Ilme Ghaib ki Tafseeli Behes | Risala Khalisul Etiqad by AalaHazrat

رسالہ

خالصُ الاعتقاد(۱۳۲۸ھ)

(اعتقادِ خالص)

 

نوٹ  : یہ کتاب حضرت گرامی مرتبت سید حسین حیدر میاں صاحب مارہروی علیہ الرحمہ کے ان خطوط کے جواب میں بطور مراسلہ لکھی گئی جو موصوف نے بعض دیانبہ کی الزام تراشیوں سے پیدا شدہ صورتِ حال پر پریشان ہو کر تحقیق کے لیے مصنف علیہ الرحمۃ کو تحریر فرمائے تھے اور وہ خطوط چند صفحات قبل رسالہ کی تمہید میں مذکور ہیں۔

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

نحمدہ ونصلّ علٰی رسولہ الکریم

 

بشرف ملاحظہ عالیہ حضرت والا درجیت ،  بالا منزلت،  عظیم البرکتہ حضرت مولٰنا مولوی سید حسین حیدر میاں صاحب قبلہ دامت برکاتہم العلمیہ،  بعد تسلیم وآداب خادمانہ عارض۔

(۱) حضرت والا کو معلوم ہوگا کہ وہابیئہ گنگوہ دیوبند و نانوتہ و تھا نہ بھون و دہلی و سہسوان خذلہم اﷲ تعالٰی نے اﷲ عزو علا و حضور پرنور سیّد الانبیاء وعلیہم افضل ا لصلٰوۃ والثناء کی شان میں کیا کیا کلماتِ ملعونہ بکے،  لکھے اور چھاپے،  جن پر عامہ علماء عرب و ہند نے ان کی تکفیر کی،  کتاب حسام الحرمین مع تمہید ایمان و خلاصہ فوائد فتاوٰی حاضرِ خدمت ہیں۔ زیادہ نہ ہو تو صرف دو رسالے اولین تمہیدِ ایمان و خلاصہ فوائد کو حرفاً حرفاً ملاحظہ فرمالیں کہ حق آفتاب سے زیادہ واضح ہے۔

 

 (۲) اس کتابِ مستطاب کی اشاعت پر خدا اور رسول (جل وعلا وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) کے بدگویوں کی جو حالتِ اضطراب و پیچ و تاب ہے،  بیان سے باہرہے۔ دو سال سے اسی کتاب کی طبع کے بعد چیختے چلاتے اور طرح طرح کے غل مچاتے ،  پرچوں ، اخباروں میں گالیوں کے انبار لگاتے ،سَوسَو پہلو بدلتے ،اِدھر اُدھر پلٹے کھاتے ہیں مگر اصل مبحث کا جواب دینا درکنار ،اس کانا لیے ہول کھاتے ہیں ،بدگویوں میں مرتضی حسن چاند پوری دیوبندی اور ان کے یار غار ثناءاللہ امرتسری غیر مقلد صرف اسی لیے غلم چانے ، بحثیں بدلنے،  گالیاں چھاپنے کے لیے منتخب کیے گئے ہیں جن کے غل پر پانچ پانچ رسالے میرے احباب کے ان کو پہنچے ہوئے ہیں ان سب کو بھی جواب غائب اور چیخ بدستور ،  یہ تمام حال حضرت والا کو ملاحظہ رسالہ ظفر الدین الجید وظفر الدین الطیب و اشتہار ضروری نوٹس و اشتہار نیا زمانہ کے ملاحظہ سے واضح ہوگا۔ سب مرسل خدمت ہیں،  اور زیادہ تفصیل احباب فقیر کے رسالہ کین کش پنجہ پیچ و رسالہ بارش سنگی و رسالہ پیکان جانگداز کے ملاحظہ سے ظاہر ہوگی۔ یہ سب زیر طبع ہیں،  بعد طبع بعونہ تعالٰی ان سے کہہ دوں گا کہ ارسالِ خدمت اقدس کریں۔

(۳) اب چند امور ضروری مختصراً عرض کروں کہ بعونہ تعالٰی اظہارِ حق و ابطالِ باطل کو بس ہوں۔

 

امراوّل

وہابیہ کی افترا پر دازیاں

 

ان چالوں کے علاوہ خدا ورسول جل و علا وصلی الہ تعالٰی علیہ وسلم کے بدگویوں نے ادھر یہ مکر گانٹھا کہ کسی طرح معارضہ بالقلب کیجئے یعنی ادھر بھی کوئی بات ایسی نسبت کریں جس پر معاذ اﷲ حکم کفریا ضلال لگاسکیں۔

اس کے لیے مسئلہ غیب میں افترا چھانٹنے شروع کیے۔

(۱)کبھی یہ کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا علم، ذاتی ،بے اعطائے الٰہی مانتاہے ۔

 (۲) کبھی یہ کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا علم ،  علمِ الہٰی سے مساوی جانتا ہے صرف قدم و حدوث کا فرق کرتا ہے۔

(۳) کبھی یہ کہ باستثناء ذات و صفاتِ الہٰی باقی تمام معلوماتِ الہٰیہ کو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا علم محیط بتاتا ہے۔

 

 (۴) کبھی یہ کہ امورِ غیر متناہیہ بالفعل کو حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا علم بتفصیل تمام حاوی ٹھہراتا ہے۔

حالانکہ واحد قہار یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ سب ان اشقیاء کا افترا ہے۔

سچے ہیں تو بتائیں کہ ان میں سے کون سا جملہ فقیر کے کس رسالے،  کس فتوے ،  کس تحریر میں ہے؟

 

قل ھا توا برھانکم ان کنتم صٰدقین۱؂ ۔ تم فرماؤ لاؤ اپنی دلیل اگر سچے ہو۔(ت)

 

 ( ۱ ؎ القرآن الکریم     ۲ /۱۱۱ )

 

فاذلم یاتوا بالشہداء فاولئٰک عنداﷲ ھم الکٰذبون ۲؎۔ تو جب گواہ نہ لائے تو وہی اﷲ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔(ت)

 

(  ۲ ؎ القرآن الکریم     ۲۴ /۱۳)

 

انمایفتری الکذب الذین لا یؤمنوں باٰیٰت اﷲ اولئٰک ھم الکٰذِبون ۳ ؎۔ جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اﷲ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی لوگ جھوٹے ہیں۔(ت)

 

 ( ۳ ؎ القرآن الکریم  ۱۶ /۱۰۵)

 

یہی  بیانات لوگوں کے سامنے بیان کرکے ان کو پریشان کرتے ہیں ان کا پریشان ہونا حق بجانب ہے اس پر اگر کوئی عالم مخالفت کرے تو ضرور اسے لائق و مناسب ہے۔ مفتریانِ کذَّاب اگر ان کلمات کا خود مجھ سے استفتاء کرتے تو سب سے پہلے ان باطل باتوں کا رَدّو ابطال میں کرتا۔

 

فقیر نے مکہ معظمہ میں جو رسالہ "  الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ " اس باب میں تصنیف کیا جس کی متعدد نقول علماء کرام مکہ نے لیں اس میں ان تمام خرافات کا رَد صریح موجود ہے۔ ان اباطیل کل یا بعض پر جو عالم مخالفت کرے یا رَ د لکھے وہ رَد لکھے وہ رَدّو خلافت حقیقۃً  انہیں ملعون افتراؤں پر عائد ہوگا۔ نہ اس پر جو ان اکاذیب سے بحمداﷲ ایسا بری ہے جیسے وہ مفتریانِ کذاب دین و حیا سے۔

 

وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون ۴ ؎۔ اور اب جاننا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔(ت)

 

  ( ۴ ؎ القرآن الکریم     ۲۷ /۲۲۷)

 

حضرت والا کو حق سبحانہ،  وتعالٰی شفائے کامل و عاجل عطا فرمائے۔ اگر براہِ کرم قدیم و لطفِ عمیم یہاں تشریف فرما ہو کر خادم نوازی کریں تو اصل رسالہ جس پر مولانا تاج الدین الیاس و مولانا عثمان بن عبدالسلام مفتیانِ مدینہ منورہ کی اصل تقریظات اُن کی مُہری دستخطی موجود ہیں،  نظرِ انور سے گزاروں گا۔

فی الحال اُس کی دو چار عبارات عرض کرتا ہوں جن سے روشن ہوجائے گا کہ مفتریوں کے افتراء کس درجہ باطل و پادر ہوا ہیں،  جس کی نظیر یہی ہوسکتی ہے کہ کوئی ید باطن کہے"  اہلسنت کا مذہب صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر تبّرا اور صدیقہ طاہرہ ( رضی اللہ تعالٰی عنہا) پر بہتان اٹھانا ہے۔" والعیاذ باﷲ رب العالمین ، میرے رسالہ کی نظر اول میں ہے۔

 

(۱) العلم ذاتی مختص بالمولٰی سبحٰنہ وتعالٰی لایمکن لغیرہ ومن اثبت شیئامنہ ولوادنٰی من اَدنٰی من ادنٰی من ذرۃ لاحد من العٰلمین فقد کفر واشرک  ۱ ؎۔ علمِ ذاتی اﷲ عزوجل سے خاص ہے اس کے غیر کے لیے محال ہے،  جو اس میں سے کوئی چیز اگرچہ ایک ذرّہ سے کمتر سے کمتر غیر خدا کے لیے مانے وہ یقیناً کافرو مشرک ہے۔

 

( ۱ ؎ الدولۃ المکیۃ    النظر الاول مطبعہ  اہلسنت بریلی ص۶)

 

 (۲) اُسی میں ہے : اللاتنا ھی الکمی مخصوص بعلوم اﷲ تعالٰی  ۲ ؎۔ غیر متناہی بالفعل کو شامل ہوناصرف علمِ الہٰی کے لیے ہے۔

 

 ( ۲ ؎ الدولۃ المکیۃ   النظر الاول  مطبعہ اہلسنت بریلی         ص۶)

 

 (۳) اُسی میں ہے : احاطۃ احد من الخلق بمعلومات اﷲ تعالٰی علٰی جھۃ التفصیل التام محال شرعا وعقلا بل لوجمع علوم جمیعا العٰلمین اولاً واٰخراً لما کانت لہ نسبۃ ما اصلا الی علوم اﷲ سبحٰنہ وتعالٰی حتی کنسبۃ حصۃ من الف الف حصص قطرۃ الٰی الف الف بحر ۳ ؎۔ کسی مخلوق کا معلوماتِ الہٰیہ کو بتفصیل تام محیط ہوجانا شرع سے بھی محال ہے،  اور عقل سے بھی،  بلکہ اگر تمام اہلِ عالم اگلے پچھلوں سب کے جملہ علوم جمع کیے جائیں تو اُن کو علومِ الہٰیہ سے وہ نسبت نہ ہوگی جو ایک بُوند کے دس لاکھ حصوں سے ایک حصے کو دس لاکھ سمندروں سے۔

 

( ۳ ؎ الدولۃ المکیۃ   النظر الاول    مطبعہ اہلسنت بریلی  ص۶)

 

 (۴) اُسی کی نظر ثانی میں ہے :   زھر وبھر ممّا تقرر ان شبہۃ مساواۃ علوم المخلوقین طرا اجمعین بعلم ربنا الٰہ العٰلمین ما کانت لتخطر ببال المسلمین ۱ ؎۔ ہماری تقریر سے روشن و تاباں ہوگیا کہ تمام مخلوق کے جملہ علوم مل کر بھی علمِ الہٰی سے مساوی ہونے کا شبہہ اس قابل نہیں کہ مسلمان کے دل میں اس کا خطرہ گزرے۔

 

 ( ۱ ؎الدولۃ المکیہ    النظرالثانی     مطبعہ اہلِ سنت بریلی   ص ۱۵)

 

 (۵) اسی میں ہے : قداقمنا الدلائل القاھرۃ علی ان احاطۃ علم المخلوق بجمیع المعلومات ا لالٰیہۃ محال قطعاً ،  عقلاً وسمعاً  ۲ ؎۔ ہم قاہر دلیلیں قائم کرچکے کہ علم مخلوق کا جمیع معلومات ِ الہٰیہ کو محیط ہونا ہونا عقل و شرع دونوں کی رو سے یقیناًمحال ہے ۔

 

 ( ۲ ؎الدولۃ المکیہ    النظرالثانی         مطبعہ اہلِ سنت بریلی             ص ۱۶)

 

 (۶) اسی کی نظر ثالث میں ہے : العلم الذاتی والمطلق والمحیط التفصیلی مختص باﷲ تعالٰی وماللعباد الامطلق العلم العطائی  ۳ ؎۔ علم ذاتی اور بالاستیعاب محیط تفصیلی یہ اﷲ عزوجل کے ساتھ خاص ہیں بندوں کے لیے صرف ایک گُونہ علم بعطائے الہٰی ہے۔

 

 ( ۳ ؎الدولۃ المکیہ    النظرالثالث    مطبعہ اہلِ سنت بریلی     ص ۱۹)

 

 (۷) اسی کی نظر خامس میں ہے : لانقول بمساواۃ علم اﷲ تعالٰی ولا بحصولہ بالاستقلال ولا نثبت بعطاء اﷲ تعالٰی ایضاً الا البعض ۴ ؎۔ ہم نے علمِ الہٰی سے مساوات مانیں نہ غیر کے لیے علم بالذات جانیں،  اور عطائے الہٰی سے بھی بعض علم ہی ملنا مانتے ہیں نہ کہ جمیع۔

 

 ( ۴ ؎الدولۃ المکیہ   النظرالخامس    مطبعہ اہلِ سنت بریلی   ص ۲۸)

 

میرا مختصر فتوٰی ابناء المصطفٰی بمبئی مراد آباد میں تین بار ۱۳۱۸ھ سے ہزاروں کی تعداد میں طبع ہو کر شائع ہوا،  ایک نسخہ اسی کا کہ رسالہ الکلمۃ العلیا(ف) کے ساتھ مطبوع ہوا مرسل خدمت ہے،  اس سے بڑھ کر جس امر کا اعتقاد میری طرف کوئی نسبت کرے مفتری کذاب ہے اوراﷲ کے یہاں اس کا حساب۔

 

ف : الکلمۃ العلیا مصنفہ صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ

 

امر دوم

بندوں کو علم غیب عطا ہونے کی سندیں اور آیاتِ نفی کی مراد

 

انہیں عبارات سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ علمِ غیب کا خاصہ حضرتِ عزت ہونا بے شک حق ہے،  اور کیوں نہ ہو کہ رب عزوجل فرماتا ہے : قل لایعلم من فی السمٰوٰت والارض الغیب الااﷲ ۱ ؎۔ تم فرمادو کہ آسمانوں اور زمین میں اﷲ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔

 

 ( ۱ ؎ القرآن الکریم         ۲۷ /۶۵ )

 

اور اس سے مراد وہی علم ذاتی و علم محیط ہے کہ وہی باری عزوجل کے لیے ثابت اور اس سے مخصوص ہیں۔ علم عطائی کہ دوسرے کا دیا ہوا ہو۔ علم غیر محیط کہ بعض اشیاء سے مطلع بعض سے ناواقف ہو،  اﷲ عزوجل کے لیے ہو ہی نہیں سکتا،  اس سے مخصوص ہونا تو دوسرا درجہ ہے،  اوراﷲ عزوجل کی عطا سے علوم غیب غیر محیط کا انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کوملنا بھی قطعاً حق ہے،  اور کیوں نہ ہو کہ رب عزوجل فرماتاہے۔  (۱) وماکان اﷲ لیطلعکم علی الغیب وٰلکن اﷲ یجتبی من رسلہ من یشاء ۲ ؎۔ اﷲ اس لیے نہیں کہ تم لوگوں کو غیب پر مطلع کرے ہاں اﷲ اپنے رسولوں سے جسے چاہتا ہے چُن لیتا ہے۔

 

(۲) اور فرماتا ہے : عالم الغیب فلا یظھر علٰی غیبہ احدًا الّا من ارتضٰی من رسول۳ ؎۔ اﷲ عالم الغیب ہے تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتاسوا اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔

 

(۳) اور فرماتا ہے : وماھو علی الغیب بضنین ۴ ؎۔ یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں۔

 

(۴) اور فرماتا ہے : ذٰلک من انباء الغیب نُوحیہ الیک ۵ ؎۔ اے نبی ! یہ غیب کی باتیں ہم تم کو مخفی طور پر بتاتے ہیں۔

 

(۵) حتی کہ مسلمانوں کو فرماتا ہے : یؤمنون بالغیب ۱ ؎۔ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔

 

(۲ ؎ القرآن الکریم         ۳ / ۱۷۹) ( ۳ ؎ القرآن الکریم  ۷۳ /۲۷  )

(۴ ؎القرآن الکریم ۸۱ /۲۴)  ( ۵ ؎ القرآن الکریم     ۱۲ /۱۰۲ )

 ( ۱ ؎ القرآن الکریم  ۲ /۳)

 

ایمان تصدیق ہے اور تصدیق علم ہے جس شیئ کا اصلاً علم ہی نہ ہو اس پر ایمان لانا کیونکر ممکن،  لاجرم تفسیر کبیر میں ہے۔  (۶) لایمتنع ان تقول نعلم من الغیب مالنا علیہ دلیل ۲ ؎۔ یہ کہنا کچھ منع نہیں کہ ہم کو اس غیب کا علم ہے جس میں ہمارے لیے دلیل ہے۔

 

 ( ۲ ؎ مفاتیح الغیب    (التفسیر الکبیر)       تحت آیۃ ۲ /۳  المطبعۃ البہیۃ المصریہ مصر   ۲ /۲۸)

 

 (۷) نسیم الریاض میں ہے  : لم یکلفنا اﷲ الایمان بالغیب الّاوقد فتح لنا باب غیبہ  ۳ ؎۔ ہمیں اﷲ تعالٰی نے ایمان بالغیب کا جبھی حکم دیا ہے کہ اپنے غیب کا دروازہ ہمارے لیے کھول دیا ہے۔

 

 ( ۳ ؎نسیم الریاض    فصل ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب   مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند  ۳ /۱۵۱)

 

فقیر نے تو رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے کہا تھا یہائمہ،  علماء جو اپنے لیے مان رہے ہیں معلوم نہیں کہ مخالفین ان پر کون سا حکم جڑیں۔

 

(۸ و ۹) امام شعرانی کتاب الیواقیت والجواہر میں حضرت شیخ اکبر سے نقل فرماتے ہیں : للمجتہدین القدم الراسخ  فی علوم الغیب  ۴ ؎۔ علم غیب میںائمہ مجتہدین کے لیے مضبوط قدم ہے۔

 

 ( ۴ ؎الیواقیت والجواہر     البحث التاسع والاربعون     داراحیاء التراث العربی بیروت       ۲ /۴۸۰)

 

