Anguthe Chumne ki Hadees | Risala Nahjus Salama by AalaHazrat

 

نھج السلامۃ فی حکم تقبیل الابھامین فی الاقامۃ( ۳۳ ۱۳ھ)

(اقامت کے دوران انگوٹھے چُومنے کے حکم میں عُمدہ تفصیل۔ ت)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم

 

مسئلہ (۳۸۷): از اپربرہما شہر مانڈے سورتی مسجد مرسلہ مولوی احمد مختار صاحب قادری رضوی صدیقی میرٹھی     ۲۶ جمادی الاخری ۱۳۳۳ ہجری

منقول از فتاوٰی امدادیہ معروف بہ فتاوٰی اشرفیہ جلد چہارم صفحہ ۵۷ و ۵۸

سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ جس وقت مؤذن اقامت میں ''اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ'' بولے تو سُننے والا دونوں انگوٹھوں کو چُوم کر دونوں آنکھوں پر رکھے یا نہیں، اگر رکھتا ہے تو آیا جائز یا مستحب یا واجب یا فرض ہے، اور جو شخص اُس کا مانع ہووے اُس کا کیا حکم ہے اور اگر نہیں رکھتا ہے تو آیا مکروہ یا مکروہ تحریمی یا حرام ہے اور جو مرتکب اس فعل کا ہووے اُس کا اور جو حکم کرے اُس کا کیا حکم ہے بینوا توجروا۔

جدید یہ کہ اذان پر قیاس کرکے تحریر نہ فرمائیں بلکہ درصورت جواز یا عدم جواز کسی کتاب معتبر سے عبارت نقل کرکے

تحریر فرمائیں۔

 

جواب اوّل تو اذان ہی میں انگوٹھے چُومنا کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں اور جو کچھ بعض لوگوں نے اس بار ے میں روایت کیا ہے وہ محققین کے نزدیک ثابت نہیں، چنانچہ شامی بعد نقل اُس عبارت کے لکھتے ہیں: وذکر ذلک الجراحی واطال ثم قال ولم یصح فی المرفوع من کل ھذا شیئ انتھی ۱؎ (جلد اول صفحہ ۲۶۷) جراحی نے اس بحث کا طویل ذکر کیا ہے پھر کہا ان میں سے کوئی حدیث مرفوع درجہ صحت کو نہیں پہنچی انتہی۔ (ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار علی ردالمحتار    باب الاذان        مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/ ۲۶۷)

 

مگر اقامت میں تو کوئی ٹوٹی پھُوٹی روایت بھی موجود نہیں پس اقامت میں انگوٹھے چُومنا اذان کے وقت سے بھی زیادہ بدعت وبے اصل ہے اسی واسطے فقہاء نے اس کا بالکل انکار کیا ہے یہ عبارت شامی کی ہے: ونقل بعضھم ان القھستانی کتب علی ھامش نسختہ ان ھذا مختص بالاذان واما فی الاقامۃ فلم یوجد بعد الاستقصاء التام والتتبع ۲؎۔ بعض نے نقل کیا کہ قہستانی نے اپنے ایک نسخہ کے حاشیہ پر تحریر کیا ہے کہ یہ اذان کے ساتھ مختص ہے، اقامت میں جستجو اور تلاش بسیار کے باوجود ثبوت نہیں ملا۔ (ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار علی ردالمحتار   باب الاذان  مطبوعہ مجتبائی دہلی  ۱/ ۲۶۷)

 

یہی مفتی صاحب لم یصح فی المرفوع پر حاشیہ منہیہ لکھتے ہیں: قلت واما الموقوف فانہ وان کان منقولا لکن مع ضعف اسنادہ لیس فیہ کون ھذا العمل طاعۃ بل ھو رقیۃ للحفظ عن رمد والعوام یفعلونہ باعتقاد کونہ طاعۃ ۱۲ منہ حاشیہ صاحب فتاوٰی اشرفیہ برعبارت شامی۔

 

رہی موقوف حدیث تو وہ اس سلسلہ میں اگرچہ منقول ہے، لیکن اس کی سند ضعیف ہونے کے ساتھ اس میں یہ نہیں ہے کہ یہ عمل عبادت وطاعت ہے بلکہ یہ صرف آنکھوں کے دُکھنے کا علاج ہے اور عوام اسے عبادت سمجھتے ہوئے بجالاتے ہیں ۱۲ منہ (ت)

 

گزارش وموجب تکلیف دہی یہ ہے کہ ہفتہ گزشتہ میں ایک عریضہ دربارہ استفتائے تقبیل ابہامین عند قول المؤذن اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ابلاغ خدمت کیا ہے آج فتاوائے امدادیہ میں ایک صاحب نے عبارت مرقومہ بالا دکھائی جو بلفظہ ملاحظہ عالی میں پیش کرکے رفعِ شکوک کا خواستگار ہُوں وھی ھذہ:

(۱)  علامہ شامی یا دوسرے محققین نے تقبیل کے بارہ میں ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت نقل کرکے ''لم یصح فی المرفوع'' (کوئی مرفوع حدیث نہیں ملی۔ ت) یا اس کے ہم معنی الفاظ تحریر کئے ہیں ان سے حدیث کے مرفوع ہونے کا انکار ہے یا کلیۃ تقبیل ہی کا ثبوت صحت کو نہیں پہنچتا، مفتی صاحب کی تحریر وحاشیہ خود غور طلب ہے۔ پھر اُن کے معتقدین تقبیل مطلق کو غیر صحیح فرماتے ہیں خواہ بروایت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ یا بہ تعلیم سیدنا خضر علیہ السلام جامع(۱) الرموز نے کنزالعباد سے جو عبارت نقل کی ہے اُس میں اثبات استحباب ہے۔ مجموعہ فتاوٰی جلد سوم صفحہ ۴۲، طحطاوی(۲) نے شرح مراقی الفلاح مصری صفحہ ۱۱۸ میں اسی روایت کو نقل کیا ہے نیز فردوس دیلمی سے حدیث ابوبکر الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ مرفوعاً لکھ کر حضرت خضر علیہ السلام سے عملاً روایت بطور تائید بیان کے علٰی ہذا سادات احناف کی اکثر کتب میں موجود ہے۔ اعانۃ(۳) الطالبین علٰی حل الفاظ فتح المعین مصری ص ۲۴۷ (فقہ شافعی):

 

وفی الشنوانی مانصہ من قالحین یسمع قول المؤذن اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ مرحباً بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ثم یقبل ابھامیہ ویجعلھا علی عینیہ لم یعم ولم یرمدا ابدا انتھٰی ۱؎۔ شنوانی میں عبارت یہ ہے: جس نے مؤذن کا یہ جملہ ''اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ'' سن کر کہا ''مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم'' پھر اپنے انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگائے تو وہ نہ کبھی اندھا ہوگا اور نہ اس کی آنکھیں کبھی خراب ہوں گی انتہٰی (ت)

 

 (۱؎ اعانۃ الطالبین  فصل فی الاذان والاقامۃ  مطبوعہ احیاء التراث العربی بیروت     ۱/ ۲۳۳)

 

کفایۃ(۴) الطالب الربانی لرسالۃ ابن ابی زید القیروانی فی مذھب سیدنا الامام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ مصری جلد ا ص ۱۶۹

فائدۃ: نقل صاحب الفردوس ان الصدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لماسمع قول المؤذن اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ قال ذلک وقبل باطن انملۃ السبابتین ومسح عینیہ فقال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من فعل مثل خلیلی فقد حلت علیہ شفاعتی، قال الحافظ السخاوی ولم یصح، ثم نقل عن الخضر انہ علیہ الصلاۃ والسلام قال من قال حین یسمع قول المؤذن اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللّٰہ (صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم) ثم یقبل ابھامیہ ویجعلھما علٰی عینیہ لم یعم ولم یرمدا ابدا ونقل غیر ذلک ثم قال ولم یصح فی المرفوع من کل ھذا شیئ ۱؎ واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

 

فائدۃ: صاحب الفردوس نے نقل کیا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب مؤذن کا یہ جملہ سنا ''اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ'' تو آپ نے یہ دُہرایا اور دونوں شہادت کی انگلیوں کا باطنی حصہ اپنی آنکھوں سے لگایا تو اس پر نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے یہ عمل کیا جو میرے اس دوست نے کیا ہے تو اس کے لئے میری شفاعت ثابت ہوگئی۔ حافظ سخاوی نے کہا کہ یہ صحیح نہیں، پھر حضرت خضر علیہ السلام سے یہ منقول ہے فرمایا کہ جو شخص مؤذن کا یہ جملہ اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ سن کر یہ کہے مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللّٰہ (صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم) پھر اپنے دونوں انگوٹھے چُوم کر اپنی دونوں آنکھوں سے لگائے تو وہ نہ کبھی اندھا ہوگا اور نہ اس کی آنکھیں کبھی خراب ہوں گی اور ان کے علاوہ نے بھی ذکر کیا، پھر کہا کہ اس سلسلہ میں کوئی مرفوع صحیح روایت نہیں ملی واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

 

 (۱؎ کفایت الطالب الربانی لرسالۃ ابن ابی زید القیروانی    مطبوعہ مصر    ۱/ ۱۶۹)

 

