Kafan par likhna Jaiz hai | risala Al-Harful Hasan fi Kitabati ala Kafan by AalaHazrat

 

رسالہ

الحرف الحسن فی الکتابۃ علی الکفن(۱۳۰۸ھ)

 

(کفن پر لکھنے کے بارے میں عمدہ گفتگو )

 

مسئلہ نمبر۱۵: ازمارہرہ مطہرہ باغ پختہ    مرسلہ حضرت صاحبزادہ سیّد محمد ابراہیم    ۹ رجب ۱۳۰۸ ھ

 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ پارچہ کفن جو اماکنِ متبرکہ سے آئے اوراس پر آیاتِ کلام اﷲ واحادیث وغیرہ لکھی ہوں وہ میّت کو  پہنانا کیسا ہے اور شجرہ قبر میں رکھنا کیسا ہے؟بینوا توجروا الجواب:بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

 

الحمدﷲ الذی سترنابذیل کرمہ فی حیاتنا وبعد الممات وفتح علینا فی التوسل بایاتہ وشعائرہ ابواب البرکات والسلام علی من تبرک باٰثارہ الکریمۃ الاحیاء والاموات وحی ویحیی بامطار فیوضہ العظیمۃ کل موات وعلی اٰلہ وصحبہ واھلہ وحزبہ

عدد کل ماض واٰت۔ سب خوبیاں اﷲ کے لئے جس نے اپنے دامنِ کرم سے ہمیں ہماری زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی چھپایا،اور اپنی آیات وشعائر سے توسّل میں ہمارے اوپر برکتوں کے دروازے کھولے-اور درود وسلام ہو ان پر جن کے آثار گرامی سے زندے اور مردے سبھی نے برکت حاصل کی اور جن کے عظیم فیوض کی بارشوں سے ہربےجان کو زندگی ملی اور ملتی ہے -

اور(درود وسلام ہو)ان کی آل،اصحاب، اہل اور جماعت پر، ہرگزشتہ کی تعداد کے برابر۔(ت)

 

یہاں چار مقام ہیں:

 

اول: فقہ حنفی سے کفن پر لکھنے کا جزئیہ کہ بدرجہ اولٰی  قبر میں شجرہ رکھنے کا جزئیہ ہوگا۔ اور اُس کے مؤید احادیث و روایات۔

 

دوم : احادیث سے اس کاثبوت کہ معظمات دینیہ میں کفن دیا گیا یا بدن میّت پر رکھی گئیں اور اسےمخلِ تعظیم نہ جانا۔

 

سوم : بعض متاخرین شافعیہ نے جو کفن پر لکھنے میں بے تعظیمی خیال اس کا جواب۔

 

چہارم : قبرمیں شجرہ رکھنے کا بیان۔ وباﷲ التوفیق

 

مقامِ اوّل: ہمارے علماءِ کرام نے فرمایا کہ میت کی پیشانی یا کفن پر عہد نامہ لکھنے سے اس کے لئے امیدِ مغفرت ہے۔

 

 (۱) امام ابوالقاسم صفار شاگردامام نصیربن یحیٰی  تلمیذ شیخ المذہب سیدنا امام ابویوسف ومحرر المذہب سید امام محمد رحمہم اﷲ تعالٰی  نے اس کی تصریح و روایت کی۔

 

 (۲) امام نصیر نے فعلِ امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے اس کی تائید وتقویت کی۔

(۳)  امام محمد بزازی نےوجیزکردری(۴) علامہ مدقق علائی نے درمختار میں اُس پر اعتمادفرمایا۔

(۵) امام فقیہ ابن عجیل وغیرہ کا بھی یہی معمول رہا۔

 

 (۶) بلکہ امام اجل طاؤس تابعی شاگرد سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے مروی کہ انہوں نے اپنے کفن میں عہد نامہ لکھے جانے کی وصیّت فرمائی اورحسب وصیّت ان کے کفن میں لکھا گیا۔

(۷) بلکہ حضرت کثیر بن عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالٰی  عنہم نے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے اور صحابی ہیں خود اپنے کفن پر کلمہ  شہادت لکھا۔

 

 (۸) بلکہ امام ترمذی حکیم الٰہی سیّدی محمد بن علی معاصرامام بخاری نے نوادرالاصول میں روایت کی کہ خود حضور  پُر نور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا : من کتب ھذاالدعاء وجعلہ بین صدر المیت وکفنہ فی رقعۃ لم ینلہ عذاب القبر ولایری منکرا و نکیراً و ھوھذا  لاالٰہ الااﷲ واﷲ اکبرلاالٰہ الااﷲ وحدہ، لاشریک لہ لاالٰہ الااﷲلہ الملک ولہ الحمدلاالٰہ الااﷲ ولاحول ولاقوۃ الاباﷲالعلی العظیم۱؎۔

جو یہ دُعاکسی پرچہ پر لکھ کر میّت کے سینہ پر کفن کے نیچے رکھ دے اُسے عذابِ قبر نہ ہو نہ منکر نکیر نظر آئیں،اور وہ دعا یہ ہے: لا الٰہ الااﷲ واﷲ اکبرلاالٰہ الاﷲ وحدہ،لاشریک لہ لاالٰہ الااﷲلہ الملک ولہ الحمد لاالٰہ الااﷲ ولاحول ولاقوۃ الّاباﷲالعلی العظیم۔  (۱؎ فتاوٰی  کبرٰی  بحوالہ ترمذی        باب الجنائز                    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت    ۲ /۶)

 

نیز ترمذی میں سیّدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روایت کی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہر نماز میں سلام کے بعد یہ دُعا پڑھے : اَللّٰھُمَّ فَاطِرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِم الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَۃِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم اِنِّیْ اَعْھَدُ اِلَیْکَ فَیْ ھٰذِہِ الْحَیَاۃ الدنیابانک انتَ اﷲ الذی لآ اِلٰہَ اِلّا اَنْتَ وَحْدَکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُکَ وَرَسُوْلُکَ فَلَاتَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ فَاِنَّکَ اِن تَکِلنِی الٰی نَفسی تُقَرِّبنی مِنَ الشِّر وتُبَاعِدنی من الخیر وَاِنِّیْ لَا اَثِقُ اِلَّا بِرَحْمَتِکَ فَاجْعَلْ رَحْمَتَکَ لِیْ عَھْداً عِنْدَکَ تُؤَدِّیْہِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَاتُخْلِفُ الْمِیْعَادِ۲؎۔ فرشتہ اسے لکھ کر مُہر لگا کر قیامت کے لئے اُٹھارکھے ، جب اﷲ تعالٰی  اُس بندے کو قبر سے اُٹھائے، فرشتہ وہ نوشتہ ساتھ لائے اور ندا کی جائے عہد والے کہاں ہیں، انہیں وُہ عہد نامہ دیا جائے۔

 

 (۲؎ نوادرالاصول        اصول الرابع والسبعون والمائۃ            مطبوعہ دارصادر بیروت        ص۲۱۷)

 

امام نے اسے روایت کرکے فرمایا : وعن طاؤس انہ امر بھذہ الکلمات فکتبت فی کفنہ۳؎۔ امام طاؤس کی وصیّت سے عہد نامہ اُن کے کفن میں لکھا گیا۔

 

 (۳؎ الدرالمنثور   بحوالہ حکیم الترمذی تحت الامن اتخذ عندالرحمٰن عھدا    منشورات مکتبہ آیۃ اﷲ قم ایران   ۴ /۲۸۶)

 

امام فقیہ ابن عجیل نے اسی دعائے عہدنامہ کی نسبت فرمایا: اذاکتب ھذا الدعاء وجعل مع المیت فی قبرہ وقاہ اﷲ فتنۃ القبر وعذابہ ۴؎۔ جب یہ لکھ کر میّت کے ساتھ قبر میں رکھ دیں تو اﷲ تعالٰی  اُسے سوالِ نکیرین وعذابِ قبر سے امان دے۔

 

 (۴؎ فتاوٰی  کبرٰی  بحوالہ ابن عجیل    باب الجنائز         مطبوعہ رالکتب العلمیۃ بیروت   ۲ /۶)

 

 (۹) یہی امام فرماتے ہیں: من کتب ھذاالدعاء فی کفن المیت رفع اﷲ عند العذاب الٰی یوم ینفخ فی الصور وھوھذا : جو یہ دُعا میّت کے کفن میں لکھے اﷲ تعالٰی  قیامت تک اس سے عذاب اٹھالے اور وہ یہ ہے : اللھم انی اسألک یاعالم السریا یاعظیم الخطر یاخالق البشر یاموقع الظفر یامعروف الاثر یا ذاالطول والمن یاکاشف الضروالمحن یاالٰہ الاولین و الاٰخرین فرج عنی ھمومی واکشف عنی غمومی وصل اللھم علٰی سیدنا محمد وسلم ۱؎۔  (۱؎ فتاوٰی  کبرٰی  بحوالہ ابن عجیل        باب الجنائز        مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت    ۲ /۶)

 

(۱۰) ابن حجر مکّی نے اپنے فتاوی میں ایک تسبیح کی نسبت جسے کہا جاتا ہے کہ اُس کا فضل اُس کی برکت مشہور ومعروف ہیں، بعض علمائے دین سے نقل کیا کہ : من کتبہ وجعلہ بین صدر المیت وکفنہ لاینال عذاب القبر ولاینالہ منکر ونکیر ولہ شرح عظیم وھو دعاء الانس، (وھو ھذا) جو اسے لکھ کر میّت کے سینہ اور کفن کے بیچ میں رکھ دے اُسے عذابِ قبر نہ ہو، نہ منکر نکیر اُس تک پہنچیں اور اس دعا کی شرح بہت عظمت والی ہے اور وُہ چین و راحت کی دعا ہے ۔ (وہ دعا یہ ہے:) سبحٰن من ھوبالجلال موحد بالتوحیدمعروف  وبالمعارف موصوف وبالصفۃ علٰی لسان کل قائل  رب بالربوبیۃ للعالم قاھر وبالقھر للعالم جبار وبالجبروت علیم حلیم وبالحلم والعلم رؤف رحیم، سبحٰنہ کما یقولون وسبحنہ کما ھم یقولون تسبیحا تخشع لہ السمٰوٰت والارض ومن علیھا ویحمدنی من حول عرشی اسمی اﷲ و انا اسرع الحاسبین ۲؎۔

 

 (۱؎ فتاوٰی  کبرٰی  بحوالہ ابن عجیل        باب الجنائز        مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت    ۲/۶)

 

مصنّف عبدالرزاق اور ان کے طریق سے معجم طبرانی اور ان کے طریق سےحلیہ ابونعیم میں ہے : اخبرنا معمر بن عبداﷲ بن محمد بن عقیل ان فاطمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا لما حضرتہا الوفاۃ امرت علیا فوضع لہا غسلا فاغتسلت وتطھرت، ودعت بثیاب اکفانھا فلبستھا ومست من الحنوط ثم امرت علیا ان لاتکشف اذاھی قبضت وان تدرج کما ھی فی اکفانھافقلت لہ ھل علمت احدا فعل نحو ذلک قال نعم کثیر بن عباس، وکتب فی اطراف اکفانا یشھد کثیر بن عباس ان لا الٰہ الااﷲ۱ ؎۔ معمر بن عبداﷲ بن محمد بن عقیل نے ہمیں خبر دی کہ حضرت بتول زہرارضی اﷲ تعالٰی  عنہا نے انتقال کے قریب امیر المومنین علی مرتضٰی  کرم اﷲ وجہہ سے اپنے غسل کے لئے پانی رکھوادیا پھر نہائیں اور کفن منگا کر پہنا اور حنوط کی خوشبو لگائی، پھر مولٰی  علی کو  وصیت فرمائی کہ میرے انتقال کے بعد کوئی مجھے نہ کھولے اور اسی کفن میں دفن فرما دی جائیں۔ میں نے  پوچھا کسی اور نے بھی ایسا کیا، کہا ہاں کثیر بن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہما نے اور انہوں نے اپنے کفن کے کناروں پر لکھا تھا:کثیر بن عباس گواہی دیتا ہے کہ لا الٰہ الّااﷲ ۔