 (۱۰ و ۱۱) مولٰنا علی قاری ( کہ مخالفین براہِ نافہمی اس مسئلہ میں ان سے سند لاتے ہیں) مرقاۃ شرح مشکوۃ شریف میں کتاب عقائد تالیف حضرت شیخ ابوعبداﷲ شیرازی سے نقل فرماتے ہیں : نعتقدان العبدینقل فی الاحوال حتی یصیر الی نعت الروحانیۃ فیعلم الغیب  ۵ ؎۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ بندہ ترقیِ مقامات پا کر صفتِ روحانی تک پہنچتا ہے اس وقت اسے علمِ غیب حاصل ہوتا ہے۔

 

 ( ۵ ؎مرقاۃ المفاتیح         کتاب الایمان الفصل الاول         تحت حدیث ۲     المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ   ۱ /۱۲۸)

 

 (۱۲) یہی علی قاری مرقاۃ میں اُسی کتاب سے ناقل : یطلع العبدعلٰی حقائق الاشیاء ویتجلّی لہ الغیب وغیب الغیب ۱ ؎۔ نورِ ایمان کی قوت بڑھ کر بندہ حقائق اشیاء پر مطلع ہوتا ہے اور اس پر غیب نہ صرف غیب بلکہ غیب کا غیب روشن ہوجاتا ہے۔

 

 ( ۱ ؎مرقاۃ المفاتیح   کتاب الایمان   الفصل الاول تحت حدیث ۲   المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ   ۱ /۱۱۹)

 

 (۱۳) یہی علی قاری اسی مرقاۃ میں فرماتے ہیں : الناس ینقسم الٰی فطن یدرک الغائب کالمشاھد وھم الانبیاء والٰی من الغالب علیھم متابعۃ الحس ومتابعۃ الوھم فقط وھم اکثر الخلائق فلا بدّلھم من معلم یکشف لھم المغیبات وما ھو الاالنبی المبعوث لھذا الامر  ۲ ؎۔ آدمی دو قسم کے ہوتی ہیں، ایک وہ زیرک کہ غیب کہ مشاہد کی طرح جانتے ہیں اور یہ انبیاء ہیں،  دوسرے وہ جن پر صرف حس و وہم کی پیروی غالب ہے اکثر مخلوق اسی قسم کی ہے۔ تو ان کو ایک بتانے والے کی ضرورت ہے جو ان  پر غیبوں کوکھول دے اور وہ بتانے والا نہیں مگر نبی کہ خود اس کام کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

 

 ( ۲ ؎مرقاۃ المفاتیح     کتاب الایمان     الفصل الاول تحت حدیث ۲    المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۱ /۱۲۰)

 

 (۱۴ و ۱۵) یہی علی قاری شرح فقہ اکبر میں حضرت ابو سلیمان دارانی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ناقل : الفراسۃ مکاشفۃ النفس ومعاینۃ الغیب وھی من مقامات الایمان ۳ ؎۔ فراستِ مومن (جس کا ذکر حدیث میں ارشاد ہوا ہے) وہ رُوح کا کشف اورغیب کا معائینہ ہے ۔ اور یہ ایمان کے مقاموں میں سے ایک مقام ہے۔

 

( ۳ ؎منح الروض الازہر   شرح الفقہ الاکبر   خوارق العادات الخ   مصطفٰی البابی مصر ص ۸۰)

 

 (۱۶ و ۱۷) امام ابن حجر مکّی کتاب الاعلام،  پھر علامہ شامی سل الحسام میں فرماتے ہیں:   الخواص یجوزان ان یعلمواالغیب فی قضیۃ اوقضایاکما وقع لکثیر منھم و اشتھر ۴ ؎۔ جائز ہے کہ اولیاء کو کسی واقعے یا وقائع میں علم غیب ملے جیسا کہ ان میں بہت کے لیے واقع ہو کر مشتہر ہوا۔

 

 ( ۴ ؎الاعلام بقواطع الاسلام    مکتبۃ الحقیقۃ بشارع دارالشفقۃ    استنبول ترکی  ص۳۵۹)

( سل الحسام   رسالہ من رسائل ابن عابدین   سہیل اکیڈیمی لاہور  ۲ /۳۱۱)

 

 (۱۸ و ۱۹) تفسیر معالم وتفسیر خازن میں زیر قولہ تعالٰی : وما ھو علی الغیب بضنین  ۵ ؎۔ ہے۔   یقول انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یاتیہ علم الغیب فلا یبخل بہ علیکم بل یعلّمکم ۱ ؎۔ یعنی اللہ عزوجل فرماتا ہے  : میرے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو غیب کا علم آتا ہے وہ تمہیں بتانے میں بخل نہیں فرماتے بلکہ تم کو بھی اس کا علم دیتے ہیں۔

 

 ( ۵ ؎القرآن الکریم       ۸۱ /۲۴)

( ۱ ؎معالم التنزیل    تحت آیۃ         ۸۱ /۲۴   دارالکتب العلمیہ بیروت        ۴ /۴۲۲)

(لباب التاویل فی معانی التنزیل     (تفسیر الخازن)    ۴ /۳۹۹)

 

 (۲۰) تفسیر بیضاوی زیر قولہ تعالٰی : "وعلمنٰہ من لدنا علما" ۲؂ ہے۔ ای مما یختص بنا ولا یعلم الابتوفیقنا وھو علم الغیوب۳ ؎۔ یعنی اللہ عزوجل فرماتا ہے وہ علم کہ ہمارے ساتھ خاص ہے اور بے ہمارے بتائے ہوئے معلوم نہیں ہوتا وہ علمِ غیب ہم نے خضر کو عطا فرمایا ہے۔

 

 ( ۲ ؎ القرآن لکریم       ۱۸ /۶۵)

( ۳ ؎ انوارالتنزیل   (تفسیرالبیضاوی)         تحت آیۃ ۱۸/۶۵        دارالفکربیروت            ۳ /۵۱۰)

 

 (۲۱) تفسیر ابن جریر میں حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے۔ قال انّک لن تستطیع معی صبرا،  وکان رجلا یعلم علم الغیب قد علم ذٰلک ۴ ؎۔ حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام نے موسٰی علیہ السلام سے کہا : آپ میرے ساتھ نہ ٹھہر سکیں گے۔ خضر علمِ غیب جانتے تھے انہیں علم غیب دیا گیا تھا۔

 

 ( ۴ ؎ جامع البیان   (تفسیر الطبری)         تحت آیۃ ۱۸/ ۶۷        داراحیاء التراث العربی بیروت        ۱۵ /۳۲۳)

 

 (۲۲) اُسی میں ہے عبداﷲ ابن عباس نے فرمایا : خضر علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا : لم تحط من علم الغیب بما اعلم  ۵ ؎۔ جو علم غیب میں جانتا ہوں آپ کا علم اُسے محیط نہیں۔

 

 ( ۵ ؎ جامع البیان    (تفسیر الطبری)         تحت آیۃ ۱۸ /۶۸        داراحیاء التراث العربی بیروت        ۱۵ /۳۲۳)

 

 (۲۳) امام قسطلانی مواہب لدنیہ شریف میں فرماتے ہیں : النبوۃ التی ھی الاطلاع علی الغیب ۶ ؎۔ نبوت کے معنی ہی یہ ہیں کہ علم غیب جاننا۔

 

( ۶ ؎ المواہب اللدنیہ   المقصد الثانی   الفصل الاول  المکتب الاسلامی بیروت  ۲ /۴۷)

 

 (۲۴) اُسی میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اسم مبارک نبی کے بیان میں فرمایا : النبوأۃ ماخوذۃ من النباء وھوالخبر ای ان اﷲ تعالٰی اطلعہ علٰی غیبہ  ۷ ؎۔ حضور کو نبی اس لیے کہا جاتا ہے کہ اﷲ تعالٰی نے حضور کو اپنے غیب کا علم دیا۔

 

( ۷ ؎ المواہب اللدنیہ     المقصد الثانی     الفصل الاول    المکتب الاسلامی بیروت        ۲ /۴۵ و ۴۶)

 

 (۲۵) اُسی میں ہے : قداشتھروانتشر امرہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بین اصحابہ بالاطلاع علی الغیوب ۱ ؎۔ بے شک صحابہ کرام میں مشہورو معروف تھا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو غیبوں کا علم ہے۔

 

 ( ۱ ؎ المواہب اللدنیۃ    المقصد الثامن    الفصل الثالث     المکتب الاسلامی بیروت     ۳ /۵۵۴)

 

 (۲۶) اُسی کی شرح زرقانی میں ہے : اصحابہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جازمون باطلاعہ علی الغیب "  ۲ ؎۔ صحابہ کرام یقین کے ساتھ حکم لگاتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو غیب کا علم ہے۔

 

 ( ۲ ؎ شرح الزرقانی    علی المواہب الدنیۃ  الفصل الثالث  دارالمعرفۃ بیروت  ۷ /۲۰۰)

 

 (۲۷) علی قاری شرہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں :   " علمہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حاو لفنون العلم (الٰی ان قال) ومنہا علمہ بالامور الغیبیۃ "۳ ؎۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا علم اقسام علم کو حاوی ہے غیبوں کا علم بھی علمِ حضور کی شاخوں سے ایک شاخ ہے۔  ( ۳ ؎ الزبدۃ العمدۃ     شرح البردۃ تحت شعرو واقفون لدیہ عندحدّھم جمعیۃ علماء   سکندریہ خیر پور سندھ   ص ۵۷)

 

 (۲۸) تفسیر امام طبری اور تفسیر درمنثور میں بروایت ابوبکر بن ابی شیبہ استاذ امام بخاری و مسلم وغیرہائمہ محدثین سیدنا امام مجاہد تلمیذ خاص حضرت سیدنا عبداﷲ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ہے : "  انہ قال فی قولہ تعالٰی ولئن سألتھم لیقولن انما کنّا نخوض ونلعب قال رجل من المنافقین یحدثنا محمد ان ناقۃ فلان بوادی کذا وکذا وما یدریہ بالغیب "  ۴ ؎۔ انہوں نے فرمایا اﷲ کے قول "  ولئن سالتھم "  الخ کی تفسیر میں کہ منافقین میں سے ایک شخص نے کہا کہ محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)  ہم سے بیان کرتے ہیں کہ فلاں کی اونٹنی فلاں فلاں وادی میں ہے بھلا وہ غیب کی باتیں کیا جانیں۔(ت)

 

 ( ۴ ؎ جامع البیان   (تفسیر الطبری)   تحت آیۃ ۹ /۶۵     داراحیاء التراث العربی بیروت         ۱۰ /۱۹۶)

(الدرالمنثور   بحوالہ ابن ابی شیبہ وغیرہ     تحت آیۃ ۹/  ۶۵   داراحیاء التراث العربی بیروت         ۴ /۲۱۰)

 

یعنی کسی کا ناقہ گم ہوگیا تھا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ "  وہ فلاں جنگل میں ہے "  ایک منافق بولا"  محمد غیب کیا جانیں"  اسی پر اللہ عزوجل نے یہ آیتِ کریمہ اتاری کہ ان سے فرمادیجئے کہ "  اللہ اور اس کے رسول اور اس کی آیتوں سے ٹھٹھاکرتے ہو،  بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے ایمان کے بعد۔

حضرت ملاحظہ فرمائیں کہ یہ آیت مخالفین پر کیسی آفت ہے۔

 

وہابیہ پر غضبوں کی ترقیاں

 

پہلا غضب:  ان پرائمہ کے اقوال تھے کہ دریا سے قطرہ عرض کیے ان پر تو یہیں تک تھا کہ یہ سبائمہ دین ان مخالفینِ دین کے مذہب پر معاذاﷲ کافر و مشرک ٹھہرتے ہیں۔

دوسرا غضب :  اس سے زیادہ آفت اُس حدیث ابن عباس میں تھی کہ معاذ اﷲ عبداﷲ ابن عباس خضر علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے علمِ غیب بتا کر کافر قرار پاتے ہیں۔

تیسرا غضب : اُس سے عظیم تر اشد آفت مواہب شریف اور زرقانی کی عبارات میں تھی کہ نہ صرف عبداللہ ابن عباس بلکہ عام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علمِ غیب پر ایمان لا کر وہابیہ کے دھرم میں کافر ہوئے جاتے ہیں۔

 

چوتھا غضب : اس سے سخت تر ہولناک آفت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی دوسری حدیث میں تھی کہ سیدنا خضر علیہ الصلوۃ والسلام نبی ہیں خود اپنے لیے علمِ غیب بتا کر معاذ اللہ ( حاکم بدہن وہابیہ) کا فر ٹھہرتے ہیں۔

 

پانچواں غضب : اُس سے بھی انتہا درجہ کی حد سے گزری ہوئی آفت کہ سیدنا موسٰی کلیم اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام کہ اجماعاً قطعاً ،  یقینا،  ایماناً اللہ کے رسول و نبی اور اولواالعزم من الرسل سے ہیں وہابیہ کی تکفیر سے کہاں بچتے ہیں۔

خضر علیہ الصلوۃ والسلام نے خود ان سے کہا کہ مجھے علمِ غیب ہے جو آپ کو نہیں ،  اور موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر کچھ انکار نہ فرمایا۔ کیا اس پر ایک وہابی نہ کہے گا کہ افسوس ایک ناؤ کا تختہ توڑ دینے یا گرتی دیوار بے اُجرت سیدھی کردینے پر وہ اعتراض کہ باوصفِ  وعدہ صبر نہ ہوسکا اور وہابی شریعت کی رُو سے منہ بھر کلمہ کفر سُنا اور شربت کا گھونٹ پی کر چپ رہے۔

خیر ،ان سب آفتوں کا وہابیہ کے پاس تین کہاوتوں سے علاج تھا۔

 

موسٰی علیہ الصلوۃوالسلام نے حضرت خضر کے لیے علم غیب تسلیم کیا تو وہابیہ کہہ سکتے تھے کہ موسٰی بددین خود مایاں بددین خود ،  حضرت خضر علیہ الصلوۃو السلام نے اپنے لیے علم غیب بتایا تو وہ اس شیطانی مثل کی آڑ لے سکتے تھے کہ ناؤ کس نے ڈبوئی،  خواجہ  خصر نے۔

ابن عباس وصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے علم غیب جانا تو کسی دہن دریدہ وہابی کو کہتے کیا لگتا کہ :

 

پیراں نمی پرند مریداں مے پرانند  (پیر نہیں اُڑتے بلکہ مرید انہیں اڑاتے ہیں۔ت) لعنۃ اﷲ علی الظلمین  ( ظالموں پر اﷲ تعالٰی کی لعنت،  ت)

 

مگر چھٹا غضب : دُھر کی قیامت تو خود اﷲ واحد قہار نے ڈھادی،  پورا قہر اس آیۃ کریمہ اور اس کی شانِ نزول نے توڑا۔ یہاں اﷲ عزوجل یہ حکم لگارہا ہے کہ جو شخص رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی غیب دانی سے منکر ہو وہ کافر ہے،  وہ اﷲ و رسول سے ٹھٹھا کرتا ہے،  وہ کلمہ گوئی کرکے مرتد ہوتا ہے،  افسوس کہ یہاں اس چوتھی مثل کے سوا کچھ گنجائش نہیں کہ ؎ مازیاران چشم یاری داشتیم                                                                                  خود غلط بود آنچہ ماپندا شتیم

 

 (ہم نے دوستوں سے دوستی کی امید رکھی تھی جو کچھ ہم نے گمان کیا وہ خود غلط تھا۔ت)

بھلا جس خدا کی توحید بنی رکھنے کے لیے نبی سے بگاڑی،  رسولوں سے بگاڑی،  سب کے علم پر دولتی جھاڑی ،  غضب ہے وہی خدا وہابیہ کو چھوڑ کر رسول کا ہوجائے،  الٹا وہابیہ پر حکم کفر لگائے،  سچ ہے اب کسی سے دوستی کا دھرم نہ رہا،  معلوم نہیں کہ اب مخالفین اپنے سرگروہوں کا فتوٰی مانتے ہیں یا اﷲ واحد قہار کا،   ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ  (نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی و عظمت والے خدا کی طرف سے ، ت)

 

امر سوم

ذاتی و عطائی کی جانب علم کا انقسام اور علماء کی تصریحات

 

مخالفین کو تو محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضائل کریمہ کی دشمنی نے اندھا بہرا کردیا،  انہیں حق نہیں سوجھتا مگر تھوڑی سی عقل والا سمجھ سکتا ہے کہ یہاں کچھ بھی دشواری نہیں۔

علم یقیناً اُن صفات میں سے ہے کہ غیر خدا کو بعطائے خدا مل سکتا ہے،  توذاتی وعطائی کی طرف اس کا انقسام یقینی،  یونہی محیط وغیر محیط کی تقسیم بدیہی،  ان میں اﷲ عزوجل کے ساتھ خاص ہونے کے قابل صرف ہر تقسیم کی قسم اول ہے یعنی علم ذاتی وعلم محیط حقیقی۔

 

تو آیاتِ واحادیث واقوال علماء جن میں دوسرے کے لیے اثباتِ علم غیب سے انکارہے ان میں قطعاً یہی قسمیں مراد ہیں۔ فقہا کہ حکمِ تکفیر کرتے ہیں انہیں قسموں پر حکم لگاتے ہیں کہ آخر مبنائے تکفیر یہی تو ہے کہ خدا کی صفتِ خاصہ دُوسرے کے لیے ثابت کی۔ اب یہ دیکھ لیجئے کہ خدا کے لیے علم ذاتی خاص ہے یا عطائی،  حاشا ﷲ علم عطائی خدا کے ساتھ ہونا درکنار خدا کے لیے محال قطعی ہے کہ دوسرے کے دیئے سے اسے علم حاصل ہو پھر خدا کے لیے علم محیط حقیقی خاص ہے یا غیر محیط،  حاشاﷲ علم محیط خدا کے لیے محال قطعی ہے جس میں بعض معلومات مجہول رہیں،  تو علمِ عطائی غیر محیط حقیقی غیر خدا کے لیے ثابت کرنا خدا کی صفتِ خاصہ ثابت کرنا کیونکر ہوا۔ تکفیر فقہاء اگر اس طرف ناظر ہو تو معنی یہ ٹھہریں گے کہ دیکھو تم غیر خدا کے لیے وہ صفت ثابت کرتے ہو جو زنہار خدا کی صفت نہیں ہوسکتی لہذا کافر ہو یعنی وہ صفت غیر کے لیے ثابت کرنی چاہیے تھی جو خاص خدا کی صفت ہے،  کیا کوئی احمق ایسا اخبث جنون گوارا کرسکتا ہے۔ " ولٰکن النجدیۃ قوم لایعقلون " (لیکن نجدی بے عقل قوم ہے۔ت)

 

 (۲۹ و ۳۰) امام ابن حجر مکی فتاوٰی حدیثیہ میں فرماتے ہیں : وما ذکرناہ فی الاٰیۃ صرح بہ النووی رحمۃ اﷲ تعالٰی فی فتاواہ فقال معناھا لایعلم ذٰلک استقلا لاً وعلم احاطۃ بکل المعلومات الاّ اﷲ تعالی ۱ ؎۔ یعنی ہم نے جو آیاتِ کی تفسیر کی امام نووی رحمۃ اﷲ تعالٰی نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصریح کی،  فرماتے ہیں آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ غیب کا ایسا علم صرف خدا کو ہے جو بذاتِ خود ہو اور جمیع معلومات کو محیط ہو۔

