Noorul Bashar | Risala Silatus Safa by AalaHazrat

 

رسالہ

صلات الصفاء فی نورالمصطفٰی(۱۳۲۹ھ)

(نور مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بیان میں صفائی باطن کے انعامات )

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

 

مسئلہ ۳۸ : از لشکر گوالیار محکمہ ڈاک دربار مرسلہ مولوی نور الدین احمد صاحب ۲۸ذیقعدہ ۱۳۱۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہ مضمون کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے پیدا ہوئے اوران کے نور سے باقی مخلوقات ، کس حدیث سے ثابت ہے اوروہ حدیث کس قسم کی ہے ؟بینوا توجروا(بیان کرواجر پاؤگے۔ت)

 

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

اللھم لک الحمد یانور یانور النور   یانور اقبل کل نور ونورا   بعد کل نور یامن لہ النور   وبہ النور ومنہ النور والیہ النور وھو النورصل  وسلم وبارک عی نورک المنیر   الذی خلقتہ من نورک و  خلقت من نورہ الخلق جمیعا وعلٰی اشعۃ انوارہٖ واٰلہٖ واصحابہٖ نجومہٖ واقمارہٖ اجمعین (اٰمین)

 

اے اللہ !تمام تعریفیں تیرے لئے ہیں، ا ے نور کے نور ، اے نور ہر نور سے پہلے اور، اے نور ہر نور کے بعد۔اے وہ ذات جس کے لئے نور ہے ، جس کے سبب سے نور ہے، جس سے نور ،جس کی طرف نور ہے اوروہی نور ہے ۔ درود وسلام اوربرکت نازل فرما اپنے نور پرجوروشن کرنے والاہے ۔ جس کو تو نے اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ اورتمام مخلو ق کو اس کے نور سے پیدا فرمایا۔ اوراس کے انورا کی شعاعوں پر اور اس کے آل واصحاب پر جو اس کے ستارے اورچاند ہیں۔ سب پر۔ اے اللہ !ہماری دعا کو قبول فرما۔(ت)

 

امام اجل سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کے شاگرد اورامام ابجل سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے استاذ اورامام بخاری وامام مسلم کے استاذ الاستاذ حافظ الحدیث احد الاعلام عبدالرزاق ابو بکر بن ہمام نے اپنی مصنف میں حضرت سیدنا وابن سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی : قال قلت یارسول اللہ بابی انت وامی اخبرنی عن اول شیئ خلقہ اللہ تعالٰی قبل الاشیاء قال یا جابر ان اللہ تعالٰی قد خلق قبل الاشیاء نورنبیک من نورہٖ فجعل ذٰلک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء اللہ تعالٰی ولم یکن فی ذٰلک الوقت لوح ولا قلم ولاجنۃ ولا نار ولا ملک ولاسماء ولاارض ولا شمس ولا قمر ولا جنی  ولا انسی، فلما اراداللہ تعالٰی ان یخلق الخلق قسم ذٰلک النور اربعۃ اجزاء فخلق من الجزء الاول القلم ، ومن الثانی اللوح ، ومن الثالث العرش ، ثم قسم الجزء الرابع اربعۃ اجزاء فخلق من الجزء الاول حملۃ العرش ومن الثانی الکرسی ومن الثالث باقی الملائکۃ ، ثم قسم الرابع اربعۃ اجزاء ، فخلق من الاول السمٰوٰات، ومن الثانی الارضین  ومن الثالث الجنۃ والنار ، ثم قسم الرابع اربعۃ اجزاء الحدیث ۱؂بطولہ۔

 

یعنی وہ فرماتے ہیں میں نے عرض کی : یارسول اللہ !میرے ماں باپ حضور پر قربان ،مجھے بتا دیجئے کہ سب سے پہلے اللہ عزوجل نے کیا چیز بنائی ، فرمایا: اے جابر!بیشک بالیقین اللہ تعالٰی نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا، وہ نور قدرت الٰہی سے جہاں خدا نے چاہا دورہ کرتارہا ۔ اس وقت لوح ، قلم ، جنت ، دوزخ ، فرشتے ، آسمان ، زمین ، سورج، چاند ، جن ، آدمی کچھ نہ تھا۔پھر جب اللہ تعالٰی نے مخلوق کو پیدا کرناچاہا اس نور کے چار حصے فرمائے ، پہلے سے قلم، دوسرے سے لوح، تیسرے سے عرش بنایا۔ پھر چوتھے کے چار حصے کئے، پہلے سے فرشتگان حامل عرش ، دوسرے سے کرسی، تیسرے سے باقی ملائکہ پیدا کئے ۔ پھر چوتھے کے چار حصے فرمائے ، پہلے سے آسمان ، دوسرے سے زمینیں ، تیسرے سے بہشت دوزخ بنائے ، پھر چوتھے کے چار حصے کئے ، الٰی آخر الحدیث۔

 

(۱؂المواہب اللدنیۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت    ۱ /۷۱و۷۲)

(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت    ۱ /۴۶و۴۷)

 (تاریخ الخمیس مطلب اللوح والقلم      مؤسسۃ شعبان        ۱ /۱۹و۲۰)

(مطالع المسرات الحزب الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد  ص۲۲۱)

(مدارج النبوۃ قسم دوم باب اول مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد     ۲ /۲)

 

یہ حدیث امام بیہقی نے بھی دلائل النبوۃ مین بنحوہٖ روایت کی ، اجلہ ائمہ دین مثل امام قسطلانی مواہب لدنیہ اور امام ابن حجر مکی افضل القرٰی اورعلامہ فاسی مطالع المسرات اورعلامہ زرقانی شرح مواہب اورعلامہ دیاربکری خمیس اورشیخ محقق دہلوی مدارج وغیرہا میں اس حدیث سے استناد اور اس پر تعویل واعتماد فرماتے ہیں ، بالجملہ وہ تلقی امت بالقو کا منصب جلیل پائے ہوئے ہے تو بلاشبہ حدیث حسن صالح مقبول معتمد ہے ۔ تلقی علماء بالقبول وہ شے عظیم ہے جس کے بعد ملاحظہ سند کی حاجت نہیں رہتی بلکہ سند ضعیف بھی ہوتو حرج نہیں کرتی ، کما بیناہ فی ''منیر العین فی حکم تقبیل الابھا مین ''  (جیسا کہ ہم نے اپنے رسالہ ''منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین ''میں اس کو بیان کیاہے ۔ت)

لاجرم علامہ محقق عارف باللہ سید عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں : قد خلق کل شیئی من نورہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کما وردبہ الحدیث الصحیح۲؂ ۔

 

بے شک ہر چیز نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے بنی ، جیسا کہ حدیث صحیح اس معنی میں وارد ہوئی ۔

 

 (۲؂الحدیقۃ الندیۃ المبحث الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد      ۲ /۳۷۵)

 

ذکرہ فی المبحث الثانی بعد النوع الستین من اٰفات اللسان فی مسئلہ ذم الطعام۔

 

اس کو علامہ نابلسی نے نوع نمبر ساٹھ جو کہ زبان کی آفتوں کے بیان میں ہے کہ بعد، کھانے کی برائی بیان کرنے کے مسئلہ کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے ۔(ت)

 

مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات میں ہے : قد قال الاشعری انہ تعالٰی نور لیس کالا نواروالروح النبویۃ القدسیۃ لمعۃ من نورہ والملائکۃ شرر تلک الانوار وقال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اول ماخلق اللہ نوری ومن نوری خلق کل شیئ وغیرہ مما فی معناہ ۱؂۔

 

یعنی امام اجل امام اہلسنت سید نا ابوالحسن اشعری قدس سرہ (جن کی طرف نسبت کر کے اہل سنت کو اشاعرہ کہا جاتاہے ) ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نور ہے نہ اورنوروں کی مانند اورنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح پاک اسی نور کی تابش ہے اورملائکہ ان نوروں کے ایک پھول ہیں ، اوررسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میرا نور بنایا اورمیری ہی نور سے ہر چیز پیدا فرمائی ۔ اوراس کے سوا اورحدیثیں ہیں جو اسی مضمون میں وارد ہیں۔ واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔

 

 (۱؂ مطالع المسرات الحزب الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۲۶۵)

 

مسئلہ ۳۹ :از ٹانڈہ ضلع مرادآباد مرسلہ مولوی الطاف الرحمن صاحب پیپسانوی ۱۴شعبان ۱۳۱۳ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعض مولود شریف میں جو نور محمدی کو نور خدا سے پیداہوا لکھا ہے اس میں زید کہتاہے بشرط سحت یہ متشابہ کے حکم میں ہے اورعمرو کہتاہے یہ انفکاک ذات سے ہوا ہے ۔

بکر کہتاہے کہ یہ مثل شمع سے شمع روشن کرلینے کے ہوا ہے ۔

اورخالد کہتاہے متشابہات میں مذہب اسلم رکھتا ہوں اورسالم کو برا نہیں جانتا، اس میں چون وچرا بیجا ہے ۔ بینوا توجروا(بیان کرو اوراجر پاؤ گے ۔ت)

 

الجواب  :  عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : یاجابر ان اللہ خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہ۔ ذکرہ الامام القسطلانی فی المواہب ۱؂ وغیرہ من العلماء الکرام۔

 

اے جابر!بیشک اللہ تعالٰی نے تمام عالم سے پہلے تیرے نبی کانور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ (امام قسطلانی نے اس کو مواہب لدنیہ میں اور دیگر علماء کرام نے ذکر کیا ہے ۔ت)

 

 (۱؂ المواہب اللدنیۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۱)

 

عمرو کا قول سخت باطل وشنیع وگمراہی فظیع بلکہ سخت ترامر کی طرف منجّر ہے ، اللہ عزوجل اس سے پاک ہے کہ کوئی چیز اس کی ذات سے جدا ہوکر مخلوق بنے ، اورقول زید میں لفظ ''بشرط صحت''بوئے انکار دیتاہے ، یہ جہالت ہے ، باجماع علماء دربارئہ فضائل صحت مصطلحہ محدثین کی حاجت نہیں ، مع ہذا علامہ عارف بلالہ سید عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے اس حدیث کی تصحیح فرمائی ۔ علاوہ بریں یہ معنٰی قدیماً وحدیثاً تصانیف وکلمات ائمہ وعلماء واولیاء وعرفاء میں مذکور ومشہور وملقّٰی بالقبول رہنے پر خود صحت حدیث کی دلیل کافی ہے، فان الحدیث یتقوی بتلقی الائمۃ بالقبول کما اشارالیہ الامام الترمذی فی جامعہ وصرح بہ علماؤنا فی الاصول۔

 

اس لئے کہ حدیث علماء کی طرف سے تلقی بالقبول پاکر قوی ہوجاتی ہے جیسا کہ امام ترمذی نے اپنی جامع میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے ، اورہمارے علماء نے اصول میں اس کی تصریح فرمائی ہے ۔(ت)

 

ہاں اسے باعتبار کنہ کیفیت متشابہات سے کہنا وجہ صحت رکھتاہے ، واقعہ نہ رب العزت جل وعلی نہ اسکے رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے نور سے نورمطہر سید انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیونکر بنایا، نہ بے بتائے اس کی پوری حقیقت ہمیں خود معلوم ہوسکتی ہے ، اوریہی معنٰی متشابہات ہیں۔

بکر نے جوکہا وہ دفع خیال ضلال عمر و کے لئے کافی ہے ، شمع سے شمع روشن ہوجاتی ہے بے اس کے کہ اس شمع سے کوئی حصہ جدا ہوکر یہ شمع بنے اس سے بہتر آفتاب اوردھوپ کی مثال ہے کہ نور شمس نے جس پر تجلی کہ وہ روشن ہوگیا اورذات شمس سے کچھ جد ا نہ ہوا مگر ٹھیک مثال کی وہاں مجال نہیں ، جو کہا جائے گا ہزاراں ہزار وجوہ پر ناقص وناتمام ہوگا، بلاشبہ طریق اسلم قول خالد ہے اور وہی مذہب ائمہ سلف رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم

 

مسئلہ ۴۰ : پیش نظر رہے یہ بات کہ میں کوئی عالم وفاضل نہیں ہوں کہ بحث ومباحثہ کا خیال درمیان میں آئے ، فقط دریافت کرنے کی غرض سے فدویا نہ لکھتاہوں تاکہ میری عقیدے میں جو کچھ غلطی ہو وہ صحیح ہوجائے ، مجھ کو ایسا معلوم ہے کہ تمام مخلوقات انسان کا یہ حال ہے کہ غلاظت آلودہ پیداہوتے ہیں مگر خدانے محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ان سب باتوں سے محفوظ رکھا اورتمام مخلوقات پر ان کو بزرگی عنایت فرمائی ہے ۔ اگر یہ بات سچی ہے تو حدیث شریف کے معنٰی مجھ کو یوں معلوم ہیں ، ملاحظہ فرمائے گا: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا جابر ان اللہ خلق نورنبیک من نورہ۱؂ٖ۔

 

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اے جابر!تحقیق اللہ تعالٰی نے پیدا کیا ذات نبی تیرے کو اپنے نور سے ۔

 

 (۱؂المواہب اللدنیۃ المقصد الاول اول المخلوقات المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۱و۷۲)

 