علامہ(۵) الشیخ علی الصعیدی العدوی اسی شرح کے حاشیہ ص ۱۷۰ میں فرماتے ہیں:  (قولہ ثم یقبل الخ) لم یبین موضع التقبیل من الابھامین الا انہ نقل عن الشیخ العالم المفسر نورالدین الخراسانی قال بعضھم لقیتہ وقت الاذان فلما سمع المؤذن یقول اشھد ان محمدا رسول اللّٰہ قبل ابھامی نفسہ ومسح بالظفرین اجفان عینیہ من المآقی الی ناحیۃ الصدغ ثم فعل ذلک عند کل تشھد مرۃ مرۃ فسألتہ عن ذلک فقال کنت افعلہ ثم ترکتہ فمرضت عینای فرأیتہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مناما فقال لم ترکت مسح عینیک عند الاذان ان اردت ان تبرأ عیناک فعد الی المسح فاستیقظت ومسحت فبرئت ولم یعاودنی مرضھما الی الاٰن انتھی فھذا یدل علی ان الاولی التکریر والظاھر انہ حیث کان المسح بالظفرین ان التقبیل لھما ۱؎

واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

 

 (قولہ ثم یقبل الخ) انگوٹھوں کی کون سی جگہ چُومے، اس میں اس کا ذکر نہیں کیا، مگر شیخ العالم المفسّر نُورالدین خراسانی سے یہ منقول ہے بعض لوگوں نے کہا میں ان سے دورانِ اذان ملا جب انہوں نے مؤذن سے اشھد ان محمد رسول اللّٰہ سنا تو انہوں نے اپنے دونوں انگوٹھے چُومے اور ان دونوں کے ناخن اپنی پلکوں پر ناک کی طرف ملے پھر انہوں نے ہر بار ایسا کیا تو میں نے ان سے اس کے بارے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگے میں پہلے یہ عمل کیا کرتا تھا پھر میں نے اسے چھوڑ دیا تو میری آنکھیں خراب ہوگئیں اور مجھے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت ہُوئی تو فرمایا: تُونے اذان کے وقت آنکھوں پر انگوٹھے لگانے کیوں ترک کردئے اگر تُو چاہتا ہے کہ تیری آنکھیں درست ہوجائیں تو انگوٹھے چُومنا دوبارہ شروع کردے پھر میں بیدار  ہُوا اور میں نے انگوٹھے چُومنے کا عمل کیا تو میں صحیح ہوگیا، اس کے بعد آج تک میری آنکھیں کبھی خراب نہیں ہوئیں انتہی، پس یہ عبارت دلالت کررہی ہے کہ باربار کرنا بہتر ہے اور ظاہر یہی ہے کہ جب کبھی آنکھوں پر انگوٹھے لگائے تو چُوما بھی انہیں کرے، واللہ تعالٰی اعلم (ت)

 

 (۱؎ حاشییہ علی کفایۃ    الطالب الربانی الخ    مطبوعہ مصر        ۱/۱۷۰)

 

ان تمام عبارات میں کہیں تقبیل ابہامین پر نکیر ثابت نہیں ہوتی بلکہ استحباب کا پتا الفاظ صریحہ میں ملتا ہے برخلاف اس کے صاحبِ فتاوٰی اشرفیہ عبارت شامی پر حاشیہ لکھ کر مباح (ص ۲ ملاحظہ ہو) مان رہے ہیں پھر اُس مباح کو بھی بدعت ٹھہرا رہے ہیں اس تضاد واشکال کو رفع فرما کر قاطع فیصلہ فرمایا جائے۔

 

صاحبِ فتاوٰی اشرفیہ عمل مانحن فیہ کو اپنے حاشیہ مذکورہ میں رقیہ مان کر دعوٰی کرتے ہیں والعوام یفعلونہ باعتقاد الطاعۃ  (عوام اسے عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ ت) یہاں صرف یہ اشکال ہے کہ اعتقاد قلب سے تعلق رکھتا ہے اُس پر مفتی صاحب مذکور کو کس طرح اطلاع ہُوئی درصورتیکہ ان کے نزدیک رسول علیہ الصلاۃ والسلام بھی باوصف اعلام علّام مافی الصدور علوم غیبیہ سے بے خبر ہیں (معاذاللہ) وہ بھی عامہ مومنین کے دلی خیال اور اعتقاد سے اطلاع ہوئی خواہ وہ ہند میں ہوں یا کابل میں، ایران میں ہوں یا عرب شریف میں، غرض شرق میں ہوں یا غرب میں

 

حیث یقول والعوام یفعلونہ باعتقاد الطاعۃ  (عوام اسے عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ت) یہاں بعض الناس نے سخت فتنہ برپا کررکھا ہے مترصد کہ جلد تر جواب باصواب سے اعزاز بخشیں اجرکم اللّٰہ تعالٰی بجاہ طٰہٰ ویس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہٖ اجمعین والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔    مختار صدیقی

 

الجواب

اس مسئلہ کی تحقیق بالغ وتنقیح بازغ میں بائیس سال ہوئے فقیر نے منیرالعین فی حکم تقبیل الابھامین ۱۳۰۱ھ لکھی کہ بیس۲۰سال ہوئے بمبئی میں چھپ کر ملک میں مفت تقسیم ہُوئی اب میرے پاس صرف ایک نسخہ باقی ہے کہ آپ جیسے علم دوست حق پرست کی اعانت کو بغرض ملاحظہ مرسل، ایک نسخہ بھی اور ہوتا توہدیۃً حاضر کردیتا بعد ملاحظہ بیرنگ واپس فرمائیں یہ رسالہ باذنہ تعالٰی دربارہ حدیث وفقہ منکرین کے خیالات باطلہ عاطلہ کی بیخ کنی وصفرا شکنی کو بس ہے لہذا اُن سے زیادہ تعرض کی حاجت نہیں صرف بعض امورِ جہالت فتوائے مذکور کے متعلق اجمالاً گزارش وباللہ التوفیق۔

(۱)    دعوٰی یہ کہ اذان میں کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں، اور اس پر دلیل شامی کی جراحی سے نقل کہ ان میں سے کوئی حدیث مرفوع درجہ صحت کو نہیں پہنچی جو خود مشیر ہے کہ اس کی احادیث موقوفہ پر یہ حکم نہیں ورنہ مرفوع کی تخصیص کیوں ہوتی عبارات کتب میں مفہوم مخالف بلاشبہہ معتبر ہے، اسی شامی طابع قسطنطینہ جلد ۵ ص ۵۲ میں ہے: فان مفاھیم الکتب حجۃ ولومفھوم لقب علی ماصرح بہ الاصولیون ۱؎۔ عبارات کتب میں مفہومِ مخالف حجت ہوتا ہے خواہ وہ مفہوم لقبی ہو،علمائے اصول نے یہی تصریح کی ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار        باب الاجارۃ الفاسدۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۵/۳۸)

 

نیز جلد اول ص ۱۶۷: یفتی بہ عندالسؤال اھ ای لان مفاھیم الکتب معتبرۃ کماتقدم ۲؎۔ سوال کے وقت اسی پر فتوٰی ہوگا کیونکہ عباراتِ کتب میں مفہومِ مخالف حجت ہوتا ہے، جیسے کہ پہلے گزرچکا ہے۔(ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار    کتاب الطہارۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر     ۱/۱۱۹)

 

دُرِمختار بیان سُننِ وضو میں نہرالفائق میں سے ہے: مفاھیم الکتب حجۃ بخلاف اکثر مفاھیم النصوص ۳؎۔ عبارات کتب میں مفہوم مخالف حجت ہوتا ہے اور نصوص کے اکثر مفاہیم معتبر نہیں ہوتے (ت)

 

 (۳؎ درمختار     کتاب الطہارۃ        مطبوعہ مجتبائی دہلی        ۱/۲۱)

 

احادیثِ موقوفہ کیا روایت نہیں لاجرم ملا علی قاری نے موضوعاتِ کبیر میں کل مایروی فی ھذا فلایصح رفعہ البتۃ (اس سلسلہ میں جو کچھ مروی ہے اس کا مرفوع ہونا کسی طرح بھی صحیح نہیں۔ ت) لکھ کر فرمایا: قلت واذا ثبت رفعہ الی الصدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فیکفی العمل بہ لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ''علیکم بسنّتی وسنّۃ الخلفاء الراشدین ۱؎۔'' میں کہتا ہوں جب اس کا مرفوع ہونا صدیقِ اکبررضی اللہ تعالٰی عنہ تک ثابت ہے تو عمل کے لئے اتنا ہی کافی ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ''تم پر میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنّت لازم ہے''۔ (ت)

 

 (۱؎ الاسرار المرفوعۃ فی اخبار الموضوعہ    حرف المیم    مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت        ص ۲۱۰)

 

(۲)    صحیح کی نفی سے معتبر کی نفی جاننا فنِ حدیث سے جہالت پر مبنی۔ کُتب رجال میں ہزار جگہ ملے گا یعتبربہ ولایحتج بہ (یہ معتبر ہے لیکن اس سے استدلال نہیں کیا جائیگا۔ت) اور فضائل اعمال میں احادیث معتبرہ بالاجماع کافی اگرچہ صحیح بلکہ حسن بھی نہ ہوں۔

(۳)    فقہ میں روایت،روایت فقہیہ بھی ہے بالفرض اگر حدیث معتبر مطلقاً منفی تو اُس سے روایت معتبرہ کی نفی یا جہل محض ہے یا نری غیر مقلدی کہ بے ثبوت حدیث روایت فقہیہ معتبر نہ مانی۔

(۴)    یہیں یہیں اسی شامی میں قہستانی وفتاوٰی صوفیہ وکنزالعباد سے صراحۃً اس کا استحباب منقول اور بصیغہ جزم بلاتعصب مذکور ومقبول، تو شامی سے صرف نسبت حدیث ایک کلام نقل کرلانا اور اُسی عبارت میں شامی کے حکم مقرر فقہی کو چھوڑجانا صریح خیانت ہے۔

(۵)    پھر روایت فقہیہ قصداً بچا کر وہ سالبہ کلیہ کو کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں صاف اغوائے عوام ہے کیا کتبِ فقہ میں ہزار سے کم اس کے نظائر ملیں گے کہ حکم فقہی پر جو حدیث نقل کی اُس میں کلام کردیاگیا مگر اس سے روایت فقہی نامعتبر نہ ہوئی، ہاں وہی غیر مقلدی کی علت پیچھے ہوتو کیا علاج!

