کرکے فرمایا:اھل الحدیث بجماعتھم یتساھلون فی الفضائل فیردونھا عن کل وانما یتشددون فی احادیث الاحکام ۳؎۔تمام علمائے محدثین احادیث فضائل میں نرمی فرماتے ہیں اُنہیں ہر شخص سے روایت کرلیتے ہیں، ہاں احادیث احکام میں سختی کرتے ہیں۔

 

(۳؎ کتاب العلم     لابن عبدالبر    )

ان احادیث سے صاف ظاہر ہوا کہ جسے اس قسم کی خبر پہنچی کہ جو ایسا کرے گا یہ فائدہ پائے گا اُسے چاہتے نیک نیتی سے اس پر عمل کرلے اور تحقیق صحتِ حدیث ونظافتِ سند کے پیچھے نہ پڑے وہ ان شاء اللہ اپنے حسن نیت سے اس نفع کو پہنچ ہی جائیگا اقول یعنی جب تک اُس حدیث کا بطلان ظاہر نہ ہوکہ بعد ثبوت بطلان رجاء وامید کے کوئی معنے نہیں۔فقول الحدیث وان لم یکن مابلغہ حقا ونحوہ انما یعنی بہ فی نفس الامر لابعد العلم بہ وھذا واضح جدا فتثبت ولاتزل۔تو حدیث کے یہ الفاظ ''اگرچہ جو حدیث اسے پہنچی وہ حق نہ ہو'' یا اس کی مثل دوسرے الفاظ ''اس سے مراد نفس الامر ہے نہ کہ بعد ازحصول علم''۔ اور یہ بہت ہی واضح ہے اسے یاد رکھو۔ (ت)

اور وجہ اس عطائے فضل کی نہایت ظاہر کہ حضرت حق عزوجل اپنے بندہ کے ساتھ اُس کے گمان پر معاملہ فرماتا ہے، حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے رب عزوجل وعلا سے روایت فرماتے ہیں کہ مولٰی سبحانہ، وتعالٰی فرماتا ہے کہاناعند ظن عبدی ۴؎ بی(میں اپنے بندہ کے ساتھ وہ کرتا ہوں جو بندہ مجھ سے گمان رکھتا ہے) (رواہ البخاری ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ والحاکم بمعناہ عن انس بن مالک (اسے بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، اور حاکم نے حضرت انس بن مالک سے معناً اسے روایت کیا۔ ت)

 

 (۴؎ الصحیح لمسلم  کتاب التوبہ  مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۳۵۴)

 

دوسری حدیث میں یہ ارشاد زائد ہے:''فلیظن بی ماشاء ۱؎'' (اب جیسا چاہے مجھ پر گمان کرے) اخرجہ الطبرانی فی الکبیر والحاکم عن واثلۃ بن الاسقع رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بسند صحیح (اسے طبرانی نے معجم کبیر میں اور حاکم نے حضرت واثلہ بن اسقع سے بسندِ صحیح روایت کیا ہے۔ ت)

 

 (۱؎ المستدرک علی الصحیحین للحاکم    کتاب التوبۃ والانابۃ    مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان    ۴ /۲۴۰)

 

تیسری حدیث میں یوں زیادت ہے:''ان ظن خیر افلہ وان ظن شرافلہ ۲؎'' (اگر بھلا گمان کرے گا تو اس کے لئے بھلائی ہے اور بُرا گمان کرے گا تو اس کے لئے بُرائی)رواہ الامام احمد عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بسند حسن علی الصحیح ونحوہ الطبرانی فی الاوسط وانونعیم فی الحلیۃ عن واثلۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (اسے امام احمد نے سند حسن سے صحیح قول پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور اس کی مثل طبرانی نے اوسط اور ابونعیم نے حلیہ میں حضرت واثلہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

 

 (۲؎ مسند الامام احمد بن حنبل    مسند ابی ہریرۃ   مطبوعہ بیروت            ۲/ ۳۹۱)

 

جب اُس نے اپنی صدق نیت سے اس پر عمل کیا اور رب عزجلالہ سے اُس نفع کی امید رکھی تو مولٰی تبارک وتعالٰی اکرم الاکرمین ہے اُس کی اُمید ضائع نہ کرے گا اگرچہ حدیث واقع میں کیسی ہی ہو۔ وللّٰہ الحمد فی الاولی والاٰخرۃ۔افادہ نوزدہم ۱۹ :(عقل بھی گواہ ہے کہ ایسی جگہ حدیث ضعیف مقبول ہے) وباللہ التوفیق، عقل اگر سلیم ہوتو ان نصوص ونقول کے علاوہ وہ خود بھی گواہ کافی ہے کہ ایسی جگہ ضعیفف حدیث معتبر اور اس کا ضعف مغتفر کہ سند میں کتنے ہی نقصان ہوں آخر بطلان پر یقین تو نہیں فان الکذوب قدیصدق (بڑا جھُوٹا بھی کبھی سچ بولتا ہے) تو کیا معلوم کہ اس نے یہ حدیث ٹھیک ہی روایت کی ہو۔ مقدمہ امام ابوعمر تقی الدین شہرزوری میں ہے:

 

اذاقالوا فی حدیث انہ غیر صحیح فلیس ذلک قطعا بانہ کذب فی نفس الامراذ قد یکون صدقا فی نفس الامر وانما المراد بہ  انہ لم یصح اسنادہ علی الشرط المذکور ۳؎۔

 

محدثین جب کسی حدیث کو غیر صحیح بتاتے ہیں تو یہ اس کے فی الواقع کذب پر یقین نہیں ہوتا اس لئے کہ حدیث غیر صحیح کبھی واقع میں سچی ہوتی ہے اس سے تو اتنی مراد ہوتی ہے کہ اُس کی سند اس شرط پر نہیں جو محدثین نے صحت کے لئے مقرر کی۔

 

 (۳؎ مقدمہ ابن الصلاح  النوع الاول فی معرفۃ اتصحیح  مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان        ص ۸)

 

تقریب وتدریب میں ہے : اذاقیل حدیث ضعیف، فمعناہ لم یصح اسنادہ علی الشرط المذکور لاانہ کذب فی نفس الامر لجواز صدق الکاذب ۱؎ اھ ملخصا۔کسی حدیث کو ضعیف کہاجائے تو معنی یہ ہیں کہ اس کی اسناد شرط مذکور پر نہیں نہ یہ کہ واقع میں جھُوٹ ہے ممکن ہے کہ جھُوٹے نے سچ بولا ہو اھ ملخصاً

 

 (۱؎ تدریب الرادی شرح تقریب النوادی    النوع الاول الصحیح    مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۷۵ تا ۷۶)

 

 (تصحیح وتضعیف صرف بنظرِ ظاہر ہیں واقع میں ممکن کہ ضعیف صحیح ہو وبالعکس) محقق حیث اطلق (عہ۱)فتح میں فرماتے ہیں :ان وصف الحسن والصحیح والضعیف انما ھو باعتبار السند ظنا امافی الواقع فیجوز غلط الصحیح وصحۃ الضعیف ۲؎۔حدیث کو حسن یا صحیح یا ضعیف کہنا صرف سند کے لحاظ سے ظنی طور پر ہے واقع میں جائز ہے کہ صحیح غلط اور ضعیف صحیح ہو۔

 

   عہ۱ : مسألۃ التنفل قبل المغرب ۱۲ منہ (م)

 

 (۲؎ فتح القدیر   باب النوافل   مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر         ۱/ ۳۸۹)

 

اُسی (عہ۲)میں ہے : لیس معنی الضعیف الباطل فی نفس الامر بل لالم یثبت بالشروط المعتبرۃ عند اھل الحدیث مع تجویز کونہ صحیحاً فی نفس الامر فیجوز ان یقترن قرینۃ تحقق ذلک، وان الراوی الضعیف اجاد فی ھذا المتن المعین فیحکم بہ ۳؎۔

 

ضعیف کے یہ معنی نہیں کہ وہ واقع میں باطل ہے بلکہ یہ کہ جو شرطیں اہلِ حدیث نے اعتبار کیں اُن پر نہ آئی اس کے ساتھ جائز ہے کہ واقع میں صحیح ہو، تو ممکن کہ کوئی ایسا قرینہ ملے جو ثابت کردے کہ وہ صحیح ہے اور راوی ضعیف نے یہ حدیث خاص اچھے طور پر ادا کی ہے اُس وقت باوصف ضعف راوی اس کی صحت کا حکم کردیا جائے گا۔    عہ۲ :مسألۃ السجود علٰی کور العمامۃ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

 

(۳؎فتح القدیر   باب صفۃ الصلاۃ    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۲۶۶)

 

موضوعاتِ کبیر میں ہے : المحققون علٰی ان الصحۃ والحسن والضعف انما ھی من حیث الظاھر فقط مع احتمال کون الصحیح موضوعا وعکسہ کذا افادہ الشیخ ابن حجر ۱؎ المکی۔محققین فرماتے ہیں صحت وحسن وضعف سب بنظر ظاہر ہیں واقع میں ممکن ہے کہ صحیح موضوع ہو اور

اور موضوع صحیح، جیسا کہ شیخ ابن حجر مکّی نے افادہ فرمایا ہے۔

 

 (۱؎ موضوعات کبیر لملّا علی قاری    زیر حدیث من بلغہ عن اللّٰہ شیئ الخ     مطبوعہ مجتبائی دہلی    ص ۶۸)

 

اقول (احادیث اولیائے کرام کے متعلق نفیس فائدہ) یہی وجہ ہے کہ بہت احادیث جنہیں محدثین کرام اپنے طور پر ضعیف ونامعتبر ٹھہرا چکے علمائے قلب، عرفائے رب، ائمہ عارفین، سادات مکاشفین قدسنا اللہ تعالٰی باسرارہم الجلیلہ ونور قلوبنا بانوارہم الجمیلہ انہیں مقبول ومعتمد بناتے اور بصیغ جزم وقطع حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف نسبت فرماتے اور ان کے علاوہ بہت وہ احادیث تازہ لاتے جنہیں علما اپنے زبر ودفاتر میں کہیں نہ پاتے، اُن کے یہ علوم الٰہیہ بہت ظاہر بینوں کو نفع دینا درکنار اُلٹے باعث طعن ووقعیت وجرح واہانت ہوجاتے،حالانکہ العظمۃللہ وعباداللہ ان طاعنین سے بدرجہا اتقی اللہ واعلم باللہ واشد توقیافی القول عن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (حالانکہ وہ ان طعن کرنے والوں سے زیادہ اللہ تعالٰی سے خوف رکھنے والے، اللہ تعالٰی کے بارے میں زیادہ علم رکھنے والے، سرورِ دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت کرنے میں بہت احتیاط کرنے والے تھے۔ ت) تھے۔

 

ولکن کل حزب بمالدیھم فرحون ۲؎، وربک اعلم بالمھتدین ۳؎۔اور ہر ایک گروہ اپنے موجود پر خوش ہے اور تیرا رب ہدایت یافتہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ القرآن        ۲۳/ ۵۳ و ۳۰/ ۳۲)   (۳؎ القرآن        ۲۸ /۷ و ۱۶/ ۱۲۵ و ۶ /۱۱۷)

 

میزان (عہ) مبارک میں حدیث : اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم ۴؎۔میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤگے۔ (ت)

 

عہ: فی فصل فان ادعی احد من العلماء فوق ھذہ المیزان ۱۲ منہ (م)

 

 (۴؎ المیزان الکبرٰی    فصل فان ادعٰی احد من العلماء الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۳۰)

 

کی نسبت فرماتے ہیں :ھذا الحدیث وان کان فیہ مقال عندالمحدثین فھو صحیح عند اھل الکشف ۱؎۔اس حدیث میں اگرچہ محدثین کو گفتگو ہےمگر وہ اہل کشف کے نزدیک صحیح ہے۔

 

 (۱؎ المیزان الکبرٰی    فصل فان ادعٰی احد من العلماء الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۳۰)

 

کشف (عہ۱)  الغمہ عن جمیع الاُمہ میں ارشاد فرمایا:کان صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یقول من صلی علی طھر قلبہ من النفاق، کمایطھر الثوب بالمائ، وکان صلی اللّٰہ تعالٰی یقول من قال صلی اللّٰہ علی محمد فقد فتح علی نفسہ سبعین بابا من الرحمۃ، والقی اللّٰہ مجلتہ فی قلوب الناس فلایبغضہ الامن فی قلبہ نفاق، قال شیخنا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ھذا الحدیث والذی قبلہ رویناھما عن بعض العارفین عن الخضر علیہ الصلاۃ والسلام عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وھما عندنا صحیحان فی اعلٰی درجات الصحۃ وان لم یثبتھما المحدثون علی مقتضی اصطلاحھم ۲؎۔حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے جو مجھ پر درود بھیجے اس کا دل نفاق سے ایسا پاک ہوجائے جیسے کپڑا پانی سے، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے جو کہے ''صلی اللّٰہ علٰی محمد'' اس نے سترہ۱۷ دروازے رحمت کے اپنے اوپر کھول لیے، اللہ عزوجل اُس کی محبّت لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا کہ اُس نے بغض نہ رکھے گا مگر وہ جس کے دل میں نفاق ہوگا۔ ہمارے شیخ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: یہ حدیث اور اس سے پہلی ہم نے بعض اولیاء سے روایت کی ہیں انہوں نے سیدنا خضر علیہ الصلاۃ والسلام، اُنہوں نے حضور پُرنور سید الانام علیہ افضل الصّلاۃ واکمل السلام سے یہ دونوں حدیثیں ہمارے نزدیک اعلٰی درجہ کی صحیح ہیں اگرچہ محدثین اپنی اصطلاح کی بنا پر اُنہیں ثابت نہ کہیں۔

 

عہ۱ : آخر الجلد الاول باب جامع فضائل الذکر اٰخر فصل الامر بالصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۔

 

(۲؎ کشف الغمۃ عن جمیع الاُمۃ    فصل فی الامر بالصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم    مطبوعہ درالفکر بیروت    ۱/ ۳۴۵)

 

نیز میزان (عہ۲) شریف میں اپنے شیخ سیدی علی خواص قدس سرہ العزیز سے نقل فرماتے ہیں : کمایقال عن جمیع مارواہ المحدثون بالسند الصحیح المتصل ینتھی سندہ الی حضرت الحق جل وعلا فکذٰلک یقال فیما نقلہ اھل الکشف الصحیح من علم الحقیقۃ ۱؎۔

 

جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ محدثین نے سند صحیح متصل سے روایت کیا اس کی سند حضرت الٰہی عزوجل تک پہنچتی ہے یونہی جو کچھ علم حقیقت سے صحیح کشف والوں نے نقل فرمایا اُس کے حق میں یہی کہا جائےگا۔           عہ۲: فصل فی بیان استحالۃ خروج شیئ من اقوال المجتھدین عن الشریعۃ ۱۲ منہ

 

 (۱؎ المیزان الکبرٰی    فصل فی استحالہ خروج شیئ من اقوال المجتہدین الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۴۵)

 

بالجملہ اولیا کے لئے سوا اس سند ظاہری کے دوسرا طریقہ ارفع وعلٰی ہے ولہذا حضرت سیدی ابویزید بسطامی رضی اللہ تعالٰی عنہ وقدس سرہ السامی اپنے زمانہ کے منکرین سے فرماتے :

 

قداخذتم علمکم میتا عن میت واخذنا علمنا عن الحی الذی لایموت ۲؎۔ نقلہ سیدی الامام الشعرانی فی کتابہ المبارک الفاخر الیواقیت والجواھر اٰخر المبحث السابع والاربعین۔

 

 (۲؎ الیواقیت والجواہر    باب الثالث والسابع والاربعین     مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۲/ ۹۱)

 

تم نے اپنا علم سلسلہ اموات سے حاصل کیا ہے اور ہم نے اپنا علم حی لایموت سے لیا ہے۔ اسے سیدی امام شعرانی نے اپنی مبارک اور عظیم کتاب الیواقیت والجواہر کی سینتالیس بحث کے آخر میں ذکر کیا ہے۔ (ت)

حضرت سیدی امام المکاشفین محی الملۃ والدین شیخ اکبر ابن عربی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کچھ احادیث کی تصحیح فرمائی کہ طور علم پر ضعیف مانی گئی تھیں،کماذکرہ فی باب الثالث والسبعین من الفتوحات المکیۃ الشریفۃ الالھٰیۃ الملکیۃ ونقلہ فی الیواقیت ھنا ۳؎۔جیسا کہ انہوں نے فتوحات المکیۃ الشریفۃ الالہٰیۃ الملکیۃ کے تیرھویں باب میں ذکر کیا اور الیواقیت میں اس مقام پر اسے نقل کیا ہے۔ (ت)

 

(۳؎الیواقیت والجواہر   باب الثالث والسابع والاربعین مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۲ /۸۸)

 

اسی طرح خاتمِ حفاظ الحدیث امام جلیل جلال الملّۃ والدّین سیوطی قدس سرہ العزیز پچھتر۷۵ بار بیداری میں جمالِ جہاں آرائے حضور پُرنور سید الانبیا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بہرہ ورہُوئے بالمشافہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے تحقیقاتِ حدیث کی دولت پائی بہت احادیث کی کہ طریقہ محدثین پر ضعیف ٹھہر چکی تھیں تصحیح فرمائی جس کا بیان ۴؎ عارف ربانی امام العلامہ عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ النورانی کی میزان(عہ)الشریعۃ الکبرٰی میں ہےمن شاء فلیتشرف بمطالعۃ(جو اس کی تفصیل چاہتا ہے میزان کا مطالعہ کرے۔ ت)

 

عہ:  فی الفصل المذکور قبل مامر بنحوہ صفحۃ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

 

 (۴؎ المیزان الکبرٰی    فصل فی استحالۃ خروج شیئ الخ         مطبوعہ مصطفی البابی مصر   ۱/ ۴۴)

 

یہ نفیس وجلیل فائدہ کہ بمناسبت مقام بحمداللہ تعالٰی نفع رسانی برادرانِ دین کے لئے حوالہ قلم ہوا لوحِ دل پر نقش کرلینا چاہے کہ اس کے جاننے والے کم ہیں اور اس لغزش گاہ میں پھسلنے والے بہت قدم ؎

 

خلیلی قطاع الفیانی الی الحمی

کثیر  و ارباب الوصول قلائل

 

 (اے میرے دوست! چراگاہوں میں ڈاکہ ڈالنے والے کثیر اور منزل کو پانے والے کم ہیں۔ ت)

بات دُور پہنچی، کہنا یہ تھا کہ سند پر کیسے ہی طعن وجرح ہوں اُن کے سبب بطلانِ حدیث پر جزم نہیں ہوسکتا ممکن کہ واقع میں حق ہو اور جب صدق کا احتمال باقی تو عاقل جہان نفع بے ضرر کی اُمید پاتا ہے اُس فعل کو بجالاتا ہے دین ودنیا کے کام اُمید پر چلتے ہیں پھر سند میں نقصان دیکھ کر ایکدست اس سے دست کش ہونا کس عقل کا مقتضی ہے کیا معلوم اگر وہ بات سچی تھی تو خود فضیلت سے محروم رہے اور جھُوٹی ہوتو فعل میں اپنا کیا نقصان

 

فافھم وتثبت ولاتکن من المتعصبین

 

 (اسے اچھی طرح سمجھ لے اس پر قائم راہ اور تعصب کرنے والوں سے نہ ہو۔ ت) انصاف کیجئے مثلاً کسی کو نقصان حرارت عزیزی وضعف ارواح کی شکایت شدید ہو زید اس سے بیان کرے کہ فلاں حکیم حاذق نے اس مرض کے لئے سونے کے ورق سونے کے کھرل میں سونے کی موصلی سے عرق بید مشک یا ہتھیلی پر انگلی سے شہد میں سحق بلیغ کرکے پینا تجویز فرمایا ہے تو عقلی سلیم کا اقتضا نہیں کہ جب تک اُس حکیم تک سند صحیح متصل کی خوب تحقیقات نہ کرلے اس کا استعمال طباً حرام جانے، بس اتنا دیکھنا کافی ہے کہ اصولِ طبیہ میں میرے لئے اس میں کچھ مضرت تو نہیں ورنہ وہ مریض کہ نسخہ ہائے قرابادین کی سندیں ڈُھوڈتا اور حالِ رواۃ تحقیق کرتا پھرے گا قریب ہے کہ بے عقلی کے سبب اُن ادویہ کے فوائد ومنافع سے محروم رہے گا نہ عراق تنقیح سے تریاق تصحیح ہاتھ آئے گا نہ یہ مارگزیدہ دوا پائیگا، بعینہ یہی حال ان فضائل اعمال کا ہے جب ہمارے کان تک یہ بات پہنچی کہ اُن میں ایسا نفع ذکر کیا گیا اور شرع مطہر نے ان افعال سے منع نہ کیا، تو اب ہمیں تحقیق محدثانہ کیا ضرور ہے اگر حدیث فی نفسہٖ صحیح ہے فبہا ورنہ ہم نے اپنی نیک نیت کا اچھا پھل پایا،ھل تربصون بنا الااحدی الحسنیین ۱؎ (تم ہم پر کس چیز کا انتظار کرتے ہو مگر دو۲ خوبیوں میں سے ایک کا۔ ت)

 

 (۱؎ القرآن    ۹/ ۵۲)

 

افادہ بستم۲۰ :(حدیث ضعیف احکام میں بھی مقبول ہے جبکہ محلِ احتیاط ہو) مقاصد شرع کا عارف اور کلماتِ علما کا واقف جب قبول ضعیف فی الفضائل کے دلائل مزکورہ عبارات سابقہ فتح المبین امام ابن حجر مکی وانموذج العلوم محقق دوانی وقوت القلوب امام مکی رحمہم اللہ تعالٰی ونیز تقریر فقیر مذکور افادہ سابقہ پر نظر صحیح کرے گا

 

ان انوار متجلیہ کے پر توسے بطور حدس بے تکلّف اُس کے آئینہ دل میں مرتسم ہوگا کہ کچھ فضائل اعمال ہی میں انحصار نہیں بلکہ عموماً جہاں اُس پر عمل میں رنگ احتیاط ونفع بے ضرر کی ضرورت نظر آئے گی بلاشبہہ قبول کی جائے گی جانب فعل میں اگر اس کا ورود استحباب کی راہ بتائے گا جانب ترک میں تنزع وتورع کی طرف بلائے گا کہ آخر مصطفی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا:کیف وقدقیل ۱؎۔ (کیونکہ نہ مانے گا حالانکہ کہا تو گیا) رواہ البخاری عن عقبۃ بن الحارث النوفلی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (اسے امام بخاری نے عقبہ بن حارث نوفلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؎ صحیح البخاری    کتاب العلم باب الرحلۃ فی المسألۃ النازلۃ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۹)

 

اقول وقال صلی اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم دع مایربک الی مایریبک ۲؎۔اقول رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس میں شبہہ پڑتا ہو وہ کام چھوڑدے اور ایسے کی طرف آ جس میں کوئی دغدغہ نہیں''۔

 

رواہ الامام احمد وابوداود الطیالسی والدارمی والترمذی وقال ''حسن صحیح'' والنسائی وابن حبان والحاکم ''وصححاہ'' وابن قانع فی معجمہ عن الامام ابن الامام سیدنا الحسن بن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما بسند قوی وابو نعیم فی الحلیۃ والخطیب فی التاریخ بطریق مالک عن نافع عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔اسے امام احمد، ابوداود طیالسی، دارمی، ترمذی، نے روایت کیا اور اسے حسن صحیح کہا۔ نسائی، ابن حبان اور حاکم ان دونوں نے اسے صحیح کہا۔ ابن قانع نے اپنی معجم میں امام ابن امام سیدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہما نے سند قوی کے ساتھ روایت کیا۔ ابونعیم نے حلیہ اور خطیب نے تاریخ میں بطریق مالک عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما روایت کیا۔ (ت)

 

 (۲؎ مسند احمد بن حنبل    مسند اہلبیت رضوان اللہ علیہم اجمعین    مطبوعہ  دارالفکر بیروت        ۱/ ۲۰۰)

 

ظاہر ہے کہ حدیث ضعیف اگر مورثِ ظن نہ ہو مورث شبہہ سے تو کم نہیں تو محلِ احتیاط میں اس کا قبول عین مراد شارع صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مطابق ہے، احادیث اس باب میں بکثرت ہیں، از انجملہ حدیث اجل واعظم کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:من اتقی الشبھات فقد استبرأ لدینہ وعرضہ ومن وقع فی الشھبات وقع فی الحرام کالراعی حول الحمی یوشک ان ترتع فیہ الاوان لکل ملک حمی الاوان حمی اللّٰہ محاورمہ ۱؎۔

 

جو شبہات سے بچے اُس نے اپنے دین وآبرو کی حفاظت کرلی اور جو شبہات میں پڑے حرام میں پڑ جائے گا جیسے

رمنے کے گرد چرانے والا نزدیک ہے کہ رمنے کے اندر چرائے، سُن لو ہر پادشاہ کا ایک رمنا ہوتا ہے، سُن لو اللہ عزوجل کا رمنا وہ چیزیں ہیں جو اس نے حرام فرمائیں۔رواہ الشیخان عن النعمان بن بشر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔اسے بخاری ومسلم دونوں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ (ت)

 

 (۱؎ صحیح البخاری    باب فصل من استبرأ لدینہ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ص۱۳

مسلم شریف    باب اخذ الحلال وترک الشبہات    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۲۸)

 

امام ابنِ حجر مکّی نے فتح المبین میں ان دونوں حدیثوں کی نسبت فرمایا :رجوعھما الٰی شیئ واحد وھو النھی التنزیھی عن الوقوع فی الشھبات ۲؎۔یعنی حاصل مطلب ان دونوں حدیثوں کا یہ ہےکہ شبہہ کی بات میں پڑنا خلافِ اولٰی ہےجس کا مرجع کراہت تنزیہ۔

 

 (۲؎ فتح المبین شرح اربعین    )

 

اللہ عزوجل فرماتا ہے :ان یک کاذبا فعلیہ کذبہ وان یک صادقا یصبکم بعد الذی یعدکم ۳؎۔اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھُوٹ کا وبال اس پر ہے اور اگر سچّا ہوا تو تمہیں پہنچ جائے گی کچھ نہ کچھ وہ مصیبت جس کا وہ تمہیں وعدہک دیتا ہے۔

 

  (۳؎ القرآن        ۴۰ /۲۸)

 

بحمداللہ تعالٰی یہ معنی ہیں ارشاد امام ابوطالب مکی قدس سرہ، کے قوت القلوب عہ  شریف میں فرمایا:ان الاخبار الضعاف غیر مخالفۃ الکتاب والسنۃ لایلزمنا ردھا بل فیھا مایدل علیھا ۴؎۔ضعیف حدیثیں جو مخالفِ کتاب وسنّت نہ ہوں اُن کا رَد کرنا ہمیں لازم نہیں بلکہ قرآن وحدیث اُن کے قبول پر دلالت فرماتے ہیں ۔

 

عہ:فی فصل الحادی والثلثین ۱۲ منہ (م)

اکتیسویں فصل میں اس کا بیان ہے۔ (ت)

 

 (۴؎ قوت القلوب     باب تفضیل الاخبار الخ    مطبوعہ دارصادر بیروت        ۱/ ۱۷۷)

 

لاجرم علمائے کرام نے تصریحیں فرمائیں کہ دربارہ احکام بھی ضعیف حدیث مقبول ہوگی جبکہ جانب احتیاط

میں ہو، امام نووی نے اذکار میں بعد عبادت مذکور پھر شمس سخاوی نے فتح المغیث پھر شہاب خفاجی نے نسیم الریاض  (عہ۱) میں فرمایا:

 

اما الاحکام کالحلال والحرام والبیع والنکاح والاطلاق وغیر ذلک فلایعمل فیھا الا بالحدیث الصحیح اوالحسن الاان یکون فی احتیاط فی شیئ من ذلک کما اذا ورد حدیث ضعیف بکراھۃ بعض البیوع او الا نکحۃ فان المستحب ان یتنزہ عنہ ولکن لایجب ۱؎۔یعنی محدثین وفقہا وغیرہم علما فرماتے ہیں کہ حلال وحرام بیع نکاح طلاق وغیرہ احکام کے بارہ میں صرف حدیث صحیح یا حسن ہی پر عمل کیا جائیگا مگر یہ کہ ان مواقع میں کسی احتیاطی بات میں ہو جیسے کسی بیع یا نکاح کی کراہت میں حدیث ضعیف آئے تو مستحب ہے کہ اس سے بچیں ہاں واجب نہیں۔

 

عہ ۱ : فی شرح اخطبۃ حیث اسند الامام المصنّف حدیث من سئل عن علم فکتمہ الحدیث ۱۲ منہ

 

 (۱؎ نسیم الریاض شرح الشفاء        تتمہ وفائدۃ مہمہ فی شرح الخطبۃ    مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۱/ ۴۲)

 

امام جلیل جلال سیوطی تدریب میں فرماتے ہیں :ویعمل بالضعیف ایضا فی الاحکام اذاکان فیہ احتیاط ۲؎۔حدیث ضعیف پر احکام میں بھی عمل کیا جائیگا جبکہ اُس میں احتیاط ہو۔

 

 (۲؎ تدریب الراوی شرح تقریب النواوی  النوع الثانی والعشرون المقلوب  مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ بیروت ۱/  ۲۹۹)

 

علامہ حلبی غنیہ(عہ۲) میں فرماتے ہیں:الاصل ان الوصل بین الاذان والاقامۃ یکرہ فی کل الصلٰوۃ لماروی الترمذی عن جابر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قال لبلال اذا انت فترسل واذا اقمت فاحد رواجعل بین اذانک واقامتک قدر مایفرغ الاکل من اکلہ فی غیر عہ۳  المغرب والشارب من شربہ والمعتصر اذادخل لقضاء حاجتہ وھو وان کان ضعیفا لکن یجوز العمل بہ فی مثل ھذا الحکم ۱؎۔یعنی اصل یہ ہے کہ اذان کہتے ہی فوراً اقامت کہہ دینا مطلقا سب نمازوں میں مکروہ ہے اس لئے کہ ترمذی نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا اذان ٹھہر ٹھہر کر کہا کر اور تکبیر جلد جلد اور دونوں میں اتنا فاصلہ رکھ کر کھانیوالا کھانے سے (مغرب کے علاوہ میں) اور پینے والا پینے اور ضرورت والا قضائے حاجت سے فارغ ہوجائے، یہ حدیث اگرچہ ضعیف عہ۱ ہے مگر ایسے حکم میں اس پر عمل روا ہے۔

 

عہ ۲ : فی فصل سنن الصلاۃ ۱۲ منہ

عہ ۳ : قولہ فی غیر المغرب ھکذا ھو فی نسختی الغنیۃ ولیس عند الترمذی بل ھو مدرج فیہ نعم ھو تاویل من العلماء کماقال فی الغنیۃ بعد مانقلنا قالوا قولہ قدر مایفرغ الاکل من اکلہ فی غیر المغرب ومن شربہ فی المغرب ۱۲ منہ

عہ۱ : امام ترمذی نے فرمایا: ھو اسناد مجھول (یہ سند مجہول ہے) ۱۲ منہ (م)

 

 (۱؎ غنیۃ المستملی        فصل سنن الصلاۃ    مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور    ص۷۷۔ ۳۷۶)

 

نفیسہ (بُدھ کے دن بدن سے خون لینے کے باب میں) ایک حدیث ضعیف میں بُدھ کے دن پچھنے لگانے سے ممانعت آئی ہے کہ:من احتجم یوم الاربعاء ویوم السبت فاصابہ برص فلایلومن الانفسہ ۲؎۔جو بُدھ یا ہفتہ کے روز پچھنے لگائے پھر اُس کے بدن پر سپید داغ ہوجائے تو اپنے ہی آپ کو ملامت کرے۔

 

 (۲؎ الکامل لابن عدی    من ابتدئ اسمہ عین عبداللہ ابن زیاد    مطبوعہ المکتبۃ الاثریہ شیخوپورہ    ۴/ ۱۴۴۶)

 

امام سیوطی لآلی عہ۲  وتعقبات عہ۳  میں مسند الفردوس دیلمی سے نقل فرماتے ہیں:سمعت ابی یقول سمعت ابا عمرو محمد بن جعفر بن مطر النیسابوری قال قلت یوما ان ھذا الحدیث لیس بصحیح فافتصدت یوم الاربعاء فاصابنی البرص فرأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی النوم فشکوت الیہ حالی فقال ایاک والاستھانۃ بحدیثی فقلت تبت یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فانتھبت وقدعا فانی اللّٰہ تعالٰی وذھب ذلک عنی ۱؎ ۔

 

ایک صاحب محمد بن جعفر بن مطر نیشاپوری کو فصد کی ضرورت تھی بُدھ کا دن تھا خیال کیا کہ حدیث مذکور تو صحیح نہیں فصد لے لی فوراً برص ہوگئی، خواب میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے حضور سے فریاد کی، حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:ایاک والاستھانۃ بحدیثی ۳؎ (خبردار میری حدیث کو ہلکانہ سمجھنا) انہوں نے توبہ کی، آنکھ کھُلی تو اچھے تھے۔

 

عہ ۲ : اواخر کتاب المرض والطب ۱۲ منہ (م)    کتاب المرض والطب کے آخر میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

عہ ۳ : باب الجنائز ۱۲ منہ (م)       باب الجنائز میں اس کو بیان کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ    کتاب المرض والطب     مطبوعہ ادبیہ مصر        ۳/ ۲۱۹)

 

جلیلہ (ہفتہ کے دن خون لینے کے بارے میں) امام ابن عساکر روایت فرماتے ہیں ابو معین حسین بن حسن طبری نے پچھنے لگانے چاہے، ہفتہ کا دن تھا غلام سے کہا حجام کو بُلالا، جب وہ چلا حدیث یاد آئی پھر کچھ سوچ کر کہا حدیث میں تو ضعف ہے، غرض لگائے، برص ہوگئی، خواب میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فریاد کی، فرمایا:ایاک والاستھانۃ بحدیثی(دیکھ میری حدیث کا معاملہ آسان نہ جاننا)

 

اُنہوں نے منّت مانی اللہ تعالٰی اس مرض سے نجات دے تو اب کبھی حدیث کے معاملہ میں سہل انگاری نہ کروں گا صحیح ہو یا ضعیف، اللہ عزوجل نے شفا بخشی ۲؎۔

 

 (۱؎ اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ    کتاب المرض والطب    مطبعہ ادبیہ مصر    ۲/ ۲۱۹)

 

لآلی  (عہ۱)  میں ہے : اخرج ابن عساکر فی تاریخہ من طریق ابی علی مھران بن ھارون الحافظ الھازی قال سمعت ابامعین الحسین بن الحسن الطبری یقول اردت الحجامۃ یوم السبت فقلت للغلام ادع لی الحجام فلما ولی الغلام ذکرت خبر النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من احتجم یوم السبت  ویوم الاربعاء فاصابہ وضح فلایلو من الا نفسہ قال فدعوت الغلام ثم تفکرت فقلت ھذا حدیث فی اسنادہ بعض الضعف فقلت للغلام ادع الحجام لی فدعاہ، فاحتجمت فاصا بنی البرص، فرأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی النوم فشکوت الیہ حالی فقال ایاک والاستھانۃ بحدیثی فنذرت للّٰہ نذرا لئن اذھب اللّٰہ مابی من البرص لم اتھاون فی خبر النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم صحیحا کان اوسقیمافأذھب اللّٰہ عنی ذلک البرص ۲؎۔

 

 (نوٹ: اس عربی عبارت کا ترجمہ لفظ 'جلیلہ' سے شروع ہوکر عربی عبارت سے پہلے ختم ہوجاتا ہے)

عہ:  تلومامر ۱۲ منہ (م)          لآلی میں اس عبارت کے قریب جو پہلے گزرچکی ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ    کتاب المرض والطب    مطبعہ ادبیہ مصر    ۲/ ۲۱۹)

 

مفیدہ (بُدھ کے دن ناخن تراشنے کے امر میں) یوں ہی ایک حدیث ضعیف میں بُدھ کے دن ناخن کتروانے کو آیا کہ مورثِ برص ہوتا ہے، بعض علما نے کتروائے، کسی نے بربنائے حدیث منع کیا، فرمایا حدیث صحیح نہیں فوراً مبتلا ہوگئے، خواب میں زیارت جمال بے مثال حضور پُرنور محبوب ذی الجلال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مشرف ہُوئے، شافی کافی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حضور اپنے حال کی شکایت عرض کی، حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا تم نے نہ سُنا تھا کہ ہم نے اس سے نفی فرمائی ہے؟ عرض کی حدیث میرے نزدیک صحت کو نہ پہنچی تھی۔ ارشاد ہوا: تمہیں اتنا کافی تھا کہ حدیث ہمارے نام پاک سے تمہارے کان تک پہنچی۔ یہ فرماکر حضور مبرئ الاکمہ والا برص محی الموتٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنا دست اقدس کو پناہِ دوجہان ودستگیر بیکساں ہے، ان کے بدن پر لگادیا، فوراً اچھے ہوگئے اور اُسی وقت توبہ کی کہ اب کبھی حدیث سُن کر مخالفت نہ کرونگا۔ (اھ)

 

علّامہ شہاب الدین خفاجی مصری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نسیم الریاض شرح شفا امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں:''قص الاظفار وتقلیمھا سنۃ رورد النھی عنہ فی یوم الاربعا ع وانہ یورث البرص، وحکی عن بعض العلماء انہ فعلہ فنھی عنہ فقال لم یثبت ھذا فلحقہ البرص من ساعتہ فرای النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی منامہ فشکی الیہ فقال لہ الم تسمع نھیی عنہ، فقال لم یصح عندی، فقال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یکفیک انہ سمع، ثم مسح بدنہ بیدہ الشریفۃ، فذھب مابہ فتاب عن مخالفۃ ماسمع ۱؎ اھ''۔

 

 (نوٹ: اس عربی عبارت کا ترجمہ 'مفیدہ' ص ۴۹۹ سے شروع ہوکر عربی عبارت سے ختم ہوجاتا ہے)

 

 (۱؎ نسیم الریاض شرح الشفا    فصل واما نظافۃ جسمہ    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۱/ ۳۴۴)

 

یہ بعض علماء امام علّامہ ابن الحاج مکی مالکی قدس اللہ سرہ العزیز تھے علامہ طحطاوی حاشیہ درمختار میں فرماتے ہیں:وردفی بعض الاٰثار النھی عن قص الاظفار یوم الاربعاء فانہ یورث وعن ابن الحاج صاحب المدخل انہ ھم بقص اظفارہ یوم الاربعاء، فتذکر ذلک، فترک، ثم رای ان قص الاظفار سنۃ حاضرۃ، ولم یصح عندہ النھی فقصھا، فلحقہ ای اصابہ البرص، فرأی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی النوم فقال الم تسمع نھیی عن ذلک، فقال ''یارسول اللّٰہ لم یصح عندی ذلک'' فقال یکفیک ان تسمع، ثم مسح صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم علی بدنہ فزال البرص جمیعا، قال ابن الحاج رحمہ اللّٰہ تعالٰی فجددت مع اللّٰہ توبۃ انی لااخالف ماسمعت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ابداً ۱؎۔

 

بعض آثار میں آیا ہے کہ بدھ کے دن ناخن کتروانے والے کو برص کی بیماری عارض ہوجاتی ہے اور صاحبِ مدخل ابن الحاج کے بارے میں ہے کہ انہوں نے بدھ کے روز ناخن کاٹنے کا ارادہ کیا، انہیں یہ نہیں والی بات یاد دلائی گئی تو انہوں نے اسے ترک کردیا پھر خیال میں آیا کہ ناخن کتروانا سنّتِ ثابتہک ہے اور اس سے نہی کی روایت میرے نزدیک صحیح نہیں۔ لہذا انہوں نے ناخن کاٹ لیے تو انہیں برص عارض ہوگیا تو خواب میں نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت ہُوئی سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تُونے نہیں سُنا کہ میں نے اس سے منع فرمایا ہے؟ عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم! وہ حدیث میرے نزدیک صحیح نہ تھی، تو آپ نے فرمایا کہ تیرا سُن لینا ہی کافی ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے جسم پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو تمام برص زائل ہوگیا۔ ابن الحاج کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالٰی کے حضور اس بات سے توبہ کی کہ آئندہ جو حدیث بھی نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سُنوں گا اس کی مخالفت نہیں کروں گا۔ (ت)

 

 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    فصل فی البیع    مطبوعہ  دارالمعرفۃ بیروت لبنان    ۴ /۲۰۲)

 

سُبحان اللہ! جب محلِ احتیاط میں احادیث ضعیفہ خود احکام میں مقبول ومعمول، تو فضائل تو فضائل ہیں، اور ان فوائد نفیسہ جلیلہ مفیدہ سے بحمداللہ تعالٰی عقل سلیم کے نزدیک وہ مطلب بھی روشن ہوگیا کہ ضعیف حدیث اُس کی غلطی واقعی کو مستلزم نہیں۔ دیکھو یہ حدیثیں بلحاظِ سند کیسی ضعاف تھیں اور واقع میں اُن کی وہ شان کہ مخالفت کرتے ہیں فوراً تصدیقیں ظاہر ہُوئیں، کاش منکر اِن فضائل کو بھی اللہ عزوجل تعظیم حدیث مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی توفیق بخشے اور اُسے ہلکا سمجھنے سے نجات دے، آمین!

 

افادہ بست۲۱ ویکم (حدیث ضعیف پر عمل کے لئے خاص اُس باب میں کسی صحیح حدیث کا آنا ہر گز ضرور نہیں) بذریعہ حدیث ضعیف کسی فعل کے لئے محلِ فضائل میں استحباب یا موضع احتیاط میں حکم تنزہ ثابت کرنے کے لئے زنہار زنہار اصلاً اس کی حاجت نہیں کہ بالخصوص اس فعل معین کے باب میں کوئی حدیث صحیح بھی وارد ہوئی ہو، بلکہ یقینا قطعاً صرف ضعیف ہی کا درود ان احکام استحباب وتنزہ کے لئے ذریعہ کافیہ ہے، افادات سابقہ کو جس نے ذرا بھی بگوش ہوش استماع کیا ہے اُس پر یہ امر شمس وامس کی طرح واضح وروشن۔ مگر ازانجا کہ مقام مقام افادہ ہے ایضاحِ حق کے لئے چند تنبیہات کا ذکر مستحسن۔

اوّلاً کلمات علمائے کرام میں باآنکہ طبقہ فطبقۃ اُس جوش وکثرت سے آئے، اس تقیید بعید کا کہیں نشان نہیں تو خواہی نخواہی مطلق کو ازپیش خویش مقید کرلینا کیونکر قابل قبول۔

ثانیا بلکہ ارشاداتِ علما صراحۃً اس کے خلاف، مثلاً عبارت اذکار وغیرہا خصوصاً عبارت امام ابن الہمام جو نص تصریح ہے کہ ثبوتِ استحباب کو ضعیف حدیث کافی۔

 

اقول بلکہ خصوصاً اذکار کا وہ فقرہ کہ اگر کسی مبیع یا نکاح کی کراہت میں کوئی حدیث ضعیف آئے تو اس سے بچنا مستحب ہے واجب نہیں ۔ اس استحباب وانکار وجوب کا منشا وہی ہے کہ اُس سے نہی میں حدیث صحیح نہ آئی کہ وجوب ہوتا، تنہا ضعیف نے صرف استحباب ثابت کیا اور سب اعلٰی واجل کلام امام ابوطالب مکی ہے اس میں تو بالقصد اس تقیید جدید کا رد صریح فرمایا ہے کہ ''وان لم یشھد الہ'' (اگرچہ کتاب وسنّت اس خاص امر کے شاہد نہ ہوں)

ثالثا علمائے فقہ وحدیث کا عملدرآمد قدیم وحدیث اس قید کے بطلان پر شاہد عدل، جابجا انہوں نے احادیث ضعیفہ سے ایسے امور میں استدلال فرمایا ہے جن میں حدیث صحیح اصلاً مروی نہیں۔

اقول مثلاً:   (۱)    نماز نصف شعبان کی نسبت علی قاری۔

(۲)    صلاۃ التسبیح کی نسبت برتقدیر تسلیم ضعف وجہالت امام زرکشی وامام سیوطی کے اقوال افادہ دوم میں گزرے۔

(۳)     نماز میں امامت اتقی کی نسبت امام محقق علی الاطلاق کا ارشاد افادہ شانزدہم میں گزرا وہاں اس تقیید کے برعکس حدیث ضعیف پر عمل کو فقدانِ صحت سے مشروط فرمایا ہے:قال روی ا لحاکم عنہ علیہ الصلاۃ والسلام ان سرکم ان تقبل صلاتکم فلیؤمکم خیار کم فان صح والا فالضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل الاعمال  ۱؎۔حاکم نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ذکر کیا ہے کہ اگر تم یہ پسند کرتے کہ تمہاری نمازیں قبول ہوجائیں تو تم اپنے میں سے بہتر شخص کو امام بناؤ۔ اگر یہ روایت صحیح ہے ورنہ یہ ضعیف ہے موضوع نہیں اور فضائلِ اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کیا جاتا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ فتح القدیر    باب الامامۃ        مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۳۰۳)

 

(۴)    نیز امام ممدوح نے تجہیز وتکفین قریبی کافر کے بارہ میں احادیث ذکر کیں کہ جب ابوطالب مرے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سیدنا مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حکم فرمایا کہ اُنہیں نہلاکر دفن کرائیں پھر خود غسل کرلیں بعدہ غسل میت سے غسل کی حدیثیں نقل کیں، پھر فرمایا:لیس فی ھذا ولافی شیئ من طرق علی حدیث صحیح، لکن طرق حدیث علی کثیرۃ والاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع ۲؎۔ان دونوں باب میں کوئی حدیث صحیح نہیں مگر حدیث علی کے طرق کثیر میں اور استحباب حدیث ضعیف غیر موضوع سے ثابت ہوجاتا ہے۔

 

 (۲؎فتح القدیر    فصل فی الصلاۃ علی المیت    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۲ /۹۵)

 

غسل کے بعد استحباب مندیل کی نسبت علّامہ ابراہیم حلبی۔

(۶)    تائید اباحت کی نسبت امام ابن امیرالحاج۔

(۷)    استحباب مسح گردن کی نسبت مولانا علی مکّی۔

(۸)    استحباب تلقین کی نسبت امام ابن الصلاح وامام نووی وامام سیوطی کے ارشادات افادہ ہفدہم۔

(۹)    کراہت وصل بین الاذان والاقامت کی نسبت علامہ حلبی کلام۔

(۱۰)    بدھ کو ناخن تراشنے کی نسبت خود نسیم الریاض وطحاوی کے اقوال افادہ بستم میں زیور گوش سا معین ہوئے۔

یہ دس۱۰ تو یہیں موجود ہیں اور خوفِ اطالت نہ ہوتو سو۱۰۰ دوسو۲۰۰ ایک ادنٰی نظر میں جمع ہوسکتے ہیں، مگر ایضاح واضح میں اطناب تاکے۔

 

رابعاً، اقول نصوص واحادیث مذکورہ افادات ہفدہم وبستم کو دیکھئے کہیں بھی اس قید بے معنی کی مساعدت فرماتے ہیں؟ حاشا بلکہ باعلی ندا اُس کی لغویات بتاتے ہیںکمالایخفی علی اولی النھی(جیسا کہ صاحبِ عقل لوگوں پر مخفی نہیں۔ ت)

 

خامساً، اقول وباللہ التوفیق اس شرط زائد کا اضافہ اسل مسألہ اجماعیہ کو محض لغو ومہمل کردے گا کہ اب حاصل یہ ٹھہرے گا کہ احکام میں تو مقتضائے حدیث ضعیف پر کاربندی اصلاً جائز نہیں اگرچہ وہاں حدیث صحیح موجود ہو اور ان کے غیر میں بحالت موجود صحیح صحیح ورنہ قبیح۔

 

اوّلا اس تقدیر پر عمل بمقتضی الضعیف من حیث ہو مقتضی الضعیف ہوگا یا من حیث ہو مقتضی الصحیح، ثانی قطعاً احکام میں بھی حاصل اور تفرقہ زائل، کیا احکام میں درود ضعیف صحاح ثابتہ کو بھی رَد کردیتا ہے؟ھذا لایقول بہ جاھل (اس کا قول کوئی جاہل بھی نہیں کرسکتا۔ ت) اور اول خود شرط سے رجوع یا قول بالمتنافیین ہوکر مدفوع کہ جب مصحح عمل درود صحیح ہے تو اس سے قطع نظر ہوکر صحت کیونکر!

ثانیا اگر صحیح نہ آتی ضعیف بیکار تھی آتی تو وہی کفایت کرتی بہرحال اس کا وجود عدم یکساں پھر معلوم بہ ہونا کہاں!ثالثاً بعبارۃ اخری اظھر واجلی(ایک دوسری عبارت کے ساتھ زیادہ ظاہر وواضح ہے۔ ت) حدیث پر عمل کے یہ معنی کہ یہ حکم اس سے ماخوذ اور اُس کی طرف مضاف ہوکہ اگر نہ اُس سے لیجئے نہ اُس کی طرف اسناد کیجئے تو اس پر عمل کیا ہوا، اور شک نہیں کہ خود صحیح کے ہوتے ضعیف سے اخذ اور اس کی طرف اضافت چہ معنی، مثلاً کوئی کہے چراغ کی روشنی میں کام کی اجازت تو ہے مگر اس شرط پر کہ نورِ آفتاب بھی موجود ہو۔ سبحان اللہ جب مہر نیمروز خود جلوہ افروز تو چراغ کی کیا حاجت اور اس کی طرف کب اضافت! اسے چراغ کی روشنی میں کام کرتا کہیں گے یا نورِ شمس میں! ع

 

آفتاب اندر جہاں آنگہ کہ میجوید سہا

 

 (جب جہاں میں آفتاب ہوتو سہا (ستارہ) ڈھونڈنے سے کیا فائدہ!)