مثال چراغ کی جو جناب نے فرمائی ہے اس میں مجھ کو شک ہے ، چاہتاہوں کہ شک دور ہوجائے ، مثلاً ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن کیا اوردوسرے چراغ سے اور بہت سے چراغ روشن کئے گئے ، پہلے اور دوسرے میں کچھ کمی نہیں آئی ، یہ آپ کا فرمانا صحیح اور بجا ہے لیکن یہ سب چراغ نام اورذات اورروشنی میں ہم جنس ہیں یا نہیں اوریہ سب مرتبہ برابر ہونے کارکھتے ہیں یا نہیں ؟بینوا توجروا(بیان کرو اجر پاؤ۔ت)

 

الجواب  : نجاست سے آلودہ پیداہونے میں سب مخلوق شریک نہیں ، تمام انبیاء علیہم السلام پاک ومنزہ پیداہوئے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ حضرات حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی صاف ستھرے پیدا ہوئے ۔ نور کے معنی فضل کے نہیں ۔ مثال سمجھانے کو ہوتی ہے نہ کہ ہر طرح برابری بتانے کو۔ قرآن عظیم میں نورالٰہی کی مثال دی کمشکوٰۃ فیہا مصباح۲؂ (جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے ۔ ت)کہاں چراغ اورقندیل اورکہاں نوررب جلیل ،

 

 (۲؂القرآن الکریم ۲۴ /۳۵)

 

یہ مثال وہابیہ کے اس اعتراض کے دفع کو تھی کہ نورالٰہی سے نور نبوی پیدا ہواتو نور الٰہی کا ٹکڑا جداہونا لازم آیا، اسے بتایا گیا کہ چراغ سے چراغ روشن ہونے میں اس کا ٹکڑا کٹ کر اس میں نہیں آجاتا۔ جب یہ فانی مجازی نور اپنے نور سے دوسرا نور روشن کردیتاہے تو اس نورالٰہی کا کیا کہنا، نور سے نور پیدا ہونے کا نام وروشنی میں مساوات بھی ضرور نہیں، چاند کا نورآفتاب کی ضیاء سے ہے ، پھر کہاں وہ اورکہاں یہ ، علم ہیئت میں بتایاگیا ہے کہ اگر چودھویں رات کے کامل چاند کے برابر نوے ہزار چاندہوں تو روشنی آفتاب تک پہنچیں گے ۔ واللہ تعالٰی اعلم

 

مسئلہ ۴۱ :از کلکتہ ۹گووند چند دھرسن لیں مرسلہ حکیم محمد ابراہیم صاحب بنارسی ۱۹ ذیقعدہ ۱۳۲۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ کے نور سے پیداہیں یا نہیں ؟اگر اللہ کے نور سے پیدا ہوئے نور ذاتی سے یا نورصفاتی سے یا دونوں سے ؟ او ر نورکیا چیز ہے ؟بینوا توجروا(بیان کرو اجر پاؤگے ۔ت)

 

الجواب : جواب مسئلہ سے پہلے ایک اورمسئلہ گزارش کرلوں ، لقولہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من رأی منکم منکر افلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ۱؂۔ الحدیث۔

 

نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مطابق: ''تم میں سے کوئی آدمی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ اپنے ہاتھ سے بد ل دے اگرایسا نہ کرسکے تو اپنی زبان سے بدل دے ۔ الحدیث ''(ت)

 

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۱)

 

حضور پرنورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ذکر کریم کے ساتھ جس طرح زبان سے درود شریف پڑھنے کا حکم ہے اللھم صل وسلم وبارک علیہ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہٖ ابدا  (اے اللہ !آپ پر اورآپ کی آل اورآپ کے صحابہ پر ہمیشہ ہمیشہ درودوسلام اوربرکت نازل فرما۔ت) درودشریف کی جگہ فقط صاد یا عم یا صلع یا صللم کہنا ہرگز کافی نہں بلکہ وہ الفاظ بے معنٰی ہیں اور فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لھم۲؂ میں داخل ،کہ ظالموں نے وہ بات جس کا انہیں حکم تھا ایک اورلفظ سے بدل ڈالی فانزلنا علی الذین ظلموا رجزاً من السماء بما کانوا یفسقون۳؂  (۲؂القرآن الکریم ۲/ ۵۹)

  (۳؂ القرآن الکریم ۲/ ۵۹ )

 

تو ہم نے آسمان سے ان پر عذاب اتارا بدلہ ان کی بے حکم کا۔

یونہی تحریر میں  القلم احداللسانین (قلم دو زبانوں مین سے ایک ہے ۔ت)

بلکہ فتاوٰی تاتارخانیہ سے منقول کہ اس میں اس پر نہایت سخت حکم فرمایا اور اسے معاذاللہ تخفیف شان نبوت بتایا۔

 طحطاوی علی الدرالمختار میں ہے : یحافظ علی کتب الصلٰوۃ والسلام علی رسول اللہ ولا یسأم من تکرارہٖ وان لم یکن فی الاصل ویصلی بلسانہ ایضا،ویکرہ الرمز بالصلاۃ والترضی بالکتابۃ بل یکتب ذٰلک کلہ بکمالہٖ ، وفی بعض المواضع عن التتارخانیۃ من کتب علیہ السلام بالھمزۃ والمیم یکفر لانہ تخفیف وتخفیف الانبیاء علیم الصلٰوۃ والسلام کفر بلا شک ، ولعلہ ان صح النقل فھو مقید بقصدہ والا فالظاھر انہ لیس بکفر ، نعم الاحتیاط فی الاحتراز عن الایھام والشبھۃ ۱؂اھ مختصراً۔

 

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود وسلام لکھنے کی محافظت کی جائے اور اس کی تکرار سے تنگ دل نہ ہواگرچہ اصل میں نہ ہو اوراپنی زبان سے بھی درود پڑھے ۔ درود یا رضی اللہ عنہ کی طرف لکھنے میں اشارہ کرنا مکروہ ہے بلکہ پورا لکھناچاہیے ۔ تاتارخانیہ کے بعض مقامات پر ہے کہ جس نے علیہ السلام ہمزہ اورمیم سے لکھا ، کافر ہوگیا کیونکہ یہ تخفیف ہے اورانبیاء کی تخفیف بغیر کسی شک کے کفر ہے ، اور یہ نقل صحیح ہے تو اس میں قصدکی قید ضرورہوگی ورنہ بظاہر یہ کفر نہیں ہے ، ہاں احتیاط ایہام اورشبہ سے بچنے میں ہے ۔(ت)

 

(۱؂حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختارخطبۃ الکتاب المکتبۃ العربیہ کوئٹہ ۱ /۶)

 

اس کے بعد اصل مسئلہ کا جواب بعون الملک الوھاب لیجئے ۔ نور عرف عامہ میں ایک کیفیت ہے ہے کہ نگاہ پہلے اسے ادراک کرتی ہے اوراس کے واسطے سے دوسری اشیائے دیدنی کو۔ قال السید فی تعریفاتہ النور کیفیۃ تدرکہا الباصرۃ اولا وبواسطتہا سائر المبصرات۲؂۔ علامہ سید شریف جرجانی نے فرمایا : نور ایک ایسی کیفیت ہے جس کا ادراک قوت باصرہ پہلے کرتی ہے پھر اس کے واسطے سے تمام مبصرات کا ادراک کرتی ہے ۔(ت)

 

 (۲؂التعریفات للجرجانی تحت اللفظ ''النور''۱۵۷۷       دارالکتاب العربی بیروت ص۱۹۵)

 

اورحق یہ کہ نور اس سے اجلٰی ہے کہ اس کی تعریف کی جائے ۔

یہ جو بیان ہوا تعریف الجلی بالخفی ہے کمانبہ علیہ فی المواقف وشرحھا  (جیسا کہ مواقف اور اس کی شرح میں اس پر تنبیہ کی گئی ہے ۔ ت) نور بایں معنٰی ایک عرض وحادث ہے اوررب عزوجل اس سے منزہ ۔ محققین کے نزدیک نوروہ کہ خود ظاہر ہو اوردوسروں کا مظہر ، کما ذکرہ الامام حجۃ الاسلام الغزالی الی ثم العلامۃ الزرقانی فی شرح المواھب الشریفۃ  (جیسا کہ حجۃ الاسلام امام غزالی نے پھر شرح مواہب شریف میں علامہ زرقانی نے ذکر فرمایا ہے ۔ ت) بایں معنی اللہ عزوجل نور حقیقی ہے بلکہ حقیقۃً وہی نور ہے اورآیہ کریمہ اللہ نور السمٰوٰت والارض ۱؂  (اللہ تعالٰی نور ہے آسمانوں اورزمین کا۔ ت) بلاتکلف وبلادلیل اپنے معنی حقیقی پر ہے ۔

 

 (۱؂ القرآن الکریم ۲۴/ ۳۵)

 

فان اللہ عزوجل ھو الظاھر بنفسہ المظھر لغیرہ من السمٰوٰت والارض ومن فیھن وسائر المخلوقات۔ کیونکہ اللہ عزوجل بلاشبہ خود ظاہر ہے او راپنے غیر یعنی آسمانوں ، زمینوں ، ان کے اندر پائی جانے والی تمام اشیاء اوردیگر مخلوقات کو ظاہر کرنے والا ہے ۔(ت)

حضور پرنورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بلاشبہ اللہ عزوجل کے نور ذاتی سے پیداہیں ۔

حدیث شریف میں وارد ہے : ان اللہ تعالٰی قد خلق قبل الاشیاء نور نبیک من نورہٖ ۔ رواہ عبدالرزاق ۲؂ونحوہ عندالبیہقی۔

 

اے جابر!بیشک اللہ تعالٰی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا ۔(اس کو عبدالرزاق نے روایت کیا اوربیہقی کے نزدیک اس کے ہم معنٰی ہے ۔ ت)

 

 (۲؂ المواہب اللدنیۃ بحوالہ عبدالرزاق المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۷۱)

 

حدیث میں ''نورہ''فرمایا جس کی ضمیر اللہ کی طرف ہے کہ اسم ذات ہے من نور جمالہ یا نور علمہ یا نور رحمتہ (اپنے جمال کے نور سے یا اپنے علم کے نور سے یا اپنی رحمت کے نور سے ۔ت) وغیرہ نہ فرمایا کہ نور صفات سے تخلیق ہو۔ علامہ زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی اسی حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں :  (من نورہٖ) ای من نورھوذاتہ۳؂ یعنی اللہ عزوجل نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو اس نور سے پیدا کیا جو عین ذات الٰہی ہے ، یعنی اپنی ذات سے بلاواسطہ پیدا فرمایا ، کما سیأتی تقریرہ  (جیسا کہ اس کی تقریر عنقریب آرہی ہے ۔ ت)

 

 (۳؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول دارالمعرفہ بیروت ۱ /۴۶)

 

امام احمد قسطلانی مواہب شریف میں فرماتے ہیں : لما تعلقت ارادۃ الحق تعالٰی بایجاد خلقہ ابرز الحقیقۃ المحمدیۃ من الانوار الصمدیۃ فی الحضرۃ الاحدیۃ ثم سلخ منہا العوالم کلہا علوھا وسفلھا۱؂۔

 

یعنی جب اللہ عزوجل نے مخلوقات کو پیدا کرنا چاہا صمدی نوروں سے مرتبہ ذات صرف میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ظاہر فرمایا ، پھر اس سے تما م علوی وسفلی نکالے۔

 

 (۱؂ المواہب اللدنیۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۵۵)

 

شرحِ علامہ میں ہے :  والحضرۃ الاحدیۃ ھی اول تعینات الذات واول رتبہا الذی لااعتبارفیہ لغیر الذات کما ھو المشار الیہ بقولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کان اللہ ولا شیئ معہ ذکرہ الکاشی۲؂۔

 

یعنی مرتبہ احدیتِ ذات کا پہلا تعین اورپہلا مرتبہ ہے جس میں غیر ذات کا اصلاً لحاظ نہیں جس کی طرف نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالٰی تھا اوراس کے ساتھ کچھ نہ تھا، اسے سیدی کاشی قدس سرہ، نے ذکر فرمایا ۔

 

(۲؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۷)

 

شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی ، مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں : انبیاء مخلوق انداز اسمائے ذاتیہ حق واولیاء از اسمائے صفاتیہ وبقیہ کائنات از صفات فعلیہ وسید رسل مخلو ق است از ذات حق وظہور حق دروے بالذات است۳؂۔

 

انبیاء اللہ کے اسماء ذاتیہ سے پیداہوائے اوراولیاء اسمائے صفاتیہ سے ، بقیہ کائنات صفات فعلیہ سے ، اورسید رسل ذات حق سے ، اور حق کا ظہور آپ میں بالذات ہے ۔ (ت)

 

 (۳؂مدارج النبوۃ تکملہ درصفات کاملہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲ /۶۰۹)

 

ہاں عین ذاتِ الٰہی سے پیدا ہونے کے یہ معنی نہیں کہ معاذاللہ ذاتِ الٰہی ذاتِ رسالت کیلئے مادہ ہے جیسے مٹی سے انسان پیداہو، یا عیاذاً باللہ ذات الٰہی کا کوئی حصہ یا کُل ، ذاتِ نبی ہوگیا۔ اللہ عزوجل حصے اورٹکڑے اورکسی کے ساتھ متحد ہوجانے یا کسی شَئے میں حلول فرماتے سے پاک ومنزہ ہے ۔ حضو رسیدِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خواہ کسی شے جزء ذاتِ الٰہی خواہ کسی مخلوق کو عین ونفس ذاتِ الٰہی ماننا کفر ہے ۔

 