(۶)    اقامت میں کوئی ٹُوٹی پھوٹی روایت بھی موجود نہ ہونے پر شامی کا کلام نقل کیا کہ بعض نے قہستانی سے نقل کیا کہ اُنہوں نے اپنے نسخہ کے حاشیہ پر لکھا کہ دربارہ اقامت بعد تلاش کامل روایت نہ ملی اور انہیں شامی کا کلام نہ دیکھا کہ ایسی نقل نقلِ مجہول اور نقلِ مجہول محض نامقبول، جلد دوم ص ۵۱۲: قول المعراج ورأیت فی موضع۔۔۔الخ (ای معزوا الی المبسوط) لایکفی فی النقل لجہالتہ ۱؎۔ معراج کا قول اور میں نے ایک جگہ دیکھا ہے الخ (یعنی مبسوط کی طرف منسوب ہے) جہالت کی وجہ سے نقل میں وہ ناکافی ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار        باب الولی من کتاب النکاح    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۲/۳۳۹)

 

وہاں بواسطہ مجہول ناقل امام قوام الدین کاکی شارح ہدایہ تھے یہاں شامی، وہاں منقول عنہ بالواسطہ امام شمس الائمہ سرخسی تھے یا خود محرر المذہب امام محمد اور یہاں قہستانی ع

 

ببیں تفاوت راہ ازکجاست تابکجا

 

 (اتنا بڑا فرق کہاں وہ کہاں یہ)

 

جب وہ بوجہ جہالت واسطہ مقبول نہ ہُوئی اس کی کیاہستی، مگر کیا کیجئے کہ ع

 

عقل بازار میں نہیں بِکتی

 

 (۷)    لم یوجد(روایت نہیں پائی گئی۔ت) اور ''موجود نہیں'' میں جو فرق ہے عاقل پر مخفی نہیں، مگر عقل بھی ہو، یہ تو خالی نایافت کی نقل ہے کہ شہادت علی النفی سے زائد نہ ٹھہرے گی آکد الفاظ فتوے سے فتوٰی منقول ہوا اور بوجہ جہالت نامقبول ہُوا، انہیں علامہ شامی کا کلام سُنیے عقود الدریہ جلد ۲ ص ۱۰۹:

 

نقل الزیلعی ان الفتوی علی قولھما فی جوازھا قال الشیخ قاسم فی تصحیحہ مانقلہ الزیلعی شاذ مجھول القائل ۲؎ اھ۔ زیلعی نے نقل کیا ہے کہ فتوٰی ان دونوں کے قول پر اسکے جواز میں ہے، شیخ قاسم نے اپنی تصحیح میں کہا کہ زیلعی سے جو منقول ہے وہ شاذ ہے کیونکہ قائل مجہول ہے اھ (ت)

 

 (۲؎ العقود الدریۃ    فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیۃ    کتاب الاجارۃ الخ     مطبوعہ تاجران کتب ارگ بازار قندہار افغانستان    ۲/۱۳۰)

 

دُرِمختار میں ہے: علیہ الفتاوٰی زیلعی وبحر معزیا للمغنی لکن ردہ العلّامۃ قاسم فی تصحیحہ بان مافی المغنی شاذ مجھول القائل فلایعول علیہ ۳؎۔

 

اس پر زیلعی اور بحر کا فتوٰی ہے انہوں نے مغنی کی طرف منسوب کیا، لیکن علامہ قاسم نے اسے اپنی تصحیح میں بایں طور رَد کیا کہ مغنی میں جو کچھ ہے وہ شاذ ہے کیونکہ اس کا قائل مجہول ہے لہذا اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ (ت)

 

 (۳؎ درمختار         باب الاجارۃ الفاسدۃ    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۲/۱۷۷)

 

شامی نے اسے مقرر رکھا۔

(۸)    اس پر یہ ادّعا کہ اسی واسطے فقہاء نے اُس کا بالکل انکار کیا ہے، صریح کذب ہے۔

(۹)    اس پر کہنا کہ یہ عبارت شامی کی ہے بکف چراغی ہے شامی میں قہستانی سے بنقل مجہول یہ منقول کہ اس کی روایت نہ ملی اگر بفرض غلط یہ نقل مجہول مقبول بھی ہو اور عدمِ وجدان روایت عدم وجود روایت بھی ہوتو نفی روایت روایتِ نفی نہیں، ہذا کا اشارہ جانب نقل ہے نہ جانب حکم فقہا نے بالکل انکار کیا کس گھر سے لائے۔

(۱۰)    اینہم برعلم تو غایت درجہ یہ قہستانی کا اپنا انکار ہوگا نہ کہ وہ فقہا سے کوئی قول نقل کررہے ہیں اور قہستانی کا بایں معنی فقہا میں شمار کہ اُن کا اپنا قول بلانقل مسلّم ہو یقینا باطل ہے بلکہ نقل میں بھی اُن کی وہ حالت جو خود یہی علامہ شامی عقود الدریہ جلد ۲ ص ۲۹۷ میں بتاتے ہیں کہ: القھستانی کجارف سیل وحاطب لیل خصوصا واستنادہ الی کتب الزاھدی المعتزلی ۱؎۔ قہستانی بہالے جانے والے سیلاب اور رات کو لکڑی اکٹھی کرنے والے کی طرح ہے خصوصاً جبکہ اس کا استناد زاہدی معتزلی کتب کی طرف۔(ت)

 

 (۱؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ کتاب الاجارۃ الخ مطبوعہ تاجران کتب ارگ بازار قندھار افغانستان  ۲/۳۵۶)

 

اور کشف الظنون حرف النون میں علّامہ عصام اسفرائنی کا قول نہ دیکھنا کہ اس ادعائے باطل کی لگی نہ رکھے گا اور بالکل کشف ظنون بلکہ علاجِ جنون کردے گا ہم نے پتا بتادیا نہ ملے تو پیش بھی کردیں گے اِن شاء اللہ تعالٰی۔

(۱۱)    یہ بھی سہی تو کیسا ظلم شدید وتعصب عنید ہے کہ مسئلہ اقامت میں قہستانی کا اپنا قول بلانقل بلکہ صرف روایت نہ پانا سند میں پیش کیا جائے اور اُسے انہیں ایک فقیہ نہیں بلکہ فقہا کا انکار ٹھہرادیا جائے اور یہیں یہیں مسئلہ اذان میں جو یہی قہستانی خاص روایت فقہی نقل فرما کر حکمِ استحباب بتارہے ہیں وہ مردود ونامعتبر قرار پائے، غرض بڑی امام اپنی ہوائے نفس ہے وبس۔

(۱۲)    اقامت میں اذان سے بھی زیادہ بدعت وبے اصل ہے یعنی بدعت وبے اصل اذان میں بھی ہے یہ وہی مرض غیر مقلدی ہے کہ فقہا اگرچہ صراحۃً مستحب فرمائیں مگر اُن کا قول مردود اور بدعت مذمومہ ہونا غیر مسدود۔

(۱۳)    نہیں نہیں نری غیر مقلدی نہیں بلکہ اجماعِ اُمت کا رَد اور غیر سبیل المومنین کا اتباعِ بَد ہے جس پر قرآن عظیم میں نصلہ جھنم وساء ت مصیرا ۲؎ کی وعید مؤکد ہے،

 

 (۲؎ القرآن        ۴/۱۱۵)

 

احادیث یہاں قطعاً مروی مرفوع بھی اور موقوف بھی اور غایت اُن کا ضعف جس کا بیان قطعی منیرالعین میں ہے جس سے حق کی آنکھیں پُرنور اور باطل کی ظلمتیں دُور بلکہ خود اسی قدر عبارت کہ منکر نے نقل کی منصف کو کافی کہ اُس میں صرف لم یصح  (صحیح نہیں۔ت) کہا اور وہ بھی فقط احادیث مرفوعہ اگر سب کو کہتے جب بھی نفی صحت سے غایت درجہ اتنا معلوم ہوتا کہ ضعیف ہیں پھرضعیف تعدد طرق سے حسن ہوجاتی ہے اور مسائل حلال میں بھی حجت قرار پاتی ہے اور نہ بھی سہی تو قطعاً باب فضائل اعمال میں حدیث ضعیف بالاجماع مقبول اور مخالف اجماع مردود مخذول، اربعینِ امام ابوزکریا نووی رحمہ اللہ تعالٰی میں ہے:

 

قداتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال ۱؎۔ علماء محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فضائلِ اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل جائز ہے (ت)

 

 (۱؎ شرح متن اربعین نوویہ    قبیل حدیث اول    مطبوعہ امیر دولت قطر            ص ۶)

 

 (۱۴)    اجماعِ اُمت کا خلاف وہاں دشوار نہ تھا مصیبت یہ ہے کہ جمہور وہابیہ کی بھی مخالفت ہوئی کہ تخصیص عدم صحت باحادیث مرفوعہ نے صحت بتائی، ملّا علی قاری کی عبارت گزری تو قرونِ ثلٰثہ میں اصل متحقق ہوئی پھر بدعت وبے اصل کہنا اصولِ وہابیت پر بھی چھُری پھیرنا ہے۔