 

 (۱؎حلیۃ الاولیاء  ترجمہ ۱۳۳   فاطمہ بنت رسول صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم   مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت  ۲ /۴۳)

 

وجیز  امام کردری کتاب الاستحان میں ہے : ذکر الامام الصفار لوکتب علی جبھۃ المیت اوعلٰی عمامۃ اوکفنہ عھد نامہ، یرجی ان یغفراﷲتعالٰی للمیّت، ویجعلہ اٰمنا من عذاب القبر۲ ؎۔ امام صفار نے ذکر فرمایا کہ اگر میّت کی پیشانی یا عمامہ یا کفن پر عہد نامہ لکھ دیا جائے تو امید ہے کہ اﷲ تعالٰی  اسے بخش دے اور عذابِ قبر سے مامون کرے۔

 

 (۲؎ فتاوٰی  بزازیہ علی ھامش فتاوٰی  ہندیہ    کتاب الاحسان     مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور     ۶/ ۳۷۹)

 

پھر فرمایا: قال نصیر ھذہ روایۃ فی تجویز وضع عہدنامہ مع المیّت وقدروی انہ کان مکتوبا علی افخاد افراس فی اصطبل الفاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ، حبس فی سبیل اﷲ ۳؎۔ امام نصیر نے فرمایا: یہ میّت کے عہد نامہ رکھنے کے جواز کی روایت ہے اور بیشک مروی ہوا کہ فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کے اصطبل میں کچھ گھوڑوں کی رانوں پر لکھا تھا وقف فی سبیل اﷲ۔

 

 (۳؎ فتاوٰی  بزازیہ علی ھامش فتاوٰی  ہندیہ    کتاب الاحسان            مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۶/ ۳۷۹)

 

(۱۱) دُرمختار میں ہے : کتب علی جبہۃ المیت وعمامۃ اوکفنہ عھدنامہ یرجی ان یغفراﷲ للمیّت اوصی بعضہم ان یکتب فی جبھۃ وصدرہ بسم اﷲ الرحمٰن  الرحیم ففعل ثم رؤی فی المنام فسئل فقال لما وضعت فی القبرجاء تنی ملٰئکۃ العذاب فلمارأوا مکتوبا علی جبھتی بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم قالو اٰمنت من عذاب اﷲ  ۱؎۔ مُردے کی پیشانی یا عمامہ یا کفن پر عہد نامہ لکھنے سے اُس کے لئے بخشش کی امید ہے۔ کسی صاحب نے وصیت کی تھی کہ ان کی پیشانی اور سینے  پر بسم اﷲ الرحمن  الرحیم لکھ دیں، لکھ دی گئی، پھر خواب میں نظر آئے حال پوچھنے پر فرمایا جب میں قبر میں رکھا گیا عذاب کے فرشتے آئے میری پیشانی پر بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھی دیکھی کہا تجھے عذابِ الٰہی سے امان ہے۔

 

(۱؎ درمختار        باب صلٰوۃ الجنائز         مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۱۲۶)

 

 (۱۲) فتاوٰی  کبری للمکی میں ہے  : بقل بعضھم عن نوادرالاصول للترمذی مایقتضی ان ھذاالدعاء لہ اصل وان الفقیہ ابن عجیل کان یأمربہ ثم افتی بجواز کتابتہ قیاسا علٰی کتابۃ ﷲ،فی نعم الزکٰوۃ۲ ؎۔ بعض علماء نے نوادرالاصول امام ترمذی سے وہ حدیث نقل کی جس کا مقتضٰی یہ ہے کہ یہ دُعا اصل رکھتی ہے، نیز ان بعض نے نقل کیا کہ امام فقیہ ابن عجیل اس کے لکھنے کا حکم فرمایا کرتے ، پھر خد انہوں نے اس کے جوازِ کتابت پر فتوٰی  دیا اس قیاس پر کہ زکوٰۃ کے چوپایوں پر لکھا جاتا ہے ﷲ(یہ اﷲ کے لئے ہیں) ۔

 

 (۲؎ فتاوٰی  ابن حجر مکی     باب الجنائز            دارالکتب العلمیۃ بیروت        ۲ /۱۲)

 

 (۱۳) اُسی میں ہے : واقرہ بعضھم بانہ قیل یطلب فعلہ لغرض صحیح مقصود، فابیح وان علم انہ یصیبہ نجاسۃ۳؎ ۔ اس فتوے کو بعض دیگر علماء نے برقرار رکھا (۱۴) اور اس کی تائید میں بعض اورعلماء سے نقل کیا کہ غرض صحیح کے لئے ایسا کرنا مطلوب ہوگا اگرچہ معلوم ہو کہ اسے نجاست پہنچے گی۔

 

 (۲؎ فتاوٰی  ابن حجر مکی     باب الجنائز         دارالکتب العلمیۃ بیروت        ۲ /۱۲)

 

ھذا ما اثر، ثم نظر و فیہ نظر کما سیأتی وباﷲ توفیق۔ یہ انہوں نے نقل کیا پھر اس پر کلام کی اور اس پر کلام ہے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔اور توفیق خداہی سے ہے۔(ت)

 

مقامِ دوم : احادیث مؤیدہ

 

اقول (۱۵) حدیث صحیح میں ہے بعض اجلۂ صحابہ نے کہ غالباً سیّدنا عبدالرحمن بن عوف یا سیّدنا سعدبن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی  عنہم ہیں، حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے تہبند اقدس (جو کہ ایک بی بی نے بہت محنت سے خوبصورت بُن کر نذر کیا اورحضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کو اس کی ضرورت تھی) مانگا۔حضور اجودالاجودین صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے عطافرمایاصحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی  عنہم نے انہیں ملامت کی کہ اُس وقت اس ازار شریف کے سوا حضور اقدس صلوات اﷲ سلامہ علیہ کے پاس اور تہبند نہ تھا، اور آپ جانتے ہیں حضور اکرم الاکرماصلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کبھی کسی سائل کو  رَد نہیں فرماتے، پھر آپ نے کیوں مانگ لیا؟ انہوں نے کہا واﷲ! میں نے استعمال کو نہ لیا بلکہ اس لئے کہ اس میں کفن دیا جاؤں ۔حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے اُن کی اس نیت پر انکار نہ فرمایا، آخر اسی میں کفن دئے گئے---

 

صحیح بخاری میں ہے : باب من استعدالکفن فی زمن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فلم ینکر علیہ حدثنا عبداﷲ بن مسلمۃ فذکر باسنادہ عن سہل رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان امراۃ جاءت النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ببردۃ منسوجۃ فیھا حاشیتھا اتدرون ما البردۃ قالوا الشملۃ قال نعم قالت نسجتھا بیدی فجئت لاکسوکہا فاخذھا النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم محتاجاً الیہا فخرج الینا وانھا ازارہ، فحسنھا فلان فقال اکسنیھا ما احسنہا، قال القوم ما احسنت لبسھا النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم محتاجاً الیھا ثم سألتہ وعلمت انہ لا یردقال انی واﷲ ماسألتہ وعلمت انہ لایردقال انی واﷲ ماسألتہ وعلمت انہ لایردقال انی واﷲ ماسألتہ لالبسھا وانما سألتہ لتکون کفنی قال سہل فکانت کفنہ۱؎۔

 

باب، حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں جس نے کفن تیار کیا اور آپ نے منع نہ فرمایا،حضرت عبداﷲ بن سلمہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت سہل رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے حدیث بیان کی ایک عورت حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کی خدمت میں خوبصورت بُنی ہوئی حاشیہ والی چادر لائی، تمہیں معلوم ہے کہ کون سی چادر تھی، انہوں نے جواب دیا وہ تہبند ہے، کہا ہاں، اُس عورت نے عرض کیا کہ میں نے  خود یہ  چادر بُنی ہے آپ کو  پہننے کے لئے پیش کرتی ہوں تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بڑی خوشی سے قبول فرما ئی تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام اس کو تہبند کی صورت میں پہن کر  باہر تشریف لائے تو فلاں صحابی نے اس تہبند کی تحسین کی اور عرض کیا یہ کتنی اچھی ہے مجھے عطا فرما دیجئے۔ اس پر حاضرین نے اسے کہاتو نے اچھا نہیں کیا،حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خود اپنے لئے پسند فرمائی تھی، تونے یہ معلوم ہونے کے باوجود  کہ آپ  علیہ الصلاۃ والسلام کسی سائل کو مایوس نہیں فرماتے سوال کرلیا۔ اس نے جواب میں کہا کہ خدا کی قسم میں نے اسے پہننے کے لئے نہیں اپنے کفن کے لئے طلب کیا ہے۔حضرت سہل رضی اﷲ تعالٰی  عنہ نے فرمایا کہ وہ چادر مبارک اس سائل صحابی کا کفن بنی۔(ت)

 

 (۱؎ صحیح بخاری        کتاب الجنائز     مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۷۰)

 

 ( ۱۶) بلکہ خود حضور  پُر نور صلوات اﷲ تعالٰی  وسلامہ علیہ نے اپنی صاحبزادی حضرت زینب یاحضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالٰی  عنہما کے کفن میں اپنا تہبند اقدس عطا کیا اور  غسل دینے والی بیبیوں کو حکم دیا کہ اُسے ان کے بدن کے متصل رکھیں۔ صحیحین میں اُم عطیہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہا سے ہے : قالت دخل علینا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ونحن نغسل ابنتہ فقال اغسلنھا ثلٰثا او خمسا او اکثر من ذٰلک ان رأیتن ذلک بماء وسدر واجعلن فی الاٰخرۃ کافورا  اوشیئامن کافور فاذافرغتن فاٰذننی فلما فرغنا اذناہ فالقی الینا حقوہ فقال اشعر نھا ایاہ ۔ ۱؎ فرماتی ہیں ہمارے پاس رسول اﷲ صلی ا ﷲ تعالٰی  علیہ وسلم تشریف لائے جب ہم ان کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں، فرمایا اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ، یا اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ، اور آخری بار کافور ملالینا، فارغ ہونے کے بعد مجھے اطلاع دینا۔ ہم نے جب غسل دے لیا توحضور کو خبر دی۔ سرکار نے اپنا تہبند دیا اور فرمایا اسے اس کے بدن سے متصل رکھنا۔ (ت)

 

 (۱؎ صحیح بخاری   کتاب الجنائز      مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۶۸)

 