اس تخلیق کے اصل معنی تو اللہ ورسول جانیں ، جل وعلا و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عالم میں ذاتِ رسول کو تو کوئی پہچانتا نہیں ۔ حدیث میں ہے :  یا ابابکر لم یعرفنی حقیقۃ غیر ربی ۱؂۔

 

اے ابُوبکر!مجھ جیسا میں حقیقت میں ہوں میرے رب کے سوا کسی نے نہ جانا۔

 

 (۱؂مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آبادص۱۲۹)

 

ذاتِ الٰہی سے اس کے پیداہونے کے حقیقت کسے مفہوم ہومگر اس میں فہم ظاہر بیں کا جنتا حصہ ہے وہ یہ ہے کہ حضر ت حق عزجلالہ، نے تمام جہان کو حضور پرنورمحبوب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے واسطے پیدا فرمایا، حضور نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا۔ لولاک لما خلقت الدنیا۲؂۔

 

اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو نہ بناتا۔(ت)

 

 (۲؂تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۷)

 

آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام سے ارشادہوا:

 

 لولا محمد ماخلقتک ولا ارضا ولا سماء ۳؂۔

 

اگر محمد نہ ہوتے تو میں نہ تمہیں بناتا نہ زمین وآسمان کو۔(ت)

 

 (۳؂المواہب اللدنیۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۰)

(مطالع المسرات الحزب الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۲۶۴)

 

توساراجہان ذات الٰہی سے بواسطہ حضور صاحب لولاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پیدا ہوا یعنی حضور کے واسطے حضور کے صدقے حضور کے طفیل میں ۔ لاانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم استفاض الوجود میں حضرۃ العزۃ ثم ھو افاض الوجود علی سائر البریۃ کما تزعم کفرۃ الفلاسفۃ من توسیط العقول ، تعالٰی اللہ عما یقول الظالمون علواکبیر ا، ھل من خلاق غیر اللہ۔

 

یہ بات نہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اللہ سے جود حاصل کیا پھر باقی مخلوق کو آپ نے وجود دیا جیسے فلاسفہ کافر گمان کرتے ہیں کہ عقول کے واسطے دوسری چیزیں پیداہوتی ہیں ، اللہ تعالٰی ان ظالموں کے اس قول سے بلند وبالا ہے ، کیا اللہ تعالٰی کے علاوہ بھی کوئی خالق ہوسکتاہے ۔(ت)

 

بخلاف ہمارے حضور عین النور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کہ وہ کسی کے طفیل میں نہیں، اپنے رب کے سوا کسی کے واسطے نہیں تو وہ ذات الٰہی سے بلاواسطہ پیدا ہیں ۔

 

زرقانی شریف میں ہے : ای من نورھو ذاتہ لابمعنی انھا مادۃ خلق نورہ منہا بل بمعنی تعلق الارادۃ بہ بلاواسطۃ  شیئ فی وجودہ۱؂۔ یعنی اس نور سے جو اللہ کی ذات ہے ، یہ مقصد نہیں کہ وہ کوئی مادہ ہے جس سے آپ کا نور پیدا ہوا بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا ارادہ آپ کے نورسے بلا کسی واسطہ فی الوجود کے متعلق ہوا۔ (ت)

 

 (۱؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الاول دارالمعرفت بیروت ۱ /۴۶)

 

یازیادہ سے زیادہ بغرض توضیح ایک کمال ناقص مثال یوں خیال کیجئے کہ آفتاب نے ایک عظیم وجمیل وجلیل آئینہ پر تجلی کی ، آئینہ چمک اٹھا اور اس کے نور سے اورآئینے اورپانیوں کے چشمے اورہوائیں اورسائے روشن ہوئے آئینوں اورچشموں میں صرف ظہور نہیں بلکہ اپنی اپنی استعداد کے لائق شعاع بھی پیداہوئی کہ اورچیز کو روشن کر سکے کچھ دیواروں پر دھوپ پڑی، یہ کیفیتی نور سے متکیف ہیں اگرچہ اورکوروشن نہ کریں جن تک دھوپ بھی نہ پہنچی ، وہ ہوائے متوسط نے ظاہرکیں جیسے دن میں مسقّف دالان کی اندرونی دیواریں ان کا حصہ صرف اسی قدر ہوا کہ ، کیفیت نور سے بہر نہ پایا، پہلا آئینہ خود ذات آفتاب سے بلاواسطہ روشن ہے اورباقی آئینے چشمے اس کے واسطے سے اوردیواریں وغیرہا واسطہ درواسطہ پھر جس طرح وہ نور کہ آئینہ اول پر پڑا بعینہٖ آفتاب کا نور ہے بغیر اس کے آفتاب خود یا اس کا کوئی حصہ آئینہ ہوگیا ہو، یونہی باقی آئینے اور چشمے کہ اس آئینے سے روشن ہوئے اوردیوار وغیرہ اشیاء پر ان کی دھوپ پڑی یا صرف ظاہر ہوئیں ، ان سب پر بھی یقیناآفتاب ہی کا نور اور اسی سے ظہور ہے ، آئینے اورچشمے فقط واسطہ وصول ہیں ، ان کی حد زات میں دیکھو تو یہ خود نور تو نور ، ظہور سے بھی حصہ نہیں رکھتے ؎

 

یک چراغ ست دریں خانہ کہ از پر توآں 

ہرکجا می نگری انجمنے ساختہ اند

 

 (اس گھرمیں ایک چراغ سے جس کی تابش سے تو جہاں دیکھتا ہے انجمن بنائے ہوئے ہیں۔)

 

یہ نظر محض ایک طرح کی تقریب فہم کے لئے ہے جس طرح ارشاد ہوا: مثل نورہ کمشکوٰۃ فیہا مصباح۲؂ ۔  (اس کے نور کے مثال ایسے ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے ۔ت)

 

(۲؂القرآن الکریم ۲۴ /۳۵)

 

ورنہ کجا چراغ اورکجاوہ نور حقیقی ،

 

وللہ المثل الاعلی ۳؂  (اوراللہ کی شان سب سے بلند ہے ۔ت)

 

(۳؂القرآن الکریم ۱۶/۶۰)

 

توضیح صرف ان دوباتوں کی منظور ہے ایک یہ کہ دیکھو آفتاب سے تمام اشیاء منورہوئیں بے اسکے آفتاب خود آئینہ ہوگیا یا اس میں سے کچھ جدا ہوکر آئینہ بنا، دوسرے یہ کہ ایک آئینہ نفس ذات آفتاب سے بلاواسطہ روشن ہے باقی بوسائط ، ورنہ حاشاکہاں مثال اورکہاں وہ بارگاہ جلال۔ باقی اشیاء سے کہ مثال میں بالواسطہ منور مانیں آفتاب حجاب میں ہے اوراللہ عزوجل ظاہر فوق کل ظاہر ہے ، آفتاب ان اشیاء تک اپنے وصول نور میں وسائط کا محتاج ہے اوراللہ عزوجل احتیاج سے پاک، غرض کسی بات میں نہ تطبیق مراد نہ ہرگز ممکن، حتی کہ نفس وساطت بھی یکساں نہیں ، کما لایخفٰی وقد اشرنا الیہ (جیسا کہ پوشیدہ نہیں اورہم نے اس کی طرف اشارہ کردیاہے ۔ت)

 

سید ی ابو سالم عبداللہ عیاشی ، ہم استاذ علامہ محمد زرقانی تلمیذ علامہ ابوالحسن شبراملسی اپنی کتاب ''الرحلہ''پھر سید ی علامہ عشماوی رحمہم اللہ تعالٰی جمیعاً ''شرح صلاۃ''حضرت سیدی احمد بدوی کبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں فرماتے ہیں : انما یدرکہ علی حقیقتہ من عرف معنی قول تعالی  : اللہ نور السمٰوٰت والارض وتحقیق ذٰلک علی ماینبغی لیس مما یدرک ببضاعۃ العقول ولا مما تسلط علیہ الاوھام وانما یدرک بکشف الٰھی واشراق حقہ من اشعۃ ذٰلک النور فی قلب العبد فیدرک نوراللہ بنورہ واقرب تقریر یعطی القرب من فھم۔ اس کا ادراک حقیقۃً وہی شخص کرسکتاہے جو اللہ تعالٰی کے ارشاداللہ نورالسمٰوٰت والارض کا معنی جانتاہے کیونکہ وہم او رعقل کے ذرائع اس کا حقیقی ادراک نہیں کرسکتے ، اس کو توصرف بندے کے دل میں اس نور کو اللہ تعالٰی کی عطاکردہ شعاؤں سے ہی سمجھا جاسکتاہے ، پس ''نوراللہ''کو اس نور ہی کے ذریعے سے سمجھا جاسکتاہے ۔ معنی الحدیث انہ لما کان النور المحمدی اول الانوار الحادثۃ التی تجلی بھا النور القدیم الازلی وھو اول التعینات للوجود المطلق الحقانی وھو مدد کل نور کائن اویکون وکما اشرق النور الاول فی حقیقتہ فتنورت بحیث صارت ھو نورا  اشرق نورہ المحمدی علی حقائق الموجودات شیئافشیئا فہی تستمد منہ علی قدر تنورھا بحسب کثرۃ الوسائط وقلتہا وعدمہا وکلما اشرق نورہ علی نوع من انواع الحقائق ظہر النور فی مظہر الاقسام فقد کان النور الحادث اولا شیئا واحد اثم اشرق فی حقیقۃ اخری فاستنارت بنورہ تنورا کاملا یحسب ما تققتضیہ حقیقتہا فحصل فی الوجود الحادث نوران  مفیض ومفاض وفی نفس الامر لیس ھناک الا نورا  واحدا اشرق فی قابل الاستنارۃ یتنوربتعددات المظاھر والظاھر واحدثم کذٰلک کلما اشرق فی محل ظھر بصورۃ الانقسام وقد یشرق نور المفاض علیہ ایضاً بحسب قوتہٖ علی قوابل اخر فتنوربنورہ فیحصل انقسام اخر بحسب المظاھر وکلہا راجعۃ الی النور الا ول الھادث اما بواسطۃ او بدونھا۔ حدیث کے معنٰی کو سمجھنے کے لئے قریب ترین یہ ہے کہ نو رمحمدی جب قدیم اورازلی نور کی پہلی تجلی ہے تو کائنات میں بھی اللہ تعالٰی کے وجود کا وہی سب سے پہلا مظہر ہے اوروجود میں آنے والے تمام نوروں کی اصل قوت ہے ۔ جب یہ نو راول چمکا اورمنور ہوا تو اس نور محمدی نے تمام موجودات پر درجہ بدرجہ اپنی چمک ڈالی تو بلاواسطہ یا واسطوں کی کمی بیشی کے اعتبار سے ہر چیز اپنی استعداد کے مطابق چمک اٹھی اورتما م حقائق واقسام اس نور کی چمک سے اس کے مظہر بن گئے ، یوں وجود میں آنے والا پہلا نور ایک تھا لیکن ا سکی چمک سے دوسرے حقائق بھی اپنی حقیقت کے مطابق اس نور سے منور ہوتے چلے گئے اورکائنات میں نور در نور بن گئے جبکہ وجود میں نور کی سرف دو ہی قسمیں ، ایک فیض دینے والا اور دوسرا فیض پانے والا، حالانکہ نفس الامری حقیقت میں یہ دونوں نور ایک ہی ہیں، یہ ایک حقیقی نور ہی قابل اشیاء مین چمک پیدا کرکے متعدد مظاہر میں ہوتاہے اورتمام اقسام میں ہر قسم کی صورت میں چمکتاہے اسی طرح فیض یافتہ نور بھی اپنی استعداد کے مطابق دوسری قابل اشیاء میں چمک پیدا کر کے ان کو منور کرتاہے جس سے مزید مظاہرات کی اقسام حاصل ہوتی ہیں جبکہ یہ تمام انوار بالواسطہ یا بلاواسطہ سب سے پہلے نور سے ہی مستفیض ہیں۔ قال وھذا غایۃ ما اتصل الیہ العبارۃ فی ھذا التقریر ومثل فی قصر باعہ وعدم تضلعہ من العلوم الا لٰھیۃ ان زاد فی التقریر خشی علی واقرب مثال یضرب لذٰلک نور المصباح تصبح منہ مصابیح کثیرۃ وھو فی نفسہ باق علی ما ھوا علیہ لم ینقص منہ شیئ واقرب من ھذا المثال الی التحقیق وابعد عن الافھام نورالشمس المشرق فی الاھلۃ والکواکب علی القول بان الکل مستنیر بنورہ ولیس لہا نور من ذاتھا فقد یقال بحسب النظر الاول ان نور الشمس منقسم فی ھذہ الاجرام العولیۃ وفی الحقیقۃ لیس ھذا  الا نور ھا وھو قائم بھا لم ینقص منہ شیئ ولم یزایلہا منہ شیئ ولٰکنہ اشرق فی اجرام قابلۃ الاستنارۃ فاستنارت ۔ اس تقریر کے لئے یہ انتہائی محتاط عبارت ہے جو علوم الٰہیہ کے موافق ہے ، اس سے زائد عبارت خطرناک ہوسکتی ہے ۔ اس تقریر کی مناسب مثال وہ چراغ ہے جس سے بے شمار چراغ روشن ہوئے ، اس کے باوجود وہ اپنی اصل حالت پر باقی ہے اوراس کے نور میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ، مزید واضح مثال سورج ہے جس سے تمام سیارے روشن ہیں جن کا اپناکوئی نور نہیں ہے ۔ بظاہر یوں معلوم ہوتاہے کہ سورج کا نوران سیاروں میں منقسم ہوگیا ہے جبکہ فی الواقع ان سیاروں میں سورج ہی کا نور ہے جو سورج سے نہ تو جدا ہوا اورنہ ہی کم ہوا، سیارے تو صرف اپنی قابلیت کی بناپر چمکتے ہیں اورسورج کی روشنی سے منور ہوئے ۔ واقرب من ھذا الالفھم مایحصل فی الاجرام السفلیۃ من اشراق اشعۃ الشمس علی الماء اوقوار الزجاج فیستنیر مایقابلہا من الجدران بحیث یلمح فیہا نور کنور الشمس مشرق باشراقہ ولم ینفصل شیئ من نور المشس عن محلہ الی ذٰلک المحل ومن کشف اللہ حجاب الغفلۃ عن قلبہ واشرقت الانوار المحمدیۃ علی قلبہ یصدق اتباعہ لہ ادرک الامر ادراکا اخر لا یحتمل شکا ولا وھما۔ مزید سمجھ کے لئے پانی اورشیشے پر پڑنے والی سورج کی شعاعوں کو دیکھا جائے جن کا عکس پانی یا شیشے کے بالمقابل دیوار پر پڑتاہے جس سے دیوار روشن ہوجاتی ہے ، دیوار پر یہ روشنی سورج ہی کا نور ہے جو بالواسطہ دیوار پر پڑاکیونکہ براہ راست دیوار پر سورج کا نہیں پڑا اورنہ ہی یہ نور سورج سے جداہوا ، اس کے باوجود یہ نور سورج کا ہی ہے ، جب اللہ تعالٰی کسی کے قلب کو حجاب غفلت سے پاک کرتاہے اوروہ دل انوار محمدیہ سے منور ہوتاہے تو پھر اس کا ادراک ایسا کامل ہوتاہے کہ اس میں شک اوروہم کا احتمال نہیں ہوتا۔ نسأل اللہ تعالٰی ان ینوربنورالعلم الالٰھی بصائر نا ویحجب عن ظلمات الجل سرائرنا ویغفرلنا ما اجترأنا علیہ من الخوض فیما لسنالہ باھل ونسألہ ان لایؤاخذنا بما تقتضیہ العبارۃ من تقصیر فی حق ذٰلک الجناب۱؂ اھ مختصراً۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہماری بصیر ت کو اپنے علم کے نور سے منور فرمائے اورہمارے باطن کو جہالت کے اندھیروں سے محفوظ فرمائے ،اورجن امورمیں ہم غور کرنے کے اہل نہیں ان پر ہماری جسارت کو معاف فرمائے اوراس جناب میں ہماری کی کوتاہیوں پر مواخذہ نہ فرمائے آمین !اھ مختصراً (ت)

