Ghairullah se Madad mangne ka Suboot | Barkaatul Imdad Risala by AalaHazrat

 

رسالہ

برکات الامداد لاہل الاستمداد(۱۳۱۱ھ)

(مدد طلب کرنے والوں کے لئے امداد کی برکتیں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

 

مسئلہ ۱۶۵: از سہسواں محلہ شہباز پورہ مرسلہ احمد نبی خان     ۱۴/ شعبان المعظم ۱۳۱۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آیۃ وایاک نستعین کے معنی وہابی یوں بیان کرتا ہے کہ استعانت غیر حق سے شرک ہے ؎

دیکھ حصر نستعین اے پاک دیں    استعانت غیر سے لائق نہیں

ذات حق بیشک ہے نعم المستعان     حیف ہے جو غیر حق کاہو دھیان

اور علمائے صوفیہ کرام کا عقیدہ یوں ظاہر کرتاہے کہ حضرت مصلح الدین سعدی شیرازی رحمہ اللہ تعالٰی کا بھی یہی ایمان تھا کہ ع

 

نداریم غیر از تو فریاد رس

 

 (ہم تیرے سوا کوئی فریاد کو پہنچنے والانہیں رکھتے۔ ت)

اور حضرت مولانا نظامی گنجوی رحمہ اللہ تعالٰی  بھی دعا میں عرض کرتے تھے ؎ بزرگا بزرگی دہا بیکسم     توئی یاوری بخشش ویاری رسم  (اے بزرگ ! بزرگی عطا فرما کہ میں بیکس ہوں، تو ہی حمایت کرنے ولا اورمیری مدد کو پہنچنے والاہے)

اور حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کاقصہ دلچسپ وعبرت دلہا بیان کرتاہے جو تحفۃ العاشقین میں لکھا ہے کہ ایک روز آپ نماز پڑھ رہے تھے جب نستعین پر پہنچے بیہوش ہوکر گر پڑے، جب ہوش ہوا فرمایا: جب رب العالمین ایاک نستعین فرمائے اور میں غیر حق سے مانگوں مجھ سے زیادہ بے ادب کون ہوگا، دوسری آیت شریف جناب ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے قصہ کی کہ انی وجہت وجھی للذی سے بیان کرتاہے اور بہت سی آیت شریفہ اور حدیث پاک اور قول علماء وصوفیہ بتاتا ہے لہذا مستدعی خدمت عالی ہوں کہ تردید اس کی مرحمت ہوکہ اس وہابی سے بیان کروں جو اب قرآن کا قرآن سے ، حدیث کا حدیث سے، اقوال کا اقوال سے، ارشاد فرمائے گا او رمعنی لفظی ہوں، بینوا توجروا

راقم نیاز احمد نبی خاں، سہسوان

 

 

 

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد ﷲ وبہ نستعین  والصلٰوۃ والسلام علی اعظم غوث اکرم ومعین محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین۔ سب حمدیں اللہ تعالٰی کے لیے، اور اسی سے ہم مدد چاہتے ہیں، اور صلٰوۃ وسلام سب سے بڑے بزرگی والے غوث ومددگار محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وصحبہ اجمعین۔(ت)

الحمدُ للہ آیات کریمہ تو مسلمان کی ہیں اور حضرت مولٰنا سعدی ومولٰنا نظامی قدس سرہ السامی کے جو اشعار نقل کئے وہ بھی حق ہیں، مگر وہابی حق باتوں سے باطل معنی کا ثبوت چاہتاہے جو ہر گز نہ ہوگا آیہ کریمہ انی وجّہت وَجْہِیَ کو تو اس مقام سے کوئی علاقہ ہی نہیں اس میں توجہ بقصد عبادت کا ذکر ہے کہ میں اپنی عبادت سے اسی کا قصد کرتاہوں جس نے پیدا کئے زمین وآسمان، نہ یہ کہ مطلق توجہ کا جس میں انبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے استعانت بھی داخل ہوسکے، جلالین شریفین میں اس آیہ کریمہ کی تفسیر فرمائی۔

 

قالوالہ ماتعبد قال انی وجہت وجہی قصدت بعبادتی ۱؎ الخ۔ یعنی کافروں نے سیدنا ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کہا تم کسے پوجتے ہو فرمایا: میں اپنی عبادت سے اس کا قصد کرتاہوں جس نے بنائے آسمان وزمین ۔

 

 (۱؎ تفسیر جلالین     تحت آیۃ ۶/ ۷۹     اصح المطابع دہلی    ص۱۱۹)

 

آیت میں اگر مطلق توجہ مرادہو تو کسی کی طرف منہ کرکے باتیں کرنا بھی شرک ہونماز میں قبلہ کی طرف توجہ بھی شرک ہو کہ قبلہ بھی غیر خدا ہے خدانہیں،

 اور رب العزت جل وعلا کاارشادہے: حیثما کنتم فولوا وجوھکم شطرہ ۱؎۔ جہاں کہیں ہو اپنا منہ قبلہ کی طرف کرو۔

 (۱؎ القرآن الکریم     ۲ /۱۴۴)

 

معاذاللہ شرک کا حکم دینا ٹھہرے ، مگر وہابیہ کی عقل کم ہے۔ آیہ کریمہ وایاک نستعین مناجات سعدی ونظامی میں استعانت وفریاد رسی ویاوری دیاری حقیقی کا حضرت عزوجل وعلا میں حصرہے نہ کہ مطلق کا، اور بلا شبہہ حقیقت ان امور بلکہ ہر کمال بلکہ ہر وجوہ ہستی کی خاص بجناب احدیت عزوجل ہے استعانت حقیقیہ یہ کہ اسے قادر بالذات ومالک مستقل وغنی بے نیاز جانے کہ بے عطائے الٰہی وہ خود اپنی ذات سے اس کام کی قدرت رکھتاہے، اس معنی کا غیر خدا کے ساتھ اعتقاد ہر مسلمان کے نزدیک شرک ہے نہ ہر گز کوئی مسلمان غیر کے ساتھ اس معنی کا قصد کرتا ہے بلکہ واسطہ وصول فیض وذریعہ ووسیلہ قضائے حاجات جانتے ہیں اور یہ قطعا حق ہے۔ خود رب العزت تبارک وتعالٰی نے قرآن عظیم میں حکم فرمایا: وابتغوا الیہ الوسیلۃ ۲؎ اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔

 

 (۲؎ القرآن الکریم     ۵ /۳۵)

 

بایں معنی استعانت بالغیر ہر گز اس سے حصرایاک نستعین کے منافی نہیں، جس طرح وجود حقیقی کہ خود اپنی ذات سے بے کسی کے پیدا کئے موجود ہونا خالص بجناب الٰہی تعالٰی وتقدس ہے۔ پھر اس کے سبب دوسرے کو موجود کہنا شرک نہ ہوگیا جب تک وہی وجود حقیقی نہ مرادلے۔ حقائق الاشیاء ثابتۃ پہلا عقیدہ اہل اسلام کا ہے۔یونہی علم حقیقی کہ اپنی ذات سے بے عطائے غیر ہو، اور تعلیم حقیقی کہ بذات خود بے حاجت بہ دیگرے القائے علم کرے، اللہ جل جلالہ سے خاص ہیں، پھر دوسرے کو عالم کہنا یا اس سے علم طلب کرنا شرک نہیں ہوسکتا جب تک وہی معنی اصلی مقصود نہ ہوں، خود رب العزت تبارک وتعالٰی قرآن عظیم میں اپنے بندوں کو علیم وعلماء فرماتاہے اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت ارشاد کرتاہے: یعلمہم الکتب والحکمۃ ۳؎ یہ نبی انھیں کتاب وحکمت کا علم عطا کرتاہے۔

 

(۳؎القرآن الکریم     ۳ /۱۶۴)

 

یہی حال استعانت وفریاد رسی کا ہے کہ ان کی حقیقت خاص بخدا اور بمعنی وسیلہ وتوسل وتوسط غیر کے لئے ثابت اور قطعا روا، بلکہ یہ معنی تو غیر خدا ہی کے لئے خاص ہیں اللہ عزوجل وسیلہ وتوسل وتوسط بننے سے پاک ہے۔ اس سے اوپر کون ہے کہ یہ اس کی طرف وسیلہ ہوگا اور اس کے سوا حقیقی حاجت روا کون ہے۔ کہ یہ بیچ میں واسطہ بنے گا، ولہذا حدیث میں ہے جب اعرابی نے حضور پر نور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ سے عرض کیاکہ یارسول اللہ ! ہم حضور کو اللہ تعالٰی کی طرف شفیع بناتے ہیں اور اللہ عزوجل کو حضور کے سامنے شفیع لاتے ہیں۔

 

حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر سخت گراں گزرا دیر تک سبحان اللہ فرماتے رہے ۔ پھر فرمایا: ویحک انہ لایستشفع با ﷲ علی احد شان اﷲ اعظم من ذٰلک، روہ ابوداؤد عن جبیر بن مطعم رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ ارے نادان! اللہ کو کسی کے پاس سفارشی نہیں لاتے ہیں کہ اللہ کی شان اس سے بہت بڑی ہے (اسے ابوداؤد نے جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)   (۱؎ سنن ابی داؤد  کتاب السنۃ باب فی الجہیمۃ  آفتاب عالم پریس لاہور     ۲/ ۲۹۴)

 

اہل اسلام انبیاء واولیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام سے یہی استعانت کرتے ہیں جو اللہ عزوجل سے کیجئے تو اللہ اور اس کا رسول(جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) غضب فرمائیں اور اسے اللہ جل وعلا کی شان میں بے ادبی ٹھہرائیں، اور حق تویہ ہے کہ اس استعانت کے معنی اعتقاد کرکے جناب الٰہی جل وعلا سے کرے تو کافر ہوجائے مگر وہابیہ کی بد عقلی کو کیا کہئے، نہ اللہ (جل جلالہ) کا ادب نہ رسول(صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) سے خوف، نہ ایمان کاپاس خواہی نخواہی اس استعانت کو ایاک نستعین میں داخل کرکے جو اللہ عزوجل کے حق میں محال قطعی ہے اسے اللہ تعالٰی سے خاص کئے دیتے ہیں۔ ایک بیوقوف وہابی نے کہا تھا ؎

 

وہ کیا ہے جو نہیں ملتا خدا سے    جسے تم مانگتے ہو اولیاء سے

فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے کہا: ؎

توسل کرنہیں سکتے خدا سے    اسے ہم مانگتے ہیں اولیاء سے

یعنی یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ خدا سے توسل کرکے اسے کسی کے یہاں وسیلہ وذریعہ بنائے اس وسیلہ بننے کوہم اولیائے کرام سے مانگتے ہیں کہ وہ دربارہ الٰہی میں ہمارا وسیلہ وذریعہ وواسطہ قضائے حاجات ہوجائیں اس بے وقوفی کے سوال کا جواب اللہ عزوجل نے اس آیہ کریمہ میں دیا ہے۔

 

ولوانہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک فاستغفروا اﷲ واستغفرلہم الرسول لوجدوا اﷲ توابا رحیما ۱؎۔ اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کرکے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول، تو بیشک اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا مہربان پائیں گے۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم     ۴ /۶۴)

 

کیااللہ تعالٰی اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا۔ پھریہ کیوں فرمایا کہ اے نبی! تیرے پاس حاضرہوں اورتو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تو یہ دولت ونعمت پائیں گے۔ یہی ہمارا مطلب ہے۔ جو قرآن کی آیت صاف فرمارہی ہے۔ مگر وہابیہ تو عقل نہیں رکھتے۔

 

خدارا انصاف ! اگر آیہ کریمہ ایاک نستعین میں مطلق استعانت کا ذات الہٰی جل وعلا میں حصر مقصود ہو تو کیا صرف انبیاء علیہم الصلٰوۃوالسلام ہی سے استعانت شرک ہوگی، کیا یہی غیر خدا ہیں، اور سب اشخاص واشیاء وہابیہ کے نزدیک خدا ہیں یا آیت میں خاص انھیں کا نام لے دیا ہے کہ ان سے شرک اوروں سے روا ہے۔ نہیں نہیں، جب مطلقا ذات احدیت سے تخصیص اور غیر سے شرک ماننے کی ٹھہری تو کیسی ہی استعانت کسی غیر خدا سے کی جائے ہمیشہ ہر طرح شرک ہی ہوگی کہ انسان ہوں یا جمادات ، احیاء ہوں یا اموات، ذوات ہوں یا صفات، افعال ہوں یا حالات، غیر خدا ہونے میں سب داخل ہیں، اب کیاجواب ہے آیہ کریمہ کا کہ رب جل وعلا فرماتاہے: واستعینوا بالصبروالصلٰوۃ ۲؎۔ استعانت کرو صبر ونماز سے۔

 

 (۲؎ القرآن الکریم   ۲ /۱۵۳)

 

کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے۔ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کو ارشاد کیا ہے۔ دوسری آیت میں فرماتاہے: وتعاونوا علی البر والتقوٰی ۳؎۔ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر۔

 

 (۳؎القرآن الکریم    ۵ /۲)

 

کیوں صاحب ! اگرغیر خدا سے مددلینی مطلقا محال ہے تو اس حکم الٰہی کا حاصل کیا، اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہر گھل گیا۔