لاجرم معنی مسئلہ یہی ہیں کہ حدیث ضعیف احکام میں کام نہیں دیتی اور دوبارہ فضائل کافی ووافی۔

 

 (تحقیق المقام وازاحۃ الاوھام)                                                                            (تحقیق مقام وازالہ اوھام)

ثمّ اقول تحقیق المقام وتنقیح المرام بحیث یکشف الغمام ویصرّف الاوھام، ان المسألۃ تدوربین العلماء بعبارتین العمل والقبول اما العمل بحدیث، فلایعنی بہ الا امتثال مافیہ تعویلا علیہ والجری علی مقتضاہ نظر الیہ ولابد من ھذا القید الاتری ان لوتوافق حدیثان صحیح وموضوع علی فعل ففعل للامر بہ فی الصحیح، لایکون ھذا عملا علی الموضوع، واما القبول فھووان احتمل معنی الروایۃ من دون بیان الضعف، فیکون الحاصل ان الضعیف یجوز روایتہ فی الفضائل مع السکوت عمافیہ دون الاحکام لکن ھذا المعنی علی تقدیر صحۃ انما یرجع الی معنی العمل کیف ولامنشاء لایجاب اظھارالضعف فی الاحکام الا التحذیر عن العمل بہ حیث لایسوغ فلولم یسغ فی غیرھا ایضا لکان ساوٰھا فی الایجاب فدار الامر فی کلتا العبارتین الی تجویز المشی علی مقتضی الضعاف فی مادون الاحکام فاتضح ماستدللنا بہ خامسا وانکشف الظلام ھذا ھو التحقیق بیدان ھھنا رجلین من اھل العلم زلت اقدام اقلامھما فحملا العمل والقبول علی مالیس بمراد ولاحقیقا بقبول۔

 

ثمّ اقول اب ہم تحقیق مقام اور وضاحتِ مقصد کیلئے ایسی گفتگو کرتے ہیں جس سے پردے ہٹ جائیں اور شکوک وشبہات ختم ہوجائیں گے اور وہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں علماء دو۲ طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں عمل اور قبول، عمل بالحدیث سے مراد یہ ہے کہ اس حدیث پر اعتماد کرتے ہُوئے اور اس کے مقتضٰی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس میں مذکور حکم کو بجالایا جائے، اس قید کا اضافہ ضروری ہے اس لئے کہ آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ کسی فعل کے متعلق حدیث صحیح اور حدیث موضوع دونوں اگر موافق ہوں اور فعل کو بجالانے والا حدیث صحیح کو پیش نظر رکھتے ہوئے عمل کرے تو اب موضوع ہر عمل نہ ہوگا قبول بالحدیث پر ہے کہ اگرچہ ضعف بیان کئے بغیر روایت کے معنی کا احتمال ہوتو اس کا حاصل یہ ہوگا کمہ ضعیف میں جو کمزوری ہے اس پر سکوت کرتے ہوئے فضائل میں اس کی روایت کرنا جائز ہے لیکن احکام میں نہیں، اگر قبول بالحدیث کا یہی معنی صحیح ہوتو یہ معنی عمل بالحدیث ہی کی طرف لوٹ جاتا ہے، کیسے؟ وہ ایسے کہ احکام کے بارے میں مروی روایات کے ضعف کو بیان کرنا اس لئے واجب وضروری ہے کہ اس پر عمل سے روکا جائے کہ احکام میں ہر چیز جائز نہیں پھر اگر غیر احکام میں بھی یہ چیز جائز نہ ہوتو ایجاب میں فضائل واحکام دونوں برابر ہوجائیں گے۔ خلاصہ یہ کہ دونوں عبارتوں میں اس امر پر دلیل کے غیر احکام میں ضعیف حدیثوں پر عمل کرنا جائز ہے

 

اب ہمارا پانچواں استدلال واضح ہوگیا اور تاریکی کھُل گئی اور تحقیق یہی ہے۔ علاوہ ازیں یہاں دو۲ اہلِ علم ایسے ہیں جن کے قلم کے قدم پھسل گئے، انہوں نے عمل بالحدیث اور قبول بالحدیث کو ایسے معنی پر محمول کیا ہے جو مراد اور قابل قبول نہیں۔ (ت)

 

احدھما العلامۃ الفاضل الخفاجی رحمہ اللّٰہ تعالٰی حیث حاول الرد علی المحقق الدوانی واوھم بظاھر کلامہ ان محلہ مااذاروی حدیث ضعیف فی ثواب بعض الامور الثابت استجابھا والترغیب فیہ اوفی فضائل بعض الصحابۃ اوالاذکار الماثورۃ قال ولاحاجۃ الی لتخصیص الاحکام والاعمال کماتوھم للفرق الظاھر بین الاعمال وفضائل الاعمال ۱؎ اھ

 

ان میں سے ایک علّامہ خفاجی رحمہ اللہ تعالٰی ہیں انہوں نے محقق دوانی کے رَدکا ارادہ کیا اور انہیں ان کے کلام کے ظاہر سے وہم ہوگیا کہ اس کا محل وہ ہے جب حدیث ضعیف ان امور کے ثواب کے بارے میں وارد ہو جن کا استحباب ثابت ہو اور اس میں ثواب کی رغبت ہویا بعض صحابہ کے فضائل یا اذکار منقولہ کے بارے میں ہوکہا: حکام واعمال کی تخصیص کی ضرورت ہی نہیں جیسا کہ وہم کیاگیا کیونکہ اعمال اور فضائل اعمال میں فرق ظاہر ہے اھ

 

 (۱؎ نسیم الریاض    تتمۃ وفاعدۃ مہمۃ فی الخطبۃ    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۱/ ۴۳)

اقول لولا ان الفاضل المدقق خالف المحقق لکان لکلامہ معنی صحیح، فان الثبوت اعم من الثبوت عینا اوباندراج تحت اصل عام ولواصالۃ الاباحۃ فان المباح یصیر بالنیۃ مستحبا ونحن لاننکران قبول الضعاف مشروط بذٰلک کیف ولولاہ لکان فیہ ترجیح الضعیف علی الصحیح وھوباطل وفاقا، فلواراد الفاضل ھذا المعنی لاصاب ولسلم من التکرار فی قولہ اوالاذکار الماثورۃ لکنہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی بصدد مخالفۃ المحقق المرحوم وقدکان المحقق انما عول علی ھذا المعنی الصحیح حیث قال المباحات تصیر بالنیۃ عبادۃ فکیف مافیہ شبھۃ الاستحباب لاجل الحدیث الضعیف والحاصل ان الجواز معلوم من خارج والاستحباب ایضا معلوم من القواعد الشرعیۃ الدالۃ علی استحباب الاحتیاط فی امرالدین فلم یثبت شیئ من الاحکام بالحدیث الضعیف بل اوقع الحدیث شبھۃ الاستحباب فصار الاحتیاط ان یعمل بہ فاستحباب الاحتیاط معلوم من قواعد الشرع ۱؎ اھ ملخصا فالظاھر من عدم ارتضائہ انہ یرید الثبوت عینا بخصوصہ ویؤیدہ تشبثہ بالفرق بین الاعمال وفضائلھا فان ارادہ فھذہ جنود براھین لاقبل لاحدبھا وقداتاک بعضھا۔

 

 (۱؎ انموذج العلوم للدوانی)

 

اقول کاش فاضل مدقق محقق دوانی کی مخالفت نہ کرتے تو ان کے کلام کا معنی درست ہوتا کیونکہ ثبوت بعض اوقات عینی ہوتا ہے اور بعض اوقات کسی عمومی اصل کے تحت ہوتا ہے اگرچہ اباحت کی اصل پر ہو کیونکہ مباح نیت سے مستحب ہوجاتا ہے اور ہم قبول ضعاف کو اس کے ساتھ مشروط ہونے کا انکار نہیں کرتے یہ کیسے ممکن ہے؟ اگر یہ بات نہ ہوتو اس میں ضعیف کو صحیح پر ترجیح لازم آتی اور وہ بالاتفاق باطل ہے، اگر فاضل مدقق بھی یہی مراد لیتے تو درست تھا اور اپنے قول ''اوالاذکار الماثورۃ'' کے تکرار سے محفوظ ہوجاتے، لیکن فاضل رحمۃ اللہ علیہ محقق کی مخالفت کے درپے تھے اور محقق نے اسی معنی صحیح پر اعتماد کیا تھا چنانچہ کہا کہ مباحات نیت سے عبادت قرار پاتے ہیں تو اس کا کیا حال ہوگا جس کے استحباب میں حدیث ضعیف کی وجہ سے شُبہہ ہو؟ حاصل یہ ہے کہ جواز خارج سے معلوم ہوتا ہے اور استحباب بھی ایسے قواعد شرعیہ سے معلوم ہوتا ہے جو امر دین میں احتیاطاً استحباب پر دال ہیں، پس احکام میں سے کوئی بھی حکم حدیث ضعیف سے ثابت نہ ہوگا بلکہ حدیث استحباب کا شبہہ پیدا کردے گی لہذا احتیاطاً اسی پر عمل کرنا ہوگااور احتیاطاً استحباب پر عمل قواعد شرع سے معلوم ہوا ہے اھ ملخصا ان کی عدم پسندیدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ثبوت سے مراد صرف عینی لیا ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ انہوں نے اس پر استدلال اعمال اور فضائل اعمال کے فرق سے کیا ہے اگر انہوں نے یہی مراد لیا ہے تو یہ دلائل کا انبار ہے جس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا اور بعض کا ذکر آپ تک پہنچ گیا۔ (ت)

 

عہ: ویکدرہ ایضا علی ماقیل مغایرۃ العلماء بین فضائل الاعمال والترغیب علی ماھو الظاھر من کلامھم فلفظ ابن الصلاح فضائل الاعمال وسائر فنون الترغیب والترھیب وسائر مالاتعلق لہ بالاحکام والعقائد ھذا توضیح ماقیل، اقول بل المراد بفضائل الاعمال الاعمال التی ھی فضائل تشھد بذلک کلمات العلماء المارۃ فی الافادۃ السابعۃ عشر کقول الغنیۃ والقاری والسیوطی وغیرھم کمالاینھی علی من لہ اولٰی مسکۃ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

اسے یہ بات بھی رد کرتی ہے کہ علماء کی عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ فضائلِ اعمال اور ترغیب ایک شَے نہیں، ابن صلاح کے الفاظ یہ ہیں کہ فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب کے معاملات اور وہ چیزیں جن کا تعلق احکام وعقائد سے نہیں ہے یہ ماقیل کی وضاحت ہے اقول (میں کہتا ہوں) بلکہ اس سے مراد وہ فضائلِ اعمال میں جن کی شہادت علماء کا کلام دیتا ہے جو کہ سترھویں۱۷ افادہ میں گزرا مثلاً غنیہ، قاری اور سیوطی وغیرہ کے اقوال اور یہ بات ہر اس شخص پر مخفی نہیں جس میں ادنٰی سا شعور ہو ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

علی انی اقول اذن یرجع معنی العمل بعد الاستقصاء التام الی ترجی اجر مخصوص علی عمل منصوص ای یجوز العمل بشیئ مستحب معلوم الاستحباب مترجیا فیہ بعض خصوص الثواب لورود حدیث ضعیف فی الباب، فالآن نسألکم عن ھذا الرجاء اھو کمثلہ بحدیث صحیح ان وردام دونہ، الاول باطل فان صحۃ الحدیث بفعل لایجبر ضعف ماوردفی الثواب المخصوص علیہ وعلی الثانی ھذا القدر من الرجاء یکفی فیہ الحدیث الضعیف فای حاجۃ الٰی ورود صحیح بخصوص الفعل نعم لابد ان یکون ممایجیز الشرع رجاء الثواب علیہ وھذا حاصل بالاندراج تحت اصل مطلوب اومباح مع قصد مندوب فقد استبان ان الوجہ مع المحقق الدوانی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

 

علاوہ ازیں میں کہتا ہوںانتہائے گفتگو کے بعد اب عمل کا معنی عمل منصوص پر اجر مخصوص کی امید دلانا ہے یعنی شیئ مستحب جس کا استحباب واضح ہے پر عمل کرنا اور اس میں خصوص ثواب کی امید کرنا جائز ہوگا اس لئے کہ اس بارے میں حدیث ضعیف موجود ہے اب ہم اس امید کے بارے میں تم سے پُوچھتے ہیں کیا یہ اسی رجاء کی مثل ہے جو حدیث صحیح کی وجہ سے ہوتی ہے اگر وہ وارد ہو یا اس سے کم درجہ کی ہے پہلی صورت باطل ہے کیونکہ صحتِ حدیث کسی ایسی روایت پر جابر نہیں ہوسکتی جو کسی مخصوص ثواب کے بیان کے لئے وارد ہو اور دوسری صورت میں اس قدر رجاء کے لئے حدیث ضعیف ہی کافی ہے تو اب کسی مخصوص فعل کے لئے حدیث صحیح کے وارد ہونے کی ضرورت نہ رہی، ہاں یہ بات ضروری ہے کہ وہ فعل ایسے اعمال میں سے ہوکہ شریعت نے اس پر ثواب کی امید دلائی ہو اور یہ حاصل ہے اصل مطلوب کے تحت اندراج کا یا مباح بقصد مندوب کا تو اب واضح ہوگیا کہ دلیل محقق دوانی کے ساتھ ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

 

ثانیھما بعض من تقدم الدوانی زعم ان مراد النووی ای بمامر من کلامہ فی الاربعین والاذکار انہ اذاثبت حدیث صحیح اوحسن فی فضیلۃ عمل من الاعمال تجوز روایۃ الحدیث الضعیف فی ھذا الباب قال المحقق بعد نقلہ فی الانموذج لایخفی ان ھذا لایرتبط بکلام النووی فضلا عن انیکون مرادہ ذلک، فکم بین جواز العمل واستحبابہ وبین مجرد نقل الحدیث فرق، علی انہ لولم یثبت الحدیث الصحیح و الحسن فی فضیلۃ عمل من الاعمال یجوز نقل الحدیث الضعیف فیھا، لاسیما مع التنبیہ علی ضعفہ ومثل ذلک فی کتب الحدیث وغیرہ شائع یشھدبہ من تتبع ادنی تتبع ۱؎ اھ

 

ان میں سے دوسرے دوانی سے پہلے کے کچھ لوگ ہیں جنہوں نے یہ گمان کیا کہ امام نووی نے اربعین اور اذکار میں جو گفتگو کی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جب کسی عمل کی فضیلت کے بارے میں حدیث صحیح یا حسن ثابت ہوتو اس کے بارے میں حدیث ضعیف کا روایت کرنا جائز ہے، محقق دوانی نے انموذج العلوم میں اسے نقل کرنے کے بعد لکھا مخفی نہ رہے کہ اس زعم کا امام نووی کے کلام کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں چہ جائیکہ یہ انکی مراد ہو کیونکہ اکثر طور پر جواز عمل واستحباب عمل اور محض نقل حدیث کے درمیان بڑا فرق ہوتا ہے، علاوہ ازیں اگر کسی عمل کی فضیلت میں حدیث صحیح یا حسن ثابت نہ بھی ہو تب بھی اس میں حدیث ضعیف کا روایت کرنا جائز ہے، خصوصاً اس تنبیہ کے ساتھ نقل کرنا کہ یہ ضعیف ہے اور اس کی مثالیں کتب حدیث اور دیگر کتب میں کثیر ہیں اور اس بات پر ہر وہ شخص گواہ ہے جس نے اس کا تھوڑا سا مطالعہ بھی کیا ہے اھ (ت)

 

(۱؎ انموذج العلوم للدوانی)

 

اقول لااری احدا ممن ینتمی الی العلم ینتھی فی الغباوۃ الی حدیحیل روایۃ الضعاف مطلقا حتی مع بیان الضعف فان فیہ خرقا لاجماع المسلمین وتاثیما بین لجمیع المحدثین وانما المراد الروایۃ مع السکوت عن بیان الوھن فقول المحقق لاسیما مع التنبیہ علی ضعفہ، لیس فی محلہ والآن نعود الی تزییف مقالتہ فنقول اوّلا ھذا الذی ابدیج ان سلم وسلم لم یتمش الافی لفظ القبول کمااشرنا الیہ سابقا فمجرد روایۃ حدیث لوکان عملا بہ لزم ان یکون من روی حدیثا فی الصلاۃ فقد صلی اوفی الصوم فقدصام وھکذا مع ان الواقع فی کلام الامام فی کلاالکتابین انما ھو لفظ العمل وھذا مااشار الیہ الدوانی بقولہ ان ھذا لایرتبط الخ

 

اقول میں ایسے کسی اہلِ علم کو نہیں جانتا جو غباوت کے اس درجہ پر پہنچ چکا ہوکہ حدیث ضعیف کا ضعف بیان کررنے کے باوجود اس کی روایت کو مطلقاً محال تصور کرتا ہو کیونکہ اس میں اجماع مسلمین کی مخالفت ہے اور واضح طور پر تمام محدثین کو گناہ کا مرتکب قرار دینا ہے، لہذا مراد یہ ہے کہ ضعف بیان کےے بغیر روایت حدیث ہوتو درست ہے لہذا محقق دوانی کا قول ''لاسیما مع التنبیہ علی ضعفہ'' بجا نہیں۔ اب ہم اس کے قول کی کمزوری کے بیان کی طرف لوٹتے ہیں: اولاً اگر یہ بیان کردہ قول اگر صحیح ہو اور اسے درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر قبول حدیث ہی اس سے مراد ہوگا جیسا کہ ہم پیچھے اشارہ کر آئے ہیں کیونکہ اگر محض روایت کا نام ہی عمل ہوتو لازم آئے گا کہ وہ شخص جس نے نماز کے بارے میں حدیث روایت کی اس نے نماز بھی ادا کی، یا اس طرح روزے کے بارے میں روایت کرنیوالے روزہ بھی رکھاہو، باوجود اس کے امام نووی کی دونوں کتب میں لفظ عمل ہے اور اسی کی طرف محقق دوانی نے اشارہ کرتے ہوئے کہا اٰن ھذا لایرتبط الخ ۔

 

وثانیا اقول قدبینا ان القبول انما مرجعہ الٰی جواز العمل وحینئذ یکفی فی ابطالہ دلیلنا المذکور خامسا مع ماتقدم۔

 

ثانیا میں کہتا ہوں کہ ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ قبول کا مرجع جوازِ عمل ہے تو اب اس کے اطبال کے لئے ''خامساً'' سے ہماری مذکورہ دلیل مع مذکور گفتگو کے کافی ہے۔

 

وثالثا اذن یکون حاصل التفرقۃ ان الاحکام لایجوز فیھا روایۃ الضعاف اصلا ولووجد فی خصوص الباب حدیث صحیح اللھم الامقرونۃ ببیان الضعف اماما دونھا کالفضائل فتجوز اذاصح حدیث فیہ بخصوصہ والا لا  الا ببیان وح ماذا یصنع بالوف مؤلفۃ من احادیث مضعفۃ رویت فی السیر والقصص والمواعظ والترغیب والفضائل والترھیب وسائر مالاتعلق لہ بالعقد والحکم مع فقدان الصحیح فی خصوص الباب وعدم الاقتران ببیان الوھن وھذا مااشار الیہ الدوانی بالعلاوۃ۔

 

ثالثا اب حاصل فرق یہ ہوگا کہ احکام کے بارے میں حدیث ضعیف کی روایت جائز نہیں اگرچہ اس خصوصی مسئلہ کے بارے میں حدیث صحیح موجود ہو مگر صرف اس صورت میں جائز ہے جب اس کا ضعف بیان کردیا جائے مگر احکام کے علاوہ فضائل میں اگر اس خصوصی مسئلہ میں کوئی حدیث صحیح پائی جائے تو ضعیف کی روایت جائز ہے اگر حدیث صحیح نہ ہوتو جائز نہیں مگر بیان ضعف کے ساتھ جائز ہے اب ان ہزارہا کتب کا کیا بنے گاجن میں ایسی احادیث ضعیفہ مروی ہیں جو سِیر، واقعات، وعظ، ترغیب وترہیب، فضائل اور باقی حدیثیں جن کا تعلق عقیدہ اور احکام سے نہیں اس کے ساتھ ساتھ خاص اس مسئلہ میں کوئی حدیث صحیح بھی موجود نہ ہو اور ضعیف حدیث کا ضعف بھی بیان نہ کیاگیا ہو یہ وہ ہے جس کی طرف دوانی نے ''علاوۃ'' کے سااتھ اشارہ کیا ہے۔

 

اقول دع عنک توسع المسانید التی تسند کل ماجاء عن صحابی، والمعاجیم التی توعی کل ماوعی عن شیخ بل والجوامع التی تجمع امثل مافی الباب وردہ ان لم یکن صحیح السند ھذا الجبل الشامخ البخاری یقول فی صحیحہ حدثنا علی بن عبداللّٰہ بن جعفر ثنا معن بن عیسٰی ثنا اُبی بن عباس بن سھل عن ابیہ عن جدہ قال کان للنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی حائطنا فرس یقال لہ اللحیف ۱؎ اھ

 

اقول ان مسانید کی وسعت کو چھوڑئےے جو صحابی سے روایات بیان کرتی ہیں اور معاجیم جو شیخ سے محفوظ شدہ احادیث کی حفاظت کرتی ہیں بلکہ جوامع جو اس باب میں وارد شدہ احادیث میں اعلٰی قسم کی روایات جمع کرتی ہیں اگرچہ سند صحیح نہ ہو مثلاً حدیث کے عظیم پہاڑ امام بخار اپنی صحیح میں کہتے ہیں ہمیں علی بن عبداللہ بن جعفر نے حدیث بیان کی، ہمیں معن بن عیسٰی نے حدیچ بیان کی، ہمیں ابن عباس بن سہل نے اپنے باپ سے اپنے دادا سے حدیث بیان کی، فرمایا نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ہمارے ہمارے باغ میں ایک گھوڑا تھا جس کا نام لحیف تھا اھ۔

 

 (۱؎ صحیح البخاری    باب اسم الفرس والحمار    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۴۰۰)

 

فی تذھیب التھذیب للذھبی "خ ،ت،ق " ابی بن عباس ۲؎ بن سھل بن سعد الساعدی المدنی عن ابیہ وابی بکر بن حزم وعنہ معن القزاز وابن ابی فدیک وزید بن الحباب وجماعۃ ۳؎۔

 

امام ذہبی نے تذہیب التہذیب میں لکھا کہ اُبی بن عباس بن سہلی بن سعد الساعدی مدنی نے اپنے والد گرامی اور ابربکر بن حزم سے روایت کیا اور ان سے معن القزار، ابن ابی فدیک، زید بن الحباب اور ایک جماعت نے روایت کیا،

 

 (۲؎ ''خ'' سے بخاری، ''ت'' سے ترمذی اور ''ق'' سے قزوینی مراد ہے۔)

(۳؎ خلاصہ تذہیب التہذیب ترجمہ نمبر ۳۲۷ من اسمہ ابی    مطبوعہ مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل        ۱/ ۶۲)

 

قال الدولا بی لیس بالقوی قلت وضعفہ ابن معین وقال احمد منکر الحدیث ۴؎ اھ وکقول الدولابی قال النسائی کمافی المیزان ولم ینقل فی الکتابین توثیقہ عن احدوبہ ضعف الدارقطنی ھذا الحدیث لاجرم ان قال الحافظ فیہ ضعف عہ قال مالہ فی البخاری غیر حدیث واحد ۵؎ اھ قلت فانما الظن بابی عبداللّٰہ انہ انما تساھل لان الحدیث لیس من باب الاحکام واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

 

دولابی کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں۔ میں کہتا ہوں اسے ابنِ معین نے ضعیف کہا اور امام احمد کے نزدیک یہ منکر الحدیث ہے اور میزان میں ہے نسائی کا قول دولابی کی طرح ہی ہے اور دونوں کتب میں اس کے بارے میں کسی کی توثیق منقول نہیں، دارقطنی نے اسی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا۔ لاجرم حافظ نے کہا ہے کہ اس میں ضعف ہے اور کہا کہ بخاری میں اس ایک حدیث کے علاوہ اس کی کوئی حدیث نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ابوعبداللہ کے بارے میں گمان ہے کہ انہوں نے تساہل سے کام لیا، کیونکہ اس حدیث کا تعلق احکام سے نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

 

عہ قلت واما اخوہ المھیمن فاضعف واضعف ضعفہ النسائی والدارقطنی وقال البخاری منکر الحدیث ای فلاتحل الروایۃ عنہ کمامر لاجرم ان قال الذھبی فی اخیہ ابی انہ واہ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (م)

میں کہتا ہوں اس کا بھائی عبدالمہیمن ہے اور وہ اضعف الضعاف ہے اسے نسائی اور دارقطنی نے ضعیف کہا، بخاری نے اسے منکر الحدیث کہا یعنی اس سے روایت کرنا جائز نہیں جیسا کہ گزرا لاجرم ذہبی نے اسے اس کے بھائی ابی کے بارے میں کہا کہ وہ نہایت ہی کمزور ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۴؎ میزان الاعتدال فی نقدالرجال ترجمہ نمبر ۲۷۳ من اسمہ ابی    مطبوعہ  دارالمعرفۃ بیروت    ۱/ ۷۸)

نوٹ:    تذہیب التہذیب نہ ملنے کی وجہ سے اس کے خلاصے اور میزان الاعتدال دو۲ کتابوں سے یہ نقل گیا ہے۔

(۵؎ تقریب التہذیب    ذکر من اسمہ ابی    مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی    ص ۱۷)

 

ورابعاً اقول قدشاع وذاع ایراد الضعاف فی المتابعات والشواھد فالقول بمنعہ فی الاحکام مطلقا وان وجد الصحیح باطل صریح وح یرتفع الفرق وینھدم اساس المسئلۃ المجمع علیھا بین علماء المغرب والشرق، لااقول عن ھذا وذاک بل عن ھذین الجبلین الشامخین صحیحی الشیخین فقد تنزلا کثیرا عن شرطھما فی غیرالاصول قال الامام النووی فی مقدمۃ شرحہ لصحیح مسلم عاب عائبون مسلما رحمہ اللّٰہ تعالٰی بروایتہ فی صحیحہ عن جماعۃ من الضعفاء والمتوسطین الواقعین فی الطبقۃ الثانیۃ الذین لیسوا من شرط الصحیح ولاعیب علیہ فی ذلک بل جوابہ من اوجہ ذکرھا الشیخ الامام ابوعمر وبن الصلاح (الٰی ان قال) الثانی انیکون ذلک واقعا فی المتابعات والشواھد لافی الاصول وذلک بان یذکر الحدیث اولا باسناد نظیف رجالہ ثقات ویجعلہ اصلا ثم اتبعہ باسناد اٰخرا واسانید فیھا بعض الضعفاء علی وجہ التاکید بالمتابعۃ اولزیادۃ فیہ تنبہ علی فائدۃ فیما قدمہ وقداعتذر الحاکم ابوعبداللّٰہ بالمتابعۃ والاستشھاد فی اخراجہ من جماعۃ لیسومن شرط الصحیح منھم مطر الوراق وبقیۃ بن الولید ومحمد بن اسحاق بن یساور وعبداللّٰہ بن عمر العمری والنعمان بن راشد اخرج مسلم عنھم فی الشواھد فی اشباہ لھم کثیرین انتھی ۱؎۔

 

رابعاً میں کہتا ہوں کہ متابع اور شواہد میں احادیث ضعیفہ کا ایراد شائع اور مشہور ہے لہذا حدیث صحیح کی موجودگی میں احکام کے بارے میں حدیث ضعیف کے مطلقاً روایت کرنے کو منع کرنا صریحاً باطل ہے، او راس صورت میں فرق مرتفع ہوجاتا ہے اور اس مسئلہ کی اساس جس پر علماءِ مشرق ومغرب کا اتفاق ہے گر کر ختم ہوجاتی ہے یہ میں اس یا اُس (یعنی عام آدمی) کی بات نہیں کرتا بلکہ علم حدیث کے دوبلند اور مضبوط پہاڑ بخاری ومسلم کی صحیحین کہ وہ اصول کے علاوہ میں اپنے شرائط سے بہت زیادہ تنزل میں آگئیں، امام نووی نے مقدمہ شرح صحیح مسلم میں فرمایا کہ عیب لگانے والوں نے مسلم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ پر یہ طعن کیا کہ انہوں نے اپنی کتاب میں بہت سے ضعیف اور متوسط راویوں سے روایت لی ہے جو دوسرے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور صحیح کی شرط پر نہیں، حالانکہ اس معاملہ میں ان پر کوئی طعن نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا کئی طریقوں سے جواب دیا گیا ہے جنہیں امام ابوعمرو بن صلاح نے ذکر کیا (یہاں تک کہ کہا) دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ بات ان روایات میں ہے جنہیں بطور متابع اور شاہد ذکر کیا گیا ہے اصول میں ایسا نہیں کیا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک ایسی حدیث ذکر کی جس کی سند درست ہو اور تمام راوی ثقہ ہوں اور اس حدیث کو اصل قرار دے کر اسکے بعد بطور تابع ایک اور سند یا متعدد اسناد ایسی ذکر کی جائیں جن میں بعض راوی ضعیف ہوں تاکہ متابعت کے ساتھ تاکید ہو یا کسی اور مذکور فائدے پر تنبیہ کا اضافہ مقصود ہو، امام حاکم ابوعبداللہ نے عذر پیش کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ جن میں صحیح کی شرط نہیں ان کو بطور تابع اور شاہد روایت کیاگیا ہے، اور ان روایت کرنے والوں میں یہ محدثین ہیں مطرالوراق، بقیۃ بن الولید، محمد بن اسحٰق بن یسار، عبداللہ بن عمر العمری اور نعمان بن راشد، امام مسلم نے ان سے شواہد کے طور پر متعدد روایات تخریج کی ہیں انتہٰی۔

 

(۱؎ المقدمۃ للامام النووی من شرح صحیح مسلم    فصل عاب عائبون مسلماً رحمہ اللہ تعالٰی    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۶)

 

وقال الامام البدر محمود العینی فی مقدمۃ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری یدخل فی المتابعۃ والاستشھاد روایۃ بعض العضعاء وفی الصحیح جماعۃ منھم ذکروا فی المتابعات والشواھد ۲؎ اھ

 

امام بدرالدین عینی نے مقدمہ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں تحریر کیا ہے کہ توابع اور شواہد میں بعض ضعفاء کی روایات بھی آئی ہیں اور صحیح میں ایک جماعت محدثین نے توابع اور شواہد کے طور پر ایسی روایات ذکر کی ہیں اھ (ت)

 

(۲؎ المقدمۃ للعینی صحیح بخاری        الثامنہ فی الفرق بین الاعتبار والمتابعۃ الخ    مطبوعہ بیروت  ۱ /۸)

 

وخامسا اقول مالی اخص الکلام بغیر الاصول ھذہ قناطیر مقنطرۃ من السقام مرویۃ فی الاصول والاحکام ان لم تروھا العلماء فمن جاء بھا وکم منھم التزموا بیان ماھنا، اما الرواۃ فلم یعھد منھم الروایۃ المقرونۃ بالبیان اللھم الانادر الداع خاص، وقد اکثروا قدیما وحدیثا من الروایۃ عن الضعفاء والمجاھیل ولم یعد ذلک قدحاً فیھم ولا ارتکاب مأثم وھذا سلیمٰن بن عبدالرحمٰن الدمشقی الحافظ شیخ البخاری ومن رجال صحیحہ قال فیہ الامام ابوحاتم صدوق الا انہ من اروی الناس عن الضعفاء والمجھولین ۱؎ اھ

 

خامسا ضعیف اور متوسط راوی کی روایت کی بات صرف غیر اصول وشواہد متابعات سے مختص کرنے کی مجھے کیا ضرورت، جبکہ کمزور اغیر صحیح روایات کا یہ ایک ذخیرہ ہے جو اصول واحکام میں مروی ہے اگر علماء ہی ان کو ذکر نہ کریں تو کون ذکر کریگا اور بہت کم ہیں جنہوں نے یہاں اس بات کا التزام کیا۔ رہا معاملہ راویوں کا تو ان کے ہاں روایت کے ساتھ بیان کا طریقہ معروف نہیں، البتہ کسی خاص ضرورت کے تقاضے کے پیش نظر بیان بھی کردیا جاتا ہے اور ان میں سلفاً وخلفاً یہ معمول ہے کہ ضعیف اور مجہول راویوں سے روایت بیان کرتے ہیں اور اس بات کو ان میں طعن وگناہ شمار نہیں کیا جاتا دیکھنے سلیمان بن عبدالرحمن ومشقی جو کہ حافظ ہیں اور امام بخاری کے استاذ ہیں اور صحیح بخاری کے راویوں میں سے ہیں ان کے بارے میں امام ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ صدوق ہے اگرچہ ان لوگوں میں سے ہے جو ضعیف اور مجہول راویوں سے بہت زیادہ روایت کرنے والے ہیں اھ۔

 

 (۱؎ میزان الاعتدال    ترجمہ سلیمان بن عبدالرحمان الدمشقی نمبر ۳۴۸۷    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۲۱۳)

 

ولوسردت اسماء الثقات الرواۃ عن المجروحین لکثر وطال فلیس منھم من التزم ان لایحدث الا عن ثقۃ عندہ الانزر قلیل کشعبۃ ومالک واحمد فی المسند ومن شاء اللّٰہ تعالٰی واحدا بعد واحد ثم ھذا ان کان ففی شیوخھم خاصۃ لامن فوقھم والا لما اتی من طریقھم ضعیف اصلا ولکان مجرد وقوعھم فی السند دلیل الصحۃ عندھم اذاصح السند الیھم ولم یثبت ھذا لاحد، وھذا الامام الھمام یقول لابنہ عبداللّٰہ لواردت ان اقتصرہ علی ماصح عندی لم ار ومن ھذا المسند الا الشیئ بعد الشیئ ولکنک یابنی تعرف طریقتی فی الحدیث انی لااخالف مایضعف الا اذاکان فی الباب شیئ یدفعہ ۲؎ ذکرہ فی فتح المغیث عہ واما المصنفون فاذا عدوت امثال الثلٰثۃ للبخاری ومسلم والترمذی ممن التزم الصحۃ والبیان الفیت عامۃ المسانید والمعاجیم والسنن والجوامع والاجزاء تنطوری فی کل باب علی کل نوع من انواع الحدیث من دون بیان ،

 

اگر میں ان ثقہ محدثین کے نام شمار کروں جنہوں نے مجروح راویوں سے روایت کی ہے تو یہ داستان طویل ہو اور ان میں کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جس نے یہ التزام کیا ہوکہ وہ اسی سے روایت کرے گا جو اس کے نزدیک ثقہ ہو مگر بہت کم محدثین مثلاً شعبہ، امام مالک اور احمد نے مسند میں اور کوئی اِکّا دُکّا جس کو اللہ تعالٰی نے توفیق دی، پھر ان کے ہاں بھی یہ معاملہ ان کے اپنے شیوخ تک ہی ہے اس سے اوپر نہیں ورنہ ان کی سند سے کوئی ضعیف حدیث مروی نہ ہوتی اور محدثین کے ہاں ان میں سے کسی کا سند میں آجانا صحتِ حدیث کے لئے کافی ہوتا ہے جبکہ صحت کے ساتھ سندان تک پہنچی ہو حالانکہ یہ بات کسی ایک کے لئے بھی ثابت نہیں، یہ امام احمد اپنے بیٹے عبداللہ کو فرماتے ہیں: اگر میں اس بات کا ارادہ کرتا کہ میں ان ہی احادیث کی روایت پر اکتفا کروں گا جو میرے ہاں صحیح ہیں تو پھر اس مسند میں بہت کم احادیث روایت کرتا، مگر اے میرے بیٹے! تُو روایت حدیث میں میرے طریقے سے آگاہ ہے کہ میں حدیث ضعیف کی مخالفت نہیں کرتا مگر جب اس باب میں مجھے کوئی ایسی شیئ مل جائے جو اسےرَد کردے یہ فتح المغیث میں مذکور ہے، باقی رہیں محدثین کی تصنیفات تو اگر آپ امثال الکتب بخاری ومسلم اور ترمذی تینوں کتابوں کو سے تجاوز کریں جنہوں نے صحت وبیان کا التزام کرر رکھا ہے تو آپ اکثر مسانید، معاجیم، سنن، جوامع اور اجزا کے ہر باب میں ہر قسم کی احادیث بغیر بیان کے پائیں گے

 

عہ:  اواخر القسم الثانی الحسن ۱۲ منہ (م)

 

 (۲؎ فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث    القسم الثانی        الحسن دارالامام الطبری بیروت    ۱/ ۹۶)

 

وھذا مما لاینکرہ الاجاھل اومتجاھل فان ادعی مدع انھم لایستحلون ذلک فقد نسبہم الی افتخام مالایبیحون وان زعم زاعم انھم لایفعلون ذلک فھم بصنیعھم علی خلفہ شاھدون وھذا ابوداؤد الذی الین لہ الحدیث کماالین لداود علیہ الصلاۃ والسلام الحدید، قال فی رسالتہ الٰی اھل مکۃ شرفھا اللّٰہ تعالٰی ان ماکان فی کتابی من حدیث فیہ وھن شدید فقدبینتہ ومنہ مالایصح سندہ ومالم اذکر فیہ شیئا فھو صالح وبعضھا اصح من بعض ۱؎ اھ۔

 

اس بات کا انکار جاہل یا متجاہل ہی کرسکتا ہے اور اگر کوئی دعوٰی کرے کہ محدثین کے ہاں یہ جائز نہیں تو یہ ان کی طرف ایسی بات کی نسبت کرنا ہے جس سے لازم آتا ہے کہ ایسا عمل کرتے ہیں جسے وہ جائز نہ سمجھتے تھے اور اگر کوئی یہ زعم رکھتا ہوکہ وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کا عمل اس کے برخلاف خود شاہد ہے، امام ابوداؤد کو ہی لیجئے ان کے لئے حدیث اسی طرح آسان کردی گئی جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہا نرم ہوجاتا تھا، اہل مکہ ''شرفہا اللہ تعالٰی'' کی طرف خط میں لکھا: میری کتاب (سنن ابی داؤد) میں جن بعض احادیث کے اندر نہایت سخت قسم کا ضعف ہے اس کو میں نے بیان کردیا ہے، اور بعض ایسی ہیں کہ ان کی سند صحیح نہیں اور جس کے بارے میں میں کچھ ذکر نہ کروں وہ استدلال کے لئے صالح ہیں اور بعض احادیث دوسری بعض کے اعتبار سے اصح ہیں اھ۔

 

 (۱؎ مقدمہ سنن ابی داؤد، فصل ثانی    آفتاب عالم پریس لاہور        ص۴)

 

والصحیح ماافادہ الامام الحافظ ان لفظ صالح فی کلامہ اعم من ان یکون للاحتجاج اوللاعتبار فما ارتقی الی الصحۃ ثم الی الحسن فھو بالمعنی الاول وماعداھما فھو بالمعنی الثانی وماقصر عن ذلک فھو الذی فیہ ومن شدید ۲؎ اھ وھذا الذی یشھدبہ الواقع فعلیک بہ وان قیل وقیل (عہ)۔

 

اور صحیح وہ ہے جس کا امام حافظ نے افادہ فرمایا ہے کہ ابوداؤد کے کلام میں لفظ صالح استدلال اور اعتبار دونوں کو شامل ہے، پس جو حدیث صحت پھر حسن کے درجہ پر پہنچے وہ معنی اول کے لحاظ سے صالح ہے اور جو ان دونوں کے علاوہ ہے وہ معنی ثانی کے لحاظ سے صالح ہے اور جو اس سے بھی کم درجہ پر ہے وہ ایسی ہوگی جس میں ضعفِ شدید ہے اھ نفس الامر اس پر شاہد ہے اور تجھ پر یہی لازم ہے اگرچہ قبل کے طور پر کیا گیا ہے۔

 

 (۲؎ ارشاد الساری بحوالہ حافظ ابن حضر    مقدمہ کتاب    دارالکتاب العربی بیروت    ۱ /۸)

 

عہ :  ای قیل حسن عندہ واختارہ الامام المنذری وبہ جزم ابن الصلاح فی مقدمتہ وتبعہ الامام النووی فی التقریب ای وقد لایکون حسنا عندغیرہ کمافی ابن الصلاح وقیل صحیح عندہ ومشی علیہ الامام الزیلعی فی نصب الرایۃ عنہ ذکر حدیث القلتین وتبعہ العلامہ حلبی فی الغنیۃ فی فصل فے التوافل وکذلک یقال ھھنا انہ قدلایصح عند غیرہ بل ولایحسن واما الامام ابن الھمام فی الفتح اھل الکتاب وتلمیذہ فی الحلیۃ قبیل صفۃ الصلاۃ فاقتصرا علی الحجیۃ وھی تشملھما فیقرب من قول من قال حسن وھذا الذی ذکرہ الحافظ وتبعہ فیہ العلامۃ القسطلانی فی مقدمۃ الارشاد وختم الحفاظ فی التدریب فی فروع فی الحسن قال لکن ذکر ابن کثیر انہ روی عنہ ماسکت عنہ فھو حسن فان صح ذلک فلااشکال ۱؎ اھ اقول لقائل ان یقول ان للحسن اطلاقات وان القدماء قل ماذکروہ وانما الترمذی ھو الذی شھرہ وامرہ فاید ربنا انہ ان صح عنہ ذلک لم یرد بہ الاھذا لا الذی استقر علیہ الاصطلاح فافھم واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ (م)

 

یعنی بعض نے کہا کہ اس کے نزدیک وہ حسن ہے، اسے امام منذری نے اختیار کیا، اسی پر ابن صلاح نے مقدمہ میں جزم کیا اور امام نووی نے تقریب میں اسی کی اتباع کی یعنی کبھی اس کے غیر کے ہاں وہ حسن نہیں ہوتی جیسے کہ مقدمہ ابن صلاح میں ہے، اور بعض نے کہا کہ اس کے نزدیک وہ صحیح ہے، امام زیلعی نصب الرایہ میں قلتین والی حدیث کے ذکر میں اسی پر چلے ہیں۔ اور علّامہ حلبی نے غنیۃ المستملی کی فصل فی النوافل میں اسی کی اتباع کی ہے اور اسی طرح یہاں کہا جائے گا یعنی کبھی اس کے غیر کے ہاں وہ صحیح نہیں بلکہ حسن بھی نہیں ہوتی۔ امام ابن ہمام نے فتح القدیر ابتدائے کتاب میں اور ان کے شاگرد نے حلیۃ المحلی میں صفۃ الصلٰوۃ سے تھوڑا پہلے اس کے صحیح ہونے پر اقتصار کیا ہے اور یہ بات ان دونوں اقوال کو شامل ہے پس یہ اس کے قول کے قریب ہے جس نے کہا وہ حسن ہے یہ وہ ہے جس کا ذکر حافظ نے کیا ہے اور مقدمہ ارشاد الساری میں علامہ قسطلانی نے اسی کی اتباع کی ہے اور تدریب میں خاتم الحفاظ نے بیان فروع فی الحسن، لیکن ابن کثیر نے کہا کہ ان سے ہے کہ جس پر انہوں نے سکوت کیا، وہ حسن ہے۔ پس اگر یہ صحیح ہوتو کوئی اشکال باقی نہیں رہتا اھ اقول (میں کہتا ہوں) کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حسن کے تو مختلف اطلاقات ہیں بہت کم قدماء نے اس کا ذکر کیا ہے صرف امام ترمذی نے اس کو شہرت دی اور اس کا اجراء کیا، پس اللہ رب العزت نے ہماری تائید فرمائی کہ اگر ان سے یہ بات صحت کے ساتھ ثابت ہوجائے تو انہوں نے اس سے یہی مراد لی ہے نہ وہ جس پر اصطلاح قائم ہوچکی ہے واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ تدریب الراوی شرح تقریب النووی    فروع فی الحسن    دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۱۶۸)

 

وقدنقل عن اعلام سیرا النبلاء للذھبی ان ماضعف اسنادہ لنقص حفظ اوید فمثل ھذا یسکت عنہ ابوداود غالبا ۱؎ الخ۔اور امام ذہبی کی اعلام سیر النبلا سے منقول ہے کہ جس حدیث کی سند ضعیف اس کے راوی کا حفظ ناقص ہونے کی وجہ سے ہوتو ایسی حدیث کے بارے میں ابوداؤد سکوت اختیار کرتے ہیں الخ۔

 

 (۱؎ سیر اعلام النبلاء    ترجمہ نمبر ۱۱۷    ابوداؤد بن اشعت    مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱۳ /۲۱۴)

 

ومعلوم ان کتاب ابی داؤد انما موضوعہ الاحکام وقدقال فی رسالتہ انمالم اصنف فی کتاب السنن الا الاحکام ولم اصنف فی الزھد وفضائل الاعمال وغیرھا ۲؎ الخ ۔اور یہ بات معلوم ہے کہ ابوداؤد شریف کا موضوع احکام ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے رسالہ میں یہ بات کہی ہے میں نے یہ کتاب احکام ہی کے لئے لکھی ہے زہد اور فضائل اعمال وغیرہ کے لئے نہیں الخ۔

 

 (۲؎ رسالہ مع سنن ابی داؤد    الفصل الثانی فی الامور التی تعلق بالکتاب    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۵)

 

وقال الشمس محمدن السخاوی فی فتح المغیث اما حمل ابن سید الناس فی شرحہ الترمذی قول السلفی علی مالم یقع التصریح فیہ من مخرجھا وغیرہ بالضعف، فیقتضی کما قال الشارح فی الکبیر ان ماکان فی الکتب الخمسۃ مسکونا عنہ ولم یصرح بضعفہ ان یکون صحیحا، ولیس ھذا الاطلاق صحیحا بل فی کتب السنن احادیث لم یتکلم فیھا الترمذی او ابوداود ولم ینجد لغیرھم فیھا کلاما ومع ذلک فھی ضعیفۃ ۳؎ اھ۔

 

اور شمس محمد سخاوی نے فتح المغیث میں بیان کیا ہے کہ ابن سید الناس نے اپنی شرح ترمذی نے قول سلفی کو ایسی حدیث پر محمول کیا ہے جس کے بارے میں اس کے مخرج وغیرہ کی ضعف کے ساتھ تصریح واقع نہیں ہوئی۔ پس اس کا تقاضا ہے جیسا کہ شارح نے کبیر میں کہا کہ کتب خمسہ میں جس حدیث پر سکوت اختیار کیا گیا ہو اور اس کے ضعف کی تصریح نہ کی گئی ہو وہ صحیح ہوگی حالانکہ یہ اطلاق صحیح نہیں کیونکہ کُتبِ سنن میں ایسی احادیث موجود ہیں جن پر ترمذی یا ابوداؤد نے کلام نہیں کیا اور نہ ہی کسی غیر نے ہمارے علم کے مطابق ان میں گفتگو کی ہے اسکے باوجود وہ احادیث ضعیف ہیں اھ ۔

 

 (۳؎ فتح المغیث شرح الفیۃ     الحدیث للسخاوی    القسم الثانی الحسن دارالامام الطبری بیروت        ۱/ ۱۰۰ و ۱۰۱)

 

وقال فی المرقاۃ  الحق ان فیہ ''ای فی مسند الامام لمحمد رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ'' احادیث کثیرۃ ضعیفۃ وبعضھا اشد فی الضعف من بعض ۴؎ الخ ۔

 

اور مرقات میں فرمایا: حق یہ ہے کہ اس یعنی مسند احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ میں بہت سی احادیث ایسی ہیں جو ضعیف ہیں اور بعض دوسری بعض کے اعتبار سے زیادہ ضعیف ہیں الخ ۔

 

 (۴؎ مرقات شرح مشکوٰۃ المصابیح    شرط البخاری ومسلم الذی التزماہ الخ    مطبوہع مکتبہ امداد ملتان    ۱/ ۲۳)

 

ونقل بعیدہ عن شیخ الاسلام الحافط انہ قال لیست الاحادیث الزائدۃ فیہ علی مافی الصحیحین باکثر ضعفا من الاحادیث الزائدۃ فی سنن ابی داؤد والترمذی علیھا وبالجملۃ فالسبیل واحد فمن اراد الاحتجاج بحدیث من السنن لاسیما سنن ابن ماجۃ ومصنف ابن ابی شیبۃ وعبدالرزاق مما الامر فیہ اشد او بحدیث من المسانید لان ھذہ کلھا لم یشترط جامعوھا الصحۃ والحسن وتلک السبیل ان المحتج انکان اھلا للنقل والتصحیح فلیس لہ ان یحتج بشیئ من القسمین حتی یحیط بہ وان لم یکن اھلا لذلک فان وجد اھلا لتصحیح اوتحسین قلدہ والا فلایقدم علی الاحتجاج فیکون کحاطب لیل فلعہ یحتج بالباطل وھو لایشعر ۱؎ اھ۔

 

اور تھوڑا سا اس کے بعد شیخ الاسلام حافظ سے نقل کیا کہا کہ اس میں (یعنی مسند احمد بن حنبل میں صحیحین پر جو زائد احادیث ہیں وہ سنن ابی داؤد اور ترمذی میں صحیحین پر زائد احادیث سے زیادہ ضعیف نہیں ہیں۔ الغرض راستہ ایک ہی ہے اس شخص کے لئے جو احادیث سنن سے استدلال کرنا چاہتا ہے خصوصا سنن ابن ماجہ، مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق۔ کیونکہ ان میں بعض کا معاملہ سخت ہے یا استدلال ان احادیث سے جو مسانید میں ہیں کیونکہ ان کے جامعین نے صحت وحسن کی کوئی شرط نہیں رکھی اور وہ راستہ یہ ہے کہ استدلال کرنے والا اگر نقل وتصحیح کا اہل ہے تو اس کے لئے ان سے استدلال کرنا اس وقت درست ہوگا جب ہر لحاظ سے دیکھ پرکھ لے اور اگر وہ اس بات کا اہل نہیں تو اگر ایسا شخص پائے جو تصحیح وتحسین کا اہل ہے تو اس کی تقلید کرے اور اگر ایسا شخص نہ پائے تو وہ استدلال کے لئے قدم نہ اٹھائے ورنہ وہ رات کو لکڑیاں اکٹھی کرنے والے کی طرح ہوگا، ہوسکتا ہے وہ باطل کے ساتھ استدلال کرلے اور اسے اس کا شعور نہ ہو  اھ۔

 

 (۱؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ المصابیح    شرط البخاری ومسلم الذی التزماہ الخ    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان        ۱/ ۲۳)

 

وقال الامام عثمٰن الشھرزوری فی علوم الحدیث حکی ابوعبداللّٰہ بن مندۃ الحافظ انہ سمع محمد بن سعد الباوردی بمصر یقول کان من مذہب ابی عبدالرحمٰن النسائی ان یخرج عن کل من لم یجمع علی ترکہ، وقال ابن مندۃ وکذلک ابوداؤد السجستانی یاخذ ماخذہ ویخرج الاسناد الضعیف اذالم یجد فی الباب وغیرہ لانہ اقوی عندہ من رای الرجال ۲؎ اھ وفیھا بعیدہ ثم فی التقریب والتدریب وھذا لفظھا ملخصا۔

 

اور امام عثمان شہرزوری نے علوم الحدیث میں فرمایا: ابوعبداللہ بن مندہ حافظ نے بیان کیا کہ انہوں نے مصر میں محمد بن سعد باروردی سے یہ کہتے ہُوئے سُنا ''ابوعبدالرحمن نسائی کا مذہب یہ ہے کہ ہر اس شخص سے حدیث کی تخریج کرتے ہیں جس کے ترک پر اجماع نہ ہو، اور ابن مندہ نے کہا، اسی طرح ابوداؤد سجستانی اس کے ماخذ کو لیتے اور سند ضعیف کی تخریج کرتے ہیں جبکہ اس باب میں اس کے علاوہ کوئی دوسری حدیث موجود نہ ہو کیونکہ ان کے نزدیک وہ لوگوں کی رائے وقیاس سے قوی ہے اھ اور اس میں تھوڑا سا بعد میں ہے پھر تدریب وتقریب میں ہے اور یہ الفاظ ملخصاً ان دونوں کے ہیں،

 

 (۲؎ مقدمۃ ابن الصلاح        النوع الثانی فی معرفۃ الحسن        مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۱۸)

 

اما مسند الامام احمد بن حنبل وابی داؤد الطیالسی وغیرھما من المسانید کمسند عبیداللّٰہ بن موسٰی واسحٰق بن راھویہ والدارمی وعبدبن حمید وابویعلی الموصلی والحسن بن سفین وابی بکر ن البزار فھؤلاء عادتھم ان یخرجوا فی مسند کل صحابی ماورد من حدیثہ غیر مقیدین بان یکون محتجا بہ اولا ۱؎ الخ وفیہ اعنی التدریب قیل ومسند البزار یبین فیہ الصحیح من غیرہ قال العراقی ولم یفعل ذلک الا قلیلا ۲؎ وفی البنایۃ عہ۱  شرح الھدایۃ للعلامۃ الامام البدر العینی الدارقطنی کتابہ مملومن الاحادیث الضعیفۃ والشاذۃ والمعللۃ وکم فیہ من حدیث لایوجد فی غیرہ ۳؎ اھ وذکر اشد منہ للخطیب ونحوہ للبیہقی۔

 

مسند امام احمد بن حنبل، ابوداؤد طیالسی اور ان کے علاوہ دیگر مسانید مثلاً مسند عبیداللہ بن موسٰی، مسند اسحٰق بن راہویہ، مسند دارمی، مسند عبد بن حمید، مسند ابویعلی موصلی، مسند حسن بن سفیان، مسند ابوبکر بزار ان تمام کا طریقہ یہی ہے کہ مسند میں ہر صحابی سے مروی حدیث بیان کردیتے ہیں اس قید سے بالاتر ہوکر کہ یہ قابلِ استدلال ہے یا نہیں الخ اور اس یعنی تدریب میں ہے کہ بیان کیا گیا ہے کہ مسند بزاار وہ ہے جس میں احادیث صحیحہ کو غیر صحیحہ سے جُدا بیان کیا جاتا ہے۔ عراقی کہتے ہیں کہ ایسا انہوں نے بہت کم کیا ہے۔ امام بدرالدین عینی نے بنایہ شرح ہدایہ میں تصریح کی ہے کہ دارقطنی کتاب احادیث ضعیفہ، شاذہ اور معللہ سے پُر ہے اور بہت سی احادیث اس میں ایسی ہیں جو اس کے غیر میں نہیں پائی جاتیں اھ اور خطیب کے لئے اس سے بڑھ کر شدت کا ذکر ہے اور اسی کی مثل بہیقی کے لئے ہے ۔

 

عہ۱ :فی مسئلۃ الجھر فی البسملۃ ۱۲ منہ (م)           بسم اللہ کو جہراً پڑھنے کے مسئلہ میں اس کو ذکر کیا ہے (ت)

 

 (۱؎ تدریب الراوی شرح التقریب النواوی   مرتبۃ المسانید من الصحۃ    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور  ۱ /۱۷۱)

(۲؎تدریب الراوی شرح التقریب النواوی   اول من صنف مسندا    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۱۷۴)

(۳؎ البنایۃ شرح الہدایۃ        باب صفۃ الصلٰوۃ    مطبوعہ ملک سنز کارخانہ بازار فیصل آباد    ۱ /۶۲۸)

 

وفی فتح المغیث عہ۲ یقع ایضا فی صحیح ابی عوانۃ الذی عملہ مستخرجا علی مسلم احادیث کثیرۃ زائدۃ علی اصلہ وفیھا الصحیح والحسن بل والضعیف ایضا فینبغی التحرز فی الحکم علیھا ایضا ۱؎ اھ نصوص العلماء فی ھذا الباب کثیرۃ جدا وما اوردنا کاف فی ابانۃ ماقصدنا، وبالجملۃ فروایتھم الضعاف من دون بیان فی کل باب وان لم یوجد الصحیح معلوم مقرر لایرد ولاینکر، وانما اطنبنا ھھنا لماشممنا خلافہ من کلمات بعض الجلۃ،

 

اور فتح المغیث میں ہے کہ صحیح ابو عوانہ جو مسلم پر احادیث کا استخراج کرتے ہُوئے اصل پر بہت کچھ زائدہ احادیث نقل کی ہیں ان میں صحیح، حسن بلکہ ضعیف بھی ہیں لہذا ان پر حکم لگانے سے خوب احتراز واحتیاط چاہے اھ علماء کی تصریحات اس معاملہ میں بہت زیادہ ہیں اور جو ہم نے نقل کردی ہیں ہمارے مقصود کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں، الغرض محدثین نے ضعیف احادیث بغیر نشاندہی کے ہر مسئلہ میں ذکر کی ہیں اگرچہ اس مسئلہ میں کوئی صحیح حدیث نہ پائی گئی ہو اور یہ بات معلوم ومسلّم ہے، نہ اسے رَد کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کا انکار ممکن ہے۔ ہم نے یہ طویل گفتگو اس لئے کردی ہے کہ بعض بزرگوں کے کلام سے ہم نے اس کے خلاف محسوس کیا تھا۔

 

عہ۲ :فی الصحیح الزائد علی الصحیحین۔ (م)       صحیحین پر زائد صحیح کے بیان میں اسے ذکر کیا ہے (ت)

 

 (۱؎ فتح المغیث    الصحیح الزائد علی الصحیحین دارالامام الطبری بیروت    ۱/ ۴۳)

 

والحمد للّٰہ علی کشف الغمۃ وتبثیت القدم فی الزلۃ فاستبان ان لوکان المراد مازعم ھذا الذی نقلنا قولہ لکانت التفرقۃ بین الاحکام والضعاف قدانعدمت، والمسألۃ الاجماعیۃ من اساسھا قدانھدمت ھذا وجہ ولک ان تسلک مسلک ارخاء العنان وتقول علی وجہ التشقق ان الحکم الذی رویت فیہ الضعاف مطلقۃ ھل یوجد فیہ صحیح ام لافان وجد فقد رووا الضعیف ساکتین فی الاحکام ایضا عند وجود الصحیح فاین الفرق وان لم یوجد فالامرا شد فان التجأ ملتج الی انھم یعدون سوق الاسانید من البیان ای فلم یوجد منھم روایۃ الضعاف فے الاحکام الامقرونۃ:

 

اللہ تعالٰی کے لئے ہی حمد ہے جس نے تاریکی دُور کردی اور پھسلنے کے مقام پر ثابت قدم رکھا پس اب یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر ان کی مراد وہی ہے جو ہم نے ان کا قول نقل کیا تو پھر احکام اور ضعاف کے درمیان تفریق ختم ہوگی اور اجماعی مسئلہ کی بنیاد منہدم ہوگئی ایک تو یہ توجیہ ہے اور ایک دوسری آسان راہ اختیار کرتے ہوئے علی وجہ التشقق یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ حکم جس کے بارے میں مطلقاً ضعیف حدیثیں مروی ہوں دیکھا جائیگا اس میں کوئی صحیح حدیث پائی جاتی ہے انہیں اگر حدیث صحیح پائی جائے تو لازم آیا کہ انہوں نے حدیث ضعیف احکام میں بھی صحیح کے ہوتے ہوئے سکوتاً روایت کی ہے تو اب فرق کہاں ہے؟ اور اگر موجود نہ ہوتو معاملہ اس سے بھی زیادہ شدید ہے اگر معترض یہ کہہ دے کہ محدثین سوقِ سند کو ہی بیان قرار دیتے ہیں، پس اس صورت میں احکام میں ضعیف حدیثوں کی روایت سکوتاً نہ ہوگی بلکہ بیان کے ساتھ ہوگی تو اس کے جواب میںـ:

 

قلت اوّلاً : ھذا شیئ قد یبدیہ بعض العلمآء عذرا ممن روی الموضوعات ساکتا علیھا ثم ھم لایقبلون قال الذھبی عہ۱ فی المیزان کلام ابن مندۃ فی ابی نعیم فظیع لا احب حکایتہ ولا اقبل قول کل منھما فی الآخر بل ھما عندی مقبولان لااعلم لھما ذنبا اکبر من روایتھما الموضوعات ساکتین عنھا  ۱؎ اھ۔میں کہتا ہوں اولاً: یہ وہ چیز ہے جس کو بعض علماء نے ان لوگوں کی طرف سے عذر کے طور پر پیش کیا جو موضوعات کو سکوتاً روایت کرتے ہیں پھر انہیں قبول نہیں کرتے۔ ذہبی نے میزان میں کہا کہ ابونعیم کے بارے میں ابن مندہ کا کلام نہایت ہی رکیک ہے میں اسے بیان کرنا بھی پسند نہیں کرتا اور میں ان دونوں کا کوئی قول ایک دوسرے کے بارے میں نہیں سنتا بلکہ یہ دونوں میرے نزدیک مقبول ہیں اور میں ان کا سب سے بڑا گناہ یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے روایاتِ موضوعہ کو سکوتاً روایت کیا ہے اور انکی نشان دہی نہیں کی اھ ۔

 

عہ۱ :فی احمد بن عبداللّٰہ ۱۲ منہ (م)

احمد بن عبداللہ کے ترجمہ میں ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال للذہبی    ترجمہ نمبر ۴۳۸    احمد بن عبداللہ ابونعیم الخ    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۱/ ۱۱۱)

 

وقدقال العراقی عہ۲  فی شرح الفیتہ ان من ابرز اسنادہ منھم فھو ابسط لعذرہ اذ أحال ناظرہ علی الکشف عن سندہ وان کان لایجوزلہ السکوت علیہ ۲؎ اھ۔عراقی نے شرح الفیہ میں کہا ہے کہ ان میں سے جس نے اپنی سند کو واضح کیا تو اس نے اپنا عذر طویل کیا کیونکہ اس طرح اس نے ناظر کو سند کے حال سے آگاہ کیا ہے اگرچہ اس کے لئے اس پر سکوت جائز نہ تھا اھ۔

 

عہ ۲ : نقلہ فی التدریب نوع الموضوع قبیل التنبیھات ۱۲ منہ رضی اللّٰہ عنہ (م)

اس کو نقل کیا ہے تدریب میں نوع موضوع کے تحت تنبیہات سے کچھ پہلے۔ (ت)

 

 (۲؎ تدریب الراوی شرح التقریب     المعروفون بوضع الحدیث    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۲۸۹)

 

ثانیا: لایعھد منھم ایراد الاحادیث من ای باب کانت الامسندۃ فھذا البیان لم تنفک عنہ احادیث الفضائل ایضاً فبماذا تساھلوا فی ھذا دون ذلک۔

 

ثانیا: ان کے ہاں ہر باب میں یہ معروف ہے کہ اس میں مسند احادیث لائی جائیں گی تو اس بیان سے احادیث فضائل بھی الگ نہیں، پھر ان میں تساہل کیوں اور دُوسری روایات میں نہ ہو۔

 

ثالثاً:لوکان الاسناد وھو البیان المراد لاستحال روایۃ شیئ من الاحادیث منفکا عن البیان فان الروایۃ لاتکون الا بالاسناد، قال فی التدریب حقیقۃ الروایۃ نقل السنۃ ونحوھا واسناد ذلک الی من عزی الیہ بتحدیث واخبار وغیر ذلک ۱؎ اھ وقال عہ۱  الزرقانی تحت قول المواھب روی عبدالرزاق بسندہ الخ بسندہ ایضاح والافھو مدلول روی ۲؎ اھ وقال ایضا عہ۲  تحت  قولہ روی الخطیب بسندہ ایضاح فھو عندھم مدلول روی ۳؎ اھ واذا  انتھی الکلام بنا الی ھنا واستقرعرش التحقیق بتوفیق اللّٰہ تعالٰی علی ماھو مرادنا فلنعد الی ماکنا فیہ حامدین للّٰہ تعالٰی علی مننہ الجزیلۃ الی کل نبیہ ومصلین علی نبیہ الکریم واٰلہ وصحبہ وسائر مجیہ۔

 

ثالثاً: اگر سند بیان مراد ہی ہو تو بیان کے بغیر کوئی حدیث مروی ہی نہ ہوگی کیونکہ روایت میں سند تو ضروری ہے، تدریب میں ہے کہ حقیقت روایت سنّت وغیرہ کا نقل کرنا اور اس بات کی سند کا ذکر کرنا ہے کہ یہ فلاں نے بیان کی یا فلاں نے اس کی اطلاع دی ہے وغیرہ ذلک اھ زرقانی نے مواہب کی عبارت ''روی عبدالرزاق بسندہ الخ'' کے تحت کہا کہ بسند کا لفظ صرف وضاحت کے لئے ہے ورنہ وہ ''روی'' کا مدلول ہے اھ اور مواہب کی عبارت ''روی الخطیب بسندہ'' کے تحت یہی بات زرقانی نے کہی کہ ''بسندہ'' وضاحت ہے تو ان کے ہاں لفظ ''روی'' کا مدلول بھی یہی ہے اھ جب ہماری یہ گفتگو مکمل ہوچکی تو اللہ تعالٰی کی توفیق سے تحقیق کا اعلٰی درجہ پختہ ہوگیا اس طور پر جو ہماری مراد تھی، اب ہم واپس اس مسئلہ کی طرف لوٹتے ہیں جو ہمارا موضوع تھا اللہ تعالٰی کی بے بہا نعمتوں پر حمد کرتے ہوئے جو اس نے اپنے ہر نبی کو عطا کی ہیں اور صلاۃ وسلام پڑھتے ہوئے نبی کریم اور آپ کی آل واصحاب اور باقی محبین پر۔ (ت)

 

عہ۱ : اوائل الکتاب عند ذکر خلق نورہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ (م)   عہ۲ :فی ذکر ولادتہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ

 

 (م)  (۱؎ تدریب الراوی شرح التقریب    خطبۃ المؤلف/ وفیہا فوائد/ حد علم حدیث    مطبوعہ نشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱ /۴۰)

(۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ    المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام    مطبوعہ مطبعۃ العامرہ مصر   ۱/ ۵۵)

(۳؎شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ  المقصد الاول ذکر تزوج عبداللہ آمنہ  مطبوعہ مطبعۃ العامرہ مصر  ۱/۱۳۳)

 

