Imkane Kizb ka Jawab | ALLAH jhut se pak hai | Subhanas Subooh Urdu Risala by AalaHazrat

رسالہ

سُبحٰن السبوح عن کذب عیب مقبوح (۱۳۰۷ھ)

(کذب جیسے بدترین عیب سے اللہ تعالٰی کی ذات پاک ومنزہ ہے)

 

مسئلہ ۷۲: از ابومحمد صادق علی مداح عفی عنہ گڑھ مکٹیسری از میرٹھ بالائے کوٹ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین دربارہ مسئلہ امکان کذب باری تعالٰی جس کا اعلان تحریری وتقریری علمائے گنگوہ ودیوبند اور ان کے اتباع آج کل بڑے زور وشور سے کررہے ہیں، تحریراً کتاب ''براہین قاطعہ'' میں کہ مولوی خلیل انبیٹھی کے نام سے شائع کی گئی، جس کی لوح پر لکھا ہے: ''بامر حضرت چنین وچنان مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی'' اور خاتمہ پر ان کی تقریظ بایں الفاظ ہے: ''احقر الناس رشید احمد گنگوہی نے اس کتاب براہین قاطعہ کو اول سے آخر تک بغور دیکھا، الحق کہ  یہ جواب کافی اور حجت وافی ہے اور مصنف کی وسعت نور علم اور فسحت ذکاء وفہم پر دلیل واضح۔ حق تعالٰی اس تالیف نفیس میں کرامت قبولیت عطافرمائے اور مقبول مقبولین ومعمول عاملین فرمائے ۱؎'' (ملخصاً) جس سے ثابت کہ گویا کتاب ہی تالیف ان کی ہے،

 

 (۱؎ براہین قاطعہ  خاتمہ کتب  مطبع لے بلا ساواقع ڈھور    ص۲۷۰)

 

صفحہ ۳ پر یوں مکتوب ہے: ''امکان کذب کا مسئلہ اب جدید کسی نے نہیں نکالا بلکہ قدماء میں اختلاف ہوا ہے کہ خلف وعید آیا جائز ہے۔ ردالمحتار میں ہے: ھل یجوز الخلف فی الوعید فظاہرمافی المواقف والمقاصد ان الاشاعرۃ قائلون بجوازہ  (کیا خلف وعید جائز ہے، مواقف اور مقاصد سے یہی واضح ہوتاہے کہ اشاعرہ اس کے جواز کے قائل ہیں ۔ ت) پس اس پر طعن کرنا پہلے مشائخ پر طعن کرنا ہے اور اس پر تعجب کرنا محض لاعلمی اور امکان کذب خلف وعید کی فرع ہے ۱؎۔'' انتہی ملخصا۔

 

 (۱؎ براہین قاطعہ    مسئلہ خلف وعید قدماء میں مختلف فیہ ہے    مطبع لے بلاساواقع ڈھور     ص۳۵۲)

 

تقریرا مولوی ناظر حسین دیوبندی مدرس اول مدرسہ عربی میرٹھ نے مسجد کوٹ پر بلند آواز سے چند مسلمان میں کہا کہ ہمارا تو اعتقاد یہ ہے کہ خدا نے کبھی جھوٹ بولا نہ بولے مگر بول سکتاہے، بہشتیوں کو دوزخ اور دوزخیوں کو بہشت میں بھیج دے تو کسی کا اجارہ نہیں، اوریہی امکان کذب ہے، انتہی۔

پس ایسا اعتقاد کیسا ہے اوراس کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں  جس کا عقیدہ ایسا ہے سچی بات بتاؤ اچھا اجر پاؤ۔

 

الجواب

سبحٰن ربک رب العزۃ عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمد اﷲ رب العالمین، والحمد ﷲ المتعال شانہ عن الکذب والجھل والسفہ والھزل والعجز والبخل، وکل مالیس من صفات الکمال المنزہ عظیم قدرتہ بکمال قدوسیتہ وجمال سبوحیتہ عن وصمہ خروج ممکن او ولوج محال، قولہ الحق ووعدہ الصدق، ومن اصدق من اﷲ قیلا، وکلامہ الفصل وماھو بالھزل فسبحن اﷲ بکرۃ واصیلا، لذاتہ القدم ولنعتہ القدم، فلاحادث یقوم ولاقائم یحول، وکلامہ ازلی وصدقہ ازلی، فلا الکذب یحدث ولاالصدق یزول، والصلاۃ والسلام علی الصادق المصدوق سید المخلوق النبی الرسول الاٰتی بالحق من عند الحق لدین الحق علی وجہ الحق والحق یقول فھو الحق وکتابہ الحق بالحق انزل وبالحق نزل وعلی الحق النزول، واشھد ان لا الہ الا اﷲ وحدہ لاشریک لہ حقا حقا، واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ بالحق ارسلہ صدقاً صدقاً، صلوات اﷲ وسلامہ علیہ وعلی الہ وصحبہ وکل من ینتمی الیہ، وعلینا معھم وبھم ولھم یاارحم الراحمین، اٰمین اٰمین، الہ الحق اٰمین، قال المصدق لربہ بتوفیقہ العظیم المسبح لمولاہ عن کل وصف ذمیم، عبدالمصطفی احمد رضا المحمدی السنی الحنفی القادری البرکاتی البریلوی، صدق اﷲ تعالٰی قولہ فی الدنیا والاخرۃ ومصدق فیہ ظنہ بالعفو والمغفرۃ، اٰمین، اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

 

آپ کار ب رب العزت ہر اس عیب سے پاک ہے جو یہ مخالفین بیان کرتے ہیں ،تمام رسولوں پر سلام ہو، تمام حمد اللہ کے لئے جو تما م جہانوں کا پالنے والا ہے، تمام حمد اللہ کےلئے جس کی شان اقدس ہرقسم کے کذب،جہل، بے عقلی، غیر سنجیدگی، بخل اور ہراس وصف سے پاک ہے جو اس کے کمال منزہ کے خلاف ہے کمال قدوسیت اور جمال سبوحیت کی وجہ سے اس کی قدرت خروج ممکن اور دخول محال کے عیب سے پاک ومبرا ہے، ا س کا فرمان حق اور اس کا وعدہ سچا اور قول کے اعتبار سے اس سے بڑھ کر کون سچاہوسکتا ہے اس کا مقدس کلام حق و باطل میں فیصلہ کن ہے اور وہ ومذاق، ٹھٹھا نہیں ہے پس اللہ تعالٰی کی تسبیح ہے صبح وشام، اس کی ذات بھی قدیم اور صفات بھی قدیم تو حادث قائم نہیں رہتا اور قائم متغیر نہیں ہوتا اور اس کا کلام ازلی ہے اور اس کاصدق ازلی ہے تو اسکے کلام میں کذب کا حدوث نہیں اور اس کے صدق کو زوال نہیں۔ صلٰوۃ وسلام ہو اس ذات اقدس پر جو صادق ومصدوق، تمام مخلوق کے سردار نبی رسول ، حق کی طرف بلانیوالے، بطریق حق، دین حق کے لئے حق لانے والے، حق کا فرمان ہے کہ وہ حق ہیں۔ ان کی کتاب حق جو حق کے ساتھ نازل کیا اور نازل ہوئی اورا س کا نزول حق پر ہوا، میں شہادت دیتاہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ سراپا حق ہے، میں شہادت دیتاہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کے خاص بندے اور رسول ہیں اور ان کو حق وصدق دے کر بھیجا، ان پر اللہ تعالٰی کی طرف سے صلوٰۃ وسلام ہوا ور ان کی آل واصحاب اور ان کی طرف ہر منسوب پر، ساتھ ہم پر بھی ان کی وجہ سے ان کی خاطرہو یا ارحم الرحمین آمین آمین الہ الحق آمین، اپنے رب کی تصدیق کرنے والے ا س کی عظیم توفیق سے، ہر برے وصف سے اپنے رب کی پاکیزگی بیان کرنے والا غلام مصطفی احمد رضا محمدی سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی کہتاہے اللہ تعالٰی اس کے قول کو دنیاوآخرت میں سچا فرمائے اور اس کا اپنے بارے میں اللہ تعالٰی سے عفو ومغفرت کے حسن ظن کو سچا فرمائے آمین، اے اللہ! تو ہی حق وصواب کی رہنمائی فرمانے والا ہے۔ (ت)

فقیر غفرلہ اللہ تعالٰی لہ بحول وقوقت رب الارباب، اس مختصر جواب موضح صواب ومزیح ارتیاب میں اپنے مولٰی جل وعلا کی تسبیح وتقدیس اور اس جناب رفیع وجلال منیع پر جرأت وجسارت والوں کی تقبیح و تفلیس کے لئے کلام کو چار تنزیہوں پر منقسم اور ایک خاتمہ پر مختم اور بنظر ہدایت عوام و ازاحت اوہام ایک ضروری مقدمہ ان پر مقدم کرتا ہے۔

تنزیہ اول میں ائمہ دین وعلمائے معتمدین کے ارشادات متین جن سے بحمداللہ شمس وامس کی طرح روشن ومبین کہ کذا لٰہی بالاجماع محال اور اسے قدیم سے ائمہ سنت میں مختلف فیہ ماننا عناوہ مکابرہ یاجاہلانہ خیال۔

تنزیہ دوم میں بفضل ربانی دعوٰی اہل حق پر دلائل نورانی جن سے واضح ہو کر کذب الٰہی قطعا مستحیل اور ادعائے امکان باطل وبے دلیل۔

تنزیہ سوم میں امام وہابیہ ومعلم ثانی طفائفہ نجدیہ مصنف رسالہ یکروزی کی خدمت گزاری اور ان حضرات کے اوہام باطلہ وہذیانات عاطلہ کی ناز برداری کہ یہی صاحب ان حضرات نو کے امام کہن اور ان کے مرجع وملجاوماخذ ومنتہی، انھیں کے سخن۔

تنزیہ چہارم میں جہالات جدیدہ کا علاج کافی اور اس امر حق کا ثبوت وافی کہ مسئلہ قدیمہ خلف وعید، اس مزلہً حادثہ سے منزلوں بعید۔

خاتمہ میں جواب مسائل وحکم قائل، والحمد اللہ مجیب السائل۔

 

مقدمہ، اقول وباللہ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق، مسلمان کاایمان ہے کہ مولٰی سبحانہ وتعالٰی کے سب صفات ،صفات کمال وبروجہ کمال ہیں، جس طرح کسی صفتِ کمال کا سلب اس سے ممکن نہیں یوہیں معاذاللہ کسی صفت نقص کا ثبوت بھی امکان نہیں رکھتا اور صفت کا بروجہ کمال ہونا یہ معنی کہ جس قدرچیزیں اس کے تعلق کی قابلیت رکھتی ہیں ان کا کوئی ذرہ اس کے احاطہ دائرہ سے خارج نہ ہو نہ یہ کہ موجود ومعدوم وباطل وموہوم میں کوئی شیئ ومفہوم بے اس کے تعلق کے نہ رہے اگرچہ وہ اصلا صلاحیت تعلق نہ رکھتی ہو اور اس صفت کے دائرہ سے محض اجنبی ہو۔

اب احاطہ دوائر کا تفرقہ دیکھئے:

 

 (۱) خلاق کبیر جل وعلا فرماتاہے: خالق کل شیئ فاعبدوہ ۱؎ وہ ہر چیز کا بنانے والا ہے تو اسے پوجو۔ یہاں صرف حودث مراد ہیں کہ قدیم یعنی ذات وصفات باری تعالٰی عز مجدہ مخلوقیت سے پاک،

 

 (۱؎ القرآن الکریم        ۶/ ۱۰۲)

 

 (۲) سمیع وبصیر جل مجدہ فرماتاہے: انہ بکل شیئ بصیر ۲؎ وہ ہر چیز کودیکھتا ہے،

 

(۲؎القرآن الکریم      ۶۷/ ۱۹)

 

یہ تمام موجودات(عہ) قدیمہ وحادث سب کو شامل مگر معدومات خارج یعنی مطلقاً یا جس چیز نے ازل سے ابد تک کسوت وجود نہ پہنی نہ ابد تک  پہنےکہ ابصار کی صلاحیت موجودہی میں ہے جو اصلا ہے ہی نہیں، وہ نظر کیا آئے گا تو نقصان جانب قابل ہے نہ کہ جانب فاعل،

 

عہ: فائدہ: اعلم انہ ربما یلمح کلام القاری فی منح الروض الی تخصیص بصارہ تعالٰی بالاشکال والالوان وسمعہ بالاصوات والکلام، وقد صرح العلامۃ اللاقانی فی شرح جوھرۃ التوحید بعمومھما کل موجود، وتبعہ سیدی عبدالغنی فی الحدیقۃ و ھذا کلام اللاقانی قال لیس سمعہ تعالٰی خاصاً بالاصوات بل یعم سائرا لموجودات ذوات کانت اوصفات فسیمع ذاتہ العلیۃ وجمیع صفاتہ الازلیۃ کما یسمع ذواتنا وما قام بنامن صفاتنا کعلومنا و الواننا وھکذا بصرہ سبحانہ و تعالٰی لا یختص بالالوان ولابالاشکال والاکوان فحکمہ حکم السمع سواء بسواء فمتعلقھما واحد ۱؎ انتہی۔ اما ماقال اللاقانی قبل ذٰلک حیث عرف السمع بانہ صفۃ ازلیہ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالمسموعات اوبالموجودات۲؎ الخ والبصر بانہ صفتۃ ازلیہ تتعلق بالمبصرات اوبالموجودات ۱؎ الخ

 

فائدہ: واضح ہوکہ ''منح الروض'' میں ملا علی قاری کے کلام سے اللہ تعالٰی کی بصارت کا اشکال والوان اور اس کی سمع کا اصوات وکلام کے ساتھ اختصاص کا اشارۃ معلوم ہوتاہے حالانکہ علامہ علامہ لاقانی نے ''جوہرۃ التوحید'' کی شرح میں اللہ تعالٰی کی مذکورہ دونوں صفات کو تمام موجودات میں عام ہونے کی تصریح کی ہے اور علامہ عبدالغنی نابلسی نے حدیقہ میں ان کی اتباع کی ہے۔ اور علامہ لاقانی کا کلام یہ ہے، انھوں نے فرمایا اللہ تعالٰی کی سمع صرف اصوات کے ساتھ مختص نہیں کی بلکہ تمام موجودات کو عام ہے خواہ ذوات ہوں یا صفات، تو باری تعالٰی کواپنی ذات وصفات کا سامع ہے جس طرح وہ ہماری ذوات اور ہماری صفات مثلا ہمارے علوم اور الوان کا سامع ہے یونہی سبحانہ وتعالٰی کی بصر کا معاملہ ہے کہ وہ بھی اکوان و الوان و اشکال کے ساتھ مختص نہیں اس کا معاملہ بھی سمع جیسا ہے اور دونوں صفات برابرہیں تو دونوں کے متصلقات بھی ایک جیسے ہیں انتہی، (اور اس پر علامہ نابلسی کا کلام یہ ہے) لیکن علامہ لاقانی نے جو اس سے قبل فرمایا جہاں سمع کی تعریف یوں کی ہے کہ اللہ تعالٰی کی ازل صفت ہے جو اس کی ذات سے قائم ہے اور تمام مسموعات یا موجودات سے متعلق ہے الخ، اور اللہ تعالٰی کی بصر کی تعریف یوں کی ہے کہ وہ اس کی ازل صفت ہے جو تمام مبصرات یا موجودات سے متعلق ہے الخ،

 

 (۲؎الحدیقۃ الندیہ    بحوالہ اللاقانی    ھی ای الصفات یعنی صفات المعانی الحیاۃ نوریہ رضویہ فیصل آباد  ۱/ ۲۵۵)

(۱؎ الحدیقۃ الندیہ بحوالہ اللاقانی ھی ای الصفات یعنی صفات المعانی الحیاۃ  مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد  ۱/ ۲۵۵)

 

فاقول لایجب ان یکون اشارۃ الی الخلاف بل اتی اولا بالمبصرات معتمداعلی بداھۃ تصورہ ثم اردت بالموجودات فرارا عن صورۃ الدور، ولیس فی التعبیرین تناف اصلا، فان المبصر مایتعلق بہ الابصار ولیس فیہ دلالۃ علی خصوصیۃ شیئ دون  شیئ فاذاکان الابصار یتعلق بکل شیئ کان المبصر والموجود متسادیین، نعم لما کان ابصار نا الدینوی العادی مختصا باللون ونحوہ ربما یسبق الذھن الٰی ھذا لخصوص فازال الوھم بقولہ اوبالموجودات آتیا بکلمۃ اولتخییرفی التعبیر۔  وھذہ نکتۃ اخری للارداف وانما لم یکتف بہ لان ذکر المبصرات ادخل فی التمیز۔

 

اقول اس سے متعلق میں کہتا ہوں" او" یعنی یا، سے تعبیر میں ضروری نہیں کہ یہ اختلاف کا اشارہ ہو بلکہ مبصرات کو پہلے ذکر کرکے اس کے تصور کی بداہت کو ظاہر کیا پھر موجوادت کو ساتھ ذکر کیا تاکہ دور لازم نہ آئے جبکہ مبصرات  وموجودات دونوں تعبیر ات میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ مبصر وہ چیز ہے جس سے ابصار کا تعلق ہوسکے جبکہ کسی شیئ سے خصوصیت پر کوئی دلالت نہیں ہے، تو جب ابصار کا تعلق ہر چیز سے ہے تو مبصرا اور موجود دونوں مساوی ہوئے، ہاں ہماری دنیاوی عادی بصار چونکہ الوان وغیرہ سے مختص ہیں اس لئے ہوسکتا ہے کہ ذہن اس خصوصیت کو اپنائے اس لئے انھوں نے مذکورہ وہم کے ازلہ کے لئے ''اوبالموجودات'' کلمہ ''او'' کو تعبیر میں اختیار دینے کے لئے لائے۔ تو مبصرات کے بعد موجودات کو ذکر کرنے کا دوسرا نکتہ ہوا، اور صرف موجودات پر اکتفاء اس لئے نہ کیا کیونکہ مبصرات کو امتیاز میں زیادہ دخل نہیں۔

 

ثم اقول، تحقیق التقدم ان الابصار لاشک انہ لیس کاالارادۃ والقدرۃ والتکوین التی لایجب فعلیۃ جمیع التعلقات الممکنۃ لھا بل ھو امن صفات التی یجب ان تتعلق بالفعل بکل ما یصلح لتعلقھا کالعلم فعدم ابصار بعض مایصح ان یبصرہ نقص فیجب تنزیھہ تعالٰی عنہ کعدم العلم ببعض مایصح ان یعلم، وھذا ممالایجوز ان یتناطع فیہ عنزان انما الشان فی تعبیر مایصح تعلق الابصار بہ فان ثبت القصر علی الاشکال والوان والاکوان فذاک، وان ثبت عموم الصحۃ بکل موجود وجب القول بتحقق عموم الابصار ازلاً وابدًا لجمیع الکائنات القدیمۃ والحادثۃ الموجودۃ فی ازمنتھا المحققۃ اوالمقدرۃ لما عرف من انہ لا یجوز ھٰھنا شیئ منتظر لکن الاول باطل للاجماع علی رؤیۃ المومنین ربھم تبارک وتعالٰی فی الدار الاٰخرۃ فکان اجماع علی ان صحۃ الابصار لاتختص بماذکر وقد صرح اصحابنا فی ھذا المبحث ان مصحح الرؤیۃھو الوجود وقداجمعوا کما فی المواقف انہ تعالٰی یرٰی نفسہ فتبین ان الحق ھوا التعمیم وان قولہ تعالٰی انہ بکل شیئ بصیر ۲؎ جار علی صرافۃ عمومہ من دون تطرق تخصیص الیہ اصلا ھکذا ینبغی التحقیق واﷲ ولی التوفیق ومن اتقن ھذا تیسرلہ اجراء فی السمع بدلیل کلام اﷲ سبحانہ وتعالٰی فافھم واﷲ سبحنہٰ وتعالٰی فافھم واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم ۱۲ منہ رضی اﷲ عنہ۔

 

پھر میں کہتاہوں مقام کی تحقیق یہ ہے کہ ابصار بیشک، ارادہ قدرت اور تکوین صفات جیسی نہیں۔ جن کا تمام ممکنہ تعلقات سے بالفعل متعلق ہونا واجب نہیں بلکہ ابصار ان صفات میں سے جن کا ممکن التعلق سے بالفعل متعلق ہونا واجب ہے جیساکہ علم کا معاملہ ہے توبعض وہ چیزیں جن کا ابصار ممکن اور صحیح ہوسکتاہے ان کا عدم ابصار نقص ہوگا لہذا اللہ تعالٰی کا اس نقص سے پاک ہونا ضروری ہے جیےس علم سے متعلق بعض اشیاء کا علم نہ ہونا نقص ہے جس سے وہ پاک ومنزہ ہے یہ وہ معاملہ ہے جس میں دو آراء نہیں ہوسکتیں، اب صرف یہ بحث ہے کہ ابصار کا تعلق کن چیزوں سے ہوسکتاہے اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ابصار صرف اشکال والوان و اکوان سے ہی متعلق ہوسکتی ہے  تو یہی ہوگا اور اگر ثابت ہوجائے کہ اس کا تعلق تمام موجودات سے صحیح ہوسکتاہے تو پھر ازلاً وابداً تمام کائنات وحادثہ خواہ وہ اپنے زمانوں میں محقق ہوں یا مقدر ہوں سب سے ابصار کا تعلق ماننا اور بیان کرنا واجب ہوگا جیسا کہ واضح ہے کہ اب کوئی چیز انتظار کے مرحلہ میں نہ ہوگی، لیکن پہلی شق باطل ہے کیونکہ آخرت میں مومنین کے لئے اللہ تعالٰی کی رؤیت پر اجماع ہے (حالانکہ اللہ تعالٰی اشکال والوان سے پاک ہے) تو ثابت ہواکہ ابصارکا تعلق اشکال والوان سے مختص نہیں ہے جبکہ ہمارے اصحاب نے اس کے بحث میں تصریح کردی ہے کہ آخرت میں اللہ تعالٰی کی رؤیت کا مدار صرف وجودہے جبکہ ان کا اجماع ہے کہ اللہ تعالٰی اپنی ذات کو دیکھتاہے جیساکہ مواقف میں ہے، تو ابصار میں تعمیم ہی حق ہے، اور اللہ تعالٰی کے ارشاد

 

''انہ بکل شیئ بصیر''

 

کا اجراء اپنے خالص عموم پر ہوگا جس میں کسی قسم کی تخصیص کا شائبہ نہ ہوگا۔ یوں تحقیق ہونی چاہئے جبکہ اللہ تعالٰی ہی توفیق کا مالک ہے جو بھی ا س تحقیق پر یقین رکھے گا اس کے لئے صفت سمع میں بھی عموم کاا جراء آسان ہو گا جس کی دلیل اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے پس سمجھو  واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۲؎ القرآن الکریم     ۶۷/ ۱۹)

 

شرح فقہ اکبر میں ہے : قد افتی ائمۃ سمرقند وبخار ا  علی انہ (یعنی المعدوم) غیر مرئی، وقدذکر الامام الزاھد الصفار فی اٰخرکتاب التلخیص ان المعدوم مستحیل الرؤیۃ، وکذا المفسرون ذکروا ان المعدوم لایصلح ان یکون مرئ اﷲ تعالٰی، وکذا قول اسلف من الاشعریۃ و الماتریدیۃ ان الوجود علۃ جواز الرؤیۃ مع الاتفاق، علی ان المعدوم الذی یستحیل وجودہ لایتعلق بہ برؤیتہ ۱؎ سبحنہ اھ۔

 

ائمہ سمرقند وبخارا نے یہ فتوٰی دیاکہ (معدوم) دکھائی نہیں دیتا، امام زاہد صفار نے کتاب التلخیص کے آخر میں لکھا معدوم کی رؤیت محال ہوتی ہے، اسی طرح مفسرین نے کہا معدوم اللہ تعالٰی کے دکھائی دینے کے قابل ہی نہیں۔ اسلاف اشعریہ اور ماتیرید یہ کابھی قول یہی ہے کہ جواز رؤیت کی علت وجود ہے اوراس پر اتفاق ہے کہ ایسا معدوم جس کا وجود محال ہے اس کے ساتھ رؤیت باری کا تعلق نہیں ہوسکتا اھ (ت)

 

 (۱؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر    باب یری اللہ تعالٰی فی الآخرۃ بلاکیف    مصطفی البابی مصر    ص۸۴)

 

شرح السنوسی للجزائریہ میں ہے : انھما (یعنی سمعہ تعالٰی وبصرہ) لایتعلقان الابالموجود والعلم یتعلق بالموجود والمعدوم والمطلق والمقید ۱؎ اھ۔ ان دونوں (اللہ تعالٰی کے سمع وبصر) کا تعلق موجودسے ہوتاہے اور علم کا تعلق موجود ومعدوم اور مطلق ومقید سے ہوتا ہے اھ (ت)

 

(۱؎ الحدیقہ الندیہ   بحوالہ شرح السنوسی للجزائریۃ      ھی الصفات یعنی صفت المعانی الحیاۃ  مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۱/ ۲۵۵)

 

حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں ہے: المعدومات التی (عہ۱) ماارادھا اﷲ تعالٰی ولاتعلقت القدرۃ بایجادھا فی ازمنتھا المقدرۃ لھا، ولاکشف عنھا العلم موجودۃ فی تلک الازمنۃ فلا یتعلق بھا السمع و البصر، وکذلک المستحیلات بخلاف العلم فانہ یتعلق بالموجودات والمعدوم ۲؎۔

 

وہ معدومات جن کا اللہ تعالٰی نے اردہ نہیں فرمایا اور از منہ مقررہ میں ان کی ایجاد کے لئے قدرت متعلق نہیں ہوتی اور نہ مقدرہ زمانہ میں موجود ہوکر تحت علم آتی ہیں تو ایسی معدومات سے اللہ تعالٰی کی سمع وبصر متعلق نہیں ہوتی اور محالات کا معاملہ بھی ایسا ہے بخلاف علم کہ ا س کا تعلق موجود اور معدوم دونوں سے ہے۔ (ت)

 

عہ:  اقول قولہ مارادولا تعلقت ولاکشف عبارات شتٰی عن معبر واحد وھو دوام العدم المناقض للوجود بالفعل فان کل ما اراداﷲ تعالٰی فقد تعلقت القدرۃ بایجادہ بالفعل وبالعکس،   وما کان کذلک فقد کشف العلم عنہ موجودا بالاطلاق العام وبالعکس وذلک لان العلم موجودا تابع اللوجود ولاوجود للمخلوق الابتعلق القدرۃ ولا تعلق للقدرۃ الا بترجیح الارادۃ، کما تقرر کل ذٰلک فی مقرہ، واﷲ تعالٰی اعلم۔ ۱۲ منہ

 

اقول، حدیقہ کا قول ''ارادہ نہ فرمایا'' قدرت کا تعلق نہ ہو، علم کا کشف نہ ہو، یہ مختلف عبارات ہیں جن کی مراد ایک ہے اور وہ یہ کہ دائمی جو عدم بالفعل وجود کے مناقض ہے کیونکہ اللہ تعالٰی جس چیز کا ارادہ فرماتاہے اس کے ایجاد سے بالفعل قدرت کا تعلق بھی ہوتاہے اور اس کا عکس بھی ہوتاہے جو چیز اس شان میں ہوگی اسی کے بالفعل موجود ہونے کا مطلقا علم بالکشف ہوتاہے اور عکس بھی ، کیونکہ کسی موجود کا علم ا س چیز کے وجو دسے ہوتا ہے جبکہ مخلوق کاوجود قدرت کے تعلق کے بغیر نہیں ہوسکتا اور قدرت کا تعلق ارادہ سے ترجیح پائے بغیر نہیں ہوسکتا جیسا کہ یہ تمام امور اپنے مقام میں ثابت شدہ ہیں، واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎الحدیقہ الندیہ   بحوالہ شرح السنوسی للجزائریۃ    ھی الصفات یعنی صفت المعانی الحیاۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۱/ ۲۵۵)

 

(۳) قوی قدیر تبار وتعالٰی فرماتاہے : وھوعلی کل شی قدیر ۱؎ وہ ہر چیز پر قدرت والا ہے، یہ موجود ومعدوم سب کو شامل،بشر ط وحدوث وامکان کہ واجب ومحال اصلا لائق مقدوریت نہیں،

 

 (۱؎ القرآن الکریم    ۵/ ۱۲۰ و ۱۱ /۴)

 

مواقف میں ہے : القدیم لا یستند الی القادر ۲؎  (قدیم کو قادر کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ ت)

 

 (۲؎ مواقف مع شرح المواقف  المقصد الخامس    منشورات الرضی قم ایران    ۳/ ۱۷۸)

 

شرح مقاصد میں ہے : لاشیئ من الممتنع بمقدور ۳؎ (کوئی ممتنع مقدور نہیں ہوتا۔ ت)

 

 (۳؎ شرح المقاصد  المبحث الثانی القدرۃ الحادثۃ علی الفعل  دارالمعارف نعمانیہ لاہور    ۱/۲۴۰)

 

امام یافعی فرماتے ہیں: جمیع المسحیلات العقلیۃ لایتعلق للقدرۃ بھا ۴؎۔ تمام محلات عقلیہ کے ساتھ قدرت کا تعلق نہیں ہوتا۔ (ت)

 

 (۴؎)

 

کنزالفوائد میں ہے: خرج الواجب والمستحیل فلایتعلقان ای القدرۃ والارادۃ بھما ۵؎۔ واجب اور محال خارج ہوں گے ان کے ساتھ قدرت اور ارادہ کا تعلق نہیں ہوسکتا۔ (ت)

 

 (۵؎ کنز الفوائد)

 

شرح فقہ اکبر میں ہے : أقصاھا ان یمتنع بنفس مفہومہ کجمیع الضدین وقلب الحقائق واعدام القدیم، وھذا لایدخل تحت القدرۃ القدیمۃ ۶؎۔ آخری مرتبہ وہ ہے جونفس مفہوم کے اعتبار سے ممنوع ہو مثلا ضدین کا جمع ہونا، حقائق میں قلب، قدیم کا معدوم ہونا یہ قدرت قدیمہ کے تحت داخل ہی نہیں۔ (ت)

 

 (۶؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر     افعال العبادبعلمہ تعالٰی الخ         مصطفی البابی مصر     ص۵۶)

 

(۴) علیم خبیر عزشانہ، فرماتاہے: وھو بکل شی علیم ۷؎ وہ ہر چیز کو جانتاہے،

 

  (۷؎ القرآ ن الکریم      ۲ /۲۹ ، ۶ /۱۰۱)

 

یہ کلیہ واجب و ممکن وقدیم وحادث وموجود ومعدوم ومفروض وموہوم غرض ہر شی ومفہوم کو قطعا محیط جس کے دائرے سے اصلاً کچھ خارج نہیں۔ یہ ان عمومات سے ہے جو عموم قضیہ مامن عام الاوقد خص منہ البعض(ہرعام سے کچھ افراد مخصوص ہوتے ہیں۔ ت) سے مخصوص ہیں،

 

شرح مواقف میں فرمایا : علمہ تعالٰی یعم المفھوما کلھا الممکنۃ والواجبۃ والممتنعۃ فھوا عم من القدرۃ لانھا تختص بالممکنات دون الواجبات والممتنعات ۱؎۔ اللہ تعالٰی کا علم تمام مفہومات کو شامل ہے خواہ وہ ممکن ہیں یا واجب یاممتنع، اور وہ قدرت سے عام ہے کیونکہ قدرت کا تعلق فقط ممکنات سے ہے واجبات اور ممتنعات کے ساتھ وہ متعلق نہیں ہوتی۔ (ت)

 

 (۱؎ شرح المواقف     المرصدالرابع     القصد الثالث    منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸ /۷۰)

 

اب دیکھئے لفظ چاروں ایک جگہ ہے یعنی کل شیئ، مگر ہر صفت نے اپنے ہی دائرے کی چیزوں کو احاطہ(عہ) فرمایا جو اس کے قابل اور اس کے احاطہ  میں داخل تھیں، تو جس طرح ذات وصفات خالق کا دائرہ خلق میں نہ آنا معاذاللہ عموم خالقیت میں نقصان نہ لایا، نقصان جب تھا کہ کوئی مخلوق احاطہ سے باہر رہتا، یا معدومات کا دائرہ ابصار سے مہجور رہتا عیاذاً باللہ، احاطہ بصر الٰہی میں باعث فتور نہ ہوا، فتور جب ہوتا کہ کوئی مبصر خارج رہ جاتا۔ عہ: ای شملت مافی دائرتھا وان لم یشملہ اللفظ کمافی العلم ولم تشمل مالیس فیھا وان شملہ اللفظ کما فی الخلق وذٰلک ان الشیئ عندنا یخص بالموجود قال تعالٰی اولا یذکر الانسان انا خلقنہ من قبل ولم یک شیئا ۲؎ ویعم الواجب، قال تعالٰی ای شی اکبر شھادہ قل اﷲ ۳؎، فافھم ۱۲ منہ رضی اﷲ عنہ۔ یعنی اپنے دائرہ کی ہر شی کو شامل ہے اگرچہ اس کو لفظ شامل نہ ہو جیسے علم میں، اور جو دائرہ میں نہ ہو اس کو شامل نہیں اگرچہ لفظ اس کوشامل ہو جیسےخلق میں،یہ اس لئے کہ ہمارے نزدیک صرف موجود ہی شی کہلاتی  ہے، اللہ تعالٰی نے فرمایا کیا انسان کو یاد نہیں کہ ہم نے اسے پیداکیا جبکہ اس سے قبل کوئی شیئ نہ تھا۔ اور شے واجب کو بھی شامل ہے، اللہ تعالٰی نے فرمایا۔ فرمادیجئے کون سی شیئ شہادت میں بڑی ہے؟ فرمادو اللہ، اسے سمجھو ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۲؎ القرآن الکریم    ۱۹/ ۶۷)                                                         (۳؎ القرآن الکریم      ۶/ ۱۹)

 

اسی طرح صفت قدرت کا کمال یہ ہے کہ جو شے اپنی حدِ ذات (عہ۱) میں ہونے کے قابل ہے۔ اس سب پر قادر ہو، کوئی ممکن احاطہ قدرت سے جدا نہ رہے، نہ یہ کہ واجبات ومحالات عقلیہ کو بھی شامل ہو جو اصلا تعلق قدرت کی صلاحیت نہیں رکھتے،سبحان اللہ محال کے معنی ہی یہ ہیں کہ کسی طرح موجود نہ ہوسکے، اور مقدور وہ کہ قادر چاہے تو موجود ہوجائے، پھر دونوں کیونکہ جمع ہوسکتے ہیں، اور اس کے سبب یہ سمجھنا کہ کوئی شےدائرہ قدرت سے خارج رہ گئی محض جہالت کہ محالات مصداق و ذات سے بہرہ ہی نہیں رکھتے، حتی کہ فرض وتجویز عقلی(عہ۲) میں بھی تو اصلا یہاں کوئی شے تھی ہی نہیں جسے قدرت شامل نہ ہوئی یا ان اﷲ علی کل شی قدیر ۱؎ کے عموم سے رہ گئی۔

 

عہ۱:  یشیر الٰی ان مصحح المقدوریۃ نفس الامکان الذاتی ۱۲ منہ

 

اشارہ کیا کہ مقدوریت کی صحت کا مدار نفس امکان ذاتی پر ہے ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۲:  اوردہ تفسیر ا للمراد بالفرض ۱۲ منہ

 

فرض سے مراد کی تفسیر کے لئے ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ القرآن الکریم    ۲ /۲۰)

 

یہاں سے ظاہر ہوگیا کہ مغویان تازہ جو اسی مسئلہ کذب ودیگر نقائص وغیرہا کی بحث میں بے علموں کو بہکاتے ہیں کہ مثلا کذب یا فلاں عیب یا فلاں بات پر اللہ عزوجل کو قادر نہ مانا تو معاذاللہ عاجز ٹھہرا اور ان اﷲ علی کل شیئ قدیر ۲؎ کا انکار ہوا۔

 

 (۲؎القرآن الکریم    ۲ /۲۰)

 

یہ ان ہوشیاروں کی محض عیاری وتزیر اور بیچارے عوام کو بھڑکانے کی تدبیر ہے، ایہا المسلمون! قدرت الٰہی صفت کمال ہوکر ثابت ہوئی ہے نہ معاذاللہ صفت نقص و عیب، اور اگر محالات پر قدرت مانئے تو بھی انقلاب ہوا جاتاہے، وجہ سنئے، جب کسی محال پرقدرت مانی اور محال محال سب ایک سے معہذا تمھارے جاہلانہ خیال پر جس محال کو مقدور نہ کہئے اتناہی عجز وقصور سمجھئے تو واجب کہ سب محالات زیر قدرت ہوں، اور منجملہ محالات سلب قدرت الٰہیہ بھی ہے تو لازم کہ اللہ تعالٰی اپنی قدرت کھودینے اور اپنے آپ کو عاجز محض بنالینے پر قادر ہو، اچھا عموم قدرت مانا کہ اصل قدرت ہی ہاتھ سے گئی، یوہیں منجملہ محالات عدم باری عزوجل ہے تو اس پر قدرت لازم، اب باری جل وعلا عیاذاً باللہ واجب الوجود نہ ٹھہرا، تعمیم قدرت کی بدولت الوہیت ہی پر ایمان گیا تعالٰی اﷲ عما یقول الظالمون علوا کبیرا (ظالم جو کچھ کہتے ہیں اللہ تعالٰی اس سے کہیں بلند ہے۔ ت)

پس بحمد اللہ ثابت ہوا کہ محال پر قدرت ماننا قطع نظر اس سے کہ خود قول بالمحال ہے، جناب باری عزاسمہ کو سخت عیب لگانا اور تعیم قدرت کے پردے میں اصل قدرت بلکہ نفس الوہیت سے منکر ہوجاناہے، للہ انصاف!

حضرات کے یہ تو حالات اور اہل سنت پر معاذاللہ عجز باری عزوجل ماننے کے الزامات، ہمارے دینی بھائی اس مسئلہ کو خوب سمجھ لیں کہ حضرات کے مغالطہ و تلبیس سے امان میں رہیں، واللہ الموفق۔

 

تنزیہ اول ارشادات علماء میں:

 

اقول وباﷲ التوفیق  : میں یہاں ازالہ اوہام حضرات مخالفین کو اکثر عبارات ایسی نقل کرں گا کہ امتناع کذب الٰہی پر تمام اشعریہ و ماتریدیہ کا اجماع ثابت کریں جس کے باعث اس وہم عاطل کا علاج قاتل ہو کہ معاذاللہ یہ مسئلہ قدیم سے مختلف فیہا ہے حاش للہ! بلکہ بطلان امکان پر اجماع اہل حق ہے جس میں اہل سنت کے ساتھ معتزلہ وغیرہ فرق باطلہ بھی متفق، ناظر ماہر دیکھے گا کہ میرا یہ مدعا ان عبارتوں سے کن کن طور پر رنگ ثبوت پائے گا:

اول ظاہر وجلی یعنی وہ نصوص جن میں امتناع کذب پر صراحۃ اجماع منصوص۔

دوم اکثرعبارتیں علمائے اشعریہ کی ہوں گی تاکہ معلوم ہو کہ مسئلہ خلافی نہیں۔

سوم وہ عبارات جن میں بنائے کلام حسن وقبح عقلی کے انکار پر ہو کہ یہ اصول اشاعرہ سے ہے، تو لاجرم مسئلہ اشاعرہ وماتریدیہ کا اجماعی ہوا اگرچہ عندالتحقیق صرف حسن وقبح بمعنی استحقاق مدح وثواب وذم وعقاب کی شرعیت و عقلیت میں تجاذب آراہے ، نہ بمعنی صفت کمال وصفت نقصان کہ بایں معنی باجماع عقلا عقلی ہیں،

 

کما نصوا علیہ جمیعا ونبہ علیہ ھٰھنا المولٰی سعدالدین التفتازانی فی شرح القاصد والمولی المحقق علی الاطلاق کمال الدین محمد بن الھمام وغیرھما من الجہابذۃ الکرام۔

 

جیسا کہ اس پر تمام نے تصریح کی ہے اور اس پر علامہ سعدالدین تفتا زانی نے شرح المقاصد میں اور محقق علی الاطلاق کمال الدین محمد بن ہمام اور دیگر کبار ماہرین علماء نے تنبیہ کی ہے۔ (ت)

اب بتوفیق اللہ تعالٰی نصوص ائمہ وکلمات علماء نقل کرتاہوں:

نص ۱: شرح مقاصد کے مبحث کلام میں ہے :

 

الکذب محال باجماع العلماء لان الکذب نقص باتفاق العقلاء وھو علی اﷲ تعالٰی محال۱؎ اھ ملخصاً۔

 

جھوٹ باجماع علماء محال ہے کہ وہ باتفاق عقلاء عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پر محال اھ ملخصاً۔

 

 (۱؎ شرح المقاصد   المبحث السادس فی انہ تعالٰی متکلم     دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۲ /۱۰۴)

 

نص ۲: اسی کی بحث وحسن وقبح میں ہے : قد بینا فی بحث الکلام امتناع الکذب علی الشارع تعالٰی ۱؎۔ ہم بحث کلام میں ثابت کر آئے کہ اللہ عزوجل پر کذب محال ہے۔

 

 (۱؎ شرح المقاصد  قال وتمسکوا بوجوہ الاول ان حسن الاحسان وقبح العدوان     دارالمعارف النعمانیہ لاہور   ۲/ ۱۵۲)

 

نص ۳: اسی بحث تکلیف بالمحال میں ہے : محال ھو جہلہ کذبہ تعالٰی عن ذلک ۲؎۔ اللہ تبارک وتعالٰی کاجہل یا کذب دونوں محال ہیں، بر تری ہے اسے ان سے۔

 

 (۲؎شرح المقاصد    المبحث الخامس التکلیف مالایطاق   دارالمعارف النعمانیہ لاہور  ۲/ ۱۵۵)

 

نص۴: اسی میں ہے : الکذب فی اخبار اﷲ تعالٰی فیہ مفاسد لاتحصٰی ومطا عن فی الاسلام لاتخفی منھا مقال الفلاسفۃ فی المعاد ومجال الملاحدۃ فی العناد وھٰھنا بطلان ماعلیہ الاجماع من القطع بخلود الکفار فی النار، فمع صریح اخبار اﷲ تعالٰی بہ فجواز الخلف وعدم وقوع مضمون ھٰذا الخبر محتمل، ولما کان ھذاباطلاقطعا علم ان القول بجواز الکذب فی اخبار اﷲ تعالٰی باطل قطعاً ۲؎ اھ ملتقطاً۔ یعنی خبر الٰہی میں کذب پر بے شمار خرابیاں اور اسلام میں آشکارا طعن لازم آئیں گے فلاسفہ حشر میں گفتگولائیں گے، ملحدین اپنے مکابروں کی جگہ پائیں گے کفار کا ہمیشہ آگ میں رہنا کہ بالاجماع یقینی ہے اس پر یقین اٹھ

جائیں گے کہ اگرچہ خدا نے صریح خبریں دیں مگر ممکن ہے کہ واقع نہ ہوں۔ اور جب یہ امور یقینا باطل ہیں تو ثابت ہوا کہ خبر الٰہی میں کذب کو ممکن کہنا باطل ہے اھ ملتقطا۔

 

 (۳؎شرح المقاصد   المبحث الثانی عشر اتفقت الامۃ علی العفوعن الصفاء  دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲ /۲۳۸)

 

نص ۵: شرح عقائد نسفی میں ہے: کذب کلام اﷲ تعالٰی محال ۴؎ اھ ملخصا۔ کلام الٰہی کا کذب محال ہے اھ ملخصا

 

 (۴؎ شرح العقائد النسفیہ    دارالاشاعت العربیہ قندھار، افغانستان  ص۷۱)

 

نص ۶: طوالع الانوار کی فرع متعلق بمبحث کلام میں ہے : الکذب نقص والنقص علی اﷲ تعالٰی محال ۵؎ اھ۔ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پر محال۔

 

(۵؎ طوالع الانوار للبیضاوی    )

 

نص ۷ـ: مواقف کی بحث کلام میں ہے: انہ تعالٰی یمتنع علیہ الکذب اتفاقا اما عند المعتزلہ فلان الکذب قبیح وھو سبحانہ لایفعل القبیح واما عندنا فلانہ نقص والنقص علی اﷲ محال اجماعا۔ ۱؎ (ملخصا)

 

یعنی اہلسنت ومعتزلہ سب کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالٰی کا کذب محال ہے، معتزلہ تو اس لئے محال کہتے ہیں کہ کذب برا ہے اور اللہ تعالٰی برا فعل نہیں کرتا اور ہم اہلسنت کے نزدیک اس میں دلیل سے ناممکن ہے کہ کذب عیب ہے اور ہر عیب اللہ تعالٰی پر بالاجماع محال ہے۔

 

 (۱؎ مواقف مع شرح المواقف    المقصد السابع بحث انہ تعالٰی متکلم   منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸ /۱۰۰، ۱۰۱)

 

نص ۸: مواقف وشرح مواقف کی بحث حسن وقبح میں ہے : مدرک امتناع الکذب منہ تعالٰی عندنا لیس ھو قبحہ العقلی حتی یلزم من انتفاء قبحہ ان لایعلم امتناعہ منہ اذلہ مدرک اٰخر وقد تقدم اھ۲؎ ملخصا۔

 

یعنی ہم اشاعرہ کے نزدیک کذب الٰہی محال ہونے کی دلیل قبح عقلی نہیں ہے کہ اس کے عدم سے لازم آئے کہ کذب الٰہی محال نہ جانا جائے بلکہ ا س کے لئے دوسری دلیل ہے کہ اوپر گزری، یعنی وہ کہ جھوٹ عیب ہے اور اللہ تعالٰی میں عیب محال۔

 

 (۲؎مواقف مع شرح المواقف    المرصدا لسادس المقصد الخامس       منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸ /۱۹۳)

 

نص۹: انھیں کی بحث معجزات میں ہے : قدم فی مسئلۃ الکلام من موقف الالٰھیات امتناع الکذب علیہ سبحانہ وتعالٰی ۳؎۔

 

یعنی ہم موقف الٰہیات سے مسئلہ کلام میں بیان کرآئے کہ اللہ تعالٰی کا کذب زنہار ممکن نہیں۔

 

 (۳؎مواقف مع شرح المواقف     الموقف السادس فی السمعیات       منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸ /۲۴۰)

 

نص ۱۰: امام محقق علی الاطلاق کمال الدین محمد مسایرہ میں فرماتے ہیں: یستحیل علیہ تعالٰی سمات النقص کالجہل والکذب ۴؎۔

 

جتنی نشانیاں عیب کی ہیں، جیسے جہل وکذب سب اللہ تعالٰی پر محال ہیں۔

 

 (۴؎ المسایرۃ متن المسامرۃ    ختم المصنف کتابہ بیان عقیدہ اہلسنت اجمالا    المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر  ص۳۹۳)

 

نص ۱۱: علامہ کمال الدین محمد بن محمد ابن ابی شریف قدس سرہ، اس کی شرح مسامرہ میں فرماتے ہیں: لاخلاف بین الاشعریۃ وغیرہم فی ان کل ماکان وصف نقص فالباری تعالٰی منزہ عنہ وھو محال علیہ تعالٰی والکذب وصف نقص اھ ملخصا ۱؎۔

 

یعنی اشاعرہ وغیرہ اشاعرہ کسی کو اس میں خلاف نہیں کہ جو کچھ صفت عیب ہے باری تعالٰی اس سے پاک ہے اور وہ اللہ تعالٰی پرت ممکن نہیں اور کذب صفت عیب ہے۔ (ملخصا)

 

 (۱؎ المسامرۃ شرح المسایرۃ    اتفقوا علی ان ذلک غیر واقع        المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی    ص۳۹۳)

 

نص ۱۲: امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں: قول تعالٰی فلن یخلف اﷲ عہدہ یدل علی انہ سبحانہ وتعالٰ منزہ عن الکذب وعدہ و عیدہ۔ قال اصحابنا لان الکذب وصفۃ نقص والنقص علی اﷲ تعالٰی محال، وقالت المعتزلۃ لان الکذب قبیح لانہ کذب فیستحیل ان یفعلہ فدل علی ان الکذب منہ محال۲؎ اھ ملخصاً۔

 

اللہ عزوجل کا فرمانا کہ اللہ ہرگز اپنا عہد جھوٹا نہ کریگا دلالت کرتاہے کہ مولٰی تعالٰی سبحانہ اپنے ہر وعدہ و وعید میں جھوٹ سے منزہ ہے، ہمارے اصحاب اہل سنت وجماعت ا س دلیل سے کذب الٰہی کو نا ممکن جانتے ہیں کہ وہ صفت نقص ہے اور اللہ عزوجل پر نقص محال، اور معتزلہ ا س دلیل سے ممتنع مانتے ہیں کہ کذب قبیح لذاتہ ہے تو باری تعالٰی عزوجل سے صادر ہونا محال، غرضٰ ثابت ہوا کہ کذب الٰہی اصلا امکان نہیں رکھتا۔ اھ (ملخصا)

 

 (۲؎ مفاتیح الغیب    تحت آیت فلن یخلف اﷲ عہدہ    المکتبۃ البہیہ مصر    ۳/ ۱۵۹)

 

نص ۱۳: اللہ عزوجل فرماتا ہے : وتمت کلمت ربک صدقا وعدلا ط لامبدل لکلٰمت ج وھو السمیع العلیم ۳؎o

 

پوری ہے بات تیرے رب کی سچ اور انصاف میں کوئی بدلنے والا نہیں، اس کی باتوں کا، اوروہی ہے سنتا جانتاہے۔

 

 (۳؎ا لقرآن الکریم       ۶ /۱۱۵)

 

امام ممدوح اس آیت کے تحت میں لکھتے ہیں : اعلم ان ھذہ الاٰیۃ تدل علی ان کلمۃ اﷲ موصوفۃ بصفات کثیرۃ (الٰی ان قال) الصفۃ الثانیۃ من صفات کلمۃ اﷲ کونھا صدقا والدلیل علی ان الکذب نقص والنقص علی اﷲ تعالٰی محال ۴؎۔

 

یہ آیت ارشاد فرمائی ہے کہ کذب اللہ تعالٰی کی بات بہت صفتون سے موصوف ہے، ازانجملہ اس کا سچا ہوناہے

اوراس پر دلیل یہ ہے کہ کذب عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پر محال۔

 

 (۴؎ مفاتیح الغیب    تحت آیۃ وقت کلٰمت ربک صدق وعدلاً    المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر    ۱۳/۶۱۔ ۱۶۰)

 

نص ۱۴: یہیں فرماتے ہیں : صحۃ الدلائل السمعیۃ موقوفۃ علی ان الکذب علی اﷲ تعالٰی محال ۱؎۔

 

دلائل قرآن وحدیث کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے کہ کذب الٰہی محال مانا جائے۔

 

 (۱؎مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)    تحت آیۃ وتمت کلمت ربک الخ  المطبعۃ البہیۃ العربیہ مصر    ۱۳/ ۱۶۱)

 

نص ۱۵: زیر قولہ تعالٰی: ماکان اﷲ ان یتخذ من ولد سبحنہ ۲؎۔ اللہ تعالٰی کی شان نہیں کہ وہ بیٹا بنائے وہ پاک ہے (ت)

 

 (۲؎ القرآن الکریم       ۱۹ /۳۵)

 

بعض تمسکات معتزلہ کے رد میں فرماتے ہیں : اجاب اصحابنا عنہ بان الکذب محال علی اﷲ تعالٰی ۳؎۔ اہلسنت نے جواب دیاکہ کذب الٰہی محال ہے۔

 

 (۳؎ مفاتیح الغیب(تفسیر کبیر)    تحت آیت ماکان اللہ ان یتخذ من ولد سبحنہ        المطبعۃ البہیۃ المصر    ۲۱/ ۲۱۷)

 

نص ۱۶: علامہ سعد تفتار زانی شرح مقاصد میں انھیں امام ہمام سے ناقل: صدق کلام تعالٰی لما کان عندنا ازلیا امتنع کذبہ لان ماثبت قدمہ امتنع عدمہ ۴؎۔ کلام خدا کا صدق جب کہ ہم اہلسنت کے نزدیک ازلی ہے تو اس کا کذب محال ہوا کہ جس چیز کا قدم ثابت ہے اس کا عدم محال ہے۔

 

 (۴؎ شرح القاصد المبحث الثانی العشر اتفقت الامۃ علی العفو الخ  دارالمعارف نعمانیہ لاہور     ۲/ ۲۳۷)

 

تنبیہ: انھیں امام علام کا ارشاد کہ ''کذب الٰہی کا جواز ماننا قریب بکفر ہے، ان شاء اللہ تعالٰی تنزیہ چہارم میں آئے گا۔

 

نص ۱۷: تفسیر بیضاوی شریف میں ہے: ومن اصدق من اﷲ حدیثا o انکار ان یکون احد اکثر صدقا منہ فانہ لایتطرق الکذب الٰی خبرہ بوجہ لان نقص وھو علی اﷲ تعالٰی محال ۵؎۔ اللہ تعالٰی اس آیت میں انکار فرماتاہے اس لئے کہ کوئی شخص اللہ سے زیاد ہ سچاہو کہ اس کی خبر تک تو کسی کذب کو کسی طرح راہ ہی نہیں کہ کذب عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پرمحال۔

 

 (۵؎ انوار التنزیل واسرار التاویل    (بیضاوی مع القرآن الکریم) تحت آیۃ ومن اصدق الخ   مصطفی البابی مصر ص۹۲)

 

نص ۱۸: تفسیر مدارک شریف میں ہے: ومن اصدق من اﷲ حدیثاo تمییز وھو استفھام بمعنی النفی ای لااحد اصدق منہ فی اخبارہ ووعدہ ووعیدہ لاستحالۃ الکذب علیہ تعالی لقبحہ(عہ) لکونہ اخبارا عن الشیئ بخلاف ماھو علیہ ۱؎۔ آیت میں استفہام انکاری ہے یعنی خبر وعدہ وعید کسی بات میں کوئی شخص اللہ سے زیادہ سچا نہیں کہ اس کا کذب تو محال بالذات ہے کہ خود اپنے معنی ہی کے رو سے قبیح ہے کہ خلاف واقع خبر دینے کا نام ہے۔

عہ :اقول استدل قدس سرہ بالقبح اما فی نظر الظاھر فلانہ رحمہ اﷲ تعالٰی من ائمتنا الما تریدیۃ ولذا عدلت عنہ الاشاعرۃ کصاحب المواقف وصاحب المفاتیح کما سمعت نصھما واما عندالتحقیق فلان عقلیۃ القبح بھذا المعنٰی من المجمع علیہ بین العقلاء وھٰوالاء شاعرۃ رحمہم اﷲ تعالٰی انفسھم ناصون بذلک فلا علیک من ذھول من ذھل کما اومانا الیہ فی صدر البحث واﷲ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ اقول، علامہ قدس سرہ، نے قبح سے استدلال کیا ظاہر نظر میں تو اس لئے کہ آپ رحمہ اللہ تعالٰی ہمارے ائمہ ماتریدیہ میں سے ہے اسی لئے اشاعرہ نے قبح سے استدلال نہ کیا جیساکہ آپ نے صاحب مواقف اور صاحب مفاتیح کی نصوص سنیں، اورعند التحقیق اس لئے کہ اس معنی میں قبح عقلی ہونا عقلاء اور اشاعرہ میں متقفہ چیز ہے جس کو خود اشاعرہ رحمہم اﷲ تعالٰی نے بیان فرمایا جیسا کہ ہم نے بحث کی ابتداء میں اشارہ کیا ہے کسی کے ذہول سے تجھ پرکوئی اعتراض نہیں، واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (ت)

 

 (۱؎ مدارک التزیل (تفسیر النسفی)    تحت آیہ ومن اصدق من اﷲ الخ    دارالکتاب العربی بیروت    ۱/ ۲۴۱)

 

نص ۱۹: تفسیر علامۃ الوجود سیدی ابی السعود عمادی میں ہے: ومن اصدق من اﷲ حدیثاo انکار لان یکون احد اصدق منہ تعالٰی فی وعدہ وسائر اخبارہ وبیان لاستحالتہ کیف لاوالکذب محال علیہ سبحٰنہ دون غیرہ ۲؎۔

 

آیت میں انکار ہے اس کا کہ کو ئی شخص اللہ تعالٰی سے زیادہ سچا ہو وعدہ میں یا کسی اور خبر میں، اور بیان ہے اس زیادت کے محال ہونے کا، اور کیوں نہ محال ہو کہ اللہ تعالٰی کا کذب تو ممکن ہی نہیں بخلاف اوروں کے۔

 

 (۲؎ ارشاد العقل السلیم       تحت آیہ ومن اصدق من اﷲ الخ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۱۲۔ ۲۱۱)

 

نص ۲۰: تفسیر روح البیان میں ہے : ومن اصدق من اﷲ حدیثاo انکار لان یکون احد اکثر صدقامنہ فان الکذب نقص وھو علی اﷲ محال دون غیرہ ۱؎ اھ ملخصا۔

 

آیت اس امرکا انکار فرماتی ہے کہ کوئی شخص صدق میں اللہ تعالٰی سے زائد ہوکر کذب عیب ہے اور وہ خدا پر محال ہے، نہ اس کے غیر پر، اھ ملخصا۔

 

 (۱؎ تفسیر روح البیان    تحت ومن اصدق من اﷲ حدیثا    المکتبۃ الاسلامیہ الریاض    ۲/ ۲۵۵)

 

نص ۲۱: شرح السنوسیہ میں ہے: الکذب علی اﷲ تعالٰی محال لانہ دناءۃ ۲؎۔

 

اللہ تعالٰی پر کذب محال ہے کہ وہ کمینہ پن ہے۔

 

 (۲؎ شرح السنوسیہ    )

 

نص ۲۲: فاضل سیف الدین ابہر ی کی شرح موقف میں ہے: ممتنع علیہ الکذب اتفاقا لانہ نقص والنقص علی اﷲ تعالٰی محال اجماعا ۳؎۔ کذب الٰہی بالاتفاق محال ہے کہ وہ عیب ہے اور ہر عیب اللہ تعالٰی پر بالاجماع محال ہے۔

 

 (۳؎ شرح المواقف سیف الدین ابہری (تلمیذ مصنف)

 

نص ۲۳: شرح عقائد جلالی میں ہے: الکذب نقص والنقص علیہ محال فلایکون من المکنات ولاتشملہ القدرۃ کسائر وجوہ النقص علیہ تعالٰی کالجھل والعجز ۴؎۔

 

جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالٰی پر محال، تو کذب الٰہی ممکنات سے نہیں، نہ اللہ تعالٰی کی قدرت اسے شامل جیسے تمام اسباب عیب مثل جہل وعجز الٰہی، کہ سب محال ہیں اور صلاحیت قدرت سے خارج

 

 (۴؎ الدوانی علی العقائد العضدیۃ  بحث ''علی''   مطبع مجتبائی دہلی   ص۷۳)

 

نص ۲۴: اسی میں ہے : لایصح علی تعالٰی الحرکۃ والانتقال ولا الجھل ولاالکذب لانھما النقص والنقص علی اﷲ تعالٰی محال ۵؎۔

 

اللہ تعالٰی پر حرکت وانتقال وجہل وکذب کچھ ممکن نہیں کہ یہ سب عیب ہیں اور عیب اللہ تعالٰی پر محال۔

 

 (۵؎الدوانی علی العقائد العضدیۃ    بحث ''لیس''    مطبع مجتبائی دہلی    ص۶۶و ۶۷)

 

نص ۲۵: کنز الفوائد میں ہے : قدس تعالٰی شانہ من الکذب شرعا وعقلا اذاھو قبیح یدرک العقل قبحہ من غیر توقف علی شرح فیکون محالا فی حقلہ تعالٰی عقلا وشرعا کما حققہ ابن الھمام وغیرہ ۱؎۔

 

اللہ عزوجل بحکم شرح وبحکم عقل ہرطرح کذب سے پاک مانا گیا، اس لئے کہ کذب قبیح عقلی ہے کہ عقلی خود بھی اس کے قبح کو مانتی ہے بغیر اس کے کہ اس کاپہچاننا شرح پر موقوف ہیو تو جھوٹ بولنا اللہ تعالٰی کے حق میں عقلا وشرعا ہر طرح محال ہے جیسے کہ امام ابن الہمام وغیرہ نے اس کی تحقیق افادہ فرمائی۔

 

 (۱؎ کنز الفوائد    )

 

نص ۲۶: مولانا علی قاری شرح فقہ اکبر امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: الکذب علیہ تعالٰی محال ۲؎۔ اللہ تعالٰی پر کذب محال ہے۔

 

 (۲؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر  الصفات الفعلیہ  مصطفی البابی مصر ص۲۳)

 

نص ۲۷: مسلم الثبوت میں ہے : المعتزلہ قالوا لولاکون الحکم عقلیا لم یمتعن الکذب منہ تعالٰی عقلا، والجواب انہ نقص فیجب تنزیہہ تعالٰی عنہ کیف وقدمرانہ عقلی باتفاق العقلاء لان ماینافی الوجوب الذاتی من جملۃ النقص فی حق الباری تعالٰی ومن الاستحالات العقلیۃعلیہ سبحنہ ۳؎ اھ ملخصا مع الشرح۔

 

خاص یہ کہ معتزلہ نے اہلسنت سے کہا اگرحکم عقلی نہ ہو تو اللہ تعالٰی کا کذب محال نہ رہے حالانکہ اسے ہم تم بالاتفاق محال عقلی مانتے ہیں اہلسنت نے جواب دیا کہ کذب اس لئے محال عقلی ہوا کہ وہ عیب ہے تو واجب ہوا کہ اللہ تعالٰی کو اس سے منزہ مانیں اس کے عقلی ہونے پر تمام عقلاء کا اجماع ہے وجہ یہ ہے کہ کذب الوہیت کی ضد ہے اور جو کچھ الوہیت کی ٰضد ہے وہ سب اللہ تعالٰی کے حق میں عیب ہے اور اس کی شان میں محال عقلی ہے اھ ملخصا مع الشرح

 

 (۳؎ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفٰی المقالۃ الثانیہ الخ  منشورات الشریف الرضی قم ایران ۱/ ۴۶)

(مسلم الثبوت        الطبع الانصاری دہلی         ص۱۰)

 

نص ۲۸: مولانا نظام الدین سہال اس کی شرح میں لکھتے ہیں: الکذب نقص لان ماینا فی الوجوب الذاتی من الاستحالات العقلیۃ بذالک اثبت الحکماء الذین ھم غیر متشرعین بشریعۃ الاستحالۃ المذکورۃ فان الوجوب والکذب لایجتمعان کما بین فی اکلام ۱؎ اھ ملخصاً۔

 

جھوٹ بولنا عیب ہے کہ جو کچھ خدا ہونے کے منافی ہے وہ سب محال عقلی ہے، اس پر دلیل سے وہ حکماء اسے محال جانتے ہیں جو کسی شریعت پر ایمان نہیں رکھتے کہ خدائی و دروغ گوئی جمع نہ ہوگی جیسا کہ علم کلام میں ثابت ہوچکا ہے اھ ملخصا۔

 

 (۱؎ شرح مسلم الثبوت نظام الدین سہالی)

 

نص ۲۹: مولانا بحر العلوم عبدالعلی ملک العلماء فواتح الرحموت میں فرماتے ہیں: اﷲ تعالٰی صادق قطعا لاستحالۃ الکذب ھناک ۲؎۔ (ملخصا)

 

اللہ تعالٰی یقینا سچاہے کہ وہاں کذب کا امکان ہی نہیں۔

 

 (۲؎ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المصطفی    الباب الثانی فی الحکم   منشورات الشریف الرضی قم ایران ۱/ ۶۲)

 

نص ۳۰:  افسوس کہ امام الوہابیہ کے نسبا چچا اور علما باپ اور طریقۃ دادا یعنی شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی نے بھی اس پسر نامور کی رعایت نہ فرمائی کہ تفسیر عزیزی میں زیر قولہ تعالٰی فلن یخلف اﷲ عھدہ ۳؎ (اللہ تعالٰی ہرگزاپنے عہد کے خلاف نہیں فرماتا۔ ت)

 

(۳؎ا لقرآان الکریم  ۲ /۸۰)

 

یوں تصریح کی ٹھہرائی : خبر اوتعالٰی کلام ازلی اوست وکذب درکلام نقصانے ست عظیم کہ ہرگز بصفات اوراہ نمی یابد در حق اوتعالٰی کہ مبراز جمیع عیوب ونقائص ست خلاف خبر مطقا نقصان ست۴؎ اھ ملخصا۔

ا للہ تعالٰی کی خبر ازلی ہے، کلام میں جھوٹ کا ہونا عظیم نقص ہے لہذا وہ اللہ تعالٰی کی صفات میں ہرگز راہ نہیں پاسکتا اللہ تعالٰی کہ تمام نقائص وعیوب سے پاک ہے اس کی حق میں خبرکے خلاف ہونا سراپا نقص ہے اھ ملخصا (ت)

 

(۴؎ فتح العزیز (تفسیر عزیزی)   تحت آیۃ فلن یخلف اللہ عھدہ پ آلم     درالکتب لال کنواں دہلی    ص۳۰۷)

 

مدعیان جدید سے پوچھا جائے جناب باری میں کہاں تک نقصان مانتے ہیں ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم اللہ تعالٰی سچا ادب نصیب فرمائے۔ آمین!

