Qabr par Azan dene ki Dalil | Risala Izanul Ajr fi Azanil Qabr by AalaHazrat

 

ایذان  الاجر فی اذان  القبر(۱۳۰۷ھ)

(دفن کے بعد قبر پر اذان کہنے کے جواز پر مبارک فتوٰی)

 

مسئلہ ۳۸۸ :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ  میں کہ دفن کے وقت جو قبر پر اذان کہی جاتی ہے شرعاً جائز ہے یا نہیں، بینّوا توجروا۔

فتوٰی

 

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

 

الحمدللّٰہ الذی جعل الاذان علم الایمان وسبب الامان وسکینۃ الجنان ومنافۃ الاحزان ومرضاۃ الرحمٰن والصلاۃ والسلام الاتمان الاکملان علی من رفع اللّٰہ ذکرہ واعظم قدرہ فبذکرہ زان کل خطبۃ واذان وعلی اٰلہ وصحبہ الذاکرین ایاہ مع ذکر مولاہ فی الحیوۃ والموت والوجدان والفوت وکل حین واٰن واشھد ان لاالٰہ الااللّٰہ الحنان المنان وان محمدا عبدہ ورسولہ سید الانس والجان صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلی اٰلہ وصحبہ المرضین لدیہ مااَذِنَ اُذُن لصوت اذان قال الفقیر عبدالمصطفٰی احمد رضا المحمدی السنی الحنفی القادری البرکاتی البریلوی سقاہ المجیب من کاس الجیب عذبا فراتا وجعلہ من الذین ھم اھل الایمان والصلاۃ والاذان احیاء وامواتا اٰمین الہ الحق اٰمین۔

 

تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے جس نے اذان کو ایمان کی علامت، سببِ امان، دلوں کا سکون، غموں کا ازالہ اور رحمان کی رضا کا ذریعہ بنایا، صلاۃ وسلام کاملہ تامہ ہو اس ذات پر جس کا ذکر اللہ تعالٰی نے بلند کردیا اور اس کے مرتبہ کو عظیم کیا چنانچہ ان کے ذکر سے ہر خطبہ اور اذان کوزینت بخشی اور آپ کی آل واصحاب پر جو موت وحیات، وجدان وفوت غرضیکہ ہر وقت اپنے رب کریم کے ذکر کے ساتھ اپنے آقا کا ذکر کرتے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ حنّان ومنّان کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور انس وجن کے سردار نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ تعالٰی کے برگذیدہ بندے اور رسول ہیں آپ پر اور آپ کی آل پاک اور صحابہ کرام پر جو کہ پسندیدہ ہیں سب پر اس وقت تک اللہ تعالٰی کی رحمتیں ہوں جب تک کان اذان کی آواز سنتے رہیں، خیر عبدالمصطفٰی احمد رضا محمدی سُنّی حنفی قادری برکاتی بریلوی دُعا کرتا ہے کہ اللہ تعالٰی اسے اپنے حبیب کے حوضِ کوثر سے سیراب کرے اور اسے ان لوگوں میں سے کردے جو موت وحیات میں ایمان، نماز اور اذان والے ہیں آمین الٰہ الحق آمین۔(ت)

 

الجواب

 بعض علمائے دین نے میت کو قبر میں اتارتے وقت اذان کہنے کو سنّت فرمایا، امام ابن حجر مکّی وعلّامہ خیر الملۃ والدّین رملی استاذ صاحبِ دُرمختار علیہم رحمۃ الغفار نے اُن کا یہ قول نقل کیا: اما المکی ففی فتاواہ وفی شرح العباب وعارض واما الرملی ففی حاشیۃ البحرالرائق ومرض۔ مکّی نے اپنے فتاوٰی اور شرح العباب میں نقل کیا اور اس نے معارضہ کیا، رملی نے حاشیہ البحرالرائق میں نقل کیا اور اسے کمزور کہا۔ (ت)

حق یہ ہے کہ اذان مذکور فی السوال کا جواز یقینی ہے ہرگز شرع مطہر سے اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں اور جس امر سے شرع منع نہ فرمائے اصلاً ممنوع نہیں ہوسکتا قائلانِ جواز کے لئے اسی قدر کافی، جو مدعیِ ممانعت ہو دلائل شرعیہ سے اپنا دعوٰی ثابت کرے، پھر بھی مقامِ تبرع میں آکر فقیر غفراللہ تعالٰی لہ بدلائل کثیرہ اس کی اصل شرع مطہر سے نکال سکتا ہے جنہیں بقانونِ مناظرہ اسانید تصور کیجئے فاقول وباللّٰہ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق۔

دلیل اوّل: وارد ہے کہ جب بندہ قبر میں رکھا جاتا اور سوالِ نکیرین ہوتا ہے شیطان رجیم (کہ اللہ عزوجل صدقہ اپنے محبوب کریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کا ہر مسلمان مرد و زن کو حیات وممات میں اس کے شر سے محفوظ رکھے)

 

وہاں بھی خلل انداز ہوتا ہے اور جواب میں بہکاتا ہے والعیاذ بوجہ العزیز الکریم ولاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔ امام ترمذی محمد بن علی نوادر الاصول میں امام اجل سفیٰن ثوری رحمہ اللہ تعالٰی سے روایت کرتے ہیں : اذا سئل المیت من ربک تراأی لہ الشیطان فی صورت فیشیر الی نفسہ ای اناربک ۱؎ فلھذا ورد سوال التثبیت لہ حین یسئل۔ یعنی جب مُردے سے سوال ہوتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ شیطان اُس پر ظاہر ہوتا اور اپنی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی میں تیرا رب ہُوں، اس لئے حکم آیا کہ میت کے لئے جواب میں ثابت قدم رہنے کی دعا کریں۔(ت)

 

 (۱؎ نوادر الاصول فی معرفۃ احادیث الرسول    الاصل التاسع والاربعون والمائتان الخ مطبوعہ دارصادر بیروت ص ۳۲۳)

 

امام ترمذی فرماتے ہیں: ویؤیدہ من الاخبار قول النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عند دفن المیت اللھم اجرہ من الشیطان فلولم یکن للشیطان ھناک سبیل مادعا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بذلک ۲؎۔ یعنی وہ حدیثیں جو اسکی مؤید ہیں جن میں وارد کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میت کو دفن کرتے وقت دعا فرماتے الٰہی! اسے شیطان سے بچا۔اگر وہاں شیطان کا کچھ دخل نہ ہوتا تو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یہ دُعا کیوں فرماتے۔(ت)

 

 (۲؎ نوادر الاصول فی معرفۃ احادیث الرسول    الاصل التاسع والاربعون والمائتان الخ مطبوعہ دارصادر بیروت ص ۳۲۳)

 

نوٹ:یہ دونوں عبارتیں اعلٰیحضرت نے بالمعنی نقل کی ہیں اس لئے الفاظ میں کافی تغیر وتبدل ہے، پہلی عبارت درست کردی ہے دوسری عبارت اس طرح ہے: فلولم یکن للشیطان ھناک سبیل ماکان لیدعولہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بان یجیرہ من الشیطان۔ اور صحیح حدیثوں سے ثابت کہ اذان شیطان کو دفع کرتی ہے،صحیح بخاری وصحیح مسلم وغیرہما میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذااذن المؤذن ادبر الشیطان ولہ حصاص ۳؎۔ جب مؤذن اذان کہتا ہے شیطان پیٹھ پھیر کر گوززناں بھاگتا ہے۔(ت)

 

 (۳؎ الصحیح لمسلم    باب فضل الاذان وہرب الشیطان عندسماعہ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۶۷)

 

صحیح مسلم کی حدیث جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے واضح کہ چھتیس میل تک بھاگ جاتا ہے ۴؎۔ اور خود حدیث میں حکم آیا جب شیطان کا کھٹکا ہو فوراً اذان کہو کہ وہ دفع ہوجائے گا ۵؎ اخرجہ الامام ابوالقاسم سلیمٰن بن احمدالطبرانی فی اوسط معاجیمہ عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ  (اسے امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی نے المعجم الاوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ت)، ہم نے اپنے رسالہ نسیم الصبافی ان الاذان یحول الوبا (صبح کی خوشگوار ہوا اس بارے میں کہ اذان سے وبا دُور ہوجاتی ہے۔ت) میں اس مطلب پر بہت احادیث نقل کیں، اور جب ثابت ہولیا کہ وہ وقت عیاذاً باللہ مداخلت شیطان لعین کا ہے اور ارشاد ہُوا کہ شیطان اذان سے بھاگتا ہے اور اس میں حکم آیا کہ اُس کے دفع کو اذان کہو تو یہ اذان خاص حدیثوں سے مستنبط بلکہ عین ارشادِ شارع کے مطابق اور مسلمان بھائی کی عمدہ امداد واعانت ہُوئی جس کی خوبیوں سے قرآن وحدیث مالامال۔

 

 ( ۴؎ الصحیح لمسلم    باب فضل الاذان وہرب الشیطان عندسماعہ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۶۷)

(۵؎ معجم اوسط        حدیث نمبر ۷۴۳۲        مکتبۃ المعارف الریاض    ۸/۲۱۰)

 