 

 (۱؂ الرحلۃ لعلی بن علی الشبر املسی)

 

اس تقریر منیر سے مقاصدِ مذکورہ کے سِوا چند فائدے اورحاصل ہوئے :

 

اولاً : یہ بھی روشن ہوگیا کہ تمام عالم نور محمدی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کیونکر بنا۔ بے اس کے کہ نور حضور تقسیم ہوا یا اس کا کوئی حصہ این وآں بنا ہو۔ اوریہ کہ وہ جو حدیث میں ارشاد ہوا کہ پھر اس نور کے چار حصے کئے ، تین سے قلم ولوح وعرش بنائے ، چوتھے کے پھر چار حصے کئے الی آخرہٖ، یہ اس کی شعاوں کا انقسام جیسے ہزار آئینوں میں آفتاب کا نور چمکے تو وہ ہزار حصوں پر منقسم نظرآئے گا ، حالانکہ آفتاب منقسم نہ ہوا نہ اس کا کوئی حصہ آئینوں میں آیا۔ واند فع مااستشکلہ العلامۃ الشبراملسی ان الحقیقۃ الواحدۃ لاتنقسم ولیست الحقیقۃ المحمدیہ الا واحدۃ من تلک الاقسام والباقی ان کان منہا ایضا فقد اقسمت وان کان غیرھا فما معنی الا قسام وحاول الجواب وتبعہ فیہ تلمیذہ العلامۃ الزرقانی بان المعنی انہ زادفیہ ''لا انہ قسم ذٰلک النور الذی ھو نور المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذا الظاھر انہ حیث صورہ بصورۃ مما ثلۃ لصورۃ التی سیصیر علیھما لایقسمہ الیہ والٰی غیرہ۲؂ اھ۔ '' اس (مذکورہ بالا تقریرسے )علامہ شبر املسی کا اعتراض ختم ہوا(اعتراض)حقیقۃ واحدہ تقسیم نہیں ہوتی کیونکہ حقیقت محمدیہ ان اقسام میں ایک قسم ہے ، اوراگر باقی اقسام اسی (حقیقت)سے ہیں تو یہ حقیقت تقسیم ہوگئی اوراگر باقی چیزیں اس حقیقت کی غیر ہیں تو انقسام کا کیا مطلب، پھر انہوں نے (علامہ شبر املسی )نے خود ہی جواب دیا اورعلامہ زرقانی شاگرد رشید علامہ شبراملسی نے ان کی اتباع کی۔ (جواب) حقیقت یہ ہے کہ الہ نے اس میں اضافہ کیا نہ کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور کو تقسیم کیا کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ اللہ نے ان کو ایک ایسی صورت مثالی عطا کی جس پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تخلیق ہونی تھی تو اسے تقسیم نہیں کیا جائے گا۔

 

(۲؂ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاو ل دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۴۶)

 

وحاصل جوابہ کما قررۃ تلمیذہ العیاشی وان معنی الانقسام زیادۃ نور علی ذٰلک النور المحمدی فیؤخذ ذٰلک الزائد ثم یزادعلیہ نوراٰخر ثم کذٰلک الی اٰخر الاقسام ، قال العیاشی وھذا جواب مقنع بحسب الظاھر والمتحقیق واللہ تعالٰی اعلم  وراء ذٰلک اھ ۱ ؎ ثم ذکر مانقلنا عنہ اٰنفاوراأیتنی کتبت علی ھامش الزرقانی مانصہ۔ ان کے جواب کا خلاصہ جسے ان کے شاگرد علامہ عیاشی نے بیان کیا ہے کہ انقسام کا معنٰی نور محمدی اپر اضافے کے ہیں، پھر اس زائد کو لے لیا اس پر ایک دوسرے نور کا اضافہ کیا۔ اسی طرح آخری تقسیم تک سلسلہ جاری رہا۔

 

عیاشی نے کہا کہ ظاہر کے لحاظ سے یہ جواب کافی ہے اورتحقیق اس کے علاوہ اللہ جانتاہے اھ ۔ پھر اس نے وہی ذکر کیا جو ابھی ہم نے اس سے نقل کیاہے ۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے زرقانی پر حاشیہ لکھا جس کی نص یہ ہے ۔ اقول : تبع فیہ شیخہ الشبرملسی الحق انہ لا معنی لہ فانہ اذن لایکون التخلیق من نورہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وھو خلاف المنصوص والمراد۲؂اھ اقول: (میں (احمد رضا خاں)کہتاہوں)کہ اس (عیاشی)نے اس مسئلہ میں اپنے شیخ شبراملسی کی پیروی کی لیکن حق یہ ہے کہ یہ ایک بے معنٰی بات ہے کیونکہ اس صورت میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے تخلیق نہ ہوگی ، یہ نص اورماد کے خلاف ہے ۔

 

 (۲؂حاشیۃ امام احمد رضا علی شرح الزرقانی )

 

اقول : ویمکن الجواب بان المراد انہ تعالٰی کساہ شعاعا اکثرمما کان ثم فصل من شعاعہ شیئا فقسمہ کما تأخذہ الملٰئکۃ شیئا من الا شعۃ المحیطۃ بالکواکب فترمی بہ مسترقی السمع ویقال بذٰلک ان النجوم لھا رجوم  ولٰکن منح المولٰی تعالٰی من ذٰلک التقریر المنیر ما اغنی عن کل تکلف وللہ الحمد وقد کان منح للعبد الضعیف ثم رأیت فی شرح العشماوی جزاہ اللہ تعالٰی عنی وعن المسلمین خیراً کثیرًا اٰمین!

 

اقول: (میں کہتاہوں )اس کا جواب یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ نے آپ کے نور کو پہلی شعاع سے زائد شعاع عطا کی پھر اس سے کچھ جدا کیا، پھر اس کی تقسیم کی جیسے فرشتے ان شعاعوں میں سے جو ستاروں کو محیط ہیں، لے کر چھپ کر سننے والے شیطانوں کو مارتے ہیں اس لئے کہا جاتاہے کہ نجوم کے لئے رجوم ہے ۔ اس روشن تقریر سے مولٰی تعالٰی نے ہر تکلیف سے بے نیازی عطافرمائی ۔ اورتمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے یہ تقریر اس عبدضعیف کو القاء فرمائی پھر میں نے اس کو عشماوی کی شرح میں دیکھا۔ اللہ تعالٰی میری طرف سے اورتمام مسلمانوں کی طرف سے انکو بہت زیادہ جزاء خیر عطافرمائے ۔ آمین ۔(ت)

 

ثانیاً اقول: (میں کہتاہوں ) اس کا جواب یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ نے آپ کے نور کو پہلی شعاع سے زائد شعاع عطا کی پھر اس سے کچھ جدا کیا، پھر اس کی تقسیم کی جیسے فرشتے ان شعاعوں میں سے جو ستاروں کو محیط ہیں، لے کر چھپ کر سننے والے شیطانوں کو مارتے ہیں اس لئے کہا جاتاہے کہ نجوم کے لئے رجوم ہے ۔ اس روشن تقریر سے مولٰی تعالٰی نے ہر تکلیف سے بے نیازی عطافرمائی ۔ اورتمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے یہ تقریر اس عبدضعیف کو القاء فرمائی پھر میں نے اس کو عشماوی کی شرح میں دیکھا۔ اللہ تعالٰی میری طرف سے اورتمام مسلمانوں کی طرف سے ان کو بہت زیادہ جزاء خیر عطافرمائے ۔ آمین ۔(ت)

یہ شبہ بھی دفع ہوگیا کہ خلق میں کفار ومشرکین بھی ہیں ، وہ محض ظلمت ہیں تو نور مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کیونکر بنے اورنرے نجس ہیں تو اس نور پاک سے کیونکر مخلوق مانے گئے ۔ وجہ اند فاع ہماری تقیر سے روشن ، ظلمت ہو یا نور ، جس نے خلعت وجود پایاہے اس کے لئے تجلی آفتاب وجود سے ضرور حصہ ہے اگرچہ نورنہ ہو صرف ظہور ہوکما تقدم (جیساکہ آگے آئے گا۔ ت)اورشعاع شمس ہر پاک وناپاک جگہ پڑتی ہے وہ جگہ فی نفسہٖ پاک ہے اس سے دھوپ ناپاک نہیں ہوسکتی۔

 

ثالثاً  اقول: یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ جس طرح مرتبہ وجود میں سرف ایک ذات حق ہے باقی سب اسی کے پر تو وجود سے موجود ، یونہی مرتبہ ایجاد میں صرف ایک ذات مصطفٰی ہے باقی سب پراسی کے عکس کا فیضان وجود، مرتبہ کون میں نور احدی آفتاب ہے اورتمام عالم اس کے آئینے اور مرتبہ تکوین میں نور احمدی آفتاب ہے اورساراجہان اس کے آبگینے ، وفی ھذا اقول (اوراسی سلسلہ میں میں کہتاہوں ): ؎

 

خالق کل الورٰی ربک لاغیرہ

نورک کل الورٰی غیرک لم لیس لن

ای لم یوجد ولیس موجود اولن یوجدابدا۔۱؂

 

 (کل مخلوق کا پیدا کرنے والا آپ کا رب ہی ہے ، آپ ہی کا نور کل مخلوق ہے اورآپ کا غیر کچھ بھی نہ تھا، نہ ہے ، نہ ہوگا۔ ت)

 

(۱؂بستان الغفران مجمع بحوث الامام احمد رضا کراچی ص۲۲۳)

 

رابعاً اقول : نور اَحَدی تو نوراحدی ، نور احمدی پر بھی یہ مثال منیر مثال چراغ سے احسن و اکمل ہے ، ایک چراغ سے بھی اگرچہ ہزاروں چراغ روشن ہوسکتے ہیں بے اس کے کہ ان چراغوں میں اس کا کوئی حصہ آئے مگر دوسرے چراغ صرف حصول نو ر میں اسی چراغ کے محتاج ہوئے ، بقاء میں اس سے مستغنی ہیں، اگر انہیں روشن کر کے پہلے چراغ کو ٹھنڈا کر دیجئے ان کی روشنی میں فرق نہ آئے گا نہ روشن ہونے کے بعد ان کو اس سے کوئی مدد پہنچ رہی ہے مع ہذا کسب نور کے بعد ان میں اوراس چراغ اول میں کچھ فرق نہیں رہتاسب یکساں معلوم ہوتے ہیں بخلاف نور محمدی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ عالم جس طرح اپنی ابتدائے وجود میں اس کا محتاج تھا کہ وہ نہ ہوتا تو کچھ نہ بنتا یونہی ہر شے اپنی بقا میں اس کی دست نگر ہے ، آج اس کا قدم درمیان سے نکال لیں تو عالم دفعۃً فنائے محض ہوجائے ؎

وہ جو نہ تھے کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے۱؂

 

 (۱؂حدائق بخشش مکتبہ رضویہ کراچی حصہ دوم ص۷۹)

 