افادہ بست ودوم۲۲:  (ایسے اعمال کے جواز یا استحباب پر ضعیف سے سند لانا دربارہ احکام اسے حجت بنانا نہیں) جس نے افادات سابقہ کو نظرِ غائر وقلب حاضر سے دیکھا سمجھا اُس پر بے حاجت بیان ظاہر وعیاں ہے کہ حدیث ضعیف سے فضائلِ اعمال میں استحباب یا محلِ احتیاط میں کراہت تنزیہ یا امر مباح کی تائید اباحت پر استناد کرنا اُسے احکام میں حجت بنانا اور حلال وحرام کا مثبت ٹھہرانا نہیں کہ اباحت تو خود بحکم اصالت ثابت اور استحباب تنزہ قواعد قطعیہ شرعیہ وارشاد اقدس ''کیف وقدقیل'' وغیرہ احادیث صحیحہ سے ثابت جس کی تقریر سابقاً زیور گوش سامعان ہُوئی حدیث ضعیف اس نظر سے کہ ضعف سند مستلزم غلطی نہیں ممکن کہ واقع میں صحیح ہو صرف امید واحتیاط پر باعث ہُوئی، آگے حکمِ استحباب وکراہت اُن قواعد وصحاح نے افادہ فرمایا اگر شرع مطہر نے جلب مصالح وسلب مفاسد میں احتیاط کو مستحب نہ مانا ہوتا ہرگز ان مواقع میں احکام مذکورہ کا پتا نہ ہوتا تو ہم نے اباحت، کراہت، مندوبیت جو کچھ ثابت کی دلائل صحیحہ شرعیہ ہی سے ثابت کی نہ حدیث ضعیف سے اقول تاہم از انجاکہ درود ضعیف وہ بھی نہ لذاتہ بلکہ بملاحظہ امکان صحت ترجی واحتیاط کا ذریعہ ہُوا ہے اگر اُس کی طرف تجوزاً نسبت اثبات کردیں بجا ہے اور ثبوت بالضعیف میں بائے استعانت تو ادنٰی مداخلت سے صادق، ہاں اگر دلائل شرعیہ سے ایک امر کلی کی حرمت ثابت ہو اور کوئی حدیث ضعیف اُس کے کسی فرد کی طرف بُلائے مثلاً کسی حدیث مجروح میں خاص طلوع وغروب یا استوا کے وقت بعض نماز نفل کی ترغیب آئی تو ہرگز قبول نہ کی جائے گی کہ اب اگر ہم اُس کا استحباب یا جواز ثابت کریں تو اسی حدیث ضعیف سے ثابت کریں گے اور وہ صالح اثبات نہیں یونہی اگر دلائل شرعیہ مثبت ندب یا اباحت ہوں اور ضعاف میں نہی آئی اسی وجہ سے مفید حرمت نہ ہوگی مثلاً مقرر اوقات کے سوا کسی وقت میں ادائے سنن یا معین رشتوں کے علاوہ کسی رشتہ کی عورت سے نکاح کو کوئی حدیث ضعیف منع کرے حرمت نہ مانی جائے گی ورنہ ضعاف کی صحاح پر ترجیح لازم آئے بحمداللہ یہ معنی ہیں کلام علماء کے کہ حدیث ضعیف دربارہ احکام حلال وحرام معمول بہ نہیں۔

ثم اقول اصل یہ ہے کہ مثبت وہ جو خلاف اصل کسی شَے کو ثابت کرے کہ جو بات مطابق اصل ہے خود اسی اصل سے ثابت، ثابت کیا محتاجِ اثبات ہوگا ولہذا شرع مطہر میں گواہ اس کے مانے جاتے ہیں جو خلاف اصل کا مدعی ہو اور ماورائے دماء وفروج ومضار وخبائث تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے تو ان میں کسی فعل کے جواز پر حدیث ضعیف سے استناد کرنا حلت غیر ثابتہ کا اثبات نہیں بلکہ ثابتہ کی تائید ہے،

 

ھذا تحقیق مااسلفنا فی الافادۃ السابقۃ عن المحقق الدوانی، وھذا ھو معنی مانص علیہ الامام ابن دقیق العید وسلطٰن العلماء عزالدین بن عبدالسلام وتبعھما شیخ الاسلام الحافظ ونقلہ تلمیذہ السخاوی فی فتح المغیث وفی قول البدیع والسیوطی فی التدریب والشمس محمد الرملی فی شرح المنھاج النووی، ستھم من الشافعیۃ، ثم اثرہ عن الرملی العلامۃ الشرنبلالی فی غنیۃ ذوی الاحکام والمحقق المدقق العلائی فی الدرالمختار واقراہ ھما ومحشو الدر الحلبی والطحطاوی والشامی فیھا وفی منحۃ الخالق خمستھم من الحنفیۃ، من اشتراط العمل بالضعیف باندراجہ تحت اصل عام، وھو اذا حققت لیس بتقیید زائد بل تصریح بمضمون مانصوا علیہ ان العمل بہ فیما وراء العقائد والاحکام، کمااوضحناہ لک وبہ ازداد انزھاقا بعد انزھاق ماظن الظانان من ان الکلام فی الاعمال الثابتۃ بالصحاح، کیف ولوکان کذل لما احیتج الی ھذا الاشتراط کمالایخفی واللّٰہ الھادی الی سوی الصراط۔

 

یہ وہ تحقیق ہے جو ہم نے افادہ سابقہ میں محقق ووافی کے حوالے سے بیان کی اور یہ وہ حقیقت ومعنی ہے جس کی تصریح امام ابن دقیق العید اور سلطان العلماء عزالدین بن عبدالسلام نے کی اور شیخ الاسلام حافظ نے ان دونوں کی اتباع کی اور ان کے شاگرد سخاوی نےفتح المغیث اور القول البدیع میں، سیوطی نے تدریب میں، شمس الدین محمد رملی نے شرح المنہاج النووی میں اسے نقل کیا ہے یہ چھ۶ شوافع میں سے ہیں، پھر رملی سے علاّمہ شرنبلالی نے غنیہ ذوی الاحکام میں اور محقق ومدقق العلائی نے درمختار میں اسے نقل کیا اور اسے ان دونوں نے اور درمختار کے محشین حلبی، طحطاوی اور شامی نے اپنے اپنے حواشی اور منحہ الخالق میں ثابت رکھا یہ پانچ حنفی ہیں (اور وہ یہ ہے) کہ حدیث ضعیف پر عمل کے لئے شرط یہ ہے کہ کسی عمومی ضابطہ کے تحت داخل ہو اور جب تو اس کی تحقیق کرے تو یہ کوئی زائد قید نہیں بلکہ اسی مضمون کی وضاحت ہے جس کی انہوں نے تصریح کی ہے کہ اس پر عمل عقائد واحکام کے علاوہ میں کیا جائیگا، جیسا کہ ہم نے پہلے اسے واضح کردیا ہے اور اس سے ان دو علماء کا خوب رَد ہوگیا جو یہ گمان رکھتے تھے کہ یہ ان اعمال کے بارے میں کلام ہے جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں اور یہ مطلب اس لئے نہیں ہوسکتا کہ اگر معاملہ یہ ہوتا تو یہ شرط لگانے کی محتاجی نہ تھی جیسا کہ واضح ہے، اور اللہ تعالٰی سیدھے راہ کی ہدایت دینے والا ہے۔ (ت)

 

بحمداللہ اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ بعض متکلمین طائفہ جدیدہ کا زعم باطل کہ ان احادیث سے جوازِ تقلیل ابہامین پر دلیل لانا احکامِ حلال وحرام میں انہیں حجت بنانا ہے اور وہ بتصریح علماء ناجائز، محض مغالطہ وفریب وہی عوام ہے ذی ہوش نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ وہی علماء جو حدیث ضعیف کو حلال وحرام میں حجت نہیں مانتے صدہا جگہ احادیث ضعیفہ سے افعال کے جواز واستحباب پر دلیل لاتے ہیں جس کی چند مثالیں افادہ سابقہ میں گزریں کیا معاذاللہ علمائے کرام اپنا لکھا خود نہیں سمجھتے یا اپنے مقررہ قاعدہ کا آپ خلاف کرتے ہیں کیا افادہ ہفدہم میں امام ابن امیرالحاج کا ارشاد نہ سنا کہ جمہور علماء کے نزدیک فضائل اعمال میں حدیث ضعیف قابلِ عمل ہے تو کسی فعل کی اباحت قائم رکھنا بدرجہ اولٰی ولکن الوھابیۃ لایسمعون واذا سمعوا لایعقلون رب انی اسألک العفو والعافیۃ اٰمین (وہابی تو سُنتے ہی نہیں، سُنتے ہیں تو سمجھتے نہیں، اے میرے رب! میں تجھ سے عفو ومعافی کا سوال کرتا ہُوں، آمین۔ ت)

 

افادہ بست ۲۳ وسوم (ایسے مواقع میں ہر حدیث ضعیف غیر موضوع کام دے سکتی ہے)اقول اوّلاً جمہور علماء کے عامہ کلمات مطالعہ کیجئے تو وہ مواقع مذکورہ میں قابلیت عمل کیلئے کسی قسم ضعف کی تخصیص نہیں کرتے، صرف اتنا فرماتے ہیں کہ موضوع نہ ہو فتح(۱) القدیر والفیہ(۲) عراقی وشرح(۳) الفیۃ للمصنف میں تھا غیر الموضوع ۱؎ (موضوع کے علاوہ ہو۔ ت) مقدمہ(۴) ابن الصلاح وتقریب(۵) میں ماسوی الموضوع ۲؎ (موضوع کے سوا ہو۔ ت) مقدمہ(۶) سید شریف میں دون الموضوع ۳؎ (موضوع نہ ہو۔ ت) حلیہ(۷) میں الذی لیس بموضوع ۴؎ (ایسی روایت جو موضوع نہ ہو۔ ت) اذکار (۸) میں ان الفاظ سے اجماع ائمہ نقل فرمایا کہ مالم یکن موضوعا ۵؎ (وہ جو کہ موضوع نہ ہو۔ ت) یونہی(۹) امام ابن عبدالبر نے اجماعِ محدثین ذکر کیا کہ یرونھا عن کل ۶؎ (محدثین ان کو تمام سے روایت کرتے ہیں۔ ت) یہ سب عبارات باللفظ یا بالمعنی افادات سابقہ میں گزریں،

 

 (۱؎ فتح القدیر        باب الامامۃ        مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/ ۳۰۳)

(۲؎ مقدمہ ابن الصلاح    النوع الثانی والعشرون معرفۃ المقلوب    مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان    ص ۴۹)

(۳؎ مقدمہ سیہ شریف)    (۴؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

(۵؎ الاذکار المنتخبہ من کلام سید الابرار    فصل قال العلماء الخ    مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت    ص ۷)

(۶؎ کتاب العلم لابن عبدالبر)

 

زرقانی(۱۰) شرح عہ۱  مواہب میں ہے عادۃ المحدثین التساھل فی غیر الاحکام والعقائد مالم یکن موضوعا ۷؎ (محدثین کی عادت ہے کہ غیر احکام وعقائد میں تساہل کرتے ہیں اس میں جو موضوع نہ ہو)

 

عہ۱ : ذکر رضاعہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم تحت حدیث مناغاۃ القمرلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ (م)

 

نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ذکر رضاعت میں اس حدیث کے تحت جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انگلی کے اشارے سے چاند کے ساتھ کھیلنے (جھک جانے) کا بیان ہے وہاں اس کا ذکر ہے دیکھو۔ (ت)

 

 (۷؎ شرح الزرقانی المواہب اللدنیۃ    المقصد الاول ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم    مطبعۃ عامرہ مصر    ۱/ ۱۷۲)

 

یونہی(۱۱) علّامہ حلبی سیرۃ عہ۲  الانسان العیون میں فرماتے ہیں:لایخفی ان السیر تجمع الصحیح والسقیم والضعیف والبلاغ والمرسل والمنقطع والمعضل دون الموضوع وقدقال الامام احمد وغیرہ من الائمۃ اذاروینا فی الحلال والحرام شددنا واذا روینا فی الفضائل ونحوھا تساھلنا ۱؎۔

 

واضح رہے کہ اصحاب سیر ہر قسم کی روایات جمع کرتے ہیں صحیح، غیر صحیح، ضعیف، بلاغات، مرسل، منقطع اور معضل وغیرہ، لیکن موضوع روایت ذکر نہیں کرتے۔ امام احمد اور دیگر محدثین کا قول ہے کہ جب ہم حلال وحرام کے بارے میں احادیث روایت کرتے ہیں تو شدت کرتے ہیں اور جب ہم فضائل وغیرہ کے بارے میں روایات لاتے ہیں تو ان میں نرمی برتتے ہیں۔ (ت)

 

عہ۲ : نقل ھذا وماسیاتی عن عیون الاثر بعض الاثرین ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

عیون الاثر کی یہ عبارت اور وہ جو عنقریب ذکر کی جائیگی ان کو بعض معاصرین نے نقل کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ انسان العیون    خطبۃ الکتاب    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۳)

 

شیخ محقق(۱۲) مولانا عبدالحق محدّث دہلوی قدس سرہ القوی شرح صراط المستقیم میں فرماتے ہیں:گفتہ اندکہ اگر ضعف حدیث بجہت سوئے حفظ بعض رواۃ یا اختلاط یا تدلیس بود باوجود صدق ودیانت منجبر میگرود بتعدد طرق واگر ازجہت اتہام کذب راوی باشدیا شزوذ بمخالفت احفظ واضبط یابقوت ضعف مثل فحش خطا اگرچہ تعدد طرق داشتہ باشد منجبر نگرود وحدیث محکوم بضعف باشد ودرفضائل اعمال معمول ۲؎ الخمحدثین نے بیان فرمایا ہے کہ اگر کسی حدیث میں ضعف بعض راویوں کے سُوئے حفظ یا تدلیس کی وجہ سے ہو جبکہ صدق ودیانت موجود ہوتو یہ کمی تعدد طرق سے پُوری ہوجاتی ہے اور اگر ضعف راوی پر اتہامِ کذب کی وجہ سے ہو یا احفظ واضبط راوی کی مخالفت کسی جگہ ہو یا ضعف نہایت قوی ہو مثلاً فحش غلطی ہو تو اب تعدد طرق سے بھی کمی کا ازالہ نہیں ہوگا اور حدیث ضعیف پر ضعیف کا ہی حکم ہوگا اور فضائل اعمال میں ہے الخ (ت)

 

 (۲؎ شرح صراط مستقیم    دیباچہ شرح سفر السعادت مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ص ۱۳)

 

ثانیا کلبی کا نہایت شدید الضعف ہونا کسے نہیں معلوم اُس کے بعد صریح کذاب وضّاع ہی کا درجہ ہے ائمہ شان نے اُسے متروک بلکہ منسوب الی الکذب تک کیا کذبہ ابن حبان والجوزجانی وقال البخاری ترکہ یحیٰی وابن مھدی وقال الدارقطنی وجماعۃ متروک (ابن حبان اور جوزجانی نے اسے جھُوٹا قرار دیا ہے، بخاری کہتے ہیں کہ اسے یحیٰی اور ابن مہدی نے ترک کردیا، دارقطنی اور ایک جماعت نے کہا کہ یہ متروک ہے۔ ت) لاجرم حافظ نے تقریب میں فرمایامتھم بالکذب ورمی بالرفض ۳؎ (اس پر کذب کا اتہام ہے اور اسے روافض کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ ت)

 

 (۳؎ تقریب التہذیب ترجمہ محمد بن السائب بن بشر الکلبی  مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ص ۲۹۸)

 

بااینہمہ عامہ کتب سیر وتفاسیر اس کی اور اس کی امثال کی روایات سے مالامال ہیں علمائے دین ان امور میں اُنہیں بلانکیر نقل کرتے رہے ہیں، میزان میں ہے :

 

قال ابن عدی وقدحدث عن الکلبی سفٰین وشعبۃ وجماعۃ ورضوہ فی التفسیر واما فی الحدیث فعندہ مناکیر ۱؎۔ابن عدی نے کہا کہ کلبی سے سفیان، شعبہ اور ایک جماعت نے حدیث بیان کی ہے اور ان روایات کو پسند کیا ہے جس کا تعلق تفسیر کے ساتھ ہے اور حدیث سے متعلقہ روایات انکے نزدیک مناکیر ہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال    نمبر ۷۵۷۴    ترجمہ محمد بن السائب الکلبی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت  ۳/ ۵۵۸)

 

امام ابن سید الناس سیرۃ عیون الاثر میں فرماتے ہیں: غالب مایروی عن الکلبی انساب واخبار من احوال الناس وایام العرب وسیرھم ومایجری مجری ذلک مماسمح کثیر من الناس فی حملہ عمن لایحمل عنہ الاحکام وممن حکی عنہ الترخیص فی ذلک الامام احمد ۲؎۔

 

کلبی سے اکثر طور پر لوگوں کے انساب واحوال، عربوں کے شب وروز اور ان کی سیرت یا اسی طرح کے دیگر معاملات مروی ہیں جو کثرت کے ساتھ ایسے لوگوں سے لے لیے جاتے ہیں جن سے احکام نہیں لیے جاتے اور جن لوگوں سے اس معاملہ میں اجازت منقول ہے وہ امام احمد ہیں۔ (ت)

 

 (۲؎ عیون الاثر    ذکر الاجوبہ عمارمی بہ        مطبوعہ دارالحضارۃ بیروت    ۱ /۲۴)

 

ثالثاً (امام واقدی ہمارے علماء کے نزدیک ثقہ ہیں) امام واقدی کو جمہور اہلِ اثر نے حپنین وچناں کہا جس کی تفصیل میزان وغیرہ کتبِ فن میں مسطور، لاجرم تقریب میں کہا:متروک مع سعۃ علمہ ۳؎ (علمی وسعت کے باوجود متروک ہے۔ ت) اگرچہ ہمارے علماء کے نزدیک اُن کی توثیق ہی راجح ہے ۔

 

 (۳؎ تقریب التہذیب  ترجمہ محمد بن عمر بن واقد الاسلمی  مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالا ص۱۳۔ ۳۱۲)

 

کماافادہ الامام المحقق فی فتح القدیر عہ ۴؎ (جیسا کہ امام محقق نے فتح القدیر میں اس کو بیان کیا ہے۔ ت)

 

عہ :حیث قال فی باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء عن الواقدی قال کانت بئر بضاعۃ طریقا للماء الی البساتین وھذا تقوم بہ الحجۃ عندنا اذا وثقنا الواقدی، اما عندالمخالف فلالتضعیفہ ایاہ ۲؎ اھ وقال فی فصل فی الآسار قال فی الامام جمع شیخنا ابوالفتح الحافظ فی اول کتابہ المغازی والسیر من ضعفہ ومن وثقہ ورجح توثیقہ وذکر الاجوبۃ عماقیل فیہ ۳؎ اھ ۱۲ منہ (م)

جہاں انہوں نے ''باب الماء الذی یجوزبہ الوضوئ'' میں واقدی سے نقل کیا کہ بضاعۃ کے کنویں سے باغوں کو پانی دیا جاتا تھا ہمارے نزدیک حجت کے لئے یہی کافی ہے کیونکہ ہم نے واقدی کی توثیق کردی ہے باقی مخالف کے نزدیک حجت نہیں کیونکہ وہ اس کی تضعیف کا قائل ہے اھ اور ''فصل فی الآسار'' میں کہا کہ امام کے بارے میں ہمارے شیخ ابوالفتح حافظ نے اپنی پہلے کتاب المغازی والسیر میں ان روایات کو جمع کیا ہے جن کی توثیق کی گئی یا ان کو ضعیف کہا گیا اور ان کی توثیق کو ترجیح دیتے ہوئے ان پر وارد شدہ اعتراضات کے جوابات بھی ذکر کیے اھ ۱۲ منہ۔ (ت)

 

 (۴؎ فتح القدیر        باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء    مطبوعہ مکتبہ نُوریہ رضویہ سکھر    ۱/ ۶۹)

(۲؎فتح القدیر    مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر       ۱ /۶۹ و ص ۹۷)

(۳؎ فتح القدیر    مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر       ۱/ ۶۹ و ص ۹۷)

 

بااینہمہ یہ جرح شدید ماننے والےبھی انہیں سِیر ومفازی واخبار کا امام مانتے اور سلفاً وخلفاً ان کی روایات سِیر میں ذکر کرتے ہیں کمالایخفی علی من طالع کتب القوم (جیسا کہ اس شخص پر مخفی نہیں جس نے قوم کی کُتب کا مطالعہ کیا ہے۔ ت) میزان میں ہے:کان الی حفظہ المنتھی فی الاخبار والسیر والمغازی الحوادث وایام الناس والفقہ وغیر ذلک ۱؎۔یہ اخبار واحوال، علم سِیر ومفازی، حواد ثاتِ زمانہ اور اس کی تاریخ اور علمِ فقہ وغیرہ کے انتہائی ماہر اور حافظ ہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال  نمبر ۷۹۹۳  ترجمہ محمد بن عمربن واقد الاسلمی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت لبنان ۳/ ۶۶۳)

 

رابعاً ہلال بن زید بن یسار بصری عسقلانی کو ابنِ حبان نے کہا روی عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اشیاء موضوعۃ (انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے موضوع روایات نقل کی ہیں۔ ت) حافظ الشان نے تقریب میں کہا متروک باوصف اس کے جب انہیں ہلال نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث فضیلت عسقلان روایت کی جسے حافظ ابوالفرج نے بعلّتِ مذکورہ درج موضوعات کیا اُس پر حافظ الشان ہی نے وہ جواب مذکور افادہ دہم دیا کہ حدیث فضائلِ اعمال کی ہے سو اُسے طعن ہلال کے باعث موضوع کہنا ٹھیک نہیں امام احمد کا طریق معلوم ہے کہ احادیث فضائل میں تساہل فرماتے ہیں، اور یہ بھی افادہ نہم میں حافظ الشان ہی کی تصریح سے گزرچکا کہ متروک ایسا شدید الضعیف ہے جس کے بعد بس متہم بالوضع ووضاع ہی کا درج ہے اب یہ بات خوب محفوظ رہے کہ خود امام الشان ہی نے ہلال کو متروک کہا خود ہی متروک کو اتنا شدید الضعف بتایا خود ہی ایسے شدید الضعف کی روایت کو دربارہ فضائل مستحق تساہل رکھا اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہوگی کہ ضعف کیسا ہی شدید ہو جب تک سرحدِ کذب ووضع تک نہ پہنچے حافظ الشان کے نزدیک بھی فضائل میں قابلِ نرمی وگوارائی ہے وللہ الحجۃ السامیہ۔

 

خامساً اور سُنیے وضو کے بعد اِنّا انزلنا پڑھنے کی حدیثوں کا ضعف نہایت قوّت پر ہے، سخاوی نے مقاصد حسنہ میں اسے بے اصل محض کہا، امام جلیل ابواللیث سمرقندی نے اپنے مقاصد میں ان حدیثوں کو ذکر فرمایا، امام الشان سے اس بارہ میں سوال ہُوا وہی جواب فرمایا کہ فضائلِ اعمال میں ضعاف پر عمل روا ہے۔امام ابن امیرالحاج حلیہ میں فرماتے ہیں : قد سئل شیخنا حافظ عصرہ قاضی القضاۃ شھاب الدین الشھیر بابن حجر رحمہ اللّٰہ تعالٰی من ھذہ الجملۃ فاجاب بمانصہ الاحادیث التی ذکرھا الشیخ ابواللیث نفع اللّٰہ تعالٰی ببرکتہ ضعیفۃ والعلماء یتساھلون فی ذکر الحدیث الضعیف والعمل بہ فی فضائل الاعمال ولم یثبت منھا شیئ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لامن قولہ ولامن فعلہ ۱؎ اھہمارے شیخ حافظ العصر قاضی القضاۃ شہاب الدین المعروف ابنِ حجر رحمہ اللہ تعالٰی سے ان روایات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے یہ جواب ارشاد فرمایا کہ وہ احادیث جن کو امام ابواللیث، ''اللہ تعالٰی ان کی برکت سے نفع عطا فرمائے'' نے ذکر کیا ہے وہ ضعیف ہیں، اور علماء حدیث ضعیف کے ذکر کرنے اور فضائل اعمال میں اس پر عمل کرنے میں نرمی برتتے ہیں اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ان کے متعلق کوئی قول وعمل ثابت نہ ہو اھ (ت)

 

(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

سادساً یہ حدیث کہ چاند گہوارہ میں عرب کے چاند عجم کے سورج صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے باتیں کرتا، حضور کو بہلاتا، انگشت مبارک سے جدھر اشارہ فرماتے اُسی طرف جھُک جاتا کہ بیہقی نے دلائل النبوۃ، امام ابوعثمٰن اسمعیل بن عبدالرحمن صابونی نے کتاب المائتین، خطیب نے تاریخ بغداد، ابنِ عساکر نے تاریخ دمشق میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی اُس کا مدار احمد بن ابراہیم حلبی شدید الضعف پر ہے، میزان میں ہے امام ابوحاتم نے کہا:احادیثہ باطلۃ تدلہ علی کذبہ ۲؎(اس کی احادیث باطلہ اس کے کذب پر دال ہیں۔ ت)

 

(۲؎ میزان الاعتدال    ترجمہ نمبر ۲۸۷    احمد بن ابراہیم حلبی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت لبنان   ۱/ ۸۱)

 

باوجود اس کے امام صابونی نے فرمایا:ھذا حدیث غریب الاسناد والمتن وھو فی المعجزات حسن ۱؎(اس حدیث کی سند بھی غریب اور متن بھی غریب بااینہمہ معجزات میں حسن ہے) اُن کے اس کلام کو امام جلال الدین سیوطی نے خصائص کبرٰی، امام احمد قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں نقل کیا اور مقرر رکھا۔

 

 (۱؎ المواہب اللدنیۃ بحوالہ کتاب المائتین حدیث غریب الاسناد المتن    المکتب الاسلامی بیروت    ۱/ ۱۵۴)

 

سابعاً حدیث الدیک الابیض صدیقی وصدیق صدیقی وعد وعدواللّٰہ وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یبتیہ معہ فی البیت ۲؎ (مرغ سپید میرا خیر خواہ اور میرے دوست کا خیر خواہ، اللہ تعالٰی کے دشمن کا دشمن ہے، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُسے شب کو مکان خوابگاہ اقدس میں اپنے ساتھ رکھتے تھے) کہ ابوبکر برقی نے ابوزید انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی،

 

 (۲؎ کتاب الموضوعات لابن الجوزی    باب فی الدیک الابیض    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۳ /۴)

 

علامہ مناوی نے تیسیر میں فرمایا: باسناد فیہ کذاب ۳؎ (اس کی سند میں کذاب ہے) باوصف اس کے فرمایا: فیندب لنا فعل ذلک تأسیا بہ ۴؎ جبکہ حدیث میں ایسا وارد ہوا تو ہمیں باقتدائے حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مرغ سپید کو اپنی خوابگاہ میں ساتھ رکھنا مستحب ہے۔

 

 (۳؎ تیسیر شرح جامع صغیر للمناوی    حدیث مذکور کے تحت    مکتبہ الامام الشافعی ریاض سعودیہ    ۲/ ۱۵)

(۴؎ التیسر شرح الجامع الصغیر        حدیث مذکور کے تحت    مکتبہ الامام الشافعی ریاض سعودیہ    ۲ /۱۵)

 

مثالیں اس کی اگر تتبع کیجئے بکثرت لیجئےوھذا الاخیر قدبلغ الغایۃ وفیما ذکرنا کفایۃ لاھل الدرایۃ (یہ آخری انتہاء پر ہے اور جو کچھ ہم نے ذخر کردیا وہ اہل فہم کے لئے کافی ہے۔ ت)

 

ثامناً احادیث ودلائل مذکورہ افادات سابقہ بھی اسی اطلاق کے شاہد عدل ہیں خصوصاً حدیثوان کان الذی حدثہ بہ کاذباً(اگرچہ جس نے اسے بیان کیا کاذب ہو۔ ت) ظاہر ہے کہ احتمالِ صدق ونفع بے ضرر ہر ضعیف میں حاصل تو فرق زائل بالجملہ یہی قضیہ دلیل ہے اور یہی کلام وعمل قوم سے مستفاد مگر حافظ الشان سے منقول ہوا کہ شرط عمل عدم شدت ضعف ہےنقلہ تلمیذہ السخاوی وقال سمعتہ مرارا یقول ذلک (اسے ان کے شاگرد امام سخاوی نے نقل کیا اور کہا کہ میں نے ان سے یہ کئی مرتبہ کہتے سُنا ہے۔ ت)

 

اقول (بحث قبول شدید الضعف) یہاں شدتِ ضعف سے مراد میں حافظ سے نقل مختلف آئی، شامی عہ نے فرمایا طحطاوی نے فرمایا امام ابن حجر نے فرمایا:شدید الضعف ھو الذی لایخلو طریق من طرقہ عن کذاب اومتھم بالکذب ۱؎۔شدید الضعف وہ حدیث ہے جس کی اسنادوں سے کوئی اسناد کذاب یا متہم بالکذب سے خالی نہ ہو۔

 

عہ: فی مستحبات الوضوء ۱۲ منہ (م)      (شامی نے مستحبات الوضوء میں فرمایا ۱۲ منہ۔ ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار        مستحبات الوضوء    مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱/ ۹۵)

 

یہاں صرف انہیں دو۲ کو شدّتِ ضعف عہ میں رکھا امام سیوطی نے تدریب میں فرمایا حافظ نے فرمایا:ان یکون الضعف غیر شدید فیخرج من انفرد من الکذابین والتھمین بالکذب ومن فحش غلطہ ۲؎۔وہ ضعف شدید نہ ہو پس اس سے وہ نکل گیا جو کذاب اور متہم بالکذب میں منفرد ہو یا جو فحش الغلط ہو۔ (ت)

 

عہ : وھکذا عزابعض العصریین وھو المولوی عبدالحی اللکنوی فی ظفر الامانی الی التدریب والقول البدیع حیث قال الشرط للعمل بالحدیث الضعیف ثلٰث شروط علی ماذکرہ السیوطی فی شرع تقریب النووی والسخاوی فی القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع وغیرھما الاول عدم شدۃ ضعفہ بحیث لایخلوطریق من طرقہ من کذاب اومتھم بالکذب الخ اقول لکن سنسمعک نص التدریب والقول البدیع فیظھرلک ان وقع ھھنا فی النقل عنھما تقصر شنیع فلیتنبہ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

معاصرین میں سے مولوی عبدالحی لکھنوی نے ''ظفرالامانی'' ''التدریب'' اور ''القول البدیع'' کی طرف ایسے ہی منسوب کیا، جہاں انہوں نے کہا کہ ضعیف حدیث پر عمل کی تین شرطیں ہیں جیسا کہ نووی نے ''شرع تقریب النووی'' اور سخاوی نے ''القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع'' میں اور ان کے علاوہ دوسروں نے بھی ذکر کیا، پہلی شرط یہ ہے کہ اس کا ضعف شدید نہ ہو بایں طور کہ اس کے تمام طرق کذاب اور متہم بالکذب سے خالی نہ ہوں الخ اقول ابھی بعد میں ہم آپ کو ان دونوں کتابوں کی عبارت سنائیں گے جس سے آپ کو معلوم ہوجائیگا کہ اس نقل میں ان دونوں سے انتہائی کوتاہی سرزو ہوئی ہے، غور کرنا چاہئے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۲؎ تدریب الراوی     شرح تقریب النووی    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۲۹۸)

 

یہاں ان دو۲ کے ساتھ فحش غلط کو بھی بڑھایا نسیم الریاض میں قول البدیع سے کلام حافظ بایں لفظ نقل کیا:ان یکون الضعف غیر شدید کحدیث من انفرد من الکذابین والمتھمین ومن فحش غلطہ ۳؎۔حدیث میں ضعف شدید نہ ہو مثلاً اس شخص کی حدیث جو کذابین اور متہمین سے ہو یا وہ فحش الغلط ہو۔ (ت)

 

 (۳؎ نسیم الریاض شرح الشفاء        مقدمۃ الکتاب    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۱/ ۴۳)

 

یہاں کاف نے زیادتِ توسیع کا پتا دیا، تحدید اول پر امر سہل وقریب ہے کہ ایک جماعت علما حدیث کذابین ومتہمین پر اطلاقی وضع کرتے ہیں تو غیر موضوع سے انہیں خارج کرسکتے ہیں مگر ثانی تصریحات ومعاملات جمہور وعلما وخود امام الشان سے بعید اور ثالث بظاہرہ ابعد ہے ہم ابھی روشن بیان سے واضح کرچکے ہیں کہ خود حافظ نے متروک شدید الضعف راوی موضوعات کی حدیث کو بھی فضائل میں محتمل رکھا مگر بحمداللہ تعالٰی ہمارا مطلب ہر قول پر حاصل ہم افادات سابقہ میں مبرہن کرآئے ہیں کہ تقبیل ابہامین کی حدیثیں ہرگُونہ ضعف شدید سے پاک ومنزّہ ہیں اُن پر صرف انقطاع یا جہالتِ راوی سے طعن کیاگیا یہ ہیں بھی تو ضعفِ قریب نہ ضعف شدید والحمدللّٰہ العلی المجمید ''ھذا'' (اسے یاد رکھو۔ ت)

 

ورأیتنی کتبت ھھنا علی ھامش فتح المغیث، کلاماً یتعلق بالمقام احببت ایرادہ اتماماً للمرام، فذکرت اولاماعن الشامی عن الطحطاوی عن ابن حجر ثم ایدتہ باطلاق العلماء ثم اوردت ماعن النسیم عن السخاوی عن الحافظ ثم قلت مانصہ۔

 

اور مجھے یاد آرہا ہے کہ میں نے اس مقام پر فتح المغیث کے حاشیہ میں ایسی گفتگو کی ہے جو اس مقام پر مناسب ہے میں اتمامِ مقصد کی خاطر اس کا یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں، پہلے میں وہ ذکر کروں گا جو امام شامی نے طحطاوی سے اور انہوں نے ابنِ حجر سے نقل کیا ہے پھر اسے مزید قوی کروں گا علماء کے اطلاق سے پھر وہ نقل کروں گا جو نسیم نے سخاوی سے انہوں نے حافظ سے نقل کیا۔ پھر میرا قول یہ ہے:

 

اقول وھذا کماتری مخالف لاطلاق مامر عن النووی عن العلماء قاطبعۃ، ولتحدید مامر عن الطحطاوی عن شیخ الاسلام نفسہ لکن یظھرلی دفع التخالف عن کلامی شیخ الاسلام بانہ ھھنا ذکر المتفرد وفیما سبق قال ''لایخلوطریق من طرقہ، فیکون الحاصل ان شدید الضعف بغیر الکذب والتھمۃ لایقبل عندہ فی الفضائل حین التفرد، اما اذاکثرت طرقہ فح یبلغ درجۃ یسیر الضعف فی خصوص قبولہ فی الفضائل، بخلاف شدید الضعف بالکذب والتھمۃ فانہ وان کثرطرقہ التی لاتفوقہ بان لایخلو شیئ منھا عن کذاب اومتھم لایبلغ تلک الدرجہ، ولایعمل بہ فی الفصائل، وھذا ھو الذی یعطیہ کلام السخاوی فیما مرحیث جعل قبول مافیہ ضعف شدید مطلقا ولوبغیر کذب فی باب الفضائل موقوفا علی کثرۃ الطرق، لکنہ یخالفہ فی خصلۃ واحدۃ، وھو حکمہ بالقبول بکثرۃ الطرق فی الضعف بالکذب ایضا کماتقدم، وھو کماتری مخالف لصریح مانقل عن شیخ الاسلام وعلی کل فلم یرتفع مخالفۃ نقل شیخ الاسلام عن العلماء جمیعا لنقل الامام النووی عنھم کافۃ، فانھم لم یشرطوا للقبول فی الفضائل فی شدید الضعف کثرۃ الطرق ولاغیرھا سوی ان ان لایکون موضوعا، فصریح مایعطیہ کلامھم قبول مااشتد ضعفہ لفسق اوفحش غلط، مثلا وان تفرد ولم یکثر طرقہ، فافھم، وتأمل، فان المقام مقام خفاء وزلل، واللّٰہ المسؤل لکشف الحجاب، وابانۃ الصواب الیہ المرجع والیہ المآب اھ، مااردت نقلہ مما علقتہ علی الھامش۔

 

اقول جیسا کہ تمہیں معلوم ہے یہ بات علّامہ نووی کے نقل کردہ تمام علماء کے اطلاق اور خود شیخ الاسلام سے امام طحطاوی کی گزشتہ نقل کردہ تعریف کے خلاف ہے۔ لیکن شیخ الاسلام کی دونوں کلاموں میں مخالف کو ختم کرنے کی وجہ مجھ پر ظاہر ہورہی ہے وہ یہ کہ یہاں انہوں نے راوی کی تفرد کی بات کی ہے اور پہلے انہوں نے کہا ہے کہ طُرق میں سے کوئی طریق بھی (کذاب ومہتم سے) خالی نہ ہو، پس حاصل یہ ہوا کہ کذب وتہمت کے بغیر شدید ضعف ہوتو ان کے ہاں تفرد کی صورت میں فضائل میں قابل قبول نہیں، لیکن جب وہ کثرتِ طُرق سے مروی ہوتو اس صورت میں وہ شدید ضعف سے خفیف ضعف کے درجہ میں آجائےگی پس اب وہ صرف فضائل میں مقبول ہوجائیگی، اس کے برخلاف جو کذب اور تہمت کی وجہ سے شدید ضعف والی ہوتو بیشمار کثرتِ کے باوجود وہ مقبولیت کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتی اور نہ ہی فضائل میں قابلِ عمل ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے ہر طریق میں کوئی نہ کوئی کذاب اور مہتم ضرور ہوتا ہے۔ یہی بات علمامہ سخاوی کے گزشتہ کلام سے حاصل ہوتی ہے جہاں انہوں نے شدید ضعف والی حدیث کے فضائل میں مقبول ہونے کو کثرتِ طرق پر موقوف کیا وہاں شدّتِ ضعف مطلق مراد ہے خواہ وہ کذب کے علاوہ ہی ہو، لیکن یہ بات ان کو ایک جگہ آڑے آئے گی۔ جہاں انہوں نے ضعف بالکذب پر بھی کثرتِ طرق کی بنا پر مقبول ہونے کا حکم کیا ہے جیسا کہ گزرا ہے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ بات شیخ الاسلام سے نقل کردہ کے صراحۃً خلاف ہے، بہرصورت شیخ الاسلام کا تمام علماء سے نقل کردہ مؤقف اور امام نووی کا نقل کردہ انہی تمام علماء کا مؤلف مختلف ہے یہ اختلاف مرتفع نہیں ہوسکتا، کیونکہ علماء نے فضائل میں شدید ضعف والی حدیث کو قبول کرنے کے لئے کثرت طُرق وغیرہا کی شرط نہیں لگائی صرف یہ کہا ہے کہ وہ موضوع نہ ہو، ان کے کلام کا صریح ماحصل یہ ہے کہ مثلاً فسق یا فحش غلطی کی بنا پر جس حدیث کا ضعف شدید ہو خواہ اس کا راوی متفرد ہی کیوں نہ ہو اور اس حدیث کے طرق کثیر بھی نہ ہوں تب بھی یہ حدیث (فضائل میں) مقبول ہے، غور وتأمل کرو، کیونکہ یہ مقامِ خفی ہے اور غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے، پردوں کو کھولنے اور درستی کو ظاہر کررنے کا سوال صرف اللہ تعالٰی سے ہے اسی کی طرف لوٹنا ہے اور وہی جائے پناہ ہے۔ فتح المغیث کے حاشیہ میں سے جو میں نقل کرنا چاہتا تھا وہ ختم ہوا۔ (ت)

 

فان قلت ھذا قید زائد افادہ امام فلیحمل اطلاقاتھم علیہ دفعاً للتخالف بین النقلین قلت نعم لولا ان ماذکروا من الدلیل علیہ لایلائم سریان التخصیص الیہ، وکیف نصنع بما نشاھدھم یفعلون یرون شدۃ الضعف ثم یقبلون، وبالجملۃ فالاطلاق ھو الاوفق بالدلیل والالصق بقواعد الشرع الجمیل فنودان یکون علیہ التعویل والعلم بالحق عند الملک الجلیل۔

 

اگر اعتراض کے طور پر تو یہ کہے کہ امام شیخ الاسلام کے بیان میں ایک زاید قید ہے جس پر علماء کے اطلاقات کو محمول کیا جاسکتا ہے اس سے دو نقل کردہ کلاموں میں اختلاف ختم ہوسکتا ہے قلت (تو میں جواباً کہتا ہوں) ہاں اگر علماء کے ذکر کردہ پر کوئی دلیل نہ ہو تب بھی ان کے کلام کو اس قید سے خاص کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ ان کا کلام ہی نہیں ہے بلکہ وہ شدید ضعف پاکر بھی قبول کرنے پر عمل پیرا ہیں جس کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ (شدید ضعیف حدیث کو قبول کرنے کے لئے کثرتِ طرق) کی قید نہ لگانا، دلیل کے زیادہ موافق اور قواعدِ شرح جمیل کے زیادہ مناسب ہے، ہماری خواہش ہے کہ یہی قابلِ اعتماد ہو اور حق کا علم اللہ جل جلالہ، کے ہاں ہے۔ (ت)

 

فائدۃ جلیلۃ (فائدۃ جلیلۃ فی احکام انواع الضعیف والجبار ضعفھا) ھذا الذی اشرت الیہ من کلام السخاوی المار المتقدم ھو قولہ مع متنہ فی بیان الحسن، ان یکن ضعف الحدیث لکذب اوشذوذ بان خالف من ھو احفظ اواکثر اوقوۃ الضعف بغیرھما فلم یجبر ولوکثرت طرقہ، لکن بکثرۃ طرقہ یرتقی عن مرتبۃ المردود المنکر الی مرتبۃ الضعیف الذی یجوز العمل بہ فی الفضائل وربما تکون تلک الطرق الواھیۃ بمنزلۃ الطریق التی فیھا ضعف یسیر بحیث لوفرض مجیئ ذلک الحدیث باسناد فیہ ضعف یسیر کان مرتقیا بھا الٰی مرتبۃ الحسن لغیرہ ۱؎ اھ ملخصا۔

 

فائدہ جلیلہ (ضعیف حدیثوں کے احکام، اقسام اور انکی کمی کو پُورا کرنے کے بیان میں) امام سخاوی کے جس گزشتہ کلام کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے وہ بمع متن، حدیث حسن کے بارے میں ہے کہ حدیث کا ضعف کذب یا شذوذ یعنی وہ حدیث احفظ راوی یا کثیر رواۃ کی روایت کے خلاف ہو، یا یہ ضعیف قوی ہو جوان دو مذکورہ (کذب اور شذوذ) کے علاوہ کسی اور وجہ سے پیدا ہوا ہو، یہ ضعف کثرتِ طُرق سے بھی ختم نہیں ہوسکتا، لیکن کثرتِ طرق کی بنا پر یہ حدیث مردود منکر کے مرتبہ سے ترقی کرکے ایسے ضعف کے مرتبہ پر پہنچ جاتی ہے جس سے فضائل میں عمل کے لئے مقبول ہوجاتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدیث کے متعدد کمزور طُرق ایک معمولی کمزور طریقہ جیسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ حدیث کسی معمولی ضعف والی سند کے ساتھ مروی فرض کرلی جائے تو یہ درجہ حسن لغیرہ پر فائز ہوجاتی ہے، ملخصاً۔ (ت)

 

 (۱؎ فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث    الحسن دارالامام الطبری بیروت    ۱/ ۸۳)

 

ورائتنی علقت علیہ ھھنا مانصہ اقول حاصل ماتقرر وتحررھھنا مع زیادات نفیسۃ منا ان الموضوع لایصلح لشیئ اصلا ولایلتئم جرحہ ابدا ولوکثرت طرقہ ماکثرت، فان زیادۃ الشرلایزید الشیئ الا شرا، وایضا الموضوع کالموضوع کالمعدوم والمعدوم لایقوی ولایتقوی، ومنہ عند جمع منھم شیخ الاسلام ماجاء بروایۃ الکذابین وعند آخرین منھم خاتم الحفاظ مااتی من طریق المتھمین، وسوّٰھما السخاوی بشدید الضعف الآتی لذھابہ الی ان الوضع لایثبت الابالقرائن المقررۃ ان تفرد بہ کذاب اووضاع کمانص علیہ فی ھذا الکتاب، وھو عندی مذھب قوی اقرب الی الصواب، اما الضعف بغیر الکذب والتھمۃ من ضعف شدید مخرج لہ عن حیز الاعتبار کفحش غلط الراوی فھذا یعمل بہ فی الفضائل علی مایعطیہ کلام عامۃ العلماء وھو الاقعد بقضیۃ الدلیل والقواعد، لاعند شیخ الاسلام علی احدی الروایات عنہ ومن تبعہ کالسخاوی الا اذاکثرت طرقہ الساقطۃ عن درجۃ الاعتبار فح یکون مجموعھا کطریق واحد صالح لہ فیعمل بھا فی الفضائل ولکن لایحتج بھا فی الاحکام ولاتبلغ بذلک درجۃ الحسن لغیرہ الا اذاانجبرت مع ذلک بطریق اخری صالحۃ للاعتبار فان مجموع ذلک یکون کحدیثین ضعیفین صالحین متعاضدین فح ترتقی الی الحسن لغیر فتصیر حجۃ فی الاحکام ،اما مطلقا علی ماھو ظاھر کلام المصنف اعنی العراقی اوبشرط تعدد الجابرات الصالحات البالغۃ مع ھذہ الطرق القاصرۃ المتکثرۃ القائمۃ مقام صالح واحد حد الکثرۃ فی الصوالح علی مافھمہ السخاوی من کلام النووی وغیرہ الواقع فیہ لفظ الکثرۃ مع نزاع لنا فیہ مؤید بکلام شیخ الاسلام فی النزھۃ والنخبۃ المکتفیتین عہ بوحدۃ الجابر مع جواز ان تکون الکثرۃ فی کلام النووی بمعنی مطلق التعدد، وھو الاوفق بما رأینا من صنیعھم فی غیر مقام والضعیف بالضعف الیسیر اعنی مالم ینزلہ عن محل الاعتبار یعمل بہ فی الفضائل وحدہ، وان لم ینجبر فان انجبر ولوبواحد صار حسنا لغیرہ، واحتج بہ فی الاحکام علی تفصیل وصفنالک فی الجابر، فھذہ ھی انواع الضعیف، اما الذی لانقص فیہ عن درجۃ الصحیح الا القصور فی ضبط الراوی غیر بالغ الی درجۃ الغفلۃ فھو الحسن لذاتہ المحتج بہ وحدہ حتی فی الاحکام، وھذا اذاکان معہ مثلہ ولوواحدا صار صحیحا لغیرہ اودونہ ممایلید فلاالا بکثرۃ انتھی ماکتبت بتخلیص۔

 

اور مجھے یاد ہے کہ میں نے اس کے اس مقام پر حاشیہ لکھا ہے جو یہ ہے اقول ہماری زائد ابحاث کے ساتھ جو یہاں ثابت اور واضح ہوچکا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ موضوع حدیث کسی طرح کارآمد نہیں ہے اور کثرت طُرق کے باوجود اس کا عیب ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ شرکی زیادتی سے شر مزید بڑھتا ہے، نیز موضوع، معدوم چیز کی طرح ہے اور معدوم چیز نہ قوی ہوسکتی ہے اور نہ قوی بنائی جاسکتی ہے، موضوع کی ایک قسم وہ ہے جس کو ایک جماعت نے، جس میں شیخ الاسلام بھی ہیں، نے بیان کیا ہے، وہ یہ کہ جس کو کذاب لوگ روایت کریں، اور ایک دوسری جماعت جس میں سے ''خاتم الحفاظ'' بھی ہیں، نے بیان کیا ہے کہ ''موضوع'' وہ ہے جس کو متہم بالکذب روایت کریں۔ امام سخاوی نے ان دونوں بیان کردہ قسموں کو ''شدید الضعف'' کے مساوی قرار دیا ہے، جس کو عنقریب بیان کرینگے، امام سخاوی کا خیال ہے کہ موضوع کی پہچان مقررہ قرائن ہی سے ہوتی ہے جیسا کہ روایت کرنے والا کذّاب یا وضّاع اس روایت میں متفرد ہو، جیسا کہ امام سخاوی نے اس کتاب میں بیان کیا ہے میرے نزدیک یہی مؤقف قوی اور اقرب الی الصواب ہے، مگر کذب اور تہمتِ کذب کے بغیر کوئی بھی شدید ضعف جس کی بنا پر حدیث درجہ اعتبار سے خارج ہوجاتی ہے مثلاً راوی کی انتہائی فحش غلطی ہو، ضعیف کی یہ قسم فضائل میں کارآمد ہوسکتی ہے جیسا کہ عام علماء کے کلام سے حاصل ہے اور یہی موقف دلیل وقواعد سے مطابقت رکھتا ہے، مگر شیخ الاسلام سے ایک روایت میں اور امام سخاوی کی طرح ان کے پیروکار حضرات کے ہاں یہ قسم فضائل میں معتبر نہیں ہے تاوقتیکہ اس کے کمزور طرق کثیر نہ ہوں اور یہ طرق کثیر ہوں تو ان سب کے مجموعہ کو وہ ایک طریقہ صالحہ کے مساوی قرار دے کر فضائل میں قابلِ عمل قرار دیتے ہیں، تاہم اس قسم کی ضعیف حدیث کو احکام کے لئے حجت قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی یہ درجہ ''حسن لغیرہ'' کو پاسکتی ہے۔ ہاں اگر ان متعدد طرق کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے صالح طریق سے اس کی کمزوری زائل ہوجائے تو اور بات ہے، کیونکہ کمزور متعدد طرق اور ایک صالح طریق کی بنا پر وہ حدیث دو ایسی ضعیف حدیثوں کی طرح بن جاتی جو آپس میں مل کر تقویت کا باعث بن جاتی ہیں اور وہ ضعیف حدیث ''حسن لغیرہ'' کے مرتبہ کو پہنچ کر احکام میں حجّت بن جاتی ہے، اب یہ اختلاف اپنی جگہ پر ہے کہ صرف اسی قدر سے مقبول ہے جیسا کہ مصنف یعنی علّامہ عراقی کے کلام سے عیاں ہے یا بشرطیکہ بمع متعدد صالح طرق جن کی بنا پر کمزوری زائل ہوسکے ان متعدد صالح وجوہ اور کمزور طرق، جو ایک صالح طریق کے مساوی ہیں، مل کر کثرت طرقِ صالحہ بن جاتے ہیں جیسا کہ امام سخاوی نے امام نووی وغیرہ کے کلام سے سمجھا جن میں لفظِ کثرت استعمال ہُوا ہے، باوجودیکہ ہمارا اس میں اختلاف ہے جوکہ شیخ الاسلام کے اس کلام سے مؤید ہے جو انہوں نے ''النزبۃ'' اور ''الننجۃ'' میں کیا دونوں کتابوں میں ایک جابر (کمزوری کو زائل کرنے والا امر) کا بیان ہے (نیز اپنی تائید میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں) کہ امام نووی کے کلام میں لفظِ کثرت سے مطلق تعدّد ہے اور یہی احتمال ان کی عادت کے زیادہ قریب ہے جیسا کہ ہم نے متعدد جگہ یہ استعمال پایا ہے اور ضعیف کی ایسی قسم جس میں معمولی ضعف ہو یعنی جس سے حدِ اعتبار ساقط نہ ہو یہ فضائل میں تنہا معتبر ہے خواہ کوئی مؤید بھی نہ ہو، اور اگر کوئی ایک ایسا مؤید پایا جائے جو اس کے ضعف کو زائل کردے تو یہ ''حسن لغیرہٖ'' بن جاتی ہے اور اس کو احکام میں حجت قرار دیا جائیگا جس کی تفصیل ہم نے کمزوری کو زائل کرنے والے امور میں بیان کردی ہے۔ یہ تمام ضعیف کی انواع ہیں۔ اگر صحیح حدیث کے شرائط میں ماسوائے ضبط راوی کی کمزوری کے اور کوئی کمزوری نہ ہوتو یہ حدیث ''حسن لذاتہٖ'' ہوگی بشرطیکہ ضبط راوی کی یہ کمزوری غفلت کے درجہ تک نہ پہنچتی ہو، تو یہ ''حسن لذاتہٖ'' واحد حدیث بھی احکام کے لئے حجت ہوسکتی ہے اگر حسن لذاتہٖ کے ساتھ اس کی ہم مثل ایک اور بھی مل جائے تو یہ حدیث ''صحیح لغیرہ'' بن جاتی ہے اور اگر اس سے کم درجہ کی کوئی مؤید اس سے مل جائے تو ''صحیح لغیرہ'' نہ بنے گی تاوقتیکہ اس سے کم درجہ کی متعدد روایات جمع نہ ہوجائیں میری لکھی ہُوئی تعلیق ختم ہُوئی، ملخصاً۔ (ت)

 

عہ: حیث قال متی توبع السیئ الحفظ بمعتبر کان یکون فوقہ اومثلہ لادونہ وکذا المختلط الذی لایتمیز والمستور والاسناد المرسل وکذا المدلس اذا لم یعرف المحذوف مند صار حدیثہم حسناً لالذاتہ بل وصفہ بذلک باعتبار المجموع لان کل واحد منہم (اے ممن ذکر من السیئ الحفظ والمختلط الخ) باحتمال کون روایتہ صواباً اوغیر صواب علی حد سواء فاذا جاء ت من المعتبرین روایۃ موافقۃ لاحدھم رجح احد الجانبین من الاحتمالین المذکورین دول ذلک علی ان الحدیث محفوظ فارتقی من درجۃ التوقف الی درجۃ القبول واللّٰہ اعلم ۱؎ اھ وانظر کیف اجتزئ فی المتن بتوحید معتبر وفی الشرح بافراد روایۃ وحکم بالارتقاء الی درجۃ القبول وما المرادبہ ھھنا الاالقبول فی الاحکام فانہ جعل الضعیف صالحا للاعتبار من الرد ومع انہ مقبول فی الفضائل بالاجماع ویظھرلی ان الوجہ معھما اعنی العراقی وشیخ الاسلام لمابین فی النزھۃ من الدلیل لھما منقولا مما علقتہ علی فتح المغیث ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

ان کے الفاظ یہ ہیں: جب راوی سوءِ حفظ کا متابع معتبر راوی بن جائے جو اس سے اوپر ہو یا اس کی مثل اس سے کم نہ ہو اور اسی طرح وہ مختلط جو امتیاز نہیں کرتا، مستور، اسناد مرسل اور اسی طرح مدلس جبکہ محذوف منہ کو  نہ پہچانتا ہو تو ان کی حدیث حسن ہوجائے گی ہاں لذاتہٖ نہیں بلکہ باعتبار المجموع ہوگی کیونکہ ہر ایک ان میں سے (یعنی سوءِ حفظ اور مختلط جن کا ذکر ہوا الخ) برابر احتمال رکھتا ہے کہ اس کی حدیث صحیح ہو یا غیر صحیح، پس جب معتبر راویوں میں سے کسی ایک کے موافق روایت آجائے تو مذکورہ دونوں احتمالوں میں سے ایک کو ترجیح حاصل ہوجائے گی اوریہ بات دلالت کرتی ہے کہ یہ حدیث محفوظ ہے اور درجہ توقف سے درجہ قبول پر فائز ہوگئی ہے اھ واللہ اعلم، ذرا غور کرو متن میں محض ایک معتبر کے ساتھ اور شرح میں کئی افراد کے ساتھ موافقت روایت پر اکتفا کیسے کیا اور اسے قبول کا درجہ دیا ہے اور یہاں قبول سے مراد احکام میں قبولیت مراد ہے کیونکہ انہوں نے حدیث ضعیف کو صالح للاعتبار والرد کہا ہے کیونکہ حدیث ضعیف فضائل میں تو بالاجماع مقبول ہے، خواہ اس کے ساتھ کوئی دوسری روایت نہ ہو اور میرے لئے یہ ظاہر ہوا کہ وجہ ان دونوں عراقی اور شیخ الاسلام کے ساتھ ہے، اس بنا پر جو نزہۃ میں ان دونوں کی دلیل بیان کی گئی ہے یہ فتح المغیث پر میری تعلیق سے منقول ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۱؎شرح ننجۃ الفکر    بحث سوء الحفظ   مطبوعہ مطبع علیمی اندرون لوہاریگیٹ لاہور    ص ۷۴)

 

یہ چند جملے لوحِ دل پر نقش کرلینے کے ہیں کہ بعونہٖ تعالٰی اس تحریر نفیس کے ساتھ شاید اور جگہ نہ ملیں، وباللّٰہ التوفیق ولہ الحمد، الحمداللّٰہ القادر القوی علم ماعلم وصلی اللّٰہ تعالٰی علی ناصر الضعیف واٰلہ وسلم، قبول ضعیف فی فضائل الاعمال کا مسئلہ جلیلہ ابتدائً مسووہ فقیر میں صرف دو۲ افادہ مختصر میں تین صفحہ کے مقدار تھا اب کو ماہِ مبارک ربیع الاول ۱۳۱۳ھ میں رسالہ بعونہٖ تعالٰی بمبئی میں چھپنا شروع ہوگیا اثنائے تبییض میں بارگاہِ مفیض علوم ونعم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بحمدہ اللہ تعالٰی نفائس جلیلہ کا اضافہ ہوا افادہ شانزدہم سے یہاں تک آٹھ افاداتِ نافعہ اسی مسئلہ کی تحقیق میں القا ہُوئے قلم روکتے روکتے اتنے اوراق املا ہوئے، امید کی جاتی ہے کہ اس مسئلہ کی ایسی تسجیل جلیل وتفصیل جزیل اس تحریر کے سوا کہیں نہ ملے، مناسب ہے کہ یہ افادے اس مسئلہ خاص میں جدا رسالہ قرار دئے جائیں اوربلحاظ تاریخ الھاد الکاف فی حکم الضعاف عہ (۱۳۱۳ھ) (ضعیف حدیثوں کے حکم میں کافی ہدایت۔ ت)

 

لقب پائیں وباللّٰہ التوفیق ولہ المنۃ علی مازرق من نعم تحقیق ماکنا لعشر معشاار عشرھا نلیق والصلاۃ والسلام علی الحبیب الکریم واٰلہ وصحبہ ھداۃ الطریق اٰمین۔

 

عہ : منقوص محلی باللام سے بھی حذف یا فصے کلام میں شایع وذایع ہے یوم التلاق، یوم التناد الکبیر المتعال الی غیر ذلک امام ابن حجر عسقلانی کی کتاب ہے الکاف الشاف فی تخریج احادیث الکشاف ۱۲ منہ (م)

 

افادہ بست ۲۴ وچہارم (حدیث کا کتبِ طبقہ رابعہ سے ہونا خواہی نخواہی مستلزم مطلق ضعف ہی نہیں چہ جائے ضعفِ شدید) وباللہ استعین کسی حدیث کا کتب طبقہ رابعہ سے ہونا موضوعیت بالائے طاق، ضعفِ شدید درکنار مطلق ضعف کو بھی مستلزم نہیں اُن میں حسن، صحیح، صالح، ضعیف، باطل ہر قسم کی حدیثیں ہیں، ہاں بوجہ اختلاط وعدم بیان کہ عادت جمہور محدثین ہے ہر حدیث میں احتمال ضعف قدیم لہذا غیر ناقد کو بے مطالعہ کلماتِ ناقدین اُن سے عقائد واحکام میں احتجاج نہیں پہنچتا، قولِ شاہ عبدالعزیز صاحب ایں احادیث قابلِ اعتماد نیستند کہ دراثبات عقیدہ یا عملے بآنہا تمسک کردہ شود ۱؎ (یہ احادیث قابلِ اعتماد نہیں ہیں کہ ان سے عقیدہ وعمل میں استدلال کیا جاسکے۔ ت) کے یہی معنی ہیں، نہ یہ کہ ان کتابوں میں جتنی حدیثیں ہیں سب واہی ساقط ہیں یا موضوع وباطل اور اصلاً دربارہ فضائل بھی ایراد واستناد کے ناقابل کوئی ادنٰی ذی فہم وتمیز بھی ایسا ادعا نہ کرے گا نہ کہ شاہ صاحب سا فاضل، ہاں متکلمانِ طائفہ وہابیہ اپنی جہالتیں جس کے سر چاہیں دھریں۔

 

 (۱؎ عجالہ نافعہ       فصل اول بحث طبقہ رابعہ            مطبع نور محمد کارخانہ تجارت کراچی    ص ۵)

 

اوّلاً خود شاہ صاحب اثباتِ عقیدہ وعمل کا انکار فرمارہے ہیں اور وہ فضائل اعمال میں تمسک کے منافی نہیں، ہم افادہ ۲۲ میں روشن کر آئے کہ دربارہ فضائل کسی حدیث ضعیف سے استناد کسی عقیدہ یا عمل کا اثبات نہیں، تو اس بات کو ہمارے مسئلہ سے کیا تعلق!