دلیل دوم: امام احمد وطبرانی وبیہقی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: قال لمادفن سعد بن معاذ (زاد فی روایۃ) وسوی علیہ سبح النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وسبح الناس معہ طویلا ثم کبر وکبرالناس ثم قالوا یارسول اللّٰہ لم سبحت (زاد فی روایۃ) ثم کبرت قال لقد تضایق علی ھذا الرجل الصالح قبرہ حتی فرج اللّٰہ تعالٰی عنہ ۱؎۔

 

یعنی جب سعد بن معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ دفن ہوچکے اور قبر درست کردی گئی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دیر تک سبحان اللہ فرماتے رہے اور صحابہ کرام بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے پھر حضور اللہ اکبر اللہ اکبر فرماتے رہے اور صحابہ بھی حضور کے ساتھ کہتے رہے، پھر صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ! حضور اول تسبیح پھر تکبیر کیوں فرماتے رہے؟ ارشاد فرمایا: اس نیک مرد پر اُس کی قبر تنگ ہُوئی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے وہ تکلیف اُس سے دُور کی اور قبر کشادہ فرمادی۔(ت)

 

 (۱؎ مسند احمد بن حنبل عن مسندہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما مطبوعہ دارالفکر بیروت  ۳/۳۷۷ ۔۳۶۰)

 

علامہ طیبی شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں: ای مازلت اکبر وتکبرون واسبح وتسبحون حتی فرجہ اللّٰہ ۲؎ اھ۔ یعنی حدیث کے معنی یہ ہیں کہ برابر مَیں اور تم اللہ اکبر اللہ اکبر سبحان اللہ کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے اُس تنگی سے انہیں نجات بخشی۔ اھ (ت)

 

 (۲؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح    الفصل الثالث من اثبات عذاب القبر مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۱/۲۱۱)

 

اقول:اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے میت پر آسانی کے لئے بعد دفن کے قبر پر اللہ اکبر اللہ اکبر بار بار فرمایا ہے اور یہی کلمہ مبارکہ اذان میں چھ بار ہے تو عین سنّت ہُوا، غایت یہ کہ اذان میں اس کے ساتھ اور کلمات طیبات زائد ہیں سو اُن کی زیادت نہ معاذاللہ کچھ مضر نہ اس امر مسنون کے منافی بلکہ زیادہ مفید ومؤید مقصود ہے کہ رحمتِ الٰہی اتارنے کے لئے ذکر خدا کرنا تھا، دیکھو یہ بعینہٖ وہ مسلک نفیس ہے جو دربارہ تلبیہ اجلہ صحابہ عظام مثل حضرت امیرالمومنین عمر وحضرت عبداللہ بن عمر وحضرت عبداللہ بن مسعود وحضرت امام حسن مجتبٰی وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کو ملحوظ ہوا اور ہمارے ائمہ کرام نے اختیار فرمایا، ہدایہ میں ہے: لاینبغی ان یخل بشیئ من ھذہ الکلمات لانہ ھو المنقول فلاینقص عنہ، ولوزاد فیھا جاز لان المقصود الثناء واظھار العبودیۃ فلایمنع من الزیادۃ علیہ ۱؎ اھ ملخصا۔ یعنی ان کلمات میں کمی نہ چاہئے کہ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں تو اُن سے گھٹائے نہیں اور اگر بڑھائے تو جائز ہے کہ مقصود اللہ تعالٰی کی تعریف اور اپنی بندگی کا ظاہر کرنا ہے تو اور کلمے زیادہ کرنے سے ممانعت نہیں اھ ملخصا (ت)

 

 (۱؎ الہدایۃ        باب الاحرام            مطبوعہ المکتبۃ العربیہ کراچی    ۱/۲۱۷)

 

فقیر غفراللہ تعالٰی لہ، نے اپنے رسالہ صفائح اللجین فی کون التصافح بکفی الیدین ۱۳۰۶ھ  وغیرہا رسائل میں اس مطلب کی قدرے تفصیل کی۔

دلیل سوم: بالاتفاق سنّت اور حدیثوں سے ثابت اور فقہ میں مثبت کہ میت کے پاس حالتِ نزع میں کلمہ طیبہ لاالٰہ الااللّٰہ کہتے رہیں کہ اُسے سُن کر یاد ہو حدیث متواتر میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: لقنوا موتاکم لاالٰہ الاللّٰہ ۲؎  (اپنے مردوں کو لاالٰہ الااللّٰہ سکھاؤ) رواہ احمد ومسلم وابوداؤد والترمذی والنسائی وابن ماجۃ عن ابی سعید الخدری وابن ماجۃ کمسلم عن ابی ھریرۃ وکالنسائی عن ام المؤمنین عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم۔ اسے احمد، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور ابن ماجہ نے مسلم کی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور نسائی کی طرح حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔(ت)

 

 (۲؎ سنن ابی داؤد    باب فی التلقین            مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/۸۸)

 

اب جو نزع میں ہے وہ مجازاً مردہ ہے اور اُسے کلمہ اسلام سکھانے کی حاجت کہ بحول اللہ تعالٰی خاتمہ اسی پاک کلمے پر ہو اور شیطان لعین کے بھُلانے میں نہ آئے اور جو دفن ہوچکا حقیقۃً مُردہ ہے اور اُسے بھی کلمہ پاک سکھانے کی حاجت کہ بعون اللہ تعالٰی جواب یاد ہوجائے اور شیطان رجیم کے بہکانے میں نہ آئے اور بیشک اذان میں یہی کلمہ لاالٰہ الّا اللّٰہ تین جگہ موجود بلکہ اُس کے تمام کلمات جواب نکیرین بتاتے ہیں ان کے سوال تین ہیں  (۱)من ربک تیرا رب کون ہے؟  (۲)مادینک تیرا دین کیا ہے؟  (۳)ما کنت تقول فی ھذا الرجل ۱؎ تُو اس مرد یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے باب میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ اب اذان کی ابتدا میں اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر اشھد ان لاالٰہ الااللّٰہ اشھد ان لاالٰہ الااللّٰہ اور آخر میں اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر لاالٰہ الااللّٰہ سوال من ربک کا جواب سکھائیں گے ان کے سننے سے یاد آئیگا کہ میرا رب اللہ ہے اور اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ سوال ماکنت تقول فی ھذا الرجل کا جواب تعلیم کریں گے کہ میں انہیں اللہ کا رسول جانتا تھا اور حیّ علی الصلاۃ حی علی الفلاح جواب مادینک کی طرف اشارہ کریں گے کہ میرا دین وہ تھا جس میں نماز رکن وستون ہے کہ الصلاۃ عمادالدین ۲؎ تو بعد دفن اذان دینا عین ارشاد کی تعمیل ہے جو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حدیث صحیح متواتر مذکور میں فرمایا، اب یہ کلام سماعِ موتٰی وتلقینِ اموات کی طرف مخبر ہوگا فقیر غفراللہ تعالٰی خاص اس مسئلہ میں کتاب مبسوط مسمّی بہ حیاۃ الموات فی بیان سماع الاموات تحریر کرچکا جس میں پچھتّر حدیثوں اور پونے چارسو۴۷۵ اقوالِ ائمہ دین وعلمائے کاملین وخود بزرگانِ منکرین سے ثابت کیا کہ مُردوں کا سُننا دیکھنا سمجھنا قطعاً حق ہے اور اس پر اہل سنت وجماعت کا اجماع قائم اور اس کا انکار نہ کرے گا مگر غبی جاہل یا معاند مبطل، اور اُسی کی چند فصول میں بحث تلقین بھی صاف کردی یہاں اُس کے اعادہ کی حاجت نہیں۔

 

 (۱؎ مشکوٰۃ المصابیح        الفصل الثانی من اثبات عذاب القبر    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ص ۲۵)

(۲؎ کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال    کتاب الصلاۃ    مطبوعہ مکتبۃ التراث الاسلامی بیروت ۷/۲۸۴)

 

دلیل چہارم: ابویعلی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اطفؤا الحریق بالتکبیر ۳؎  (آگ کو تکبیر سے بجھاؤ)

 

 (۳؎ معجم اوسط،  حدیث نمبر ۸۵۶۴   مکتبۃ المعارف ریاض     ۹/۲۵۹)

 

ابن عدی حضرت عبداللہ بن عباس اور وہ اور ابن السنی وابن عساکر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا رأیتم الحریق فکبروا فانہ یطفیئ النار ۴؎۔ جب آگ دیکھو اللہ اکبر اللہ اکبر کی بکثرت تکرار کرو وہ آگ کو بجھا دیتا ہے۔

 

(۴؎ الکامل فی الضعفاء الرجال    ازمن اسمہ عبداللہ بن لہیعہ        مطبوعہ مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل ۴/۱۴۶۹)

 

علّامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں: فکبروا ای قولو اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وکرروہ کثیرا ۱؎۔ ''فکبروا'' سے مراد یہ ہے کہ اللہ اکبر اللہ اکبر کثرت کے ساتھ بار بار کہو۔(ت)

 

 (۱؎ التیسیر شرح جامع الصغیر    زیر حدیث مذکور    مکتبہ امام شافعی ریاض سعودیہ    ۱/۱۰۰)

 

مولٰنا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری اُس حدیث کی شرح میں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قبر کے پاس دیر تک اللہ اکبر فرماتے رہے، لکھتے ہیں:

 