(۱۵)    وہابیت بجہنم سخت تر آفت یہ ہے کہ دیوبندیت کے امام اعظم جناب گنگوہی صاحب سے چل گئی اور وہ بھی بہت بُری طرح کہ ان کی سنّت، اُن کی بدعت، ان کی ہدایت، اُن کی ضلالت یہ فاعل کو بدعتی گمراہ ٹھہرائیں وہ ان کو منکر سنت ضال بد راہ بتائیں پھر یہ کیا کہ اُنہیں چھوڑ دیتے ہیں یہ کہیں گے کہ وہ بدعت ضلالت کو سنّت بتاکر سخت گمراہ بے دین ہُوئے کفی اللّٰہ المؤمنین القتال  (لڑائی میں مومنوں کے لئے اللہ تعالٰی کافی ہے۔(ت) اس کا مفصل بیان منیرالعین افادہ ۳۰ میں ملاحظہ ہو مجمل یہ کہ یہ احادیثِ تقبیل گنگوہی صاحب کے نزدیک بھی فضائل اعمال کی ہیں کہ اس پر ترغیب وثواب اُن میں مذکور ہے،مسند الفردوس کی حدیث میں بروایت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے کہ انہوں نے اذان میں نام سُن کر انگلیوں کے پوروں کو بوسہ دے کر آنکھوں پر پھیرا، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:

 

من فعل مثل مافعل خلیلی فقد حلت علیہ شفاعتی ۲؎۔ جو ایسا کرے جیسا میرے اس پیارے نے کیا اُس پر میری شفاعت حلال ہوجائیگی۔

 

 (۲؎ المقاصد الحسنۃ    حرف المیم حدیث ۱۰۲۱     مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت        ص ۳۸۴)

 

جامع الرموز وکنزالعباد وغیرہما میں ہے: فانہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یکون قاعدا لہ الی الجنۃ ۳؎۔ جو ایسا کرے گا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے پیچھے پیچھے اسے جنت میں لے جائیں گے۔

 

 (۳؎ جامع الرموز    باب الاذان        مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۱/۱۲۵)

 

اور یہ تو روایات عدیدہ میں ہے جو ایسا کرے کبھی اندھا نہ ہوگا نہ اُس کی آنکھیں دُکھیں، یہ کیا فضیلت وترغیب نہیں بہرحال یہ حدیثیں فضائلِ اعمال کی ہیں، اور گنگوہی صاحب براہینِ قاطعہ طبع دوم ص ۹۶ میں فرماتے ہیں: ''سب کا یہ مدعا ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف پر عمل درست ہے ۱؎''۔ ظاہر ہے کہ درست یہاں بمعنی جائز ہی ہے خصوصاً جبکہ امیرالمؤمنین صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ثبوت لیں جیسا کہ عبارتِ علی قاری میں گزرا، جب تو اس مسئلہ قبول ضعاف کی بھی حاجت نہ ہوگی کہ شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما کی تقلید کا خود احادیث صحیحہ میں حکم فرمایا، حدیثِ خلفا کلامِ قاری میں گزری، دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا :

 

اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر ۲؎۔ ان دو۲ کی پیروی کرو جو میرے بعد والی اُمت ہوں گے ابوبکر وعمر رضی اللہ تعالٰی عنہما۔

 

 (۱؎ براہین قاطعۃ علٰی ظلام الانوار الساطعۃ    مسئلہ فاتحہ اعتقادیت ہے الخ    مطبوعہ لے بلاسا واقع ڈھور ص ۹۶)

(۲؎ جامع الترمذی  مناقب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ   مطبوعہ امین کمپنی دہلی     ۲/۲۰۷)

 

رواہ احمد والترمذی وحسنہ وابن ماجۃ والرویانی والحاکم وصححہ وابن حبان فی صحیحہ عن حذیفۃ والترمذی والحاکم عن ابن مسعود وابن عدی عن انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔ اسے احمد نے اور ترمذی نے روایت کرکے حسن کہا، ابنِ ماجہ، رویانی اور حاکم نے روایت کرکے اسے صحیح قرار دیا، ابن حبان نے اسے اپنی صحیح میں روایت کیا حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور ترمذی اور حاکم نے حضرت ابن مسعود سے اور ابن عدی نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم اور ان سب نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بیان کیا ہے۔(ت)

 

بلکہ تقلیدِ عام صحابہ ہمارے امام رضی اللہ تعالٰی عنہم وعنہ کا مذہب ہے بلکہ وہابیہ کے نزدیک تین قرن تک حکم تقلید بلکہ منصب تشریف جدید ہے کمابیناہ فی کتبنا فی الرد علیھم (جیسے کہ ہم نے اپنی کُتب میں ان کا رد کرتے ہوئے واضح کیا ہے۔ت) بہرحال اس عمل کی دلیل جواز قرون ثلٰثہ میں متحقق ہوئی اور گنگوہی صاحب ص ۲۸ میں کہتے ہیں:

''جس کے جواز کی دلیل قرونِ ثلٰثہ میں ہو وہ سب سنّت ہے اھ'' ۳؎

 

 (۳؎ براہین قاطعۃ علی ظلام الانوار الساطعۃ    قرونِ ثلٰثہ میں موجود نہ ہونے کے معنی    مطبوعہ لے بلاسا واقع ڈھور ص ۲۸)

 

تو روشن ہُوا کہ جناب گنگوہی صاحب کے نزدیک اذان میں نام اقدس سُن کر انگوٹھے چُومنا سنّت ہے اور حدیث سے ثابت کہ منکرِ سنّت پر لعنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ستۃ لعنتھم لعنھم اللّٰہ وکل نبی مجاب (الی قولہ) والتارک لسنتی ۱؎ رواہ الترمذی عن ام المؤمنین والحاکم عنہا وعن علی والطبرانی بلفظ سبعۃ لعنتھم وکل نبی مجاب ۲؎ عن عمروبن سعواء رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم بسند حسن۔ چھ۶ آدمی ایسے ہیں جن پر میں نے لعنت کی اللہ ان پر لعنت کرے اور ہر نبی کی دعا مقبول ہے ازاں جملہ ایک وہ کہ میری سنّت کا منکر ہو، اس کو ترمذی نے ام المومنین سے اور حاکم نے ان سے اور حضرت علی سے روایت کیا اور طبرانی کے الفاظ یہ ہیں ''سات۷آدمی ایسے ہیں جن پر میں نے لعنت کی اور ہر نبی کی دُعا مقبول ہے''۔ یہ حضرت عمروبن سغوی رضی اللہ تعالٰی سے سند حسن کے ساتھ مروی ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ المستدرک کتاب الایمان ستۃ لعنھم اللّٰہ             دارالفکر بیروت    ۱/۳۶)

(۲؎ المعجم الکبیر    ترجمہ عمروبن سعواء     حدیث نمبر ۸۹    المکتبۃ الفیصلۃ بیروت    ۱۷/۴۳)

 

اب صاحبِ فتاوٰی اشرفیہ اپنا حکم گنگوہی صاحب سے دریافت کریں یا گنگوہی صاحب کے حق میں خود کوئی حکم فرمائیں۔

(۱۶)    اب اقامت کی طرف چلیے شامی سے بحوالہ مجہول قہستانی کا روایت نہ پانا تو نقل کرلائے اور اس سے یہ نتیجہ کہ فقہانے اُس کا بالکل انکار کیا حالانکہ فقہائے کرام کا مسلک وہ ہے جو امام محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر ص ۱۴ میں فرمایا: عدم النقل لاینفی الوجود ۳؎  (عدمِ نقل، وجود کے منافی نہیں۔ت)

 

 (۳؎ فتح القدیر   کتاب الطہارت  نوریہ رضویہ سکھر  ۱/۲۰)

 

 (۱۷)    عدم نقل کو نقل عدم ٹھہرانے کا رَد خود اسی شامی میں جابجا موجود، از انجملہ جلد اول ص ۶۰ میں بعد ذکر احادیث فرمایا : قال العلماء ھذہ الاحادیث من قواعد الاسلام وھو ان کل من ابتدع شیأ من الخیر کان لہ مثل اجر کل من یعمل بہ الی یوم القیٰمۃ ۴؎۔ یعنی علمائے کرام نے فرمایا کہ یہ حدیثیں دین اسلام کے قواعد سے ہیں، ان سے یہ قاعدہ ثابت ہُوا کہ جو شخص کوئی اچھا کام نیا نکالے کہ پہلے نہ تھا قیامت تک جتنے مسلمان اس پر عمل کریں سب کے برابر ثواب اُس ایجاد کرنے والے کو ہو۔

 

 (۴؎ ردالمحتار    مطلب یجوز تقلید المفضول الخ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۴۳)

 

 (۱۸)    بدعت وبے اصل کی بھی حقیقت سُن لیجئے، فتح اللہ المعین جلد ۳ ص ۴۰۲: لااصل لھا لایقتضی الکراھۃ ولذا قال فی الدر ماقیل انھا بدع ای مباحۃ حسنۃ ۱؎۔ یعنی بے اصل ہونے سے مکروہ ہونا لازم نہیں آتا اسی لئے دُرمختار میں فرمایا کہ اسے جو بدعت کہاگیا اس کے معنی یہ ہیں کہ نو پیدا جائز اچھی بات ہے (ت)

 

 (۱؎ فتح المعین    فصل فی الاستبراء وغیرہ   مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی  ۳/۴۰۲)

 

 (۱۹)    فرض کردم کہ اس سے بوجہ عدم نقل انکار مطلق ہی مقصود ہوتو بحال عدم نقل احکام فقہا جن کا نمونہ ہم نے ذکر کیا اس کے معارض ہوں گے اور ترجیح وتوفیق وتوجیہ وتحقیق کہ ہمارے رسائل رَد وہابیہ میں ہے اس کی مؤنت جناب گنگوہی صاحب نے کم دی اور منکرین کو کسی عبارت خلاف سے شبہہ ڈالنے کی گنجائش نہ رکھی کہ اس سے غایت درجہ مسئلہ عدم نقل میں اختلاف ثابت ہوگا اور گنگوہی صاحب براہین ص ۱۳۷ میں فرماتے ہیں:

''اُس کی کراہت مختلف فیہ ہُوئی اور مختلف فیہ مسئلہ تو یوں بھی بلاضرورت جائز ہوجاتا ہے ۲؎''۔

 

 (۲؎ براہین قاطعۃ علٰی ظلام الانوار الساطعۃ    تحقیق مسئلہ اجرۃ تعلیم القرآن الخ        مطبوعہ بلاسا واقع ڈھور ص۱۳۷)

 

یہ وہاں کہی اور پُوری غیر مقلدی بلکہ بہ ہوائے نفس اتباع رخص حلال کردینے کی داد دی ہے جہاں ہمارے علماء اور امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہم کا اختلاف ہے تو جہاں خود علمائے حنفیہ کے قول دونوں طرف ہوں وہ تو بدرجہ اولٰی بلاضرورت مطلقاً جائز رہے گا اور منکر کہ قولِ خلاف سے سند لائے احمق کج فہم ٹھہرے گا۔

(۲۰)    نہیں نہیں فقط جائز نہیں بلکہ گنگوہی صاحب کے دھرم میں وقتِ اقامت بھی تقبیل مذکور سنّت اور تھانوی صاحب کا اُس پر انکار گمراہی وضلالت اور بحکمِ حدیث موجب لعنت ہے۔ علماء فرماتے ہیں اقامت احکام میں مثل اذان ہے سوا مستثنیات کے، بلکہ ہدایہ میں ہے : یروی انہ لاتکرہ الاقامۃ ایضا لانھا احدی الاذانین ۳؎۔ اور یہ مروی ہے کہ اقامت بھی مکروہ نہیں کیونکہ یہ بھی ایک اذان ہے۔(ت)

 

 (۳؎ الہدایۃ  باب الاذان   مطبوعہ المکتبۃ العربیۃ کراچی    ۱/۷۴)

 

اور عندالتحقیق تنقیح مناط انتفائے خصوص کرے گی تو اُس کی دلیل جواز بھی متحقق ہوئی اور سنّت ٹھہری، گنگوہی صاحب کے نزدیک تو سنّت ہونے کے لئے اشرفعلی کی جنس بھی قرونِ ثلٰثہ میں موجود ہونے کی حاجت نہیں یہاں تو اُس کی جنس یعنی تقبیل اذان خود موجود ہے براہین گنگوہی ص ۱۸ میں ہے :  ''جس کے جواز کی دلیل قرونِ ثلٰثہ میں ہو خواہ وہ جزئیہ بوجود خارجی اُن قرون میں ہُوا یا نہ ہوا اور خواہ اُسکی جنس کا وجود خارج میں ہوا ہو یا نہ ہوا ہو وہ سب سنّت ہے ۱؎۔''

 

(۱؎ براہین قاطعہ الخ    قرون ثلٰثہ میں موجود ہونے نہ ہونے کے معنی مطبوعہ لے بلاساواقع ڈھور    ص۲۸)

 

یہ اُس چار سطری تحریر پر تلک عشرون کاملۃ (یہ مکمل بیس۲۰دلائل ہیں۔ت) وہ بھی بنہایت اختصار، اب ڈیڑھ سطری منہیہ کی طرف چلئے وباللہ التوفیق۔

 

 (۲۱)    علمائے کرام نے کہ نفی صحت میں مرفوع کی تخصیص فرمائی بکمال حیا اُس کا مطلب یہ گھڑا کہ اس بارہ میں حدیث موقوف اگرچہ منقول ہے مگر ضعیف الاسناد ہے، کیا علما نے یہ فرمایا تھا کہ اس بارہ میں حدیث مرفوع کوئی منقول ہی نہیں یا یہ فرمایا تھا کہ جو منقول ہے ضعیف نہیں بلکہ صحیح ہے یا یہ فرمایا تھا کہ ضعیف بھی نہیں بلکہ موضوع ہے انہیں تین صُورتوں میں اُس اختراعی مطلب پر مرفوع وموقوف کا تفرقہ اور تخصیص کا فائدہ صحیح رہتا مگر ہر ذرا سے فہم والا بھی دیکھ رہا ہے کہ یہ بہر وجہ علماء پر افترا ہے علما نے یہی بتایا ہے کہ اس بارہ میں احادیث مرفوعہ اگرچہ منقول ہیں مگر درجہ صحت پر نہیں بلکہ ضعیف ہیں یہی اس بے معنی منہیہ نے حدیث موقوف میں کہا تو فرق کیا رہا صراحۃً تخصیص مرفوع باطل کرنے کو تخصیص مرفوع کا مطلب ٹھہرانا جنون نہیں تو شدید مکاری ڈھٹائی ہے مکاری نہیں تو سخت جنون وبے عقلی ہے۔

(۲۲)    بفرض باطل یہی مطلب سہی مگر یوں بھی کال نہ کٹا امام الطائفہ گنگوہی صاحب ایمان لاچکے کہ یہاں مقبول ہے اگرچہ ضعیف حدیث اور طائفہ بھر کا دھرم قرون کی تثلیث پھر حدیث موقوف وضعیف موجود مان کر بدعت وبے اصل کہنا کیسا قول خبیث!

(۲۳)    ایک بھاری دیانت یہ دکھائی کہ حدیث سے اس عمل کا طاعت ہونا نہیں نکلتا بلکہ رمد سے بچنے کا ایک منتر ہے الحق حیا وایمان متلازم ہیں یہ اعتراض اگر چل سکتا تو نہ موقوف وضعیف بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد صحیح اگر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں ہوتا اُسے بھی اڑادیتا، حدیثوں میں تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  اس کی شفاعت فرمائیں گے اُسے اپنے ساتھ جنت میں لے جائینگے اور منہیہ کہتا ہے کہ یہ کوئی طاعت ہی نہیں کیا کوئی مسلمان کہہ سکتا ہے کہ جس پر یہ عظیم وجلیل ثواب موعود ہوں وہ سرے سے طاعت ہی نہیں ایک منتر ہے۔

 

(۲۴)    حدیث ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہے یوں پڑھیے : رضیت باللّٰہ ربًّا وبالاسلام دینا وبمحمد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نبیا ۲؎۔ میں اللہ تعالٰی کے رب، اسلام کے دین اور محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی اور خوش ہوں۔(ت)

 

 (۲؎ المقاصد الحسنہ    حرف المیم حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتاب العلمیۃ بیروت لبنان    ص ۳۸۴)

 

حدیثِ خضر علیہ الصلاۃ والسلام میں ہے یوں کہے: مرحبا بحبیبی وقرۃ عینی محمد بن عبداللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎۔ اے میرے حبیب! مرحبا، آپ کا اسم گرامی محمد بن عبداللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک۔ (ت)

 

 (۱؎ المقاصد الحسنہ    حرف المیم حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان    ص ۳۸۴)

 

اسی طرح حدیثِ سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ہے۔

چوتھی روایت میں ہے یوں کہے : صلی اللّٰہ تعالٰی علیک یارسول اللہ قرۃ عینی بک یارسول اللّٰہ اللھم متعنی بالسمع والبصر ۲؎۔ اے اللہ کے رسول آپ پر اللہ تعالٰی کی طرف سے صلاۃ (رحمت ہو، یارسول اللہ! آپ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں، اے اللہ! میری سماعت وبصارت کو اس کی برکت سے مالامال فرما۔ (ت)

 

 (۲؎ جامع الرموز    باب الاذان        مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۱/۱۲۵)

 

پانچویں میں ہے درود پڑھے۔

چھٹے میں ہے یوں کہے: صلی اللّٰہ علیک یاسیدی یارسول اللّٰہ یا حبیب قلبی ویانور بصری ویاقرۃ عینی ۳؎۔ یاسیدی یارسول اللہ! اے میرے دل کے حبیب، اے میری آنکھوں کے نور وسرور، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک آپ پر اللہ تعالٰی رحمت فرمائے۔ (ت)

 

 (۳؎ المقاصد الحسنہ    حرف المیم حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان    ص ۳۸۴)

 

ساتویں میں ہے یوں کہے : اللھم احفظ حدقتی ونورھما ببرکۃ حدقتی محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ونورھما ۴؎۔ اے اللہ! میری آنکھوں کی حفاظت فرما اور انہیں منوّر فرما نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں اور ان کی نور کی برکت سے۔ (ت)

 

(۴؎ المقاصد الحسنہ    حرف المیم حدیث ۱۰۲۱    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان     ص ۳۸۵)

 

منہیہ کے نزدیک یہ اللہ ورسول کے ذکر، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود، اللہ عزوجل سے دُعاکچھ طاعت ہی نہیں حالانکہ ذکر ہی روحِ طاعت ہے اور دُعا مغزِ عبادت، اور درود کو مسلمان ایمان کا چین چین کا ایمان جانتے ہیں اگرچہ منہیہ منتر مانے۔