 

 ( ۱ ؎فتاوٰی حدیثیہ   مطلب فی حکم مااذا قال فلان یعلم الغیب   مصطفٰی البابی مصر        ص ۲۲۸)

 

 (۳۱) نیز شرح ہمزیہ میں فرماتے ہیں : انہ تعالٰی اختص بہ لکن من حیث الاحاطۃ فلا ینافی ذلک اطلاع اللہ تعالٰی لبعض خواصہ علٰی کثیر من المغیبات حتی من الخمس التی قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فیھن خمس لا یعلمھن الا اللہ ۲ ؎۔ غیب اﷲ کے لیے خاص ہے مگر بمعنی احاطہ تو اس کے منافی نہیں کہ اﷲ تعالٰی نے اپنے بعض خاصوں کو بہت سے غیبوں کا علم دیا یہاں تک کہ ان پانچ میں سے جن کو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔

 

( ۲ ؎افضل القراء القراء ام القرٰی    تحت شعرلک ذات العلوم الخ      مجمع الثقافی ابوظبی       ۴۴  ۔ ۱۴۳)

 

 (۳۲) تفسیر کبیر میں ہے : قولہ ولا اعلم الغیب یدل علی اعترافہ بانہ غیر عالم بکل المعلومات ۱ ؎۔ یعنی آیت میں جو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ کو ارشاد ہوا تم فرمادو میں غیب نہیں جانتا،  اس کے یہ معنی ہیں کہ میرا علم جمیع معلومات الہٰیہ کو حاوی نہیں۔

 

 ( ۱ ؎ مفاتیح الغیب)

 

 (۳۳ و۳۴) امام قاضی عیاض شفا شریف اور علامہ شہاب الدین خفا جی اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں۔  (ھذہ المعجزۃ) فی اطلاعہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی الغیب (المعلومۃ علی القطع) بحیث لایمکن انکارھا اوالتردد فیہا  لا حدٍ من العقلاء (لکثرۃ رواتھا  واتفاق معانیھا علی الاطلاع علی الغیب) وھذالاینافی الاٰیات الدالۃ علی انہ لایعلم الغیب الا اﷲ وقولہ ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر فان المنفی علمہ من غیرواسطۃ وامّا اطلاعہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم علیہ با علام اﷲ تعالٰی لہ فامرمتحقق بقولہ تعالٰی فلایظھر علٰی غیبہ احداً الّا من ارتضٰی من رسول "۲ ؎۔

 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا معجزہ علم غیب یقیناً ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردّد کی گنجائش نہیں کہ اس میں احادیث بکثرت آئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور یہ ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ اﷲ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس کہنے کا حکم ہوا کہ میں غیب جانتا تو اپنے لیے بہت خیر جمع کرلیتا ،  اس لیے کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو بغیر خدا کے بتائے ہو اور اﷲ تعالٰی کے بتائے سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو علم غیب ملنا تو قرآن عظیم سے ثابت ہے،  کہ اﷲ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوا اپنے پسندیدہ رسول کے۔

 

 ( ۲ ؎نسیم الریاض شرح الشفا للقاضی عیاض ومن ذٰلک ما اطلع علیہ من الغیوب     مرکز اہلسنت برکات رضا     ۳ /۱۵۰)

 

(۳۵) تفسیر نیشا پوری میں ہے : لا اعلم الغیب فیہ دلالۃ علی ان الغیب بالاستقلال لا یعلمہ الّا اﷲ۳ ؎۔ آیت کے یہ معنی ہیں کہ علم غیب جو بذاتِ خود ہو وہ خدا کے ساتھ خاص ہے۔

 

 ( ۳ ؎غرائب القرآن (تفسیرالنیسابوری)     تحت آیۃ ۶ /۵۰            مصطفٰی البابی مصر         ۶ /۱۱۰)

 

 (۳۶) تفسیر انموذج جلیل میں ہے : " معناہ لایعلم الغیب بلادلیل الا اﷲ اوبلا تعلیم الا اﷲ اوجمیع الغیب الااﷲ"  ۱ ؎۔ آیت کے یہ معنی ہیں کہ غیب کو بلادلیل و بلا تعلیم جاننا یا جمیع غیب کو محیط ہونا یہ اﷲ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے۔

 

 ( ۱ ؎)

 

 (۳۷) جامع الفصولین میں ہے : یجاب بانہ یمکن التوفیق بان المنفی ھو العلم بالاستقلال لا العلم بالاعلام اوالمنفی ھو المجزوم بہ لا المظنون ویؤیدہ،  قولہ تعالٰی اتجعل فیہا من یفسد فیھا الاٰیۃ لانّہ غیب اخبر بہ الملٰئکۃ ظنا منھم اوبا علام الحق فینبغی ان یکفر لوادعاہ مستقلاً  لا لو اخبربہ باعلام فی نومہ اویقظتہ بنوع من الکشف اذلامنافاۃ بینہ وبین الاٰیۃ لما مرّمن التوفیق  ۲ ؎۔

 

 (یعنی فقہانے دعوی علم غیب پر حکمِ کفر کیا اور حدیثوں اورآئمہ ثقات کی کتابوں میں بہت غیب کی خبریں موجود ہیں جن کا انکار نہیں ہوسکتا) اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ فقہاء نے اس کی نفی کی ہے کہ کسی کے لیے بذاتِ خود علم غیب مانا جائے، خدا کے بتائے سے علمِ غیب کی نفی نہ کی،  یا نفی قطعی کی ہے نہ ظنی کی،  اور اس کی تائید یہ آیت کریمہ کرتی ہے،  فرشتوں نے عرض کیا تُو زمین میں ایسوں کو خلیفہ کرے گا جو اس میں فساد و خونریزی کریں گے۔ ملائکہ غیب کی خبر بولے مگر ظناً یا خدا کے بتائے سے،  تو تکفیر اس پر چاہیے کہ کوئی بےخدا کے بتائے سے ،  تو تکفیر اس پر چاہیے کہ کوئی بے خدا کے بتائے علمِ غیب ملنے کا دعوٰی کرے نہ یوں کہ براہِ کشف جاگتے یا سوتے میں خدا کے بتائے سے،  ایسا علمِ غیب آیت کے کچھ منافی نہیں۔

 

 ( ۲ ؎ جامع الفصولین     الفصل الثامن والثلاثون     اسلامی کتب خانہ کراچی        ۲ /۳۰۲)

 

 (۳۸ و ۳۹) ردالمحتار میں امام صاحبِ ہدایہ کی مختارات النوازل سے ہے :   لوادعٰی علم الغیب بنفسہ یکفر  ۱ ؎۔ اگر بذاتِ خود علم غیب حاصل کرلینے کا دعوٰی کرے تو کافر ہے۔

 

 ( ۱ ؎ ردالمحتار     کتاب الجہاد    باب المرتد     داراحیاء التراث العربی بیروت        ۳ /۲۹۷)

 

 (۴۰ تا ۴۴) اسی میں ہے : قال فی التتار خانیۃ وفی الحجۃ ذکر فی الملتقط انہ لایکفر لان الاشیاء تعرض علٰی  روح  النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وان الرسل یعرفون بعض الغیب قال اﷲ تعالٰی عالم الغیب فلا یظہر علٰی غیبہ احد ا الامن ارتضٰی من رسول اھ قلت بل ذکروا فی کتب العقائد ان من جملۃ کرامات الاولیاء الاطلاع علی بعض المغیبات و ردوا علی المعتزلۃ المستدلین بھذہ الاٰیۃ علٰی نفیھا ۲ ؎۔

 

تاتارخانیہ میں ہےکہ فتاوی حجہ میں ہے،  ملتقط میں فرمایا :کہ "جس نے اﷲ ورسول کو گواہ کرکے نکاح کیا کافر نہ ہوگا۔ اس لیے کہ اشیاء نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روحِ مبارک پر عرض کی جاتی ہیں اور بے شک رسولوں کو بعض علم غیب ہے،  اﷲ تعالٰی فرماتا ہے غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا۔ مگر اپنے پسندیدہ رسولوں کو"  علامہ شامی نے فرمایا کہ بلکہائمہ اہلسنت نے کتبِ عقائد میں فرمایا کہ بعض غیبوں کا علم ہونا اولیاء کی کرامت سے ہے اور معتزلہ نے اس آیت کو اولیاء کرام سے اس کی نفی پر دلیل قرار دیا۔ ہمارےائمہ نے اس کا رَد کیا یعنی ثابت فرمایا کہ آیہ کریمہ اولیاء سے بھی مطلقاً علم غیب کی نفی نہیں فرماتی ۔

 

 ( ۲ ؎ ردالمحتار   کتاب النکاح   قبیل فصل فی المحرمات   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۲۷۶)

 

 (۴۵) تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان میں ہے : لم ینف الاالدرایۃ من قبل نفسہ وما نفی الدرایۃ من جھۃ  الوحی ۳؎ ۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی ذات سے جاننے کی نفی فرمائی ہے خدا کے بتائے سے جاننے کی نفی نہیں فرمائی۔

 

 ( ۳ ؎ غرائب القرآن  (تفسیر النیساپوری)  تحت آیۃ ۴۶ /۹     مصطفٰی البابی مصر   ۸ /۲۶ )

 

 (۴۶ و ۴۷) تفسیر جمل شرح جلالین و تفسیر خازن میں ہے : المعنی لا اعلم الغیب الا ان یطلعنی اﷲ تعالٰی علیہ  ۱ ؎۔ آیت میں جو ارشاد ہوا کہ میں غیب نہیں جانتا۔ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ میں بے خدا کے بتائے نہیں جانتا۔

 

 ( ۱ ؎لباب التاویل (تفسیر الخازن)        تحت الآیۃ ۷ /۱۸۸  ، ۲ /۲۸۰    والفتوحات (تفسیرالجمل)        ۳ /۱۵۸)

 

 (۴۸) تفسیر البیضاوی میں ہے : لااعلم الغیب مالم یوح الی ولم ینصب علیہ دلیل ۲ ؎۔ آیت کے یہ معنی ہیں کہ جب تک کوئی وحی یا کوئی دلیل قائم نہ ہو مجھے بذاتِ خود غیب کا علم نہیں ہوتا۔

 

 ( ۲ ؎ انوارالتنزیل (تفسیر البیضاوی )     تحت آیۃ ۶ /۵۰     دارالفکر بیروت    ۲ /۴۱۰)

 

(۴۹) تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے :   وعندہ مفاتیح الغیب وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لایعلمھا کما ھی ابتداءً الاّ ھو  ۳ ؎۔ یہ جو آیت میں فرمایا کہ غیب کی کنجیاں اﷲ ہی کے پاس ہیں اُس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا اس خصوصیت کے یہ معنی ہیں کہ ابتداء ً بغیر بتائے ان کی حقیقت دوسرے پر نہیں کھلتی۔

 

 ( ۳ ؎ عنایۃ القاضی علٰی تفسیر البیضاوی         تحت آیتہ ۶ /۵۸    داراصادر بیروت   ۴ /۷۳)

 

(۵۰) تفسیر علامہ نیشاپوری میں ہے : ( قل لا اقول لکم ) لم یقل لیس عندی خزائن ا ﷲ لیعلم ان خزائن اﷲ وھی العلم بحقائق الاشیاء وما ھیاتھا عندہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باستجابۃ دعاء ہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی قولہ ارنا الا شیاء کما ھی ولکنہ یکلم الناس علٰی قدر عقولھم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمت ماکان وما سیکون ا ھ مختصراً  ۱ ؎۔

 

یعنی ارشاد ہوا کہ اے نبی ! فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالٰی کے خزانے ہیں،  یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں۔ بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس ہیں،  تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کے خزانے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس ہیں مگر حضور لوگوں سے انکی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں،  اور وہ خزانے کیا ہیں،  تمام اشیاء کی حقیقت و ماہیت کا علم حضور نے اسی کے ملنے کی دعا کی اور اللہ عزوجل نے قبول فرمائی پھر فرمایا : میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے،  ورنہ حضور تو خود فرماتےہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے انتہی۔

 

 ( ۱ ؎غرائب القرآن     (تفسیر النیسابوری)   تحت آلایۃ  ۶ /۵۰    مصطفٰی البابی مصر    ۷ /۱۱۲)

 

الحمدﷲ اس آیہ ئکریمہ کی " فرمادو میں غیب نہیں جانتا"  ایک تفسیر وہ تھی جو تفسیر کبیر سے گزری کہ احاطہ جمیع غیوب کی نفی ہے،  نہ کہ غیب کا علم ہی نہیں۔

دوسری وہ تھی جو بہت کتب سے گزری کہ بے خدا کے بتائے جاننے کی نفی ہے نہ یہ کہ بتائے سے بھی مجھے علم غیب نہیں۔

اب بحمدﷲ تعالٰی سب سے لطیف تر یہ تیسری تفسیر ہے کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ مجھے علم غیب ہے،  اس لیے کہ اے کافرو ! تم ان باتوں کے اہل نہیں ہو ورنہ واقع میں مجھے ماکان ومایکون کا علم ملا ہے۔ والحمدﷲ رب العلمین۔

 

امر چہارم

علمِ غیب سے متعلق اجماعی مسائل

 

یہاں تک جو کچھ معروض ہوا جمہورائمہ دین کا متفق علیہ ہے۔

(۱) بلاشبہ غیر خدا کے لیے ایک ذرہ کا علم ذاتی نہیں اس قدر خود ضروریات دین سے اور منکر کافر۔

(۲) بلاشبہ غیر خدا کا علم معلومات الہیہ کو حاوی نہیں ہوسکتا،  مساوی درکنار تمام اولین و آخرین و انبیاء و مرسلین و ملائکہ و مقربین سب کے علوم مل کر علوم الہیہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو کروڑ ہا کروڑ سمندروں سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں حصے کو کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصہ دونوں متناہی ہیں،  اور متناہی کو متناہی سے نسبت ضرور ہے بخلاف علوم الہیہ کو غیر متناہی در غیر متناہی در غیر متناہی ہیں۔ اور مخلوق کے علوم اگر چہ عرش و فرش شرق و غرب و جملہ کائنات از روزِ اول تا روزآخر کو محیط ہوجائیں آخر متناہی ہیں کہ عرش و فرش دو حدیں ہیں۔ روزِ اول و روزِ آخر دو حدیں ہیں۔ اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہو سب متناہی ہے۔

 

بالفعل غیر متناہی کا علم تفصیلی مخلوق کو مل ہی نہیں سکتا تو جملہ علوم خلق کو علم الہٰی سے اصلاً نسبت ہونیہی محال قطعی ہے نہ کہ معاذ اﷲ تو ہم مساوات۔

(۳) یوںہی اس پر اجماع ہے کہ اﷲ عزوجل کے دیئے سے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلا م کو کثیر و وافر غیبوں کا علم ہے یہ بھی ضروریاتِ دین سے ہے جو اس کا منکر ہوکافر ہے کہ سرے سے نبوت ہی کا منکر ہے۔

 

 (۴) اس پر بھی اجماع ہے کہ اس فضل جلیل میں محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حصہ تمام انبیاء و تمام جہان سے اتم و اعظم ہے،  اﷲ عزوجل کی عطا سے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اتنے غیبوں کا علم ہے جن کا شمار اﷲ عزوجل ہی جانتا ہے ،  مسلمانوں کایہاں تک اجماع تھا مگر وہابیہ کو محمد رسول اﷲ صلی علیہ وسلم کی عظمت کس دل سے گوارا ہو۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ۔

(۱) حضور کو دیوار کے پیچھے کی بھی خبر نہیں ۔ ۱ ؎۔

 

 ( ۱ ؎ البراہین القاطعۃ   بحث علم غیب    مطبع بلاساواقع ڈھور ص ۵۱)

 

 (۲) وہ اور تو اور اپنے خاتمے کا بھی نہ جانتے تھے۲؂ ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ:

(۳) خدا کے بتائے سے بھی اگر بعض مغیبات کا علم ان کے لیے مانے جب بھی شرک ہے۔ ۳ ؎۔

 

 ( ۲ ؎ البراہین القاطعۃ   بحث علم غیب     مطبع بلاساواقع ڈھور    ص ۵۱)

( ۳ ؎ البراہین القاطعۃ   بحث علم غیب    مطبع بلاساواقع ڈھور     ص ۵۱)

 

 (۴) اس پر قہر یہ کہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تو دیوار کے پیچھے کی بھی خبر نہ مانیں اور ابلیس لعین کے لیے تمام زمین کا علم محیط حاصل جانیں۔ ۴ ؎۔

 

 ( ۴ ؎ البراہین القاطعۃ    بحث علم غیب    مطبع بلاساواقع ڈھور            ص ۵۱)

 

 (۵) اس پر عذر کہ ابلیس کی وسعتِ علم نص سے ثابت ہے،  فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے۔ ۵؎۔

 

 ( ۵ ؎ البراہین القاطعۃ    بحث علم غیب    مطبع بلاساواقع ڈھور  ص ۵۱)

 

 (۶) پھر ستم،  قہر یہ کہ جو کچھ ابلیس کے لیے خود ثابت مانا محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے اس کے ماننے پر جھٹ حکمِ شرک جَڑ دیا یعنی خاص صفت ابلیس کے لیے تو ثابت ہے وہ تو خدا کا شریک ہے،  مگر حضور کے لیے ثابت کرو تو مشرک ہو۔

(۷) اس پر بعض غالی اور بڑھے اور صاف کہہ دیا کہ جیسا علم غیب محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ہے ایسا تو ہر پاگل ہر چوپائے کو ہوتا ہے۔ ۱ ؎۔ "  انّا اﷲ وانّا الیہ راجعون "  ( بے شک ہم اﷲ کے مال ہیں اور ہم کو اُسی کی طرف پھرنا ہے۔ت)

 

( ۱ ؎ تغییر العنوان مع حفظ الایمان     دریپہ کلاں دہلی بھارت،  ص ۱۷)

 

اصل بحث ان کلماتِ ملعونہ کی ہے،  خبثاء کا واکاٹ کہ ( پینترا بدل کر) اس سے بچتے اور علم کے خاص وغیرخاص ہونے کی بحث بے علاقہ لے دوڑتے ہیں کہ علمِ غیب کو آیات و احادیث نے خاص بخدا بتایا۔ فقہاء نے دوسرے کے لیے اس کے اثبات کو کفر کہا ہے،  اس کا جواب تو اوپر معروض ہوچکا کہ خدا کے ساتھ خاص وہی علم ذاتی و محیط حقیقی ہے غیر کے لیے اسی کے اثبات کو فقہاء کفر کہتے ہیں۔

 