التکبیر علی ھذا لاطفاء الغضب الالٰھی ولھذا اورد استحباب التکبیر عندرؤیۃ الحریق ۲؎۔ اب یہ اللہ اکبر اللہ اکبر کہنا غضب الٰہی کے بُجھانے کو ہے ولہذا آگ لگی دیکھ کر دیر تک تکبیر مستحب ٹھہری۔

 

 (۲؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح    الفصل الثالث من باب اثبات عذاب القبر    مکتبہ امدادیہ ملتان    ۱/۲۱۱)

 

وسیلۃ النجاۃ میں حیرۃ الفقہ سے منقول: حکمت درتکبیر آنست براہلِ گورستان کہ رسول علیہ السلام فرمودہ است اذارأیتم الحریق فکبروا چوں آتش درجائے افتد و ازدست شمابر نیاید کہ بنشانید تکبیر بگوئید کہ آتش بہ برکت آں تکبیر فرونشیند چوں عذابِ قبر بآتش ست ودست شمابآں نمیرسد تکبیر میباید گفت تامردگان ازآتش دوزخ خلاص یابند ۳؎۔

 

اہلِ قبرستان پر تکبیر کہنے میں حکمت یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے ''اذارأیتم الحریق فکبروا'' یعنی جب تم کسی جگہ آگ بھڑکتی ہُوئی دیکھو اور تم اسے بجھانے کی طاقت نہ رکھتے ہو، توتکبیر کہو کہ اس تکبیر کی برکت سے وہ آگ ٹھنڈی پڑ جائیگی چونکہ عذابِ قبر بھی آگ کے ساتھ ہوتا ہے اور اسے تم اپنے ہاتھ سے بجھانے کی طاقت نہیں رکھتے لہذا اللہ کا نام لو(تکبیر کہو)تاکہ فوت ہونے والے لوگ دوزخ کی آگ سے خلاصی پائیں(ت)

 

 (۳؎ وسیلۃ النجاۃ)

 

یہاں سے بھی ثابت کہ قبر مسلم پر تکبیر کہنا فردسنت ہے، تو یہ اذان بھی قطعاً سنت پر مشتمل اور زیادات مفیدہ کا مانع سنیت نہ ہونا تقریر دلیل دوم سے ظاہر۔

 

دلیل پنجم:ابن ماجہ وبیہقی سعید بن مسیب سے راوی: قال حضرت ابن عمر فی جنازۃ فلما وضعھا فی اللحدقال بسم اللّٰہ وفی سبیل اللّٰہ فلما اخذ فی تسویۃ اللحد قال اللھم اجرھا من الشیٰطن ومن عذاب القبر ثم قال سمعتہ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ھذا مختصر ۱؎۔ یعنی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کیساتھ ایک جنازہ میں حاضر ہوا حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب اُسے لحد میں رکھا کہا بسم اللّٰہ وفی سبیل اللّٰہ جب لحد برابر کرنے لگے کہا الٰہی! اسے شیطان سے بچا اور عذاب قبر سے امان دے، پھر فرمایا میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سنا۔

 

 (۱؎ سنن ابن ماجہ        باب ماجاء فی ادخال المیت القبر    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص ۱۱۲)

 

امام ترمذی حکیم قدس سرہ الکریم الکریم بسند جید عمروبن مرہ تابعی سے روایت کرتے ہیں:کانوا یستحبون اذا وضع المیت فی اللحد ان یقولوا اللھم اعذہ من الشیطان الرجیم ۲؎۔

 

یعنی صحابہ کرام یا تابعین عظام مستحب جانتے تھے کہ جب میت کو دفن کریں یوں کہیں ''اللہ کے نام سے اور اللہ کی راہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ملّت پر، الٰہی! اسے عذابِ قبر وعذابِ دوزخ اور شیطان ملعون کے شر سے پناہ بخش۔

 

 (۲؎ نوادر الاصول فی معرفۃ احادیث الرسول     الفصل التاسع والاربعون    مطبوعہ دارصادر بیروت ص ۳۲۳)

 

ابن ابی شیبہ اُستاذ امام بخاری ومسلم اپنے مصنف میں خثیمہ سے راوی: کانوا یستحبون اذاوضعوا المیت ان یقولوا بسم اللّٰہ وفی سبیل اللّٰہ وعلٰی ملّۃ رسول اللّٰہ اللھم اجرہ من عذاب القبر وعذاب النار ومن شر الشیطان الرجیم ۳؎۔

 

مستحب جانتے تھے کہ جب میت کو دفن کریں یوں کہیں ''اللہ کے نام سے اور اللہ کی راہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ملّت پر،الٰہی! اسے عذابِ قبر وعذابِ دوزخ اور شیطان ملعون کے شر سے پناہ بخش۔

 

 (۳؎ المصنف ابن ابی شیبہ ماقالوا اذاوضع المیت فی قبرہ مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۳/۳۲۹)

 

ان حدیثوں سے جس طرح یہ ثابت ہوا کہ اس وقت عیاذاً باللہ شیطان رجیم کا دخل ہوتا ہے یونہی یہ بھی واضح ہوا کہ اُس کے دفع کی تدبیر سنّت ہے کہ دعا نہیں مگر ایک تدبیر اور احادیث سابقہ دلیل اوّل سے واضح کہ اذان رفعِ شیطان کی ایک عمدہ تدبیر ہے تو یہ بھی مقصود شارع کے مطابق اور اپنی نظیر شرعی سے موافق ہوئی۔

 

دلیل ششم:ابوداؤد وحاکم وبیہقی امیرالمومنین عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: کان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذافرغ من دفن المیت وقف علیہ قال استغفروا لاخیکم وسلوا لہ بالتثبت فانہ الان یسأل ۱؎۔

 

حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب دفنِ میت سے فارغ ہوتے قبر پر وقوف فرماتے اور ارشادکرتے اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو اور اس کے لئے جوابِ نکیرین میں ثابت قدم رہنے کی دعا مانگو کہ اب اس سے سوال ہوگا۔

 

 (۱؎ سنن ابوداؤد    باب استغفار عند القبر للمیت        مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/۱۰۳)

 

سعید بن منصور اپنے سنن میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یقف علی القبر بعدماسوی علیہ فیقول اللھم نزل بک صاحبنا وخلف الدنیا خلف ظھرہ اللھم ثبت عندالمسألۃ منطقۃ ولاتبتلہ فی قبرہ بمالاطاقۃ لہ بہ ۲؎۔

 

یعنی جب مُردہ دفن ہوکر قبر درست ہوجاتی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قبر پر کھڑے ہوکر دعا کرتے الٰہی! ہمارا ساتھی تیرا مہمان ہُوا اور دنیا اپنے پسِ پشت چھوڑ آیا، الٰہی! سوال کے وقت اس کی زبان درست رکھ اور قبر میں اس پر وہ بلانہ ڈال جس کی اسے طاقت نہ ہو۔

 

 (۲؎ الدر المنثور    زیر آیت ویثبت اللّٰہ الذین اٰمنوا الخ    مطبوعہ منشورات مکتبہ آیۃ اللہ، قم ایران    ۴/۸۳)

 

ان حدیثوں اور احادیث دلیل پنجم وغیرہ سے ثابت کہ دفن کے بعد دعا سنّت ہے امام محمد بن علی حکیم ترمذی قدس سرہ الشریف دعا بعد دفن کی حکمت میں فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ بجماعت مسلمین ایک لشکر تھا کہ آستانہ شاہی پر میت کی شفاعت وعذر خواہی کیلئے حاضر ہُوا اور اب قبر پر کھڑے ہوکر دُعا یہ اس لشکر کی مدد ہے کہ یہ وقت میت کی مشغول کا ہے کہ اُسے اُس نئی جگہ کا ہول اور نکیرین کا سوال پیش آنے والا ہے ۳؎ نقلہ المولی جلال الملۃ والدین السیوطی رحمہ اللّٰہ تعالٰی فی شرح الصدور  (امام جلال الدین سیوطی نے اسے شرح الصدور میں نقل کیا ہے۔ت) اور میں گمان نہیں کرتا کہ یہاں استحبابِ دعا کا عالم میں کوئی عالم منکر ہو۔امام آجری فرماتے ہیں: یستحب الوقوف بعد الدفن قلیلا والدعاء للمیت ۴؎۔ مستحب ہے کہ دفن کے بعد کچھ دیر کھڑے رہیں اور میت کے لئے دُعا کریں۔

 

 (۳؎ نوادر الاصول فی معرفۃ احادیث الرسول     الفصل التاسع والاربعون والمائتان مطبوعہ دارصادر بیروت ص ۳۲۳)

(۴؎ نوادر الاصول فی معرفۃ احادیث الرسول     الفصل التاسع والاربعون والمائتان مطبوعہ دارصادر بیروت ص ۳۲۳)

 