 

یہاں نصوص ائمہ وتصریحات علماء میں نہایت کثرت اورجس قدر فقیر نے ذکر کئے، عاقل منصف کے لئے ان میں کفایت بلکہ ایسے مسائل میں ہنگام تنبہ  یا ادنی تنبیہ پر سلامت عقلی ونورایمان دوشاہد عدل کی گواہی معتبر، واذ وعیت ما القی علیک الیراع وتبین الاجماع وبان ان لیس لاحد نزاع فلاعلیک من اضطراب مضطرب الحمد اﷲ المنزہ عن الکذب۔ مذکورہ قیمتی گفتگو اگر قارئین نے محفوظ کرلی ہے تو واضح ہوگیا کہ یہ بات اجماعی ہے اور اس میں کسی کو اختلاف نہیں لہذا اضطراب ختم ہوجانا چاہئے، تمام تعریف اللہ تعالٰی کی جو کذب سے مبراہے۔ (ت)

 

تنزیہ دوم دلائل قاہرہ وحجج باہرہ میں:

 

فقیر غفراللہ تعالٰی بتوفیق مولٰی سبحانہ وتعالٰی ان مختصر سطور میں بلحاظ ایجاز کذب باری عزاسمہ کے محال صریح اور توہم امکان کے باطل قبیح ہونے پر صرف تیس دلیلیں ذکر کرتاہے جن سے خمسہ اولٰی کلمات طیبات ائمہ کرام وعلمائے عظام علیہم رحمۃ الملک المنعام میں ارشاد وانعام ہوئیں، اور باقی پچیس ہادی  اجل وعزوجل کے فیض ازل سے عبد اذل کے قلب پر القاء کی گئیں والحمد للہ رب العلمین۔

 

دلیل اول: کہ نصوص سابقہ میں مکرر گزری جس پر طوالع وشرح مقاصد ومسایرہ ومسامرہ ومفاتیح الغیب و مدارک وبیضاوی وارشاد العقل وروح البیان وشرح سنوسیہ وشرح ابہری وشرح عقائد جلالی و کنز الفوائد ومسلم الثبوت وشرح نظامی وفواتح الرحموت وغیرہا کتب کلام وتفیسر واصول میں تاویل فرمائی کہ کذب عیب ہے اور ہر عیب باری عزوجل کے حق میں محال، اور فی الواقع یہ کلیہ اصول اسلام وقواعد علم کلام سے ایک اصل عظیم و قاعدہ جلیلہ ہے جس پر تمام عقائد تنزیہ بلکہ مسائل صفات ثبوتیہ بھی متفرع کمالایخفی علی من طالع کلمات القوم (جیسا کہ ہر اس شخص پر مخفی نہیں جو قوم کے کلمات سے آگاہ ہے۔ ت)

 

شرح عقائد نسفی میں ہے : الحی القادر العلیم السمیع البصیر الشائی المرید، لان اضدادھا نقائص یجب تنزیہ اﷲ تعالٰی عنہا ۱؎۔ (ملخصا) زندہ، قادر، جاننے والا، سمیع، بصیر، مشیت والا، ارادے والا ہے کیونکہ ان کے اضداد نقائص ہیں جن سے اللہ تعالٰی کا بری ہونا لازم ہے۔ (ت)

 

(۱؎ شرح عقائد نسفی    صفات باری تعالٰی    دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان    ص۳۰)

 

شرح سنوسیہ میں ہے : اما برھان وجوب السمع والبصر والکلام اﷲ تعالٰی فالکتاب والسنۃ والاجماع وایضا لو لم یتصف بھا لزم ان یتصف باضدادھا وھی نقائص والنقص علیہ تعالٰی محال ۲؎۔

 

اللہ تعالٰی کے لئے سمع، بصر اور کلام کا ہونا لازم ہے اس پر دلیل کتاب، سنت اور اجماع ہے، اور یہ بھی اگر وہ ان سے متصف نہ ہو تو ان کی ضد سے متصف ہوگا اور وہ نقائص ہیں اور نقص اللہ تعالٰی کے لئے محال ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ شرح السنوسیہ)

 

شرح مواقف میں ہے: لاطریق لنا الی معرفۃ(عہ۱) الصفات سوی الاستدلال بالافعال والتنزیہ عن النقائص ۱؎۔

 

ہمارے لئے معرفت صفات پر افعال اور نقائص سے تنزیہ کے ساتھ استدلا کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ (ت)

 

عہ۱: ای عقلا ازفیہ الکلام بدلیل الحصر فافادان التنزہ عن النقائص واجب لذات الواجب عقلا فالاتصاف بشی منھا محال عقلا ۱۲ منہ

 

یعنی عقلی طورپر کیونکہ کلام اسی میں ہے اس کی دلیل حصر ہے اس سے واجب تعالٰی کی ذات کا نقائص سے وجوباً پاک ہونے کا عقلا فائدہ حاصل ہوا، تو نقائص سے متصف ہونا عقلا محال ہوگا ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ شرح المواقف     المقصدالثامن فی صفات اختلف فیہا    منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۴/ ۱۰۵)

 

اقول وباللہ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) بداہت عقل شاہد ہے کہ اللہ عز مجدہ جمیع عیوب ونقائص سے منزہ، اور اس کا ادراک (عہ۲)شرح پر موقوف نہیں ولہذا بہت عقلائے غیر اہل ملت بھی تنزیہ باری جل مجدہ ہمارے موافق ہوئے۔ وان یثبتوا بجھلم مایستلزم النقص غیر دارکین انہ کذٰلک بل زاعمین (عہ۳) انہ ھوالکمال والاعبرۃ بسخافات الحمقاء، الذین لاعقل لھم ولادین اعاذنا اﷲ تعالٰی من شرھم اجمین۔

 

اگرانھوں نے اپنی جہالت کے سبب ایسی باتیں ثابت کیں جو نقص کو مستلزم تھیں، ہاں ان کا ارادہ نقص ثابت کرنے کا نہ تھا ان کے گمان میں یہ کمال تھا لیکن ایسے بو وقوفوں کی لا یعنی باتوں کا کیا اعتبار جن کے پاس عقل نہ دین، اللہ تعالٰی ان کے شر سے محفوظ رکھے، (ت)

 

عہ۲:  وقد صرح بہ فی الکنز وشرح المواقف اما الکنز فقد سمعت نصہ واما السید فلما عرقت اٰنفا ۱۲ منہ

 

  اس پر کنز الفوائد اور شرح مواقف میں تصریح کی ہے کنز کی نص آپ نے سن لی اور سید کی بات ابھی آپ نے معلوم کرلی ہے ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۳: کما قالو ا فی صدور العالم بالایجاب کما سیأتی ۱۲ منہ

 

جیسا کہ فلاسفہ نے عالم کے صدورکو واجب کہا ہے جیسے عنقریب آئے گا ۱۲ منہ (ت)

 

یہاں تک کہ فلاسفہ نے بھی بزعم خود اس اصل اصیل پر مسائل متفرع کئے۔ منھا مافی المواقف وشرحہا قال جمہور الفلاسفۃ لایعلم الجزئیات المتغیرۃ والافاذا علم مثلا ان زیدا فی الدار الاٰن ثم خرج زید عنھا فاما ان یزول ذٰلک ویعلم انہ لیس فی الدار  اویبقی ذٰلک العلم بحالہ والاول یوجب التغیر فی ذاتہ من صفۃ الی اٰخری والثانی یوجب الجھل وکلاھما نقص یجب تنزیھہ تعالٰی عنہ ۱؎ اھ ومنھا مافیہ ایضا اما الفلاسفۃ فانکروا القدرۃ بالمعنی المذکور لاعتقادھم انہ نقصان واثبتوالہ الایجاب زعمامنھم انہ الکمال التام ۲؎۔

 

ان میں سے ایک وہ ہے جو مواقف اور اس کی شرح میں ہے جمہور فلاسفہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی تبدیل ہونے والی جزئیات کا علم نہیں رکھتا ورنہ اگر وہ جانتا ہو مثلا زید اس وقت دار میں ہے پھر وہ وہاں سے نکل گیا تو یا تو سابقہ علم زائل ہوجائے گا اور جان لے گا کہ وہ دار میں نہیں یا پہلا علم ہی بحال رہے گا پہلی صورت میں اس کی ذات اقدس میں ایک صفت سے دوسری صفت کی طرف تغیر اور دوسری صورت میں جہل لازم آئے گا اور یہ دونوں باتیں نقص ہیں جن سے اللہ تعالٰی کا منزہ ہونا ضروری ہے اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فلاسفہ نے معنی مذکورہ کے ساتھ قدرت کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کے اعتقاد میں یہ نقص ہے اورانھوں نے اس کی ذات اقدس کے لئے یہ زعم کرتے ہوئے ایجاب کا ثبوت کیا ہے کہ یہ کمال تام ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ شرح المواقف     المقصد الثالث فی علمہ تعالٰی        منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸ /۷۴)

(۲؎شرح المواقف    المقصد الثانی فی قدرتہ تعالٰی        منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸ /۴۹)

 

پھر شرع مطہر کی طرف رجوع کیجئے تو مسئلہ اعلٰی ضروریات دین سے ہے جس طرح قرآن وحدیث نے باری جل مجدہ کی توحید ثابت فرمائی یو ہیں ہر عیب ومنقصت سے اس کی تنزیہ وتقدیس اور خود کلمہ طیبہ سبحانہ اللہ واسمائے حسنی سبوح وقدوس کے معنی ہی یہ ہیں ولہذا تسبیحات حضور پر نورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں وارد سبحان الذی لاینبغی التسبیح الالہ (پاک ہے وہ ذات کہ پاکیزگی فقط اسی کے لئے ہے۔ ت) جس کے باعث توقروہ پر وقف اور تسبحوہ کو اس سے فصل کیا گیا، پر مرتبہ اجمال میں اس پر اجماع اہل اسلام منعقد، کوئی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) کہنے والا اپنے رب عزوجل پر عیوب ونقائص روانہ رکھنے گا۔

فالاجماع فی الدرجہ الثالثۃ من الادلۃ لاانہ العمدۃ فی اثبات المسئلۃ کما وقع عن بعض الاجلۃ فاعرف۔

دلائل شرعیہ میں اجماع کا تیسرا درجہ ہے یہ نہیں کہ اجماع اثبات مسئلہ کے لئے بہتر صورت ہے جیسا کہ بعض بزرگوں سے ہے اسے اچھی طرح سمجھ لیجئے۔ (ت)

 

دلیل دوم: العظمۃ للہ اگر کذب الٰہی ممکن ہو تو اسلام پر وہ طعن لازم آئیں کہ اٹھائے نہ اٹھیں، کافروں ملحدوں کو اعتراض ومقال وعناد وجدال کی وہ مجالیں ملیں کہ مٹائے نہ مٹیں۔ دلائل قرآن عظیم ووحی حکیم یک دست ہاتھ سے جائیں حشر ونشر وحساب وکتاب وجنت ونار وثواب وعذاب کسی پر یقین کی کوئی راہ نہ پائیں کہ آخر ان امور پر ایمان صرف اخبار الٰہی سے ہے جب معاذاللہ کذب الٰہی ممکن ہو تو عقل کو ہر خبرالٰہی میں احتمال رہے گا، شاید ہونہی فرمادی ہو، شاید ٹھیک نہ پڑے سبحٰنہ وتعالٰی عمایصفون، ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم (پاک اور بلند ہے اللہ تعالٰی کی ذات جس کی عبارت سے جو وہ بیان کرتے ہیں ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم۔ ت) یہ دلیل شرع مقاصد میں افادہ فرمائی جس کی عبارت نص چہارم میں گزری، اور امام رازی نے بھی تفسیر کبیر میں زیر قولہ تعالٰی وتمت کلمت ربک صدقا وعدلا (پوری ہے بات تیرے رب کی سچ وانصاف میں۔ ت) اس کی طرف اشعار کیا کذب الٰہی کے محال ہونے پر دلیل عقلی قائم کرکے فرماتے ہیں: ولایجوز اثبات ان الکذب علی اﷲ محال بالدلائل السمعیۃ لان صحۃ الدلائل السمعیۃ موقوفۃ علی ان الکذب علی اﷲ محال فلو اثبتنا امتناع الکذب علی اﷲ تعالٰی بالدلائل السمعیۃ لزم الدور و ھو باطل ۱؎۔ اللہ تعالٰی سے کذب کے محال ہونے کو دلائل سمعیہ سے ثابت کرنا جائز ہی نہیں کیونکہ خود ان دلائل سمعیہ کی صحت اس پر موقوف ہے کہ کذب اللہ تعالٰی سے محال ہے اگر ہم اللہ تعالٰی کسے امتناعی کذب کو دلائل سمعیہ سے ثابت کریں گے تو دور لازم آجائے گا جو باطل ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ مفاتیح الغیب    تحت آیۃ وتمت کلمت ربک   المطبعۃ البہیہ مصر    ۱۳/ ۱۶۱)

 

اقول وباللہ التوفیق۔ تنویردلیل یہ ہے کہ عقلی جس امر کو ممکن جانے گی اور ممکن وہی جسے وجود وعدم وجود دونوں سے یکساں نسبت ہوتو چاہئے وہ امر کیسا ہی مستعبد ہو مگر عقل از پیش خویش اس کے ازلاً ابداً عدم وقوع پر جزم نہیں کرسکتی کہ ہر ممکن مقدور اور ہر مقدور صالح تعلق ارادہ اور ارادہ الہیہ امر غیب ہے جس تک عقل کی اصلا رسائی نہیں پھر وہ بطور خود کیونکر کہہ سکتی ہے کہ اگرچہ کذب الٰہی زیر قدرت ہے مگر مجھے اس کے ارادہ پر خبر ہے کہ ازل سے ابد تک بولا نہ بولے، ارادہ پر حکم وہیں کرسکتے ہیں جہاں خود صاحب ارادہ جل مجدہ خبر دے کہ فلاں امر ہم کبھی صادر نہ فرمائیں گے، کقولہ تعالٰی: لایکلف اﷲ نفسا الا وسعھا ۲؎۔ اللہ تعالٰی کسی نفس کو ا س کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ (ت)

 

(۲؎ القرآن الکریم       ۳/ ۲۸۶)

 

وقولہ تعالٰی : یرید اﷲ بکم الیسر ولایرید بکم العسر ۱؎۔ اللہ تعالٰی تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتاہے تم پر تنگی کا ارادہ نہیں فرماتا۔ (ت)

 

(۱؎ القرآن الکریم      ۲/ ۱۸۵)

 

امام فخر الدین رازی تفسیر سورہ بقر میں زیر آیۃ کریمہ ام تقولون علی اﷲ مالاتعلمون  (یا تم اللہ تعالٰی کے بارے میں

ایسی بات کہتے ہو جس کا تمھیں علم نہیں۔ ت) فرماتے ہیں: الاٰیۃ تدل علی فوائد (الی ان قال) ثانیہا ان کل ماجاز وجودہ وعدمہ عقلالم یجز المصیر الی الاثبات اوالی النفی لابدلیل سمعی ۲؎۔ یہ آیت مبارک ان فوائد پر دال ہے (آگے چل کر کہا) دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جس شیئ کا وجود ودم عقلا جائز ہو اس کے اثبات ونفی کے لئے سمعی کی طرف رجوع ضروری ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ مفاتیح الغیب     تحت آیۃ ام تقولون علی اﷲ مالاتعلمون    المطبعۃ البہیہ مصر    ۳/ ۱۶۰)

 

اور تفسیر سورہ انعام میں زیر قول تعالٰی : قل اﷲ شہید بینی وبینکم قف  (فرمادیجئے اللہ تعالٰی میرے اور تمھارے درمیان گواہ ہے۔ ت) فرماتے ہیں : المطالب علی اقسام ثلثۃ منھا ما یمتنع اثباتہ بالدلائل السمعیۃ، فان کل ما یتوقف  صحۃ السمع علی صحت امتنع اثباتہ بالسمع والالزم الدور، ومنھا مایمتنع اثباتہ بالعقل وھو کل شیئ یصح وجودہ ویصح عدمہ عقلا فلا امتناع فی احد الطرفین اصلا فالقطع علی احد الطرفین بعینہ لایمکن الابالدلیل السمعی ۳؎ الخ۔ مطالب کی تین اقسام ہیں: ایک جن کا اثبات دلائل سمعیہ سے ممتنع ہے کیونکہ ہر وہ چیز جس کا اثبات صحت سمع پر موقوف ہے اس کا اثبات سمع سے نہیں ہوسکتا ورنہ دور لازم آئے گا، دوسراجن کا اثبات عقل سے ممتنع ہے اور وہ ہر شی ہے جس کاوجود وعدم عقلا صحیح ہو وہ دونوں میں سے کوئی ممتنع نہ ہو تو اب ایک جانب میں یقین دلیل سمعی کے بغیر ممکن نہیں الخ (ت)

 

 (۳؎مفاتیح الغیب         قل ای شی اکبر شہادۃ الخ   المطبعۃ البہیہ مصر    ۱۲/ ۱۷۶)

 

امام الحرمین قدس سرہ کتاب الارشاد میں ارشاد فرماتے ہیں: اعلموا وفقکم اﷲ تعالٰی ان اصول العقائد تنقسم الی مایدریک عقلا ولایسوع تقدیر ادراکہ سمعا، الی مایدریک سمعا ولایتقدر ادارکہ عقلاو الی مایجوز ادراکہ سمعا وعقلا فاما مالایدرک الاعقلا فکل قاعدۃ فی الدین یتقدم علی العلم

بکلام اﷲ تعالٰی ووجوب اتصافہ بکونہ صدقا اذا السمعیات تستندالی کلام اﷲ تعالٰی وماسبق ثبوتہ فی المرتبۃ علی ثبوت الکلام وجوبا فیستحیل ان یکون مدرکہ السمع واماما لایدرک الاسمعا فھو القضاء بوقوع مایجوز فی العقل فلایتقدرالحکم بثبوت الجائز ثبوتہ فیما یتقدر الحکم بثبوت الجائز ثبوتہ فیما غاب عنا الابسمع ۱؎ الخ۔ جان لو (اللہ تعالٰی تمھیں توفیق دے) اصول عقائدکی تقسیم یوں ہے کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا ادراک عقل ہے ان کا ادراک سمعی جائز ہی نہیں، کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کا ادراک سمعی ہے ان کا ادارک عقلی نہیں ہوسکتا، کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا ادراک عقلا اور سمعا دونوں طرح جائز ہوتاہے، وہ چیزیں جن کا ادراک فقط عقلا ہے تو دین کا ہر وہ قاعدہ جو اللہ تعالٰی کے کلام اور صدق سے اس کے وجوبی اتصاف سے پہلے ہے کیونکہ دلائل سمعیہ کا اعتماد اثبات کلام الٰہی سے ہوتا ہے تو جس کے مرتبہ کا ثبوت کلام کے ثبوت سے پہلے ہونا لازم ہے تو اب محال ہے کہ اس کا سبب ادراک سمع ہو اور جن چیزوں کا ادراک فقط سمع سے ہے تو وہ عقلی طورپر جائز الوجود چیزکے وقوع کافیصلہ ہے تو سمع کے بغیر کسی جائز الوجود چیز جو ہم سے غائب ہے کے ثبوت کا حکم جائز الوجود چیز سے نہیں ہوسکتا الخ (ت)

 

(۱؎ الارشاد فی الکلام)

 

شرح عقائد نسفی میں ہے: القضایا منھا ماھی ممکنات لاطریق الی الجزم باحدجانبھا فکان من فضل اﷲ ورحمتہ ارسال الرسل لبیان ذٰلک۲؎ اھ ملخصا۔ کچھ چیزیں ان میں سے ممکن ہیں ان کی کسی ایک جانب کا جزم نہیں ہوسکتا تو اس کے بیان کے لئے رسولوں کا بھیجنا اللہ تعالٰی کا فضل ورحمت ہے اھ ملخصا (ت)  (۲؎ شرح العقائد النسفیہ    بیان ارسال رسل    دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان    ص۹۸)

 

میں کہتاہوں اب آدمیوں ہی میں دیکھ لیجئے کہ جوکام زید کی قدرت میں ہے دوسرا ہر گز اس پر جزم نہیں کرسکتا کہ وہ کبھی اسے نہ کرے گا پھر یہاں بعد اخبار زید بھی جزم وتیقن کی راہ نہیں۔ مثلا زید کہے بلکہ قسم بھی کھائے کہ میں اس سال ہر گز سفر نہ کروں گا تاہم دوسرا اگرچہ صدق زید کا کیسا ہی معتقد ہو قسم نہیں کھا سکتا کہ زید اس سال یقینا سفر نہ کرے گا اور کھائے تو سخت جری وبیباک اور نگاہ عقلاء میں ہلکا ٹھہرے گا تو وجہ کیا، وہی کہ غیب کا حال معلوم نہیں اور زید کی بات سچی ہی ہونی کیا ضرور ممکن کہ فرق پڑجائے جب یہ مقدمہ ذہن نشین ہو لیا اور اب تم نے کذب الٰہی کہ زیر قدرت مانا تو عقلا ہر خبر میں احتمال کذب ہواہی رہا یہ کہ خبر الٰہی یقین دلائے کہ اللہ عزوجل اگرچہ جھوٹ بولنے پر قادر ہے، مگر نہ کبھی بولا، نہ بولے ہیہات اس یقین کی طرف بھی کوئی راہ نہیں کہ آخریہ کلام الٰہی سے خود ایک کلام ہوگی تو عقلا ممکن کہ یہی بروجہ کذب صادر ہوئی ہو پھر وہ کون سا ذریعہ وثوق رہا جس کے سبب عقل یقین کرسکے یہ ممکن جو قدرت الٰہی میں تھا واقع نہ ہواخلاصہ یہ کہ جب کذب عقلا ممکن تو استحالہ عقلی تو تم خود نہیں مانتے، رہا استحالہ شرعی وہ دلیل شرع سے مستفاد ہوتاہے اور دلائل شرع سب کلام الٰہی کی طر ف منتہی۔ کما مر من ارشاد امام الحرمین (جیسا کہ امام الحرمین کے ارشاد سے گزرا۔ ت) تو جس کلام الٰہی سے کذب الٰہی کا استحالہ ثابت کیجئے پہلے خود اسی کلام الٰہی کا وجوب صدق شرعا ثابت کیجئے، لاجرم دو ریا تسلسل سے چارہ نہیں، اب عقلی وشرعی دونوں استحالے اٹھ گئے اور اللہ تعالٰی کی بات معاذاللہ زید وعمرو کی سی بات ہو کررہ گئی تعالٰی اﷲ عما یقولون علوا کبیرا (یہ جو کہتے ہیں اللہ تعالٰی اس سے نہایت ہی بلند ہے۔ ت) پھر حشر ونشر وجنت ونار وغیرہا تمام سمعیات پر ایمان لانے کا کیا ذریعہ ہے، ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العظیم، ھذا ماعندی فی تقریر دلیل ھٰؤلاء الاعلام وفی المقام ابحاث طوال تعرف بالغوص فی الجج الکلام  (میرے نزدیک ان علماء اعلام کی دلیل کی وضاحت وتفصیل یہی ہے اس مقام پر بڑے تفصیل مباحث ہیں جو کلام کے سمندر میں غوطہ زن ہونے سے معلوم ہوتے ہیں۔ ت)

 

دلیل سوم:  مواقف وشرح مواقف میں ہے : ۤاما امتناع الکذب علیہ تعالٰی عندنا فثلثۃ اوجہ (الٰی ان قال) وایضا فیلزم علی تقدیر ان یقع الکذب فی کلامہ سبحانہ ان نکون نحن اکمل منہ فی بعض الاوقات اعنی وقت صدقنا فی کلامنا ۱؎۔ یعنی کذب الٰہی کا محال ہونا ہم اہلسنت کے نزدیک تین دلیل سے ہے ایک یہ کہ اس کے کلام میں کذب آئے تو بعض وقت ہم اس سے اکمل ہوجائیں یعنی جس وقت ہم اپنے کلام میں سچے ہوں۔

 

 (۱؎ شرح المواقف    المقصد السابع فی انہ تعالٰی متکلم    منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸/ ۱۰۱)

 

اقول تقریر دلیل یہ ہے کہ ہر محکی عنہ میں امکان کہ انسان اسے بروجہ صحیح حکایت کرے اور شک نہیں کہ جس حکایت میں جو سچا ہو وہ اس میں جھوٹے پر خاص اس وجہ کی رو سے فضل رکھتاہے اگرچہ اور کروڑوں وجہ سے مفضول ہو، اب اگر کذب الٰہی ممکن ہو تو معاذاللہ جس وقت وہ جھوٹ بولے اور انسان اسی بات کومطابق واقع اداکرے تو لازم کہ آدمی اس وجہ سے افضل ہوجائے اورباری عزوجل پر کسی جہت سے کسی مخلوق کو کسی طرح کا فضل جزئی بھی اگرچہ نہایت ضعیف ومضمحل ہو ملنا محال، تو ثابت ہو اکہ مکان کذب باطل خیال ہے فافھم والعزۃ ﷲ ذی الجلال (پس غور کیجئے اور عزت اللہ ذوالجلال کے لئے ہے۔ ت)

 

ثم اقول اس دلیل کی ایک مختصر تقریر یوں ممکن ہے کہ اگر کذب خالق ممکن ہو تو کتنی بڑی شناعت ہے کہ خلق سچی اور خالق جھوٹا، العیاذ باللہ رب العالمین، لیکن صدق خلق محال نہیں توکذب خالق ممکن نہیں۔

 

دلیل چہارم: جس کی طرف امام فخر الدین رازی نے نص ۱۶ میں اشارہ فرمایا کہ جب اہلسنت کے نزدیک اللہ عزوجل کا صدق ازلی تو کذب محال کہ ہر ازلی ممتنع الزوال، اقول وباللہ التوفیق تصویر دلیل یہ ہے کہ اللہ عزوجل پر اسم صادق کا طلاق قطع نظر اس سے کہ قرآن (عہ) وحدیث واجماع سے ثابت، مخالفان عنید یعنی طائفہ جدید کو بھی مقبول کہ وہ بھی اللہ عزوجل کو صادق بالفعل تو مانتےہیں اگرچہ صادق بالضرورۃ ہونےسے انکار کرتےہیں کہ جب کذب ممکن جانا اور امکان نہیں مگر جانب مخالف سے سلب ضرورت تو لاجرم باری تعالٰی کے صادق ہونے کو ضروری نہ مانامگر جاہل کہ صادق بالفعل ماننا ہی ان کے مذہب نامہذب کا استیصال کر گیا کہ جب وہ صادق ہے اور صدق مشتق قیام مبدء کو مستلزم، تو واجب کہ صدق اس کی ذات پاک سے قائم اور ذات الٰہی سے قیام حوادث محال، تو ثابت کہ صدق الٰہی ازلی ہے بعینہ اسی طریقہ سے ہمارے ائمہ کرام نے تکوین وغیرہ کا صفات ازلیہ سے ہونا ثابت فرمایا۔ عہ : اما القراٰن فقولہ تعالٰی ذٰلک جزینٰھم ببغیھم وانا لصدقون ۱؎ o وقول تعالٰی من اصدق من اﷲ قیلا ۲؎o فان المعنی ان اﷲ تعالٰی اصدق قائل وحمل الاصدق حمل الصادق مع زیادۃ واماالحدیث فقد عد الصادق من الاسماء الحسنٰی فی حدیث ابن ماجۃ ۳؎ وحدیث الحاکم فی المستدرک وابی الشیخ و ابن مردویۃ فی تفسیریھما وابی نعیم فی کتاب الاسماء الحسنٰی کلھم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واما ا لاجماع فظاھر لاینکر ۱۲ منہ۔

 

قرآن میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے یہ ہم نے ان کی بغاوت کی سزادی اور ہم یقینا سچے ہیں،دوسرے مقام پر فرمایا: اللہ تعالٰی سے بڑھ کر کون زیاد سچاہے، معنی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی سب سے بڑھ کر صادق ہے، اور اصدق کا حمل صادق مع زیادۃ کا حمل ہے رہی حدیث تو حدیث میں اسماء حسنٰی میں صادق کو شمار وشامل کیا گیاہے، اور یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی ہے اور اسے ابن ماجہ، حاکم نے مستدرک میں، ابوالشیخ اور ابن مردویہ نے اپنی تفاسیر اور امام ابو نعیم نے ''کتاب الاسماء الحسنی'' میں ذکر کیا، رہا اجماع تو واضح ہے، اس کا انکار کیا ہی نہیں جاسکتا ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ القرآن الکریم    ۶/ ۱۴۶)

(۲؎ القرآن اکریم                        ۴/ ۱۲۲)

(۳؎ سنن ابن ماجہ     ابواب الدعاء باب اسماء اللہ عزوجل    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۲۸۳)

 

شرح عقائد نسفی میں ہے :  (التکوین صفۃ) ﷲ تعالٰی لاطباق العقل و النقل علٰی انہ تعالٰی خالق للعالم مکون لہ وامتناع اطلاق الاسم المشتق علی الشیئ من غیر ان یکون ماخذ الاشاق وصفالہ قائمہ بہ (ازلیۃ) بوجوہ الاول انہ یمتنع قیام الحوادث بذاتہ تعالٰی لما مر ۱؎ اھ ملخصا۔  (تکوین صفت ہے) اللہ تعالٰی کی، کیونکہ عقل ونقل اس پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالٰی جہاں کا خالق اور بنانے والا ہے اور کسی شے، پر اسم مشتق کا اطلاق اس وقت تک ممتنع ہوتاہے جب تک مادہ اشتقاق اس کا وصف اوراس کے ساتھ قائم نہ ہو (ازلی ہے) اس پر متعدد دلائل ہیں، اول یہ کہ اللہ تعالٰی کی ذات اقدس کے ساتھ حوادث کاقیام ممتنع ہے جیساکہ گزرچکا ہے اھ ملخصا (ت)

 

 (۱؎ شرح العقائد النسفیہ    بیان صفات باری تعالٰی    دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان    ص۵۰)

 

اسی میں ہے: اﷲ تعالٰی متکلم بکلام ھو صفۃلہ ضرورۃ امتناع اثبات المشتق لشیئ من غیرقیام ماخذ الاشتقاق بہ ۲؎۔ اللہ تعالٰی متکلم بکلام ہے اور یہ اس کی صفت ہے کیونکہ یہ بدیہی بات ہے کہ کسی شیئ کے لئے مشتق کا اثبات اس کے ساتھ ماخذ اشتقاق کے قیام کے بغیر ممتنع ہوتاہے۔ (ت)  (۲؎شرح العقائد النسفیہ    بیان صفات باری تعالٰی    دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان    ص۴۴)

 

منح الروض میں مسامرہ سے ہے : الایمان من صفات اﷲ تعالٰی من اسمائہ الحسنی ''المؤمن'' کما نطقق بہ الکتاب العزیز، وایمانہ ھو تصدیقہ فی الازل بکلامہ القدیم ولایقال ان تصدیقہ محدث ولامخلوق تعالٰی اﷲ ان یقوم بہ الحادث ۱؎ اھ ملخصا۔ ایمان، اللہ تعالٰی کی صفات میں سے ہے کیونکہ ا س کے اسماء حسنی میں ''المؤمن'' بھی ہے جیسا کہ قرآن عزیز اس پر ناطق ہے اور اس کا ایمان ازل میں کلام قدیم کی تصدیق ہے،یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ا س کی تصدیق محدث ومخلوق ہے کیونکہ وہ اس سے بلند ہے کہ اس کے ساتھ کوئی حادث قائم ہو  اھ ملخصا (ت)

 

 (۱؎ منح الروض الازہر شرح فقہ الکبر     باب الایمان مخلوق اولا    مصطفی البابی مصر    ص۱۴۳)

 

اور جب صدق الٰہی ازلی ہوا تو امکان کذب کا محل نہ رہا کہ اس کا وقوع بے انعدام صدق ممکن نہیں تحقیقا لمعنی التضاد (کیونکہ ان میں تضاد پایا جاتا ہے، ت) اورانعدام صدق محال ہے کہ علم کلام میں مبین ہوچکا کہ قدیم اصلا قابل عدم نہیں فتبصر۔

 

دلیل پنجم: اگر باری عزوجل کذب سے متصف ہوسکے تو اس کا کذب اگر ہوگا توقدیم ہی ہوگا کہ اس کی کوئی صفت حادثہ نہیں، اور جو قدیم ہے معدوم نہیں ہوسکتا، تو لازم کہ صدق الٰہی محال ہوجائے حالانکہ یہ بالبداہۃ باطل، توکذب سے اتصاف ناممکن، یہ دلیل تفسیر کبیر و مواقف وشرح مقاصد میں افادہ فرمائی، امام کی عبارت یہ ہے زیر قولہ تعالٰی ومن اصدق من اﷲ حدیثا ۲؎ (اللہ تعالٰی سے بڑھ کر کون سے سچی بات فرمانے والا۔ ت)

 

(۲؎ القرآن الکریم    ۴/۸۷)

 

امتناع کذب الٰہی پر اہل سنت کی دلیل بیان کرتے ہیں: اما اصحابنا فدلیلھم انہ لوکان کاذبا لکان کذبہ قدیما، ولو کان کذبہ قدیما لامتنع زوال کذبہ لامتناع العدم علی التقدیم، ولوامتنع زوال کذبہ قدیما لامتنع کونہ صادقا، لان وجود احد الضدین یمنع وجود الضد الاٰخر فلو کان کاذبا لامتنع ان یصدق لکنہ غیر ممتنع، لانا نعلم بالضرورۃ ان کل من علم شیئا فان لایمتنع علی ان یحکم علیہ بحکم مطابق للمحکوم علیہم والعلم بھذہ الصحۃ ضروری، فاذاکان امکان الصدق قائما کان امتناع الکذب حاصلا لامحالۃ ۱؎۔ ہمارے علماء کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ کاذب ہے تو اس کا کذب قدیم ہوگا اور اس کا کذب قدیم ہے تو اس کے کذب کا زوال ممتنع ہوگا کیونکہ قدیم پر عدم، ممتنع ہوتاہے، اوراگر سا کے کذب کا زوال قدیما ممتنع ہے تو اس کا صادق ہونا ممتنع ہوگا کیونکہ ضدین میں سے ایک کا وجود دوسرے کے وجود کے لئے امتناع کاسبب ہوتاہے،تواگر وہ کاذب ہے تو اس کا صادق ہونا ممتنع ہوگا لیکن یہ تو ممتنع نہیں کیونکہ ہم بداہۃ جانتے ہیں کہ جو شخص کسی شی کے بارے میں علم رکھتاہو اس کے لئے اس شے پر محکوم علیہ کے مطابق حکم لگانےمیں کوئی امتناع نہیں اور اس ضابطہ کی صحبت کا علم و یقین ضروری ہے جب امکان صدق قائم ہے تو کذب کا حصول ہر صورت میں ممتنع ہوگا۔ (ت)

 

(۱؎ مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر)  تحت آیۃ ومن اصدق من اللہ حدیثاً    المطبعۃ البہیۃ مصر       ۱۰/ ۲۱۷، ۲۱۸)

 

اقول وباللہ التوفیق تحریر دلیل یہ ہے کہ تم نے باری عزوجل کا تکلم بکلام کذب تو ممکن مانا اس کا کاذب ومتصف بالکذب ہونا بھی ممکن مانتے ہو یا نہیں؟ اگر کہئے نہ تو قول بالمتناقضین اور بداہت عقل سے خروج ہے کہ کاذب ومتصب بالکذب نہیں مگر وہی جو تکلم بکلام(عہ) کذب کرے اسے ممکن کہہ کر اسے محال ماننا نرا جنون ہے۔ اور اگر کہئے ہاں، تو اب ہم پوچھتے ہیں یہ انصاف صرف لم یزل میں ممکن یا ازل میں بھی شق اول باطل کہ امکان قیام حوادث کو مستلزم اور شق ثانی پر جب ازلیت کذب ممکن ہوئی تو اس کا ممتنع الزوال ہونا ممکن ہوا کہ ہر ازلی واجب الابدیۃ اور کذب کا امتناع زوال استحالہ صدق کو مستلزم کہ کذب وصدق کا اجتماع محال، جب اس کا زوال محال ہوگا ا س کا ثبوت ممتنع ہوگا، اورامکان وجود ملزوم امکان وجود لازم کو مستلزم، تحقیقا لمعنی اللزوم حیث کان ذاتیا لالعارض کما ھٰھنا (معنی لزوم کے ثبوت کی وجہ سے ذاتی ہے نہ کہ کسی عارض کی وجہ سے، جیساکہ یہاں ہے۔ ت) تو لازم آیا کہ صدق الٰہی کا محال ہونا ممکن ہواور استحالہ اسی شے کا ممکن ہوگا جو فی الواقع محال ہو بھی کہ ممکن کا محال ہوجا ہر گز ممکن نہیں ورنہ انقلاب لازم آئے اوروہ قطعا باطل۔ تو ثابت ہوا کہ اگرباری تعالٰی کا امکان کذب مانا تو اس کا صدق محال ہوگا لیکن وہ بالبداہۃ محال نہیں تو امکان کذب یقینا باطل، اور استحالہ کذب قطعا حاصل۔ والحمد اﷲ اصدق قائل الدلائل الفائضۃ علی قلب الفقیر بعون القدیر عز جدہ وجل مجدہ۔

 

تمام تعریف اللہ تعالٰی کی ان سچے دلائل پر جو قدیر عزجدہ وجل مجدکی مدد سے فقیر کے دل پر وارد ہوئے۔ (ت)

 

عہ:  ای انشاء لاحکایۃ اذلاکلام فیہا کما لایخفی ففی القراٰن العظیم جمل عن الکفار من اراجیفھم الباطلۃ ۱۲ منہ

 

یعنی بطور انشاء نہ کہ بطور حکایت کیونکہ اس میں کلام ہی نہیں جیسا کہ واضح ہے تو قرآن میں ایسے جملے موجود ہے جن میں کفار کی باطل اداکا تذکرہ ہے ۱۲ منہ (ت)

 

دلیل ششم: اقول وبحول اﷲ اصول (میں کہتاہوں اور اللہ تعالٰی کی توفیق سے بیان کرتاہوں( کلام الٰہی از ل میں بایجاب کلی حق تھا، معاذاللہ اس کا بعض باطل یا نہ حق نہ باطل شق ثانی تو کفر صریح(عہ۱) اور ثالث میں مطابقت ولا مطابقت دونوں کا ارتفاع اور وہ قطعا محال، اولا(عہ۲) بالبداہۃً۔

 

فان ارتفاع محمول الانفصال الحقیقی عن الموضوع کارتفاع النقیضین۔ کیونکہ انفصال حقیقی کے دونوں محمول کا موضوع سے ارتفاع نقیضین کے ارتفاع کی طرح ہوتاہے۔ (ت)

 

عہ۱:  ای فلایرضی بہ المخالف ایضا فلاینافی عقلیۃ البرھان وانما اکتفی بہ قصرا للمسافۃ والافلہ طریق قدعرفت وھو

وجوب الکذب وامتناع الصدق الباطل ببداھۃ العقل ۱۲ منہ

 

یعنی اس پر مخالف بھی راضی نہ ہوگا اور یہ عقلی برہان کے منافی نہیں اختصاراً اس پر اکفتاء کر لیا گیا ورنہ اس کے لئے وہ طریق جو جان چکا کہ وہ کذب کا وجوب اور صدق کا امتناع ہے جو بداہۃ عقل سے باطل ہے ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۲:  فیہ المقنع وحدیث الاجماع والنص تبرعی ۱۲ منہ۔

 

یہی کافی ہے اجماع اور نص کی بات بطور تبرع ونفل ہے ۱۲ منہ (ت)

 

ثانیا باجماع عقلاً، حتی الجاحظ المعتزلی وانما نزاعہ(عہ۳) فی مجرد السمیۃ۔ حتی کہ جاحظ معتزلی بھی قائل ہے نزاع محض نام میں ہے۔ (ت) عہ۳: الخبر عند الجمہور اما صادق او کاذب لانہ امامطابق للواقع الذی ھو الممخبر عنہ وھو الصادق، اولامطابق وھو الکاذب وھذہ المنفضلۃ حقیقیۃ دائرۃ بین النفی والاثبات ونزاع من نازع لیس الافی اطلاق لفظ الصدق والکذب لغۃ ھل ھما لھٰذین المعنین لافی صدق ھذہ المنفصلۃ ۱؎ اھ مسلم الثبوت مع شرح فواتح الرحموت لمولانا بحرالعلوم قدس سرہ ۱۲ منہ۔

 

جمہور کے نزدیک خبر صادق ہے یا کاذب، کیونکہ اگر وہ واقع کے مطابق نہیں تو کاذب، اور یہ مفصلہ حقیقیہ ہے جو نفی واثبات کے درمیان دائرہے اورجس نے بھی اس میں نزاع کیا ہے وہ صرف لغۃ لفظ صدق وکذب کے اطلاق میں کیا ہے کہ کیا وہ ان دونوں معنی کے لئے ہیں منفصلہ حقیقہ جس کے دونوں محمول مرتفع ہوں، کے صدق میں نہیں، اھ، مسلم الثبوت مع شرح فواتح الرحموت لمولانا بحرالعلوم قدس سرہ، ۱۲ منہ (ت)

 

(۱؎ فواتح الرحموت شرح المسلم الثبوت بذیل المستصفی    الاصل الثانی السنہ     منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۲/ ۱۰۷)

 

ثالثا خود قرآن عظیم نفی واسطہ پر ناطق، قال مولانا ذوالجلال فما ذا بعد الحق الاالضلل ۱؎۔ ہمارے مالک صاحب جلال کا فرمان ہے پھر حق کے بعدکیا ہے مگر گمراہی۔ (ت)

 

(۱؎ القرآن الکریم   ۱۰ /۳۲)

 

تو لاجرم شق اول متعین اور شاید مخالف بھی اس سے انکار نہ رکھتاہو اب ہم پوچھتے ہیں کذب ممکن علی فرض الوقوع صرف کسی کلام نقل کو عارض ہوگا یا نفیس کو بھی، اول محض بے معنی کہ صدق وکذب حقیقۃ موصوصف معنی ہے نہ صفت عبارت، ولہذا شرح مقاصد میں فرمایا : طریق اطراد ھذاالوجہ فی کلام المتنظم من الحروف المسموعہ انہ عبارۃ عن کلامہ الازلی ومرجع الصدق والکذب الی المعنی ۲؎۔

 

یہ تو ایسی کلام میں جاری ہو رہاہے جو صرف مسموعہ سے بنی ہے اوریہ کلام ازلی سے عبارت ہے اور صدق و کذب کا مرجع معنی ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ شرح المقاصد     المبحث السادس فی انہ تعالٰی متکلم    دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۲/ ۱۰۴)

 

بر تقدیر ثانی یہ کلام نفسی وہی کلام قدیم ہے یا علی تقدیر التجزی اس کا بعض ہوگا جو ازل میں ایجاباکلیاصادق تھا یا اس کا غیر شق ثانی پر قیام حوادث لازم اور اول میں انقلابِ صدق بکذب کہ کلامِ بشر میں بھی محال، سچی بات کبھی جھو ٹی (عہ) نہیں ہوسکتی، نہ جھوٹی کبھی سچی، ورنہ مطابقت ولا مطابقت میں تصادم لازم آئے اورتقیضین باہم نقیضین نہ رہیں،

 

عہ :  یہاں بعض اذہان میں یہ شبہہ گزرتاہے کہ زید آج قائم ہے توقضیہ زید قائم حق ہے، کل قائم نہ رہا تو زید لیس بقائم حق ہوگیا اور اس کی حقیقت اس کے کذب کو مستلزم، اقول ان صاحبوں نے فعلیہ ودائمہ میں فرق نہ کیا یا نہ جانا کہ دومطلقہ عامہ میں تناقص نہیں، مسلم الثبوت میں ہے :

 

الخبر الصادق صادق دائما والکاذب کاذب دائما ۳؎۔

 

خبر صادق ہمیشہ صادق اور خبر کاذب ہمیشہ کاذب ہوتی ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ مسلم الثبوت    الاصل الثانی السنۃ        مطبع انصاری دہلی    ص۱۷۶)

 

مولانا قدس سرہ فواتح میں فرماتے ہیں: ولایکن ان یدخلا فی شیئ من الاخبار، وفرق بین تحقق مصداق الخبر وصدقہ فان الاول قدیختلف بحسب الاوقات واما صدق خبر فدائم فان صدق المطلقۃ دائم فالصادق دائما، فلایدخلہ الکذب اصلا ولا اجتمعا والکذب کاذب دائما فایدخلہ الصدق اھ ملخصا ۱۲ منہ سلمہ اﷲ تعالٰی۔

 

دونوں کاکسی خبر میں جمع ہونا ممکن نہیں، اور خبر کے مصداق کے تحقق اوراس کے صدق میں فرق ہے کیونکہ پہلا اوقات کے اعتبار سے مختلف ہوتاہے ،رہا صدق خبر تو وہ دائمی ہے کیونکہ مطلقہ کا صدق دائمی ہوتاہے لہذا صادق ہمیشہ صادق ہی ہوگا اور اس میں کبھی بھی کذب داخل نہیں ہوسکتا ورنہ دونوں کا اجتماع ہوجائے گا اورکاذب ہمیشہ کاذب ہی رہے گا اس میں صدق داخل نہیں ہوسکتا اھ ملخصا ۱۲ منہ سلمہ اللہ تعالٰی (ت)

 

 (۱؎فواتح الرحموت بذیل المستصفٰی    الاصل الثانی السنۃ    منشورات الشریف الرضی قم ایران     ۲/ ۱۰۲)

 

بالجملہ کلام صادق کے لئے ثبوت صدق ضروری، تو سلب ضرورت ضرورۃً مسلوب، وھوالمطلوب۔ وانت تعلم ان صدور اکلام القدیم منہ سبحانہ وتعالٰی لیس علی وجہ الاختیار فان القدیم الایستندالی المختار من حیث ھومختار و القراٰن کلام اﷲ غیر مخلوق ولافی اقتدار فلایستزلک الشیطان ان الاستحالۃ انماجاءت من ان المولی سبحانہ وتعالٰی لم یصدر فی الازل الاکلاما صادقاً وھو لایقدر ان ان یخلق لنفسہ صفۃ حادثۃ فبقی الامکان فی بدو الامر علی ماکان۔

 

اورتم جانتے ہوا للہ تعالٰی سبحانہ سے کلام قدیم کا صدور اختیاری نہیں کیونکہ قدیم کسی مختار من حیث  مختار کی منسوب نہیں ہوسکتا، قرآن اللہ تعالٰی کا کلام ہے جو مخلوق نہیں اور تحت قدرت نہیں _____ تمھیں شیطان ا س بات سے نہ پھسلادے کہ  استحالہ یہاں سے لازم آیا کہ اللہ تعالٰی سے ازل میں کلام صادق ہی صادر ہوا، اور وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اپنی ذات کے لئے صفت حادثہ پیدا کرے تو ابتدائی امر میں امکان باقی رہا جیسا کہ تھا۔ (ت)

 

دلیل ہفتم: وھو اختصر واظھر اقول وباللہ التوفیق (جو نہایت مختصر اور بہت ہی واضح ہے، میں کہتاہوں اور توفیق اللہ سے ہے۔ ت) امکان کذب اس کی فعلیت بلکہ ضرورت کو مستلزم کہ اگرم کلام نفسی ازلی ابدی واجب للذات مستحیل التجدد وکذب پرمشتمل نہ ہو تو کلام لفظی کا کذب ممکن نہیں ورنہ وجوددال بلامدلول (عہ) یاکذب دال مع صدق المدلول لازم آئے اور یوں دونوں بالبداہۃ محال، او جب کلام لفظی میں کذب ممکن نہ ہو تو نفسی میں ممکن نہیں، ورنہ باری عزوجل کا عجز عن التعیر لازم آئے تو لاجرم امکان کذب ماننے والا اپنے رب کو واقعی کاذب مانتاہے اور اس کے کلام نفسی میں کذب موجود بالفعل جانتاہے اور وہاں فعل ودوام ووجوب متلازم وبوجہ آخر اوضح وازہر۔ عہ:  المدلول ھوالمعنی فلانقض بالمعدوم ۱۲ منہ

 

مدلول وہ معنی ہی ہے لہذامعدوم کے ساتھ کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۱۲ منہ (ت)

 

اقول وباﷲ التوفیق  (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) تمھارے دعوٰی کا حاصل یہ کہ بعض ماھوکلام اﷲ تعالٰی فھو ممکن الکذب بالضرورۃ  (اللہ تعالٰی کے کلام کابعض ضرور ممکن الکذب ہے۔ ت) اور شک نہیں کہ کل ماھو ممکن الکذ کاذب بالضرورۃ (اورجو  ممکن الکذب ہووہ ضرور کاذب ہوتاہے۔ ت) کہ کلام واحد میں امکان کذب بے فعلیت کذب متصورنہیں اور فعلیت کذب امتناع صدق اور امتناع صدق  ضرورت کذب ہے، نتیجہ نکلا بعض ماھو کلام اﷲ تعالٰی کاذب بالضرورۃ (اللہ تعالٰی کے کلام کا بعض ضرور کاذب ہے۔ ت) اب اس میں وصف عنوانی کا صدق خواہ بالفعل لوکماھو المشہور (جیساکہ یہ مشہور ہے۔ ت) خواہ بالامکان لو کما ھو عندالفارابی (جیسا کہ فارابی کے ہاں ہے۔ ت) ہر طرح باری عزوجل کا معاذاللہ کاذب بالفعل ہونا لازم، برتقدیر اول تو لزوم بدیہی، اور برتقدیر ثانی اس قضیہ یعنی بعض ماہو کلام اﷲ بالامکان العام کاذب بالضرورۃ  (جو اللہ تعالٰی کا کلام بامکان العام ہے وہ ضرور کاذب ہے۔ ت)کو کبرٰی کیجئے اور قضیہ کل ماھو کلام اﷲ بالامکان العام فھو کلام اﷲ بالفعل (ہر کلام جو کلام اللہ بامکان والعام ہے وہ بالفعل کلام اللہ ہے۔ ت) کو صغرٰی ثبوت صغرٰی یہ کہ باری تعالٰی کے لئے کوئی حالت منتظرہ نہیں۔ شکل ثالث کی ضرب خامس پھر وہی نتیجہ دے گی کہ بعض ماھو کلام اﷲ بالفعل کاذب بالضرورۃ (بعض کلام اللہ بالفعل ضرور کاذب ہے۔ ت) والعیاذباللہ تعالٰی، بلکہ حقیقۃ یہ وجہ دلیل (عہ) مستقل ہونے کے قابل، کما لایخفی علی المتأمل۔ واﷲ الموفق لابطال الباطل  (جیسا کہ کسی صاحب فکر پر مخفی نہیں، اور اللہ تعالٰی ہی ابطال باطل کی توفیق دینے والا ہے۔ ت) عہ : حاصل الوجہ الاول ان علی قول الامکان لابد من فعلیۃ فی الکلام النفسی و الا لامتنع فی اللفظی لانہ لایکون الاتعبیر ا عن نفسی ولاامکان ھھنا لنفسی اٰخر غیر ھٰذا الموجود المفروض ان لاکذب فیہ والتعبیر عن الصادق بالکاذب محال واذا متنع فی الفظی فی النفسی والالزم العجز عن التعبیر فلو لم یوجد فی النفسی بالفعل لامتنع اصلا لکنہ ممکن عندک فیجب ان یوجد فیدوم فیجب وحاصل الثانی ان لو امکن فی کلام لہ لوجد ذٰلک الکلام لعدم الانتظار فیکون بعض ماھو کلامہ بالفعل ممکن الکذب ولایمکن کذب کلام الا اذاکان کاذباً و الکاذب کاذب بالضرورۃ وظاہران بین الوجھین بوناً بیناً فھما دلیلان مستقلان حقیقۃ والحمد ﷲ وبہ التوفیق ۱۲ منہ سلمہ اﷲ تعالٰی۔