 

ثانیا تصانیف خطیب وابونعیم بھی طبقہ رابعہ میں ہیں اور شاہ صاحب بُستان المحدثین میں امام ابونعیم کی نسبت فرماتے ہیں :ازنوادر کُتب اوکتاب حلیۃ الاولیاست کہ نظیر آں دراسلام تصنیف نشدہ ۲؎۔ان کی تصانیف میں سے حلیۃ الاولیا ایسے نوادرات میں سے ہے جس کی مثل اسلام میں آج تک کوئی کتاب تصنیف نہ ہوئی (ت)

 

 (۲؎ بُستان المحدثین مع اردو ترجمہ     مستخرج علی صحیح مسلم لابی نعیم     مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص ۱۱۵)

 

اُسی میں ہے : کتاب اقتضاء العلم والعمل ازتصانیف خطیب است بسیار خوب کتابے است دربار خود ۳؎۔خطیب بغدادی کی کتب میں اقتضاء العلم والعمل اپنے فن میں بہت سی خُوبیوں کی حامل ہے۔ (ت)

 

 (۳؎بُستان المحدثین مع اردو ترجمہ کتاب اقتضاء العلم والعمل للخطیب  مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱۶۹)

 

اُسی میں تصانیف امام خطیب کو لکھا :التصانیف المفیدۃ التی ھی بضاعۃ المحدثین وعروتھم فی فھم ۱؎۔فائدہ بخش تصنیفیں کہ فن حدیث میں محدثین کے بضاعت ومحل تمسک ہیں۔

 

 (۱؎ بستان المحدثین مع اُردو ترجمہ    تاریخ بغداد للخطیب    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص ۱۸۸)

 

پھر امام حافظ ابوطاہر سلفی سے اُن تصانیف کی مدح جلیل نقل کی، سبحان اللہ کہاں شاہ صاحب کا یہ حُسنِ اعتقاد اور کہاں اُن کے کلام کی وہ بیہودہ مراد کہ وہ کتب سراسر مہمل وناقابلِ استناد۔

ثالثاً جناب شاہ صاحب مرحوم کے والد شاہ ولی اللہ صاحب کہ حجۃ اللہ البالغہ میں اس تقریر طبقات کے موجود اُسی حجۃ بالغہ میں اسی طبقہ رابعہ کی نسبت لکھتے ہیں :اصلح ھذہ الطبعۃ ماکان ضعیفا محتملا ۲؎۔یعنی اس طبقہ کی احادیث میں صالح تر وہ حدیثیں ہیں جن میں ضعیف قلیل قابل تحمل ہو۔

 

 (۲؎ حجۃ اللہ البانعۃ    باب طبقہ کتب حدیث، الطبعۃ الرابعہ    مطبوعہ المکتبۃ السلفیہ لاہور        ۱/ ۱۳۵)

 

ظاہر ہے کہ ضعیف محتمل ادنٰی انجبار سے خود احکام میں حجت ہوجاتی ہے اور فضائل میں تو بالاجماع تنہا ہی مقبول وکافی ہے پھر یہ حکم بھی بلحاظ انفراد ہوگا ورنہ ان میں بہت احادیث منجبرہ حسان ملیں گی اور عندالتحقیق یہ بھی باعتبار غالب ہے، ورنہ فی الواقع ان میں صحاح، حسان سب کچھ ہیں کماستسمع بعونہ تعالٰی (جیسے کہ تُو عنقریب سُنے گا۔ ت)

 

رابعاً یہی شاہ صاحب قرۃ العینین عہ فی تفضیل الشیخین میں لکھتے ہیں:چوں نوبت علم حدیث بطبقہ دیلمی وخطیب وابن عساکر رسید ایں عزیزاں دیدندکہ احادیث صحاح وحسان رامتقدمین مضبوط کردہ اندپس مائل شدند بجمع احادیث ضعیفہ ومقلوبہ کہ سلف آنرادیدہ ودانستہ گزاشتہ بودند وغرض ایشاں ازیں جمع آں بود کہ بعد جمع حفاظ محدثین دراں احادیث تامل کنند وموضوعات را ازحسان لغیرہا ممتاز نمایند چنانکہ اصحاب مسانید طرق احادیث جمع کروند کہ حفاظ صحاح وحسان وضعیف از یکد گرممتاز سازند ظن ہردوفریق راخدا تعالٰی محقق ساخت بخاری ومسلم وترمذی وحاکم تمییز احادیث وحکم بصحت وحسن ومتاخران در احادیث خطیب وطبقہ اوتصرف نمودند ابن جوزی موضوعات رامجرد ساخت وسخاوی ورمقاصد حسنہ حسان لغیرہا ازضعاف ومناکیر ممیز نمود خطیب وطبقہ اودر مقدماتِ کتب خودبایں مقاصد تصریح نمودہ اند جزاھم اللّٰہ تعالٰی عن امۃ النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم خیرا  ۱؎ اھ ملتقطا۔

 

جب علمِ حدیث دیلمی، خطیب اور ابنِ عساکر کے طبقہ تک پہنچا تو انہوں نے دیکھا کہ مقتدمین علماء نے ایسی احادیث جو صحیح اور حسن تھیں کو محفوظ کردیا ہے لہذا انہوں نے ایسی احادیث جمع کیں جو ضعیفہ ومقلوبہ تھیں جنہیں اسلاف نے عمداً ترک کیا تھا ان کے جمع کرنے سے غرض یہ تھی کہ حفاظ محدثین ان میں غور تأمل کرکے موضوعات کو حسن لغیرہ سے ممتاز کردیں گے جیسا کہ اصحابِ مسانید نے تمام طرقِ حدیث کو جمع کیا تاکہ حفاظِ حدیث صحیح، حسن اور ضعیف کو ایک دوسرے سے ممتاز کردیں دونوں فریقوں کو اللہ تعالٰی نے توفیق اور کامیابی عطا رفرمائی، بخاری، مسلم، ترمذی اور حاکم احادیث میں امتیاز کرتے ہوئے ان پر صحیح، حسن ہونے کا حکم لگایا اور متاخرین نے خطیب اور ان کے طبقہ کے لوگوں کی احادیث میں تصرف کیا وحکم لگایا، ابن جوزی نے موضوعات کو الگ کیا، امام سخاوی نے مقاصد حسنہ میں حسن لغیرہ کو ضعیف اور منکر سے ممتاز کیا۔ خطیب اور ان کے طبقہ کے لوگوں نے اپنی کتب کے مقدمات میں ان مقاصد کی تصریح کی ہے اللہ تعالٰی ان تمام کو نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اُمت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے اھ ملتقطا۔ (ت)

 

عہ: قسم دوم ازفصل دوم درشبہات وارقان ۱۲ منہ

دوسری فصل کی قسم دوم کا تبین کے شبہات سے متعلق ہے اس کے تحت اس کا بیان ہے (ت)

 

 (۱؎ قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین قسم دوم ازشبہات الخ    مطبوعہ المکتبۃ السلفیہ لاہور    ص ۲۸۲)

 

دیکھو کیسی صریح تصریح ہے کہ کتب طبقہ رابعہ میں نہ صرف ضعیف محتمل بلکہ حسان بھی موجود ہیں اگرچہ لغیرہا کہ وہ بھی بلاشُبہہ خود احکام میں حجّت نہ کہ فضائل۔

 

خامساً انہیں شاہ صاحب نے اسی حجۃ میں سنن ابی داؤد وترمذی ونسائی کو طبقہ ثانیہ اور مصنف عبدالرزاق وابوبکر بن ابی شیبہ وتصانیف ابی داؤد طیالسی وبیہقی وطبرانی کو طبقہ ثالثہ اور کتب ابونعیم کو طبقہ رابعہ میں گنا، امام جلیل جلال سیوطی خطبہ جمع الجوامع میں فرماتے ہیں:

 

رمزت للبخاری خ ولمسلم م  ولابن حبان حب  وللحاکم فی المستدرک  ک وللضیاء فی المختارۃ ض  وجمیع مافی ھذہ الکتب الخمسۃ صحیح سوی مافی المستدرک من المتعقب فائبہ علیہ، ورمزت لابی داؤد د فماسکت عہ علیہ فھو صالح ومابین ضعفہ لقلتہ عنہ، وللترمذی ت وانقل کلامہ علی الحدیث وللنسائی ن ولابن ماجۃ ہ ولابی داؤد الطیالسی ط ولاحمد حم ولعبدالرزاق عب ولابن ابی شیبۃ ش ولابی یعلی ع وللطبرانی فی الکبیر طب  والاوسط طس  وفی الصغیر طص ولابی نعیم فی الحلیۃ حل وللبھیقی ق ولہ فی شعب الایمان ھب وھذہ فیھا الصحیح والحسن والضعیف فابینہ غالبا ۱؎ اھ مختصرا۔

 

میں نے حوالہ جات کے لئے یہ رموز وضع کیے ہیں، خ سے بخاری، م سے مسلم، حب سے ابنِ حبان، ک سے مستدرک حاکم، ض سے مختارہ للضیاء، ان پانچوں کتب میں صحیح احادیث ہیں ماسوائے حاکم کے جن پر اعتراض کیاگیا ہے اس پر توجہ رکھ، د سے ابوداؤد جس پر وہ خاموش رہیں وہ صالح ہے اور جس کا ضعف انہوں نے بیان کیا ہے میں نے اسے نقل کردیا ہے، ت سے ترمذی میں ان کا حدیث پر تبصرہ بھی نقل کروں گا، ن سے نسائی، ہ سے ابن ماجہ، ط سے ابوداؤد طیالسی، حم سے احمد، عب سے عبدالرزاق، ش سے ابن ابی شیبہ ع سے ابویعلی، طب سے طبرانی کی معجم کبیر، طس سے معجم اوسط، طص سے معجم صغیر، حل سے حلیہ ابونعیم، ق سے سنن بیہقی، ھب سے شعب الایمان للبیہقی مراد ہوگا، ان تمام کتب میں احادیث صحیح بھی ہیں حسن اور ضعیف بھی اور میں اکثر طور پر ان کے بارے میں نشان دہی بھی کروں گا اھ مختصراً۔ (ت)

 

عہ: فی الاصل الذی وقفت علیہ بین لفظی فماوعلیہ کلمۃ لم تبین فی الکتابۃ فکتبت مکانھا لفظۃ سکت اذھو المراد واذ کان لابدمن التنبیہ نبھت علیہ ۱۲ منہ (م)

وہ اصل کتاب جس پر میں نے واقفیت حاصل کی ہے اس میں لفظ فما اور علیہ کے درمیان ایک کلمہ ہے جو کتابت میں واضح نہیں تو میں نے اس کی جگہ لفظ سکت لکھ دیا ہے اور چونکہ اس سے آغاہ کرنا ضروری تھا تو میں نے آگاہ کردیا، ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ جامع الاحادیث بحوالہ جمع الجوامع خطبہ کتاب، دارالفکر بیروت    ۱ /۱۸ ، ۱۹)

 

دیکھو امام خاتم الحفّاظ نے ان طبقات ثانیہ وثالثہ ورابعہ سب کو ایک ہی مشق میں گنا اور سب پر یہی حکم فرمایا کہ ان میں صحیح، حسن، ضعیف سب کچھ ہے۔

سادساً خود جناب شاہ صاحب کی تصانیف تفسیر عزیزی وتحفہ اثنا عشریہ وغیرہما میں جابجا احادیث طبقہ رابعہ سے بلکہ اُن سے بھی اُتر کر استناد موجود، اب یا تو شاہ صاحب معاذاللہ خود کلام اپنا نہ سمجھتے یا یہ سفہا ناحق تحریف معنوی کرکے احادیث طبقہ رابعہ کو مہمل ومعطل ٹھہرانا اُن کے سر کیے دیتے ہیں، تمثیلاً چند نقول حاضر، عزیزی آخر تفسیر فاتحہ میں ہے :ابونعیم ودیلمی ازابو الدرداء روایت کردہ اندکہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرمودہ کہ فاتحہ الکتاب کفایت مے کندازانچہ ہیچ چیزاز، قرآن کفایت نمی کنند ۱؎ الحدیث۔ابونعیم اور دیلمی نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جہاں قرآن کی دوسری سورۃ کافی نہ ہو وہاں فاتحہ کافی ہے الحدیث (ت)

 

 (۱؎ تفسیر عزیزی    سورۃ الفاتحۃ        فضائل ایں سورۃ الخ    مطبوعہ لال کنواں دہلی    ص ۵۹)

 

یہیں اور  روایات بھی ابن عساکر وابو شیخ وابن مردودیہ ودیلمی وغیرہم سے مذکور ہیں یہیں عہ  ہے:ثعلبی ازشعبی روایت کردہ است کہ شخصے نزد او آمد وشکایت درد گردہ کردہ شعبی باوگفت کہ ترالازم است کہ اساس القرآن بخوانی وبرجائے درد دم کنی اوگفت کہ اساس القرآن چیست شعبی گفت فاتحۃ الکتاب ۲؎۔

 

ثعلبی نے شعبی سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے شعبی کے پاس آکر شکایت کی کہ مجھے دردگردہ ہے، انہوں نے فرمایا تو اساس القرآن پڑھ کر جائے درد پر دم کر، اس نے عرض کیا کہ اساس القرآن کہا ہے؟ فرمایا سورۃ الفاتحہ۔ (ت)

 

عہ: ودریں بعض روایات اقتران دارقطنی یا طبرانی یا وکیع مخالف راسود ندہد زیراکہ ازیں چنانکہ احتمال ایں معنی رونمایند کہ اسناد باینہا مقرون بطبقہ ثالثہ است ہمچناں ایں امر برمنصّہ ثبوت نشیند کہ ہمہ احادیث طبقہ رابعہ ساقط ازدرجہ اعتبار نیست باز احتمال مذکور بملاحظہ روایات دیگر کہ تنہا ازطبقہ رابعہ ست ازل باشد زعم مخالف راہیچ کن باشد فافہم ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

 

اور اس میں بعض روایات کے دارقطنی یا طبرانی یا وکیع کے ساتھ اقتران سے مخالف کو سودمند نہیں کیونکہ اس طرح سے یہ معنی پیدا ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ اسناد سے طبقہ ثالثہ سے مقرون ہیں اور اسی طرح یہ ثابت ہے کہ طبقہ رابعہ کی تمام احادیث درجہ اعتبار سے ساقط نہیں پھر احتمال مذکور دیگر  روایات کے ملاحظہ سے کہ جو صرف طبقہ رابعہ سے ہیں یہ بھی زعمِ مخالف کو زیادہ زائل کرنے والا ہے، مخالف کا جو بھی زعم ہو، اسے اچھی طرح سمجھو ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎تفسیر عزیزی   آخر سورہ فاتحہ  شیطان راچہار باردر عمر خود نوحہ الخ  مطبوعہ لال کنواں دہلی  ص ۵۹)

 

عزیزی سورہ بقرہ ذکر بعض خواص سور وآیات میں ہے :ابن النجار درتاریخ خود ازمحمد بن سیرین روایت کردہ کہ حدیثی ازعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما شنیدہ بودم کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرمودہ اند ہرکہ درشب سی وسہ آیت بخواند او را در آں شب درندہ  و دُزدے ایذا نر ساند الحدیث اھ مختصراً ۱؎۔

 

ابن نجار نے اپنی تاریخ میں محمد بن سیرین سے روایت کرتے ہیں کہ ایک حدیث میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے سُنی جس میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص رات کو تینتیس۳۳ آیات پڑھے گا اسے کوئی درندہ اور ڈاکو نقصان نہیں دے گا الحدیث اھ مختصرا۔ (ت)

 

 (۱؎ تفسیر عزیزی    سورۃ البقرۃ    خواص وفضائل سورۃ فاتحہ وسی وسہ آیت الخ    مطبوعہ لال کنواں دہلی    ص ۹۴)

 

اسی عہ۱ میں ہے:روی (عہ۲) ابن جریر عن مجاھد قال سأل سلیمان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن اولٰئک النصاری الحدیث ۲؎۔ابن جریر نے مجاہد سے روایت کیا کہ حضرت سلمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ان نصارٰی کے بارے میں سوال کیا الحدیث (ت)

 

عہ۱ : زیر آیہ ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا والنصارٰی ۱۲ منہ (م)

اس آیت کے تحت ہے ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا والنصارٰی ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۲ : شاہ صاحب درعجالہ نافعہ جائیکہ ذکر طبقات اربعہ کردہ است تفسیر ابن جریر را از ہمیں طبقہ رابعہ شمردہ است کماذکرہ فی السیف المسلول علی من انکر اثر قدم الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ (م)

شاہ صاحب نے عجالہ نافعہ میں جہاں چار طبقات کا ذکر کیا ہے وہاں تفسیر ابن جریر کو بھی چوتھے طبقے میں شمار کیا ہے جیسا کہ السیف الملول علی من انکر اثر قدم الرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ تفسیر عزیزی    سورۃ البقرۃ    زیر آیت ان الذین اٰمنوا والذین ھادوا والنصارٰی  مطبوعہ لال کنواں دہلی   ص ۲۷۱)

 

عزیزی آخر  والّیل میں ہے : حافظ خطیب بغدادی ازجابر رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت می کند کہ روزے بخدمت آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حاضر بودیم ارشاد فرمودند کہ حالا شخصے می آید کہ حق تعالٰی بعد ازمن کسے رابہتر ازوپیدا نکردہ است وشفاعت اُو روزِ قیامت مثل شفاعتِ پیغمبران باشد جابر گوید کہ مہلے نہ گزشتہ بود کہ حضرت ابوبکر تشریف آوردند  ۱؎۔

 

حافظ خطیب بغدادی حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا ابھی ایک شخص آئے گا کہ میرے بعد اس سے بہتر شخص اللہ تعالٰی نے پیدا نہیں فرمایا اس کی شفاعت روزِ قیامت اللہ تعالٰی کے پیغمبروں کی شفاعت کی طرح ہوگی۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تشریف لائے۔ (ت)

 

(۱؎ تفسیر عزیزی    آخر سورۃ الیل    پارہ عم        مطبوعہ لال کنواں دہلی    ص ۳۰۶)

 

تحفہ (اثنا عشریہ) میں (عہ) ہے : در روایات شیعہ وسُنّی صحیح وثابت است کہ ایں امر خیلے بر ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ شاق آمد وخودر ابردرسرائے زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہما حاضر آور د و  امیرالمومنین علی رضی اللہ تعالٰی عنہ راشفیع خود ساخت تا آنکہ حضرت زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا  ازو خوشنود شد اما روایات اہلسنت پس درمدارج النبوۃ وکتاب الوفا وبیہقی وشروح مشکٰوہ موجود است بلکہ درشرح مشکٰوۃ شیخ عبدالحق نوشۃ است کہ ابوبکر صدیق بعد ازیں قصہ بخانہ فاطمہ رفت ودرگرمی  آفتاب بفدربا باستاد عذرخواہی کرد وحضرت زہرا  ازو راضی شدو در ریاض النضرۃ نیزایں قصّہ بہ تفصیل مذکورست ودرصل الخطاب بروایت بیہقی ازشعبی نیز ہمیں قصہ مروی ست وابن السمان درکتاب المواقۃ از اوزاعی روایت کردہ کہ گفت بیرون آمد ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ بردر فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا در روز گرم ۲؎ الخ

 

شیعہ اور سُنّی دونوں کے ہاں روایاتِ صحیحہ میں ثابت ہے کہ یہ معاملہ حضرت ابوبکر پر نہایت شاق گزرا، لہذا آپ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر کے دروازے پر حاضر ہُوئے اور امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سفارشی بنایا تاکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ان سے راضی ہوجائے، روایاتِ اہلسنّت مدارج النبوۃ، الوفاء ،بیہقی اور شروح مشکٰوۃ میں موجود ہیں بلکہ شرح مشکٰوۃ میں شیخ عبدالحق رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر اس واقعہ کے بعد سیدہ فاطمۃ الزہرا کے گھر کے باہر دھوپ میں کھڑے ہوگئے اور معذرت کی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما ان سے راضی ہوگئیں۔ ریاض النضرۃ میں بھی یہ واقعہ تفصیلاً درج ہے اور فصل الخطاب میں بروایت بیہقی، شعبی بھی یہ ہی واقعہ منقول ہے اور ابن السمان نے الموافقۃ میں اوزاعی سے روایت کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ گرمی کے وقت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر آئے الخ۔ (ت)

 

عہ: درطعن سیزدہم ازمطاعن ملاعنہ برحضرت افضل الصدیقین رضی اللہ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ (م)

ملعون لوگوں کے ان اعتراضات میں سے تیرھویں طعن میں ہے جو اُنہوں نے افضل الصدیقین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر کیے ہیں ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ تحفہ اثنا عشریۃ  طعن سیزدہم از مطاعن ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ    مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور    ص ۲۷۸)

 

سابعاً طرفہ تر یہ کہ شاہ صاحب نے تصانیف حاکم کو بھی طبقہ رابعہ میں گنا حالانکہ بلاشُبہ مستدرک حاکم کی اکثر احادیث اعلٰی درجہ کی صحاح وحسان ہیں بلکہ اُس میں صدہا حدیثیں برشرطِ بخاری ومسلم صحیح ہیں قطع نظر اس کہ تصانیف شاہ صاحب میں کتب حاکم سے کتنے اسناد ہیں اور بڑے شاہ صاحب کی ازالۃ الخفاء وقرۃ العینین تو مستدرک سے تو  وہ تودہ احادیث نہ صرف فضائل بلکہ خود احکام میں مذکورکمالایخفی علی من طالعھما(جیسے کہ اس پر مخفی نہیں جس نے ان دونوں کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ ت) لطیف ترید ہے کہ خود ہی بستان المحدثین میں امام الشان ابوعبداللہ ذہبی سے نقل فرماتے ہیں :

 

انصاف آنست کہ درمستدرک قدرے بسیار شرط ایں ہردو بزرگ یافتہ میشودیا بشرط یکے از زینہا بلکہ ظن غالب آنست کہ بقدر نصف کتاب ازیں قبیل باشد، وبقدر ربع کتاب از آں جنس است کہ بظاہرعہ اسناد او صحیح ست لیکن بشرط ایں ہردونیست وبقدر ربع باقی واہیات ومناکیر بلکہ بعضے موضوعات نیزہست چنانچہ من دراختصار آں کتاب کہ مشہور بتلخیص ذہبی است خبردار کردہ  ام  ۱؎انتہی ۔

 

انصاف یہ ہے کہ مستدرک میں اکثر احادیث ان دونوں بزرگوں (بخاری ومسلم) یا ان میں سے کسی ایک کے شرائط پر ہیں بلکہ ظنِ غالب یہ ہے کہ تقریباً نصف کتاب اس قبیل سے ہے اور تقریباً اس کا چوتھائی ایسا ہے کہ بظاہر ان کی اسناد صحیح ہیں لیکن ان دو (بخاری ومسلم) کی شرائط پر نہیں اور باقی چوتھائی واہیات اور مناکیر بلکہ بعض موضوعات بھی ہیں اس لئے میں نے اس کے خلاصہ جوکہ تلخیص ذہبی سے مشہور ہے، میں اس بارے میں خبردار کیا ہے، انتہٰی (ت)

 

عہ: لفظ بظاہر درآنچہ امام خاتم الحفاظ درتدریب ازذہبی آور دنیست لفظش ہمین است کہ فیہ جملۃ وافرۃ علی شرطھما وجملۃ کثیرۃ علی شرط احدھما، لعل مجموع ذلک نحونصف الکتاب وفیہ نحو الربع مماصح سندہ، وفیہ بعض الشیئ، اولہ علۃ ومابقی وھونحو الربع فھو مناکیر اوواھیات لایصح وفی بعض ذلک موضوعات ۲؎ ۱۲ منہ (م)

 

لفظ ''بظاہر'' وہ جو امام خاتم الحفاظ نے تدریب میں امام ذہبی سے نقل کیا ہے اس میں نہیں ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اس میں بہت سی احادیث شیخین کی شرائط پر ہیں اور بہت سی ان دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر ہیں، شاید اس کا مجموعہ تقریباً آدھی کتاب ہو اور اس میں چوتھائی ایسی احادیث ہیں جن کی سند صحیح ہے، بعض ایسی ہیں جن میں کوئی شیئ یا علت ہے اور جو بقیہ چوتھائی ہے وہ مناکیر یا واہیات ہیں جو صحیح نہیں، اور بعض اس میں موضوع بھی ہیں ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ بستان المحدثین مع اردو ترجمہ    مستدرک میں احادیث موضوع کا اندراج    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص ۱۱۳)

(۲؎ تدریب الرادی         عدد احادیث مسلم وتساہل الحاکم فی المستدرک    دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۱۰۶)

 

تنبیہ : بحمداللہ ان بیانات سے واضح ہوگیا کہ اس طبقہ والوں کی احادیث متروکہ سلف کو جمع کرنے کے معنی اسی قدر ہیں کہ جن احادیث کے ایراد سے اُنہوں نے احتراز کیا انہوں نے درج کیں نہ یہ کہ انہوں نے جو کچھ لکھا سب متروک سلف ہے مجرد عدم ذکر کو اس معنے پر محمول کرنا کہ ناقص سمجھ کر بالقصد ترک کیا ہے محض جہالت ورنہ افراد بخاری متروکات مسلم ہوں اور افراد مسلم متروکات بخاری اور ہر کتاب متاخر کی وہ حدیث کو تصانیف سابقہ میں نہ پائی گئی تمام سلف کی متروک مانی جائے، مصنفین میں کسی کو دعوائے استیعاب نہ تھا۔ امام بخاری کو ایک لاکھ احادیث صحیحہ حفظ تھیں صحیح بخاری میں کُل چار ہزار بلکہ اس سے بھی کم ہیں

 

کمابینہ شیخ الاسلام فی فتح الباری شرح صحیح البخاری (جیسا کہ شیخ الاسلام نے فتح الباری شرح صحیح البخاری میں بیان کیا ہے۔ ت)

 

ثامناً شاہ صاحب اس کلام امام ذہب کو نقل کرکے فرماتے ہیں:ولہذا علمائے حدیث قراردادہ اندکہ برمستدرک حاکم اعتماد نباید کردمگر  از دیدن تلخیص ذہبی ۱؎۔اسی لئے محدثین نے یہ ضابطہ مقرر کردیا ہے کہ مستدرک حاکم پر ذہبی کی تلخیص دیکھنے کے بعد اعتماد کیا جائے گا۔ (ت)

 

(۱؎ بستان المحدثین مع اردوترجمہ    مستدرک میں احادیث موضوعہ کا اندراج    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص ۱۱۳)

 

اور اس سے پہلے لکھا: ذہبی گفتہ است کہ حلال نیست کسے راکہ برتصحیح حاکم غرہ شودتا وقتیکہ تعقبات وتلخیصات مرانہ بیند ونیز گفتہ است احادیث بسیار درمستدرک کہ برشرط صحت نیست بلکہ بعضے از احادیچ موضوعہ نیز ست کہ تمام مستدرک بآنہا معیوب گشتہ ۲؎۔

 

امام ذہبی نے کہا ہے کہ امام حاکم کی تصحیح پر کوئی کفایت نہ کرے تاوقتیکہ اس پر میری تعقبات وتلخیصات کا مطالعہ نہ کرلے، اور یہ بھی کہا ہے کہ بہت سی احادیث مستدرک میں شرطِ صحت پر موجود نہیں بلکہ بعض اس میں موضوعات بھی ہیں جس کی وجہ سے تمام مستدرک معیوب ہوگئی ہے۔ (ت)

 

(۲؎بستان المحدثین مع اردوترجمہ    مستدرک میں احادیث موضوعہ کا اندراج    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص ۱۰۹)

 

ان عبارات سے ظاہر ہوا کہ وجہ بے اعتماد یہی اختلاط صحیح وضعیف ہے اگرچہ اکثر عہ  صحیح ہی ہوں جیسے مستدرک میں تین ربع کتاب کی قدر احادیث صحیحہ ہیں نہ کہ سب کا ضعیف ہونا چہ جائے ضعف شدید یا بطلان محض کہ کوئی جاہل بھی اس کا اعاد نہ کرے گا اور اس بے اعتمادی کے یہی معنی اگر خود لیاقت نقد رکھتا ہو آپ پرکھے ورنہ کلام ناقدین کی طرف رجوع کرے بے اس کے حجت نہ سمجھ لے ۔

 

عہ: اسی طرح عدم اعتبار کثرت وقلّت کی دلیل واضح امام الشان کا یہ ارشاد منقول تدریب ہے:

قال الشیخ الاسلام غالب مافی کتاب ابن الجوزی موضوع والذی ینقد علیہ بالنسبۃ الی مالاینتقد قلیل جداقال، وفیہ من الضرران یظن مالیس بموضوع موضوعا عکس الضرر بمستدرک الحاکم فانہ یظن مالیس بصحیح صحیحا قال ویتعین الاعتناء بانتقاد الکتابین فان الکلام فی تساھلھما اعدم الانتفاع بھما الا لعالم بالفن لانہ مامن حدیث  الا ویمکن ان یکون قد وقع فیہ تساھل ۱؎ اھ ۱۲ منہ (م)

شیخ الاسلام نے کہا کہ ابن جوزی کی کتاب میں اکثر روایات موضوع ہیں، جن روایات پر انہوں نے تنقید کی وہ ان سے بہت کم ہیں جن پر تنقید نہیں کی، اور کہا کہ اس میں تکلیف وہ امر یہ ہے کہ وہ غیر موضوع کو موضوع گمان کرتے ہیں یہ اس کا عکس ہے جو مستدرکِ حاکم کا ضرر ہے کیونکہ وہ غیر صحیح کو بھی صحیح گمان کرتے ہیں، کہا کہ ان دونوں کتابوں کی کاٹ چھانٹ ضروری ہے کیونکہ کلام ان دونوں میں تساہل کی وجہ سے ان سے نفع حاصل کرنے کو معدوم کردیتا ہے مگر اس شخص کے لئے جو اس فن کا ماہر ہو، کیونکہ ان کی کوئی ایسی روایت نہیں ہُوئی جس میں تساہل نہ ہو ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ تدریب الراوی نقد کتاب موضوعات ابن الجوزی    دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۲۷۹)

 

اب انصافاً یہ حکم نہ صرف کتب طبقہ رابعہ بلکہ ثانیا ثالثہ سب پر ہے کہ جب منشا اختلاط صحیح وضعیف ہے اور وہ سب میں قائم تو یہی حکم سب پر لازم آخر نہ دیکھا کہ ائمہ دین نے صاف صاف یہی تصریح سنن ابی داؤد وجامع ترمذی ومسند امام احمد وسنن ابن ماجہ ومصنف ابوبکر ابن ابی شیبہ ومصنّف عبدالرزاق وغیرہا سنن ومسانید کتب طبقہ ثانیہ وثالثہ کی نسبت بھی فرمائے جس کی نقل امام الشان وعلّامہ قاری سے افادہ ۲۱ میں گزری، یونہی امام شیخ الاسلام عارف باللہ زکریا انصاری وامام سخاوی نے تنصیص عہ ا کی،

 

عہ۱: ذکرنا نصھما فی رسالتنا مدارج طبقات الحدیث ۱۲ منہ (م)

ہم نے ان دونوں کی عبارتوں کو اپنے رسالہ مدارج طبقات الحدیث میں ثکر کیا ہے ۱۲ منہ (م)

 

امام خاتم الحفاظ کا قول ابھی سُن چکے کہ انہوں نے ان سب کتب کو ایک سلک میں منسلک فرمایا اب شاید منکر کج فہم ان نصوص ائمہ کو دیکھ کر سُنن ابی داؤد وترمذی ونسائی وابن ماجہ کی نسبت بھی یہی اعتقاد کرے گا کہ وہ بھی معاذاللہ مہل وبیکار واصلاً ناقابل استناد واعتبار ہیں ولاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔ بالجملہ حق یہ کہ مدار اسناد ونظر وانتقاد یا تحقیق نقاد پر ہے نہ فلاں کتاب میں ہونے فلاں میں نہ ہونے پر قلم ضراعت رقم جب اس محل پر آیا فیض کرم وکرم قدم نے خوش فرمایا اس مقام ومرام طبقات حدیث کی تحقیق جزیل وتدقیق جمیل فقیر ذلیل غفرلہ المولی الجلیل پر فائض  ہوگی  کہ  اگر  یہاں  ایراد کرتا اطناب کلام و ابعاد  مرام سامنے لہذا اسے بتوفیقہ تعالٰی  رسالہ منفردہ عہ  اور بلحاظ تاریخ مدارج طبقات الحدیث(۱۳۱۳ھ) لقب دیا وللّٰہ المنۃ فیما الھم ولہ الحمد علی ماعلّم وصلّی اللّٰہ تعالٰی علی سیدنا ومولانا محمد واٰلہ وصحبہ وسلّم۔

 

عہ:  الحمدللہ یہ عربی رسالہ مختصر عجالہ باوصف وجازت فوائد نفسیہ پر مشتمل اس میں:

اوّلاً طبقات اربعہ حدیث میں حجۃ اللہ البالغہ کا کلام نقل کیا۔

ثانیا ایک مسلسل بیان میں اس کی وہ تقریر ادا کی جس سے کلام منتظم ہوکر بہت شبہات کا ازالہ ہوگیا۔

ثالثاً پھر بہت ابحاث رائقہ مؤلفہ ذائقہ ایراد کیں جن سے روشن ہوگیا کہ طبقات اربعہ کی تحدید نہ جامع نہ مانع نہ ناقد کے کام کی نہ مقلد کو نافع۔

رابعاً اپنی طرف سے ایک عام وشامل تام وکامل ضابطہ وضع کیا جس سے ہرگونہ ناقد وغیرناقد متوسط وعامی ہر قسم کے آدمی کو حد استناد وطریق احتجاج واضح ہوگیا آخر میں اُسے کلماتِ علماء سے مؤید کیا اُس کے ضمن میں صحاح ستہ وغیرہا کتب حدیث کا مرتبہ اور باہمی تفاوت اور بعض دیگر کتب صحاح کا شمار اور نیز یہ کہ ائمہ وعلما میں کن کن کو دربارہ تصحیح احادیث تساہلی اور کہیں درباب حکم وضع تشدد یا معاملہ جرح رجال میں نعت تھا بیان کیا جو کچھ دعوٰی کیا ہے اُس کا روشن ثبوت دیا ہے وللہ الحمد ۱۲ منہ (م)

 

افادہ بست ۲۵ وپنجم (کتبِ موضوعات میں کسی حدیث کا ذکر مطلقاً ضعف کو ہی مستلزم نہیں) اقول کتابیں کہ بیان احادیث موضوعہ میں تالیف ہوئیں دو۲ قسم ہیں، ایک وہ جن کے مصنفین نے خاص ایراد موضوعات ہی کا التزام کیا جیسے موضوعاتِ ابن الجوزی واباطیل جوزقانی وموضوعات صغانی ان کتابوں میں کسی حدیث کا ذکر بلاشبہہ یہی بتائے گا کہ اس مصنّف کے نزدیک موضوع ہے جب تک صراحۃً نفی موضوعیت نہ کردی ہو ایسی ہی کتابوں کی نسبت یہ خیال بجا ہے کہ موضوع نہ سمجھتے تو کتابِ موضوعات میں کیوں ذکر کرتے پھر اس سے بھی صرف اتنا ہی ثابت ہوگا کہ زعمِ مصنّف میں موضوع ہے بہ نظر واقع عدمِ صحت بھی ثابت نہ ہوگا نہ کہ ضعف نہ کہ سقوط نہ کہ بطلان ان سب کتب میں احادیث ضعیفہ درکنار بہت احادیث حسان وصحاح بھردی ہیں اور محض بے دلیل اُن پر حکمِ وضع لگادیا ہے جسے ائمہ محققین ونقاد منقحین نے بدلائل قاہرہ باطل کردیا جس کا بیان مقدمہ ابن الصلاح وتقریب امام نووی والفیہ امام عراقی وفتح المغیث امام سخاوی وغیرہا تصانیف علما سے اجمالاً اور تدریب امام خاتم الحفاظ سے قدرے مفصلاً اور انہی کی تعقبات ولآتی مصنوعہ والقول الحسن فی الذب عن السنن وامام الشان کے القول المسدد فی الذب عن مسند احمد وغیرہا سے بنہایت تفصیل واضح دروشن مطالعہ تدریب سے ظاہر کہ ابن الجوزی نے اور تصانیف درکنار خود صحاح ستّہ ومسند امام احمد کی چوراسی۸۴ حدیثوں کو موضوع کہہ دیا جن کی تفصیل یہ ہے: مسند امام(۱) احمد، صحیح بخاری(۲) شریف بروایت حماد بن شاکر، صحیح مسلم(۳) شریف، سنن(۴) ابی داؤد، جامع(۵) ترمذی، سنن(۶) نسائی، سنن ابن(۷) ماجہ دوم وہ جن کا قصد صرف ایراد موضوعات۲۳ واقعیہ نہیں بلکہ دوسروں کے حکمِ وضع کی تحقیق وتنقیح جیسے لآلی امام سیوطی یا نظر وتنقید کے لئے اُن احادیث کا جمع کردینا جن پر کسی نے حکم وضع کیا جیسے اُنہیں کا ذیل اللآلی امام ممدوح خطبہ مضوعہ میں فرماتے ہیں:

 

ابن الجوزی اکثر من اخراج الضعیف بل والحسن بل والصحیح کمانیہ علی ذلک الائمۃ الحفاظ وطال مااختلج فی ضمیری انتقاؤہ وانتقادہ فاورد الحدیث ثم اعقب بکلامہ ثم انکان متعقبا بنھت علیہ اھ ۱؎ ملخصا۔

 

ابن جوزی نے کتاب موضوعات میں بہت ضعیف بلکہ حسن بلکہ صحیح حدیثیں روایت کردی ہیں کہ ائمہ حفاظ نے اس پر تنبیہ فرمائی مدت سے میرے دل میں تھا کہ اُس کا خلاصہ کروں اور اُس کا حکم پرکھوں تو اب میں حدیث ذکر کرکے ابن جوزی کا کلام نقل کروں گا پھر اس پر جو اعتراض ہوگا بتاؤں گا۔

 

اُسی کے خاتمہ میں فرماتے ہیں :واذ قد اتینا علی جمیع مافی کتابہ فنشرع الآن فی الزیادات علیہ، فمنھا مایقطع بوضعہ ومنھا مانص حافظ علی وضعہ ولی فیہ نظر فاذکرہ لینظر فیہ ۲؎۔

 

اب کہ ہم تمام موضوعاتِ ابن الجوزی بیان کرچکے تو اب اُس پر زیادتیں شروع کریں ان میں کچھ وہ ہیں جن کا موضوع ہونا یقینی ہے اور کچھ وہ جنہیں کسی حافظ نے موضوع کہا اور میرے نزدیک اس میں کلام ہے تو میں اُسے نظرِ غور کے لئے ذکر کروں گا۔

 

پُر ظاہر کہ ایسی تصانیف میں حدیث کا ہونا مصنف کے نزدیک بھی اس کی موضعیت نہ بتائے گا کہ اصل کتاب کا موضوع ہی تنہا ایراد موضوع نہیں بلکہ اگر کچھ حکم دیا یا سند متن پر کلام کیا ہے تو اسے دیکھا جائے گا کہ صحت یا حسن یا ثبوت یا صلوح یا ضعف یا سقط یا بطلان کیا نکلتا ہے مثلاً ''لایصح'' (یہ صحیح نہیں۔ ت) یا ''لم یثبت'' (یہ ثابت نہیں۔ ت) یا سند پر جہالت یا انقطاع سے طعن کیا تو غایت درجہ ضعف معلوم ہُوا، اور اگر ''رفعہ'' کی قید زائد کردی تو صرف مرفوع کا ضعف اور بنظرِ مفہوم موقوف کا ثبوت مفہوم ہُوا، وعلی ہذا القیاس اور کچھ کلام نہ کیا تو امر محتاج نظر وتنقیح رہے گا کمالایخفی شوکانی کی کتاب موضوعات مسمّی بہ فوائدِ مجموعہ بھی اسی قسمِ ثانی کے ہے خود اُس نے خطبہ کتاب میں اس معنٰی کی تصریح کی کہ میں اس کتاب میں وہ حدیثیں بھی ذکر کروں گا جنہیں موضوع کہنا ہرگز صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہیں بلکہ ضُعف بھی خفیف ہے بلکہ اصلاً ضعف نہیں حسن یا صحیح ہیں کہ اہلِ تشدّد کے کلام پر تنبیہ اور اُس کے رَد کی طرف اشارہ ہوجائے، عبارت اُس کی یہ ہے:

 

 (۱؎ اللآلی المضوعہ فی الاحادیث الموضوعہ    خطبہ کتاب    مطبع ادبیہ مصر        ۱/ ۲)

(۲؎اللآلی المضوعہ فی الاحادیث الموضوعہ    خاتمہ کتاب     مطبع ادبیہ مصر       ۲/ ۲۵۱)

 

وقد اذکر مالایصح اطلاق اسم الموضوع علیہ بل غایۃ مافیہ انہ ضعیف بمرۃ وقدیکون ضعیفا ضعفاً خفیفاً، وقدیکون اعلی من ذلک والحاصل علی ذکر ماکان ھٰکذا، التنبیہ علی انہ قدعد ذلک بعض المصنفین موضوعات کابن الجوزی فانہ تساھل فی موضوعاتہ حتی ذکر فیھا ماھو صحیح فضلا عن الحسن فضلا عن الضعیف وقدتعقبہ السیوطی بمافیہ کفایۃ، وقد اشرت الی تعقبات ۱؎ الخ

 

کبھی میں اس کتاب میں وہ احادیث ذکر کروں گا جن پر موضوع کا اطلاق درست نہیں بلکہ وہ ضعیف ہوں گی اور بعض کے ضعف میں خفت ہوگی بلکہ بعض میں ضعف ہی نہیں ان کے ذکر کا سبب یہ ہے تاکہ اس بات پر تنبیہ کی جائے کہ بعض مصنفین نے انہیں موضوع قرار دیا ہے جیسے ابن جوزی نے اپنی موضوعات میں تساہل سے کام لیا ہے۔ حتی کہ صحیح روایات کو موضوعات میں ذکر کردیا چہ جائیکہ حسن اور ضعیف، امام سیوطی نے ان کا تعاقب

کیا ہے، میں نے بھی ان کے تعقبات کی طرف اشارہ کیا ہے الخ (ت)

 

تو متکلمِین طائفہ کا یہ سفیہانہ زعم کہ حدیث تقبیل ابہامین شوکانی کے نزدیک موضوع نہ ہوتی تو کتابِ موضوعات میں کیوں کرتا، کیسی جہالتِ فاحشہ ہے۔

 

 (۱؎ الفوائد المجموعہ خطبۃ الکتاب        دارالکتب العلمیۃ بیروت    ص ۴)

 

تنبیہ: ہر چند یہ افادہ اُن گیارہ افادات سابقہ سے زیادہ متعلق تھا جن میں حضرات طائفہ کے زعمِ موضوعیت کا ابطال ہوا مگر ازانجا کہ ایسی لچربے معنی بات سے توہمِ موضوعیت کسی ذی علم کا کام نہ تھا لہذا ان افادات کے ساتھ منسلک کیا کہ واضح ہوکہ ذکر فی الموضوعات ضعفِ شدید کو بھی مستلزم نہیں جو ایک مسلک پر قبول فی الفضائل میں مخل ہو بلکہ حقیقۃ نفس ذکر بے ملاحظہ حکم تو مفید مطلق ضعف بھی نہیں کہ دونوں قسم میں صحاح وحسان تک موجود ہیں کماتبین۔

 

لطیفہ :اقول حضرات وہابیہ کے پچھلے متکلم اگر موضوعات شوکانی کو موضوع نہ سمجھے تو کیا عجب کہ خود ان کے امام شوکانی کی سمجھ بھی ایسی ہی ناقص اور ناکافی تھی یہیں خطبہ موضوعات میں علمائے نافیان کذب کی دو قسمیں کیں ایک وہ جنہوں نے رواۃ ضعفاء وکذابین وغیرہم کے بیان میں تصنیفیں کیں جیسے کامل ومیزان وغیرہما وقسم:جعلوا مصنفاتھم مختصۃ بالاحادیث الموضوعۃ ۲؎دوسرے وہ جنہوں نے اپنی تصانیف احادیث موضوعہ سے خاص کیں جیسے ابن جوزی وصغانی وغیرہما۔

 

 (۲؎ قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین قسم دوم شہات الخ    مکتبہ سلفییہ لاہور    ص ۲۸۲)

 

اور اسی قسم دوم میں مقاصد حسنہ امام سخاوی کو گن دیا حالانکہ وہ ہرگز تصانیف عہ مختصہ بہ موضوعات سے نہیں بلکہ اُس کا مقصود ان احادیث کا حال بیان کرنا ہے جو زبانوں پر دائر ہیں عام ازیں کہ صحیح ہوں یا حسن یا ضعیف یا بے اصل یا باطل،

 

عہ: افادہ ۲۴ میں شاہ ولی اللہ کا قول گزرا کہ ابن جوزی موضوعات رامجرد ساخت وسخاوی ومقاصد حسنہ حسان لغیرہا ازضعاف ومناکیر ممیز نمود، ۲؎ یہیں سے ظاہر کہ مقاصد حسنہ کتب موضوعات سے کتنے جُدا ہیں ۱۲ منہ (م)

 

ولہذا اُس میں بہت احادیث کو ذکر کرکے فرماتے ہیں: یہ صحیح بخاری میں ہے یہ صحیح مسلم کی ہے یہ صحیحین دونوں کے متفق علیہ ہے، بھلے مانس نے اُس کے نام کو بھی خیال نہ کیاالمقاصد الحسنۃ فی بیان کثیر من الاحادیث المشتھرۃ علی الالسنۃ ۱؎ (مقاصد حسنہ زبانوں پر دائر بہت سی مشہور حدیثوں کے بیان میں۔ ت) نہ اُسی کو آنکھ کھول کر دیکھا اس کے پہلے ہی ورق کی چوتھی حدیث ہے حدیث آیۃالمنافق ثلث متفق علیہ ۲؎ (منافق کی تین علامات ہیں، بخاری ومسلم۔ ت) وہیں ساتویں حدیث ہے حدیثابدأ بنفسک مسلم فی الزکٰوۃ من صحیحہ ۳؎ (اپنے آپ سے ابتدا کرو، اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں زکٰوۃ کے باب میں ذکر کیا ہے۔ ت)

 

 (۱؎ المقاصد الحسنہ    مقدمۃ الکتاب    مطبوعہ دارالکتاب العلمیۃ بیروت    ص ۴)

(۲؎المقاصد الحسنہ   حرف الہمزۃ       مطبوعہ دارالکتاب العلمیۃ بیروت    ص ۶)

(۳؎المقاصد الحسنہ   حرف الہمزۃ       مطبوعہ دارالکتاب العلمیۃ بیروت    ص ۶)

طرفہ تریہ کہ انہیں میں تخریج الاحیاء للعراقی بھی گِن دی سبحان اللہ کہاں تخریج احادیث کتاب کہاں تصنیف فی الموضوعات، اسی فہم پر ابوحنیفہ وشافعی سے دعوٰی مساوات ولاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔

 

نتیجۃ الافادات: الحمدُللہ کلام اپنے ذروہ اعلٰی کو پہنچا اور احقاقِ حق حدِ اقصٰی کو، ان چودہ۱۴ افادوں نے ماہِ شب چہاردہ کی طرح روشن کردیا کہ تقبیل ابہامین کی حدیثیں اگر تعددِ طُرق وعملِ اہلِ علم سے متقوی نہ بھی ہوں تو انتہا درجہ ضعیف بضعفِ خفیف، اور فضائلِ اعمال میں باجماعِ علماء محدثین وفقہاء مقبول وکافی اور ثبوتِ استحبابِ عمل کے لئے مفید ووافی ہیں منکرین کی ساری چہ میگوئیاں کہ اُن کے ابطال واہمال کے لئے تھیں بعونہٖ تعالٰی اپنی سزائے کردار کو پہنچ گئیں والحمدللہ رب العالمین، اب پھر دستِ استعانت قائد توفیق کے ہاتھ میں دیجئے اور بعنایت الٰہی واعانتِ حضرت رسالت پناہی علیہ الصلٰوۃ والسلام غیر المتناہی تحقیق مرام میں اس سے بھی وسیع تر تنزلی کلام اور آخر میں ازالہ وازہاق بقیہ اوہام منکرین لیام کیجئے وباللہ التوفیق۔

 

افادہ بست۲۶ وششم (ایسی جگہ اگر سند کسی قابل نہ ہوتو صرف تجربہ سند کافی ہے) اقول بالفرض اگر ایسی جگہ ضعفِ سند ایسی ہی حد پر ہوکہ اصلاً قابلِ اعتماد نہ رہے مگر جو بات اس میں مذکور ہُوئی وہ علما وصلحا کے تجربہ میں آچکی تو علمائے کرام اس تجربہ ہی کو سند کافی سمجھتے ہیں کہ آخر سند کذب واقعی کو مستلزم نہ تھا، حاکم نے بطریق عمر بن ہارون بلخی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نماز قضائے حاجت کیلئےایک ترکیب عجیب مرفوعاً روایت کی جس کے آخر میں ہے :ولاتعلموھا السفھاء فانہ یدعون بھا فیستجابون ۱؎۔بیوقوفوں کو یہ نماز سکھاؤ کہ وہ اس کے ذریعہ سے جو چاہیں گے مانگ بیٹھیں گے اور قبول ہوگی۔

 

 (۱؎ الترغیب والترہیب    فی صلاۃ الحاجۃ الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱/ ۴۲۸

نصب الرایۃ    الحدیث الثانی والاربعون من کتاب الکراہیۃ    مطبوعہ المکتبۃ الاسلامیہ لصاحبہا الحاج ریاض الشیخ    ۴/ ۲۷۳)

 

ائمہ جرح وتعدیل نے عمر بن ہارون کو سخت شدید الطعن متروک بلکہ متہم بالکذب تک کہا۔ امام احمد وامام نسائی وامام ابو علی نیشاپوری نے فرمایا: متروک الحدیث ہے۔ امام علی بن مدینی وامام دارقطنی نے کہا: سخت ضعیف ہے۔ صالح جزرہ نے کہا: کذاب ہے۔ امام یحیٰی بن معین نے فرمایا:محض لاشیئ کذاب خبیث ۲؎ ہے۔ (بالکل کوئی شے نہیں کذاب وخبیث ہے۔ ت)کل ذلک فی المیزان(یہ سب میزان میں ہے۔ ت) لاجرم حافظ الشان نے تقریب میں فرمایا:متروک وکان حافظاً ۳؎ (یہ متروک ہے اور حافظ تھا۔ ت) ذہبی نے میزان میں کہا:کان من اوعیۃ العلم علی ضعفہ، وکثرۃ مناکیرہ وما اظنہ ممن یتعمد الباطل ۴؎۔اس ضعف وکثرت مناکیر کے باوجود وہ علم کا ذخیرہ تھا اور میں گمان نہیں کرتا کہ کوئی باطل کا ارادہ کرتا ہو۔ (ت)

تذکرۃ الحفاظ میں آخر کہا:لاریب فی ضعفہ ۵؎ (اس کے ضعف میں کوئی شک نہیں۔ ت)

 

 (۲؎ میزان الاعتدال    ترجمہ ۶۲۳۷        مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت        ۳/ ۲۲۸)

(۳؎ تقریب التہذیب    حرف العین        مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی        ص ۱۹۲)

(۴؎ میزان الاعتدال    ترجمہ ۶۲۳۷ عمر بن ہارون    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت        ۳/ ۲۲۹)

(۵؎ تذکرۃ الحفاظ    الطبقۃ السابعہ        مطبوعہ دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد دکن    ۱/ ۳۱۲)

 

امام اجل ثقہ حافظ عبدالعظیم زکی منذری نے کتاب الترغیب عہ۱ میں یہ حدیث بروایت حاکم نقل کرکے عمر بن ہارون کے متروک ومتہم ہونے سے اُسے معلول کیا،حیث قال قدتفرد بہ عمربن ھارون البلخی وھو متروک متھم اثنی علیہ ابن مھدی وحدہ عہ۲  فیما اعلمہ ۱؎ اھجہاں کہا کہ اس کے بیان کرنے میں عمر بن ہارون بلخی متفرد ہے اور وہ متروک ومتہم ہے میرے علم کے مطابق ابن مہدی نے فقط اسے بہتر قرار دیا ہے اھ ۔

 

عہ۱ : فی الترغیب فی صلاۃ الحاجۃ ۱۲ منہ (م)           (ترغیب میں نماز حاجت کے تحت اس کو بیان کیا ہے۔ ت)

عہ۲ : اقول ھذا عجیب من مثل الحافظ مع قول نفسہ فی خاتمۃ الکتاب ضعفہ الجمھور وثقہ قتیبۃ وغیرہ اھ فی تذکرۃ الحفاظ عن الابار عن ابی غسان عن بھربن اسد انہ قال اری یحیٰی بن سعید حسدہ قال وساق الخطیب باسنادہ عن ابن عاصم انہ ذکر عمربن ھارون فقال عمر عندنا احسن اخذا للحدیث من ابن المبارک وقال المروزی سئل ابوعبداللّٰہ عن عمربن ھارون فقال مااقدر ان  اتعلق علیہ بشیئ کتبت عنہ کثیرا فقیل لہ قدکانت لہ قصّۃ مع ابن مھدی فقال بلغنی انہ کان یحمل علیہ وقال احمد بن سیار کان کثیر السماع کان قتیبۃ یطریہ ویوثقہ الخ ثم ذکر تکذیبہ وترکہ وجرحہ عن ابن معین واٰخرین ثم قال قلت لاریب فی ضعفہ وکان لما حافظا فی حروف القرأت مات سنۃ اربعین وتسعین ثلٰث مائۃ اھ ۱۲ منہ (م)

اقول حافظ جیسے لوگوں پر تعجب ہے کہ خود انہوں نے خاتمہ کتاب میں کہا کہ اسے جمہور نے ضعیف کہا اور قتیبہ وغیرہ نے اسکی توثیق کی اھ اور تذکرۃ الحفاظ میں ازابار ازابن غسان ازبہربن اسد ہے وہ کہتے ہیں میں نے یحیٰی بن سعید کو دیکھا وہ ان پر حسد کرتے تھے کہا اور خطیب اپنی سند سے ابوعاصم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عمربن ہارون کا ذکر کیا تو کہا کہ عمر ہمارے نزدیک حدیث اخذ کرنے میں ابی المبارک سے احسن ہے، اور مروزی نے کہا ابوعبداللہ سے عمر بن ہارون کے متعلق پُوچھا گیا تو کہا میں ان کے بارے میں کوئی شیئ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا میں نے ان سے بہت روایات لکھی ہیں، ان سے کہاگیا کہ ان کا ابن مہدی کے ساتھ فلاں معاملہ ہے، تو انہوں نے کہا مجھے خبر پہنچی ہے کہ وہ اس پر حملہ کرتا تھا، اور احمد بن سبار نے کہا کہ وہ کثیر السماع تھا، قتیبہ اس کی تعریف وتوثیق کرتا تھا الخ) پھر اس کی تکذیب، ترک اور جرح ابن معین وغیرہم سے ذکر کرنے کے بعد کہا میں کہتا ہوں اس کے ضعف میں کوئی شک نہیں، اور وہ قراء اتِ حروف میں امام وحافظ تھے ان کا وصال ۳۹۴ھ میں ہوا اھ ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ الترغیب والترہیب    فی صلاۃ الحاجۃ ودعائہا    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۴۷۸)

 

قلت بل اختلف الروایۃ عن ابن مھدی ایضا فقال فی المیزان قال ابن مھدی واحمد والنسائی متروک الحدیث ثم قال وقال ابن حبان کان ابن مھدی حسن الرای فی عمر بن ھارون ۱؎ اھ فاللّٰہ تعالٰی اعلم۔

 

قلت (میں کہتا ہوں) کہ ابن مہدی سے بھی روایت مختلف ہے، میزان میں ہے کہ ابنِ مہدی، احمد اور نسائی نے کہا کہ یہ متروک الحدیث ہے، پھر کہا کہ ابنِ حبان کہتے ہیں کہ ابن مہدی عمر بن ہارون کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے اھ فاللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال    ترجمہ ۶۲۳۷ عمر بن ہارون        مطبوعہ دارالمعرفت بیروت    ۳ /۲۲۸ و ۲۲۹)

 

باینہمہ از انجا کہ مستدرک میں تھا: قال احمد بن حرب قدجربتہ فوجدتہ حقا، وقال ابراھیم بن علی الدّیبلی عہ۱ قدجربتہ فوجدتہ حقا، وقال الحاکم قال لنا ابوزکریا قدجربتہ فوجدتہ حقا قال الحاکم قدجربتہ فوجدتہ ۲؎ حقا۔احمد بن حرب نے کہا میں نے اس نماز کو آزمایا حق پایا، ابراہیم بن علی دیبلی نے کہا میں نے آزمایا حق پایا ہم سے ابوزکریا نے کہا میں نے آزمایا حق پایا، حاکم کہتے ہییں خود میں نے آزمایا تو حق پایا عہ۲۔