اسی طرح اذکار امام نووی وجوہرہ نیرہ ودرمختار وفتاوٰی عالمگیری وغیرہا اسفار میں ہے، طرفہ یہ کہ امام ثانی منکرین یعنی مولوی اسحاق صاحب دہلوی نے مائۃ مسائل میں اسی سوال کے جواب میں کہ بعد دفن قبر پر اذان کیسی ہے فتح القدیر وبحرالرائق ونہرالفائق وفتاوٰی عالمگیریہ سے نقل کیا کہ قبر کے پاس کھڑے ہوکر دُعا سنّت سے ثابت ہے اور براہِ بزرگی اتنا نہ جانا کہ اذان خود دُعا بلکہ بہترین دُعا سے ہے کہ وہ ذکرِ الٰہی ہے اور ہر ذکرِ الٰہی دعا، تو وہ بھی اسی سنتِ ثابتہ کی ایک فرد ہُوئی پھر سنّیت مطلق سے کراہت فرد پر استدلال عجب تماشا ہے، مولانا علی قاری علیہ رحمۃ الباری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں: کل دعا ذکر وکل ذکر دعا ۱؎  (ہر دعا ذکر ہے اور ہر ذکر دُعا ہے)

 

 (۱؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح الفصل الثانی من باب التسبیح الخ     مطبو عہ مکتبہ امدادیہ ملتان     ۵/۱۱۲)

 

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: افضل الدعاء الحمدللّٰہ ۲؎  (سب دعاؤں سے افضل دُعا الحمدللہ ہے)

 

اخرجہ الترمذی وحسنہ والنسائی وابن حبان والحاکم وصححہ عن جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔ اسے ترمذی نے روایت کرکے حسن قرار دیا، نسائی، ابنِ حبان اور حاکم نے حضرت جابر بن عبداللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرکے صحیح قرار دیا ہے (ت)

 

 (۲؎ جامع الترمذی    باب ماجاء ان دعوۃ المسلم مستجابۃ    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور        ۲/۱۷۴)

 

صحیحین میں ہے ایک سفر میں لوگوں نے بآوازِ بلند اللہ اکبر اللہ اکبر کہنا شروع کیا نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! اپنی جانوں پر نرمی کرو انکم لاتدعون اصم ولاغائبا انکم تدعون سمیعاً بصیرا ۳؎  (تم کسی بہرے یا غائب سے دُعا نہیں کرتے سمیع بصیر سے دعا کرتے ہو)

 

 (۳؎ الصحیح لمسلم    باب خفض الصوت بالذکر    قدیمی کتب خانہ کراچی        ۲/۳۴۶)

 

دیکھو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کی تعریف اور خاص کلمہ اللہ اکبر کو دعا فرمایا تو اذان کے بھی ایک دُعا اور فرد مسنون ہونے میں کیا شک رہا۔

 

دلیل ہفتم: یہ تو واضح ہولیا کہ بعد دفن میت کے لئے دُعا سنّت ہے اور علماء فرماتے ہیں آدابِ دعا سے ہے کہ اُس سے پہلے کوئی عملِ صالح کرے، امام شمس الدین محمد بن الجزری کی حصن حصین شریف میں ہے: اٰداب الدعاء منھا تقدیم عمل صالح وذکرہ عند الشدۃ ۴؎ م ت د۔ آدابِ دُعا میں سے ہے کہ اس سے پہلے عمل صالح ہو اور ذکرِ الٰہی مشکل وقت میں ضرور کرنا چاہئے مسلم، ترمذی، ابوداؤد۔ (ت)

 

 (۴؎ حصن حصین     آداب  الدعاء        نولکشور لکھنؤ            ص ۱۴)

 

علّامہ علی قاری حرزِ ثمین میں فرماتے ہیں: یہ ادب حدیث ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، کہ ابوداؤد وترمذی، ونسائی وابن ماجہ وابن حبان نے روایت کی، ثابت ہے اور شک نہیں کہ اذان بھی عمل صالح ہے تو دُعا پر اُس کی تقدیم مطابق مقصود وسنّت ہُوئی۔

 

دلیل ہشتم:رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ثنتان لاترد الدعاء عند النداء وعند البأس ۱؎۔ اخرجہ ابوداؤد وابن حبان والحاکم بسند صحیح عن سھل بن سعد الساعدی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔

 

دو۲دعائیں رَد نہیں ہوتیں ایک اذان کے وقت اور ایک جہاد میں جب کفّار سے لڑائی شروع ہو۔ اسے ابوداؤد، ابن حبان اور حاکم نے حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سندِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ المستدرک علی الصحیحین    لایرد الدعاء عندالاذان وعندالبأس    مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۱/۱۹۸)

 

اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: اذا نادی المنادی فتحت ابواب السماء واستجیب الدعا ۲؎۔ اخرجہ ابویعلی والحاکم عن ابی امامۃ الباھلی وابوداؤد الطیالسی وابویعلی والضیاء فی المختارۃ بسند حسن عن انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما۔

 

جب اذان دینے والا اذان دیتا ہے آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور دعا قبول ہوتی ہے۔ یہ روایت ابویعلی اور حاکم نے حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی اور ابوداؤد طیالسی اور ابویعلی اور ضیاء الدین نے المختارہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہما سے سند صحیح کے ساتھ بیان کی ہے (ت)

 

 (۲؎ المستدرک علی الصحیحین     اجابۃ الاذان والدعاء بعدہ           مطبوعہ دارالفکر بیروت      ۱/۵۴۶)

 

ان حدیثوں سے ثابت ہوا کہ اذان اسباب اجابت دعا سے ہے اور یہاں دعا شارع جل وعلا کو مقصود تو اُس کے اسباب اجابت کی تحصیل قطعاً محمود۔

 

دلیل نہم:حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: یغفر اللّٰہ للمؤذن منتھی اذانہ ویستغفرلہ کل رطب ویابس سمع صوتہ ۱؎۔ اذان کی آواز جہاں تک جاتی ہے مؤذن کیلئے اُتنی ہی وسیع مغفرت آتی ہے اور جس تر وخشک چیز کو اس کی آواز پہنچتی ہے اذان دینے والے کے لئے استغفار کرتی ہے۔

 

 (۱؎ مسند امام احمد بن حنبل    عن مسند عبداللہ بن عمر    مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۲/۱۳۶)

 

اخرجہ الامام احمد بسند صحیح واللفظ لہ والبزار والطبرانی فی الکبیر عن عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما ونحوہ عند احمد وابی داؤد والنسائی وابن ماجۃ وابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وصدرہ عند احمد والنسائی بسند حسن جید عن البراء بن عازب والطبرانی فی الکبیر عن ابی امامۃ ولہ فی الاوسط عن انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم۔

 

اسے امام احمد نے سند صحیح کے ساتھ تخریج کیا اور یہ الفاظ امام احمد کے ہیں اور بزار طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا، اور اس کی مثل احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا اس کا ابتدائی حصّہ احمد اور نسائی نے سند حسن اور جید کے ساتھ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور اوسط میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے(ت)

 

یہ پانچ حدیثیں ارشاد فرماتی ہیں کہ اذان باعثِ مغفرت ہے اور بیشک مغفور کی دُعا زیادہ قابل قبول واقرب باجابت ہے، اور خود حدیث میں وارد کہ مغفوروں سے دُعا منگوانی چاہئے، امام احمد مسند میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا لقیت الحاج فسلم علیہ وصافحہ ومرہ ان یستغفرلک قبل ان یدخل بیتہ فانہ مغفورلہ ۲؎۔ جب تُو حاجی سے ملے اُسے سلام کر اور مصافحہ کر اور قبل اس کے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اُس سے اپنے لئے استغفار کراکہ وہ مغفور ہے۔

 

 (۲؎ مسند امام احمد بن حنبل     مرویات  عن مسند عبداللہ بن عمر     مطبوعہ دارالفکر بیروت       ۲/۱۲۸)

 

پس اگر اہلِ اسلام بعد دفنِ میت اپنے میں کسی بندہ صالح سے اذان کہلوائیں تاکہ بحکمِ احادیث صحیحہ ان شاء اللہ تعالٰی اُس کے گناہوں کی مغفرت ہو پھر میت کے لئے دعا کرے کہ مغفور کی دُعا میں زیادہ رجائے اجابت ہوتو کیا گناہ ہُوا بلکہ عین مقاصد شرع سے مطابق ہوا۔

 

دلیل دہم: اذان ذکرِ الٰہی اور ذکرِ الٰہی دافعِ عذاب، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: مامن شیئ انجی من عذاب اللّٰہ من ذکر اللّٰہ ۱؎ رواہ الامام احمد عن معاذبن جبل وابن ابی الدنیا والبیھقی عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم۔ کوئی چیز ذکرِ خدا سے زیادہ عذابِ خدا سے نجات بخشنے والی نہیں۔ اسے امام احمد نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا (ت)

 

 (۱؎ مسند احمد بن حنبل    مرویات معاذ ابنِ جبل    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۵/۲۳۹)

 

نوٹ:    ابن ابی الدنیا اور بیہقی کے الفاظ عبداللہ ابن عمر سے یوں ہی مروی ہیں جبکہ احمد بن حنبل کے الفاظ معاذ بن جبل سے یوں مروی ہیں: ماعمل آدمی عملاقط انجی لہ من عذاب اللّٰہ من ذکراللّٰہ الخ اور خود اذان کی نسبت وارد، جہاں کہی جاتی ہے وہ جگہ اُس دن عذاب سے مامون ہوجاتی ہے، طبرانی معاجیم ثلٰثہ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا اذن فی قریۃ امنھا اللّٰہ من عذابہ فی ذلک الیوم ۲؎ وشاھدہ عندہ فی الکبیر من حدیث معقل بن یسار رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالٰی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہے اور اس کی شاہد وہ روایت ہے جو معجم کبیر میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ المعجم الکبیر    مرویات انس بن مالک حدیث ۷۴۶     مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت    ۱/۲۵۷)