(۲۵)    اس عمل مبارک کے فوائد میں ایک فائدہ جو یہ فرمایا گیا کہ جو ایسا کرے گا اُس کی آنکھیں نہ دُکھیں گی نہ کبھی اندھا ہو، اس جرم پر وہ ذکرِ الٰہی ودرود ودُعا سب طاعت سے خارج ہوکر رمد کامنتر رہ گئے، نامِ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس عداوت کی کوئی حد ہے، صدہا حدیثیں ہیں جن میں تلاوتِ قرآن عظیم وتسبیح وتہلیل وحمد وتکبیر ولاحول وغیرہا اذکارِ جلیلہ پر منافع جسمانیہ ودُنیاویہ ارشاد ہوئے ہیں جسے شوق ہو صحاح ستہ وترغیب وترہیب امام منذری وجوامع امامِ جلیل سیوطی وحصن حصین امام جزری وغیرہا کتبِ حدیث مطالعہ کرے منہیہ کے دھرم میں یہ اسلامی ایمانی کلمے اور خود قرآن عظیم سب منتر ہیں جنہیں طاعت سے کچھ علاقہ نہیں اعوذباللّٰہ من الشیطٰن الرجیم ولاحول ولاقوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔

 

 (۲۶)    اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر حکیم سے بڑھ کر حکیم ہیں اُن کی رعایا میں ہر قسم کے لوگ ہیں ایک وہ عالی ہمّت کہ اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اللہ ورسول کے لئے یاد کریں اپنی کوئی منفعت دنیوی تو دنیوی اُخروی بھی مقصود نہ رکھیں یہ خالص مخلص بندے ہیں جن کی بندگی میں کسی ذاتی غرض کی آمیزش نہیں ان کے لئے وصلِ ذات ہے جن کو فرمایا: والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا ۱؎۔

 

جو ہماری یاد میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم یقینا ان کے لئے اپنے تمام راستے کھول دیتے ہیں۔(ت)

 

 (۱؎ القرآن    ۲۹/۶۹)

 

دوسرے وہ جن کو کسی طمع کی چاشنی اُبھارے مگر نفع فانی کے گرویدہ نہیں باقی کی تلاش ہے قرآن وحدیث میں نعیم جنت کے بیان ان کی نظیر سے ہیں جن کو فرمایا: ان اللّٰہ اشترٰی من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنّۃ ۲؎۔

 

اللہ تعالٰی نے مومنوں سے ان کی جان ومال کو جنت کے عوض خریدلیا ہے (ت)

 

(۲؎ القرآن    ۹/۱۱۱)

 

تیسرے وہ جن کو نفع عاجل کی امید دلانا زیادہ مؤید ہے جن کو فرمایا: فقلت استغفرو ربکم انہ کان غفارا یرسل السماء علیکم مدارا ۳؎۔

 

میں کہتا ہوں اپنے رب سے معافی مانگو وہ یقینا معافی دینے والا ہے وہ آسمان سے تم پر زور دار بارش بھیجے گا۔ (ت)

 

 (۳؎ القرآن    ۷۱/۱۰)

 

اور فرمایا: قل ھو للذین اٰمنوا ھدی وشفاء ۱؎۔ فرمادیجئے یہ مومنوں کے لئے ہدایت اور شفاء ہے۔(ت)

 

 (۱؎ القرآن        ۴۱/۴۴)

 

اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اغزوا تغنموا وصوموا تصحوا وسافروا تستغنوا ۲؎ وفی حدیث حُجّوا تستغنوا ۳؎۔ جہاد کرو غنیمت پاؤ گے اور روزہ رکھو تندرست ہوجاؤگے اور حج کرو غنی ہوجاؤ گے۔

 

روی الاول الطبرانی فی الاوسط بسند صحیح عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ والاٰخر عبدالرزاق عن صفوان بن سلیم مرسلا ووصلہ فی مسند الفردوس۔

 

پہلی کو طبرانی نے اوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا اور دوسری کو عبدالرزاق نے صفوان بن سلیم سے مرسلاً روایت کیا، اور مسند الفردوس میں یہ متصلاً مروی ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ المعجم الاوسط حدیث نمبر ۸۳۰۸            مکتبۃ المعارف ریاض سعودیہ        ۹/۱۴۴)

(۳؎ المصنف لعبدالرزاق    باب فضل الحج    مکتبۃ المکتب الاسلامی بیروت        ۵/۱۱)

 

چوتھے وہ پست فطرت دون ہمت کہ امیدِ نفع پر بھی نہ سرکیں جب تک تازیانہ کاڈر نہ دلائیں قرآن حدیث میں عذاب نار کے بیان ان کی نظیر سے ہیں جن کو فرمایا:

 

ومن یعش عن ذکر الرحمٰن نقیض لہ شیطٰنا فھو لہ قرین وانھم لیصدونھم عن السبیل ویحسبون انھم مھتدونo حتی اذاجاء نا قال ٰیلیت بینی وبینک بعد المشرقین فبئس القرین ولن ینفعکم الیوم اذظلمتم انکم فی العذاب مشترکون ۴؎۔

 

جسے رتوند آئے رحمان کے ذکر سے ہم اس پر ایک شیطان متعین کردیں گے کہ وہ اس کا ساتھی رہے اور بیشک وہ شیطان ان کو راہ سے روکتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ راہ پر ہیں یہاں تک کہ جب کافر ہمارے پاس آئیگا اپنے شیطان سے کہے گا ہائے کسی طرح مجھ میں تجھ میں پورپ پچھم (مشرق ومغرب) کا فاصلہ ہوتا تُو کیا ہی بُرا ساتھی ہے، اور ہرگز تمہارا اس (حسرت) سے بھلانہ ہوگا آج جبکہ (دنیا میں) تم نے ظلم کیا توتم سب عذاب میں شریک ہو (ت)

 

 (۴؎ القرآن        ۴۳/۳۶ تا ۴۰)

 

اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: من لم یدع اللّٰہ غضب علیہ ۵؎ رواہ ابن ابی شیبۃفی المصنف عن ابی ھریرۃ وہ شخص جو اللہ تعالٰی سے دعا نہیں مانگتا اس پر اللہ تعالٰی ناراض ہوتا ہے، اسے ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے،

 

 (۵؎ مصنف ابن ابی شیبہ (۱۵۷۷)    فی فضل الدعاء حدیث ۹۲۱۶     مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی    ۱۰/۲۰۰)

 

وبلفظ من لم یسأل اللّٰہ یغضب علیہ ۱؎ احمد والبخاری فی الادب المفرد والترمذی وابن ماجۃ والبزار وابن حبان والحاکم وصححاہ وللعسکری عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فی المواعظ بسند حسن عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قال قال اللّٰہ تعالٰی من لایدعونی اغضب علیہ ۲؎ اللھم صل وسلم وبارک علیہ وعلی اٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ ابدا اٰمین۔ حدیث کے دوسرے الفاظ یہ ہیں: وہ شخص جو اللہ تعالٰی سے سوال نہیں کرتا اللہ تعالٰی اس پر ناراض ہوتا ہے اسے احمد اور بخاری نے ''الادب المفرد'' میں، ترمذی، ابن ماجہ، بزار، ابنِ حبان اور حاکم سب نے روایت کیا ہے اور آخری دو۲نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور عسکری نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اپنی ''المواعظ'' میں سند حسن کے ساتھ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: جو شخص مجھ سے دُعا نہیں کرتا میں اس پر ناراض ہوتا ہوں۔اللہ تعالٰی ہمیشہ رحمتِ کاملہ اور سلامتی بھیجے آپ پر، آپ کی آل، اصحاب، بیٹے اور گروہ سب پر، آمین (ت)

 

 (۱؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی فضل الدعاء        مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/۱۷۳)

(۲؎ کنزالاعمال    بحوالہ العسکری الباب الثامن فی الدعاء الخ    مکتبہ التراث الاسلامی بیروت    ۲/۶۲)

 

صاحبِ منہیہ اللہ عزّوجل کی حکمتوں کو باطل کرتا اور طاعت کو صرف قسم اوّل میں منحصر کرنا چاہتا اور حدیث وقرآن کے تمام اذکار جنت ونار ترغیب وترہیب کو لغو وفضول بلکہ اغوا واضلال بناتا ہے کہ بندوں کو مقصود سے دُور کرکے منتر جنتر میں لاڈالا۔

 

وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۳؎  (عنقریب جان لیں گے ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ت)

 

 (۳؎ القرآن        ۲۶/۲۲۷)

 