 (۱۷) علماء فرماتے ہیں یہ حدیث مریدوں کو  پیروں کے لباس میں کفن دینے کی اصل ہے۔لمعات میں ہے  : ھذا الحدیث اصل فی المتبرک باثارالصالحین ولباسھم، کمایفعلہ بعض مریدی المشائخ من لبس اقمصتھم فی القبر۲؂۔ یہ حدیث صالحین کے آثار اور ان کے لباس سے برکت حاصل کرنے کے سلسلے میں اصل ہے جیسا کہ مشائخ کے بعض ارادت مند اُن کی قمیصوں کا کفن پہنتے ہیں۔(ت)

 

 (۲؎ لمعات التنقیح      باب غسل میت فصل اول      مطبوعہ المعارف العلمیہ لاہور    ۴/ ۳۱۸)

 

 (۱۸) یونہی حضرت فاطمہ بنت اسد والدہ ماجدہ  امیرالمومنین مولٰی  علی کرم اﷲ وجہہ ، رضی اﷲ تعالٰی  عنہا کو اپنی قمیص اطہر میں کفن دیا۳؎۔

 

(۳؎ مجمع الزوائد     بحوالہ معجم اوسط   باب مناقب فاطمہ بنتِ  رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم   مطبوعہ دارالکتاب بیروت   ۹ /۲۵۷)

 

رواہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط وابن حبان والحاکم وصححہ وابونعیم فی الحلیۃ عن انس۔ اسےمعجم کبیر و معجم اوسط میں طبرانی نے اورابن حبان  اور حاکم نے بافادہ صحیح، اور ابو نعیم  نے حلیہ میں حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روایت کیا۔(ت)

 

 (۱۹) وابوبکر بن ابی شیبۃ فی مصنّفہ عن جابر۔ اور ابوبکر بن  ابی شیبہ نے اپنی مصنّف میں حضرت جابر سے (ت)

 

 (۲۰)  وابن عساکر عن علی۔ ابن عساکر نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے(ت)

 

 (۲۱) والشیرازی فی الالقاب وابن عبدالبر وغیرھم عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہم ۔ القاب میں شیرازی نے ابن عبدالبر وغیرہم نے حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہم سے روایت کیا۔(ت)

 

 (۲۲) اور  ارشاد فرمایا کہ میں نے انہیں اپنا قمیض مبارک اس لئے  پہنایا کہ یہ جنّت کے لباس پہنیں۔ ابونعیم نے معرفۃ الصحابہ اور دیلمی نے مسند الفردوس میں بسند  حسن حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہا سے روایت کی : قال لماماتت فاطمۃ اُمّ علی رضی اﷲ تعالٰی عنھا، خلع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قمیصہ والبسھاایاہ، واضطجع فی قبرھا فلما سوی علیھاالتراب قال بعضھم یارسول اﷲ رأیناک صنعت شیئالم تصنعہ باحد، فقال انی البستھا قمیصی لتلبس من ثیاب الجنۃ واضطجعت معھا فی قبرھا لاخفف عنھا من ضغطۃ القبر، انھاکانت احسن خلق اﷲ نیعا الیّ بعد ابی طالب۔ ۱؎ فرمایاجب حضرت علی کرم اﷲ وجہہ، کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ تعالٰی  عنہا کا انتقال ہوا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے اپنا کُرتا اتار کر انہیں پہنایا اور ان کی قبر میں لیٹے، جب قبر  پر مٹی برابر کردی گئی تو کسی نے عرض کیایارسول اﷲ ! آج ہم نے آپ کو  وہ عمل کرتے دیکھا جو حضور نے کسی کے ساتھ نہ کیا۔ فرمایا اسے میں نے اپنا کُرتا اس لئے پہنایا کہ یہ جنت کے کپڑے پہنے اور اس کی قبر میں اس لئے لیٹا کہ قبر کے دبانے میں اس سے تخفیف کروں یہ ابوطالب کے بعد خلقِ خدا میں سب سے زیادہ میرے ساتھ نیک سلوک کرنے والی تھی۔(ت)

 

 (۱؎ معرفۃ الصحابۃ    حدیث ۲۸۸   مکتبہ الدار مدینہ منورہ    ۱/ ۷۹ ۔ ۲۷۸)

 

(۲۳) بلکہ صحاح ستّہ سے ثابت کہ جب عبداﷲ بن اُبی منافق کہ سخت دشمن حضور سیدالمحبوبین صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم تھا جس نے وہ کلمہ ملعونہ لئن رجعنا الی المدینۃ  (جب ہم مدینہ کو لوٹیں گے الخ۔ت)کہا، جہنم واصل ہوا، حضور  پُر نور حلیم غیور صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے اُسکے بیٹے حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ ابن عبداﷲ بن اُبی کی درخواست سے کہ صحابی جلیل ومومن کامل تھے،اُس کے کفن کے واسطے اپنا قمیص مقدس عطافرمایا، پھر اس کی قبر  پر تشریف فرما ہوئے، لوگ اُسے رکھ چکے تھے،حضور طیب وطاہر صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے اُس خبیث کو نکلواکر لعابِ دہن اس کے بدن پرڈالا اورقمیض مبارک میں کفن دیا، اور  یہ بدلا اس کا تھا کہ روزِ بدر جب سیّدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالٰی  عنہما گرفتار آئے برہنہ تھے، بوجہ طول قامت کسی کا کُرتا ٹھیک نہ آتا اس مردک نے انہیں اپنا قمیض دیا تھا۔ حضور عزیز صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے چاہا کہ منافق کا کوئی احسان حضور کے اہلبیت کرام پر بے معاوضہ نہ رہ جائے لہذا اپنے دو قمیض مبارک اس کے کفن میں عطا فرمائے، ونیز مرتے وقت وہ ریا کار، نفاق شعار، خود عرض کرگیا کہ حضور مجھے اپنے قمیض مبارک میں کفن دیں، پھر اس کے بیٹے رضی اﷲ تعالٰی  عنہ نے درخواست کی، اور ہمارے کریم علیہ افضل الصلٰوۃ والتسلیم کا ادب قدیم ہے کہ کسی کاسوال رَد نہیں فرماتے۔ یارسول اﷲ یاکریم  یارؤف  یارحیم  اسألک الشفاعۃ عندالمولی العظیم والوقایۃ من نار الجحیم والامان من کل بلاء الیم لی ولکل من اٰمن بک بکتابک الحکیم علیک من ولاک افضل الصلٰوۃ واکمل تسلیم ۔ اے اﷲ کے رسول، اے کریم، اے رؤف، اے رحیم! آپ سے ربِ عظیم کے حضور شفاعت، نارِ جہنم سے حفاظت اور ہردردناک بلا سے امان کا سوال کرتا ہوں اپنے لئے اور ہر اس شخص کے لئے جو  آپ پر آپ کی حکمت والی کتاب پر ایمان لایا، آپ پر اورآپ سے محبت رکھنے والوں  پر بہتر درود اور کامل تر سلام  ہو۔ (ت)

 

حضور رحمۃ اللعالمین صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کی یہ شانِ  رحمت دیکھ کر کہ اپنے کتنے بڑے دشمن کو کیسا نوازا ہے  ہزار  آدمی قوم ابن اُبی سے مشرف باسلام ہوئے کہ واقعی یہ حلم و رحمت وعفو  و مغفرت نبیِ برحق کے سوا دوسرے سے متصور نہیں صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وآلہٖ وصحبہ اجمعین وبارک وسلم ،صحیحین وغیرہما صحاح و سنن میں ہے : عن ابن عمر رضی اﷲتعالٰی عنہ ان عبداﷲ بن اُبی لما توفی جاء ابنہ الی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقال یارسول اﷲ اعطنی قمیصک اکفنہ فیہ وصل علیہ استغفرلہ فاعطاہ النبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم قمیصہ الحدیث۱؎۔ حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے روایت ہے کہ جب عبداﷲ بن ابی فوت ہوا اس کے فرزند نے نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوکر عرض کیا یارسول اﷲ! اپناکُرتا عطافرمائیں میں اسے اس میں کفن دوں گا اور اسے اپنی صلٰوۃ واستغفار سے نوازیں، تو حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے انہیں اپنا کُرتا عطا کردیا۔الحدیث (ت)

 

 (۱؎ صحیح بخاری   کتاب الجنائز    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱ /۱۶۹)

 

 (۲۴) نیز صحیح  بخاری وغیرہ میں ہے : عن جابر  رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال اٰتی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عبداﷲ بن اُبی بعد مادفن فنفث فیہ من ریقہ والبسہ قمیصہ ۱؎ حضرت جابر رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے مروی ہے نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم عبداﷲ بن اُبی کے پاس دفن کے بعد تشریف لائے اس کے منہ میں اپنا لعابِ اقدس ڈالا اور  اسے اپنا کُرتاپہنایا۔(ت)

 

 (۱؎ صحیح بخاری    کتاب الجنائز    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۶۹)

 

 (۲۵) امام ابو عمر یوسف بن عبدالبر کتاب الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب میں فرماتے ہیں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ نے اپنے انتقال کے وقت وصیت میں فرمایا : انی صحبت رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فخرج لحاجۃ فاتبعتہ باداوۃ فکسانی احد ثوبیہ الذی یلی جسدہ فخبأتہ لھذا الیوم، واخذرسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من اظفارہ وشعرہٖ ذات یوم فاخذتہ، فخباتہ لہذا الیوم فاذا انامت فاجعل ذلک القمیص دون کفنی ممایلی جسدی وخذ ذلک الشعر والاظفار فاجعلہ فی فمی وعلی عینی ومواضع السجود منی ۲؎۔ یعنی میں صحبتِ حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے شرف یاب ہوا ایک دن حضور اقدس صلی ﷲ تعالٰی  وسلامہ علیہ ، حاجت کے لئے تشریف فرما ہوئے ہیں۔ میں لوٹا لے کر ہمراہ رکاب سعادت مآب ہُوا۔ حضور  پُرنور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے  جوڑے سے  کُرتا کہ بدنِ اقدس سے متصل تھا مجھے انعام فرمایا، وہ کُرتا میں نے آج کے لئے چھپا رکھا تھا۔ اور ایک روز حضورِ انور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ناخن و مُوئے مبارک تراشے وہ میں نے لے کر اس دن کے لئے اٹھا رکھے، جب میں مرجاؤں تو قمیص سراپا تقدیس کو میرے کفن کے نیچے بدن کے متصل رکھنا، وموئے مبارک وناخن ہائے مقدسہ کو میرے منہ اور آنکھوں اور  پیشانی وغیرہ مواضع سجود  پر رکھ دینا ۔

 

 (۲؎ کتاب الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب علی ہامش الاصابۃ  ترجمہ معاویہ بن سفیان  مطبوعہ دارصادر بیروت  ۳/۳۹۹)

 