 

اور بیشک اپنے بھائی مسلمان کے لئے ایسا عمل کرنا جو عذاب سے منجی ہو شارع جل وعلا کو محبوب ومرغوب، مولٰنا علی قاری رحمہ الباری شرح عین العلم میں قبر کے پاس قرآن پڑھنے اور تسبیح ودعائے رحمت ومغفرت کرنے کی وصیت فرماکر لکھتے ہیں: فان الاذکار کلھا نافعۃ لہ فی تلک الدار ۳؎  (کہ ذکر جس قدر ہیں سب میت کو قبر میں نفع بخشتے ہیں۔ ت)

 

 (۳؎ شرح عین العلم لملا علی قاری مع عین العلم الباب الثامن فی الصحبۃ والمؤلفۃ مطبوعہ امرت پریس لاہور ص ۳۳۲)

(شرح عین العلم لملا علی قاری مع عین العلم الباب الثامن فی الصحبۃ والمؤلفۃ  مطبوعہ مطبع اسلامیہ لاہور ص ۱۶۶)

 

امام بدرالدین محمود عینی شرح صحیح بخاری میں زیر باب موعظۃ المحدث عندالقبر فرماتے ہیں: واما مصلحۃ المیت فمثل مااذا اجتمعوا عندہ لقراء ۃ القراٰن والذکر فان المیت ینتفع بہ ۱؎۔ میت کے لئے اس میں مصلحت ہے کہ مسلمان اُس کی قبر کے پاس جمع ہوکر قرآن پڑھیں ذکر کریں کہ میت کو اس سے نفع ہوتا ہے (ت)

 

 (۱؎ عمدۃ القاری شرح البخاری    باب موعظۃ المحدث عندالقبر الخ    مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۸/۱۸۶)

 

یارب مگر اذان ذکرِ محبوب نہیں یا مسلمان بھائی کو نفع ملنا شرعاً مرغوب نہیں۔

دلیل یازدہم: اذان ذکرِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہے اور ذکرِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باعثِ نزول رحمت۔

اوّلاً حضور کا ذکر عین ذکرِ خدا ہے امام ابن عطا پھر امام قاضی عیاض وغیرہما ائمہ کرام تفسیر قولہ تعالٰی ورفعنا لک ذکرک ۲؎ میں فرماتے ہیں: جعلتک ذکراً من ذکری فمن ذکرک فقدذکرنی ۳؎۔ میں نے تمہیں اپنی یاد میں سے ایک یاد کیا جو تمہارا ذکر کرے وہ میرا ذکر کرتا ہے۔

 

 (۲؎ القرآن        ۹۴/۴) (۳؎ نسیم الریاض شرح الشفاء     زیر آیت مذکور        مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۱/۱۲۵)

 

اور ذکر الٰہی بلاشبہہ رحمت اُترنے کا باعث، سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صحیح حدیث میں ذکر کرنے والوں کی نسبت فرماتے ہیں: حفتھم الملٰئکۃ وغشیتھم الرحمۃ ونزلت علیھم السکینۃ ۴؎۔ رواہ مسلم والترمذی عن ابی ھریرۃ وابی سعید رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما۔ انہیں ملائکہ گھیر لیتے ہیں اور رحمتِ الٰہی ڈھانپ لیتی ہے اور اُن پر سکینہ اور چین اُترتا ہے۔ اسے مسلم اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ہے۔ (ت)

 

 (۴؎ صحیح لمسلم    باب فضل الاجتماع علٰی تلاوت القرآن الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۳۴۵)

 

ثانیاً ہر محبوبِ خدا کا ذکر محلِ نزولِ رحمت ہے، امام سفیٰن بن عینیہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: عند ذکر الصالحین تنزل الرحمۃ ۵؎  (نیکوں کے ذکر کے وقت رحمتِ الٰہی اترتی ہے)

 

 (۵؎ اتحاف السادۃ المتقین     الفائدۃ الثانیۃ التخلص بالعزلۃ علی المعاصی الخ    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۶/۳۵۰)

 

ابوجعفر بن حمدان نے ابوعمر وبن نجید سے اسے بیان کرکے فرمایا: فرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم رأس الصلحین ۶؎  (تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تو سب صالحین کے سردار ہیں)

 

 (۶؎ اتحاف السادۃ المتقین     الفائدۃ الثانیۃ التخلص بالعزلۃ علی المعاصی الخ    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۶/۳۵۱)

 

پس بلاشبہہ جہاں اذان ہوگی رحمتِ الٰہی اُترے گی اور بھائی مسلمان کے لئے وہ فعل جو باعثِ نزولِ رحمت ہو شرع کو پسند ہے کہ نہ ممنوع۔

 

دلیل دوازدہم: خود ظاہر اور حدیثوں سے بھی ثابت کہ مُردے کو اُس نئے مکان تنگ وتاریک میں سخت وحشت اور گھبراہٹ ہوتی ہے الامارحم ربی ان ربی غفور رحیم ۱؎ (مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے یقینا میرا رب بخشش فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ت)

 

 (۱؎ القرآن    ۱۲/۵۳)

 

اور اذان دافعِ وحشت وباعث اطمینان خاطر ہے کہ وہ ذکرِ خدا ہے اور اللہ عزّوجل فرماتا ہے: الابذکر اللّٰہ تطمئن القلوب ۲؎  (سُن لو خدا کے ذکر سے چین پاتے ہیں دل)

 

 (۲؎ القرآن    ۱۳/۲۸)

 

ابونعیم وابن عساکر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: نزل ادم بالھند فاستوحش فنزل جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام فنادی بالاذان ۳؎ الحدیث۔ جب آدم علیہ الصلاۃ والسلام جنّت سے ہندوستان میں اُترے اُنہیں گھبراہٹ ہُوئی تو جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے اُتر کر اذان دی۔ (الحدیث)

 

 (۳؎ حلیۃ الاولیاء    مرویات عمروبن قیس الملائی نمبر ۲۹۹    مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت    ۲/۱۰۷)

 

پھر ہم اس غریب کی تسکین خاطر ودفعِ تو حش کو اذان دیں تو کیا بُرا کریں حاشا بلکہ مسلمان خصوصاً ایسے بے کس کی اعانت حضرت حق عزوجل کو نہایت پسند، حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللّٰہ فی عون العبد ماکان العبد فی عون اخیہ ۴؎۔ رواہ مسلم وابوداؤد والترمذی وابن ماجۃ والحاکم عن ابن ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ اللہ تعالٰی بندے کی مدد میں ہے جب تک بندہ اپنے بھائی مسلمانوں کی مدد میں ہے۔ اسے مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ (ت)

 

 (۴؎ صحیح لمسلم    باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۳۴۵)

 

اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللّٰہ فی حاجتہ ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج اللّٰہ عنہ بھاکربۃ من کرب یوم القیٰمۃ ۱؎۔ رواہ الشیخان وابوداؤد عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما۔ جو اپنے بھائی مسلمان کے کام میں ہو اللہ تعالٰی اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو کسی مسلمان کی تکلیف دُور کرے اللہ تعالٰی اس کے عوض قیامت کی مصیبتوں سے ایک مصیبت اس پر سے دور فرمائیگا۔ اسے بخاری ومسلم اور ابوداؤد نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ہے۔

 

 (۱؎ صحیح البخاری     باب لایظلم المسلم المسلم الخ ،من ابواب المظالم ،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۳۳۰)

 

دلیل سیزدہم: مسند الفردوس میں حضرت جناب امیرالمومنین مولی المسلمین سیدنا علی مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم سے مروی: قال راٰنی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حزینا فقال یاابن ابی طالب انی اراک حزینا فمربعض اھلک یؤذن فی اذنک فانہ درء الھمّ ۲؎۔ یعنی مجھے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا: اے علی! میں تجھے غمگین پاتا ہُوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے۔

 

 (۲؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰہ المصابیح    باب الاذان    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان    ۲/۱۴۹)

 

مولٰی علی اور مولٰی علی تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا: فجربتہ فوجدتہ کذلک  (ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا) ذکرہ ابن حجر کمافی المرقاۃ (اس کا تذکرہ حافظ ابن حجر نے کیا، جیسا کہ مرقات میں ہے۔ ت) اور خود معلوم اور حدیثوں سے بھی ثابت کہ میت اُس وقت کیسے حزن وغم کی حالت میں ہوتا ہے مگر وہ خاص عباداللہ اکابر اولیاء اللہ جو مرگ کو دیکھ کر مرحبا بحبیب جاء علٰی فاقۃ  (خوش آمدید اس محبوب کو جو بہت دیر سے آیا۔ ت) فرماتے ہیں، تو اس کے دفعِ غم والم کے لئے اگر اذان سُنائی جائے کیا معذور شرعی لازم آئے حاشاللہ بلکہ مسلمان کا دل خوش کرنے کے برابر اللہ عزوجل کو فرائض کے بعد کوئی عمل محبوب نہیں۔ طبرانی معجم کبیر ومعجم اوسط میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 

