Imkane Kizb ka Masla | Kya ALLAH jhut bol sakta hai | Daman-e-Bagh-e-Subhanas Subooh Risala by AalaHazrat

رسالہ

دامان باغ سبحٰن السبوح

( سبحٰن السبوح کے باغ کا دامن  ۱۳۰۷ھ)

 

مسئلہ ۷۳: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کی دیو بند کا پڑھا ہُوا ایک مولوی کہتا ہے کہ اللہ تعالٰی جُھوٹا ہو سکتا ہے اور اس پر دلیل یہ پیش کرتا ہے کہ آدمی جُھوٹ بول سکتا ہے تو اگر اللہ تعالٰی نہ بول سکے تو آدمی کی قدرت خدا کی قدرت سے بڑھ جائے گی کہ ایک کام ایسا نکلا کہ آدمی تو کر سکتا ہے اور خدا نہیں کر سکتا، یہ ظاہر بات ہے کہ خدا کی قدرت بے انتہا ہے آدمی  جس جس بات پر قادر ہے خدا ضرور ان سب باتوں پر قادر ہے اور ان کے سوا بے انتہا چیزوں پر قدرت رکھتاہے  جن پر آدمی کو قدرت نہیں انسان کو اپنے کذب پر قدرت اور خداکو اپنے کذب پر قدرت نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے، اور اس دلیل کو کہتا ہے کہ یہ ایسی قاطع دلیل ہے کہ جس کا جواب نہیں ہو سکتا ہے امید کہ اس بارہ میں جو حق ہو تحریر فرمائیں اور مسلمانوں کو گمراہ ہونے سے بچائیں۔ بیّنوا توجروا (بیان کیجئے اجر حاصل کیجئے ۔ ت)

 

الجواب

سبحٰن اللہ رب العر ش عما یصفون (پاکی ہے عرش کے رب کو ان باتوں سےجو یہ بناتے ہیں۔ت) اللہ عزوجل مسلمانوں کو شیطانوں کے وسوسوں سے بچائے، دیو بندی نہ دیوبندی کہ دیو بندیوں نہ دیوبندیوں کہ ان کے امام اسمٰعیل دہلوی کا یہ قول صریح ضلالت و گمراہی و بد دینی ہے جس میں بلا مبالغہ ہزار ہا وجہ سے کفر لزومی ہے، جمہور فقہائےکرام کے طورپر ایسی ضلالت کا قائل صریح کافر ہو جاتاہے اگر ہم باتباع جمہور متکلمین کرام صرف لزوم پر بے التزام کافر کہنا نہیں چاہتے اور ضال مضل بددین کہنے پر قناعت کرتے ہیں۔

 

اس مسئلہ میں فقیر کا یک کافر و افی رسالہ مسمّٰی بہ سبحٰن السبوح عن کذب مقبوح مدت ہوئی چھپ کر شائع ہو چکا اورگنگوہیوں دیو بندیوں وغیر ہم وہابیوں کسی سے اس کا جواب نہ ہو سکا نہ ان شاء اللہ العزیز قیامت تک ہو سکے، حقت علیم کلمۃ العذاب بما کذبوا ربھم وبما کانو یفسقون اولٰئک اصمھم اللہ واعمٰی البصارھم فھم طغیا نھم یعمھونo عذاب کا قول ان پر ٹھیک اترا بسبب اس کے کہ انھوں نے اپنے رب کی طرف جھوٹ منسوب کیا اور اس سبب سے کہ وہ حکم عدولی کرتے تھے یہی لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالٰی نے بہرہ کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا پس وُہ اپنی سرکشی میں سر گرداں رہتے ہیں (ت)

 

میں نے اس رسالے میں تیس ۳۰ نصوص اور تیس دلائل قطعیہ سے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالٰی کا کذب محال بالذات  ہے اور یہ کہ اس کے محال بالذات ہو نے پر تمام ائمہ امت کا اجماع ہے۔ مسلمان جس کے دل میں اس کے رب کی عظمت اور اس کے کلام کی تصدیق ہوا گر کچھ بھی سمجھ رکھتا ہے تو اس کے لئے یہی دو حرف کافی ہیں، اول یہ کہ کذب ایسا گندا ناپاک عیب ہے جس سے ہر تھوڑی ظاہری عزّت والا بھی بچنا چاہتا ہے اور ہر بھنگی چمار بھی اپنی طرف اس کی نسبت سے عار رکھتا ہے، اگر وہ اللہ عزوجل جلالہ کے لئے ممکن ہوا تو وہ عیبی ناقص ملوث گندہی گھناؤئی نجاست سے آلودہ ہو سکے گا، کیا کوئی مسلمان اپنے رب پر ایسا گمان کر سکتا ہے ، مسلمان تو مسلمان کہ اس کے لئے ا سکے رب کی امان، ادنٰی سمجھ وال یہودی نصرانی بھی ایسی بات اپنے رب کی نسبت گوارا نہ کرے گا، پاکی ہے اسے جس کے سراپردہ عزت و جلا ل کے گرد کسی عیب و نقص کا گزر قطعا محال بالذات ہے، جس کی عظمت و قدوسیت کو ہرلوث و آلودگی سے بالذات منافات ہے۔ شرح مقاصد میں ہے : الکذب محال باجماع العلماء لان الکذب نقص باتفاق العقلاء وھو علی اللہ تعالٰی محال ۱؎۔     یعنی جُھوٹ باجمایِ علماء محال ہے کہ وُو بالاتفاق عقلا عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پر محال ۔

 

(۱؂ شرح المقاصد  المبحث االسادس فی انہ تعالٰی متکلم  دارا لمعارف النعمانیہ لاہور     ۲ / ۱۰۴)

 