 (۲۶) حاکم نے مستدرک میں بطریق حمید بن عبدالرحمن رواسی روایت کی : قال حدثنا الحسن بن صالح عن ھارون بن سعید عن ابی وائل قال  کان عند علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ مسک، فاوصی ان یحنط بہ، وقال علی وھوفضل حنوط رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم  ۱؎سکت علیہ الحاکم، ورواہ ابن ابی شیبہ فی مصنفہ قال حدثنا حمید بن عبدالرحمٰن بہ، ورواہ البیھقی فی سننہ، قال النووی اسنادہ حسن۲ ؎۔ذکرہ فی نصب الرایۃ من الجنائز۔ (انہوں نے کہا ہم نےحسن بن صالح نے حدیث بیان کی وُہ ہارون بن سعید سے،وہ ابووائل سے راوی ہیں انہوں نے کہا۔ت) کہ مولٰی  علی کرم اﷲ تعالٰی  وجہہ کے پاس مشک تھا وصیت فرمائی کہ میرے حنوط میں یہ مشک استعمال کیا جائے،اور فرمایاکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے حنوط کا بچا ہُوا ہے۔(اور اسے ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں روایت کیا ، کہا ہم سےحمید بن عبدالرحمن نے حدیث بیان کی آگے سند دی ہے، اور اسےبیہقی نے سنن میں روایت کیا۔امام نووی نے فرمایا اس کی سند حسن ہے۔اسے نصب الرایہ کتاب الجنائز میں ذکر کیا۔ت)

 

 

(۱؎ المستدرک علی الصحیحین        کتاب الجنائز       مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۱ /۳۶۱)

(۲؎ نصب الرایۃ    باب الجنائز     فصل فی الغسل      المکتبۃ الاسلامیۃ لصاجہ الریاض      ۲ /۲۵۹)

 

(۲۷) ابن السکن نے بطریق صفوان بن ہبیرہ عن ابیہ روایت کی : قال قال ثابت البنانی قال لی انس بن مالک رضی اﷲتعالٰی عنہ ھذہ شعرۃ من شعر  رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فضعھا تحت لسانی، قال  قوضعتھا تحت لسانہ فدفن وھی تحت لسانہ ۳ ؎ ،ذکرہ فی الاصابۃ۔ یعنی ثابت بنانی فرماتے ہیں مجھ سے انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی  عنہ نے فرمایا : یہ موئے مبارک سیّدِ عالم صلی اﷲ تعالٰی   علیہ وسلم کا ہے،اسے میری زبان کے نیچے رکھ دو، میں نے رکھ دیا،  وہ یوں ہی دفن کئے گئے کہ موُئے مبارک اُن کی زبان کے نیچے تھا(اسے اصابہ میں ذکر کیا گیا۔ت)

 

 (۳؎ اصابہ فی تمیز الصحابہ ترجمہ نمبر ۲۷۷ انس بن مالک رضی اﷲ عنہ   مطبوعہ دارصادر بیروت    ۱ /۷۲)

 

 (۲۸) دلائل النبوۃ بیہقی و ابن عساکر امام محمد بن سیرین سے راوی : عن انس بن مالک انہ کان عندہ عصیۃ لرسول اﷲ صلی اﷲتعالی علیہ وسلم فمات فدفنت معہ بین جیبہ وبین قمیصہ۴؎۔ انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کے پاس حضور سیّد عالم صلی  اللہ تعالٰی  علیہ وسلم کی ایک چھڑی تھی وہ ان کے ینہ پر قمیص کے نیچے اُن کے ساتھ دفن کی گئی۔

 

 (۴؎ مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر    ترجمہ انس  ابن مالک    دارالفکر بیروت      ۵ /۷۵)

 

اُن کے سوا  ہنگام  تتبع اور نظائر ان وقائع کے کتب حدیث میں ملیں گے۔ ظاہر ہے کہ جیسے نقوش کتابت آیات واحادیث کی تعظیم فرض ہے یونہی حضور  پُر نور صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کی ردا و قمیص خصوصاًناخن و موئے مبارک کی کہ اجزائے جسم اکرم حضور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وعلٰی  کل جزء جزء وشعرۃ شعرۃ منہ وبارک وسلم توصحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی  عنہم اجمعین کا ان طریقوں سے تبرک کرنا اور حضور  پُر نور صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کا اسے جائز ومقرر رکھنا بلکہ بنفس نفیس یہ فعل فرمانا جوازِ مانحن فیہ کے لئے دلیل واضح ہے اور کتابت قرآن عظیم کی تعظیم زیادہ ماننا بھی ہرگز مفید تفرقہ نہیں ہوسکتاکہ جب علت منع خوف تجنیس ہے تو  وُہ جس طرح کتابت فرقان کے لئے ممنوع ومخطور، یونہی لباس واجزائے جسم اقدس کے لئے قطعاً ناجائز و محذور ، پھرصحاح احادیث سے اسکا جواز بلکہ ندب ثابت ہونا بحکم دلالۃ النص اس کے جواز کی دلیل کافی وﷲ الحمد۔

 

مقام سوم : کفن پر آیات اسماء ادعیہ لکھنے میں جو شبہہ کیا جاسکتا تھا وہ یہی تھا کہ میّت کا بدن شق ہونا، اس سے ریم وغیرہ نکلنا ہے، تو نجاست سے تلوث لازم آئے گا۔ اس کا نفیس ازالہ امام نفیس نے فرمادیا کہ اصطبلِ فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی  عنہ میں گھوڑوں کی رانوں  پر لکھا تھا: حبس فی سبیل اﷲ تعالٰی۱؎ (وقف فی سبیل اﷲ تعالٰی  ہے۔ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار علی الدرالمختار        باب صلٰوۃ الجنائز        مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر    ۱ /۶۰۷)

 

جو احتمالِ نجاست یہاں ہے وہاں بھی تھا تو معلوم ہوا کہ ایک امر غیر موجود کا احتمال نیت صالحہ وغرض صحیح موجود فی الحال سے مانع نہیں آتا۔ مگر ایک متاخر عالم شافعی المذہب امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ  تعالٰی  نے اس جواب میں کلام کیا رانِ اسپ  پر لکھنا صرف پہچان کے لئے تھا اور کفن پر لکھنے سے تبرک مقصود ہوتا ہے، تو یہاں کلماتِ معظمہ اپنے حال پر باقی ہیں انہیں معرض نجاست پر  پیش کرنے کی اجازت نہ ہوگی۲ ؎۔  (۲؎ ردالمحتار علی الدرالمختار        باب صلٰوۃ الجنائز        مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر    ۱ /۶۰۷)

 

ذکرہ فی فتاواہ الکبرٰی واثرہ العلامۃ الشامی فتبعہ علی  عادتہ فانی رأیتہ کثیرا مایتبع ھذاالفاضل الشافعی کمافعل ھھنا مع نص ائمۃ مذھبہ الامام نصیر  والامام الصفار  و تصریح البزازیۃ والدرالمختار وکذا فی مسئلۃ نزول الخطیب درجۃ عندذکر السلاطین وفی مسئلۃ اذان القبر  وفی نجاسۃ رطوبۃ الرحم بالاتفاق مع ان الصواب ان طھارۃ رطوبۃ الفرج عند الامام یشمل الفرج الخارج والرحم والفرج الداخل جمیعا کما بینۃ فی جدالممتار ۔ اسے امام ابن حجر مکی نے اپنے فتاوٰی  کبرٰی  میں ذکر کیا اور علّامہ شامی نے اسے نقل کرنے کے بعد اس کی پیروی کی، جیسا کہ ان کی عادت ہے اس لئے کہ میں نے بہت جگہ دیکھا کہ وہ اس شافعی فاضل کی  پیروی کرتے  ہیں جیسے یہاں کی باوجودیکہ ان کے ائمہ مذہب امام نصیر، امام صفار کی تصریح اوربزازیہ و درمختار کی عبارت سامنے ہے۔ اسی طرح خطبہ میں ذکر سلاطین کے  وقت خطیب کے ایک سیڑھی نیچے اُتر آنے کے مسئلے میں اور مسئلہ اذانِ قبر میں اور رطوبت رحم کی نجاست کے بارے میں کہا جبکہ صحیح یہ ہے کہ امام اعظم کے نزدیک رطوبتِ فرج کی طہارت فرج خارج ، رحم اور فرج داخل سبھی کو شامل ہے۔ جیسا کہ جدالممتار میں اسے میں نے بیان کیا ہے(ت)

 

اقول قطع نظر اس سے کہ یہ فارق یہاں اصلاً نافع نہیں کما بینۃ فیما علقت علی ردالمحتار  (جیسا کہ میں نے اپنے حاشیہ ردالمحتار میں اسے بیان کیا ہے۔ت) مقام ثانی میں جوا حادیثِ جلیلہ ہم نے ذکر کیں وہ توخاص تبرک ہی کے واسطے تھیں تو فرق ضائع اورامام نصیر کا استدلال صحیح وقاطع ہے۔

 

ثمّ اقول بلکہ خود قرآنِ عظیم مثل سورہ فاتحہ و آیاتِ شفاء وغیرہا بغرضِ شفاء لکھ کر دھوکر پینا سلفاً خلفاً بلا نکیر  رائج ہے (عہ)۔

 

عہ:  بلکہ دیلمی نے مسندالفردوس میں اُن سے روایت کی کہ نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا: اذاعسرت علی المرأۃ ولادتھا خذ اناء نظیفا فاکتب علیہ قولہ تعالٰی ، کانھم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الاساعۃ من نھار بلغ، فھل یھلک الاالقوم الفٰسقون کانھم یوم  یرونھا لم یلبثو الاعشیۃ اوضحٰھالقدکان فی قصصھم عبرۃ لاولی الالباب، ثم یغسل وتسقی منہ المرأۃ وینضح علٰی بطنھا وفرجہا۔ ۲؂ جس عورت کو جننے میں دشواری ہو  پاکیزہ برتن  پر آیتیں لکھ کر اُسے پلائیں اور اس کے پیٹ اور فرج پر چھڑکیں۔ ذکرہ فی نزھۃ الاسرار معزی التفسیر بحرالعلوم۱۲  (۲؎ کنز العمال    بحوالہ السنی عن ابن عباس    حدیث ۲۸۳۸۱    مؤسستہ الرسالۃ بیروت        ۱۰ /۶۴)

 

عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہما نے دردِ زہ کے لئے فرمایا : تکتب لہا شیئ من القراٰن وتسقی ۔ ۱؎ قرآن مجید میں سے کچھ لکھ کر عورت کو پلائیں۔

 

(۱؎ قول عبداﷲ ابن عباس)

 

امام احمد بن حنبل اس کے لئے حدیثِ ابن عباس ، دعائے کرب اور دو آیتیں تحریر فرمایا کرتے : لا الٰہ الااﷲ الحلیم الکریم سبحٰن اﷲ رب العرش العظیم الحمدﷲ رب العٰلمین کانھم یوم یرونھا لم یلبثو الاعشیۃ اوضحٰھا کانھم یوم یرون مایوعدون لم یلبثو الاساعۃ من نھار  ۔ ۱؎

 

 (۱؎ مواہب اللدنیہ    کتابات الآلام اخرٰی    المکتب الاسلامی بیروت        ۳ /۴۶۳

مدارج النبوّۃ   باب ششم  معجزات آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم      (رقیہ عسرولادت) مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر  ۱/ ۲۳۵)

 

ان کے صاحبزادہ جلیل امام عبداﷲ بن احمد اسے زعفران سے لکھتے ۔ امام حافظ ثقہ احمد بن علی ابوبکر مروزی نے کہا :میں نے ان کو بارہا اسے لکھتے دیکھا۲ ؎ رواہ الامام الثقۃ الحافظ ابوعلی الحسن بن علی الخلال المکی  (اسے امام، ثقہ، حافظ ابوعلی حسن بن علی خلال مکی نے روایت کیا۔ت)

 