ان احب الاعمال الی اللّٰہ تعالٰی بعد الفرائض ادخال السرور علی المسلم ۳؎۔ بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک فرضوں کے بعد سب اعمال سے زیادہ محبوب مسلمان کو خوش کرنا ہے۔

 

 (۳؎ المعجم الکبیر    مرویات عبداللہ ابن عباس    حدیث ۱۱۰۹ مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت    ۱۱/۷۱)

 

اُنہی دونوں میں حضرت امام ابن الامام سیدنا حسن مجتبٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی، حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان موجبات المغفرۃ ادخالک السرور علی اخیک المسلم ۱؎۔ بیشک موجباتِ مغفرت سے ہے تیرا اپنے بھائی مسلمان کو خوش کرنا۔

 

 (۱؎ المعجم الکبیر    مرویات حسن بن علی    حدیث ۲۷۳۱ و ۲۷۳۸ مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت    ۳/۸۳ ، ۸۵)

 

دلیل چہاردہم: قال اللّٰہ تعالٰی:یاٰیھا الذین اٰمنوا اذکرواللّٰہ ذکراکثیرا ۲؎۔ اے ایمان والوں! اللہ کا ذکر کرو بکثرت ذکر کرنا۔

 

 (۲؎ القرآن        ۳۳/۴۱)

 

حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اکثروا ذکراللّٰہ حتی یقولوا مجنون ۳؎۔ اخرجہ احمد وابویعلی وابن حبان والحاکم والبیھقی عن ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ صححہ الحاکم وحسنہ الحافظ ابن حجر۔ اللہ کا ذکر اس درجہ ذکر بکثرت کرو کہ لوگ مجنون بتائیں۔ اسے احمد، ابویعلی، ابن حبان، حاکم اور بیہقی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے حاکم نے اسے صحیح اور حافظ ابنِ حجر نے حسن قرار دیا ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ مسند احمد بن حنبل    من مسند ابی سعید الخدری        مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۳/۶۸، ۷۱)

 

اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: اذکراللّٰہ عندکل حجر وشجر ۴؎۔ اخرجہ الامام احمد فی کتاب الزھد والطبرانی فی الکبیر عن معاذبن جبل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بسند حسن۔ ہر سنگ وشجر کے پاس اللہ کا ذکر کر۔ اسے امام احمد نے کتاب الزہد اور طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سندِ حسن کے ساتھ روایت کیا۔ (ت)

 

 (۴؎ المعجم الکبیر    مرویات معاذ بن جبل    حدیث ۳۳۱    مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت    ۲۰/۱۵۹)

 

عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں: لم یفرض اللّٰہ علی عبادہ فریضۃ الاجعل لھا حدا معلوما ثم عذر اھلھا فی حال العذر غیر الذکر فانہ لم یجعل لہ حدا انتھی الیہ ولم یعذر احدا فی ترکہ الامغلوبا علی عقلہ وامرھم بہ فی الاحوال کلھا ۱؎۔

 

اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں پر کوئی فرض مقرر نہ فرمایا مگر یہ کہ اُس کے لئے ایک حد معین کردی پھر عذر کی

حالت میں لوگوں کو اُس سے معذور رکھا سوا ذکر کے کہ اللہ تعالٰی نے اس کے لئے کوئی حد نہ رکھی جس پر انتہا ہو اور نہ کسی کو اس کے ترک میں معذور رکھا مگر وہ جس کی عقل سلامت نہ رہے اور بندوں کو تمام احوال میں ذکر کا حکم دیا۔  (۱؎ تفسیر البغوی المعروف بہ معالم    التنزیل مع تفسیر خازن ،زیر آیت مذکورہ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۵/۲۶۵)

 

اُن کے شاگرد امام مجاہد فرماتے ہیں: الذکر الکثیران لایتناھی ابدا ۲؎ (ذکر کثیریہ ہے کہ کبھی ختم نہ ہو)

 

 (۲؎ تفسیر البغوی المعروف بہ معالم التنزیل مع تفسیر خازن ،زیر آیت مذکورہ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر۵/۲۶۶)

 

نوٹ:تفسیر معالم التنزیل سے حوالہ دیاگیا ہے الفاظ مختلف ہیں لیکن مفہوم یہی ہے جو اعلٰیحضرت نے بیان کیا ہے۔

نذیر احمد۔ ذکرھما فی المعالم وغیرھا (معالم وغیرہ میں ان دونوں کا ذکر ہے۔ ت) تو ذکرِ الٰہی ہمیشہ ہر جگہ محبوب ومرغوب ومطلوب ومندوب ہے جس سے ہرگز ممانعت نہیں ہوسکتی جب تک کسی خصوصیتِ خاصہ میں کوئی نہی شرعی نہ آئی ہو اور اذان بھی قطعاً ذکرِ خدا ہے پھر خدا جانے کہ ذکرِ خدا سے ممانعت کی وجہ کیا ہے، ہمیں حکم ہے کہ ہر سنگ درخت کے پاس ذکرِ الٰہی کریں، قبرِ مومن کے پتھّر کیا اس کے حکم سے خارج ہیں خصوصاً بعد دفن ذکرِ خدا کرنا تو خود حدیثوں سے ثابت اور بتصریح ائمہ دین مستحب ولہذا امام اجل ابوسلیمان خطابی دربارہ تلقین فرماتے ہیں: لانجدلہ حدیثا مشھورا ولابأس بہ اذ لیس فیہ الا ذکراللّٰہ تعالٰی قولہ وکل ذلک حسن ۳؎۔ ہم اس میں کوئی مشہور حدیث نہیں پاتے اور اس میں کچھ مضائقہ نہیں کہ اس میں نہیں ہے مگر خدا کا ذکر اور یہ سب کچھ محمود ہے۔

 

 (۳؎ امام اجل سلیمان خطابی)

 

دلیل پانزدہم: امام اجل ابوزکریا نووی شارح صحیح مسلم کتاب الاذکار میں فرماتے ہیں: یستحب ان یقعد عندالقبر بعد الفراغ ساعۃ قدر ماینحر جزور ویقسم لحمھا، ویشتغل القاعدون بتلاوۃ القراٰن والدعاء للمیت والوعظ وحکایات اھل الخیر، واحوال الصالحین ۴؎۔ مستحب ہے کہ دفن سے فارغ ہوکر ایک ساعت قبر کے پاس بیٹھیں اتنی دیر کہ ایک اُونٹ ذبح کیا جائے اور اُس کا گوشت تقسیم ہو اور بیٹھنے والے قرآن مجید کی تلاوت اور میت کے لئے دُعا اور وعظ ونصیحت اور نیک بندوں کے ذکر وحکایت میں مشغول رہیں۔

 

 (۴؎ الاذکار المنتخبہ من کلام سیدالابرار    باب مایقول بعدالدفن    مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت  ص ۱۴۷)

 

شیخ محقق مولٰنا عبدالحق محدّث دہلوی قدس سرہ لمعات شرح مشکوٰۃ میں زیرحدیث امیرالمومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ فقیر نے دلیل ششم میں ذکر کی، فرماتے ہیں: قدسمعت عن بعض العلماء انہ یستحب ذکر مسئلۃ من المسائل الفقھیۃ ۱؎۔ یعنی بتحقیق میں نے بعض علما سے سُنا کہ دفن کے بعد قبر کے پاس کسی مسئلہ فقہ کا ذکر مستحب ہے۔

 

 (۱؎ لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح    الفصل الثانی من باب اثباب عذاب القبرمطبوعہ مکتبۃ المعارف العلمیہ لاہور ۱/۲۰۰)

 

اشعۃ اللمعات شرح فارسی مشکوٰۃ میں اس کی وجہ فرماتے ہیں کہ باعثِ نزولِ رحمت ست (نزولِ رحمت کا سبب ہے۔ ت) اور فرماتے ہیں: مناسب حال ذکر مسئلہ فرائض ست  (ذکر مسئلہ فرائض مناسب حال ہے۔ ت) اور فرماتے ہیں: اگر ختمِ قرآن کنند اولٰی وافضل باشد ۲؎  (اگر قرآن پاک ختم کریں تو یہ اولٰی وبہتر ہے۔ ت)

 

 (۲؎ اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ    الفصل الثانی من باب اثباب عذاب القبر     مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/۲۰۱)

 

جب علمائے کرام نے حکایاتِ اہل خیر وتذکرہ صالحین وختم قرآن وبیان مسئلہ فقہیہ وذکر فرائض کو مستحب ٹھہرایا حالانکہ ان میں بالخصوص کوئی حدیث وارد نہیں بلکہ وجہ صرف وہی کہ میت کو نزولِ رحمت کی حاجت اور ان امور میں امیدِ نزول رحمت تو اذان کہ بشہادت احادیث موجب نزولِ رحمت ودفعِ عذاب ہے کیونکر جائز بلکہ مستحب عــہ نہ ہوگی۔

 

عــہ بالجملہ بحمداللہ تعالی ان دلائل جلائل نے کالشمس فی وسط السماء واضح کردیا کہ اس اذان کا جواز بلکہ استحباب یقینی بلکہ بنظرِ عمومات شرع بوجوہ کثیرہ فرد سنّت ہے شاید وہ بعض علماء جنہوں نے اس کے سنّت ہونے کی تصریح فرمائی جن کا قول امام ابن حجر مکی وعلّامہ خیر رملی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم نے نقل کیا یہی معنی مراد لیتے ہیں کہ فرد سنت ہے نہ کہ فرداً سنّت ولہذا مناسب ہے کہ کبھی کبھی ترک بھی کریں اگر اوہام عوام معنی ثانی کی طرف جاتے سمجھیں واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ رحمہ اللہ تعالٰی (م)