نیز مقصد سادس فصل ثالث محبث سابع جملہ اہلسنت کے عقئد اجماعیہ میں فرماتے ہیں: طریقۃ اھل السنۃ ان العالم حادث و الصانع قدیم متصف بصفات قدیمۃ و الا یصح علیہ الجھل ولا الکذب ولا النقص  ۱؎۔ اہلسنت کا مذہب یہ ہے کہ تمام جہان حادث ونو پیدا ہے ، اور اس کا بنانے ولا قدیم اور صفاتِ قدیمہ سے موصوف ہے، نہ اس کا جہل ممکن ہے نہ کذب ممکن ہے نہ اس میں کسی طرح کے عیب و نقص کا امکان ہے۔

 

 (۱؂شرح المقاصد  فصل ثالث مبحث ثامن   دارا المعارف النعمانیہ لاہور      ۲/ ۲۷۰)

 

دوم یہ کہ جب ا س کاکذب ممکن ہو تو اس کا صدق ضروری نہ رہا ، جب اس کا صدق ضروری نہ رہا تو اس کی کون سی بات پر اطمینان ہو سکے گا، ہر بات میں احتمال رہے گا کہ شاید جُھوٹ کہہ دی ہو، جب وُہ جُھوٹ بول سکتا ہے تو اس یقین کاکیا ذریعہ ہے کہ اس نے کبھی نہ بولا،کیا اس کسی کا ڈر ہے یا اس پر کوئی حاکم و افسر ہے جو اسے دبائے گا اورجو بات وہ کر سکتا ہے نہ کرنے دے گا، ہاں ذریعہ صرف یہی ہو سکتا تھا کہ خود اس کا وعدہ ہو کہ ہمیشہ سچ بولوں گا یا اس نے فرمادیا ہے کہ میر اسب باتیں سچی ہیں مگر جب اس کا جھوٹ ممکن ٹھہرا لو تو سرے سے اس وعدہ و فرمان ہی کے صدق پر کیا اطمینان رہا، ہو سکتا ہے کہ پہلا جُھوٹ یہی بولا ہو، غرض معاذاللہ اس کا کذب ممکن مان کر دین و شریعت واسلام و ملّت کسی کا اصلاّ پتا نہیں لگا رہتا، جزا و سزا و جنت و نارہ حساب و کتاب و حشر و نشر کسی پر ایمان کا کوئی ذریعہ نہیں رہتا، تعالٰی اللہ عما یقولون الظلمون علواکبیرا۔     اللہ تعالٰی بہت بلند ہے اس سے جو ظالم کہتے ہیں ۔ (ت)

 

علاّ مہ سعد الدین تفتازانی شرح مقاصدمیں فرماتے ہیں : الکذب فی اخبار اللہ تعالٰی فیہ مفاسد لا تحصی و مطاعن فی الاسلام لا تخفی، منھا مقال الفلاسفۃ فی المعاد ومجال الملاحدۃ فی العناد' و بطلان ماعلیہ الاجماع من القطع بخلود الکفار فی نار فمع صریح اخبار اللہ تعالٰی بہ ، فجواز عدم وقوع مضمون ھٰذا الخبر محتمل ولما کان ھٰذا باطلا قطعا علم ان القول بجواز الکذب جی اخبار اللہ تعالٰی باطل قطعا ۱؎ (ملتقطا)۔ اخبارالٰہیہ میں امکان کذب ماننے سے بے شمار خرابیاں اور اسلام میں ایسے طعنے سراٹھائیں گے جو پوشیدہ نہیں منجملہ ان کے معاد کے بارے میں فلاسفہ کا کلام ، عناد پر مبنی بے دینوں کی جسارت اور کفار کے ہمیشہ جہنم میں رہنے جیسے اجماعی نظریات کا بطلان ہے باوجودیکہ اس بارے میں اللہ تعالٰی کی تصریح وارد ہے، چناچہ اس خبر کے مضمون کے عدم وقوع کا جائز ہو نا محتمل ہوا، اور جب یہ قطعا باطل ہے تو معلوم ہُوا کہ اخبار الٰہیہ میں امکان کذب کا قول قطعا باطل ہے ( ملتقطا)(ت)

 

 (۱؎ شرح المقاصد     المحث الثانی عشر      دارا لمعارف النعمانیہ لاہور     ۲ / ۲۳۸)

 

رہی دیوبندی کی دلیل ذلیل وہ اس کی اپنی ایجاد نہیں، امام الوہابیہ کی اختراع خبیث ہے، سبحٰن السبوح میں اسکے ہذیانوں کی پوری خدمت گزاری کر دی ہے، یہاں چند حرف گزارش ،

 

اوّ لا : جب یہ تھہرا کہ انسان جو کچھ اپنے لئے کرسکتا ہے وہابیہ کاخدابھی خود اپنے واسطے کر سکتا ہے، تو جائز ہُوا کہ اُن کا خدا زنا کرے، شراب ئیے، چوری کرے، بُتوں کو پُوجے ، پیشاب کرے، پاخان پھرے، اپنے آپ کو آگ میں جلائے ، دریا میں ڈبائے، سرِ بازار بدمعاشوں کے ساتھ دھول چھکڑ لڑے ، جوتیاں کھائے وغیر ہ وغیرہ وہ کون سی ناپاکی، کون سی ذلت ، کو نسی خواری ہے جو ان کے خدا سے اُٹھ رے گی۔

 