 

 

احادیث مبارکہ:

 

____ حدیثوں کی تو گنتی ہی نہیں بکثرت احادیث میں صاف صاف حکم ہے۔ کہ____ صبح کی عبادت سے استعانت کرو___ شام کی عبادت سے استعانت کرو__

کچھ رات رہے کی عبادت سے استعانت کرو ____ علم کے لکھنے سے استعانت کرو ____ سحری کے کھانے سے استعانت کرو____ دوپہر کے سونے سے وصدقہ سےاستعانت کرو ____ عورتوں کی خانہ نشینی میں انھیں ننگارکھنے سے استعانت کرو ____ حاجت روائیوں میں حاجتیں چھپانے سے استعانت کرو ____ کیا یہ سب چیزیں وہابیہ کی خد اہیں کہ ان سے استعانت کاحکم آیا ۔ یہ حدیثیں خیال میں نہ ہوں تو مجھ سے سنئے:

 

 (۱) البخاری والنسائی عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اِسْتَعِیْنُوْا بِالْغدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیئ مِّنَ الدّلْجۃِ ۱؎۔

 

امام بخاری اورنسائی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: صبح وشام اور رات کے کچھ حصہ میں عبادت سے استعانت کرو۔ (ت)

 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب الایمان باب الدین یسر     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۰)

 

 (۲) الترمذی عن ابی ہریرۃ ۲؎۔ ترمذی نے ابوہریرہ سے روایت کیا۔ (ت)

 (۲؎جامع الترمذی     ابواب العلم باب ماجاء فی الرخصۃ فیہ     امین کمپنی کراچی    ۲ /۹۱)

 

 (۳) والحکیم الترمذی عن ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہم عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم استعن بیمینک علی حفظک ۳؎۔ حکیم ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا کہ اپنے حافظہ کی امداد کرو اپنے ہاتھ سے۔ (ت)

(۳؎ کنز العمال حدیث ۲۹۳۰۵ ۱۰/ ۲۴۵ و مجمع الزوائد     کتاب العلم باب کتاب العلم    ۱ /۱۵۲)

 

 (۴) ابن ماجہ والحاکم والطبرانی فی الکبیر والبیہقی فی شعب الایمان عنہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم استعینوا بطعام السحر علی صیام النہار وبالقیلولۃ علی قیام اللیل ۴؎۔ ابن ماجہ اور حاکم اورطبرانی نے کبیر میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: دن کے روزے رکھنے پر سحری کے کھانے سے استعانت کرو اور رات کے قیام کے لئے قیلولہ سے استعانت کرو۔ (ت)

 (۴؎ سنن ابن ماجۃ     ابواب الصیام باب ماجاء فی السحور     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۲۳)

(المستدرک للحاکم     کتاب الصوم الاستعانۃبطعام السحر     دارالفکر بیروت    ۱ /۴۱۵)

 

 (۵) الدیلمی فی مسند الفردوس عن عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنہما عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم استعینوا علی الرزق بالصدقۃ ۱؎۔ دیلمی نے مسند فردوس میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما سے انھوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا کہ رزق پر صدقہ سے استعانت کرو۔ (ت)

 (۱؎ کنز العمال     بحوالہ فر عن عبداللہ بن عمرو حدیث ۱۵۹۶۱     موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۶ /۳۴۳)

 

 (۶) ابن عدی فی الکامل عن انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم استعینوا علی النساء بالعری فان احدھن اذاکثرت ثیابہا واحسنت زینتہا اعجبہا الخروج ۲؎۔ ابن عدی نے کامل میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا کہ عورتوں کے خلاف استعانت حاصل کرو تنگی لباس سے، کیونکہ جب وہ ان کے جوڑے زیادہ ہوں گے اور ان کی زینت اچھی بنے گی وہ باہر نکلنا پسند کریں گی۔ (ت)

 (۲؎ کنز العمال بحوالہ عد عن انس     حدیث ۴۴۹۵۲    موسسۃ الرسالۃ بیروت       ۱۶ /۳۷۲)

 

 (۷) الطبرانی فی الکبیر والعقیلی و ابن عدی وابونعیم فی الحلیۃ والبیہقی فی الشعب عن معاذ بن جبل ۳؎۔ طبرانی نے کبیر میں اور عقیلی اور ابن عدی اور ابو نعیم نے حلیہ میں اور بیہقی نے شعب میں معاذ بن جبل سے روایت کیا۔ (ت)

 (۳؎ حلیۃ الاولیاء     ترجمہ خالد بن معدان     دارالکتب العلمیہ بیروت        ۵ /۲۱۵)

 

 (۸) والخطیب عن ابن عباس ۴؎۔ خطیب نے ابن عباس سے روایت کیا (ت)

(۴؎ تاریخ بغداد     ترجمہ حسین بن عبیداللہ ۴۱۲۴      دارالکتب العلمیہ بیروت     ۸ /۵۷)

 

 (۹) والخلعی فی فوائدہ عن امیر المؤمنین علی ن المرتضی ۵؎۔ خلعی نے اپنی فوائد میں امیر المؤمین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا۔ ت(ت)

(۵؎ الجامع الصغیر   حدیث ۹۸۵     دارالکتب العلمیہ بیروت     ۱ /۶۶)

 

 (۱۰) والخرائطی فی اعتلال القلوب عن امیر المومنین عمر الفاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہم عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم استعینوا علی انجاح الحوائج بالکتمان ۱؎۔ خرائطی نے اعتلال میں امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہم سے انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ

وسلم سے روایت کیا کہ حاجت روائیوں میں حاجتیں چھپانے سے استعانت کرو۔ (ت)

 (۱؎ کنز العمال    بحوالہ عق ، عد، طب، حل، ھب عن معاذ بن جبل،الخرائطی فی اعتلال القلوب عن عمر خط وابن عساکر خل فی فوائدہ عن علی، حدیث ۱۶۸۰۰     موسسۃ الرسالہ بیروت    ۶/ ۵۱۷)

 

یہ دس حدیثیں تو افعال سے استعانت میں ہوئیں، بیس حدیثیں اشخاص سے استعانت میں لیجئے کہ تیس احادیث کا عدد کامل ہو۔

حدیث ۱۱: احمد وابوداؤد وابن ماجہ بسند صحیح ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: انا لانستعین بمشرک ۲؎ ہم کسی مشرک سے استعانت نہیں کرتے۔

 (۲؎ سنن ابی داؤد     کتاب الجہاد باب فی المشرک یسہم لہ     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۱۹)

(مسند احمد بن حنبل     عن عائشہ رضی اللہ عنہا     المکتب الاسلامی بیروت        ۶ /۶۸)

(سنن ابن ماجہ         ابواب الجہاد باب الاستعانۃ بالمشرکین     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۲۰۸)

 

اگر مسلمان سے استعانت بھی ناجائز ہوتی تو مشرک کی تخصیص کیوں فرمائی جاتی، ولہذا امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے ایک نصرانی غلام وثیق نامی سے کہ دنیاوی طور کا امانت دار تھا ارشاد فرماتے ہیں: اَسْلِمْ اسْتعِنْ بِکَ عَلٰی اَمَانَۃِ الْمُسْلِمِیْن۔ مسلمان ہوجا کہ میں مسلمانوں کی امانت پر تجھ سے استعانت کروں۔

وہ نہ مانتا تو فرماتے ہم کافر سے استعانت نہ کریں گے۔

 

حدیث ۱۲: امام بخاری تاریخ میں حبیب بن یساف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: انا لانستعین بالمشرکین علی المشرکین ۳؎۔ ورواہ الامام احمد ایضا۔ ہم مشرکوں سے مشرکوں پر استعانت نہیں کرتے، (امام احمد نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ت)

 (۳؎ المصنف لابن ابی شیبہ     کتاب الجہاد باب فی الاستعانۃ بالمشرکین     ادارۃ القرآن         ۱۲ /۳۹۴)

(مسنداحمد بن حنبل     حدیث جد خبیب رضی اللہ عنہ     المکتب الاسلامی بیروت        ۳ /۴۵۴)

 

حدیث ۱۳: صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن نسائی میں ہے چند قبائل عرب نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے استعانت کی، حضور والا نے مدد عطا فرمائی۔ عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اتاہ رعل وذکوان وعصیۃ وبنولحیان فزعموا انہم قد اسلموا واستمدوہ علی قومہم فامدہم النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎ الحدیث۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس رعل، ذکوان، عصیہ اور بنولحیان قبائل کے لوگ آئے اور انھوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ اسلام قبول کرچکے ہیں اور اپنی قوم کے لئے آپ سے مدد طلب کی ، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کی مدد کی۔ الحدیث۔ (ت)

 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب الجہاد     باب العون بالمدد     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۴۳۱)

 

حدیث ۱۴: صحیح مسلم وابوداؤد وابن ماجہ ومعجم کبیرطبرانی میں ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے حضور پر نور سید العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: مانگ کیا مانگتاہے کہ ہم تجھے عطافرمائیں، عرض کی میں حضور سے سوال کرتاہوں کہ جنت میں حضور کی رفاقت عطا ہو، فرمایا بھلا اور کچھ، عرض کی بس میری مراد تو یہی ہے، فرمایا تو میری اعانت کر اپنے نفس پر کثرت سجود سے، قال کنت ابیت مع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فاتیتہ بوضوئہ وحاجتہ فقال لی سل، ولفظ الطبرانی فقال یوما یاربیعۃ سلنی فاعطیک رجعنا الی لفظ مسلم فقال فقلت اسألک مرافقتک فی الجنۃ، قال اوغیرذٰلک ۔ قلت ہو ذاک، قال فاعنی علی نفسک بکثرۃ السجود ۲؎۔

 

الحمدللہ یہ جلیل ونفیس حدیث صحیح اپنے ہر ہر فقرہ سے وہابیت کش ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اَعِنِّیْ فرمایا کہ میری اعانت کر، اسی کو استعانت کہتے ہیں، یہ درکنار حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مطلق طور پر سَلْ فرماناکہ مانگ کیا مانگتاہے، جان وہابیت پر کیسا پہاڑ ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ حضو رہر قسم کی حاجت روا فرماسکتے ہیں، دنیا وآخرت کی سب مرادیں حضور کے اختیار میں ہیں جب تو بلاتقیید وتخصیص فرمایا: مانگ کیا مانگتاہے۔

 (۲؎ صحیح مسلم     کتاب الصلٰوۃ باب فضل السجود و الحث علیہ    قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۹۳)

(المعجم الکبیر     عن ربیعہ بن کعب حدیث ۴۵۷۶     المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۵ /۵۸)

 

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ القوی شرح مشکوٰۃ شریف میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں: ازاطلاق سوال کہ فرمود سل بخواہ وتخصیص نکرد بمطلوبی خاص معلوم میشود کہ کارہمہ بدست ہمت و کرامت اوست صلی تعالٰی علیہ وسلم ہر چہ خواہد وہر کراخواہد باذن پروردگار خود بدہد ؎

فان من جودک الدنیا وضرتہا

ومن علومک علم اللوح والقلم ۱؎۔ مطلق سوال کے متعلق فرمایا ''سوال کر'' جس میں کسی مطلوب کی تخصیص نہ فرمائی، تومعلوم ہوا کہ تمام اختیارات آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دست کرامت میں ہیں، جو چاہیں جس کو چاہیں اللہ تعالٰی کے اذن سے عطا کریں، آپ کی عطا کا ایک حصہ دنیا وآخرت ہے اور آپ کے علوم کا ایک حصہ لوح وقلم کا علم۔ (ت)

 (۱؎ اشعۃ اللمعات     کتاب الصلٰوۃ باب السجود وفضلہ فصل اول     مکتبہ نبویہ رضویہ سکھر    ۱ /۳۹۶)

 

علامہ علی قاری علیہ رحمۃ الباری مرقاۃ میں فرماتے ہیں: یوخذ من اطلاق صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الامربالسؤال ان اﷲ مکنہ من اعطاء کل مااراد من خزائن الحق ۲؎۔ یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو مانگنے کا حکم مطلق دیا اس سے مستفاد ہوتاہے کہ اللہ عزوجل نے حضور کوقدرت بخشی ہے کہ اللہ تعالٰی کے خزانوں میں سے جو کچھ چاہیں عطافرمائیں۔ (ت)

 (۲؎مرقاۃ المفاتیح    کتاب الصلٰوۃ          مکتبۃ حبیبہ کوئٹہ    ۲ /۶۱۵)

 

پھر لکھا : وذکر ابن سبع فی خصائصہ وغیرہ ان اﷲ تعالٰی اقطعہ ارض الجنۃ یعطی منہا ماشاء لمن یشاء ۳؎۔ یعنی امام ابن سبع وغیرہ علماء نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خصائص کریمہ میں ذکر کیا ہے کہ جنت کی زمین اللہ عزوجل نے حضور کی جاگیر کردی ہے کہ اس میں سے جو چاہیں جسے چاہیں بخش دیں۔ (ت)

 (۳؎ مرقاۃ المفاتیح    کتاب الصلٰوۃ          مکتبۃ حبیبہ کوئٹہ    ۲ /۶۱۵)

 