نیزجس طرح ابتدائے وجود میں تمام جہان اس سے مستفیض ہوا بعد وجود بھی ہر آن اسی کی مدد سے بہرہ یاب ہے ، پھر تمام جہان میں کوئی اس کے مساوی نہیں ہوسکتا ۔ یہ تینوں باتیں مثال آفتاب سے روشن ہیں، آئینے اس سے روشن ہوئے اورجب تک روشن ہیں اسی کی مددپہنچ رہی ہے اورآفتاب سے علاقہ چھوٹتے ہیں فوراً اندھیرے ہیں پھر کتنے ہی چمکین سورج کی برابری نہیں پاتے ۔ یہی حال ایک ذرہ عالم عرش وفرش اورجو کچھ ان میں ہے اوردنیاوآخرت اوران کے اہل اورانس وجن وملک وشمس وقمر وجملہ انوار ظاہر وباطن حتی کہ شموس رسالت علیہم الصلٰوۃ والتحیۃ کا ہمارے آفتاب جہاں تاک بعالم مآب علیہ الصلٰوۃ والسلام من الملک الوہاب کے ساتھ ہے کہ ہر ایک ایجاد امداد وابتداء وبقاء میں ہر حال ، ہر آن ان کا دست نگر ، ان کا محتاج ہے وللہ الحمد (اورسب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں ۔ ت) ؎

امام اجل محمد بوصیری قدس سرہ، ام القرٰی میں عرض کرتے ہیں : ؎

 

کیف ترقٰی رقیک الانبیاء                                                                                    یاسماء ماطاولتہا سماء ،

لم یساووک فی علاک وقدحا                                                                                     ل سنا منک دونھم وسناء ،

انما مثلوا صفاتک للنا                                                         س کما مثل النجوم الماء ۲؂،

 

 (یعنی انبیاء حضور کی سی ترقی کیونکر کریں ، اے وہ آسمان رفعت جس سے کسی آسمان نے بلندی میں مقابلہ نہ کیا ، انبیاء حضور کے کمالات عالیہ میں حضور کے ہمسر نہ ہوئے ، حضور کی جھلک اوربلندی نے ان کو حضور تک پہنچنے سے روک دیا، وہ توحضور کے صفتوں کی ایک شبیہ لوگوں کو دکھاتے ہیں جیسے ستاروں کا عکس پانی دکھاتاہے ۔)

 

 (۲؂ام القرٰی فی مدح خیرالورٰی الفصل الاول حزب القادریۃ لاہور ص۶)

 

یہ وہی تشبیہ وتقریر ہے جو ہم نے ذکر کی ، وہاں ذات کریم وافاضہ انوار کا ذکر تھا لہذا آفتاب سے تمثیل دی، یہاں صفات کریمہ کا بیان ہے لہذا ستاروں سے تشبیہ مناسب ہوئی ۔

 

مطالع المسرات میں ہے :  اسمہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم محی حیٰوۃ جمیع الکون بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فھو روحہ وحٰیوتہ وسبب وجودہٖ وبقائہٖ۱؂۔

 

حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک محی ہے ، زندہ فرماتے والے ، اس لئے کہ سارے جہان کی زندگی حضورسے ہے تو حضور تمام عالم کی جان وزندگی اوراس کے وجود وبقاء کے سبب ہیں۔

 

 (۱؂مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آبادص۹۹)

 

اسی میں ہے : ھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روح الاکوان وحیاتہا وسروجودھا ولولاہ لذھبت وتلاشت کما قال سید عبدالسلام رضی اللہ تعالٰی عنہ ونفعنا بہ ولا شیئ الا ھو بہ منوط اذلولا الواسطۃ لذھب کما قیل الموسوط۲؂۔

 

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام عالم کی جان وحیات وسبب وجود ہیں حضور نہ ہوں تو عالم نیست ونابود ہوجائے کہ حضرت سیدی عبدالسلام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ عالم میں کوئی ایسا نہیں جو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ نہ ہو، اس لئے کہ واسطہ نہ رہے تو جو اس کے واسطہ سے تھا آپ ہی فنا ہوجائے ۔

 

 (۲؂مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۲۶۳)

 

ہمزیہ شریف میں ارشاد فرمایا : ؎ کل فضل فی العٰلمین فمن فضل

النبی استعارۃ الفضلاءٖ۳؂

 

(جہان والوں میں جو خوبی جس کسی میںہے وہ اس نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضل سے مانگے کرلی ہے ۔)

 

 (۳؂ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل السادس حز ب القادریۃ لاہور ص۱۹)

 

امام ابن حجر مکی افضل القرٰی میں فرماتے ہیں :   لانہ الممدلھم اذھو الوارث للحضرۃ الا لٰہیۃ والمستمد منہا بلا واسطۃ دون غیرہ فانہ لایستمد منہا الا بواسطتہ فلا یصل لکامل منہا شیئ الا وھو من بعض مددہ وعلٰی یدیہ۱؂۔ تمام جہان کی امداد کرنے والے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں اس لئے کہ حضور ہی بارگاہ الٰہی کے وارث ہیں بلاواسطہ خدا سے حضور ہی مدد لیتے ہیں اورتمام عالم مدد الٰہی حضور کی وساطت سے لیتاہے تو جس کامل کو خوبی ملی وہ حضور ہی کی مدد اورحضور ہی کے ہاتھ سے ملی ۔

 

 (۱؂افضل القرٰی لقراء ام القری (شرح ام القرٰی))

 

شرح سیدی عشماوی میں ہے :   نعمتان ماخلا موجود عنہما نعمۃ الا یجاد ونعمۃ الامداد وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الواسطۃ فیھما اذلو لاسبقۃ وجودہ ماوجد موجود ولو لا وجود نورہ فی ضمائر الکون لتھد مت دعائم الوجود فھو الذی وجد اولا ولہ تبع الوجود وصار مرتبطابہ لااستغناء لہ عنہ۲؂۔ کوئی موجود ،دو نعمتوں سے خالی نہیں ، نعمت ایجاد ونعمت امداد۔ اوران دونوں میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہی واسطہ ہیں کہ حضور پہلے موجود نہ ہولیتے تو کوئی چیز وجود نہ پاتی اور عالم کے اندر حضور کا نور موجود نہ ہوتو وجود کے ستون ڈھے جائیں تو حضور ہی پہلے موجود ہوئے اورتمام جہان حضور کا طفیلی اورحضور سے وابستہ ہوا جسے کسی طرح حضور سے بے نیازی نہیں۔

 

 (۲؂شرح مقدمۃ العشماوی)

 

ان مضامین جمیلہ پر بکثرت ائمہ وعلماء کے نصوص جلیلہ فقیر کے رسالہ ''سلطنۃ المصطفٰی فی ملکوت کل الورٰی '' میں ہیں ، وللہ الحمد۔

 

خامساً : ہماری تقریرسے یہ بھی واضح ہوگیا کہ حضور خود نو رہیں تو حدیث مذکور میں نور بنیک کی اضافت بھی من نورہٖ کی طرح بیانیہ ہے ۔

 

سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اظہار نعمت الٰہیہ کے لئے عرض کی واجعلنی نوراً۳؂  (اوراے اللہ !مجھے نور بنادے ۔ ت)

 

 (۳؂الخصائص الکبرٰی باب الآیۃ فی انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۶۸)

 

اور خود رب العزۃ عزجلالہ، نے قرآن عظیم میں ان کو نور فرمایا: قد جاء کم من اللہ نور وکتاب مبین۱؂۔ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نورآیا اورروشن کتاب۔ (ت)

 

(۱؂القرآن الکریم ۵/۱۵)

 

پھر حضور کے نور ہونے میں کیا شبہ رہا ۔

 

اقول : اگر نور نبیک میں اضافت بیانیہ نہ لوبلکہ نور سے وہی معنی مشہور یعنی روشنی کہ عرض وکیفیت ہے مراد لو تو سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اول مخلوق نہ ہوئے بلکہ ایک عرض وصفت ، پھر وجود موصوف سے پہلے صفت کا وجود کیونکر ممکن؟ لاجرم حضور ہی خود وہ نور ہیں کہ سب سے پہلے مخلوق ہوا۔ فلاحاجۃ الی ماقال العلامۃ الزرقانی رحمہ اللہ من انہ لایشکل بان النور عرض لایقوم بذاتہ لان ھذا من خرق العوائد۲؂ اھ  ورأیتنی کتبت یلیہ لم لایقال فیہ کما ستقولون فی قرینہ من نورہٖ ان الاضافۃ بیانیۃ۔ اھ۔

 

تو اب علامہ زرقانی کے اس قول کی حاجت نہ رہی اوریہ اعتراض نہ کیا جائے کہ نور عرض ہے ، قائم بذاتہٖ نہیں ہے کیونکہ یہ خرق عادت ہے ۔ میں نے اس پر لکھا کہ یہ اعتراض کیوں نہ کیاجائے کہ آپ من نورہٖ میں اضافت بیانیہ نہیں مانتے ۔

 

 (۲؂ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۴۶)

 

اقول : خرق العوائد لاکلام فیہ والقدرۃ متسعۃ ولکن وجود الصفۃ بدون الموصوف مما لا یعقل لانہا ان قامت بغیرہ لم تکن صفۃ لہ بل لغیرہ او بنفسھا لم تکن صفۃ اصلا اذا لا صفۃ الا المعنی القائم بیرہ فاذا قام بنفسہ لم یکن صفۃ وعرضابل جوھرا وکونہ عرضا مع قیامہ بنفسہ جمع للضدین والقدرۃ تعالیۃ عن التعلق بالمحالات العقلیۃ و وزن الاعمال بمعنی وزن الصحف والبطاقات کما فی حدیث احمد والترمذی وابن ماجۃ وابن حبان والحاکم وصححہ وابن مردویۃ واللا لکلائی والبیہقی فی البعث عن عبداللہ بن عمرو بان عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  : "ان اللہ سیخلص رجلاً من امتی علی رأس الخلائق یوم القیٰمۃ فینشر علیہ تسعۃ وتسعین سجلا کل سجل مثل مدالبصر ثم یقول اتنکر من ھذا شیئا اظلمک کتبتی الحافظون فیقول لا یارب ، فیقول  افلک عذر ،قال لا یا رب ۔فیقول بلٰی ان لک عندنا حسنۃ وانہ لاظلم علیک الیوم فتخرج بطاقۃ فیہا اشہد ان لاالٰہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ فیقول احضر وزنک ۔ فیقول یارب ماھٰذہ البطاقۃ مع ھذہ السجلات، فیقول انک لاتظلم ۔ قال فتوضع السجلات فی کفۃ والبطاقۃ فی کفۃ فطاشت السجلات وثقلت البطاقۃ فلا یثقل مع اسم اللہ شیئ ۱؂۔

 

اقول : (میں (احمد رضا خاں)کہتاہوں)کہ خرق عادت میں تو کوئی کلام نہیں اورخدا کی قدرت بہت وسیع ہے لیکن صفت کا وجود بغیر موصوف کے سمجھ میں نہیں آسکتا (کیونکہ ایسی صفت کی دو ہی صورتیں ہیں)موصوف کے غیر کے ساتھ قائم ہوت وموصوف کی صفت نہ ہوگی بلکہ غیر کی ہوگی اوراگر قائم بنفسہا ہوتو صفت ہی نہ ہوئی کیونکہ صفت کہتے اسے ہیں جو غیر کے ساتھ قائم ہو، جب وہ قائم بنفسہا ہوتو وہ نہ صفت ہوئی اورنہ ہی عرض بلکہ جو ہر ہوئی اوریہ (کہنا )کہ عرض اور قائم بنفسہٖ بھی ہے تو یہ اجتماع ضدّین لازم آتاہے (اوراجتماع ضدین باطل ہے )اور قدرت الٰہیہ محالات عقلیہ سے متعلق نہیں ہوتی وزن اعمال (جو کہاجاتاہے )بایں معنٰی ہے کہ کاغذ اورصحیفے تو لے جائینگے جیسے کہ حدیث میں آیا ہے جسے احمد، ترمذی، ابن حبان ، حاکم نے صحیح قراردیاہے ۔ ابن مردویہ ، امام لالکائی اوربیہقی نے قیامت کی بحث میں عبداللہ بن عمرو العاص رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالٰی میری امت میں سے ایک شخص کو چن لے گا، پھر اس کے سامنے ننانوے رجسٹر کھولے جائیں گے اور ہر رجسٹر حد نگاہ تک ہوگا، پھر اسے کہا جائے گا تو اس سے انکار کرتا ہے یا میرے فرشتوں (کراماً کاتبین ) نے تم پر ظلم کیاہے ؟وہ کہے گا:اے میرے رب ! نہیں ۔ اللہ فرمائے گا : کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے ؟بندہ کہے گا : نہیں ۔ اللہ فرمائے گا: ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے ، آج تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ پھر ایک کاغذ نکالاجائے گا جس پرکلمہ شہادت لکھاہوگا۔ اللہ فرمائے گا : جا اس کا وزن کرا۔ بندہ عرض کرے گا کہ ان رجسٹروں کے سامنے اس کاغذ کی کیا حیثیت ہے ۔ اللہ فرمائے گا تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھر ایک پلڑے میں ننانوے رجسٹر رکھے جائیں گے اوردوسرے میں وہ کاغذ (جس پرکلمہ شریف لکھا ہوگا)چنانچہ رجسٹروں کا پلڑا ہلکا ہوگا اور کاغذ کا بھاری ، اوراللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز وزنی نہ ہوگی ۔(ت)