 (۲۷)    عوام پر غیظ ہے کہ وہ یہ ذکر خدا ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باعتقاد طاعت کرتے ہیں الحمدللہ مسلمانوں کے عوام آپ جیسے خواص سے عقل وفہم وفضل وعلم میں بدرجہازائد ہیں وہ اپنے رب عزوجل کے ذکر ودعا اور اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ذکر ومحبت وتعظیم وتوسل کو طاعت نہ جانیں تو کیا آپ کی طرح ذکر وتعظیمِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بہرحیلہ ممکنہ باطل کرنے بلکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی صریح توہینوں کو عبادت مانیں۔وہ رمد چشم کا عمل ہی سہی، فرض کیجئے ایک دیوبندی اپنی آنکھوں کے علاج کو جالینوس کا شیاف یا ابن سینا کی سلائی لگاتا ہے اور ایک مسلمان سورہ فاتحہ وآیۃ الکرسی واسمِ الٰہی نور وصلاۃ نور سے علاج کرتا ہے آپ کے دھرم میں دونوں برابرہیں کہ ایک فعل مباح کررہے ہیں، طاعت نہ یہ نہ وہ، مگر مسلمان جانتے ہیں کہ کہاں جالنیوس وابن سینا پر بھروسا اور کہاں کلام اللہ نورِ ہُدٰی وشفاء واسمائے الٰہیہ سے تو سل والتجایہ، ضرور اطاعت اور اس کے حسن ایمان کی علامت ہے ولکن النجدیۃ لایعلمون  (لیکن نجدی نہیں سمجھتے۔ت) بات یہ ہے کہ وعیدوں یا جسمانی دنیاوی بلکہ اُخروی منفعتوں ثوابوں کے وعدے سے بھی حاشایہ مراد خدا ورسول نہیں جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ اُن وعیدوں سے بچنا یا اُن منافع کا ملنا ہی مقصود بالذات بناکر اسی غرض ونیت سے ذکرِ خدا ورسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کروکہ یہ تو قلب موجوع وعکس مقصود ہے جو عبادت جنت کی نیت سے کرے کہ وہی اُس کی مقصود بالذات ہو ہرگز عابد خدا نہیں عابد جنّت ہے، تورات مقدس سے منقول اُس سے بڑھ کر ظالم کون جو بہشت کی طمع یا دوزخ کے ڈر سے میری عبادت کرے، کیا اگر میں جنّت ونارنہ بناتا مستحقِ عبادت نہ ہوتا، بلکہ اس سے مراد صرف ابھارنا ہے کہ اس طمع وخوف کے لحاظ سے عمل لوجہ اللہ کریں مضرت سے بچنا یا منفعت جسمانی  خواہ روحانی دنیوی خواہ اُخروی کا ملنا مقصود بالغرض ہو، جیسے حج میں تجارت، جہاد میں غنیمت، روزے میں صحت، نماز میں کسرت، بحمدللہ تعالٰی مسلمانوں کے عوام اپنے رب کی مراد سمجھے اور اس عمل میں بھی وہی اُن کا مقصود ہُوا کہ اپنے رب جل وعلا اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نامِ اقدس پر براہِ محبت وتعظیم بوسہ دیتے ہیں اور یہ سب قطعاً طاعت ومرادِ شریعت ہے اس کی برکت اس کے طفیل اس کے صدقہ سے ہمیں جسمانی فائدہ بھی ملے گا کہ آنکھیں نہ دُکھیں گی اندھے نہ ہوں گے یہ عین وہی نیت ہے جو شارع کو ایسے وعدوں میں مقصود ہوتی ہے مگر خائب وخاسر، احمق وغادر وہ کہ ایسے وعدوں پر پھُول کر اصل مقصود خدا ورسول کو بھُول جائے اور ان کے ذکر وتعظیم ومحبت کو نرا منتر بتائے

 

نسوا اللّٰہ فانسٰھم انفسھم ۱؎  (جو بھُول گئے اللہ تعالٰی کو، تو اس نے انہیں بلا میں ڈالا کہ اپنی جانیں یاد نہ رہیں۔ ت)

 

 (۱؎ القرآن        ۵۹/۱۹)

 

 (۲۸)    غنیمت ہے کہ رمد کا منتر مان کر منتر کے نام سے وہ محض عدم روایات یا ضعف مروی بدعت بدعت کا بھُوت تو اُترا اور یہ عمل مباح ٹھہرا ورنہ عدمِ ورود پر بدعت وبے اصل ہونے کے جو معنی آپ حضرات کے یہاں ہیں اُن کا مصداق کسی طرح مباح نہیں ہوسکتا اگرچہ اعتقادِ طاعت نہ ہو۔

(۲۹)    یہ تو اوپر گزرا کہ اسی فعل کو اذان میں ہو خواہ اقامت میں محض مباح جاننا شریعتِ گنگوہیہ کے بالکل خلاف ہے کہ اُس میں یہ عمل سنت ہے تو عوام میں ٹھیک سمجھے اور طاعت کے طاعت اعتقاد کرنے کو بدعت بتاکر تُمہیں بدعتی بد مذہب ہُوئے اگرچہ دیوبندیت کی معراج ترقی فی المراوق من الدین کے بعد بدعت کی کیا گنتی ع

 

ماعلی مثلہ بعد الخطاء

 

 (بعد ازخطا اس کی مثل پر کیا لازم آئے)

 

مگر یہاں یہ گزارش ہے کہ مباح بمعنی شامل فرض جس طرح امکان عام شامل وجوب ہے قطعاً وجوب ہے قطعاً یہاں مراد نہیں ورنہ فرض کو بھی طاعت سمجھنا گمراہی وبدعت ہو،لاجرم مباح بمعنی مساوی الطرفین نظیر امکان خاص مراد ہے یعنی وہ فعل نہ محمود نہ مذموم،آپ نے اُسے رمد چشم کا منتر بناکر ایسا ہی مباح سمجھا اور یہ شریعت گنگوہیہ سے کفر ہے عالی جناب گنگوہی صاحب کے دھرم میں کوئی فعل ایسا مباح نہیں اُسی صفحہ ۲۸ پر بولتے ہیں:

''جس کے جواز کی دلیل قرونِ ثلٰثہ میں ہو خواہ وہ جزئیہ بوجود خارجی اُن قرون میں ہوا یا نہ ہوا وہ سب سنّت ہے اور جس کے جواز کی دلیل نہیں خواہ وہ ان قرون میں بوجود خارجی ہوا یا نہ ہوا وہ سب بدعت ضلالت ۱؎ ہے''۔

 

 (۱؎ براہین قاطعہ علٰی ظلام انوار الساطعۃ    قرونِ ثلٰثہ میں موجود ہونے نہ ہونے کا معنی       مطبوعہ لے بلاسا واقع ڈھور     ص ۲۸)

 

ظاہر ہے کہ کوئی فعل ہو یا اُس کے جواز کی دلیل قرونِ ثلٰثہ میں ہوگی یا نہیں، تیسری شق ناممکن ہے کہ یہ حصر عقلی دائربین النفی والاثبات ہے اور گنگوہی صاحب دوکلیہ دے گئے کہ شق اول کے سب سنت ہیں اور شق دوم کے سب ضلالت۔اب وہ کون سا رہا کہ دونوں سے خارج ہوکر نرا مباح ہو بلکہ نہ ایک مباح کہ مکروہ تنزیہی وخلاف اولٰی ومستحب یہ سب احکامِ شرعیہ یکسر اُڑگئے یہ ہے وہ گنگوہی شریعت کا تازہ جوہر جس پر صفحہ ۲۹ میں یہ ناز ہیں کہ اس قاعدہ کو خوب غور کرنا اور سمجھ لینا ضرور ہے اس عاجز کو اساتذہ جہاندیدہ کی توجہ سے حاصل ہوا ہے اس جوہر کو اس کتاب میں ضرورۃً رکھتا ہُوں ۲؎''۔ کیا نفیس جوہر ہے کہ ادھر تو شریعتِ محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آدھے احکام اُڑگئے اُدھر آدھی وہابیت اپنا جوہر کرگئی جس کا بیان منیرالعین افادہ مذکور میں ہے منیرالعین نے آنکھیں کھول دی تھیں پھر بھی تنبّہ نہ ہوا اور کیوں ہوتا کہ حضور اقدس عالم ماکان ومایکون صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صحیح حدیث صحیح بخاری شریف میں فرماچکے ہیں ثم لایعودون فیہ ۳؎  (پھر وہ لوٹ کر دین میں نہیں آئیں گے۔ ت)

 

 (۲؎ براہین قاطعہ علٰی ظلام انوار الساطعۃ     قرونِ ثلٰثہ میں موجود ہونے نہ ہونے کا معنی       مطبوعہ لے بلاسا واقع ڈھور   ص ۲۹)

(۳؎ صحیح البخاری        آخر کتاب ا لتوحید        مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۱۱۲۸)

 

 (۳۰)    مباح کا اعتقاد طاعت سے بدعت ہوجانا اگر اس سے یہ مراد کہ جو شے مباح محض ہے جس کے فعل وترک شرعاً دونوں مساوی اُسے فی نفسہ ماموربہ ومطلوب شرع اعتقاد کرنا اُسے بدعت کردیتا ہے تو منہیہ والے کے پاس کیا دلیل ہے کہ یہ فعل مساوی الطرفین ہے اور عام عوام فی نفسہ اس کو ماموربہ یا مطلوب من جہۃ الشرع اعتقاد کرتے ہیں اب یہاں وہ علم غیب کا مسئلہ جانگزائے اہلِ منہیہ ہوگا جو ہمارے سائل فاضل سلمہ نے ایراد کیا اور اگر یہ مراد کہ مباح کو بہ نیت قربت کرنا اسے بدعت کردیتا ہے تو شریعت مطہرہ پر محض افتراء ہے بلکہ مباح کو بہ نیت قربت کرنا اسے قربت کردیتا ہے اور ہر قربت طاعت ہے تو اُس میں اعتقاد طاعت ضرور حق اور اُسے بدعت بتانا جہل مطلق،

 

اشباہ والنظائر وردالمحتار میں ہے: اما المباحات فتختلف صفتھا باعتبار ماقصدت لاجلہ فاذا قصد بہ التقوی علی الطاعات اوالتوصل الیھا کانت عبادۃ ۱؎۔ باقی مباحات کا معاملہ نیت کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے اگر ان سے مقصود طاعات پر تقوٰی یا ان تک پہنچنا ہوتو پھر یہ عبادت ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ الاشباہ والنظائر  القاعدۃ الاولی من الفن لاول  ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۱/۳۲)

 

غمزالعیون میں ہے : کل قربۃ طاعۃ ولاتنعکس ۲؎  (ہر قربت طاعت ہے اور ہر طاعت قربت نہیں ہوتی۔ ت)

 

 (۲؎ شرح غمزالعیون    البصائر مع الاشباہ من الفن لاول    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۱/۳۲)

 

یہ اس ڈیڑھ سطری منہیہ پر تلک عشرۃ کاملۃ (دس مکمل دلائل ہیں۔ ت) ہیں۔

 