اما م اجل سیدی ابن حجر مکی قدس سرہ، الملکی ''جو ہر منظم'' میں فرماتے ہیں : انہ صلی تعالٰی علیہ وسلم خلیفۃ اﷲ الذی جعل خزائن کرمہ وموائد نعمہ طوع یدیہ وتحت ارادتہ یعطی منہا من یشاء ویمنع من یشاء ۱؎۔ بے شک نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ عزوجل کے خلیفہ ہیں، اللہ تعالٰی نے اپنے کرم کے خزانے اور اپنی نعمتوں کے خوان حضور کے دست قدرت کے فرمانبردار اور حضور کے زیر حکم وارادہ واختیار کردئے ہیں کہ جسے چاہیں عطا فرماتے ہیں اور جسے چاہیں نہیں دیتے۔ (ت)

(۱؎ الجوہر المنظم         الفصل السادس     المطبعۃ الخیرۃ مصر    ص۴۲)

 

اس مضمون کی تصریحیں کلمات ائمہ وعلماء واولیاء وعرفاء میں حد تواتر پر ہیں جو ان کے انوار سے دیدہ ایمان منور کرنا چاہے فقیر کا رسالہ سلطنۃ المصطفی فی ملکوت کل الورٰی (۱۲۹۷ء) مطالعہ کرے۔

 

اس جلیل حدیث میں سب سے بڑھ کر جان وہابیت پر یہ کیسی آفت کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد پر حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے جنت مانگی کہ اسألک مرافقتک فی الجنۃ یار سول اﷲ! میں حضور سے سوال کرتاہوں کہ جنت میں رفاقت والا سے مشرف ہوں، وہابیہ کے طور سے یہ کیساکھلا شرک ہے مگر اس کی شکایت کیا، ابھی فقیر غفر اللہ تعالٰی لہ نے بجواب سوال دہلی ایک نفیس رسالہ "اکمال الطامۃ علی شرک سوی بالامور العامۃ" تالیف کیا اور بتوفیقہٖ تعالٰی اس میں تین سو ساٹھ آیتوں حدیثوں سے ثبوت دیا کہ وہابیہ کے طور پر حضرات انبیاء کرام وملائکہ علیہم الصلٰوۃ والسلام سے لے کر حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور خود حضرت رب العزت جل جلالہ تک معاذاللہ کوئی شرک سے محفوظ نہیں، ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم ؎

 

اشراک بمذہبے کہ تاحق برسد

مذہب معلوم واہل مذہب معلوم  (ایک مذہب میں شرک اللہ تعالٰی تک پہنچتاہے وہ سب کو معلوم ہے اور مذہب والے بھی سب کو معلوم ہیں)

 

حدیث ۱۵ تا ۲۸: چودہ حدیثوں میں ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اطلبوا الخیر عند حسان الوجوہ ۲؎۔ خیر طلب کرونیک رویوں کے پاس۔

 (التاریخ الکبیر         حدیث ۴۶۸         دارالباز مکۃ المکرمۃ    ۱/ ۱۵۷)

(موسوعہ رسائل ابن ابی الدنیا     قضاء الحوائج    حدیث ۵۱     مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت    ۲ /۴۹)

(کشف الخفاء         حدیث ۳۹۴         دارالکتب العلمیہ بیروت        ۱ /۱۲۲)

 

وفی لفظ (دوسرے الفاظ میں) : اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ ۱؎۔ نیکی اور حاجتیں خوبصورتوں سے مانگو۔

 (۱؎ المعجم الکبیر     عن ابن عباسس حدیث ۱۱۱۱۰    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۱ /۸۱)

 

وفی لفظ (بالفاظ دیگر): اذا ابتغیتم المعروف فاطلبوہ عند حسان الوجوہ ۲؎۔ جب نیکی چاہو تو خوبرویوں کے پاس طلب کرو،

 (۲؎ الکامل لابن عدی     ترجمہ یعلی بن ابی الاشدق الخ     دارالفکر بیروت    ۷ /۲۷۴۲)

(کنز العمال     حدیث ۱۶۷۹۴    مؤسسۃ الرسالۃ بیروت        ۶/ ۵۱۶)

 

وفی لفظ (دوسرے لفظو ں میں): اذا طلبتم الحاجات فاطلبوہا عند حسان الوجوہ ۳؎۔ جب حاجتیں طلب کرو خوش چہروں کے پاس طلب کرو۔

(۳؎ اتحاف السادۃ     کتاب الصبر والشکر بیاں حقیقۃ النعمۃ الخ     دارالفکر بیروت    ۹ /۹۱)

 

وفی لفظ بزیادۃ  (اضافہ کے ساتھ دیگر الفاظ میں)  : فان قضٰی حاجتک قضاھا بوجہ طلق و ان ردک ردک بوجہ طلق، اخرجہ الامام البخاری فی التاریخ ۴؎ وابوبکر بن ابی الدنیا فی قضاء ۵؎ الحوائج وابویعلی فی مسندہ ۶؎ والطبرانی فی الکبیر والعقیلی۷؎ وابن عدی۸؎ والبیہقی فی شعب الایمان۱؎ وابن عساکر۲؎ ۔

 

خوش جمال آدمی اگر تیری حاجت روا کرے گا تو بکشادہ روئی اور تجھے پھیرے گا تو بکشادہ پیشانی۔ (اسے امام بخاری نے تاریخ میں، ابوبکر بن ابی الدنیا نے قضاء الحوائج میں ابویعلٰی نے اپنی مسند میں طبرانی نے کبیر میں۔ عقیلی نے عدی نے بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابن عساکر نے روایت کیا ۔ ت)

 (۴؎ التاریخ الکبیر     حدیث ۴۶۸     دارالباز مکۃ المکرمۃ    ۱ /۱۵۷)

(۵؎ موسوعہ رسائل ابن ابی الدنیا قضاء الحوائج حدیث ۵۴     موسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت    ۲ /۵۱)

(۶؎ مسند ابی یعلی عن عائشہ رضی اللہ عنہا حدیث ۴۷۴۰     موسسۃ علوم القرآن بیروت    ۴ /۳۸۶)

(۷؎ الضعفاء الکبیر     حدیث ۵۹۹         دارالکتب العلمیہ بیروت    ۲ /۱۲۱)

(۸؎ الکامل لابن عدی     ترجمہ حکم بن عبداللہ بن سعد     دارالفکر بیروت    ۲ /۶۲۲)

(۱؎ شعب الایمان  حدیث ۳۵۴۱و ۳۵۴۲     دارالکتب العلمیہ بیروت     ۳ /۲۷۸)

(۲؎ کنز العمال    بحوالہ ابن عساکر عن عائشہ حدیث ۱۶۷۹۳    موسسۃ الرسالہ بیروت    ۶ /۵۱۶)

 

 (۱۵) عن ام المؤمنین الصدیقۃ وعبد بن حمید فی مسندہ، وابن حبان فی الضعفاء وابن عدی فی الکامل ۳؎ والسلفی فی الطیوریات۔  (۱۵) حضرت ام المومنیں صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کو عبد بن حمید نے اپنی مسند اور ابن حبان نے ضعفاء اور ابن عدی نے کامل اور سلفی نے طیوریات میں ذکر کیا ۔ (ت)

 (۳؎ الکامل لابن عدی     ترجمہ یعلی بن اشدق     دارالفکر بیروت    ۷/ ۲۷۴۲)

 

 (۱۶) عن عبداﷲ بن عمر الفاروق، وابن عساکر۴؎ وکذا الخطیب۵؎ فی تاریخہما۔

(۱۶) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی روایت کو اور ابن عساکر اور ایسے ہی خطیب نے اپنی اپنی تاریخ میں ذکر کیا۔ (ت)

 (۴؎ تہذیب تاریخ ابن عساکر ترجمہ خیثمہ بن سلیمان     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۱۸۸)

(۵؎ تاریخ بغداد      ترجمہ ۱۲۸۷ محمد بن محمد المقری     دارالکتب العربی بیروت    ۳/۲۲۶)

 

(۱۷) عن انس بن مالک بلفظ التمسواء والطبرانی فی الاوسط ۶؎ والعقیلی ۷؎ و الخرائطی فی اعتلال القلوب وتمام فی فوائدہ  وابو سہل عبدالصمد بن عبدالرحمن البزار فی جزئہ وصاحب المہروانیات۔

 

 (۱۷) حضرت انس بن مالک کی روایت میں التمسوا کالفظ ہے اور اس کو طبرانی نے اوسط اور عقیلی اور خرائطی نے اعتلال القلوب اورتمام نے اپنی فوائد میں اور ابوسہیل عبدالصمد بن عبدالرحمن بزار نے اپنی جزء میں اور مہر وانیات والے نے روایت کیا ہے۔ (ت)

 (۶؎ المعجم الاوسط   حدیث ۶۱۱۳     مکتبہ المعارف ریاض     ۷ /۷۱)

(۷؎ الضعفاء الکبیر     حدیث ۶۲۸         دارالکتب العلمیہ بیروت   ۲ /۱۳۹)

 

(۱۸) عن جابن بن عبداﷲ والدارقطنی فی الافراد۸؎ بلفظ ابتغوا والعقیلی  وابن ابی الدنیا فی قضاء الحوائج۱؎ و الطبرانی فی الاسط وتمام والخطیب فی رواۃ مالک۔

 

 (۱۸) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کہ دارقطنی ''ابتغوا'' کے لفظ کے ساتھ اور عقیلی اور ابن ابی الدنیا نے قضاء الحوائج میں اور طبرانی نے اوسط میں اور تمام اور خطیب نے رواۃ مالک میں ذکر کیا ہے۔ (ت)

 (۸؎ کنز العمال بحوالہ قط فی الافراد حدیث ۱۶۷۹۲     موسسۃ الرسالہ بیروت  ۶ /۵۱۶)

(۱؎ موسوعہ رسائل ابن ابی الدنیا     قضاء الحوائج     حدیث ۵۳     موسسۃ الکتب بیروت    ۲ /۵۱)

 

 ( ۱۹) عن ابی ہریرۃ وابن النجار فی تاریخۃ۔ ۲؎۔  (۱۹) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کو ابن النجار نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے۔ (ت)

 (۲؎ کشف الخفاء    بحوالہ ابن النجار فی تاریخ بغداد حدیث ۵۲۷     موسسۃ الکتب العلمیہ     ۱ /۱۶۰)

 

 (۲۰) عن امیر المومنین علی المرتضی والطبرافی فی الکبیر ۳؎۔  (۲۰) حضرت امیر المومنین علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کو طبرانی نے کبیر میں ذکر کیا۔

 (۳؎ المعجم الکبیر     عن ابی خصیفہ     حدیث ۹۸۳    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۲۲ /۳۹۶)

 

(۲۱) عن یزید بن خصیفہ عن ابیہ عن جدہ ابی خصیفہ بلفظ التمسوا وتمام فی الفوائد۔  (۲۱) حضرت یزید بن خصیفہ نے اپنے والد انھوں نے یزید کے دادا ابی خصیفہ سے ''المتسوا'' کے لفظ کے ساتھ اور تمام نے فوائد میں ذکر کیا۔

 

 (۲۲) عن ابی بکرۃ والخطیب ۴؎ وتمام ولفظ التمسوا والبیہقی فی الشعب والطبرانی ۵؎۔

 

 (۲۲) حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کو اورخطیب اور تمام نے ''المتسوا'' کے لفظ کو اور بیہقی نے شعب میں اور طبرانی نے ذکر کیا۔ (ت)

 (۴؎ تاریخ بغداد     ترجمہ محمد بن محمد ابوبکر المقری ۱۲۸۷     دارالکتب العلمیۃ بیروت    ۳ /۲۲۶)

(۵؎ المعجم الکبیر   عن ابن عباس حدیث ۱۱۱۱۰    المکتبۃالفیصلیہ بیروت    ۱۱ /۸۱)

 

 (۲۳) عن عبداﷲ بن عباس ہذا الاخیر منہم خاصۃ عن ابن عباس باللفظ الثانی وابن عدی عن ام المومنین باللفظ الثالث، واخرجہ بن عدی فی الکامل والبیہقی فی الشعب ۶؎۔

 

 (۲۳) یہ آخری ان سے خاص حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ثانی لفظ کے ساتھ اور ابن عدی نے حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا سے تیسرے لفظ کے ساتھ اس کو ابن عدی نے کامل میں اور بیہقی نے شعب میں ذکر کیا۔ (ت)

(۶؎ شعب الایمان    حدیث ۱۰۸۷۶    دارالکتب العلمیہ بیروت   ۷ /۲۳۵)

 

 (۲۴) عن عبداﷲ بن جراد باللفظ الرابع، واحمد بن منیع فی مسندہ عن الحجاج بن یزید۔  (۲۴) حضرت عبداللہ بن جراد سے چوتھے لفظ کے ساتھ اور احمد بن منیع نے اپنی مسند میں حجاج بن یزید نے ذکر کیا۔ (ت)

 

 (۲۵) عن ابیہ یزید القسملی ۱؎ باللفظ الخامس رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین ہذہ کلہا مسندات وابوبکرابن  ابی شیبۃ فی مصنفہ۔  (۲۵) اس نے اپنے باپ یزید قسملی سے پانچویں لفظ کے ساتھ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین یہ تمام مسندات اورابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ذکر کیا۔ (ت)

 (۱؎ کشف الخفاء بحوالہ القسمی حدیث ۵۲۷ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/ ۱۶۰)