 

پہلی وجہ کا حاصل یہ ہے کہ قول امکان پر کلام نفسی میں فعلیت ضروری ہے ورنہ کلام لفظی میں امتناع ہوگا، جب لفظی میں امتناع ہوگا تو نفسی میں امتناع ضرور ہوگا کیونکہ لفظی صرف نفسی کی تعبیر ہے جبکہ اس موجود نفسی جس میں کذب نہ ہونا مفروض ہے کے علاوہ کسی اور نفسی کا امکان نہیں اور صادق کی کاذب کے ساتھ تعبیر محال ہے اور جب لفظی میں امتناع ہے تو نفسی میں بھی ہوگا ورنہ تعبیر سے عجز لازم آئے گا، اور اگر وہ نفسی میں عملا موجود نہیں تو وہ اصلا موجود نہ ہوگالیکن وہ تمھارے نزدیک ممکن ہے تو اس کا موجود ہونا ضروری ہوگا پس وہ دائمی اورواجب ہوگا اور ثانی وجہ کاحاصل یہ ہے کہ اگر یہ کلام میں ممکن ہوا تو عدم انتظار کی وجہ سے وہ کلام موجود ہوگا تو بعض کلام عملاً ممکن الکذب ہوگا اور کذب کلام اس وقت ممکن ہوگا جو وہ کاذب ہو، اور کاذب بالضرورۃ کاذب ہی ہوگا، تو بعض کلام عملا بالضرورۃ کاذب ہوگا تو دودلیلوں کے درمیان واضح بعد ہے لہذا یہ دونوں حقیقۃ مستقل دلیلیں ہیں، تمام تعریف اللہ تعالٰی کے لئے اور توفیق اس سے ہے ۱۲ منہ سلمہ اللہ تعالٰی (ت)

 

دلیل ہشتم اقول وباﷲ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) صدق الٰہی صفت قائمہ بذات کریم ہے ورنہ مخلوق ہوگا کہ ذات وصفات کے سوا سب مخلوق اور ہر مخلوق عدم سے مسبوق تو لازم کہ غیر متناہی دور ازل میں اللہ تعالٰی سچا نہ ہو، تعالٰی عن ذلک علوا کبیرا (اللہ تعالٰی اس سے بہت بلند ہے۔ ت) اور جب صدق صفت قائمہ بالذات ہے اور صفات مقتضائے ذات اور مقتضائے ذات میں تغیر محال کہ تغیر مقتضی تغیر مقتضی کو مقتضی اور تغیر ذات عموما محال خصوصا جناب عزت میں جہاں تغیر صفت بھی مستحیل تو لاجرم کذب منافی ذات ہوااور منافی ذات کا وقوع نافی ذات اس سے بڑھ کر اور کیا استحالہ متصور۔

 

دلیل نہم اقول وباﷲ التوفیق ہم زیر دلیل چہارم وہشتم بدلائل ثابت کرآئے کہ صدق صفت قائمہ بالذات ہے تو کذب بھی اگر ممکن ہو صفت ہی ہو کرممکن ہوگا۔ فانھما ضدان والتضاد مایکون بحسب الورود علی محل واحد (یہ دونوں ضدیں ہیں اور تضاد جو ایک محل پر ورود کی صورت میں ہوتاہے۔ ت) اب مخالف متعسف وفوراستحالات دیکھئے :اولا لازم کہ کذب الٰہی موجود بالفعل ہو کہ صفات باری میں کوئی صفت منتظرہ غیر واقعہ ماننا باطل ورنہ تاثر(عہ۱) بالغیر یا تخلف(عہ۲)مقتضی یا تاخر(عہ۳)اقتضا یا حدوث(عہ۴) مقتضی لازم آئے، تعالٰی اﷲ عنہ علوا کبیرا (اللہ تعالٰی اس سے بہت بلند ہے۔ ت)

 

عہ۱:  ان کان الاتصاف لامن الذات اقول ولو لتعلق الاارادۃ فان التعلق حادث و الحادث غیر فافھم فانہ علم فی نصف سطر ۱۲ منہ۔

 

اگر اتصاف ذات کے اعتبارسے نہ ہو، اقول اگرچہ تعلق ارادہ کے اعتبار سے ہو کیونکہ تعلق حادث ہے اور حادث غیر ہے، اسے اچھی طرح جان لو کیونکہ اس نصف سطر میں سارا علم ہے ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۲:  ان اقتضی الذات ازلا ولم یتحقق۱۲ منہ مدظلہ وزید فیضہ القوی۔

 

اگر ذات ازالاتقاضا کرے اور وہ متحقق نہ ہو ۱۲ منہ مدظلہ وزید فیضہ القوی (ت)

 

عہ۳:  ان اقتضی فیما لایزال لافی الازل ۱۲ منہ

 

       اگر وہ تقاضا کرے مگر ازل میں نہ ہو ۱۲ منہ (ت)

 

عہ ۴: ان فرعن الکل والترم تصاحب المقتضی والمقتضی ۱۲ منہ

 

  اگر سب سے فرار کرے اور متقضی اور متقضی کے ساتھ رہنے کا التزام کرے ۱۲ منہ (ت)

 

ثانیا واجب کہ کذب واجب ہو کہ صفات الہیہ سب واجب للذات ہیں۔

ثالثا صدق (عہ) الٰہی محال ٹھہرے کہ وجوب کذب امتناع صدق ہے۔

 

عہ : فرق بین بناء الکلام علی قدم الصفۃ وان ماثبت قدمہ استحال عدمہ وھی مقدمۃ عویصۃ الاثبات وبین بناء علی وجوبھا وامتناع ضدھا للذات وھو من اجلی الواضحات والحمد ﷲ رب البرایات ۱۲ منہ سلمہ اﷲ تعالٰی۔

 

کلام کی بناء پر صفت کے قدیم ہونے پر اور واجب ہونے پر اس میں فرق ہے، اول کا مقدمہ کہ جس کا قدم ثابت ہوااس کے عدم محال ہے، اس کا اثبات پیچدہ ہے، دوسرے کا مقدمہ کہ جو واجب ہوا س کی ضد ذات کے لئے ممتنع ہوتی ہے، یہ بہت واضح ہے، تمام تعریفیں کائنات کے رب کے لئے ہیں ۱۲ منہ سلمہ اللہ تعالٰی (ت)

 

رابعا کذب صفت کمال ہو کہ صفات باری سب صفات کمال۔

خامساً صدق صفت نقصان ہوکہ وہ عدم کذب کو مستلزم،اوراب عدم کذب عدم کمال،اور عدم کمال عین نقصان۔

سادساً۔ سابعاً، ثامناً :صدق (عہ۵)کل وکذب(عہ۶)جزئی، جب دونوں صفت(عہ۷) اور دونوں ممکن(عہ۸) تو دونوں واجب(عہ۹) تودونوں محال (عہ۱۰)تو اجتماع (عہ۱۱) نقیضین وارتفاع نقیضین واجتماع وارتفاع،سب حاصل،تاسع عشر، حادی عشر، بعینہٖ اسی طریقہ سے دونوں کمال، تو دونوں نقصان، تو دونوں مجمع کمال ونقصان، ثانی عشر، ثالث عشر، رابع عشر، جب دونوں صفت تو دونوں مقتضی، تو دونوں منافی، تو دونوں جامع اقتضاء وتنافی، خامس عشر جب دونوں مقتضی تو وجود ذات مستلزم اجتماع نقتیضین، اور جس کا وجود مستلزم محال ہو تو خود محال،تو بر تقدیر امکان کذب وجود باری معاذاللہ محال ٹھہرتاہے، مدعی معاند دیکھے کہ اس کی سلگائی آگ نے بھڑک کر کہاں تک پھونکا، یہ سردست پندرہ استحالے ہیں اور ہر استحالہ بجائے خود ایک دلیل مستقل، تو اب تک آٹھ اور پندرہ تیئس ۲۳ دلیلیں ہوئیں،

 

عہ۵:  یعنی ہر خبر میں صادق ہونا کہ بالفعل موجود ۱۲ منہ

عہ۶:  یعنی بعض اخبار میں صادق نہ ہونا کہ مخالف ممکن مانتاہے ۱۲ منہ

 

عہ ۷: الاولی لما فی الدلیل الرابع والثامن والثانی لمامر اٰنفا ۱۲ منہ۔

 

اول جیسا کہ چھوتی، آٹھویں اور دوسری میں ابھی گزرا ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۸:  ای بالامکان العام اماالاول فللو جود اما الثانی فبالفرض ۱۲ منہ۔

 

یعنی امکان عام کے ساتھ پہلا وجود کی وجہ سے اور دوسرا بالفرض ۱۲ منہ (ت)

 

عہ ۹: وان کل صفۃ تجب للذات ۱۲منہ۔

 

    کیونکہ ہرصفت ذات کےلئے لازم ہے ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۱۰:  فان وجوب کل یستلزم استحالۃ الاخر کما مر مرار ۱۲ منہ۔

 

کیونکہ ہر ایک کا وجوب دوسرے کے محال ہونے سے مستلزم ہے جیساکہ کئی دفعہ گزرا ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۱۱:  فان الصدق الکلی یستلزم عدم الکذب والکذب الجزئی عدم الصدق الکلی ۱۲ منہ

 

کیونکہ صدق کلی عدم کذب کو اور کذب جزئی عدم صدق کلی کو مستلزم ہے ۱۲ منہ (ت)

 

دلیل بست وچہارم اقول وباﷲ التوفیق، بالفرض اگر کذب کو عیب ومنقصت نہ مانئے تو اتنابالضرورۃ ضرور کہ کوئی کمال نہیں ورنہ مولٰی تعالٰی کے لئے واجب الثبوت ہوتا اور عقل سلیم شاہد کہ باری عزوجلہ کے لئے ایسی شی کا ثبوت بھی محال جو کمال سے خالی ہو اگرچہ نقص نہ ہو،

 

علامہ سعدالدین تفتازانی مبحث رابع فصل تنزیہات شرح مقاصد میں فرماتے ہیں : ان لم یکن من صفات الکمال امتنع اتصاف الواجب بہ للاتفاق علی ان کل مایتصف ھو بہ یلزم ان یکون صفۃ کمال ۱؎۔ اگر وہ صفات کمالیہ میںسے نہیں تو اس کے ساتھ واجب کا اتصاف ممتنع ہے کیونکہ اس پر اتفاق ہے کہ واجب جس کے ساتھ متصف ہوگا اس کا صفت کمال ہونا ضروری ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ شرح المقاصد  المبحث الرابع فی امتناعی اتصافہ بالحادث  دارالمعارف النعمانیہ لاہور   ۲/ ۷۱)

 

علامہ ابن ابی شریف مسایرہ میں فرماتے ہیں : یستحیل علیہ تعالٰی کل صفۃ لاکمال فیھا ولانقص لان کلان من صفات الالٰہ صفۃ کمال ۲؎۔ اللہ تعالٰی کے لئے ہر وہ صفت محال ہے جس میں نہ کمال ہو اور نہ نقص ہو کیونکہ اللہ تعالٰی کی ہر صفت صفت کمال ہے، (ت)

 

(۲؎ المسامرۃ شرح المسایرۃ  ختم المصنف کتابہ ببیان عقیدۃ اہل سنت اجمالا  المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی المصر    ص۳۹۳)

 

دلیل بست وپنجم اقول وباﷲ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) بداہت عقل شاہد عدل کہ جو مطلق کذب پر قادر ہوگا کذب مطلق پر بھی قدرت رکھے گا کہ بعض کلام میں کذب پر قادر اور بعض میں اس سے عاجز ہونے کے کوئی معنی نہیں، اور قرآن کلام اللہ قطعا حق جس کے بعض قضایا مثل قولہ تعالٰی لاالہ الااللہ وقولہ تعالٰی محمد رسول اللہ وغیرہما کے صدق پر عقل صرف بے توقف شرع وتوقیف سمع خود حکم کرتی ہے تو واجب کہ قرآن عظیم مقتضائے ذات نہ ہو، اورنہ کذب مطلق مقدور نہ رہے گا کہ کلام ہر گز کاذب نہیں ہوسکتا اور جو کچھ ذات نہ مقتضائے ذات وہ قطعا حادث ومخلوق تو کذب الٰہی کا ممکن ماننا قرآن عظیم کلام اللہ کے حادث ومخلوق ماننے کو مستلزم اب بعد تنبیہ بھی اصرار کرو تو اب معتزلی کرامی گمراہ ہونے سے کیوں انکار کرو۔

 

دلیل بست وششم اقول وباﷲ التوفیق (میں کہتاہوں اورتوفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) جب بر تقدیر امکان کذب، بوجہ بطلان ترجیح بلامرجح ونیز بحکم بداہت غیرمکذوبہ، ہر فرد کذب قدرت الٰہی میں ہوا تو ہر فرد صدق مقدور ہوگا ورنہ صدق البعض واجب یا محال ہوگا۔ تو کذب فی البعض محال یا واجب حالانکہ ہر فرد کذب مقدور مانا تھا، ''ہذا خلف'' پس صدق وکذب کا ہر ہر فرد و مقدور ہوا اور ہر مقدور حادث تو کلام الٰہی سے مطابقت ولامطابقت دونوں مرتفع، اویہ بداہۃ محال۔

 

دلیل بست وہفتم اقول وباﷲ التوفیق کتب حدیث وسیر مطالعہ کیجئے بہت خوش نصیب ذی عقل لبیب صرف جمال جہاں آرائے حضور پرنور سید عالم سرور اکرم مولائے اعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دیکھ کر ایمان لائے، کہ لیس ھذا وجہ الکذابین یہ منہ جھوٹ بولنے والے کا نہیں۔ اے شخص! یہ اس کے حبیب کا پیارا منہ تھا جس پر خوبی وبہار دوعالم نثار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، اور۳ پاکی وقدوسی ہے اس کے وجہ کریم کے لئے، واللہ ! اگر آج حجاب اٹھاویں تو ابھی کھلتا ہے کہ اس وجہ کریم پر امکان کذب کی تہمت کس قدر جھوٹی تھی، مخالف اسے دلیل خطابی کہے مگر میں اسے حجت ایقانی لقب دیتااور مسلمانوں کی ہدایت ایمانی سے انصاف لیتا اور اپنے رب کے پاس اس دن کے لئے ودیعت رکھتاہوں۔ "یوم ینفع الصّٰدقین صدقھم ۱؎، یوم لاینفع مال وبنون ۲؎۔ الامن اتی -اﷲ بقلب سلیم" ۳؎۔ وہ دن جس میں سچوں کو ان کا سچ کام آئے گا، جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے،مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر۔ (ت)

 

 (۱؎ القرآن الکریم        ۵/ ۱۱۹)                                                        (۲؎ القرآن الکریم        ۲۶ /۸۸) (۳؎ القرآن الکریم        ۲۶/ ۸۹)

 

باایں ہمہ اگر مجال باز نہ آئے تو دلیل ہفتم میں وجہ دوم کہ بجائے خود دلیل مستقل تھی، ا س کے عوض معدود جانے بہرحال تیس کا عدد کامل مانے۔

 

دلیل بست وہشتم :قال عزوجل: ومن اصدق من اﷲ قیلا ۴؎  (اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ہے)

 

 (۴؎ القرآن الکریم  ۴/ ۱۲۲)

 

اقول وباﷲ التوفیق آیہ کریمہ نص جلی کہ کذب الٰہی محال عقلی ہے، وجہ دلالت سنئے خادم تفسیر وحدیث و واقف کلمات فقہاء پر روشن کہ امثال عبارات اگرچہ بظاہر نفی مزیت غیر کرتی ہیں مگر حقیقۃ تفصیل مطلق ونفی برتر وہمسر کے لئے مسوق ہوتی ہیں۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے افضل کوئی نہیں یعنی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سب سے افضل ہیں ومن احسن من  اﷲ صبغۃ ۵؎ یعنی صبغۃ اللہ سب سے احسن ہے، ومن احسن قولاممن دعا الی اﷲ ۶؎ ای ھوا احسن قولامن کل من عداہ (اوراس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے، یعنی وہ دوسرے تمام سے قول میں خوبصورت ہے۔ ت)

 

 (۵؎ القرآن الکریم        ۲/ ۱۳۸)   (۶؎ القرآن الکریم        ۴۱ /۳۳)

 

علامۃ الوجود سیدی ابولسعود علیہ الرحمۃ الودود رتفسیر ارشاد میں زیر قولہ تعالٰی عزوجل ومن اظلم ممن افترٰی علی اﷲ کذبا ۱؎ (اللہ تعالٰی پر جھوٹ افترا بولنے والے سے کون بڑاظالم ہے۔ ت) فرماتے ہیں: ھو انکار واستعباد لان یکون احد اظلم ممن فعل ذٰلک اومساویالہ وان کان سبک الترکیب غیر معترض لانکار المساواۃ و نفیھا یشھد بہ العرف الفاشی والاستعمال المطرد، فانہ اذا قیل من اکرم من فلان اولا افضل من فلان فالمراد بہ حتما انہ اکرم من کل کریم وافضل من کل فاضل، الایری الی قولہ عزوجل لاجرم انھم فی الاٰخرۃ ھم الاخسرون o بعد قولہ تعالٰی ومن اظلم ممن افترٰی علی اﷲ کذبا الخ والسر فی ذٰلک ان النسبۃ بین الشیئین انما تتصور غالبا لاسیمافی باب المغالابۃ بالتفاوت زیادۃ ونقصانا فاذالم یکن احدھما ازید یتحقق النقصان لامحالۃ ۲؎۔

 

یہ انکار واستعبار ہے کہ اس سے بڑھ کر یا اس کے مساوی کوئی ظالم نہیں ہو سکتا اگرچہ بظاہر ترکیب انکار و نفی مساوات پر ضرب نہیں لیکن اس پر مشہور عرف اور مسلمہ استعمال شاہد ہے مثلا  جب یہ کہا جاتاہے  فلاں فلاں  زیادہ بزرگ ہے یا فلاں سے کوئی افضل نہیں، توا س سے یقینا مراد یہ ہے کہ ہر کریم سے اکرم اور ہر فاضل سے افضل ہے کیا رائے ہے اللہ تعالٰی کے اس فرمان مبارک میں  ''وہ یقینا آخرت میں خسارے میں ہیں'' جس کے بعد فرمایا  ومن اظلم ممن افترٰی علی اﷲ کذبا، اوراس میں راز یہ ہے کہ نسبت غالبا دو چیزوں کے درمیان خصوصا غلبہ میں تفاوت کے باب میں زیادتی اور نقصان میں متصور ہوتی ہے جب ان میں سے کوئی ایک زیادہ نہ ہو تو بہر حال نقصان کاہی تحقق ہوگا۔ (ت)

 

(۱؎ القرآن الکریم   ۶ /۲۱) (۲؎ ارشاد العقل السلیم (تفسیر ابی السعود)     تحت آیۃ ۶ /۲۱    داراحیاء التراث العربی بیروت  ۳ /۱۱۹)

 

تو لاجرم معنی آیت یہ ہیں کہ مولٰی عزوجل کی بات سب کی باتوں سے زیادہ صادق ہے جس کے صدق کو کسی کلام کا صدق نہیں پہنچتا اور پر ظاہر کہ صدق (عہ) کلام فی نفسہ اصلا قابل تشکیک نہیں کہ باعتبار ذوات قضایا خواہ اختلاف قدم وحدوث کلام یا بقا وفنائے سخن یا کمال ونقصان متکلم  خواہ کسی وجہ سے اس میں تفاوت مان سکیں، سچی سچی باتیں مطابقت واقع میں سب یکساں اگر ذرا بھی فرق ہوا تو سرے سے سچ ہی نہ رہا، اصدق وصادق کہاں سے صادق آئے گا، یہ معنی اگرچہ فی نفسہٖ بدیہی ہیں مگر کلام واحد میں لحاظ کرنے سے ان اغبیاء پر بھی انکشاف تام پائیں گے جنھیں بدیہیات میں بھی حاجت شانہ جنبانی تنبیہ ہوتی ہے، عہ:  الصدق تارۃ ینسب الی القول واخری الی القائل والکلام ھٰھنا فی المعنی الاول فلا یذھبن ھذاعنک ۱۲ منہ۔

 

صدق کبھی قول کی طرف منسوب ہوتاہے اور کبھی قائل کی طرف، واضح رہے یہاں گفتگو معنی اول میں ہے یہ بات ذین نشین رہے ۱۲ منہ (ت)

 

قرآن عظیم نے فرمایا محمد رسول اللہ کہ ہم کہتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، کیا وہ جملہ محمد رسول اللہ کہ قرآن میں آیا زیادہ مطابق واقع ہے اور ہم نے جو محمد رسول اللہ کہا کم مطابق ہے، حاشا کوئی مجنون بھی اس میں تفاوت گمان نہ کرے گا یا متعدد باتوں میں دیکھئے تو یوں نظر کیجئے، فرقان عزیز نے فرمایا: وحملہ وفصالہ ثلثون شھرا ۱؎ ط (اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینہ میں ہے۔ ت)

 

 (۱؎ القرآن الکریم    ۴۶/ ۱۵)

 

ہم کہتے ہیں لا الہ الا اﷲ الملک الحق المبین (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ہی مالک حق واضح ہے۔ ت) کیا وہ ارشاد کہ بچے کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوٹنا تیس مہینے میں ہے، زیادہ سچا ہے ، اور اس قول کے صدق میں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں معاذاللہ کچھ کمی ہے تو ثابت ہوا کہ اصدقیت بمعنی اشد مطابقۃ للواقع غیر معقول ہے، ہاں نظر سامع میں ایک تفاوت متصور اور اس تشکیک اصدق وصادق میں وہی مقصود معتبر جسے دو عبارتوں سے تعبیر کرسکتے ہیں، ایک یہ کہ وقعت  وقبول میں زائد ہے مثلا رسول کی بات ولی کی بات سے زیادہ سچی ہے یعنی ایک کلام کہ ولی سے منقول اگر وہی بعینہ رسول سے ثابت ہوجائے قلوب میں وقعت اور قبول کی قوت اور دلوں میں سکون و طمانیت ہی اور پیدا کرے گا کہ ولی سے ثبوت تک ا س کا عشر نہ تھا اگرچہ بات حرف بحرف ایک ہے۔دوسرے احتمال کذب سے ابعد ہونا مثلا مستور کی بات سے عادل کی بات صادق تر ہے یعنی بہ نسبت اس کے احتمال کذب سے زیادہ دور ہے اور حقیقۃ تعبیر اول اسی تعبیر دوم کی طرف راجح کہ سامع کے نزدیک جس قدر احتمال کذب سے دوری ہوگی اسی درجہ وقعت ومقبولیت پوری ہوگی جب یہ امر ممہد ہوگیا تو آیہ کریمہ کا مفاد یہ قرار پایا کہ اللہ عزوجل کی بات ہر بات سے زیادہ احتمال کذب سے پاک ومنزہ ہے،کوئی خبر اور کسی کی خبر اس امر میں اس کے مساوی نہیں ہوسکتی اور شاید حضرات مخالفین بھی اس سے انکار کرتے کچھ خوف خدا دل میں لائیں، اب جو ہم خبر اہل توارت کو دیکھتے ہیں تو وہ بالبداہۃ بروجہ عادت دائمہ بدیہ غیر متخلفہ علم قطعی یقینی جازم ثابت غیر محتمل النقیض کو مفید ہوتی ہے جس میں عقل کسی طرح تجویز خلاف روا نہیں رکھتی اگرچہ بنظر نفس ذات خبر و مخبرا مکان ذاتی باقی ہے کہ ان کا جمع علی الکذب قدرت الٰہیہ سے خارج نہیں، تلویح میں ہے :

 

المتو اتریوجب علم الیقینی بمعنی ان العقل یحکم حکما قطعیا بانھم لم یتواطؤا علی الکذب وان مااتفقوا علیہ حق ثابت فی نفس الامر غیر محتمل للنقیض لابمعنی سلب الامکان العقلی عن تواطئھم علی الکذب۱؎ اھ ملخصاً۔

 

متواتر سے علم یقین حاصل ہونے کا معنی یہ ہے کہ عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ ایسے لوگوں کا اتفاق کذب پر یقیناً نہیں ہوسکتا، جس پر ان کا اتفاق ہوا ہے وہ حق اور نفس الامر میں ثابت ہے اس میں نقیض کا احتمال نہیں ہے اس کا یہ معنی نہیں کہ ان کے جھوٹ پر جمع ہونے کا امکان عقلی کا سلب ہوگیا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ التلویح والتوضیح متن التنقیح     الرکن الثانی فی السنۃ    مصطفی البابی مصر    ۲/ ۳)

 

مگر ایسا امکان منافی قطع بالمعنی الاخس بھی نہیں ہوتا کما حققہ فی المواقف وشرحھا واشار الیہ فی شرح المقاصد وشرح العقائد وغیرھما (جیسا کہ مواقف ااورا س کی شرح میں ہے اوراس کی طرف شرح مقاصد اور شرح عقائد وغیرہ میں اشارہ ہے۔ ت) اسے پیش نظر رکھ کر کلام باری تعالٰی کی طرف چلئے، امکان کذب ماننے کے بعد مباحث مذکورہ دلیل دوم وفرق امور عادیہ وارادہ غیبیہ سے قطع نظر بھی ہو تو غایت درجہ اس قدر کے کلام ربانی وخبر اہل تواتر کانٹے کی تول ہم پلہ ہوں گے، جیسا کہ احتمال کذب یعنی نافی قطع ومنافی جزم اس کلام پاک میں نہیں اس سے خبر تواتر کا بھی دامن پاک اور بنظر امکان ذاتی جو احتمال عقلی خبر تواتر میں ناشی وہ بعینہ کلام الٰہی میں بھی باقی، پھر کلام الٰہی کا سب کلاموں سے اصدق ہونا، اور کسی کی بات اس سے صدقاً بھی ہمسری نہ کرسکنا کہ مفاد آیہ کریمہ تھا معاذاللہ کب درست آیا بخلاف عقیدہ مجیدہ اہلسنت وقایۃ اﷲ لھم دامت (ان کو اللہ تعالٰی کی حفاظت دائمی ہو۔ ت) یعنی امتناع عقلی کذب الٰہی کہ اس تقریر پر کلام مولٰی جل وعلا میں کسی طرح احتمال کذب کا امکان نہیں بخلاف خبر تواتر کہ احتمال امکانی رکھتی ہے اور یہ بات قطعا صرف اسی کے کلام پاک سے خاص، محال ہے کہ کوئی شخص ایسی صورت نکال سکے کہ کسی غیر خد ا پر کذب محال عقلی ہوجائے عصمت اگر بمعنی امتناع صدور وعدم قدرت ہی لیجئے تاہم امتناع ذاتی نہیں کہ سلب عصمت خود زیر قدرت، اب بحمد اﷲ شمس تابندہ کی طرح روشن درخشندہ صادق آیا کہ من اصدق من اﷲ قیلا ۲؎ (اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔ ت) اور العزۃ اﷲ کیوں نہ صادق آئے کہ آخر من اصدق من اﷲ حدیثا ۳؎  (اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ۔ ت) یہ دیکھو یہ منشاء تھا علماء کے اس ارشاد کاکہ زیر آیت کریمہ استدلال میں فرمایا کہ کوئی اس سے کیونکر اصدق ہوسکے کہ اس پر تو کذب محال اوروں پر ممکن والحمد اﷲ رب العالمین۔

 

 (۲؎ القرآن الکریم       ۴/ ۱۲۲)                                                   (۳؎ االقرآن الکریم      ۴ /۸۷)

 

دلیل بست ونہم: قال المولٰی سبحانہ وتعالٰی: قل ای شی اکبر شہادۃ قول اﷲ ۱؎ ( اے نبی! تو کافروں سے پوچھ کون ہے جس کی گواہی سب سے بڑی ہے ۔ توخود ہی فرما کہ اللہ)

 

(۱؎ القرآن الکریم    ۶/ ۱۹)

 

اقول اللہ کے لئے حمد ومنت کہ یہ آیہ کریمہ آیہ سابقہ سے بھی جلی و اظہر،اور افادہ مراد میں اجلٰی وازہر، وہاں ظاہر نظر نفی اصدقیت غیر تھا اور اثبات اصدقیت کلام اللہ بحوالہ عرف یہاں صراحۃ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل کی گواہیوں سے اکبر واعظم واعلٰی ہے ، اب اگر معاذاللہ امکان کذب کو دخل دیجئے تو ہر گز شہادت الٰہی کو شہادت اہل تواتر پر تفوق نہیں کہ جو یقین اس سے ملے گا اس سے بھی مہیا اور جو احتمال اس میں باق اس میں بھی پیدا تو قرآن پر ایمان لانے والے کو یہی چارہ کہ مذہب مہذب اہل سنت کی طرف رجوع کرے اور جناب عزت کے امکان کذب سے براءت پر ایمان لائے، باقی تقیریر دلیل مثل سابق ہے، فافھم واعلم اﷲ اعلم۔

 

دلیل سیم: قال ربنا عز من قائل: وتمت کلمت ربک صدقا وعد لا لامبدل لکلمتہ ج وھوالسمیع العلیم ۲؎۔ اور پورا ہے تیرے رب کا کلام صدق وانصاف میں کوئی بدلنے والا نہیں اس کی باتوں کا، اور وہی ہے سننے والا جاننے والا۔

 

 (۲؎ القرآن الکریم    ۶ /۱۱۵)

 

علماء فرماتے ہیں یعنی باری عزوجل کا کلام انتہا درجہ صدق وعدل پر ہے، جس کا مثل ان امور میں متصور نہیں، بیضاوی میں ہے: بلغت الغایۃ اخبارہ واحکامہ ومواعیدہ صدقا فی الاخبار والمواعید وعدلا فی الانقضیۃ والاحکام۳؎۔

 

اللہ تعالٰی کی اخبار،احکام اور مواعید انتہائی کامل ہیں، اخبار مواعید صدق کے اعتبار سے اور قضایا واحکام عدل کے اعتبار سے۔ (ت)

 

 (۳؎ انوارالتنزیل (تفسیر بیضاوی)    مع القرآن الکریم تحت ۶/۱۱۵  النصف الاول  مصطفی البابی مصر ص۱۴۳)

 

ارشاد العقل السلیم میں ہے : المعنی انھا بلغت الغایۃ القاصیۃ صدقا فی الاخبار والمواعید وعدلا فی الاقضیۃ والاحکام لا احدیبدل شیئا من ذٰلک بما ھواصدق واعدل ولابماھو مثلہ ۱؎۔

 

مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے کلمات اخبار ومواعید میں صدق کے اعتبار سے اور قضایا واحکام میں عدل کے اعتبار سے انتہائی درجہ پر ہیں اس سے بڑھ کر کوئی اصدق واعدل نہیں جو ان میں سے کسی حکم کو بدل ڈالے بلکہ ان کے مماثل بھی کوئی نہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ ارشاد العقل السلیم(تفسیر ابی السعود) تحت ۶/ ۱۱۵ داراحیاء التراث العربی بیروت  ۳/ ۱۸۷)

 

اقول وباﷲ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) صدق قائل کے لئے سات ۷ درجات ہیں:

 

درجہ اول: روایات وشہادات میں قطعا کذب سے محترز ہو اور مخالف میں بھی زنہار ایسا جھوٹ روانہ رکھے جس میں کسی کا اضرار ہو اگرچہ اسی قدر کہ غلط بات کا بار کرانا مگر مزاحا یا عبثا ایسے کذب کا استعمال کرے جو نہ کسی کو نقصان دے نہ سننے والا یقین لاسکے مثلا آج زید نے منوں کھایا، آج مسجد میں لاکھوں آدمی تھے، ایسا شخص (عہ) کاذب نہ گنا جائے گا یا آثم ومردود الروایۃ نہ ہوگا تاہم بات خلاف واقع ہے اور محض فضول وغیرنافع، اگرچہ نفس کلام میں حکایت واقع، مراد نہ ہونے پر دلیل قاطع،

 

عہ:  قال الامام حجۃ الاسلام محمدن الغزالی قدس سرہ العالی فی منکرات الضیافۃ من کتاب الامر بالمعروف من احیاء العلوم کل کذب لایخفی انہ کذب ولایقصد بہ التلبیس فلیس من جملۃ المنکرات کقول الانسان مثلا طلبتک الیوم مائۃ مرۃ، واعدت علیک الکلام الف مرۃ، ومایجری مجراہ ممایعلم انہ لیس یقصد بہ التحقیق فذلک لایقدح فی العدالۃ ولاترد الشہادۃ بہ۲؎۔ ۱۲ منہ

 

حجۃ الاسلام امام محمد غزالی قدس سرہ العالی احیاء العلوم کی کتاب الامر بالمعروف میں منکرات ضیافت پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہر وہ کذب جس کا کذب ہونا مخفی نہ ہو اور اس سے کوئی فریب ودھوکا متصور نہ ہو تو وہ منکرات میں سے نہیں ہوگا مثلا انسان کہتاہے میں نے آج تجھے سو دفعہ تلاش کیا، میں نے آج تجھے ہزار دفعہ کہا ہے یا ان کے قائم مقام الفاظ جن سے معلوم ہو کہ مقصود تحقیق نہیں تو یہ چیز عدالت پر قادح نہ ہوگی اور نہ ہی اس سے ایسے شخص کی شہادت مردود ہوگی ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ احیاء العلوم    کتاب الامر بالمعروف الباب الثالث     مطبعۃ المشہد الحسینی القاہرہ    ۲ /۳۴۱)

 

ولہذا حدیث میں ا رشاد فرمایا: قال بعض اصحابہ فانک تداعبنا یارسول اﷲ فقال انی لا اقول الا حقا ۱؎۔ اخرجہ احمد والترمذی باسناد حسن عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

آپ کے بعض صحابہ کرام نے عرض کیا: یار سول اللہ (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم)! آپ ہم سے مزاج فرماتے ہیں، آپ نے فرمایا: میں صرف حق ہی کہتاہوں، امام احمد اور ترمذی نے سند حسن کے ساتھ حضرت ابوہریرۃ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا۔( ت)

 

 (۱؎ جامع الترمذی     ابواب البروالصلہ باب ماجاء فی المزاح     امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ۲/ ۲۰)

(مسند امام احمد    از مسند ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ   دارالفکر بیروت  ۲/ ۳۴۰)

 

درجہ ۲: ان لغو وعبث جھوٹوں سے بھی بچے مگر نثریا نظم میں خیالات شاعرانہ ظاہر کرتاوہں جس طرح قصائد کی تشبیہیں ع

 

بانت سعاد فقلبی الیوم متبول

 

 (سعاد کی جدائی پر آج میرادل مضطرب ہے۔ ت)

سب جانتے ہیں کہ وہاں نہ کوئی عورت سعاد نامی تھی نہ حضرت کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ اس پر مفتون، نہ وہ ان سے جدا ہوئی نہ یہ اس کے فراق میں مجروح، محض خیالات شاعرانہ ہیں، مگر نہ فضول بحث کہ تشخید خاطر و تشویق سامع وترقیق قلب وتزئین سخن کا فائدہ رکھتے ہیں تاہم ازانجا کہ حکایت بے محکی عنہ ہے: ارشاد فرمایاگیا: وما علمنہ الشعر وماینبغی لہ ۲؎ نہ ہم نے اسے شعر سکھایا نہ وہ اس کی شان کے لائق ۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

 (۲؎القرآن الکریم    ۳۶/ ۶۹)

 

درجہ ۳: ان سے بھی تحریر مگر مواعظ وامثال میںان امور کا استعمال کرتاہوں جن کے لئے حقیقت واقعہ نہیں جیسے کلیلہ دمنہ کی حکایتیں، منطق الطیر کی روایتیں، اگرچہ کلام قائل بظاہر حکات واقع ہے مگر تغلیظ سامع نہیں کہ سب جانتے ہیں وعظ ونصیحت کے لئے یہ تمثیل باتیں بیان کردی گئی ہیں جن سے دینی منفعت مقصود،

پھر بھی انعدام مصداق موجود، ولہذا قرآن عظیم کو اساطیر لااولین ۳؎ (پہلوں کے قصے۔ ت) کہنا کفر ہوا جیسے آج کل کے بعض کفار لئام، مدعیان اسلام، نئی روشنی کے پرانے غلام دعوٰی کرتے ہیں کہ کلام عزیز میں آدم وحوا کے قصے شیطان وملک کے افسانے سب تمثیل کہانیاں ہیں جن کی حقیقت مقصود نہیں، تعالٰی اﷲ عما یقول الظلمون علوا کبیرا (ظالم جو کچھ کہتے ہیں اللہ تعالٰی کی ذات گرامی اس سے کہیں بلند ہے۔ ت)

 

 (۳؎ القرآن الکریم ۶/ ۲۵)

 

درجہ ۴: ہر قسم حکایت بے محکی عنہ کے تعمد سے اجتناب کلی کرے اگرچہ برائے سہووخطا حکایت خلاف واقع کاوقوع ہوتاہویہ درجہ خاص اولیاء اللہ کا ہے۔

 

درجہ ۵: اللہ عزوجل سہوا وخطاً بھی صدور کذب سے محفوظ رکھے مگر امکان وقوعی باقی ہو یہ مرتبہ اعاظم صدیقین کا ہے کہ: ان اﷲ تعالٰی یکرہ فوق سمائہ ان یخطأ ابوبکر الصدیق فی الارض ۱؎۔ رواہ الطبرانی فی المعجم الکبیر واالحارث فی مسندہ وابن شاھین فی السنۃ عن معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔ اللہ تعالٰی آسمان کے اوپر اس بات کونا پسند فرماتاہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ زمین پر غلطی کریں، اسے طبرانی نے معجم الکبیر میں، شیخ حارث نے مسند میں اور ابن شاھین نے السنۃ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ ت)

 

 (۱؎ کنزالعمال  بحوالہ الحارث عن معاذ بن جبل      حدیث ۳۲۶۳۱    موسستہ الرسالۃ بیروت    ۱۱/ ۵۵۸)

(المعجم الکبیر     بحوالہ الحارث    حدیث ۱۲۴    المکتبۃ الفیصلیہ البیروت    ۲۰/ ۶۸))

 

درجہ ۶: معصوم من اﷲ ومؤید بالمعجزات ہوکہ کذب کا امکان وقوع بھی نہ رہے مگر بنظر نفس ذات امکان ذاتی ہو یہ رتبہ حضرات انبیاء مرسلین علیہم الصلٰوۃ والسلام اجمعین کا ہے۔

 

درجہ ۷: کذب کا مکان ذاتی بھی نہ ہو بلکہ اس کی عظمت جلیلہ وجالت عظیمہ بالذات کذب وغلط کی نافی ہو اور اس کی ساحت عزت کے گرد اس گردلوث کا گزر محال عقلی بہ نہایت درجات صدق ہے جس سے مافوق متصور نہیں اب آیہ کریمہ ارشاد فرمارہی ہے کہ تیرے رب کا صدق وعدل اعلی درجہ منتہی پر ہے  تو واجب کہ جس طرح اس صدور ظلم وخلاف عدل باجمال اہلسنت محال عقلی ہے یونہی صدور کذب و خلاف صدق بھی عقلا ممتنع ہو، ورنہ صدق الٰہی غایت ونہایت تک نہ پہنچاہوگا کہ اس کے مافوق ایک درجہ اور بھی پیدا ہوگا یہ خود بھی محال اور قرآن عظیم کے خلاف، فثبت المقصود والحمد اﷲ العلی الودود (مقصود ثابت ہوگیا اور حمد اللہ بلند اور محبت فرمانے والے کے لئے ہے۔ ت)

 

تنبیہ: اقول فرق ہے دلیل سمعی کے مناط استحالہ ومظہر استحالہ ہونے میں اول کے یہ معنی کہ استحالہ صدق آیت پر موقو ف ہے یعنی ورود دلیل نے محال کردیا اگر سمع میں نہ آتا عقلا ممکن تھا یہ استحالہ شرعی ہوگا، اور ثانی کایہ حاصل کہ صدق آیت ماننا استحالہ پر موقوف یعنی اگر محال عقلی نہ مانئے تو مفاد آیت صادق نہیں آتا یہ استحالہ عقلی ہوگا، فقیر نے ان تینوں دلیل آخیرین میں یہی طریقہ برتاہے، غایت یہ کہ کلام مقدمات مسلمہ پر مبنی ہوگا اس قدر دلیل کو عقلیت سے خارج نہیں کرتا کما لایخفی (جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ ت) خلاصہ یہ کہ آیات ان اثبات ہیں نہ لم ثبوت، والحمد ﷲ مالک الملکوت (تمام حمد ملکوت کے مالک کی ہے۔ ت) یہ بحمداللہ تیس۳۰ دلیلیں ہیں کہ عجالۃ حاضر کی گئیں، اور اگر غور استقصا کی فرصت ہوتی تو باری عزوجل سے امید زیادت تھی پھر بھی ع درنہ خانہ اگر کسی ست یک حرف بس ست  (اگر خانہ میں کچھ ہے توایک حرف ہی کافی ہے۔ ت)

 

واﷲ الھادی الٰی الحق المبین والحمد اﷲ رب العالمین۔

 

اللہ تعالٰی     ہی واضح حق کی طرف رہنمائی فرمانے والا ہے اور سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔ (ت)

 

تنزیہ سوم (عہ): رد ہذیانات امام وہابیہ میں۔

 

عہ:  تنبیہ ضروری: قطع نظر اس سے کہ ان کے امام کا رد اُن کے ردکا امام ہے، بنظر نفس واقعہ فتنہ براہین بھی جس کے باعث یہ استفتاء میرٹھ سے آیا اورحضرت مولانا دام ظلہ العالی نے یہ جواب ہادی صواب رقم فرمایا اس تنزیہ کا لکھنا نہایت ضروری تھا کہ اس براہین قاطعہ

 

ماارادبہ ان یوصل

 

(جس کی مطلوب تک رسائی نہیں۔ ت) کا یہ قول اسی امام الوہابیہ کی حمایت میں ہے انوار ساطعہ نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کوئی جناب باری عزاسمہ کو امکانِ کذب  کا دھبا لگاتاہے ۱؎'' اور براہین قاطعہ نے اسی کے درد حمایت وحمیت جاہلیت میں لکھا ''مکان کذب کا مسئلہ تو اب جدید کسی نے نہیں نکالا ۲؂  الٰی  آخر الجہالۃ الفاحشہ''،

 

 (۱؎ البراہین القاطعہ   مسئلہ خلف وعید قدماء میں مختلف فیہ ہے    مطبع لے بلاساڈھور    ص۲)

(۲؎ الانوار الساطعہ مع البراہین القاطعۃ  مسئلہ خلف وعید قدماء میں مختلف فیہ ہے مطبع لے بلاساڈھور ص۲، ۳)

 

تو اولا بپاس امامت، ثانیا بشرم حمایت ہرطرح ملاگنگوہی صاحب پر (بشرطیکہ یہ رسالہ قدسیہ دیکھ کر ہدایت نہ پائیں اور بعلت نجدیت نجدت وتہمت مکابرہ پر آئیں) اس تنزیہ کا جواب دینا بھی (اگرنفخ صور سے پہلے دے سکیں) نہایت ضروری ولازم ہے یہ تو کوئی مقتضائے غیرت نہیں کہ گھر بیٹھے حمایت امام کا بیڑا اٹھائے اور جب شیر شرزہ کا نعرہ جانگداز سنئے امام کو چھوڑ کر حمایت سے منہ موڑئے اور

 

انی بری منک انی اخاف ۳؎

 

 (میں تجھ سے بری ہوں مجھے ڈر ہے، ت) کی ٹھہرائے، والسلام ۱۲ منہ۔

 

 (۳؎ القرآن الکریم     ۵۹ /۱۶)

 

یامعشرالمسلمین ! ان ہمارے عنایت فرما مخالفین ھداھم اﷲ تعالٰی     الی الحق المبین (اللہ تعالٰی     حق مبین کی طرف ان کی رہنمائی فرمائے، ت) کامعاملہ سخت نازک مجہلہ براہ سادگی ایک شخص کو امام بنالیا اور پیش خویش آسمان بریں پر اٹھا کر رکھ دیا، اب اسکے خلاف کسی کی بات قبول ہونی تو بڑی بات، کان تک آئی اور طبیعت نے آگ لی، آہٹ ہوئی اور غصہ نے باگ لی، سننے سے پہلے ٹھہرایا کہ ہر گز نہ سنیں گے، بگڑنے کی قسم بنائے نہ بنائیں گے، ان ہٹوں کا پاس ہدایت سے یاس دلا رہا ہے، مگر پھر بھی اظہار حق کے بغیر چارہ کیا ہے ؎ من آنچہ شرط بلاغ ست باقومی گویم        تو خواہ از سخنم پند گیر وخواہ ملال  (بات کاپہنچانا ضروری ہے میں نے وہ کردیا اب تو میری بات سے نصیحت حاصل کرلے یا غصہ کرلے۔ ت)

 

کاش خدا اتنی توفیق دے کہ اک ذرادیر کے لئے تعصب ونفسانیت کو پان رخصت ملے قائل امام طریق ہے، معترض خصم فریق، ان حیثتیوں کے لحاظ سے نظر بچ کر چلے، پھر گوش ہوش کو اجازت شنیدن ہو، پھر میزان خرد کو حکم سنجیدن، اب اگر قول خصم قابل قبول ہو تو اتباع حق سے کیوں ناحق عدول ہو، ورنہ پھر وہی تو وہی تمھارے امام جو بادہ آج بکام ہے کل بھی درجام، اس چند ساعت میں نہ کچھ بنے بگڑ ے نہ رنگ امامت جماہوا اکھڑے، ہاں اے وہ سورا خوجوسرکے دونوں جانب گوہر سماعت کے کان بنے ہو، جن پر ہواکی موجیں نیسانِ سخن سے بارور ہوکر مہین مہین پھوہار سے آواز وں کا جھالا برساتی اور ان قدرتی سیپوں میں ان ننھی ننھی بوندیوں سے سننے کے موتی بناتی ہیں، کیا کوئی تم میں القی السمع وھو شہید ۱؎  (کان لگائے اور متوجہ ہو۔ ت)کے قابل نہیں۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم ۵۰ /۳۷)

 

ہاں اے گوشت کے وہ صنوبر ی ٹکڑوں جوسینوں کے بائیں پہلوؤں میں ملک بدن کے تخت نشین ہوجن کی سرکار میں آنکھوں کے عرض بیگی کانوں کے جاسوس بیرونی اخبار کے پرچے سناتے اور خرد کے وزیر فہم کے مشیر اپنی روشن تدبیر سے نظم ونسق کے بیڑے اٹھاتے ہیں، کیا تم میں کوئی یستمعون القول فیتبعون احسنہ ۲؎ (کان لگا کر بات سنیں پھر اس کے بہتر پر چلیں۔ ت) کا قائل نہیں؟

 

(۲؎ القرآن الکریم    ۳۹ /۱۸)

 

جان برادر! یقین جان تعصب باطل واصرار عاطل کا وبال شدید ہے، آج نہ کھلا تو کل کیا بعید ہے، شب درمیان فردا "لوکنا نسمع اونعقل" ۱؎ (اگر ہم سنتے یا سمجھتے۔ ت) کا ، ھٰذا یوم عصیت ۲؎  (یہ بڑی سختی کا دن ہے۔ ت) الا ان موعدھم الصبح ط الیس الصبح بقریب ۳؎  (بیشک ان کا وعدہ صبح کے وقت ہے، کیا صبح قریب نہیں۔ ت) اس دن رب ارجعون o لعلی اعمل صالحا ۴؎ (اے میرے رب مجھے واپس پھیر دیجئے شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں۔ ت) کا جواب کلا ۵؎ (ہر گزنہیں۔ ت) ہوگا اور طعن بے امان الم یاتکم نذیر ۶؎  (کیا تمھارے پاس کوئی ڈرسنانے والا نہ آیا تھا۔ ت) کے جگر دوزتیر میں بلا کا پلا،

 

 (۱؎ القرآن الکریم        ۶۷/ ۱۰)                                                       (۲؎ القرآن الکریم        ۱۱/ ۷۷)

(۳؎ القرآن الکریم        ۱۱ /۸۱)                                                        (۴؎؎ القرآن الکریم        ۲۳/ ۹۹ و ۱۰۰)

(۵؎ ؎ القرآن الکریم        ۲۳ /۱۰۰)                               (۶؎؎ القرآن الکریم        ۶۷ /۸)

 

ابھی سویراہے ہوش سنبھالو، آنکھیں مل ڈالو، راستہ سوجھنے کی راہ نکالو، چل تو دئیے، یہ بھی دیکھتے ہو کہ اس جھکی اندھیری میں کس کے پیچھے ہو، جس نے نہ صرف ایک مسئلہ کذب باری بلکہ خوارج، روافض، معتزلہ، مریسیہ، ظاہریہ، کرامیہ وغیرہم طوائف ضالہ کی بدعات شنیعہ اورا ن کے علاوہ صدہا ضلالت قبیحہ قطعیہ کی خندقیں جھنکائیں، اور تمھیں ان قہروں ٹھوکروں ستم لغزشوں کی خبر تک نہ ہوئی، چشم فہم میں وہ بلا کی نیندیں جھک آئیں اور پھر گمان یہ کہ اس بیہٹر راہ کا ہدایت مآل ہیہات ہیہات کہاں ہدایت اور کہاں یہ چال، ؎ اذاکان الغراب دلیل قوم    سیھدیھم طریق الھالکینا  (جب کوّا کسی قوم کا رہبر ہو تووہ انھیں ہلاکت کی راہ پر ہی لے جائیگا۔ ت)

للہ اپنی حالت پر رحم کرو قبل اس کے کہ پھر معذرت ربنا ھٰؤلاء اضلونا ۷؎ (اے ہمارے رب! انھوں نے ہم کو بہکایا تھا۔ ت) کام نہ آئے اور لاتختصوالدی ۸؎  (میرے پاس نہ جھگڑو۔ ت) کی غضب جھنجھلاہٹ اذ تبرالذین اتبعوا ۹؎ (جب بیزار ہوں گے پیشوا اپنے پیروؤں سے ۔ت) کارنگ دکھائے ربنا افتح بیننا وبین قومنا بالحق وانت خیرالفاتحین ۱۰؎  (اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر اور تیرا فیصلہ سب سے بہتر ہے۔ ت)

 

 (۷؎ ؎ القرآن الکریم        ۷/ ۳۸)                                        (۸؎ ؎ القرآن الکریم        ۵۰ /۲۸)

(۹؎؎ القرآن الکریم        ۲/ ۱۶۶)                                       (۱۰؎؎ القرآن الکریم        ۷ /۸۹)

 

فقیر اس تمہید حمید وتہدید رشید کو اپنا شفیع بناکر مجال مقال میں قدم دھرتا اور دوڑتے دوڑتے نازک طبعوں گراں سمعوں، چیں بجبینوں،ناتواں بینوں سے کچھ عرض کرتاہے ؎

کہنے کو ان سے کہتاہوں احوال دل مگر

ڈرہے کہ شان ناز پہ شکوہ گراں نہ ہو

یا ایہاالقوم! ان حضرت امام اول وہابیت ہندیہ معلم ثانی طوائف نجدیہ کو اپنی اپج کا مزہ مقدم تھا بیباک روی میں اہلے کا عالم تھا، زبان کے آگے بارہ ہل چلتے، جب ابلتے پھر کیا کسی کے سنبھالے سنبھلتے، جدھر جانکلے مسجد ہو یا دیر لگی رکھنے سے پورا بیر ؎ گہ بت شکنی گاہ بمسجد زنی آتش    از مذہب تو کافر مسلمان گلہ دارد  (کبھی تو بت توڑتاہے اور کبھی  مسجدجلاتاہے، تیرے مذہب سے کافرو مسلمان دونوں کو گلہ ہے، ت)

 

اسی لئے حضرت کی ایک کتاب میں جو کفر ہے دوسری میں ایمان، آج جوولی ہے کل پکا شیطان، ایک انکھ سے راضی دوسری سے خفا، ایک پر میں زہر دوسرے میں شفاء، دور کیوں جائے ایک ہاتھ پر صراط ایک پر تقویت رکھ لیجئے، ایک دوسری کا رد کردے تو سہی اب ایک بڑی مصلحت سے جس کے لئے حضرت نے اپنی تصانیف میں بڑے بڑے پانی باندھے، اور پیش خویش آہستہ آہستہ سب سامان کر لئے، جسے فقیر نے اپنے مجموعہ مبارکہ ''البارقۃ الشارقۃ علی المارقۃ المشارقۃ'' مجلد سوم(عہ۱) فتاوٰی فقیر مسمی بہ العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویہ میں مفصل ومدللہ بیان کیا۔

 

عہ۱:  اب الحمد اللہ وہ بارھواں ہے ۱۲

 

یہ سوجی کہ وہ مطلب نہ نکلے گا جب تک اللہ تعالٰی  کا وجوب صدق باطل نہ ہو لہذا رسالہ ''یکروزی'' میں امکان کذب کے قائل ہوئے اور اس بیہودہ دعوے کے ثبوت کو بہزار جان کنی دوہذیان بین البطلان ظاہر کئے:

 

ہذیان اول امام وہابیہ: اگر کذب(عہ۲) الٰہی محال ہوا ور محال پر قدرت نہیں تو اللہ تعالٰی  جھوٹ بولنے پر قادر نہ ہوگا حالانکہ اکثر آدمی اس پر قادر ہیں، تو آدمی کی قدرت اللہ سے بڑھ گئی، یہ محال ہے، تو واجب کہ اس کا جھوٹ بولنا ممکن ہو،

 

عہ۲:  علمائے دین جوارشاد فرمایا کہ کذب عیب ہے اور عیب اللہ عزوجل پر محال، حضرت اس کے رد میں یوں اپنا خبث نفس ظاہر کرتے ہیں: قولہ وھو محال لانہ نقص والنقص علیہ تعالٰی محال، اقول اگر مراد از محال ممتنع لذاتہ است کہ تحت قدرت الٰہیہ داخل نیست پس لانسلم کہ کذب مذکور محال بمعنی مسطور باشد چہ عقد قضیہ غیر مطالبہ للواقع والقائے آں بر ملائکہ و انبیاء خارج از قدرت الٰہیہ نیست والالازم آید کہ قدرت انسانی ازید از قدرت ربانی باشد چہ عقد قضیہ غیر مطالبہ للواقع والقائے آں برمخاطبین در قدرت اکثر افراد انسانی ست، کذب مذکور آرے منافی حکم اوست پس ممتنع بالغیر ست، ولہذا عدم کذب را ازکمالات حضرت حق سبحانہ بیشمار ند۲؎ الخ

 

قولہ یہ محال ہے کیونکہ نقص ہے اور اللہ تعالٰی  پر نقص محال ہے اقول اگر محال سے مراد محقق لذاتہ ہے جو قدرت الٰہیہ کے تحت داخل نہیں توہ م نہیں مانتےکہ کذب مذکور محال بمعنی مسطور ہوگا کیونکہ یہ قضیہ غیرمطابق للواقع ہے اور اس کا القاء ملائکہ اورانبیاء پر قدرت الٰہیہ سے خارج نہیں ورنہ لازم آئے گا کہ قدرت انسانی قدرت ربانی سے زائد ہوجائے کیونکہ قضیہ غیر مطابق للواقع، اور اس کاالقاء مخاطبین پراکثر افراد انسانی کی قوت میں ہے، ہاں کذب مذکور اس کی حکمت کے منافی ہے لہذا یہ ممتنع بالغیر ہے اور اسی لئے عدم کذب کو اللہ تعالٰی     کے کمالات سے شمار کرتے ہیں الخ (ت)

 

(۲؎ رسالہ یکروزی (فارسی)  شاہ محمد اسمعیل فاروقی کتب خانہ ملتان ص۱۷)

 

بقیہ عبارت سراپا شرارت زیر ہذیان دوم آئے گی ۱۲ عفااللہ تعالٰی     عنہ۔

 

ایھا المسلمون! حماکم اﷲ شرالمجون (اے اہل اسلام! اللہ تعالٰی     اس خطرناک شر سے محفوظ فرمائے۔ ت) للہ! بنظر انصاف اس اغوائے عوام وطغوائے تمام کو غور کرو کہ اس بس کی گانٹھ میں کیا کیا زہر کی پڑیا بندھی ہیں۔

اولا دھوکا دیا کہ آدمی تو جھوٹ بولتے ہیں خدا نہ بول سکے توقدرت انسانی اس کی قدرت سے زائد ہو حالانکہ اہل سنت کے ایمان میں انسان اور اس کے تمام اعمال واقوال واوصاف واحوال سب جناب باری عزوجل کے مخلوق ہیں،

قال المولٰی     سبحانہ وتعالٰی    : واﷲ خلقکم وما تعملون ۱؎ ۔ تم اور جو کچھ تم کرتے ہو سب اللہ ہی کا پیدا کیاہوا ہے۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم     ۳۷/ ۹۶)

 