علمِ عطائی غیر محیط حقیقی خدا کے لیے ہو ہی نہیں سکتا نہ کہ معاذ اﷲ اس کی صفت خاصہ ہو یہ علم ہم نے نہ غیر خدا کے لیے مانا، نہ  وہ نصوص وا قوال ہم پر وارد ۔ ، مگر ان حضرات سے پوچھیے کہ آیات و احادیث حصر و اقوال فقہاء علم عطائی غیر محیط حقیقی کو بھی شامل ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو تمہارا کتنا جنون ہے کہ انہیں ہم پر پیش کرتے ہو ان کو ہمارے دعوے سے کیا منافات ہوئی اور اگر اسے بھی شامل ہیں تو اب بتائیے کہ گنگوہی صاحب آپ ابلیس کے لیے جو علمِ محیط زمین او ر تھانوی صاحب آپ ہر پاگل ہر چوپائے کے لیے جو علمِ غیب کے قائل ہیں آیا ان کے لیے علم ذاتی حقیقی مانتے ہیں یا اس کاغیر،  برتقدیر اول قطعاً کافر ہو،  برتقدیر ثانی بھی خود تمہارے ہی منہ سے وہ آیات وہ احادیث و اقوالِ فقہاء تم پر وارد۔ اور تم اپنے ہی پیش کردہ دلائل سے خود کافر و مرتد۔

 

اب کہیے ،  مفر کدھر ؟

ہاں مفرو ہی ہے کہ ابلیس اور پاگل اور چوپائے سب توعلم غیب رکھتے ہیں،  آیاتِ و احادیث و اقوالِ فقہاء ان کے لیے نہیں،  وہ تو صرف محمد رسول کی نفِی علم کے لیے ہیں۔ الالعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین (خبردار ! ظالموں پر اﷲ تعالٰی کی لعنت ہے۔ت)

 

امر پنجم

علمِ غیب کی اختلافی حدود اور مسلکِ عرفاء

 

فضلِ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے منکروں کو جہنم جانے دیجئے۔ تتمہ کلام استماع فرمائیے،  ان تمام اجماعات کے بعد ہمارے علماء میں اختلاف ہوا کہ بے شمار علوم غیب جو مولٰی عزوجل نے اپنے محبوب اعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو عطا فرمائے آیا وہ روزِ اوّل سے یومِ آخر تک تمام کائنات کو شامل ہیں جیسا کہ عموم آیات و احادیث کا مفاد ہے یا ان میں تخصیص ہے۔

 

بہت اہلِ ظاہر جناب خصوص گئے ہیں،  کسی نے کہا متشابہات کا ،  کسی نے کہا خمس کا،  کسی نے کہا ساعت کا،  اور عام علماء باطن اور ان کے اتباع سے بکثرت علماء ظاہر نے آیات و احادیث کو ان کے عموم پر رکھا ماکان ومایکون بمعنی مذکور میں ازانجا کہ غایت میں دخول و خروج دونوں محتمل ہیں،  ساعت داخل ہو یا نہیں بہرحال یہ مجموعہ بھی علومِ الہٰیہ سے ایک بعض خفیف بلکہ انباء المصطفٰی حاضر ہے۔

 

میں نے قصیدہ بردہ شریف اور اس کی شرح ملا علی قاری سے ثابت کیا ہے کہ علم الہٰی تو علم الہٰی جو غیر متناہی در غیر متناہی در غیر متناہی ہے،  یہ مجموعہ ماکان کا علمِ علوم محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سمندر سے ایک لہر ہے،  پھر علمِ الہٰی غیر متناہی کے آگے اس کی کیا گنتی،  اﷲ کی قدر نہ جاننے والے اسی کو معاذ اﷲ علمِ الہٰی سے مساوات ٹھہراتے ہیں، وما قدروا اﷲ حق قدرہ ۱ ؎۔  (اﷲ کی ویسی قدر نہ کی جیسی قدر کرنے کا حق ہے۔ت)

 

 ( ۱؂ القرآن الکریم    ۳۱/ ۳۴)

 

اور واقعی جب ان کے امام الطائفہ کے نزدیک ایک پیڑ کے پتے گن دینے پر خدائی آگئی تو ماکان ومایکون تو بڑی چیز ہے۔ خیر انہیں جانے دیجئے یہ خاص مسئلہ جس طرح ہمارے علماء اہلسنت میں دائر ہے مسائل خلافیہ اشاعرہ وماتریدیہ کے مثل ہے کہ اصلاً محلِ لوم نہیں۔

 

ہاں ہمارا مختار قولِ اخیر ہے جو عام عرفائے کرام و بکثرت اعلام کا مسلک ہے،  اس بارے میں بعض آیات و احادیث وا قوالِائمہ حضرات کو فقیر کے رسالہ انباء المصطفٰی میں ملیں گے۔ اور اللؤلؤالمکنون فی علم البشیر وماکان ومایکون وغیرہ رسائل فقیر میں بحمد اﷲ تعالٰی کثیر ووافر ہیں۔ اور اقوال اولیائے کرام و علمائے عظام کی کثرت تو اس درجہ ہے کہ ان کے شمار کو ایک دفتر عظیم درکار ،  یہاں بطورِ نمونہ صرف بعض اشاراتِائمہ پر اقتصار،   وما توفیقی الا با ﷲ العزیز الغفار،

 

حدیث صحیح جامع ترمذی جس میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : "  تجلّٰی کل شیئ وعرفتُ "  ۱ ؎۔ ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی ۔

 

 ( ۱ ؎ جامع سنن الترمذی     کتاب التفسیر من سورۃ ص حدیث ۳۲۴۶    دارالفکر بیروت      ۵ /۱۶۰)

 

اور فرمایا : علمت ما فی السمٰواتِ وما فی الارض  ۲ ؎۔ میں  نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں  ہے۔

 

( ۲ ؎ جامع سنن الترمذی     کتاب التفسیر من سورۃ ص حدیث ۳۲۴۴     دارالفکر بیروت     ۵ /۱۵۹)

 

 (۵۱) شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ میں اسی حدیث کے نیچے فرماتے ہیں : دانستم ہر چہ در آسما نہا و ہر چہ در زمینہا بود عبارت ست از حصول تمامہ علوم جزئی و کُلی واحاطہ آں۳ ؎۔ "میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں تھا"  اس حدیث میں تمام علوم جزی و کلی کے حاصل ہونے اور ان کے احاطہ کرنے کا بیان ہے۔(ت)

 

 ( ۳ ؎ اشعۃ اللمعات   کتاب الصلوۃ   باب المساجد  مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر  ۱ /۳۳۳)

 

(۵۲) امام محمد بوصیری قصیدہ بردہ شریف میں عرض کرتے ہیں۔ع فان من جودک الدنیا وضرتھا                                                ومن علومک علم اللوح والقلم۴ ؎۔

 

یارسول اﷲ ! دنیا و آخرت دونوں حضور کی بخشش سے ایک حصہ ہیں اور لوح و قلم کا علم (جس میں تمام ماکان و مایکون ہے) حضور کے علوم سے ایک ٹکڑا ہے۔

 

 ( ۴ ؎ مجموع المتون  متن قصیدۃ البردۃ   الشئون الدینیۃ دولۃ قطر ص ۱۰)

 

 (۵۳) علامہ علی قاری اس کی شرح میں فرماتے ہیں : کون علمھما من علومہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان علومہ تتنوع الی الکلیات والجزئیات و حقائق و دقائق وعوارف ومعارف تتعلق بالذات والصفات وعلمھما یکون سطرامن سطور علمہ ونھراً من بحور علمہ ثم مع ھذا ھو من برکۃ وجودہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱ ؎۔

 

لوح و قلم کا علم علومِ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ایک ٹکڑا اس لیے ہے کہ حضور کے علم متعدد انواع ہیں کلیات،  جزئیات،  حقائق دقائق،  عوارف اور معارف کہ ذاتِ و صفاتِ الہٰی سے متعلق ہیں اور لوح و قلم کا علم تو حضور کے مکتوب علم سے ایک سطر اور اس کے سمندروں سے ایک نہر ہے پھر بایں ہمہ وہ حضور ہی کی برکت و جود سے تو ہے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔

 

 ( ۱ ؎ الزبدۃ العمدۃ فی شرح البردۃ    ناشر   جمعیۃ علماء سکندریہ خیر پور سندھ   ص ۱۱۷)

 

 (۵۴) ام القرٰی شریف میں ہے : وسع العٰلمین علماً و حلماً  ۲ ؎۔ حضور کا علم و حلم تمام جہان کو محیط ہے۔

 

 (۲؎مجموع المتون   متن قصیدۃ الہمزیہ فی مدح خیر البریۃ الشؤن الدینیۃ دولتہ قطر     ص۱۸)

 

 (۵۵) امام ابن حجر مکی اس کی شرح میں فرماتے ہیں : لان اﷲ تعالٰی اطلعہ علی العالم فعلم علم الاولین والاخرین ماکان ومایکون۳ ؎۔ اس لیے کہ اﷲ تعالٰی نے حضور کو تمام عالم پر اطلاع دی،  تو سب اولین وآخرین کا علم حضور کو ملا جو ہو گزرا اور جو ہونے والا ہے سب جان لیا۔

 

( ۳ ؎ افضل القرا لقراء ام القرٰی )

 

 (۵۶ و ۵۷) نسیم الریاض میں ہے : ذکر العراقی فی شرح المھذب انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عرضت علیہ  الخلائق من لدن اٰدم علیہ الصلوۃ والسلام الٰی قیام الساعۃ فعرفھم کلّھم کما علم اٰدم الاسماء۴ ؎۔ امام عراقی شرح مہذب میں فرماتی ہیں کہ آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر قیامت تک کی تمام مخلوقات الہٰی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  پر عرض کی گئیں تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سب کو پہچان لیا جس طرح آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو تمام نام تعلیم ہوئے تھے۔

 

 ( ۴ ؎ نسیم الریاض الباب الثالث فصل فیما وردمن ذکر مکانتہ مرکز اہلسنت برکاتِ رضا گجرات الہند ۲ /۲۰۸)

 

(۵۸) اسی لیے امام بوصیری مدحیہ ہمزیہ میں عرض کرتے ہیں : ع لک ذات العلوم من عالم الغیب                             ومنہا لاٰدم الاسماء ۱ ؎۔ عالم غیب سے حضور کے لیے علوم کی ذات ہے اور آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے لیے نام۔

 

 ( ۱ ؎ مجموع المتون  متن قصیدۃ الہمزیہ الشئون الدینیۃ دولۃ قطر   ص۱۱)

 

(۵۹ و ۶۰)امام ابن حاج مکی مدخل اور امام احمد قسطلانی مواہب لدنیہ شریف میں فرماتے ہیں :   قد قال علماؤ نار حمھم اﷲ تعالٰی ان الزائر یشعر نفسہ بانہ واقف بین یدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کما ھو فی حیاتہ اذلافرق بین موتہ وحیاتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اعنی فی مشاھد تہ لا متہ و معرفتہ باحوالھم ونیّا تھم وعزائمھم وخواطر ھم وذٰلک عندہ،  جلی لا خفاء فیہ  ۲ ؎۔ بے شک ہمارے علماء رحمہم اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ زائر اپنے نفس کو آگاہ کردے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہے جیسا کہ حضور کی حیاتِ ظاہر میں،  اس لیے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حیات و وفات میں اس بات میں کچھ فرق نہیں کہ وہ اپنی امت کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی حالتوں،  نیتوں ،  ارادوں اور دل کے خطروں کو پہچانتے ہیں،  اور یہ سب حضور پر روشن ہے جس میں اصلاً پوشیدگی نہیں۔

 

 ( ۲ ؎ المدخل لابن الحاج فصل فی الکلام علی زیارۃ سید المرسلین دار الکتاب العربی بیروت    ۱/ ۲۵۲)

( المواھب اللدنیۃ   ا لمقصد العاشر    الفصل الثانی      المکتب الاسلامی بیروت   ۴/ ۵۸۰ )

 

(۶۱) نیز مواہب شریف میں ہے : لاشک ان اﷲ تعالٰی قد اطلعہ علٰی ازید من ذٰلک والقی علیہ علوم الاولین والاخرین  ۳ ؎۔ کچھ شک نہیں کہ بلاشبہ اﷲ تعالٰی نے اس سے بھی زائد حضور کو علم دیا اور تمام اگلے پچھلوں کا علم حضور پر القا فرمایا۔

 

 ( ۳ ؎ المواھب اللدنیۃ   ا لمقصد الثامن  الفصل الثالث      المکتب الاسلامی بیروت  ۳/ ۵۶۰)

 

 (۶۲ تا ۶۴) امام قاضی پھر علامہ قاری پھر علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر امام سیوطی ہیں لکھتے ہیں : النفوس القدسیۃ اذا تجردت عن العلائق البدنیۃ اتصلت بالملاء الاعلٰی ولم یبق لھا حجاب فتری و تسمع الکل کالمشاھد ۱ ؎۔

 

پاک جانیں جب بدن کے علاقوں سے جدا ہوتی ہیں، ملاء اعلٰی سے مل جاتی ہیں اور ان کے لیے کچھ پردہ نہیں رہتا تو سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں موجود ہیں۔

 

 ( ۱ ؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث حیثما کنتم فصلوا علٰی الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض   ۱ /۵۰۲)

 

 (۶۵) ملا علی قاری شریف شفاء شریف میں فرماتے ہیں  : ان روح النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حاضرۃ فی بیوت اھل الاسلام  ۲ ؎۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روحِ کریم تمام جہان میں ہر مسلمان کے گھر میں تشریف فرما ہے۔

 

( ۲ ؎ شرح الشفاء للملاّ علی قاری فصل فی المواطن التی تستحب فیہا الصلوۃ والسلام دارالکتب العلمیہ بیروت    ۲ /۱۱۸)

 

 (۶۶) مدارج النبوۃ شریف میں ہے : ہر چہ در دنیا است از زمانِ آدم تا اوان نفخہ اولٰی بروے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم منکشف ساختند تاہمہ احوال او را از اول تا آخر معلوم کرد ویارانِ خود رانیز از بعضے ازاں احوال خبر داد  ۳ ؎۔ جو کچھ دنیا میں ہے آدمی علیہ السلام کے زمانے سے نفخہ اُولٰی تک حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر منکشف کردیا ہے یہاں تک کہ تمام احوال آپ کو اول سے آخر تک معلوم ہوگئے ان میں سے کچھ اپنے دوستوں کوبھی بتادیئے۔

 

 ( ۳ ؎ مدارج النبوۃ      باب پنجم،  وصل خصائص آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر   ۱ /۱۴۴)

 

 (۶۷) نیز فرماتے ہیں قدس سرہ  : وھو بالکل شیئ علیم و وے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دانا ست برہمہ چیز از شیونات ذات الہٰی و احکام صفات حق واسماء وافعال وآثار بجمیع علوم ظاہر و باطن اول و آخر احاطہ نمودہ و مصداق "  فوق کل ذی علم علیم"  شدہ،  علیہ من الصلوات افضلہا و من التحیات اتمّہا و اکملہا ۴ ؎۔ وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے"  اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام چیزوں کو جانتے ہیں،  ا ﷲ کی شانوں اور اس کے احکام اور صفات کے احکام اور اسماء و افعال و آثار ہیں،  اور تمام علوم ظاہر و باطن،  اول و آخر کا احاطہ کرلیا اور " فوق کل ذی علم علیم "  کا مصداق ہوگئے،  ان پر اﷲ کی بہترین رحمتیں ہوں اور اتم و اکمل تحیات ہوں۔

 

 ( ۴ ؎ مدارج النبوۃ     مقدمۃ الکتاب    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر  ۱ /۲و۳)

 

(۶۸) شاہ ولی اﷲ صاحب فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں : افاض علیّ من جنابہ المقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیفیۃ ترقی العبد من حیّزہ الٰی حیّز القدس فیتجلّی لہ جینئذٍ کل شیئ کما اخبرعن ھذاا لمشھد فی قصۃ المعراج المنامی ۱ ؎۔ مجھ پر رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ سے فائض ہوا کہ بندہ کیونکر اپنی جگہ سے مقامِ مقدس تک ترقی کرتا ہے کہ ہر شے اس پر روشن ہوجاتی ہے جیسا کہ قصّہ معراج کے واقعہ میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس مقام سے خبر دی۔

 

 (۱ ؎فیوض الحرمین مشہد  اﷲ تعالٰی مخلوق کی طرف کتاب نازل کرنے کے وقت کہا کرتا ہے ،محمد سعید اینڈ سز کراچی ص۱۶۹)

 

 (۶۹) نیز اسی میں ہے : العارف ینجذب الٰی حیزّ الحق فیصی عبداﷲ فتجلّٰی لہ کل شیئ ۲ ؎۔ عارف مقامِ حق تک کھنچ کر بارگاہِ قرب میں ہوتا ہے تو ہر چیز اس پر روشن ہوجاتی ہے۔

 

 (۲ ؎۔ فیوض الحرمین مشہد    قَدَم صدقِ عندربہم کی تفسیر     محمد سعید اینڈ سنز کراچی  ص ۱۷۵)

 

 (۷۰) اُسی میں ولی فرد کے خصائص سے لکھا ہے کہ وہ تمام نشأۃ عنصری جسمانی پر مستولی ہوتا ہے،  پھر لکھا کہ یہ استیلاء انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام میں تو ظاہر ہے۔ واما فی غیر ھم فمنا صب وراثۃ الانبیاء کالمجددیۃ و القطبیعۃ وظہور اٰثار ھا واحکامہا والبلوغ الٰی حقیقۃ کل علم وحال ۳ ؎۔ رہے غیر انبیاء ،  ان میں وراثت کے منصب ہیں جیسے مجدد و قطب ہونا۔ ان کے آثار و احکام کا ظاہر ہونا اور علم و حال کی حقیقت کو پہنچ جانا۔

 

 ( ۳ ؎۔فیوض الحرمین مشہد  مشہد آخر یعنی دقائق اور ان کے اثرات محمد سعید اینڈ سنز کراچی ص ۲۸۰ و ۲۸۱)

 

(۷۱) اسی میں تقریر مذکور و تفصیل دقائق فرد کے بعد ہے : بعد ذٰلک کلہ جبلت نفسہ نفساً قدسیۃ لایشغلہا شان عن شان ولایاتی علیہ حال من الاحوال الٰی التجرد الی النطقۃ الکلیۃ الا وھو خبیر بھا الاٰن وانما الاٰتی تفصیل لاجمال۱؎۔ اور اس سب کے بعد بات یہ ہے کہ مرد کا نفس اصل خلقت میں نفس قدسی بنایا جاتا ہے اسے ایک بات دوسری سے مشغول نہیں کرتی( یعنی یہ نہیں ہوتا کہ ایک دھیان میں اور طرف کا خیال نہ رہے بلکہ ہر جانب اس کی نگاہ ایک سی رہتی ہے) اور اب سے لے کر اس وقت تک کہ وہ سب سے جدا ہو کر مرکز عالم سے جا ملے یعنی وقتِ وفات تک جو کچھ حال اس پر آنے والا ہے اس سب کی اس وقت اسے خبر ہے،  وہ جو آئے گا اجمال کی تفصیل ہی ہوگا۔

 