 

 (۲۶) عن ابن مصعب ۲؎ الانصاری و (۲۷) عن عطاء۳؎ و(۲۸) عن الزہری ۴؎مرسلات۔  (۲۶) ابن مصعب انصاری سے اور (۲۷) عطاء سے (۲۸) اور زہر ی سے سب مرسلات ہیں۔

 (۲؎ المصنف لابن ابی شیبہ     کتاب الادب ماذکر فی طلب الحوائج     حدیث ۶۳۲۷     کراچی    ۹ /۱۰)

(۳؎المصنف لابن ابی شیبہ     کتاب الادب ماذکر فی طلب الحوائج     حدیث ۶۳۲۸   کراچی    ۹ /۱۰)

(۴؎المصنف لابن ابی شیبہ     کتاب الادب ماذکر فی طلب الحوائج     حدیث ۲۹ ۶۳   کراچی    ۹ /۱۰)

 

امام محقق جلال الملۃ والدین سیوطی فرماتے ہیں : الحدیث فی نقدی حسن صحیح ۵؎ یہ حدیث میری پر کھ میں حسن صحیح ہے۔ قلت وقولہ ھذا لاشک حسن صحیح فقد بلغ حد التواتر علی رائی  (میں کہتاہوں اور ان کا یہ قول حق ہے بیشک یہ حسن صحیح حد تواتر کو پہنچی ہے میری رائے میں)

 (۵؎ کشف الخفاء     تحت حدیث ۵۲۷     دارالکتب العلمیۃ بیروت        ۱ /۱۶۰)

 

حضرت عبداللہ بن رواحہ یا حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں: قد سمعنا نبینا قال قولا     ہو لمن یطلب الحوائج راحۃ

اغتدوا واطلبوا الحوائج ممن        زین اﷲ وجہہ بصباحۃ ۶؎ یعنی بے شک ہم نے اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک بات فرماتے سنا کہ وہ حاجت مانگنے والوں کےلئے آسائش ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں کہ صبح کرو اور حاجتیں اس سے مانگو جس کا چہرہ اللہ تعالٰی نے گورے رنگ سے آراستہ کیا ہے۔ رواہ العسکری۔

 (۶؎ الدرالمنثور فی الاحادیث المشتہرہ     تحت حدیث ۸۸     المکتب الاسلامی بیروت    ص۶۸)

 

حدیث ۲۹: کہ حضرت پر نور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ وعلی آلہ فرماتے ہیں : اطلبوا الفضل عند الرحماء من امتی تعیشوا فی اکنافہم فان فیہم رحمتی ۱؎۔ فضل میرے رحمدل امتیوں کے پاس طلب کرو کہ ان کے سائے میں چین کرو گے کہ ان میں میری رحمت ہے۔

 (۱؎ کنز العمال     بحوالہ الخراطی فی مکارم الاخلاق     حدیث ۱۶۸۰۶     موسسۃ الرسالہ بیروت    ۶ /۵۱۹)

 

وفی لفظ (اور دوسرے الفاظ میں۔ ت) : اطلبوا الحوائج الی ذوی الرحمۃ من امتی ترزقواتنجحوا ۲؎۔ اپنی حاجتیں میرے رحمدل امتیوں سے مانگو رزق پاؤگے مرادیں پاؤگے۔

 (۲؎ کنز العمال     بحوالہ عق وطس عن ابی سعید خدری     حدیث ۱۱۸۰۱  موسسۃ الرسالہ بیروت    ۶ /۵۱۸)

 

وفی لفظ قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم  (بالفاظ دیگرر سول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا۔ت) : یقول اﷲ عزوجل اطلبوا الفضل من الرحماء من عبادی تعیشوا فی اکنافہم فانی جعلت فیہم رحمتی ۳؎۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے فضل میرے رحمدل بندوں سے مانگو ان کے دامن میں عیش کروگے کہ میں نے اپنی رحمت ان میں رکھی ہے۔

 (۳؎ الضعفاء الکبیر     حدیث ۹۵۷    دارالکتب العلمیہ بیروت    ۳ /۳)

 

رواہ باللفظ الاول ابن حبان والخرائطی فی مکارم الاخلاق والقضاعی فی مسند الشہاب والحاکم فی التاریخ وابوالحسن الموصلی وبالثانی العقیلی والطبرانی فی الاوسط وبالثالث العقیلی، کلہم عن ابی سعید ن الخدری رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

روایت کیا پہلی حدیث کو ابن حبان اور خرائطی نے مکارم الاخلاق میں اور قضاعی نے مسند الشہاب میں اور حاکم نے تاریخ میں، اور ابوالحسن موصلی نے اور دوسری حدیث کو عقیلی اور طبرانی نے اوسط میں، اور تیسری حدیث کو عقیلی نے یہ ساری حدیثیں ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی گئیں۔ (ت)

 

حدیث۳۰: کہ حضوروالاارشاد فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اطلبوا المعروف من رحماء امتی تعیشوا فی اکنافہم، اخرجہ الحاکم۱؎ فی المستدرک عن امیر المومنین علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ الاسنی۔ میرے نرم دل امتیوں سے نیکی واحسان مانگو ان کے ظل عنایت میں آرام کرو گے، (اسے حاکم نے مستدرک میں امیر المومنین علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الاسنی سے روایت کیا۔ ت)

 (۱؎ المستدرک للحاکم     کتاب الرقاق     دارالفکر بیروت    ۴ /۳۲۱)

 

انصاف کی آنکھیں کہاں ہیں، ذرا ایمان کی نگاہ سے دیکھیں یہ سولہ بلکہ سترہ حدیثیں کیسا صاف صاف واشگاف فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے نیک امتیوں سے استعانت کرنے ان سے حاجتیں مانگنے، ان سے خیر واحسان کرنے کاحکم دیا کہ وہ تمھاری حاجتیں بکشادہ پیشانی روا کرینگے، ان سے مانگو تو رزق پاؤ گے،مرادیں پاؤ گے، ان کے دامن حمایت میں چین کرو گے ان کے سایہ عنایت میں عیش اٹھاؤ گے۔

یارب! مگر استعانت اور کس چیز کانام ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا صورت استعانت ہوگی، پھر حضرات اولیاء سے زیادہ کون سا امتی نیک ورحمدل ہوگا کہ ان سے استعانت شرک ٹھہرا کہ اس سے حاجتیں مانگنے کا حکم دیاجائے گا، الحمدللہ حق کا آفتاب بے پردہ وحجاب روشن ہوا، مگر وہابیہ کا منہ خدا نے مارا ہے انھیں اس عیش چین آرام، خیر، برکت، سایہ رحمت، دامن رافت میں حصہ کہاں، جس کی طرف مہربان خدا مہربان رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے امتیوں کو بلا رہا ہے ع

 

گر برتو حرام ست حرامت بادا  (اگر تجھ پر حرام ہے تو حرام رہے۔ ت)

 

والحمدللہ رب العلمین تیس حدیث کا وعدہ بحمداللہ پورا ہوا، آخرمیں تین حدیثیں وہابیت کش اور سنتے جائیے کہ عدد وتر اللہ عزوجل کو محبوب ہے:

 

حدیث ۳۱ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: اذا ضل احد کم شیئا وارادعونا وہو بارض لیس بہا انیس فلیقل یاعباد اﷲ اعینونی یاعباداﷲ اعینونی یا عباداﷲ اعینونی فان اﷲ عباد الایراہم ۲؎ ۔ (والحمداﷲ) رواہ الطبرانی عن عتبۃ بن غزوان رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے یا راہ بھول جائے اور مدد چاہے اور ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے اے اللہ کے بندو میری مدد کرو، اے اللہ کے بندومیر ی مدد کرو۔ اے اللہ کے بندو میری مدد کرو۔ کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جنھیں یہ نہیں دیکھتا وہ اس کی مدد کرینگے (والحمدللہ) (اسے طبرانی نے عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالٰی سے روایت کیا۔ ت)

 (۲؎ المعجم الکبیر عن عتبہ بن غزوان     حدیث ۲۹۰     المکتبہ الفیصیلۃ بیروت    ۱۷ /۱۸۔۱۱۷)

 

حدیث ۳۲ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:جب جنگل میں جانور چھوٹ جائے فلیناد یاعباد اﷲ احبسوا تو یوں ندا کرے اے اللہ کے بندو! روک دو، عباداﷲ اسے روک دیں گے،

 

رواہ ابن السنی ۱؂ عن عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ (اسے ابن السنی نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 (۱؎ عمل الیوم واللیلۃ لابن سنی     باب مایقول اذا انفلت الدابۃ     نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۱۷۰)

 

حدیث ۳۳ :کہ فرماتے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :یوں ندا کرے اعینوا یا عباداﷲ مدد کرو اے اللہ کے بندو۔

 

رواہ ابن ابی شیبہ ۲؎ والبزار عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما  ( اسے ابن بی شیبہ اور بزار نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)

 (۲؎ المصنف لابن ابی شیبہ     کتاب الدعائ     باب مایدعو بہ الرجل الخ حدیث ۹۷۷۰         ۱۰ /۳۹۰)

 

یہ حدیثیں کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے روایت فرمائیں قدیم سے اکابر علمائے دین رحمہم اللہ تعالٰی کی مقبول ومعمول ومجرب ہیں، اس مطلب کی قدرے تفصیل اوران حدیثوں کی شوکت قاہرہ کے حضور وہابیہ کی حرکت مذبوحی کا حال دیکھنا ہو تو فقیر کا رسالہ "انہار الانوار من یم صلاۃ الاسرار " ملاحظہ ہو۔ اور اس سے زائد ان حضرات کی بری حالت حدیث اجل واعظم یا محمد انی توجہت بک الی ربی ۳؎  (یامحمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہواہوں۔ ت) کے حضور ہے کہ وہ حدیث صحیح وجلیل ومشہور منجملہ اعظم واکبر احادیث استعانت ہے جس سے ہمیشہ ائمہ دین مسئلہ استعانت میں استدلال فرماتے رہے ۔

 (۳؎ جامع الترمذی     ابواب الدعوات     امین کمپنی دہلی            ۲ /۱۹۷)

(المستدرک للحاکم     کتاب صلٰوۃ التطوع     دارالفکر بیروت        ۱ /۳۱۳و ۵۱۹)

 

ا س کی تفصیل بھی فقیر کے اسی رسالے میں مسطور ہے کہ یہاں بخوف تطویل ذکر نہ کی۔

 

اقوال علماء: رہے اقوال علماء ان کا نام لینا تو وہابی صاحبوں کی بڑی حیاداری ہے صدہا قول علماء اہلسنت وائمہ ملت کے نہ صرف ایک بار بلکہ بار بار نہ صرف ایک آدھ رسالے بلکہ تصانیف کثیرہ اہلسنت میں ان حضرات کے سامنے پیش ہوچکے، دیکھ چکے، سن چکے، جانچ چکے، جن کے جواب سے آج تک عاجز ہیں اور بحوالہ تعالٰی قیامت تک عاجز رہیں گے۔ مگر آنکھوں کے ڈھلے پانی کا علاج کیا کہ اب بھی اقوال علماء کا نام لئے جاتے ہیں یعنی ہزار بار مارا تو مارا اب کی بار مارلو تو جانیں۔ سبحان اﷲ! شفاء السقام امام علامہ مجتہد فہامہ سیدی تقی الملۃ والدین علی بن عبدالکافی وکتاب الافکار امام اجل اکمل سیدی ابو زکریا نووی واحیاء العلوم وغیرہ تصانیف عظیمہ امام الانام حجۃ الاسلام قطب الوجود محمد غزالی وروض الریاحین وخلاصۃ المفاخر، ونشر المحاسن وغیرہا تصانیف جلیلہ امام اجل اکرم عارف باللہ فقیہ محقق عبداللہ بن سعد یافعی وحصن حصین امام شمس الدین ابوالخیر ابن جزری ومدخل امام ابن الحاج محمد عبدری مکی ومواہب لدینہ ومنح محمدیہ امام احمد قسطلانی وافضل القرٰی لقرٰی ام القرٰی وجوہر منظم و عقود الجمان وغیرہ تصانیف امام عارف باللہ سیدی، ابن حجر مکی ومیزان امام اجل عارف باللہ عبدالوہاب شعرانی وحرز ثمین ملا علی قاری ومجمع بحار الانوار علامہ طاہر فتنی ولمعات التنقیح واشعۃ اللمعات و جذب القلوب ومجمع البرکات ومدارج النبوۃ وغیرہا تالیف شیخ الشیوخ علماء الہند مولانا عبدالحق محدث دہلوی وفتاوٰی خیریہ خیر الملۃ والدین رملی ومراقی الفلاح علامہ حسن وفائی شرنبلالی ومطالع المسرات علامہ فاسی وشرح مواہب علامہ محمد زرقانی ونسیم الریاض علامہ شہاب الدین خفا جی وغیرہا تصانیف کثیرہ علمائے کرام وسادات اسلام جن کی تحقیق وتنقیح واثبات وتصریح استمداد واعانت سے زمین وآسمان گونج رہے ہیں، اگر مطالعہ کرنے کی لیا قت نہ تھی تو کیا (۱) تصحیح المسائل و(۲) سیف الجبار و (۳) بوارق محمدیہ وغیرہا تصانیف نفیسہ عمادالسنۃ معین الحق حضرت مولانا فضل رسول قدس  سرہ المقبول بھی نہ دیکھیں یہ تو عام فہم زبان اردو فارسی میں خاص تمھارے ہی مذہب نامذہب کے رد میں تصنیف ہوئیں اور بحمداللہ بار ہا مطبوع ہوکر راحت قلوب صادقین وغیظ صدور مارقین ہواکیں، علی الخصوص (۴)کتاب جلیل فیوض ارواح اقدس جس میں خاندان عزیزی کے صدہا اقوال صریحہ قاتل وہابیت قبیحہ منقول، مگر ہے یہ کہ ع