انسا ن کو فقط کسب پر ایک گونہ اختیار ملاہے، اس کے سارے افعال مولٰی  عزوجل ہی کی سچی قدرت سے واقع ہوتے ہیں، آدمی کی کیاطاقت کہ بے اس کے ارادہ وتکوین کے پلک مارسکے، انسان کا صدق وکذب کفرایمان طاعت عصیان جو کچھ ہے سب اسی قدیرمقتدرجل وعلا نے پیدا کیا،ا ور اسی کی عمیم قدرت عظیم ارادت سے واقع ہوجاتاہے، وماتشاؤن الا ان شاء اﷲ رب العلمین ۱؎o تم نہ چاہوں گے مگریہ کہ اللہ چاہے جو پروردگار ہے سارے جہاں کا۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم        ۸۱ /۲۹)

 

ع         اس کا چاہا ہوا ہمارا نہ ہوا

 

؎ ماشئت کان وماتشاء یکون    لامایشاء الدھر والافلاک

 

 (جوتوں نے چاہا ہوگیا، جو آپ چاہیں گے وہ ہوجائے گا، نہیں ہوگا جو دہر اور افلاک چاہیں گے۔ ت)

پھر کتنا بڑا فریب دیا ہے کہ آدمی کافعل قدرت الٰہی سے جداہے یہ خاص اشقیائے معتزلہ کامذہب نامہذب ہے قرآن عظیم کا مردود ومکذب۔

 

ثانیا اقول اس ذی ہوش سے پوچھو انسان کو اپنا بڑا جھوٹ بولنے پر قدرت ہے یامعاذاللہ اللہ عزوجل سے بلوانے پر، پھر قدرت(عہ)بڑھنا تو جب ہوتاکہ اللہ تعالٰی     آدمی سے جھوٹ بلوانے پر قابو نہ رکھتا اپنے کذب پرقادر نہ ہو تو انسان کو اس عزیل جلیل کے کذب پر کب قدرت تھی کہ قدرت الٰہی سے اس کی قدرت زائد ہوگئی ولکن ''من لم یجعل اللہ لہ نورا فمالہ من نور ۲؎ '' (لیکن ''جسے اللہ نور نہ دے اس کے لئے کہیں نور نہیں''۔ت)

 

(۲؎ القرآن الکریم   ۲۴/ ۴۰)

 

عہ فائدہ عائدہ ضروری الملاحظہ: ایہاالمسلمون پر ظاہر کہ قدرت بڑھنے کے یہ معنی کہ ایک شے پر اسے قدرت ہے اسے نہیں، نہ یہ کہ اسے جس شے پر قدرت ہے وہ تو اس کی قدرت میں بھی داخل ، مگر ایک اور چیز اس کی قدرت سے خارج جوہر گز ا سکی قدرت میں بھی داخل نہ تھی اسے قدرت بڑھنا کوئی مجنون ہی سمجھے گا، یہاں بھی دو چیزیں ہیں: ایک کذب انسان، وہ قدرت انسانی میں مجازا ہے اور قدرت ربانی میں حقیقۃ، دوم کذب ربانی، اس پر قدرت انسانی نہ قدرت ربانی، تو انسان ک قدرت کس بات میں، معاذاللہ مولی سبحانہ وتعالٰی     کی قدرت سے بڑھ گئی، ہوایہ کہ ملاجی نے بغایت سفاہت وغباوت کہ تمغائے عامہ اہل بدعت ہے، یوں خیال کیا کہ انسان کو اپنے کذب پر قدرت ہے، اور بیعینہٖ یہی لفظ جناب عزت میں بول کر دیکھا کہ اسے بھی اپنے کذب پر قدرت چاہئے ورنہ جو چیز مقدور انسان بھی ہو مقدوررحمن نہ ہوئی، ختم الٰہی کا ثمرہ کہ دونوں جگہ اپنے اپنے کا لفظ دیکھ لیا اور فرق معنی اصلا نہ جانا، ایک جگہ اپنے سے مراد ذات انسان ہے، دوسری جگہ ذات رحمن جل وعلا، پھر جوشے قدرت انسانی میں تھی قدرت ربانی سے کب خارج ہوئی،

 

کذلک یطبع اﷲ علی کل قلب متکبر جبار ۳؎ ۱۲ منہ

 

(۳؎ القرآن الکریم   ۴۰ /۳۵)

 

ثالثا : حضرت کو اسی ''یکروزی'' میں یہ تسلیم روزی کہ کذب عیب ومنقصت ہے اور بیشک باری عزوجل میں عیب ونقصان آنا محال عقلی، اور ہم اسی رسالہ کے مقدمے میں روشن کرچکے محال پر قدرت ماننا اللہ عزوجل کو سخت عیب لگانا بلکہ اس کی خدائی سے منکر ہوجانا ہے، حضرات مبتدعین کے معلم شفیق ابلیس خبیث علیہ اللعن نے یہ عجز وقدرت کا نیا شگوفہ ان دہلوی بہادر سے پہلے ان کے مقتدا ابن حزم فاسد العزم فاقد الجزم ظاہر المذہب ردی المشرب کو بھی سکھایا تھا کہ اپنے رب کا ادب واجلال یکسر پس پشت ڈال کتاب الملل والنحل میں بک گیا کہ انہ تعالٰی قادر ان یتخذ ولدا اذلو لک یقدر لکان عاجزا ۱؂ یعنی اللہ تعالٰی     اپنے لئے بیٹا بنانے پر قادر ہے کہ قدرت نہ مانو تو عاجز ہوگا۔

 

 (۱؎ الملل والنحل لابن جزم)

 

تعالی اﷲ عما یقول الظالمون علوا کبیرا لقد جئتم شیئا اداo تکادالسمٰوٰت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھدا o ان دعوا اللرحمن ولدا o وماینبغی للرحمن ان یتخذ ولدا ۲؎o ظالم جو کہتے ہیں اللہ تعالٰی  اس سے کہیں بلند ہے، بیشک تم حد کی بھاری بات لائے، قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ گرجائیں ڈھے کر اس پر کہ انھوں نے رحمن کے لئے اولاد بتائی اور رحمن کے لائق نہیں کہ اولاد اختیار کرے۔ (ت)

 

 (۲؎ القرآن الکریم        ۱۹/ ۸۹ تا ۹۲)

 

سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ، القدسی مطالب الوفیہ میں ابن حزم کا یہ قول نقل کرکے فرماتے ہیں: فانظر اختلال ھٰذا المبتدع کیف غفل عمایلزم علی ھذہ المقالۃ الشنیعۃ من اللوازم التی لاتدخل تحت وھم وکیف فاتاہ ان العجز انما یکون لوکان القصور جاء  من ناحیۃ القدرۃ عما اذا کان  لعدم قبول المستحیل تعلق القدرۃ فلایتوھم عاقل ان ھذا عجز ۳؎۔ یعنی اس بدعتی کی بدحواسی دیکھنا کیونکر غافل ہوا کہ اس قول  شنیع پر کیا کیا قباحتیں لازم آتی ہیں جو کسی وہم میں نہ سمائیں اور کیونکر اس کے فہم سے گیا کہ عجز توجب ہوکہ قصور قدرت کی طرف سے آئے اور جب وجہ یہ ہے کہ محال خودہی تعلق قدرت کی قابلیت نہیں رکھتا توا س سے کسی عاقل کو عجز کا وہم نہ گزرے گا۔

 

 (۳؎ المطالب الوفیہ لعبد الغنی النابلسی)

 

اسی میں فرمایا: وبالجملۃ فذلک التقدیر الفاسد یؤدی الی تخلیط عظیم  لایبقی معہ شیئ من الایمان ولامن المعقولات اصلا ۱؎۔ یعنی بہ تقدیر فاسد (کہ باری عزوجل محالات پر قادرہے) وہ سخت درہمی وبرہمی کا باعث ہوگی جس کے ساتھ نہ ایمان کا نام ہے نہ اصلا احکام عقل کا نشان۔

 

 (۱؎ المطالب الوفیۃ لعبد الغنی النابلسی)

 

اسی میں فرمایا: وقع ھٰھنا لابن حزم ھذیان بین البطلان لیس لہ قدوۃ ورئیس الاشیخ الضلالۃ ابلیس ۲؎۔ یعنی سومسئلہ قدرت میں ابن حزم سے وہ بہکی بہکی بات کھلی باطل واقع ہوئی جس میں اس کا کوئی پیشوا نہ رئیس مگر سردار گمراہی ابلیس۔

 

 (۲؎المطالب الوفیۃ لعبد الغنی النابلسی)

 

کنز الفوائد میں فرمایا: القدرۃ والارادۃ صفتان مؤثرتان و المستحیل لایمکن ان یتأثربھما اذ یلزم ح ان یجوز تعلقھا باعدام نفسھا واعدام الذات العالیۃ واثبات الالوھیۃ لما لایقبلھا من الحوادث و سلبھا عن مستحقھا جل وعلا فای قصور وفساد ونقص اعظم من ھذا وھذا التقدیر یودی الی تخلیط عظیم وتخریب جسیم لایبقی معہ عقل ولانقل ولاایمان ولاکفر ولعماءۃ بعض الاشیاء من المبتدعۃ  من ھذا صرح بنقیضہ فانظر عما ھذا المبتدع کیف عمی یلزم علی ھذا القول الشنیع من اللوازم التی لایتطرق الیھا الوھم ۱؎۔

 

یعنی قدرت اور ارادہ دونوں صفتیں مؤثرہیں، اور محال کا ان سے متاثر ہونا ممکن نہیں ورنہ لازم آئے کہ قدرت وارادہ اپنے نفس کے عدم اور خود اللہ تعالٰی  کے عدم اور مخلوق کو خدا کردینے اور خالق سے خدائی چھین لینے ان سب باتوں سے متعلق ہوسکے اس سے بڑھ کر کون ساقصور وفساد ونقصان ہوگا اس تقدیر پر وہ سخت درہمی اور عظیم خرابی لازم آئے گی، جس کے ساتھ نہ عقل رہے نہ نقل نہ ایمان نہ کفر، اور بعض اشقیائے بدمذہب کو جو یہ امر نہ سوجھا تو صاف لکھ گیا کہ ایسی بات پر خدا قادر ہے اب اس بدعتی کا اندھا پن دیکھو کیونکر اسے نہ سوجھیں وہ شناعتیں جو اس برے قول پر لازم آئیں گی جن کی طرف وہم کو بھی راستہ نہیں۔

 

 (۱؎ کنز الفوائد  )

 

مسلمان انصاف کرے کہ یہ تشنیعیں جو علماء نے اس بد مذہب ابن حزم پر کیں اس بد مشرب عدیم الحزم سے کتنی بچ رہیں،

 

کذالک قال الذین من قبلھم مثل قولھم تشابھت قلوبھم ۲؎ o وان اﷲ لایھدی کید الخائنین ۳؎۔

 

ان سے اگلوں نے بھی ایسی ہی کہی ان کی سی بات ، ان کے ان کے دل ایک سے ہیں، اور اللہ دغابازوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔ (ت)

 

(۲؎ القرآن الکریم  ۲/ ۱۱۸)            (۳؎ القرآن الکریم        ۱۲ /۵۲)

 

رابعا اقول العزۃ للہ، اگر دہلوی ملا کی یہ دلیل سچی ہو تو دو خدا، دس خدا ، ہزار خدا، بیشمارخدا ممکن ہوجائیں، وجہ سنئے جب یہ اقرار پایا کہ آدمی جو کچھ کر سکے خدابھی اپنی ذات کےلئے کرسکتاہے، اور معلوم کہ نکاح کرنا، عورت سے ہم بستر ہونا، اس کے رحم میں نطفہ پینچانا قدرت انسانی میں ہے تو  واجب کہ ملاجی کا موہوم خدا بھی یہ باتیں کرسکے ورنہ آدمی کی قدرت تو اس سے بھی بڑھ جائے گی، اور جب اتنا ہوچکا تو وہ آفتیں جن کے سبب اہل اسلام اتخاذولد کو محال جانتے تھے، امام وہابیہ نے قطعا جائز مان لیں۔ آگے نطفہ ٹھہرنے ور بچہ ہونے میں کیا زہر گھل گیا ہے، وہ کون سی ذلت وخواری باقی رہی ہے جن کے باعث انھیں مانتے جھجکنا ہوگا بلکہ یہاں آکر خدا کا عاجز  رہ جانا توسخت تعجب ہے کہ یہ توخاص اپنے ہاتھ کے کام ہیں جب دنیا بھر میں بزعم ملاجی سب کے لئے اس کی قدرت سے واعق ہوتے ہیں تو کیا اپنی زوجہ کے بارے میں تھک جائیگا اخر بچہ نہ ہونا یوں ہوتاہے کہ نطفہ استقرار نہ کرے اورخدا استفرار پر قادر ہے، یا یوں کہ منی ناقابل عقد و انعقاد یا مزاج رحم مں کوئی فساد یا خلل آسیب مانع اولادتو جب خدائی ہے کیا ان موانع کا ازالہ کرسکے گا، بہر حال جب امور سابقہ ممکن ٹھہرے تو بچہ ہونا قطعا ممکن اور خدا کا بچہ خدا ہی ہوگا، قال اللہ تعالٰی    : قل ان(عہ)کان للرحمن ولد فانا اول العابدین ۱؎۔ تو فرما اگرر حمان کے لئے کوئی بچہ ہے تومیں سب سے پہلے پوجنے والاہوں۔

 

 (۱؎القرآن الکریم    ۴۳ /۸۱)

 

عہ: حملہ السدی علی الظاھر وعلیہ ھول فی تکملہ المفاتیں والبیضاوی والمدارک وارشاد العقل وغیرھا ولاشک انہ صحیح صاف لاغبار  علیہ فای حاجۃ الی ارتکاب تاویلات بعیدۃ ۱۲ منہ

 

سدی نے اسے ظاہر پر محمول کیا اور اسی پر اعتماد ہے تکملۃ المفاتیں، بیضاوی، مدارک اورارشاد العقل وغیرھا میں، اور بیشک یہ صحیح صاف ہے اس پر کچھ غبار نہیں تو پھر تاویلات بعیدہ کے ارتکاب کی کیا حاجت ہے ۱۲ منہ (ت)

 

تو قطعا دوخدا کا امکان ہوا اگرچہ منافی گیر ہو کر امتناع بالغیر ٹھہرے اور جب ایک ممکن ہو تو کروڑوں ممکن کہ قدرت خدا کو انتہا نہیں  ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔ خامسا : ملائے دہلی کا خدائے موہوم کہاں کہاں آدمی کی حرص کرے گا، آدمی کھانا کھاتاہے، پانی پیتا ہے، پاخانہ پھرتاہے، پیشاب کرتاہے، آدمی قادر ہے کہ جس چیز کودیکھنا نہ چاہے انکھیں بند کرلے، سننا نہ چاہے کانوں میں انگلیاں دے لے، آدمی قادر ہے کہ آپ کو دریامیں ڈوبو دے آگ سے جلالے، خاک پر لیٹے کانٹوں پر لوٹے، رافضی ہوجائے، وہابی بن جائے، مگر ملائے ملوم کامولائے موہوم یہ سب باتیں اپنے لے کرسکتاہوگا، ورنہ عاجز ٹھہرے گا اور کمال قدرت میں آدمی سے گھٹ رہے گا،

 

اقول غرض خدائی سے ہر طرح ہاتھ دھوبیٹھنا ہے نہ کرسکا تو حضرت کے زعم میں عاجز ہوا اور عاجز خدا نہیں کرسکا تو ناقص ہوا ناقص خدانہیں۔ محتاج ہوا محتاج خدا نہیں۔ ملوث ہوا ملوث خدا نہیں۔ تو شمس ومس کی طرح اظہر و ازہر کہ دہلوی بہادر کا یہ قول ابتر حقیقۃ انکار خدا کی طرف منجر،

ماقدروا اﷲ حق قدرہ ۲؎، والعیاذباﷲ من اضلا الشیطن۔ (۲؎ القرآن الکریم   ۲۲ /۷۴)

 

انھوں نے اللہ تعالٰی کی صحیح قدر نہیں کی، اور شیطان کی گمراہی سے اللہ تعالٰی     کی پناہ۔ (ت)

مگر ''سبحان ربنا'' ہمارا سچا خدا سب عیبوں سے پاک اور قدرت علی المحال کی تہمت سراپا ضلال سے کمال منزہ عالم اور عالم کے اعیان اعراض، ذوات، صفات، اعمال، اقوال، خیر شر صدق کذب حسن قبیح سب اسی کی قدرت کاملہ وارادہ الیہ سے ہوتے ہیں نہ کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر نہ کسی کی قدرت اس کی قدرت کے ہمسر نہ اپنے لئے کسی عیب پر قادر ہونا اس کی شان قدوسی کے لائق ودرخور،

تعالٰی اﷲ عما یقول الظالمون علواکبیرا o وسبحن اﷲ بکرۃواصیلا، والحمد اﷲ حمد کثیرا۔ اللہ تعالٰی     اس سے بہت بلند ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں، صبح وشام اللہ تعالٰی کی تقدیس وپاکیزگی ہے اور تمام اور کثیر حمد اللہ تعالٰی     کے لئے ہے۔ (ت)

ثم اقول ذہن فقیر میں ان پانچ کے علاوہ ہذیان مذکور پر اور ابحاث دقیقہ کلامیہ ہیں جن کے ذکر کے لئے مخاطب قابل فہم دقائق درکار نہ وہ حضرات جن میں اجلہ واکابر کا مبلغ علم سیدھی سیدھی نفس عبارت مشکوٰۃ وغیرہ سن سنا کر اجازت وسند کی داد وستد تابہ اذلہ واصاغر چہ رسد، امرنا ان نکلم الناس علی قدر عقولھم واﷲ الھادی وولی الایادی (ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم لوگوں کی عقل کے مطابق کلام کریں، اللہ تعالٰی  ہی ہادی اور مدد کا مالک ہے۔ ت)

 

ہذیان دوم مولائے نجدیہ:

 

عدم کذب رااز کمالات حضرت حق سبحانہ می شمارند واورا جل شانہ بآں مدح می کنند بخلاف اخرس و جماد کہ ایشاں راکسے بعدم کذب مدح نمی کند وپرظاہر ست کہ صفت کمال ہمین ست کہ شخصے قدرت برتکلم بکلام کاذب میدارد وبنا بررعایت مصلحت ومقتضی حکمت بتنزہ از شوت کذب تکلم بکلام کاذب نمی نماید ہماں شخص ممدوح می گردد وبسلب عیب کذب و اتصاف بکمال صدق بخلاف کسے کہ لسان اوماؤف شدہ باشد وتکلم بکلام کاذب نمی تواند کرد یاقوت متفکرہ اوفاسد شدہ باشد کہ عقد قضیہ غیر مطابقہ للواقع نمی تواندکرد یاشخصے کہ ہرگاہ کلام صادق مے گوید  کلام مذکور ازوصادر می گردد و ہر گاہ کہ ارادہ تکلم بکلام کاذب می نماید آواز او بند مے گردد یازبان او ماؤف می شود یاکسے دیگر دہن اور رابند می نماید یا حلقوم اور اخفہ می کنند یا کسے کہ چند قضایا صادقہ رایاد گر فتہ است واصلہ پر ترکیب قضایائے دیگر قدرت نمی دارد و بناء علیہ کلام کاذب ازوصادرنمے گردد ایں اشخاص مذکورین نزد عقلا قابل مدح می نشیند بالجملہ عدم تکلم کلام کاذب ترفعا عن عیب الکذب وتنزہا عن التلوث بہ از صفات مدح ست وبنا عجز از تکلم بکلام کاذب ہیچ گونہ از صفات مدائح نیست یا مدح آں بسیار ادون ست ازمدح اول۱؎ انتہی بلفظ الر کیک المختل۔ عدم کذب کو اللہ تعالٰی کے کمالات سے شمار کرتے ہیں اور اس جل شانہ کی اس کے ساتھ مدح کرتے ہیں بخلاف گونگے اور جماد کے، ان کی کوئی عدم کذب سے مدح نہیں کرتا اور یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ کمال یہی ہے کہ ایک شخص جھوٹے کلام پر قادر تو ہو لیکن بنابر مصلحت اور بتقاضائے حکمت تقدس جھوٹے کلام کاا رتکاب اور اظہار نہ کرے ایسا شخص ہی سلب عیب کذب سے ممدوح اور کمال صدق سے متصف ہوگا بخلاف اس کے جس کی زبان ہی ماؤف ہوا ور جھوٹا کلام کر ہی نہیں سکتا یا اس کی سوچ وفکر کی قوت فاسد ہوکر قضیہ غیر مطابق للواقع کا انعقاد نہیں کرسکتا یا ایسا شخص ہے جو کسی جگہ سچا کلام کرتاہے، اس سے وہ صادر ہوتی ہے اور جس جگہ جھوٹا کلام کرنے کا ارادہ کرتاہے تو اس کی آواز بند ہوجاتی ہے یا اس کی زباں ماؤف ہوجاتی ہے، یا کوئی اس کا منہ بند کردیتاہے یااس کا کوئی گلا دبا دیتا ہے یا کسی نے چند سچے جملے رٹ لئے ہیں اور وہ دیگر جملوں پر کوئی قدرت ہی نہیں رکھتا اور اس بناء پر اس سے جھوٹ صادر ہی نہیں ہوتا، یہ مذکور لوگ عقلاء کے نزدیک قابل مدح نہیں ہیں بالجملہ عیب کذب سے بچنے اوراس میں ملوث ہونے سے محفوظ رہنے کے لئے جھوٹی کلام کا عدم تکلم صفات مدح میں سے ہے اورعاجز ہونے کی وجہ سے کلام کاذب سے بچنا کوئی صفات مدح میں سے نہیں یا اس کی مدح ہو بھی تو پہلے سے کم ہوگی (رکیک خلل پذیر عبارت ختم ہوئی)(ت)۔  (۱؎ رسالہ یکروزی (فارسی)    شاہ محمداسمعیل    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۱۷، ۱۸)

 

اس تلمیع باطل وطویل لاطائل کا یہ حاصل بے حاصل کہ عدم کذب اللہ تعالٰی     کے کمالات و صفات مدائح سے ہے اور صفت کمال وقابل مدح یہی ہے کہ متکلم باوجود قدرت بلحاظ مصلحت عیب  وآلائش سے بچنے کو کذب سے باز رہے، نہ کہ کذب پر قدرت ہی نہ رکھے، گونگے یا پتھر کی کوئی تعریف نہ کرے گا کہ جھوٹ نہیں بولتا تو لازم کذب الٰہی مقدور وممکن ہو۔

اقول وباللہ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) اس ہذیان شدید الطغیان کے شنائع ومفاسد حد شمار سے زائد مگر ان توسنیوں بدلگامیوں پر جو تازیانے بنگاہ اولین ذہن فقیر میں حاضر ہوئے پیش کرتاہوں و باﷲ العصمۃ فی کل حرف وکلمۃ (ہر حرف اور کلمہ میں اللہ کی عصمت ہے۔ ت)

 

تازیانہ ۱: اقول العزۃ ﷲ والعظمۃ ﷲ واﷲ الذی الا الہ الاھو (عزت اللہ تعالٰی کے لئے اور عظمت اللہ تعالٰی کے لئے ہے، اللہ کی ذات وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ت) کبرت کلمۃ تخرج من افواھم ط ان یقولون الا کذبا ۲؎ (کتنا بڑا بول ہے کہ ان کے منہ سے نکلتا ہے نرا جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ ت) ﷲ! یہ ظلم شدید و ضلال بعید تماشا کردنی کہ جابجا خود اپنی زبان سے کذب کو عیب ولوث کہا جاتاہے پھر اسے باری عزوجل کےلئے ممکن بتاتا اور اللہ کے جھوٹ نہ بولنے کی وجہ یہ ٹھہراتا ہے کہ حکیم ہے اور مصلحت کی رعایت کرتاہے لہذا ترفعا عن عیب الکذب وتنزہا عن التلوث بہ یعنی اس لحاظ سے کہ کہیں عیب دلوث سے آلودہ نہ ہوجاؤں کذب سے بچتاہے، دیکھو صاف صریح مان لیا کہ باری عزوجل کاعیب دار وملوث ہونا ممکن، وہ چاہے تو ابھی عیبی وملوث بن جائے، مگر یہ امر حکمت ومصلحت کے خلاف ہے اس لئے قصدا پرہیز کرتاہے تعالٰی اﷲ عما یقولون علوا کبیرا (اللہ تعالٰی  اس سے کہیں بلند ہے جویہ کہتے ہیں۔ ت) اور خود سرے سے اصل مبنائے خود سری دیکھئے، ملائے مقبوح کا یہ املائے مقدوح اس کلام آئمہ کے رد میں ہے کہ کذب نقص ہے اور نقص باری تعالٰی  پر محال، اس کے جواب میں فرماتے ہیں، محال بالذات ہونا ہمیں تسلیم نہیں بلکہ ان دلیلوں (یعنی دونوں ہذیانوں) سے ممکن ہے تو کیسی صاف روشن تصریح ہے کہ نصرف کذب بلکہ ہر عیب وآلائش کا خدا میں آنا ممکن، واہ بہادر! کیا نیم گردش چشم میں تمام عقائد تنزیہ وتقدیس کی جڑکاٹ گیا، عاجز ، جاہل،

 

(۲؎ القرآن الکریم     ۱۸/ ۵)

 

احمق، جاہل، اندھا، بہرا، ہکلا، گونگا سب کچھ ہونا ممکن ٹھہرا، کھانا، پینا، پاخانہ پھرنا، پیشاب کرنا، بیمار پڑنا، بچہ جننا، اونگھنا، سونابلکہ مرجانا، مرکے پھر پیدا ہونا سب جائز ہوگیا، غرض اصول اسلام کے ہزاروں عقیدے جن پر مسلمانوں کے ہاتھ میں یہی دلیل تھی کہ مولٰی عزوجل پر نقص وعیب محال بالذات ہیں، دفعۃ سب باطل وبے دلیل ہوکر رہ گئے، فقیر تنزیہ دوم میں زیر دلیل اول ذکر کر آیا کہ یہ مسئلہ کیسی عظمت والااصل دینی تھا جس پر ہزار ہا مسئلہ ذات وصفات بار عزوجل متفرع ومبنی، اس ایک کے انکار کرتے ہی وہ سب اڑ گئے، وہیں شرح مواقف سے گزرا کہ ہمارے لئے معرفت صفات باری کی طرف کوئی راستہ نہیں مگر افعال الٰہی سے استدلال یا یہ کہ اس پر عیوب ونقائص محال، اب یہ دوسرا راستہ تو تم نے خود ہی بند کردیا، رہا پہلا یعنی افعال سے دلیل لاناکہ اس نے ایسی عظم چیزیں پیدا کردیں اور ان میں یہ حکمتیں ودیعت رکھیں، تو لاجرم ان کا خالق بالبداہۃ علیم وقدیر وحکیم ومرید ہے،

 

اقول اولا : یہ استدلال صرف انھیں صفات کمال میں جاری جن سے خلق وتکوین کو علاقہ داری باقی ہزار ہا مسائل صفات ثبوتیہ وسلبیہ پر دلیل کہاں سے آئے گی، مثلا مصنوعات کا ایسا بدیع ورفیع ہونا ہرگز دلالت نہیں کرتا کہ ان کا صانع صفت کلام یا صفت صدق سے بھی متصف، یا نوم واکل وشرب سے بھی منزہ ہے،

 

ثانیا جن صفات پر دلالت افعال وہاں بھی صرف ان کے حصول پر دال، نہ یہ کہ ان کا حدوث ممنوع یا زوال محال، مثلا اس نظم حکیم وعظیم بنانے کے لئے بیشک علم وقدرت وارادہ وحکومت درکار مگرا س سے صرف بناتے وقت ان کا ہونا ثابت ہمیشہ سے ہونے اور ہمیشہ رہنے سے دلیل ساکت، اگر دلائل سمعیہ کی طر ف چلئے،؎

 

اقول اولا بعض صفات سمع پر متقدم تو ان کا سمع سے اثبات دور کو مستلزم۔

ثانیا سمع بھی صرف گنتی کے سلوب وایجابات میں وارد ان کے سوا ہزاروں مسائل کس گھر سے آئیں گے مثلا نصوص شرعیہ میں کہیں تصریح نہیں کہ باری عزوجل اعراض وامراض وبول وبراز سے پاک ہے، اس کا ثبوت کیاہوگا۔

ثالثا نصوص بھی فقط وقوع وعدم پر دلیل دیں گے، وجوب استحالہ وازلیت وابدیت کا پتا کہاں چلے گا مثلا بکل شیئ علیم ۱؎علٰی کل شیئ قدیر ۲؎o (سب کچھ جانتاہے، ہر شی پر قادر ہے۔ ت) سے بیشک ثابت کہ اس کے لئے علم وقدرت ثابت یہ کب نکلا کہ ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گے، اور ان کا زوال اس سے محال،

 

 (۱؎ القرآن الکریم    ۲ /۲۹)                                                                 (۲؎ القرآن الکریم        ۲ /۲۰)

 

یونہی وھو یطعم ولا یطعم ط۱؎۔ (اور وہ کھلاتاہے اور کھانے سے پاک ہے۔ ت)اور لاتأخذہ سنۃ ولانوم ۲؎ (اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند۔ ت) کااتنا حاصل کہ کھاتا پیتا سوتا اونھگتا نہیں، نہ یہ کہ یہ باتیں اس پر ممتنع،

 

 (۱؎ القرآن الکریم    ۶ /۱۴)                                                                  (۲؎ القرآن الکریم        ۲/ ۲۵۵)

 

ہاں ہاں ان سب امور پر دلالت قطعی کرنے والا ان تمام دعوائے ازلیت وابدیت ووجوب وامتناع پر بوجہ کامل ٹھیک اترنے والا ہزاروں ہزار مسائل صفات ثبوتیہ وسلبیہ کے اثبات کا یکبارگی سچا ذمہ لینے والا، مخالف ذی ہوش غیر مجنون ومدہوش کے منہ میں دفعۃ بھاری پتھر دے دینے والانہ تھا مگروہی دینی یقینی عقلی بدیہی اجماعی ایمانی مسئلہ کہ باری تعالٰی     پر عیب ومنقصت محال بالذات ۔ جب یہی ہاتھ سے گیا سب کچھ جاتارہا، اب نہ دین ہے نہ نقل نہ ایمان نہ عقل،    اناﷲ وانا الیہ راجعون ۳؎o کذلک یطبع اﷲ علی کل قلب متکبر جبار ۴؎o ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے، اللہ یوں ہی مہر کردیتاہے متکبر سرکش کے سارے دل پر۔ (ت)

 

(۳؎ القرآن الکریم       ۲/ ۱۵۶)                                                      (۴؎ القرآن الکریم  ۴۰/ ۳۵)

 

ہاں وہابیہ نجدیہ کو دعوت عام ہے اپنے مولائے مسلم وامام مقدم کا یہ ہذیان امکان ثابت مان کر ذرا بتائیں تو کہ ان کا معبود بول وبراز سے بھی پاک ہے یا نہیں۔ حاش للہ! امتناع تو امتناع عدم وقوع کے بھی لالے پڑیں گے، آخر قرآن وحدیث میں توکہیں ا س کا ذکر نہیں، نہ افعال الٰہی ا س نفی پر دلیل، اگر اجماع مسلمین کی طرف رجوع لائیں اور بیشک اجماع ہے مگر جان برادر! یہ بیشک ہم نے یونہی کہا کہ یہ عیب ہیں اور عیب سے تنزیہ ہر مسلمان کا ایمان تو قطعا کوئی مسلم ان امور کو روانہ رکھے گا، جب عیب سے تلوث ممکن ٹھہرا تواب ثبوت اجماع کا کیا ذریعہ رہا، کیا نقل وروایت سے ثابت کرو گے، حاشا نقل اجماع درکنار سلفا وخلفا کتابوں میں اس مسئلے کا ذکر ہی نہیں، اگر کہئے بول وبراز کا وقوع ایسے آلات جسمانیہ پر موقوف جن سے جناب باری منزہ، تو اولا ان آلات کے بطور آلات نہ اجزائے ذات ہونے کے استحالہ پر سوا اس وجوب تنزہ کے کیا دلیل جسے تمھارا ۤامام ومولٰی  روبیٹھا۔

 

ثانیا توقف ممنوع آخر بے آلات زبان ومرد مک وپردہ گوش کلام بصر وسمع ثابت، یونہی بے آلات  بول وبراز سے کون مانع، اسی طرح لاکھوں کفریات لازم آئیں گے کہ تمھارے امام کا وہ بہتان امکان تسلیم ہوکر قیامت تک ان سے مفر نہ ملے گی۔ کذلک لیحق الحق ویبطل الباطل ولوکرہ المجرمون ۱؎۔ اسی طرح کہ سچ کو سچ کرے اور جھوٹ کو جھوٹا اگرچہ برا مانیں مجرم (ت)

 

 (۱؎ القرآن الکریم        ۸/۸)

 

مسلمانوں نے دیکھا کہ اس طائفہ تالفہ کے سردار وامام مدعی اسلام نے کیا بس بویااور کیا کچھ کھویا اور لاکھوں  عقائد اسلام کو کیسے ڈبویا، ہزاروں کفر شنیع وضلال کا دروازہ کیسا کھولا کہ اس کا مذہب مان کر کبھی بند نہ ہوگا۔ پھر دعوٰی یہ ہے کہ دنیا پھر میں ہمیں  موحد ہیں باقی سب مشرک، سبحان اللہ یہ منہ اور یہ دعوٰی ،اورناقص وعیبی وملوث خدا کے پوجنے والے! کس منہ سے اپنے تراشیدہ موہوم کو حضرت سبحانہ کہتاہے، سبحان اللہ وہی تو سبحانہ کے قابل جس میں دنیابھر کے عیبوں آلائشوں کا امکان حاصل، العزۃ للہ میں اپنے رب ملک سبوح قدوس عزیز مجید عظیم جلیل کی طرف بہزار جان وصد ہزار جان براءت کرتاہوں تیرے اس عیبی آلائش تراشیدہ معبود اور اس کے سب پوجنے والوں سے، مسلمانو! تمھارے رب کی عزت وجلال کی قسم کہ تمھارا سچا معبود جل وعلا، وہ پاک ومنزہ وسبوح وقدوس ہے جس کے لئے تمام صفات کمالیہ ازلاً ابداً واجب للذات اور اصلا کسی عیب دلوث سے ملوث ہونا جزماًقطعا محال بالذات اس کی پاک قدرت اس ناپاک شناعت سے بری ومنزہ کہ معاذاللہ اپنے عیبی وناقص بنانے پر حاصل ہو، نعم المولٰی ونعم التصیر ۲؎ ( کیا ہی اچھا مولا اور کیا ہی اچھا مدد گار۔ ت)

 

(۲؎ القرآن الکریم       ۲۲/ ۷۸)

 

یہ ملا ئے ملوم کا مولائے موہوم تھا جو اپنے لئے عیوب وفواحش پر قدرت تو رکھتاہے مگر لوگوں کے شرم ولحاظ یا ہمارے سچے خدا کے قہر وغضب سے ڈرکر باز رہتاہے۔ ضعف الطالب والمطلوب ۳؎ لبئس المولٰی و لبئس العشیر ۴؎۔ کتنا کمزور چاہنے والا اور جس کو چاہا، بیشک کیا ہی برا مولٰی  اور بیشک کیا ہی برا رفیق۔ (ت)

 

 (۳؎ القرآن الکریم        ۲۲ /۷۳)  (۴؎ القرآن الکریم        ۲۲ /۱۳)

 

اوسفید ملوم کذب ظلوم الوہیت ومنقصت باہم اعلٰی  درجہ تنافی پر ہیں، الٰہ وہی ہے جس کے لئے جمیع صفات کمال واجب لذاتہ تو کسی عیب سے اتصاف ممکن ماننا زوال الوہیت کو ممکن جاننا ہے پھر خدا کب رہا، ولکن الظالمین بایات اﷲ یجحدون ۱؎ (بلکہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔ ت)

 

(۱؎ القرآن الکریم   ۶/ ۳۳)

 

عنقریب ان شاء اﷲ تعالٰی     تفسیر کبیر سے منقول ہوگا کہ باری تعالٰی     کےلئے امکان ظلم ماننے کا یہی مطلب کہ اس کی خدائی ممکن الزوال ہے میں گما ن نہیں کرتا کہ اس بیباک کی طرح (مسلمانوں کی تو خدا امان کرے) کسی سمجھ وال کافر نے بھی بے دھڑک تصریح کردی ہو کہ عیب دلوث خدا میں توآسکتے ہیں مگر بطور ترفع یعنی مشیخت بنی رکھنے کے لئے ان سے دور رہتاہے ____ صدق اﷲ (اللہ تعالٰی نے سچ فرمایا۔ ت): ومن اصدق من اﷲ قیلا۲؎ o

فانھا لاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور۳؎ o والعیاذ باﷲ سبحانہ وتعالٰی۔ اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی، بیشک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ (ت

 

 (۲؎ القرآن الکریم     ۴ /۱۲۲)                                                      (۳؎ القرآن الکریم     ۲۲/ ۴۶)

 

ثم اقول طرفہ تماشا ہے کہ خدا کی شان معلم طائفہ کا تو وہ ایمان کہ خدا کے لئے ہر عیب کا امکان اور ارباب طائفہ یوں بے وقت کی چھیڑ کرنا حق ہلکان ''کہ تمام امت (عہ)کے خلاف حق تعالٰی  کے عجز پر عقیدہ ٹھہرانا تو مؤلف کے پیشوایان دین کاہے مؤلف اس پر اظہار افسوس نہیں کرتا۴؎''۔

 

عہ: یہ عبارت براہین کے اسی صفحہ ۳ کی ہے جس کا خلاصہ صدر استفتاء میں گزرا یہاں ملا گنگوہی صاحب جناب مؤلف یعنی مکر منا مولوی عبدالسمیع صاحب مؤلف انوار ساطعہ پر یوں منہ آتے ہیں کہ تم لوگ اللہ کا عجز مانتے ہو جو محال پر اسے قادر نہیں جانتے ہواور ہم تو اس کے لئے جھوٹ وغیرہ سب کچھ جائز رکھتے ہیں تو عجز تو نہ ہو اگرچہ خدائی گئی، ہزارتف اس بھونڈی سمجھ پر، رہااس مغالطہ عجز کا دنداں شکن حل، وہ اس رسالہ مبارکہ میں جابجا گزرا، سبحان اللہ! محال پر قدرت نہ ہونے کو عجز جاننا الٰہی کیسے نامشخص کی شخیص ہے، واللہ الہادی ۱۲ عفی عنہ۔

 

 (۴؎ البراہین القاطعہ  مسئلہ خلف وعید قدماء میں مختلف فیہ ہے    مطبع لے ساڈھور     ص۳)

 

حضرت! ذراگھر کی خبر لیجئے وہاں مولائے طائفہ عجز وجہل وظلم وبخل وسفہ وہزل وغیرہا دنیا بھر کے عیب نقائص کے امکان کا ٹھیکا لے چکے ہیں پھر بفرض غلط اگر کسی نے ایک جگہ عجز مان لیا تو تمھارے امام کے ایمان(عہ۱) پر کیا بے جا کیا، ایک امر کہ خدا کے لئے اس سے کروڑ درجہ بدتر ممکن تھا، اس نے خرمن سے ایک خوشہ تسلیم کرلیا پھر کیا قہر کیا مگر تمھارا امام جو خدا کے ناقص عیبی ملوث آلائشی ہوسکنے  پر ایمان لایا نہ یہ قابل افسوس نہ خلاف امت ہے ،یہ تمھارے پیشوایان دین کی مت ہے، معاذاللہ اس امام کی بدولت طائفہ بیچارے کی کیا بری گت ہے، عہ۱:  وانتظر ماسنلقی علیک ان السفیہ قائل بالامکان الوقوعی بالوقوع لابمجرد الامکان الذاتی ۱۲ منہ سلمہ اﷲ تعالٰی

ہماری آئندہ گفتگو کا انتظار کرو یہ بیوقوف امکان وقوعی بلکہ وقوع کاقائل ہے نہ کہ محض امکان ذاتی کا ، ۱۲ منہ سلمہ اللہ تعالٰی    ۔ (ت)

 

ثم اقول اس سے بڑھ کر مظلمہ حائفہ تناقض صریح امام الطائفہ اسی منہ سے خدا کے لئے عیب و تلوث ممکن مانتا ہے، اسی منہ سے کہتا ہے جھوٹ نہ بول سکے تو قدرت جو گھٹ جائے گی، جی گھٹ جائے گی توکیا آفت آئے گی،

آخر جہاں ہزار عیب ممکن تھے اینہم برعلم بس(عہ۲) ہے یہ کہ رب کریم رؤف ورحیم عزہ مجدہ اپنے اضلال سے پناہ میں رکھے اٰمین اٰمین بجاہ سید الھادین محمدن الصادق الحق المبین، صلوات اﷲ تعالٰی وسلامہ علیہ وعلٰی الہ وصحبہ اجمعین۔

 

عہ۲: ولاتنس مااشرنا ک الیہ ۱۲ منہ۔

 

   جس کی طرف ہم نے تمھیں متوجہ کیا ہے اسے مت بھولنا ۱۲منہ (ت)

 

تازیانہ ۲:   اقول وباﷲ التوفیق، ایہا المسلمون! حاشا یہ نہ جاننا کہ باری عزوجل کا عیوب و نقائص سے ملوث ہونا اس شخص کے نزدیک صرف ممکن ہی نہیں ہے، نہیں نہیں بلکہ یقینا اسے بالفعل ناقص جانتا اور کمال حقیقی سے دور مانتا ہے، اے مسلمان! کمال حقیقی یہ ہے کہ اس صاحب کمال کی نفس ذات مقتضی جملہ کمالات ومنافی تولثات ہو اور قطعا جو ایسا ہوگا اسی پر ہر عیب ونقصان محال ذاتی ہوگا کہ ذات سے مقتضائے ذات کا ارتفاع یکاذات یا منافی ذات کا اجتماع دونوں قطعا بدیہی الامنتاع، اور بیشک ہم اہلسنت اپنے رب کو ایسا ہی مانتے ہیں، اور بیشک وہ سچے کمال والا ایسا ہی ہے، اس شخص نے کہ اس عزیز جلیل پر عیب و نقصان کا امکان مانا تو قطعا کمالات کو اس کا مقتضائے ذات نہ جانا تو یہ کمال حقیقی سے بالفعل خالی اور حقیقۃ ناقص وفاقد مرتبہ عالی ہوا، آج وجہ معلوم ہوئی کہ یہ طائفہ تالفہ اپنے آپ کو موحد اور اہلسنت کو مشرک کیوں کہتاہے، اس کے زعم میں اللہ عزوجل کے لئے اثبات کمالات واجبہ للذات شرک ہے کہ لفظ وجوب جو مشترک ہوجائے گا اگرچہ وجوب بالذات ووجوب للذات کا فرق اس طفل مکتب پر بھی مخفی نہیں جو  اربعہ وزجیت کی حالت جانتاہے، ولہذا اس فرقہ ضالہ نے باتباع کرامیہ کمالات الٰہیہ کو مقتضائےذات نہ ٹھہرایا تو جیسے معتزلہ نے تعدد قدماء سے بچنے کونفی صفات کی اور اپنا نام اصحاب التوحید رکھا، یونہی اس طائفہ جدید نے اشتراک لفظ وجوب سے بھاگنے کو نفی اقتضائے ذات کی اور اپنا نام موحد تراشا، وفی ذلک اقول ؎ خَسِرَالَّذِیْنَ بِالْاِعْتِزَا        لِ وَبِالتَّوَھُّبِ جَاءُوا

ذَا    اَھْلُ تَوْحِیْدٍ وَذَا        کَ مُوَحَّد غَوَاء

نعم القلوب تشابھت     فتناسب الاسماء ۱ (خسارے میں مبتلا ہیں جو معتزلی اور وہابی بنے، معتزلی اہل توحید اور وہابی موحد گمراہ، ان کے دل ایک جیسے ہیں

اور ناموں میں بھی مناسب ہے۔ ت)

 

 (۱؎ الدیوان العربی بساتین الغفران    رضا دارالاشاعت الاہور    ص۱۴۷)

 

تنبیہ نبیہ: جہول سفیہ کو جب کہ اس کے استاذ قدیم ابلیس رحیم علیہ اللعن نے یہ نقصان وتلوث باری عزوجل کا مہلکہ سکھایا، تو دوسری کتاب افصاح الباطل مسمٰی بہ اٰیضاح الحق میں ترقیق ضلال وشدت نکال کا رستہ دکھایا ،

یعنی اس میں نہایت دردیدہ دہنی مسائل وتقدیس باری تعالٰی  عزوجل کو جن پر تمام اہلسنت کااجماع قطعی ہے

صاف بدعت حقیقۃ بتایا، جری بیباک کی وہ عبارتِ ناپاک یہ ہے : تنزیہ اوتعالٰی  اززمان ومکان وجہت واثبات رؤیت بلاجہت ومحاذات وقول بصدور عالم برسبیل ایجاب واثبات قدم عالم وامثال آں ہمہ از قبیل بدعات حقیقیہ است اگر صاحب آں اعتقادات مذکورہ را از جنس عقائد دینیہ می شمارد۲؎ اھ ملخصا۔

 

زمان، مکان، جہت اور رؤیت بلاجہت ومحاذات سے اللہ تعالٰی کو پاک کہنا اورجہاں کا صدور بطور ایجاب وعالم کا قدم ثابت کرنا اور ایسے دیگر امور یہ تمام حقیقی بدعات ہیں جبکہ مذکور اعتقاد والے لوگ ان مذکورہ امور کو دینی عقائد میں شمار کرتے ہیں اھ ملخصا (ت)

 

(۲؎ ایضاح الحق الصریح (مترجم اردو) فائدہ اول             ان امور کابیان جو بدعت حقیقیہ میں داخل ہیں   قدیمی کتب خانہ کراچی    ص۷۸، ۷۷)

 

دیکھو کیسا بے دھڑک لکھ دیا کہ اللہ عزوجل کی یہ تنزیہیں کہ اسے زمانہ ومکان وجہت سے پاک جاننا اور اس کا دیدار بلاکیف حق ماننا سب بدعت حقیقیہ ہیں، سچ ہے جب اللہ تعالٰی     کے لئے ہر عیب وآلائش کو ممکن ماننا سنت ملعونہ امام نجدیہ ہے تو اس عزیز مجید جل مجدہ کی تنزیہ وتقدیس آپ ہی بدعت حقیقیہ شریعت وہابیہ ہوگی، وہی حساب ہے ع کہ تو ہم درمیان ماتلخی

 

 (کہ تو بھی مصیبت میں مبتلا ہے۔ ت)

مشرکین بھی تو دین اسلام کو بدعت بتاتے تھے، ماسمعنا بھذا فی الملۃ الاٰخرۃ ج  صلے ان ھذا الاختلاق o۱؎ یہ تو ہم نے سب سے پچھلے دین نصرانیت میں بھی نہ سنی یہ تو نری نئی گھڑت ہے (ت)

 

(۱؎ القرآن الکریم  ۳۸/ ۷)

 

خیریہاں تک تو نری بدعت ہی بدعت تھی، آگے شراب ضلالت تیز وتند ہوکر اونچی چڑھی اور نشے کی ترنگ کیف کی امنگ دون پر آکر کفر تک بڑھی کہ اللہ عزوجل کا پاک ومنزہ اور دیدار الٰہی کو بے جہت ومقابلہ ماننے کو مخلوقات کے قدیم جاننے اور خالق کو بے اختیار ماننے کے ساتھ گنا اور اسے ان ناپاک مسئلوں کے ساتھ کہ باجماع مسلمین کفر محض ہیں، ایک حکم میں شریک کیا، اب کیا کہا جائے سوااس کے کہ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۲؎ (اب جاننا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائی گے، ت)

 

 (۲؎ القرآن الکریم  ۲۶ /۲۲۷)

 

ولا حوال ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم،

 

اچھے امام اور اچھے ماموم ع

مذہب معلوم واہل مذہب معلوم

 

تازیانہ ۳: اقول وباﷲ التوفیق (میں کہتاہوں اورتوفیق اللہ تعالٰی     سے ہے۔ ت) سفیہ سحیق کی اور جہالت وضلالت دیکھئے خود مانتا جاتاہے کہ صدق اللہ عزوجل کی صفات کمالیہ سے ہے، حیث قال صفت کمال ہمیں ست ۳؎ الخ (جہاں اس نے یہ کہا صفت کمال یہی ہے الخ۔ ت)

 

(۳؎ رسالہ یکروزی (فارسی) فاروقی کتب خانہ ملتان ص۱۷)

 

پھر اسے امر اختیاری جانتاہے کہ باری تعالٰی  نے باوجود قدرت عدم برعایت مصلحت بطور ترفع اختیار فرمایا، اہل سنت کے مذہب میں اللہ عزوجل کے کمالات اس کے یا کسی کے قدرت واختیار سے نہیں بلکہ باقتضائے نفس ذات بے توسط قدرت وارادہ و اختیار اس کی ذات پاک کے لئے واجب ولازم ہیں نہ کہ معاذاللہ وہ اس کی صنعت یا ان کا عدم اسکے زیر قدرت، تمام کتب کلامیہ اس کی تصریح سے مالا مال، وہ احادیث وآثار تمھارے کان تک بھی پہنچے ہوں گے جن میں کلام الٰہی کو باختیار الٰہی ماننے والا کافر ٹھہرا ہے، اور عجب نہیں کہ بعض ان میں سے ذکر کروں، مجھے یہاں حیرت ہے کہ اس بیباک بدعتی کو کیونکر الزادم دوں، اگر یہ کہتاہوں کہ صفات کمالیہ الٰہی کا اختیاری اور ان کے عدم کا زیر قدرت باری نہ ہونا ائمہ اہلسنت کا مسئلہ اجماعی ہے تو اس نے جیسے اوپر مسائل اجماعیہ تنزیہ وتقدیس کو بدعت حقیقیہ لکھ دیا یہاں کہتےکون اس کی زبان پکڑتاہے کہ ائمہ اہل سنت سب بدعتی تھے، اور اگریوں دلیل قائم کرتاہوں کہ صفت کمال کا اختیاری اور اس کے عدم کازیر قدرت ہونا مستلزم عیب ومنقصت ہے کہ جب کمال اختیاری ہوا کہ چاہے حاصل کیا یا نہ کیا تو عیب ونقصان روا  ٹھہرا اور مولٰی  سبحانہ وتعالٰی   کا موصوف بصفات کمالیہ ہونا کچھ ضروری نہ ہوا تو یہ اس بدمشرب کاعین مذہب ہے وہ صاف لکھ چکا کہ باری عزوجل میں عیب وآلائش کا ہونا ممکن،مگر ہاں ان پیروؤں سے اتنا کہوں گا کہ آنکھ کھول کر دیکھتے جاؤں کس معتزلی کرامی کو امام جانتے ہو جو صراحۃ عقائد اجماعیہ اہل سنت وجماعت کو رد کرتا جاتاہے، پھر نہ کہنا کہ ہم سنی ہیں۔

 

تنبیہ نبیہ: حضرت نے صفات کمالیہ باری جل وعلا کا اختیاری ہونا کچھ فقط صفت صدق ہی میں نہ لکھا بلکہ مستلزم علم الٰہی میں بھی اس کی تصریح کی، کتاب تقویۃ الایمان مسمی بہ تقویت الایمان، ع برعکس نہند نام زنگی کافور  (سیاہ حبشی کانام الٹ کر کافور رکھتے ہیں۔ ت)

میں صاف لکھ دیا: ''غیب کا دریافت کرنا اپنے اختیار میں ہو کہ جب چاہئے کرلیجئے یہ اللہ صاحب ہی کی شان ہے''۱؎

 

 (۱؎ تقویۃ الایمان  الفصل الثانی ردالاشراک فی العلم   مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور    ص۱۴)

 

حاشا اللہ! اللہ عزوجل پر صریح بہتان ہے، دیکھو یہاں کھلم کھلا اقرار کر گیا کہ اللہ تعالٰی  چاہے تو علم حاصل کرلے چاہے جاہل رہے، شاباش بہادر، اچھا ایمان رکھتاہے خدا پر، اہل سنت کے مذہب میں ازلا ابدا ہر بات کو جاننا ذات پاک کو لازم ہے کہ نہ وہ کسی کے ارادہ واختیار سے نہ اس کا حاصل ہونا یا زائل ہوجانا کسی کے قابو و اقتدار میں، پیر وصاحبو! ذرا پیر طائفہ کی بدمذہبیاں گنتے جاؤاور اپنے امام معظم کے لئے ہم اہلسنت کے امام اعظم ہمام امام الائمہ سراج الامہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی     عنہ کے ارشاد واجب الانقیاد کا تحفہ لو، فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: صفاتہ تعالی فی الازل غیر محدثۃ ولامخلوق فمن قال انھا مخلوقۃ او محدچۃ اووقف فیھا اوشک فیھا فھو کافر باﷲ تعالٰی ۲؎۔ صفات الٰہی ا زلی ہیں، نہ حادث نہ کسی کے مخلوق تو جو انھیں مخلوق یاحادث بتائے یا ان میں تردد کرے یا شک لائے وہ کافر ہے اور اللہ تعالٰی کا منکر۔

 

(۲؎ الفقۃ الاکبر   مطبوعہ ملک سراج الدین اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور   ص۴)

 

اقول وجہ اس کی وہی ہے کہ صفات مقتضائے ذات تو ان کا حادث وقابل فنا ہونا ذات کے حدوث وقابلیت کو مستلزم، اور یہ عین انکار ذات ہے، والعیاذ باللہ رب العالمین۔

 

تازیانہ ۴: اقول وباللہ التوفیق جب صدق الٰہی اختیاری ہوا اور قرآن عظیم قطعاً اس کا کلام صادق ،تو واجب کہ قرآن مجید اللہ تعالٰی کا مقتضائے ذات نہ ہو، ورنہ قرآن لازم ذات ہوگا اور صدق لازم قرآن اور لازم لازم لازم، اور لازم کا اختیاری ہونا بداہۃ باطل اور باجماع مسلمین جو کچھ ذات ومقتضائے ذات کے سواہے، سب حادث ومخلوق تودلیل قطعی سے ثابت ہواکہ مولائے وہابیہ پر قرآن عظیم کو مخلوق ماننا لازم، اس بارے میں اگرچہ حضرت عبداللہ بن مسعود(عہ۱) وعبداللہ بن عباس(عہ۲)، وجابر بن عبداللہ(عہ۳)، وابو درداء(عہ۴)، وحذیفہ بن الیمان(عہ۵)، وعمر بن حصین(عہ۶)، ورافع بن خدیج(عہ۷)، وابوحکیم شامی(عہ۸)، وانس بن مالک(عہ۹)، وابوہریرہ(عہ۱۰) دس صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی   عنہم اجمعین کی حدیثوں سے مروی ہواکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی     علیہ وسلم نےقرآن مجید کے مخلوق کہنے والے کو کافربتایا، مگر از انجا کہ ائمہ محدثین کو ان (عہ) احادیث میں کلام شدید ہے،

 

عہ۱: الشیرازی فی الالقاب والخطیب ومن طریقہ ابن الجوزی بوجہ اٰخر ۱۲ منہ

 

شیرازی نے القاب میں، خطیب نے اور ابن جوزی نے ایک اور سند سے روایت کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۲: ابونصر السجری فی الابانۃ عن اصول الدیانۃ ۱۲ منہ

 

ابونصر السجری نے الابانۃ عن اصول الدیانۃمیں ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۳؛ اخرج عنہ الخطیب ۱۲ منہ

 

         ان سے خطیب نے نقل کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۴:  الدیملی فی مسند الفردوس ۱۲ منہ۔

 

       دیلمی نے مسند الفردوس میں ذکر کیا ۱۲ منہ (ت)

ع

 

۵:  الشیرازی فی الالقاب والدیلمی فی مسند الفردوس بوجہ اٰخر ۱۲ منہ

 

شیرا زی نے القاب میں اور ویلمی نے مسند الفردوس میں ایک اور سند سے روایت کیاہے۔ ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۶:  الدیلمی من طریق الامام الشافعی رضی اﷲ تعالٰی عنہ ۱۲ منہ

 

دیلمی نے امام شافعی رضی اللہ تعالٰی  عنہ کی سند سے نقل کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۷:  کالذی قبلہ ۱۲ منہ سلمہ اﷲ تعالٰی

 

           یہ پہلے کی ہی مثل ہے ۱۲ منہ سلمہ اللہ تعالٰی     (ت)

 

عہ۸:  روی عنہ الخطیب ۱۲ منہ

 

خطیب نے ان سے نقل کیا ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۹:  الدیلمی وھو عند الخطیب بوجہ اٰ،خر ۱۲ منہ۔

 

دیلمی میں ہے اور خطیب نے اسے ایک اور سند سے بیان کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۱۰:  ابن عدی فی الکامل ۱۲ منہ

 

ابن عدی نے الکامل میں ذکر کیا ۱۲ منہ (ت)

 

عہ:  البیہقی فی الاسماء والصفات اسانیدہ مظلمۃ لاینبغی ان یحتج بشیئ منھا ولا ان یستشھد بھا ۲؎ ابن الجوزی فی الموضاعات  موضوع ۳؎ الذھبی فی المیزان والحافظ فی اللسان والسخاوی فی المقاصد باطل ۵؎ القاری فی المنح لااصل لہ ۵؎ السیوطی فی اللاٰلی فما رأیت لھذا الحدیث من طب ۶؎ ۱۲ منہ سلمہ ربہ۔

 

بیہقی نے ''الاسماء والصفات'' میں کہا ان میں سے کسی کے ساتھ بھی استدلال واستشہاد درست نہیں، ابن جوزی نے موضاعات میں موضوع قرارد یا ذہبی نے میزان میں اور حافظ نے لسان میں اور سخاوی نے مقاصد میں باطل کہا، علی قاری نے المنح میں کہا اس کی کوئی اصل نہیں ، سیوطی نے اللآلی میں کہا میں نے اس حدیث کی کوئی صحت نہ پائی ۱۲ منہ سلمہ ربہ (ت)

 

 (۲؎ المقاصد الحسنہ    بحوالہ الاسماء والصفات تحت حدیث ۷۶۷   دارالکتب العلمیہ بیروت    ص۳۰۴)