 ( ۱ ؎ فیوض الحرمین      مشہد آخر ا یعنی دقائق اور ان کے اثرات      محمد سعید اینڈ سنز کراچی     ۸۶  ۔ ۲۸۵)

 

(۷۲) امام قاضی عیاض شفا شریف میں فرماتے ہیں : ھذا مع انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کان لایکتب ولکنہ اوتی علم کل شیئ حتی قدوردت اٰثار بمعرفتہ حروف الخط وحسن تصویرھا کقولہ لا تمدوا بسم اﷲ الرحمن الرحیم رواہ ابن شعبان من طریق ابن عباس وقولہ الحدیث الاخر الذی روی عن معٰویۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ انہ کان یکتب بین یدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال لہ الق الدواۃ و حرّف القلم واقم الباء وفرق السین ولا تعور المیم و حسن اﷲ و مدّ الرحمن وجود الرحیم ۲ ؎۔ یعنی حالانکہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لکھتے نہ تھے مگر حضور کو ہر چیز کا علم عطا ہوا تھا یہاں تک کہ بے شک حدیثیں آتی ہیں کہ حضور کتابت کے حروف پہچانتے تھے اور یہ کہ کس طرح لکھے جائیں تو خوبصورت ہوں گے،  جیسے ایک حدیث ابن شعبان نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا "  بسم اﷲ کشش سے نہ لکھو ( سین میں دندانے ہوں نِری کشش نہ ہو) دوسری حدیث (مسند الفردوس) میں امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہوئی کہ یہ حضور کے سامنے لکھ رہے تھے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ دوات میں صوف ڈالو اور قلم پر ترچھا قط دو اور بسم اﷲ کی ب کھڑی لکھو اور اس کے دندانے جدا رکھو اور میم اندھا نہ کردو( اس کے چشمہ کی سفیدی کھلی رہے) اور لفظ اﷲ خوبصورت لکھو اور لفظ رحمن میں کشش ہو ( رحمن یا رحمن یا رحمن یا رحمن) اور لفظ رحیم اچھا لکھو۔

 

 ( ۲ ؎ الشفاء بحقوق المصطفٰی فصل ومن معجزاتہ الباہرۃ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ     ۱ /۲۹۸ و ۲۹۹)

 

(۷۳ و ۷۴) امام شعرانی قدس سرہ کتاب الجواہر والدرر نیز کتاب درۃ الغواص میں سید علی خواص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ناقل : محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فھو الاول والاخر و الظاھر والباطن و قدولج حین اسرٰی بہ عالم الاسماء الذی اولھا مرکز الارض واخرھا السماء الدنیا بجمیع احکامھا و تعلقا تھا ثم ولج البرزخ الٰی انتہائہ وھو السماء السابعۃ ثم ولج علم العرش الٰی مالا نہایۃ الیہ،  وانفتح فی برزخیتہ تصور العوالم الالٰھیۃ والکونیۃ اھ ۱؂ ملتقطاً۔

 

محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہی اول و آخر و ظاہر و باطن ہیں وہ شب معراج مرکز زمین سے آسمان تک تشریف لے گئے اور اس عالم کے جملہ احکام اور تعلقات جان لیے پھر آسمان سے عرش اور عرش سے لاانتہا تک اور حضور کے برزخ میں تمام عالم علوی و سفلی کی صورتیں منکشف ہوگئیں۔

 

 ( ۱ ؎ الجواہر والدرر   علی ہامش الابریز     مصطفٰی البابی مصر        ص ۲۱۱ تا ۲۱۳)

 

 (۷۵) تفسیر کبیر میں زیر آیہ کریمہ : "وکذلک نری ابراہیم ملکوت السمٰوت والارض" ۲ ؎۔  ( اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمانوں اور زمین کی۔ ت) فرمایا : الاطلاع علی اثار حکمۃ اﷲ تعالٰی فی کل واحد من مخلوقات ھذا العالم بحسب اجناسہا وانواعہا واصنافہا واشخاصھا و احوالھا ممالا یحصل الاللا کابرمن الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام ولہذا المعنی کان رسولنا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقول فی دعاء اللھم ارنا الاشیاء کما ھی ۳ ؂۔ اس عالم کی تمام جنسوں اور نوعوں اور صنفوں اور شخصوں اور جَرموں ہر ہر مخلوق میں حکمت الہٰیہ کے آثار پر انہیں اکابر کو اطلاع ہوتی ہے جو انبیاء ہیں علیہم الصلوۃ والسلام اسی لیے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ الہٰی! ہم کو تمام چیزیں جیسی وہ ہیں دکھادے ا ھ۔

 

 (۲ ؎ القرآن الکریم    ۶ /۷۵)

( ۳ ؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)     تحت آیۃ  ۶ /۷۵     المطبعۃ البہیتہ المصریۃ مصر   ۱۳ /۴۵)

 

اقول : یہاں مقصود اس قدر ہے کہ ان امام اہلسنت کے نزدیک انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اس عالم کی تمام مخلوقات کے ایک ایک ذرہ کی جنس ،  نوع،  صنف،  شخص۔ جسم اور ان سب میں اﷲ کی حکمتیں بالتفصیل جانتے ہیں،  وہابیہ کے نزدیک کافر و مشرک ہونے کو یہی بہت ہے،  بلکہ ان کے نزدیک امام ممدوح کو کافر و مشرک سے بہت بڑھ کر کہنا چاہیے۔

گنگوہی صاحب نے صرف اتنی بات کو کہ دنیا میں جہاں کہیں مجلس میلاد ہو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اطلاع ہوجائے،  زمین کا علم محیط مانا اور صاف حکمِ شرک جڑ دیا کہ "شرک نہیں تو کون سا حصّہ ایمان کا ہے" ۱ ؎۔

 

 ( ۱ ؎ البراہین القاطعۃ   بحث علم غیب   مطبع بلا سا واقع ڈھور   ص ۵۱)

 

تو امام کہ صرف زمین درکنار،  زمین و آسمان و فرش و عرش و تمام عالم کے جملہ اجناس و انواع و اصناف و اشخاص و اجرام کو نہ صرف حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بلکہ وہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا بھی علم محیط مانتے ہیں گنگوہی دھرم میں ان کو تو کئی لاکھ درجے ڈبل کافر ہونا چاہیے والعیاذ باﷲ تعالٰی ورنہ اصل بات یہ ہے کہ اصالۃ علوم غیب اور ان کے عطاو نیابت سے ان کے خدام اکابر اولیائے کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو بھی ایک ایک ذرہ عالم کا تفصیلی علم عطا ہونا ہر گز ممنوع نہیں بلکہ بتصریح اولیاء واقع ہے،  جیسا کہ عنقریب آتا ہے وﷲ الحمد۔

 

 (۷۶) یہی مضمون شریف تفسیر نیشا پوری میں بایں عبارت ہے : الاطلاع علٰی تفاصیل اٰثار حکمۃ اﷲ تعالٰی فی کل احد من مخلوقات ھذہ العوالم بحسب اجناسہا وانواعہا واصنافہا واشخاصہا واعوارضہا ولواحقہاکما ھی لا تحصل الا  لاکابر الانبیاء و لہذا قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ "ارنی الاشیاء" کما ھی۲ ؎۔

 

ان عالموں کی مخلوقات میں سے ہر ایک کے تمام آثار حکمت الہٰیہ پر انکی جنسوں ،  نوعوں،  قسموں اور فردوں ،نیز عوارض و لواحق حقیقہ پر مطلع ہونا اکابر انبیاء کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دعا میں عرض کیا کہ مجھے اشیاء کی حقیقتیں دکھا۔(ت)

 

 ( ۲ ؎ غرائب القرآن (تفسیر النیسابوری)     آیۃ ۶ /۷۵  مصطفٰی البابی مصر    ۷ /۱۴۱)

 

اس میں اٰثار حکمۃ اﷲ کے ساتھ تفاصیل زائد ہے۔ "ھذاالعالم" کی جگہ ھٰذہ العوالم ہے کہ نظر تفصیلی پر زیادہ دلالت کرتا ہے اور اجناس وانواع و اصناف و اشخاص کے ساتھ عوارض ولواحق بھی مذکور ہے کہ احاطہ جملہ جواہر و اعراض میں تصریح تر ہو،  اگرچہ اجناس عالم میں عوارض بھی داخل تھے پھر ان کے ساتھ کما ھی کا لفظ اور زیادہ ہے کہ صحت علم غیر مشوب بالخطاء والو ھم ( غلطی اور وہم کی آلائش سے پاک۔ت)کی تاکید ہو۔ فجزاھم اﷲ تعالٰی خیر جزا آمین۔

 

 (۷۷) نیشا پوری میں زیر آیۃ کریمہ "وجئنا بک علٰی ھٰؤلاء شھیدا" ۱؂  ( اور ا ے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں گے۔ت) فرمایا : لانّ روحہ،  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شاہد علٰی جمیع الارواح والقلوب و النفوس لقولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اول ما خلق اﷲ روحی۲ ؎۔ یہ جور ب عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فرمایا کہ ہم تمہیں ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے"  اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روحِ انور تمام جہان میں ہر ایک کی روح،  ہر ایک کے دل،  ہر ایک کے دل،  ہر ایک کے نفس کا مشاہدہ فرماتی ہے۔ ( کوئی روح،  کوئی دل ،  کوئی نفس ان کی نظرِ کرم سے اوجھل نہیں جب تو سب پر گواہ بنا کر لائے جائیں گے کہ شاہد کو مشاہدہ ضرور ہے) اس لیے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا سب سے پہلے اﷲ تعالٰی نے میری روح کریم کو پیدا کیا( تو عالم میں جو کچھ ہوا حضور کے سامنے ہی ہوا)

 

 ( ۱ ؎ القرآن الکریم     ۴ /۴۱)    (۲؎غرائب القرآن)

 

 (۸۷) حافظ الحدیث سیدی احمد سلجماسی قدس سرہ،  اپنے شیخ کریم حضرت سیدی عبدالعزیز بن مسعود  دباغ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کتاب مستطاب ابریز میں روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے آیہ کریمہ "و علّم اٰد م الاسماء کلھا" ۳ ؎۔  ( اور اﷲ تعالٰی نےآدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔ ت)کے متعلق فرمایا : المراد بالاسماء الاسماء العالیۃ لا الاسماء النازلۃ فان کل مخلوق لہ اسم عال واسم نازل ،  فالاسم النازل ھو الذی یشعر بالمسمّٰی فی الجملۃ والاسم العالی ھوالذی یشعر باصل المسّٰمی ومن ایّ شیئ ھو و بفائدۃ المسمّٰی ولای شیئ یصلح الفاس من سائر مایستعمل فیہ وکیفیۃ صنعۃ الحداد لہ فیعلم من مجرد سماع لفظہ وھذہ العلوم والمعارف المتعلقۃ بالفاس وھکذا کل مخلوق ، والمراد بقولہ تعالٰی"  الاسماء کلہا "  الاسماء التی یطیقہا ادم ویحتاج الیہا سائر البشر اولھم بھا تعلق وھی من کل مخلوق تحت العرش الٰی ماتحت الارض فیدخل فی ذلک الجنۃ والنار والسمٰوٰت السبع وما فیھن وما بینھن وما بین السماء والارض و ما فی الارض من البراری والقفار والا ودیۃ والبحار والاشجار فکل مخلوق فی ذلک ناطق اوجامد اّلا و آدم یعرف من اسمہ تلک الامور الثٰلثۃ اصلہ وفائدتہ وکیفیۃ ترتیبہ ووضع شکلہ فیعلم من اسم الجنۃ من این خلقت ولایّ شیئ خلقت و ترتیب مراتبہاد وجمیع ما فیہا من الحور وعدد من یسکنہا بعد البعث ویعلم من لفظ النار مثل ذلٰک ویعلم من لفظ السماء مثل ذلک ولایّ شیئ کانت الاولٰی فی محلہا والثانیۃ وھکذا فی کل سماء ویعلم من لفظ الملئکۃ من ای شیئ خلقوا ولا یّ شیئ خلقوا وکیفیۃ خلقھم وترتیب مراتبھم وبایّ شیئ استحق ھذا الملک ھذا المقام واستحق غیرہ مقاماً اخر وھکذا فی کل ملک فی العرش الٰی ماتحت العرض فھٰذہ علوم ادم واولادہ من الانبیاء  علیہم الصلوۃ والسلام والاولیاء الکمل رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ،  و انما خص اٰدم بالذکر لانہ اوّل من علم ھٰذہ العلوم و من علمہا من اولادہ فانما علمہا بعدہ ولیس المرادانہ لایعلمہا الا اٰدم و انما خصصنا ھا بما یحتاج الیہ و ذریتہ و بما یحتاج الیہ و ذریتہ و بما یطیقونہ لئلا یلزم من عدم التخصیص الا حاطۃ بمعلومات اﷲ تعالٰی وانما قال تنزلت اشارۃ الی الفرق بین علم النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھذہ العلوم و بین علم اٰدم وغیرہ من الانبیاء علیہم الصلوۃ بہا فانھم اذا توجھوا الیہا یحصل لھم شبہ مقام عن مشاھدۃ الحق سبحانہ وتعالٰی واذاتوجھوا نحو مشاھدۃ الحق سبحانہ وتعالٰی حصل لھم شبہ النوم عن ھذہ العلوم،  ونبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لقوتہ لایشغلہ ھذا عن ھذا فھواذا توجہ نحوالحق سبحانہ و تعالٰی حصلت لہ المشاھدۃ التامۃ وحصل لہ مع ذلک مشاھدۃ ھذہ العلوم وغیرھما مما لایطلق واذاتوجہ نحوھذہ العلوم حصلت لہ مع حصول ھذہ المشاھدۃ فی الحق سبحٰنہ و تعالٰی فلا تحجبہ مشاھدۃ الحق عن مشاھدۃ الخلق ولا مشاھدۃ الخلق عن مشاھدۃ الحق سبحٰنہ وتعالٰی۱؂ " ۔

 

اس کلام نورانی و اعلام ربانی ایمان افروز ،  کفران سوز کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر چیز کے دو نام ہیں علوی و سفلی،  سفلی نام تو صرف مسمی سے ایک گونہ آگاہی دیتا ہے۔ اور علوی نام سنتے ہی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ مسمّٰی کی حقیقت و ماہیت کیا ہے اور کیونکر پیدا ہوا اور کاہے سے بنا اور کس لیے بنا، آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو تمام اشیاء کے یہ علوی نام تعلیم فرمائے گئے جس سے انہوں نے حسبِ طاقت و حاجت ِ بشری تمام اشیاء جان لیں اور یہ زیر عرش سے زیر فرش تک کی تمام چیزیں ہیں جس میں جنت و دوزخ و ہفت آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ آسمان و زمین کے درمیان ہے اور جنگل اور صحرا اور نالے اور دریا اور درخت وغیرہ جو کچھ زمین میں ہے غرض یہ تمام مخلوقات ناطق و غیر ناطلق ان کے صرف نام سننے سے آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو معلوم ہوگیا کہ عرش سے فرش تک ہر شے کی حقیقت یہ ہے اور فائدہ یہ ہے اور اس ترتیب سے اس شکل پر ہے۔ جنت کا نام سنتے ہی انہوں نے جان لیا کہ کہاں سے بنی اور کس لیے بنی اور اس کے مربتوں کی ترتیب کیا ہے اور جس قدر اس میں حوریں ہیں اور قیامت کے بعد اتنے لوگ اس میں آجائیں گے اسی طرح نار ( دوزخ ) یوں ہی آسمان،  اور یہ کہ پہلا آسمان وہاں کیوں ہوا اور دوسرا دوسری جگہ کیوں ہوا،  اسی طرح ملائکہ کا لفظ سننے سے انہوں نے جان لیا کہ کاہے سے بنے اور کیونکر بنے اور ان کے مرتبوں کی ترتیب کیا ہے اور کس لیے یہ فرشتہ اس مقام کا مستحق ہوا اور دسرا دوسرے کا۔ اسی طرح عرش سے زیرِ زمین تک ہر فرشتے کا حال،  اوریہ تمام علوم صرف آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کو نہیں بلکہ ہر نبی اور ہر ولی کامل کو عطا ہوئے ہیں،  علیہم الصلوۃ والسلام ،  آدم کا نام خاص اس لیے لیا کہ انکو یہ علوم پہلے ملے،  پھر فرمایا کہ ہم نے بقدر طاقت وحاجت کی قید لگا کر صرف عرش تا فرش کی تمام اشیاء کا احاطہ اس لیے رکھا کہ جملہ معلوماتِ الہٰیہ کا احاطہ نہ لازم آئے اور ان علوم میں ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و دیگر انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام میں یہ فرق ہے کہ اور جب ان علوم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان کو مشائدہ حضرت عزت جلالہ، سے ایک گونہ غفلت سی ہوجاتی ہے اور جب مشاہدہ حق کی طرف توجہ فرمائیں تو ان علوم کی طرف سے ایک نیند سی آجاتی ہے مگر ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ان کی کمال قوت کے سبب ایک علم دوسرے علم سے مشغول نہیں کرتا،  وہ عین مشاہدہ حق کے وقت ان تمام علوم اور ان کے سوا اور علموں کو جانتے ہیں جن کی طاقت کسی میں نہیں اور ان علوم کی طرف عین توجہ میں مشاہدہ حق فرماتے ہیں اور ان کو نہ مشاہدہ حق ،  مشاہدہ خلق سے پردہ ہو نہ مشاہدہ خلق مشاہدہ حق سے ،  پاکی و بلندی اسے جس نے ان کو یہ علوم اور یہ قوتیں بخشیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

 ( ۱ ؎ القرآن الکریم     ۲ /۳۱)

( ۱ ؎ الابریز   الباب السابع    دار الکتب العلمیہ بیروت    ص ۳۸۲ و ۳۸۳)

 

کیوں وہابیو! ہے کچھ دم ؟ ہاں ہاں تقویۃ الایمان و براہین قاطعہ کی شرک دانی لے کر دوڑیو،  مشرک مشرک کی تسبیح بھانیو،  کل قیامت کو کھل جائے گا کہ مشرک،  کافر،  مرتد خاسر کون تھا، سیعلمون غدًا من الکذاب الاشر  ۲ ؎۔  ( بہت جلد کل جان جائیں گے کون تھا بڑھا جھوٹا اترونا ۔ ت)

 

 ( ۲ ؎ القرآن الکریم     ۵۴ /۲۶)

 

اشر بھی دوقسم کے ہوتے ہیں : 

(۱) اَشر قولی کہ زبان سے بَک بَک کرے۔

(۲) اشرفعلی کہ زبان سے چپ اور خباثت سے باز آئے۔

وہابیہ اشرقولی و اشرفعلی دونوں ہیں۔ " قاتلھم اﷲ انّی یؤفکون "۳ ؎۔  ( اﷲ انہیں مارے کیا اوندھے جاتے ہیں)

 

 (۳؎القرآن الکریم     ۹ /۳۰)

 