 

(۱؂جامع الترمذی ابواب الایمان باب ماجاء فی من یموت وھو یشہد الخ امین کمپنی دہلی ۲ /۸۸)

( المستدرک للحاکم کتاب الایمان فضیلۃ الشہادۃ لاالہ الا اللہ دارالفکر بیروت ۱ /۶)

(مواردالظماٰن الی زوائد ابن حبان حدیث ۲۵۲۳المطبعۃ السلفیۃ ص۶۲۵)

(کنزالعمال حدیث ۱۰۹و۱۴۲۱   مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱ /۴۴و۲۹۶)

(سنن ابن ماجۃ ابواب الزہد باب مایرجٰی من رحمۃ اللہ یوم القیٰمۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۲۸)

( مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عمرو المکتب الاسلامی بیروت   ۲ /۲۱۳)

 

بالجملہ حاصل حدیث شریف یہ ٹھہرا کہ اللہ تعالٰی نے محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ذات پاک کو اپنی ذات کریم سے پیدا کیا یعنی عین ذات کی تجلی بلاواسطہ ہمارے حضور ہیں باقی سب ہمارے حضور کے نور وظہور ہیں ، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلٰی اٰلہٖ وصحبہٖ وبارک وکرم۔ واللہ سبحانہ، وتعالٰی اعلم۔

 

مسئلہ ۴۲ :  از کلکتہ ، مچھوابازار، اسٹریٹ نمبر ۲۱، متصل چولیا مسجد ، مرسلہ حکیم اظہر علی صاحب ۲۰ ذیقعدہ ۱۳۱۹ھ

بحضور اقدس جناب مولانا مدظلہ العالی !یہ اشہتار ترسیل خدمت ہے ، اگر صحیح ہوتو اس پر صادر کردیا جائے ۔ والا جواب مفصل ترقیم فرمائیں والادب۔اظہر علی عفی عنہ

 

نقل اشتہار

 

رب زدنی علما  (اے میرے رب !میرے علم میں اضافہ فرما۔ ت) نور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اللہ تعالٰی کا ذاتی نور جزء ذات یا عین ذات کا ٹکڑا نہیں بلکہ پیدا کیا ہوا، نور مخلوق ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے  : اول ما خلق اللہ نوری ، اول ماخلق اللہ القلم ، اول ما خلق اللہ العقل ۔ کذا فی تاریخ الخمیس۱؂ وسرالاسرار۔

 

سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میرے نور کو پیدافرمایا، سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے قلم کو پیدا فرمایا ، سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے عقل کو پیدا فرمایا، تاریخ خمیس اورسرالاسرار میں یونہی ہے ۔ (ت)

 

(۱؂تاریخ الخمیس مطلب اول المخلوقات مؤسسۃ شعبان بیروت    ۱ /۱۹)

(مرقاۃ المفاتیح کتاب الایمان تحت الحدیث ۹۴المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ    ۱ /۲۹۱)

 

اورذاتی نور کہنے سے نور رسول کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کو جزء ذات یا عین ذات یا ٹکڑا ذات خدائے تعالٰی کا کہنا لازم آتاہے ، یہ کلام کفر ہے اورنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا قدیم ہونا لازم آتاہے کیونکہ ذاتی کے معنی اگر اصطلاحی لئے جائیں تو جز خدایا عین خدا یا ٹکڑا ذات خدا کا ہونا لازم آتاہے ، یہی کلام کفر ہے اورعقائد بعض جہّال کے یہی ہیں ، اس سبب سے نور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نور ذاتی یا ذاتی نور یا اللہ تعالٰی کی ذات کا ٹکڑا نہ کہنا چاہیے ، اگر نور رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نور خدا یا نور مخلوق خدا  یا نور ذات خدایا نور جمال خدا کہے تو کہنا جائز ہے جیسا کہ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پنی کتاب سرالاسرار میں فرمایا ہے : لما خلق اللہ تعالٰی روح محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اولا من نور جمالہ۲؂۔

 

سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے روح محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنے نور جمال سے پیدا فرمایا۔(ت)

 

اورحدیث قدسی میں آیا ہے : خلقت روح محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من نور وجھی ۳؂کما قال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اول ماخلق اللہ روحی اول ماخلق اللہ نوری۴؂۔

 

میں نے روح محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنی ذات کے نور سے پیدافرمایا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میری روح کو پیدافرمایا ، سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میرے نور کو پیدا فرمایا ۔(ت)

 

(۳؂تاریخ الخمیس مطلب اول المخلوقات مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱ /۱۹)

 

کیونکہ ایک چیز کو دوسرے کی طرف اضافت کرنے سے جزء اس کا یا عین اس کا لازم نہیں آتا ہے کیونکہ مضاف ومضاف الیہ کے درمیان مغائرت شرط ہے ۔ چنانچہ بیت اللہ وناقۃ اللہ ونوراللہ وروح اللہ ، پس ثابت ہوا کہ نور رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نورمخلوق خدا یا نور ذات خدا یا نور جمال خدا ہے ، نور ذاتی یعنی اللہ تعالٰی کی ذات کا ٹکڑا وجزو عین نہیں ہے ، واللہ تعالٰی اعلم بالصواب۔

المشتہر : عبدالمہیمن قاضی علاقہ تھانہ بہوبازار وغیرہ کلکتہ

 

الجواب

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نور بلا شبہ اللہ عزوجل کے نورذاتی یعنی عین ذات الہٰی سے پیدا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے فتوے میں تصریحات علمائے کرام سے محقق کیا اوراس کے معنی بھی وہیں مشرّح کردیے ۔ حاش للہ ! یہ کسی مسلمان کا عقیدہ کیا گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ نور رسالت یا کوئی چیز معاذاللہ ذات الٰہی کا جز  یا اس کا عین ونفس ہے ، ایسا اعتقاد ضرور کفر وارتداد۔ ای ادعاء الجزئیۃ مطلقاً والعینیۃ بمعنی الا تحاد ای ھو ھو فی مرتبۃ الفرق اما ان الوجود واحد والموجود واحد فی مرتبۃ الجمع والکل ظلالہ وکعوسہ فی مرتبۃ الفرق فلاموجود الا ھو فی مرتبۃ الحقیقۃ الذاتیۃ اذلاحظ لغیرہ فی حد ذاتہ من الجود اصلاجملۃ واحدۃ من دونہ ثنیا فحق واضح لاشک فیہ۔

 

یعنی جزئیت کا دعوٰی کرنا مطلقاً اورعینیت بمعنی اتحاد کا دعوٰی کرنا یعنی مربہ فرق میں نور محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عین ذات خدا ہے (کفر ہے )لیکن یہ اعتقادکہ بے شک وجود ایک ہے اورموجود ایک ہے مرتبہ جمع میں اورتمام موجودات مربہ فرق میں اسی کے ظل اورعکس ہیں۔ چنانچہ مرتبہ حقیقت ذاتیہ میں اس کے سوا کوئی موجود نہیں کیونکہ حد ذات میں اس کے ماسوا کسی کے لئے بغیر کسی استثناء کے بالکل وجود سے کوئی حصہ نہیں، (یہ اعتقاد)خالص حق ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔ (ت)

 

مگر نور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اللہ عزوجل کا نور ذاتی کہنے سے نہ عین ذات یا جزء ذات ہونا لازم ، نہ مسلمانوں پربدگمانی جائز ، نہ عرف عام علماء وعوام میں اس سے یہ معنی مفہوم ، نہ نورذات کہنے کو نورذاتی کہنے پر کچھ ترجیح جس سے وہ جائز اور یہ ناجائزہو۔

 

اولاً : ذاتی کی یہ اصطلاح کہ عین ذات یا جز ء ماہیت ہو، خاص ایسا غوجی کی اصطلاح ہے ، علامء عامہ کے عرف عام میں نہ یہ معنے مراد ہوتے ہیں نہ ہرگز مفہوم ، عام محاورہ میںکہتے ہیں یہ میں اپنے ذاتی علم سے کہتاہوں یعنی کسی کی سنی سنائی نہیں ۔ یہ مسجد میں نے اپنے ذاتی روپیہ سے بنائی ہے یعنی چندہ وغیرہ مال غیر سے نہیں۔ ائمہ اہل سنت جن کا عقیدہ ہے کہ صفات الہیہ عین ذات نہیں ، اللہ عزوجل کے علم وقدرت وسمع وبصر وارادہ وکلام وحیات کو اس کی صفت ذاتی کہتے ہیں ۔

حدیقہ ندیہ میں ہے  : اعلم بان الصفات التی ھی لاعین الذات ولا غیرھا انما ھی الصفات الذاتیۃ ۱؂الخ۔

 

بیشک وہ صفات جو اللہ تعالٰی کے نہ عین اورنہ غیر ہیں ،صرف وہ ذاتی صفات ہیں۔ (ت)

 

 (۱؂ الحدیقۃ الندیۃ الباب الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۱ /۲۵۴)

 

علامہ سید شریف قدس سرہ الشریف رسالہ ''تعریفات''میں فرماتے ہیں : الصفات الذاتیۃ ھی مایوصف اللہ تعالٰی بھا ولا یوصف بضدھا نحو القدرۃ والعزۃ والعظمۃ وغیرھا۲؂۔

 

ذاتی صفات وہ ہیں جن سے اللہ تعالٰی موصوف ہے اوران کی ضد سے موصوف نہیں جیسے قدرت ، عزت، عظمت وغیرہا۔(ت)

 

(۲؂التعریفات للجرجانی ۸۷۰(الصفات الذاتیہ) دارالکتاب العربی بیروت ص۱۱۱)

 

وجوب ذاتی وامتانع ذاتی وامکان ذاتی کا نام حکمت وکلام وفلسفہ وغیرہا میں سنا ہوگا یعنی ان الذات تقتجی لذاتھا الوجود او العدم  (یعنی بلاشبہ ذات اپنی ذات کے اعتبارسے وجود یا عدم کا تقاضا کرتی ہے ۔ ت) اولاً :  ان میں کوئی بھی اپنے موصوف کا نہ عین ذات ہے نہ جزء بلکہ مفہومات اعتبار یہ ہیں جن کےلئے خارج میں وجود نہیں کام حقق فی محلہ (جیسا کہ اس کے محل میں اس کی تحقیق کردی گئی ہے ۔ ت)یونہی اصلین اعنی علم کلام وعلم اصول فقہ میں افعل کے حسن ذاتی وقبح ذاتی کا مسئلہ اورا سمیں ہمارے آئمہ ماتریدیہ کا مذہب سنا ہوگا حالانکہ بداہۃً حسن وقبح نہ عین فعل ہیں نہ جزء فعل۔

 

محقق علی الاطلاق تحریر الاصول میں فرماتے ہیں  : مما اتقفقت فیہ العراض والعادات واستحق بہ المدح والذم فی نظر العقول جمیعا لتعلق مصالح الکل بہ لا یفید بل ھو المراد بالذاتی للقطع بان مجرد حرکۃ الید قتلا ظلما لاتزید حقیقتہا علی حقیقتہاعدلا ، فلو کان الذاتی مقتضی الذات اتحد لازمھما حسنا وقبحا ، فانما یراد (ای بالذاتی ) ما یجزم بہ العقل لفعل من الصفۃ بمجرد تعقلہ کائناعن صفۃ نفس من قام بہ فباعتبارھا یوصف بانہ عدل حسن اوضدہٖ ۱؂اھ

 

جس میں اغراض وعادات متفق ہوں اوراس کے سبب سے مدح وذم کا استحقاق ہوکیونکہ سب کے مصالح اس سے متعلق ہیں یہ قول غیر مفید ہے بلکہ ذاتی سے مراد وہی ہے ، اس لئے کہ یہ بات قطعی ہے کہ قتل کے لئے بطور  ظلم محض حرکت یدکی حقیقت بطور عدل اس کی حرکت کی حقیقت سے زائد نہیں ۔ اگر ذاتی مقتضائے ذات ہوتا تو ان دونوں کا لازم حسن وقبح کے اعتبار سے متحدہوجاتا کیونکہ ذاتی سے مراد وہ ہے کہ عقل اس کے ساتھ جزم کرے کسی فعل کے لئے صفت سے ، محض اس کے متعقل ہونے کی وجہ سے اس ذات کی صفت سے جس کے ساتھ وہ قائم ہے اسی کے اعتبار سے اس کو عدل وحسن یا اس کی ضد کے ساتھ متصف کیا جاتاہے اھ (ت)

 

(۱؂تحریر الاصول المقالۃ الثانیہ الباب الاول الفصل الثانی مصطفی البابی مصر ص ۲۲۵و۲۲۶)

 

ثانیاً : ذاتی میں یائے نسبت ہے ، ذاتی منسوب بہ ذات اورمتغائرین میں ہراضافت مصح نسبت جو چیز دوسرے کی طرف مضاف ہوگی وہ ضرور اس کی طرف منسوب ہوگی کہ اضافت بھی ایک نسبت ہی ہے ، تو جب نور ذات کہنا صحیح ہے تو نور ذاتی کہنا بھی قطعاً صحیح ہوگا ورنہ نسبت ممتنع ہوگی تو نورذات کہنا بھی باطل ہوجائے گا ھذا خلف۔