ثانیا : بے دین اس گھمنڈ میں ہیں کہ انھوں نے خدا کا عیبی ہونا فقط ممکن کہا ہےکوئی عیب بالفعل تو اسے نہ لگایا' حالانکہ اوّل تو یہی ان کا گدھا پن ہے اُس جلیل جمیل سبوّح قدوس کی شان جلال کے لئے فقط امکان عیب ہی خود بڑا بھاری ہے فی سبحٰن السبوح واوضحناہ اللغواۃ مع مالہ من الواضوح  (جیسا کہ ہم نے اس کو سبحٰن السبوح میں بیان کیا ور گمراہوں کےلئے اس کی خوب وضاحت کی ۔ ت)خیر یہ تو ایما ن والے جانتے ہیں ، میں وُہ بتاؤں جسے یہ عیب لگانے والے بھی سمجھ جائیں کہ بیشک انھوں نے خدا کو بالفعل عیبی مانا اور کتنا سخت سے سخت عیبی جانا بلکہ اس کے حق میں کچھ لگی نہ رکھی صاف صاف اس کی الوہیت ہی باطل کردی، وجہ سُنئے جب ٹھہری کہ آدمی جو کچھ کرتا ہے خدا بھی اپنے لئے کر سکتا ہے ، اور ظاہر ہے کہ آدمی قادر ہے کہ اپنی ماں کی تواضع و خدمت کے لئے اس کے تلووں پر اپنی آنکھیں ملے، اپنے باپ کی تعظیم وغلامی کے لئے اس کے جُوتے اپنے سر پر رکھ کر چلے تو ضرور ہے کہ وہابیہ کا خدا بھی اپنے ما ں باپ کے ساتھ  ایسی تعظیم و تواضع وخدمت و غلامی پر قادر ہو ورنہ انسان کی قدرت جو اس کی قدرت سے بڑھ جائے گی کہ ایک کام وہ نکلا جو انسان کر سکا اور خدا سے نہیں ہو سکتا، اگر کہئے اسے اس کام پر اس وجہ سےقدرت نہ ہوئی کہ اس کے ماں باپ ہی نہیں تو اس میں اس زخم کا کیا علاج ہُوا، مطلب تو  اتنا تھاکہا ایک کام  ایسا نکلا جسے بعض انسان کر رہے ہیں اور خدا سے نہیں ہو سکتا خواہ نہ ہو سکنے کی کوئی وجہ ہو، لاجرم تمھارے طورپر ضرور ہے کہ خدا کے ماں باپ ہوں تاکہ وُہ بھی ایسی سعادت مندی کر سکے جیسی انسان کر رہا ہے، اور ظاہر کہ جو ماں باپ سے پیدا ہو وہ حادث ہو گا اور حادث خدا نہیں ہو سکتا، اس کا کوئی خالق ہو گا اور مخلوق خدا نہیں ہو سکتا، اب تو تم سمجھے کہ تم خدا کو بالفعل عیبی مانتے اور سرے سے اس کی الوہیت ہی باطل کر رہے ہو۔ہاں ایک صورت نکل سکتی ہے کہ بالفعل خدا کے ماں باپ نہ ہوں اور پھربھی اسے ان سعادتمندیوں پر قدرت ہو، کہو تو بتا دیں،وہ یہ کہ وہابیہ کا خدا کسی دن اپنے آپ کو موت دے اور آواگون کے ہاتھوں کسی پُر ش کے بھوگ سے کسی استری کے گربھ میں دوسراجنم لے اپنے ان آئندہ ماں باپوں کی غلامی کرے، مگر الوہیت تو یُوں بھی گئی کہ جو مر سکا وُہ خدا کہاں !

 

ثالثا : احمق بددین نے اگرچہ مسلمانوں کا دل رکھنے کو اپنے رسالہ یکروزی میں جہاں یہ ناپاک دلیل ذلیل لکھی ہے یہ اظہار کیا کہ خدا کا کذب ممکن بالذات ہونے پر بھی ممتنع بالغیر ضرور ہے مگر دلیل وہ پیش کی جس نے امتناع بالغیر کو بھی صارف اڑا دیا، ظاہر ہےکہ انسان کا کذب نہ ممتنع بالذات نہ ممتنع بالغیر، بلکہ ہر روز و سب ہزاروں بار واقع تو کذب پر ا س کی قدرت آزاد ہوئی جس پر کوئی روک نہیں اور برابرکام دے رہی ہے، مگر خدا کی قدرت بستہ و مسدود ہے کہ واقع کرنے کی مجال نہیں اور شک نہیں کہ آزاد قدرت مسدود قدرت پر صریح فوقیت رکھتی ہے تو یوں کیا انسانی قدرت اس کی قدرت سے فائق نہ رہی باعتبار مقدورات کمًّا نہ سہی تو با عتبار نفاذکیفا سہی، ناچار تمھیں ضرور ہے کہ امتناع بالغیر بھی نہ مانو کہ انسانی قدرت سے شرمانا تو نہ پڑے۔

 

رابعا : اس قول خبیث کی خباثتیں کہاں تک گنیں کہ وُہ تو بلا مبالغہ کروڑوں کفریات کا خمیرہ ہے ، ہاں وہ پوچ بے حقیقت گرہ کھو لیں جو اس نے اپنا جادو پھونک کر لگائی اورحماقت سے بہت کرّی گتھی جانی، یہ چار طور پر ہے بغضہا قریب من بعض:

 

اوّل: ساری بات یہ ہے کہ احمق نے افعال انسانی کو خدا کی قدرت سے علیحدہ سمجھا ہے کہ آدمی اپنے کام اپنی قدرت سے کرتا ہے یہ رافضیوں معترلیوں فلسفوں کا مذہب ہے، اہلسنت کے نزدیک انسانی حیوانی تمام جہان کے افعال اقوال اعمال احوال سب اللہ عزوجل ہی کی قدرت سے واقع ہوتے ہیں،اور وں کی قدرت ایک ظاہری قدرت ہے جسے تاثیر و ایجاد میں کچھ دخل نہیں تمام کائنات وممکنات پر قدرت موثرہ خاص اللہ عزو جل کے لئے ہے، تو کذب ہو یا صدق ، کفر ہو یا ایمان،حسن ہو یا قبح ، طاعت ہو یا عصیان ، انسان سے جو کچھ واقع ہو گا وہ اللہ ہی کا مقددر اللہ ہی کا مخلوق ہو گا، اسی کی قدرت اسی کی ایجاد سے پیدا ہو گا، پھر کیونکر ممکن کہ انسان کو فعل قدرتِ الٰہی سے جُدا کر سکے جس کے لئے وزن برابرکر نے کو خدا کو خوداپنے لئے بھی کر سکنا پڑے، اس ضلالت و بدینی کی کوئی حد ہے مقاصد میں ہے : فعل العبد واقع بقدرۃ اللہ تعالٰی انما اللعبد الکسب والمعتزلۃ بقدرۃ العبد صحۃ الحکماء ایجابا ۱؎۔ یعنی بندے کا ہر فعل اللہ تعالٰی ہی کی قدرت سے واقع ہوتا ہے بندہ کا فقط کسب ہے اور معتزلہ و فلاسفہ کہتے ہیں کہ بندے کا فعل خود بندے کی قدرت سے ہو تا ہے ، معتزلہ کے نزدیک امکانی طورپر کہ قدرت بندہ سے وقوعِ فعل ممکن ہے واجب نہیں اور فلاسفہ کے نزدیک وجوبی طور پر کہ تخلف ممکن نہیں۔