 

عہ۱ : نسبۃ الٰی دیبل بفتح الدال المھملۃ وسکون الیاء المثناۃ من تحت وضم الباء الموحدۃ والاٰخر لام قصبۃ بلاد السند کمافی القاموس ۱۲ منہ (م)

یہ دَیبلُ کی طرف منسوب ہے۔ دیبل دال مہملہ کے فتح کے ساتھ، یاء مثنٰی کے سکون باء موحدہ کے پیش کے ساتھ اور آخر میں لام ہے کہ بلادِ سندھ میں ایک قصبہ ہے قاموس میں ایسے ہی ہے ۲ منہ (ت)

عہ۲ :اقول بحمداللہ تعالٰی اس فقیر نے بھی کئی بار آزمایا حق پایا بعض قریب تر اعزّہ کو سخت ناسازی تھی طول ہوا یہاں تک کہ ایک روز حالت مثل نزع طاری ہوئی سب رونے لگے فقیر مشغولِ نماز مذکور ہُوا پڑھ کر آیا تو عزیز مذکور بیٹھا باتیں کرتا پایا وللہ الحمد بیس۲۰ سال ہونے کو آئے جب سے بحمداللہ فضلِ الٰہی ہے ماشاء اللہ لاقوۃ الّاباللہ ۱۲ منہ (م)

 

 (۲؎ الترغیب والترہیب    بحوالہ الحاکم الترغیب فی صلاۃ الحاجۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۴۷۸)

 

لہذا امام حافظ منذری نے فرمایا: الاعتماد فی مثل ھذا علی التجربۃ لاعلی الاسناد ۳؎(ایسی جگہ اعتماد تجربہ پر ہوتا ہے نہ کہ اسناد پر)۔

 

 (۳؎ الترغیب والترہیب    بحوالہ الحاکم الترغیب فی صلاۃ الحاجۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۴۷۸)

 

امام ابن امیرالحاج حلیہ عہ۳  میں حدیث کا وہ ضعف شدید اور امام ابن جوزی کا اُسے بایقین موضوع کہنا عہ ذکر کرکے فرماتے ہیں:ومشی علی ھذا فی الحاوی القدسی فانہ ذکر ھذہ الصلٰوۃ للحاجۃ علٰی ھذا الوجہ من الصلٰوۃ المستحبۃ ۱؎۔حاوی قدسی میں اسی پر عمل کیا کہ انہوں نے حاجت کے لئے اس ترکیب کو مستحب نمازوں میں ذکر فرمایا۔

 

عہ۳ : اٰخر الکتاب فی الفضائل الثالث عشر فی صلاۃ الحاجۃ من فصول تکمیل الکتاب ۱۲ منہ (م)

یہ کتاب کے آخر میں فضائل کے بیان میں جو تیرھویں فصل نمازِ حاجت کے بیان میں تمیل کتاب کی فصول میں سے ہے (ت)

عہ: ھواٰخر حدیث من باب الصلاۃ فی الموضوعات قال المخرج موضوع، عمربن ھارون کذاب قال خاتم الحفاظ عمرروی لہ الترمذی وابن ماجۃ وقال فی المیزان کان من اوعیۃ العلم الی آخر مانقلنا قال ووجدت للحدیث طریقا آخر فذکر مااسند ابن عساکر عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نحوہ وسکت علیہ خاتم الحفاظ واللّٰہ تعالی اعلم ۱۲ منہ (م)

نماز کے باب میں موضوعات میں یہ آخری حدیث ہے تخریج کرنے والے نے کہا یہ موضوع ہے عمر بن ہارون کذاب ہے، خاتم الحفاظ نے کہا عمر سے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت لی ہے، میزان میں ''کان من اوعیۃ العلم الٰی آخر مانقلنا'' (وہ علم کا ذخیرہ تھا آخر تک جو عبارت ہم نے نقل کی ہے) کہا اور کہا کہ اس حدیث کی ایک اور سند بھی میں نے دیکھی ہے پھر وہ سند ذکر کی جو ابن عساکر نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کی مثل روایت کی ہے اس پر خاتم الحفاظ نے سکوت کیا ہے واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی    )

 

مرقاۃ شرح مشکٰوۃ سے امامِ اجل سیدی شیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ الشریف کا ارشاد لطیف افادہ ۱۵ میں گزرا کہ میں نے صحتِ حدیث کو اس جوان کی صحتِ کشف سے پہچانا یعنی جب اس کے کشف سے معلوم ہوا کہ حدیث میں جو وعدہ آیا تھا ٹھیک اُترا معلوم ہُوا کہ حدیث صحیح ہے اب صدر رسالہ میں امام سخاوی کے نقول دیکھ لیجئے کہ اس تقبیل ابہامین کے کتنے تجربے علما وصلحا سے منقول ہوئے ہیں لاجرم علامہ طاہر فتنی نے فرمایاروی تجربۃ ذلک عن کثیرین ۲؎(اس کا تجربہ بہت سے لوگوں سے روایت کیا گیا) تو عزیزو! اگر بفرض غلط سند کسی قابل نہ سمجھو تاہم تجربہ علما کو سند کافی جانو۔

 

 (۲؎ خاتمہ مجمع بحار الانوار    نولکشور لکھنؤ    ۳/ ۵۱۱)

 

افادہ بست ۲۷ وہفتم (بالفرض اگر کتب میں اصلاً پتا نہ ہوتا تاہم ایسی حدیث کا بعض کلمات علما میں بلاسند مذکور ہونا ہی بس ہے) اقول بھلایاں تو طرق مسندہ باسانید متعددہ کتب حدیث میں موجود علمائے کرام تو ایسی جگہ صرف کلمات بعض علما میں بلاسند مذکور ہونا ہی سند کافی سمجھتے ہیں اگرچہ طبقہ رابعہ وغیرہا

کسی طبقہ حدیث میں اُس کا نام نہ نشان نہ ہو، حضور اقدس سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وصال اقدس کے بعد امیرالمومنین عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حضور والا کوندا کرکے بابی انت وامی یارسول اللّٰہ ۱؎ میرے ماں باپ حضور پر قربان یارسول اللہ کہہ کر حضور کے فضائلِ جلیلہ وشمائل جمیلہ عرض کرنا،

 

 (۱؎ نسیم الریاض شرح شفا    باب اول الفصل الرابع فی قسمہ تعالٰی    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۱/ ۱۹۶)

 

یہ حدیث امام ابومحمد عبداللہ بن علی لخمی اندلسی رشاطی نے کہ پانچویں صدی کے علماء سے تھے ۴۶۶ھ میں انتقال کیا اپنی کتاب اقتباس الانوار والتماس الازہار اور ابوعبداللہ محمدمحمد ابن الحاج عبدری مکی مالکی نے کہ آٹھویں صدی کے فضلا سے تھے ۷۳۷ھ میں وصال ہوا اپنی کتاب مدخل میں ذکر کی دونوں نے محض بلاسند ائمہ کرام وعلمائے اعلام نے اس سے زائد اس کا پتا نہ پایا کُتبِ حدیث میں اصلا نشان نہ ملا مگر ازانجا کہ مقام مقامِ فضائل تھا اسی قدر کو کافی سمجھا، ان نادانوں کُند حواسوں فرق مراتب ناشناسوں کی طرح طبقہ رابعہ میں ہونا درکنار اصلاً کسی طبقہ میں نہ ہونا بھی اُنہیں اُس کے ذکر وقبول سے مانع نہ آیا بلکہ اس سے استناد فرمایا علامہ ابوالعباس قصار نے اسے شرح قصیدہ بردہ شریف میں ذکر کیا اور اِنہیں زشاطی کا حوالہ دیا، پھر امام علّامہ احمد قسطلانی عہ۱ نے مواہب للدنیہ میں بصیغہ جزم ذکر کی، اسی شرح قصار ومدخل کی سند دی، اسی مواہب شریف ونسیم الریاض علّامہ شہاب خفاجی مصری ومدارج النبوۃ شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی وغیرہا میں علمائے کرام نے اس حدیث کو زیر بیان آیہ کریمہلااقسم بھذا البلدہ ط وانت حل بھذا البلد ۲؎ (میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں اور اے محبوب! تُو اس میں جلوہ افروز ہے۔ ت)جس میں رب العزّت جل وعلانے شہرِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی قسم یاد فرمائی ہے محلِ استناد میں ذکر کیا کہ قرآنِ عظیم نے حضور پُرنور سید المحبوبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جان پاک بھی قسم کھائی کہلعمرک انھم لفی سکرتھم یعمھون ۳؎ (تیری جان کی قسم یہ کافر اپنے نشہ میں بہک رہے ہیں) اور حضور کے شہر مکہ معظمہ کی بھی قسم کھائی کہ لااقسم بھذا البلدہ ۴؎ مگر اس قسم میں اُس قسم سے زیادہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم ہے جس طرح امیرالمومنین عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس طرف اشارہ کیا کہ عرض کرتے ہیں میرے ماں باپ حضور پر قربان یارسول اللہ، اللہ عزوجل کے نزدیک حضور کا مرتبہ اس حد کو پہنچا کہ حضور کے خاک پاکی قسم یاد فرمائیلااقسم بھذا البلدo ۔

 

عہ۱ : الفصل الاول من المقصد العاشر ۱۲ منہ (م)        دسویں مقصد کی پہلی فصل میں دیکھو۔ (ت)

 

(۲؎ القرآن        ۹۰ /۲)       (۳؎ القرآن        ۱۵/ ۷۲)     (۴؎ القرآن        ۹۰/ ۱)

 

نسیم(عہ۲) کی دلکشا عبارت یہ ہے : قدقالوا ان ھذا القسم ادخل فی تعظیمہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من القسم بذاتہ وبحیاتہ کمااشار الیہ عمررضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بقولہ بابی انت وامی یارسول اللّٰہ قدبلغت من الفضیلہ عندہ ان اقسم بتراب قدمیک فقاللااقسم بھٰذا البلدہ ۱؎۔مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ آپ کے شہر کی قسم، آپ کی ذات اور عمر کی قسم سے زیادہ تعظیم پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ اس کی طرف حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان الفاظ کے ساتھ اشارہ فرمایا: یارسول اللہ! میرے والدین آپ پر فدا ہوں آپ اللہ تعالٰی کے ہاں اتنے عظیم المرتبت ہیں کہ اللہ تعالٰی نے آپ کے مبارک قدموں کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا ہے: لااقسم بھذا البلد (میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں) (ت)

 

عہ۲ : الفصل الرابع من الباب الاول ۱۲ منہ (م)   باب اول کی چوتھی فصل میں دیکھو۔ (ت)

 

 (۱؎ نسیم الریاض شرح شفا        باب اول الفصل الرابع فی قسمہ تعالٰی    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۱/ ۱۹۶)

 

مواہب (عہ) میں ہے : علی کل حال فھذا متضمن للقسم ببلد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ولایخفٰی مافیہ من زیادۃ التعظیم وقدروی ان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال للنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بابی انت وامی یارسول اللّٰہ لقد بلغ من فضیلتک عنداللّٰہ ان اقسم بحیاتک دون سائر الانبیاء ولقد بلغ من فضیلتک عندہ ان اقسم بتراب قدمیک فقال لااقسم بھٰذا البلد ۲؎۔

 

ہر حال میں یہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے شہر کی قسم کو متضمن ہے اور اس قسم میں جو عظمتِ مرتبہ ہے وہ مخفی نہیں، حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول نہیں، حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے کہ اُنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا: یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ کی فضیلت اللہ تعالٰی کے ہاں اتنی بلند ہے کہ آپ کی حیاتِ مبارکہ کی ہی اس نے قسم اٹھائی ہے نہ کہ دوسرے انبیاء کی، اور آپ کی عظمت ومرتبت اس کے ہاں اتنی عظیم ہے کہ اس نے ''لااقسم بھذا البلد'' کے ذریعے آپ کے مبارک قدموں کی خاک کی قسم اٹھائی ہے۔ (ت)

 

عہ: المقصد السادس النوع الخامس الفصل الخامس ۱۲ منہ (م)       چھٹےمقصد کی نوع خامس سے پانچویں فصل دیکھو ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ المواہب اللدنیہ مع شرح الزرقانی    الفصل الخامس من النوع الخامس الخ    مطبعۃ عامرہ مصر    ۶/ ۲۷۰)

 

مدارج (عہ) میں اسے نقل کرکے فرمایا : یعنی سوگند خوردن ببلد کہ عبارت است کہ از زمینے کہ پے سپر میکند، آنرا (پائے آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) سوگند بخاک پائے خوردن ست، وایں لفط درظاہر نظر سخت مے درآید، نسبت بجناب عزّت چوں گویند کہ سوگند میخورد بخاک پائے حضرت رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ونظر بحقیقت معنی صاف وپاک ست کہ غبارے براں نمی نشیند، وتحقیق ایں سخن آنست کہ  سوگند خوردن حضرت رب العزّت جل جلالہ پچیزے غیر ذات وصفات بود برائے اظہار شرف وفضیلت وتمیزآں چیزست نزدمردم ونسبت بایشاں تابدانند کہ آں امرے عظیم وشریف است نہ آنکہ اعظم است نسبت بوئے تعالٰی ۱؎ الخ

 

یعنی شہر کی قسم کھانے سے مراد یہی ہے کہ اس خاکِ پاکی قسم اٹھائی ہے کیونکہ شہر سے مراد وہ زمین اور جگہ ہے جہاں حضور پاؤں رکھ کر چلتے ہیں، بظاہر یہ الفاظ سخت معلوم ہوتے ہیں کہ باری تعالٰی حضور کے خاکِ پاکی قسم اٹھائے، لیکن اگر اس کی حقیقت کو دیکھا جائے تو اس میں کوئی پوشیدگی وغبار نہیں وہ اس طرح کہ اللہ تعالٰی جب اپنی ذات وصفات کے علاوہ کسی شَے کی قسم اٹھاتا ہے تو وہ اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ شیئ (معاذاللہ) اللہ تعالٰی سے عظیم ہے، بلکہ حکمت یہ ہوتی ہے کہ اس چیز کو وہ شرف وعظمت نصیب ہوجائے جس کی وجہ سے عام لوگوں پر اس کا امتیاز قائم ہو اور لوگ محسوس کریں کہ یہ شے بنسبت دوسری چیزوں کے نہایت عظیم ہے نہ کہ وہ معاذاللہ بنسبت اللہ تعالٰی کے عظیم ہے میں ایک اسی حدیث بے سند کو کیا ذکر کرتا کہ اس کی تو صدہا نظیریں کتبِ علماء میں موجود ہیں زیادہ جانے دیجئے یہ پچھلے زماے کے بڑے محدّث شاہ ولی اللہ صاحب بھی جابجا اپنی تصانیف میں ایسی کتب کی حدیثوں سے سند لاتے ہیں جو نہ کسی طبقہ حدیث میں داخل نہ اُن میں سند کا نام ونشان،

عہ:  قسم اول باب سوم فصل دوم ۱۲ منہ (م)

 

 (۱؎ مدارج النبوۃ        وصل مناقب جلیلہ        مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/ ۶۵)

نوٹ:    مدارج النبوۃ مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھّر کے نسخہ میں خط کشیدہ عبارت نہیں ہے غوروفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ اتنی عبارت اس نسخے میں کسی وجہ سے رہ گئی اور اعلحٰضرت کی عبارت میں جو اضافہ ہے وہ درست ہے۔ نذیراحمد سعیدی

 

قرۃ العینین میں روایات مذکورہ تاریخ یافعی وروضۃ الاحباب وشواہد النبوۃ مولانا جامی قدس سرہ السامی سے استناد موجود، مثلاً لکھا:اما اتصاف شیخین بصفات کاملہ تلبیہ ۲؎ پس بطریق اتم بودو ظہور خرق عوائد وتربیت الٰہی ایشاں رابرؤیا وماندآں ازیشاں بسیار مروی شدہ حدیثی چند ازیں جملہ نیز روایت کنیم ۱؎۔

 

شیخین (صدیق وفاروق) صفات کاملہ مشہورہ کے ساتھ بطریق اتم متصف تھے اور اُن سے خرقِ عادت اور تربیت الٰہیہ کے طور خواب وغیرہ جسے معاملات کا اظہار بھی احادیث میں مروی ہے ان میں سے ایک حدیث کا میں یہاں ذکر کرتا ہوں،

 

 (۲؎ قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین  اتصاف شیخین بہ صفاتِ کاملہ الخ   مطبوعہ المکتبۃ السلفیہ لاہور ص ۹۲)

 

درشواہد النبوہ ازابومسعود انصاری منقول است کہ گفتہ است اسلام ابوبکر شبیہ بوحی است زیراکہ وے گفتہ است کہ شبی پیش ازبعث رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ شبی پیش ازبعث رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم درخواب دیدم کہ نورے عظیم ازآسماں فروآمد وبربامِ کعبہ ۲؎ افتاد الخ۔ ونیز درشواہد مذکور است کہ امیرالمومنین ابوبکر صدیق گفتہ است کہ روزے درایامِ جاہلیت درسایہ درختے نشستہ بودم ناگاہ میل بمن کردبجانب من کرد آوازے ازاں درخت بگوش من آمد کہ پیغمبرے درفلاں وقت بیرون خواہد آمدے باید کہ تو سعادت مند ترین مردمان باشی بوے الخ ونیز درشواہد ازابوبکر صدیق منقول است کہ درمرض آخر خود گفت کہ امشب درتفویض امرخلافت بتکرار استخارہ کردم ۳؎ الخ ملتقطا۔

 

شواہد النبوۃ میں ابومسعود انصاری سے مروی ہے کہا گیا ہے کہ سیدنا ابوبکر کا اسلام مشابہ بالوحی ہے کیونکہ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک عظیم نور آسمان سے نیچے آیا اور کعبہ کی چھت پر اترا ہے الخ شواہد النبوۃ میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں دورِ جاہلیت میں ایک دن ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہواتھا اچانک وہ درخت میری طرف جھُک گیا اور اس درخت سے میرے کانوں میں یہ آواز آئی کہ فلاں وقت اللہ کا پیغمبر آئے گا تو ان کے ساتھیوں میں نہایت ہی سعادت مند ہوگا الخ اور یہ بھی شواہد میں حضرت ابوبکر صدیق سے منقول ہے کہ آپ نے آخری مرضِ وصال میں فرمایا کہ آج میں نے خلافت کے معاملات کو سپرد کرنے کے لئے باربار استخارہ کیا ہے الخ ملتقطا (ت)

 

 (۱؎ قرۃ العینین فی تقبیل الشیخین    اتصاف شیخین بہ صفاتِ کاملہ    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور    ص ۹۳)

(۲؎قرۃ العینین فی تقبیل الشیخین    اتصاف شیخین بہ صفاتِ کاملہ    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور    ص ۹۴)

(۳؎قرۃ العینین فی تقبیل الشیخین    اتصاف شیخین بہ صفاتِ کاملہ    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور     ص ۹۵)

 

اُسی میں ہے : چونوبت خلافت بفاروق رسید سیاستی بردست اوواقع شدکہ غیر نبی برآں قادر نباشد واگر عقل سلیم رااعمال نمایم درامورے کے خلافتِ انبیاء رامی شاید بہتر از حال وے متصور نگر دد زیر اکہ حضرت پیغامبر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بدو چیز مشغول بودند یکے تعلیم علم فاروق اعظم ۱؎ مسائل را تفحص کرد و ترتیبِ کتاب وسنت واجماع وقیاس آورد وسد مداخل تحریف نمود چنانچہ علمائے صحابہ ہمہ گواہی دادند کہ وے اعلم زمان خود است دیگر جہاد کفار و فاروق تحمل اعبائے جہاد بوجہے نمود کہ خوب ترازاں صورت نگیرد وقال الیافعی فی السنۃ الرابعۃ عشر فتحت دمشق ۲؎ الخ در روضۃ الاحباب مذکور ست کہ در زبان خلافت وے ہزار وسی وشش شہر باتوابع ولواحق آں فتح شد و چہار ہزار مسجدساختہ گشت وچہار ہزار کنیسہ خراب گردید ویک ہزار ونہ صد منبر بناکردند ۳؎ اھ بالالتقاط۔

 

جب خلافت حضرت فاروقِ اعظم کے سپرد ہوئی تو آپ نے سیاست کو اس طرح بہتر انداز میں نبھایا کہ کسی غیر نبی سے ایسا ممکن نہ تھا اگر عقلِ سلیم کو امورِ خلافت بروئے کار لایا جائے تو محسوس ہوگا کہ انبیاء کی خلافت کا کام ان سے بہتر نبھایا نہیں جاسکتا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن دو معاملات کی طرف بہت ہی زیادہ توجہ دیتے تھے ان میں سے ایک تعلیم علم ہے اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے مسائل میں کھود کرید کرکے اور نہایت ہی محنت و کوشش کے ساتھ کتاب وسنت،اجماع و قیاس کی ترتیب کو قائم فرماکر تحریف کے تمام راستے بند کردئے،چنانچہ تمام صحابہ نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ وہ اپنے دور میں سب سے زیادہ عالم تھے۔اور دوسرا معاملہ جہاد کاتھا فاروق اعظم نے اس معاملہ کو اس طرح نبھایا کہ اس سے بہتر تصور نہیں کیا جاسکتا۔یافعی کہتے ہیں کہ ۱۴ھ میں دمشق فتح ہوگیا الخ اور روضۃ الاحباب میں ہے کہ فاروق اعظم کے دور میں ایک ہزارچھتیس(۱۰۳۶) شہر مع مضافات فتح ہوئے،چار ہزار(۴۰۰۰) مساجد کی تعمیر ہوئی،چار ہزار(۴۰۰۰) کنیسے تباہ کئے گئے،ایک ہزارنوسو(۱۹۰۰) منبر تیار ہوئے اھ بالالتقاط۔(ت)

 

 (۱؎ قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین     مآثر جمیلہ فاروق اعظم         مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ص ۱۳۰)

(۲؎ قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین     مآثر جمیلہ فاروق اعظم         مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ص ۱۳۱)

(۳؎ قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین     مآثر جمیلہ فاروق اعظم         مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ص ۱۳۲)

 

یوں ہی تفسیر عزیزی وغیرہ تصانیف مولانا شاہ عبد العزیز صاحب میں ایسے بہت اسناد ملیں گے اس کا گننا ہی کہاتھا مجھے تو یہاں یہ نص قاہر وباہر سنانا ہے کہ حدیث مذکور فاروقی بابی انت وامی یارسول اللّٰہ کا ایک پارہ امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بھی شفا شریف میں یونہی بلاسند ذکرفرمایا اس پر امام خاتم الحفاظ جلال الملۃ والدین سیوطی نے مناہل (عـہ) الصفا فی تخریج احادیث الشفا پھر اُن کے حوالہ سے علامہ خفاجی نے نسیم میں ارشاد کیا :لم اجدہ فی شیئ من کتب الاثر لکن صاحب اقتباس الانوار وابن الحاج فی مدخلہ ذکراہ فی ضمن حدیث طویل وکفٰی بذلک سند المثلہ فانہ لیس ممایتعلق بالاحکام ۱؎۔میں نے یہ حدیث کسی کتابِ حدیث میں نہ پائی، مگر صاحبِ اقتباس الانوار اور ابن الحاج نے مدخل میں ایک حدیث طویل اسے ذکر کیا، ایسی حدیث کو اتنی ہی سند بہت ہے کہ وہ کچھ احکام سے تو متعلق نہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ نسیم الریاض شرح الشفاء    باب اول الفصل السابع فیما اخبر اللہ تعالٰی الخ    مطبوعہ دارالفکر بیروت   ۱/ ۲۴۸)

فقیر بعون رب قدیر جل وعلا تنزل پر تنزل کرکے روشن تر سے روشن تر کلام کرے مگر حضرات منکرین کی آنکھیں خدا ہی کھولے۔

افادہ بست۲۸ وہشتم (حدیث اگر موضوع بھی ہوتو تاہم اس سے فعل کی ممانعت لازم نہیں) اقول اچھا سب جانے دیجئے اپنی خاطر پُورا تنزل لیجئے بالفرض حدیث موضوع وباطل ہی ہو تاہم موضوعیت حدیث عدمِ حدیث ہے نہ حدیث عدم، اُس کا اصل صرف اتنا ہوگا کہ اس بارہ میں کچھ وارد نہ ہوا نہ یہ کہ انکار ومنع وارد ہوا، اب اصل فعل کو دیکھا جائے گا اگر قواعد شرع ممانعت بتائیں ممنوع ہوگا ورنہ اباحت اصلیہ پر رہے گا اور بہ نیت حسن حسن ومستحسن ہوجائے گا۔

 

کماھو شان المباحات جمیعا کمانص علیہ عہ فی الاشباہ وردالمحتار وانموذج العلوم وغیرھا من معتمدات الاسفار۔جیسا کہ تمام مباحات کا معاملہ ہے جیسا کہ اس پر اشباہ و ردالمحتار اور انموذج العلوم اور ان جیسی دیگر معتمد کتب میں تصریح کی ہے۔ (ت)

 

عہ: قال فی الاشباہ من القاعدۃ الاولٰی اما المباحات فانھا تختلف صفتھا باعتبار ماقصدت لاجلہ ۲؎ الخ وعنھا نقل فی اوائل نکاح ردالمحتار وفیہ ایضا من کتاب الاضحیۃ فی مسئلۃ العقیقۃ وان قلنا انھا مباحۃ لکن یقصد الشکر تصیر قربۃ فان النّیۃ تصیر العادات عبادات، والمباحات طاعات ۳؎ اھ وکلام الانموذج مرّفی الافادۃ الحادیۃ والعشرین ۱۲ منہ(م)

 اشباہ میں قاعدہ اولٰی میں ہے کہ مباحات صفت کے اختلاف سے مختلف ہوجاتے ہیں اس اعتبار کے ساتھ جس کا ارادہ کیاگیا ہو الخ اس عبارت کو ردالمحتار کی کتاب النکاح کے اوائل میں نقل کیاگیا ہے، ردالمحتار کی کتاب الاضحیۃ میں بھی عقیقہ کے مسئلہ کے متعلق ہے کہ ہم کہتے ہیں یہ اگرچہ مباح ہے لیکن شکر کے ارادہ سے عبادت بن جاتا ہے کیونکہ نیت عادت کو عبادت میں اور مباحات کو عبادت وفرمانبرداری میں بدل دیتی ہے اھ اور انموذج العلوم کا کلام اکیسویں۲۱ افادہ میں گزرچکا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ الاشباہ والنظائر    بیان دخول النیۃ فی العبادات الخ        مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۴)

(۳؎ ردالمحتار کتاب الاضحیۃ        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۲۰۸)

 

حدیث کے موضوع ہونے سے فعل کیوں ممنوع ہونے لگا موضوع خود باطل ومہل وبے اثر ہے یا نہی وممانعت کا پروانہ لاجرم علامہ سیدی احمد طحطاوی ؎ ومصری حاشیہ درمختار میں زیرقولرملی واما الموضوع فلایجوز العمل بہ بحال ۱؎فرماتے ہیں:ای حیث کان مخالفا لقواعد الشریعۃ واما لوکان داخلا فی اصل عام فلامانع منہ لالجعلہ حدیثا بل لدخولہ تحت الاصل العام ۲؎۔یعنی جس فعل کے بارے میں حدیث موضوع وارد ہو اُسے کرنا اُسی حالت میں ممنوع ہے کہ خود وہ فعل قواعدِ شرع کے خلاف ہو اور اگر ایسا نہیں بلکہ کسی اصل کلی کے نیچے داخل ہے تو اگرچہ حدیث موضوع ہو فعل سے ممانعت نہیں ہوسکتی نہ اس لئے کہ موضوع کو حدیث ٹھہرائیں بلکہ اس لئے کہ وہ قاعدہ کلیہ کے نیچے داخل ہے۔

 

 (۱؎ الدرالمختار   کتاب الطہارۃ    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/ ۲۳)

(۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب الطہارۃ    مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت    ۱/ ۷۵)

 

اقول فقدافاد رحمہ اللّٰہ تعالٰی بتعلیلہ ان المراد جواز العمل بمافی موضوع لالکونہ فی موضوع وسنلقی علیک تحقیق المقام بتوفیق الملک العلام فانتظر۔

 

اقول سید احمد طحطاوی نے اس تعلیل کے ذریعے یہ ضابطہ بیان فرمادیا کہ مراد یہ ہے (کہ موضوع حدیث کے مفہوم میں جو شرعی قاعدہ کے موافق ہے اس پر عمل ہے نہ کہ موضوع حدیث پر عمل ہے) عنقریب ہم اللہ تعالٰی کی توفیق سے اس پر تفصیلی گفتگو کریں گے پس آپ انتظار کریں۔ (ت)

یہ تو تصریح کُلی تھی اب جزئیات پر نظر کیجئے تو وہ بھی باعلی ندا شہادت جواز دے رہے ہیں جس نے کلمات علماءِ کرام حشرنا اللہ تعالٰی فی زمرتہم کی خدمت کی وہ جانتا ہے کہ درود موضوعات واباطیل اُن کے نزدیک موجب منع فعل نہ تھا بلکہ باوصف اظہار وضع وبطلان حدیث اجازت افعال کی تصریح فرماتے یہاں بنظرِ اختصار چند امثلہ پر اقتصار۔

 

 (۱) امام سخاوی مقاصدِ حسنہ میں فرماتے ہیں : حدیث لیس الخرقۃ الصوفیۃ وکون الحسن البصر لبسھا من علی قال ابن دحیۃ وابن الصلاح الہ باطل وکذا قال شیخنا، انہ لیس فی شیئ من طرقھا مایثبت ولم یرد فی خبر صحیح ولاحسن ولاضعیف ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم البس الخرقۃ علی الصورۃ المتعارفۃ بین الصوفیۃ لاحد من اصحابہ ولاامر احدا من اصحابہ بفعل ذلک وکل مایروی فی ذلک صریحا فباطل، ثم ان ائمۃ الحدیث لم یثبتوا اللحسن من علی سماعا فضلا عن ان یلبسہ الخرقۃ ولم یتفرد شیخنا بھذا بل سبقہ الیہ جماعۃ حتی من لبسھا والبسھا کالد میاطی والذھبی والھکاری وابی حیان والعلائی ومغلطائی والعراق وابن الملقن والابناسی والبرھان الحلبی وابن ناصرالدین ھذا مع الباسی ایاھا لجماعۃ من اعیان المتصوفۃ امتثالا لالزامھم لی بذلک حتی تجاہ الکعبۃ المشرقۃ تبرکا بذکر الصلحین واقتفاء لمن اثبتہ من الحفاظ المعتمدین ۱؎ اھ بتلخیص۔

 

خرقہ پوشی صوفیہ کرام کی حدیث اور یہ کہ حضرت حسن بصری قدس سر السری نے امیرالمومنین مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم سے خرقہ پہنا امام ابن وحیہ وامام ابن الصحاح نے فرمایا باطل ہے، ایسا ہی ہمارے استاد امام ابنِ حجر عسقلانی نے فرمایا کہ اس کی کوئی سند ثابت نہیں نہ کسی خبر صحیح نہ حسن نہ ضعیف میں آیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس صورت معمولہ صوفیہ کرام پر کسی کو خرقہ پہنایا یا اس کا حکم فرمایا جو کچھ اس بارہ میں صریح روایت کیا جاتا ہے سب موضوع ہے پھر ائمہ حدیث تو حضرت حسن کا حضرت مولٰی سے حدیث سُننا بھی ثابت نہیں کرتے خرقہ پہنانا تو بڑی بات ہے اور یہ بات کچھ ہمارے شیخ ہی نے نہ فرمائی بلکہ اُن سے پہلے ایک جماعت ائمہ محدثین ایسا ہی فرماچکی یہاں تک کہ وہ اکابر جنہوں نے خود پہنا پہنایا جیسے امام(۱) دمیاطی امام(۲) ذہبی امام(۳) شیخ الاسلام سیدنا ہکّاری امام(۴) ابوحیان امام(۵) علاء الدین علائی امام(۶) مغلطائی امام(۷) عراقی امام(۸) ابن ملقن (۹) امام ابناسی امام(۱۰) برہان حلبی امام(۱۱) ابن ناصرالدین دمشقی یہ باآنکہ میں نے خود ایک جماعت عمدہ متصوفین کو خرقہ پہنایا کہ مشائخ کرام نے مجھ پر لازم فرمایا تھا یہاں تک کہ خاص کعبہ معظمہ کے سامنے پہنایا ذکر اولیائے کرام سے برکت لینے اور حفّاظ معتمدین کی پیروی کی جو اُسے ثابت کرگئے۔ (ت)

 

رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، دیکھو یہ جماعت کثیرہ ائمہ دین وحملہ شرع مبین باآنکہ احادیث خرقہ کو باطل محض جانتے پھر بھی خرقہ پہنتے پہناتے اور اسے باعثِ برکات مانتے۔

 

 (۱؎ المقاصد الحسنۃ    حرف اللام    مطبوعہ دارالکتاب العلمیہ بیروت    ص ۳۳۱)

 

تنبیہ: یہ انکار محدثین اپنے مبلغ علم پر ہے اور وہ اس میں معذور مگر حق اثبات سماع ہے محققین نے اُسے بسند صحیح ثابت کیا امام خاتم الحفاظ جلال سیوطی نے خاص اس باب میں رسالہ اتحاف الغرفۃ تالیف فرمایا اُس میں مروی ہیں:اثبتہ جماعۃ وھو الراجح عندی لوجوہ وقد رجحہ ایضا الحافظ ضیاء الدین المقدسی فی المختارۃ وتبعہ الحافظ ابن حجر فی اطراف المختارۃ ۱؎۔حضرت حسن کا حضرت مولٰی سے سماع ایک جماعت محدثین نے ثابت فرمایا اور یہی متعدد دلیلوں سے میرے نزدیک راجح ہے اسی کو حافظ ضیاء الدین مقدسی نے ملخصاً صحیح مختارہ میں ترجیح دی اور امام الشان ابن حجر عسقلانی نے اطراف مختارہ میں ان کی تبعیت کی۔ (ت)

 

(۱؎ الحادی للفتاوٰی رسالہ اتحاف الفرقۃ دارالفکر بیروت  ۲/۱۰۲)

 

پھر دلائل ترجیح لکھ کر فرماتے ہیں: امام ابن حجر نے فرمایا: مسند ابی یعلی میں ایک حدیث ہے کہ:حدثنا جویریۃ بن اشرس قال اخبرنا عقبۃ بن ابی الصھباء الباھلی قال سمعت الحسن یقول سمعت علیا یقول قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مثل امتی مثل المطر الحدیث ۲؎

 

جویریہ بن اشرس نے ہمیں حدیث بیان کی کہ عقبہ بن ابی صہبا باہلی نے ہمیں خبر دی کہ میں نے حسن بصری سے سُنا وہ کہتے تھے میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے الحدیث۔ (ت)

 

 (۲؎الحادی للفتاوٰی رسالہ اتحاف الفرقۃ    دارالفکر بیروت    ۲/ ۱۰۴)

 

ہمارے شیخ المشائخ محمد بن حسن بن صیرفی نے فرمایا یہ حدیث نص صریح ہے کہ حسن کو مولٰی علی سے سماع حاصل ہے اس کے رجال سب ثقات ہیں جویریہ کو ابن حبان اور عقبہ کو امام احمد ویحیٰی بن معین نے ثقہ کہا انتہی۔

اقولیہ تو بطور محدثین ثبوت صریح وصحیح ہے اور حضرات صوفیہ کرام کی نقل متواتر تو موجب علم قطعی ویقینی ہے جس کے بعد حصولِ سماع ولبس خرقہ میں اصلاً محلِ سخن نہیں وللہ الحمد۔

 

 (۲)    علامہ طاہر فتنی آخر مجمع بحار الانوار میں فرماتے ہیں:  من شم الورد ولم یصل علی فقد جفانی ھو باطل وکذب وکذا من شم الورد الاحمر الخ عہ زقدکتبت فی شان الصلٰوۃ علی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عند الطیب لشیخنا الشیخ علی المتقی قدس سرہ ھل لہ اصل فکتب الجواب عن شیخنا الشیخ ابن حجر قدس سرہ اوغیرہ بمانصہ اما الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عند ذلک ونحوہ فلااصل لھاومع فی ذلک فلاکراھۃ عندنا ۱؎ اھ ملخصا۔

 

یہ حدیث کہ جس نے پھُول سُونگھا اور مجھ پر درود نہ بھیجا اُس نے مجھ پر ظلم کیا باطل وکذب ہے ایسی ہی وہ حدیث جو گلاب کا پھُول سُونگھنے میں آئی الخ (ز) میں نے اس باب میں اپنے شیخ حضرت شیخ علی متقی مکّی قدس سرہ الملکی کو لکھا کہ خوشبو سُونگھتے وقت درودپاک کی کچھ اصل ہے؟ انہوں نے ہمارے استاد امام ابن حجر مکی رحمہ اللہ تعالٰی یا کسی اور عالم کے حوالہ سے جواب تحریر فرمایا کہ ایسے وقت نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی کچھ اصل نہیں تاہم ہمارے نزدیک اس میں کوئی کراہت بھی نہیں اھ ملخصاً۔

 

عہ: الفتنی یکتب زعلی مایزید من عند نفسہ فلعلھا رمز للزیادۃ ۱۲ منہ (م)

علامہ فتنی جو اپنی طرف سے اضافہ کرتے ہیں تو ''ز'' لکھ دیتے ہیں غالباً اس ''ز'' سے اس اضافہ کی طرف اشارہ کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

(۱؎خاتمہ مجمع بحارالانوار     فصل فی تعیین بعض الاحادیث المشتہرۃ علی الالسن    نولکشور لکھنؤ    ۲/ ۵۱۲ و ۵۱۳)

 

پھر امام مذکور بعد اس تحقیق کے کہ اُس وقت غافلانہ بے نیت ثواب درود نہ پڑھنا چاہئے ارشاد فرماتے ہیں:امامن استیقظ عند اخذ الطیب اوشمہ الی ماکان علیہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من محبتہ للطیب واکثارہ منہ فتذکر ذلک الخلق العظیم فصلی علیہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حینئذ لماوقر فی قلبہ من جلالتہ واستحقاقہ علی کل امتہ ان یلحظوہ بعین نھایۃ الاجلال عندرؤیۃ شیئ من آثارہ اومایدل علیھا فھذا لاکراھۃ فی حقہ فضلا عن الحرمۃ بل ھو اٰت بمافیہ اکمل الثواب الجزیل والفضل الجمیل وقد استحبہ العلماء لمن رأی شیئا من اٰثارہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ولاشک ان من استخصر ماذکرتہ عندشمہ الطیب یکون کالرأی لشیئ من اٰثارہ الشریفۃ فی المعنی فلیسن لہ الاکثار من الصلاۃ والسلام علیہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۲؎ ح اھ مختصرا۔

 

ہاں خوشبو لیتے یا سُونگھتے وقت متنبہ ہوکر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسے دوست رکھتے اور بکثرت استعمال فرماتے تھے اس خلق عظیم کو یاد کرکے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود بھیجے کہ حضور کی عظمت اور تمام امت پر حضور کا یہ حق ہونا اُس کے دل میں جماکہ جب حضور کے آثار شریفہ یا اُن پر دلالت کرنے والی کوئی چیز دیکھیں تو نہایت تعظیم کی آنکھ سے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا تصوّر کریں تو ایسے کے حق میں حرمت چھوڑ کراہت کیسی، اس نے تو وہ کام کیا جس پر ثواب کثیر وفضل جمیل پائے گا کہ زیارتِ آثارِ شریفہ کے وقت درود پڑھنا علما نے مستحب رکھا ہے اور شک نہیں کہ جس نے خوشبو سُونگھتے وقت یہ تصور کیا وہ گویا معنیً بعض آثار شریفہ کی زیارت کررہا ہے تو اُسے اس وقت حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود وسلام کی کثرت سنت ہے اھ مختصرا۔

 

 (۲؎ خاتمہ مجمع بحارالانوار فصل فی تعیین بعض الاحادیث المشتہرۃ علی الالسن    نولکشور لکھنؤ    ۲/ ۵۱۲ و۵۱۳)

 

دیکھو باآنکہ احادیث موضوع تھیں اور خاص فعل کی اصلا سند نہیں پھر بھی علما نے جائز رکھا اور بہ نیت نیک باعث اجر عظیم وفضلِ کریم قرار دیا۔

(۳)    فتح الملک المجید کے باب ثامن عشر میں بعد ذکر احادیث ادعیہ واذکار صبح وشام ہے :

 

یشبھما مایتداولہ اولہ السادۃ الصوفیۃ من قول لاالٰہ الااللّٰہ سبعین الف مرۃ یذکرون اللّٰہ تعالی یعتق بھا رقبۃ من قالھا واشتری بھا نفسہ من النار ویحافظون علیھا لانفسھم ولم مات من اھالیھم واخوانھم وقدذکرھا الامام الیافعی والعارف الکبیر المحی الدین ابن العربی واوصی بالمحافظۃ علیھا وذکروا انہ قدورد فیھا خبر نبوی لکن قال بعض المشایخ لم تردبہ السنۃ فیما اعلم وقدوقفت علی صورۃ سؤال للحافظ ابن حجر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ عن ھذا الحدیث وھو من قال لاالہ الا اللّٰہ سبعین الفافقد اشتری نفسہ من اللّٰہ وصورۃ جوابہ الحدیث المذکور لیس بصحیح ولاحسن ولاضعیف بل ھو باطل موضوع اھ ھکذا قال النجم الغیطی وعقبہ بقولہ لکن ینبغی للشخص ان یفعل ذلک اقتداء بالسادۃ وامتثالا لالقول من اوصی بھا وتبرکا بافعالھم ۱؎ اھ ملخصا

 

انہیں دعاؤں کا مشابہ ہے وہ جو سادات صوفیہ کرام میں ستّر ہزار بار لاالٰہ الّااللّٰہ کا رواج ہے اور بیان کرتے ہیں کہ جو ایسا کہے گا اللہ عزّوجل اُسے آزاد فرمائے گا اُس نے اپنی جان دوزخ سے بچالی اور اُس پر اپنی اور پانے وموات اقارب واحباب کے لئے محافظت فرماتے ہیں اسے امام یافعی اور عارف کبیر سید محی الدین ابن عربی قدس سرہما نے ذکر کیا اور شیخ اکبر نے اس پر محافظت کی تاکید فرمائی صوفیہ کرام اس باب میں حدیث نبوی کا آنا بیان فرماتے ہیں،

لیکن بعض مشائخ نے کہا میری دانست میں کوئی حدیث اس میں وارد نہ ہوئی اور میں نے ایک فتوٰی دیکھا کہ امام ابنِ حجر سے اس حدیث کی نسبت سوال ہوا تھا کہ جو کوئی ستّر ہزار بار لاالٰہ الّا اللّٰہ کہے اُس نے اپنی جان اللہ عزّوجل سے خرید لی، امام نے جواب لکھا کہ یہ حدیث نہ صحیح ہے نہ حسن نہ ضعیف بلکہ باطل وموضوع ہے، علامہ نجم الدین غیطی نے اس فتوے کو ذکر کرکے فرمایا کہ آدمی کو چاہئے کہ اس عمل کو بجالائے کہ اولیائے کرام کی پیروی اور اس کے وصیت فرمانے والوں کا حکم ماننا اور اُن کے افعال سے برکت لینا حاصل ہو اھ ملخصا۔

 

 (۱؎ فتح الملک المجید)

 

بیاران ودوستان فرمایند کہ ہفتاد ہفتاد ہزاربار کلمہ طیبہ لاالٰہ الاللّٰہ بروحانیت مرحومی خواجہ محمد صادق وبرحانیت مرحومہ ہمشیرہ اوام کلثوم نجوانند وثواب ہفتا دہزار بار رابر وحانیت یکے بخشمند وہفتاد ہزار دیگر رابر وحانیت دیگرے ازدوستان دعا وفاتحہ مسئول است ۱؎۔

 

دوست واحباب سے فرمایا کہ ستّرستّر ہزار بار کلمہ طیبہ لاالٰہ الااللّٰہ خواجہ محمد صادق مرحوم کی روحانیت کے واسطے اور ان کی ہمیشہ اُم کلثوم کی روح طیبہ کے واسطے پڑھیں اور ستّر ہزار ایک رُوح کو اور ستّر ہزار دوسرے کی رُوح کو ایصالِ ثواب کریں اور دوستوں سے دُعا وفاتحہ کا سوال ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ مکتوبات امام بربانی    مکتوب ۱۴ بمولانا برکی الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲/ ۳۹)

 

باقی اس باب میں مرقاۃ عہ  شرح مشکوٰہ کی عبارت افادہ ۱۵ اور احادیث کریمہ حضراتِ اولیائے کرام کی تحقیق افادہ ۱۹ میں دیکھئے۔

عہ شیخ اکبر قدس سرہ الاطہر کی روایت کہ مرقاۃ سے گزری فتح الملک المجید میں بھی نقل کی طرفہ یہ کہ وہابیہ نانوتہ ودیوبند کے امام مولوی قاسم صاحب نے بھی اسے نقل کیا اور حضرت شیخ کی جگہ حضرت سید الطائفہ جنید بغدادی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نام پاک لکھا اور ستّر ہزار کا لاکھ یا پچھّتر ہزار بنایا شاید یہ دھوکا اُنہیں سوم کے چنوں سے لگا ہو۔

تحذیر الناس میں لکھتے ہیں: ''حضرت جنید کے کسی مرید کا رنگ یکایک متغیر ہوگیا سبب پُوچھا تو بروئے مکاشفہ کہا اپنی ماں کو دوزخ میں دیکھتا ہوں، حضرت جنید نے لاکھ یا پچھتر ہزار کلمہ پڑھا تھا یوں سمجھ کر بعض روایتوں میں اس قدر کلمہ کے ثواب پر وعدہ مغفرت ہے جی ہی جی میں اسکو بخش دیا بخشتے ہی کیا دیکھتے ہیں کہ وہ جوان بشاش ہے کہ اب والدہ کو جنت میں دیکھتا ہوں آپ نے فرمایا اس جوان کے مکاشفہ کی صحت مجھ کو حدیث سے معلوم ہُوئی اور حدیث کی تصحیح اس کے مکاشفہ سے ہوگئی ۳؎ اھ تلخیص ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (م)

 

 (۲؎ الاسرار المرفوعۃ المعروف بالموضوعات الکبرٰی    احادیث الذکر علٰی اعضاء الوضوء    دارالکتاب العربیۃ بیروت    ص ۳۴۵)

 

 (۴)مولانا علی قاری علیہ رحمۃ الباری نے موضوعاتِ کبیر میں فرمایا: احادیث الذکر علی اعضاء الوضوء کلھا باطلۃ۲؎۔جن حدیثوں میں یہ آیا ہے کہ وضو میں فلاں فلاں عضو دھوتے وقت یہ دُعا پڑھو سب موضوع ہیں۔

 

 (۳؎ تحذیر الناس خلاصہ دلائل    دار الاشاعت کراچی    ص ۴۴، ۴۵)

 

باینہمہ فرمایا: ثم اعلم انہ لایلزم من کون اذکار الوضوء غیر ثابتۃ عنہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ان تکون مکروھۃ اوبدعۃ مذمومۃ بل انھا مستحبۃ استحبھا العلماء الاعلام والمشایخ الکرام لمناسبۃ کل عضو بدعاء یلیق فی المقام ۱؎۔پھر یہ جان رکھ کر ادعیہ وضو کا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت نہ ہونا اسے مستلزم نہیں کہ وہ مکروہ یا بدعت شنیعہ ہوں بلکہ مستحب ہیں علمائے عظام واولیائے کرام نے ہر ہر عضو کے لائق دعا اس کی مناسبت سے مستحب مانی ہے۔

 

 (۱؎ الاسرار المعرفۃ المعروف بالموضوعات الکبرٰی       احادیث الذکر علی اعضاء الوضوء     مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت    ص ۴۳۴۵)

 

اس عبارت سے روشن طور پر ثابت ہوا کہ اباحت تو اباحت موضوعیت حدیث استحباب فعل کی بھی منافی نہیں اور واقعی ایسا ہی ہے کہ موضوعیت عدم حدیث ہے اور وہ ورود حدیث بخصوص فعل لازم استحباب نہیں کہ اس کے ارتفاع سے اس کا انتفا لازم آئے کمالایخفی۔

تنبیہ: اس بارہ میں سب احادیث کا موضوع ہونا ابن القیم کا خیال ہے اسی سے مولانا علی قاری نے نقل فرمایا اور ایسا ہی ذہبی نے ترجمہ عباد بن صہیب میں حسبِ عادت حکم کیاگیا مگر عندالتحقیق اُس میں کلام ہے اس باب میں ایک مفصل حدیث ابوحاتم اور ابنِ حبان نے تاریخ میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی انصافاً غایت اسکی ضعف ہے اور مقام مقام فضائل،

 

راجع الحلیۃ شرح المنیۃ للامام ابن امیرالحاج تجد مایرشدک الی الحق بسراج وھاج فی لیل داج۔امام ابن امیرالحاج کی کتاب حلیہ شرح منیہ کا مطالعہ کرو اس میں تُو اندھیری رات میں روشن چراغ کے ساتھ حق کو پالے گا۔ (ت)

(۵)    سب سے طرفہ تر یہ کہ حدیث مسلسل بالاضافۃ کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کی اجازت مع ضیافت آب وخرما اپنے شیخ علامہ ابوطاہر مدنی سے لی اور اسی طرح مع ضیافت اپنے صاحبزادہ مولانا شاہ عبدالعزیز اور انہوں نے اپنے نواسے میاں اسحاق صاحب کو دی اُس کا مدار عبداللہ بن میمون قداح متروک پر ہونے کے علاوہ خود الفاظِ متن ہی سخت منکر واقع ہوئے ہیں بااینہمہ اکابر محدثین کرام آج تک اس سے برکت تسلسل چاہا کئے ہیں ان کے اسماءِ کرام سلسلہ سند سے ظاہر شیخ شیخانی الحدیث مولانا عابد سندی مدنی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے ثبت حصر الشارو میں اُسے ذکر کرکے فرماتے ہیں:

 

ھذا بماتفردبہ عبداللّٰہ بن میمون القداح وصرح غیر واحد بانہ متھم بالکذب والوضع قال السخاوی لایباح ذکرہ الامع ذکر وضعہ لکن المحدثین مع کثرۃ کلامھم فیہ ورمبالغتھم فیہ ورمیہ بالوضع لایزالون یذکرونہ یتبرکون بالتسلسل ۱؎ اھیہ حدیث صرف بروایت قداح آئی اور متعدد ائمہ نے اُس کے متہم بکذب ووضع ہونے کی تصریح فرمائی، امام سخاوی فرماتے ہیں اُس کا ذکر بے بیان موضوعیت روا نہیں مگر محدثین کثرت سے کلام اور مبالغہ آرائی کرتے رہے اور اُس پر وضع حدیث کا طعن کرتے رہے پھر بھی ہمیشہ اس حدیث کو ذکر کرتے اس سے مسلسل برکت چاہتے رہے ہیں۔ اھ (ت)

 

(۱؎ ثبت حصر الشارد)

 

اقول یہ حدیث ہمیں اپنے مشائخ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے دو۲ طریق سے پہنچی، اول بطریق شیخ محقق مولانا عبدالحق محدّث دہلوی:بسندہ الی الامام ابی الخیر شمس الدین محمد بن محمد بن محمد ابن الجزری بسندہ الی ابی الحسن الصقلی بطریقۃ الی القداح عن الامام جعفر الصادق عن آبائہ الکرام عن امیرالمؤمنین علی کرم اللّٰہ تعالٰی وجوھھم عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔اپنی سند سے امام ابوالخیر شمس الدین ابن جزری تک وہ اپنی سند سے ابوالحسن الصقلی تک وہ اپنی سند سے قداح تک امام جعفر صادق سے وہ اپنے آباءِ کرام سے وہ حضرت علی کرم اللہ وجوھھم سے وہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ (ت)

 

دوسری بطریق شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی : بسندہ الی ابی الحسن الی القداح الی امیرالمؤمنین عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔اپنی سند سے ابوالحسن تک وہ قداح تک وہ امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ تک وہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ (ت)

 

قداح رجال جامع ترمذی سے ہے متروک سہی حد وضع تک منتہی نہیں متن طریق دوم میں مبالغات عظیمہ ہیں اُس پر حکمِ بطلان نہیں شاہ ولی اللہ صاحب کی روایت وہی ہے اور اُسی میں ہمارا کلام مگر طریق اول میں صرف اتنا ہے کہ :

 

من اضاف مؤمنا فکانما اضاف آدم ومن اضاف اثنین فکانما اضاف آدم وحواء ومن اضاف ثلثۃ فکانما اضاف جبرائیل ومیکائیل واسرافیل ۲؎۔وہ شخص جس نے کسی ایک مومن کی ضیافت کی گویا اس نے آدم کی ضیافت کی اور جس نے دو۲ کی ضیافت کی اس نے آدم وحوا کی ضیافت کی جس نے تین مومنوں کی ضیافت کی گویا اس نے جبریل، میکائیل اور اسرافیل کی مہمان نوازی کی۔ (ت)

 

 (۲؎ کنزالعمال    کتاب الضیافت من قسم الافعال حدیث ۲۵۹۷۵    مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۹ /۲۶۹)

 

اس میں کوئی ایسا امر نہیں کہ قلب خواہی نخواہی وضع پر شہادت دے ولہذا امام الجزری نے اسی قدر فرمایا کہ حدیث غریبلم یقع لنابھذا الاسناد ۱؎ (یہ حدیث غریب ہے ہمیں اس طور پر صرف اسی سند کے ساتھ معلوم ہے۔ ت)

 

 (۱؎ کنزالعمال    بحوالہ ابن الجزری    حدیث ۲۵۹۷۵    مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۹/ ۲۶۹)

 

ظاہر ہے کہ تفرد متروک مستلزم وضع نہیں،کمابیناہ فی الافادۃ التاسعۃ اماما اعلہ الشیخ ابومحمد محمد بن الامیر المالکی المصری المدرس بالجامع الازھر بعد ایرادہ فی ثبتہ بالمتن الثانی المذکور فیہ الاضافۃ الی تمام العشرۃ بذک الملئکۃ فی الضیافۃ وھم لایاکلون ولایشربون قال فان صح فھو خارج مخرج الفرض والتقدیر ۲؎ اھ کماانبأنا بہ فی جملۃ مرویانۃ شیخنا العلامۃ زین الحرم السید احمد بن زین بن دحلان المکی عن الشیخ عثمان بن حسن الدمیاطی عن مؤلفہ الشیخ الامیر المالکی ،

 

جیسا کہ ہم نے اسے نویں افادہ میں بیان کردیا ہے لیکن شیخ ابومحمدمحمد بن امیر مالکی مصری جو جامع ازہر کے مدرس بھی ہیں انہوں نے اس کو اپنے ثبت میں متن ثانی مذکور کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد جو علّت بیان کی ہے، اس متن میں ضیافۃ میں ذکرِ ملائکہ کے ساتھ دس مومنوں تک کا اضافہ ذکر ہے حالانکہ نہ وہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں فرمایا کہ اگر یہ روایت صحیح ہوتو یہ تمثیل بطور فرض وتقدیر ہے اھ جیسا کہ اس کی خبر ہمیں ان کی جملہ مرویات میں ہمارے شیخ علّامہ زین الحرم سید احمد بن زین بن دحلان مکی نے شیخ عثمان بن حسین دمیاطی سے اس کے مؤلف شیخ امیر مالکی سے دی ہے ۔

 

 (۲؎ ثبت ابومحمد محمد بن امیر مالکی مصری)

 

فاقول لیس باعجب مماانبأنا السید حسین بن صالح جمل اللیل المکی عن الشیخ محمد عابد السندی المدنی بسندہ المشھور الٰی صحیح مسلم بسندہ المعلوم الی ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ان اللّٰہ عزوجل یقوم یوم القیٰمۃ یاابن اٰدم مرضت فلم تعدنی الحدیث'' وفیہ یاابن اٰدم استطعمتک فلم تطمعنی قال یارب کیف اطعمک وانت رب العٰلمین قال اما علمت انہ استطعمک عبدی فلان فلم تطعمہ اماعلمت انک لواطعمتہ لوجدت ذلک عندی یاابن آدم استسقیتک فلم تسقنی الحدیث المعروف ۱؎۔

 

فاقول یہ اس سے کوئی زیادہ عجیب نہیں جس کی خبر ہمیں سید حسین بن صالح جمل اللیل المکی نے شیخ محمد عابد سندھی مدنی سے اپنی مشہور سند کے ساتھ دی جوکہ صحیح مسلم تک ہے وہک اپنی سند معلوم سے حضرت ابوہریرہ سے راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل قیامت کے روز فرمائے گا اے ابنِ آدم! میں بیمار ہواتھا تُونے میری عیادت نہ کی ''الحدیث'' اور اسی میں ہے کہ اے ابنِ آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تُونے مجھے نہیں کھلایا وہ عرض کرے گا اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھلاتا حالانکہ تُو تمام جہانوں کا رب ہے، فرمایا کیا تُو نہیں جانتا تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا اور تُونے نہیں دیاتھا کیا تُو نہیں جانتا کہ اگر تُو اسے کھِلادیتا تو اسے آج میرے پاس پاتا، اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تُونے مجھے نہیں پلایا۔ حدیث معروف ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ صحیح مسلم    باب فضل عیادۃ المریض    مطبوعہ مطبع اصح المطابع قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۳۱۸)

 