(۳؎ موضوعات ابن الجوزی  کتاب التوحید    دارالفکر بیروت    ۱/ ۱۰۸)

(۴؎ المقاصد الحسنہ    حدیث ۷۶۷    دارالکتب العلمیہ بیروت    ص۳۰۴)

(۵؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر    القرآن غیر مخلوق الخ    مصطفی البابی مصر    ص۲۶)

(۶؎ اللآلی المصنوعۃ  کتاب التوحید    دارالمعرفۃ بیروت    ۱/ ۶)

 

لہذا آثا ر و اقول صحابہ کرام وتابعین عظام وائمہ اعلام علیہم رضا المنعام استماع کیجئے۔

 

(ارشاد ۱تا ۱۰) امام لالکائی کتاب السنہ میں بسند صحیح روایت کرتے ہیں: انبأنا الشیخ ابو حامد بن ابی طاہر الفقیہ  انبأنا عمر بن احمد الواعظ حدثنا محمد بن ھارون الحضرمی حدثنا القاسم بن العباس الشیبانی حدثنا سفیان بن عیینۃ عن عمروبن دینار قال ادرکت تسعۃ من اصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یقولون من قال القراٰن مخلوق فھوکافر ۱؎۔ ہمیں خبر دی شیخ ابو حامد بن ابی طاہر الفقیہ نے انھیں خبردی عمر بن احمد الواعظ نے انھیں خبر دی محمد بن ہارون الحضرمی نے انھیں خبر دی قاسم بن عباس الشیبانی نے ان سے بیان کیا سفیان بن عیینہ نے کہ حضرت عمرو بن دینار فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی  علیہ وسلم کے نو صحابہ کو پایا کہ فرماتے تھے جو قرآن کو مخلوق بتائے وہ کافرہے۔

 

 (۱؎ اللآلی المصنوعۃ بحوالہ  اللالکائی فی السنۃ   کتاب التوحید     دارالمعرفۃ بیروت    ۱ /۸)

 

 (۱۱) بیہقی کتاب الاسماء والصفات میں امام جعفرصادق رضی اللہ تعالٰی  عنہ وعن آباءہ الکرام سے راوی کہ مخلوقیت قرآن ماننے والے کی نسبت فرماتے، انہ یقتل ولایستتاب ۱؎ اسے قتل کیا جائے اور اس سے توبہ نہ لیں۔

 

 (۱؎ المقاصد     بحوالہ البیہقی فی الاسماء والصفات تحت حدیث ۷۶۷    دارالکتب العلمیہ بیروت    ص۳۰۵)

 

 (۱۲) اسی میں امام علی بن مدینی سے منقول : انہ کافر ۲؎ (وہ کافر ہے۔ ت)

 

 (۲؎ المقاصد الحسنہ    بحوالہ علی ابن مدینی   تحت حدیث ۷۶۷    دارالکتب العلمیہ بیروت     ص۳۰۵)

 

 (۱۳) اسی میں امام مالک سے مروی : کافر فاقتلوہ ۳؎ کافرہے اسے قتل کرو۔

 

 (۳؎المقاصد الحسنہ    بحوالامام مالک   تحت حدیث ۷۶۷    دارالکتب العلمیہ بیروت     ص۳۰۵)

 

 (۱۴) جزء الفیل میں یحیٰی  بن ابی طالب سے رایت:

 

من زعم ان القرآن مخلوق فھو کافر ۴؎۔ ذکر ھذہ الاربع مام السخاوی فی المقاصد الحسنۃ۔

 

جو قرآن کو مخلوق کہے کافرہے، (ان چاروں کا ذکر امام سخاوی نے ''المقاصد الحسنہ'' میں کیا ہے۔ ت)

 

 (۴؎المقاصد الحسنہ بحوالہ جزء الفیل عن یحیٰی  بن ابی طالب  تحت حدیث ۷۶۷ دارالکتب العلمیہ بیروت ص۳۰۵)

 

 (۱۵) ابن امام احمد کتاب السنہ میں فرماتے ہیں: من قال القراٰن مخلوق فھو عندنا کافر لان القراٰن من صفۃ اﷲ ۵؎۔ قرآن کو مخلوق کہنے والا ہمارے نزدیک کافر ہے کہ قرآن خدا کی صفتوں سے ہے۔

 

(۵؎ الحدیقۃ الندیۃ  بحوالہ کتاب السنۃ     القرآن کلام اللہ تعالٰی  غیر مخلوق    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۱/ ۲۵۷)

 

 (۱۶) امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں : من قال القراٰن مخلوق فھو زندیق ۶؎۔ جو قرآن کو مخلوق کہے وہ بے دین ہے۔

 

 (۶؎ الحدیقہ الندیہ عبداللہ ابن مبارک کتاب السنۃ القرآن کلام اللہ تعالٰی  غیر مخلوق مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱/ ۲۵۷)

 

 (۱۷) امام سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں: القرآن کلام اﷲ من قال مخلوق فھو کافر ۷؎.         قرآن کلام الٰہی ہیے جو اسے مخلوق کہے کافرہے۔

 

 (۷؎الحدیقۃ الندیۃ   سفیان بن عینیہ کتاب السنۃ القرآن کلام اللہ تعالٰی     غیر مخلوق  مکتبہ نوریہ رٰضویہ فیصل آباد        ۱/ ۲۵۷ )

 

 (۱۸) عبداللہ بن ادریس کے سامنے خلق قرآن ماننے والوں کا ذکر ہوا کہ اپنے آپ کو موحدکہتے ہیں فرمایا: کذبوا لیس ھؤلاء بموحدین ھؤلاء زنا دقۃ من زعم ان القراٰن مخلوق فقد زعم ان اﷲ مخلوق ومن زعم ان اﷲ مخلوق فقد کفر ھؤلاء زنادقۃ ۱؎۔  (۱؎ الحدیقۃ الندیہ    بحوالہ عبداللہ بن ادریس    القرآن کلام اللہ تعالٰی     غیر مخلوق    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۱/ ۲۵۷)

 

جھوٹے ہیں وہ موحد نہیں زندیق ہیں جس نے قرآن کو مخلوق کہا اس(عہ) نے خد ا کو مخلوق کہا اور جس نے خدا کو مخلوق کہا کافرہوا، یہ بے دین ہیں۔

 

عہ:  اقول وجہ ملازمت ظاہر ہے کہ ہر مخلوق حادث اور قرآن لازم ذات اور حدوث لازم حدوث ملزوم کو مستلزم اور ہر حادث مخلوق  تو خلق صفت ماننے کو خلق ذات ماننا لازم ، حضرات نجدیہ غور کریں لازم شنیع یعنی معاذاللہ ذات باری کا حادث ومخلوق ہونا ان کے امام پر بھی لازم آیا یا نہیں غنیمت جانیں کہ لازم قول قول نہیں ہوتا ۱۲ منہ دام فیضہ

 

 (۱۹ تا ۲۱) وکیع بن الجراح ومعاذ بن معاذ ویحیٰی  بن معین فرماتے ہیں: من قال القراٰن مخلوق فھو کافر ۲؎ (جس نے قرآن کو مخلوق کہا وہ کافر ہے۔ ت)

 

(۲؎ الحدیقۃ الندیہ     بحوالہ وکیع بن الجراح ومعاذ بن معاذ ویحیٰی بن معین   مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد     ۱/ ۵۸ ، ۲۵۷)

 

 (۲۲) ابن ابی مریم نے فرمایا: من زعم ان القراٰن مخلوق فھو کافر ۳؎  (جو قرآن کو مخلوق مانے وہ کافر ہے ۔ ت)

 

 (۳؎ الحدیقۃ الندیہ       بحوالہ ابن ابی مریم    القرآن کلام اللہ غیر مخلوق   مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد   ۱/ ۲۵۸)

 

 (۲۳و ۲۴) شبابہ بن سور وعبدالعزیز بن ابان قرشی فرماتے ہیں: القرآن کلام اﷲ ومن زعم انہ مخلوق فھو کافر ۴؎۔ قرآن کلام اللہ ہے جواسے مخلوق مانے کافرہے۔

 

 (۴؎ الحدیقۃ الندیہ       بحوالہ شبابہ بن سوار وعبدالعزیز بن ابان القرشی    القرآن کلام اللہ غیر مخلوق    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد   ۱/ ۲۵۸)

 

 (۲۵) امام یزید بن ہارون نے فرمایا : واﷲ الذی لا الہ الا ھوا الرحمن الرحیم عالم الغیب والشہادۃ من قال القراٰن مخلوق فھو  زندیق ۵؎۔ اورد ھذہ الاواخر فی الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ للعلامۃ النابلسی۔ قسم اللہ کی جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں بڑا مہربان رحمت والا حاضر غائب سب سےخبردار کہ جوکوئی قرآن کو مخلوق کہے زندیق ہے (ان آخری اقوال کا تذکرہ علامہ نابلسی نےالحدیقۃ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیہ میں کیا۔ت)

 

 (۵؎ الحدیقۃ الندیہ   بحوالہ یزید بن ہارون   القرآن کلام اللہ غیر مخلوق  مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد   ۱ /۵۸ ، ۲۵۷)

 

 (۲۶)سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وصایا میں فرماتے ہیں: من قال ان کلام اﷲ مخلوق فھو کافر باﷲ العظیم  ۱؎۔ جو قرآن کو مخلوق کہے اس نے عظمت والے خدا کے ساتھ کفر کیا۔

 

 (۱؎ وصیت نامہ امام اعظم رضی اللہ تعالٰی     عنہ   ملک سراج الدین اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور    ص۲۹و ۳۰)

 

(۲۷) امام فخر الاسلام فرماتے ہیں: قدصح عن ابی یوسف انہ قال ناظرت اباحنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی فی مسئلۃ خلق القراٰن فاتفق رأیی ورأیہ علی ان من قال بخلق القراٰن فھو کافر ۲؎۔

 

امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالٰی     سے بروایت صحیحہ ثابت ہواکہ انھوں نے فرمایا میں نے امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی     عنہ سے مسئلہ خلق قرآن میں مناظرہ کیا بالاخر میری اور ان کی رائے متفق ہوئی کہ خلق قرآن ماننے والا کافرہے۔

 

 (۲؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر     بحوالہ فخر الاسلام   القرآن کلام اﷲ غیر مخلوق     مصطفی البابی مصر  ص۲۶)

 

 (۲۸) مولانا علی قاری شرح فقہ اکبر میں اسے نقل کرکے فرماتے ہیں:   صح ھذا القول اٰیضا عن محمد ۳؎۔ یہ قول امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی سے بھی بسند صحیح مروی ہوا،

 

(۲؎ منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر     بحوالہ فخر الاسلام القرآن کلام اﷲ غیر مخلوق     مصطفی البابی مصر    ص۲۶)

 

 (۲۹ و ۳۰) فصر عمادی پھر فتاوٰی     عالمگیری میں ہے: من قال بخلق القراٰن فھوا کافر۴؎ الخ۔        جس نے قرآن کے مخلوق ہونے کا قول کیا وہ کافر ہے۔ (ت)

 

 (۴؎ فتاوٰی     ہندیہ الباب التاسع فی احکام المرتدین نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/۲۶۶)

 

 (۳۱) خلاصہ میں ہے: معلم قال تاقرآن آفریدہ شدہ است پنچ شنبہی نہادہ شدہ است یکفر۵؎ الخ۔ اگر معلم نے کہا جب سے قرآن پیدا کیا گیا جمعرات بنائی گئی تو کافر ہوجائے گا الخ۔ (ت)

 

 (۵؎ خلاصۃ الفتاوٰی    کتاب الفاظ الکفرا لجنس التاسع فی القرآن    مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۴ /۳۸۸)

 

 (۳۲) خزانۃ المفتین میں ہے : من قال بخلق القراٰن فھو کافر،سئل نجم الدین النسفی عن معلمۃ قالت تاقراٰں افریدہ شد است سیم پنچ شنبی استادنہادہ شدہ است، ھل یقع فی نکاحھا شبھۃ قال نعم لانھا قالت بخلق القرآن ۱؎۔

 

جس نے خلق قرآن کا قول کیا تو وہ کافر ہے۔ امام نجم الدین نسفی سے ایک معلمہ کے بارے میں پوچھا گیا جس نے کہا جب قرآن پیدا کیا گیا تیسویں جمعرات استاد رکھا گیا اس معلمہ کے نکاح میں کوئی شبہ واقع ہوگا؟ تو انھوں نے فرمایا: ہاں، کیونکہ اس نے خلق قرآن کا قول کیا ہے۔ (ت)

 

۱؎ خزانۃ المفتین  فصل فی الفاظ الکفر  قلمی نسخہ ۱/۱۹۷)

 

ایہاالمسلمون! امام وہابیہ کے صرف ایک قول کے متعلق صحابہ وتابعین وائمہ مجتہدین وعلمائے دین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے یہ بتیس فتوے ہیں جن کی رو سے اس پر کفر لازم(عہ)، اور اس کے بہت سے اقوال کہ اس کے مثل یا اس سے بھی شنیع ترہیں، ان کا کہناہی کیا ہے ع

 

قیاس کن زگلستان اوبہارش را

 

 (باغ پر اس کی بہار کو قیاس کرو۔ ت)

 

اللھم انا نسئلک الختام علی الایمان والسنۃ، اٰمین اٰمین یاعظیم المنۃ۔

 

اے اللہ! ہم تجھ سے ایمان اور سنت پر خاتمہ مانگتے ہیں، اے عظیم احسان فرمانے والے ! قبول فرما، قبول فرما! (ت)

 

عہ: لیحمدوا ان المحققین فرقوابین اللزوم والالتزام ثم الایکفیہ مافی ھذا من خسار کامل وبوار تام والعیاذ باﷲ ذی الجلال والاکرام ۱۲منہ۔

 

محققین نے لزوم اور التزام کے درمیان فرق کیا ہے یہ غنیمت جانیں پھر کیا اسی میں کامل خسارہ اور مکمل ہلاکت کافی نہیں صاحب جلال واکرام ہی کی پناہ ہے ۲۲ منہ (ت)

 

یہ چار تازیانےخاص ا س امر کے اظہار میں تھے کہ مولائے نجدیہ نے اس ایک قول میں کتنی کتنی بد مذہبیاں کیں، معتزلیت کرامیت وغیرہما کس کس طرح کی ضلالتیں لیں، کیسا کیسا عقائد اجماعیہ اہل سنت کو جٹھلایا، اللہ عزوجل کی جناب میں گستاخی وبے ادبی کو کس نہایت تک پہنچایا، جب بحمداللہ تضلیل مستدل سے فراغت پائی بتوفیق تعالٰی تذلیل دلیل کی طرف چلئے یعنی اس ہذیان دوم میں جو اس نے امکان کذب باری پرایک فریبی مغالطہ دیا، اس کارد بلیغ سنئے، ذرا اس کی تقریر مغالطہ پر پھرایک نظر ڈال لیجئے کہ تازہ ہوجائے، حاصل اس کلام پریشان کا یہ تھا کہ عدم کذب باری تعالٰی کہ صفات کمال سے ہے، جس سے اس کی مدح کی جاتی ہے، در صفت (عہ۱) کمال وقابل مدح ہےکہ کذب پر قادر ہو کر اس سے بچے ، سرے سے قدرت ہی نہ ہوئی، تو عدم کذب میں کیا خوبی ہے، پتھر کی کوئی تعریف نہ کرے گا کہ جھوٹ نہیں بولتا۔ یوہیں جو کذب کا ارادہ کرے مگر کسی مانع کے سبب بول نہ سکے عقلا اس کی بھی مدح نہ کریں گے، اب بتوفیق اللہ تعالٰی  پہلے تقوض اجماع لیجئے، پھر حل مغالطہ کا مژدہ دیجئے، واﷲ الھادی وولی الایادی  (اللہ تعالٰی  ہی ہادی ہے اور مدد کا مالک ہے۔ت)

 

عہ۱: اقول اس احمق کا سارا ہذیان دفع کرنے کو صرف اتنا جملہ کافی جو تنزیہ دوم میں زیر دلیل بست وچہارم گزرا کہ اللہ عزوجل پر ہر وہ شے بھی محال جو کمال سے خالی ہو اگرچہ نقص نہ رکھتی ہو ظاہرہے کہ نفی کمال سے مدح ہونے سے رہی مدح اس کی نفی سے ہوگی جو کمال نہیں، اور جو کچھ نہیں وہ باری عزوجل کے لئے محال ، ایمان ٹھیک ہوتویہی دو حرف بس ہیں ۱۲ منہ

 

تازیانہ ۵: رب عزوجل فرماتاہے: وما انابظلام للعبید ۱؎ میں بندوں کے حق میں ستمگر نہیں۔ اور فرماتاہے : لایظلم ربک احدا ۲؎ تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اورفرماتاہے : ان اﷲ لایظلم مثقال ذرۃ ۳؎ بیشک اللہ تعالٰی     ایک ذرے برابر ظلم نہیں فرماتا۔

 

(۱؎ القرآن الکریم    ۵۰ /۲۹)             (۲؎ القرآن الکریم    ۱۸/ ۴۹)          (۳؎ القرآن الکریم   ۴ /۴۰)

 

اقول ان آیات میں مولٰی  عزوجل نے عدم ظلم سے اپنی مدح فرمائی، کیوں (عہ۲) ملاجی! بھلا جو ظلم پر قدرت ہی نہ رکھے اس کی بے ظلمی کی کیا تعریف، یوں تو پتھر کی بھی ثنا کیجئے کہ ظلم نہیں کرتا، اسی طرح جو صوبہ چاہے مگر حاکم بالا کاخوف مانع آئے اسکی بھی مدح نہ کریں گے۔ تو لاجرم باری عزوجل کو ظلم پر قادر رکھئے گا،

 

عہ۲: بحمدا للہ یہ نقض نہ رفیع بدیع ملائے شفیع کی ساری تقریر فظیع کو سراپا حاوی جس سے اس کے ہذیانوں کا ایک حرف نہ بچ سکے، اس تقریر پریشان کو پیش نظر رکھ لیجئے اور یوں کہہ چلئے ظلم الٰہی محال نہیں ورنہ لازم آئے کہ قدرت انسانی قدرت ربانی سے زائد ہو کہ ظلم وستم اکثر آدمیوں کی قدرت میں ہے، ہاں ظلم خلاف حکمت ہے تو ممتنع بالغیر ہو، اسی لئے عدم ظلم کو کمالات حضرت حق سبحانہ سے گنتے اور اس سے اس کی تعریف کرتے ہیں بخلاف شجر وحجر کہ انھیں کوئی عدم ظلم سے ستائش نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ صنعت کمال یہی ہے کہ ظلم پر قدرت تو ہو مگر بر عایت مصلحت ومقتضائے حکمت الائش ستمگاری سے بچنے کو ظلم نہ کرے، ایساہی شخص سلب عیب ظلم واتصاف کمال عدل سے ممدوح ہوگا بخلاف اس کے جس کے اعضاء وجوارح بیکار ہوگئے ہوں کہ ظلم کرہی نہیں سکتا یا قوت متفکرہ فاسد ہوگئی ہے کہ معنی ظلم سمجھنے اور اس کا قصد کرنے ہی سے عاجز ہے یا وہ شخص کہ جب عدل وانصاف کا حکم دے تو یہ حکم اس سے صادر ہوا ور جب ظلم کا حکم چاہے آواز بند ہوجائے یازبان نہ چلے یاکوئی منہ بند کرلے یا گلا دبادے یا ایک شخص کسی سے سیکھ کر حکم کرتاہے آپ حکم دینا جانتا ہی نہیں اور وہ بتانے والا اسے احکام عدل وانصاف ہی بتاتاہے اس وجہ سے ظلم صادر نہیں ہوتا، یہ لوگ عقلاء کے نزدیک قابل مدح نہیں بالجملہ عیب ظلم سے ترفع اور اس کی آلائش سے تنزہ کے لئے ظلم نہ کرناہی صفت مدح ہے اور عجز ہو تو کچھ مدح نہیں، یا ا سکی مدح پہلے کی مدح سے بہت کم ہے انتہٰی ملاحظہ کیجئے نقض اسے کہتے ہیں کہ نام کو لگی نہ رکھے واﷲ الموفق ۱۲ منہ سلمہ

 

سبحان اﷲ! تم سے کیا دور جب کذب وغیرہ وآلائش پر قدرت مان چکے تو ظلم میں کیا ستم رکھاہے مگر اتنا سمجھ لیجئے کہ ظلم کہتے ہیں ملکِ غیرمیں تصرف بے جاکو، جب باری سبحانہ و تعالٰی  کو اس پر قادر  مانئے گا توپہلے بعض اشیاء کو اس کی ملک سے خارج اور غیر کی ملک مستقل مان لیجئے، مسلمانوں کو تو بزور زبان زور وبہتان مشرک کہتے ہو خود سچے پکے کافر بن جائے، قال تعالٰی   : ﷲ مافی السمٰوٰت ومافی الارض ۱؎ اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں۔

 

وقال تعالٰی    : قل لمن مافی السمٰوٰت والارض قل ﷲ ۲؎ تو فرماؤ کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے تو فرماؤ اللہ تعالٰی کاہے، وقال تعالٰی    ؛ ام لھم شرک فی السمٰوٰت ۳؎ کیا ان کاساجھا ہے آسمانوں میں، ولہذا اہل سنت وجماعت کا اجماع قطعی قائم کہ باری جل مجدہ سے ظلم ممکن ہی نہیں۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم    ۲ /۲۸۴  و  ۴/ ۱۲۶) 

(۲؎ القرآن الکریم    ۶/ ۱۲) (۳؎ القرآن الکریم    ۳۵/ ۴۰  و  ۴۶/ ۴)

 

شرح فقہ اکبر میں ہے : لایوصف اﷲ تعالٰی بالقدرۃ علی الظلم لان المحال لایدخل تحت القدرۃ وعند المعتزلۃ انہ یقدر ولایفعل ۱؎۔

 

باری تعالٰی  کو ظلم پر قادر نہ کہا جائے گا کہ محال زیر قدرت نہیں آتا، اور معتزلہ کے نزدیک قادر ہے اور کرتانہیں۔

 

 (۱؎منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر    باب لایوصف اللہ تعالٰی     بالقدرۃ علی الظلم  مصطفی البابی مصر ص۱۳۸)

 

بیضاوی وعمادی وغیرہما تفاسیر میں ہے: الظلم یستحیل صدورہ عنہ تعالٰی۲؎ اھ ملخصا۔ اللہ تعالٰی     سے ظلم صادر ہونا محال ہے۔

 

 (۲؎ انوار التنزیل (بیضاوی)   آل عمران آیۃ وما اﷲ یرید ظلما اللعلمین (نصف اول) مصطفی البابی مصر    ص۶۹)

 

تفسیر روح البیان میں ہے : الظلم محال منہ تعالٰی۳؎ اللہ تعالٰی  سے ظلم محال ہے۔

 

 (۳؎ روح البیان  تحت آیۃ وما انا بظلام للعبید    المکتبۃ الاسلامیہ لصحاحبہا الریاض     جزء ۲۶ ص۱۲۶)

 

تفسیر کبیر میں ہے : الذی یدل علی ان الظلم محال من اﷲ تعالٰی ان الظلم عبارۃ عن التصرف فی ملک الغیر، والحق سبحانہ لایتصرف الافی ملک نفسہ فیمتنع کونہ ظالما وایضا الظالم لایکون الھا والشیئ لایصح الااذکانت لوازمہ صحیحۃ فلوصح منہ الظلم لکان زوال الھٰیتہ صحیحا وذٰلک محال ۴؎ اھ ملخصا۔

 

ظلم الٰہی محال ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ظلم ملک غیر میں تصرف (عہ۱) سے ہوتاہے اور حق سبحانہ تعالٰی  جو تصرف کرے یا اپنی ہی ملک میں کرتاہے تو اس کا ظلم ہونا محال اور نیز ظالم (عہ۲)خدا نہیں ہوتا اور شے جبھی ممکن ہوتی ہے کہ اس کے سب لوازم ذاتیہ ممکن ہوں، تو اگر ظلم الٰہی ممکن ہو تو لازم ظلم یعنی زوال الوہیت بھی ممکن ہو یہ محال ہے اھ ملخصاً۔

 

عہ۱: لایخفی علی الفطن الفاھم فرق بین تعبیر الاصل وعبارۃ العبد المترجم ۱۲ منہ۔

 

صاحب ذہن وفہم کے لئے اصل اور مترجم کی عبارت میں فرق واضح ہے ۱۲ منہ (ت)

 

عہ۲: یعنی ظلم والوہیت کا جمع ہونا ناممکن کہ ظلم عیب ہے اور الوہیت ہرعیب کو منافی تو صدور ظلم کو عدم الوہیت لازم ۱۲ منہ۔

 

(۴؎ مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر)    آیۃ ان اﷲ لا یظلم مثقال ذرہ   المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر۱۰/ ۱۰۲)

 

اسی میں زیر قولہ تعالٰی   ونضح الموازین القسط الیوم القیٰمۃ ۵؎ الاٰیۃ لکھتے ہیں :   الظالم سفیہ خارج عن الاٰلھیۃ فلوصح منہ الظلم لصح خروج عن الالٰھیۃ ۱؎۔    ظالم بے وقوف ہے خدائی سے خارج تواگر خدا سے ظلم ممکن ہو تو اس کا خدائی سے نکل جانا ممکن ہو،

 

 (۵؎ القرآن الکریم     ۲۱/ ۴۷)                                                        (۱؎ المفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)    آیہ نضع الموازین القسط یوم القیٰمۃ    المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر    ۳۱/۱۷۷)

 

تفسیر کبیر کی وہی عبارت ہے جس کا ہم تازیانہ اول میں وعدہ کرآئے تھے،۔

 

تازیانہ۶: قال ربنا تبارک وتعالٰی    :وقول الحمد اﷲ الذی لم یتخذولدا ۲؎۔ تو کہہ سب تعریفیں اس خدا کو جس نے اپنے لئے بیٹا نہ بنایا۔

 

 (۲؎ القرآن الکریم     ۱۷/ ۱۱۱)

 

وقال تعالٰی حاکیا عن الجن : وانہ تعالٰی جد ربنا مااتخذ صاحبۃ ولاولدا ۳؎۔ بے شک بڑی شان ہے ہمارے رب کی جس نے اپنے لئے نہ عورت اختیار کی نہ بچہ۔

 

 (۳؎ القرآن الکریم    ۷۲ /۳)

 

اقول ان آیات میں سبوح قدوس جل جلالہ نے یوں اپنی تعریف فرمائی، اب بھلا میاں جی کہیں اپنی دلیل سے چوکتے ہیں، ضرو کہیں گے کہ ان کا خدائے موہوم چاہے تو بیاہ کرے، بچے جنائے، مگر عیب ولوث سے بچنے کو فرد رہتاہے، جب تو صفت مدح ٹھہری ورنہ سرے سے قدرت ہی نہ ہو تو خوبی ہی کیا ہے، یحیٰی     علیہ الصلٰوۃ والسلام کو فرمایاگیا: سیدا وحصورا ۴؎ سردار اورعورتوں سے پرہیز رکھنے والا، احیز نامرد کی کون تعریف کرے گا کہ عورتوں سے بچتا ہے۔''

 

 (۴؎ القرآن الکریم ۳/ ۳۹)

 

تازیانہ ۷: قال المولٰی  سبحانہ وتعالٰی    : وما کان ربک نسیا ۵؎ تیرا رب بھولنے ولا نہیں،

 

اقول اب دہلوی ملا اپنی ہذیانی دلیل کو آیہ کریمہ میں جاری کر دیکھئے، ''رب تعالٰی ذکرہ، نے عدم نسیان سے اپنی مدح فرمائی او رصفت کمال وقابل مدح یہی ہے کہ باجود امکان نسیان عیب ولوث سے بچنے کو اپنے علوم حاضر رکھے، پتھر کی کوئی تعریف نہ کرے گا کہ یہ بات نہیں بھولتا حالانکہ عدم نسیان قطعا اسے بھی حاصل ، یوہیں اگر ایک شخص بالقصد کسی مسئلہ کو بھلا دینا چاہتاہے اور عمدا اپنے دل کو اس کی یاد سے پھیرتاہے، مگر جب بھولنے پر آتاہے کوئی یاد لاتاہے یوں بھلانے پر قدرت نہیں پاتا عقلا ایسے شخص کو بھی عدم نسیان سے مدح نہ کریں گے تولاجرم واجب کہ باری سبحانہ کا نسیان ممکن ہو اور وہ اپنے علوم بھلادینے پر قادر"   تعالٰی اﷲ عن ذٰلک علوا کبیرا (اللہ تعالٰی اس سے بہت بلند ہے۔ ت)

 

(۵؎ القرآن الکریم       ۱۹ /۶۴)

 

تازیانہ ۸: آیہ کریمہ لایضل ربی ولاینسی ۱؎ میرا رب نہ بہکے نہ بھولے،

 

 (۱؎ القرآن الکریم    ۲۰ /۵۲)

 

اقول : موسٰی کلیم علی سیدہ وعلیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے عدم ضلال سے اپنے رب کی ثنا کی ''اگر دہلوی میانجی کی دلیل سچی ہو تو لازم کہ باری عزوجل کا بہکنا ممکن ہو کہ مدح اسی میں ہے کہ باوصف امکان عیب ولوث سے بچنے کو ضلال میں نہ پڑے، اگر ضلالت پر قدرت ہی نہ پائی تو مجبوری کی بات میں تعریف کا ہے کی، پتھر کو کوئی نہ کہے گاکہ یہ راہ نہیں بھولتا یا جب پھینکتے ہیں توسیدھا زمین ہی پر آتا ہے، کبھی بہک کر آسمان کو نہیں چلا جاتا، اسی طرح جب کوئی شخص بہکنے کو ہو تو راہ بتادی جائے، یوں بہکنے نہ پائے، اس میں بھی کوئی تعریف نہیں'' یہ چار تازیانے نقض کے لئے بس ہیں، اور جو شخص طرز تصویر سمجھ گیا اس پر راہ اور نقوض کثیرہ کا استخراج (عہ) آسان ، مگر انصاف یہ ہے کہ جو گستاخ دہن دریدہ حیا پریدہ اپنے رب کے لئے دنیا بھر کے عیب وآلائش رواکرچکا، اس سے ان استحالوں کا ذکر بے حاصل کہ وہ سہو وضلالت وجماع ولادت سب کچھ گوارا کرلے گا

 ؎ تیر برجاہ انبیا انداز    طعن درحضرت الٰہی کن

بے ادب زی وآنچہ دانی گوئے    بیحیا باش دہرچہ خواہی کن

 

 (انبیاء علیہم السلام کے رتبہ پر تیر برسا، بارگاہ الٰہی میں طعن کر، بے ادب ہوجا پھر جو چاہے کہہ بیحیا ہوجا پھر جو چاہے کر۔ ت)

 

عہ: مثلا قال اللہ تعالٰی   :وما اﷲ بغافل عما تعلمون ۲؎

اللہ غافل نہیں تمھارے کاموں سے، تو ملاجی کے مسلک پر لازم کہ اس کی غفلت ممکن ہو،

 

(۲؎ القرآن الکریم    ۲ /۸۵ و ۱۴۰  و ۱۴۹ و ۳ /۹۹)

 

وقال اللہ تعالٰی :  اولم یروان اﷲ الذی خلق السموت والارض ولم یعی بخلقھن ۳؎الایۃ۔

کیا انھوں نے نہ دیکھا کہ وہ اللہ جس نے آسمان اور زمین بنائے اور نہ تھکا ان کے بنانے سے،

 

(۳؎ القرآن الکریم    ۴۶/ ۳۳)

 

اب ملاجی  کہیں گے کہ خدا کا تھکنا بھی ممکن، وعلٰی ھذا القیاس ۱۲منہ

 

تازیانہ ۹: اقول    ع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عیب مے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگوئے

 

 (اس کے تمام عیوب بیان کئے اب اسکے ہنر بھی بیان کر۔ ت)

جامعیت اوصاف عجب چیز ہے، اور مجموعہ کا فضل آحاد پرظاہر، دہلوی ملا کو بھی اللہ عزوجل نے جامعیت اصناف بدعت عطا فرمائی تھی، دنیا بھر میں کم کوئی طائفہ ارباب ضلالت نکلے گا جس سے ان حضرت نے کچھ تعلیم نہ لی ہو، پھر ایجاد بندہ اس پر علاوہ، تو اس نئے فتنہ کو چاہے عطر فتنہ کہئے یا ضلالت کی گھانیوں کا عطر مجموعہ، اب یہ نفیس دلیل جو حضرت نے امکان کذب باری عزوجل پر قائم کی، حاشا ان کی اپنی تراشی نہیں کہ وہ دین میں نئی بات نکالنے کو بہت برا جانتے تھے بلکہ اپنے اساتذہ کا ملہ حضرات معتزلہ خذلہم اللہ تعالٰی سے سیکھ کر لکھی ہے، ان خبیثوں نے بعینہ حرف بحرف اس دلیل سے مولٰی  تعالٰی کا امکان ظلم نکالا تھا اور جو نقص فقیر نے ان حضرت پر کئے بعینہ ایسے ہی نقصوں سے ائمہ اہل سنت نے ان باپاکوں کا رد فرمایا، امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں زیر قولہ عزوجل ان اﷲ لایظلم مثقال ذرہ فرماتے ہیں: قالت المعتزلہ الاٰیۃ تدل علی انہ قادر علی الظلم لانہ تمدح بترکہ ومن تمدح بترک فعل قبیح لم یصح منہ ذٰلک التمدح الااذاکان ھو قادراً علیہ الاتری ان الزمن لایصح منہ ان یتمدح بانہ لایذھب فی اللیالی الی السرقۃ والجواب انہ تعالٰی تمدح بانہ لاتاخذہ سنۃ ولانوم ولم یلزم ان یصح ذلک علیہ وتمدح بانہ لاتدرکہ الابصار ولم یدل ذٰلک عند المعتزلۃ (عہ) علی انہ یصح ان تدرکہ الابصار ۱؎۔

 

یعنی معتزلہ نے کہا آیت مذکورہ دلالت فرماتی ہے کہ اللہ تعالٰی ظلم پر قادر ہے، اس لئے کہ رب عزوجل نے اس میں ترک ظلم سے اپنی مدح فرمائی ور کسی فعل قبیح کے ترک پر مدح جب ہی صحیح ہوگی کہ اسے اس کے کرنے پر قدرت ہو آخر نہ دیکھا کہ لنجھا اپنی تعریف نہیں کرسکتا کہ میں راتوں کو چوری کے لئے نہیں جاتا، ا سکا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی     نے اپنی مدح میں فرمایا کہ اسےنیند آئے نہ غنودگی، حالانکہ معتزلہ کے ہاں بھی اللہ تعالٰی کے لئے یہ ممکن نہیں ۔اور اپنی مدح میں یہ بھی فرمایا کہ ابصار اس کا احاطہ نہ کرسکیں، حالانکہ یہ بھی ان کے ہاں ممکن نہیں (ت)

 

عہ:  اقول بل وعندنا ایضا اذاکان الادراک بمعنی الاحاطۃ ۱۲منہ

 

میں کہتاہوں بلکہ ہمارے نزدیک بھی جب ادارک بمعنی احاطہ ہو ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ مفاتیح الغیب (التفسیر کبیر)  آیۃ ان اللہ لایظلم مثقال ذرۃ الخ    المطبعۃا لبہیۃ المصریہ مصر    ۵/ ۱۰۲)

 

مسلمان دیکھیں کہ معتزلہ ذلیل کی یہ بیہودہ دلیل بعینہ وہی ہذیان ملائے ضلیل ہے یا نہیں۔ فرق یہ ہے کہ انھوں نے اس قدیم العدل پر تہمت ظلم رکھی، انھوں نے اس واجب الصدق پر افترائے کذب اٹھایا،انھوں نے برتقدیر تنزہ اپنے رب کو لنجھے سے تشبیہ دی انھوں نے گونگے اور پتھر سے ملادیا، وفی ذلک اقول (اسی میں میں نے کہا ۔ ت) ؎

 

ھم اٰمنوا ظلما ملیکھم    ذاقائل کذبا بکذب(عہ) الہہ

لاغر وفیہ اذالقلوب تشابہت    فالشبہ نزاع الی اشباھہ ۱؎

 

 (وہ ظالم اپنے مالک کے بارے میں ظلم پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ اپنے الہ لوکذاب کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے دل ایک جیسے ہیں اور وجہ شبہ اپنے مشابہات کی طرف کھینچنے والا ہوتاہے ۔ت) عہ:  قدمر ان القول بالامکان قول بالوقوع بل بالوجوب ۱۲ منہ

 

    گزرچکا ہے کہ امکان کذب کا قول کذب کے وقوع بلکہ اس کے وجوب کو مستلزم ہے ۱۲ منہ (ت)

 

(۱؎ الدیوان العربی الموسوم بساتین فی الرد علی القائل بامکان کذب اللہ تعالٰی   دارالاشاعت لاہور، مجمع بحوث الامام احمد رضاکراچی ص ۲۰۴)

 

اب ائمہ اہل سنت کا جواب سنئے، امام ممدوح فرماتے ہیں اس دلیل سے جواب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی     نے اپنی تعریف فرمائی کہ اسے غنودگی وخواب نہیں آتی اس سے یہ لازم نہ آیاکہ معاذاللہ یہ چیزیں اس کے لئے ممکن بھی ہوں اور اس نے اپنی تعریف فرمائی کہ نگاہیں اسے نہیں پاتیں اس سے معتزلہ کے نزدیک اس پر نظر پہنچنے کا امکان نہ نکلا انتہی کیوں ہم نہ کہتے تھے ع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری

 

 (تمام جواصاف رکھتے ہیں تو تنہا ان سے جامع ہے۔ ت)

 

تازیانہ ۱۰: ھو الحل اقول وباﷲ التوفیق صفات مدائح کے درجات متافاوت ہیں بعض مدائح اولٰی ہوتے ہیں یعنی اعلی درجہ کمال، اور بعض تنزلی یعنی فائت الکمال کے مبلغ کمال، پھر یہ اسی کے حق میں مدح ہوں گے جو مدائح اولی نہیں رکھتا، صاحب کمال تام کا اس پر قیاس جہل و وسواس، مثلا عبادت وتذلل وخشوع وخضوع وانکسار وتواضع انسان کے مدائح جلیلہ سے ہیں اور باری جل شانہ پر محال، کہ ان کا مدح ہونا فوت کمال حقیقی یعنی معبودیت پر مبنی تھا، معبود عالم عزجلالہ کے حق عیب و منقصت ہیں بلکہ اس کےلئے مدح تعالٰی وتکبر ہے جل وعلا سبحانہ وتعالٰی، یوہیں ترک نقائص ومعائب میں مخلوق کی مدح بالقصد بازر ہنے پر مبتنی ہونابھی اسکے نقصان ذاتی پر مبنی کہ وہ اپنی ذات میں سبوح وقدوس و واجب الکمال ومستحیل النقصان نہیں بلکہ جائز العیوب والقبوح ہے اور بنظر نفس ذات کے عیوب ونقائص سے منافات نہیں رکھتا تو غایت مدح اس کے لئے یہ ہے کہ جہاں تک بنے اس ممکن سے بچے اور تلوث سے بھاگے،

ولہذا جہاں بوجہ فقدان اسباب وآلات بعض معائب وفواحش کی استطاعت نہ رہے وہاں مدح بھی نہ ہوگی جیسے نامرد لنجھے اپاہج گونگے کا زناکرنا، چوری کو نہ جانا، جھوٹ بولنا کہ مناط مدح کے دور بھاگنا اورت اپنے نفس کا باز رکھتاتھا یہاں مفقود، اور جب امکان ہے تو کیا معلوم کہ عصمت بی بی از بیچاری نہیں شاید اسباب سالم ہوتے تو مرتکب ہوتا، سفیہ جاہل نے اپنے رب جل وعلا کو بھی انھیں گونگوں لنجھوں بلکہ اینٹوں پتھروں پر قیا س کیا اور جب تک عیب ونقصان سے متصف نہ ہوسکے عدم عیب کو مدح نہ سمجھاحالانکہ یہ مدح اول وکمال حقیقی تھا کہ وہ  اپنے نفس ذات میں متعالی و قدوس وسبوح  وواجب الکمالات و مستحیل القبوح  ہے تعالٰی وتقدس تو یہاں عیب ممکن سے باز رہنے اور بطور ترفع بالقصد بچنے کی صورت ہی متصور نہیں، نہ حاش للہ یہ اس کے حق میں مدح بلکہ کمال مذمت وقدح ہے، واﷲ العزۃ جمیعا (تمام عزت اللہ تعالٰی کے لئے ہے۔ ت) ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔

 

تنبیہ نفیس: ایھا المسلمون! ایک عام فہم بات عرض کروں، سفیہ جاہل کا سارا مبلغ یہ ہے کہ کذب پر قدرت پاکر ہی اس سے بچنا صفت کمال ہے نہ کہ کذب ممکن ہی نہ ہو ا، اقول جب کذب ممکن ہوا تو صدق ضروری نہ رہا، اورجو ضرورری نہیں وہ ممکن الزوال، تو حاصل یہ ہواکہ کمال وہی ہے جسے زوال ہوسکے اور جو ایسا کمال ہو، جس کا زوال محال تو کمال ہی کیا ہے، سبحان اللہ! یہ بھی ایک ہی ہوئی، او احمق! کمال حقیقی وہی ہے جس کا زوال امکان ہی نہ رکھے، ہر کمال قابل زوال عارضی کمال ہے نہ ذاتی کمال، مسلمانو! للہ انصاف! باری عزوجل کا مصدق یو ں ماننا کہ ہے تو سچا مگر جھوٹا بھی ہوسکتا ہے،یہ کمال ہوا یا یوں کہ وہ سبوح قدوس تبارک وتعالٰی ایسا سچا ہے جس کا جھوٹا ہونا قطعا محال، اہل اسلام ان دونوں باتوں کو میزان ایمان میں تول کردیکھیں کہ کون گستاخ بے ادب اپنے رب کی تنزیہیہ کو بدعت وضلالت جاننے والا بحیلہ مدح اس کی مذمت وتنقیص پراترتا ہے اور کون سچا مسلمان صحیح الایمان اپنے مولٰی کی تقدیس کو اصل دین ماننے والا ا س کے صدق ونزاہت وجملہ کمالات کوعلی وجہ الکمال ثابت کرتاہے والحمد اﷲ رب العالمین وقیل بعدا للقوم الظلمین۔ للہ الحمد اس عشرہ کاملہ نے ہذیان ناپاک گستاخ بیباک کی دھجیاں اڑادیں مگرہنوز ان کی نزاکتوں کو تو بس نہیں ع

 

صدہا سال می تواں سخن از زلف یارگفت

 

 (زلف محبوب کے بارے میں سو سال بھی گفتگو کی جاسکتی ہے۔ ت)

 

ابھی حضرت کی اس چار سطری چار دیواری میں شواہد وزوائد وغیرہا مفاسد سے بہت ابکار افکار ستم کیش عیار، آہوان مردم شکارکی چھلبل نظر آتی ہے، جنھیں بے خدمت کامل تسکین بالغ ناشاد نامراد، سسکتا بلکتا چھوڑ جانا خلاف مروت وفتوت ذاتی ہے، لہذا اپنے سمند رَ ہوار، غضنفر خونخوار، صاعقہ برق بار کی دوبارہ عنان لیتا اور خامہ پختہ کار، شہزور شہسوار، شیر گیر ضیغم شکار کو از سر نورخصت جولان دیتاہوں وباﷲ التوفیق۔

 

تازیانہ ۱۱: قولہ عدم کذب رااز کمالات حضرت حق سبحانہ، می شمارند ۱؎

 

(عدم کذب کو اللہ تعالٰی سبحانہ وتعالٰی کے کمالات سے شمار کرتے ہیں۔ ت)

 

 (۱؎ رسالہ یکروزی (فارسی)  شاہ محمد اسمعیل فاروقی کتب خانہ ملتان ص۱۷)

 

اقول اس ہوشیار عیار کی چالاکی دیدنی، صدق کو چھوڑا ، عدم کذب پر مباحثہ چھیڑا تاکہ جماد وغیرہ کی نظریں جما سکے، ظاہر ہے کہ پتھرکو سچا نہیں کہہ سکتے مگریہ بھی ٹھیک ہے کہ جھوٹا نہیں حالانکہ قلب حاضر اور عقل ناظر ہوتو فقیر ایک نکتہ بدیعہ القاء کرے سلب کیس شی کا بنفسہ ہر گز صفت کمال نہیں ورنہ لازم آئے کہ معدومات کروڑوں اوصاف کمال سے موصوف اور اعلٰی درجہ مدح کے مستحق بلکہ باری تعالٰی کی تنزیہ وتقدیس میں اس کے شریک ہوں کہ بحالت عدم موضوع سب سالبے سچ ہیں جوسرے سے موجود ہی نہیں، وہ جسم بھی نہیں، جہت میں بھی نہیں، زمان میں بھی نہیں، مکان میں بھی نہیں۔ مصور بھی نہیں۔ محدود بھی نہیں۔ مرکب بھی نہیں، متجزی بھی نہیں، حادث بھی نہیں، متناہی بھی نہیں۔ کاذب بھی نہیں۔ ظالم بھی نہیں، مخلوق بھی نہیں، فانی بھی نہیں، ذی زوجہ بھی نہیں، ذی ولد بھی نہیں، اسے خواب بھی نہیں، اونگھ بھی نہیں، بلکنا بھی نہیں، بھول بھی نہیں۔ بیس یہ اوران جیسے صدہا، اور سب صادق ہیں، مگر کوئی مجنون معرض مدح وبیان کمال میں آتاہے جب کسی صفت کمال کے ثبوت پر مبنی اور صفت مدح سے منبئی ہو، ولہذا قضایائے مذکورہ باری عزوجل کے مدائح سے ہیں کہ ان چیزوں کا سلب اعظم صفات کمال یعنی وجوب کے ثبوت سے ناشی اوران کے بیان سے اس کا سبوح وغنی وقدوس ومتعالی ہونا ظاہر، باری عزوجل کو کہنا کہ متجزی نہیں، بیشک مدح ہے کہ اس سے اس کا غنا سمجھا گیا اور نکتہ کو کہنے میں کچھ تعریف نہیں کہ اس کے لئے خوبی نہ نکلی کہ وہاں غناد رکنار متجزی محتاج کے محتاج المحتاج کی محتاجی ہے وعلی ہذالقیاس ، جب یہ امر ممہدہولیا توظاہر ہوگیا کہ حقیقۃً صدق صفت کمال ہے نہ مجرد عدم کذب جو معدومات بلکہ محالات کے بارے میں بھی صادق البتہ سلب کذب وہاں مفید مدح جہاں اس کا سلب ثبوت صدق کو مستلزم مثلا زید عاقل ناطق کی تعریف کیجئے کہ جھوٹا نہیں۔ بیشک تعریف ہوئی کہ جھوٹانہیں تو آپ ہی سچا ہوگا اور سچا ہونا صفت کمال، تو اس سلب نے ایک صفت کمال کا ثبوت بتایا، لہذا محل مدح میں آیا، جہاں ایسا نہ ہو وہاں زنہار مفید مدح مظہر کمال، یہ نکتہ بدیعہ ملحوظ رکھئے، پھر دیکھئے کہ عیار بہادر کی دی ہوئی نظیریں کیا کیا کئے کو پہنچتی ہیں۔ واللہ الموفق۔

 

تازیانہ ۱۲ و ۱۳: قولہ اخرس وجماد کہ کسے ایشاں رابعدم کذب مدح نمی کند ۱؎ (گونگے اور جماد کی مدد عدم کذب سے کوئی نہیں کرتا۔ ت)

 

(۱؎رسالہ یک روزہ (فارسی)  شاہ اسمعیل  فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۱۷ و ۱۸)

 

اقول دونوں نظیروں پر پتھر پڑے ہیں، گنگ وسنگ کی کیوں مدح کریں کہ وہاں سلب کذب ثبوت صدق سے ناشی نہیں ، گونگہ یا پتھر اگر جھوٹا اگر جھوٹا نہ ہوا تو کیا خوبی کہ سچا بھی نہیں ، تووہ استلزام صفت کمال جو مبنائے مدح تھا یا منتفی، سر یہ ہے کہ منفصلہ حقیقیہ کے مقدم و تالی میں جب دو صفت مدح وذم محمول ہوں توجس فرد موضوع سے ذمیہ کو سلب کیجئے مدحیہ ثابت ہوگی کہ یہاں ہر ایک کا رفع دوسری کے وضع کو منتج مخلاف ان چیزوں کے جو زیر موضوع مندرج ہی نہیں، کہ ان سے دونوں محمول کا ارتفاع معقول، پھر سلب ذم ثبوت مدح پر کیونکر محمول، یہاں قضیہ کل متکلم مخبر اماصادق واما کاذب (ہر متکلم خبردینے والا یاوہ صادق ہوگا یا کاذب ۔ ت) تھا اخرس وجماد پر سرے سے وصف عنوانی ہی صادق نہیں، پھر عدم کذب ان کے لئے کیا باعث مدح ہو، دیکھ او ذی ہوش! یہ فارق ہے نہ وہ کہ جب تک عیب ممکن نہ ہو کمال حاـصل ہی نہیں ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔

 

تکمیل جمیل:اقول او جھوٹی نظیروں سے بیچارے عوام کو چھلنے والے! اس تفرقہ کی سچی نظیر دیکھ مسلمان کو اہل بدعت کے بہتر فرقے پورا گنا کر کہئے رافضی، وہابی، خارجی، معتزلی، جبری، قادری، ناصبی وغیرہ نہیں تو بیشک اس کی بڑی تعریف ہوئی، او ر بعینہ یہی کلمات کسی کافر کے حق میں کہئے تو کچھ تعریف نہیں حالانکہ یہ سالبہ قضیے دونوں جگہ قطعا صادق، توکیا اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان باوجود قدرت رافضی وہابی ہونے سے بچا لہذا محمود ہوا اور دونوں اس کافر کو رافضی وہابی ہونے پر قدرت ہی نہ تھی لہذا مدح نہ ٹھہرا، کوئی جاہل سے جاہل یہ فرق سمجھے گا بلکہ تفرقہ وہی ہے کہ جب یہ فرقے اہل قبلہ کے ہیں تو مسلمان کے حق میں ان بہتر کی نفی سنی ہونے کا اثبات کرے گی لہذا اعظم مدائح سے ہوا اور کافر سرے سے مقسم یعنی کلمہ گو ہی سے خارج ، تو ان کی نفی سے کیس وصف محمود کا ا س کے لئے اثبات نہ نکلا، ولہذا مفیدمدح نہ ٹھہرا، والحمد اﷲ علٰی اتمام الحجۃ ووضوح المحجۃ  (اتمام حجت او رغلبہ پر اللہ تعالٰی کی حمد ہے۔ ت)

 

تازیانہ ۱۴:قولہ بخلاف کسے کہ لسان اوماؤف شدہ باشد تکلم بکلام کاذب نمی تواند کرد ۲؎ (بخلاف اس کے جس کی زبان ہی ماؤف ہو اور وہ جھوٹا کلام کرہی نہ سکے، ت)

 

 (۲؎رسالہ یک روزہ (فارسی)    شاہ اسمعیل    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۱۷ و ۱۸)

 

اقول اچھا ہوتا کہ تم بھی اسی کس کے مثل ہوتے کہ ایسے کاذب کلاموں کے بس تو نہ بوتے، اے عقلمند! وہ ماؤف اللسان تکلم، بکلام صادق بھی نہ کر سکے تو عدم مدح کی وہی وجہ کہ سلب کذب سے ثبوت صدق نہیں۔

 

تازیانہ ۱۵:قولہ یاقوت متفکرہ او فاسد شدہ باشد کہ عقد قضیہ غیر مطابق للواقع نمی تواند کرد ۳؎ (یا اس کی سوچ وفکر کی قوت فاسد ہوکر قضیہ غیر مطابق للواقع کا انعقاد نہ کرسکے۔ ت)

 

 (۳؎ رسالہ یک روزہ (فارسی)    شاہ اسمعیل    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۱۷ و ۱۸)

 

اقول تم سے بڑھ کرفاسد المتفکر کون ہوگا، پھر کتنے قضایائے باطلہ عقد کررہے ہو، بھلا حضرت کیا فساد متفکرہ صرف قضایائے کازبہ ہی کے لئے ہوگا ا ور جب مطلقا ہے تو عقد قضیہ پر بھی قدرت نہ ہوگی تو صراحۃ وہی فارق اور و ہم زاہق، ہاں جس  تام العقل سالم النطق کو لطف الٰہی صدق محض کی استطاعت دے کہ وجہ مانع غیبی اصدا ر کذب سے ممنوع و مصروف ہو تویہ عدم کذب بیشک مدح عظیم ہوگا اسی وجہ سے کہ اب ثبوت صادقیت کبرٰی سے مبنٰی اور کمال جلیل یعنی عصمت من اﷲ پر مبنی خلاصہ یہ کہ شخص مذکور اس طور پر زیر موضوع مندر ج اور بطور فساد تفکر خارج، فظھر التفرقۃ وذھب الوسوسۃ (فرق ظاہر اور وسوسہ ختم ہوا۔ ت)

 

تازیانہ ۱۶ تا ۱۹: قولہ یاشخصے کہ کلام صادق از وصادر می گردد وہرگاہ ارادہ کلام کاذب نماید آواز او بند میگرد د یازبان اوماؤف میشودیا کسے دین او بندیا حقوق خفہ کند ۱؎  (یا ایسا شخص ہے جو کسی جگہ سچا کلام کرتاہے وہ اس سے صادر ہوتاہے اور جب جھوٹا کلام کرتاہے تو آواز بند ہوجاتی ہے یا زبان ماؤف ہوجاتی ہے یا کوئی اس کا منہ بند کردیتاہے یا گلا دبادیتاہے۔ ت)

 

(۱؎ رسالہ یک روزہ (فارسی)    شاہ اسمعیل    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص ۱۸)

 

اقول ایسا تو کیا کہوں جو آپ کی طبع نازک کو بلکل خفہ کند، ہاں اتنا کہوں گا کہ اب کی تو اچھل کرتارے ہی توڑ لائے، یہ چار نظیریں وہ بے نظیردی ہیں کہ باید وشاید، او عقل کی پڑیا! جب وہ عزم  تکلم بکذب کرچکا تو کلام نفسی میں کاذب ہوچکا اگرچہ بوجہ مانع صادر نہ ہوسکا ت واس کے عدم سے حکم کذب کیونکر درکار، کذب حقیقۃ صفت معانی ہے نہ وصف الفاظ پھراسکی مدح کیا معنی قطعا مذموم ہوگا بھلالے دے کر اگلی نظیروں میں عدم کذب کی صورت تو تھی یہاں اللہ کی عنایت سے وہ بھی نہ رہی صریح کذب متحقق وموجود اور عدم کذب کی نظیروں میں معدود، جبھی تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی جب گمراہ کرتا ہے عقل پہلے لے لیتا ہے والعیاذ باﷲ رب العالمین۔

 

تازیانہ ۲۰: قولہ یاکسے کہ چند قضایائے صادقہ یاد گرفتہ واصلاً برتکیب قضایائے دیگر قدرت ندارد بناء علیہ تکلم بکاذب از وصادر نہ گرد ۲؎  (یا کسی نے چند سچے جملے رٹ لئے ہیں دیگر جملوں پر وہ قدرت نہیں رکھتا ہے اس بناء پر اس سے جھوٹ صادر نہیں ہوتاہے۔ ت)

 

 (۲؎ رسالہ یک روزہ (فارسی)    شاہ اسمعیل    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص ۱۸)

 

اقول یہ صورت بھی ویسا ہی فساد عقل کی ہے جس سے فقط حفظ صوادق کا شعبہ بڑھایا، مگر کام نہ آیا قطع نظر اس سے کہ یہ تصویر کیسی اور ایسے شخص سے حفظ قضایا معقول بھی ہے یا نہیں۔

 

اولا انسان مرتبہ عقل بالملکہ میں بالبداہۃ ترکیب قضایا پر قادر، تو سرے سے تصویر ہی باطل، اور عقل ہیولانی میں کہ تعقل انطباعی نہیں ہوتا، اگر تعقل نسبت خبر یہ معقول بھی ہو تا ہم حکایت وقصد افادۃ قطعا غیر معقول اور صدق کذب باعتبار حکایت ہی میں، نہ باعتبار مجرد علم، ورنہ معاذاللہ علم کواذب کا ذب ٹھہرے، تویہاں بھی سلب کذب سے ثبوت لازم نہ ہوا  اور وہی فارق پیش آیا۔

 

ثانیا جواصلا کسی قضیہ کا حتی کہ قضایائے وہمیہ واحکام شخصیہ بدیہیہ حسیّہ پر بھی قادر نہ ہو قطعا مجانین بلکہ حیوانات سے بھی بدتر اور جماد سے ملحق تو اس کا کلام کام نہ ہوگا، صورت بے صورت ہوگا اور صدق وکذب اولا بالذات صفت معانی ہے ، نہ وصف عبارات، تو بات اگرچہ بایں معنی سچی ہو کہ سامع اس سے ادارک معنی  مطلق للواقع کرے مگر اس سے اس جمادی آواز کرنے والے کا صدق لازم نہیں کہ معنی متصف بالصدق اس کے نفس سے قائم نہیں حتی کہ علماء نے کلام مجنون کو بھی خبریت سے خارج کیا، اورپر ظاہر کہ صدق وکذب اوصاف خبر ہیں، نہ شامل مطلق آواز، مولانا بحرالعلوم قدس سرہ فواتح میں فرماتے ہیں:

 

الکلام الصادر عن المجنون لایکون مقصودا بالافادۃ فلایکون حکایۃ عن امرحتی یکون خبر ۱؎۔

 

پاگل سے صادر ہونےب والاکلام مقصود کے لئے مفید نہیں ہوتا لہذا کسی امر (واقع ) سے حکایت ہی نہیں حتی کہ اسے خبر قرار دیا جائے۔ (ت)

 

 (۱؎ فواتح الرحموت بذیل المستصفی  الاصل الثانی السنۃ    مشورات الشریف الرضی قم ایران    ۲/ ۱۰۸)