(۲؎ مدارج النبوّۃ   بحوالہ خلال مکی   باب ششم معجزات آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم (رقیہ عسرولادت)     مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر        ۱/ ۲۳۵)

 

حالانکہ معلوم ہے کہ پانی جزوِ بدن نہیں ہوتا اور اسکا مثانہ سے گزر کر آلاتِ بول سے نکلنا ضرور ہے بلکہ خود زمزم شریف کیا متبرک نہیں، ولہذا اس سے استنجا کرنا منع ہے، درمختار میں ہے : یکرہ الاستنجاء بماء زمزم لا الا غتسال۳؎ ۔ آبِ زم زم سے استنجاء مکروہ ہے غسل نہیں۔(ت)

 

 (۳؎ درمختار    باب الہدٰی     مطبوعہ  مطبع مجتبائی دہلی   ۱/۱۸۴)

 

ردالمحتار میں ہے : وکذا ازالۃ النجاسۃ الحقیقۃ من ثوبہ او بدنہ حتی ذکر بعض العلماء تحریم ذلک۴؂ ۔ اسی طرح اپنے کپڑے یا بدن سے نجاستِ حقیقیہ آبِ زم زم سے زائل کرنا یہاں تک کہ بعض علماء نے اسے حرام بتایا ہے۔(ت)

 

 (۴؎ ردالمحتار      باب الہدٰی     مطبوعہ     ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر    ۲ /۲۵۶)

 

اور اس کا پینا اعلٰی  درجہ کی سنت، بلکہ کوکھ بھر کر پینا ایمان خالص کی علامت۔ تاریخ بخاری وسنن ابن ماجہ و صحیح مستدرک میں بسندِ حسن حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں : اٰیۃ ما بیننا وبین المنافقین انھم لایتضلعون من زمزم ۵؎۔ ہم میں اور منافقوں میں فرق کی نشانی یہ ہے کہ وہ کوکھ بھر کر آبِ زمزم نہیں پیتے۔

 

 (۵؎ المستدرک علی الصحیحین    کتاب المناسک      مطبوعہ   دارالفکر  بیروت        ۱ /۴۷۲)

 

بلکہ بحمد اﷲ تعالٰی  ہماری تقریر سے امام ابن حجر شافعی اوران کے متبع کا خلاف ہی اُٹھ گیا، اول نے اسے حدیث سے ثبوت پر موقوف رکھا تھا، قال والقول بانہ قیل یطلب فعلہ الخ مرد ود لان مثل ذلک لا یحتج بہ وانما کانت تظھرالحجۃ لوصح عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم طلب ذلک ولیس کذلک ۱؎ ۔ ان کا کلا م  یہ ہے'' یہ کہنا کہ ''غرض صحیح کے لئے ایسا کرنا مطلوب ہوگا اگرچہ معلوم  ہو کہ اسے نجاست پہنچے گی'' ناقابل قبول ہے کیونکہ اس طرح کی بات سے حجت قائم نہیں ہوتی، اگر نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی  علییہ وسلم سے اس کی طلب صحت کے ساتھ ثابت ہوتی تو حجت ظاہر ہوتی اور ایسا نہیں''۔(ت)

 

 (۱؎ فتاوی ابن حجر مکی    باب الجنائز     دارالکتب العلمیۃ بیروت      ۲ /۱۳)

 

دوم نے حدیث یا قولِ مجتہد پر، قال فالمنع ھنابالاولٰی مالم یثبت عن المجتھد اوینقل فیہ حدیث ثابت۲؎۔ انہوں نے کہا: تو یہاں ممانعت بدرجہ اولٰی  ہوگی جب تک کہ مجتہد سے اس کا ثبوت نہ ہو یا اس بارے میں کوئی حدیث منقول نہ ہو(ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار        باب صلٰوۃ الجنائز    ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر       ۱ /۶۰۷)

 

ہم نے متعدد احادیثِ صحیحہ سے اُسے ثابت کردیا اور امام نصیر  و امام قاسم صفار نے خود ہمارے مذہب کے ائمہ مجتہدین سے ہیں، بالجملہ حکمِ جواز ہے اور اگر بلحاظ زیادت احتیاط کفن پر لکھنے یا لکھا ہوا کفن دینے سے اجتناب کرے تو جادارد۔ اس بحث کی تکمیل وتفصیل فقیرنے تعلقیات ردالمحتار میں ذکر کی، اُس کا یہاں ذکر خالی از نفع نہیں، امام حجر مکی نے بعد عبارت مذکورہ نمبر ۱۲فرمایا تھا : قیاسہ علی مافی نعم الصدقۃ ممنوع لان القصد ثم التمیز لاالتبرک وھنا القصد التبرک فالاسماء المعظمۃ باقیۃ علی حالھا فلا یجوز تعریضھا للنجاسۃ ۳ ؎ اھ  و اقرہ ش صدقہ کے جانوروں کے بارے میں جو آیا ہے اس پر اس کا قیاس ممنوع ہے اس لئے کہ وہاں امتیاز مقصود ہے تبرک نہیں، اور یہاں برکت لینا مقصود ہے تو عظمت والے اسماء اپنے حال پر باقی رہیں گے انہیں معرض نجاست میں لانا جائز نہ ہوگا اھ، علامہ شامی نے اسے برقرار رکھا۔ (ت)

 

 (۳؎ فتاوی ابن حجر مکی    باب الجنائز     دارالکتب العلمیۃ بیروت       ۲ /۱۳)

 

فقیر نے اس پر تعلیق کی : اقول ھذاالفرق لایجدی نفعاوکیف یسلم ان قصدالتمیز یسقط تعظیم ماوجب تعظیمہ شرعا افتبدل بہ اعیان الاسماء العظمۃ فھو باطل عیانا ام لایراد بھامعانیھا بل تکون الفاظ مستعملۃ فی معان اخری او من دون معنی وھذا ایضا باطل قطعافان قولناﷲ اوحبیس فی سبیل اﷲ انمایفیدالتمیز ویفھم الصدقۃ بالنظر الی معانیھا الموضوعۃ لھا لاغیر ام اذااستعملت الکلمات المعظمۃ فی معانیھا وکان الغرض ھنالک افھام امرما سوی نحوالتبرک یخرجھا ذلک عن کونھا معظمۃ وای دلیل من الشرع علی ذلک بل الدلا ئل بل البداھۃ ناطقۃ بخلافہ ولوان مجرد قصد غرض اٰخرغیرنحو التبرک کان یسقط التعظیم فلیجز توسد القراٰن العظیم  بل اولٰی لان الغرض ثم لایتم الاباسم الجلالۃ من حیث ھواسم الجلالۃ اماھٰھنافنظر المتوسد لیس الی قراٰنیتہ من حیث ھی ھی بل الٰی حجمہ وضخامۃ جلدہ واذاجاز ذلک لذلک جاز ایضا والعیاذباﷲ تعالٰی ان یضع المصحف الکریم علی الارض ویجلس علیہ توقیالثیابہ من التراب فانہ لیس باعظم من التعریض للابوال والارواث الی غیر ذلک مما لایجیزہ احد ۔ ولعل متعلا یعتل بجوازقراءۃامثال الفاتحۃ للجنب واختیہ اذاقصدواالثناء والدعاء دون التلاوۃ۔

 

اقول : یہ تفریق بے سُود ہے، یہ کیسے تسلیم کیاجاسکتا ہے کہ امتیاز کا قصد ایسی چیز کی تعظیم ساقط کردے جس کی تعظیم شرعاً واجب ہو--اگر یہ کہیں کہ اس قصد کی وجہ سے عظمت والے اسماء کی حقیقت ہی بدل جاتی ہے تو اس کا بطلان عیاں ہے اور یہ کہیں کہ ان سے ان کی معانی مراد نہیں ہوتے بلکہ یہ دوسرے معانی میں مستعمل الفاظ ہوجاتے ہیں یا معنی سے خالی ہوجاتے ہیں -- تو یہ قطعاً باطل ہے کیونکہ کلمہ''ﷲ''(خدا کے لئے) یا''حبیس فی سبیل اﷲ''(اﷲ کی راہ میں وقف) امتیاز ونشان کا فائدہ بھی دیتا ہے اوراپنے وضعی معنی کے لحاظ سے مال صدقہ ہونے کو بھی بتاتا ہے کوئی اور معنی نہیں دیتا--اور اگر یہ کہیں کہ عظمت والے کلمات جب اپنے معانی میں مستعمل ہوں اور وہاں تبرک کے سوا کوئی اور بات سمجھانی بھی مقصود ہو تو وہ باعظمت نہیں رہ جاتے--تو اس پر کون سی دلیل شرعی ہے؟ بلکہ دلائل بلکہ بداہت اس کے خلاف ناطق ہے تبرک جیسے امر کے سوا کسی اور غرض کا محض قصد ہوجانا اگر تعظیم کو ساقط کردیتا ہے تو چاہئے کہ قرآنِ عظیم کا تکیہ لگانا جائز  ہو بلکہ بدرجہ اولٰی  ، اس لئے کہ وہاں جو غرض ہے وہ اسم جلالت بحیثیت اسم جلالت کے بغیر پوری نہیں ہوتی-- اور یہاں تو تکیہ لگانے والے کی نظر اس کی قرآنیت بحیثیت قرآنیت کی جانب نہیں ہوتی بلکہ اس کے حجم اور جلد کی ضخامت کی جانب ہوتی ہے-- اور اس بنیاد پر جب وہ جائز ہوجائیگا۔

تو معاذاﷲ یہ بھی جائز ہوجائے گا کہ مصف شریف زمین پر رکھ کر اس پر بیٹھ رہے اس غرض سے کہ اس کے کپڑے مٹّی سے محفوظ رہیں--کیونکہ یہ لید اور پیشاب وغیرہ پڑنے کی جگہ لانے سے بڑھ کر نہیں، جسے کوئی جائز نہیں کہہ سکتا۔ ہوسکتا ہے کوئی یوں علت پیش کرے کہ جنب وحائض ونفساء کے لئے دعا وثنا کے ارادے سے سورہ فاتحہ وغیرہ پڑھنا جائز ہے اور بقصدِ تلاوت جائز نہیں۔

 

اقول نازعہ المحقق الحلبی فی الحلیۃ وخصّ الجواز بمالا یقع بہ التحدی ای مادون قدر ثلث اٰیات ولی فی ھذا ایضا کلام والحق عندی ان الجواز بنیۃ الدعاء والثناء ورد علی خلاف القیاس توسعۃ من اﷲتعالٰی بعبیدہ رحمۃ منہ وفضلا فلا یجوز  القیاس علیہ علا ان منع الجنب لم یکن لنفس الالفاظ بل لکونھا قراٰنا ای کلام اﷲ عزوجل النازل علی نبیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم المثبت بین الدفتین من حیث ھوکذلک حتی لو فرض ان تلک الالفاظ کانت حدیثالم یحرم علیہ قراءتہ فاذا قرأت علی جھۃ انشاء کلامن عند نفسہ لم تبق النسبۃ المانعۃ ملحوظۃ اماھٰھنا فالتعظیم لنفس تلک الالفاظ الموضوعۃ لتلک المعانی المعظمۃ وھی باقیۃ فی الکتابۃ علی حالھا فافھم، مع ان العلامۃ سیّدی عبدالغنی النابلسی قدس سرہ القدسی نص علیہ ان النیۃ تعمل فی تغییر المنطوق لا المکتوب  ۱؎ کمانقلہ العلامۃ ش قبیل المیاہ واقرہ ۔