ثمّ اقول تحقیق مقام یہ ہے کہ عمل بموضوع وعمل بمافی موضوع میں زمین آسمان کا فرق ہےکمایظھر مماقدمناہ فی الافادۃ الحادیۃ والعشرین (جیسا کہ ظاہر ہے اسے ہم اکیسویں فائدے میں بیان کرآئے ہیں۔ ت) ثانی مطلقا ممنوع نہیں ورنہ ایجاب وتحریم کی باگ مفتریان بیباک کے ہاتھ ہوجائے لاکھوں افعال مباحہ جن کے خصوص میں نصوص نہیں وضاعین ان میں سے جس کی ترغیب میں حدیث وضع کردیں حرام ہوجائے جس سے ترہیب میں گھڑلیں وہ واجب ہوجائے کہ تقدیر اول پر فعل ثانی پر ترک مستلزم موافقت موضوع ہوگا اور وہ ممنوع لطف یہ کہ اگر ترغیب وترہیب دونوں میں بنادیں تو فعل وترک دونوں کی جان پر بنادیں نہ کرتے بَن پڑے نہ چھوڑتےفاعلم وافھم انکنت تفھم (جان لے سمجھ لے اگر تُو سمجھ سکتا ہے۔ ت) اور اول میں بھی حقیقۃً مخدور نفس فعل میں نہیں بلکہ نظر امتثال واعتقاد ثبوت میں تو بفرض وضع اس نظر سے منع ہے نہ اصل فعل سے، سفہائے وہابیہ ہمیشہ ذات وعارض میں فرق نہیں کرتے عماعلی مثلھم یعدّ الخطاءافادہ بست۲۹ ونہم (اعمالِ مشایخ محتاجِ سند نہیں اعمال میں تصرف وایجادِ مشایخ کو ہمیشہ گنجایش)بالفرض کچھ نہ سہی تو اقل درجہ اس فعل کو اعمالِ مشایخ سے ایک عمل سمجھئے کہ بغرض روشنائی بصر معمول ایسی جگہ ثبوتِ حدیث کی کیا ضرورت، صیغہ اعمال میں تصرف واستخراجِ مشایخ کو ہمیشہ گنجائش ہے ہزاروں عمل اولیائے کرام بتاتے ہیں کہ باعثِ نفع بندگانِ خدا ہوتے ہیں کوئی ذی عقل حدیث سے ان کی سند خاص نہیں مانگتا کتبِ ائمہ وعلما ومشایخ واساتذہ شاہ ولی اللہ وشاہ عبدالعزیز اور خود ان بزرگواروں کی تصانیف ایسی صدہا

باتھوں سے مالامال ہیں اُنہیں کیوں نہیں بدعت وممنوع کہتے، خود شاہ ولی اللہ ہوا مع میں لکھتے عہ۱ ہیں:

 

اجتہاد رادر اختراع اعمال تصریفیہ راہ کشادہ است مانند استخراج اطبانسخہا سے قرابا دین را این فقیر را معلوم شدہ است کہ دروقت اول طلوع صبح صادق تا اسفار مقابل صبح نشستن وچشم رابآں نورد وختن ''دیانور'' رامکرر گفتن تاہزاربار کیفیت ملکیہ راقوت میدہد واحادیث نفس می نشاند ۱؎ اھ ملخصا۔

 

اعمالِ تصریفیہ میں نئی نئی ایجاد کے لئے اجتہاد کا دروازہ کھولنا ایسے ہی ہے جیسے اطباع قرابا دین سے نسخوں کا استخراج کرلیتے ہیں اس فقیر کو معلوم ہے کہ اول صبح صادق سے سفیدی تک صبح کے مقابل بیٹھنا اور آنکھ کو اس کے نور واجالے کی طرف لگانا اور یانور کا لفظ باربار ایک ہزار تک پڑھنا کیفیت ملکیہ کو قوّت دیتا ہے اور وسواس سے نجات دلاتا ہے۔ اھ ملخصاً (ت)

 

عہ۱ : ہامہ عاشرہ ازہوا مع مقدمہ ۱۲ منہ (م)

 

(۱؎ہوامع شاہ ولی اللہ)

 

اس عہ۲ میں ہے: چند نوع کرامت ازہیچ ولی الاّ ماشاء اللہ منفک نمی شوداز انجملہ فراست صادقہ وکشف واشراف برخواطر واز انجملہ ظہور تاثیر درد عاورقے واعمال تصریفیہ او تا عالم بفیض نفس اومنتفع شود ۲؎ اھ ملتقطا۔

 

چند کرامات تو ایسی ہیں جو کسی ولی سے الّا ماشاء اللہ جُدا نہیں ہوتیں ان میں سے بعض یہ ہیں فراستِ صادقہ، کشفِ احوال، دلوں کے رازوں سے آگاہی اور ان میں سے دُعا وتعویذ، دَم اور اعمالِ تصرفیہ میں برکت ہے یہاں تک کہ سارا جہان ان کے اس فیض سے مستفید ہوتا ہے اھ ملتقطا (ت)

 

عہ۲ : ہامعہ خامسہ تحت قول شیخ رضی اللہ تعالٰی عنہ وہب لنامن لدنک ریحا طیبۃً الخ (م)

 

(۲؎ ہوامع شاہ ولی اللہ)

عزیزو! خدارا انصاف، ذرا شاہ ولی کے ''قول الجمیل'' کو دیکھو اور اُن کے والد ومشایخ وغیرہم کے اختراعی اعمال تماشا کرو، دردِ سر کے لئے تختہ پر ریتا بچھانا کیل سے ابجد ہوز لکھنا، چیچک کو نیلے سوت کا گنڈا بنانا، پھُونک پھُونک کر گرہیں لگانا، اسمائے اصحابِ کہف سے استعانت کرنا  انہیں آگ، لُوٹ، چوری سے امان سمجھنا، دیواروں پر اُن کے لکھنے کو آمدِ جن کی بندش جاننا، دفع جِن کو چار کیلیں گوشہ ہائے مکان میں گاڑنا، عقیمہ کے لئےگلاب اور زعفران سے ہرن کی کھال لکھنا، یہ کھال اس کے گلے کا ہار کرنا، اسقاطِ حمل کو کسی کا رنگا گنڈا نکالنا، عورت کے قد سے ناپنا، گِن کر نو گرہیں لگانا، دردِ زہ کو آیاتِ قرآنی لکھ کر عورت کی بائیں ران میں باندھنا، فرزند نرینہ کیلئے ہرن کی کھال اور وہی گلاب وزعفران کا خیال، بچّہ کی زندگی کو اجوائن اور کالی مرچیں لینا اُن پر ٹھیک دوپہر کو قرآن پڑھنا، لڑکا نہ ہونے کو عورت کے پیٹ پر دائرے کھینچنا، ستّر سے کم شمار نہ ہونا، دفعِ نظر کو چھری سے دائرہ کھینچنا، کنڈل کے اندر چھُری رکھنا، عائن وساحر کا نام لے کر پکارنا، ناپ کر تین گز ڈورا لینا اُس پر شہت بہت کیاکیا الفاظ غیر معلوم المعنی پڑھنا، قنطاع النجا خدا جانے کون ہے اُسے ندا کرنا، چور کی پہچان کا عمل نکالنا، یٰس پڑھ کر لوٹا گھمانا، بخار کو عیسٰی وموسٰی ومحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی قسمیں دینا، مصروع کو تانبے کی تختی پر دو اسم کھدوانا، پھر تعیین یہ کہ دن بھی خاص اتوار ہو اُس کی بھی پہلی ہی ساعت میں کار ہو۔ اُس کے سوا صدہا باتیں ہیں ان میں کون سی حدیث صحیح یا حسن یا ضعیف ہے، ارے یہ قرونِ ثلاثہ میں کب تھیں، اور جب کچھ نہیں تو بدعت کیوں نہ ٹھہریں، شاہ صاحب اور ان کے والد ماجد وفرزند ارجمند واساتذہ ومشایخ معاذاللہ بدعتی کیوں نہ قرار پائے، یہ سب تو بے سند حلال ونفائس اعمال مگر اذان میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک سُن کر انگوٹھے چُومنا آنکھوں سے لگانا اُس سے روشنیِ بصر کی اُمید رکھنا کہ اکابر سلف سے ماثور علماء وصلحاء کا دستور کُتبِ فقہ میں مسطور، یہ معاذاللہ حرام و وبال وموجبِ ضلال، تو کیا بات ہے یہاں نامِ پاک حضور سیدالمحبوبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم درمیان ہے لہذا وہ دلوں کی دبی آگ بحیلہ بدعت شعلہ فشاں ہے ؎

 

بہررنگے کہ خواہی جامہ مے پوش                                                                     من اندازِ قدرت رامے شناسم

 

 

یہ سب درکنار شاہ صاحب اور ان کے اسلاف واخلاف یہاں تک کہ میاں اسمٰعیل دہلوی تک نے امر اعظم دین تقریب رب العٰلمین یعنی راہِ سلوک میں صدہا نئی باتیں نکالیں طرح طرح کے ایجاد واختراع کی طرحیں ڈالیں اور آپ ہی صاف صاف تصریحیں کیں کہ ان کا پتا سلف صالح میں نہیں خاص ایجاد بندہ ہیں مگر نیک وخوب وخوش آئندہ ہیں محدثات کو ذریعہ وصول الی اللہ جانا یا باعثِ ثواب تقرب رب الارباب مانا اس پر ان حضرات

 

کو نہ کل بدعۃ ضلالۃ (ہر بدعت گمراہی ہے۔ ت) کا کلیہ یاد آتا ہے نہمن احدث فی امرنا مالیس منہ(وہ شخص جس نے ہمارے دین میں کچھ ایجاد کیا جو دین میں سے نہ ہو۔ ت) یہاںفھو رد(پس وہ مردود ہے۔ ت) کا خلعت پاتا ہے، مگر شریعت اپنے گھر کی ٹھہری کہ ع

 

من کنم آنچہ من خواستم تو مکن آنچہ خواستے

 

 (میں جو چاہوں گا کروں گا تو جو چاہے نہ کر)

 

ان امور کی قدرے تفصیل اور ان صاحبوں کی تصریحات جلیل فقیر کے رسالہ انھار الانوار من یم صلاۃ الاسرار میں مذکور اور عدم ورود کو ورود عدم جاننے کا قلع کافی وقمع وافی کتاب مستطاب اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد وکتاب لاجواب اذاقۃ الاثام لمانعی عمل المولد والقیام وغیرہما تصنیفات شریفہ وتالیفات منیفہ اعلحٰضرت تاج المحققین الکرام سراج المدققین الاعلام حامی السنن السنیہ ماحی الفتن الدنیہ بقیہ السلف المصلحین سیدی دوالدی ومولای ومقصدی حضرت مولانا مولوی محمد نقی علی خاں صاحب قادری برکاتی احمدی رضی اللہ تعالٰی عنہ واجزل قربہ منہ اور بقدر حاجت باجمال ووجازت رسالہ اقامۃ القیامہ علی طاعن القیام لنبی تھامہ وغرہار سائل ومسائل فقیر میں مسطور والحمدللّٰہ العزیز الغفور والصلاۃ والسلام علے المنیر النور وعلٰی اٰلہ وصحبہ الٰی یوم النشور اٰمین۔

 

افادہ سیم ۳۰ (ہم تو استحباب ہی کہتے ہیں طرفہ یہ کہ وہابیہ جدیدہ کے طور پر تقبیل ابہامین خاص سنّت ہے) اقول ہمیں تو اس عمل تقبیل ابہامین کا جواز واستحاب ہی ثابت کرنا تھا کہ بعونہ عزوجل باحسن وجوہ نقش مراد کرسی نشین اور عرش تحقیق مستقر ومکین ہواوللّٰہ الحمد علی ما اولی من نعم لاتحصی (اللہ ہی کیلئے تعریف جو غیر محدود نعمتوں کا مالک ہے۔ ت) مگر حضرات وہابیہ اپنے نئے اماموں کی خبر لیں ان کے طور پر یہ فعل جائز کہاں کا مستحب کیسا خاص سنّت سنیہ بلند وبالا ہے اور اُس کا منکر سنّتِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا رد کرنے والا، بات بظاہر بہت چونکنے کی ہے کہ کہاں وہابی کہاں یہ انکہی مذہب بھر کی خرابی مگر نہ جانا کہ توہب واضطراب وتقلب وانقلاب دونوں ایک پستان سے دودھ پئے ہیں رفاقت دائم کا عہد کیے ہیں ؎

 

گر براند  نرود  ور برود  باز آید

ناگزیراست تناقض سخن نجدی را

 

 

(اگر دُور کرنے تو دُور نہ ہوگا اور اگر چلاجائے تو واپس آجائے گا نجدی کے کلام سے تناقض جدا نہیں رہ سکتا)طائفہ جدید کے استاد رشید نے اپنی کتاب عجاب براہین قاطعہ''ماامراللہ بہ ان یوصل''میں مسئلہ قبول ضعاف فیما دون الاحکام کے اگرچہ بکمال سلیم القلبی وبصیر العینی وعجیب وغریب معنے تراشے کہ جدت کی لہریں، حدث کے تماشے ایک ایک ادا پر ہزارہزار مکابرے، اپنی جانیں واریں عقل وہوش وچشم وگوش اپنے عدم ملکہ کو صدقے اتاریں خادمانِ شریعت چاکر اِن ملّتمالم تسمعوا انتم ولااٰباؤکم (جو تم نے اور تمہارےآبا و اجداد نے کبھی نہیں سُنیں۔ ت)

 

پکاریں حضرت کی تمام سعی باطل تطویل لاطائل کا یہ حاصل بے حاصل کہ ارشادات عہ۱ علماء کی یہ مراد کہ صرف(۱) وہ حدیث ضعیف قابل قبول جس میں کسی عمل صالح کی فضیلت اور اس پر ثواب مذکور اگرچہ خاص اس عمل میں حدیث صحیح نہ آئی ہو جیسے روزہ ماہِ رجب وغیرہ اس کے بغیر اگرچہ حدیث میں عمل کی طلب نکلے جب کوئی خاص ثواب وفضیلت مذکور نہ ہو مقبول نہیں کہ یہ تو حدیث(۲) عمل کی ہوئی نہ فضائل عمل کی پھر بشرط عہ۲  مذکور حدیث اگرچہ مقبول ہوگی مگر وہ عمل(۳) باوصف قبول حدیث وتسلیم فضیلت مستحب ہرگز نہ ٹھہرے گا جب تک حدیث حسن لغیرہ نہ ہوجائے، حدیث(۴) ضعیف سے ثبوتِ استحباب محض اختراع وخلافِ اجماع ہے علما نے جتنے (۵) اعمال کو بہ نظرِ ورود احادیث مستحب مانا اُن سب میں حدیث حسن لغیرہ ہوگئی ہے دلیل(۶) یہ کہ احادیث ادعیہ وضو کو علامہ طحطاوی نے کہہ دیا کہ حسن لغیرہ ہیں۔

 

عہ ۱ : اقوال قبول ضعیف کو کہا سب کا یہی (ص ۹۶) مدعا ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف پر عمل درست ہے بھلا لیلۃ الجمعہ شب برأت، عیدین کے صدقہ میں کون سی فضیلت وثوابِ عظیم مذکور ہے جس پر عمل جائز ہو روایات میں کوئی ثواب مذکور نہیں فقط روح کا آنا اور حسرتناک بات کرنا اور طلب صدقہ کرنا ہے یہ فضائل اعمال کس طرح ہوئے، ہاں اعلام اُن کے آنے کا ہے یہ باب (ص ۹۹)علم کا ہے نہ فضل عمل کا کیونکہ ان روایات(ص ۹۷) میں عمل ہی نہیں بلکہ علم ہے اور اگر کوئی بپاس خاطر مؤلف عمل تسلیم بھی کرلے تو فقط عمل ہے نہ فضل عمل ہاں حدیث صومِ رجب وصلاۃ الاوابین میں فضل عمل ہے ص۹۷ اھ ملتقطا ۱۲ منہ (م)

عہ۲ : انوار ساطعہ میں تھا فقہاء اس عمل کو جو حدیث ضعیف سے ثابت ہو مستحسن لکھتے ہیں چنانچہ صلاۃ الاوابین، گردن کا مسح، رجب کا روزہ اس پر کہا یہ سرتاپا غلط ہے کسی نے یہ نہ کہا محض ایجاد ناصواب ہے مستحب کا ثبوت صحیح یا حسن سے ہوتا ہے ضعاف کہ ان امور میں ہیں تعدد طرق سے حسن لغیرہ ہوگئے ہیں۔

 

قال فی الدرالمختار رواہ ابن حبان وغیرہ من طرق، فی ردالمحتار فارتقی الی مرتبۃ الحسن ط اقول لکن ھذا اذاکان ضعفہ لسوء ضبط الراوی الصدوق الامین اولا رسالہ اوتدلیس اوجھالۃ الحال اما لوکان لفسق الراوی اوکذبہ فلاانتھٰی ۱؎۔ ملتقتاً

 

درمختار میں کہا اس کو ابن حبان وغیرہ نے کئی طریقوں سے روایت کیا ہے، ردالمحتار میں ہے اس طرح حدیث مرتبہ حسن تک ترقی کرتی ہے طحطاوی۔ اقول لیکن یہ اس وقت ہے جب حدیث کا ضعف صدوق میں راوی کے سوءِ ضبط یا ارسال یا تدلس یا جہات حال کی وجہ سے ہو۔ اگر وہ ضعف فسق راوی یا کذب راوی کی وجہ سے ہوتو وہ ترقی نہ کرے گی انتہی۔ (ت)

 

(۱؎ براہین قاطعہ    مطبع نے بلاساڈھور    ص ۹۸)

 

پس جس قدر نظائر مؤلف نے لکھے اور جس قدر کتبِ فقہ میں ہیں سب حسن لغیرہ سے ثابت ہوئے ہیں ۱۲ منہ (م)

بس معلوم ہوگیا کہ سب جگہ ایسے ہی ہیں آخر دیگ میں ایک ہی چاول دیکھتے ہیں یہ تو ان کا حکم تھا جو حدیثیں افعال متعلقہ بجوارح میں آئیں اور (۷) جو کچھ متعلق بجوارح نہیں وہ اگرچہ سِیر(۸) ہوں خواہ مواعظ(۹) معجزات خواہ فضائل صحابہ(۱۰) واہلبیت وسائر رجال جن میں قبول ضعاف کی علماء برابر تصریحیں فرماتے چلے آئے ہیں خواہ کسی اور خبر زائد کا بیان جس میں کسی طرح کا اعلام واخبار ہو اگرچہ وہ نفیا واثباتاً عقائد میں اصلاً داخل نہ ہو یہ سب کا سب باب عقاید سے ہے جس میں ضعاف درکنار بخاری ومسلم کی صحیح حدیثیں بھی مردود ہیں جب تک متواتر وقطعی الدلالۃ نہ ہوں مثلاً یہ حدیث کی رُوحیں شبِ جمعہ اپنے مکانوں پر آتی اور صدقات چاہتی ہیں باب عہ۱ عقائد سے ہے اور بنظر طلب صدقہ اگر ہوتو بابِ عمل سے کہ یہاں کوئی فضیلت صدقہ تو مذکور نہ ہُوئی خلاصہ یہ کہ جو متعلق بجوارح نہیں اُس میں صحاح احاد بھی بے اعتبار اور متعلق بجوارح بے ذکر ثواب مخصوص میں خاص صحاح درکار، ہاں ثواب بھی مذکور ہوتو ضعاف قبول اور یہی مراد علما مگر مستحب نہ ٹھہرے گا جب تک حسن لغیرہ نہ ہو شروع صفحہ۸۱ سے وسط صفحہ ۸۹ تک ان محدث نے یہی قاعدہ حادثہ احداث کیا ہے ان خرافاتِ بے سروپا کے ابطال میں کیا وقت ضائع کیجئے جس نے افادات سابقہ میں ہمارے کلمات رائقہ دیکھے وہ اس تاروپود عنکبوت کو بعونہٖ تعالٰی نیم جنبش نظر میں تار تارکرسکتا ہے معہذا ہم نے یہاں بھی تلخیص تقریر میں اس کے اجمالی ابطال کی طرف اشارے کیی اور مواقع مواخذات پر ہند سے لگادیی خیریہ تو اُن کا نہیں اُن کی سمجھ کا قصور ہے جب خدا فہم نہ دے بندہ مجبور ہے مگر ہمیں یہاں یہ کہنا ہے کہ تقبیل ابہامین کی سنیت ثابت ہوگئی کہ اگر بہ نظر تعدد طرق اس کی حدیث کو حسن لغیرہ کہئے فبہا ورنہ یہ تو آپ کی تفسیر پر بھی بابِ فضائل سے ہے کہ متعلق بعمل جوارح بھی اور اس میں ثواب خاص بھی مذکور تو احادیث مفید استحباب نہ سہی جواز تو ضرور ثابت کریں گے قبول ضعاف فی الفضائل کا اجماعی مسئلہ یہاں تو آپ کو بھی جاری ماننا ہوگا اب اس جواز کو خواہ اس حدیث سے مستفاد مانیے کہ جو حدیث جس باب میں مقبول لاجرم وہ اس میں دلیل شرعی ہے خواہ اجماعِ علماء سے کہ ایسی جگہ ایسی حدیث معمول بہ خواہ قرآنِ عظیم وحدیث صحیح ''کیف وقدقیل'' وحدیث صحیح ارتقائے شبہات واحادیث مذکورہ افادہ ۱۸ وغیرہا سے کہ قبول وعمل کی طرف ہدایت فرماتے ہیں خواہ قاعدہ مسلمہ شریعتِ محمدیہ علٰی صاحبہا افضل الصلاۃ والتحیۃ یعنی اخذ بالاحتیاط سے ہر طرح ایک دلیل شرعی اُس پر قائم اور آپ کے نزدیک جس فعل کے جواز پر کوئی دلیل شرعی صراحۃً دلالۃً کسی طرح دال ہو اگرچہ وہ فعل خاص بلکہ اُس کے جنس کا بھی کوئی فعل قردنِ ثلاثہ میں نہ پایا گیا ہو سب سنّت ہے تو اب اس کی سنیت میں کیا کلام رہا۔

 

عہ۱: شبِ جمعہ وغیرہ ارواح کے آنے اور صدقہ چاہنے کی احادیث کو کہا ان روایات ص۹۷ میں عمل ہی نہیں بلکہ علم ہے عقیدہ کے باب میں یہ حدیث ہے یہ مسئلہ ص۹۶ عقائد کا ہے اس میں مشہور ومتواتر صحاح کی حاجت ہے، یہ اعتقادیات میں داخل ہے کہ ارواح کا شبِ جمعہ کو گھر آنا اعتقاد کرے اور اعتقاد میں قطعیات کا اعتبار ہے نہ ظنیاتِ صحاح کا ۱؎ اھ بالالتقاط ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

 

 (۱؎ براہین قاطعہ مطبع نے بلاساڈھور    ص ۸۹)

 

اسی براہین کے صفحہ ۲۸ و ۲۹ پر ارشاد ہوتا ہے :

''مؤلف اپنی خوبی فہم سے معنی قرون ثلٰثہ میں نہ موجود ہونے کے یہ سمجھ رہا ہے کہ اگر جزئی خاص نے اُن قرون میں وجود خارجی نہ پایا اگرچہ دلیل جواز کی موجود ہوتو وہ بدعت سیہ ہے مگر یہ بالکل غلط فاحش اور کور علمی اور کج فہمی ہے بلکہ معنے یہ ہیں کہ جو شے بوجود شرعی قرون ثلٰثہ میں موجود ہو وہ سنت ہے اور جو بوجود شرعی موجود نہ ہو وہ بدعت ہے، وجودِ شرعی اس کو کہتے ہیں کہ بدون شارع کے بتلانے کے معلوم نہ ہوسکے پس اس شے کا وجود شارع کے ارشاد پر موقوف ہوا خواہ صراحۃً ارشاد ہو یا اشارۃً ودلالۃً پس جب کسی نوعِ ارشاد سے حکمِ جواز کا ہوگیا وہ شے وجود شرعی میں آگئی اگرچہ اس کی جنس بھی خارج میں نہ آئی ہو پس جس کے جواز کا حکم کلیۃ ہوگیا وہ بجمیع جزئیات شرع میں موجود ہوگیا اور جس کے عدمِ جواز کا حکم ہوگیا تو شرع میں اس کا عدم ثابت ہوگیا پس یہ حاصل ہوا کہ جس کے جواز کی دلیل قرونِ ثلٰثہ میں ہو خواہ وہ جزئیہ بوجود خارجی اُن قرون میں ہُوا یا نہ ہوا اور خواہ اس کی جنس کا وجود خارج میں ہوا ہو یا نہ ہوا ہو وہ سب سنت ہے اور وہ بوجود شرعی ان قرون میں موجود ہے اور جس کے جواز کی دلیل نہیں تو کواہ وہ ان قرون میں بوجود خارجی ہوا یا نہ ہوا وہ سب بدعت ضلالہ ہے اس قاعدہ کو خُوب سمجھ لینا ضرور ہے مولف اور اس کے اشیاع نے اُس کی ہوا بھی نہ سُونگھی اس عاجز کو اپنے اساتذہ جہاندیدہ کی توجہ سے حاصل ہوا ہے اس جوہر کو اس کتاب میں ضرورۃً رکھتا ہوں کہ موافقین کو نفع اور مخالفین کو شاہد ہدایت ہو  ۱؎ الخ ملخصاً۔''

 

 (۱؎ براہین قاطعہ     قرون ثلاثہ میں موجود ہونے نہ ہونے کے معنی     مطبوعہ مطبع لے بلاسا واقع ڈھور    ص ۲۹۔ ۲۸)

 

اقول ماشاء اللہ کیا چمکتا جوہر کتاب میں رکھا ہے کہ آدھی وہابیت اپنا جوہر کر گئی، نجدیت بیچاری کے دو۲ رکن ہیں شرک وبدعت، رکن پسین پر قیامت گزرگئی، کبرائے طائفہ کی برسوں کی مالا جسے جپتی بیتی جس کا لقب بحمداللہ اب آپ ہی کی زبان سے غلط وفاحش وکور علمی وکج فہمی کہ فلاں فعل صحابہ نے نہ کیا تابعین نے نہ کیا تابعین نے نہ کیا فلاں صدی میں شائع ہوا فلاں شخص بانی تھا تم کیا صحابہ وتابعین سے بھی محبت وتعظیم میں زیادہ کہ انہوں نے نہ کیا تم کرنے پر آمادہ بہتر ہوتا تو وہی کر گزرتے فعل میں اتباع ہے ترک میں کیوں نہیں کرتے نیم شوخی میں سارے بکھرگئی صحابہ وتابعین نے ہزار نہ کیا ہو بلکہ اُس جنس کا بھی کوئی کار نہ کیا ہو کچھ ضرر نہیں اشارۃً دلالۃً جزئیہ کسی طرح ارشاد شارع سے جواز نکلے پھر سنّت ماننے سے مضر نہیں ؎

 

طائفہ بھر کے خلاف آپ سبق کہتے ہیں    للہ الحمد اسے ہیبت حق کہتے ہیں

 

طرفہ یہ کہ اب قرونِ ثلٰثہ کی وہ ہٹ نئے طائفہ کی پُرانی رٹ جسے یہاں بھی نباہ رہے ہو مہمل رہ گئی لفظ کا سوار پکڑا کیجئے، معنی کی نیا اُس پار بہہ گئی جب اُن میں وجود سے سود نہ عدم سے زیاں پھر اُن کا قدم کیا درمیاں۔ خود کہتے ہوکہ وجود خارجی درکار نہیں اور وجود شرعی بے ارشاد شارع محال تو کیا صحابہ تابعین پر کوئی نئی شریعت اُترے گی کہ اُن کے قرون میں وجود نو کا خیال ارشاد شارع سے جس کا جواز مستفادہ وہ ہر قرن میں بوجود شرعی موجود اور جس کا منع مقتضائے ارشاد وہ ہر قرن میں شرع مطہر سے معدوم ومفتود، پھر قرن دون قرن سے کیا کام رہا، محض ارشاد اقدس میں کلام رہا یعنی فعل کبھی حادث ہوا ہو قواعد شرعیہ پر عرض کریں گے اباحت سے وجوب یا ترک اولٰی سے حرمت تک جس اصل میں داخل ہو وہی فرض کریں گے یہی خاص مذہب مہذب اربابِ حق ہے، صاف نہ کہہ دو شرم نباہنے کو اگلی رٹ کا ناحق سبق ہے تم سمجھنا کہ اب تو جو کہنی تھی کہہ گئے ہم جانیں گے تم جہنم کے ایسے ہی تھے چلو ؎

 

نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے          پسینہ پُونچھیی اپنی جبیں سے

 

طرفہ تر یہ کہ جس کا جواز دلیل شرع میں موجود وہ سب سنّت، جس کا معدوم وہ سب بدعت ضلالت، اب تیسری شق کی کون سی صورت، تمام افعال انہیں دو۲ حکموں میں محصور ہوگئے خصوصاً اباحت واستحباب وکراہت تنزیہ عہ تین حکم شرع کو کافور ہوگئے، اساتذہ جہابذہ نے سُجھائی تو اچھی کہ دونی اُلجھ گئی سلجھائی لچھی اسی ہستی  پر یہ ناز وغرور کہ لوگ تو اس کی ہوا سے دُور، حضرت یہ اپنی ہوا خود آپ ہی سُونگھیں، اہلِ حق کو معاف ہی رکھیں، اچھی تعلیم بھلے تلامذہ رہے تلقین خہے اساتذہ ؎

 

گرہمیں مکتب وھمیں مُلّا                                                                کارطفلاں تمام خواہد شد

 

عہ: ظاہر ہے کہ ضلالت کا ادنٰی درجہ کراہت تحریم ہے مکروہ تنزیہی ہرگز ضلالت نہیں، دلیل واضح یہ کہ ہر ضلالت میں باس ہے اور مکروہ تنزیہی لاباس بہ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

 

خیریہ تو وہابیہ جدیدہ کا نامعتقد عقیدہ کہ تقبیل ابہامین سنّتِ مجیدہ، پُرانوں کی سُنیے تو وہ اور ہی ہوا پر کہ یہ فعل معاذاللہ زنا وربا وقذف محصنہ وقتل ناحق نفس مومنہ سب سے بدتر بلکہ عیاذاً باللہ شرک کے انداز اصل ایمان میں خلل انداز کہ آکر باجماعِ طائفہ بدعت حائضہ اور تقویۃ الایمان کا یہ عقیدہ فوائقہ شرک وبدعت سے بہت بچے کہ یہ دونوں چیزیں اصل ایمان میں خلل ڈالتی ہیں اور باقی گناہ ان سے نیچے ہیں کہ وہ اعمال میں خلل ڈالتے ہیں۔ اب خدا جانے اُنہوں نے سنت کو کفر سے ملایا انہوں نے قریب بہ کفر کو سنّت بنایا خیر طویلے کے لتیاؤ میں ہمیں کیا مقال،

 

کفی اللّٰہ اھل الحق القتال والحمدللّٰہ المھیمن المتعال والصلاۃ والسلام علٰی ذی الافضال واٰلہ وصحبہ خیر صحب وآل آمین۔

 

اہل حق کی طرف سے قتال میں اللہ کافی ہے اور تمام تعریف اس باری تعالٰی کے لئے جو محافظ وبلند ہےاور صلوۃ وسلام اس ذات پر جو صاحبِ فضل واکرام ہے اور آپ کی آل پر اور اصحاب پر جو بہترین ہیں آمین۔ (ت)

 

حکم اخیر وخلاصہ تحریر بالجملہ حق اس میں اس قدر کہ فعل مذکور بحکم احادیث وبہ تصریح کتب فقہیہ مستحب ومندوب وامید گاہ فضل مطلوب وثواب مرغوب جو کتب علما وعمل قدما وترغیب وارد پر نظر رکھ کر اُسے عمل میں لائے اُس پر ہرگز کچھ مواخذہ نہیں بلکہ ثواب مروی کی اُمید وارحسن ظن وصدق نیت باعث فضل جاوید اور جو اُسکے مکروہ وممنوع وبدعت بتائے مبطل وخاطی علمائے کرام مقتدایان عام جب کسی منکر کو دیکھیں اُس کے سامنے ضرور ہی کریں کہ بد مذہب کا رد اور اُس کے دل پر غیظ اشد ہو جس طرح ائمہ کرام نے فرمایا کہ وضو نہر سے افضل مگر معتزلی عہ۱ منکر حوض کے سامنے حوض سے بہتر ۱؎ کمابینہ المولی المحقق فی فتح القدیر وغیرہ فی غیرہ عہ۲ جب ترک افضل اس نیت سے افضل تو مستحب ومندوب تو آپ ہی افضل،

 

عہ۱ : یہ لفظ یہاں عجب لطیف واقع ہوا کہ معتزلہ حوض سے وضو ناجائز بتاتے ہیں یہاں یہی معنی مراد اور وہ اشقیا حوضِ کوثر کے بھی منکر ہیں ۱۲ منہ (م)

عہ۲ :کلد روحواشیہ وآخرین کلہم فی المیاہ ۱۲ منہ (م)

 

 (۱؎ فتح القدیر    باب ماء الذی یجوزبہ الوضوء    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/ ۷۲)

 

والحمدللّٰہ ولی الانعام وافضل الصلاۃ واکمل السلام علٰی سیدالختام قمر التمام واٰلہ وصحبہ الغر الکرام اٰمین۔تمام تعریف اللہ کے لئے جو انعام کا مالک ہے اور افضل صلاۃ اور اکمل سلام ہو انبیاء کے خاتم وسربراہ پر، جو چودھویں کا کامل چاند ہیں، اور آپ کی آل واصحاب پر، جو نہایت ہی روشن اور مکرم ہیں آمین!

 

خاتمہ فوائد منثورہ میں ایہا المسلمون اس مسئلہ کا سوال فقیر کے پاس بلادِ نزدیک ودُور سے باربار آیا ہر دفعہ بمقتضائے حال کبھی مختصر کبھی کچھ مطول کبھی دو ایک صفحہ کبھی دوچار ہی سطر جواب لکھتا رہا بار آخر قدرے زیادہ تفصیل کی کہ ایک جز تک پہنچ کر صورت رسالہ میں جلوہ گر ہُوئی سائل نے علمائے اعلام بدایوں وبریلی ورامپوروقین عن الشروع وبقین بالسرور(جو شر سے دُور سرور سے معمور رہتے ہیں۔ ت) سے مُہریں کرائیں تصدیقیں لکھائیں اصل رسالہ منیرالعین اُسی قدر تھا کہ بفرمائش سید معظم مولانا مولوی غلام حسین صاحب جُونا گڈھی نزیل بمبئیحفظہ اللّٰہ عن شرکل بشرو رئی(اللہ تعالٰی انہیں ہر بشر اور نظرِ بد کے شر سے محفوظ رکھے۔ ت)واہتمام تمام نام مولانا المکرم مولوی محمد عمرالدین صاحب ہزاروی جعلہ اللّٰہ کاسمہ عمرالدین وعمر بہ عمران الدین المتین (اللہ تعالٰی انہیں ان کو نام کی طرح دین کی خدمت کرنے والا بنائے اور ان کے ذریعے اپنے دین متین کو آباد فرمائے۔ ت)

 

وعلو ہمت سیٹھ حاجی محمد بن حاجی محمد عبداللطیف لطف بھما المولی اللطیف (لطف فرمانے والا مولٰی ان دونوں پر لطف فرمائے۔ ت) ماہ مبارک اشرف وافضل شہرر ربیع الاول ۱۳۱۳ھ میں چھپنا آغاز ہُوا سرکار مفیض سے مضامین کثیرہ کا القا وافادہ دلنواز ہُوا  اور اُدھر کاپی کی تیاری اِدھر تصنیف جاری، جو جز لکھا روانہ کیا یہاں تک کہ ایک جز کا رسالہ دس جز تک پہنچا الحمدللّٰہ

 

من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا ۱؎ (تمام تعریف اللہ کے لئے جو ایک نیکی پر دس اجر عطا فرماتا ہے۔ ت)

 

 (۱؂القرآن        ۶/ ۱۶۰)

 

جس میں رسالہ عربیہ مدارج طبقات الحدیث جُدا کرلیا اُدھر یہ تعجیل اِدھر ورود فتاوٰی سے فرصت قلیل، نظر ثانی کی بھی فرصت نہ ملی، بعض فوائد حاضرہ کی تجرید رہ گئی، بعض نے نظر یا خاطر میں وقعت غابر میں تجلی کی ہنوز کہ سیارہ طبع بذریعہ حرکت بمعنی القطع مبدء کا تارک منتہی کا طالب ہے نہ الحاق باقی مواقع ماضیہ سے متیسر نہ اُس کا ترک ہی مناسب ہے اور ائمہ تصنیف کا داب شریف کہ آخر کتاب میں کچھ مسائل تازہ کچھ متعلق بابواب سابقہ تحریر اور انہیں مسائل شتی یا مسائل منثورہ سے تعبیر فرماتے ہیں لہذا اقتضاءً بہم یہ فوائد منثورہ بعونہٖ تعالٰی سلکِ تحریر میں انتظام پاتے ہیں۔

 

فائدہ ۱: نفیسہ جلیلہ (فضیلت وافضلیت میں فرق ہے دربارہ تفضیل حدیث ضعیف ہرگز مقبول نہیں) فضیلت وافضلیت میں زمین آسمان کا فرق ہے وہ اسی باب سے ہے جس میں ضعاف بالاتفاق قابلِ قبول اور یہاں بالاجماع مردود ونامقبول۔

اقول جس نے قبول ضعاف فی الفضائل کا منشا کہ افاداتِ سابقہ میں روشن بیانوں سے گزرا ذہن نشین کرلیا ہے وہ اس فرق کو بنگاہِ اولین سمجھ سکتا ہے قبول ضعاف صرف محل نفع بے ضرر میں ہے جہاں اُن کے ماننے سے کسی تحلیل یا تحریم یا اضاعتِ حق غیر غرض مخالفت شرع کا بوجہ من الاجوہ اندیشہ نہ ہو فضائل رجال مثل فضائل اعمال ایسے ہی ہیں، جن بندگانِ خدا کا فضل تفصیلی خواہ صرف اجمالی دلائل صحیحہ سے ثابت ہے اُن کی کوئی منقبت خاصہ جسے صحاح وثوابت سے معارضت نہ ہو اگر حدیث ضعیف میں آئے اُس کا قبول تو آپ ہی ظاہر کہ اُن کا فضل تو خود صحاح سے ثابت، یہ ضعیف اُسے مانے ہی ہوئے مسئلہ میں تو فائدہ زائدہ عطا کرے گی اور اگر تنہا ضعیف ہی فضل میں آئے اور کسی صحیح کی مخالفت نہ ہو وہ بھی مقبول ہوگی کہ صحاح میں تائید نہ سہی خلاف بھی تو نہیں بخلاف افضلیت کے کہ اس کے معنی ایک کو دوسرے سے عنداللہ بہتر وافضل ماننا ہے یہ جب ہی جائز ہوگا کہ ہمیں خدا ورسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد سے خوب ثابت ومحقق ہوجائے، ورنہ بے ثبوت حکم لگادینے میں محتمل کہ عنداللہ امر بالعکس ہوتو افضل کو مفضول بنایا، یہ تصریح تنقیص شان ہے اور وہ حرام تو مفسدہ تحلیل حرام وتضیع حق غیر دونوں درپیش کہ افضل کہنا حق اس کا تھا اور کہہ دیا اس کو۔ یہ اس صورت میں تھا کہ دلائل شرعیہ سے ایک کی افضلیت معلوم نہ ہو۔ پھر وہاں کا تو کہنا ہی کیا ہے، جہاں عقائدِ حقّہ میں ایک جانب کی تفصیلی محقق ہو اور اس کے خلاف احادیث مقام وضعاف سے استناد کیا جائے، جس طرح آج کل کے جہال حضرات شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہا پر تفضیل حضرت مولا علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم میں کرتے ہیں۔ یہ تصریح مضادتِ شریعت ومعاندتِ سنّت ہے۔ ولہذا ائمہ دین نے تفضیلیہ کو روافض سے شمار کیا

 

کمابیناہ فی کتابنا المبارک "مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین"(۱۳۹۷ھ)(جیسا کہ ہم نے اسے اپنی مبارک کتاب ''مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین'' میں بیان کیا ہے۔ ت) بلکہ انصافاً اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے قطعاً واجب التاویل ہے اور اگر بفرضِ باطل صالح تاویل نہ ہو واجب الرد کہ تفضیل شیخین متواتر واجماعی ہےکمااثبتنا علیہ عرش التحقیق فی کتابنا المذکور (جیسا کہ ہم نے اپنی اس مذکورہ کتاب میں اس مسئلہ کی خوب تحقیق کی ہے۔ ت) اور متواتر واجماع کے مقابل اعاد ہرگز نہ سُنے جائیں گے ولہذا امام احمد قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں زیرحدیث عرض علی عمر بن الخطاب وعلیہ قمیص یجرّہ قالوا فمااولت ذلک یارسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم) قال الذین (مجھ پر عمر بن الخطاب کو پیش کیا گیا اور وہ اپنی قمیص گھسیٹ کر چل رہے ہیں، صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ فرمایا دین۔ ت) فرماتے ہیں:

 

لئن سلّمنا التخصیص بہ (ای بالفاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) فھو معارض بالاحادیث الکثیرۃ البالغۃ درجۃ التواتر المعنوی الدالۃ علی افضلیۃ الصدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فلاتعارضھا الاحاد، ولئن سلمنا التساوی بین الدلیلین لکن اجماع اھل السنۃ والجماعۃ علی افضلیتہ وھو قطعی فلایعارضہ ظنی ۱؎۔اگر ہم یہ تخصیص ان (یعنی فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ) کے ساتھ مان لیں تو یہ ان اکثر احادیث کے منافی ہے جو تواتر معنوی کے درجہ پر ہیں اور افضلیت صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ پر دال ہیں اور احاد کا ان کے ساتھ تعارض ممکن ہی نہیں اور اگر ہم ان دونوں دلیلوں کے درمیان مساوات مان لیں لیکن اجماعِ اہلسنت وجماعت افضلیت صدیق اکبر پر دال ہے اور وہ قطعی ہے، تو ظن اس کا معارض کیسے ہوسکتا ہے! (ت)

 

 (۱؎ ارشاد الساری شرح صحیح البخاری    باب تفاضل اہل ایمان فی الاعمال    مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت    ۱/ ۱۰۶)

 

الجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف سن سکیں بلکہ موافقت وشرح مواقف میں تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے اور اس میں احاد صحاح بھی نامسموع،

 

حیث قال لیست ھذہ المسألۃ یتعلق بھا عمل فیلتفی فیھا بالظن الذی ھوکاف فی الاحکام العلمیۃ بل ھی مسألۃ علمیۃ یطلب فیھا الیقین ۱؎۔ان دونوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عمل سے متعلق نہیں کہ اس میں دلیل ظنی کافی ہوجائے جو احکام میں کافی ہوتی ہے بلکہ یہ معاملہ تو عقائد میں سے ہے اس کے لئے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ شرح مواقف    المرصد الرابع ازموقف سادس فی السمعیات    مطبوعہ منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸/ ۳۷۲)

 

فائدہ ۲: مہمہ عظیمہ (مشاجرات صحابہ میں تواریخ وسیر کی موحش حکایتیں قطعاً مردود ہیں) افادہ ۲۳ پر نظر تازہ کیجئے وہاں واضح ہوچکا ہے کہ کتبِ سیر میں کیسے کیسے مجروحوں میں مطعونوں شدید الضعفوں کی روایات بھری ہیں وہیں کلبی رافضی متہم بالکذب کی نسبت سیرت عیون الاثر کا قول گزرا کہ اُس کی غالب روایات سیر وتواریخ ہیں جنہیں علما ایسوں سے روایت کرلیتے ہیں وہیں سیرت انسان العیون کا ارشاد گزرا کہ سیر موضوع کے سوا ہر قسم ضعیف وسقیم وبے سند حکایات کو جمع کرتی ہے پھر انصافاً یہ بھی انہوں نے سیر کا منصب بتایا جو اُسے لائق ہے کہ موضوعات تو اصلاً کسی کام کے نہیں اُنہیں وہ بھی نہیں لے سکتے ورنہ بنظر واقع سیر میں بہت اکاذیب واباطیل بھرے ہیں کمالایخفی بہرحال فرق مراتب نہ کرنا اگر جنوں نہیں تو بدمذہبی ہے بد مذہبی نہیں تو جنون ہے، سیر جن بالائی باتوں کے لئے ہے اُس میں حد سے تجاوز نہیں کرسکتے اُس کی روایات مذکورہ کسی حیض ونفاس کے مسئلہ میں بھی سننے کی نہیں نہ کہ معاذاللہ اُن واہیات ومعضلات وبے سروپا حکایات سے صحابہ کرام حضور سیدالانام علیہ وعلٰی آلہٖ وعلیہم افضل الصّلاۃ والسلام پر طعن پیدا کرنا اعتراض نکالنا اُن کی شانِ رفیع میں رخنے ڈالنا کہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا مگر گمراہ بددین مخالف ومضاد حق تبیین آج کل کے بدمذہب مریض القلب منافق شعار ان جزافات سیروخرافات تواریخ وامثالہا سے حضرات عالیہ خلفائے راشدین وام المومنین وطلحہ وزبیر ومعاویہ وعمروبن العاص ومغیرہ بن شعبہ وغیرہم اہلبیت وصحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے مطاعن مردودہ اور ان کے باہمی مشاجرات میں موحش ومہل حکایات بیہودہ جن میں اکثر تو سرے سے کذب وواحض اور بہت الحاقات ملعونہ روافض چھانٹ لاتے اور اُن سے قرآن عظیم وارشاداتِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم واجماعِ اُمّت واساطین ملّت کا مقابلہ چاہتے ہیں بے علم لوگ اُنہیں سُن کر پریشان ہوتے یا فکر جواب میں پڑتے ہیں اُن کا پہلا جواب یہی ہے کہ ایسے مہملات کسی ادنٰی مسلمان کو گنہگار ٹھہرانے کیلئے مسموع نہیں ہوسکتے نہ کہ اُن محبوبانِ خدا پر طعن جن کے مدائح تفصیلی خواہ اجمالی سے کلام اللہ وکلام رسول اللہ مالامال ہیں جل جلالہ، وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، امام حجۃ الاسلام مرشد الانام محمدمحمد محمد غزالی قدسہ سرہ العالی احیاء العلوم شریف میں فرماتے ہیں:

 

لاتجوز نسبۃ مسلم الی کبیرۃ من غیر تحقیق نعم یجوز ان یقال ان ابن ملجم قتل علیا فان ذلک یثت متواترا ۱؎۔کسی مسلمان کو کسی کبیرہ کی طرف بے تحقیق نسبت کرنا حرام ہے، ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم شقی خارجی اشقی الآخرین نے امیرالمومنین مولٰی علی کرم اللہ وجہہ کو شہید کیا کہ یہ بتواتر ثابت ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ احیاء علوم الدین کتاب آفات اللسان   الآفۃ الثامنۃ: اللعن  مطبوعہ مطبعۃ المشہد الحسینی القاہرہ  ۳ /۱۲۵)

 

 

حاش للہ اگر مورخین وامثالہم کی ایسے حکایات ادنٰی قابلِ التفات ہوں تو اہل بیت وصحابہ درکنار خود حضرات عالیہ انبیاء ومرسلین وملٰئکم مقربین صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہم اجمعین سے ہاتھ دھوبیٹھا ہے کہ ان مہملات مخذولہ نے حضرات سعادتنا ومولٰنا آدم صفی اللہ وداؤد خلیفۃ اللہ وسلیمان نبی اللہ ویوسف رسول اللہ سے سیدالمرسلین محمد حبیب اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم وسلم تک سب کے بارہ میں وہ وہ ناپاک بیہودہ حکایات موحشہ نقل کی ہیں کہ اگر اپنے ظاہر پر تسلیم کی جائیں تو معاذاللہ اصل ایمان کو رد بیٹھنا ہے ان ہولناک اباطیل کے بعض تفصیل مع رد جلیل کتاب مستطاب شفا شریف امام قاضی عیاض اور اس کی شروح وغیرہا سے ظاہر لاجرم ائمہ ملّت وناصحانِ اُمت نے تصریحیں فرمادیں کہ ان جہال وضلال کے مہملات اور سیر وتواریخ کی حکایت پر ہرگز کان نہ رکھا جائے شفا وشروح شفا ومواہب وشرح مواہب ومدارج شیخ محقق وغیرہا میں بالاتفاق فرمایا، جسے میں صرف مدارج النبوۃ سے نقل کروں کہ عبارت فارسی ترجمہ سے غنی اور کلمات ائمہ مذکورین کا خود ترجمہ ہے فرماتے ہیں رحمہ اللہ تعالٰی:

 

ازجملہ توقیر وبرآنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم توقیر اصحاب وبرایشاں است وحسن ثنا ورعایت ادب بایشاں ودُعا واستغفار مرایشاں راوحق است مرکسے راکہ ثنا کردہ حق تعالٰی بروے وراضی ست ازوے کہ ثنا کردہ شوبروے وسب وطعن ایشاں اگر مخالف اولہ قطعیہ است، کفر والا بدعت وفسق، وہمچنیں امساک وکف نفس ازذکر اختلاف ومنازعات ووقائع کہ میان ایشاں شدہ وگزشتہ است واعراض واضراب ازاخبار مورخین وجہلہ رواۃ وضلال شیعہ وغلاۃ ایشاں ومبتدعین کہ ذکرقوادح وزلالت ایشاں کنند کہ اکثر آں کذب وافتراست وطلب کردن درآنچہ نقل کردہ شدہ است ازایشاں ازمشاجرات ومحاربات باحسن تاویلات واصوب خارج وعدم ذکر ہیچ یکے ازیشاں بہ بدی وعیب بلکہ ذکر حسنات وفضائل وعمائد صفات ایشاں ازجہت آنکہ صحبت ایشاں بآنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقینی ست وماورائے آں ظنی است وکافیست دریں باب کہ حق تعالٰی برگزید ایشاں رابرائے صحبت حبیبہ خود صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم طریقہ اہل سنّت وجماعت دریں باب این است درعقائد نوشتہ اند لاتذکر احدا منھم الابخیر ف۱ وآیات واحادیث کہ درفضائل صحابہ عموماً وخصوصاً واقع شدہ است دریں باب کافی است ۱؎ اھ مختصرا۔

 

نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم واحترام درحقیقت آپ کے صحابہ کا احترام اور ان کے ساتھ نیکی ہے ان کی اچھی تعریف اور رعایت کرنی چاہے اور ان کے لئے دعا وطلبِ مغفرت کرنی چاہئے بالخصوص جس جس کی اللہ تعالٰی نے تعریف فرمائی ہے اور اس سے راضی ہوا ہے اس سے وہ اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے پس اگر ان پر طعن وسب کرنے والا دلائل قطعہ کا منکر ہے تو کافر ورنہ مبتدع وفاسق، اسی طرح ان کے درمیان جو اختلافات یا جھگڑے یا واقعات ہُوئے ہیں ان پر خاموشی اختیار کرنا ضروری ہےاور ان اخبار واقعات سے اعراض کیا جائے جو مورخین، جاہل راویوں اور گمراہ وغلو کرنے والے شیعوں نے بیان کیے ہیں اور بدعتی لوگوں کے ان عیوب اور برائیوں سے جو خود ایجاد کرکے ان کی طرف منسوب کردئے اور ان کے ڈگمگا جانے سے کیونکہ وہ کذب بیانی اور افترا ہے اور ان کے درمیان جو محاربات ومشاجرات منقول ہیں ان کی بہتر توجیہ وتاویل کی جائے، اور ان میں سے کسی پر عیب یا برائی کا طعن نہ کیا جائے بلکہ ان کے فضائل، کمالات اور عمدہ صفات کا ذکر کیا جائے کیونکہ حضور علیہ السلام کے ساتھ ان کی محبت یقینی ہے اور اس کے علاوہ باقی معاملات ظنی ہیں اور ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں پانے حبیب علیہ السلام کی محبت کے لئے منتخب کرلیا ہے اہل سنت وجماعت کا صحابہ کے بارے میں یہی عقیدہ ہے اس لئے عقائد میں تحریر ہے  کہ صحابہ میں سے ہر کسی کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کیا جائے اور صحابہ کے فضائل میں جو آیات واحادیث عموماً یا خصوصاً وارد ہیں وہ اس سلسلہ میں کافی ہیں اھ مختصرا (ت)

 

ف۱ : مدارج النبوہ مطبوعہ سکھر میں ''وآیات کا لفظ نہیں ہے

 

 (۱؎ مدارج النبوۃ    وصل درتوقیر حضور واصحاب وے صلی اللہ علیہ وسلم    مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر      ۱ /۳۱۳)

 

امام محقق سنوسی وعلّامہ تلمسانی پھر علّامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں:مانقلہ المؤرخون قلۃ حیاء وادب ۲؎ (مؤرخین کی نقلیں قلت حیا وادب سے ہیں)

 

 (۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ     باب وفات امہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ    مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر    ۱/ ۲۰۴)

 

امام اجل ثقہ مثبت حافظ متقن قدوہ یحیٰی بن سعید قطان نے کہ اجلّہ ائمہ تابعین سے ہیں عبداللہ قوایری سے پُوچھا کہاں جاتے ہو؟ کہا  وہب بن جریر کے  پاس سیر لکھنے کو، فرمایا:

 

تکتب کذبا کثیرا  ۳؎ (بہت سا جھوٹ لکھوگے)

 

 (۳؎ میزان الاعتدال ترجمہ نمبر ۷۱۹۷    محمد بن اسحاق            مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۳ /۴۶۹)

 

ذکرہ فی المیزان عہ (اس کا ذکر میزان میں ہے۔ ت)

 

عہ: فی ترجمۃ محمد بن اسحٰق حیث قال مالہ عندی ذنب الاماقد حشانی فی السیرۃ من الاشیاء المنکرۃ المنقطعۃ والاشعار المکذوبۃ، قال الفلاس سمعت یحیی القطان یقول لعبیداللّٰہ القواریری الٰی این تذھب، قال الٰی وھب بن جریر ا کتب السیرۃ قال تکتب کذبا کثیرا  ۲؎     ۱۲ منہ (م)

اس کا ذکر محمد بن اسحاق کے ترجمہ میں ہے جہاں انہوں نے کہا میرے نزدیک اس کا کوئی گناہ نہیں ماسوائے اس کے کہ انہوں نے سیرت میں منکر ومنقطع روایات اور جھُوٹے اشعار شامل کردئے ہیں، فلاس نے کہا میں نے یحیٰی قطان کو عبیداللہ قواریری سے یہ کہتے ہُوئے سُنا کہ کہاں جارہے ہو، انہوں نے کہا وہب بن جریر کی طرف سیرت لکھنے کیلئے، اس نے کہا تُو وہاں بہت زیادہ جھُوٹ لکھے گا ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ میزان الاعتدال    ترجمہ نمبر ۷۱۹۷    محمد بن اسحاق دارالمعرفۃ بیروت    ۱۳/ ۴۶۹)

 

تفصیل اس مبحث کی اُن رسائل فقیر سے لی جائے کہ مسئلہ حضرت امیر معٰویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں تصنیف کیے یہاں شاہ عبدالعزیز صاحب کی ایک عبارت تحفہ اثنا عشریہ سے یاد رکھنے کی ہے مطاعن افضل الصدیقین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے طعن سوم تخلف حبیش اسامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے رَد میں فرماتے ہیں : جملہ لعن اللہ من تخلف عنہا ہرگز درکتب اہل سنت موجود نیست قال الشھرستانی فی الملل والنحل ان ھذہ الجملۃ موضوعۃ ومفتراۃ وبعضے فارسی نویسان کہ خود رامحدثین اہل سنت شمردہ اند ودرسیر خود ایں جملہ را اوردہ برائے الزام اہل سنت کفایت نمی کند زیراکہ اعتبار حدیث نزد اہل سنت بیافتن حدیث درکتب مسندہ محدثین نزد اہل سنت بیافتن حدیث درکتب مسندہ محدثین است مع الحکم بالصحۃ وحدیث بے سند نزد ایشاں شتربے مہار است کہ اصلا عہ گوش بآں نمی نہند ۱؎۔

 

جملہ''لعن اللّٰہ من تخلف عنھا''کتب اہلِ سنت میں ہرگز موجود نہیں، شہرستانی نے الملل والنحل میں کہا کہ یہ جملہ موضوع اور جھُوٹا ہے، اور بعض فارسی لکھنے والوں نے خود کو محدثین اہلسنت ظاہر کیا ہے اور اہل اسنت کو الزام دینے کے لئے اپنی کتب میں اس جملہ کو شامل کردیا لیکن یہ قابلِ اعتبار نہیں، اہلسنت کے ہاں حدیث وہی معتبر ہے جو محدثین کی کتب احادیث میں صحت کے ساتھ ثابت ہو، ان کے ہاں بے سند حدیث ایسے ہی ہے جیسے بے مہار اونٹ، جو کہ ہرگز ناقابلِ سماعت نہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ تحفہ اثناعشریہ       باب دہم طعن سوم ازمطاعن ابی بکر            مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور        ص  ۲۶۵)

 

عہ: اقول یعنی درامثال باب تاباب احکام فاما دون اوکہ باب تساہل ست نقل معتمدی بسند است دگرچندبے سنداست چنانکہ در افادہ بست وہفتم تحقیق نمودیم خود شاہ صاحب درہچو مقام بہ بسیارے ازروایات بے سند استنادکردہ است کما لایخفی علی من طابع کتبہ وسر انجام است کہ کمال تحقیق ایں معنی در فائدہ  اخیر کردیم ۱۲منہ(م)

اقول یعنی یہ مثالِ مقام تاباب میں ہے اسکے علاوہ جو باب تساہل ہے کوئی ایک معتمد نقل سند کے ساتھ ہو

دوسری چاہے بے سندہوں، چنانچہ ستائیسویں۲۷ افادہ میں ہم نے تحقیق کی ہے کہ خود شاہ صاحب نے اس جیسے مقام میں بہت روایات بے سند ذکر کی ہیں جیسا کہ اس پر مخفی نہیں جس نے ان کی کتب کا مطالعہ کیا ہے آخر کار اس معنی کی مکمل تحقیق میں نے آخری فائدہ میں کردی ہے ۱۲ منہ (ت)

 

فائدہ ۳:(اظہر یہی ہے کہ تفرد کذاب بھی مستلزم موضوعیت نہیں) افادہ دہم  دیکھیے جو حدیث  اُن پندرہ  قرائن وضع سے منزہ ہو ہم  نے اُس کے بارے میں کلمات علماء تین طرز پر نقل کئے اصلاً موضوع نہ کہیں گے تفرد کذاب ہوتو موضوع تفرد متہم ہو تو موضوع، اور افادہ ۲۳  میں اشارہ کیا کہ ہمارے نزدیک مسلک اول قوی واقرب بصواب ہے  افادہ ۱۰ میں امام سخاوی سے اُس کی تصریح اور کلام علی قاری سے نظیر صریح ذکر کی دوسری نظیر صاف وسفید حدیث مرغ سپید کہ کلام علامہ مناوی سے افادہ ۲۳ میں گزری وہیں دلیل ثامن میں بشہادت حدیث وحکم عقل اس کی تقویت کا ایما کیا۔