 

تنبیہ دائر وسائر بہ تسفیہ جلہ نظائر:

 

اقول ایھا المسلمون! سفیہ جاہل نے حتی الامکان اپنے رب میں راہ کذب نکالنے کو نو نظیریں دیں، مگر بحمد اللہ سب نے معنٰی ہم نے اس وقت تک ان کے رد میں اس مر پر بنائے کار رکھی کہ عدم کذب بنفسہ کمال نہیں۔ جب تک ثبوت کمال پرمبنی نہ ہو، اور یہاں ایسا نہیں اس کی سزا کو اسی قدر بس تھا۔، مگر غور کرو کیجئے تو معاملہ اور بھی بالکل معکوس اور عقل مستشہد کا کاسہ منکوس اور تمام نظائر روبہ قفاہیں یعنی یہاں عدم قدرت علی الکذب کا بر بنائے کمال ہونا بالائے طاق الٹا بربنائے عیوب ونقائص ہے، کہیں عدم عقل کہیں عجز آلات، کہیں لحوق مغلوبی کہیں عروض آفات، پھر ایسا عدم کذب اگر ہوگا تو مورث ذم ہوگا نہ باعث مدح، یہ وجہ ہے کہ ان صور میں سلب کذب سے تعریف نہیں کرتے نہ وہ جاہلانہ وسفیہانہ خیال کہ عیب پر قدرت نہ ہونا مانع کمال، اب ختم الٰہی کا ثمرہ کہ سفیہ جاہل کہ خدا وجماد میں فرق نہ سوجھا، اس کا عدم کذب اس کے کمال عالی یعنی سبو حیت وقدوسیت بلکہ نفس الوہیت سے ناشی کہ الوہیت اپنی حد ذات میں ہر کمال کی مقتضی اور ہر نقص کی منافی اور ان کا کذب عیوب ونقائص پر مبنی پھر کیسی پرلے سرے کی کوری یا سینہ زوری کہ عین کمال کو کمال نقص پر قیاس کرے اوراینٹوں پتھروں کے عیوب ونقائص باری جل مجدہ کے ذمے دھرے، جاہل پر ایسی نظیر دینی لازم تھی جس میں عدم کذب باآنکہ کمال سے ناشی ہوتا پھر بھی بحالت عدم امکان مدح نہ سمجھا جاتا ''وانی لہ ذلک'' اب جو اس کا حامی بنے سب کو دعوت عام دیجئے کہ ایسی نظیر ڈھونڈ کر لاؤ، فان لم تفعلوا ولن تفعلوا ۲؎ الایۃ (پہر اگر نہ کرسکو گے اور ہر گز نہ کرسکو گے۔ ت)

 

 (۲؎ القرآن الکریم      ۲ /۲۴)

 

تنبیہ دوم : اقول اس سے زائد قہر یہ ہے کہ اپنا لکھا خود نہیں سمجھتا، نظیریں دے کر بالجملہ کہہ کر آپ ہی خلاصہ مطلب یہ نکلتاہے کہ عدم کذب اگر بربنائے عجز ہو تو مورث مدح نہیں، معلوم ہوا کہ ان نظائر میں تحقیق عجز وقصور پر مطلع ہے، پھر باری عزوجل کے عدم کذب کو ان سے ملاتاہے حالانکہ وہاں عیب ومنقصت پر عدم قدرت زنہار عجز نہیں بلکہ عین کمال ومدحت، اور معاذاللہ داخل قدرت ماننا ہی صریح نقص ومذمت،یہ تقریرکافی ووافی طور پر مقدمہ رسالہ ونیز رد ثالث، ہذیان اول میں گزری اور وہیں یہ بھی بیان ہوا کہ عجز جب ہے کہ جانب فاعل قصور وکمی ہو جیسے اے سفیہ! ان تیری نظیروں کہ گنگ وسنگ اپنے نقصان کے باعث جھوٹ سچ کچھ نہیں بول سکتے،  نہ یہ کہ جانب قابل نالائق ہو کہ تعلق قدرت کی قابلیت نہیں رکھتا، جس طرح جناب باری عزوجل کا کذب وغیرہ تمام عیوب سے منزہ  ہونا اسے ہر گز کوئی مسلم عاقل عجزگمان نہ کرے گا، یارب مگر ابن حزم ساکوئی ضال اجہل یا ان حضرت ساجاہل اضل، وباﷲ العصمۃ عن موقع الزلل والحمد اﷲ الاعز الاجل (پھسلنے کے مواقع سے الہہ ہی کی طرف سے حفاظت ہوتی ہے اور تمام حمد اﷲ غالب وبزرگ تر کے لئے ہے۔ ت)

 

بحمداللہ یہ صرف نظار پر تازیانوں کا دوسرا عشرہ کاملہ تھا ، بلکہ خیال کیجئے تو یہاں تک اسی مسئلہ کے متعلق سفاہات شریفہ پر سات تازیانے اور گزرے، تازیانہ اول دوسرا، ثم اقول (میں پھر کہتاہوں۔ ت) جس نے حضرت کا تناقص بتایا، اور دوم سوم ودہم کے بعد کی تنبیہات اور بستم کا ثانیا اور اس کے بعد کی دو تنبیہیں، یہ ساتوں جدا گانہ تازیانے تھے، تو حقیقۃ عشرہ اولٰی میں چودہ اور ثانیا میں تیرہ کل ستائیس تازیانے یہاں تک ہوئے چلتے وقت کے تین اورلیتے جایئے کہ تیس کا عدد جو دونوں تنزیہ سبق میں بھی ملحوظ رہاہے پورا ہوجائے، خصوصا ان میں ایک تو ایسا شدید کامل جس سے جان بچانی مشکل جو آپ کا خلاصہ طلب کھولے اصل مذہب سر چڑھ کر بولے وباﷲ التوفیق واضافۃ التحقیق  (توفیق اور حصول تحقیق اللہ ہی کی طر ف سے ہے۔ ت)

 

تازیانہ ۲۸: اقول وباﷲ التوفیق (میں کہتاہوں اور توفیق اللہ تعالٰی سے ہے۔ ت) شاطر عیار نے اگرچہ بظاہر اغوائے جہال کہ عوام اہل اسلام اپنے رب ذوالجلال ولاکرام کے حق میں صریح دشنام سن کر بھڑ ک نہ جائیں، مطلب دل کے روئے زشت پر پردہ ڈالنے کو براہ تقیہ کہ روافض سے بڑھ کر اصل اصیل مذہب نجدیہ ہے، یہ کلمات بڑھا دئے کہ ''کذب مذکور آرے منافی حکمت اوست پس ممتنع بالغیر ست ۱؎'' (ہاں کذب مذکور اس کی حکمت کے منافی ہے لہذایہ کذب ممتنع بالغیر ہے، ت)

 

(۱؎ رسالہ یک روزہ    شاہ محمد اسمعیل    فاروقی کتب کانہ ملتان    ص۱۷)

 

مگر اس کے ساتھ ہی جو م ذہب خفیہ جوش پر آیا اور نظیریں دینے کا شوق گرمایا توکھلے بندوں علانیہ بتایا کہ کذب الٰہی میں اصلا امتناع بالغیر کی بوبھی نہیں قطعا جزما جائز وقوعی ہے جس کے وقوع میں استحالہ عقلی وشرعی درکنار استعباد عادی کا بھی نام ونشان نہیں۔ ثبوت لیجئے اگر اس کے مذہب میں کذب الٰہی ممکن بالذات وممتنع بالغیر ہوتا تو نظیریں وہ دیتا جن میں ممتنع بالذات ہوکہ دیکھو جہاں امتناع ذاتی ہوتاہے عدم کذب باعث مدح نہیں ہوتا اور باری عزوجل کے لئے مدح ہے تو اس کے حق میں امتناع ذاتی نہیں، مگر برخلاف اس کے مثالیں وہ دیں جن میں امتناع ذاتی کا پتہ نہیں، مثلا جس کا منہ بند کرلیں یا گلا گھونٹ دیں اوراس وجہ سے وہ جھوٹ نہ بول سکے تو پر ظاہر کہ بولنے پریقینا قادر، اگر بالفرض امتناع ہے تو اس عارض کی وجہ سے تو نہ ہوا مگر امتناع بالغیر امام نجدیہ اسے بھی مانع مدح جان کر باری عزوجل سے صراحۃ سلب کرتا ہے پھرکیوں منافقانہ کہا تھا، ''ممتنع بالغیر ست'' (کذب باری تعالٰی ممتنع بالغیر ہے۔ ت) صاف کہا ہوتا ''اصلا ازامتناع بالغیر ہم بہرہ ندارد'' (امتناع بالغیر سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ت) اے حضرت! دور کیوں جائے پہلی بسم اللہ اخرسی وجمادہی کی نظیر لیجئے بھلا اخرس تو انسان ہے، جماد کے لئے بھی کلام محال شرعی تک نہیں صرف محال عادی ہے کتب حدیث دیکھئے بطور خرق عادت ہزار بار پتھروں جمادوں سے کلام واقع ہوا اور ہزار ہا بار ہوگا قریب قیامت آدمی سے اس کا کوڑا باتیں کرے گا، جب اہل اسلام یہود عنود کو قتل کریں گے اور وہ پتھروں درختوں کی آڑ لیں گے شجر وحجر مسلمان سے کہیں گے اے مسلمان آ یہ میرے پیچھے یہودی ہے، اسی طرح سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے گونگے کاکلام کرنا احادیث میں وارد، اللہ عزوجل فرماتا ہے : وقالوا لجلود ھم لِمَ شہید تم علینا قالوا انطقنا اﷲ الذی انطق کل شی ۱؎۔ کافر اپنی کھالوں سے بولیں گے تم نے کیوں  ہم پر گواہی دی، وہ بولیں گی ہمیں اس اللہ نے بلوایا جس نے ہر چیز کو گواہی بخشی۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم    ۴۱/ ۲۱)

 

اگر کلام جماد واخرس ممتنع بالغیر یا محال شرعی ہوتا زنہار وقوع کانام نہ  پاتا کہ ہر ممتنع بالغیر کا وقوع اس غیر یعنی ممتنع بالذات کے وقوع کومستلزم ، تو وقوع نے ظاہر کردیاکہ صرف خلاف عادت ہے جب وقوع کلام ثابت اور ان کے استحالہ کذب پر ہر گز کوئی دلیل عقلی نہ شرعی، تو یقینا اس کے لئے بھی جواز قوعی جو امتناع بالغیر کا منافی قطعی، اب جیوٹ بہادر استدلال کرتاہے کہ ایساعدم کذب مفید مدح نہیں ہوتا، اور باری عزوجل میں مدح ہے،تولاجرم وہاں ایسا عدم بھی نہ ہوگا ، اتناتو اس کے کلام کا منطوق صریح ہے، آگے خود دیکھ لیجےے کہ اخرس وجماد میں کیسا عدم تھا جس کو باری عزوجل میں نہیں مانتا، زنہار نہ امتناع عقلی تھا نہ استحالہ شرعی بلکہ صرف استعباد عادی تو بالضرور ملا ئے بیباک اپنے رب میں کذب کو مستعبد بھی نہیں جانتا، العظمۃ اللہ! اگر لازم قول قول ٹھہرنے تو اس سے بڑھ کر کفر جلی اور کیا ہے، مگریہ حسن احتیاط اللہ عزوجل نے ہم اہلسنت ہی کو عطا فرمایا،ا ہل بدعت خصوصا نجدیہ کہ یہ شخص جن کا معلم وامام ہے کفر وشرک کوٹکے سیر کئے ہوئے ہیں، بات پیچھے اور کفر شرک پہلے، اگر جزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا ۱؎ (اور برائی کا بدلہ اسی کی برابربرائی ہے، ت) کی ٹھہرے تو کیا ہم ان کے ایسے صریح کفریات پر بھی فتوٰی کفر نہ دیتے،

 

 (۱؎ القرآن الکریم        ۴۲/ ۴۰)

 

مگر الحمد اللہ یہاں ادفع بالتی ھی احسن ۲؎ (برائی کو بھلائی سے ٹال۔ ت) پر عمل اور کلمہ طیبہ کا ادب پیش نظر ہے کہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہنے والے کو حتی الامکان کفر سے بچاتے ہیں،

 

والحمد اللہ رب العالمین۔

 

(۲؎القرآن الکریم        ۴۱/ ۳۴)

 

تازیانہ ۲۹: اقول مناجات حکمت کے سبب کذب کو زبانی ممتنع بالغیر کہنا اس سفیہ کا صریح تناقص سے شے ممتنع بالغیر جب ہوسکتی ہے کہ کسی محال بالذات کی طرف منجر ہو ورنہ لزوم ممکن کا ممکن کونا ممکن کرنا لازم آئے اور انتقائے حکمت اگرچہ اہل سنت کے نزدیک ممتنع بالذات مگر ان حضرات کے دین میں بالیقین ممکن کہ اخر سلب حکمت ایک عیب ہے ومنقصت ہے اور وہ تمام عیوب ونقائص کو ممکن مان چکا پھر کس منہ سے کہتاہے کہ منافات حکمت باعث امتناع بالغیر ہوئی ، الحمد اللہ اہل بدعت کے بارے میں اس طرح سنت باری تعالٰی ہے کہ انھیں کے کلام سے انھیں کے کلام پر حجت والزام قائم فرماتاہے ع

 

ومنھا علی بطلانھا لشواھد

 

 (ان میں سے ان کے بطلان پر شواہد موجودہیں۔ ت)

 

سچ کہاہے:

 

دروغ گو راحافظہ بناشد

 

 (جھوٹے شخص کا حافظہ نہیں ہوتا۔ ت)

 

تازیانہ ۳۰: اقول سبحان اللہ! ہم یہ ثابت کررہے ہیں کہ امام الطائفہ نے امتناع بالغیر محض تقیۃمانا حقیقۃ اس کا مذہب جواز وقوعی ہے، مگر غورکیجئے تو وہاں کچھ اور ہی گل کھلاہے، امام وماموم، خادم ومخدو سارا طائفہ ملوم کذب الٰہی کو داقع اور موجود گارہاہے، صراحۃ کہتے ہیں کہ کذب مقدور اورفر بلاشبہہ مقدوریت کذب مقدوریت صدق کو مستلزم، کما دللنا علیہ فی الدلیل السادس و العشرین  (جیسا کہ اس پر ہم نے چھبیسویں دلیل میں اشارہ کیاہے۔ ت) اور امام الطائفہ نے توصاف بتادیا کہ بر عایت مصلحت صدق اختیار فرمایا، اب کتب عقائد ملاحظہ کیجئے، ہزار درہزار قاہر تصریحیں ملیں گے کہ جو کچھ باختیار صادر ہو قدیم نہیں تولاجرم صدق الٰہی حادث ٹھہرا  اور ہر حادث ازل میں معدوم اور ازل کیلئے نہایت نہیںَ تو بالیقین لازم کہ ازل غیر متناہی میں مولٰی تعالٰی سچانہ رہا ہوا اور جب سچا نہ تھا تو معاذاللہ ضرور جھوٹا تھا للانفصال الحقیقی بینہما  (کیونکہ ان دونوں کے درمیان انفصال حقیقی ہے۔ ت) پھر ضلال پلشت کا چہرہ زشت چھپانے کو کیوں کہتے ہو کہ کذب الٰہی ممکن ہے، کیوں نہیں کہتے کہ خدایئے موہوم طائفہ ملوم کروڑوں برس تک جھوٹا رہ چکاہے، پھر اب بھی اپنی پرانی آن پر آئے تو کیا ہے، تعالٰی اﷲ عما یقولون علوا کبیرا (اللہ تعالٰی اس سے بہت بالا ہے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔ ت)

 

تازیانہ ۳۱: میں نے بارہا قصد کیا کہ تازیانوں میں دس بیس تیس پربس کروں مگر جب ان حضرت کی شوخیاں بھی مانیں وہاں تو ؎

 

زفرق تابقدم ہر کجا کہ مے بنگرم    کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست  (سر کی مانگ سے لے کر قدم تک ہر جگہ پر نظر ڈالو دامن دل ہر جگہ کے بارے میں کہے گا جگہ یہی ہے۔ ت)

 

اسی رسالہ یکروزی میں عبارت مذکور ہ سے دو سطر اوپر جو نظر کروں تو وہاں تو خوب ہی سانچے میں ڈھلے ہیں یہاں عروس مذہب کے جمال مطلب پر پردہ تقیہ تھا وہاں حضرت بے نقاب چلے ہیں، اعتراض تھا کہ اگر حضور سید علم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مثل یعنی تمام اوصاف کمالیہ میں حضور کا شریک من حیث ھو شریک ممکن ہو تو خبر الٰہی کا کذب لازم آئے کہ وہ فرماتے ہیں : ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ۱؎۔ لیکن اللہ کے رسول اور انبیاء کے آخری ہیں۔ (ت)

 

(۱؎ القرآن الکریم   ۳۳/۴۰)

 

اور وصف خاتمیت میں شرکت ناممکن، حضرت اس کا ایک جواب یوں دیتے ہیں:

 

بعداخیتار ممکن ست کہ ایشاں رافراموش گردانیدہ شود پس قول بامکان وجود مثل اصلا منتج بتکذیب نص ازنصوص نگردد وسلب قرآن مجید بوصف انزال ممکن ست داخل تحت قدرت الہیہ، کما قال اﷲ تعالٰی ولئن شئنا لنذھبن بالذی اوحینا الیک ثم لاتجدلک بہ علینا وکیلا ۱؎۔

 

 (۱؎ رسالہ یکروزہ (فارسی)    شاہ محمد اسمعیل    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۱۷)

 

اختیار کے بعد یہ ممکن ہے کہ اس آیہ کریمہ کی بھول ہوجائے تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مثل کے وجود کے امکان والی بات نصوص میں سے کسی نص کی تکذیب بالکل نہ ہوگی جبکہ نازل شدہ قرآن کا سلب ممکن ہے جو اللہ کی قدرت کے تحت داخل ہے جیساکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا اگرہم چاہیں تو آپ کی طرف کی ہوئی وحی کو اٹھالیں پھر آپ ہمارے پاس کوئی وکالت کرنے والا نہ پاتے۔ (ت)

 

حاصل یہ کہ امکان کذب ماننا تکذیب قرآن کو اسی صورت میں مستلزم کہ آیات قرآن محفوظ رہیں حالانکہ ممکن کہ اللہ تعالٰی قرآن ہی کو فنا کردے، پھر تکذیب کا ہے کی لازم آئے۔

 

اقول ایھا المؤمنون! دیکھو صاف صریح مان لیا کہ خدا کی بات واقع میں جھوٹی ہوجائے تو ہوجائے اس میں کچھ حرج نہیں، حرج تو اس میں ہے کہ بندے اسے جھوٹا جانیں، یہ اسی تقدیر پر ہوگاکہ آیات باقی رہیں جن کے ذریعہ سے ہم جان لیں گے کہ خدا کی فلانی بات جھوٹی ہوئی اور جب قرآن ہی محو ہوگیا پھر جھوٹی پڑی تو کسی کوجھوٹ کی خبر بھی نہ ہوگی تکذیب کون کرے گا، غرض سارا ڈر اس کا ہے کہ بندوں کے سامنے کہیں جھوٹا نہ پڑے واقع میں جھوٹا ہوجائے توکیا پروا، انا ﷲ وانا الیہ راجعون (ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے۔ ت) اے سفیہ ملوم! یہ تیرا خدائے موہوم ہوگا جو بندوں کے طعنوں سے ڈرکر جھوٹ سے بچنے اور ان سے چرا چھپا بہلا بھلا کر خوب پیٹ بھر کر بولے ہمارا سچا خدا بالذات ہر عیب ومنقصت سے پاک ہے کہ کذب وغیرہ کسی میں نقصان کو اس کے سرا پردہ عزت تک بار ممکن نہیں، اور جو افعال اس کے ہیں حاشا وہ ان میں کسی نہیں ڈرتا، یفعل اﷲما یشاء ۲؎ (اللہ جو چاہے کرے۔ ت) یحکم مایرید ۳؎ (حکم فرماتاہے جو چاہے ۔ ت) اس کی شان ہے اور لایسئل عما یفعل وھم یسئلون ۴؎  (ا س سے نہیں پوچھا جاتا جووہ کرے اوران سب سے سوال ہوگا۔ ت)  اس کے جلال عظیم کا بیان "لہ الکبریاء فی السمٰوٰت والارض ۵؎ سبحانہ وتعالٰی عمایصفون" ۶؎  (اور اس کے لئے بڑائی ہے آسمانوں اور زمین میں پاکی اور برتری ہے اس کو ان کی باتوں سے۔ ت)

 

 (۲؎القرآن الکریم      ۱۴ /۲۷)                     (۳؎ القرآن الکریم   ۵ /۱) (۴؎ القرآن الکریم   ۲۱/ ۲۳)                                                                 (۵؎ القرآن الکریم     ۴۵ /۳۷)                                         (۶؎ القرآن الکریم     ۶/ ۱۰۰)

 

تازیانہ ۳۲: رب جلیل کوخلق کا خوف ماننا حضرت کا قدیمی مسلک ہے تقویت الایمان میں بھی بحث شفاعت میں فرماگئے: ''آئین بادشاہت کا خیال کرکے بے سبب درگزر نہیں کرتا کہ کہیں لوگوں کودلوں میں اس آئین کی قدر گھٹ نہ جاوے۱؎''

 

 (۱؎ تقویۃ الایمان    الفصل الثالث فی ذکر  رد الاشراک فی التصرف    مطبع علیمی لوہاری دروازہ لاہور    ص۲۲)

 

العظمۃاﷲ! سفیہ جہول نے خدا کو بھی دارا وسکندر یاہمایوں و اکبر سمجھا ہے کہ اپنی مرضی پوری کرنے کولوگوں کے لحاط سے حیلے ڈھونڈ تاہے : الا بعد اللقوم الظلمین ۱؎  (دور ہوں بے انصاف لوگ۔ ت)

 

 (۲؎القرآن الکریم  ۱۱/ ۴۴)

 

تازیانہ ۳۳: قولہ ''سلب قرآن مجید بعد انزال ممکن ست''۲؎  (نزول قرآن مجیدکا سلب ممکن ہے۔ ت)

 

 (۳؎ رسالہ یک روزہ (فارسی)     شاہ محمد اسمعیل    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۱۷)

 

اقول اے طرفہ معجون جملہ بدعات قرآن مجید اللہ عزوجل کی صفت قدیمہ ازلیہ ابدیہ ممتنع الزوال ہے، نہ اس کا وجوداللہ عزوعلا کے ارادہ واختیار وخلق ایجاد سے نہ اس کا سلب واعدام اللہ تعالٰی کی قدرت میں ورنہ اپنی ذات کریم کو بھی سلب کرسکے مقتضائے ذات بے انتفائے ذات منتفی نہیں ہوسکتا۔

 

تازیانہ ۳۴:قولہ کما قال اﷲ تعالٰی

 

  (اس کا قول: جیساکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے، ت)

 

اقول کیا خوب، کہاں ذاہب کہاں مسلوب، مگر آپ کو تحریف معنوی مرغٖوب،

 

تنبیہ :ہیہات یہ گمان نہ کرنا کہ سلب سے مراد قلب سے زوال ہے، اولا جس ضرورت سے اس طرف جائے وہ حضرت کے بالکل خلاف مذہب کہ یہ شخص صفات باری کو علانیہ مخلوق واختیاری مانتاہے، جیساکہ علم الٰہی و صدق ربانی کے بارے میں اس کی تصریحیں ہم نے نقل کیں، اور بیشک وہ چیزیں جو مخلوق ومقدور ہے اس کی ذات کا سلب بھی ممکن ، تو بر خلاف مسلک قائل تاویل قول غلط وباطل۔

 

ثانیا ہم نے تنزیہ دوم میں بدلائل ثابت کردیا کہ صدق کواختیاری ماننے والا قطعا قرآن عظیم کو حادث مانتاہے اور بیشک ہر حادث قابل فنا پھر اس کے نزدیک فنائے قرآن یقینا جائز۔

 

ثالثا خاص یہاں بھی حضرت کا مطلب ان کی جاہلانہ نظر میں جبھی نکلے گا کہ قرآن مجیدفی نفسہٖ معدوم ہوسکے کہ جب خبرہی نہ رہی تو کاذب کیا ہوگی، ورنہ مجرد سہو ہوجانا ہر گز منافی نہیں ہوسکتا، کما لایخفی فاعرف  (جیساکہ مخفی نہیں پس اسے اچھی طرح جان لو۔ ت)

 

تازیانہ ۳۵: اقول بفرض محال اگر سلب قرآن ممکن بھی ہو، تاہم جناب سفاہت مآب کا جواب عجاب قطعاناصواب، معترض نے لزوم کذب سے استحالہ قائم کیا تھا نہ لزوم تکذیب سے اور بیشک اس تقدیر لزوم کذب سے اصلا مفر نہیں کہ خبر جب خلاف واقع ہو تو اس کا صفحہ عالم سے انعدام مانع کذب قائل نہ ہوگا۔ ماناکہ خبر معدوم ہوگئی، اس کے بعد ا س کاخلاف واقع ہونا تو غایت یہ کہ ظہور کذب کا وقت نہ تھاکہ کذب اس وقت اسے عارض ہوتاہے جس کے لئے وجود معروض درکارتھا، وہ جس وقت موجود تھی اسی وقت بوجہ مخالفت واقع کاذب تھی گو ظہور کذب بعدکی ہو یا کبھی نہ ہو، اب انسان ہی میں دیکھئے اس کا کلام کہ عرض ہے اور عرض علمائے (عہ) متکلمین کے نزدیک صالح بقا نہیں فورا موجود ہوتے ہی معدوم ہوجاتاہے،

 

عہ :بلکہ مذہب بقا پر بھی مدعا حاصل ، لفظی غیر قار کاانعدام تو ظاہر اور نفسی نسبت مخلوط بالارادہ ملحوظ بقصد الافادہ کانام ہے، پر ظاہر کہ ارادہ افادہ ادائم نہیں، اور جو کچھ بعدکو محفوظ رہے صورت علمیہ ہے، نہ کلام نفسی، معہذا بحالت نسیان وہ بھی زائل، علاوہ بریں روح انسانی اگرچہ اہل سنت کے نزدیک فنا نہ ہو گی مگر قطعا ممکن الانعدام اس کے ساتھ اس کے سب صفات معدوم ہوسکتے ہیں ۱۲ منہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ

 

باایں ہمہ جب اس کا خلاف واقع ہوتا،کہتے ہیں کہ فلاں کی بات جھوٹی تھی، غرض اس نفیس جواب ملائے عجاب اور ان دوہذیان تباہ وخراب کی قدران کے مثل مجانین ہی جانتے ہوں گے،یا معاذاللہ عفوالٰہی بشرط صلاحیت کام نہی فرمائے تواس کی سچی قدر اس دن کھلیے گی یوم یقوم الناس لرب العالمین ۱؎ (جس دن سب لوگ رب لعالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔ ت)

 

(۱؎ القرآن الکریم ۸۳ / ۶)

 

الحمد اللہ! یہ حضرت کی چند سطری تحریر پر بالفعل پنتیس کوڑے ہیں اور پانچ ہذیان اول پر گزرے تو پورے چالیس تازیانے ہوئے، واقعی معلم طائفہ نے بغلامی معلم الملکوت ہمارے مولٰی پر کذب وعیوب کا افترائے ممقوت کیا، اور شرعی میں افتراء کی سزا اسی کوڑے مگر غلام کے حق میں آدھی فعلیھن نصف ما علی المحصنت من العذاب ۲؎ (تو ان پر اس کی سزا آدھی جو آزاد عورتوں پر ہے۔ ت)

 

تو چالیس کوڑے نہایت بجا واقع ہوئے ،

 

(۲؎ القرآن الکریم ۴ /۲۵)

 

اللہ عزوجل سے آرزو کہ قبول فرمائے اور ان تازیانون کو متبوع کے حق میں نکال وعقوبت تابع کےلئے ہدایت وعبرت، اہل سنت کے واسطے قوت واستقامت بنائے، آمین یا ارحم الراحمین! بیشک ہماری طرف کے علماء ''شکر اللہ مساعیہم الجمیلہ''نے حضرت کے ہذیان دوم کی بھی ضرور دھجیاں لی ہوں گی مگر اس وقت تک فقیرکی نظر سے اس بارے میں کوئی تحریر نہ گزریک جو کچھ حاضر کیا بحمداللہ القائے ربانی ہے کہ عبد ضعیف پر فیض لطیف سے فائض ہوا، امید کرتاہوں کہ ان شاء اللہ العزیز اس بسلط جلیل ووجہ جمیل پر نقدجزیل حصہ خاص فقیرذلیل ہے۔

 

فللّٰہ المنۃ فی کل اٰن وحین والحمد ﷲ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علی سید المرسلین محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین۔ آمین!

 

ہر وقت وہر گھڑی اللہ تعالٰی کی ہی حمد ہے اور حمد ہے تمام جہانوں کے پروردگار کی، صلٰوۃ والسلام رسولوں کے سردار محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر اور آپ کے آل واصحاب تمام پر، آمین! (ت)

 

تنزیہ چہارم(عہ) علاج جہالات جدیدہ میں

 

عہ:تنبیہ ضروری: خوب یاد رہے کہ اس ساری تنزیہ اور اس کے مناسب تمام مواضع رسالہ میں ہمارا روئے سخن ان ناقصوں خاسروں کی طرف نہیں جنھیں عروسان منصہ امامت طائفہ نے اپنے بھولے چہروں کانقاب بنایا ہوبلکہ صرف مخاطبہ ان نئے متبدعوں، تازہ مقتداؤں سے ہے جو کتاب پر تفریظ لکھیں اور اس کے حرف بحرف صحیح ومسلم ہونے کی تصریح کریں والسلام ۱۲ منہ

 

اقول وبحول اﷲ اصول ایھا المسلمون (میں اﷲ کی توفیق سے کہتاہوں اے اہل ایمان سلام! ت) امکان کذب الٰہی کو خلف وعید کی فرع جاننا اوراس میں اختلاف ائمہ کو وجہ سے امکان کذب کو مختلف فیہ ماننا ایک تو افتراء دوسرے کتنا بے مزہ۔ بیشک مسئلہ خلف وعید میں بعض علماء جانب جواز گئے، اور محققین نے منع وانکار فرمایا، مگر حاشانہ اس سے امکان کذب ثابت، نہ یہ علمائے مجوزین کا مسلک بلکہ وہ اس سے بہزار رزبان تبری وتحاشی کرتے ہیں، پھر ان کی طرف امکان کذب کی نسبت سخت کذب وستم جسارت جس کے بہتان واضح البطلان ہونے پر حج قاہرہ قائم،

 

حجت اولٰی: یہی نصوص قاطعہ کہ تنزیہ اول میں گزرے جن سے واضح کہ کذب باری محال ہونے پر اجماع قطعی منعقد تمام کتب کلامیہ میں جہاں اس مسئلے کا ذکر آیا ہے صاف تصریح فرمادی کہ اس پر اجماع و اتفاق علماء ہے یا بے حکایت خلاف اس پر جزم کیا فرمایا ہے۔

 

حجت ثانیہ: اقول طرفہ یہ کہ جو علماء مسئلہ خلف وعید میں خلاف بتاتے ہیں وہی استحالہ کذب پر اجماع نقل فرماتے ہیں، جس شرح مقاصد میں ہے : ان المتاخرین منھم یجوزون الخلف فی الوعید ۱؎۔ان میں کےمتاخرین خلف وعید جائز مانتے ہیں۔

 

 (۱؎ شرح المقاصد   المبحث الثانی اتفقت الائمۃ علی العفو عن الصغار  دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۲۳۷)

 

اسی شرح میں ہے: الکذب وھو محال باجماع العلماء لان الکذب نقص باتفاق العقلاء وھو علی اﷲ علی مح ۱؎۔ کذب الٰہی باجماع علماء محال ہے کہ وہ باتفاق عقلاء عیب ہے اور عیب اس پاک بے عیب پر قطعا محال۔

 

 (۱؎ شرح المقاصد    المبحث السادس فی انہ تعالٰی متکلم     دارالمعارف النعمانیہ لاہور        ۲ /۱۰۴)

 

مگر علماء کو خبر نہ تھی کہ امکان کذب جواز خلف وعید پر متفرع تو ہم اسے مختلف فیہ لکھ کر کیونکر اجماع بتائے دیتے ہیں، اب چودھویں صدی میں آکر ان حضرات کو اس تفریع کی خبر ہوئی،

 

حجت ثالثہ، اقول طرفہ تریہ کہ جو علماء خلف وعید کا جواز مانتے ہیں خود ہی کذب الٰہی کو محال و اجماعی جانتے ہیں، جس مواقف میں ہے : لایعد الخلف فی الوعید نقصا ۲؎۔ خلف وعید تنقص نہیں گنا جاتا۔

 

 (۲؎ شرح المواقف  المقصد السادس فی تقریر اصحابنا    منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۸/ ۳۰۷)

 

اسی مواقف میں ہے : انہ تعالٰی یمتنع علیہ الکذب اتفاقا ۳؎۔ کذب باری بالاتفاق محال ہے۔

 

 (۳؎شرح المواقف   المقصد السابع فی انہ تعالٰی متکلم    منشورات الشریف الرضی قم ایران   ۸/ ۱۰۰)

 

جس شرح طوالع میں ہے : الخلف فی الوعید حسن ۴؎۔ وعید میں خلف حسن ہے۔

 

(۴؎ شرح طوالع الانوار  )

 

اسی میں ہے : الکذب علی اﷲ تعالٰی محال ۵؎۔ اللہ تعالٰی کا کذب محال ہے۔

 

 (۵؎شرح طوالع الانوار  )

 

جن علامہ جلال دوانی نے شرح عقائد میں لکھا: ذھب بعض العلماء الی ان الخلف فی الوعید جائز علی اﷲ تعالٰی لافی الوعد وبھٰذا  وردت السنۃ ۶؎۔  (۶؎ الدوانی علی العضدیہ  مطبع مجتبائی دہلی  ص۷۴)

 

بعض علماء اس طرف گئے کہ وعید میں خلف اللہ تعالٰی پر جائز ہے نہ وعدہ میں اور یہی مضمون حدیث میں آیا۔

پھر بعد ذکر حدیث اسے عرف وکلام سے مؤید کیا کما نقلہ افندی اسما عیل حقی فی روح البیان (جیسا کہ امام اسماعیل حقی آفندی نے روح البیان میں اسے نقل کیا ہے۔ ت)

 

وہی علامہ جلال فرماچکے : الکذب علیہ تعالٰی محال لاتشتملہ القدرۃ ۱؎۔ اللہ تعالٰی کا کذب محال ہےقدرت الٰہی میں داخل نہیں۔

 

(۱؎ الدوانی علی العضدیۃ    مطبع مجتبائی دہلی  ص۷۳)

 

مگریہ علماء خود اپنا لکھا نہ سمجھے تھے کہ باہم متلازم چیزوں میں ایک کاجواز دوسرے کا استحالہ کیونکر مان لیتے اور اپنے کلام سے آپ ہی تناقص کرتے ہیں۔ اب صدہا سال کے بعد ان حضرات کو کشف ہوا کہ مذہب کے معنی وہ تھے جو خود اہل مذہب کی فہم نہ تھے۔

 

حجت رابعہ، اقول افسوس ان ذی ہوشوں نے انتاہی دیکھا کہ علماء مسلک جواز کا محصل و مبنٰی کیا ٹھہراتے اور اس تفریع شنیع یعنی امکان کذب کو کیوں کر طرح طرح سے دفع فرماتے ہیں یہاں ان سے بعض وجوہ نقل کرتاہوں:

 

وجہ ۱: وعید سے مقصود انشائے تخویف وتہدید ہے، نہ اخبار، تو سرے سے احتمال کذب کا محل ہی نہ رہا، مسلم الثبوت اوراس کی شرح فواتح الرحموت میں ہے :

 

الخلف فی الوعید جائز فان اھل العقول السلیمۃ یعد ونہ فضلاء لانقصا  دون الوعد فان الخلف فیہ نقص مستحیل علیہ سبحانہ وردبان ایعاد اﷲ تعالٰی خبر فھو صادق قطعا لاستحالہ الکذب ھناک، و اعتذر بان کونہ خبرا ممنو ع بل ھو انشاء للتخویف فلاباس ح فی الخلف ۲؎۔ (ملخصاً)

 

یعنی وعید میں خلف جائز ہے کہ سلیم عقلیں اسے خوبی گنتی ہیں، نہ عیب، اور وعدہ میں جائز نہیں کہ اس میں خلف عیب ہے اور عیب اللہ عزوجل پر محال اس پر اعتراض ہو ا کہ اللہ تعالٰی کی وعید بھی ایک خبر ہے تو یقینا سچی باری جل وعلا کا کذب محال، اور عذر کیا گیا کہ ہم اسے خبر نہیں مانتے بلکہ انشائے تخویف ہے تو اب خلف میں حرج نہیں۔ (ملخصاً)

 

 (۲؎ فواتح الرحموت بذیل المستصفی    الباب الثانی فی الحکم    منشورات الرشریف قم ایران    ۱/ ۶۲)

 

دیکھو! خلف وعید جائز ماننے والوں سے استحالہ کذب الٰہی کا صراحۃ اقرار اور اس کے امکان سے بہزار زبان اجتناب وانکار کیا، اور اپنے مذہب کی وہ توجیہ فرمائی جس نے اس احتمال باطل کی گنجائش ہی نہ رکھی، پھر معاذاللہ امکان کذب ماننے کو ان کے سر باندھنا کیسی وقاحت وشوخ چشمی ہے۔

 

وجہ ۲: فرماتے ہیں آیات عفو سے مخصوص ومقید ہیں، یعنی عفو و وعید دونوں میں وارد، تو ان کے ملانے سے آیات وعید کے یہ معنی ٹھہرے کہ جنھیں معاف نہ فرمائے گا وہ سزا پائیں گے، جب یہ معنی خود قرآن عظیم ہی نے ارشاد فرمائے تو جو از خلف کو معاذاللہ  امکان کذب سے کیا علاقہ رہا، امکان کذب تو جب نکلتا کہ جزماً حتماً وعید فرمائی جاتی، اور جب خود متکلم جل وعلا نے اسے مقید بعدم عفو فرمادیا ہے تو چاہے وعید  واقع ہو یا نہ ہو ہرطرح اس کا کلام یقینا صادق جس میں احتمال کذ ب کو اصلا دخل نہیں، یہ وجہ اکثر کتب علماء مثل تفسیر بیضاوی انوار التنزیل وتفسیر عمادی ارشاد العقل السلیم وتفسیر حقی روح البیان وشرح مقاصد وغیرہا میں اختیارفرمائی، لطف یہ ہے کہ خود ہی ردالمحتار جس سے مدعی جدید غیر مہتدی و رشید نے مسئلہ خلف میں خلاف نقل کیا، اسی ردالمحتار میں اسی جگہ اسی قول جواز کے بیان میں فرمایا: حاصل ھذا القول جواز التخصیص لما دل علیہ اللفظ بوضعہ اللغوی من العموم فی نصوص الوعید ۱؎۔ اس قول کا حاصل یہ ہے کہ نصوص وعید میں جو ظاہر لفظ اپنے معنی لغوی کی رو سے عموم پر دلالت کرتا ہے کہ جوشخص ایسا کرے گا یہ سزا پائے گا، اس میں تخصیص جائز ہے۔

 

 (۱؎ ردالمحتار  کتاب الصلٰوۃ  مطلب فی خلف الوعید وحکم الدعاء بالمغفرۃ  داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۳۵۱)

 

یعنی عام مراد نہ ہو بلکہ ان لوگوں کے ساتھ خاص ہو جنھیں مولٰی تعالٰی عذاب فرمانا چاہے، ایمان سے کہنا اسی ردالمحتار میں یہیں یہیں یہ تصریح تو نہ تھی جس نے اس تفریع خبیث وقبیح کی صاف بیخ کنی کردی، آج تک کسی عاقل نے عام مخصوص منہ البعض کو کذب کہا ہے، ایسے عام تو قرآن عظیم میں اس وقت بکثرت موجود، پھرامکان کذب کیوں مانو! صاف نہ کہہ دو کہ قرآن مجید میں (خاک بدہن گستاخان) جابجا کذب موجود ہے، واہ شاباش!

ردالمحتار کی عبارت سے اچھااسناد کیا کہ آدھی نقل اور آدھی عقل، پھر بھی دعوی رشد ودیانت باقی ہے، ذرا آدمی سے تو حیا کرے والاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔ وجہ ۳: اگر بالفرض کوئی نص مفیدِ تخصیص وعید نہ بھی آتا تاہم کریم کی شان یہی ہے کہ غیر متمرد غلاموں کے حق میں وعید بنظر تہدید فرمائے اور اس سے یہی مراد لے کہ اگر ہم معاف نہ فرمائیں تو یہ سزا ہے، خلاصہ یہ کہ قرینہ کرم تخصیص وتقید وعید کے لئے بس ہے اگرچہ مخصص قولی نہ ہو۔

 

اقول وبہ یحصل قران المخصص بالمخصص بخلاف ماسبق فھو خاص بمذہب من یجیز التراخی والانفصال وھذا جارٍ علی مذہب الکل۔

 

میں کہتاہوں اس سے مخصص کاقرینہ حاصل ہوگیا بخلاف ماسبق کے ، وہ صرف اس شخص کے مذہب کےموافق ہے جس نے تراخی وانفصال کو جائز رکھا ہے اور یہ تمام مذہب پر جاری ہے۔ (ت)

 

یہ وجہ وجیہ فقیر غفراللہ تعالٰی کے خیال میں آئی تھی یہاں تک کہ علامہ خیالی رحمہ اللہ تعالٰی کو دیکھا کہ حاشیہ شرح عقائد میں اس کی تصریح فرمائی : حیث قال لعل مرادھم ان الکریم اذا اخبر بالوعید فاللائق بشانہ ان یبنی اخبارہ علی المشیۃ وان لم یصرح بذلٰک بخلاف الوعد فلا کذب ولاتبدیل ۱؎۔ یعنی امید ہے کہ خلف وعید جائز ماننے والے یہ مراد لیتے ہیں کہ کریم جب وعید کی خبر دے تو اس کی شان کے لائق یہی ہے کہ اپنی خبر کو مشیت پر مبنی رکھے اگرچہ کلام میں اس کی تصریح نہ فرمائے بخلاف وعدہ کے تو خلف وعید میں نہ کذب ہے نہ بات بدلنا۔

 

 (۱؎ حاشیہ الخیال علی شرح العقائد النسفیہ    مطبع اصح المطابع بمبئی (انڈیا)    ص ۱۲۱)

 

مسلمانو! دیکھا کہ خلف وعید جائز ماننے والے اس تفریع ناپاک سے جو مدعی بیباک نے گھڑی کس قدر دور بھاگتے اور کس کس وجہ سے اسے علانیہ رد کرتے ہیں، پھر اپنی جھوٹی بات بنانے کے لئے ناکردہ گناہ ان کے سر ایسا الزام شدید باندھنا کس درجہ جرأت وبے حیائی ہے، قال اﷲ سبحانہ وتعالیٰ :   ومن یکسب خطیئۃ اواثما یرم بہ بریئا احتمل بھتانا واثما مبینا ۲؎۔  (۲؎ القرآن الکریم        ۴ /۱۱۲)

 

او رجو کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔ (ت)

 

حجت خامسہ، اقول : مجوزین خلف وعید اپنے مذہب پر بڑی دلیل پیش کرتے ہیں کہ باری عزاسمہ نے فرمایا: ان اﷲ لایغفران یشرک بہ ویغفر مادون ذٰلک لمن یشاء ۳؎۔ بیشک اللہ تعالٰی کفر کو معاف نہیں فرماتا اور کفر سے نیچے جنتے گناہ ہیں جسے چاہے گا بخش دے گا۔

 

 (۳؎القرآن الکریم      ۴/ ۱۱۶)

 

اسی ردالمحتار میں اسی مقام پر اسی مسئلہ کے بیان میں آپ کی منقولہ عبارت سے چارہی سطر بعد فرمایا: ادلۃ المثبتین التی من انصہا قولہ تعالٰی ان اﷲ لایغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذٰلک ۱؎۔ اثبات کرنیوالوں کی مضبوط ترین دلیل اللہ تعالٰی کا یہ فرمان ہے بیشک اللہ تعالٰی کفر کو معاف نہیں فرماتا اور کفر سے نیچے جنتے گناہ ہیں جسے چاہے گا بخش دے گا۔ (ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الصلٰوۃ     مطلب فی خلف الوعید وحکم الدعاء    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۳۵۱)

 

یوں ہی اس کی ماخذ حلیہ شرح منیہ میں امام محقق ابن امیر الحاج میں ہے اور پر ظاہر کہ دعوٰی دلیل پر متفرع اور اس کے مفاد کا تابع ہوتاہے، سبحان اللہ ! جب جواز خلف خو د ارشاد متکلم بالوعید جل مجدہ کی طرف مستند کہ اس نے فرمادیا ''ہم جسے چاہیں گے بخش دیں گے'' تو دلیل امکان کذب کو اصلا راہ نہیں دیتی مگر مدلول میں زبردستی خدا واسطے کو مان لیا جائے گا اس جہالت کی کوئی حد ہے آپ کے نزدیک یہ علماء اپنے دعوٰی ودلیل کی بھی سمجھ نہ رکھتے تھے کہ خلف تو اس معنی پر جائز مانیں جسے امکان کذب لازم، اور دلیل وہ پیش کریں جو اس معنی کی بالکل قاطع وحاسم، خدارا اپنی جہالتیں، سفاہتیں علماء کے سرکیوں باندھتے ہو، ع

 

اس آنکھ سے ڈرئےے جو خدا سے نہ ڈرے آنکھ

للہ ! انصاف! اگر بادشاہ حکم نافذ کرے کہ جو یہ جرم کرے گا یہ سزا پائے گا اور ساتھ ہی اسی فرمان میں یہ بھی ارشاد فرمایئے کہ ہم جسے چاہیں گے معاف فرمادیں گے تو کیا اگر وہ بعض مجرموں سے درگزر کرے تو اپنے پہلے حکم میں جھوٹا پڑے گا یا اس آئین کی قدرلوگوں کے دلوں سے گھٹ جائے گی، جیسا کہ وہ احمق جاہل دعوٰی کرتاہے یا اگر کوئی شخص بدلیل اس دوسرے ارشاد کے ثابت کرے کہ بادشاہ نے جو سزا مقررفرمائی ہے کچھ ضرور نہیں کہ ہو ہی کر رہے بلکہ ٹل بھی سکتی ہے تو کیا اس کے قول کا حاصل یہ ہوگا کہ وہ بادشاہ کا کذب مجتمل مانتا ہے، ذرا آدمی سمجھ سوچ کر تو بات منہ سے نکالے، سبحن اللہ! جس ردالمحتار سے سند لائے اسی میں وہیں اسی بیان میں اسی صفحہ میں وہ صاف وروشن تصریحیں موجود ہیں جن سے اس تفریع ناپاک کی پوری قلعی کھلتی ہے، حضرت ایک ذرا سا ٹکڑا نقل کر لائیں اور باقی بالکل ہضم، گویا دیکھا ہی نہیں۔ اسی کانام دین ودیانت ہے۔ اسی پر دعوٰی رشد وہدایت ہے۔ مگر حضرات وہابیہ عادت سے مجبور ہیں، نقل عبارت میں قطع وبریداب صاحبو کا داب قدیم رہاہے۔ یہاں تک کہ ان کے متکلمین نے رسالے کے رسالے جی سے گھڑ کر علمائے سابقین کی طرف نسبت کردیئے۔ انتہی یہ کہ عالم وامام دل سے تراشے کہ باوجود تکرار مطالبہ تمام عالم میں ان کے وجود کا پتا نہ دے سکے۔

 

فقیر کے بعض احباب سلمہم اللہ تعالٰی نے رسالہ ''سیف المصطفی علی ادیان الافتراء'' اسی باب میں لکھا اور اس میں ان حضرات کے عمائد واکابر کی ڈیڑھ سوسے زیادہ ایسی ہی عبارتوں، بددیانتوں کا ثبوت دیا۔ واقعی حضرات نجدیہ نے ایک حدیث صحیح عمر بھر کے عمل کو بس سمجھی ہے کہ حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اذا لم تستحیی فاصنع ماشئت ۱؎ (جب کوئی بے حیا ہوجائے تو وہ چاہے کرے۔ ت) ع

بے حیا باش وانچہ خواہی کن

(بے حیا ہوجا پھر جو چاہے کرتارہ۔ ت)

 

 (۱؎ المعجم الکبیر   مروی از عبداللہ بن مسعود حدیث ۶۵۸    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۷ /۲۳۷)

 

حجت سادسہ، اقول :  امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں: قال ابوعمر وبن العلا لعمر وبن عبید، ماتقول فی اصحاب الکبائر؟ قال اقول ان اﷲ منجز ایعادہ کما ھوا منجز وعدہ، قال ابو عمر وانک رجل اعجم، لا  اقول اعجم اللسان ولکن اعجم القلب، ان العرب تعدا لرجوع عن الوعدلؤماوعن الایعاد کرماء والمعتزلۃ حکوا ان اباعمروبن العلاء لما قال ھذا الکلام قال لہ عمرو بن عبید یاابا عمرو فھل یسمی اﷲ مکذب  نفسہ فقال لا فقال عمرو بن عبید فقد سقطت حجتک، قالوا فانقطع ابوعمرو بن العلاء، وعندی انہ کان لابی عمرو ان یجیب عن ھذا السؤال ان ھذا انما یلزم لوکان الوعید ثابتا جزماً من غیر شرط، وعندی جمیع الوعیدات مشروطۃ بعدم العفو، فلایلزم من ترکہ دخول الکذب فی الکلام اﷲ تعالٰی ۲؎ اھ ملخصاً۔ یعنی امام ابو عمرو بن العلاء رحمہ اللہ تعالٰی نے عمروبن عبید پیشوائے معتزلہ سے فرمایا اہل کتاب کبائر کے بارے میں تیرا کیا عقیدہ ہے؟ کہا میں کہتاہوں اللہ تعالٰی اپنی وعید ضرور پوری کرے گا جیساکہ اپنا وعدہ بیشک پورا فرمائے گا۔ امام نے فرمایا تو عجمی ہے میں نہیں کہتا کہ زبان کا عجمی بلکہ دل کا عجمی ہے، عرب وعدہ سے رجوع کو نالائقی جانتے ہیں اور وعید سے درگزر کو کرم، معتزلہ حکایت کرتے ہیں۔ اس پر عمرونے جواب دیا کیا خدا کو اپنی ذات کا جٹھلانے والا ٹھہرائےے گا۔ امام نے فرمایانہ، عمرو نے کہا تو آپ کی حجت ساقط ہوئی، اس پر امام بند ہوگئے۔ امام رازی فرماتے ہیں میرے نزدیک امام یہ جواب دے سکتے تھے کہ اعتراض تو جب لازم آئے کہ وعید یقینی بلاشرط ہو اور میرے مذہب میں تو سب وعیدیں عدم عفو سے مشروط ہیں تو خلف وعید سے معاذاللہ کلام الٰہی میں کذب کہاں سے لازم آیا۔

 

 (۲؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)     تحت آیۃ اﷲ لا یخلف المیعاد   المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر    ۷/ ۱۹۷)

 

اب عاقل بنظر انصاف غور کرے۔ اولاً اگر تجویز خلف امکان کذب مانناہی ہوتی تو برتقدیر صدق حکایت امام کا بند ہونا کیا معنی انھیں صاف کہنا تھا میں جواز خلف مانتاہوں تو امکان کذب میرا عین مذہب اوربرتقدیر کذب معتزلہ علمائے اہلسنت کیوں نہیں فرماتے کہ تم نے وہ حکایت گھڑی جو آپ ہی اپنے کذب کی دلیل ہے، مجوزین خلف توامکان کذب مانتے ہیں پھر امام اس الزام پر بند کیوں ہوجاتے۔

ثانیاً آگے چل کر امام رازی امام ابن العلاء کی طرف سے اچھا جواب دیتے ہیں کہ میرے مذہب میں سب وعیدیں مقید ہیں۔ سبحان اللہ! جب وعیدیں مقید ہوں گی تو امکان کذب کدھر جائے گا۔ کیوں نہیں کہتے کہ میرے مذہب میں کذب ممکن تو الزام ساقط، غرض بے شمار وجوہ سے ثابت کہ مدعی جدید غیر مہتدی ورشید نے علماء کرام پرجیتا طوفان باندھا۔

 

حجت سابعہ، اقول :  آپ کی یہی ردالمحتار جس سے آدھا فقرہ نقل کرکے ائمہ دین پر پوری تہمت کردی، اس مبحث میں حلیہ امام علامہ ابن امیر الحاج ناقل ہے شروع عبارت یوں ہے : واقفہ علی الاول صاحب الحلیۃ المحقق ابن امیر الحاج وخالفہ فی الثانی وحقق ذٰلک بانہ مبنی علی مسئلۃ شھیرۃ وھی انہ ھل یجوز الخلف فی الوعید فظاھر مافی المواقف ۱؎ الخ۔ صاحب حلیۃ محقق ابن امیر الحاج نے اول میں اس کی مواقف کی ہے اور ثانی میں مخالف، اور ثابت کیا کہ اس کامدار ایک مشہور مسئلہ پرہے اور وہ یہ ہے کہ کیا خلف وعید جائزہے۔ تو مواقف میں جو کچھ ہے تو وہ ظاہر ہے الخ۔ (ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار  کتاب الصلٰوۃ  مطلب فی خلف الوعید وحکم الدعاء   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۳۵۱)

 

اور ختم یوں ھذاخلاصۃ مااطال بہ فی الحلیۃ ۲؎  (یہ حلیہ میں ان کی طویل گفتگو کا خلاصہ ہے۔ ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار   کتاب الصلٰوۃ  مطلب فی خلف الوعید وحکم الدعاء  داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۳۵۱)

 

اور یہ صاحب حلیہ خود مسلمانوں کے حق میں جواز خلف کو ترجیح دیتے ہیں، اسی ردالمحتارمیں ان سے منقول: الاشبۃ ترجح جواز الخلف فی الوعید فی حق المسلمین خاصۃ دون الکفار ۳؎ ۔ اشبہ ومختار یہ ہے کہ خلف وعید کا جواز خاص مسلمانوں کے حق میں ہے نہ کہ کفار کے حق میں ہیں۔ (ت)

اب ملاحظہ ہوکہ یہی امام قائل جوازخود آپ کی اس تفریح شنیع یعنی امکان کذب سے کیسی سخت تحاشی کرتے ہیں۔

 

 (۳؎ ردالمحتار   کتاب الصلٰوۃ  مطلب فی خلف الوعید وحکم الدعاء  داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۳۵۱)

 

اسی حلیہ میں بعد ختم بحث کے فرمایا: وحاش ﷲ ان یراد بجواز الخلف فی الوعید ان لایقع عذاب من اراداﷲ الاخبار بعذابہ فانہ محال علی اﷲ تعالٰی قطعا، کما ان عدم وقوع نعیم من اراداﷲ الاخبار عنہ بالنعیم محال علیہ قطعا کیف لا وقد قال تعالٰی ومن اصدق من اﷲ قیلا o ومن اصدق من اﷲ حدیثا o وتمت کلمٰت ربک صدقا وعدلا طلامبدل لکلمٰتہ ۱؎ ج۔

 

یعنی حاشا ﷲ خلف وعید جائز ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اللہ عزوجل نے جس کے عذاب کی خبر دینی چاہی اس کا عذاب واقع نہ ہویہ اللہ تعالٰی پر قطعا محال ہے جس طرح یہ بالیقین ممکن نہیں کہ اس نے جس کے لئے نعیم کی خبر دی ہو اس کے لئے نعیم واقع نہ ہو  اور کیوں کر نہ ہو اس کی ؒخبر کا کذب محال ہے۔ حالانکہ وہ خود فرماتاہے اللہ سے کس کا قول سچاہے، اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ہے۔ تیرے رب کی باتیں سچ اور عدل میں کامل ہیں، کوئی اس کی باتوں کو بدلنے والا نہیں۔

 

 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

کیوں ایمان سے کہنا یہ وہی علماء ہیں جن پر تم امکان کذب ماننے کا بہتان کرتے ہو۔ للہ حیادے۔

 

حجت ثامنہ بقطع عرق ضلالت ضامنہ۔

 

اقول وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق  (میں اللہ کی توفیق سے کہتاہوں اور اسی کی توفیق سے تحقیقی بات کو پایاجاسکتاہے۔ ت) علمائے مجوزین کے طریق استدلال ومناظرہ وجدال شاہد عدل ہیں کہ ان کے نزدیک خلف وعید وعفو ومغفرت میں نسبت تساوی اور دونوں جانب سے ترفق کلی ہے، ثبوت سنئے قریب گزرا کہ انھوں نے اپنے دعوے پر آیہ کریمہ ویغفر مادون ذٰلک لمن یشاء ۲؎  (او کفر سے نیچے جنتے گناہ ہیں جسے چاہے بخش دے گا۔ ت) سے استدلال کیا۔

 

 (۲؎ القرآن الکریم  ۴/ ۱۱۶)

 

اور حلیہ پھر ردالمحتار میں جس سے آپ ہمیشہ کے لئے اپنے پیچھے ایک آفت لگانے کو ذر ا سا ٹکڑا نقل کرلائے۔

 