 

بیحیا باش وآنچہ خواہی کن  (بیحیا ہوجا پھر جو چاہے کر۔ ت)

 

تصانیف فقیر غفراللہ تعالٰی لہ سے (۵)کتاب حیاۃ الموات فی بیان سماع الاموات و(۶) رسالہ انہار الانوار من یم صلاۃ الاسرار و(۷) رسالہ انوار الانتباہ فی حل ندایا رسول اﷲ و(۸) رسالہ الاھلال بفیض الاولیاء بعد الوصال و(۹)کتاب الامن والعلی لنا عتی المصطفی بدافع البلاء خصوصا (۱۰)کتاب مستطاب سلطنۃ المصطفی فی ملکوت کل الورٰی وغیرہا میں جابجا بکثرت ارشادات واقوال ائمہ وعلماء واولیائے کرام مذکوریہاں ان کے ذکر سے اطالت کی حاجت نہیں اور خود اسی تحریر میں جو اقوال حضرت شیخ محقق ومولانا علی قاری وامام ابن حجر مکی رحمہم اللہ تعالٰی زیر حدیث ۱۴ مذکور ہوئے قتل وہابیت کو کیا کم ہیں، پھر وہابی صاحب کی اس سے بڑھ کر پرلے سرے کی شوخ چشمی یہ کہ علماء کے ساتھ صوفیاء کرام کا نام پاک بھی لے دیا، کیا وہابیت وحیا میں ایسا ہی تناقض تام ہے کہ ایک آن کو بھی حیا کا کوئی شمہ وہابیت کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔

 

دربارہ استعانت صوفیاء کرام کے اقوال افعال، اعمال سے دفتر بھرے ہیں دریا بہہ رہے ہیں اس دیدے کی صفائی کا کیا کہنا، ذرا آنکھوں پر ایمان کی عینک لگا کر حضرت شیخ محقق مولٰنا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ العزیز کا ترجمہ مشکوٰۃ شریف ملاحظہ ہو،

 

اس مسئلہ میں حضرات اولیائے کرام قدست اسرارھم سے کیاذکر کرتے ہیں فرماتے ہیں : آنچہ مروی ومحکی ست از مشائخ اہل کشف در استمداد از ارواح کمل واستفادہ ازاں خارج از حصر است ومذکورست در کتب ورسائل ایشاں ومشہوراست میاں ایشاں کہ حاجت نیست کہ آں راذکر کنیم وشاید کہ منکر ومتعصب سود نہ کند او راکلمات ایشاں عافانا اﷲ من ذٰلک ۱؎۔

 

مشائخ اہل کشف سے کامل لوگوں کی ارواح سے استمداد اور استفادہ گنتی سے باہر ہے اور ان کی کتب ورسائل میں مذکور ہے اور ان میں مشہور ہے لہذا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہوسکتاہے کہ ان کے کلمات منکر ومتعصب لوگوں کو فائدہ نہ دیں۔ اللہ تعالٰی اس سے محفوظ رکھے (ت)

 (۱؎ اشعۃ اللمعات     کتاب الجہاد باب حکم الاسراء     فصل اول     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۳ /۴۰۲)

 

اللہ اکبر، ان منکران بے دولت کی بے نصیبی یہاں تک پہنچی کہ اکابر علماء وعرفاء کو کلمات حضرت اولیائے کرام سے انھیں نفع پہنچنے کی امید نہ رہی اور فی الواقع ایسا ہی ہے۔ یوں نہ مانئے تو آزمالیجئے اور ان ہزار در ہزار ارشادات بیشمار سے امتحانا صرف ایک کلام پاک فرزند دلبند صاحب لولاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ذکر کریں جو بتصریح اعاظم اولیاء سید الاولیاء وامام الاصفیاء وقطب الاقطاب وتاج الاوتاد ومرجع الابدال ومفزع الافراد اور باعتراف اکابر علماء امام شریعت وسردار امت ومحی دین وملت ونظام طریقت وبحر حقیقت وعین ہدایت ودریائے کرامت ہے ۔ وہ کون ، ہاں وہ سید الاسیادواہب المراد سیدنا ومولٰنا وملاذنا و ماوٰنا وغوثنا وغیثنا حضرت قطب عالم وغوث اعظم سید ابومحمد عبدالقادر حسنی حسینی صلی اللہ تعالٰی علی جدہ الاکرام وعلی آلہ وعلیہ وبارک وسلم، اور وہ کلام پاک نہ ایسا کہ کسی ایسے ویسے رسالے یا محض زبانوں پر مشہور ہوا بلکہ اکابر واجلہ ائمہ کرام وعلمائے عظام مثل امام اجل عارف باللہ سید القرآء ثقہ ثبت، حجت فقیہ محدث راویۃالحضرۃ والعلیۃ القادریۃ سید نا امام ابوالحسن نور الدین علی بن الجریر لخمی شطنوفی پھر امام کرام شیخ الفقہاء فردالوفاء عالم ربانی لوائے حکمت یمانی سیدنا امام عبداللہ بن اسعد یافعی شافعی مکی پھر فاضل اجل فقہیہ اکمل محدث اجمل شیخ الحرم المحترم مولٰنا علی قادری حنفی ہروی مکی وبقیۃ السلف جلیل الشرف صاحب کرامات عالی وبرکات معالی ومولٰنا محمد ابوالمعالی سلمی معالی پھر شیخ شیوخ علماء الہند محقق فقیہ عارف نبیہ مولٰنا شیخ عبدالحق محدث دہلوی وغیرہم کبرائے ملت وعظمائے امت قدسنا اللہ تعالٰی باسرارہم وافاض علینا من برکاتہم وانوارہم نے اپنی تصانیف جلیلہ جمیلہ ومستندہ ومثل بہجۃ الاسرار شریف وخلاصۃ المفاخر ونزہۃ الخاطرالفاتر وتحفۃ قادریہ واخبار الاخیار وزبدۃ الآثار وغیرہ میں ذ کر وروایت فرمایا کہ حضور پر نور جگر پارہ شافع یوم النشور صلی ااﷲ تعالٰی علیہ فعلیہ وبارک وسلم ارشاد فرماتے ہیں :

 

من استغاث فی کربۃ کشف عنہ و من نادانی  باسمی فی شدۃ فرجت عنہ ومن توسل بی الی اﷲ فی حاجۃ قضیت لہ ومن صلی رکعتین یقراء فی کل رکعۃ بعد الفاتحۃ سورۃ الاخلاص احدی عشرۃ مرۃ ثم یصلی ویسلم علی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بعد السلام ویذکر نی ثم یخطو الی جہۃ العراق احدی عشرۃ خطوۃ ویذکر اسمی ویذکر حاجتہ فانہا تقضی باذن اﷲ تعالٰی ۱؎۔

 

جو کسی مصیبت میں مجھ سے فریاد کرے وہ مصیبت دور ہو اور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر ندا کرے وہ سختی دفع ہو اور جو اللہ عزوجل کی طرف کسی حاجت میں مجھ سے وسیلہ کرے وہ حاجت پوری ہو، اور جو دورکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں بعد فاتحہ گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھے پھرسلام پھیر کر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر

درود وسلام بھیجے اور مجھے یاد کرے، پھر بغداد شریف کی طرف گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے اور اپنی حاجت کاذکر کرے تو بیشک اللہ تعالٰی کے حکم سے وہ حاجت روا ہو۔

 (۱؎ بہجۃ الاسرار  ذکر فضل اصحابہ وبشراہم  مصطفی البابی مصر ص۱۰۲)

 

یقول العبد صدقت یا سیدی یا مولائی رضی اﷲ تعالٰی عنک وعن کل من کان لک ومنک فالحمدﷲ الذی جعل وارث ابیک المرسل رحمۃ ومولی النعمۃ وصلی اﷲ تعالٰی علی ابیک وعلیک وعلی کل من انتمی الیک و بارک وسلم وشرف وکرم اٰمین اٰمین یاارحم الراحمین والحمدﷲ رب العالمین۔

 

یہ بندہ (یعنی احمد رضا) عرض کرتاہے کہ میرے آقا مولٰی! آپ نے سچ فرمایا اللہ تعالٰی آپ سے اور آپ کے متوسلین اور آپ کی اولاد سے راضی ہو، تمام حمدیں اللہ تعالٰی کے لئے جس نے آپ کے والد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وارث، رحمت اور آقائے نعمت بتایا، اللہ تعالٰی آپ کے والد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور آپ پر اور آپ سے منسوب سب پر رحمتیں نازل فرمائے اور برکتیں اور سلامتی اور کرم فرمائے، آمین یا ارحم الراحمین۔ والحمدللہ رب العالمین (ت)

 

حضرت ابوالمعالی قدس سرہ العالی کی روایت میں الفاظ کریمہ کشفتُ فرّجتْ قضیت بصیغہ متکلم معلوم ہیں، وہ ان کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں: عمر بزاز قدس سرہ میگوید من شنیدہ ام از حضرت شیخ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کہ ہر کہ در کربتے بمن استغاثہ کند کشفت عنہ دور گردانم آن کر بت را از و، وہر کہ در شدتے بنام من ندا کند فرجت عنہ خلاص بخشم اور اازاں شدت وہر کہ درحاجتے توسل بمن کند در حضرت جل وعلا قضیت لہ حاجت او را برآرم ۱؎۔ عمر بزاز فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شیخ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سنا کہ جو شخص مصیبت میں مجھ سے استغاثہ کرے گا میں مدد کروں گا، اس سے اس کی تکلیف دور کروں گا اور جو سختی میں مجھے ند ا کرے گا اس کی سختی کو دورکردوں گا اور خلاصی دلاؤں گا، اور جو اپنی حاجت میں مجھے سے توسل کرے گا اللہ تعالٰی کے دربار میں اس کی حاجت پوری کروں گا۔ (ت)

 (۱؎تحفہ قادریہ    باب دہم فی التوسل الیہ الخ قلمی    ص۷۶)

 

علامہ علی قاری بعد ذکر روایت فرماتے ہیں : قَدْ جُرِّبَ ذٰلِکَ مِرَارا فصَحَّ رَضِیَ اﷲُ تَعالٰی عَنْہُ ۲؎۔ بیشک یہ بار ہا تجربہ کیا گیا ٹھیک اترا، اللہ تعالٰی کی رضا شیخ پر ہو۔ (ت)

 (۱؎ نزہۃ الخاطر والفاتر)

 

فقیر غفرلہ نے اس نماز مبارک کی ترکیب وبعض نکات ولطائف غریب میں ایک مختصر رسالہ "مسمی بہ ازہار الانوار من صباء صلٰوۃ الاسرار (۱۳۰۵ھ)" میں اس کے ہر ہر فعل کے ثبوت کو کافی، ہر ہر جز کے احادیث کثیرہ واقوال ائمہ وحکم شرعیہ سے اثبات وافی ہیں ایک مفصل رسالہ نفیسہ بر فوائد جلیلہ مسمی بہ "ازھار الانوار من یم صلٰوۃ الاسرار (۱۳۰۵ھ)" تصنیف کیا جس کی خداداد  شوکت قاہرہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے وﷲ الحمد ۔ ایمان سے کہنا یہ  وہی اولیاء ہیں جن پر تم یہ جیتا بہتان اٹھاتے ہو مگر وہ تو حضرات اولیاء تمھیں منکر متعصب فرماہی چکے، تم پر ارشادات اولیاء کا کیا اثر ہو، ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم ۔ عنان قلم روکتے روکتے سخن طویل ہوا جاتا ہے۔ چند فوائد ضروریہ لکھ کر ختم کیا چاہئے۔

 

فائدہ ضروریہ

 

حضرت امام سفیان ثوری قدس سرہ النوری کی نقل قول میں مخالف نے ستم کار سازی کو کام فرمایا ہے۔ اصل حکایت شاہ عبدالعزیز صاحب کی فتح العزیز سے سنئے، لکھتے ہیں:

 

شیخ سفیان ثوری رحمۃاللہ تعالٰی علیہ در نماز شام امامت میکرد ،چوں ایاک نعبد وایاک نستعین گفت بیہوش افتاد ،چوں بخود آمد گفتند اے شیخ ! تراچہ شدہ بود ؟ گفت چوں وایاک نستعین گفتم ترسیدم کہ مرا بگویند کہ اے دروغ گو ! چرا از طبیب دارو می خواہی واز امیر روزی واز بادشاہ یاری می جوئی ، ولہذا بعضے از علماء گفتہ اند کہ مرد را باید کہ شرم کند ازانکہ ہر روز وشب پنج نوبت در مواجہہ پروردگار خود استادہ دروغ گفتہ باشد ، لیکن درینجا باید فہمید کہ استعانت از غیر بوجہے کہ اعتماد برآں غیر باشد و او را مظہر عون الہی نداند حرام است ، واگر التفات محض بجانب حق است واو را مظاہر عون دانستہ ونظربہ کارخانہ اسباب وحکمت او تعالی در آں نمودہ بغیر استعانت ظاہری نماید ، دور از عرفان نخواہد بود ،ودر شرع نیز جائز وروا ست ،وانبیاء واولیا ء ایں نوع استعانت بغیر کردہ اند ودرحقیقت ایں نوع استعانت بغیر نیست بلکہ استعانت بحضرت حق است لاغیر ،۱؂