 

والاٰن اقول یہی مذہب فقیر نے کلامِ امیرالمومنین فی الحدیث شعبہ بن طجاج سے استنباط کیا، فائدہ تاسعہ میں آتا ہے کہ انہوں نے قسم کھاکر کہا ابان بن ابی عباس حدیث میں جھُوٹ بولتا ہے پھر خود ابان سے حدیث سنی، اس پر پُوچھا گیا، فرمایا اس حدیث سے کون صبر کرسکتا ہے، معلوم ہوا کہ مطعون بالکذب کی ہر حدیث موضوع نہیں ورنہ اس کی طرف ایسی رغبت اور وہ بھی ایسے امام اجل سے چہ معنی ۔ثم اقول اور فی الواقع یہی اظہر ہے کہ آخر الکذوب قدیصدق(جھوٹ بولنے والا بھی کبھی سچ کہتا ہے۔ ت) میں کلام نہیں اور یہ بھی مسلّم کہ ایک شخص واحد کا روایت حدیث سے تفرد ممکن یہاں تک کہ غریب فرد میں صحیح حسن ضعیف بہ ضعف قریب وضعف شدید سب قسم کی حدیثیں مانی جاتی ہیں تو یہ کیوں نہیں ممکن کہ کبھی موسم بتکذیب بھی تفرد کرے اور اس حدیث خاص میں سچّا ہو اس کے بطلان پر کیا دلیل قائم، لاجرم یہی مذہب مہذب مقتضائے ارشادات امام ابن الصلاح وامام نووی وامام عراقی وامام قسطلانی وغیرہم اکابر ہے ان سب ائمہ نے موضوع کی یہی تعریف فرمائی کہ وہ حدیث کہ جو نری گھڑت اور افترا اور نبی عہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر جھُوٹ بنائی گئی ہو،

 

عہ: بناء علی ان ماوضع علی غیرہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فیقال لہ الموضوع علی فلان ومطلقہ لایراد بہ الالکذب وعلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وعلیہ یبتنی مافی الارشاد وان طلقت فانت فی سعتہ منہ کماھو ظاھر کلام اٰخرین ۱۲ منہ (م)

اس بنا پر کہ اگر اس نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے پر جھوٹ گھڑا ہوتو اسے ''موضوع علٰی فلاں'' کہا جاتا ہے اور جب مطلقاً ذکر ہوتو اس وقت حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ہی جھُوٹ مراد ہوگا جو ارشاد میں ہے اس کی بنا اسی پر ہے اگر آپ اس کو مطلق ذکر کریں تو آپ کو اس میں گنجائش ہے جیسا کہ دوسروں کے کلام سے ظاہر ہے ۱۲ منہ (ت)

 

علوم الحدیث امام ابوعمر وتقریب میں ہے:الموضوع ھوالمختلق المصنوع ۱؎(موضوع وہ حدیث ہے جو من گھڑت اور بناوٹی ہو۔ ت)

 

 (۱؎ تقریب النواوی مع شرح تدریب الراوی    النوع الحادی والعشرون    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ    ۱/ ۲۷۴)

 

الفیہ میں ہے : ؎

 

شرالضعیف الخیر الموضوع

الکذب المختلق المصنوع ۲؎

 

 (ضعیف کی بدترین قسم خبر موضوع ہے، جو جھوٹ ہو گھڑی گئی ہو اور بناوٹی ہو۔ ت)

 

 (۲؎ الفیۃ الحدیث مع فتح المغیث بحث الموضوع    دارالامام الطبری بیروت                ۱/ ۲۹۳)

 

ارشاد الساری میں ہے : الموضوع ھوالکذب علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ویسمی المختلق ۳؎۔موضوع وہ حدیث ہے جو نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑاگیا ہو اسے مختلق بھی کہتے ہیں۔ (ت)

 

 (۳؎ ارشاد الساری شرح البخاری        الفصل الثالث فی نبذۃ لطیفۃ الخ    مطبوعہ دارالکتاب العربیہ    ۱/ ۱۳)

 

ہاں اس میں کلام نہیں کہ حکمِ وضع کبھی قطعی ہوتا ہے کبھی ظنی، جیسا کہ ہم نے شمار قرائن میں تبدیل اسلوب عبارت سے اُس کی طرف اشارہ کیا اور حدیث مطعون بالکذب کو موضوع کہنے والے بھی اس کی موضوعیت بالیقین کا دعوٰی نہیں فرماتے بلکہ وضع ظنی میں رکھتے ہیںکماصرح بہ شیخ الاسلام فی النزھۃ (جیسا کہ شیخ الاسلام نے نزہۃ النظر میں اس کی تصریح کی ہے۔ ت) شیخ محقق دہلوی قدس سرہ القوی مقدمہ لمعات التنقیح میں فرماتے ہیں:

 

حدیث المطعون بالکذب یسمی موضوعا و من ثبت عنہ تعمد الکذب فی الحدیث وان کان وقوعہ مرۃ لم یقبل حدیثہ ابدا، فالمراد بالموضوع فی اصطلاح المحدثین ھذا لا انہ ثبت کذبہ وعلم ذلک فی ھذا الحدیث بخصوصہ، والمسألۃ ظنیۃ والحکم، بالوضع والافتراء بحکم الظن الغالب ۱؎ اھ ملخصا

 

ایسے راوی کی حدیث جس پر کذب کا طعن ہو موضوع کہلاتی ہے اور ایسا شخص جس سے حدیث میں عمدہ جھوٹ ثابت ہوجائے خواہ وہ ایک ہی دفعہ ہو اس کی حدیث ہمیشہ قبول نہیں کی جائے گی، تو اصطلاحِ محدثین میں موضوع سے مراد یہی ہے، یہ نہیں کہ اس خاص حدیث میں اس کا جھوٹ ثابت ومعلوم ہو، اور چونکہ مسئلہ ظنی ہے لہذا وضع وافترا کا حکم ظنِ غالب کی بنا پر ہوگا اھ ملخصا (ت)

 

 (۱؎ لمعات التنقیح شرح المشکوٰۃ    فصل فی العدالۃ الخ    مطبوعہ المعارف العلمیۃ لاہور    ۱/ ۲۷)

 

اقول مگر محلِ تامل یہی ہے کہ مجرد کذب فی بعض الاحادیث سے کہ معاذاللہ کسی طمع دینا یا تائید مذہب فاسد یا غضب وربخش وغیرہا کے باعث ہو ظن غالب ہوجائے کہ اب جتنی حدیثوں میں یہ متفرد ہو سب میں وضع وافترا ہی کرے گا اگرچہ وہاں کوئی طمع وغیرہ غرض فاسد نہ ہو شاہد زور اگر کسی طمع یا عداوت سے ایک جگہ غلط گواہی دی تو اس کی سب گواہیاں مردود ضرور ہوں گی کہ فاسق ہے مگر بے لاگ جگہ میں خواہی نخواہی یہ ظن غالب نہ ہوگا کہ یہاں بھی جھوٹ ہی کہہ رہا ہے وجدان صحیح اس پر شہادت کو بس ہے اور اگر سند ہی چاہئے تو امام ائمہ الشان محمد بن اسمٰعیل بخاری علیہ رحمۃ الباری کا ارشاد سُنیے محمد بن اسحاق صاحبِ سیرت ومغازی کو ہشام بن عروہ پھر امام مالک پھر وہب پھر یحیٰی بن قطان نے کذاب کہا،

 

اخرجہ عہ  ابن عدی عن ابی بشر الدولابی و محمد بن جعفر بن یزید عن ابی قلابۃ الرقاشی ثنی ابوداؤد سلیمٰن بن داؤد قال قال یحیی القطان اشھد ان محمد بن اسحٰق کذاب، قلت ومایدریک قال قال لی وھیب فقلت لوھیب ومایدرک، قال قال لی مالک بن انس فقلت لمالک ومایدریک، قال قال لی ھشام بن عروۃ قلت لھشام بن عروۃ ومایدریک، قال حدث عن امرأتی فاطمۃ بنت المنذر، وادخلت علی وھی بنت تسع وماراٰھا رجل حتی بقیت اللّٰہ تعالٰی ۱؎۔

 

ابن عدی نے ابوبشر دولابی سے اور محمد بن جعفر بن یزید نے ابو قلابہ رقاشی سے، وہ کہتے ہیں مجھے ابوداؤد سلیمٰن داؤد نے بیان کیا کہ یحیٰی القطان نے بیان کیا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد بن اسحٰق کذاب ہے، میں نے عرض کیا تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ کہا مجھے وہیب نے بتایا میں نے وہیب سے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہے؟ انہوں نے کہا مجھے مالک بن انس نے بتایا تھا، تو میں نے مالک سے پوچھا آپ کو کیسے علم ہے؟ انہوں نے کہا مجھے ہشام بن عروہ نے بتایا تھا۔ میں نے ہشام بن عروہ سے کہا کہ آپ کو اس بات کا کیسے علم ہے؟ انہوں نے کہا اس نے میری اہلیہ فاطمہ بنت منذر سے حدیث بیان کی ہے اور ان کی شادی میرے ساتھ نوسال کی عمر میں ہُوئی اور اس نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ اس کا وصال ہوگیا۔ (ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال ترجمہ ۷۱۹۷    محمد بن اسحٰق    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۳/ ۴۷۱

      الکامل فی ضعفا الرجال    ترجمہ محمد اسحاق    دارالفکر بیروت    ۷/ ۲۱۱۷)

 

عہ: حال التفصی عن ھذا فی المیزان بقولہ قلت ومایدری ھشام بن عروۃ، فلعلہ سمع منھا فی المسجد اوسمع منھا وھو صبی اودخل علیھا فحدثتہ من وراء حجاب، فای شیئ فی ھذا وقدکانت امرأۃ قدکبرت واسنت ۲؎ اھ۔

اس سے خلاصی میزان میں ان کے اس قول سے ہوجاتی ہے: میں کہتا ہوں ہشام بن عروہ کیا جانے شاید انہوں نے اس سے مسجد میں سنا، یا اس وقت اس سے سنا جب وہ بچّے تھے یا وہ اس کے پاس گئے ہوں تو اس خاتون نے پردے کے پیچھے سے بیان کیا ہو، کیا معلوم کہ ان میں سے کون سی صورت ہے حالانکہ وہ خاتون بُوڑھی اور سِن والی ہوچکی تھی (صاحب فتنہ نہ تھی) اھ

 

 (۲؎ میزان الاعتدال     ترجمۃ ۷۱۹۷    محمد بن اسحاق        مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۳/۴۷۰)

 

ثم قال افبمثل ھذا یعتمد علی تکذیب رجل من اھل العلم ھذا مردود ، ثم قدروی عنھا محمد بن سوقۃ ۱؎ الخپھر کہا: کیا اس طرح کی صورت میں اہلِ علم شخص کو جھُوٹا قرار دینا درست ہے یہ مردود ہے (درست نہیں) پھر اس سے محمد بن سوقہ نے بھی روایت لی ہے الخ

 

 (۱؎ میزان الاعتدال    ترجمہ ۷۱۹۷ محمد بن اسحاق    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۳/ ۴۷۱)

 

اقول لقائل ان یقول ان الحفاظ الناقدین ربنما یعرفون کذب الرجل بقرائن تلوح لھم، ولقد نری قوما من الائمۃ یکذبون رجلا ولایذکرون من السبب الاماھو قاصر عندنا لعدم علمنا بالقرائن فتبدولنا احتمالات شیئ لعل الامرکذا عسی ان کذا وھی جمیعا مندفعۃ عندھم نص علی ذلک الامام النووی فی مواضع من شرحہ صحیح مسلم فقال ھنا قاعدۃ ننبہ علیھا ثم نحیل علیھا فیما بعد ان شاء اللّٰہ تعالٰی وھی ان عفان رحمہ اللّٰہ تعالٰی قال انما ابتلیج ھشام (ھو ابن زیاد الاموی) یعنی انما ضعفوہ من قبل ھذا الحدیث کان یقول حدثنی یحیٰی عن محمد ثم ادعی بعد انہ سمعہ من محمدہ وھذا القدر وحدہ لایقتضی ضعفا لانہ لیس فیہ تصریح بکذب لاحتمال انہ سمعہ من محمد ثم نسیہ فحدث عن یحیٰی عنہ ثم ذکر سماعہ من محمد فرواہ عنہ ولکن انضم الی ھذا قرائن وامور اقتضت عندالعلماء بھذا الفن الحذاق فیہ المبرزین من اھلہ العارفین بدقائق احوال رواتہ انہ لم یسمعہ من محمد فحکموا بذلک لماقامت لدلائل الظاھرۃ عندھم بذلک وسیاق بعد ھذا اشیاء کثیرۃ من اقوال الائمۃ فی الجرح بنحو ھذا وکلھا یقال فیھا ماقلنا ھنا واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱؎ اھ۔

 

اقول (میں کہتا ہوں) قائل کے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ حفاظ ناقدین بعض اوقات کسی آدمی کا جھُوٹ قرائن کی وجہ سے جانتے ہوتے ہیں اور ہم ائمہ کی ایک ایسی جماعت کا علم رکھتے ہیں جس نے کسی شخص کو جھوٹا کہا مگر سب ذکر نہ کیا صرف وہ ہے جو ہمارے نزدیک قاصر ہے کیونکہ ان قرائن کو نہیں جانتے، تو ہمارے لئے متعدد احتمالات ظاہر ہوں گے، شاید یہ ہویا یہ ہو اور وہ تمام ان کے ہاں مدفوع ہوں، اس پر امام نووی نے اپنی شرح صحیح مسلم میں کئی جگہ تصریح کی ہے اور کہا کہ یہاں ایک قاعدہ ہے جس پر ہم تنبیہ کرتے ہیں۔ اگر اللہ تعالٰی نے چاہا اس پر حوالہ دیں گے اور وہ یہ ہے کہ عفان رحمہ اللہ تعالٰی نے بیان کیا کہ ہشام (ابن زیاد اموی) مبتلا ہُوئے، یعنی اس حدیث کی وجہ سے ان کو لوگوں نے ضعیف کہا جس کے متعلق وہ کہتے تھے مجھے یحیٰی نے محمد سے بیان کیا پھر دعوٰی کیا کہ اس نے یہ محمد سے روایت سنی ہے اور صرف یہ چیز ضعف کا تقاضا نہیں کرتی کیونکہ اس میں کذب صراحۃً نہیں ہے ممکن ہے اس نے محمد سے سُنا ہو پھر بھُول گیا ہو پھر ہشام نے یحیٰی سے حدیث بیان کی ہو پھر یحیٰی کو محمد سے سماع یاد آیا تو دونوں نے محمد کے حوالے سے روایت بیان کی ہو، لیکن اس فن کے ماہرین اور اس کے راویوں کے دقیق اصول پہچاننے والوں پر ایسے قرائن آشکار ہوئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے محمد سے نہیں سُنا، جب ان کے ہاں اس پر دلائل ظاہری قائم ہوگئے تو اب انہوں نے یہ فیصلہ دے دیا کہ ہشام نے محمد سے نہیں سُنا، اور اس کے بعد عنقریب ائمہ کے اقوال میں اسی طرح سے کثرت کے ساتھ جرح کا ذکر آئے گا ان سب میں وہی بات کہی جائے گی جو ہم نے یہاں کہہ دی ہے واللہ تعالٰی اعلم اھ۔

 

 (۱؎ شرح الصحیح لمسلم    باب بیان الاسناد الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۴)

 

وقال بعد ذلک معنی ھذا الکلام ان الحسن بن عمارۃ کذب فروی ھذا الحدیث عن الحکم عن یحیٰی عن علی وانما ھو عن الحسن البصری من قولہ وقد قدمنا ان مثل ھذا وان کان یحتمل کونہ جاء عن الحسن وعن علی لکن الحفاظ یعرفون کذب الکاذبین بقرائن وقدیعرفون ذلک بدلائل قطعیۃ یعرفھا اھل ھذا الفن فقولھم مقبول فی کل ھذا ۲؎ اھ۔

 

اور اس کے بعد کہا کہ اس کلام کا معنٰی یہ ہے کہ حسن بن عمارہ نے جھوٹ بولتے ہوئے اس حدیث کو حکم از یحیٰی ازعلی روایت کیا حالانکہ وہ حسن بصری سے ان کے قول سے مروی ہے اور ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ اس کی مثل یہ ہے اگرچہ اس میں یہ احتمال ہے کہ وہ حسن سے اور علی سے ہو، لیکن اس فن کے حفاظ قرائن سے جھُوٹوں کے جھُوٹ سے آگاہ ہوجاتے ہیں اور اس کو وہ ایسے دلائل قطعیہ سے جان لیتے ہیں جن کو صرف اہل فن ہی پہچانتے ہیں لہذا ان کا فیصلہ ان تمام میں مقبول ہوگا اھ۔

 

 (۲؎ شرح الصحیح لمسلم    باب بیان الاسناد الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۷)

 

اماقولک افبمثل ھذا یعتمد الخ اقول افترا علی ھٰولاء الائمۃ الجلۃ الاعاظم یشھدون جزافا من دون ثبت ثم ھذا کلہ انما ذکرناہ لیعرف ان الذھبی کیف یحتال للذب عن قدری امرہ قدظھر واذاوقع بسنی اشعری اوولی اللّٰہ صوفی صارلایبقی ولایذرکما بینہ تلمیذہ الامام تاج الدین السبکی رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی الطبقات والافا الراجح عند علمائنا ایضا ھو توثیق ابن اسحٰق کماسنذکرہ ان شاء اللّٰہ تعالٰی واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ (م)

 

رہا تیرا قول افبمثلہ ھذا یعتمد الخ قول یہ ان عظیم ائمہ پر اسی بات کا افترا ہے کہ وہ اندازے سے کام لیتے ہیں تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ ذہبی نے کس حیلہ سے قدری سے کذب کیا، جس کا معاملہ واضح تھا اور جس وقت یہ معاملہ کسی سخی اشعری یا کسی ولی اللہ صوفی کو رد کیا ہوتو وہ نہ چھوڑے نہ باقی رہنے دے جیسے کہ ان کے شاگرد امام تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ تعالٰی نے طبقات میں اس کو بیان کیا ہے ورنہ ہمارے ہاں بھی راجح یہی ہے کہ ابن اسحٰق ثقہ ہیں جیسا کہ عنقریب ہم اسے بیان کریں گے۔ (ت)

 

امام بخاری عہ۱ جزء القرأۃ خلف الامام میں توثیق عہ۲  ابن اسحٰق ثابت فرمانے کو اُس سے جواب دیتے ہیں:رأیت علی بن عبداللّٰہ یحتج بحدیث ابن اسحاق وقال علی عن ابن عیینۃ مارأیت احدا یَتَّھِمُ محمد بن اسحاق (الی ان قال) ولوصح عن مالک تناولہ عن ابن اسحاق فلم بماتکلم الانسان فیرمی صاحبہ بشیئ واحد ولایتھمہ فی الامور کلھا ۱؎ الخ

 

میں نے علی بن عبداللہ کو حدیث ابن اسحاق سے استدلال کرتے ہوئے پایا ہے اور علی ابن عینیہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو محمد بن اسحٰق پر اتہام کرتا ہو (آگے چل کر کہا) اور اگر امام مالک سے ابن اسحاق کے بارے میں جو کچھ منقول ہے وہ صحیح ہوتو اکثر ہوتا رہتا ہے کہ ایک آدمی دوسرے پر کسی ایک بات میں طعن کرتا ہے اور باقی تمام امور میں اس پر تہمت نہیں لگاتا الخ (ت)

 

 (۱؎ نصب الرایۃ لاحادیث الہدایۃ  آخر کتاب الوصایا  مطبوعہ المکتبۃ الاسلامیہ لصاحبہا الحاج ریاض الشیخ  ۴ /۴۱۶)

 

عہ۱ : نقلہ زیلعی فی نصب الرایۃ قبیل کتاب الخنثی ۱۲ منہ (م)

جیسے کہ زیلعی نے نصب الرایۃ میں کتاب الخنثی سے تھوڑا پہلے اس کو ذکر کیا ہے۔ (ت)

عہ۲: ہمارے علمائے کرام قدست اسرارہم کے نزدیک بھی راجح محمد بن اسحاق کی توثیق ہی ہے محقق علی الاطلاق فتح میں زیر مسئلہ یستحب تعجیل المغرب فرماتے ہیں :

توثیق ابن اسحاق ھو الحق الابلج ومانقل عن کلام المالک فیہ لایثبت ولوصح لم یقبلہ ھل العلم کیف وقدقال شعبۃ فیہ ھو امیرالمؤمنین فی الحدیث وروی عنہ مثل الثوری وابن ادریس وحماد بن زید ویزید بن زریع وبن علیۃ وعبدالوارث وابن المبارک واحتملہ احمد وابن معین وعامۃ اھل حدیث غفراللّٰہ تعالٰی لھم وقداطال البخاری فی توثیقہ فی کتاب القرأۃ خلف الامام لہ وذکرہ ابن حبان فی الثقات وان مالکا رجع عن الکلام فی ابن اسحاق واصطلح معہ وبعث الیہ ھدیۃ ذکرھا  ۱؎ اھ ۱۲ منہ (م)

ابن اسحاق کی توثیق ہی واضح اور حق ہے اور امام مالک کا  ان کے بارے میں جو قول منقول ہے وہ ثابت نہیں، اگر وہ ثابت بھی ہو تب بھی اہلِ علم کے ہاں قابلِ قبول نہیں، ایسا کیونکر ہو حالانکہ شعبہ نے ان کے بارے میں امیرالمومنین فی الحدیث کہا اور ان سے ثوری، ابنِ ادریس، حمادبن زید، یزید بن زریع، ابن علیہ، عبدالوارث اور ابن مبارک جیسے محدثین نے روایت لی ہے، اور احمد، ابن معین اور اکثر محدثین (رحمہم اللہ تعالٰی) نے ان کے بارے میں (عدم توثیق کا) احتمال غیر یقینی طور پر بیان کیا۔ امام بخاری نے اپنی کتاب القرأۃ خلف الامام میں ان کی توثیق کے بارے میں طویل گفتگو کی ہے۔ ابن حبان نے ثقات میں ان کا ذکر کیا اور یہ کہ امام مالک نے ابن اسحٰق کے بارے میں اپنے قول سے رجوع کرلیا، ان کے ساتھ متفق ہوگئے اور ان کے پاس ہدیہ ارسال کیا جس کا انہوں نے تذکرہ کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎فتح القدیر     فصل فی استحباب التعجیل    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/ ۲۰۰)

 

دیکھو صاف تصریح ہے کہ ایک جگہ کاذب پانے سے ہر جگہ مہتم سمجھنا لازم نہیں، لاجرم امام ابن عراق تنزیہ الشریعۃ میں فرماتے ہیں:قال الزرکشی فی نکتہ علی ابن الصلاح بین قولنا موضوع وقولنا لایصح بون کبیر فان الاول اثبات الکذب والاختلاق والثانی اخبار عن عدم الثبوت ولایلزم منہ اثبات العدم وھذا یجیئ فی کل حدیث قال فیہ ابن الجوزی لایصح ونحوہ قلت وکان نکتۃ تعبیرہ بذلک حیث عبربہ انہ لم یلح لہ فی الحدیث قرینۃ تدل علی انہ موضوع، غایۃ الامرانہ احتمل عندہ ان یکون موضوعا لانہ من طریق متروک اوکذاب وھذا انما یتم عندتفرد الکذاب اوالمتھم علی ان الحافظ ابن حجر خص ھذا فی النخبۃ باسم المتروک ولم ینظمہ فی مسلک الموضوع ۲؎۔زرکشی نے اپنی نکت علی ابن الصلاح میں لکھا کہ ہمارے قول موضوع اور لایصح میں بہت بڑا فرق ہے، پہلی صورت میں کذب اور گھڑنے کا اثبات ہے اور دوسری صورت میں عدم ثبوت کی اطلاع ہوتی ہے اور اس سے عدمِ وجود کا اثبات لازم نہیں آتا اور یہ ضابطہ ہر اس حدیث میں جاری ہوگا جس کے بارے میں ابن جوزی نے 'لایصح'' کہا یا اس کی مثل کوئی کلمہ کہا ہے، میں کہتا ہوں کہ حدیث کو ان الفاظ سے تعبیر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ ان کے لئے اس حدیث میں کوئی ایسا ظاہری قرینہ نہیں جس کی بنیاد پر وہ حدیث موضوع ہو، زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان کے نزدیک اس میں موضوع ہونے کا احتمال ہے کیونکہ یہ متروک یا کذاب سے مروی ہے اور یہ بات اس وقت تام ہوگی جبکہ وہ حدیث صرف اور صرف کذاب یا متہم سے مروی ہو، علاوہ ازیں حافظ ابن حجر نے ننجۃ الفکر میں اسے متروک کا نام دیا ہے، موضوع کی لڑی میں اس کو شامل نہیں کیا۔ (ت)

 

 (۲؎ تنزیہ الشریعۃ لابن عراق        کتاب التوحید فصل ثانی    دارالکتب العلمیۃ بیروت            ۱/ ۱۴۰)

 

دیکھئے تفرد کذاب کو صرف احتمال وضع کا مورث بتایا اور ابن الجوزی نے موضوعات میں جہاں موضوع کہنے سے

لایسع وغیرہ کی طرف عدول کیا اس کا یہی نکتہ ٹھہرایا کہ بوجہ تفرد کذاب یا متہم احتمال وضع تھا اگر غلبہ ظن ہوتا حکم بالوضع سے کیا مانع تھا کہ آخر صحیح موضوع وغیرہما تمام احکام میں غلبہ ظن کافی اور بلاشبہہ حجتِ شرعی ہے۔

 

اقول والاشارۃ فی قولہ خص ھذا انما تلمح الی لاقرب وھو المتھم فھو الذی خصہ الحافظ باسم المتروک اماما تفرد بہ الکذاب فھو عین الموضوع عندہ فانما عرفہ بمافیہ الطعن بکذاب الراوی فلیتنبہ ھذا کلہ ماظھرلی والحمدللّٰہ الواحد العلی۔

 

اقول زرکشی کے الفاظ ''خص ھذا'' میں اشارہ اقرب کی طرف یعنی متہم کی طرف ہے تو یہ وہی ہے جس کے لئے حافظ ابن حجر نے متروک کا نام خاص کیا ہے لیکن جس روایت میں کذب متفرد ہو وہ حافظ کے نزدیک بھی عین موضوع ہے کیونکہ انہوں نے خود موضوع کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ جس میں کذاب راوی کا طعن ہو، اس پر توجہ کرو یہ وہ امور تھے جو میرے لئے ظاہر ہوئے اور تمام حمداللہ کے لئے جو واحد وبلند ہے (ت)

 

فقیر نے اپنی بعض تحریرات میں اس مسئلہ پر قدرے کلام کرکے لکھا تھا:ھذا مایظھرلنا والمحل محل تامل فلیتامل لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرا۔یہ وہ ہے جو ہم پر ظاہر ہُوا اور یہ مقام مقامِ غوروفکر ہے لہذا ہر کوئی غور کرے، شاید اللہ تعالٰی اس کے بعد کوئی دوسرا امر ظاہر فرمادے۔ (ت)

 

الحمدللہ اب بوجہ کثیر اسے تاکد وتائید حاصل ہوا کلام(۱) امام سخاوی کی تصریح کلام(۲) علّامہ قاری وعلامہ(۳) مناوی ہیں اُس کے نظائر(۴) صریح کلام امام اجل شعبہ بن الحجاج سے استنباط صحیح تعریف(۵) امام ابن الصلاح وامام(۶) نووی وامام(۷) عراقی وامام(۸) قسطلانی کا اقتضائے نجیع حدیث(۹) سے تائید دلیلِ عقل (۱۰) سے تشیید کلام امام(۱۱) بخاری وعلامہ ابن عراق(۱۲) سے تاکیدالحمدللّٰہ سرا وجھرا فقد حقق رجائی واحدث امرا (تمام خوبیاں ظاہراً وباطناً اللہ کے لئے ہیں پس اس نے میری امید پوری کی اور نئی راہ پیدا فرمائی۔ ت)

 

تنبیہ:  (تنبیہ متعلق افادہ ۲۵ کہ کتاب موضوعات میں ذکر حدیث مؤلف کے نزدیک یہ مستلزم موضوعیت نہیں) اس عبارت تنزیہ الشریعۃ سے ایک اور نفیس فائدہ حاصل ہوا کہ کتب موضوعات قسم اول میں بھی لفظ حکم پر لحاظ چاہئے اگر صراحۃً موضوع یا باطل کہہ دیا تو مؤلف کے نزدیک وضع ثابت ہوگی اور اگر لایصح وغیرہ ہلکے الفاظ کی طرف عدول کیا تو آخر یہ عدول بے چیزے نیست ظاہراً خود مؤلف کو اُس پر حکمِ وضع کی جرأت نہ ہُوئی صرف احتمال درج کتاب کیافافہم فلعلہ حسن وجیہ ولم ارہ لغیرہ فلیحفظ (اسے اچھی طرح سمجھ لیجئے شاید یہ بہتر توجیہ ہو اور میں نے اسے کسی غیر سے نہیں پڑھا پس اسے محفوظ کرلیجئے۔ ت)

 

فائدہ ۵:    (مجہول العین کا قبول ہی مذہب محققین ہے) افادہ دوم میں گزرا کہ امام نووی نے مجہول العین کا قبول بہت محققین کی طرف نسبت کیا اور امام اجل ابوطالب مکّی نے اُسی کو مذہب فقہائے کرام واولیائے عظام قرار دیااور یہی مذہب ہمارے ائمہ اعلام کا ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔ مسلم الثبوت وفواتح الرحموت میں ہے :

 

 (لا) جرح (بان لہ راویا) واحدا (لفظ) دون غیرہ (وھو مجھول العین باصطلاح) کسمعان لیس لہ راوغیر الشعبی فان المناط العدالۃ والحفظ لاتعدد الرواۃ وقیل لایقبل عند المحدثین وھو تحکم ۱؎ اھ مختصرا۔اس میں جرح (نہیں کہ (اس کا راوی) (فقط) ایک ہے (اور وہ اصطلاح میں مجہول العین ہے) مثلاً سمعان، ان سے راوی شعبی کے علاوہ کوئی نہیں کیونکہ مدار عدالت راوی وحفظ ہے، راویوں کا متعدد وہونا نہیں، بعض نے کہا کہ محدثین کے نزدیک یہ مقبول نہیں یہ زیادتی ہے اھ مختصراً (ت)

 

(۱؎ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفی    مسئلہ مجہول الحال الح     مطبوعہ منشورات الشریف الرضی قم    ۲/ ۱۴۹)

 

پس دربارہ مجہول قول مقبول یہ ہے کہ مستور ومجہول العین دونوں حجت، ہاں مجہول الحال جس کی عدالت ظاہری بھی معلوم نہ ہو احکام میں حجت نہیں فضائل میں بالاتفاق وہ بھی مقبول۔

 

تنبیہ (غالباً مطلق مجہول سے مراد مجہول العین ہوتا ہے) مجہول جب مطلق بولا جاتا ہے تو کلام محدثین میں غالباً اُس سے مراد مجہول العین ہے، امام سبکی شفاء السقام  عہ میں فرماتے ہیں:

 

جھالۃ العین وھو غالب اصطلاح اھل ھذا الشان فی ھذا الاطلاق ۲؎۔محدثین جب مطلقاً مجہول کا لفظ بولیں تو اکثر طور پر اس سے مراد مجہول العین ہوتا ہے۔ (ت)

 

عہ: فی الباب الاول تحت حدیث الاول ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

 

 (۲؎ شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام    الحدیث الاول    مطبوعہ نوریہ رضویہ فیصل آباد        ص ۹)

 

فائدہ ۵:    (فائدہ ۵ متعلق افادہ ۲۱ کہ قبول ضعیف کے لئے درود صحیح کی حاجت نہیں) ہم نے افادہ ۲۱ میں روشن دلیلوں سے ثابت کیا کہ مادون الاحکام میں ضعیف محتاج ورود صحیح نہیں اور دلیل ثابت میں اس کی دس۱۰ نظائر کے پتے دئے سب سے اجل واعظم یہ کہ اکابر ائمہ کرام اعاظم محدثین اعلام مثل امام(۱) ابن عساکر وامام(۲) ابن شاہین وابوبکر(۳) خطیب بغدادی وامام(۴) سہیلی وامام(۵) محب الدین طبری وعلامہ(۶) ناصرالدین ابن المنیر وعلامہ(۷) ابن سید الناس وحافظ(۸) ابن ناصر وخاتم(۹) الحفاظ وعلامہ(۱۰) زرقانی وغیرہم نے حدیث احیاءِ ابوین کریمین کو باوصف تسلیم ضعف دربارہ فضائل ایسا معمول ومقبول مانا کہ اسے احادیث سے کہ بظاہر مخالف تھیں متاخر ٹھہرا کر اُن کا ناسخ جانا تو خود اس باب میں حدیث صحیح کی حاجت درکنار اُس کے مقابل کی صحاح اُس سے منسوخ نے ٹھہرائیں شرح مواہب لدنیہ میں ہے :

 

قال ا لسیوطی فی سبیل النجاۃ مال الی ان اللّٰہ تعالی احیاھما حتی اٰمنا بہ طائفۃ من الائمۃ وحفاظ الحدیث واستندوا الی حدیث ضعیف، لاموضوع کالخطیب وابن عساکر وابن شاھین والسھیلی والمحب الطبری والعلامۃ ناصرالدین ابن المنیر وابن سیدالناس ونقلہ عن بعض اھل العلم ومشی علیہ الصلاح الصفدی، والحافظ ابن ناصر، وقد جعل ھؤلاء الائمۃ ھذا الحدیث ناسخا للاحادیث الواردۃ بمایخالفہ ونصوا علی انہ متاخر عنھا فلاتعارض بینہ وبینھا اھ وقال فی الدرج المنیفۃ جعلوہ ناسخا ولم یبالوا بضعفہ لان الحدیث الضعیف یعمل بہ فی الفضائل والمناقب وھٰذہ منقبۃ ھذا کلام ھذا الجھبذ وھو فی غایۃ التحریر ۱؎ اھ ملخصا۔

 

امام سیوطی نے سبیل النجاۃ میں فرمایا کہ ائمہ اور حفاظ حدیث کی ایک جماعت اس طرف مائل ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضور علیہ السلام کے والدین کریمین کو زندہ فرمایا اور وہ آپ کی ذاتِ اقدس پر ایمان لائے، یہ قول انہوں نے ایک ایسی حدیث کی بنا پر کیا ہے جو ضعیف ہے موضوع نہیں، وہ ائمہ یہ ہیں مثلاً خطیب بغدادی، ابن عساکر، ابن شاہین، سہیلی، محب طبری، علامہ ناصرالدین بن منیر اور ابن سیدالناس۔ اسے بعض اہلِ علم سے نقل کیا اور اسی پر صلاح الصفدی اور حافظ ابنِ ناصر چلے ہیں اور ان ائمہ نے اس مذکورہ حدیث کو اس سلسلہ میں وارد مخالف احادیث کے لئے ناسخ قرار دیا اور تصریح کی ہے کہ یہ حدیث ان سے موخر ہے لہذا اس کے اور ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں اھ اور درج المنیفہ میں فرمایا کہ اس حدیث کو محدثین نے ناسخ قرار دیتے ہوئے اس کے ضعف کی پرواہ نہیں کی کیونکہ فضائل ومناقب میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جاتا ہے اور یہ (والدین کا اسلام لانا) آپ کی منقبت ہے، یہ ان ماہرین حدیث کا کلام ہے اور یہ اس مسئلہ میں انتہائی بہتر رائے اور تحریر ہے اھ ملخصا (ت)

 

 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ   باب وفات امہ ومایتعلق بابویہ صلی اللہ علیہ وسلم  مطبوعہ مطبعۃ العامرہ مصر  ۱/ ۱۹۷)

 

تنبیہ ضروری (وہابیہ کے ایک کید پر آگاہ کرنا) اقول جب کسی اصل کا کلمات علما سے اثبات منظور ہوتو اس کے لئے کافی ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں فروع میں اس پر مشی فرمائی ہُوا کہ یہ اصل اُن کے نزدیک متأصل ہے اُن کلمات کی نقل سے غرض مستدل اسی قدر امر سے متعلق اگرچہ وہ فرع خاص بنظر کسی اور وجہ کے اس کو مسلّم نہ ہو مثلاً ہم نے افادہ ۲۸ میں اس امر کے استحباب کو کہ موضوعیت مستلزم ممنوعیت نہیں کلام ائمہ سے چند نظائر نقل کیے کہ دیکھو حدیث کو موضوع اور فعل کو مشروع مانا اسی قدر سے استدلال تمام ہوگیا اگرچہ ہمیں ان بعض احادیث کی وضع تسلیم نہ ہو، یونہی یہاں اتنی بات سے کام ہے کہ علمائے نے ضعیف کو صحیح سے اتنا مستغنی مانا کہ ناسخ جانا دعوٰی غنا مؤید ومشید ہوگیااگرچہ ہم قائل نسخ نہ ہوں اور دوسرے طور پر صحاح کا معارضہ دفع کرکے ان ضعاف کو قبول کریں، یہ نکتہ ہمیشہ ملحوظ رکھنے کا ہے کہ متکلمین وہابیہ دھوکے دیتے اور خارج از مبحث اُس فرع کے ترجیح وتزییف کی طرف کتراجاتے ہیں۔ خاتمۃ المحققین سیدنا الوالد قدس سرہ الماجد نے قاعدہ یازدہم اصول الرشاد شریف میں اُن سُفہا کے اس کید ضعیف کی طرف ایمائے لطیف فرمایا یونہی فقیر نے آخر نکتہ جلیلہ فصل سیزدہم نوع اول مقصد سوم کتاب حیاۃ المواۃ فی بیان سماع الاموات (۱۳۰۵ھ) میں سے اس کی نظیر پر متنبہ کیا فلیحفظ ۔

 

فائدہ ۶:    (فائدہ ۶ کا متعلق افادہ ۲۰ کہ حدیث ضعیف بعض احکام میں بھی مقبول) افادہ ۲۰ میں گزرا کہ فضائل تو فضائل بعض احکام میں بھی حدیث ضعیف مقبول ہے جبکہ محل محل احتیاط ونفع بے ضرر ہو اُس کی ایک اور نظیر نیز علامہ حلبی کا فرمانا ہے کہ نماز میں سُترہ کو سیدھا اپنے سامنے نہ رکھے بلکہ دہنی یا بائیں ابروپر ہوکہ حدیث میں ایسا وارد ہوا اور وہ اگرچہ ضعیف ہے مگر ایسے حکم میں مقبول۔

 

حیث قال عہ ینبغی ان یجعلھا حیال احد حاجبیہ لماروی ابوداؤد من حدیث ضباعۃ بنت المقداد بن الاسود عن ابیھا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال مارأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یصلی الی عود ولاعمود ولاشجرۃ الاجعلہ علی حاجبہ الایمن اوالایسر ولایصمد لہ صمدا، وقداعل بالولید بن کامل وبجھالۃ ضباعۃ، لکن ھذا الحکم ممایجوز العمل فیہ بمثل ھذا، لانہ من الفضائل ۱؎ اھ باختصار۔

 

الفاظ یہ ہیں مستحب یہ ہے کہ سُترہ دونوں ابروؤں میں سے کسی ایک کے سامنے کھڑا کیا جائے جیسا کہ ابوداؤد نے ضباعۃ بنت مقداد بن اسود اور انہوں نے اپنے والد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کسی لکڑی، ستون یا درخت کی طرف نماز ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا مگر آپ اس کو اپنی دائیں یا بائیں ابرو مبارک کے سامنے کردیتے بالکل سیدھا اس کی طرف رُخ نہ ہوتا۔ اس حدیث کو ولید بن کامل اور ضباعۃ کے مجہول ہونے کی وجہ سے معلول قرار دیا گیا، لیکن یہ حکم ان مسائل میں سے ہے جن پر عمل اس طرح کی روایت سے جائز ہے کیونکہ یہ مسئلہ فضائل اعمال سے ہے اھ باختصار۔ (ت) عہ: اواخر کراھۃ الصلاۃ قبیل الفروع ۱۲ منہ (م)

 

 (۱؎ غنیۃ المستملی فروع فی الخلاصہ  مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور ص ۳۶۸)

 

ایک اور اعلٰی واجل نظیر کلام امام(۱) حافظ محدث ابوبکر بیہقی وامام(۲) محقق علی الاطلاق وامام(۳) ابن امیرالحاج وعلامہ(۴) ابراہیم حلبی وعلامہ(۵) حسن شرنبلالی وعلامہ(۶) سید احمد طحطاوی وعلامہ(۷) سید ابن عبادین شامی وغیرہم علمائے اعلام رحمہم اللہ تعالٰی سے یہ ہے کہ  سُنن ابی داؤد وابن ماجہ میں بطریق ابوعمر یا ابومحمد بن محمد بن حریث عن جدہ حریث رجل من بنی عذرۃ، عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ عن الابی القاسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دربارہ سترہ نماز مروی ہوا:فان لم یکن معہ عصا فلیخطط خطا ۱؎۔اگر اس کے پاس لکڑی نہ ہوتو اپنے سامنے ایک خط کھینچ لے۔

 

 (۱؎سنن ابی داؤد    باب الخط اذالم یجد عصاً    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/ ۱۰۰)

 

امام ابوداؤد نے کہا امام سفٰین بن عینیہ نے فرمایا: لم نجد شیئا نشدبہ ھذا الحدیث ولم یجئ الامن ھذا الوجہ ۲؎۔ہم نے کوئی چیز نہ پائی جس سے اس حدیث کو قوت دیں اور اس سند کے سوا دوسرے طریق سے نہ آئی۔

 

 (۲؎ سنن ابی داؤد    باب الخط اذالم یجد عصاً    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/ ۱۰۰)

 

یونہی امام شافعی وامام بیہقی وامام نووی وغیرہم ائمہ نے اس کی تضعیف ؎ فرمائی باینہمہ ائمہ وعلمائے مذکورین نے تصریح کی کہ حدیث ضعیف سہی ایسے حکم میں حجت ومقبول ہے کہ اُس میں نفع بے ضرر ہے،

 

عہ :قال فی الحلیۃ ثم فی ردالمحتار وقدیعارض تضعیفہ بتصحیح احمد وابن حبان وغیرھما لہ اھ وعقبہ فی الحلیۃ بمایاتی عنھا من قولہ ویظھر ان الاشبھہ الخ وقال فی المرقاۃ قداشار الشافعی الی ضعفہ واضطرابہ قال ابن حجر صححہ احمد وابن المدینی وابن المنذر وابن حبان وغیرھم وجزم بضعفہ النووی اھ ملخصا قلت وھو وان فرض صحتہ لم یضرنا فیما نحن بصددہ لماقدمنا انفافی التنبیہ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

حلیہ پھر ردالمحتار میں ہے کہ اسکی تضعیف کبھی احمد اور ابن حبان وغیرہ کی تصحیح کے معارض ہوتی ہے اور حلیہ میں اس کا تعاقب ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے جو آگے آرہے ہیں یعنی ''وان یظھر ان الاشبہ الخ'' اور مرقات میں ہے کہ امام شافعی نے اس کے ضعف اور اضطراب کی طرف اشارہ کیا ہے، ابن حجر نے کہا کہ احمد، ابن مدینی، ابن منذر اور ابن حبان وغیرہ نے اس کی تصحیح کی ہے اور امام نووی نے اس کے ضعف پر جزم کیا ہے اھ ملخصا۔ میں کہتا ہوں اگر اس کی صحت ہی فرض کرلی جائے تو ہمارے بیان کردہ مسئلہ میں یہ نقصان دہ نہیں جیسا کہ ابھی ہم نے تنبیہ میں اس کا ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

مرقاۃ شرح مشکوٰۃ امام ابن حجر مکی سے منقول:قال البیہقی لاباس بالعمل بہ وان اضطرب اسنادہ فی مثل ھذا الحکم ان شاء اللّٰہ تعالٰی ۱؎۔امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اگرچہ اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے مگر اس طرح کے مسائل میں اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ان شاء اللہ تعالٰی۔ (ت)

 

 (۱؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ    الفصل الثانی من باب السترۃ    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان    ۲/ ۲۴۶)

 

حلیہ میں فرمایا: یظھر ان الاشبہ قول البیہقی ولاباس بالعمل بھذا الحدیث فی ھذا الحکم ان شاء اللّٰہ تعالٰی، وجزم بہ شیخنا رحمہ اللّٰہ تعالٰی فقال والسنۃ اولی بالاتباع ۲؎۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ بیہقی کا قول اس حکم میں اس حدیث پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ان شاء اللہ تعالٰی اشبہ ومختار ہے، اور اسی پر ہمارے شیخ رحمہ اللہ تعالٰی نے یہ کہتے ہوئے جزم فرمایا کہ سنّت زیادہ لائقِ اتباع ہے۔ (ت)

 

(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

غنیہ میں ہے : من جوزہ استدل بحدیث ابی داؤد وتقدم مافیہ لکن قدیقال انہ یجوز العمل بمثلہ فی الفضائل کمامر اٰنفا ولذا قال ابن الھمام والسنۃ اولٰی بالاتباع ۳؎ اھ ملخصا۔

 

جس نے جائز قرار دیا اس کا حدیث ابی داؤد سے استدلال ہے اور اس حدیث میں جوہے وہ پیچھے بیان ہوچکا، لیکن کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ فضائل میں ایسی حدیث ضعیف پر عمل جائز ہے جیسا کہ ابھی گزرا اور اسی لئے امام ابن الہمام نے فرمایا سنّت زیادہ لائقِ اتباع ہے اھ ملخصا۔ (ت)

 

 (۳؎ غنیۃ المستملی    فروع فی الخلاصہ        مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور    ص ۳۶۸)

 

نیز غنیہ پھر امداد الفتاح شرح نورالایضاح پھر حاشیہ طحطاویہ علی مراقی الفلاح میں ہے:ان سلم انہ یعنی الخط غیر مفید فلاضرر فیہ مع مافیہ من العمل بالحدیث الذی یجوز العمل بہ فی مثلہ ۴؎۔اگر تسلیم کرلیا جائے کہ خط مفید نہیں تو اس میں کوئی ضرر نہیں باجود اس کے محل نظر ہونے کے یہ حدیث ان میں سے ہے جس پر ایسے احکام میں عمل جائز ہوتا ہے۔ (ت)

 

 (۴؎ غنیۃ المستملی    فروع فی الخلاصہ        مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور  ص ۳۶۹)

 

ردالمحتار میں ہے : یسن الخط کماھو الروایۃ الثانیۃ عن محمد لحدیث ابی داؤد فان یکن معہ عصا فلیخط خطا وھو ضعیف لکنہ یجوز العمل بہ فی الفضائل ولذا قال ابن الھمام والسنۃ اولی بالاتباع ۱؎ الخ۔

 

خط کھینچنا مسنون ہے جیسا کہ امام محمد کی روایت ثانیہ ہے انہوں نے ابوداؤد کی اس حدیث اس سے استدلال کیا: اگر نمازی کے پاس عصا (لکڑی) نہ ہوتو ایک خط کھینچ لے۔ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے اس بنا پر امام ابن حمام نے فرمایا: سنت زیادہ لائقِ اتباع ہے الخ۔ (ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار    باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فبہا    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۴۷۱)

 

تنبیہ (فضائلِ اعمال سے مراد اعمالِ حسنہ ہیں، نہ صرف ثوابِ اعمال) ان دونوں نظیروں میں علامہ ابراہیم حلبی اور نظیر اخیر میں علّامہ شامی کا ان افعال میں سُترہ کو ابرو کے مقابل رکھنے یا خط کھینچنے کو فضائل سے بتانا اُس معنی کی صریح تصریح کررہا ہے جو فقیر نے حاشیہ افادہ ۲۱ میں ذکر کیا تھا کہ فضائلِ اعمال سے مراد اعمالِ فضائل ہیں یعنی وہ اعمال کہ بہتر ومستحسن ہیں نہ خاص ثواب اعمال، یہاں سے خیالات باطلہ گنگوہیہ کی تفضیح کامل ہوتی ہے وللہ الحمد۔

 

فائدہ ۷:    (حدیث ضعیف سے سنیت بھی ثابت ہوسکتی ہے یا نہیں) عبارت ردالمحتار کہ ابھی منقول ہوئی بتارہی ہے کہ امثال مقام میں نہ صرف استحباب بلکہ سنّیت بھی حدیث ضعیف سے ثابت ہوسکتی ہے یونہی افادہ ۱۷ میں علی قاری کا ارشاد گزرا کہ حدیث ضعیف کے سبب ہمارے علماء نے مسح گردن کو مستحب یا سنّت مانا۔

 

اقول لکن قال الامام ابن امیرالحاج فی الحلیۃ بعد ماذکر حدیث ابن ماجۃ عن الفاکہ وعن ابن عباس والبزار عن ابی رافع رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم فی اغتسال النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یوم العیدین وقال ان فی اسانید ھٰذہ ضعفاء مانصہ، واستنان غسل العیدین ان قلنا بان تعدد الطرق الواردۃ فیہ یبلغ درجۃ الحسن، والالندب وفی ذلک تأمل ۲؎ اھ

 

اقول لیکن امام ابن امیرالحاج نے حلیہ میں عیدین کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں حدیث ابن ماجہ، فاکہ، ابن عباس سے اور حدیث بزار، ابورافع رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کرنے کے بعد کہا کہ ان اسانید میں راوی ضعیف ہیں، اور پھر کہا کہ عیدین کے موقعہ پر غسل سنّت ہے اگر ہم یہ کہیں کہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہونے کی بنا پر حسن کا درجہ پاچکی ہے اور اگر یہ نہیں تو غسل مستحب ہے اور اس میں تأمل ہے اھ۔

 

 (۲؎ حلیۃ المحلی    شرح منیۃ المصلی)

 

فقداشار رحمہ اللّٰہ تعالٰی الٰی ان الضعیف لایفید الاستنان ولک ان تقول ان السنۃ ربما تطلق علی المستحب کعکسہ کما صرحوا بھما فیتجہ کلام الشامی والقاری وبہ یحصل التوفیق بین الروایتین عن علمائنا فی المسألۃ اعنی مسألۃ الخط، فمن اثبت اراد الاستحسان ومن نفی نفی الاستنان وقدکان متأیدا بمافی الحلیۃ ھل ینوب الخط بین یدیہ منابھا فعن ابی حنیفۃ وھو احدی الروایتین عن محمد انہ لیس بشیئ ای لیس بشیئ مسنون اھ لولا انہ زاد بعدہ بل فعلہ وترکہ سواء ۱؎ انتھی ففیہ بعدبعد فافھم۔

 

امام رحمہ اللہ تعالٰی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حدیث ضعیف سنّت کا فائدہ نہیں دیتی، اور تیرے لئے یہ جائز ہے کہ تُو کہے کہ بعض سنّت کا اطلاق مستحب اور مستحب کا سنت پر ہوتا رہتا ہے جیسا کہ فقہا نے اس کی اور تصریح کی ہے، لہذا امام شامی اور قاری کے کلام کی توجیہ ہوجائے گی اور اسی سے مسئلہ خط میں ہمارے علماء سے مروی دو۲ روایات میں تطبیق بھی ہوجائے گی، پس جس نے اسے ثابت کیا اس نے اس استحسان کا ارادہ کیا اور جس نے نفی کی اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ سنّت نہیں اور اس کی تائید حلیہ کی اس عبارت سے ہوتی ہے کہ کیا خط سترہ کے قائم مقام ہوگا یا نہیں؟ تو امام ابوحنیفہ اور ایک روایت کے مطابق امام محمد فرماتے ہیں کہ یہ کوئی شیئ نہیں یعنی سنّت نہیں اھ کاش اس کے بعد وہ یہ اضافہ نہ کرتے کہ اس کا کرنا اور چھوڑنا برابر ہے انتہی، اس میں نہایت ہی بعد ہے اسے اچھی طرح سمجھ لو۔ (ت)

 

 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

فائدہ ۸:    (فائدہ ۸ متعلق افادہ ۱۱ کہ وضع یا ضعف کا حکم کبھی بلحاظ سند خاص ہوتا ہے نہ بلحاظ اصل حدیث) ہم نے افادہ ۱۱ میں بہت نصوص نقل کیے کہ بارہا محدثین کا کسی حدیث کو موضوع یا ضعیف کہنا ایک سند خاص کے اعتبار سے ہوتا ہے نہ کہ اصل حدیث کے۔ اور سُنیے حدیث صحیح زکوٰۃ حلی، مروی سنن ابی داؤد ونسائی:

 

امرأۃ اتت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ومعھا ابنۃ لھا وفی یدابنتھا مسکتان غلیظتان من ذھب فقال أتعطین زکاۃ ھذا قالت لاقال ایسرک ان یسورک اللّٰہ بھما یوم القٰیمۃ سوارین من نار قال فخلعتھما فالقتھما الی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فقالت ھما للّٰہ ورسولہ ۱؎۔یعنی ایک بی بی خدمتِ اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں اُن کی بیٹی ان کے ساتھ تھیں دُختر کے ہاتھ میں سونے کے کڑے تھے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ عرض کی نہیں۔ فرمایا: کیا تجھے یہ پسند ہے کہ اللہ عزوجل قیامت میں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنچائے، اُن بی بی نے کڑے اتار کر ڈال دئے اور عرض کی یہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

 (۱؎ سُنن ابی داؤد    باب الکنز ماہو وزکوٰۃ الحلی    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/ ۲۱۸

سنن النسائی       باب الحلی  دار الحیل بیروت   ۳/ ۳۸)

 

جیسے امام ابوالحسن ابن القطان وامام ابن الملقن وعلّامہ سید میرک نے کہا:اسنادہ صحیح ۲؎ (اس کی سند صحیح ہے)

 

 (۲؎ فتح القدیر        بحوالہ ابی الحسن ابن القطعان    فصل فی الذھب، مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۲/ ۱۶۴)

 

امام عبدالعظیم منذری نے مختصر میں فرمایا:اسنادہ لامقال فیہ ۳؎ (اس کی سند میں کچھ گفتگو نہیں)

 

 (۳؎ فتح القدیر        بحوالہ ابی الحسن ابن القطعان    فصل فی الذھب، مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر  ۲/ ۱۶۴)

 

محقق علی الاطلاق نے فرمایا:لاشبھۃ فی صحتہ ۴؎ (اس کی صحت میں کچھ شبہہ نہیں)

 

 (۴؎ فتح القدیر        بحوالہ ابی الحسن ابن القطعان    فصل فی الذھب، مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر  ۲/ ۱۶۵)

 

امام ترمذی نے جامع میں روایت کرکے فرمایا:لایصح فی ھذا الباب عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۵؎ شیئ (اس باب میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کچھ صحیح مروی نہ ہوا)

 

 (۵؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی زکوٰۃ الحلّی        مطبوعہ  آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۸۱)

 

امام منذری نے فرمایا: لعل الترمذی قصد الطریقین الذین ذکرھما والافطریق ابی داؤد لامقال فیہ ۶؎ (شاید ترمذی ان دو طریق کو کہتے ہیں جو انہوں نے ذکر کیے ورنہ سند ابی داؤد میں اصلا جائے گفتگو نہیں)

 

 (۶؎ فتح القدیر بحوالہ المنذر    فصل فی الذھب       مطبوعہ  نوریہ رضویہ سکھر    ۲/ ۱۶۴)

 

ابن القطان نے فرمایا : انما ضعف ھذا الحدیث لان عندہ فیہ ضعیفین ابن لھیعۃ والمثنی بن الصباح ۷؎۔انہوں نے اس وجہ سے تضعیف کی کہ ان کے پاس اس کی سند میں دو۲ راوی ضعیف تھے ابن لہیعۃ اور مثنی بن الصباح۔

 

ذکرہ الامام المحقق فی الفتح ثم العلامۃ القاری فی المرقاۃ۔اسے امام محقق نے فتح القدیر اور ملّاعلی قاری نے مرقاۃ میں ذکر کیا۔ (ت)

 

 (۷؎ فتح القدیر بحوالہ ابن القطان         فصل فی الذھب       مطبوعہ   نوریہ رضویہ سکھر    ۲/ ۱۶۴)

 

اور سُنیے حدیث ردّ شمس کہ حضور پُرنور سید الانوار، ماہِ عرب، مہرِ عجم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے ڈوبا ہُوا آفتاب پلٹ آیا، مغرب ہوکر پھر عصر کا وقت ہوگیا یہاں تک کہ امیرالمومنین مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم نے نمازِ عصر ادا کی جسے طحاوی و امام قاضی عیاض وامام مغلطای وامام قطب خیضری وامام حافظ الشان عسقلانی وامام خاتم الحفاظ سیوطی وغیرہم اجلہ کرام نے حسن وصحیح کہاکماھو مفصل فی الشفاء وشروحہ والمواھب وشرحھا (جیسے شفاء اس کی شروح اور مواہب اور اس کی شرح زرقانی میں تفصیلاً مذکور ہے۔ ت) علامہ شامی اپنی سیرت پھر علّامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں:

 

اماقول الامام احمد وجماعۃ من الحفاظ بوضعہ فالظاھر انہ وقع لھم من طریق بعض الکذابین والافطرقہ السابقۃ یتعذر معھا الحکم علیہ بالضعف فضلا عن الوضع ۱؎۔

 

امام احمد اور حفّاظ کی ایک جماعت کا اسے موضوع قرار دینا اس وجہ سے ہے کہ ان کو یہ روایت ایسے لوگوں کے ذریعے پہنچی ہوگی جو کذاب تھے ورنہ اس کی سابقہ تمام اسانید پر ضعف کا حکم لگانا متعذر ہے، چہ جائیکہ اسے موضوع کہا جائے۔ (ت)

 

 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ    ردّ شمس لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم    مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر    ۵/۱۳۲)

 

عام تر سُنیے امام شیخ الاسلام عمدۃ الکرام مرجع العلماء الاعلام تقی الملۃ والدین ابوالحسن علی بن عبدالکافی سبکی قدس سرہ الملکی کتاب مستطاب مظہر الصواب مرغم الشیطان مدغم الایمان شفاء السقام عہ فی زیادۃ خیرالانام علیہ وعلٰی آلہٖ افضل الصلاۃ والسلام میں فرماتے ہیں:

 