 

اقول محقق حلبی نےحلیہ میں اس سے اختلاف کیا ہے اور جواز صرف اتنی مقدار سے خاص کیا ہے جس سے تحدّی واقع نہیں ہوتی، یعنی تین آیات سے کم ہی پڑھنے کا جواز ہے--مجھے اس میں بھی کلام ہے--میرے نزدیک حق یہ ہے کہ دعا یا ثنا کی نیت سے جواز کاحکم --اﷲتعالٰی  کی جانب سے بطور  رحمت و فضل بندوں  پر وسعت دینے کے لئے--خلافِ قیاس وارد ہے تو اس پر قیاس روا نہیں-- علاوہ ازیں جنب کے لئے ممانعت نفس الفاظ کے باعث نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ وہ قرآن ہیں یعنی اﷲ  عز و جل کا وُہ کلام جو اس کے نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم پر نازل ہے دو دفتیوں کے درمیان ثبت ہے اس لحاظ سے کہ وہ قرآن ہیں، یہاں تک کہ اگر فرض کیا جائے کہ وہ الفاظِ حدیث ہیں تو جنب کے لئے ان کی قرأت حرام نہ ہوگی--تو جب ان کی قرأت اس طور  پر ہو کہ خود اپنی جانب سے ایک کلام انشا کر رہا ہے تو جونسبت باعثِ ممانعت تھی وہ ملحوظ نہ رہ گئی-- لیکن یہاں تو تعظیم خود ان ہی الفاظ کے باعث ہے جو ان معانی عظمت کے لئے وضع ہوئے ہیں۔ اور کتابت میں یہ اپنے حال پر باقی ہیں ۔تواسے سمجھو-- اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ علامہ سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ نے صراحت فرمائی ہے کہ نیت منطوق کو بدلنے میں اثر انداز ہوتی ہے مکتوب میں  نہیں--جیسا کہ علّامہ شامی نے باب المیاہ سے ذرا قبل اس کو نقل کیا اور برقرار  رکھا ہے۔

 

 (۱؎ ردالمحتار        کتاب الطہارۃ     مطبوعہ الطباعۃ المصریہ مصر  ۱ /۱۱۹)

 

ثم اقول علی التسلیم لامحیص عن کونہ اعنی ماکتب علی افخاذ الا بل حروفا و حروف الھجاء المعظمۃ بانفسھا لایجوز تعریضھا للنجاسۃ کیف وانھا علی ماذکرالزرقانی فی شرح المواہب قراٰن انزل علی سیدناھودعلی نبینا الکریم و علیہ الصلٰوۃ والتسلیم۲؎ وکذا نقلہ فی ردالمحتار عن بعض القراء وقدمہ عن سیّدی عبدالغنی عن کتاب الاشارات فی علم القراءات للامام القسطلانی وقال اعنی الشامی فیہ ان الحروف فی ذاتھا لھا احترام۳؎اھ، ثم اقول برتقدیر تسلیم- او نٹوں کی ران پر جو لکھا جاتا اُس کو حروف ماننے سے مفرنہیں- اور حروفِ تہجی خود باعظمت ہیں، انہیں معرضِ نجاست میں لانا جائز نہیں-  ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہ وُہ قرآن ہے جو سیّدنا ہود علٰی  نبیناالکریم وعلیہ الصلٰوۃ والتسلیم پر نازل ہوا،  جیسا کہ علّامہ زرقانی نے شرح مواہب میں ذکر کیا ہے- اسی طرح ردالمحتار میں اسے بعض قراء سے نقل کیا ہے اور اس سے  پہلے امام قسطلانی کی کتاب '' الاشارات فی علم القراءات'' کے حوالے سے سیدعبدالغنی نابلسی سے نقل کیا -اوراسی میں علامہ شامی نے بھی یہ لکھا ہے خود یہ حروف محترم ہیں اھ -

 

 (۲؎ ردالمحتار     فصل الاستجاء    مطبوعہ الطباعۃ المصریہ مصر   ۱ /۲۲۷)

 (۳؎ ردالمحتار        فصل الاستنجاء   مطبوعہ الطباعۃ المصریہ مصر        ۱ /۱۱۹)

 

وقال ایضانقلوا عندنا ان للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ ۱؎اھ ۔ یہ بھی لکھا ہے کہ علماء نے نقل فرمایا ہے کہ ہمارے نزدیک حروف کی عزت وحرمت ہے اگرچہ یہ الگ الگ ہوں اھ-

 

 (۱؎ ردالمحتار        فصل فی الاستنجاء        مطبوعہ الطباعۃ المصریہ مصر        ۱ /۲۲۷)

 

وفی الھندیۃ لوقطع الحروف فی الحرف او خیط علی بعض الحروف فی البساط اوالمصلی حتی لم تبق الکلمۃ متصلۃ لم تسقط الکراھۃ وکذلک لوکان علیہ، الملک ،لاغیر وکذلک الالف و حدھا واللام وحدھا کذا فی الکبری، اذاکتب اسم فرعون اوکتب ابو جھل علی غرض یکرہ ان یرموا الیہ لان لتلک الحروف الحرمۃ کذافی السراجیۃ ؂۲اھ ہندیہ میں ہے اگر حرف کو حرف سے جدا کردیا ، یا فرش یا جا نماز میں بعض حروف پر اس طرح سلائی کردی گئی کہ پُورا لفظ مستعمل نہ رہا تو بھی کراہت ختم نہ ہوئی-- اسی طرح اگر اس پرصرف الملک ہو،اسی طرح اگر صرف الف اور صرف لام ہو، ایساہی کبرٰی  میں ہے--اگر نشانہ لگانے کی جگہ فرعون کا نام لکھ دیا گیا یا ابوجہل لکھا گیاتو اس پر تیر مارنا مکروہ ہے اس لئے کہ ان حروف ہی کی عزّت و حرمت ہے، ایسا ہی سراجیہ میں ہے اھ

 

 (۲؎ فتاوٰی  ہندیہ     الباب الخامس فی آداب المسجد    مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشار       ۵ /۳۲۳)

 

بل صرح فی الدرالمختار وغیرہ انہ یجوز  رمی برایۃ القلم الجدید ولا ترمی برایۃ القلم المستعمل لاحترامہ کحشیش المسجد وکناستہ لایلقی فی موضع یخل بالتعظیم ۳؎اھ بلکہ درمختار وغیرہ میں تصریح ہے کہ نئے قلم کا تراشا پھینکنا  جائز ہے اور مستعمل قلم کا تراشہ پھینکنا جائز نہیں کیونکہ وہ محترم ہے، جیسے مسجد کی گھاس اور کوڑا ایسی جگہ نہ ڈالا جائے جہاں بے حرمتی ہو اھ۔

 

 (۳؎ درمختار   کتاب الطہارۃ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۳۴)

 

وفی ردالمحتار ورق الکتابۃ لہ احترام ایضالکونہ الٰۃ لکتابۃ العلم ولذاعللہ فی التاتارخانیہ بان تعظیمہ من ادب الدین۴؎اھ ردالمحتار میں ہے : کتابت کے کاغذ کا احترام ہے اس لئے کہ وہ کتابتِ علم کا سامان ہے--اسی لئے تاتارخانیہ میں اس کی یہ علت بیان کی ہے کہ اس کی تعظیم دین کے آداب سے ہے اھ-

 

 (۴؎ ردالمحتار      فصل فی الاستنجاء    مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر     ۱ /۲۲۷)

 

فاذا کان ھذا فی برایۃ القلم وبیاض الورق الغیر المکتوب فما ظنک بالحروف فاذن لاشک فی صحۃ الاستنادولابد من اخراج کتابات الابل عن الاخلال بالتعظیم۔ تو جب یہ حکم قلم کے تراشے اور بغیر لکھے کاغذ کی بیاض کے بارے میں ہے تو حروف کےبارے میں کیا ہوگا--اس سے ظاہر ہوا کہ صحتِ استناد میں کوئی شک نہیں-اور اونٹوں والی تحریروں کو بے حرمتی سے خارج ماننا ضروری ہے۔

 

واقول یظھر لی فی النظر الحاضر ان لیس الامتھان من لازم تلک الکتابۃ ولاھو موجودحین فعلت ولاھومقصود لمن فعل وانما اراد التمیز وانماالاعمال بالنیات وانمالکل امرء مانوی۱؎۔ واقول(اور میں کہتا ہوں) بنظرِ حاضر مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ اہانت اس تحریر کو لازم نہیں، نہ ہی بوقتِ تحریر اہانت کا وجود ہے، نہ ہی یہ لکھنے والے کا مقصود ہے-- اس کا مقصد صرف امتیاز پیدا کرنا اور نشان لگانا ہے--اوراعمال کامدار نیتوں پر ہے اور ہرانسان کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی--

 

(۱؎ صحیح بخاری        باب کیف بدأالوحی        مطبوعہ قدیمی قطب خانہ کراچی  ۱ /۲)

 

قال فی جواھر الاخلاطی ثم الفتاوی الھندیۃ لاباس بکتابۃ اسم اﷲتعالٰی علی الدراھم لان قصد صاحبہ العلامۃ لاالتھاون۲؎اھ جواہر اخلاطی پھر فتاوٰی  ہندیہ میں ہے : دراہم پراﷲ کا نام تحریر کرنے میں کوئی حرج نہیں اس لئے کہ تحریر کرنے والے کامقصود صرف نشان ہوتا ہے، اہانت نہیں اھ--

 

 (۲؎ فتاوٰی  ہندیہ     الباب الخامس فی آداب المسجد     مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور            ۵ /۳۲۳)

 

وھذ الاشک انہ جارفیما نحن فیہ فلیس التجنیس من لازم الکتابۃ ولاھو موجود لامقصود وانما المراد التبرک الٰی اٰخر مامر فان قنع بھذا فذاک والافایاما ابدیتم من الوجہ فی ذالک فانہ یجری فیماھنالک ولایظھرفرق یغیر المسالک۔ یہ بات بلاشبہہ تحریر کفن میں بھی جاری ہے اس لئے کہ نجاست آلود کرنااس تحریر کولازم نہیں، نہ ہی بروقت اس کا وجود ہے نہ ہی مقصود ہے ،مقصود صرف برکت حاصل کرنا ہے --وُہ ساری باتیں جو گزر چکیں۔ اگر مخالف اسے مان لے تو ٹھیک ہے ورنہ اُس میں آپ جوبھی وجہ بتائیں وُہ یہاں بھی جاری ہوگی اور کوئی ایسا فرق رونما نہ ہوگا جس سے راہیں مختلف ہوجاتیں۔

 