اس دلیل کو انص واظہر دلائل مجوزین کہا اور پر ظاہر کہ آیت صرف جواز مغفرت ارشاد فرماتی ہے اسی کو انھوں نے جواز خلف پر دلیل ٹھہرایا تو ان کا استدلال برہان قاطع کہ وہ مغفرت کو خلف سے عام نہیں مانتے کہ جواز اعم ہر گز جواز اخص کا مثبت نہیں ہوسکتا اور عنقریب آتاہے کہ معتزلہ نے امتناع عفو پر آیات وعید سے تمسک کیا۔ اس پر ان علماء نے جواب دیا کہ خلف جائز ہے تو لاجرم جواز خلف کو امتناع عفو کا رد مانا اور زنہار جواز اعم امتناع اخص کا نافی نہیں ہوسکتا۔ تو ان کا یہ جواب دلیل ساطع کو وہ خلف کو مغفرت سے عام نہیں مانتے۔، رہا تباین وہ بالبداہۃ اور خود اس رد واثبات سے سے بین البطلان پس تساوی متعین اور  مراد متبین، یعنی ظاہر ہوگیا کہ وہ صرف عدم وقوع وعید بوجہ عفو کو خلف سے تعبیر فرماتے اور جائز ٹھہراتے ہیں کہ یہی مغفرت سے مساوی ہے نہ کہ معاذاللہ تبدیل وتکذیب خبر کہ عفو سے عموم وخصوص دونوں رکھتی ہے مثلا درگزر بر بنائے تخصیص نصوص وتقیید وعید واقع ہوئی تو عفو موجود اور تبدیل مفقود، کسی جرم پر ایک سزائے شدید کی وعید حتمی اور ایقاع کے وقت اس میں کمی کی تو عفو (عہ) مفقود اور تبدیل موجود۔ اوراگر عفو تخفیف کو شامل کیجئے تو عام مطلقا سہی بہر حال خلف کہ اس کا مساوی ہے کذب سے قطعا عام مطلقا یا من وجہ اب تو اپنی جہالت فاحشہ پر متنبہ ہوئے کہ جواز اعم امکان اخص کا مستلزم مان رہے ہو فالحمداﷲ علی اتمام الحجۃ وایضاح المحجۃ۔

 

عہ: المغفرۃ وقایۃ شرالذنوب بالکلیۃ ۱؎ اھ ۱۲ رضی اﷲ عنہ۔

 

مغفرت گناہوں کے شر سے کلیۃً محفوظ رہنا ہے اھ ۱۲ رضی اللہ عنہ (ت)

 

(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

حجت تاسعہ قاہرہ قالعہ قاتلہ قارعۃ بارغۃ التبیین دامغۃ الکذابین،

 

اقول وباللہ االتوفیق (میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہتاہوں۔ ت) ایہاالمسلمون! ذرا قلب حاضر درکار اسی مدعی جدید غیر مہتدی ورشید نے کذب باری عزوجل کا صرف امکان عقلی ہی ائمہ دین کی طرف نسبت نہ کیا۔ بلکہ معاذاللہ انھیں کفر صریح کا قائل قرار دیا۔ پھر الحمد اللہ ان کا دامن سنت مامن تو کفروضلالت کے ناپاک دھبوں سے پاک ومنزہ مگر حضرت خودہی اپنے ایمان کی خیر منائیں۔ یوں نہ مانیں تو مفصل جانیں۔ اصل مراد یہ ہے کہ خلف بایں معنی کہ متکلم بایک بات کہہ کر پلٹ جائے اور جو خبرت دی تھی اس کے خلاف عمل میں لائے۔ بلاشبہہ اقسام کذب سے ہے کہ کذب نہیں مگر خلاف واقع خبردیناتو اس معنی پر خلف کو ممکن یا سائغ یا واقع یا واجب جو کچھ مانئے بعینہٖ وہی حکم کذب کے لئے ثابت ہوگا کہ یہ جانب وجود ہے اور جانب وجود میں قسم مقسم کو مستلزم اور عقل احکام قسم سے مقسم پر حاکم کہ اس کا وجود بے اس کے محال وناممکن تو لاجرم اس کا امکان اس کے جواز اوراس کا وجود اس کے وقوع اور اس کا وجوب اس کی ضرورت کو لازم۔ حضرت مدعی جدید نے اپنی جہالت وضلالت سے کلام علماء میں خلف کے یہی معنی سمجھے کہ باری تعالٰی عیاذاً باللہ بات کہہ کرپلٹ جائے خبر د کر غلط کردے لہٰذا جواز خلف پر امکان کذب کو متنفرع کیا حالانکہ حاشاﷲ عالم میں کوئی عالم اس کا قائل نہیں بلکہ وہ صراحۃ اس معنی مردود مخترع عنود کا ردبلیغ فرماتے او جواز خلف کو تخصیص نصوص وتقیید وعید وغیرہما ایسے امور پر بربناکرتے ہیں جن کے بعد نہ معاذاللہ کہہ کر پلٹنا نہ بات کا بدلنا ہو  اس امر پر دلائل قاہرہ وتصریحات باہر سن ہی چکے ہیں مگر ان حضرت کویہ مسلم نہیں خواہی نخواہی خلف اسی معنی پر ڈھالتے ہیں جو ایک قسم کذب ہے تاکہ اسکے جواز سے امکان کذب کی راہ نکالیں بہت اچھا اگریہی معنٰی مرادہوں تو اب نظر کیجئے کہ جواز خلف کے کیامعنی ہیں اور وہ اپنے کس معنی پر ائمی میں مختلف فیہ۔ حاشا جواز صرف بمعنی امکان عقلی محل خلاف نہیں بلکہ(عہ۱) قطعا جواز شرعی وامکان وقوعی میں نزاع ہے جس کے بعد امتناع بالغیر بھی نہیں رہتا۔

 

عہ۱ : اقول ھل عیست ان تتفطن مما القینا ونلقی علیک من الابحاث ونقلنا وننقل لک من کلمات العلماء ان الکلام فی مطلق الخلف فی حق العصاۃ  لا الخلف المطلق فیھم ولا  الخلف فی الکفار لوفاق اھل السنۃ الوعیدیۃ علی استحالتہ شرعا اما الثانی فظاھر واضح وقد نص علیہ القراٰن العزیز واجمعت علیہ الامۃ جمیعا واماالاول فنقل علیہ ایضا غیر واحد الاجماع وھو الصواب من حیث النظر وان نقل العلامۃ فی حاشیہ العلائی خلافہ ففی ھذین ان کان الخلاف فلایکون الافی الامکان العقلی ولذاحمل علیہ العلامۃ ش بید انی لا اعلم خلافا بین اھل السنۃ فی جواز الاول عقلا والثانی وان وقع فیہ خلاف ولکن المحققین ھٰھنا علی الجواز ولم یخالف فیہ الا اقل قلیل کما سیأتی فالذی(عہ۲) وقع عن العلامۃ ش اشتباہ یجب التنبیہ لہ وقد اوضحناہ علی ہامشہ ولو لا ان عرضنا فی المقام لایتعلق بنقد ذٰلک لاتینا بالتحقیق فیما ھنالکن ثم من البدیھی ان امکان عدم التعذیب عقلا مع استحالتہ شرعا ادخل فی الرد علی ھٰؤلاء الجھلۃ کما لایخفی علی عاقل فضلا عن فاضل و سنلقی علیک تحقیقہ فیما سیأتی فی رد الوھابیۃ الدیوبندیۃ فانتظر واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم ۱۲ منہ قدس سرہ۔

 

اقول (میں کہتاہوں) آپ نے ہماری اس گفتگو سے جو کی اور کریں گے اور علماء کے منقولہ کلمات سے سمجھ لیں گے کہ کلام گنہ گاروں کے حق میں مطلق خلف میں ہے۔ نہ خلف مطلق میں اور نہ ہی حق کفار میں خلف ہے کیونکہ وعیدی اہلسنت کا اتفاق ہے کہ ایسی خلف وعید شرعاًمحال ہے،دوسری بات (حق کفار میں) تو ظاہر واضح ہے اس پر قرآن عزیز کی تصریح ہے اورتمام امت کا اس پر اتفاق ہے۔ رہی پہلی بات تو اس پر بھی متعدد اہل علم نے اجماع نقل کیا ہے، دلیل کے اعتبار سے یہی صواب ہے، اگرچہ علامہ نے حاشیہ علائی میں اس کے خلاف نقل کیا ہے ان دونوں میں اگر اختلاف ہو بھی تو محض بطور امکان عقلی ہو ہوگا اس لئے علامہ ش نے اسے اس پر محمول کیا مگر میں اول کے جواز عقلی میں اہلسنت کا اختلاف نہیں جانتا، اور دوسری میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن محققین یہاں بھی جواز پر ہیں اگرچہ اس کی مخالفت بہت ہی کم لوگوں نے کی ہے جیساکہ آگے آرہا ہے۔ علامہ ش سے جو واقع ہوا یہ اشتباہ ہے جس پر تنبیہ ضروری ہے اور ہم نے اس کے حاشیہ پر اس کی وضاحت کردی ہے اگر ہماری غرض اس مقام پر تنقیدکرنا ہوتی تو ہم اس تحقیق کو یہاں کردیتے۔ پھر یہ بات بدیہی ہے کہ عقلا عدم عذاب کا محض امکان جو شرعا محال ہے ان جہال کے رد کا ذریعہ بنتاہے جیساکہ کسی عاقل پر مخفی نہیں چہ جائیکہ کسی فاضل پر مخفی ہو۔ عنقریب اس کی تفصیل وتحقیق وہابیہ دیوبندیہ کے رد میں آرہی ہے تھوڑا سا انتظار کرو۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم ۲ ۱منہ قدس سرہ، (ت)

 

عہ۲: قولہ فالذی وقع حیث نقل النزاع المشہور وکون المحققین علی المنع  فی کلامہ علی ھٰذین الخلفین وزعم تبعا للحلیۃ ان الاشبہ ترجح جواز الاول عقلا فاوھم ان جوازہ العقلی مختلف فیہ واوھم ایھا ماً اشد واعظم ان المحققین علی انکارہ وان کان الاشبہ عندہ ترجح الجواز مع انا لانعلم فیہ نزاع اصلا ولانظنہ محل نزاع وان کان فلا شک ان عامۃ الائمۃ علی الجواز ثم اوھم بل صرح اٰخر ان الصحیح عن المحققین منع الثانی عقلا  مع ان الامر بالعکس فالحق ان محل النزاع المشہور ھوالجواز الشرعی وکلامھم انما ھو فی مطلق الخلف وتحقیق الحق فی محصلہ ماسنلقی علیک واﷲ الھادی ۱۲ منہ رضی اﷲ عنہ۔

 

قولہ والذین وقع، کیونکہ انھوں نے جہاں نزاع مشہور نقل کیا ہے اور محققین کااس کے کلام میں دونوں خلفوں  پر منع مذکور ہوا اور حلیہ کی اتباع میں اس نے عقلا جوا زاول کی ترجیح کو مختار محسوس کرلیا تو اسے یہ وہم ہوگیاکہ اس کے جواز عقلی میں اختلاف ہے یہ وہم شدید ہے محققین تو اس کا نکار کررہے ہیں اگرچہ اس کے ہاں مختار جواز کو ترجیح دینا ہے حالانکہ ہم تو اس میں نزاع کا علم نہیں رکھتے اورنہ ہی محل نزاع کا گمان کرے ہیں اور اگرہے تو بلاشبہہ اکثر ائمہ جواز پر ہیں پھر وہم میں پڑتے ہوئے آخر تصریح کی کہ محققین کے ہاں صحیح یہ ہے کہ دوسری صورت عقلا منع ہے حالانکہ معاملہ برعکس ہے تو حق یہ ہے کہ نزاع مشہور کا محل جواز شرعی ہے، علماء کا کلام مطلق خلف میں ہے حق کی تحقیق ہم آپ پر عنقریب بیان کریں گے۔ واللہ الھادی ۱۲ منہ رضی اللہ عنہ (ت)

 

دلائل سنئے : اولا اہلسنت بالاجماع اور معتزلہ کا ایک فرقہ مغفرت عاصیان کبا ئر کردگان وبے تو بہ مردگان کے امکان عقلی پر متفق ہیں یعنی کچھ عقلی محال نہیں جانتی کہ اللہ تعالٰی ان سے مواخذہ نہ فرمائے مگر امکان شرعی میں اختلاف پڑا اہلسنت بالاجماع شرعا بھی جائز بلکہ واقع او ر یہ فرقہ وعیدیہ سمعا ناجائز اور عذاب واجب مانتے ہیں۔ انھوں نے آیات وعید سے استناد کیا اس کے جواب میں جواز خلف کا مسئلہ پیش ہوا یعنی اے معتزلہ! تمھارا استدلال تو جب تمام ہوکہ ہم وقوع وعید شرعا واجب مانیں وہ خود ہمارے نزدیک جائز الخلف ہے تو عفو پھر جائز کا جائز ہی رہا اور شرعا وجوب عذاب کہ تمھارا دعوٰی تھا ثابت نہ ہوا۔ امام علامہ تفتازانی شرح مقاصد میں فرماتے ہیں:

 

البحث الثانی عشر اتفقت الامۃ  ونطق الکتاب والسنۃ بان اﷲ تعالٰی عفو غفور  یعفو عن الصغائر مطلقا وعن الکبائر بعد التوبۃ ولایعفو عن الکفر قطعا، واختلفوا فی العفو عن الکبائر بدون التوبۃ فجوزہ الاصحاب بل اثبتوہ خلافاللمعتزلۃ، تمسک القائلون بجواز العفو عقلا وامتناعہ سمعا وھم البصریون من المعتزلۃ وبعض البغدادیۃ بالنصوص الوارۃ فی وعید الفساق واصحاب الکبائر، واجیب بانھم داخلون فی عمومات الوعد بالثواب ودخول الجنۃ علی مامر والخلف فی الوعد لئوم لایلیق بالکریم وفاقا بخلاف الخلف فی الوعید فانہ ربما یعدکرما ۱؎ اھ ملتقطا۔

 

بارھویں، امت کا اتفاق اور کتاب وسنت اس پر ناطق ہیں کہ اللہ تعالٰی معاف فرمانے والا غفور ہے۔ وہ صغائر تو ہر حال میں معاف فرمادیتاہے اور کبائر کو توبہ کے بعد، کفر کو قطعا معاف نہیں فرماتا۔ بغٖیر توبہ کبائر ک بخشش میں اختلاف ہے ہمارے اصحاب (اہل سنت) اس کے جواز کے قائل بلکہ اس کو دلائل سے ثابت کرنے والے ہیں اس میں معتزلہ کا اختلاف ہے ان میں سے کچھ نے کہا عقلا عفو کا جواز ہے مگر شرعا ممتنع ہے۔ یہ بصری معتزلہ کی رائے ہے۔ بغدادی معتزلہ  ان کی نصوص سے استدلال کرتے ہیں جو فساق ا ور اصحاب کبائر کے بارے میں وعیدیں آئی ہیں۔ ان کوجواب یہ دیا گیا ہے کہ وہ وعدہ ثواب ودخول جنت کی عمومی نصوص میں داخل ہیں جیساکہ گزرچکا ہے۔ اور وعدہ میں خلف ایسا قابل ملامت عمل ہے جو بالاتفاق کریم کے مناسب ولائق نہیں بخلاف خلاف وعید کے کہ اسے اکثر کرم ہی شنار کیا جاتاہے اھ ملتقطا۔ (ت)

 

 (۱؎ شرح المقاصد     البمحث الثانی عشع    دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۲ /۲۳۵  تا  ۲۳۷)

 

دیکھو علماء اس جواز خلف سے عذاب کے وجوب شرعی کو دفع فرماتے ہیں اور وجوب شرعی کا مقابل نہیں مگرجواز شرعی اگر صرف امکان عقلی مراد ہو تو وہ ان معتزلہ کے مذہب سے کیا منافی اور ان کی دلیل کا کیونکر نافی ہوگو وہ کب کہتے تھے کہ واجب عقلی ہے جو تم امکان عقلی کا قصہ پیش کرو۔ تو ثابت ہواکہ یہ علماء بالیقین خلف وعید کو شرعا جائز مانتے ہیں۔

 

ثانیاً محققین کہ جواز خلف نہیں مانتے۔آیہ کریمہ مایبدل القول لدی ۲؎  (میرے ہاں قول میں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ ت) استدلال کرتے ہیں کما فی شرح عقائد النسفی وشرح الفقہ الاکبر وغیرھما (جیساکہ شرح عقائد نسفی، شرح فقہ اکبر اور دیگر کتب میں ہے۔ ت)

 

 (۲؎ القرآن الکریم      ۵۰ /۲۹)

 

اور پر ظاہر کہ آیت میں نفی وقوع صرف استحالہ شرعی پر دلیل ہوگی نہ کہ امتناع عقلی پر، تو لازم کہ وہ علماء جواز شرعی مانتے ہوں ورنہ محققین کی دلیل محل نزاع سے محض اجنبی اور امر نزاع کی نافہمی پر مبتنی ہوگی وہ نہ کہہ دیں گے کہ اس سے صرف استحالہ شرعی ثابت ہوا وہ امکان عقلی کے کب خلاف ہے جس کے ہم قائل ہیں۔

 

ثالثاً واحدی نے بسیط میں آیہ کریمہ انک لا تخلف المیعاد ۳؎  (بیشک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ ت) سے صرف وعدہ مراد لیا اور وعید پر حمل کرنے سے انکار کیا کہ اس میں تو خلف جائز ہے۔

 

 (۳؎القرآن الکریم      ۳/ ۱۹۴)

 

تفسیر کبیر میں فرمایا : احتج الجبائی بھذہ الاٰیۃ علی القطع بوعید الفساق (ثم ذکر احتجاجۃ والاجوبۃ عنہ الی ان قال) وذکر الواحدی فی البسیط طریقۃ اٰخریٰ۔ فقال لم لایجوز ان یحمل ھٰذا علی میعاد الاولیاء دون وعید الاعداء لان خلف الوعید کریم عندالعرب۱؎ الخ۔ جبائی نے وعید فساق کی قطعیت پراسی آیہ مبارکہ سے استدلال کیا (پھر اس کا استدلال اور اس کے جوابات ذکر کئے پھرکہا) اور واحدی نے بسیط میں ایک اور طریقہ ذکر کرتے ہوئے کہا یہ کیوں جائز نہیں کہ اسے وعدہ اولیاء پر محمول کرلیا جائے نہ کہ وعید اعدا پرکیونکہ خلف وعید عربوں کے ہاں سراپا کریم ہوتاہے ۔(ت)

 

 (۱؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)    تحت آیۃ ان اﷲ لایخلف المیعاد  المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر    ۷/ ۱۹۶)

 

ظاہر ہے کہ علمائے مجوزین  اگر صرف امکان عقلی مانتے توآیت میں اس حمل کی انھیں کیا حاجت تھی کہ انتفائے شرعی جواز عقلی کے کچھ منافی نہیں۔

 

رابعا  : قائلان جواز کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ خلف وعیدصرف بحق مسلمین جائز ہےنہ بحق کفار۔

 

عبارت حلیہ: الاشبہ ترجح القول بجواز الخلف فی الوعید فی حق المسلمین خاصۃ دون الکفار ۲؎۔ مختار یہ ہے کہ خلف وعید کا قول مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے نہ کہ کفار کے لئے۔ (ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار بحوالہ الحلیۃ  مطلب فی خلف الوعید وحکم الدعاء بالمغفرۃ   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۳۵۱)

 

ابھی بحوالہ ردالمحتار گزری مگرمیں نے اس کی جگہ اور تحفے پیش کروں، مختصر العقائد میں ہے : الملک ﷲ والناس عبیدہ ولہ ان یفعل بھم مایرید ولکن وعدان لایعذب احدا بغیر ذنب وان لایخلف المؤمن المذنب فی النار ویستحیل ان یخلف فی میعادہ وکذا اوعد ان یعذب المؤمن المذنب زمانا والکافر موبدا وکن قد یعفو عن المؤمن المذنب ولایعذبہ لانہ تکرم وتفضل فیترک الوعید، اما فی حق الکفار فلایکون العفو وان کان تکرما وتفضلا قال اﷲ تعالٰی ولو شئنا لاٰتینا کل نفس ھداھا، ولکن حتی القول منی الایۃ، اخبر انہ لایفعل مع الکفار الابطریق العدل ۳؎۔ ملک اللہ کا ہے تمام لوگ اس کے غلام ہیں اللہ تعالٰی ان کے بارے میں جو اپنے ارادہ کے مطابق کرسکتاہے لیکن اس نے وعدہ فرمایا وہ کسی کو گناہ کے بغیر عذاب نہیں دے گا۔ کسی مومن گنہگار کو ہمیشہ دوزخ میں نہیں ڈالے گا اور اس سے وعدہ کی خلاف ورزی محال ہے۔ اس طرح اس نے مومن گنہگار کو کچھ وقت کے لئے اور کافر کو ہمیشہ کے لئے عذاب دینے کی وعید فرمائی ہے لیکن اگر وہ کسی مومن کو معاف فرمادیتاہے اور اسے عذاب نہیں دیتا تو یہ اس کا سراپا کرم وفضل ہے تو وعید کو ترک فرمادیتاہے رہا کفار کا معاملہ تو اس میں عفو نہیں اگر چہ عفو کرم وفضل ہی ہوتاہے اللہ تعالٰی کا فرمان ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ہر نفس کوہدایت دیں لیکن میرا قول حق ہے۔ الآیہ اس میں اللہ تعالٰی نے خبر دی ہے کہ کفار کے ساتھ صرف عدل کا معاملہ فرمائے گا۔ (ت)

 

 (۳؎ مختصر العقائد)

 

روح البیان میں ہے : اﷲ تعالٰی لایغفر ان یشرک بہ فینجز وعیدہ فی حق المشرکین ویغفر مادون ذٰلک لمن یشاء فیجوز ان یخلف وعیدہ فی حق المومنین ۱؎۔ اللہ تعالٰی مشرک کو معاف نہیں فرماتا تو مشرکین کے حق میں وعید جاری وساری رہے گی اوراس سے نیچے کو معاف فرمادیتا ہے جس کوچاہے تواہل ایمان کے حق میں خلف وعید جائز ہوگی۔ (ت)

 

 (۱؎ روح البیان     الجزء السادس والعشرون    سورۃ ق  مایبدل القول کے تحت    المکتبۃ الاسلامیہ ریاض    ۹/ ۱۲۵)

 

سبحان اللہ! اگر صرف امکان عقلی میں کلام ہوتا تو وہ باجماع اشاعرہ بلکہ جماہیر اہلسنت حق کفار میں بھی حاصل وھو التحقیق یفعل اﷲ مایشاء ویحکم مایرید  (اور یہی تحقیق ہے اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتاہے اور جو چاہتاہے فیصلہ فرماتا ہے۔ ت) شرح مقاصد الطالبین فی علم اصول دین میں ہے :

 

اتفقت الامۃ ان اﷲ تعالٰی لایعفو عن الکفر قطعا وان جاز عقلا ومنع بعضھم الجواز العقلی ایضا لانہ مخالف لحکمۃ التفرقۃ بین من احسن غایۃ الاحسان ومن اساء غایۃ الاساءۃ وضعفہ ظاھر ۲؎ اھ ملخصا۔

 

امت کا اتفاق ہے کہ کفر کو قطعا معاف نہیں کیا جائے گا اگرچہ اس کا عقلی جواز ہے اور بعض نے تو جوازعقلی کا بھی انکار کیا ہے کہ انتہائی نیکی کرنے والے اورانتہائی برائی کرنے والے کے درمیان فرق کرنے کی حکمت کے خلاف ہے اور اس کا ضعف ظاہر ہے اھ ملخصا (ت)

 

(۲؎ شرح المقاصد  المبحث الثانی عشر  دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۲/ ۲۳۵)

 

اسی میں ہے : عند شرذمۃ لایجوزون العفو عنھم فی الحکمۃ ۳؎۔ ایک گروہ کے ہاں یہ ہے کہ وہ حکمت کے طورپر کفار سے معافی کو جائز نہیں کہتے۔ (ت)

 

 (۳؎شرح المقاصد    المبحث الثانی عشر  دارالمعارف النعمانیہ لاہور   ۲/ ۲۳۸)

 

لاجرم بدلائل قاطعہ ثابت  ہواکہ قائلین جواز جواز شرعی لیتے ہیں اور خلف کے امتناع بالغیر سے بھی انکار رکھتے ہیں، اب تم نے خلف کے وہ معنی لیے جو ایک قسم کذب ہے تو قطعا لازم کہ تمھارے زعم باطل میں ان علماء کےنزدیک کذب الٰہی نہ صرف عقلا بلکہ شرعا بھی جائز ہو جسے امتناع بالغیر سے بھی بہرہ نہیں یہ صریح کفر ہے والعیاذ باللہ رب العالمین۔

 

امام علامہ قاضی عیاض قدس سرہ، شفا شریف میں فرماتے ہیں: من دان بالوحدانیۃ وصحۃ النبوۃ و نبوۃ بنبینا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ولکن جوز علی الانبیاء الکذب فیما اتوابہ ادعی فی ذٰلک المصلحۃ بزعمہ ام لم ید عھا فھو کافر باجماع ۱؎۔ جو اللہ تعالٰی کی وحدانیت اور نبوت کی حقانیت اورہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اعتقاد رکھتاہو باایں ہمہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام پر ان باتوں میں کہ وہ اپنے رب کے پاس سے لائے کذب جائز مانے خواہ بزعم خود اس میں کسی مصلحت کا ادعا کرے یا نہ کرے۔ ہر طرح بالاجماع کافر ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی    فصل فی بیان ماھومن المقالات  المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ    ۲/ ۲۶۹)

 

سبحان اللہ! حضرت انبیاء علیہم افضل الصلٰوۃ والثناء پر کذب جائز ماننے والا باتفاق کافر ہوا۔ جنا ب باری عزوجل کا جواز کذب ماننے والا کیونکر بالاجماع کافر ومرتد نہ ہوگا۔ اب تو جانا کہ تم نے اپنی جہالت و قاحت سے کفر واسلام میں تمیز نہ کی او رکفر خالص پر معاذاللہ ائمہ دین میں نزاع ٹھہرادی، سبحان اللہ! یہ فہم فقاہت یہ دین ودیانت اورا س پر عالم رشید بلکہ شیخ مرید بننے کی ہمت ع

 

آدمیاں گم شدند ملک خدا خر گرفت

 

 (آدم ختم ہوگئے اور اللہ تعالٰی کے ملک پر گدھے نے قبضہ کرلیا۔ ت)

ذرا یہ مقام یاد رکھئے کہ آپ کو خاتمہ اس سے کام پڑتاہے واﷲ المستعان  علی ماتصفون ، لاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم 

حجت عاشرہ ظاہرہ باہرہ زاہرہ قاہرہ اَمَر و اَدۡھٰی من قرینتھا الاولٰی۔

 

اقول وباللہ التوفیق (میں اللہ کی توفیق سے کہتاہوں۔ ت) ہنوز بس نہیں اگرچہ علماء مسئلہ خلف میں بلفظ جواز تعبیر کررہے ہیں مگر عقلی صافی ونظروافی نصیب ہو تو کھل جائے کہ وہ جس معنی پر خلف جائزکہتے ہیں اس معنی پر نہ صرف جائز بلکہ بالیقین واقع مانتے ہیں تو تمھارے زعم خبیث پرقطعالازم کہ ائمہ دین کذب الٰہی کو یقینا واقع وموجود بالفعل جانتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کفر جلی اور کیا ہوگا، دلائل لیجئے۔

 

إولا ہم ثابت کرآئے کہ خلف وعفو  ان کے نزدیک مساوی ہیں۔ اورایک مساوی کا وقوع مساوی دیگر کو قطعا مستلزم خواہ تساوی فی التحقق ہو یا فی الصدق کہ اول کا توعین منطوق تلازم فی الوجود اور ثانی اس سے بھی زیادہ ادخل فی المقصود، فان الا نفکاک فی الوجود فی الصدق مع شی زائد (کیونکہ وجودمی ں انفکاک، صدق میں انفکاک ہی ہے بلکہ شی زائد کے ساتھ ہے۔ ت) لیکن عفو بالیقین واقع ابھی شرح مقاصد سے گزرا ''جواز الاصحاب بل ائبتوہ ۱؎''

 

 (اصحاب اسے جائز بلکہ اسے ثابت کرتے ہیں۔ ت)

 

 (۱؎ شرح المقاصد  المبحث فی عشر  دارالمعارف النعمانیہ بیروت ۲/ ۲۳۵)

 

تو ثابت ہوا کہ وہ علماء جسے خلف وعیدکہتے ہیں یقینا واقع، اب تم خلف کو ا س معنی ناپاک پر حمل کرتے ہو تو معاذاللہ الٰہی کے بالیقین واقع و موجود ہونے میں کیا کلام رہا، صدق اﷲ تعالٰی (اللہ تعالٰی نے سچ فرمایا۔ ت) : فانھا لاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور ۲؎۔ بیشک آنکھیں اندھی ہوتیں وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ والعیاذباﷲ سبحانہ وتعالٰی (اللہ سبحانہ وتعالٰی کی پناہ۔ ت)

 

(۲؎ا لقرآن الکریم     ۲۲ /۴۶)

 

ثانیاً : تعیین تساوی سے قطع نظر بھی کیجئے تاہم آیہ کریمہ ویغفر مادون ذٰلک ۳؎ (شرک سے نیچے معاف فرمادے گا۔ ت) سے ان کا استدالال دلیل قاطع کو خلف عفو س خاص یامباین نہیں لاجرم مساوی نہ سہی تو عام ہوگا۔

 

 (۳؎القرآن الکریم      ۴ /۱۱۶)

 

بہر حال وقوع مغفرت ووقوع خلف اور تمھارے طورپر وقوع خلف وقوع کذب کو مستلزم ہوکر کذب الٰہی یقینی الوقوع ٹھہرے گا اور کیا گمراہیوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں۔

 

ثالثا : مختصر العقائد کی عبارت گزری کچھ دیر نہ ہوئی جس میں خلف وعد کو محال لکھ کر وعید مسلمین کے بارے میں دیکھ لیجئے کیالفظ لکھا یجوز ان یترک الوعید (وعید کا ترک کرنا جائز ہے۔ ت) نہ کہا بلکہ صاف صاف یترک الوعید ۴؎  (وعید کو ترک کردیا۔ ت) مرقوم کیا۔ پھر ثبوت مدعا میں کیا کلام رہا۔

 

(۴؎ مختصر العقائد)

 

رابعاً : ان دلائل قاطعہ کے بعد تمھاری سمجھ کے لائق قاطع نزاع وواقع شغب یہ ہے کہ امام محمد محمد محمد ابن امیرالحاج حلبی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اسی حلیہ میں جواسی ردالمحتار کی جس سے آپ ناقل (اس مقام میں) ماخذ صاف بتادیا کہ خلف وعید صرف عفو سے عبارت ہے۔ اب آپ ہی بولئے کہ آپ کے مذہب میں عفو بالیقین واقع ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو وہی خلف ہے اور تم خلف کو اصل کذب سمجھے تو اپنے خدا کو یقینا  کاذب کہہ چکے یا نہیں۔

 

حلیہ کی عبارت میں ہے: الدعاء المذکور یستلزم انہ یجوز الخلف فی الوعید وظاھر المواقف والمقاصدان الاشاعرۃ قائلۃ بہ لانہ لایعد نقصا بل جود اوکرما ولھذامدح بہ کعب بن زھیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حیث قال ؎

نبئت ان رسول اﷲ اوعدنی                                       والعفو عند رسول اﷲ مأمول ۱؎ دعا مذکور اس بات کو مستلزم ہے کہ خلف وعید جائز ہے۔ مواقف اور مقاصد کے ظاہر سے ہی معلوم ہوتاہے کہ اشاعرہ اس کے قائل ہیں کیونکہ اسے نقص نہیں بلکہ جو وہ کرم شمار کیا جاتاہے یہی وجہ ہے حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اس کے ساتھ مدح کرتے ہوئے کہا ؎

مجھے بتایا گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے وعید سنارکھی ہے مگر سول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ

 وسلم سے عفو کی ہی امید ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

دیکھو صراحۃ مدح بالعفو کو مدح بخلف وعید قرار دیا۔

اسی طرح ختم نبوت میں قول ابن نباتہ مصری: الحمد ﷲ الذی اذاوعدی وفا  واذا اوعد عفا ۲؎۔   تمام حمد اللہ کی جو وعدہ کرکے وفا فرماتاہے اورتو جب وعید سناتاہے تو معاف فرمادیتاہے۔ (ت)

 

  (۲؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

کو اسی باب سے ٹھہرایا اب بھی وضوح حق میں کچھ باقی رہا۔ یہ دوسرا مقام یاد رکھنے کا ہے کہ تم نے صراحۃ وقوع و وجودکذب الٰہی کو ائمہ اہلسنت کا مذہب جانا اور ایسےکفر شنیع وارتداد فظیع کو اہل حق کا ایک اختلافی مسئلہ مانا، کذلک یطع اﷲ علی کل قلب متکبر جبار ولاحول ولاقوہ الا باﷲ الواحد القہار۔  یوں ہی اللہ تعالٰی ہر متکبر اور جابردل پر مہر ثبت فرماتاہے ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ الواحد القہار (ت) بالجملہ بحمداللہ بحجج قاہرہ وبینات باہرہ شمس وامس سے زیادہ روشن اوابین ہوگیا کہ علماء جس معنی پرخلف جائز مانتے ہیں، حاش اﷲ! اسے امکان کذب اصلا علاقہ نہیں، ان کے نزدیک خلف بمعنی عدم ایقاع وعید بوجہ تجاوز وکرم ہے کہ عین عفو یا عفو کا مساوی وملازم،اوریہ معنی نہ صرف جائز بلکہ باجماع اہلسنت بلاشبہہ واقع رہا۔ خلف بمعنی تبدیل وتکذیب خبر جس کے جواز پر امکان کذب متفرع ہوسکے۔ ہر گز ان علماء کی مراد نہ عالم میں کوئی عالم اس کا قائل بلکہ وہ بالاتفاق یک زبان ویک دل اس سے تبری وتحاشی کامل کرتے ہیں اور کذب الٰہی کے استحالہ قطعی وامتناع عقلی پر اجماع تام رکھتے ہیں۔ اول سے آخرتک ان کے تمام کلمات ومحاورات وجوہ مناظرہ طریق ردواثبات ہزار درہزار طور سے اس امر پر شاہد عدل وناطق فصل وقد ظھر علی کل ذی عقل (اوریہ ہر عقلمند پر ظاہر ہے۔ ت) اورامام ابن امیر الحاج نے تو بحمد اللہ یہ امر باتم وجوہ منجلی کردیاکہ خود جواز خلف کو راجح مان کر اس معنی ناپاک تراشیدہ مدعی بیباک کی وہ بیخ کنی فرمائی جس کی غرب سے شرق تک خبر آئی۔ یونہی امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں باآنکہ کلام امام ابو عمر وابن العلاء قائل جواز خلف کی وہ کچھ تائید کی جو اوپر گزر چکی ۔

 

جب معنی تبدیل کی نوبت آئی جس پر ان حضرات نے تفریع کی ٹھہرائی اس پر وہ شدید وعظیم نکیر فرمائی کہ کچ فہمی جاہل پر قیامت ڈھائی، اسی تفسیرمیں فرماتے ہیں: الخبرا ذاجواز علی اﷲ الخلف فیہ فقد جوز الکذب علی اﷲ تعالٰی وھذا خطاء عظیم بل یقرب من ان یکون کفرافان العقلاء اجمعوا علی انہ تعالی منزہ عن الکذب ومعلوم ان فتح ھذا  الباب یقضی الی الطعن فی القراٰن وکل الشریعۃ اھ ملخصا ۱؂۔ یعنی جب خبر میں خلف اللہ تعالٰی پر جائز رکھا جائے تو بیشک کذب الٰہی کو جائز ماننا ہوگا اور یہ سخت خطا ہے بلکہ قریب ہے کہ کفر ہوجائے اس لئے کہ تمام عقلاء (یعنی نہ صرف اہل اسلام بلکہ سمجھ والے کافر بھی) اتفاق کئے ہوئے ہیں کہ باری تعالٰی کذب سے منزہ ہے۔ اورمعلوم ہے کہ اس دروازے کا کھولنا قرآن مجید اور تمام شریعت میں طعن تک لے جائیگا اھ ملخصا۔

 

 (۱؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)

 

بس خدا کی شان ہی شان نظر آتی ہے کہ واضح روشن، ایمانی اجماعی مسائل ہیں مدعیان علم ودیانت و رشد ومشیخت اغوائے عوام وتلبیس مرام کویوں دیدہ ودانستہ کو یہ مفتری بن جاتے ہیں اور خوف خالق وشرم خلائق سب کو یک دست سلام کرکے ائمہ دین پر یوں کھلے بہتان جیتے طوفان اٹھاتے ہیں ؎.

 

چشم بازو گوش باز وایں ذکا    خیرہ ام درچشم بندے خدا

 

 ( آنکھیں کھولو، کان کھولو، اے بند ہ خدا! اس سے آنکھیں خیرہ ہیں۔ ت)

 

فان کنت لاتدری فتلک مصیبۃ    وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم

 

 (اگر تم نہیں جانتے تو یہ مصیبت وپریشانی ہے اور اگر جانتے ہو تو اس سے بڑھ کر آزمائش ہے۔ ت)

بس زیادہ نہ کہو سوا اس کے کہ اللہ ہدایت دے آمین!

 

تنبیہ نبیہ: الحمد للہ تحقیق ذروہ علیا کہ پہنچی اور عیارون طراروں کی افترا بندی اپنی سزا کو، اب صرف یہ امر قابل تنقیح رہا کہ جب خلف بمعنی تبدیل کے استحالہ پر اجماع قطعی قائم اور بمعنی مساوی عفو بالاجماع جائز بلکہ واقع تو علمائے مجوزین ومحققین مانعین میں نزاع کس امر پر ہے۔ اقول وباﷲ التوفیق وبہ العروج علی اوج التحقیق علی الخبیر سقطت ( میں کہتاہوں اللہ کی توفیق سے،ا ور اس توفیق سے باخبر کو تحقیق کی بلندیوں پر عروج حاصل  ہوتاہے۔ ت) ہاں منشاء نزاع اس اطلاق کی تجویز ہے مجوزین نے خیال کیا کہ خلف وعید معاذاللہ کسی عیب ومنقصت کا نشان نہیں دیتا بلکہ عفو وکرم پر دلیل ہوتاہے اور محل مدح وستائش میں بولا جاتاہے ولہٰذا جابجا عرف عرب سے اس پر استناد کرتے ہیں۔ قائل قائلھم (ان میں سے کسی کا قول ہے۔ ت) ؎

 

وانی وان اوعدتہ او وعدتہ    لمخلف ایعادی ومنجزموعدی

 

 (اگر میں نے اسے وعید سنائی یا اس سے وعدہ کیا تو اپنے وعید کا خلاف اور وعدہ کو پورا کرنیووالاہوں۔ ت)

وقال اٰخر (اور دوسرے نے کہا۔ ت): ؎

 

اذا وعد السراء انجزوعدہ    وان  اوعدا فالعفو مانعہ

 

 (جب خوشحال لوگوں سے وعدہ کیا تو وعدہ پور ا کردیا اور جب فقراء کو  وعید سنائی تو عفو اس کے مانع ہوگیا۔ت)

بنابراں خلف وعید کی تجویز کی۔ محققین نے دیکھاکہ لفظ معنی محال یعنی تبدیل کا موہوم اور یہاں ایہام محال بھی منع میں کافی، کما نصوا علیہ فی مسئلۃ معقد العنز (جیسا کہ انھوں نے مسئلہ معقد العنز میں اس پر تصریح کی ہے۔ ت) اور اس کے ساتھ وقوع تمدح صرف مخلوق میں ہے خالق عزوجل کا ان پر قیاس صحیح نہیں لاجرم اس تجویز سے تحاشی کی۔

 

خلاصہ یہ کہ آیات وعیدمیں بنظر ظاہر عموم عدم ایک صورت خلف میں ہے اگرچہ بنظر تخصیص وتقیید حقیقت خلف سے قطعا منزہ، مجوزین اسی خلف صوری کو خلف وعید سے تعبیر کرتے اور اسے جائز رکھتے ہیں کہ مفید مدح ہے اور محققین منع فرماتے ہیں کہ موہم نقص وقدح ہے ورنہ اگر خیال معنی کیجئے تو بلاشبہہ وہ جس امر کو خلف کہتے ہیں قطعا بالاجماع جائز وواقع، ولہذا علامہ شہاب الدین خفا کی مصری نے تسلیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں مسئلہ خلف کواہلسنت کا اتفاقی قرار دیا اور اس میں خلاف صرف معتزلہ کی نسبت کیا،حیث قال الوعید لایجوز تخلفہ عند المعتزلہ لقولھم بانہ یجب علی اﷲ تعالٰی تعذیب العاصی ۱؎۔   جہاں کہاں کہ وعید کا تخلف معتزلہ کے ہاں جائز نہیں کیونکہ ان کا یہ مذہب ہے کہ خاص کو عذاب دینا اللہ تعالٰی پر لازم ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ نسیم الریاض شرح الشفاء للقاضی عیاض فصل فی بیان ماھو من المقالات کفر الخ  دارالفکر بیروت     ۴/ ۵۳۱)

 

پر ظاہر کہ اس نسبت کا منشا وہی نظر معنی ہے کہ معنی مقصود مجوزین کے جواز میں واقعی اشقیائے معتزلہ ہی کو خلاف ہے اہلسنت میں کوئی اس کا منکر نہیں۔ جس طرح معنی کذب وتبدیل کے بطلان وامتناع پر اہلسنت بلکہ اہل ملل بلکہ اہل عقل کا اجماع ہے جس میں کسی فرقہ کا خلاف معلوم ظاہر نہیں۔ یہ ہے بحمد اللہ محل نزاع کی تحریر انیق وتقریر رشیق،والحمد اللہ ولی التوفیق علی الھام التحقیق وار شاد الطریق (حمد ہے اللہ تعالٰی میں جو عطاء تحقیق اور رہنما طریق کی توفیق کا مالک ہے۔ ت) امام محقق مدقق علامہ حلبی نے اسی حلیہ میں جواز خلف مان کر معنی کذب وتبدیل سے وہ تحاشی عظیم فرمائی جس کی نقل حجت سابعہ میں گزری پھر تصریح مراد کی یوں ارشادکی : المراد بالوعید صورۃ العموم بالوعید من ارید بالخطاب ۱؎۔ مسئلہ جواز خلف میں وعید سے صورت عموم مراد ہے کہ بظاہر حکم سب مخاطبوں کو شامل نظر آتاہے۔

 

 (۱؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

یعنی تنہا الفاظ وعید پر نظر کیجئے تو صاف یہی حکم ہے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ایسا کریں گے سب سزا پائیں گے پھر جبکہ بدلائل قاطعہ ثابت ہوا کہ بعض کو نہ ہوگی تو بظاہر وعید متحلف ہوئی حالانکہ وہ عموم صرف صوری تھا۔ نہ حقیقی کہ حقیقت میں عمومات وعید آیاتِ مشیت سے مکتسب تقیید ،جن کا حاصل یہ ہے کہ ہم معاف نہ فرمائیں تو سزا ہوگی  بس اس قدر محصل خلف ہے جسے معاذاللہ کذب وتبدیل سے کچھ علاقہ نہیں۔ پھر اس مراد و مقصود کی تحقیق فرماکر ارشاد کرتے ہیں: ثم حیث کان المراد ھذا فالوجہ ترک اطلاق جواز الخلف فی الوعد والوعیددفعالایھام ان یکون المراد منہ ھذا المحال ۲؎۔ یعنی جب معلوم ہوگیا کہ جواز خلف سے صرف اس قدر مراد ہے نہ وہ کہ معاذاللہ امکان کذب کو راہ دے کہ کذب وتبدیل تو یقینا اللہ تعالٰی پر مستحیل، تو مناسب یہی ہے کہ وعدہ یا وعید کسی میں جواز خلف کا لفظ نہ بولیں کہ اس سے کسی کو اس معنی محال کا وہم نہ گزرے.

 

 (۲؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

واقعی امام ممدوح کا گمان بجا تھا۔ آخر دیکھئے ناکہ اس چودھویں صدی میں جہال سفہاء کو وہ ہم آڑے ہی آیا۔

 

والعیاذ باللہ سبحانہ وتعالٰی پھر فرماتے ہیںـ: وانما وافقنا ھم علی الاطلاق لشھرۃ المسئلۃ بینھم بھٰذہ الترجمۃ ونستغفر اﷲ العظیم من کل مالیس فیہ رضاہ ۱؎ ۔

 

 (۱؎ حلیہ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

ہم نے جو اس لفظ کے اطلاق میں علمائے سابقین کا ساتھ دیا اس پر باعث یہ تھا کہ مسئلہ ان میں سے اسی نام سے شہرت رکھتاہے اور ہم اللہ عزوجل سے مغفرچاہتے ہیں ہر اس بات کی جو اسے پسند یدہ نہیں۔

 

سفیہ جاہل دیکھے کہ اس کے امکان کذب کے شوشے کدھر گئے۔ قل جاء الحق وزھق الباطل ط ان الباطل کان زھوقا ۲؎۔ فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بشیک باطل کو مٹنا ہی تھا۔ (ت)

 

 (۲؎ القرآن الکریم        ۱۷ /۸۱)

 

فقیرغفر اللہ تعالٰی نے بتوفیی المولٰی سبحانہ وتعالٰی اس مقام کی زیادہ تحقیق حواشی شرح عقائد وشرح مواقف پرذکر کی اگر مخافت تطویل نہ ہوتی تو ان نفائس جلیلہ کو زیور گوش سامعین کرتا۔ وفیما ذکرنا کفایۃ و الحمد اﷲ ولی الھدایۃ (جو کچھ ہم نے ذکر کردیا وہی کافی ہے۔ حمد ہے اللہ تعالٰی کی جو ہدایت کا مالک ہے۔ ت) غرض اس مقدار سے زائد کسی امر کو محل نزاع ٹھہرانا خود ان کے مقتضائے کلام ومقال وتمسک واستدلال سے جدا پـڑنا اور توجیہ القول بالایرضی بہ قائلہ کرنا اوران کے اجماعیات قاطعہ سے منکر ہونا اوران مہالک شنیعہ و نتائج فظیہ کا ان کے ذمے باندھنا ہے جن سے ہو ہزارجگہ بتصریح صریح تبری کرتے ہیں۔ اور واقعی بحمد اللہ بارہا دیکھا ہے کہ ائمہ اہلسنت میں جو مسئلہ اصول مختلف فیہ رہاہے اگرچہ بعض ناظرین ظواہر الفاظ سے دھوکا کھائیں مگر عند التحقیق اس کا حاصل نزاع لفظی یا ایسی ہی کسی بلکہ بات کی طرف راجع ہوا ہے۔ پھرایک فریق کے دوسرے پر الزامات حقیقۃ اپنے معنی مرادپر الزام ہیں جس سے دوسرے کا ذہن خالی نہ اس کی مراد سے انھیں تعلق نہ اسے دیکھ کر کوئی عاقل یہ وہم کرسکتاہے کہ وہ امر جس کا الزام دیا گیا فریقین میں مختلف فیہ ہے بلکہ یہ تو عامہ نزاعات حقیقیہ معنویہ میں بھی نہیں ہوتا چہ جائے صور یہ ولفظیہ میں الزام اسی امر سے دیتے ہیں جس کا بطلان متفق علیہ ہو مختلف فیہ سے مختلف فیہ پر احتجاج یعنی چہ خصوصا جب کہ ایک امرمیں اختلاف دوسرے میں تنازع کی فرع ہو کہ اس تقدیر پر فرع سے الزام مصادرہ علی المطلوب ہے۔ یہ نکتہ بھی یادرکھنے کے قابل کہ طرف مقابل سخت ابلہ وجاہل، خیر بات دور پہنچی نظائر لیجئے۔ مثلاایمان مخلوق ہے یا غیر مخلوق، امام عارف باللہ حارث محاسبی وجعفر بن حرب وعبداللہ بن کلاب وامام المتکلمین عبدالعزیز مکی وائمہ سمرقنداول کے قائل اور اسی طرف امام ہمام ابو الحسن اشعری قدس سرہ، مائل، بلکہ اسی پر امام الائمہ سراج الامہ امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نص شریف دلیل کامل ،اور امام عماد السنہ احمد بن حنبل وغیرہ جماعت محدثین سے قول منقول اوریہی ائمہ بخارا ''ومن وافقہم'' کے نزدیک مختار و منصور ومعتمد مقبول، اس پر ائمہ سمر قند وبخارا میں نزاع کو جو طول ہوا مخفی نہیں انہوں انھوں نے ان پر مخلوقیت قرآن کا الزام رکھا انھوں نے ان پر نامخلوقیت افعال عباد کا طعن کیا اور حقیقت دیکھئے تو بات کچھ بھی نہیں اپنی اپنی مراد پر دونوں سچ فرماتے ہیں ایمان مخلوق بیشک مخلوق کہ مخلوق وصفات مخلوق سب مخلوق اور ایمان کہ صفت خالق عزوجل ہے جس پر اسمائے حسنٰی سے پاک مومن دلیل یعنی اس ملک جلیل جل جلالہ کا ازل میں اپنے کلام کی تصدیق فرمانا وہ قطعا غیر مخلوق کہ خالق وصفات خالق مخلوقیت سے منزہ۔ ھکذا قررہ الفاضل العلامۃ کمال الدین بن ابی شریف القدسی فی المسامرۃ شرح المسایرۃ۔ اسی طرح اس کی تفصیل فاضل علامہ کمال الدین بن ابی شریف المقدسی نے المسامرۃ شرح المسایرۃ میں کی ہے۔ (ت)

 

اب کیا کوئی احمق جاہل اس نزاع کو دیکھ کر یہ گمان کرے گا کہ بعض صفات خالق کا مخلوق یا بعض افعال مخلوق کا نامخلوق ہونا ائمہ اہل سنت میں مختلف فیہ ہے۔ حاشاہ کلایوں ہی مسئلہ زیادت ونقصان ایمان کہ قدیم سے مختلف فیہاہے۔ امام رازی وغیرہ بہت محققین اسے بھی نزاع لفظی پر اتارتے ہیں۔

 

منح الروض میں ہے: ذھب الامام الرازی وکثیر من المتکلمین الی ان ھذا الخلاف لفظی راجع الی تفسیر الایمان ۱؎۔ امام رازی اور بہت سے متکلمین ا س طرف گئے ہیں یہ اختلاف لفظی ہے جو ایمان کی تفسیر ک طرف لوٹتا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر    ومنہا ان الایمان لایزید وینقص    مصطفی البابی مصر    ص۱۳۵)

 

پھر کہا: ھذا ھوالتحقیق الذی یجب ان یعول علیہ ۲؎۔ یہ وہ تحقیق ہے جس پر اعتماد لازم ہے (ت)

 

 (۲؎منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر    ومنہا ان الایمان لایزید وینقص    مصطفی البابی مصر    ص۱۳۵)

 

اسی طرح اور مسائل پائے گا۔ اگر اس پر حمل کیجئے جب تو امرنہایت ایسر کہ مجوزین بمعنی مساوی عفہ لیتے ہیں اورمانعین بمعنی تبدیل قول دونوں سچ کہتے ہیں اور دونوں اجماع باتیں ہیں مگر فقیر نے بحمد اللہ جو تنقیح مناط کردی اس پر نزاع بھی معنوی رہی اورقول مانعین کا محقق وراج ہونا بھی کھل گیا اور جہالت جاہلین کا علاج بھی بحمداللہ بروجہ کافی ہولیا، ذٰلک من فضل اﷲ علینا وعلی الناس ولکن اکثر الناس لایشکرون o اللھم لک الشکر الابدی والمن السرمدی ، والحمد ﷲ رب العالمین۔ یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر او لوگوں پرلیکن اکثر لوگ شکرنہیں بجالاتے۔ اے اللہ! شکر ابدی اور احسان دائمی تیرے لئے ہے اور سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔ (ت)

 

تسجیل جلیل و تکمیل جمیل

 

 اقول وباللہ التوفیق (میں اللہ کی توفیق سے کہتاہوں۔ ت) مدعی جدید بیچارے کی حالت نہایت قابل رحم غریب نے امام الطائفہ کی بات بنانے کو عقل ودیانت کو پان رخصت دیا۔ اپنے رب کو جیسے بنے لائق کذب کردینے کا ذمہ لیا۔ ائمہ امت وسادات ملت پر کھلی آنکھوں جیتا بہتان کیا، غرض لاکھ جتن کو چھوڑے مگرکال نہ کٹا یعنی امام کی پیشانی سے داغ ضلالت مٹنا تھا نہ مٹا۔ آپ کو یاد ہو کہ اصل بات کا ہے پر چھڑی تھی، ذکر یہ تھا کہ حضور پر نور سید المرسلین خاتم النبیین اکرم الاولین والاخرین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مثل وہمسر حضور کی جلہ صفات کمالیہ میں شریک برابر محال ہے کہ اللہ تعالٰی حضورکو خاتم النبیین فرماتاہے اورختم نبوت ناقابل شرکت تو امکان مثل مستلزم کذب الٰہی اور کذب الٰہی محال عقلی ؎

 

منزہ عن شریک فی محاسنہ        فجوھر الحسن فیہ غیر منقسم

 

 (اپنے محاسن میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کسی شریک سے بالا ہیں آپ کو ہر حسن تقسیم نہیں کیا گیا۔ ت)

 

اس پر اس سفیہ نے جواب دیا کہ کذب الٰہی محال نہیں۔ ممکن ہے کہ خدا کی بات جھوٹی ہوجائے اور اس پر جو ہذیانات بکے ان کی خدمت گزاری توآپ سن ہی چکے اب یہ حضرت اس کی حمایت میں خلف وعید کا مسئلہ پیش کرتے ہیں یعنی ان کے امام نے نئی نہ کہی بلکہ اس کا قول ایک گروہ ائمہ کے موافق ہے۔ اے سبحان اللہ! ؎

 

اما چنیں مقتدے چناں        جہاں چوں نہ بیند بدلے چناں

 

 (ایسے امام اور ایسے مقتدی، جہاں نے ایسے بدنہ دیکھے ہوں گے۔ ت)

اے حضرت! سب کچھ جانے دیجئے مگریہ آیہ کریمہ ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین ۱؎

 

(۱؎ القرآن الکریم ۳۳ /۴۰)

 

 (ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔ ت)بھی معاذاللہ کوئی وعید ہے جس کے امکان کذب کو جواز علت پر متفرع کیجئے گا یہ تو وعدہ ہے یعنی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بشارت عظیمہ کو تمھیں اس فضل جلیل سے مشرف کیا گیا تمھاری شریعت مطہرہ کو شرف افضلیت بخشا تم ناسخ ادیان ہوئے تمھارے دین متین کا ناسخ کوئی نہ آئے گا تم سب سے بلند وبرتر تم سے بالاکوئی ہوا نہ ہوگا۔اس میں خلف تو ہر طرح بالا جماع محال ہے پھر تمھارے امام کا کیا کام نکلا اورمخالف اجماع مسلمین واحداث بدعت ضالہ فی الدین کا داغ کیونکر مٹا۔ ہاں یہ کہ اس کی اور ساتھ لگے تمھاری عقل ودیانت کاکام تمام ہوا، اسے کام نکلنا سمجھ لیجئے چاہئے کام ہوجانا قسمت کا بداکہ دین ودیانت سے یوں کٹی چھٹی اور امام بیچارے کی بات نہ بنی ؎

 

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم        حبک الشی یعمی ویصم

 

 (تجھے شی کی محبت اندھا اور بہرہ کردے گی۔ ت)

 

؎ ذلیل وخوار وخراب وخستہ نہ اس سے ملتے نہ ایسے ہوتے

بہک گئے دین حق کا رستہ نہ اس سے ملتے نہ ایسے ہوتے

صدق القائل ( کہنے والے نے سچ کہا ۔ت) ؎

 

اذا کان الغراب دلیل قوم    سیھدیھم طریق الھالکینا

 

 (جب قوم کا رہنما کوّا ہو تو اس کو ہلاکت والے راستہ ہی کی رہنمائی کرے گا۔ ت)

 

الحمد اللہ! یہ بظاہر دس حجج باہرہ اور حقیقۃ اکیس دلائل قاہرہ ہیں کہ حجت رابعہ میں وجہ ۲ ووجہ ۳ حجت سادسہ میں ثانیا، حجت تاسعہ وعاشرہ دونوں میں ثانیا ثالثا رابعا، بالجملہ کے بعد عبارت امام رازی تنبیہ نبیہ میں کلام امام حلبی، یہ گیارہ مستقل حجتیں تھیں۔ انھیں مدعی جدید پر اکیس کوڑے سمجھئے تو بائیسواں تازیانہ تسجیل جلیل کا ہوا، اوپر کے سو ملاکر ایک سو بائیس کوڑے انھیں جمع رکھئے اور آگے چلئے کہ سائل کے بقیہ سوال کو اظہار جواب وتحقیق صواب کا انتظار کرتے دیر گزری، اب وقت وہ آیا کہ ادھر عطف عنان کروں اور بیان حکم قائل کے لئے میدان بدیع تحقیق رفیع میں قدم دھروں: واﷲ الھادی ولی الایادی والصلٰوۃ علی حبیبہ سراج النادی۔ رہنمائی فرمانے والا اللہ ہے اور وہی مدد کا مالک ہے اس کے محبوب پر صلٰوۃ والسلام ہو جو مجلس کائنات کے چراض ہیں۔ (ت)

 

خاتمہ تحقیق حکمِ قائل میں

 

اقول وباﷲ التوفیق اللھم اغفروقنا الضلال والکفر (میں اللہ کی توفیق سے کہتاہوں اے اللہ!ہمیں معاف فرمادے اور ہمیں گمراہی اور کفر سے محفوظ فرما۔ ت) جان برادر! یہ پوچھتا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ کیساہے اورا ن کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے، یہ پوچھب کہ امام وماموم پر ایک جماعت ائمہ کے نزدیک کتنی وجہ سے کفرآتاہے۔ حاش للہ حاش للہ ہزار ہزار بار حاش للہ میں ہر گز ان کی تکفیر پسند نہیں کرتا ان مقتدیوں یعنی مدعیان جدید کوتو ابھی تک مسلمان ہی جانتاہوں اگرچہ ان کی بدعت وضلالت میں شک نہیں اور امام الطائفہ کے کفر پر بھی ہم حکم نہیں کرتا کہ ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اہل لا الہ الا اﷲ کی تکفیر سے منع فرمایا ہے، جب تک وہ وجہ کفر آفتاب سے زیادہ روشن وجلی نہ ہوجائے اور حکم اسلام کے لئے کوئی ضعیف ساضعیف محمل بھی نہ رہے فان السلام یعلو ولایعلی (اسلام غالب ہے مغلوب نہیں ۔ت) مگریہ کہتاہوں اور بیشک کہتاہون کہ بلاریب ان تابع ومتبوع سب پر ایک گروہ علماء کے مذہب میں بوجہ کثیرہ کفر لازم ۔ والعیاذ باﷲ ذی الفضل الدائم

 

(دائمی فضل والے اللہ کی پناہ۔ ت) میرا مقصود اس بیان سے یہ ہے کہ ان عزیزون کو خواب غفلت سے جگاؤں اور ان کے اقوال باطلہ کی شناعت بائلہ انھیں جتاؤں کہ او بے پروا بکریو! کس نیند سورہی ہو، گلا دو رپہنچا، سورج ڈھلنے پر آیا گرگ خونخوار بظاہر دوست بن کر تمھارے کان پر تھپک رہا ہے کہ ذرا جھٹپٹا اور اپنا کام کرے چوپایوں میں تمھاری بیجاہٹ کے باعث اختلاف پڑچکا ہے بہت حکم لگاچکے کہ یہ بکریاں ہمارے گلے سے خارج ہیں بھیڑیاں کھائے شیر لے جائے ہمیں کچھ کام نہیں اور جنھیں ابھی تک تم پر ترس باقی ہے وہ بھی تمھاری ناشائستہ حرکتوں سے ناراض ہوکر اپنی خاص گلے میں تمھارا آنا نہیں چاہتے ہیہات ہیہات اس بیہوشی کی نیند اندھیری رات میں جسے چوپان سمجھ رہے ہو واللہ وہ چوپان نہیں خود بھیڑیا ہے کہ ذیاب فی ثیاب کے کپڑے پہن کر تمھیں دھوکا دے رہا ہے  پہلے(عہ۱) وہ بھی تمھارے طرح اس گلے کی بکری تھا، حقیقی بھیڑیے(عہ۲) نے جب اسے اسے شکا رکیا اپنے مطلب کا دیکھ کر دھوکے کی ٹٹی بنالیا اب وہ بھی اکے دکے کی خیر مناتا اور بھولی بھیڑوں کو لگاکر لے جاتاہے للہ اپنی حالت پر رحم کرو۔                 عہ۱:یعنی امام الوہابیہ ۱۲                 عہ۲: یعنی شیطان۱۲

اورجہاں تک دم رکھتے ہو ان گرگ ونائب گرگ سے بھاگو جیسے بنے ا س مبارک گلے میں جس پر خدا کا ہاتھ ہے کہ یداللہ علی الجماعۃ (جماعت پراللہ کا ہاتھ ہے۔ ت) اور اس کے سچے راعی محمدر سول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں آکر ملوں کہ امن چین کا رستہ چلوا ور مرغ ز ارجنت میں بے خوف چرو۔ اے رب میرے ہدایت فرما، آمین!