ثالثاً : نورِذات کہنا جس کا جواز مانع کو بھی تسلیم ہے اس میں اضافت بیانیہ ہویعنی وہ نور کہ عین ذات الٰہی ہے تو معاذاللہ نور رسالت کا عین ذات الوہیت ہونا لازم آتاہے پھر یہ کیوں نہ منع ہوا ، اگرکہئے کہ یہ معنے مراد نہیں بلکہ اضافت لامیہ ہے اوراس کی وجہ تشریف جیسے بیت اللہ  وناقۃ اللہ  وروح اللہ ، تو اسی معنٰی پر نور ذاتی میں کیا حرج ہے یعنی وہ نور کہ ذات الہٰی سے نسبت خاصہ ممتازہ رکھتاہے ۔

 

شرح المواھب للعلامۃ الزرقانی میں ہے  : اضافۃ تشریف واشعاربانہ خلق عجیب وان لہ شانا لہ مناسبۃ ما الی الحضرۃ الربوبیۃ علی حد قولہ تعالٰی  ونفخ فیہ من روحہ۲؂ٖ۔

 

اضافت تشریفیہ ہے اوریہ بتانا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عجیب مخلوق ہیں اوربارگاہِ ربوبیت میں آپ کو خاص نسبت ہے جیسے ونفخت فیہ من روحی ۳؂  (اور میں اس میں اپنی طرف کی خاص معزز روح پھونک دوں ۔(ت )

 

 (۲؂شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ المقصد الاول دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۴۶)

 (۳؂القرآن الکریم ۱۵/  ۲۹ و ۳۸ /۷۲)

 

رابعاً : نورذاتی میں اگر ایک معنٰی معاذاللہ کفرہیں کہ ذاتی کو اصطلاح فن ایسا غوجی پر حمل کریں جو ہرگز قائلوں کی مراد نہیں بلکہ غالباً ان کو معلوم بھی نہ ہوگی تو نور ذات یا نور اللہ کہنے میں جن کا جواز از خود مانع کو مسلّم ہے عیاذاًباللہ متعدد وجہ پر معانی کفر ہیں ۔

 

ہم نے فتوٰی دیگر میں بیان کیا کہ نور کے دو معنی ہیں : ایک ظاہر بنفسہٖ مظہر لغیرہٖ ، بایں معنٰی اگر اضافت بیانیہ لو تو نور رسالت عین ذات الہٰی ٹھہرے اوریہ کفر ہے ۔ اور اگر لامیہ لو تو یہ معنی ہوں گے کہ وہ نور کہ آپ بذاب خود ظاہر اورذات الہٰی کا ظاہر کرنے والا ہے ، یہ بھی کفر ہے ۔ دوسرے معنی یہ کیفیت وعرض جسے چمک ، جھلک ، اجالا ، روشنی کہتے ہیں اس معنٰی پر اضافت بیانیہ لو تو کفر عینیت کے علاوہ ایک اورکفر عرضیت عارض ہوگا کہ ذات الہٰی معاذاللہ ایک عرض وکیفیت قرار پائی ، اوراگرالامیہ لو تو کسی کی روشنی کہنے سے غالباً یہ مفہوم کہ یہ کیفیت اس کو عارض ہے جیسے نو رشمس ونور قمر ونور چراغ،یوں معاذاللہ اللہ عزوجل محل حوادث ٹھہرے گا ، یہ بھی صریح ضلالت وگمراہی ومنجربہ کفرلزومی ہے ، ایسے خیالات سے اگر نو رذاتی کہنا ایک درجہ ناجائز ہوگا تو نورذات ونور اللہ کہنا چاردرجے ، حالانکہ ان کا جواز مانع کو مسلّم ہونے کے علاوہ نور اللہ تو خود قرآن عظیم میں وارد ہے : یریدون لیطفؤا نوراللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولوکرہ الکٰفرون o ۱؂ یریدون ان یطفؤا نوراللہ بافواھھم ویابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکٰفرون۲؂۔ اللہ تعالٰی کے نور کو اپنی پھونکوں سے بچھانا چاہتے ہیں اوراللہ تعالٰی اپنے نور کو تام فرمانے والا ہے اگرچہ کافر ناپسند کریں ۔ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں اوراللہ نہ مانے گا مگر اپنے نورکا پورا کرنا ، پڑے برامانیں کافر۔ (ت)

 

(۱؂القرآن الکریم ۶۱ /۸ )

(۲؂القرآن الکریم ۹ /۳۲)

 

حدیث میں ہے : اتقوافراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ ۳؂۔

 

مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نور اللہ سے دیکھتاہے ۔ (ت)

 

 (۳؂سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۱۳۸دارالفکر بیروت ۵ /۸۸)

( کنزالعمال حدیث ۳۰۷۳۰موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱ /۸۸)

 

خامساً  : مضاف ومضاف الیہ میں اگر معائرت شرط ہے تو منسوب ومنسوب الیہ میں کیا شرط نہیں ۔

 

سادساً : بلکہ اس طور پر جو مانع نے اختیار کیا، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سب سے پہلے مخلوق الٰہی نہ رہیں گے ، دو چیزیں حضور سے پہلے مخلوق قرار پائیں گی اوریہ خلافت حدیث وخلافت نصوص ائمہئ قدیم وحدیث ۔حدیث میں ارشاد ہوا: یاجابر ان اللہ خلق قبل الاشیاء نورنبیک من نورہٖ۱؂۔

 

اے جابر!اللہ تعالٰی نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا کیا۔

 

 (۱؂ المواھب اللدنیۃ المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۷۱)

 

یہاں دو اضافتیں ہیں : نور نبی ونور خدا ۔ اورمشتہر کے نزدیک اضافت میں مغائرت شرط ہے تو نور نبی غیر ہو اورنور خدا یر خدا، اورغیر خدا جو کچھ ہے مخلوق ہے تو نور خدا مخلوق ہوا اور اس نور سے نور نبی بنا، تو ضرر نورخدا نور نبی سے پہلے مخلوق تھا اورنو نبی باقی سب اشیاء سے پہلے بنا، اوراشیاء میں خود نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم بھی ہیں ، تو نور نبی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے پہلے بنا اور اس سے پہلے نور خدا بنا، تو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے دو مخلوق پہلے ہوئے ، یہ محض باطل ہے ۔

 

سابعاً : حل یہ ہے کہ ایسا غوجی میں ذاتی مقابل عرضی ہے بایں معنی اللہ عزوجل نور ذاتی ونور عرضی ، دونوں سے پاک ومنزہ ہے مگر وہ یہاں نہ مراد نہ مفہوم اورعام محاورہ میں ذاتی مقابل صفاتی واسمائی ہے اوریہاں یہی مقصود ، بایں معنٰی اللہ عزوجل کے لئے نور ذاتی ونور صفاتی ونوراسمائی سب ہیں کہ اس کی ذات وصفات وامساء کی تجلیاں ہیں ، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تجلی ذات اورانبیاء واولیاء وسائر خلق اللہ تجلی اسماء وصفات ہیں جیسا کہ ہم نے فتوائے دیگر میں شیخ محقق سے نقل کیا ، رحمہ اللہ تعالٰی۔  واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ سیدنا محمدواٰلہٖ وسلم۔

 

تقریظ(عہ)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللھم لک الحمد فقیر غفرلہ المولی القدیر نے فاضلِ فاضل ، عالم عامل ، حامی السنۃ ، ماحی الفتنہ ، مولٰنا مولوی حبیب علی صاحب علوی ایدہ اللہ تعالٰی بالنور العلوی کی یہ تحریر منیر مطالعہ کی فجزاہ اللہ عنہ نبیہ المصطفٰی الجزاء الاوفٰی ۔

 

عہ : یہ تقریظ امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ العزیز نے مولانا حبیب علی علوی کے رسالہ پر لکھی تھی، بریلی کے ذخیرہ مسودات سے مولانا محمد ابراہیم شاہدی پونپوری نے ۸ رجب المرجب ۱۳۶۳ھ کو نقل کی۔ یہ نقل محدث اعظم پاکستان مولانا سرداراحمد رحمہ اللہ تعالٰی کے ذخیرہ کتب سے راقم کو ۲۲ربیع الاول ۱۴۰۴ھ کو دستیاب ہوئی جو پیش نظر مجموعہ رسائل میں شامل کی جارہی ہے ۔

اس مجموعہ میں حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی نورانیت کے موضوع پر ایک  اورسایہ نہ ہونے کے موضوع پر تین رسائل شامل ہیں۔       محمد عبدالقیوم قادری ۔

 

مسئلہ بحمداللہ تعالٰی واضح ومکشوف اورمسلمانوں میں مشہور ومعروف ہے ، فقیر کے اس میں تین رسائل ہیں۔

 

 (۱) قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانام علیہ وعلٰی اٰلہ الصلٰوۃ والسلام ۔

(۲)نفی الفیئ عمن اسننا ربنورہ کل شیء صلی اللہ علیہ وسلم۔

(۳)ھدی الحیران فی نفی الفیئی عن سید الاکوان علیہ الصلٰوۃ والسلام الاتمان الاکملان۔

 

یہاں جناب مجیب مصیب سلمہ القریب کی تائید میں بعض کلام ائمہ کرام علمائے اعلام کااضافہ کروں۔ امام جلیل جلال الملۃ والدین سیوطی رحمہ اللہ تعالٰی خصائص الکبری شریف میں فرماتے ہیں : باب الاٰیۃ فی انہ لم یکن یری لہ ظل، اخرج الحکیم الترمذی عن ذکوان ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل فی شمس ولا قمر ، قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ظلہ کان لایقع علی الارض وانہ کان نورافکان اذ مشٰی فی الشمس اوالقمر لاینظر لہ ظل قال بعضھم ویشہد لہ حدیث ، قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ واجعلنی نوراً ۱؂۔ اس نشانی کا بیان کہ حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہیں دیکھاگیا ۔ حکیم ترمذی نے حضرت ذکوان سے روایت کی کہ سورج اورچاند کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نظر نہیں آتاتھا ۔ ابن سبع نے کہا : آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خصائص میں سے یہ ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا کیونکہ آپ نور ہیں ، آپ جب سورج اورچاندنی کی روشنی میں چلتے تو سایہ دکھانی نہیں دیتاتھا ۔ بعض نے کہا کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جس میں آپ نے دعا فرماتے ہوئے ہوئے کہا: اے اللہ !مجھے نور بنادے ۔(ت)

 

(۱؂الخصائص الکبرٰی باب الآیۃ فی انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۶۸)

 

نیز انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں فرماتے ہیں : لم یقع ظلہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولارئی لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نورا، وقال رزین لغلبۃ انوارہ۲؂ ۔ حضورانور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہیں پڑتاتھا۔نہ ہی سورج اورچاند کی روشنی میں آپ کا سایہ دکھائی دیتاتھا۔ ابن سبع نے کہا آپ کے نور ہونے کی وجہ سے اوررزین نے کہا آپ کے انوارکے غلبہ کی وجہ سے ۔(ت)

 

(۲؂انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب)

 

امام ابنِ حجر مکی رحمہ اللہ تعالٰی افضل القرٰی لقراء ام القری زیر قول ماتن رضی اللہ تعالٰی عنہ ؎

لم یساووک فی علاک وقدحا                              ل سنا منک دونھم سنا۱؂

 

(انبیاء علیہم الصلوات والسلام فضیلت میں آپ کے برابر نہ ہوئے آپ کی چمک اوررفعت آپ تک ان کے پہنچے سے مانع ہوئی ۔ ت)

 

(۱؂ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الاول حزب القادریۃ لاہور ص۶)

 

فرماتے ہیں : ھذا مقتبس من تسمیتہ تعالٰی لنبیہ نورا فی نحو قولہ تعالٰی ''قدجاء کم من اللہ نور وکتاب مبین''، وکان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یکثر الدعاء بان اللہ یجعل کلا من حواسہٖ واعضائہٖ وبدنہٖ نوراً اظہار الوقوع ذٰلک ، وتفضل اللہ تعالٰی علیہ بہ لیزدادشکرہ وشکرامتہ علی ذٰلک ، کما امرنا بالدعاء الذی فی اٰکرسورۃ البقرۃ مع وقوعہ، ، وتفضل اللہ تعالٰی بہ لذٰلک ومما یؤید انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صار نورا انہ کان اذا مشٰی فی الشمس والقمر لم یظھر لہ ظل لانہ لایظھر الا لکثیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قد خلصہ اللہ سائر الکثائف الجسامنیۃ وصیرہ نورا صرفالایظھر لہ ظل اصلا ۱؂۔

 

یہ ماخوذ ہے ان آیات کریمہ سے جن میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کا نام نور رکھاہے ، جیسے آیت کریمہ  قد جا ء کم من اللہ نور وکتاب مبین (تحقیق آیا تمھارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے نور اور روشن کتاب )نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کثرت سے یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اللہ تعالی آپ کے تمام حواس ،اعضا اور بدن کو نور بنا دے ۔آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یہ دعا اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے فرماتے کہ اس کا وقوع ہو چکا ہے اور اللہ تعالی نے اپنے فضل سے آپ کو مجسم نور بنا دیا ہے تاکہ آپ اور آپ کی امت اس پر اللہ تعالی کا بکثرت شکریہ ادا کرے ۔جیسا کہ اللہ تعالی نے ہمیں سورہ بقرہ کی آخری آیات میں واقع دعا مانگنے کا حکم دیا ہے باوجودیکہ اللہ تعالی کے فضل سے اس کا وقوع ہو چکا ہے ۔آپ کی نورانیت کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب آپ سورج اور چاند کی روشنی میں چلتے تو آپ کا سایہ ظاہر نہ ہوتا کیونکہ سایہ تو کثیف چیز کا ظاہر نہ ہوتا کیونکہ سایہ تو کثیف چیز کا ظاہر ہوتا ہے جبکہ آپ کو اللہ نے تمام جسمانی کثافتوں سے پاک فرما دیا ہے اور آپ کو خالص نور بنا دیا ہے ،چنانچہ آپ کا سایہ بالکل ظاہر نہیں ہوتا تھا۔