فان قلت التجنیس فی الابل غیر مقطوع بہ حتی فی اجانب الانسی من افخاذھالانھاتتفاج حین تبول فکیف بالوحشی المکتوب علیہ قلت لاقطع فی التکفین ایضافلیس کل جسدیبلی فان الاولیاء والعلماء العالمین والشھداء والمؤذن المحتسب وحامل القراٰن العامل بہ والمرابط والمیت بالطاعون صابرامحتسباوالمکثرمن ذکراﷲتعالٰی لاتتغیر ابدانھم۱؎ نقلہ العلامۃ الزرقانی فی شرح المؤطامن جامع الجنائز وجعلہم عشرۃ کاملۃ بذکرالانبیاء علیھم الصلٰوۃ والسلام ثم الصدیقین والمحبین ﷲتعالٰی وجمعت ھذین فی قول الاولیاء ۔ اگر یہ کہیے کہ اونٹوں میں آلودگیِ نجاست کا یقین نہیں خواہ پالتو اونٹ کی ران کے  پہلو پر لکھائی ہو کیونکہ اونٹ پیشاب کرتے وقت اپنی ٹانگوں کو کھول لیتا ہے تو کھلے جنگل میں رہنے والے جانوروں پرلکھائی میں کیسے یقین ہوسکتی ہے--میں کہوں گا کفن دینے میں بھی یہ یقینی نہیں، اس لئےکہ ہر جسم بوسیدہ نہیں ہوتا اولیاء، باعمل علماء، شہداء، طالبِ ثواب مؤذن، باعمل حافظِ قرآن، سرحد کا پاسبان، طاعون میں صبر کے ساتھ اور اجر چاہتے ہوئے مرنے والا، کثرت سے اﷲ کا ذکر کرنے والا، ان کے بدن بگڑتے نہیں اسےعلامہ زرقانی نےشرح مؤطا میں جامع الجنائز سے نقل کیا اور انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام پھر صدیقین اورخدا کے محبین کو ذکر کرکے ان کی تعداد کامل دس کردی ہے--اور میں نے ان دونوں قسموں کو لفظ اولیاء میں شامل کردیا ۔

 

 (۱؎ شرح زرقانی علی المؤطا  باب جامع الجنائز   مطبوعہ مکتبہ تجاریہ کبرٰی  مصر   ۲ /۸۴)

 

ثم تقیید المؤذن بالمحتسب ھو نص حدیث اخرجہ الطبرانی عن عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنھما عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال المؤذن المحتسب کالشہید(المشتحط) فی دمہ و اذا مات لم یدود فی قبرہ۲؎ مؤذن کے ساتھ محتسب (طالب ثواب)کی قید بتصریحِ حدیث ثابت ہے۔طبرانی نے عبداﷲ بن عمرو  رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے ، انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ سرکار نے فرمایا : موذّنِ محتسب اپنے خون میں آلودہ شہید کی طرح ہے جب وہ مرتا ہے تو قبر کے اندر اس کے بدن میں  کیڑے نہیں پڑتے--

 

 (۲؎ مجمع الزوائد بحوالہ طبرانی        باب المؤذن المحتسب        مطبوعہ دارالکتاب بیروت        ۲ /۳)

 

وھو محمل اثرمجاھد،المؤذنون اطول الناس اعناقا یوم القیٰمۃ  ولایدودون فی قبورھم۱؎ رواہ عبدالرزاق وذلک بدلیل الجزء الاول اطول الناس الخ ۔ اور یہی حضرت مجاہد کے اس اثر کی بھی مراد ہے کہ اذان دینے والے روزِ قیامت سب لوگوں سے زیادہ گردن دراز ہوں گے اور قبروں کے اندر ان کے جسم میں کیڑے نہ پڑیں گے۔اسے عبدالرزاق نے روایت کیا --اس کی (یہاں بھی محتسب کی قید ملحوظ ہونے کی) دلیل جزء اول اطول الناس (سب لوگوں سے زیادہ گردن دراز)الخ ہے۔

 

 (۱؎ ا لمصنف لعبد الرزاق   باب فصل فی الاذان    مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت        ۱ /۴۸۳)

 

اماحامل القراٰن فحدیث ابن مندۃ عن جابربن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما انہ قال قال رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم اذامات حامل القراٰن اوحی اﷲالی الارض ان لاتاکلی لحمہ، فتقول الارض  ای رب کیف اٰکل لحمہ وکلامک فی جوفہ۲؎ قال ابن مندۃ وفی الباب عن ابی ھریرۃ وابن مسعود۔ حافظ قرآن سے متعلق ابن مندہ کی حدیث ہے جو حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کا ارشاد ہے''جب حافظ قرآن مرتا ہے خدا  زمین کو حکم فرماتا ہے اس کا گوشت نہ کھانا، زمین عرض کرتی ہے: اے رب ! میں اس کا گوشت کیسے کھاؤں گی جب تیرا کلام اس کے سینے میں ہے''۔ابن مندہ نے کہا اس باب میں حضرت ابو ہریرہ اور ابن مسعود رضی اﷲتعالٰی  عنہما سے بھی روایت ہے۔

 

 (۲؎ الفردوس بما ثور الخطاب        حدیث ۱۱۱۲    مطبوعہ  دارالکتب العلمیہ بیروت      ۱ /۲۸۴)

 

و زاد فیہ الشیخ قید العامل بہ اقول بہ ولکن العامل بہ مرجولہ ذلک وان لم یکن حاملہ فقد اخرج المروزی عن قتادۃ قال بلغنی اناالارض لاتسلط علی جسد الذی لم یعمل خطیئۃ الا ان یقال ان وصف العامل بہ حامل للخطّاء التواب ایضا ثم الذی لم یعمل خطیئۃ ھوالصالح المحفوظ ولایشمل الصبی فیما اظن ۱؎ واﷲ تعالٰی اعلم وبضم ھذا تمواعشرۃ وﷲ الحمد نبی ۱، ولی ۲، عالم ۳، شہید ۴، مرابط ۵، میت طاعون ۶، مؤذّن محتسبین۷، ذکار ۸، حامل القراٰن۹، من لم یعمل۱۰ خطیئۃ ۔ شیخ نے اس پر ''قرآن پر عامل'' کی قید کا اضافہ کیا-اقول مگرعاملِ قرآن اگر حافظِ قرآن نہ ہو تو بھی اس کے لئے یہ امید ہے--مروزی نے قتادہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں مجھے خبر  پہنچی ہے کہ زمین اس کے جسم پر مسلّط نہیں کی جاتی جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عاملِ قرآن کا وصف اس پر بھی صادق ہے جو خطاکار اور تائب ہو  پھر، وہ جس نے کوئی گناہ نہ کیا ایسا صالح ہوگا جو گناہ سے بالکل محفوظ رہا ہو--اور یہ وصف میرے خیال میں بچّے کو شامل نہیں،اور زیادہ علم خدائے برتر کو ہے--اب اسے ملا کر  پورے دس ہوگئے۔(۱) نبی (۲) ولی(۳) عالم (۴) شہید(۵) مرابط (سرحد کا پاسبان) (۶) میّت طاعون،محتسب (۷) مؤذن محتسب (۸) بہت ذکر کرنے والا (۹) حافظِ قرآن (۱۰) وہ جس نے کوئی گناہ نہ کیا ۔

 

 (۱؎ مروزی        مسانید فی الحدیث)

 

فان کان من نکفنہ احدھٰؤلاء فذالک والا فمایدریک ان ھذاالمسلم لیس من اولیاء اللہ تعالی او لم ینل منازل الشھداء بل من الاشرار من لایتغیر جسدہ تشدیدا للتعذیب والعیاذ باللہ القریب المجیب ۔ تو جسے ہم کفن دے رہے ہیں مذکورین میں سے کوئی ایک ہے تو حال واضح  ہے-- ورنہ کیا معلوم کے یہ مسلمان اللہ تعالی کے اولیاء سے نہیں یا اسے شہداء کا درجہ حاصل نہیں--بلکہ ا شرار میں بھی ایسے ہیں جن کا جسم اس لئے متغیر نہیں ہوتا کہ عذاب زیادہ سخت ہو-- پناہ خدائے قریب مجیب کی۔

 

ھذا و اما ما ایدہ بہ المحشی مماقدم عن الفتح انہ تکرہ کتابۃ القراٰن واسماء اﷲتعالٰی علی الدراھم والمحاریب والجدران ومایفرش۲؎ اھ ما فی الفتح قال المحشی فما ذلک الا لاحترامہ  و خشیئۃ وطئہ  ونحوہ ممافیہ اھانۃ، فالمنع ھنا بالاولی مالم یثبت عن المجتہد اوینقل فیہ حدیث ثابت ۱؎ اھ وھذا الذی حملہ علی العدول عن قول امام مذھبہ الصفار الحنفی الی قول الامام ابن ا لصلاح  من متاخری  الشافیعۃ۔ اب رہا وہ کلام جو اس کی تائید میں علّامہ شامی نے فتح القدیر کے حوالے سے پیش کیا کہ درہم ، محراب اور دیوار اور بچھائی جانے والی چیز پر قرآن اور اسماء الٰہی لکھنا مکروہ ہے (فتح کی عبارت ختم ہوئی) اس پر علامہ شامی لکھتے ہیں: اس کی وجہ یہی احترام اور پامالی وغیرہ سے اہانت کا اندیشہ ہے، تو یہاں ممانعت بدرجہ اولٰی  ہوگی جب تک کہ مجتہد سے ثبوت نہ ہویا اس بارے میں کوئی حدیثِ ثابت منقول نہ ہو اھ - یہی وہ بات ہے جو ان کے لئے اپنے مذہب کے امام صفارحنفی کے قول سے عدول کرکے ایک شافعی متاخر امام ابن الصلاح کا قول لینے  پر باعث ہوئی۔

 

 (۲؎ ردالمحتار     مطلب فیما یکتب علٰی  کفن المیت   مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت   ۱ /۶۰۷)

 (۱؎ ردالمحتار   مطلب فیما یکتب علی کفن المیت   مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت  ۱ /۷۰۷)

 

فاقول امّاالکتابۃ علی الفراش فامتھان حاضر اوقصدمالا ینفک عن التھاون فلیس ممانحن فیہ ولاکلام فی کراھتہ واما علی البواقی فالمسئلۃ مختلف فیھا وقداسمعناک اٰنفاما فی جواہر الاخلاطی فی حق الدراھم وقال الامام الاجل قاضی خان فی فتاواہ لوکتب القراٰن علی الحیطان والجد ران بعضھم قالوا یرجی ان یجوز وبعضھم کرھواذلک مخافۃ السقوط تحت اقدام الناس۲؎اھ فاقول (تو میں کہتا ہوں) بچھونے پر لکھا تو بروقت اہانت ہے یا ایسے کام کا قصد ہے جو بے حرمتی سے جُداہونے والا نہیں۔ یہ تو ہمارے مبحث سے خارج ہے اور اس کے مکروہ ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ رہا باقی چیزوں پر لکھنا توان کے بارے میں مسئلہ اختلافی ہے---دراہم سے متعلق توجواہر اخلاطی کی عبارت ابھی ہم پیش کر آئے (دیوار و محراب سے متعلق ملاحظہ ہو)امام اجل قاضی خاں اپنےفتاوی میں لکھتے ہیں:''اگر دیواروں  پر قرآن لکھا تو بعض نے کہا امید ہے کہ جائز ہوگا'' اور بعض نے لوگوں کے پاؤں تلے پڑنے کے اندیشے کی وجہ سے اس کو مکروہ کہا اھ --

 

(۲؎ فتاوٰی  قاضی خان    کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی التسبیح من الحظر  مطبوعہ نولکشور لکھنؤ۴ /۷۹۲)

 