 

 (۱؎ المقاصدمع شرح المقاصد         الفصل الخامس     دارا المعارف النعمانیہ لاہور    ۲/ ۱۲۰)

 

دوم: اندھے سے پوچھو انسان کو کس کے کذب پر قدرت ہے، اپنے یا خدا کے ۔ ظاہر ہے کہ انسان قادر ہے تو صرف کذبِ انسانی پر نہ کہ معاذاللہ کذبِ رباّنی پر۔ اور شک نہیں کہ کذب انسانی ضرور قدرت ربانی میں ہے، پھر اگر کذ ب ربانی قدرت ربانی میں نہ ہُوا تو قدرت انسانی کیونکر بڑھ گئی، وہ کذب ربانی پر کب تھی اور جس پر تھی یعنی کذب انسانی، اسے ضرور قدرت ربانی محیط ہے، مگر خداجب دین لیتا ہے عقل پہلے چھین لیتا ہے ، دل کے اندھے نے یہ خیال کیا کہ انسان اپنے کذب پر قادر ہے، اور یہی لفظ بارگاہِ عزت میں بول کر دیکھا کہ اسے بھی اپنے کذب پر قدرت چاہئے اور نہ سوُجھا کہ وہاں اپنے سے انسان مراد تھا اور اب خدا مرا دہو گیا،اس کی نظیر یہی ہو سکتی ہے کہ اسی کی طرح کا کوئی کورباطن خیال کرے کہ انسان اپنے خدا کی تسبیح کر سکتا ہے تو چاہئے کہ خدا بھی اپنے خدا کی تسبیح کرسکے ورنہ قدرت انسانی بڑھ جائے گی، تو خدا کے لئے اور خدا درکار ہوا،

 

وھلم جرا الٰی غیر نھایۃ و غیر قرار ، کذٰ لک یطبع اللہ علٰی کل قلب متکبر جبار۔

 

اور کھینچتا چل مالا نہایۃ تک ، یونہی اللہ تعالٰی ہر متکبر سر کش کے دل پر مُہر لگا دیتا ہے (ت)

 

سوم : ہم پُوچھتے ہیں قدرتِ انسانی بڑھ جانےسے کیا مراد ہے ، آیا یہ کہ انسان کے مقدورات گنتی میں خدا کے مقدورات سے زائد ہو جائیں گے ، یہ تو بداہۃً استحالہ کذب کولازم نہیں کہ کذب و جملہ نقائص سرکا رعزت کے لئے سرکار عزت کی قدرت میں نہ ہو نے پر بھی اس کے مقدورات غیر متناہی ہیں اور انسان کتنی ہی ناپاکیوں پر قادر ہو آخر اس کے مقدورات محدود ہی رہیں گے اور متناہی کو نامتناہی سے کوئی نسبت نہیں ہو سکتی، ہاں یہ کہئے کہ ایک چیز بھی ایسی نکلنا جو انسان کے زیر قدرت ہو اور رحمٰن کے زیر قدرت نہ ہو محال ہے ( اور بیشک ایسا ہی ہے ) اسی کو زیادت قدرت سے تعبیر کیا ہے تو اب ہم دریافت کرتے ہیں یہ خاص کذب کہ انسان سے واقع ہوا قدرتِ خدا سے ہوا یا قدرتِ خدا سے جدا، بر تقدیر اول وہ کون سی چیز نکلی جو انسان کے زیر قدرت تھی اور رحمن کے زیر قدرت نہ تھی کہ یہ جو قدرت انسان سے ہوا خود مانتے ہو کہ قدرت رحمن سے ہوا پھرزیادت کہاں ، بر تقدیر دوم رحمن اگرچہ معاذاللہ اپنے کروڑکذبوں پر قادر ہو وہ کذب اس کذب کے عین نہ ہوں گے جو انسان سے واقع ہُوا بلکہ کذب ہونے میں اس کے مثل ہوں گے اور مثل پر قدرت شے پر قدرت نہیں ، وُہ خاص کذب انسانی جو قدرت انسانی سے واقع ہوا اسے صراحۃً قدرتِ خدا سے جدا کہہ رہے ہو تو خدا کا کذب ممکن بلکہ اب تازہ ایمان گنگوہی پر معاذاللہ واقع مان کر بھی وُہ کال تو نہ کٹا کہ ایک شیئ جو زیر قدرت انسانی تھی زیر قدرت رحمانی نہ ہوئی اس کی نوع مقدورخدا ہوئی نہ کہ خود وہ فرد، تو تونے خدا اور انسان کو دربارہ کذب برابر کے دو عاجز مانا کہ نوع کذب کے افراد سے جس فرد پر انسان قادر ہے  اور جس فرد پر خدا قادر ہے انسان قادر نہیں۔

 