حضرت سیدّی شاہ عبدالعزیز قد سنا اﷲ بسرہ العزیز،  اجلّہ اکابراولیاء عظام و اعاظم سادات کرام سے ہیں،  بدلگام وہابیہ سے کچھ تعجب نہیں کہ ان کی شان کریم میں حسب عادت لئیم گستاخی و زبان درازی کریں،  لہذا مناسب کہ اس پاک،  مبارک ،  لاڈلے بیٹے کی تائیدمیں اس کے مہربان باپ ،  مسلمانوں کے مولٰی،  اﷲ واحد قہار کے غالب شیر،  سیدنا امیرا لمومنین مولٰی علی مشکل کشا حاجت روا،  کافرکُش ،  مومن پناہ کرم کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم کے بعض ارشادات ذکر کروں کہ سگانِ زرد کے برادر شغال اس اسدِ ذوالجلال کی بو سونگھ کر بھاگیں،  اور شرک شرک بکنے والے منہ میں قہر کے پتھر ہوں ،  اورپتھروں سے آگیں۔

 

 (۷۹) ابن النجار ابوالمعتمر مسلم بن اوس وجاریہ بن قدامہ سعدی سے راوی کہ امیر المومنین ابوالائمۃ الطاہرین سیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا : سلونی قبل ان تفقدونی فانّی لا اُسأل عن شیئ دون العرش الّا اخبرت عنہ ۱ ؎۔ مجھ سے سوال کرو قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ کہ عرش کے نیچی جس کسی چیز کو مجھ سے پوچھا جائے میں بتادوں گا۔

 

 (۱؎۔)

 

عرش کے نیچے کُرسی،  ہفت آسمان،  ہفت زمین اور آسمانوں اور زمینوں کے درمیان جو کچھ ہے تحت الثّٰری تک سب داخل ہے،  مولٰی علی فرماتے ہیں کہ اس سب کو میرا علم محیط ہے ان میں جو شَے مجھ سے پوچھو میں بتادوں گا،  رضی اللہ تعالٰی ۔

 

 (۸۰) امام ابن الانباری کتاب المصاحف میں اور امام ابو عمر بن عبدالبرکتاب العلم میں ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی : قال شھدت علی بن ابی طالب یخطب فقال فی خطبتہ سلونی فواﷲ لاتسألونی عن شیئ الٰی یوم القیمٰۃ الاّ حد تثکم بہ ۲ ؎۔ میں مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ،  کے خطبہ میں حاضر تھا امیر المومنین نے خطبہ میں ارشاد فرمایا مجھ سے دریافت کرو خدا کی قسم قیامت تک جو چیز ہونے والی ہے مجھ سے پوچھو میں بتادوں گا۔

 

 ( ۲ ؎۔جامع بیان العلم وفضلہ    باب فی ابتداء العالم جلساء بالفائدۃ و قولہ سلونی     دارالفکر بیروت ۱ /۱۳۸)

 

امیر المومنین فرماتے ہیں : کہ میرا علم قیامت تک کی تمام کائنات کو حاوی ہے،  یہ دونوں حدیثیں امامِ جلیل ،  جلال الملۃ والدین سیوطی نے جامع کبیر میں ذکر فرمائیں۔

 

 (۸۱ تا ۸۴) ابن قتیبہ پھر ابن خلکان پھر امام دمیری پھر علامہ زرقانی شرح مواہب اللدنیا میں فرماتے ہیں : الجفر جلد کتبہ جعفر الصادق کتب فیہ لاھل البیت کل ما یحتاجون الٰی علمہ و کل مایکون الٰی یوم القیمۃ ۳ ؎۔ جفر ایک جلد ہے کہ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لکھی اور اس میں اہل بیت کرام کے لیے جس چیز کے علم کی انہیں حاجت پڑے اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے سب تحریر فرمادے۔

 

 ( ۳؎حیوۃ الحیوان الکبرٰی      تحت لفظ الجفرۃ      مصطفٰی البابی مصر        ۱ /۲۷۹)

(وفیات الاعیان ترجمہ عبدالمومن صاحب المغرب ۴۰۸        دارالثقافت بیروت      ۳ /۲۴۰)

 

 (۸۵) علامہ سید شریف رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ شرح مواقف میں فرماتے ہیں : الجفر والجامعۃ کتابان لعلی رضی اللہ تعالٰی عنہ قد ذکر فیہما علی طریقۃ علم الحرو ف الحوادث التی تحدث الی انقراض العالم وکانت الائمۃ المعروفون من اولادہ یعر فونہما ویحکمون بھما وفی کتاب قبول العھدالذی کتبہ علی بن موسٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما الی المامون انک قد عرفت من حقوقنا ما لم یعرفہ اباؤک فقلبت منک عھدک الا ان الجفروالجامعۃ یدلان علی انہ لایتم ولمشائخ المغاربۃ نصیب من علم الحروف ینتسبون فیہ الی اھل البیت ورأ یت انا بالشام نظما اشیرفیہ بالرموز الٰی احوال ملوک مصرو سمعت انہ مستخرج من ذینک الکتابین اھ۱؂ " ۔

 

یعنی جفر و جامعہ امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم کی دو کتابیں ہیں بے شک امیر المومنین نے ان دونوں میں علم الحروف کی روش پر ختم دنیا تک جتنے وقائع ہونے والے ہیں سب ذکر فرمادیئے ہیں اور ان کی اولاد امجاد سےائمہ مشہورین رضی اللہ تعالٰی عنہم اُن کتابوں کے رموز پہچانتے اور ان سے احکام لگاتے تھے۔ اور مامون رشید نے جب حضرت امام علی رضا ابن امام موسٰی کاظم رضی اللہ تعالٰی عنہما کو اپنے بعد و لیعہد کیا اور خلافت نامہ لکھ دیا امام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے قبول میں فرمان بنام مامون رشید تحریر فرمایا اس میں ارشاد فرماتے ہیں کہ تم نے ہمارے حق پہنچانے جو تمہارے باپ دادا نے نہ پہچانے اس لیے میں تمہاری ولی عہدی قبول کرتا ہوں۔ مگر جفر وجامعہ بتارہی ہیں کہ یہ کام پورا نہ ہوگا۔( چنانچہ ایسا ہی ہوا اور امام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مامون رشید کی زندگی ہی میں شہادت پائی)

 

اور مشائخِ مغرب اس علم سے حضہ اور اس میں اہل بیت کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے اپنے انتساب کا سلسلہ رکھتے ہیں، ا ور میں نے ملک شام میں ایک نظر دیکھی جس میں شاہانِ مصر کے احوال کی طرف رمزوں میں اشارہ کیا ہے میں نے سنا کہ وہ احکام انہی دونوں کتابوں سے نکالے ہیں۔ انتہٰی

 

 (۱؂ شرح  مواقف    النوع الثانی    المقصد الثانی      منشورات شریف الرضی قم ایران       ۶ /۲۲)

 

اس علم علوی شریف مبارک کی بحث اور اس کے حکم شرعی کی جلیل تحقیق بحمد ﷲ تعالٰی فقیر کے رسالہ " مجتلی العروس و مراد النفوس۱۳۲۸ھ"  میں ہے جو اس کے غیر میں نہ ملے گی۔

(۸۶) حضور پرنور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : وعزۃ ربی ان السعداء والاشقیاء لیعرضون علی عینی فی اللوح المحفوظ  ۱ ؎۔ عزت الہی کی قسم بے شک سب سعید و شقی میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں میری آنکھ لوح محفوظ میں ہے۔

 

 ( ۱ ؎ بہجۃ الاسرار   ذکر کلمات  اخبر بہا عن نفسہ محدثابنعمۃ ربہ     دارالکتب العلمیہ بیروت     ص ۵۰)

 

 (۸۷) اور فرماتے ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ : لولالجام الشریعۃ علٰی لسانی لا خبرتکم بما تاکلون و ماتدخرون فی بیوتکم انتم بین یدی کا لقوار یریرٰی مافی بواطنکم وظواھر کم ۲؂۔

 

اگر میری زبان پر شریعت کی روک نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا جو کچھ تم کھاتے اور جو کچھ اپنے گھروں میں اندوختہ کرکے رکھتے ہو تم میرے سامنے شیشہ کی مانند ہو،  میں تمہارا ظاہر وباطن سب دیکھ رہا ہوں۔

 

 ( ۲ ؎ بہجۃ الاسرار   ذکر کلمات     اخبر بہا عن نفسہ محدثابنعمۃ ربہ     دارالکتب العلمیہ بیروت     ص ۵۵)

 

(۸۸) اور فرماتے ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ : قلبی مطلع علٰی اسرارالخلیفۃ ناظرا لی وجوہ القلوب قد صفاہ الحق عن دنس رویۃسواہ حتّی صارلوحاً ینقل الیہ مافی اللوح المحفوظ وسلم علیہ ازمۃ اموراھل زمانہ وصرفہ فی عطائھم ومنعھم۳ ؎۔   میرا دل اسرارِ مخلوقات پر مطلع ہے سب دلوں کو دیکھ رہا ہے اللہ تعالٰی نے اسے روایت ماسوا کے میل سے صاف کردیا کہ ایک لوح ہوگیا جس کی طرف وہ منتقل ہوتا ہے،  جو لوحِ محفوظ میں لکھا ہے۔( اللہ تعالٰی نے) تمام اہل زمانہ کے کاموں کی باگیں اسے سپرد فرمائیں اور اجازت فرمائی کہ جسے چاہیں عطا کریں،  جسے چاہیں منع فرمادیں۔

 

 ( ۳ ؎ بہجۃ الاسرار     ذکر کلمات     اخبر بہا عن نفسہ محدثابنعمۃ ربہ     دارالکتب العلمیہ بیروت     ص ۵۰)

 

(۸۹ و ۹۰ و ۹۱) والحمدﷲ رب العالمین یہ اور ان کے مثل اور کلمات قدسیہ اجلہ اکابرائمہ مثل امام اوحد سیّدی نور الحق والدین ابوالحسن علی شطنوفی صاحب کتاب بہجۃ الاسرار وامام اجل سیدی عبداللہ بن اسعد یا فعی شافعی صاحبِ خلاصۃ المفاخروغیرہما نے حضور سے بہ اسانیدِ صحیحہ روایت فرمائے ،اور علی قاری وغیرہ علماء نے نزہتہ الخاطر وغیرہا کتب مناقب شریفہ میں ذکر کیے۔

 

 (۹۲) عارف کبیر احد الاقطاب الاربعہ سیدنا حضرت سید احمد رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ ترقیات کامل کے بارے میں فرماتے ہیں : اطلعہ علٰی غیبہ حتی لا تنبت شجرۃ ولا تخضرورقۃ الابنظرہ۱ ؎۔ اﷲ تعالٰی اسے اپنے غیب پر مطلع کرتا ہے یہاں تک کہ کوئی پیڑ نہیں اُگتا اور کوئی پتہ نہیں ہریاتا مگر اس کی نظر کے سامنے۔

 

 ( ۱ ؎قول سیّداحمد رفاعی )

 

 (۹۳) عارف باﷲ حضرت سیدی رسلان دمشقی رضی ا للہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : العارف من جعل اﷲ تعالٰی فی قلبہ لوحاً منقوشاً باسرار الموجودات و بامدادہ بانوار حق الیقین یدرک حقائق تلک السطور علی اختلاف اطوار ھا ویدرک اسرار الافعال فلا تتحرک حرکۃ ظاھرۃً ولا باطنۃ فی الملک والملکوت الا ویکشف اﷲ تعالٰی عن بصیرۃ ایمانہ و عین عیانہ فیشھدھا علماً وکشفاً۲ ؎۔

 

عارف وہ ہے جس کے دل میں اللہ تعالٰی نے ایک لوح رکھی ہے کہ جملہ اسرار موجودات اس میں منقوش ہیں اور حق الیقین کے نوروں سے اسے مدد دی کہ وہ ان لکھی ہوئی چیزوں کی حقیقتیں خوب جانتا ہے باآنکہ انکے طور کس قدر مختلف ہیں اور افعال کے راز جانتا ہے تو ظاہری یا باطنی کوئی جنبش ملک یا ملکوت میں واقع نہیں ہوتی ،  مگر یہ کہ اﷲ تعالٰی اس کے ایمان کی نگاہ اور اس کے معاینہ کی آنکھ کھول دیتا ہے تو عارف اسے دیکھتا ہے اور اپنے علم وکشف سے جانتا ہے۔

 

 ( ۲ ؎الطبقات الکبرٰی ترجمہ ۲۷۴    رسلان الدمشقی      دارالفکر بیروت        ص ۲۱۴)

 

 (۹۴) (مذکور ہ بالا) یہ دونوں کلام کریم سیّدی امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی نے طبقاتِ کبٰری میں نقل کیے۔

(۹۵) سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے امام حضرت عزیزان رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے : زمین در نظر ایں طائفہ چو سفرہ ایست  ۳ ؎۔ اس گروہ کی نظر میں زمین دستر خوان کی طرح ہے۔(ت)

 

 ( ۳ ؎نفحات الانس      ترجمہ خواجہ بہاءُ الحق والدّین النقشبندی         انتشارات کتاب فروشی     ص ۳۸۷)

 

 (۹۶) حضرت خواجہ بہاؤ الحق والدین نقشبندی رضی اللہ تعالٰی عنہ یہ کلامِ پاک نقل کرکے فرماتے  : ومامی گوئیم چوں روئے ناخنے ست ہیچ چیز از نظر ایشاں غائب نیست۴ ؎۔ ہم کہتے ہیں کہ ناخن کی سطح کی طرح ہے،  کوئی چیز ان کی نظر سے غائب نہیں۔

 

 ( ۴ ؎نفحات الانس   ترجمہ خواجہ بہاءُ الحق والدّین النقشبندی انتشارات کتا ب فروشی ص ۸۸۔۳۸۷)

 

گنگوہی صاحب ! اب اپنے شیطانی شرک براہین کی خبر لیجئے۔

(۹۷) یہ دونوں ارشاد مبارک حضرت مولٰینا جامی قدس سرہ السامی نے نفحات الانس میں ذکر کیے۔

 

 (۹۸) امامِ اجل سیّدی علی وفارضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : لیس الرجل من یقیدہ العرش وما حواہ من الا فلاک والجنّۃ والنّار ،  وانما الرجل من نقذ بصرہ الٰی خارج ھذاالوجود کلہ وھناک یعرف قدر عظمۃ موجوہ سبحٰنہ و تعالٰی۱؂ ۔ مرد وہ نہیں جسے عرش اور جو کچھ اس کے احاطہ میں ہے آسمان و جنت و ناریہی چیزیں محدود مقید کرلیں ،  مرد وہ ہے جس کی نگاہ اس تمام عالم کے پار گزر جائے وہاں اسے موجدِ عالم سبحنہ و تعالٰی کی عظمت کی قدر کھلے گی۔

 

 (۱ ؎الیواقیت والجواھر       البحث الرابع والثلاثون        دار احیاء التراث العربی بیروت      ۲/ ۳۷۰ )

 

(۹۹) یہ پاکیزہ کلام کتاب الیواقیت والجواہر فی عقائد الاکابر میں نقل فرمایا ۔

 

 (۱۰۰) ابریز شریف میں ہے : سمعتہ رضی اللہ تعالٰی عنہ احیانا یقول ما السمٰوٰت السبع والارضون السبع فی نظر العبدالمؤمن الاکحلقۃ ملقاۃ فی فلاۃ من الارض ۲ ؎۔ یعنی میں نے حضرت سید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بارہا سنا کہ فرماتے ساتویں آسمان اور ساتویں زمینیں مومن کامل کی وسعتِ نگاہ میں ایسے ہیں جیسے ایک میدانِ لق و دق میں ایک چھلا پڑا ہوا۔

 

 ( ۲ ؎ الابریز   الباب السادس     مصطفی البابی مصر    ص۲۴۲)

 

 (۱۰۱) امام شعرانی کتاب الجواہر میں حضرت سیدی علی خواص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی : الکامل قلبہ مراۃ للوجودالعلوی و السفلی کلہ علی التفصیل۳ ؎۔ کامل کا دل تمام عالم علوی و سفلی کا بروجہ تفصیل آئینہ ہے۔

 

 (۳ ؎الجواھر والدرر علی ھامش  الابریز   الباب السادس     مصطفی البابی مصر    ص۲۲۳)

 

(۱۰۲) امام رازی تفسیر کبیر میں رَد معتزلہ کے لیے حقیقتِ کرامات اولیاء پر دلائل قائم کرنے میں فرماتے ہیں : الحجۃ السادسۃ لا شک انّ المتولی للافعال ھوالروح لاالبدن ولہذا نری ان کل من کان اکثر علماً باحوال عالم الغیب کان اقوٰی قلباً ولہذا قال علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ واﷲ ماقلعت باب خیبر بقوۃ جسدانیۃ ولٰکن بقوۃ ربانیۃ وکذٰلک العبداذا واظب علی الطاعات بلغ الی المقام الذی یقول اﷲ تعالٰی کنت لہ سمعاً وبصراًفاذا صار نور اجلال اللہ تعالٰی سمعاً لہ سمع القریب و البعید واذاصارذٰلک النور بصراً لہ راٰی القریب والبعید واذا صارذٰلک النوریدا لہ قدر علی التصرف فی الصعب و السہل والبعید والقریب۱ ؎۔

 

یعنی اہل سنت کی چھٹی دلیل یہ ہے کہ بلاشبہہ افعال کی متولی تو روح ہے نہ کہ بدن،  اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جسے احوال عالم غیب کا علم زیادہ ہے اس کا دل زیادہ زبردست ہوتا ہے، ولہذا مولٰی علی نے فرمایا : خدا کی قسم میں نے خیبر کا دروازہ جسم کی قوت سے نہ اکھیڑا بلکہ ربانی طاقت سے،  اسی طرح بندہ جب ہمیشہ طاعت میں لگا رہتا ہے تو اس مقام تک پہنچتا ہے جس کی نسبت رب عزوجل فرماتا ہے کہ وہاں میں خود اس کے کان آنکھ ہوجاتا ہوں تو جب اجلالِ الہی کا نور اس کا کان ہوجاتا ہے بندہ نزدیک ، دور سب سنتا ہے اور جب وہ نور اس کی آنکھ ہوجاتا ہے بندہ نزدیک و دور ،سب دیکھتا ہے اور جب وہ نور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہے بندہ سہل و دشوار و نزدیک و دور میں تصرفات کرتا ہے۔

 

 ( ۱ ؎مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر )   تحت آیۃ ۱۸/ ۹  دار الکتب العلمیہ بیروت     ۲۱/ ۷۷)

 

 (۱۰۳) حضرت مولوی معنوی قدس سرہ العلوی دفتر ثالث مثنوی شریف میں موزہ و عقاب کی حدیث مستطاب میں فرماتے ہیں حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: گرچہ ہر غیبے خدا مارا  نمود                                                             دل دراں لحظہ بخود مشغول بود۲ ؎  (اگرچہ ہر غیب خدا نے ہم کو دکھایا ہے لیکن دل اس وقت اپنی ذات میں مشغول تھا۔ ت)

 

( ۲ ؎ مثنوی معنوی    ربودن عقب موزہ رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم    نورانی کتب خانہ پشاور  دفتر سوم    ص ۸۱)