 

بحمداللہ یہ پندرہ۱۵ دلیلیں ہیں کہ چند ساعت میں فیضِ قدیر سے قلبِ فقیر پر فائض ہوئیں ناظر منصف جانے گا کہ ان میں اکثر تو محض استخراجِ فقیر ہیں اور باقی کے بعض مقدمات اگرچہ بعض اجلّہ اہل سنّت وجماعت رحمہم اللہ تعالٰی کے کلام میں مذکور مگر فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے تکمیل ترتیب وتسجیل تقریب سے ہر مقدمہ منفردہ کو دلیل کامل اور ہر مذکور ضمنی کو مقصود مستقل کردیا

 

والحمدللّٰہ رب العالمین (سب تعریف اللہ تعالٰی کے لئے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ ت) بااینہمہ ع لاشک ان الفضل للمتقدم  (بیشک بزرگی پہلے کرنے والے کے لئے ہے۔ ت)

 

ہم پر اُن اکابر کا شکر واجب جنہوں نے اپنی تلاش وکوشش سے بہت کچھ متفرق کو یکجا کیا اور اس دشوار کام کو ہم پر آسان کردیا

 

جزاھم اللّٰہ عنا وعن الاسلام والسنۃ خیر جزاء وشکر مساعیھم الجمیلۃ فی حمایۃ الملۃ الغراء ونکایۃ الفتنۃ العوراء وھنأھم بفضل رسول نفی علی حمید رضی یوم القضاء وصلی اللّٰہ تعالٰی علیہ سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہ وصحبہ الاطائب الکرماء اٰمین۔ تنبیہاتِ جلیلہ تنبیہ اوّل: ہمارے کلام پر مطلع ہونے والا عظمت رحمت الٰہی پر نظر کرے کہ اذان میں اِن شاء اللہ الرحمن اُس میت اور ان احیا کے لئے کتنے منافع ہیں، سات۷ فائدہ میت کیلئے:

(۱)    بحولہ تعالٰی شیطان رجیم کے شر سے پناہ۔

(۲)    بدولت تکبیر عذابِ نار سے امان۔

(۳)    جوابِ سوالات کا یاد آجانا۔

(۴)    ذکرِ اذان کے باعث عذابِ قبر سے نجات پانا۔

(۵)    بہ برکتِ ذکرِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نزولِ رحمت۔

(۶)    بدولتِ اذان دفعِ وحشت۔

(۷)    زوالِ غم وسرور وفرحت۔

اور پندرہ احیا کے لئے، سات۷ تو یہی، سات۷ منافع اپنے بھائی مسلمان کو پہنچانا کہ ہر نفع رسانی جدا حسنہ ہے اور ہر حسنہ کم سے کم دس۱۰ نیکیاں، پھر نفع رسانی مسلم کی منفعتیں خدا ہی جانتا ہے۔

(۸)    میت کے لئے تدبیر دفع شیطان سے اتباعِ سنّت۔

(۹)    تدبیر آسانی جواب سے اتباعِ سنّت۔

(۱۰)    دعاء عندالقبر سے اتباعِ سنت۔

(۱۱)    بقصدِ نفع میت قبر کے پاس تکبیریں کہہ کر اتباعِ سنّت۔

(۱۲)    مطلق ذکر کے فوائد ملنا جن سے قرآن وحدیث مالامال۔

(۱۳)    ذکرِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سبب رحمتیں پانا۔

(۱۴)    مطلق دُعا کے فضائل ہاتھ آنا جسے حدیث میں مغزِ عبادت فرمایا۔

(۱۵)    مطلق اذان کے برکات ملنا جنہیں منتہائے آواز تک مغفرت اور ہر تر وخشک کی استغفار وشہادت اور دلوں کو صبر وسکون وراحت ہے اور لُطف یہ کہ اذان میں اصل کلمے سات۷ ہی ہیں

 

اللّٰہ اکبر، اشھد ان لاالٰہ الااللّٰہ، اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ، حی علی الصلاۃ، حی علی الفلاح ، اللّٰہ اکبر لاالہ الااللّٰہ، اور مکررات کو گنیے تو پندرہ۱۵ ہوتے ہیں، میت کے لئے وہ سات۷ فائدے اور احیا کے لئے پندرہ۱۵، انہیں سات۷ اور پندرہ۱۵ کے برکات ہیں، والحمدللّٰہ ربّ العٰلمین تعجب کرتا ہوں کہ حضرات مانعین نے میت واحیا کو ان فوائدِ جلیلہ سے محروم رکھنے میں کیا نفع سمجھا ہے ہمیں تو مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے: من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ ۱؎۔ رواہ احمد ومسلم عن جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما۔

تم میں سے جس سے ہوسکے کہ اپنے بھائی مسلمان کو کوئی نفع پہنچائے تو لازم ومناسب ہے کہ پہنچائے۔ اسے احمد اور مسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔

 

 (۱؎ الصحیح لمسلم    باب استحباب الرقیۃ من العین الخ        مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۲۲۴)

 

پھر خدا جانے اس اجازت کلی کے بعد جب تک خاص جزئیہ کی شرع میں نہی نہ ہو ممانعت کہاں سے کی جاتی ہے واللہ الموفق۔

 

تنبیہ دوم: حدیث میں ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: نیۃ المومن خیر من عملہ ۲؎  (مسلمان کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہے) رواہ البیھقی عن انس والطبرانی فی الکبیر عن سھل بن سعد رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔ اسے بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ (ت)

 

 (۲؎ المعجم الکبیر مرویات سہل الساعدی ،حدیث ۵۹۴۲    مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت        ۶/۱۸۵)

 

اور بیشک جو علم نیت جانتا ہے ایک ایک فعل کو اپنے لئے کئی کئی نیکیاں کرسکتا ہے مثلاً جب نماز کے لئے مسجد کو چلا اور صرف یہی قصد ہے کہ نماز پڑھوں گا تو بیشک اُس کا یہ چلنا محمود، ہر قدم پر ایک نیکی لکھیں گے اور دُوسرے پر گناہ محو کریں گے مگر عالم نیت اس ایک ہی فعل میں اتنی نیتیں کرسکتا ہے۔

(۱)    اصل مقصود یعنی نماز کو جاتا ہوں۔

(۲)    خانہ خدا کی زیارت کروں گا۔

(۳)    شعارِ اسلام ظاہر کرتا ہوں

(۴)    داعی اللہ کی اجابت کرتا ہوں۔

(۵)    تحیۃ المسجد پڑھنے جاتا ہوں۔

(۶)    مسجد سے خس وخاشاک وغیرہ دُور کروں گا۔

(۷)    اعتکاف کرنے جاتا ہوں کہ مذہب مفتی بہ پر اعتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں اور ایک ساعت کا بھی ہوسکتا ہے جب سے داخل ہو باہر آنے تک اعتکاف کی نیت کرلے انتظار نماز وادائے نماز کے ساتھ اعتکاف کا بھی ثواب پائے گا۔

(۸)    امرِ الٰہی خذوا زینتکم عند کل مسجد ۱؎  (اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ۔ ت) امتثال کو جاتا ہوں۔

 

 (۱؎ القرآن    ۷/۳۱)

 

 (۹)    جو وہاں علم والا ملے گا اُس سے مسائل پُوچھوں گا دین کی باتیں سیکھوں گا۔

(۱۰)    جاہلوں کو مسئلہ بتاؤں گا دین سکھاؤں گا۔

(۱۱)    جو علم میں میرے برابر ہوگا اُس سے علم کی تکرار کروں گا۔

(۱۲)    علماء کی زیارت۔

(۱۳)    نیک مسلمانوں کا دیدار۔

(۱۴)    دوستوں سے ملاقات۔

(۱۵)    مسلمانوں سے میل۔

(۱۶)    جو رشتہ دار ملیں گے اُن سے بکشادہ پیشانی مل کر صلہ رحم۔

(۱۷)    اہلِ اسلام کو سلام۔

(۱۸)    مسلمانوں سے مصافحہ کروں گا۔

(۱۹)    اُن کے سلام کا جواب دُوں گا۔

(۲۰)    نماز جماعت میں مسلمانوں کی برکتیں حاصل کروں گا۔

 

(۲۱ و ۲۲)    مسجد میں جاتے نکلتے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر سلام عرض کروں گا بسم اللّٰہ الحمدللّٰہ والسلام علٰی رسول اللّٰہ۔

 

 (۲۳ و ۲۴)    دخول وخروج میں حضور وآلِ حضور وازواجِ حضور پر درود بھیجوں گا

 

اللّھم صلّ علٰی سیدنا محمّد وعلٰی اٰل سیدنا محمّد وعلٰی ازواج سیدنا محمّد۔

 

 (۲۵)    بیمار کی مزاج پُرسی کروں گا۔

(۲۶)    اگر کوئی غمی والا ملا تعزیت کروں گا۔

(۲۷)    جس مسلمانوں کو چھینک آئی اور اس نے الحمدللّٰہ کہا اُسے یرحمک اللّٰہ کہوں گا۔