دہلوی کے بندو! اسی پر اس مسئلہ میں ان اللہ علٰی کل شیئ قدیر ۱؎  (بیشک اللہ تعالٰی ہر شیئ پر قادر ہے۔ت) پڑھتے اور کذب الٰہی محال جاننے والے مسلمانوں پر عجز ماننے کی تہمت رکھتے ہو، حالانکہ تم خود ہی وُہ ہو کہ خدا کو افراد مقدورہ عبد پر قادر نہیں مانتے جب تو وزن برابر کرنے کوامثال مقدورات عبد خود اس کے نفس کریم میں گھڑنا چاہتے ہوقاتلکم اللہ(اللہ تعالٰی تمھیں ہلاک کرے ۔ت)کسی مذہب خبیث کی بھی تقلید چھوڑو گے یا سب میں سے ایک ایک حصّہ لو گے،یہ طوائف معتزلہ سے طائفہ جبائیہ کامذہب ہے کہ اللہ تعالٰی نفس مقدورات عبد پر قادر نہیں۔

 

 (۱؎ القران  الکریم   ۱۶ /۷۷)

 

مواقف میں ہے : الجبائیۃ قالوا لایقدر علی عین فعل العبد ۲؎ الخ۔ جبائیہ نے کہا کہ اللہ تعالٰی عین فعل عبد پر قدرت نہیں رکھتا الخ (ت)

 

 (۲؎ المواقف مع شرح المواقف المر صدالرابع فی الصفات الو جودیۃ منشورات الشریف الر ضی قم ایران ۸ /۶۴)

 

ہم اہلسنّت کے نزدیک اللہ تعالٰی عین مقدورات عبد پر بھی قادر ہے کہ وہ اسی کی قدرت کاملہ سے واقع ہوتے ہیں اور ان کے امثال پر بھی کہ امثال عبد سے امثال فعل صادر کر اسکتا ہے ، مگر ایسے امثا ل پر قدرت کہ خود اپنے نفس کریم سے ویسی ناپاکیاں صادر کر دکھائے اس سے وُہ پاک و متعالی ہے ، سبحٰن اللہ رب العر ش عما یصفون (پاکی ہے عرش کے رب کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں ۔ت )

 

اس کی مثال یُوں سمجھو کہ زید و عمر و دونوں اپنی اپنی زوجہ (عہ۱) کو طلاق(عہ۲) دینے پرقادر ہیں مگر ایک دوسرے کی زوجہ کو طلاق (عہ) نہیں دے سکتا تو ہر ایک دوسرے کے مقدور پر قادر نہیں بلکہ اس کی نظیر پر قادر ہے ، لیکن حق جل مجدہ دونوں پر قادر ہے کہ ان میں جواپنی زوجہ کو طلاق دے گا وُہ طلاق اللہ ہی کی قدرت سے واقع و موجود و مخلوق ہوگی تو اللہ تعالٰی زید و عمرو ہر ایک کے عین فعل پر بھی قادر ہے اور مثل فعل پر بھی کہ ایک کا فعل دوسرے کا مثل تھا،مگر امام الوہابیہ کی ضلالت نے اسے خدا کی قدرت نہ جانا بلکہ قدرت کے لئے یہ لازم سمجھا کہ جیسے وہ اپنی اپنی جورو کو طلاق دے سکتے ہیں خدا خود بھی اپنی جورو مقدسہ کو طلاق دے سکے، اس گدھے پن کی حد ہے ؟ اس بے ایمانی کا ٹھکانہ ہے ؟ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔

 

عہ۱: یہ فہم امام الوہابیہ کے قابل واضح تغایر لکھا ہے ورنہ مخلوق میں کسی فعل بعینہ پر دوسرے کو قدرت نہیں ہو سکتی کہ فعل فاعل سے تعین پاتا ہےتو وہ فعل مثلا روٹی کھانا، پانی پینا یا اٹھنا بیٹھنا وغیرہ وغیرہ جو زید سے صادر  ہوا عمرو سے صادر نہیں ہو سکتا اس کی نظیر اس سے صادر ہو گی ۱۲ منہ مد ظلہ

عہ۲:  یعنی ایسی طلاق جس میں اصیل خود مختارہو ۱۲ منہ

عہ: بمعنی مذکور ۱۲ منہ

 

چہارم: یہ قضیہ بیشک حق تھا کہ جس پر انسان قادر ہے اس سب اور اس کے علاوہ نامتناہی اشیاء پر مولٰی عزو جل قادر ہے وہ بقدرت ظاہر یہ عطائیہ اور حق بقدرت حقیقیہ ذاتیہ مگر اس حق کو یہ ناحق کوش کس طرح باطل محض کی طرف لے گیا انسان کا کسی فعل کوکرنا کسب کہلاتاہے انسان کی قدرت ظاہر یہ صرف اس قدرہے ،قدرت حقیقیہ خلق و ایجاد میں اس کا حصہ نہیں وہ خاص مولٰی عزوجل کی قدرت ہے تو اس کلمہ حق کا حاصل یہ تھا کہ انسان جس چیز کے کسب پر قادر ہے اللہ عزوجل اسکے خلق اور پیدا کرنے پر قادر ہے کہ وہ کسب نہ ہو گا مگر بقدرت خدا اس دل کے اندھے نے یہ بنا لیا کہ انسان جس چیز کے کسب پر قادر ہے ، رحمن بھی خود اپنے لئے اس کے کسب پر قادر ہے سبحٰن اللہ رب العرش عما یصفون (پاکی ہے عرش کے رب کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں۔ت) اندھے نے نہ جانا کہ کسی کا کسی شے پر قادر ہونا '' صحۃ الشیئ منہ'' ہے نہ کہ '' صحۃ الشیئ علیہ ''، اور صاف گھڑلیا کہ '' ما یصح علی العبد یصح علی اللہ ''جو بندے پر جاری ہو سکے خدا پر بھی جاری ہو سکتا ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا ضلالت و شیطنت بے انتہا ہے،

 

وسیعلم الذین ظلمواای منقلب ینقلبون ۔ ۱؎

 

اور عنقریب ظالم جان لیں گے کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے (ت)

 

 (۱؎ القرآن الکریم ۲۶ /۲۲۷)

 