 

(۱۰۴) مولانا بحرالعلوم ملک العلماء قدس سرہ،  شرح میں فرماتے ہیں : محمد رضا گفتہ اے فکر تن نداشت و از جہت استغراق بعضی مغیبات برانبیاء مستور شوند انتہٰی،  معنی بیت ایں چنیں ست کہ دل بخود مشغول بود کہ دل نفس دل رامشاہدہ می کرد و ذات باحدیث جمیع اسماء دردل ست پس بسبت استغراق دریں مشاہدات توجہ بسوئے اکوان نبود پس بعض اکوان مغفول عنہ ماند وایں وجہ وجیہ است۱ ؎۔

 

یعنی محمد رضا کہتا ہے دل کو بدن کی فکر نہ تھی اور استغراق کی وجہ سے بعض غیوب انبیاء سے چھپ جاتے ہیں انتہی، شعر کے معنی یہ ہیں کہ دل ذات دل کا مشاہدہ کررہا تھا اور ذات احدیث تمام اسماء کے ساتھ دل میں ہے،  پس اس مشاہدہ میں مشغول ہونے کی وجہ سے توجہ عالم کی طرف نہ تھی اس لیے بعض حالات پوشیدہ رہے یہ بہترین توجیہ ہے۔(ت)

 

 (۱؂)

 

 (۱۰۵ و ۱۰۶ و ۱۰۷ و ۱۰۸) امام قرطبی شارح صحیح مسلم ،  پھر امام عینی بدر محمود،  پھر امام احمد قسطلانی شارح صحیح بخاری،  پھر علامہ علی قاری مرقاۃ شرح مشکوۃ حدیث "وخمس لایعلمھن الا اﷲ" کی شرح میں فرماتے ہیں۔ فمن ادعٰی علم شیئ منہا غیر مسند الٰی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان کاذباً دعواہ ۲ ؎۔ یعنی جو کوئی قیامت و غیرہ خمس سے کسی شے کے علم کا اِدعا کرے اور اسے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف نسبت نہ کرے کہ حضور کے بتائے سے مجھے یہ علم آیا،  وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔

 

 ( ۲ ؎ عمدۃ القاری شرح البخاری    کتاب الایمان   باب سوال جبریل النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ادرۃ طباعۃ المنیریۃ بیروت ۱/ ۲۹۰)

(ارشاد الساری  شرح البخاری    کتاب الایمان   باب سوال جبریل النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالکتاب العربی  بیروت ۱/ ۱۴۱)

 

صاف معلوم ہوا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان پانچوں غیبوں  کو جانتے ہیں اور اس میں سے جو چاہیں اپنے جس غلام کو چاہیں بتاسکتے ہیں،  اور جو حضور کی تعلیم سے ان کے علم کا دعوٰی کرے اس کی تکذیب نہ ہوگی۔

(۱۰۹) روض النضیر شرح جامع صغیر امام کبیر جلال الملتہ والدین سیوطی سے اس حدیث کے متعلق ہے، ۔ "  اما قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا ھو ففسر بانہ لا یعلمہا احد بذاتہ و من ذاتہ الا ھو لکن قد تعلم باعلام اﷲ تعالٰی فان ثمہ من یعلمھا وقد وجدنا ذٰلک لغیر واحد کما راینا جماعتہ علموامتی یموتون و علموا مافی الارحام حال حمل المرأۃ وقبلہ "  ۱ ؎۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا کہ ان پانچویں غیبوں کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا اس کے یہ معنی ہیں کہ بذاتِ خود اپنی ذات سے انہیں اﷲ ہی جانتا ہے مگر خدا کے بتائے سے کبھی ان کو بھی ان کا علم ملتا ہے بے شک یہاں ایسے موجود ہیں جو ان غیبوں کو جانتے ہیں اور ہم نے متعدد اشخاص ان کے جاننے والے پائے ایک جماعت کو ہم نے دیکھا کہ ان کو معلوم تھا کب مریں گے اور انہوں نے عورت کے حمل کے زمانے میں بلکہ حمل سے بھی پہلے جان لیا کہ پیٹ میں کیا ہے۔

 

 ( ۱ ؎ روض النضیر  شرح الجامع الصغیر )

 

(۱۱۰) شیخ محقق قدس سرہ،  لمعات شرح مشکوۃ میں اسی حدیث کے ماتحت فرماتے ہیں : المراد لا تعلم بدون تعلیم اﷲ تعالٰی منہ "  ۲ ؎۔ مراد یہ ہے کہ قیامت وغیرہ غیب بے خدا کے بتائے معلوم نہیں ہوتے۔

 

 ( ۲ ؎ لمعات التنقیح  شرح مشکٰوۃ المصابیح     تحت حدیث  ۳     مکتبۃ المعارف العلمیۃ لاھور      ۱/ ۷۳)

 

(۱۱۱) علامہ ہیجوری شرح بُردہ شریف میں فرماتے ہیں : لم یخرج صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من الدنیا الابعد ان اعلمہ اﷲ تعالٰی بھذہٰ الامور ای الخمسہ ۳؂" نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دنیا سے تشریف نہ لے گئے مگر بعد اس کے کہ اللہ تعالٰی نے حضور کو ان پانچ غیبوں کا علم دے دیا۔

 

 (۳؎ حاشیۃ  الباجوری علی البردۃ تحت البیت   فان من جودک الدنیا  الخ    مصطفی البابی مصر  ص۹۲)

 

(۱۱۲) علامہ شنوانی نے جمع النہایۃ میں اسے بطور حدیث بیان کیا کہ : قدورد ان اﷲ تعالٰی لم یخرج النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حتی اطلعہ علٰی کل شیئ۴ ؎۔ بے شک وارد ہوا کہ اللہ تعالی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دنیا سے نہ لے گیا جب تک کہ حضور کو تمام اشیاء کا علم عطا نہ فرمایا۔

 

 (۴؂)

 

 (۱۱۳) حافظ الحدیث سیدی احمد مالکی غوث الزمان سید شریف عبدالعزیز مسعود حسنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی  : ھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لا یخفی علیہ شیئ من الخمس المذکورۃ فی الایۃ لشریفۃ وکیف یخفی علیہ ذٰلک والاقطاب السبعۃ من امتیہ الشریفۃ یعلمو نہا وھم دون الغوث فکیف بسسیدالاولین والآخرین الذی ھو سبب کل شیئ و منہ کل شیئ ۱؂۔ یعنی قیامت کب آئے گی ،  مینہ کب اور کہاں اور کتنا برسے گا،  مادہ کے پیٹ میں کیا ہے، کل کیا ہوگا،  فلاں کہاں مرے گا،  یہ پانچوں غیب جو آیہ کریمہ میں مذکور ہیں ان میں سے کوئی چیز رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر مخفی نہیں، اور کیونکر یہ چیزیں حضور سے پوشیدہ ہیں،  حالانکہ حضور کی امت سے ساتوں قطب ان کو جانتے ہیں اور ان کا مرتبہ غوث کے نیچے ہے،  غوث کا کیا کہنا پھران کا کیا پوچھنا۔جو سب اگلوں پچھلوں سارے جہان کے سردار اور ہر چیز کے سبب ہیں اور ہر شے انہیں سے ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

 (۱؂)

 

 (۱۱۴) نیز ابریز عزیز میں فرمایا : قلت للشیخ رضی اﷲ تعالٰی عنہ فان علماء الظاھر من المحدیثین وغیرھم اختلفوا فی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھل کان یعلم الخمس فقال رضی اللہ تعالٰی عنہ کیف یخفی امرالخمس علیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم والواحد من اھل التصرف من امتہ الشریفۃ لایمکنہ التصرف الا بمعرفۃ ھذہ الخمس۲ ؎۔ یعنی میں نے حضرت شیخ رضی اللہ تعالٰی عنہ س ے عرض کی کہ علماء ظاہر محدثین مسئلہ خمس میں باہم اختلاف رکھتے ہیں،  علماء کا ایک گروہ کہتا ہے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ان کا علم تھا ،  دوسرا ان کار کرتا ہے،  ا س میں حق کیا ہے ؟ فرمایا ( جو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو  ِپانچویں غیبوں کا علم مانتے ہیں وہ حق پر ہیں) حضور سے یہ غیب کیونکر چھپے رہیں گے حالانکہ حضور کی امت شریفہ میں جو اولیائے کرام اہلِ تصرف ہیں ( کہ عالم میں تصرف فرماتے ہیں) وہ جب تک ان پانچوں غیبوں کا علم مانتے ہیں وہ حق پر ہیں) حضور سے یہ غیبکیونکر چھپے رہیں گے حالانکہ حضور کی امت شریفہ میں جو اولیائے کرام اہلِ تصرف ہیں ( کہ عالم میں تصرف فرماتے ہیں) وہ جب تک ان پانچوں غیبوں کو جان نہ لیں تصرف نہیں کرسکتے۔

 

 ( ۲ ؎ الابریز   الباب الثانی      مصطفی البابی مصر    ص۱۶۷ و ۱۶۸)

 

(۱۱۵) تفسیر کبیر میں زیر آیہ کریمہ "عالم الغیب فلا یظھر علٰی غیبہ احداً الا من ارتضٰی من رسول ۳؂" فرمایاای وقت وقوع القیمٰۃ من غیب الذی لایظھرہ اﷲ لا حد فان قیل فاذا حملتم ذلک علی القیٰمۃ فکیف قال الا من ارتضٰی من رسول "  مع انہ لا یظھر ھذا الغیب لا حد قلنا بل یظھرہ ، عند قرب القیٰمۃ"۱؂ (ملخصاً) یعنی قیامت کے واقع ہونے کا وقت اس غیب میں سے ہے جس کو اﷲ تعالٰی کسی پر ظاہر نہیں کرتا اگر کہا جائے کہ جب تم نے آیت کو علمِ قیامت پر محمول کیا تو کیسے اﷲ نے فرمایا : "الاّ من ارتضٰی من رسول" باوجود یہ کہ یہ غیب اﷲ کسی پر ظاہر نہیں کرے گا،  ہم جواب دیں گے کہ قیامت کے قریب ظاہر کرے گا۔(ت)

 

 (۳؂القرآن الکریم  ۷۲/ ۱۰۲)

(۱؂مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر )  تحت آیۃ ۷۲/ ۲۶   المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۳۰/ ۱۶۸)

 

اس نفیس تفسیر نے صاف معنی آیت یہ ٹھہرائے کہ اﷲ عالم الغیب ہے،  وہ وقتِ قیامت کا علم کسی کو نہیں دیتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔

 

(۱۱۶) علامہ سعد الدین تفتازانی شرح مقاصد میں فرقہ باطلہ معتزلہ خذلہم اﷲ تعالٰی کے کرامات اولیاء سے انکار اور ان کے شبہات فاسدہ کے ذکرو ابطال میں فرماتے ہیں : الخامس وھو فی الاخبار عن المغیبات قولہ تعالٰی عالم الغیب فلا یظھر علٰی غیبہ احداً الا من ارتضٰی من رسول خص الرسل من بین المرتضین بالا طلاع علی الغیب فلا یطلع غیر ھم وان کانوا اولیاء مرتضین،  الجواب ان الغیب ھٰہنا لیس للعموم بل مطلق اومعین ھووقت وقوع القیٰمۃ بقرینۃ السباق ولا یبعدان یطلع علیہ بعض الرسل من الملٰئِکۃ او البشرفیصح الاستثناء ۱ ؎۔

 

یعنی معتزلہ کی پانچویں دلیل خاص علم غیب کے بارے میں ہے وہ گمراہ کہتے ہیں کہ اولیاء کو غیب کا علم نہیں ہوسکتا کہ اﷲ عزوجل فرماتا ہے غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر مسلط نہیں کرتا۔ مگر اپنے پسندیدہ رسولوں کو،  جب غیب پر اطلاع رسولوں کے ساتھ خاص ہے تو اولیاء کیونکر غیب جان سکتے ہیں۔ائمہ اہلسنت (عہ) نے جواب دیا کہ یہاں غیب عام نہیں جس کے یہ معنے ہوں کہ کوئی غیب رسولوں کے سوا کسی کو نہیں بتاتا جس سے مطلقاً اولیاء کے علومِ غیب کی نفی ہوسکے،  بلکہ یہ تو مطلق ہے ( یعنی کچھ غیب ایسے ہیں کہ غیر رسول کو نہیں معلوم ہوتے) یا خاص وقت وقوعِ قیامت مراد ہے ( کہ خاص اس غیب کی اطلاع رسولوں کے سوا اوروں کو نہیں دیتے) اور  اس پر قرینہ یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں غیب قیامت ہی کا ذکر ہے۔ ( تو آیت سے صرف اتنا نکلا کہ بعض غیبوں یا خاص وقت قیامت کی تعیین پر اولیاء کو اطلاع نہیں ہوتی نہ یہ کہ اولیاء کوئی غیب نہیں جانتے،  اس پر اگر شبہہ کیجئے کہ اﷲ تو رسولوں کا استثناء فرمارہا ہے کہ وہ ان غیبوں پر مطلع ہوتے ہیں جن کو اور لوگ نہیں جانتے اب اگر اس سے تعین وقت قیامت لیجئے تو رسولوں کا بھی استثناء نہ رہے گا کہ یہ تو اُن کو بھی نہیں بتایا جاتا۔ اس کا جواب یہ فرمایا کہ ) ملائکہ یا بشر سے بعض رسولوں کو تعیین وقت قیامت کا علم ملنا کچھ بعید نہیں تو استثناء کہ اﷲ عزوجل نے فرمایا ضرور صحیح ہے۔

 

عہ : فائدہ : اس نفیس عبارت کتاب العقائد اہلسنت سے ثابت ہوا کہ وہابیہ معتزلہ سے بھی بہت خبیث تر ہیں ، معتزلہ کو صرف اولیائے کرام کے علومِ غیب میں کلام تھا انبیاء کے لیے مانتے تھے ، یہ خبیث خود انبیاء سے منکر ہوگئے ، اور یہ بھی ثابت ہوا کہائمہ اہلسنت انبیاء واولیاء سب کے لیے مانتے ہیں وللہ الحمد ۱۲ منہ ۔

 

 ( ۱ ؎شرح المقاصد المبحث الثامن اولی ھوالعارف باﷲ تعالٰی دارالمعارف النعمانیۃ لاہور ۲ /۲۰۴ و۲۰۵)

 

(۱۱۷) امام قسطلانی شرح بخاری تفسیر سورہ رعد میں فرماتے ہیں : لایعلم متی تقوم الساعۃ الا اﷲ الا من ارتضٰی من رسول فانہ یطلعہ من یشاء من غیبہ و الولی التابع لہ یا خذ عنہ۲ ؎۔ کوئی غیر خدا نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی سوااس کے پسندیدہ رسولوں کے کہ انہیں اپنے جس غیب پر چاہے اطلاع دیتا ہے۔ ( یعنی وقتِ قیامت کا علم بھی ان پر بند نہیں۔) رہے اولیاء وہ رسولوں کے تابع ہیں ان سے علم حاصل کرتے ہیں۔

 

(۲ ؎ارشاد الساری شرح صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ الرعد    دارالکتاب العربی بیروت    ۷ /۱۸۶)

 

یہاں اس خاص غیب کے علم میں بھی اولیاء کے لیے راہ رکھی ،  مگر یوں کہ اصالۃً انبیاء کو ہے اور ان کو ان سے ملتا ہے،  اور حق یہی ہے کہ آیئہ کریمہ غیر رسل سے علم غیوب میں اصالت کی نفی فرماتی ہے نہ کہ مطلق علم کی۔

 

 (۱۱۸ و۱۱۹) علامہ حسن بن علی مدابغی حاشیہ فتح المبین امام ابن حجر مکی اور فاضل ابن عطیہ فتوحات وہبیہ  شرح اربعین امام نووی میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو علم قیامت عطا ہونے کے باب میں فرماتے ہیں : الحق کما قال جمع انّ اﷲ سبحٰنہ وتعالٰی لم یقبض نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حتی اطلعہ علی کل ما ابھمہ عنہ الا انہ امر بکتم بعض والا علام ببعض  ۱ ؎۔ یعنی حق مذہب وہ ہے جو ایک جماعت علماء نے فرمایا کہ اللہ عزوجل ہمارے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دنیا سے نہ لے گیا یہاں تک کہ جو کچھ حضور سے مخفی رہا تھا اس سب کا علم حضور کو عطا فرمادیا،  ہاں بعض علوم کی بنسبت حضور (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کو حکم دیا کہ کسی کو نہ بتائے اور بعض  کے بتانے کا حکم کیا۔

 

 (۱؂)

 

 (۱۲۰) علامہ عشماوی کتاب مستطاب عجب العجاب شرح صلاۃ سیّدی احمد بدوی کبیر صلی اللہ تعالٰی عنہ میں فرماتے ہیں : قیل انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اوتی علمہا (ای الخمس ) فی اٰخرالامرلکنہ امرفیہابالکتمان وھٰذاالقیل ھوالصحیح۲ ؎۔ یعنی کہا گیا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو آخر میں ان پانچوں غیبوں کا بھی علم عطا ہوگیا مکر ان کے چھپانے کا حکم تھا،  اور یہی قول صحیح ہے۔

 

 (۲؂عجب العجاب شرح صلٰوۃ سید احمد کبیر بدوی)

 

تنبیہ جلیل

 

الحمد ﷲ یہ بطورِ نمونہ ایک سو بیس عبارات قاہرہ میں جن سے وہابیت کی پوچ ذلیل عمارت نہ صرف منہدم ہوئی بلکہ قارون اور اس کے گھر کی طرح بفضلہ تعالٰی تحت الثرٰی پہنچتی ہے،  اور بحمدہ تعالٰی یہ کل سے جز ہیں،  ایسے ہی صدہا نصوص جلیلہ و عظیمہ دیکھنا ہوں تو فقیر کی کتاب "مالیئ الجیب بعلوم الغیب ۱۳۱۸ ھ" و  رسالہ "اللؤلؤ المکنون فی علم البشیر ما کان وما یکون ۱۳۱۸ھ" ملاحظہ ہوں کہ نصوص کے دریا ہیں چھلکتے،  اور حُبِّ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چاند چمکتے اور تعظیم حضور کے سورج دمکتے،  اور نور آیمان کے تارے جھلکتے ، ا ور حق کے باغ مہکتے اور ہدایت کے پھول چہکتے اور نجدیت کے کوے سسکتے اور وہابیت کے بوم بلکتے،  اور بد بوح گستاخ پھڑکتے ۔ والحمد ﷲ رب العلمین۔

 

وہابیہ خذلہم اﷲ تعالٰی ان نصوص قاہرہ کے مقابل ادھر ادھر  سے کچھ عبارات دربار تخصیص غیوب نقل کر لاتے اور بغلیں بجاتے ہیں حالانکہ یہ محض جہالت،  کج فہمی بلکہ صریح مکاری اور ہٹ دھرمی ہے انصافاً وہ ہمارے ہی بیان کا دوسرا پہلو دکھاتے ہیں۔