 

شیخ سفیان ثوری رحمۃاللہ تعالٰی علیہ نے شام کی نماز میں امامت فرمائی جب ایاک نعبد وایاک نستعین پر پہنچے بیہوش ہوکرگر پڑے، جب ہوش میں آئے تولوگوں نے دریافت کیا، اے شیخ! آپ کو کیا ہوگیا تھا؟ فرمایا: جب ایاک نستعین کہا تو خوف ہوا کہ مجھ سے یہ نہ کہا جائے اے جھوٹے، پھر طبیب سے دواکیوں لیتاہے۔ امیر سے روزی اور بادشاہ سے مدد کیوں مانگتاہے ؟ اس لئے بعض علماء نے فرمایا ہے کہ انسان کو خدا سے شرم کرنی چاہئے کہ پانچ وقت اس کے حضور کھڑا ہوکر جھوٹ بولتا ہے مگر یہاں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ غیر اللہ سے اس طرح مدد مانگنا کہ اسی پراعتماد ہو اور اس کو اللہ کی مدد کامظہر نہ جانا جائے حرام ہے اور اگر توجہ حضرت حق ہی کی طرف ہے اور اس کو اللہ کی مدد کا مظہر جانتا ہے اور اللہ کی حکمت اور کارخانہ اسباب پر نظر کرتے ہوئے ظاہری طور پر غیر سے مدد چاہتاہے تو یہ عرفان سے دورنہیں، اورشریعت میں بھی جائز اور روا ہے اور انبیاء اور اولیاء نے ایسی استعانت کی ہے۔ اور درحقیقت یہ استعانت غیر سے نہیں ہے بلکہ یہ حضرت حق سے ہی استعانت ہے۔ (ت)

 (۱؎ فتح العزیز (تفسیر عزیزی)     تفسیر سورہ فاتحہ     پار الم     افغانی دارالکتب دہلی    ص۸ )

 

مخالف صاحب نے دیکھا کہ حکایت اگر صحیح طور پر نقل کریں تو ساری قلعی کھل جاتی ہے طبیبوں سے دوا چاہنی، امیروں سے نوکری مانگنی، بادشاہوں سے مقدمات وغیرہا میں رجوع کرنا سب شرک ہوا جاتا ہے جس میں خود بھی مبتلا ہے۔ لہذا از طبیب دوا وغیرہ الفاظ کی جگہ یوں بتایا کہ ''غیر حق سے مدد مانگو مجھ سے زیادہ بے ادب کون ہوگا'' تاکہ جاہلوں کے بہکانے کو اسے بہ زور زبان حضرت انبیاء واولیاء علیہم السلام والثناء سے استعانت پر جمائیں اور آپ حکیم جی سے دوا کرانے ، نواب راجہ کی نوکری کرنے، منصف ڈپٹی کے یہاں نالش لڑانے کو الگ بچ جائیں، سبحان اللہ کہاں وہ تبتل تام واسقاط تدبیر واسباب کامقام جس کی طرف امام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس قول میں ارشاد فرمایا جس کے اہل مریض ہوں تو دوا نہ کریں۔ بیماری کو کسی سبب کی طرف نسبت نہ فرمائیں، عین معرکہ جہاد میں کوڑا ہاتھ سے گر پڑے تو دوسرے سے نہ کہیں آپ ہی اتر کے اٹھائیں، اور کہاں مقام شریعت مطہرہ واحکام جواز ومنع وشرک واسلام مگران ذی ہوشوں کے نزدیک کمال تبتل وشرک متقابل ہیں کہ جو اس اعلٰی درجہ انقطاع محض وتفویض تام پر نہ ہوا مشرک ٹھہرایا، انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔

 

ذرا آنکھیں کھول کردیکھو، اسی حکایت کے بعد شاہ صاحب نے کیسی تصریح فرمادی کہ استعانت بالغیروہی ناجائزہے کہ اس غیر کو مظہر عون الٰہی نہ جانے بلکہ اپنی ذات سے اعانت کا مالک جان کر اس پر بھروسا کرے، اور اگر مظہر عون الٰہی سمجھ کر استعانت بالغیر کرتاہے تو شرک وحرمت بالائے طاق، مقام معرفت کے بھی خلاف نہیں خود حضرات انبیاء واولیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام نے ایسی استعانت بالغیر کی ہے۔

 

مسلمانو! مخالفین کے ا س ظلم وتعصب کا ٹھکانا ہے کہ بیمار پڑیں تو حکیم کے دوڑیں ، دوا پر گریں، کوئی مارے پیٹے تو تھانے کو جائیں، رپٹ لکھائیں، ڈپٹی وغیرہ سے فریاد کریں، کسی نے زمین دبالی کہ تمسک کا روپیہ نہ دیا تو منصف صاحب مدد کیجیو، جج بہادر خبر لیجیو، نالش کریں، استغاثہ کریں ، غرض دنیا بھر سے استعانت کریںِ اور حصر ایاک نستعین کو اس کے منافی نہ جانیں، ہاں انبیاء واولیاء علیہم الصلٰوۃ والثناء سے استعانت کی اور شرک آیا، ان کاموں کے وقت آیت کاحصر کیوں نہیں یاد آتا، وہاں تو یہ ہے کہ ہم خاص تجھی سے استعانت کرتے ہیں، کیا مخالفین کے نزدیک ''خاص تجھی'' میں بید، حکیم، تھانیدار، جمعدار، ڈپٹی، منصف، جج وغیرہ سب آگئے کہ یہ اس حصر سے خارج نہ ہوئے، یا معاذا للہ آیہ کریمہ کا حکم ان پر جاری نہیں، یہ خدا کے ملک سے کہیں الگ بستے ہیں، ولا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم۔

 

غرض مخالفین خود بھی دل میں خوب جانتے ہیں کہ آیہ کریمہ مطلق استعانت بالغیر کی اصلا ممانعت نہیں، نہ وہ ہر گز شرک یاممنوع ہوسکتی ہے بلکہ استعانت حقیقیہ ہی رب العزۃ جل وعلا سے خاص فرمائی گئی ہے اور اس کا اختصاص کسی طرح حضرات انبیاء واولیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام سے استعانت جائزہ کا منافی نہیں ہوسکتا مگر عوام بیچاروں کو بہکانے اور محبوبان خدا کا نام پاک ان کی زبان سے چھڑا نے کو دیدہ ودانستہ قرآن وحدیث کے معنی بدلتے ہیں، تو بات کیا  سر کی کھلی اور دل کی بند ہیں، پاؤ تلے کی نظر آتی ہے۔ حکیم جی کو علاج کرتے، تھانیدار کو چوریاں نکالتے، نواب راجہ کو نوکریاں دیتے، ڈپٹی منصف کو مقدمات بگاڑتے سنبھالتے، آنکھوں دیکھ رہے ہیں، ان کہ امداد و اعانت سے کیونکر منکر ہوں اور حضرات علیہ انبیاء واولیاء علیہم الـصلٰوۃ والثناء سے جو باطن وظاہر قاہر وباہر مددیں پہنچ رہیں ہیں، وہ نہ دل کے اندھوں کو سوجھیں اور نہ ہی اپنے  نصیبے میں ان کی برکات کا حصر سمجھیں پھر بھلا کیونکر یقین لائیں، جیسے معتزلہ خذلہم اللہ تعالٰی کہ ان کے پیشوا ظاہری عبادتیں کرتے کرتے مرگئے، کرامات اولیاء کی اپنے میں  بوند نہ پائی، ناچار منکر ہوگئے ع

 

چونہ دید ندحقیقت رہ افسانہ زدند  (جب انھوں نے حقیقت کو نہ سمجھا تو افسانہ کی راہ اختیار کی۔ ت)

 

پھر ان حضرات کو ڈپٹی، منصف ، حکیم سے خود بھی کام پڑتا رہتاہے ان سے استعانت کیونکر شرک کہیں، معہذا ان لوگوں سے کوئی کاوش بھی نہیں۔ دل میں آزار تو حضرات انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلٰوۃوالثناء سے ہے۔ ان کانام تعظیم ومحبت سے نہ آنے پائے ان کی طرف کوئی سچی عقیدت سے رجوع نہ لائے۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۱؎  (عنقریب جان جائیں گے ظالم کہ کس کروٹ پلٹا کھائیں گے۔ (ت)

 (۱؎القرآن الکریم        ۲۶ /۲۲۷)

 

فائدہ مہمہ

 

مخالفین بیچارے کم علموں کو اکثر دھوکا دیتے ہیں کہ یہ تو زندہ ہیں فلاں عقیدہ یا معاملہ ان سے شرک نہیں، وہ مردہ ہیں ان سے شرک ہے۔ یا یہ تو پاس بیٹھے ہیں ان سے شرک نہیں، وہ دور ہیں ان سے شرک ہے وعلی ہذا القیاس طرح طرح کے بیہودہ وسواس ، مگریہ سخت جہالت بے مزہ ہے جو شرک ہے وہ جس کے ساتھ کیا جائے شرک ہی ہوگا، اورایک کے لئے شرک نہیں توکسی کے لئے بھی شرک نہیں ہوسکتا، کیا اللہ کے شریک مردے نہیں زندے ہوسکتے ہیں دور کے نہیں ہوسکتے پاس کے ہوسکتے ہیں، انبیاء نہیں ہوسکتے حکیم ہوسکتے ہیں، انسان نہیں ہوسکتے۔فرشتے ہوسکتے ہیں، حاشاللہ اللہ تبارک وتعالٰی کاکوئی شریک نہیں ہوسکتا، تو مثلا جوبات ندا خواہ کوئی شے جس اعتقاد کے ساتھ کسی پاس بیٹھے ہوئے زندہ آدمی سے شرک نہیں وہ اسی اعتقاد سے کسی دور والے یا مردے بلکہ اینٹ پتھر سے بھی شرک نہیں ہوسکتی، اور جو ان میں سے کسی سے شرک ٹھہرے وہ قطعا یقینا تمام عالم سے شرک ہوگی، اس استعانت ہی کو دیکھئے کہ جس معنی پر خدا سے شرک ہے یعنی اسے قادر بالذات ومالک مستقل جان کر مدد مانگنا ۔ بہ ایں معنی اگر دفع مرض میں طبیب یادوا سے استمداد کرے یا حاجت فقر میں امیر یا بادشاہ کے پاس جائے یا انصاف کرانے کو کسی کچہری میں مقدمہ لڑائے، بلکہ کسی سے روز مرہ کے معمولی کاموں ہی میں مدد لے جو بالیقین تمام مخالفین روزانہ اپنی عورتوں، بچوں، نوکروں سے کرتے کراتے رہتے ہیں، مثلایہ کہنا کہ فلاں چیزاٹھادے یا کھانا پکادے، یا پانی پلادے سب شرک قطعی ہے کہ جب یہ جانا کہ اس کام کے کردینے پر انھیں خود اپنی ذات سے بے عطائے الٰہی قدر ت ہے تو صریح کفر اور شرک میں کیا شبہہ رہا، اور جس معنی پر ان سب سے استعانت شرک نہیں یعنی مظہر عون الٰہی وواسطہ و سیلہ وسبب سمجھنا اس معنی پر حضرات انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلٰوۃ والثناء سے کیوں شرک ہونے لگی، مگر حکیم ، امیر ، جج، اولاد، نوکر، جورو، ان سب کو مظہر عون وسبب ووسیلہ جاننا جائز ہے۔ اور ان حضرات عالیہ کو کہ وہ اعلی مظہر واعظم سبب وافضل وسائل بلکہ منتہی الاسباب وغایۃ الوسائط ونہایۃ الوسائل ہیں، ایسا سمجھنا شرک ہوگیا، ہزار تف بریں بے عقلی وناانصافی، غرض پانی وہیں مڑتاہے کہ جو کچھ غصہ ہے۔ وہ حضرات محبوبان خداکے بارے میں ہے۔ جو رو، یار، بچے مددگار، نوکر، کارگزار مگر انبیاء، واولیاء کانام آیا اور سر پر شرک کا بھوت سوار یہ کیا دین ہے۔ کیسا ایمان ہے ! ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم

 

مسلمین اس نکتے کو خوب محفوظ ملحوظ رکھیں، جہاں ان چالاکوں ، عیاروں کو کوئی فرق کرتے دیکھیں کہ فلاں عمل یا فلاں اعتقاد فلاں کے ساتھ شرک ہے فلاں سے نہیں، یقین جان لیجئے کہ نرے جھوٹے ہیں، جب ایک جگہ شرک نہیں تو اس اعتقاد سے کسی جگہ شرک نہیں ہوسکتا، واللہ الہادی الی طریق سوی۔