بالجملہ منکرین کے پاس کوئی دلیل نہیں اور ادعائے بے دلیل سے بدتر کوئی شے ذلیل نہیں دربارہ اذان تو احادیث وارد اور اس کا استحباب کُتبِ فقہ میں مصرح تو انکار نہیں مگر جہل مبین اور دربارہ اقامت اگر ورود نہیں کہیں منع بھی نہیں اور بے منع شرعی منع کرنا ظلم مہین، ادنی درجہ منع کراہت ہے اور کراہت کے لئے دلیل خاص کی حاجت ہے اور بے دلیل شرعی ادعائے منع شریعت پر افتراء وتہمت ہے، ردالمحتار جلد ۱ ص ۶۸۳: لایلزم منہ ان یکون مکروھا الابنھی خاص لان الکراھۃ حکم شرعی فلابدلہ من دلیل ۳؎۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مکروہ ہوگا مگر کسی نہی خاص کے ساتھ کیونکہ کراہت حکم شرعی ہے اس کے لئے دلیل کا ہونا ضروری ہے۔(ت)

 

 (۳؎ ردالمحتار        مطلب بیان السنۃ والمستحب الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۴۸۳)

 

البحرالرائق جلد ۲ ص ۱۷۶:

 

لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذلابدلھا من دلیل خاص ۴؎۔ ترکِ مستحب سے کراہت کا ثبوت نہیں ہوتا کیونکہ اس کیلئے خاص دلیل کی ضرورت ہے (ت)

 

 (۴؎ البحرالرائق    باب العیدین        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲/۱۶۳)

 

وہابیہ کی جہالت کہ جواز کے لئے ورود خاص مانگیں اور منع کے لئے دلیل خاص کی کچھ حاجت نہ جانیں اس اوندھی الٹی سمجھ کا کیا ٹھکانا، مگر علت وہی شریعت مطہرہ پر افترا اٹھانا۔ ردالمحتار جلد ۵ ص ۴۵۵: لیس الاحتیاط فی الافتراء علی اللّٰہ تعالٰی باثبات الحرمۃ اوالکراھۃ اللذین لابدلھا من دلیل بل فی القول بالاباحۃ التی ھی الاصل ۱؎۔ احتیاط نہیں کرتے اللہ تعالٰی پر افتراء میں حرمت وکراہت ثابت کرنے میں جن کے لئے دلیل کا ہونا ضروری ہے البتہ اباحت کا قول کرنے میں احتیاط کرتے ہیں جو کہ اصل ہے (ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار        کتاب الاشربۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۵/۳۲۶)

 

ظاہر ہے کہ نامِ اقدس سُن کر انگوٹھے چُومنا آنکھوں سے لگانا عرفاً دلیلِ تعظیم ومحبّت ہے اور امورِ ادب میں قطعاً عرف کا اعتبار۔ امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر میں فرماتے ہیں:   فیحال علی المعھود حال قصد التعظیم ۲؎۔ تعظیم مقصود ہونے کے وقت اسے عرف پر محمول کیا جائیگا۔(ت)

 

 (۲؎ فتح القدیر    باب صفۃ الصّلٰوۃ        مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱/۲۴۹)

 

اور تعظیم حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطلقاً ماموربہ۔ قال اللّٰہ تعالٰی لتؤمنوا باللّٰہ ورسولہ وتعزروہ وتؤقروہ ۳؎۔ اللہ تعالٰی کا ارشادِ مبارک ہے: تم اللہ تعالٰی اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ہمیشہ ان کی تعظیم وتوقیر بجالاؤ۔ (ت)

 

 (۳؎ القرآن    ۴۸/۹)

 

اور مطلق ہمیشہ اپنے اطلاق پر جاری رہے گا جب تک کسی خاص فرد سے منع شرعی نہ ثابت ہو جیسے سجدہ، زیادات امام عتابی پھر جامع الرموز پھر ردالمحتار جلد ۵ ص ۳۷۹ میں ہے: ان المطلق یجری علٰی اطلاقہ الا اذاقام دلیل التقیید نصا اودلالۃ فاحفظہ فانہ للفقیہ ضروری ۴؎۔ مطلق اپنے اطلاق پر ہی رہتا ہے مگر اس صورت میں کہ جب تقیید پر کوئی صراحۃً یا دلالۃً دلیل قائم ہو اسے اچھی طرح محفوظ کرلو کیونکہ یہ فقیہ کے لئے ضروری قاعدہ ہے۔(ت)

 

 (۴؎ ردالمحتار        فصل فی البیع من کتاب الحظر    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۵/۲۷۲)

 

مگر ہے یہ کہ اشقیا کے نزدیک تعظیمِ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطلقاً شرک وظلم ہے شریعت نے برخلاف قیاس بعض مواضع میں خدا جانے کس ضرورت سے ناچاری کو مقرر کردی ہے لہذا مورد پر مقتصر رہے گی باقی اُسی اصل حکم پر شرک وبدعت وحرام ٹھہرے گی فلہذا جہاں وارد ہوئی خدا کا دھرا سر پر، قہرِ درویش بجانِ درویش ماننی پڑی وہ بھی فقط ظاہراً نہ دل سے جیسے التحیات میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو غائبانہ ندا کرنے کا شریعت نے حکم دیا خدا جانے شریعت کو کیا ہوگیا تھا کہ عین نماز میں یہ غیر خدا کی تعظیم اور اس پر دُور ونزدیک سے پکارنا رکھ دیا، خیر قہرا جبراً التحیات کے لفظ تو پڑھ لو مگر انشائے معنی کا ارادہ نہ کرنا وہ دیکھو امام الطائفہ اسمٰعیل دہلوی صراطِ مستقیم میں حکم لگارہے ہیں کہ :

 

''صرف ہمت درنماز بسوئے شیخ وامثال آں ازمعظمین گوجناب رسالت مآب باشند بچندیں مرتبہ بدترست ازاستغراق درخیال گاؤ ۱؎ وخر خود، الی آخر الکلمۃ الملعونۃ لعن اللہ قائلہا وقابلہا۔ ''نماز میں اپنے شیخ یا بزرگوں میں سے کسی دوسرے بزرگ حتی کہ رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف توجہ صَرف کرنا اپنے گدھے اور بیل کے خیال میں مستغرق ہوجانے سے کئی درجے بدتر ہے'' آخر کلام ملعون تک، اللہ تعالٰی اس کلام کے قائل اور قبول کرنے والے کو اپنی رحمت سے دُور رکھے۔ (ت)

 

 (۱؎ صراط المستقیم    ہدایت نامہ درذکر مخلات    مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ لاہور        ص ۸۶)

 

ولہذا وہابیہ تصریح کرتے ہیں کہ تشہد میں السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ سے حکایتِ لفظ کا ارادہ کرے قصدِ معنی نہ کرے تصریح کرتے ہیں دُور سے یارسول اللہ کہنا شرک ہے مگر بحمداللہ تعالٰی مسلمانوں کے ایمان میں تعظیمِ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عین ایمان ایمان کی جان ہے اور علی الاطلاق مطلوب شرع، تو جو کچھ بھی جس طرح بھی جس وقت بھی جس جگہ بھی تعظیمِ اقدس کے لئے بجالائے خواہ وہ بعینہٖ منقول ہو یا نہ ہو سب جائز ومندوب ومستحب ومرغوب ومطلوب وپسندیدہ وخوب ہے جب تک اُس خاص سے نہی نہ آئی ہو جب تک اُس خاص میں کوئی حرجِ شرعی نہ ہو، وہ سب اس اطلاق ارشادِ الٰہی وتعزروہ وتؤقروہ میں داخل اور امتثال حکم الٰہی کا فضل جلیل اسے شامل ہے ولہذا ائمہ دین تصریح فرماتے ہیں کہ جو کچھ جس قدر ادب وتعظیم حبیب رب العالمین جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں زیادہ مداخلت رکھے اُسی قدر زیادہ خوب ہے، فتح القدیر امام محقق علی الاطلاق ومنسک متوسط وفتاوٰی عٰلمگیریہ وغیرہا میں ہے : کل ماکان ادخل فی الادب والاجلال کان حسنا ۲؎۔ جس قدر بھی ادب وعزت میں کامل ہو اتنا ہی زیادہ اچھا ہے۔(ت)

 

(۲؎ المسلک المقتسط فی المنسک المتوسط مع ارشاد الساری    باب زیادۃ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم    مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت    ص ۳۳۶)

 

امام ابنِ حجر مکّی ''جوہر منظم'' میں فرماتے ہیں: تعظیم النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بجمیع انواع التعظیم التی لیس فیھا مشارکۃ اللّٰہ تعالٰی فی الالوھیۃ امر مستحسن عند من نوراللّٰہ ابصارھم ۱؎۔ وہ لوگ جنہیں اللہ تعالٰی نے آنکھوں کا نور عطا فرمایا ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کی تمام اقسام وصورتوں کو امر مستحسن تصوّر کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں ہرگز باری تعالٰی کے ساتھ شرکت کا کوئی پہلو نہیں۔(ت)

 

 (۱؎ الجوہر المنظم    الفصل الاول    مطبوعہ ادارۃ المرکزیۃ واشاعۃ القرآن گلبرگ لاہور    ص ۱۲)

 

تو مسلمان اگر وقتِ اقامت بھی تقبیل کرے ہرگز کوئی وجہِ ممانعت نہیں، اور اسے شرعاً ناجائز نہ کہے گا مگر وہ کہ شرع پر افترا کرتا یا نام واکرام سیدالانام علیہ افضل الصلاۃ والسلام سے جلتا ہے۔اسی طرح نماز واستماع قرآن مجید واستماع خطبہ جن میں حرکت منع ہے اور ان کے امثال مواضع لزوم محذور کے سوا جہاں کہیں بھی یہ فعل بنظرِ تعظیم ومحبت حضرت رسالت علیہ افضل الصلاۃ والتحیۃ ہو جیسا کہ بعض محبان سرکار سے مشہور ہے بہرحال محبوب ومحمود ہے واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post