فقیر گزارش کرچکا کہ مسئلہ عموم و خصوص اُن اجماعات بعد کہ امر چہارم میں معروض ہوئے علمائے اہلسنت کا خلافیہ ( اختلافی ) ہے ۔ عامہ اولیاء کرام و بکثرت علمائے عظام جانب تعمیم ہیں اور یہی ظاہر نصوص قرآن عظیم و مفادات احادیث حضور پرنور علیہ  افضل الصلوۃ والتسلیم ہے۔

 

اور بہت اہل رسوم جانب خصوص گئے،  ان میں بھی شاید نرے متقشفوں کا یہ خیال ہو ورنہ ان کے لیے اس پر ایک باعث ہے جس کا بیان مع چند نظائرِ نفسیہ فقیر کے رسالے "  انباء الحی ان کلامہ المصون تبیان لکل شیئ" (۱۳۲۰ھ) میں مشرح ہے تو ایسی عبارات سے ہمیں کیا ضرر،  ہم نے کیا دعوٰی اجماع کیا تھا کہ خلاف دکھاؤ ۔

وہاں تم اپنی جہالت سے مدعِی اجماع تھے یہاں تک کہ مخالف کی تکفیر کر بیٹھے۔ تو ہر طرح تم پر قہر کی مار ہے ایجابِ جزئی سے موجبہ کلیہ کا ثبوت چاہنا مجنون کا شعار ہے۔

تم دس عبارتیں خصوص میں لاؤ ہم سو نصوص عموم میں دکھائیں گے پھر ظواہر قرآن و حدیث و عامہ اولیائے قدیم و حدیث ہمارے ساتھ ہیں،  اور اسی میں ہمارے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی فضیلت کی ترقی اور خود اسی بارے میں ان کا رب فرماچکا کہ  : علمک مالم تکن تعلم وکان فضل اﷲ علیک عظیماً ۱ ؎۔ سکھادیا تمہیں جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اﷲ کا فضل تم پر بڑا ہے۔

 

 ( ۱ ؎ القرآن الکریم     ۴ /۱۱۳)

 

جسے ا ﷲ بڑا کہے اسے گھٹائے کیونکر بنے،  معہذا اگر بفرض باطل خدا کا فضل عظیم چھوٹا اور مختصر ہی ہو۔ مگر ہم نے ظواہر قرآن و حدیث وتصریحات صدہاائمہ ظاہر و باطن کے اتباع سے محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زیادہ رقعت شان چاہ کر اسے بڑا مانا تو بحمداﷲ تعالٰی اﷲ کے فضل اور اس کے حبیب کی تعظیم ہی کی۔

اور اگر واقع میں وہ فضلِ الہٰی ویسا ہی بڑا ہے اور تم نے برخلاف ظواہر نصوص قرآن و حدیث اسے ہلکا اور چھوٹا جانا تو تمہارا معاملا معکوس ہوا۔ "  فایّ الفریقین احق بالامن "  ۲ ؎۔ خیال کرلو کہ کون سا فریق زیادہ مستحقِ امن ہے۔

 

(۲؎القرآن الکریم     ۶ /۸۱)

 

غرض یہاں چند پریشان عبارات خصوص کا سنانا محض جہل ہے یا سخت مکر،  کلام تو اس میں ہے کہ تم اقوال عموم بمعنی مرقوم بلکہ اس سے بھی لاکھوں درجے ہلکے پر حکمِ شرک و کفر جڑرہے ہو۔ گنگوہی جی کی قاطعہ براہین دیکھو ۔ صرف اتنی بات کہ جہاں مجلس میلاد مبارک ہو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اطلاع ہوجائے،  علمِ محیط زمین ٹھہرادیا۔ پھر اسے خدا کا خاصہ اور ساتھ ہی اپنے معبود و ابلیس کی صفت بتا کر صاف حکمِ شرک پھٹادیا اور شرک بھی کیسا جس میں کوئی حصہ ایمان کا نہیں پھر عرش تا فرش کا علم تو زمین کے علم محیط سے کروڑ ہا کروڑ درجے بڑا ہے پھر ماکان وما یکون کا تو کیا ہی کہنا ہے۔

 

اسی طرح اور تعمیمات کہ کلامِائمہ دین و علمائے معتمدین میں گزریں۔ اس کا ماننے والا اگر معاذ اﷲ ایک حصہ کافر تھا تو ان کا ماننے والا تو پدموں سنکھوں کافروں کے برابر ایک کافر ہوگا۔

یونہی تمہارا امام علیہ ماعلیہ تقویۃ الایمان میں بعطائے الہی بھی غیب کی بات کا علم ماننے کو شرک کہہ چکا پھر گنگوہی جی کا شرک تو میلاد مبارک کی اطلاع پر اُچھلا تھا۔ ان امام جی نے ایک پیڑ کے پتے ہی جاننے پر شرک اُگل دیا۔

 

تمام علماء ،  اولیاء ،  صحابہ،  انبیاء وہابیوں کی تکفیر کا نشانہ

 

اب دیکھئے کہ گنگوہی و اسمعیل و وہابیہ نے معاذ اﷲ کن کن آئمہ،  علماء و محدثین وفقہاء و مفسرین ومتکلمین و اولیاء وصحابہ و انبیاء علیہم الصلوۃ والثناکو کافر بنادیا۔

انہیں کو گنئے جن کے اقوال و ارشادات اس مختصر میں گزرے۔  

(۱) شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی                                                                                                                                   (۲) مولٰنا ملک العلماء بحرالعلوم

(۳) علامہ سامی صاحبِ ردالمحتار                                                      (۴) آئمہ اہلسنت و مصنفانِ عقائد

(۵) شیخ محقق مولٰنا عبدالحق محدث دہلوی                                           (۶) علامہ شہاب الدین خفا جی

(۷) امام فخر الدین رازی                                                                                                                                                                             (۸) علامہ سید شریف جرجانی

(۹) علامہ سعد الدین تفتازانی                                                                                                                                    (۱۰) علی قاری مکی

(۱۱) امام ابنِ حجر مکی                                                                                                                                        (۱۲) علامہ محمد زرقانی

(۱۳) علامہ عبدالرؤف مناوی                                                                               (۱۴) علامہ احمد قسطلانی

(۱۵) امام قرطبی                                                                                                                                                                        (۱۶) امام بدر الدین عینی

(۱۷) امام بغوی ( صاحبِ تفسیر معالم)                               (۱۸) شیخ علاؤ الدین علی بغدادی ( صاحبِ تفسیر خازن)

(۱۹) علامہ بیضاوی                                                                                                                                                  (۲۰) علامہ نظام الدین نیشا پوری (صاحبِ تفسیر غرائب القرآن )

 

 (۲۱) علامہ جمل ( شارح جلالین)                                                                  (۲۲) امام ابوبکر رازی ( صاحبِ تفسیر انموذج جلیل)

(۲۳) امام قاضی عیاض                       (۲۴) امام زین الدین عراقی (استاد امام ابن حجر عسقلانی)

(۲۵) حافظ الحدیث احمد سلجماسی                                                       (۲۶) ابن قتیبہ

(۲۷) ابن خلکان                                                                                  (۲۸) امام کمال الدین دمیری

(۲۹) علامہ ابراہیم بیجوری                     (۲۰) علامہ شنوانی        

(۳۱) علامہ مدابغی                                                               (۳۲) علامہ ابن عطیہ

(۳۳) علامہ عشماوی                                                        (۳۴) امام ناصر الدین سمرقندی (صاحب ملتقط)

(۳۵) علامہ بدر الدین محمود بن اسرائیل  (صاحب جامع الفصولین)    (۳۶) شیخ عالم بن صاحبِ تاتارخانیہ

(۳۷) امام فقییہہ صاحبِ فتاوٰی حجہ                 (۳۸) امام عبدالوہاب شعرانی

(۳۹) امام یافعی                             (۴۰) امام اوحد ابوالحسن شطنوفی

(۴۱) امام ابن حجر مکی                            (۴۲)امام محمد صاحب مدحیہ بردہ شریف

(۴۳) حضرت مولانا جامی                         (۴۴) حضرت مولوی معنوی

(۴۵) حضرت سید عبدالعزیز دباغ                     (۴۶) حضرت سیدی علی خواص

(۴۷)حضرت خواجہ بہاؤ الحق والدین                    (۴۸)حضرت خواجہ عزیز ان رامتینی

(۴۹) حضرت شیخ اکبر                             (۵۰) حضرت سیدی علی وفا

 

 (۵۱) حضرت سیّدی رسلان دمشقی                    (۵۲)حضرت سیدی ابوعبداللہ شیرازی

(۵۳)حضرت سیدی ابوسلیمان درانی                     (۵۴) حضرت قطبِ کبیر سید احمد رفاعی

(۵۵) حضور قطب الاقطاب سیدنا غوث اعظم                 (۵۶) حضرت امام علی رضا

(۵۷) حضرت امام جعفر صادق                     (۵۸) حضرت عالیہ دیگر آئمہ اطہار

(۵۹)امام مجاہد                                 (۶۰) حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس

(۶۱) حضور سیدنا امیر المومنین علی مرتضٰی                (۶۲) عامہ صحابہ کرام

(۶۳) حضرت خضر     بلکہ                         (۶۴)حضرت موسی     بلکہ

(۶۵) (خاک بہ دہن دشمنان) خود حضور سیدالانبیاء (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) بلکہ

 

 (۶۶) (لعنۃ اﷲ علی الظالمین) خود اﷲ رب العالمین ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم وسیعلم الذین ظلموااعی منقلب ینقلبون ۱ ؎۔ نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی و عظمت والے خدا کی طرف سے۔،  عنقریب ظالم جانیں گے کس لوٹنے کی جگہ لوٹتے ہیں۔(ت)

 

(۱ ؎ القرآن الکریم     ۲۶ /۲۲۷)

 

یہ گنتی میں تو چھیاسٹھ ہیں اور ان میں آئمہ اہلسنت ،  مصنفانِ عقائد جن کا حوالہ علامہ شامی نے دیا،  اور آئمہ اطہار جن کا حوالہ علامہ سید شریف نے اور تمام صحابہ کرام جن کا حوالہ امام قسطلانی و علامہ زرقانی نے دیا سب خود جماعتیں ہیں۔

اور ہے یہ کہ جب اﷲ و رسول تک نوبت ہے تو اگلے پچھلے جن و انس و مالک تمام مومنین سب ہی وہابیہ کی تکفیر میں آگئے۔

 

ان بے دینوں کا تماشا دیکھو محمد رسول اﷲ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  کے بدگویوں کی تکفیر ہوئی اس پر کیا کیا روئے ہیں کہ ہائے سارے جہان کو کافر کہہ دیا۔( گویا جہان انہیں ڈھائی نفروں سے عبارت ہے) ہائے اسلام کا دائرہ تنگ کردیا (گویا اسلام ان بے دینوں کے قافیہ کا نام ہے ان کا قافیہ تنگ ہوا تو اسلام ہی کا دائرہ تنگ ہوگیا۔

اور خود یہ حالت کہ اشقیاء نہ علماء کو چھوڑیں،  نہ اولیاء کو نہ صحابہ کو نہ مصطفٰی (  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) کو نہ جناب کبریا (عزوجلالہ) کو سب پر حکم کفر لگائیں اور خود ہٹے کٹے مسلمانوں کے بچے بنے رہیں۔ الا لعنۃ اﷲ علی الظلمین ۲ ؎  (خبردار ! ظالموں پر اﷲ کی لعنت ہے۔ت)

 

 (۲ ؎ القران الکریم     ۱۱/ ۱۸)

 

ہاں ہاں وہابیو! گنگوہیو! دیوبندیو! تھانویو دہلویو! امرتسریو ! بات کے پکے اور قول کے سچے ہو تو آنکھیں بند کرکے منہ کھول کر صاف کہہ ڈالو کہ ہاں ہاں شاہ ولی اللہ سے لے کر فقہاء محدثین مفسرین،  متکلمین اکابر علماء،  اکابر علماء،  سے لے کر اولیاء اولیاء سے لے کر آئمہ اطہار ،  آئمہ اطہار سے لے کر انبیاء عظام،  انبیاء عظام سے لے کر سید الانبیاء ،  سیدالانبیاء (  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) سے لے کر واحد قہار تک تمہارے دھرم میں سب کافر ہیں،  اس کی بحث ہے اس میں کلام ہے۔ دو چار،  دس بیس عبارات تخصیص دکھانے،  کروٹیں بدلنے،  کہنے،  مکرنے ،  اڑے اڑے پھرنے سے کام نہیں چلتا ۔

 

یہ کہنا آسان تھا کہ احمد رضا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم غیب کا قائل ہوگیا اور یہ عقیدہ کفر کا ہے،  مگر نہ دیکھا کہ احمد رضا کی جان کن کن پاک دامنوں سے وابستہ ہے،  احمد رضا کا سلسلہ اعتقاد علماء،  اولیاء آئمہ صحابہ سے محمد رسول اللہ   صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم   اور محمد رسول اﷲ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  سے اﷲ رب العالمین تک مسلسل ملا ہوا ہے۔ والحمد ﷲ رب العالمین ۔

 

گرچہ خوردیم نسبتے سست بزرگ

 

 (اگرچہ ہم چھوٹے ہیں مگر نسبت بلند ہے۔ت)

حضرت مولوی معنوی قدس سرہ،  پر اﷲ عزوجل کی بے شمار رحمتیں،  کیا خوب فرمایا ہے: رومی سخن کفر نگفتست و نگوید،  منکر مشویدش

کافر شودآنکس کہ بانکار برآمد مردود جہاں شد

 

 (رومی نے کفر کی بات نہیں کہی ہے اور نہ کہے گا۔ اس کے منکر مت ہو۔ کافر وہ شخص ہوتا ہے جس نے انکار ظاہر کیا مردود جہاں ہوگیا ۔ت)

اب اپنا ہی حال سوجھو کہ تمہاری آگ کا لوکا کہاں تک پہنچا جس نے علماء،  اولیاء و ائمہ و صحابہ و انبیاء و مصطفٰی (  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) و حضرت کبریا (جل وعلا) سب پر معاذ اﷲ وہی معلون حکم لگادیا اور "کافر شود مردود   جہاں شد" کا تمغہ لیا۔

 

پھر کیا تمہاری یہ آگ اﷲ و روسول ( جل و علا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کو ضرر پہنچائے گی؟ حاش ﷲ بلکہ تمہیں کو جلائے گی،  اور بے توبہ مرے تو اِن شاء اﷲ القہار ابد الاباد تک " ذق انّک انت الاشرف الرشید "( اس کا مزہ چکھ بےشک تو اشرف رشید ہے۔ ت) کا مزہ چکھائے گی۔

 

پھر بھی ہم کہیں گے انصاف ہی کی ۔ تمام آئمہ واولیاء و محبوبانِ خدا کو تم کافر کہو تو جائے شکایت نہیں،  انہوں نے قصور ہی ایسا یکا ہے،  ابلیس کی وسعتِ علم ماننی تمہارے کلیجے کا سُکھ آنکھوں کی ٹھنڈک ہوئی،  براہینِ قاطعہ میں جس کا گیت گایا ہے،  انہوں نے یہ تو کہا نہیں،  لے کر چلے وسعتِ علم تمہارے دشمن محمد رسول اﷲ اور ان کے غلاموں کی،  صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہ وسلم پھر ان پر کیوں نہ یہ حکم جڑو کہ کون سا ایمان کا حصہ ہے۔

 

یہاں تک تو تم پر آسانی تھی مگر ذرا خدا کی تکفیر ٹیڑھی کھیر ہوگی،  کاذب تو کہہ دیا کافر کہتے کچھ تو آنکھ جھپکے  گی،  اور سب سے بڑھ کر پتھر کے تلے دامن جناب شاہ ولی اللہ صاحب کا معاملہ ہے جسے وہابیہ کے لیے سانپ کے منہ کی چھچھوندر کہیے تو بجا ہے،  نہ اگلتی بنتی ہے نہ نگلتے،  وہ کہہ کر چل بسے کہ محمد رسول اﷲ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم  ان کے غلاموں عارفوں پر ہر چیز روشن ہوتی ہے،  وہ ہرعلم ہر حال کی حقیقت کو پہنچے ہوتے ہیں،  وفات تک جو کچھ آنے والا ہے ہر حال کی اس وقت خبر رکھتے ہیں"  کہاں تو وہ مجالس میلاد پر اطلاع ماننے سے گنگوہی بہادر کا نکھنڈ شرک بلکہ اوندھی سمجھ میں ایک ہی نکاح کی خبر ماننے سے وہ فتاوٰی حنفیہ کی تکفیریں اور کہاں یہ ولی الٰہی بڑے بول جو کھال لگی رکھیں نہ ڈھول۔ اب انہیں کافر نہیں کہے تو غریب سنیوں کی تکفیر کیسے بن پڑے اور وہابیت کی مٹی پلید ہو وہ الگ ،  اور اگر دل کڑا کرکے ان پر بھی کفر کی جڑ دی تو وہابیت بیچاری کا کٹھم ناٹھ ہوگیا۔ ان کے کافر ہوتے ہی اسمعیل جی کہ انہیں کے گیت گائیں،  انہیں کو امام و مقتد و پیز و پیشوا و حکیم اُمت و صاحب وحی و عصمت مانیں،  کافر در کافر،  کافروں کے بچے،  کافروں کے چیلے ہوئے اور تم سب کہ اسمعیل جی کے شاہ صاحب کے معتقد و مداح بنتے تھے۔ تو ساتھ لگے گیہوں کے گھن تم سب کے سب کافرانِ کہن اﷲ اﷲ کفر کو بھی تم سے کیا محبت ہے کہ کسی پہلو چلو،  کوئی روپ بدلو وہ ہر پھر کر تمہارے ہی گلے کا ہار ہوتا ہے۔

 

گر براند نر ود و ر برود  باز آید                                                                                              مگسِ کفر بود خالِ رخ وہابی  (اگر بھگائے تو نہیں جاتی اور اگر جائے تو لوٹ آتی ہی کفر کی مکھی وہابی کے چہرے کا تِل ہے۔ت)

 

کذٰلک العذاب والعذاب الاخرۃ اکبر لوکانوایعلمون o وصلی اﷲ تعالٰی علیہ سیّدنا ومولٰینا محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین،  والحمد ﷲ رب العلمین

 

مار ایسی ہوتی ہے اور بےشک آخرت کی مار سب سے بڑی ہے ،  کیا اچھا تھا اگر وہ جانتے اور درود نازل فرمائے اﷲ تعالٰی ہمارے آقا و مولٰی محمد مصطفی   صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم   پر اور آپ کی آل پر اور آپ کے تمام اصحاب پر،  اور سب تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو پروردگار ہے سب جہانوں کا۔(ت)

 

 ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۶۸ /۳۳)

 

فقیر احمد رضا خان قادری عفی عنہ

از بریلی ۱۴ ربیع الاول شریف روز شنبہ ۱۳۲۸ھ

رسالہ خالص الاعتقاد ختم ہوا ۔

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post