 

فائدہ ضروریہ

 

مخالفین جب سب طرح عاجز آجاتے ہیں اور کسی طرف راہ مفر نہیں پاتے تو ایک نیا شگوفہ چھوڑتے ہیں کہ صاحبو! ہم بھی اسی استعانت کو شرک کہتے ہیں جو غیر خدا کو قادر بالذات و مالک مستقل بے عطائے الٰہی جان کر کی جائے، اور اپنی بات بنانے اور خجلت مٹانے کو ناحق ناروا بیچارے عوام مومنین پر جیتا بہتان باندھتے ہیں کہ وہ ایسا ہی سمجھ کرانبیاء واولیاء سے استعانت کرتے ہیں ہمارایہ حکم شرک انھیں کی نسبت ہے۔ اس ہار ے درجہ کی بناوٹ کا لفافہ تین طرح کھل جائے گا۔

 

اولا صریح جھوٹے ہیں کہ صرف اسی صور ت کو شرک جانتے ہیں ان کے امام خود تقویۃ الایمان میں لکھ گئے ہیں:

''کہ پھر خواہ یوں سمجھے کہ ان کاموں کی طاقت ان کو خود بخود ہے خواہ یوں سمجھے کہ اللہ نے ان کو ایسی قدرت بخشی ہے ہرطرح شرک ہوتاہے۔''۱؎(

۱؎تقویۃ الایمان     پہلاباب توحید وشرک کے بیان میں     مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور    ص۷)

 

کیوں اب کہاں گئے وہ جھوٹے دعوے۔

ثانیا ان کے سامنے یوں کہئے کہ یا رسول اللہ ! حضور کو اللہ تعالٰی نے اپنا خلیفہ اعظم ونائب اکرم وقاسم نعم کیا، دنیا کی کنجیاں، زمین کی کنجیاں، خزانو ں کی کنجیاں، مدد کی کنجیاں، نفع کی کنجیاں حضور کے دست مبارک میں رکھیں، روزانہ دو وقت تمام امت کے اعمال حضور کی بارگاہ میں پیش کرائے، یارسول اللہ! میرے کام میں نظررحمت فرمائے اللہ کے حکم سے میری مدد واعانت فرمائے۔

 

اب ان لفظوں میں توصراحۃ قدرت ذاتی کاانکار اور مظہر عون الہٰی کی تصریح ہے ان میں تو معاذاللہ اس ناپاک گمان کی بو بھی نہیں آسکتی، یہ کہتے جائے اور ان صاحبوں کے چہرے کو غور کرتے جائے، اگر بکشادہ پیشانی سے سنیں اور آثار کراہت وغیظ ظاہر نہ ہو جب تو خیر، اور اگر دیکھئے کہ صورت بگڑی، ناک بھوں سمٹی، منہ پر دھوئیں کی مانند تاریکی دوڑی، تو جان لیجئے کہ دلی آگ اپنا رنگ لائی ع

 

کھوٹے کھرے کا پردہ کھل جائے گا چلن میں

سبحان اللہ ! میں عبث امتحان کو کہتا ہوں بارہا امتحان ہو ہی لیا، ان صاحبوں میں نواب دہلوی مصنف ظفر جلیل تھے، حدیث عظیم وجلیل ثابت یامحمد انی توجہت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی لی ۲؎ کہ صحاح ستہ سے تین صحاح جامع ترمذی ، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، میں مروی اور اکابر محدثین مثل امام ترمذی وامام طبرانی وامام بیہقی وابوعبداللہ حاکم امام عبدالعظیم منذری وغیرہم اسے صحیح فرماتے  آئے ہیں جسے خود حضور پر نور سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قضائے حاجت کے لئے تعلیم، اور صحابہ وتابعین رضی اللہ تعالٰی عنہم نے زمانہ اقدس اور حضورکے  بعد زمانہ امیر المومنین عثمان  غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ میں حاجت روائی کا ذریعہ بنایا، اس میں کیا تھا، یہی نا کہ یار سول اللہ! میں حضور کے وسیلے سے اپنے رب کی طر ف توجہ کرتاہوں کہ وہ میری حاجت روا فرمائے،

 (۲؎ جامع الترمذی ابواب لدعوات     ۲/ ۱۹۷ و المستدرک کتاب صلٰوۃ التطوع     ۱/ ۳۱۳، وکتاب الدعا ۵۱۹)

(سنن ابن ماجہ   ابواب الصلٰوۃ باب ماجاء فی صلٰوۃ الحاجۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۰۰)

 

اس میں معاذاللہ قدرت بالذات کی کہاں بو تھی جو نواب صاحب کو پسند نہ آئی کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد کا پاس نہ صحابہ وتابعین کی تعلیم وعمل کا لحاظ نہ اکابر حفاظ حدیث کی تصحیح کا خیال، سخت ڈھٹائی کے ساتھ حاشیہ ظفر جلیل پر حدیث صحیح کو بزور زبان وزور بہتان رد کرنے کے لئے عقل و شرع کی قید سےنکل بے دھڑک بے پرکی اڑادی کہ یہ حدیث قابل حجت نہیں، انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔

 

اس واقعہ عبرت خیز کا بیان ہمارے رسالہ انھار الانوار میں ہے۔ اب دیکھئے کہ نہ فقط اولیاء بلکہ خود حضور پر نور سید الانبیاء علیہ وعلیہم افضل الصلٰوۃ والثناء سے استعانت جائز ومحمودہ، خود حضور اقدس کی فرمودہ ، صحابہ وتابعین کی معمولہ ومقبولہ، صحیح حدیث میں ان لوگوں کا یہ حال ہے قل موتوا بغیظکم ان اﷲ علیم بذات الصدور۱؎۔ (۱؎ القرآن الکریم       ۳ /۱۱۹)

 

ثالثا سب جانے دو، سرے سے یہ ناپاک ادعاہے کہ بندگان خدا محبوبان خدا کو قادر مستقل جان کر استعانت کرتے ہیں، ایک ایسی سخت بات ہے جس کی شناعت پر اطلاع پاؤ تو مدتوں تمھیں توبہ کرنی پڑے اہل لا الہ الا اﷲ پر بدگمانی حرام ، اور ان کے کام کہ جس کے صحیح معنی بے تکلف درست ہوں خواہی نخواہی معاذاللہ معنی کفر کی طرف ڈھال لے جانا قطعا گناہ کبیرہ ہے۔

 

حق سبحانہ وتعالٰی فرماتاہے : یایھاالذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ۲؎۔ اے ایمان والو! بہت گمانوں کے پاس نہ جاؤ، بیشک کچھ گمان گناہ ہیں۔

(۲؎ القرآن الکریم     ۴۹ /۱۲)

 

اور فرماتاہے : ولاتقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا ۱؎۔ پیچھے نہ پڑ اس بات کے جو تجھے تحقیق نہیں۔بیشک کان آنکھ، دل سب سے سوال ہوناہے۔

 (۱؎ القرآن الکریم     ۱۷/ ۳۶)

 

اور فرماتاہے : لولا اذ سمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنت بانفسہم خیرا ۲؎۔ کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اسے سنا تو مسلمان مردوں عورتوں نے اپنی جانوں یعنی اپنے بھائی مسلمانوں پر نیک گمان کیاہوتا۔

 (۲؎ القرآن الکریم     ۲۴ /۱۲)

 

اور فرماتاہے : یعظکم اللہ ان تعودوا لمثلہ ابدا ان کنتم مومنین ۳؎۔ اللہ تمھیں نصیحت فرماتاہے کہ اب ایسا نہ کرنا اگرایمان رکھتے ہو۔

(۳؎القرآن الکریم    ۲۴/ ۱۷)

 

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث ۴؎ رواہ مالک والبخاری ومسلم وابوداؤد والترمذی۔ گمان سے بچو کہ گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔ (اسے امام مالک، بخاری، مسلم، ابوداؤ، اور ترمذی نے روایت کیا۔ ت)

 (۴؎ صحیح بخاری   باب قول اللہ عزوجل من بعد وصیۃ الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۳۷۴)

 

اور فرماتے ہیں : افلا شققت عن قلبہ ۵؎ رواہ مسلم وغیرہ۔ تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھا (اسے امام مسلم وغیرہ نے روایت کیا۔ ت)

 (۵؎ سنن ابی داؤد    باب علی مایقاتل المشرکون     آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۳۵۵)

 

علماء کرام فرماتے ہیں کلمہ گو کے کلام میں اگر ننانوے معنی کفر کے نکلیں اور ایک تاویل اسلام کی پیدا ہو تو واجب ہے اسی تاویل کو اختیار کریں اور اسے مسلمان ٹھہرائیں کہ حدیث میں آیا ہے۔

 

الاسلام یعلو ولایعلٰی ۶؎ رواہ الرؤیانی والدار قطنی والبیہقی والضیاء والخلیل عن عائذ بن عمر المزنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ سلم۔

 

اسلام غالب رہتا ہے اور مغلوب نہیں کیا جاتا،(اسے رؤیائی، دارقطنی، بہیقی، ضیاء اور خلیل نے عائذ بن عمروالمزنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا۔ ت)

 (۶؎ سنن الدارقطنی   کتاب النکاح باب المہر     دارالمحاسن اللطباعۃ قاہرۃ    ۳ /۲۵۲)

 

نہ کہ بلاوجہ منہ زوری سے صاف ظاہر، واضح، معلوم، معروف معنی کا انکار کرکے اپنی طرف سے ایک ملعون ، مردود، مصنوع مطرود احتمال گھڑیں اور اپنے لئے علم غیب اور اطلاع حال کا دعوٰی کرکے زبردستی وہی ناپاک مرادمسلمانوں کے سر باندھیں، قیامت تونہ آئے گی، حساب تو نہ ہوگا، ان بہتانوں، طوفانوں  پر بار گاہ قہار سے مطالبہ جواب تو نہ ہوگا، ہاں ہاں جواب تیار کر رکھواس سخت وقت کے لئے جب مسلمانوں کی طرف سے جھگڑتا آئے گا، لا الہ الا اﷲ ہاں اب جانا چاہتے ہیں ستمگر لوگ کہ کس پلٹے پر پلٹاکھاتے ہیں، یوں اعتبار نہ آئے تو اپنے کذب کا امتحان کرلو، اہل استعانت سے پوچھو تو کہ تم انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلٰوۃ والسلام والثناء کو عیاذا باللہ خدا یا خدا کا ہمسر یا قادر بالذات یا معین مستقل جانتے ہو یا اللہ عزوجل کے مقبول بندے اس کی سرکار میں عزت ووجاہت والے اس کے حکم سے اس کی نعمتیں بانٹنے والے مانتے ہو، دیکھو تو تمھیں کیا جواب ملتاہے۔

 

اما م علامہ خاتمۃ المجتہدین تقی الملۃ والدین فقیہ محدث ناصر السنۃ ابوالحسن علی بن عبدالکافی سبکی رضی اللہ تعالٰی عنہ کتاب مستطاب شفاء السقام میں استمداد واستعانت کو بہت احادیث صریحہ سے ثابت کرکے ارشاد فرماتے ہیں: لیس المراد نسبۃ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الی الخلق والاستقلال بالافعال ہذا لا یقصدہ مسلم فصرف الکلام الیہ ومنعہ من باب التلبیس فی الدین والتشویش علی عوام الموحدین ۱؎۔ یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مددمانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ حضور انور کو خالق اور فاعل مستقل ٹھہراتے ہوں یہ تو اس معنی پر کلام کو ڈھال کر استعانت سے منع کرنا دین میں مغالطہ دینا اور عوام مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے

 (۱؎ شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام     الباب الثامن فی التوسل الخ     نوریہ رضویہ فیصل آباد    ص۱۷۵)

 

صدقت یا سیدی جزاک اﷲ عن الاسلام والمسلمین خیرا، اٰمین! اے میرے آقا ! آپ نے سچ فرمایا اللہ تعالٰی ۤآپ کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیرعطا فرمائے۔آمین(ت)

 

فقیہ محدث علامہ محقق عارف باللہ امام ابن حجر مکی قدس سرہ الملکی کتاب افادت نصاب جوہر منظم میں حدیثوں سے استعانت کا ثبوت دے کر فرماتے ہیں: فالتوجہ والاستغاثۃ بہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بغیرہ لیس لہما معنی فی قلوب المسلمین غیر ذٰلک ولایقصد بہما احد منہم سواہ فمن لم یشرح صدرہ لذٰلک فلیبک علی نفسہ نسأل اﷲ العافیۃ والمستغاث بہ فی الحقیقۃ ہو اﷲ و النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ واسطۃ بینہ وبین المستغیث فہو سبحٰنہ مستغاث بہ والغوث منہ خلقا وایجادا والنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مستغاث والغوث منہ سببا وکسبا ۱؎۔

 

یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا حضور اقدس کے سوا اور انبیاء واولیاء علیہم افضل الصلٰوۃ والثناء کی طرف توجہ اور ان سے فریاد کے یہی معنی مسلمانوں کے دل میں ہیں اس کے سوا کوئی مسلمان اور معنی نہیں سمجھتا ہے نہ قصد کرتا ہے تو جس کا دل اسے قبول نہ کرے وہ آپ اپنے حال پر روئے، ہم اللہ تبارک وتعالٰی سے عافیت مانگتے ہیں حقیقتا فریاد اللہ عزوجل کے حضور ہے اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کے اور اس فریادی کے بیچ میں وسیلہ و واسطہ ہیں، تو اللہ عزوجل کے حضور فریاد ہے اور اس کی فریاد رسی یوں ہے کہ مراد کو خلق وایجاد کرے اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حضور فریاد ہے اور حضور کی فریاد رسی یوں ہے کہ حاجت روائی کے سبب ہوں اور اپنی رحمت سے وہ کام کریں جس کے باعث اس کی حاجت روا ہو۔

 (۱؎ الجوہر المنظم     الفصل السابع     فیما ینبغی للزائر الخ     المطبعۃ الخیریہ مصر    ص۶۲)

 

مخالف کو کریما کامصرعہ یادرہا کہ: نداریم  غیر از تو فریادرس  (ہم تیرے سوا کوئی فریاد کو پہنچنے والا نہیں رکھتے۔ ت)

اور وہ بیشک حق ہے جس کے معنی ہم اوپر بیان کرآئے مگر یہ یاد نہ آیا کہ اس کے کبرائے طائفہ کے اکابر وعمائد حضور پر نور سیدنا ومولانا وغوثنا وماوٰینا حضرت غوث اعظم غوث الثقلین صلی اللہ تعالٰی علی جدہ الکریم وآبائہ الکرام وعلیہ وعلی مریدیہ ومحبیہ وبارک وسلم کو فریاد رس مان رہے ہیں

 

شاہ ولی اللہ صاحب ہمعات میں لکھتے ہیں : امروز اگر کسے را مناسبت بروح خاص پیدا شود وازآں جافیض بردار غالبا بیروں نیست از آنکہ ایں معنی بہ نسبت پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باشد یا بہ نسبت حضرت امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ یا بہ نسبت غوث الاعظم جیلانی رضی اﷲ تعالٰی عنہ ۱؎۔

 

آج اگر کسی کو روح خاص سے مناسبت پیدا ہوجائے اور وہاں سے فیضیاب ہوتو غالبا بعیدنہیں کہ یہ کمال حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مناسبت سے حاصل ہوا ہوگا یا بہ نسبت غوث الاعظم جیلانی رضی اﷲ تعالٰی عنہ ملا ہوگا۔ (ت)

 (۱؎ ہمعات     ہمعہ ۱۱        اکادیمیۃ الشاہ ولی اللہ حیدر آباد    ص۶۲)

 

شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیزی میں حضرت اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محبوبیت بیان کرکے فرماتے ہیں : ایں مرتبہ ازاں مراتب است کہ ہیچکس رااز بشر نہ دادہ اند، مگر بہ طفیل ایں محبوبے برخے ازا ولیاء امت اورا شمہ محبوبیت آں نصیب شدہ مسجود خلائق ومحبوبیت دلہا گشتہ اند مثل حضرت غوث الاعظم وسلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء قدس اللہ سرہما ۲؎۔

 

یہ وہ مرتبہ ہے جو کسی انسان کو نصیب نہ ہوا، ہاں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے طفیل سے اس کا کچھ حصہ اولیائے امت تک پہنچا، پھر یہ حضرات اس کی برکت سے مسجودخلائق اور محبوب قلوب ہوئے جیسے حضرت غوث الاعظم اور سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء قدس اللہ سرہما (ت)

 (۲؎ فتح العزیز (تفسیر عزیزی)     سورۃ الم نشرح     مسلم بکڈپو لال کنواں دہلی    ص۳۲۲)

 

مرزا مظہر جانجاناں اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں : آنچہ درتاویل قول حضرت غوث الثقلین رضی اﷲ تعالٰی عنہ قدمی ہذہ علی رقبۃ کل ولی اﷲ نوشتہ اند ۳؎۔

 

حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قول کہ ''میرا قدم ہر ولی اللہ کی گردن پرہے'' کی تاویل میں انھوں نے لکھا ہے۔ (ت)

 (۳؎ کلمات طیبات     فصل دوم درمکاتیب مرزا مظہر جانجاناں     مطبع مجتبائی دہلی    ص۱۹)

 

انہی کے ملفوظات میں ہے : التفات غوث الثقلین بحال متوسلان طریقہ علیہ ایشاں بسیار معلوم باشد باہیچ کس از اہل ایں طریقہ ملاقات نشدہ کہ توجہ مبارک آں حضرت بحالش مبذول نیست ۱؎۔

 

غوث الثقلین کی توجہ اپنے سلسلے سے وابستہ حضرات کی طرف بہت معلوم ہوئی ہے آپ کے سلسلے کے کسی ایسے شخص سے ملاقات نہ ہوئی جو آپ کی توجہ سے محروم ہیں۔ (ت)

 (۱؎کلمات طیبات     ملفوظات مرزا مظہر جانجاناں     مطبع مجتبائی دہلی    ص۸۳)

 

قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی سیف المسلول میں لکھتے ہیں: فیوض وبرکات کارخانہ ولایت اول  بریک شخص نازل می شود وازاں تقسیم شدہ بہریک از اولیائے عصر می رسدو بہ ہیچ کس از اولیاء اللہ بے توسط اوفیضے نمی رسد ایں منصب عالی تاوقت ظہور سید الشرفاء حضرت غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر الجیلانی بروح حسن عسکری علیہ السلام متعلق بودہ چوں حضرت غوث الثقلین پیدا شد، ایں منصب مبارک بوئے متعلق شدہ تاظہور محمد مہدی ایں منصب بروح مبارک حضرت غوث الثقلین متعلق باشد ولہذا آں حضرت قدمی ہذہ علی رقبۃ کل  ولی اﷲ فرمودہ، و قول حضرت غوث الثقلین اخی وخلیلی کان موسٰی بن عمر ان نیزبراں دلالت دارد ۲؎۔

 

کارخانہ ولایت کے فیوض پہلے ایک شخص پر نازل ہوئے۔ پھر اس سے منقسم ہوکر ہر زمانے کے اولیاء کو ملے اور کسی ولی کو ان کے توسط کے بغیر فیض نہ ملا، حضرت غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ظہور سے قبل یہ منصب عالی حسن عسکری علیہ السلام کی روح سے متعلق تھا، جب غوث الثقلین پیدا ہوئے تو یہ منصب آپ سے متعلق ہوا اور محمد مہدی کے ظہور تک یہ منصب حضرت غوث الثقلین کی روح سے متعلق رہے گا، اس لئے آپ نے فرمایا میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے۔ پھر غوث پاک کا یہ قول''میرے بھائی اوردوست موسٰی بن عمرا ن تھے'ـ' بھی اس پر دلالت کرتاہے (ت)

 (۲؎ السیف المسلول     لقاضی ثناء اللہ پانی پتی (مترجم اردو)     فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۵۲۷)

 

یہ سب ایک طرف ، خود امام الطائفہ میاں اسمعیل دہلوی صراط مستقیم میں اپنے پیرکا حال لکھتے ہیں: ''روح مقدس جناب حضرت غوث الثقلین وجناب حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی متوجہ حال حضرت ایشاں گردیدہ ۱؎۔

 

حضرت غوث الثقلین اور حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند کی ارواح مبارکہ ان کے حال پر متوجہ تھیں۔ (ت)

 (۱؎ صراط مستقیم     خاتمہ دربیان پارہ از وارادات ومعاملات الخ     المکتبۃ السلفیہ لاہور    ص۱۶۶)

 

اسی میں ہے : شخصیکہ در طریقہ قادریہ قصد بیعت مے کند البتہ او رادر جناب غوث الاعظم اعتقادے عظیم بہم می رسد (الی قولہ) کہ خود را از زمرہ غلامان آن جناب می شمارد اھ ملخصا ۲؎۔

 

ایک شخص نے قادری طریقے میں بیعت کا ارادہ کیا یقینا ا س کو جناب حضرت غوث الثقلین میں بہت گہرا اعتقاد تھا (الی قولہ) خود کو آنجناب کے غلاموں میں شمار کیا اھ ملخصا (ت)

 (۲؎صراط مستقیم   تکملہ باب چہارم دربیان طریق الخ   المکتبۃ السلفیہ لاہور  ص۱۴۷)

 

اسی میں ہے : اولیائے عظام مثل حضرت غوث الاعظم وحضرت خواجہ بزرگ ۳؎ الخ اولیائے عظام جیسے غوث پاک رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت خواجہ بزرگ (ت)

 (۳؎صراط مستقیم    تکملہ دربیان سلوک ثانی راہ ولایت   المکتبہ السلفیہ لاہور    ص۱۳۲)

 

یہی امام الطائفہ اپنی تقریر ذبیحہ مندرج مجموعہ زبدۃ النصائح میں لکھتے ہیں: اگر شخصے بزے راخانہ پرور کند تاگوشت او خوب شود واو راذبح وپختہ فاتحہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ خواندہ بخورانند خللے نیست ۴؎۔

 

اگر کوئی شخص کوئی بکرا گھر میں پالے تاکہ اس کا گوشت اچھا ہو جائے اور اس کو ذبح کرکے پکاکر غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فاتحہ دلائے اور لوگوں کو کھلائے تو کوئی خلل نہیں۔ (ت)

(۴؎ زبدۃ النصائح    رسالہ نذور)

 

ایمان سے کہیو، ''غوث الاعظم'' کے یہی معنی ہوئے کہ ''سب سے بڑے فریاد رس'' یاکچھ اور۔ خدا کو ایک جان کر کہنا ''غوث الثقلین'' کا یہی ترجمہ ہوا کہ ''جن وبشر کے فریاد رس'' یا کچھ اور، پھر یہ کیسا کھلا شرک تمھارا امام اور اس کا سارا خاندان بول رہا ہے قول کے سچے ہو تو ان سب کو ذرا جی کراکر کے مشرک بے ایمان کہہ دو، ورنہ شریعت کیا ان کی خانگی ساخت ہے کہ فقط باہر والوں کے لئے خاص ہے گھر والے سب اس سے مستثنٰی ہیں۔

 

افسوس اس امام  کی تلون مزاجیوں نے طائفہ کی مٹی اور بھی خراب کی ہے۔ آپ ہی تو شرک کا قانون سکھائے جس کی بناء پر طائفہ کے نواب بھوپالی بہادر دبی زبان سے کہہ بھی گئے، غوث اعظم یا غوث الثقلین کہنا شرک سے خالی نہیں اور آپ ہی جب تلو ن کی لہرآئے تو اپنی موج میں آکر انھیں گہرے میں دھکا دے اور خود دور کھڑا قہقہے لگائے کہ انی بریئ منک انی اخاف اﷲ رب العالمین ۱؎  (میں تجھ سے الگ ہوں میں اللہ سے ڈرتاہوں جو سارے جہاں کا رب ہے)

 (۱؎ القرآن الکریم     ۵۹ /۱۶)

 

اب یہ بیچارے رویا کریں ؎

اپنا بیڑا کھے گئے اور ہوگئے ندیا پار

بانھ نہ میری تھام لی سوآن پڑی منجدھار

 

کون سنتاہے الحق ؎

دو گونہ رنج وعذاب است جان مجنوں را     بلائے صحبت لیلٰی وفرقت لیلٰی  (مجنون کی جان کے لئے دوہرا دکھ اور عذاب ہے صحبت لیلٰی کی مصیبت اور لیلٰی کا فراق)

 

ضعف الطالب والمطلوب o لبئس المولٰی ولبئس العشیر، وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل، ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العزیز الحکیم، نعم المولٰی ونعم النصیر، والحمدﷲ رب العالمین، وقیل بعداللقوم الظلمین، وصلی اﷲ تعالٰی علی سید المرسلین غوث الدنیا وغیاث الدین سیدنا ومولٰنا محمد والہ وصحبہ اجمعین۔ اٰمین!

 

طالب ومطلوب کمزور ہوئے، توبرا مددگار اور براخاندان، ہمیں اللہ تعالٰی کافی اور وہ اچھا وکیل، نیکی کی طرف پھرنا اور قوت صرف اللہ تعالٰی کی مدد سے ہے جو غالب حکمت والا ہے۔ وہی اچھا مددگاراور اچھا آقا ہے۔ اور رب العالمین کے لئے تمام حمدیں، اور ظالم قوم کو کہا گیا تمھارے لئے بُعد ہے۔ وصلی اللہ تعالٰی علی سید المرسلین غوث الدنیا وغیاث الدین سیدنا ومولانا محمد وآلہ وصحبہ اجمعین۔ آمین! (ت)

 

الحمدللہ کہ یہ نہایت اجمالی جواب اور اتنے اجمال پر کافی ووافی موضع صواب چند جلسات میں ۱۶/ شعبان المعظم روز مبارک جمعہ؁ ۱۳۱۱ ہجریہ قدسیہ کو بوقت عصر تمام اور بلحاظ تاریخ برکات الامداد لاھل الاستمداد (۱۳۱۱ھ) نام ہوا، نفعنی اللہ بہ وبسائر تصانیفی والمسلمین فی الدارین بالنفع الاتم، وصلی اﷲ تعالٰی علی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہ وصحبہ وسلم ، واﷲ  سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔

 

تمت

کتب عبدہ المذنب احمد رضاالبریلوی

عفی عنہ بمحمدن المصطفٰی النبی الامی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post