فقد قدم رجاء الجواز وھو کما صرح بہ فی دیباجۃ فتاواہ لایقدم الاالاظھرالاشھر ویکون کما نص علیہ العلامۃ السید الطحطاوی ثم السید المحشی ھو المعتمد فاذن فلتکن الکتابۃ المعھودۃ علی افخاذ الابل من لدن سیدناالفاروق الاعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ مرجحۃ لقول الجواز ان فرضنا المساواۃ والا فلانسلمھا من الاصل فان الکتابۃ علی المحاریب والجدران انما یکون المقصود بھاغالبا الزینۃ ولیست من الحاجۃ فی شیئ فالمنع ثمہ لایستلزم المنع حیث الحاجۃ ماسۃ کالتمییز والتبرک والتوسل للنجاۃ باذن اﷲتعالٰی فافھم واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم ۔ اس عبارت میں امیدِ جواز کو انہوں نے مقدم رکھا ہے-- اور جیسا کہ اپنے فتاوٰی  کے دیباچے میں وہ تصریح فرماچکے ہیں جسے وہ مقدم رکھتے ہیں وہی''اظہر اشہر''ہوتا ہے-- اور جیسا کہ علامہ سید طحطاوی پھر خود علّامہ شامی نے تصریح فرمائی ہے وہی ''معتمد'' ہوتا ہے-- ایسی صورت میں سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کے زمانے سے اونٹوں کی ران  پرلکھی جانے والی تحریر معہود و معلوم سے قولِ جوازکو ترجیح ہونی چاہئے -- اگر دونوں تحریروں میں ہم مساوات مانیں-- ورنہ اسے ہم سرے سے نہیں مانتے اس لئے کہ محرابوں اور دیواروں  پر لکھنے سے عموماً زینت مقصود ہوتی ہے۔ یہ کوئی حاجت کی چیز  ہی نہیں- تو  اگر اس میں ممانعت ہے تو یہ اس کو مستلزم نہیں کہ وہاں بھی ممانعت ہو جہاں حاجت ہے جیسے امتیاز  پیدا کرنا، برکت حاصل کرنا، باذنِ الٰہی نجات کا وسیلہ بنانا- تو اسے سمجھو-- اور خدائے  پاک بزرگ و برتر خوب جاننے ولا ہے (ت)

 

مقام چہارم : جب خود کفن  پر ادعیہ وغیرہ تبرکاً لکھنے کا جواز فقہاً و حدیثاً ثابت ہے تو  شجرہ شریف رکھنا بھی بداہۃً اسی باب سے بلکہ بالاولٰی  ،اوّل تو اسمائے محبوبانِ خدا علیہم التحیۃ والثناء سے توسل و تبرک بلاشبہہ محمود ومندوب ہے۔ تفسیرِ طبری  پھر شرح مواہبِ لدنیہ للعلامۃ الزرقانی میں ہے : اذاکتب اسماء اھل الکھف فی شیئ والقی فی النار اطفئت ۱؎ ۔ جب اصحابِ کہف کے نام لکھ کر آگ میں ڈالے جائیں توآگ بجھ جاتی ہے۔

 

 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ      المقصد الثامن    مطبوعہ معرفۃ بیروت   ۷ /۱۰۸)

 

تفسیر نیشاپوری علامہ حسن محمد بن حسین نظام الدین میں ہے : عن ابن عباس ان اسماء اصحاب الکہف یصلح للطلب والھرب واطفاء الحریق تکتب فی خرقہ ویرمی بھافی وسط النار ، ولبکاء الطفل تکتب وتوضع تحت راسہ فی المھد ، وللحرث تکتب علی القرطاس وترفع علٰی خشب منصوب فی وسط الزرع وللضربان وللحمی المثلثۃ والصداع والغنی والجاہ والدخول علی السلاطین تشد علی الفخذ الیمنی والعسر الولادۃ تشد علی فخذھا الا یسر، ولحفظ المال و الرکوب فی البحر والنجاہ من القتل۱؎۔ یعنی عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روایت ہے کہ اصحابِ کہف کے نام تحصیل نفع ودفع ضرراورآگ بجھانے کے واسطے ایک پرچی پر لکھ کر آگ میں ڈال دیں، اور بچّہ روتا ہو لکھ کر گہوارے میں اس کے سر کے نیچے رکھ دیں، اورکھیتی کی حفاظت کے لئے کاغذ پر لکھ کر بیچ کھیت میں ایک لکڑی گاڑ کر اُس پر باندہ دیں، اور رگیں تپکنے اور باری والے بخار اور دردِسراور حصول تونگری ووجاہت اور سلاطین کے پاس جانے کے لئے دہنی ران پر باندھیں، اور دشواری ولادت کے لئے عورت کی بائیں ران پر ،نیز حفاظت مال اور دریا کی سواری اور قتل سے نجات کے لئے۔

 

 (۱؎ تفسیر غرائب القرآن    ذکراسماء اہل کہف    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱۵/۱۱۰)

 

امام ابن حجرمکی صواعق محرقہ میں نقل فرماتے ہیں : جب امام علی رضا رضی اﷲ تعالٰی  عنہ نیشاپور میں تشریف لائے، چہرہ مبارک کے سامنے ایک پردہ تھا، حافظانِ حدیث امام ابوذراعہ رازی و امام محمد بن اسلم طوسی اوران کے ساتھ بیشمار طالبانِ علم وحدیث حاضرِ خدمتِ انور ہوئے اور گڑگڑا کر عرض کیا اپنا اجمالِ مبارک ہمیں دکھائیےے اور اپنے آبائے کرام سے ایک حدیث ہمارے سامنے روایت فرمائیے، امام نے سواری روکی اور غلاموں کو حکم فرمایا پردہ ہٹالیں خلقِ خدا کی آنکھیں جمال مبارک کے دیدار سے ٹھنڈی ہوئیں۔ د و۲ گیسو شانہ مبارک پر لٹک رہے تھے۔ پردہ ہٹتے ہی خلق خدا کی وہ حالت ہوئی کہ کوئی چلّاتاہے، کوئی روتا ہے، کوئی خاک پر لوٹتا ہے، کوئی سواری مقدس کا سُم چومتا ہے۔ اتنے میں علماء نے آواز دی :خاموش سب لوگ خاموش ہورہے۔ دونوں امام مذکور نے  حضور سے کوئی حدیث روایت کرنے کو عرض کی حضور نے فرمایا: حدثنی ابوموسی الکاظم عن ابیہ جعفر الصادق عن ابیہ محمدن الباقرعن ابیہ زین العابدین عن ابیہ الحسین عن ابیہ علی ابن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنھم قال حدثنی حبیبی وقرۃ عینی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال حدثنی جبریل قال سمعت رب العزۃ یقول لا الٰہ الااﷲ حصنی فمن قال دخل حصنی امن من عذابی۲؎۔ یعنی امام علی رضا امام موسٰی  کاظم وہ امام جعفر صادق وہ امام محمدباقر وہ امام زین العابدین وہ امام حسین وہ علی المرتضٰی  رضی اﷲ تعالٰی  عنہم سے روایت فرماتے ہیں کہ میرے پیارے میری آنکھوں کی ٹھنڈک رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے مجھ سے حدیث بیان فرمائی کہ ان سےجبریل نے عرض کی کہ میں نے اﷲ عزوجل کو فرماتے سنا کہ لا الٰہ الااﷲ میراقلعہ ہے تو جس نے اسے کہا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوا، میرے عذاب سے امان میں رہا۔

یہ حدیث روایت فرماکر حضوررواں ہوئے اور پردہ چھوڑ دیا گیا، دواتوں والے جو ارشاد مبارک لکھ رہے تھے شمار کئے گئے ، بیس ۲۰ہزار سے زائد تھے۔

 

(۲؎ الصواعق المحرقہ    الفصل الثالث    مطبوعہ مکتبہ مجیدیہ ملتان    ص۲۰۵)

 

امام احمد بن حنبل رضی اﷲ تعالٰی  عنہ نے فرمایا : لو قرأت ھذاالاسناد علی مجنون لبرئ من جننہ۱؎۔ یہ مبارک سند اگر مجنون پر پڑھوں تو ضرور اسے جنون سے شفا ہو۔

 

 (۱؎ الصواعق المحرقہ    الفصل الثالث فی الاحادیث الواردۃ فی بعض اہل البیت   مطبوعہ مکتبہ مجددیہ ملتان  ص ۲۰۵)

 

اقول فی الواقع جب اسمائے اصحاب کہف قدست اسرارہم میں وُہ برکات ہیں، حالانکہ وُہ اولیائے عیسویین میں سے ہیں تو اولیاء محمدیین صلوات اﷲ تعالٰی  وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین کا کیا کہنا، اُن کے اسمائے کرام کی برکت کیا شمار میں آسکے۔ اے شخص! تو نہیں جانتا کہ نام کیا ہے۔مسمّی کے انحائے وجود سے ایک نحو ہے۔امام فخرالدین رازی وغیرہ علماء نے فرمایا کہ وجو دِشیئ کی چار۴ صورتیں ہیں: وجود ادعیان میں ، علم میں ، تلفظ میں، کتابت میں، توان دوشق اخیر وجود اسم ہی کو وجود مسمّی قرار دیاہے بلکہ کتبِ عقائد میں لکھتے ہیں: الاسم عین المسمی نام عین مسمی ہے۔امام رازی نے فرمایا: المشھور عن اصحابنا ان الاسم ھوالمسمّی مقصود اتنا ہے کہ نام کا مسمی سے اختصاص کپڑوں کے اختصاص سے زائد ہے اور نام مسمی پر دلدلت تراشہ  ناخن کی دلالت سے افزوں ہے تو خالی اسماء ہی ایک اعلٰی  ذریعہ تبرک وتوسل ہوتے نہ کہ اسامی سلاسل علیہ کی اسناد اتصال بمحبوب ذوالجلال وبحضرت عزت وجلال ہیں جل جلالہ، وصلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم، اور اﷲ ومحبوب واولیاء کے سلسلہ کرام وکرامت میں انسلاک کی سند تو شجرہ طیبّہ سے بڑھ کر اور کیا ذریعہ توسل چاہئے: پھر کفن پر لکھنا کہ ہمارے ائمہ نےجسے جائز فرمایا اور امید گاہِ مغفرت بنایا، اور بعض شافعیہ کو اس میں خیالِ تجنیس آیا، شجرہ طیبہ میں اس کا خیال بھی لزوم نہیں۔ کیا ضرور کہ کفن ہی میں رکھیں بلکہ قبر میں طاق بناکر خواہ سرہانے کہ نکیرین پائینتی کی طرف سے آتے ہیں اُن سے پیشِ نظر ہو، خواہ جانبِ قبلہ کہ میّت کے پیش رو رہے اور اس کے سکون و اطمینان واعانت جواب کا باعث ہو، باذنہٖ تعالٰی  ولہ الحمد۔شاہ عبدالعزیز صاحب نے بھی رسالہ''فیض عام'' میں شجرہ قبر میں رکھنے کو معمولِ بزرگانِ دین بتاکر سرہانے طاق میں رکھنا پسند کیا۔ یہ امر واسع ہے بلکہ ہماری تحقیق سے واضح ہوا کہ کفن میں رکھنے میں جوکلامِ فقہاء بتایا گیا وُہ متاخرینِ شافعیہ ہیں، ہمارے ائمہ کے طور  پریہ بھی رواہے،ہاں خروج عن الخلاف کے لئے طاق میں رکھنا زیادہ مناسب و بجا ہے، واﷲ تعالٰی  اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم

Post a Comment

Previous Post Next Post