ومما یجب ان یتنبہ لہ ان حکم المحدثین بالانکار والاستغراب قدیکون بحسب تلک الطریق فلایلزم من ذلک ردمتن الحدیث بخلاف اطلاق الفقیہ ان الحدیث موضوع فانہ حکم علی المتن من حیث الجملۃ ۲؎۔

 

اس سے آگاہ رہنا واجب ہے کہ محدثین کا کسی حدیث کو منکر یا غریب کہنا کبھی خاص ایک سند کے لحاظ سے ہوتا ہے تو اس سے اصل حدیث کا رد لازم نہیں آتا بخلاف فقیہ کے موضوع کہنے کہ وہ بالاجمال اُس متن پر حکم ہے۔

 

عہ: فی الباب الاول تحت الحدیث الخامس من حج البیت فم یزرنی فقد جفانی ۱۲ منہ (م)

باب اول میں حدیث خامس کے تحت یہ مذکور ہے جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ پر ظلم کیا ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ شفاء السقام        الحدیث الخامس    مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ص ۲۹)

 

لطیفہ جلیلہ منیفہ: (لطیفہ جلیلہ منیفہ جان پر لاکھ من کا پہاڑ) ابوداؤد ونسائی کی یہ حدیث صحیح عظیم جلیل جس میں اُن بی بی نے کڑوں کے صدقہ کرنے میں اللہ عزوجل کے ساتھ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک بھی ملایا اور حضور نے انکار نہ فرمایا بعینہٖ یہی مضمون صحیح بخاری وصحیح مسلم نے حدیث تو بہ کعب بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ میں روایت کیا کہ جب ان کی توبہ قبول ہُوئی عرض کی:یارسول اللّٰہ من توبتی ان انخلع من مالی صدقۃ الی اللّٰہ والٰی رسولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎۔یارسول اللہ! میری توبہ کی تمامی یہ ہے کہ میں اپنا سارا مالی اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے صدقہ کردوں۔

 

 (۱؎ صحیح البخاری    باب قولہ تعالٰی لقدتاب اللہ علی النبی الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۶۷۵)

 

حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انکار نہ فرمایا۔ یہ حدیثیں حضراتِ وہابیہ کی جان پر آفت ہیں اِنہیں دو۲ پر کیا موقوف فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے بجواب استفتائے بعض علمائے دہلی ایک نفیس وجلیل وموجز رسالہ مسمی بنام تاریخی الامن والعلی لناعتی المصطفی (عہ۱)  بدافع البلا(۱۳۱۰ھ) ملقب بلقب تاریخی اکمال الطّامہ علی شرک سوی بالامور العامہ تالیف کیا اس میں ایسی بہت کثیر وعظیم باتوں کا آیات واحادیث سے صاف وصریح ثبوت دیا مثلاً قرآن وحدیث ناطق ہیں اللہ ورسول (عہ۲)  نے دولتمند کردیا، اللہ ورسول (عہ۳) نگہبان ہیں، اللہ ورسول (عہ۴)  بے والیوں کے والی ہیں، اللہ ورسول (عہ۵)مالوں کے مالک ہیں، اللہ ورسول (عہ۶) زمین کے مالک ہیں، اللہ ورسول (عہ۷) کی طرف توبہ، اللہ ورسول (عہ۸) کی دوہائی، اللہ ورسول(عہ۹) دینے والے ہیں، اللہ ورسول (عہ۱۰)سے دینے کی توقع، اللہ ورسول (عہ۱۱) نے نعمت دی، اللہ ورسول (عہ۱۲) نے عزّت بخشی۔ حضور (عہ۱۳) اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی اُمت کے حافظ ونگہبان ہیں، حضور (عہ۱۴)کی طرف سب کے ہاتھ پھیلے ہیں، حضور (عہ۱۵) کے آگے سب گڑگڑا رہے ہیں، حضور (عہ۱۶) ساری زمین کے مالک ہیں، حضور (عہ۱۷) سب آدمیوں کے مالک ہیں، حضور (عہ۱۸) تمام امتوں کے مالک ہیں، ساری دنیا کی مخلوق حضور (عہ۱۹) کے قبضہ میں ہے، مدد کی کنجیاں حضور (عہ۲۰) کے ہاتھ میں ہیں، نفع کی کنجیاں حضور(عہ۲۱)کے ہاتھ میں، جنت کی کنجیاں (عہ۲۲) حضور کے ہاتھ میں، دوزخ کی کنجیاں حضور (عہ۲۳) کے ہاتھ میں، آخرت میں عزّت دینا حضور (عہ۲۴) کے ہاتھ میں، قیامت میں کل اختیار حضور (عہ۲۵) کے ہاتھ میں ہیں، حضور (عہ۲۶) مصیبتوں کو دُور فرمانے والے، حضور (عہ۲۷) سختیوں کے ٹالنے والے، ابوبکر صدیق وعمر فاروق حضور (عہ۲۸)کے بندے، حضور (عہ۲۹) کے خادم نے بیٹا دیا، حضور (عہ۳۰) کے خادم رزق آسان کرتے ہیں، حضور (عہ۳۱) کے خادم بلائیں دفع کرتے ہیں،

 

عہ۱ : صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ              عہ۲ تا عہ۱۲ جل جلالہ، وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ

عہ۱۳ تا عہ۳۱ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ

 

حضور (عہ۱) کے خادم بلندی مرتبہ دیتے ہیں، حضور (عہ۲)کے خادم تمام کاروبارِ عالم کی تدبیر کرتے ہیں، اولیا کے سبب بَلا دُور ہوتی ہے، اولیا کے سبب رزق ملتا ہے، اولیا کے سبب مدد ملتی ہے، اولیا کے سبب مینہ اُترتا ہے، اولیا کے سبب زمین قائم ہے۔ یہ اور ان جیسی بیسیوں باتیں صرف قرآن وحدیث سے لکھی ہیں، وہابی صاحب شرک وغیرہ جو حکم لگانا چاہیں اللہ ورسول کی جناب میں بکیں یا خدا ورسول سے لڑیں اگر لڑسکیں، اس میں یہ بھی روشن دلیلوں سے ثابت کردیا ہے کہ وہابی مذہب نے یوسف علیہ الصلاۃ والسلام، عیسٰی علیہ الصلاۃ والسلام، جبریل علیہ الصّلٰوۃ والسلام اور خود حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یہاں تک کہ خود رب العزت جل جلالہ کسی کو سخت شنیع الزام لگانے سے نہیں چھوڑا۔ ضمناً یہ بھی واضح دلائل سے بتادیا گیا کہ وہابی صاحبوں کے نزدیک جناب شیخ مجدد صاحب ومرزا جانِ جاناں صاحب وشاہ ولی اللہ صاحب وشاہ عبدالعزیز صاحب اور اُن کے اساتذہ ومشائخ یہاں تک کہ خود میاں اسمٰعیل دہلوی سب کے سب پکّے مشرک تھے، غرض وہابی مذہب پر شرک امور عامہ سے ہے جس سے معاذاللہ ملائکہ سے لے کر رسولوں، بندوں سے لے کر ربِّ جلیل تک، شاہ ولی اللہ سے لے کر ان کے پیروں اُستادوں، شاہ عبدالعزیز صاحب سے خود میاں اسمٰعیل تک کوئی خالی نہیں، وہابیت کا پھاگ، نجدیت کی ہولی، شرک کا رنگ، تقویۃ الایمان کی پچکاری ہے، زور گھنگھور شراٹوں کا شور، سارا جہان شرابور، پولو کی قید نہ اماوس پہ چھور، یہ انوکھا پھاگن بارہ ماوس جاری ہے ؎

 

اشراک بمذہبے کہ تاحق برسد

مذہب معلوم واہل مذہب معلوم

ولاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔

 

یہ مختصر رسالہ کہ چار۴ جُز سے بھی کم ہے ایک سوتیس ۱۳۰ سے زیادہ فائدوں اور تیس۳۰ آیتوں اور ستر۷۰ سے زیادہ حدیثوں پر مشتمل ہے جو اس کے سوا کہیں مجتمع نہ ملیں گے بحمداللہ تعالٰی اُس کی نفاست، اُس کی جلالت، اُس کی صولت، اُس کی شوکت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

 

ذلک من فضل اللّٰہ علینا وعلی الناس ولکن اکثر الناس لایشکرون ۱؎ رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی وعلی والدیّ وان اعمل صٰلحا ترضہ  واصلح فی ذریتی انی تبت الیک وانی من المسلمین ۱؎۔ والحمدللّٰہ رب العٰلمینo

 

یہ اللہ کا ہم پر اور لوگوں پر فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے، اے میرے رب مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں ان نعمتوں پر تیرا شکر کروں جو تُو نے مجھ اور میرے والدین پر فرمائی ہیں، اور مجھے اچھے اعمال کی توفیق دے جن سے تُو راضی ہوجائے اور میری اولاد کی اصلاح فرما، میں تیری ہی طرف رجوع کرتا اور مسلمانوں میں سے ہُوں، تمام تعریف اللہ کے لئے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے (ت)

 

عہ۱ و عہ۲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ

 

 (۱؎ القرآن    ۱۲/ ۳۸)      (۱؎ القرآن    ۴۶/ ۱۵)

 

فائدہ ۹:    (وہ محدثین جو غیر ثقہ سے روایت کرتے) ہم نے افادہ ۲۱ میں ذکر کیا محدثین میں بہت کم ایسے ہیں جن کا التزام تھا کہ ثقہ ہی سے روایت کریں جیسے شعبہ بن الحجاج (۱) وامام مالک (۲) و امام احمد(۳) اور افادہ دوم میں یحیٰی بن سعید قطان  (۴) وعبدالرحمن بن مہدی (۵)کو گنا، اور انہیں سے ہیں امام شعبی(۶)  وبقی بن مخلد (۷) وحریز  بن عثمٰن (۸)  وسلیمٰن بن حرب (۹) ومظفر بن مدرک خراسانی (۱۰) وامام بخاری (۱۱) ۔ مقدمہ صحیح مسلم شریف میں ہے:

 

حدثنی ابوجعفر الدارمی ثنا بشربن عمر قال سألت مالک بن انس (فذکر الحدیث قال) وسألتہ عن رجل اٰخر نسیت اسمہ فقال ھل رأیتہ فی کتبی قلت لاقال لوکان ثقۃ لرأیتہ فی کتبی ۳؎۔

 

ابوجعفر دارمی نے مجھے حدیث بیان کی کہ ہمیں بشربن عمر نے بتایا کہ میں نے مالک بن انس سے پُوچھا (پھر تمام حدیث بیان کی اور کہا) اور میں نے ایک دوسرے آدمی کے بارے میں ان سے پُوچھا جن کا نام میں اس وقت بھُول گیا تو انہوں نے فرمایا کہ تُونے اسے میری کتب میں پایا ہے؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا اگر وہ ثقہ ہوتے تو میری کتب میں انہیں ضرور پاتا۔ (ت)

 

(۳؎ صحیح لمسلم   باب بیان ان الاسناد من الدین الخ  مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۹)

 

منہاج امام نووی میں ہے:ھذا تصریح من مالک رحمہ اللّٰہ تعالٰی بان من ادخلہ فی کتابہ فھو ثقۃ فمن وجدناہ فی کتابہ حکمنا بانہ ثقۃ عند مالک وقدلایکون ثقۃ عند غیرہ ۴؎۔

 

یہ امام مالک کی تصریح ہے کہ جسے وہ اپنی کتاب میں ذکر کریں گے وہ ثقہ ہوگا تو اب ہم ان کی کتاب میں جسے پائیں ہم اسے امام مالک کے نزدیک ثقہ سمجھیں گے اور کبھی ان کے غیر کے ہاں وہ شخص ثقہ نہیں ہوگا۔ (ت)

 

 (۴؎ شرح صحیح مسلم النووی   باب بیان ان الاسناد من الدین الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۹)

 

میزان میں ہے : ابراھیم بن العلاء ابوھارون الغنوی وثقہ جماعۃ ووھاہ شعبۃ فیما قیل ولم یصح بل صح انہ حدث عنہ ۱؎۔ابراہیم بن العلاء ابوہارون غنوی کو ایک جماعت نے ثقہ قرار دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ شعبہ نے انہیں کمزور کہا، اور یہ صحیح نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ شعبہ نے ان سے حدیث بیان کی ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال     ترجمہ ۱۵۲    ابراہیم بن العلاء    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت لبنان    ۱/ ۴۹)

 

اُسی میں ہے: عبدالاکرم بن ابی حنیفۃ عن ابیہ وعنہ شعبۃ لایعرف لکن شیوخ شعبۃ جیاد ۲؎ اھعبدالاکرم بن ابی حنیفہ اپنے والد سے اور ان سے شعبہ نے روایت کیا ہے اور وہ معروف نہیں لیکن شعبہ کے تمام اساتذہ جید ہیں اھ (ت)

 

 (۲؎میزان الاعتدال     ۴۷۳۴ عبدالاکرم       مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت لبنان   ۲/ ۵۳۲)

 

اقول لکن قال یزید بن ھارون قال شعبۃ داری وحماری فی المساکین صدقۃ ان لم یکن ابان ابن ابی عیاش یکذب فی الحدیث قلت لہ فلم سمعت منہ؟ قال ومن یصبر عن ذا الحدیث۔ یعنی حدیثہ عن ابراھیم عن علقمۃ عن عبداللّٰہ عن امہ انھا قالت رأیت رسول صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قنت فی الوتر قبل الرکوع کمافی المیزان ۳؎ ولک التفصی عنہ بان السماع شیئ والتحدیث شیئ، والکلام فی الاخیر وان کان اسم الشیخ یتناول الوجھین وسنذکر اٰخر ھذہ الفائدۃ ان الامام ربما حمل عمن شاء، فاذا حدث تثبت نعم لعل الصواب التقیید بمن حدث عنہ فی الاحکام دون مایتساھل فیہ لماتقدم فی الافادۃ الثالثۃ والعشرین من قول ابن عدی ان شعبۃ حدث عن الکلبی ورضیہ بالتفسیر ۱؎ کمانقلہ فی المیزان  وفیہ ایضا فی محمد بن عبدالجبار قال العقیلی مجھول بالنقل قلت شیوخ شعبۃ نقاوۃ الا النادر منھم وھذا الرجل قال ابوحاتم شیخ ۲؎ اھ قلت وھذا لایضر فقد یکون الرجل ثقۃ عندہ وعند غیرہ مجروح اومجھول حتی ان من شیوخہ الذین وثقھم وصرح بحسن الثناء علیھم، جابربن یزید الجعفی ذاک الضعیف الرافضی المتھم قال الامام الاعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، مارأیت فیمن رأیت افضل من عطاء ولااکذب من جابر الجعفی ۳؎ وکذلک کذبہ ایوب و زائدۃ ویحیی والجوزجانی وترکہ القطان وابن مھدی والنسائی واٰخرون۔

 

اقول لیکن یزید بن ہارون نے بیان کیا کہ شعبہ نے کہا کہ میرا گھر اور میری سواری مساکین میں صدقہ ہے، اگر ابان ابن ابی عیاش حدیث میں جھُوٹا نہ ہو، میں نے انہیں کہا تو پھر آپ نے ان سے کیوں سماع کیا؟ تو اس نے فرمایا کون ہے جو صاحبِ حدیث سے حدیث لینے سے باز رہے، اس سے انہوں نے ان کی وہ حدیث مراد لی جو ابراہیم سے علقمہ سے عبداللہ سے اور انہوں نے اپنی والدہ سے بیان کی ہے، وہ بیان کرتی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھی ہے جیسا کہ میزان میں ہے، اور تیرے لئے اس سے خلاصی کی صورت یہ ہے کہ سماع اور شیئ ہے اور حدیث بیان کرنا اور ہے، گفتگو دوسرے میں ہے اگرچہ شیخ کا نام دونوں کے لئے مستعمل ہے عنقریب ہم اس فائدہ کے آخر میں ذکر کرینگے کہ امام شعبہ کبھی جس سے چاہے روایت لیتا ہے جب وہ حدیث بیان کرے تو تُو اس پر ثابت قدم رہ۔ ہاں شاید درست یہ ہوکہ اسے مقید کردیا جائے اس شخص کے ساتھ جس سے احکام کی احادیث بیان کی گئی ہیں نہ کہ وہ احادیث جن میں نرمی کی جاتی ہے جیسا کہ تئیسویں افادہ میں ابن عدی کا یہ قول گزرا ہے کہ شعبہ نے کلبی سے روایت کی ہے اور باب تفسیر میں اسے پسند کیا ہے میزان میں اسی طرح منقول ہے اور اس میں محمد بن عبدالجبار کے بارے میں بھی ہے کہ عقیلی نے کہا کہ وہ مجہول بالنقل ہے میں کہتا ہوں کہ شعبہ کے تمام شیوخ جید ہیں مگر بہت کم ایسے ہیں جو جید نہ ہوں، اور یہ وہ آدمی ہیں جس کے بارے میں ابوحاتم نے کہا شیخ ہے اھ قلت یہ نقصان دہ نہیں یہ ہوتا رہتا ہے کہ ایک آدمی ایک محدث کے ہاں ثقہ ہے دوسرے کے ہاں مجروح یا مجہول ہوتا ہے حتی کہ اس کے شیوخ وہ ہیں جن کو ثقہ کہاگیا اور ان کی تعریف کی تصریح کی گئی ان میں سے جابر بن یزید الجعفی ہے جو ضعیف رافضی اور متہم ہے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا میں نے جو لوگ دیکھے ان میں عطا سے بڑھ کر سچا کسی کو نہیں پایا اور جابر جعفی سے زیادہ جھُوٹا کوئی نہیں دیکھا، اسی طرح ایوب، زائدہ، یحیٰی اور جوزجانی نے اسے جھُوٹا قرار دیا۔ قطان، ابن مہدی، نسائی اور دیگر محدثین نے اسے ترک کردیا۔ (ت)

 

 (۳؎میزان الاعتدال     ترجمہ ۱۵     ابان ابن ابی عیاش   مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت لبنان    ۱/ ۱۱)

(۱؎ میزان الاعتدال     ترجمہ ۷۵۷۴    محمد بن السائب الکلبی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت لبنان    ۳/ ۵۵۸)

(۲؎میزان الاعتدال     ترجمہ ۷۸۲۲        محمد بن عبدالجبار    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت لبنان    ۳/ ۶۱۳)

(۳؎ میزان الاعتدال     ترجمہ ۱۴۲۵        جابر بن یزید الجعفی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت لبنان   ۱/ ۳۸۰)

 

شفاء السقام (عہ۱) شریف میں ہے : احمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی لم یکن یروی الا عن ثقۃ وقدصرح الخصم (یعنی ابن تیمیۃ) بذلک فی الکتاب الذی صنفہ فی الرد علی البکری بعد عشر کرار لیس منہ، قال ان القائلین بالجرح والتعدیل من علماء الحدیث نوعان منھم من لم یروالا عن ثقۃ عندہ کمالک وشعبۃ ویحیی بن سعید وعبدالرحمٰن بن مھدی واحمد بن حنبل وکذٰلک البخاری وامثالہ ۱؎ اھ

 

امام احمد رحمہ اللہ تعالٰی ثقہ کے علاوہ کسی سے روایت نہیں کرتے اورمخالف (یعنی ابی تیمیہ) نے اس بات کی اپنی اس کتاب میں تصریح کی ہے جو اس نے بکری کے رَد میں اس کے دس رسائل کے بعد لکھی، کہا کہ علماءِ جرح وتعدیل (حدیث میں) دو۲ اقسام ہیں ایک وہ ہیں جو صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں مثلاً مالک، شعبہ، یحیٰی بن سعید، عبدالرحمن بن مہدی، احمد بن حنبل اور اسی طرح بخاری اور ان کے ہم مثل اھ (ت)

 

عہ۱: فی الباب الاول تحت حدیث الاول ۱۲ منہ (م)

 

 (۱؎ شفاء السقام    الحدیث الاول        مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ص ۱۰)

 

تہذیب التہذیب امام ابن حجر عسقلانی میں ہے :خارجۃ بن الصلت البرجمی الکوفی روی عنہ الشعبی وقدقال ابن ابی خیثمۃ اذاروی الشعبی عن رجل وسماہ فھو ثقۃ یحتج بحدیثہ ۲؎۔

 

خارجہ بن الصلت برجمی کوفی جن سے شعبی نے روایت کیا ہے اور ابن ابی خیثمہ نے کہا کہ جب شعبی کسی شخص سے حدیث بیان کریں اور اس کا نام لیں تو وہ ثقہ ہوگا اس کی حدیث سے استدلال کیا جائیگا۔ (ت)

 

 (۲؎ تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی    ترجمہ ۱۴۵    خارجہ بن الصلت    مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن    ۳/ ۷۵)

 

تدریب (عہ۲) میں ہے: من لایروی الاعن عدل کابن مھدی ویحیی بن سعید ۳؎ اھ اقول ولاینکر علیہ بمافی المیزان عن عباس الدوری عن یحیٰی بن معین عن یحیٰی بن سعید لولم ار والا عمن ارضی مارویت الاعن خمسۃ اھ فان رضی یحیٰی غایۃ لاتدرک وکیف یظن بہ ان الخلق کلھم عندہ ضعفاء الاخمسۃ وانما المرضی لہ جبل ثبت شامخ راسخ لم یزل ولم یتزلزل ولافی حرف ولامرۃ۔

 

وہ لوگ جو صرف عادل راویوں سے روایت لیتے ہیں مثلاً ابن مہدی اور یحیٰی بن سعید اھ اقول اور اس پر اس بات سے اعتراض نہیں کیا جاسکتا جو میزان میں عباس دوری نے یحیٰی بن معین سے انہوں نے یحیٰی بن سعید کے حوالے سے روایت کی ہے کہ اگر میں اس شخص سے روایت کرتا ہوں جس سے میں راضی ہوتا ہوں تو میں صرف پانچ سے روایت کرتا ہوں اھ اور یحیٰی کے راضی ہونے کی غایت ومقصد معلوم نہیں اور یہ ان کے بارے میں کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ پانچ کے علاوہ تمام لوگ ان کے نزدیک ضعیف ہوں اور ان کے ہاں پسندیدہ ومعتبر وہی شخص ہوگا جو اس فن میں پہاڑ کی مانند ٹھوس، مستحکم اور مضبوط ہونہ زائل ہو اور نہ حرکت کرے نہ کسی حرف میں نہ ایک مرتبہ میں (ت)

 

عہ۲:  فی ترجمۃ اسرائیل بن یونس ۱۲ منہ (م)

 

 (۳؎ تدریب الراوی شرح تقریب النواوی    روایۃ مجہول العدالۃ والمستور    دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۳۱۷)

 

تہذیب التہذیب میں ہے:سلیمن بن حرب بن بجیل الازدی الواشجی قال ابوحاتم امام من الائمۃ کان لایدلس وقال ابوحاتم ایضا کان سلیمٰن بن حرب قل من یرضی من المشائخ فاذا رأیتہ قدروی عن شیخ فاعلم انہ ثقۃ ۱؎ اھ ملتقطا۔

 

سلیمان بن حرب بن بجیل ازدی واشجی کے بارے میں ابوحاتم کہتے ہیں کہ ائمہ حدیث میں سے امام ہیں اور وہ تدلیس نہیں کرتے تھے اور ابوحاتم نے یہ بھی کہا کہ سلیمان بن حرب بہت کم مشائخ کا اعتبار کرتے تھے لہذا جب آپ دیکھیں کہ انہوں نے کسی شیخ سے روایت کی ہے تو یقینا وہ ثقہ ہی ہوگا اھ ملتقطاً (ت)

 

 (۱؎ تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی    ترجمہ ۳۱۱ سلیمٰن بن حرب    مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن    ۴/ ۱۷۸ و ۱۷۹)

 

تقریب التہذیب میں ہے:مظفر بن مدرک الخراسانی ابوکامل ثقۃ متقن کان لایحدث الاعن ثقۃ ۲؎۔مظفر بن مدرک خراسانی ابوکامل ثقہ اور پختہ ہیں اور وہ ثقہ کے علاوہ کسی سے روایت نہیں کرتے تھے۔ (ت)

 

 (۲؎ تقریب التہذیب         من اسمہ مظفر        مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی        ص ۲۴۸)

 

نافعہ جامعہ: امام سخاوی فتح(عہ) المغیث میں فرماتے ہیں:تتمۃ من کان لایروی الاعن ثقۃ الافی النادر الامام احمد وبقی بن مخلد وحریز بن عثمٰن وسلیمٰن بن حرب وشعبۃ والشعبی وعبدالرحمٰن بن مھدی ومالک ویحیٰی بن سعید القطان وذلک فی شعبۃ علی المشھور فانہ کان یتعنت فی الرجال ولایروی الاعن ثبت، والا فقدقال عاصم بن علی سمعت شعبۃ یقول لولم احدثکم الاعن ثقۃ لم احدثکم عن ثلٰثۃ وفی نسخۃ ثلٰثین وذلک اعتراف منہ بانہ یروی عن الثقۃ وغیرہ فینظر وعلی کل حال فھو لایروی عن متروک ولاعمن اجمع علی ضعفہ، واما سفین الثوری فکان یترخص مع سعۃ علمہ وورعہ ویروی عن الضعفاء حتی قال فیہ صاحبہ شعبۃ لاتحملوا عن الثوری الاعمن تعرفون فانہ لایبالی عمن حمل وقال الفلاس قال لی یحیٰی بن سعید لاتکتب عن معتمر الاعمن تعرف فانہ یحدث عن کل ۱؎ اھ۔

 

تتمہ ان لوگوں کے بارے میں جو ثقہ کے علاوہ سے روایت نہیں کرتے مگر شاذ ونادر۔ وہ امام احمد ، بقی بن مخلد، حریز بن عثمان ، سلیمان بن حرب ، شعبہ ، شعبی ، عبدالرحمن بن مہدی ، مالک اور یحیٰی بن سعید القطان ، اور شعبہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ لوگوں کے بارے میں سختی سے کام لیتے ہیں وہ صرف ثبت سے ہی روایت کرتے ہیں ورنہ عاصم بن علی کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ کو یہ کہتے ہُوئے سنا کہ اگر میں تمہیں ثقہ کے علاوہ کسی سے حدیث بیان نہ کرتا تو صرف تین راویوں (بعض نسخوں میں تیس کا ذکر ہے) سے حدیث بیان کرتا۔ یہ ان کا اعتراف ہے کہ میں ثقہ اور غیر ثقہ دونوں سے روایت کرتا ہُوں لہذا غوروفکر کرلیا جائے، ہرحال میں وہ متروک سے روایت نہیں کرتے اور نہ اس شخص سے جس کے ضعف پر محدثین کا اتفاق ہو، رہا معاملہ سفیان ثوری کا تو وہ باوجود علمی وسعت اور ورع وتقوٰی کے نرمی کرتے ہوئے رخصت دیتے اور ضعفا سے روایت کرتے ہیں حتی کہ ان کے بارے میں ان کے شاگرد شعبہ نے کہا ہے کہ ثوری سے روایت نہ لو مگر ان لوگوں کے حوالے سے جن کو تم جانتے ہو کیونکہ وہ پروا نہیں کرتے کہ وہ کس سے حدیث اخذ کررہے ہیں، فلاس کہتے ہیں کہ مجھے یحیٰی بن سعید نے کہا کہ معتمر سے نہ لکھو مگر ان لوگوں کے حوالے سے جن کو تم خود جانتے ہو کیونکہ وہ ہر ایک سے حدیث اخذ کرتے ہیں اھ (ت)

 

عہ: فی معرفۃ من تقبل روایتہ ۱۲ منہ (م)         جس کی روایت مقبول ہو اسکی معرفت میں اس کا ذکر ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ فتح المغیث شرح معرفۃ من تقبل روایتہ ومن ترد    دارالامام الطبری بیروت    ۲/ ۴۲ و ۴۳)

 

اقول ماذکر عن عاصم فیجوز بل یجب حملہ علی مثل ماقدمنا فی کلام یحیی کیف وان للثقۃ اطلاقا اٰخر اخص واضیق کماقال فی التدریب ان ابن مھدی قال حدثنا ابوخلدۃ فقیل لہ اکان ثقۃ فقال کان صدوقا وکان مأمونا وکان خیر الثقۃ شعبۃ وسفین قال وحکی المروزی قال سألت ابن حنبل عبدالوھاب بن عطاء ثقۃ؟ قال لاتدری ماالثقۃ انما الثقۃ یحیٰی بن سعید القطان ۱؎ اھ فعلیک بالتثبت فان الامر جلی واضح۔

 

اقول (میں کہتا ہوں) جو کچھ عاصم کے حوالے سے مذکور ہے اس کو اس گفتگو پر محمول کرنا جائز بلکہ واجب ہے جو ہم نے پہلے کلامِ یحیٰی پر کی تھی اور یہ کیسے نہ ہو حالانکہ ثقہ کا ایک دوسرا اطلاق نہایت ہی محدود اخص ہے جیسا کہ تدریب میں ہے کہ ابن مہدی کہتے ہیں کہ ہمیں ابوخلدہ نے بیان کیا کہ ان سے کہاگیا کہ کیا وہ ثقہ ہے تو کہا کہ وہ صدوق اور مامون ہے اور بہتر ثقہ شعبہ اور سفیان ہیں اور کہا کہ مروزی نے بیان کیا کہ میں نے ابن حنبل سے عبدالوہاب بن عطا کے ثقہ ہونے کے بارے میں پُوچھا تو انہوں نے کہا تم ثقہ کو نہیں جانتے ثقہ صرف یحیٰی بن سعید القطان ہے اھ اس پر قائم رہنا کیونکہ معاملہ بڑا ہی واضح ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ تدریب الراوی شرح تقریب النواوی    علمِ جرح والتعدیل الخ    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۳۴۴)

 

ثم اقول (ہمارے امام اعظم جس سے رعایت فرمالیں اس کی ثقاہت ثابت ہوگئی) انہیں ائمہ محتاطین سے ہیں علم اعلم امام اعظم سیدنا ابوحنیفۃ النعمان انعم اللہ تعالٰی علیہ بانعام الرضوان ونعمہ بانعم نعم الجنان، یہاں تک کہ اگر بعض مختلطین سے روایت فرمائیں تو اخذ قبل التغیر پر محمول ہوگا جس طرح احادیث صحیحین میں کرتے ہیں محقق علی الاطلاق فتح میں فرماتے ہیں:

 

قال محمد بن الحسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی کتاب الاٰثار اخبرنا ابوحنیفۃ ثنالیث بن ابی سلیم عن مجاھد عن ابن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال لیس فی مال الیتیم زکٰوۃ ولیث کان احد العلماء العباد وقیل اختلط فی اٰخر عمرہ ومعلوم ان اباحنیفۃ لم یکن لیذھب فیاخذ عنہ فی حال اختلاطہ ویرویہ وھو الذی شدد فی امرالروایۃ مالم یشددہ غیرہ علٰی ماعرف ۲؎ اھ۔

 

امام محمد بن حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کتاب الآثار میں فرماتے ہیں کہ ہمیں امام ابوحنیفہ نے ازلیث بن ابی سلیم ازمجاہد ازابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ یتیم کے مال میں زکٰوۃ نہیں، لیث علمائے عابدین میں سے تھا اور انہیں آخر عمر میں اختلاط ہوگیا اور یہ بات مسلّم ہے کہ امام اعظم ان سے اختلاط کے بعد حدیث اخذ نہیں کرسکتے کیونکہ آپ حدیث اخذ کرنے اور بیان کرنے میں جتنے سخت ہیں دوسروں سے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ معلوم ومعروف ہے اھ (ت)

 

 (۲؎ فتح القدیر   کتاب الزکوٰۃ    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر        ۲/ ۱۱۵)

 

تنبیہ: (قلۃ المبالاۃ فی الاخذ قدحدث من زمن التابعین اخذِحدیث میں نرمی اکابر تابعین کے زمانہ سے پیدا ہُوئی ہے۔ ت)

 

قلت ھذا التوسع وقلۃ المبالاۃ فی الاخذ قدحدث فی العلماء من لدن التابعین الاعلام اخرج الدارقطنی عن ابن عون قال قال محمد بن سیرین اربعۃ یصدقون من حدثھم فلایبالون ممن یسمعون، الحسن وابوالعالیۃ وحمید بن ھلال ولم یذکر الرابع وذکرہ غیرہ فسماہ انس بن سیرین ۱؎ ذکرہ الامام الزیلعی فی نصب الرایۃ(عہ) وقال علی بن المدینی کان عطاء یاخذ عن کل ضرب، مرسلات مجاھد احب الیّ من مرسلاتہ بکثیر وقال احمد بن حنبل مرسلات سعید بن المسیب اصح المرسلات، ومرسلات ابراھیم النخعی لاباس بہا، ولیس فی المرسلات اضعف من مرسلات الحسن وعطاء بن ابی رباح فانھما کانا یاخذان عن کل احد ۲؎ وقال الشافعی فی مراسیل الزھری لیس بشیئ لانانجدہ یروی عن سلیمٰن بن الارقم ۳؎ ذکرھا فی التدریب۔

 

قلت (میں کہتا ہوں) اخذِ حدیث میں وسعت اور نرمی اکابر تابعین کے زمانہ سے پیدا ہوئی ہے، دارقطنی نے ابنِ عون سے بیان کیا کہ محمد بن سیرین کہتے ہیں چار ایسے آدمی ہیں جو ان سے حدیث بیان کرے (اساتذہ) اس کو سچّا سمجھتے ہیں! اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ کس سے سماع کررہے ہیں، وہ چار یہ ہیں حسن، ابوالعالیہ، حمید بن ہلال اور چوتھے کا نام نہیں لیا اور ان کے غیر نے چوتھے کا نام ذکر کیا اور اس کا نام انس بن سیرین بتایا ہے، اس کو امام زیلعی نے نصب الرایہ میں ذکر کیا ہے۔ علی بن مدینی نے کہا کہ عطاء ہر قسم کی روایات لیتا تھا، مجاہد کی مرسلات اس کی کثیر مرسلات سے مجھے بہت زیادہ پسند ہے۔ اور احمد بن حنبل کا قول ہے مرسلات میں سے سعید بن مسیب کی مرسلات اصح ہیں اور مرسلاتِ ابراہیم نخعی میں کوئی حرج نہیں، حسن اور عطاء بن رباح کی مراسیل سب سے ضعیف ہیں کیونکہ وہ دونوں ہر ایک سے حدیث اخذ کرلیتے تھے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ زہری کی مراسیل میں کوئی شیئ نہیں کیونکہ ہم نے اسے سلیمان بن ارقم سے روایت کرتے ہوئے پایا ہے اس کا ذکر تدریب میں ہے۔ (ت)

 

عہ: فصل نواقض الوضو ۱۲ منہ

 

 (۱؎ نصب الرایۃ لاحادیث الہدایۃ کتاب الطہارۃ واما المراسیل مطبوعہ المکتبۃ الاسلامیہ لصاحبہا ریاض    ۱/ ۵۱)

(۲؎ تدریب الراوی شرح تقریب النواوی    الکلام فی احتجاج الشافعی بالمرسل     مطبوعہ المکتبۃ الاسلامیہ لاہور     ۱/ ۲۰۳)

(۳؎تدریب الراوی شرح تقریب النواوی    الکلام فی احتجاج الشافعی بالمرسل     مطبوعہ المکتبۃ الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۲۰۵)

 

قلت ومراسیل الائمۃ الثقات مقبولۃ عندنا وعندالجماھیر ولاشک ان عطاء والحسن والزھری منھم وقلۃ المبالاۃ عندالتحمل لایقتضیھا عند الاداء فقدیاخذ الامام عمن شاء ولایرسلہ الا اذااستوثق وقد وافقنا علی قبول مراسیل الحسن ذاک الورع الشدید عظیم التشدید قدوۃ الشان یحیی بن سعید القطان وذاک الجبل العلی علی بن مدینی الذی کان البخاری یقول مااستصغرت نفسی الاعندہ وذلک الامام الاجل نقاد العلل ابوزرعۃ الرازی وناھیک بھم قدوۃ اما القطان فقال ماقال الحسن فی حدیثہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الا وجدنا لہ اصلا الاحدیثا اوحدیثین واما علی فقال مرسلات الحسن البصری التی رواھا عنہ الثقات صحاح مااقل مایسقط منھا، واما ابوزرعۃ فقال کل شیئ قال الحسن قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وجدت لہ اصلا ثابتا ماخلا اربعۃ احادیث ۱؎ نقلھا فی التدریب۔

 

قلت (میں کہتا ہوں) ثقہ ائمہ کی مراسیل ہمارے اور جمہور علما کے ہاں مقبول ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ عطا، حسن اور زہری ان میں سے ہیں اور اخذ میں نرمی کے لئے لازم نہیں کہ بیان کرتے وقت بھی نرمی ہو، بعض اوقات امام کسی شخص سے حدیث اخذ کرلیتے ہیں مگر ارسال اسی وقت کرتے ہیں جب اسے وہ ثقہ محسوس کرتے ہوں، اور ہمارے ساتھ حسن کی مراسیل کو قبول کرنے میں یحیٰی بن سعید القطان شریک ہیں جو ورع وتقوٰی اور حدیث کے اخذ کرنے میں نہایت ہی سخت ہیں، اور اس فن کا عظیم شخص علی بن مدینی بھی جن کے بارے میں امام بخاری کا قول ہے میں نے اپنے آپ کو ان کے سوا کسی کے سامنے ہیچ نہیں سمجھا، اور امام اجل نقاد العلل ابوزرعہ رازی بھی شریک ہیں اور یہ لوگ اقتدا کے لئے کافی ہیں، لیکن قطان نے کہا ہے کہ جس حدیث کے بارے میں امام حسن یہ کہہ دیں ''قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم'' تو ہمیں ایک یا دو کے علاوہ ہر حدیث کی اصل ضرور ملی، علی بن مدینی کہتے ہیں کہ وہ مراسیل حسن بصری جو ان سے ثقہ لوگوں نے روایت کی ہیں وہ صحیح ہیں، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب سے ساقط ہونے والی کتنی ہیں اور ابوزرعہ کہتے ہیں جس شَے کے بارے میں بھی حسن نے ''قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم'' کہا ہے مجھے چار احادیث کے علاوہ ہر ایک کی اصل مل گئی ہے۔ اس عبارت کو تدریب میں نقل کیا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ تدریب الراوی شرح تقریب النواوی    الکلام فی احتجاج الشافعی بالمرسل    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۲۰۴)

 

قلت وعدم الوجدان لایقتضی عدم الوجود فلم یفت یحیی الاواحدا و اثنان ولعل غیر یحیی وجد مالم یجدہوفوق کل ذی علم علیم ۱؎ونقل فی مسلم الثبوت عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ قال متی قلت لکم حدثنی فلان فھو حدیثہ ومتی قلت قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فعن سبعین ۲؎ اھ وفی التدریب قال یونس بن عبید سألت الحسن قلت یاابا سعید انک تقول قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وانک لم تدرکہ فقال یاابن اخی لقد سألتنی عن شیئ ماسألنی عنہ احد قبلک ولولا منزلتک منی مااخبرتک انی فی زمان کماتری وکان فی زمن الحجاج کل شیئ سمعتنی اقول قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فھو عن علی بن ابی طالب غیرانی فی زمان لااستطیع ان اذکر علیا ۳؎ اھ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

 

قلت (میں کہتا ہوں) عدمِ وجدان عدمِ وجود کو مستلزم نہیں تو یحیٰی کو ایک یا دو احادیث جو نہ ملیں ممکن ہے کسی اور محدّث کو وہ مل گئی ہوں اورشاد باری ہے وفوق کل ذی علم علیم (ہر علم والے پر ایک علم والا ہے) اور مسلّم الثبوت میں حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے جب تم کو یہ کہوں کہ مجھے فلاں نے حدیث بیان کی تو وہ اس کی حدیث ہوتی ہے اور جب میں یہ کہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا تو وہ ستر۷۰ سے مروی ہوتی ہے اھ تدریب میں ہے یونس بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن سے پُوچھا اے ابوسعید! آپ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا حالانکہ آپ نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی؟ فرمایا اے بھتیجے! تُو نے مُجھ سے ایسا سوال کیا ہے جو تجھ سے پہلے آج تک مجھ سے کسی نے نہیں کیا، اگر تیرا یہ مقام میرے ہاں نہ ہوتا تو میں تجھے اس سوال کا جواب نہ دیتا میں جس زمانے میں ہوں (وہ جیسے تجھے معلوم ہے) اور یہ حجاج کا زمانہ تھا جو کچھ مجھ سے آپ لوگ سنتے ہیں کہ میں کہتا ہوں نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا وہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے میں نے سُنا ہوتا ہے (یہ نہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ظاہری حیات پائی ہے) چونکہ میں ایسے دَور میں ہُوں جس میں حضرت علی کا نام ذکر نہیں کرسکتا (اس لئے میں حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام لیتا ہوں) واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

 

 (۱؎ القرآن    ۱۲/ ۷۶)

(۲؎ مسلم الثبوت    تعریف المرسل    مطبوعہ مطبع انصاری دہلی    ص ۲۰۲)

(۳؎ تدریب الراوی شرح تقریب النوادی    الکلام فی احتجاج الشافعی بالمرسل     مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۲۰۴)

 

فائدہ ۱۰:    (فائدہ ۱۰ متعلق افادہ ۲۴ دربارہ احادیث طبقہ رابعہ) سُفہائے زمانہ نے احادیث طبقہ رابعہ کو مطلقاً باطل وبے اعتبار محض قرار دیا جو شان موضوع ہے جس کا ابطال بین بابین وجوہ افادہ ۲۴ میں گزرا، یہاں اتنا اور سُن لیجئے کہ برعکس اس کے مولانا علی قاری علیہ رحمۃ الباری نے اُن کی روایت کو دلیل عدم موضوعیت قرار دیا ہے،

 

موضوعات کبیر میں زیر حدیث : من طاف بالبیت اسبوعا ثم اتی مقام ابراھیم فرکع عندہ رکعتین ثم اتی زمزم فشرب من مائھا، اخرجہ اللّٰہ من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ ۱؎۔

 

جو سات پھیرے طواف کرکے مقامِ ابراہیم میں دو رکعت  نماز پڑھے پھر زمزم شریف پر جاکر اس کا پانی پئے اللہ عزوجل اُسے گناہوں سے ایسا پاک کردے جیسا جس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔

 

فرماتے ہیں:حیث اخرجہ الواحدی فی تفسیرہ والجندی فی فضائل مکّۃ والدیلمی فی مسندہ لایقال انہ موضوع غایتہ انہ ضعیف ۲؎۔جبکہ اسے واحدی نے تفسیر اور جندی نے فضائل مکّہ اور دیلمی نے مسند میں روایت کیا تو اسے موضوع نہ کہا جائیگا نہایت یہ کہ ضعیف ہے۔

 

 (۱؎ الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ    حرف المیم    مطبوعہ دارالکتاب العلمیہ بیروت    ص ۲۳۶)

(۲؎ الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ    حرف المیم    مطبوعہ دارالکتاب العلمیہ بیروت    ص ۲۳۶)

 

اقول وجہ یہ ہے کہ اصل عدم وضع ہے اور بوجہ خلط صحاح وسقام وثابت وموضوع جس طرح وضع ممکن یونہی صحت محتمل تو جب تک خصوص متن وسند کے لحاظ سے دلیل قائم نہ ہو احد الاحتمالین خصوصاً خلاف اصل کو معین کرلینا محض ظلم وجزاف ہے تو اُن کی حدیث قبل تبین حال جس طرح بسبب احتمال ضعف وسقوط احکام میں مستند ومعتبر نہ ہوگی یوں ہی بوجہ احتمال صحت وحسن وضعف محض موضوع وباطل وساقط بھی نہ ٹھہر سکے گی لاجرم درجہ توقف میں رہے گی اور یہی مرتبہ ضعیف محض کا ہے جس طرح وہاں توقف مانع تمسک فی الفضائل نہیں یونہی یہاں بھیکمالایخفی علی اولی النھی (جیسا کہ اصحابِ فہم پر مخفی نہیں۔ ت) فواتح الرحموت (عہ) میں ہمارے علماءِ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ہے:

 

الراوی انکان غیر معروف بالفقاھۃ ولا بالروایۃ بل انما عرف بحدیث اوحدیثین فان قبلہ الائمۃ اوسکتوا عنہ عند ظھور الروایۃ اواختلفوا کان کالمعروف وان لم یظھر منھم غیر الطعن کان مردودا وان لم یظھر شیئ منھم لم یجب العمل بل یجوز فیعمل بہ فی المندوبات والفضائل والتواریخ ۱؎۔

 

راوی حدیث اگر فقاہت وروایت میں معروف نہ ہو بلکہ کسی ایک یا دو۲ احادیث سے معروف ہو اور محدثین نے اسے قبول کرلیا یا ظہور روایۃ کے وقت اس سے خاموشی اختیار کی ہو یا اس میں اختلاف کیا ہوتو یہ بھی معروف کی طرح ہی ہوگا اگر اس پر محدثین نے طعن کا اظہار ہی کیا ہے تو وہ مردود ہوگا اور اگر محدثین نے کسی شیئ کا اظہار نہیں کیا تو اب عمل واجب نہیں بلکہ جائز ہوگا تو وہ مستحبات، فضائل اور تاریخ میں قابلِ عمل ہے ۔(ت)

 

عہ: فی مسئلۃ معرف العدالۃ ۱۲ منہ (م)   معرف العدالۃ کے بحث میں ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت    بذیل المستصفی مسئلہ مجہول الحال الخ    مطبوعہ منشورات الشریف الرضی قم    ۲/ ۱۴۹)

 

فائدہ ۱۱:    (تذکرۃ الموضوعات محمد طاہر فتنی میں ذکر مستلزم گمان وضع نہیں) اُن ضروری فوائد سے کہ بوجہ تعجیل ہنگام تبییض تحریر سے رہ گئے تذکرۃ الموضوعات علامہ محمد طاہر فتنی رحمہ اللہ تعالٰی کا حال ہے کہ اس میں مجرد ذکر سے موضوعیت پر استدلال تو بڑے بھاری متکلمین منکرین نے کیا حالانکہ محض جہالت وبے رہی یا دیدہ ودانستہ مغالطہ دہی تذکرہ مذکورہ بھی کتب قسم ثانی سے ہے اُس میں ہر طرح کی احادیث لاتے اور کسی کو موضوع کسی کو لم یجد کسی کو منکر کسی کو لیس بثابت کسی کو لایصح کسی کو ضعیف کسی کو مؤول کسی کو رجالہ ثقات کسی کو لاباس بہ کسی کو صححہ فلان کسی کو صحیح فرماتے ہیں، حدیث تقبیل ابہامین اُنہیں میں ہے جنہیں ہرگز موضوع نہ کہا بلکہ صرف لایصح پر اقتصار اور تجربہ کثیرین سے استظہار کیا خاتمہ مجمع بحار الانوار میں فرماتے ہیں:

 

فصل فی تعیین (ف۱ ) بعض الاحادیث المشتھرۃ علی الالسن والصواب خلافھا علی نمط ذکرتہ فی التذکرۃ ۲؎ فیہ من عرف نفسہ عرف ربہ لیس بثابت، ح رأیت ربی فی صورۃ شاب لہ وفرۃ صحیح محمول علی رویۃ المنام اومؤول ح المؤمن غرّکریم والمنافق خب لئیم موضوع (عہ) ح ماشھد رجل علی رجل بکفر الاباء بہ احدھما ضعیف (عہ۱) فیہ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم طرقھا واھیۃ (عہ۲)  ح من ادی الفریضۃ وعلم الناس الخیر کان فضلہ علی العابد الحدیث ضعیف اسنادہ لکنھم یتساھلون فی الفضائل،

 

فصل، بعض احادیث کی تعیین کے بارے میں جو لوگوں کی زبانوں پر مشہور ہیں حالانکہ صواب اس کے خلاف ہے اس طریقہ پر جس کا ذکر تذکرہ میں میں نے کیا ہے اس میں ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس (آپ) کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا، یہ ثابت نہیں، حدیث میں نے اپنے رب کو ایسے خوبصورت جوان کی صورت میں دیکھا جس کے بال لمبے وخوب صورت ہوں، صحیح ہے یہ خواب پر محمول ہے یا یہ مؤول ہے، اور حدیث مومن دھوکا کھانے والا اور شرم والا ہوتا ہے اور منافق دغاباز اور کمینہ ہوتا ہے موضوع ہے۔ حدیث نہیں گواہی دیتا کوئی آدمی دوسرے کے کفر کی مگر کفران میں سے کسی ایک پر لوٹ آتا ہے، ضعیف ہے۔ اسی میں ہے علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کے تمام طرق کمزور ہیں۔ حدیث، وہ شخص جس نے فرض ادا کیا اور لوگوں کو خیر کی تعلیم دی اس کو عابد پر فضیلت حاصل ہے، اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن محدثین فضائل عمل میں نرمی برتتے ہیں۔

 

ف۱ یہ عبارت مختصراً ورمتعدد صفحات سے نقل کی گئی ہے۔ حوالہ کے لئے ص ۵۱۰ تا ۵۱۹ ملاحظہ ہو۔

 

Bukhari me Zaeef riwayaten

 

حدیث کے عظیم پہاڑ امام بخار اپنی صحیح میں کہتے ہیں ہمیں علی بن عبداللہ بن جعفر نے حدیث بیان کی، ہمیں معن بن عیسٰی نے حدیچ بیان کی، ہمیں ابن عباس بن سہل نے اپنے باپ سے اپنے دادا سے حدیث بیان کی، فرمایا نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ہمارے ہمارے باغ میں ایک گھوڑا تھا جس کا نام لحیف تھا اھ۔

 

 (۱؎ صحیح البخاری    باب اسم الفرس والحمار    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۴۰۰)

 

فی تذھیب التھذیب للذھبی "خ ،ت،ق " ابی بن عباس ۲؎ بن سھل بن سعد الساعدی المدنی عن ابیہ وابی بکر بن حزم وعنہ معن القزاز وابن ابی فدیک وزید بن الحباب وجماعۃ ۳؎۔

 

امام ذہبی نے تذہیب التہذیب میں لکھا کہ اُبی بن عباس بن سہلی بن سعد الساعدی مدنی نے اپنے والد گرامی اور ابربکر بن حزم سے روایت کیا اور ان سے معن القزار، ابن ابی فدیک، زید بن الحباب اور ایک جماعت نے روایت کیا،

 

 (۲؎ ''خ'' سے بخاری، ''ت'' سے ترمذی اور ''ق'' سے قزوینی مراد ہے۔)

(۳؎ خلاصہ تذہیب التہذیب ترجمہ نمبر ۳۲۷ من اسمہ ابی    مطبوعہ مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل        ۱/ ۶۲)

 

قال الدولا بی لیس بالقوی قلت وضعفہ ابن معین وقال احمد منکر الحدیث ۴؎ اھ وکقول الدولابی قال النسائی کمافی المیزان ولم ینقل فی الکتابین توثیقہ عن احدوبہ ضعف الدارقطنی ھذا الحدیث لاجرم ان قال الحافظ فیہ ضعف عہ قال مالہ فی البخاری غیر حدیث واحد ۵؎ اھ قلت فانما الظن بابی عبداللّٰہ انہ انما تساھل لان الحدیث لیس من باب الاحکام واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

 

دولابی کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں۔ میں کہتا ہوں اسے ابنِ معین نے ضعیف کہا اور امام احمد کے نزدیک یہ منکر الحدیث ہے اور میزان میں ہے نسائی کا قول دولابی کی طرح ہی ہے اور دونوں کتب میں اس کے بارے میں کسی کی توثیق منقول نہیں، دارقطنی نے اسی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا۔ لاجرم حافظ نے کہا ہے کہ اس میں ضعف ہے اور کہا کہ بخاری میں اس ایک حدیث کے علاوہ اس کی کوئی حدیث نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ابوعبداللہ کے بارے میں گمان ہے کہ انہوں نے تساہل سے کام لیا، کیونکہ اس حدیث کا تعلق احکام سے نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

 

عہ قلت واما اخوہ المھیمن فاضعف واضعف ضعفہ النسائی والدارقطنی وقال البخاری منکر الحدیث ای فلاتحل الروایۃ عنہ کمامر لاجرم ان قال الذھبی فی اخیہ ابی انہ واہ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (م)

میں کہتا ہوں اس کا بھائی عبدالمہیمن ہے اور وہ اضعف الضعاف ہے اسے نسائی اور دارقطنی نے ضعیف کہا، بخاری نے اسے منکر الحدیث کہا یعنی اس سے روایت کرنا جائز نہیں جیسا کہ گزرا لاجرم ذہبی نے اسے اس کے بھائی ابی کے بارے میں کہا کہ وہ نہایت ہی کمزور ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۴؎ میزان الاعتدال فی نقدالرجال ترجمہ نمبر ۲۷۳ من اسمہ ابی    مطبوعہ  دارالمعرفۃ بیروت    ۱/ ۷۸)

نوٹ:    تذہیب التہذیب نہ ملنے کی وجہ سے اس کے خلاصے اور میزان الاعتدال دو۲ کتابوں سے یہ نقل گیا ہے۔

(۵؎ تقریب التہذیب    ذکر من اسمہ ابی    مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی    ص ۱۷)

 

ورابعاً اقول قدشاع وذاع ایراد الضعاف فی المتابعات والشواھد فالقول بمنعہ فی الاحکام مطلقا وان وجد الصحیح باطل صریح وح یرتفع الفرق وینھدم اساس المسئلۃ المجمع علیھا بین علماء المغرب والشرق، لااقول عن ھذا وذاک بل عن ھذین الجبلین الشامخین صحیحی الشیخین فقد تنزلا کثیرا عن شرطھما فی غیرالاصول قال الامام النووی فی مقدمۃ شرحہ لصحیح مسلم عاب عائبون مسلما رحمہ اللّٰہ تعالٰی بروایتہ فی صحیحہ عن جماعۃ من الضعفاء والمتوسطین الواقعین فی الطبقۃ الثانیۃ الذین لیسوا من شرط الصحیح ولاعیب علیہ فی ذلک بل جوابہ من اوجہ ذکرھا الشیخ الامام ابوعمر وبن الصلاح (الٰی ان قال) الثانی انیکون ذلک واقعا فی المتابعات والشواھد لافی الاصول وذلک بان یذکر الحدیث اولا باسناد نظیف رجالہ ثقات ویجعلہ اصلا ثم اتبعہ باسناد اٰخرا واسانید فیھا بعض الضعفاء علی وجہ التاکید بالمتابعۃ اولزیادۃ فیہ تنبہ علی فائدۃ فیما قدمہ وقداعتذر الحاکم ابوعبداللّٰہ بالمتابعۃ والاستشھاد فی اخراجہ من جماعۃ لیسومن شرط الصحیح منھم مطر الوراق وبقیۃ بن الولید ومحمد بن اسحاق بن یساور وعبداللّٰہ بن عمر العمری والنعمان بن راشد اخرج مسلم عنھم فی الشواھد فی اشباہ لھم کثیرین انتھی ۱؎۔

 

رابعاً میں کہتا ہوں کہ متابع اور شواہد میں احادیث ضعیفہ کا ایراد شائع اور مشہور ہے لہذا حدیث صحیح کی موجودگی میں احکام کے بارے میں حدیث ضعیف کے مطلقاً روایت کرنے کو منع کرنا صریحاً باطل ہے، او راس صورت میں فرق مرتفع ہوجاتا ہے اور اس مسئلہ کی اساس جس پر علماءِ مشرق ومغرب کا اتفاق ہے گر کر ختم ہوجاتی ہے یہ میں اس یا اُس (یعنی عام آدمی) کی بات نہیں کرتا بلکہ علم حدیث کے دوبلند اور مضبوط پہاڑ بخاری ومسلم کی صحیحین کہ وہ اصول کے علاوہ میں اپنے شرائط سے بہت زیادہ تنزل میں آگئیں، امام نووی نے مقدمہ شرح صحیح مسلم میں فرمایا کہ عیب لگانے والوں نے مسلم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ پر یہ طعن کیا کہ انہوں نے اپنی کتاب میں بہت سے ضعیف اور متوسط راویوں سے روایت لی ہے جو دوسرے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور صحیح کی شرط پر نہیں، حالانکہ اس معاملہ میں ان پر کوئی طعن نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا کئی طریقوں سے جواب دیا گیا ہے جنہیں امام ابوعمرو بن صلاح نے ذکر کیا (یہاں تک کہ کہا) دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ بات ان روایات میں ہے جنہیں بطور متابع اور شاہد ذکر کیا گیا ہے اصول میں ایسا نہیں کیا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک ایسی حدیث ذکر کی جس کی سند درست ہو اور تمام راوی ثقہ ہوں اور اس حدیث کو اصل قرار دے کر اسکے بعد بطور تابع ایک اور سند یا متعدد اسناد ایسی ذکر کی جائیں جن میں بعض راوی ضعیف ہوں تاکہ متابعت کے ساتھ تاکید ہو یا کسی اور مذکور فائدے پر تنبیہ کا اضافہ مقصود ہو، امام حاکم ابوعبداللہ نے عذر پیش کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ جن میں صحیح کی شرط نہیں ان کو بطور تابع اور شاہد روایت کیاگیا ہے، اور ان روایت کرنے والوں میں یہ محدثین ہیں مطرالوراق، بقیۃ بن الولید، محمد بن اسحٰق بن یسار، عبداللہ بن عمر العمری اور نعمان بن راشد، امام مسلم نے ان سے شواہد کے طور پر متعدد روایات تخریج کی ہیں انتہٰی۔

 

(۱؎ المقدمۃ للامام النووی من شرح صحیح مسلم    فصل عاب عائبون مسلماً رحمہ اللہ تعالٰی    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۶)

 

وقال الامام البدر محمود العینی فی مقدمۃ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری یدخل فی المتابعۃ والاستشھاد روایۃ بعض العضعاء وفی الصحیح جماعۃ منھم ذکروا فی المتابعات والشواھد ۲؎ اھ

 

امام بدرالدین عینی نے مقدمہ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں تحریر کیا ہے کہ توابع اور شواہد میں بعض ضعفاء کی روایات بھی آئی ہیں اور صحیح میں ایک جماعت محدثین نے توابع اور شواہد کے طور پر ایسی روایات ذکر کی ہیں اھ (ت)

 

(۲؎ المقدمۃ للعینی صحیح بخاری        الثامنہ فی الفرق بین الاعتبار والمتابعۃ الخ    مطبوعہ بیروت  ۱ /۸)

 

Dua ki Guzarish: Irfan Barkaati

Post a Comment

Previous Post Next Post