(۲۸ و ۲۹)    امر بالمعروف ونہی عن المنکر کروں گا۔

(۳۰)    نمازیوں کے و ضو کو پانی دُوں گا۔

(۳۱ و ۳۲)    خود مؤذن ہے یا مسجد میں کوئی مؤذن مقرر نہیں تو نیت کرے کہ اذان واقامت کہوں گا اب اگر یہ کہنے نہ پایا دُوسرے نے کہہ دی تاہم اپنی نیت پر اذان واقامت کا ثواب پاچکا

 

فقدوقع اجرہ علی اللّٰہ ۱؎ (اللہ تعالٰی اسے اجر عطا فرمائے گا۔ ت)

 

 (۱؎ القرآن    ۴/۱۰۰)

 

 (۳۳)    جو راہ بھُولا ہوگا راستہ بتاؤں گا۔

(۳۴)    اندھے کی دستگیری کروں گا۔

(۳۵)    جنازہ مِلا تو نماز پڑھوں گا۔

(۳۶)    موقع پایا تو ساتھ دفن تک جاؤں گا۔

(۳۷)    دو مسلمانوں میں نزاع ہوئی تو حتّی الوسع صلح کراؤں گا۔

(۳۸ و ۳۹) مسجد میں جاتے وقت دہنے اور نکلتے وقت بائیں پاؤں کی تقدیم سے اتباعِ سنّت کروں گا۔

(۴۰ عــہ)    راہ میں جو لکھا ہوا کاغذ پاؤں گا اُٹھا کر ادب سے رکھ دوں گا الی غیرذلک من نیات کثیرۃ تو دیکھئے کہ جوانِ ارادوں کے ساتھ گھر سے مسجد کو چلا وہ صرف حسنہ نماز کے لئے نہیں جاتا بلکہ ان چالیس۴۰ حسنات کے لئے جاتا ہے تو گویا اُس کا یہ چلنا چالیس طرف چلنا ہے اور ہر قدم چالیس قدم پہلے اگر ہر قدم ایک نیکی تھا اب چالیس۴۰ نیکیاں ہوگا۔ اسی طرح قبر پر اذان دینے والے کو چاہئے کہ ان پندرہ نیتوں کا تفصیلی قصد کرے تاکہ ہر نیت پر جُدا گانہ ثواب پائے اور ان کے ساتھ یہ بھی اراد ہ کہ مجھے میت کے لئے دُعا کا حکم ہے اس کی اجابت کا سبب حاصل کرتا ہوں اور نیز اُس سے پہلے عمل صالح کی تقدیم چاہئے یہ ادب دعا بجالاتا ہوں

 

الی غیرذلک ممایستخرجہ العارف النبیل واللّٰہ الھادی الٰی سواء السبیل  (ان کے علاوہ دوسری نیتیں جن کو عارف اور عمدہ رائے استخراج کرسکتی ہے اللہ تعالٰی ہی سیدھی راہ دکھانے والا ہے۔ ت) بہت لوگ اذان تو دیتے ہیں مگر ان منافع ونیات سے غافل ہیں وہ جوکچھ نیت کرتے ہیں اُسی قدر پائیں گے۔

 

عــہ یہ چالیس نیتیں ہیں جن میں چھبیس۲۶ علماء نے ارشاد فرمائیں اور چودہ۱۴ فقیر نے بڑھائیں جن کے ہندسوں پر خطوط کھینچے ہیں ۱۲ منہ

 

فانما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ مانوی ۱؎  (اعمال کا ثواب نیتوں سے ہی ہے اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔ ت)

 

 (۱؎ مشکوۃ المصابیح    خطبۃ الکتاب        مطبوعہ مجتبائی دہلی    ص ۱۱)

 

تنبیہ سوم: جہال منکرین یہاں اعتراض کرتے ہیں کہ اذان تو اعلامِ نماز کے لئے ہے یہاں کون سی نماز ہوگی جس کے لئے اذان کہی جاتی ہے مگر یہ ان کی جہالت انہیں کو زیب دیتی ہے وہ نہیں جانتے کہ اذان میں کیاکیا اغراض ومنافع ہیں اور شرع مطہر نے نماز کے سوا کن کن مواضع میں اذان مستحب فرمائی ہے ازانجملہ گوش مغموم میں اور دفعِ وحشت کو کہنا تو یہیں گزرا اور بچّے کے کان عــہ میں اذان دیتا سنا ہی ہوگا ان کے سوا اور بہت مواقع ہیں جن کی تفصیل ہم نے اپنے رسالہ نسیم الصبا میں ذکر کی۔

 

عــہ: بعض احمق جاہل گوشِ مولود کی اذان سے یہ جواب دیتے ہیں کہ اس اذان کی نماز تو بعد موتِ مولود ہوتی ہے یعنی نمازِ جنازہ، یہ اذان جو قبر پر کہوگے اس کی نماز کہاں ہے؟ اذانِ گوشِ مولود کو نمازِ جنازہ کی اذان بتانا جیسی جہالت فاحشہ ہے خود ظاہر ہے مگر ان کا جواب ترکی بہ ترکی یہ ہے کہ نمازِ جنازہ جس طرح صرف قیام سے ہوتی ہے جو ادنٰی افعال نماز ہے ایک نماز روزِ محشر صرف سجود سے ہوگی جو اعلٰی افعالِ نماز ہے جس دن کشفِ ساق ہوگا اور مسلمان سجدے میں گِرینگے منافق سجدہ نہ کرسکیں گے جس کا بیان قرآن عظیم سورہ ق شریف میں ہے قبر کی اذان اس نماز کی اذان ہے ۱۲ منہ رحمہ اللہ تعالٰی۔ (م)

 

تنبیہ چہارم: شرع مطہر کی اصل کُلّی ہے کہ جو امر مقاصدِ شرع سے مطابق ہو محمود ہے اور جو مخالف ہو مردود، اور حکم مطلق اس کے تمام افراد میں جاری وساری، جب تک کسی خاص خصوصیت سے نہی شرع وارد نہ ہو تو بعد ثبوت حسن مطلق حسن مقید پر کسی دلیل کی حاجت نہیں بلکہ حسن مطلق ہے اُس پر دلیل قاطع اور بقاعدہ مناظرہ اثباتِ ممانعت ذمہ مانع، معہذا اصل اشیا میں اباحت تو قائل جواز متمسک باصل ہے کہ اصلا دلیل کی حاجت نہیں رکھتا اجازت خصوصیت کو اجازت خاصہ وارد ہونے پر موقوف جاننا اور منع خصوصیت کے لئے منع خاص وارد ہونے کی ضرورت نہ ماننا صرف تحکم وزبردستی ہی نہیں بلکہ دائرہ عقل ونقل سے خروج اور مطمورہ ۲؎ سفہ وجہل میں کامل دلوج ہے علمائے سنّت شکر اللہ تعالٰی مساعیہم الجمیلہ ان سب مباحث کو اعلٰی درجہ پر طے فرماچکے۔

 

 (۲؎ بیوقوفی اور جہالت کے گڑھے میں مکمل طور پر داخل ہونا ہے۔)

 

ان تمام اصول جلیلہ رفعیہ ودیگر قواعد نافعہ بدیعہ کی تنقیحِ بالغ وتحقیقِ بازغ حضرت ختام المحققین امام المدققین حجۃ اللہ فی الارضین معجزۃمن معجزات سید المرسلین صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلٰی آلہٖ واصحابہ اجمعین سیدالعلما سند الکملا تاج الافاضل سراج الاماثل حضرت والد ماجد قدس اللہ سرہ ورزقنابرہ نے کتاب مستطاب اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد وکتاب لاجواب اذاقۃ الاثام لمانعی عمل المولد والقیام وغیرہا میں افادہ فرمائی اور فقیر نے بھی بقدر حاجت اپنے رسالہ اقامۃ القیامۃ علی طاعن ۱۲۹۹ھ عن القیام لنبی تھامہ ورسالہ منیرالعین فی حکم ۱۳۰۲ھ تقبیل الابھامین ورسالہ نسیم الصبافی ۱۳۰۲ھ ان الاذان یحول الوباء وغیرہا تصانیف میں ذکر کی یہاں ان مباحث کے ایراد سے تطویل کی ضرورت نہیں، حضرات مخالفین باآنکہ ہزار ہا بار گھر تک پہنچ چکے، اگر پھر ہمت فرمائیں گے ان شاء اللہ العزیز وہ جواب باصواب پائیں گے جس کے انوارِ باہرہ ولمعاتِ قاہرہ کے حضور باطل کی آنکھیں جھپکیں اور اُس کی سُہانی روشنیوں ودلکشا تجلیوں سے حق وصواب کے نورانی چہرے دمکیں وباللہ التوفیق وھوالمعین۔ والحمدللّٰہ ربّ العٰلمین والصلاۃ والسلام علی سیدالمرسلین محمد واٰلہٖ وصحبہ اجمعین اٰمین اٰمین برحمتک یاارحم الراحمین الحمدللّٰہ کہ یہ رسالہ آخر محرم ۱۳۰۷ھ سے دو۲ جلسوں میں تمام ہوا واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم علمہ جل مجدہ اتم واحکم۔

 

Post a Comment

Previous Post Next Post