دیوبندی اسے قطعی دلیل کہتا ہے ، ہم ایک فائدہ عجیبہ بتائیں، میں کہتا ہوں ہاں وہ ضرور قطعی دلیل ہے مگر کاہے پر ،وہابیہ امام الوہابیہ کے ایک ایک قول ایک ایک فقرے ایک ایک حرف وہابیت کے ابطالِ صریح پر ، اس حجت عامۃ الظہور لامعۃ النور کی تقریر ایک مقدمہ واضحہ کے بیان سے روشن و منیر، وُہ مقدمہ یہ کہ جس بات کا حق جاننا خدا پر جائز و رو اہے وُہ ضرور فی الواقع حق و بجا ہے ورنہ خدا پر جہل مرکب جائز ہو کہ اپنی غلط فہمی سے ناحق کو حق جان لے باطل کو صحیح مان لے ، امام الوہابیہ نے اگر چہ اس کا کذب ممکن کہا مگر وُہ یُوں تھاکہ اس کے علم میں ٹھیک بات ہے اور دوسروں سے اس کے خلاف کہے نہ یہ کہ خود اس کا علم ہی باطل و خلافِ حق ہو اس کے امکان کی اس نے تصریح نہ کی، دیوبندیوں نے اگرچہ امکان جہل(عہ) صراحۃً اوڑھ لیا مگر وہ جہل بسیط تھا کہ ایک بات معلوم نہ ہونا، نہ کہ جہل مرکب کہ باطل کو حق اعتقاد کرنا، اس کا امکان ان سے بھی مسموع نہیں ،

 

عہ:  مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری مرحوم مصنف تقدیس الوکیل عن توہین الرشید و الخلیل وغیرہ نے جو اس ہذیان امام الوہابیہ پر لزوم امکان جہل وغیرہ شناعات سے نقص کیا تھا ، مولوی محمود حسن دیو بندی وغیرہ پارٹی دیوبند نے عقائد گنگوہی کے بیان و حمایت میں اس کا جواب اخبار نظام الملک پرچہ ۲۵ / اگست ۱۸۸۹ء میں یہ چھاپا '' چوری شراب خوری ، جہل ، ظلم سے معارضہ کم فہمی معلوم ہوتا ہے ، غلام دستگیر کے نزدیک خداکی قدرت بندہ سے زائد ہونا ضروری نہیں حالانکہ یہ کلیہ ہے جو مقدورالعبد ہے مقدور اللہ ہے ۔'' دیکھو کیسا صاف اقرار ہے کہ وہابیہ کا معبود چوریاں کرئے شرابیں پئے ، جاہل بنے ، ظلم میں سے سب کچھ روا ہے، اعوذباللہ من الخذلان اس پرچہ کی خرافات ملعونہ کا ردآخر کتاب مستطاب سبحٰن السبوح میں چھپا ہے وہاں ملا حظہ ہو ۱۲ منہ۔

 

رہے ہم اہل اسلام ، ہمارے نزدیک تو بحمداللہ تعالٰی یہ مقدمہ اجلی بد یہیات و اعلٰی ضروریات دین سے ہے، اگر خدا کا علم جائز الخطا ہو تو قیامت و حشرو نشر و جنت و نار وغیر ہا جملہ سمعیات باطل محض ہو جائیں کہ ان کی طرف عقل کو آپ تو راہ ہی نہیں کہ کسی دلیل کسی تعلیل ، کسی استقراء، کسی تمثیل سے ان پر اعتقاد کر سکے ان کا اعتقاد محض بربنائے کلام الٰہی تھا اب اس کی جانچ واجب ٹھہری کہ ایک جائز الخطاء کی بات ہے، جانچ کا ہے سے ہوگی عقل سے، عقل وہاں چل سکتی  ہی نہیں تو محض مہمل و بے ثبوت جاننا اور ان سب کا چھوڑ دینا لازم ہُوا کذب نے تو بات ہی میں شبہ ڈالا تھا جہل مرکب نے جڑ سے لگی نہ رکھی بلکہ نظر بمذہب وہابیہ اس تقدیر پر نہ صرف ایمانیات معاد بلکہ خود اصل ایمان اعنی تو حید الٰہی پر بھی ایمان ہاتھ سے جائے گا، وجہ سُنئے وہابیہ کے طور پر خدا کےلئے بیٹا ہونا عقلاًمحال نہیں ان کا امام صاف مان رہا ہے کہ جو کچھ انسان کر سکتا ہے خدا بھی اپنے لئے کر سکتاہے تو واجب ہُوا کہ خدا عورت سے نکاح بعدہ جماع بعدہ اس کے رحم میں اپنے نطفے کا ایقاع کر سکے ورنہ قدرت میں انسان سے گھٹ جو رہے گا، اور جب یہا ں تک ہو لیا تو اب نطفہ ٹھہرانے اور بچہّ بنانے اور پیدا کرلانے میں کیا زہر گھُل گیا کہ ان سے عاجز رہے گا دنیا بھر کی ماؤں کے ساتھ یہ افعال کر رہا ہے، اپنی زوجہ کے بارے میں کیوں تھک رہے گا، آخر وہا بیہ کا ایک پُرانا امام ابن حزم غیر مقلّد ظاہری المذہب مدعی عمل بالحدیث منہ بھرکربک گیا کہ خدا کے بیٹا ہو سکتاہے،

 

ملل ونحل میں کہتا ہے: انہ تعالٰی قادر ان یتخذ ولد ااذلو لم یقدر لکان عاجزا ۱؎ بیشک اللہ تعالٰی اس بات پر قادر ہے کہ اولاد رکھے کیونکہ اگر اس پر قادر نہ ہوا تو عاجز ہو گا (ت)

 

 (۱؎ الملل والنحل لابن حزم)

 