 

 (۱؂افضل القرٰی لقراء ام القرٰی (شرح ام القرٰی )شرح شعر ۲المجمع الثقافی ابوظبی ۱/۱۲۸و۱۲۹)

 

علامہ سلیما ن جمل ہمزیہ میں فرماتے ہیں : لم یکن لہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ظل یظہر فی الشمس ولاقمر  ۲؂

 

سورج اور چاند کی روشنی میں حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ ظاہر نہیں ہوتا تھا ۔(ت)

 

 (۲؂الفتوحات الاحمدیہ علی متن الہمزیۃ لسلیمان جمل ،المکتبہ التجاریہ الکبری مصر ،ص۵)

 

علامہ حسین بن محمد دیار بکری کتاب الخمیس فی احوال انفس نفیس میں لکھتے ہیں : لم یقع ظلہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی الارض ولا رئی لہ ظل فی شمس ولاقمر ۳؂۔

 

حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اور نہ ہی سورج وچاند کی روشنی میں نظر آتا تھا (ت)

 

 (۳؂تاریخ الخمیس ،القسم الثانی النوع الرابع ۔موسسۃ شعبان۔بیروت ،ص ۱ /۲۱۹)

 

بعینہ اسی طرح نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی الاطہار میں ہے ۔

 

علامہ سیدی محمد زرقانی شرح مواہب شریف میں فرماتے ہیں : لم یکن لہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ظل فی شمس ولاقمر لانہ کان نورا کما قال ابن سبع وقال رزین لغلبۃ انوارہ وقیل حکمۃ ذلک صیانتہ عن یطاء کافر علی ظلہ رواہ الترمذی الحکیم عن ذکوان ابی صالح السمان الزیات المدنی او ابی عمر والمدنی مولی عائشۃ رضی اللہ تعالی عنہا وکل منھا ثقۃ من التابعین فھو مرسل لکن روی ابن المبارک وابن الجوزی عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما لم یکن للنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع الشمس قط الا غلب ضوء ضو ء السراج۱؂۔

 

حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ شمس وقمر کی روشنی میں نمودار نہ ہوتا تھا بقول ابن سبع آپ کی نورانیت کی وجہ سے ۔اور کہا گیا ہے کہ عدم سایہ کی حکمت یہ ہے کہ کوئی کافر آپ کے سایہ پر پاؤں نہ رکھے ۔اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے ذکوان ابو صالح السمان زیات مدنی سے یا ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کے آزاد کرادہ غلام ابو عمرومدنی سے ، اوروہ دونوں ثقہ تابعین میں سے ہیں، لہذا یہ حدیث مرسل ہے ۔ لیکن ابن مبارک اورابن جوزی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ آپ کا سایہ نہ تھا آپ جب سورج کی روشنی یا چراغ کی روشنی میں قیام فرماتے تو آپ کی چمک سورج اورچراغ کی روشنی پر غالب آجاتی تھی۔ (ت)

 

(۱؂شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ ،المقصد الثالث ،الفصل الاول ،دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۲۲۰)

 

فاضل محمد بن صبان اسعاف الراغبین میں ذکر خصائص نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں لکھتے ہیں : وانہ لافیئ لہ ۲؂ ۔

 

(بے شک آپ کا سایہ نہ تھا ۔ ت)

 

(۲؂اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی واہل بیتہ الطاہرین الباب الاول مصطفی البابی مصر ص۷۹)

 

حضرت مولوی معنوی قدس سرہ الشریف فرماتے ہیں : ؎

 

چوں فنانش از فقر پیرایہ شود

اومحمد دار  بے سایہ شود۳؂

 

 (جب اس کی فنا فقر سے آراستہ ہوجاتی ہے تو وہ محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرح بغیر سایہ کے ہوجاتاہے ۔ ت)

 

(۳؂مثنوی معنوی درصفت آں بیخود کہ دربقائی حق فانی شدہ است الخ نورانی کتب خانہ پشاور ص۱۹)

 

ملک العلماء بحرالعلوم مولانا عبدالعلی قدس سرہ، اس کی شرح میں فرماتے ہیں : در مصرع ثانی اشارہ بہ معجزہ آن سرورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم است کہ آں سرور راسایہ نمی افتاد۴؂۔

 

دوسرے مصرع میں سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس معجزہ کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر واقع نہیں ہوتا تھا۔

 

یہاں اس مسئلہ مسلمہ کے منکر وہابیہ ہیں اور اسمٰعیل دہلوی کے غلام اوراسمٰعیل کو غلامی حضرت مجدد کا ادعاء اورحضرت شیخ مجدد جلد ثالث مکتوبات ، مکتوب صدم میں فرماتے ہیں :  اورا  صلے اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ نبود ودرعالم شہادت سایہ ہر شخص لطیف ترست وچوں لطیف ترازوے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نباشد اوراسایہ چہ صورت داردعلیہ وعلٰی آلہ الصلوات والتسلیمات ۱؂۔

 

رسول انورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔عالم شہادت میں ہرشخص کا سایہ اس سے زیادہ لطیف ہوتاہے۔چونکہ آپ سے بڑھ کر کوئی شئے لطیف نہیں ہے لہذا آپ کے سایہ کی کوئی صورت نہیں بنتی۔ آپ پر اور آپ کی آل پر درودوسلام ہو۔(ت)

 

(۱؂مکتوبات امام ربانی مکتوب صدم نولکشور لکھنؤ جلد سوم ص۱۸۷)

 

اسی کے مکتوب ۱۲۲میں فرمایا : واجب راتعالی چر اظل بودکہ ظل موہم تولید بہ مثل ست ومنبی از شائبہ عدم کمال لطافت اصل،ہرگاہ محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم را از لطافت ظل نبود خدائے محمدرا چگونہ ظل باشد۲؂ اھ ۔ جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

واجب تعالٰی کا سایہ کیسے ہوسکتاہے کہ سایہ تو مثل کے پیدا ہونے کا وہم پیدا کرتاہے اورعدم کمال لطافت کے شائبہ کی خبر دیتاہے ۔ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ بوجہ آپ کی لطافت کے نہ تھا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خدا جل وعلاکا سایہ کیونکر ہوسکتاہے ۔(ت)

 

(۲؂مکتوبات امام ربانی مکتوب ۱۲۲نولکھشور لکھنؤ جلدسوم ص۲۳۷)

 

اقول : (میں کہتاہوں۔ت) مطالع المسرات شریف میں امام اہلسنت سیدنا ابوالحسن اشعری رحمہ الہ تعالٰی سے : انہ تعالٰی نورلیس کالانوار والروح النبویۃ القدسیۃ لمعۃ من نورہٖ والملٰئکۃ شررتلک الانوار۳؂ ۔

 

اللہ تعالٰی نور ہے مگر انوار کی مثل نہیں اورنبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح اقدس اللہ تعالٰی کے نور کا جلوہ ہے اورملائکہ ان انوار کی جھلک ہیں۔ (ت)

 

(۳؂مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آبادص۲۶۵)

 

پھر اس کی تائید میں حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : اول ماخلق اللہ نوری ومن نوری خلق کل شیئ۴؂ ۔

 

اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے میرا نور بنایا اورمیرے نور سے تمام اشیاء کو پیدا فرمایا (ت)

 

 (۴؂مطالع المسرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آبادص۲۶۵)

 

جب ملائکہ کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے بنے ، سایہ نہیں رکھتے توحضور کہ اصل نور ہیں جن کی ایک جھلک سے سب ملک بنے کیونکر سایہ سے منزہ نہ ہوں گے ۔ جب کہ ملائکہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے بنے ، بے سایہ ہوں ، اورمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ نورالہٰی سے بنے ، سایہ رکھیں۔

حدیث میں ہے کہ آسمانوں میں چا انگل جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے سجدہ میں نہ ہو، ملائکہ کے سایہ ہوتا تو آفتاب کی روشنی ہم تک کیونکر پہنچتی یا شاید پہنچتی تو ایسی جیسے گھنے پیڑ میں سے چھن کر خال خال بندکیاں نور کے سائے کے اندر نظر آتی ہیں، ملائکہ تو لطیف تر ہیں، نار کے لئے سایہ نہین بلکہ ہوا کے لئے سایہ نہیں بلکہ عالم نسیم کی ہوا کہ ہوائے بالا سے کثیف تر ہے اس کا بھی سایہ نہیں ورنہ روشنی کبھی نہ ہوتی بلکہ ہوا میں ہزاروں لاکھوں ذرے اور قسم قسم کے جانور بھرے پڑے ہیں کہ خوردبین سے نظر آتے ہیں اوربعض بے خوردبین بھی ، جبکہ دھوپ کسی بند مکان میں روزن سے داخل ہو ان میں کسی کے سایہ نہیں۔ یہ سب تو قبول کرلیں گے مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تن اقدس کی ایسی لطافت کس دل سے گوارا ہوکہ حضور کے لئے سایہ نہ تھا۔ جانے دو، یہاں ان ذروں کی باریکی جسم کا حیلہ لوگے ، آسمان میں کیا کہوگے ؟اتنا بڑا جسم عظیم کہ تمام زمین کو محیط اوراس کا ایک ذرا سا ٹکڑا جس میں آفتاب ہے سارے کرہ زمین سے تین سو چھبیس حصے بڑا ہے ، اسی کا سایہ دکھا دیجئے ، اس کا سایہ پڑتا تو قیامت تک تمہیں دن کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوتا ، ہاں ہاں یہی جو نیلگوں چھت ہمیں نظر آتی ہے ، یہی پہلا آسمان ہے ،

 

قرآن عظیم یہی بتاتاہے : قال تعالٰی افلم ینظر وا الی السماء فوقھم کیف بنینہا وزینہا وما لہا من فروج۱؂۔ (اللہ تعالٰی نے فرمایا : )کیا نہیں دیکھتے اپنے اوپر آسمان کو ، ہم نے اسے کیسے بنایا اور آراستہ کیا اوراس میں کہیں شگاف نہیں ۔

 

(۱؂القرآن الکریم ۵۰ /۶)

 

اورفرماتاہے : وزینّٰہا للنّٰظرین۲؂۔ ہم نے آسمان کو دیکھنے والوں کے لئے آراستہ کیا۔

 

 (۲؂القرآن الکریم ۱۵ /۱۶)

 

اوراگر فلاسفہ  یونانی کی فضلہ خوری سے یہی مانئے کہ جو نظر آتاہے فلک نہیں ، کرہ بخار ہے۔

جب ہمارا مطلب حاصل کہ اتنا بڑا جسم عظیم عنصری سایہ نہیں رکھتا ، اسے آسمان کہو یا کرہ بخار، ہیئات جدیدہ کا کفراوڑھو کہ آسمان کچھ ہے ہی نہیں ، یہ جو نظر آتاہے محض موہوم وبے حقیقت حد نگاہ ہے ، توایک بات ہے مگر آسمانی کتاب پر ایمان لاکر آسمان سے انکار کرنا ناممکن۔

 

غرض جب دلیل قاہر سے ثابت کہ جسم عنصری کے لئے سایہ ضروری نہیں ، تو نیچریوں کی طرح خلاف نیچر ہونے کا جو ہمیانہ استبعاد تھا وہ اوڑھ لیا، پھر کیا وجہ کہ ائمہ کرام طبقۃً فطبقۃً جو فضیلت ہمارے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے نقل فرماتے ہیں اور مقبول ومقرر رکھتے آئے اورعقل ونقل سے کوئی اس کا واقع نہیں ، تسلیم نہ کیا جائے یا اس میں چون وچرابرتی جائے اسے سوائے مرض قلب کے کیا کہئے ، محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضائل کو بیمار دل گوارا نہیں کرتا یشرح صدرہ للاسلام۱؂۔  (اللہ تعالٰی اس کا سینہ اسلام کے لیے  کھول دیتا ہے ) کی دولت نہ ملی کہ اللہ تعالٰی اس کا سینہ قبول و تسلیم کے لیے کھول دیتا  ، ناچار

 

یجعل صدرہ ضیقا حرجا کانما یصعد  فی السمآء ۲؂  (اس کا سینہ تنگ خوب رکا ہوا کر دیتاہے گویا کسی کی زبردستی سے آسمان پر چڑھ رہا ہے ۔ت )کے آڑے آتی ۔

 

(۱؂القرآن الکریم ۶ /۱۲۵)

(۲؂القرآن الکریم ۶ /۱۲۵)

 

دل تنگ ہوکر گورکافر کے مثل ہوجاتااور فضیلت کا منکر کلیجہ چار چار اچھلتا گویا آسمان کو چڑھا جاتاہے کذٰلک یجعل اللہ الرجس علی الذین لایؤمنون ۳؂ والعیاذباللہ رب العٰلمین۔ واللہ سبحٰنہ تعالٰی اعلم  (اللہ یوں ہی عذاب میں ڈالتا ہے ایمان نہ لانے والوں کو۔ اوراللہ رب العالمین کی پناہ ۔ اوراللہ سبحٰنہ تعالٰی خوب جانتاہے ۔ت)

 

(۳؂القرآن الکریم ۶ /۱۲۵)

 

رسالہ

صلات الصفاء فی نور المصطفٰی ختم ہوا

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post