اس کا رد سبحٰن السبوح صفحہ ۳۴ و ۳۵ میں ملا حظہ ہو، اور شک نہیں کہ خدا کا بیٹا ہو گا تو ضرور وہ بھی مستحقِ عبادت ہو گا، قال اللہ تعالٰی : قل ان کان للرحمٰن ولد فانا اول العابدین ۔۲؎ تم فرمادو کہ  رحمن کے کوئی بچہ ہے تو سب سے پہلے اس کا پُوجنے والا میں ہوں۔

 

 (۲؎ القرآن الکریم ۴۳ / ۸۱)

 

تو ثابت ہُوا کہ وہابیہ کے نزدیک ہزاروں خدا مستحقِ عبادت ممکن ہیں، عقلی استحالہ تو یُوں یا ، رہا شرعی اس کے کھونے کو امکان کذب کیا تھوڑا تھا کہ اب خدا کی بات سچّی ہونی ضرور نہیں ، جہل مرکب ممکن مانا گیا، تو پوری رجسٹری ہو جائے گی کہ ممکن کہ ادعائے توحید و مذمت شرک سے جو تمام قرآن گونج رہا ہے سب بر بنائے جہل مرکب و غلط فہمی ہو ، اب لا الٰہ الّااللہ بھی ہاتھ سے گیا والعیاذ باللہ سبحٰنہ وتعالٰی ، بالجمہ اللہ عزوجل پر جہل مرکب محال بالذات ہونے میں وہابیہ کو بھی اہل اسلام کا ساتھ دینے سے چارہ نہیں تو یہ مقدمہ کہ '' جس بات کا حق جاننا خدا پر روا ہے وُہ ضرور حق و بجا ہے ۔''بر ہانی ایقانی بھی ہے اور مخالف کا تسلیمی اذعانی بھی، اس کا نام مقدمہ ایمانیہ رکھئے۔

 

اب خلاف وہابیہ و وہابیت جو بات چاہئے فرض کر لیجئے خواہ وہ ہمارے موافق ہو یا ہمارے احکام سے بھی زائد مثلا:

(۱) اسمٰعیل دہلوی نراکافر تھا۔

(۲)گنگوہی ، دیوبندی ، نانوتوی ، انبٹھی، تھانوی وغیر ہم وہابی سب کھلے مرتد ہیں۔

(۳) جو کذبِ الٰہی ممکن کہے ملحد ہے۔

 

 (۴) تقویۃ الایمان، تنویر العینین، ایضاح الحق، صراطِ مستقیم تصانیف اسمعیل دہلوی، معیار الحق تصنیف نذیر حسین دہلوی، تحذیر الناس تصنیف نانوتوی، براہین قاطعہ تصنیف گنگوہی وغیرہا جملہ نباحات انبوہی سب کفری بول نجس تر ازبول ہیں،جو ایسا نہ جانے زند یق ہے۔

(۵) جو باوصف اطلاع اقوال ان میں سے کسی کا معتقد ہو ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے۔

(۶) ان سفہا اور اُن کے نُظرا تمام خبثا جنھوں نے شانِ  اقدس وار فع رب العالمین و حضور پُر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تنقیص کی ،جو شخص رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ورب العزت جل جلالہ کے مقابل ان ملحدوں کی حمایت مروت رعایت کرے ان کی باتوں کی تحسین ، توجیہ تاویل کرے وہ عدوِ خدا دشمنِ مصطفٰی ہے جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

(۷) غیر مقلدین سب بے دین پکّے شیا طین پورے ملاعین ہیں۔

سات یہ اور سات ہزار اور  ،جوبات لو کیا انسان اس کا اعتقاد نہیں کر سکتا ہر شخص بدا ہۃً جانتا ہے کہ آدمی ضرور ان میں سے ہر بات کے اعتقاد(عہ) پر قادر ہے ، یہ مقدمہ بدہییہ عامۃ الورود محفوظ رکھئے کہ '' اس امر کا اعتقاد انسان کر سکتا ہے ''۔

 

عہ:  ظاہر ہے کہ کوئی خبر بھی ہو حق ہو گی یا باطل، اور سب جانتے کہتے مانتے ہیں کہ حق کا اعتقاد فرض یا کم از کم جائز اور باطل کا اعتقاد حرام و ممنوع ، اور فرض وحرام و ممنوع وہی شے ہو گی جس پر انسان کو قدرت ہو ، یہی یہاں ملحوظ ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ

 

مسلمانو ! (اس ) میں آپ کو اختیار رہا ، ردّ وہابیہ کی جس بات کو چاہئے اس کا مشارالیہ بنائیے ،اب اس مقدمہ بدیہیہ کو صغری کیجیے اور مقدمہ وہابیہ یعنی دہلوی ضلیل کا وہ دعوی ذلیل کہ '' جو کچھ انسان کر سکتا ہے خدا کر سکتا ہے '' اسے کبرٰی بنائیے، شکل اوّل بد یہی الا نتاج سے نتیجہ نکلا کہ '' اس امر کا اعتقاد خدا کر سکتاہے'' اب اس نتیجہ صغری کیجیے اور مقدمہ ایمانیہ کو کبری کہ "ہر وہ امرجس کا اعتقاد خدا کر سکتا ہے قطعا یقینا حق ہے ، شکل اول کا نتیجہ بد یہیہ ہو گا کہ یہ امر قطعا یقینا حق ہے ، وہابیہ کو یہاں معارضہ بالقلب کی گنجائش نہیں کہ اپنے عقاید باطلہ کو کہیں انسان ان کا بھی اعتقاد کر سکتا ہے تو خدا بھی کر سکتا ہے تو یہ بھی حق ہیں  کہ مبنائے دلیل مقدمہ وہابیہ ہے اور وہ ان پر حجت کہ ان کا اور ان کے امام کا ایمان ہے، ہمارے نزدیک وُہ باطل محض ہے تو کبرٰی قیاس  اول مردود ہو کر پہلا ہی نتیجہ باطل ہو گا، اب کہئے مفر کدھر، تین ہی احتمال ہیں:

اول : مقدمہ ایمانیہ کا انکار کرو اور اپنے خدا کا جہل مرکب میں گرفتار ہونابھی جائز جانو، جب تو قیامت و حشر و نشر و جنت و نارجملہ سمعیات اور خود اصل اصول دین لا الٰہ الا اللّہ (پر ایمان کواستعفاء دواور کھلے کافر بنو۔

 

دوم : اقرارکرو کہ مقدمہ وہابیہ یعنی دہلوی ضلیل کی دلیل ذلیل کا وہ شیطانی کلیہ مردود و ملعون و مطرو دتھاہیہات اول تو اسے تمھارا دل کب گوارا کرے ؎

 

انی لکم الی الھدی تھویل     قد اشرب فی القلوب اسمٰعیل

 

 (تمھیں ہدایت کی طرف پلٹناکہاں نصیب ہو گا، تحقیق تمھارے دلوں میں اسمٰعیل ( کی محبت) رچ گئی ہے ۔ ت) اور خدا کا دھرا سر پر، براہ ناچاری اس کے انکار پر آؤ بھی تو تمھارا خصم کب مانے وہ کہے گا میرا استدلال اسی مقدمہ کی بنا پر الزامی تھا، اور خصم جب دلیل الزامی قائم کرے تو فریق کو اپنے مقدمہ مسلمہ سے پلٹ جانے کی گنجائش نہیں، کما  صرح (عہ)بہ العلما ء الکرام(جیسا کہ علماءِ کرام نے اس کی تصریح فرمائی ہے ۔ت)ورنہ کوئی دلیل الزامی قائم ہی نہ ہوسکے، ہمیشہ مغلوب کے لئے یہ بھاگنے کا رستہ کُھلا رہے کہ دلیل جس مقدمہ مسلمہ پر مبنی ہو اس سے انحراف کر جائے اور بالفرض وُہ بھی درگزر کر ے تو کیا یہ اقرار نرے قول کی ضلالت پر اقتضاء ہو گا، نہیں نہیں صاف صاف کہنا پڑے گا کہ امام الوہابیہ باری سبوح قدوس عزوجل کو ایسی شنیع ناپاک گالی کہ کروڑوں گالیوں پر مشتمل ہے دے کر صریح ضال مضل بے دین ہوا اور تم اور فلاں و فلانی اس کے سارے معتقدین بھی اس کی طرح گمراہ بددین ہوں۔

 

عہ:  فی مسلم الثبوت و شر حہ فواتح الرحموت للمولی بحر العلوم لو تم ھذالم یکن الدلیل الجدلی مفیدا للالز ام اصلا، اذ یمکن اعتراضہ بالخطاء فی تسلیم احدی المسلمات و لم تکن القضایا المسلمۃ من مقا طع البحث والکل با طل علی ما تقرر فی محلہ والحق ان المسلّمہ کالمفروض فی حکم الضروری لا یصح انکارہ فانکارہ اشد من الا لزام ۱؎ اھ باختصار ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

 

مسلم الثبوت اور اس کی شرح فواتح الرحموت تصنیف مولانا بحرالعلوم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں ہے کہ اگر یہ تام ہو جائے تو پھر دلیل جدلی بالکل مفید الزام نہ رہے گی کیونکہ ممکن ہوگا کہ خصم قضائے مسلمہ میں سے کسی کو خطا مان لے اور مسلمات بحث کے خاتمہ کا ذریعہ نہ رہینگے اور یہ سب باطل ہے جیسا کہ ہم اس کو اپنے محل میں ثابت کر چکے ہیں، اور حق یہ ہے کہ مسلّم، حکم ضرورۃ و بداہۃ میں مفروض سمجھا جاتا ہے جس کا انکار صحیح نہیں، پس اس کا انکار الزام سے شدید تر ہے ۱ ھ باختصار رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۱؂فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت مع بذیل المستصفٰی)

 

سوم : اگر ان دونوں سے فرار کرو تو اب نہ رہا مگر یہ تیسرا کہ ان سب نتائج کو جو تمھارے امام ہی کے گھر سے پیدا ہوئے حق جانو اور دہلوی(عہ۱) اول و دہلوی(عہ۲) آخروگنگوہی و نانوی و انبیٹھی و تھانوی و دیوبندی اور خود اپنے آپ اور جملہ وہابیہ اور سارے غیر مقلدین سب کو کافر مرتداور تقویۃ الایمان و براہین قاطعہ و تحذیر الناس و معیارالحق وغیر تمام تصانیف وہابیہ کوکفری قول اور پیشاب سے زیادہ نجس و بد مانو،

عہ۱ : اسمٰعیل ۱۲               عہ۲ :نذیر حسین ۱۲

فرمائیے ان میں کون سا آپ کو پسند ہے جسے اختیار کیجئے اپنے اور اپنے امام سب کے کفرو نی یا کم از کم گمراہی و بددینی کا اقرار کیجئے،کہو کچھ جواب فرماؤ گے یا آج ہی سے مالکم لا تنا صرون oبل ھم الیوم مستسلمون ۱؎  (تمھیں کیا ہو ا آپس میں ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے بلکہ وہ آج گردن ڈالے ہیں۔ت)کارنگ دکھاؤ گےکیوں،

 

 (۱؎ القرآن الکریم      ۳۷/ ۲۵ و ۶ ۲ )

 

ھل ثوب الفجار ماکانو ایا فکون والحمد للّہ رب العٰلمین وصلی اللّہ تعالٰی علٰی سیدنا و مولانا محمد و اٰ لہ وصحبہ اجمعین واللّہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔

 

کیا کچھ بدلہ فاجروں کو اس کا ملا جو وہ جھوٹ بولے تھے، اور تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کےلئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے اور اللہ تعالٰی ہمارے آقا و مولٰی محمد مصطفٰی اور ان کے تمام آل و اصحاب پر درود نازل فرمائے، اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے اور اس کا علم اتم واحکم ہے (ت)

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post