 

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہسید العالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو کچھ اپنے رب کے پاس سے لائے ان سب میں ان کی تصدیق کرنا اور سچے دل سے ان کی ایک ایک بات پر یقین لانا ایمان ہے۔ ادامہ اﷲ لنا حتی نلقاہ بہ یوم القیام وندخل بہ بفضل رحمتہ دارالسلام اٰمین!

 

اللہ تعالٰی  اس پر ہمیں دوام عطا فرمائے حتی کہ ہماری روز قیامت آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ملاقات ہو اور اللہ تعالٰی اپنی رحمت سے دارالسلام میں آپ کے ساتھ داخلہ عطا فرمائے۔ (ت) اور معاذاللہ ان میں کسی بات کا جٹھلانا اور اس میں ادنٰی شک لانا کفر،

 

اعاذنا اﷲ منہ بحفظہ العظیم ورحم عجزنا وضعنا بلطفہ الفخیم، انہ ھو الغفور الرحیم اٰمین اٰمین الہٰ الحق اٰمین! اپنے حفظ عظیم سے اللہ تعالٰی ہمیں اپنی پناہ عطا فرمائے اورہمارے عجز اور کمزوری پر لطف عظیم سے رحم  فرمائے وہی غفور رحیم ہے، آمین آمین اے معبود برحق آمین! (ت)

 

پھر یہ انکار جس سے خدا مجھے اور سب مسلمانوں کو پناہ دے دو طرح ہوتاہے، لزومی ولالتزامی، التزامی یہ کہ ضروریات دین سے کسی شئی کا تصریحات خلاف کرے یہ قطعا اجماعا کفر ہے اگر چہ نام کفر سے چڑے اور کمال اسلام کا دعوٰی کرے۔ کفر التزامی کے یہی معنی نہیں بلکہ صاف صاف اپنے کافر ہونے کا اقرار کرتاہو جیسا کہ بعض جہال سمجھتے ہیں۔ یہ اقرار تو بہت طوائف کفار میں بھی نہ پایا جائے گا ہم نے دیکھا ہے بہیترے ہندو کافر کہنے سے چڑتے ہیں بلکہ اس کے یہ معنی کہ جو انکار اس سے صادر ہوا یا جس بات کا اس نے دعوٰی کیا وہ بعینہ کفر ومخالف ضروریات دین ہو جیسے طائفہ تالفہ نیاچرہ کا وجود ملک وجن وشیطان وآسمان ونار وجنان و معجزات انبیاء علیہم افضل الصلٰوۃ والسلام سے ان معانی پر کہ اہل اسلام کے نزدیک حضور ہادی برحق صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے متواتر ہیں انکار کرنا اور اپنی تاویلات باطلہ وتوہمات عاطلہ کو لے مرنا نہ ہر گز ہرگز ان تاویلوں کے شوشے انھیں کفر سے بچائیں گے نہ محبت اسلام وہمدردی قوام کے جھوٹے دعوے کام آئیں گے

 

قاتلھم اﷲ انی یؤفکون ۱؎  (اللہ انھیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔ ت)

 

(۱؎ القرآن الکریم    ۹ /۳۰ و ۶۳ /۴)

 

اور لزومی یہ کہ جوبات اس نے کہی عین کفر نہیں مگر منجر بکفر ہوتی ہے یعنی مآل سخن ولازم حکم کو ترتیب مقدمات وتتمیم تقریبات کرتے لے چلئے توانجام کار اس سے کسی ضرور دین کا انکار لازم آئے جیسے روافض کا خلاف حقہ راشدہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضرت جناب صدیق اکبر وامیر المومنین حضرت جناب فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے انکار کرنا کہ تضلیل جمیع صحابہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی طرف مؤدی اور وہ قطعا کفر مگر انھوں نے صراحۃ اس لازم کا اقرار نہ کیا تھا بلکہ اس سے صاف تحاشی کرتے اور بعض صحابہ یعنی حضرات اہلبیت عظام وغیرہم چند اکابر کرام علی مولا ھم وعلیہم الصلٰوۃ والسلام کو زبانی دعووں سے اپناپیشوا بناتے اور خلافت صدیقی وفاروقی پر ان کے توافق باطنی سے انکار رکھتے ہیں اس قسم کے کفرمیں علماء اہلسنت مختلف ہوگئے جنھوں نے مآل مقال ولازم سخن کی طرف نظر کی حکم کفر فرمایا اور تحقیق یہ ہے کہ کفر نہیں بدعوت وبدمذہبی وضلالت وگمراہی ہے، والعیاذ باﷲ رب العالمین (اللہ رب العالمین کی پناہ ۔ت) امام علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی شفا شریف میں فرماتے ہیں:

 

من قال بالماٰل یؤدی الیہ قول ویسوقہ الیہ مذھبہ، کفرہ، فکانھم صرحوا عندہ بماادی الیہ قولھم، ومن لم یراخذھم بماٰل قولھم ولاالزمھم موجب مذھبھم لم یراکفارھم قال لانھم اذاوقفوا علی ھٰذا قالوا لانقول بالماٰل الذی الزمتموہ لنا۔ ونعتقد ونحن وانتم انہ کفر، بل نقول ان قولنا لایؤل الیہ علی ما اصلنا، فعلی ھٰذین المأخذین اختلف الناس فی الکفار اھل التاویل والصواب ترک اکفار ھم ۱؎ اھ ملخصا۔

 

جس نے اس مآل کی طرف دیکھا جس کی طرف اس کا قول مؤدی تھا جس کی طرف ا س کا مذہب چلا جاتا ہے تو اس نے اس کی تکفیر کی گویا اس نے ان کے مؤدی قول کو سمجھا ہے اور جنھوں نے ان کے مآل کو نہ دیکھا اورنہ ان کے تقاضا مذہب کا لزوم دیکھا انھوں نے تکفیر نہیں کی اس لئے جب وہ اس سے اگاہ ہوگئے توانھوں نے کہا ہم اس مآل کا قول دونوں اسے کفر تصور کرتے ہیں بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارے اصل کے مطابق ہمارے قول کا وہ مآل ہی نہیں، ان دونوں ماخذوں کی وجہ سے اہل تاویل کے کفر میں لوگوں کااختلاف ہوا اور درست رائے یہی ہے کہ ان کے کفر کا قول نہ کیا جائے اھ ملخصا (ت)

 

 (۱؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفی فصل فی بیان ماھو من المقالات   المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ بیروت    ۲/ ۲۷۸)

 

جب یہ امر ہو لیا تو اب ان امام وماموم کے کفریات لزومیہ ہوگئے۔ امام کے کفروں کا شمار ہی نہیں اس نے توصرف انھیں چند سطروں میں جو تنزیہ سوم میں اس سے منقول ہوئیں کفروی لزومی کی ساتھ اصلیں تیارکیں جن میں ہراصل صدہا کفر کی طرف منجر اور اس کا مذہب مان کر ہرگز ان سے نجات نہ مفر، والعیاذباللہ العلی الاکبر۔

 

اصل اول: جو کچھ انسان کرسکے خدا اپنی ذات کریم کے لئے کرسکتاہے ورنہ قدرت انسانی بڑھ جائیگی (دیکھو ہذیان اول) اس اصل کے کفروں کی گنتی نہیں مگر میںاسی قدر شمار کروں جو اوپر گن آیا ہوں یقینا قطعا لازم کہ اس سفیہ کے مذہب پر (۱) اس کا معبود کھانا کھاسکتا ہے (۲)پانی پی سکتاہے (۳)پاخانہ پھرسکتا ہے (۴)پیشاب کرسکتاہے (۵)اپنا سمع روک سکتاہے (۶)بصر روک سکتا ہے (۷)دریا میں ڈوب سکتاہے (۸)آگ میں جل سکتاہے (۹)خاک پر لیٹ سکتاہے (۱۰)کانٹوں پر لوٹ سکتاہے (۱۱)وہابی ہوسکتاہے (۱۲) رافضی ہوسکتاہے (۱۳)اپنا نکاح کرسکتاہے (۱۴)اجماع کرسکتا ہے (۱۵)عورت کے رحم میں اپنا نطفہ پہنچا سکتاہے (۱۶)اپنا بچہ جنا سکتا ہے (۱۷)نیز اس اصل پر لازم کہ خدا خدا نہیں (۱۸)ہزاروں کروڑوں خدا ممکن ہیں (۱۹) آیہ کریمہ واﷲ خلقکم وما تعلمون ۱؎  (اور اللہ نے تمھیں پیدا کیا اورتمھارے اعما ل کو۔ ت) حق نہیں ان سب امور کا ثبوت ہذیان مذکور کے ردوں میں ہدیہ ناظرین ہوا۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم   ۳۷ /۹۶)

 

اصل دوم :  خدا کے لئے عیوب ونقائص محال نہیں بلکہ مصلحت کے لئے ان سے قصدا بچتاہے (ہذیان دوم) اس اصل کفر اصل اول سے صدہا درجے فزوں جس سے لازم کہ اس بیباک کے مذہب ناپاک پر (۲۰)اہل اسلام کے عامہ عقائد تنزیہی وتقدیس کہ ان کے نزدیک ضروریات دین سے ہیں سب باطل و بے دلیل (۲۱)اس نامسعود کا وہمی معبود عاجز (۲۲)جاہل (۲۳) احمق (۲۴)کاہل (۲۵) اندھا (۲۶)بہرا (۲۷)ہکلا (۲۸)گونگا سب کچھ ہوسکتاہے (۲۹)کھاناکھائے (۳۰)پانی پئےے (۳۱)پاخانہ پھرے (۳۲)پیشاب کرے (۳۳)بیمار پڑے (۳۴)بچہ جنے (۳۵)اونگھے (۳۶)سوئے (۳۷)مرجائے (۳۸)مر کر پھر پیدا ہو سب کچھ روا ہے (۳۹)اللہ کے علم (۴۰)قدرت (۴۱)سمع (۴۲)بصر (۴۳)کلام (۴۴)مشیت وغیرہا صفات کمال کے (ازلی) ہونے کا کچھ ثبوت نہیں (۴۵ تا ۵۰) ان کے ابدی ہونے کا کچھ ثبوت نہیں (۵۱)اس کی الوہیت قابل زوال، ان سب لزوم کا بیان تازیانہ اول میں گزرا بلکہ (۵۲) خود اس اصل کا ماننا در حقیقت بالفعل اللہ عزوجل کو نا قص جانتاہے (دیکھو تازیانہ ۲) اور بیشک جو اللہ عزوجل کی طرف نقص کی نسبت کرے قطعا کافر ، اعلام بقواطع الاسلام میں ہے: من نفی اواثبت ماھو صریح فی النقص کفر۲؎ الخ۔ (۲؎ الاعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ   فصل اول مکتبۃ حقیقہ استنبول ترکی ص)

 

اصل سوم : جن باتوں کی نفی سے خدا کی مدح کی گئی وہ سب خدا کے لئے ممکن ہیں (ہذیان ۲)اس کے کفر بھی

بکثرت ہیں قطعا لازم کہ اس سفیہ کے طور پر (۵۳)اس کے معبود کی جو رو ہوسکتی ہے۔ (۵۴)بیٹاہو سکتاہے (۵۵)بھول سکتاہے (۵۶)بہک سکتاہے (۵۷)بعض اشیاء اس کی ملک سے خارج ہیں الی غیر ذٰلک من الکفریات (اس کے علاوہ دیگر کفریات ۔ ت) (دیکھو ت۵ تا ۸)

 

اصل چہارم : صدق الٰہی اختیاری ہے (ھ۲) اس سے لازم کہ سفیہ کے مذہب پر (۵۸)قرآن مجید مخلوق ہے جس کے کفر پر ۳۲ فتوے گزرے (۵۹) اس کا معبود از ل میں کاذب تھا (۶۰) اب بھی کاذب ہے (۶۱)کبھی صادق نہیں ہوسکتا (۶۲)قرآن مجید کا جملہ جملہ غلط ہے (۶۳)اللہ مخلوق ہے (۶۴)بلکہ محال ہے الی غیر ذلک وہ کفریات کثیرہ کہ مواضع متعددہ میں جن کا الزام گزرا۔

 

اصل پنجم  : علم الٰہی اختیاری ہے (تنبیہ بعد ت ۳) اس پر لازم کہ جاہل کے نزدیک (۶۵) علم الٰہی مخلوق وحادث ہے جس کے کفر پر فتوٰی امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ گزرا (اللہ تعالٰی از ل میں جاہل تھا (۶۷)جب چاہے جاہل بن جائے (۶۸)اللہ حادث ہے (۶۹)قابل فنا ہے الٰی غیر ذلک۔

 

اصل ششم: کذب الٰہی ممکن ہے اور ثابت کرآئے کہ اس کا کلام نہ صرف امکان عقلی بلکہ امکان وقوعی بلکہ عدم استبعاد عادی میں نص صریح ہے اور (۷۰)یہ خود کفر ہے، پھر اس تقدیر پرقطعا یقینا (۷۱) شریعت سے یکسر مان مرتفع (۷۲) خداکی خبر سے یقین مندفع (۷۳) اسلام پر مطاعن جن سے جواب ناممکن۔

 

اصل ہفتم  (۷۴): اللہ تعالٰی بندوں سے چراچھپاکر، بہلا بھلا کر آیات قرآنیہ جھوٹی کردے تو کچھ حرج نہیں (ت۳۱)بیہات یہ تو اس نے صاف صریح کہا تھامیں متحیر ہوں اسے لزوم میں داخل کروں یا التزام میں، پھر اس پر (۷۵)حشرنشر، حساب کتاب، جنت نار، عذاب، ثواب کس چیز پر ایمان نہ رہا کہ ہرچیز میں صاف صریح احتمال نقص باقی تو یقین کیسا تو ایمان کہاں۔ والعیاذ باللہ رب العالمین ہماری تقریرات سابقہ وتقریرات لاحقہ دیکھنے والا اس امام نجدیہ کے کفریات لزومیہ کو صدہا تک پہنچا سکتا ہے۔ بلکہ جس قدر اوپر مذکور ہوئے وہ بھی یہاں پورے نہ گنے گئے پھر بھی معاذاللہ پچھتر کفرکیا کم ہیں، پھریہ تو صرف ایک ہی قول پر ہیں باقی کفریات، تفویت الایمان وصرام المستقیم کی گنتی ہی کیا ہے پھر وہ اقبالی کفر علاوہ رہے جو ایمان تفویۃ الایمان پر صراط مستقیم میں اہلے گہلے پھر رہے ہیں۔ غرض حضرت کے کفریات لزومیہ واقبالیہ کی تفصیل کرتے فی کفر ایک نقطہ ان کی قبرپر دیتے جائے تو غالبا دم بھر میں ساری قبر کامنہ کالا ہوجائے ، یہ اس کی سزا ہے کہ کفر وشرک دھڑی دھڑی کرکے بیچا محض بلاوجہ سچے مسلما نوں کو کافر مشرک کہا یہاں تک کہ ان کے طور پرصحابہ وتابعین سے لے کر شاہ ولی اللہ وشاہ عبدالعزیز صاحب تک کوئی کفر وشرک سے نہ بچا گویا حضرت کے نزدیک کفر امور عامہ سے تھا پھر یہ خود اس سے بچ کرکہا جاتے کہ کرد کہ نیافت کما تدین تدان ۱؎ (جو کیا تھا نہ پایا، جوکرے گا اس کا بدل دیا جائے گا۔ ت) ؎

 

دیدی کہ خون ناحق پروانہ شمع را    چنداں اماں نداد کہ شب راسحر کند

 

 (تم نے دیکھانہیں کہ پروانہ کا خون ناحق شمع کو اسی طرح امان نہیں دیتاکہ رات کو سحری کردے۔ ت)

 

 (۱؎ کنز العمال    بحوالہ عد عن ابن عمر    حدیث ۴۳۰۳۲    موسستہ الرسالہ بیروت    ۱۵/ ۷۷۲)

 

کذٰلک العذاب ولعذاب الاٰخرۃ لو کانوا یعلمون ۲؎ o اللھم احفظ لنا الایمان واعصمنا من شر  الشیطان بجاہ حبیبک سیدنامحمد سید الانس والجان صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسل وعلی اٰلہ وصحبہ شرف وکرم اٰمین والحمد اﷲ رب العلمین ۔ اسی طرح عذاب ہے، اورآخرت کا عذاب سب سے بڑا ہے، کاش یہ اسے جانیں، اے اللہ! ہمارے ایمان کی حفاظت فرما، شر شیطان سے ہمیں محفوظ فرما بوسیلہ اپنے حبیب محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جو انس وجن کے سردار ہیں آپ پر اورآپ کی آل واصحاب پر شرف وکرم ہو آمین والحمدللہ رب العالمین۔ (ت)

 

 (۲؎ القرآن الکریم  ۶۸ /۳۳)

 

ان امام صاحب پر چالیس بلکہ سوتازیانے اورپر گزرے تھے پچھتر یہ ہوئے کہ ایک جماعت ائمہ کے نزدیک تم پچھتر وجہ سے کافر ہو، امام الطائفہ پر ایک ہی قول میں پونے دو سو کوڑے یادر کھے، اب مقتدی صاحبوں کی طرف چلئے ان میں دیوبندی (عہ) تقلید نے تو دیوبندگی یعنی اس عوام  مغوی امام کی پیروی سے قدم آگے نہ بڑھایا یعنی کوئی ایسی نئی بات پیش نہ کی جس پر الزام کفر سے جدید حصہ پاتا صرف انھیں احکام امام کا ترکہ پایا اور اس کی باقی خرافات بشدت اہمال قابل التفات اہل علم نہیں تاہم معرض بیان میں سکوت نا محمود لہذا بطور اجمال تعرض مقصود، قولہ ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے کبھی جھوٹ بولا نہ بولے۔

 

عہ تنبیہ ضروری: واقف منصب افتاء جانتاہے کہ مفتی سے جس کلام باطل وضلال کی نسبت سوال سائل ہو اس پر اس کلام کی شناعتوں کا اظہار ، قباحتوں کا ایضاح واجب اگرچہ قائل محض عامی وجاہل ہو کہ اتمام جواب و احکام صواب اس پر موقوف اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قابل مخاطبہ ٹھہرا، پس اگر حضرت دیوبندی مثل مدعیان جدید کوئی اکابر ومتبوعین طائفہ سے ہیں جب تو اس رد بلیغ کا ہدیہ مبارک یا اگر مثل صاحب نسبت براہین قاطعہ نقاب عارض امامت کامنہ ہیں تو خطاب متعدد اور مخاطب واحد ورنہ کلام فقیر بضرورت افتاء محض جانب کلام من حیث ہوکلام معطوف اور خصوصی متکلم سے نظر مصروف ۱۲ منہ۔

 

اقول یہ زبانی اظہار محض بے بنیاد وناپائیدار کہ جب کذب ممکن بلکہ جائز وقوعی ہوا جیسا کہ تمھارے امام کا مشرب، تو ہر گز اس اعتقاد کی طرف کوئی راہ نہیں بلکہ صراحۃً ام تقولون علی اﷲ مالاتعلمون (یا خدا پر وہ بات کہتے ہو جس کا علم تمھیں نہیں۔ ت) میں داخل ہونا ہے۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم     ۲/ ۸۰)

 

وہ تقریریں کہ فقیر نے دلیل دوم تنزیہ دوم میں حاضر کیں یہاں بنہایت وضوح وانجلا جاری، جنھیں بحمداللہ اس اظہار باطل کی ذلت وخواری کی پوری ذمہ داری، سچا ہے تو کذب الٰہی جائز رکھ کر اپنے اعتقاد پردلیل تو قائم کرے اور جب نہ قائم کرسکے تو واضح ہوجائے گاکہ یہ زبانی استمالت بھی صرف خاطر داری عوام کے لئے تھی آخر اس کا امام صراحۃ لکھ ہی چکا کہ چراچھپا کر خدا جھوٹ بول لے تو کچھ حرج نہیں،

 

اللھم انی اعوذبک من اضلال الشیاطین، والعیاذ باﷲ رب العالمین۔

 

اے اللہ! میں شیطان کی گمراہی سے تیری پناہ میں آتاہوں، اللہ رب العالمین کی پناہ ہے۔ (ت)

 

قولہ مگر بول سکتا ہے،اقول انظر کیف یفترون علی اﷲ الکذب وکفی بہ اثما مبینا ۲؎ o (دیکھو کیسا اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہیں اور یہ کافی ہے صریح گناہ۔ ت)

 

(۲؎ القرآن الکریم     ۴ /۵۰)

 

قولہ۔ بہشتیوں کو دوزخ اور دوزخیوں کو بہشت میں بھیج دے، اقول قطع نظر اس سے کہ مومن مطیع کی تعذیب ہمارے ائمہ کرام ماتریدیہ اعلام قدست اسرارہم کے نزدیک محال عقلی مسلم الثبوت اور اس کی شرح فواتح الرحموت میں ہے :امتناع تعذیب الطائع مذھبنا معشر الماتریدیۃ فانہ نقص مستحیل علیہ سبحانہ وتعالٰی عقلا ۳؎ اھ ملخصا۔        مومن مطیع کے عذاب کا ممتنع ہونا ہم ماتریدیہ کا مذہب ہے کیونکہ یہ نقص ہے جو اللہ تعالٰی پر محال عقلی ہے، اھ ملخصا۔ (ت)

 

      (۳؎ فواتح الرحموت بذیل المستصفی     الباب الاول فی الحاکم    منشورات الشریف الرضی قم ایران    ۱/ ۴۶)

 

اورامام نسفی وغیرہ(عہ۱) بعض علما ء نے عفو کا فرکو بھی عقلا ناممکن جانا، امام ابن الہمام مسایرہ میں فرماتےہیں،

صاحب العمدۃ اختار ان العفو عن الکفر لا یعفو من الکفر ال یجوز عقلا۔۱؎   صاحب عمدہ کا مختار یہ ہے کہ کفر سے عفو عقلاَ جائز نہیں ۔ (ت)

 

(۱؎ المسایرہ مع المسامرۃ    الرکن الرابع فی السفیہات   المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر   ص ۲۵۵)

 

عہ۱:  طرفہ یہ کہ وہ ردالمحتار جس سے مدعیان جدید اس مسئلہ میں جہلا متمسک اس میں بھی یہی قول اختیار کیا اور اسی کو صحیح و معتمد قرار دیا،

 

     حیث قل لکنہ مبنی علٰی جواز العفو عن الشرک عقلا ع وعلیہ یبتنی القول بجواز الخلف فی الوعید ، و قد علمت ان الصحیح خلافہ فالد عاء بہ کفر لعد م جواز ہ عقلا و شرعا ۲؎ ۔

 

    انھوں نے کہا یہ اس پر مبنی ہے کہ شرک کا عفو عقلا جائز ہے اور خلف وعید کا قول بھی اسی پر مبنی ہے اور آپ جان چکے صحیح قول اس کے خلاف ہے لہذا اس کا دعوٰی کفر ہے کیونکہ اس کا جواز نہ عقلا ہے نہ شرعا (ت)

 

(۲؎ ردالمحتار      مطلب فی خلف لاوعید الخ     داراحیا ء الترا ث العربی بیروت     ۱/ ۳۵۱)

 

اور اسی طرف اس کے ماخذ حلیہ کا کلام ناظرہ،

 

کمالا یخفی علٰی من طالعہ بامعان النظر واللہ الموفق ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

 

     جیسا کہ مخفی نہیں ہر اس شخص پر جس نے گہری نظر سے مطا لعہ کیا ہو اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (ت)

 

اس قائل سے پوچھئے انبیا ء و اولیا ء علیہم الصلٰوۃ والسلام کا جنھوں نے کبھی اطاعت کے سوا کچھ گناہ نہ کیامعاذ  اللہ دوزخ میں جانا اورکافروں مشرکوں کا جنت میں آنا محال شرعی بھی مانتا ہے یا نہیں، اگر نہیں تو اپنے ایمان کی فکر کرے اور علماء سے اپنا حکم پُوچھ دیکھئے اور اگر ہا ں تو ممتنع بالغیر ہو اورممتنع با لغیر وہی جس کا وقوع ماننا کسی ممتنع با لذّات کی طرف منجر ہو ورنہ لزوم ممکن سے استحالہ ممکن محض ناممکن ، اب و ہ غیر کیا ہے، یہی لزوم کذب باری عزوجل ، تو آپ ہی کی دلیل(عہ۲) سے ثابت ہوا کہ کذب بار محال ذاتی ہے،

 

عہ۲: فان قلت لم لا یجوز ایکون ھذا ایضا محالا لغیرہ و ذٰلک الغیرالمستحیل بالذات شیئا اٰخر قلت لم لا یجوزان یکون ھذا ھو ذٰ لک الغیر  الامحال بالذات ولا جلہ سارملز و مہ محالا بالغیر فان تشبثت باحتمال تشبثنا باٰ خر و کنا مصیبین وکنت من الخاطئین لا نک مستدل بھذا الرلیل علی امکان الکذب امامد عیا واماغاصبا فکیف یکفیک عسٰی ولعل ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

 

اگر یہ اعتراض کریں یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ یہ بھی محال لغیرہ ہو اور یہ غیر جو محال بالذات ہو دوسری شیئ ہے میں کہوں گا یہ کیوں جائز نہیں کہ یہ غیر محال بالذات یہی ہو اور اس کی وجہ سے اسکا ملزوم محال بالغیر ہو اور اگر تم کسی اور احتمال سے استدلال کرو تو ہم مصیب اور تم خاطی ٹھہرو گے کیونکہ تم اس دلیل سے امکان کذب پر استدلال کیا تو تم یا تو مدعی ہو یا غاصب اب تمھارے لئے شاید یہ ہو امید ہے کہ ہو، کیسے کام آسکتا ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

اے ذی ہوش ! ورو د نص کے سبب خلاف منصوص کو محال شرعی اسی لئے کہتے ہیں کہ اس کا وقوع محال عقلی یعنی کذبِ  الٰہی کو مستلزم ، شرح عقائد میں ہے : لوو قع لزم کذب کلام اللہ تعالٰی وھو محال ۱؎۔   اگر قوع ہو جائے تو اللہ تعالٰی کے کلام کا کذب لازم آتا ہے جو محال ہے (ت)

 

 (۱؎ شرح العقائد النسفیہ         دار الاشاعۃ الاعربیۃ قندھار افغانستان         ص ۷۱)

 

شرح فقہ اکبر میں ہے، قال اللہ تعالٰی، لا یکف اللہ نفسا الا وسعھا، وعن ھذا النص ذھب المحققون ممن جوزہ عقلا من الا شاعرۃ الٰی امتنا عہ سمعا وان جاز عقلا ای والا لز م وقوع خلاف خبرہ سبحانہ۔ ۲؎۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد گرامی ہے، اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر، اسی نص کی بنا پر ان اشاعرہ میں سے محققین اس طرف گئے ہیں جو اسے عقلا جائز سمجھتے تھے کہ شرعا محال ہے اگرچہ عقلا جائز ہے یعنی ورنہ اللہ تعالٰی کی خبر کے خلاف وقوع لازم آئے گا ۔ (ت)

 

 (۲؎ منح الرو ض الازھر شرح الفقہ الاکبر معنی قرب الباری من مخلوقاتہ و بعدہ عنہم البابی مصر ص ۱۰۷)

 

سبحان اللہ ! یہ تو عقل و فہم اور الٰہیات میں بحث کاوہم قولہ تو کسی کا اجارہ نہیں اقول یوں تو تم اپنے امام کی طرف سے یہ بھی کہہ سکتے ہو کہہ سکتے ہو اگر باری تعالٰی اپنے آپ کو ناقص و ملوث و عیبی بنالے تو کسی کا اجارہ نہیں، اپنی ذات یا قدرت یا علم یا الوہیت کو فنا کردے تو کسی کا اجارہ نہیں، ظاہر ہے کہ ان محالات کے فرض پر بھی اس کا اجارہ ثابت نہ ہو گا کہ بے علاقہ ملازمت معقول نہیں پھر اسی نفی اجارہ سے ثبوت امکان کیونکر ہو، اور اگر یہ مقصود کہ ایسا کرے تو کچھ حرج نہیں، اور بیشک عرف میں یہ کلام اسی معنی کو مفید ہوتا ہے تو محض غلط و باطل،اور اجماعِ امت و نصوص قاطعہ کے خلاف بیشک کتنا بڑا حرج ہے کہ سارے جہان کا سچّا مالک معاذاللہ جھُوٹا ٹھہرے جس کے استحالہ پر نصوص بے شمار سُنتے آئے اور حلیہ کا کلام تازہ گزرا اور شرح عقائد و شرح فقہ اکبر کی آوازیں تو ابھی تمھارے کان مین گونجتی ہو گی، مگر ہاں تمھارے نزدیک اللہ عزوجل کے جھُوٹے ہونے میں کیا حرج ہوتا تھا، امام توصاف کہہ چکا کہ اس پا ک بےعیب میں دنیا بھر کے عیب آسکتے ہیں پھر انیہم بر علم اللہ ایمان و حیابخشے ۔ قولہ یہی امکانِ کذب ہے۔ اقول (عہ) محض تمھارا کذب ہے ہر ممتنع بالغیرمحال بالذات کو مستلزم، اور باوجود اس کے خود ممکن بالذات ہوتا ہے، اسکا امکان ذاتی اس محال بالذات کے امکان ذاتی کو مستلزم ہو محال بالذات اور کو مستلزم ہونا محال بالذات اور لمَ یہ کہ ان میں استلزام ہی عارضی تھا نہ کہ ذاتی ورنہ محال بالذات ہو تا نہ کہ بالغیر، یُوں تو لازم کہ باری تعالٰی و تقدس واجب الوفود نہ رہے یا تمام موجودات واجب بالذات ہو جائیں ،وجہِ ملازمت سُنئے زید آج موجود ہو ا اس کا وقت وجود علم الٰہی سبحانہ و تعالٰی میں تھا یا نہیں، اگر نہیں تو علم محیط باری جل و علامنتفی ہوا  اور انتفائے علم کہ مقتضائے ذات ہے انتفا ئے مقتضی کو مقتضی تو باری عزوجل معاذاللہ معدوم ہُوا اور اگر تھا تو اس وقت اس کا عدم بھی ممکن ذاتی تھا یا نہیں، اگر نہیں تو زیدواجب بالذات ہُوا اور وہاں تو اس کا اس وقت عدم کہ ممکن بالذات ہے۔ عدم علم اور عدم عالم کو مستلزم تو تمھارے طور پر عدم ذات ممکن تو باری جل جلالہ واجب الوجود نہ ہوا، اب تو آپ کو اپنی جہالت پر یقین آیا،واقعی تم بیچارے معذور ہو کہ حقائقِ علوم و دقائق فہوم میں بیچاری گنگوہی تعلیم کا حصہ رکھا ہی نہ گیا، ذرا کلمات علماء پر نظر کیجئے تو آپ کو اپنی دانشمندی پریقین کامل آئے ۔

 

عہ: واقول ایضا بلکہ اوجاہل ! اگر یہ تیر دلیل جہالت تام ہو تو باری عزوجل کامعاذاللہ جہل بھی ممکن ٹھہرے کہ اس نے بہشتیوں کے بہشت ، دوزخیوں کے دوزخ جانے کی صرف ہم کو خبر ہی نہ دی بلکہ اس کے علم میں بھی ایسا ہی ہے بااینہمہ وُہ خلاف پر قادر ، اس تقدیر پر اس کا علم غلط پڑے گا اور یہی امکان جہل ہے تعالٰی عن ذلک علو کبیرا اللہ تعالٰی اس سے بڑھ کر بلند ہے۔ت)ہاں اے جاہل ! اب تو یا تو امکان جہل بھی مان یا امکانِ کذب پر ان جُھوٹے شوشوں سے درگزر ، اللہ تعالٰی ہدایت بخشے آمین ! ۲۱ منہ رضی اللہ عنہ۔

 

علاّمہ سعدالدین تفتازانی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں : ان اللہ تعالٰی لما اوجد العالم بقد رتہ اختیارہ فعد مہ ممکن فی نفسہ مع انہ یلزم من فرض و قوعہ تخلف المعلوم عن علتہ التامۃ وہو محال والحاصل ان لاممکن لایلز م من فرض و قوعہ محال بالنظر الٰی ذاتہ واما بالنظر الٰی امر ز ائد علٰی نفسہ فلا نسلم انہ لا یستلزم المحال۔۱؎

 

اللہ تعالٰی نے جہان کو اپنی قدرت و اختیار سے تخلیق فرمایا اس کا فی ذاتہ عدم ممکن ہے باوجودیکہ اسکے وقوع کے فرض سے معلول کا اپنی علت تامہ سے تخلف لازم آتا ہے اور یہ محال ہے، حاصلیہ ہے کہ ممکن وُہ ہوتا ہے جی زاتہ جس کے وقوع کے فرج کرنے سے مال لازم نہ آئے لیکن کسی امرزائد کی بنسبت ہم نہیں مانتے کہ محال کو مستلزم نہیں (ت)

 

 (۱؎ شرح العقائد النسفیہ     دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان     ص ۷۱ و۷۲)

 

شرح مقاصد میں فرماتے ہیں : ان قیل ماعلم اللہ او اخبر بعد م بوقوعہ یلزم من فرض وقوعہ محال ھو جھلہ اوکذبہ تعالٰی عن ذٰلک و کل مایلزم من فرض و قوعہ محال فھو محال ضرور ۃ امتناع وجود الملز و م بدون الللازم، فجوابہ منع الکبری وانما یصدق لوکان لزوم المحال لذاتہ امالو کان لعارض کالعلم اوالخبر فبما نحن فیہ فلا لجو ازان یکون ھو مکنافی نفسہ ومنشاء لزوم المحال ھو ذٰلک العارض۔۲؂ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالٰی نے جس چیز کے عدم وقوع کو جانا یا اُس کی خبر دی ہو تو اس کے وقوع کے فرض سے محال لازم آئے گا وہ جہالت یا اس کا کذب ہے تو جب اس فرض وقوع سے محال لا زم آئے گا تو یہ بہر حال محال ہو گا کیونکہ لازم کے بغیر ملزوم کا وجود ممتنع ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کبرٰی نہیں مانتے، یہ تب سچّاہے کہ اگر لزوم محال لذاتہ ہو اوراگر کسی عارضہ کی وجہ سے ہو مثلا وُہ زیر بحث علم یا خبر ہو تو اس میں محال نہیں کیونکہ یہ فی نفسہٖ ہو سکتا ہے ممکن ہے اور لزوم محال کی عّلت وہ عارض بن رہا ہو۔(ت)

 

(۲؎ شرح المقاصد   المبث الرابع لاقبیح من اللہ تعالٰی     دارالمعارف النعمانیہ لاہور      ۶/ ۱۵۵)

 

غرض استحالہ ناشیہ عن نفس الذات وعن خارج میں فرق نہ کرکے بعض نے استلزام عارضی میں بھی استحالہ لازم بالذات سے استحالہ ملزوم بالذات کا حکم کیا جس کا محققین نے یوں حل کر دیا مگر ایسی جگہ امکان ملزوم سے امکان لازم مستحیل بالذّات کا حکم آپ ہی کی عقل شریف کا حصّہ خاصہ تھا کہ اس کے رد میں علماء کا وہ حل کافی و وافی ہوا،سبحان اللہ ! میں اپنے علما ء سے کیوں استنادکروں ۔ آپ اپنے ہی امام کاقول نہ سُنئے،اسی محبث کذب والی یکروزی میں کیا کہتا ہے :

 

اگر مقصوداین ست کہ وقوع مذکوربالفعل

 

 (جسے یہاں اپنی بحث میں وقوع تعذیب مطیع و مغفرت کافر فرض کیجئے)

 

مستلزم کذب ست پس آن مسلم ست و کسے دعوی وقوع مذکوربالفعل نکر دہ اگر مقصودش این ست کہ امکان وقوع مذکور مستلزم کذب نصی ست از نصوص قرآنیہ پس آں نص را تلاوت باید کرد تا واضح گرددکہ کدام نص بر نفی امکان وجودمذکوردلالت میکند واگر مقصوداین ست کہ امکان وجود مذکور مستلزم امکان کذب ست پس ملازمت ممنوع ست زیر ا کہ عدم وجود مذکور معلول صدق نص ست پس تحقق عدم مذکور البتہ مستلزم تحقق امکان صدق نص مذکور ست وزوال عدم مذکور بالفعل مستلزم کذب  ست واما  امکان زوال  عدم مذکور پس مستلزم امکان زوال صدق نیست یعنی امکان وجود مثل مذکور مستلزم امکان کذب نیست چہ امکان زوال معلول مستلزم امکان زوال علت نیست والا لازم آید کہ امکان زوال  عقل اول مستلزم امکان زوال واجب باشد پس امکان زوال عقل اول ممتنع باشد پس عقل اول واجب لذآباشد، حاصلش آنکہ ملازم درمیان علت و معلوم درفعلیت وجود و عدم ست نہ درامکان ذاتی والا لازم آید کہ واجب لذاتہ ممکن لذاتہ اگر دد،چہ معلولات او ہمہ ممکنات اند اھ ۱؎ ملحضا۔

 

اگر مقصود یہ ہے کہ وقوع مذکور بالفعل ہے (جسے یہاں اپنی بحث میں وقوع تعذیب مطیع و مغفرت کافر فرض کیجئے)تویہ کذب کو مستلزم ہے پس یہ تسلیم شدہ ہے اورکسی نے وقوع مذکورہ بالفعل کا دعوی نہیں کیا ، اور اگر مقصود یہ ہے کہ وقوع مذکورکا امکان قرآنی نص کے کذب کو مستلزم ہے تو اس نص کی تلاوت کی جائے تا کہ واضح ہو جائے کہ کون سی نص وجود مذکورکے نفی امکان پر دلالت کر رہی ہے، اور اگر مقصود یہ ہے کہ وجود مذکور کا امکان امکانِ کذب کو مستلزم ہے تو یہ لزوم ممنوع ہے کیونکہ وجودمذکور کا عدم صدق نص کا معلول ہے تو عدم مذکور کا تحقق یقینا صدق نص مذکور کے امکان کے تحقق کو مستلزم ہے، عدم مذکور کا بالفعل زوال ، کذب کو مستلزم ہے لیکن زوال عدم مذکور کا امکان ، زوال صدق کے امکان کو مستلزم نہیں یعنی امکان وجودمذکور، امکان کذب کو مستلزم نہیں کیونکہ زوال معلول کاامکان ، امکان زوال علت کو مستلزم نہیں ورنہ لازم آئے گا  زوال عقل اول کا امکان، زوال واجب کے امکان کو مستلزم ہو تو زوال عقل اول کا امکان ممتنع ہو تو عقل اول واجب لذاتہ ہو گی۔، اس کا حاصل یہ ہے کہ علت و معلول کے درمیان تلازم فعلیت وجود عدم میں ہے نہ کہ امکان ذاتی میں ، ورنہ ازم آئے گا کہ واجب لذاتہ، ممکن لذاتہ ہو جائے کیونکہ اس کے تمام معلولات ممکن ہیں  اھ ملخصاً(ت)

 

 (۱؎ رسالہ یک روزی (فارسی)    مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان    ص ۱۵ و ۱۶)

 

اگر اس کی یہ تقریر پریشان طویل الذیل جس میں اس نے خواہی  نہ خواہی ذرا سی بات کو بیگھوں میں پھیلایا ہے ، تمھاری مقدس سمجھ میں نہ آئے تواسی کا دوسرا بیان مختصر سنوِ اسی یکروزی میں لکھتا ہے:

 

اگر مقصوداین ست کہ ازوقوع ممکن ہیچگونہ محال ناشی نمی گرددلابالنظر الٰی ذاتہ ولا بالنظر الی الامور الخارجیۃ پس این مقد مہ ممنوع ست چہ بریں تقدیر لازم می آید کہ وجود ہر معدوم و عدم ہر موجود محال باشد زیرا کہ مستلزم محال ست یعنی کذب علم ازلٰی ۲؎۔

 

اگر مقصود یہ ہے کہ وقوع ممکن سے کو ئی محال لازم نہیں آتا ، نہ اس کی ذات کے اعتبار سے اور نہ امور خارجی کے اعتبار سے، تو یہ مقدمہ ممنوع ہے کیونکہ اس صورت میں لازم آئے گا کہ ہر معدوم کا وجود اور ہر موجود کاعدم محال ہو کیونکہ یہ محال کو مستلزم ہے یعنی علم ازلی میں کذب ۔ (ت)

 

 (۲؎رسالہ یک روزی (فارسی)    مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان     ص ۱۶)

 

دیکھو باوجود امکان ملزوم لازم کو محال مانتا ہے ، پھر تمھاری جہالت کہ تعزیب مطیع و عفو کافر کے امکان سے امکان کذب پر استدلال کرتے ہو، غرض حق یہ ہے کہ یہ نفیس استدلال کسی ایسے ہی مقدس آدمی کا کام ہے جسے دیو جہالت کی بندوقید میں کبھی علم و فہم کی ہوا نہ لگی ہو، واللہ الھادی خیر یہ تو وہ تھے جنھو ں نے تقلید امام سے تجاوز نہ کیا تھا ، رہے امام عنید کے مریدرشید، انھوں نے بیشک ہمت فرماکر وُہ طرفہ ابکار افکار ہدیہ انظار فحول نظار کیں یعنی یہی جواز خلف کی تقریر ناز نین جس کے باعث اُن پر لزوم کفر کی تین و جہیں اور بڑھیں:

 

اولا : وہ وجہ ہائل کہ تمام مقلدین امام طائفہ کو عموما شامل یعنی یہ اس کے قول مذکور  وجمیع اقوال کفریہ میں مقلد اور بیشک جو کفریات میں تقلید کرے قطعا لزومِ کفر سے حصّہ پائے۔

ثانیا : ان حضرت نے جواز خلف بمعنی کذب ، ائمہ دین کی طرف نسبت کیا ور ہم بد لائل قاطعہ مبرہن کر آئے کہ وُہ جس معنی پر خلف جائز فرماتے ہیں اسے قطعا جائز و قوعی بلکہ واقع ٹھہراتے ہیں، تو ان حضرت نے مولٰی سبحانہ و تعالٰی کا کاذب بالفعل ہو نا کہ قطعا اجما عا کفر خالص ہے،ایک جماعت ائمہ دین کا مذہب جانا اور اسے اس قدر ہلکاسمجھا کہ ائمہ اہل سنت کا اختلافی مسئلہ مانا اور اس پر طعن کو بیجا بتایا اور اس سے تعجب کا ر جہلا ٹھہرایا اور بیشک جو شخص کسی عقیدئہ کفر کو ایسا سمجھے خود کافر ہے، اعلام بقواطع الاسلام میں ہمارے علمائے اعلام سے کفر متفق علیہ کی فصل میں منقول ، اوصدّق کالم اھل الا ھواء(عہ) اوقال عندی کلام مھم کلام معنوی اومعنا ہ صحیح ۱؎ الخ۔ یا وُہ تصدیق کرے کلام اہل بدعت کی ، یا کہے میرے ہاں ان کا کلام بامقصد ہے، یا کہٰے اس کا معنی درست ہے الخ (ت)

 

(۱؎ علامہ بقو اطع الاسام مع سبل النجاۃ     فصل کفر متفق علیہ     مکتبہ حقیقیہ استنبول ترکی      ص ۳۷۱)

 

عہ:  حمل العلامۃ ابن حجر اھل الاھواء علی الذین نکفر ھم ببد عتھم قلت وھو کما افاد ولا یستقیم التخریج علی قول من اطلق الاکفا ر بکل بدعۃ فانہ الکالم فی الکفر المتفق علیہ فلیتبنہ ۱۲۔

 

علامہ ابن حجر  اہل ہوا سے مراد وہ لوگ لیتے ہیں جنھیں ان کی بدعت کی وجہ سے کافر کہا گیا ہے، میں کہتا ہون بات وہی ہے جو انھوں نے کہی اسے یہ حوالہ اس قول پر صحیح نہیں جو مطلقا ہر بدعت کو کفر کہتے ہیں کیونکہ گفتگو اس کفر میں ہو رہی ہے جس پر اتفاق ہو اسے یا د رکھ ۱۲ (ت)

 

فقیر نے اس مسئلہ کی قدرے تفصیل اپنے رسالہ مبارکہ مقامع الحدید علی خدا المنطق الجدید میں ذکر کی واللہ الموفق۔

 

ثالثا : الحمد للہ کہ علمائے اہلسنت ان نے جہلا کی جہالت فاحشہ سے پاک نرالے اور ان کے بہتانی خیالوں ، شیطانی ضلالوں پر سب سے پہلے تبراّ کرنے والے مگر ان کی قوتِ واہمہ نے جو انھیں امام الطائفہ کے ترکہ میں ملی، ائمہ متقدمین میں کچھ علما ء ایسے تراشے جو کذب الٰہی کے جواز و قوعی بلکہ وقوع بالفعل کے قائل ہوئے تو وہ تراشیدہ علماء ساختہ ائمہ ( جن کا ان جہال کے وہم و خیال کے سواکہیں وجود نہیں) قطعا جماعا کافر مرتد تھے، اب انھوں نے ان وہمی موجودوں یقینی مرتدوں کو کافر نہ جانہ بلکہ مشا ئخِ دین و علمائے معتمدین مانا تو خود ان پر کفر وار تداد لازم آنے میں کیا کلام رہا کہ جو کسی منکرِ ضروریات دین کو کافر نہ کہے آپ کافر ہے۔ امام علامہ قاضی عیاض قدس سرہ سفا شریف میں فرماتے ہیں : الاجماع علی کفر من لم یکفراحدا من النصاری والیہود و کل من فارق دین المسلیمن او وقف فی تکفیر ھم او شک ، قال القاضی ابو بکر لا ن التوقیف والا جماع اتفقاعلی کفرھم فمن وقف فی ذٰلک فقد کذب النص و التوقیف اوشک فیہ، والتکذیب والشک فیہ لا یقع الامن کافر ۔۱؎

 

یعنی اجماع ہے اس کے کفر پر جو یہودونصارٰی یا مسلمانوں کے دین سے جدا ہونیوالے کافر نہ کہے یا اس کے کافر کہنے میں توقف کرے یا شک لائے، امام قاضی ابوبکر باقلانی نے اس کی وجہ یہ فرمائی کہ نصوص شرعیہ و اجماعِ امت ان لوگوں کے کفر پر متفق ہیں تو جو ان کے کفر میں توقف کرتا ہے وُہ نص و سریعت کی تکذیب کرتا ہے یا اس میں شک رکھتا ہے اور یا امر کافر ہی سے صادر ہوتا ہے۔

 

(۱؎ الشفا ء بتعریف حقوق المصطفٰی  فصل فی تحقیق القول فی اکفارالمتاولین المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ ۲ /۲۹۷ )

 

اسی میں ہے : یکفر من لم یکفر من دان بغیر ملۃ الاسلام اووقف فیھم اوشک اوصحح مذ ھبھم وان اظھر الاسلام واعتقد ابطال کل مذھب سواہ فھو کافر باظھار ما اظھر من خلاف ذٰ لک ۲؎اھ ملخصا۔

 

یعنی کافر ہے جو کافر نہ کہے ان لوگوں کو کہ غیر ملت اسلام کا اعتقاد رکھتے ہیں یا ان کے کفر میں شک لائے یا ان کے مذہب کو ٹھیک بتائے اگرچہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا اور مذہب اسلام کی حقانیت اور اس کے سواسب مذہبوں کے بطلان کا اعتقاد ظاہر کرتاہوکہ اس نے بعض منکر ضروریات دین کو جب کہ کافر نہ جانا تواپنے اس اظہار کے خلاف اظہار کر چکا ا ھ ملخصا۔

 

 (۲؎الشفا ء بتعریف حقوق المصطفٰی  فصل جی بیان ماھومن المقالات کفر    المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ ۲ / ۲۷۱)

 

آپ کو یاد ہو کہ ان مدعیان جدید نا مہتدی ورشید پر ایک  سو بائیس ۱۲۲کوڑے اوپر جوڑے اور ان کے امام کا وبال انھیں کب چھوڑے کہ یہ آخر اسی کے مقلد اور اسکے اقوال کے پورے معتقد، معہذا جب ضرب الغلام اھا نۃ المولٰی (غلام کی ضرب مولٰی کی اہانت ہے ۔ت) تو ضرب المولٰی اھانۃ الغلام (مولٰی کی ضرب غلام کی اہانت ۔ ت) بدرجہ اولٰی بہر حال یہ پچھتر۷۵ کوڑے جو امام الطائفہ پر تازے پڑے ، ان کے حصّے میں بھی یقینا جڑے ،کُل ایک سو ۱۹۷ ستانوے ہوئے اور تین خاص ان کے دم پر سوار تو اس مختصر رسالے موجز عجالے میں مدعیان جدید پر پُورے دو ۲۰۰ سو کوڑوں کی کامل بوچھار، کذالک العذاب ولعذاب الاٰخرۃ الکبر لو کانوایعلمون۔ ۳؎۔ مارایسی ہوتی ہے اور بیشک آخر کی مار سب سے بڑی ، کیا اچھا تھا اگر وُہ جانتے ۔ (ت)

 

 (۳؎ القرآن الکریم           ۶۸ / ۳۳)

 

میں نے جس طرح اس رسالہ کا تاریخی نام '' سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح'' رکھا یونہی ان تازیانوں کا عدد رخواست کرتا ہے کہ اس کا تاریخی لقب '' دوصد تازیانہ بر فرق جہول زمانہ '' رکھوں ، بالجملہ آفتاب روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ایک مذہب علمائے دین پر یہ امام و مقتدی سب کے سب نہ ایک دوکفر بلکہ صد ہا کفر سراپا کفر میں ڈوبے ہوئے ہیں وفی ذٰلک اقول (اس میں میں نے کہا ۔ ت) ؎

 

فکفر فوق کفر فوق کفر           کان الکفر من کثر و وفر

کما ء اٰسنِ فی نتین دفر             تتا بَعَ قطرہ من تقب کفر۱؎

 

 ( کفر ہرکفر سے بڑھ کرکفر ، ہرکثیرسے بڑھ کرکثیر، جیسا کہ کھڑا پانی بدبودار پانی ملنے سےخوب بدبودار ہوجاتا ہے۔  ت)

 

 (۱؎ الدیوان العربی الموسوم بساتین الغفران فی الردعلی القائلین بامکان کذب اللہ الخ رضادارالاشاعۃ لاہور ص ۱۹۲)

 

معاذاللہ ! اس قدر ان کے خسار وبوار کو کیاکم ہے اگرچہ ائمہ محققین و علمائے محتا طین انھیں کافر نہ کہیں اور یہی صواب ہے، وھو الجواب وبہ یفتی و علیہ الفتوی وھو المذھب وعلیہ الاعتما دوفیہ السلامۃ و فیہ السداد۔ جواب یہی ہے ، اس کے ساتھ فتوٰی دیا جاتاہے اور اسی پر فتوٰی ہے، یہی مذہب اور اسی پر اعتماد ہے، اسی میں سلامتی اور یہی درست ہے ۔ (ت)

 

امام ابن حجر مکی رحمہ اللہ تعالٰی اعلام میں فرماتے ہیں: انہ یصیر مرتد اعلٰی قول جماعۃ و کفٰی بھٰذا خسارا  ۲؎۔ وُہ ایک جماعت علماء کے قول پر مرتد ہو گیا اور اس قدر خسران و زیان میں بس ہیں۔ والعیاذ باللہ خیرا الحافظین  (اور بہتر حفاظت کرنے والے کی پناہ ۔ ت)

 

(۲؎الاعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ     مکتبہ حقیقیہ استنبول ترکی ص ۲ ۶ ۳)

 

پھرجب کہ ائمہ دین ان کے کفر میں مختلف ہو گئے تو راہ یہ ہےکہ اگر اپنا بھلا چاہیں جلد از سرنو کلمہ اسلام پڑھیں اور اپنے مذہب نامہذب کی تکذیب صریح اور اس کے رد و تقبیح کی صاف تصریح کریں ورنہ بطور عادت کلمہ شہادت کافی نہیں کہ یہ تو وہ اب بھی پڑھتے یہں اور اسے اپنے مذہب کا رد نہیں سمجھتے۔

 

بحر الرائق میں بزازیہ و جامع الفصولین سے ہے : لواتی باشہادتین علی وجہ العادۃ لم ینفعہ مالم یرجع عماقال ۔۳؎    اگرمعمول کے مطابق وہ کلمہ شہادت پڑھتے تو اسکو وہ نافع نہیں جب تک وہ اپنے قول سے رجوع نہ کرے (ت)

 

 (۳؎بحرالرائق باب احکام المرتدین   ایچ ایم سعید کمپنی کراچی         ۵/ ۱۲۸)

 

اور جس طرح اس مذہب خبیث کا اعلان کیاہے ویسے ہی توبہ و رجوع کا صاف اعلان کریں کہ توبہ نہاں کی نہاں ہے اورعیاں کی عیاں۔ حضور پر نور سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا عملت سیئۃ فاحد ث عندھا توبۃ السر بالسر والعلا نیۃ بالعلانیۃ ۔ ۱؎ دواہ الامام احمد فی کتاب الزھدوالطبرانی فی المعجم الکبیر بسند حسن علی اصولنا عن معاذ بن جیل رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ جب تو کوئی گناہ کرے تو فورا توبہ کر، پوشیدہ کی پوشیدہ اور ظاہر کی ظاہر۔ ( اسے امام احمد نے کتاب الزہد میں، طبرانی نے المعجم الکبیر مین سند صحیح سے ہمار ے اصولوں کے مطابق حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔(ت)

 

(۱؎ المعجم الکبیر حدیث معاذبن جبل حدیث ۳۳۱    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت         ۲۰ /۱۵۹ ) (الزہد الکبیر     حدیث۹۵۴    دارا لقلم کویت        ص ۳۶۴)

 

اس سب کے بعد اپنی عورتوں سے تجدید نکاح کریں کہ کفر خلافی کا حکم یہی ہے ، علامہ حسن شرنبلالی شرح وہانیہ پھر علامہ علائی شرح تنویر میں فرماتے ہیں:   مایکون کفرا اتفاقایبطل العمل والنکاح واولادہ اولاد زنی وما فیہ خلاف یومر بالاستغفاروالتوبۃ و تجدید النکاح ۲؎۔

 

جو بالاتفاق کفر ہو اس سے اعمال ، نکاح باطل ہوجاتے ہیں تمام اولاد ، اولاد زناقرارپا جاتی ہے اور جس میں اختلاف ہو وہاں استغفار ، توبہ اور تجدید نکاح کروایا جائے گا۔ (ت)

 

 (۲؎درمختار    باب المرتد    مطبع مجتبائی        ۱ /۳۵۹)

 

پس اگر مولٰی سبحانہ و تعالٰی ہدایت فرمائے اور اس کے کرم سے کچھ دُور نہیں، یعنی یہ حضرات اپنے مذہب مردود سے  باز آئیں اورعلانیہ اب العالمین کی طرف توبہ لائیں فاخوانکم فی الدین ۳؎ تمھارے دینی بھائی ہیں،ورنہ اہل سنت پر لازم کہ ان سے الگ ہو جائیں، ان کی صحبت کو آگ سمجھیں، ان کے پیچھے نماز ہر گز نہ پڑھیں اگر نادانستہ پڑھ لی ہو اعادہ کر لیں کہ نماز اعطم عباداتِ ربِّ بے نیازہے اور تقدیم وامامت ایک علٰی اعزاز، اور فاسق مجاہر، واجب التوہین ، نہ کہ بدعتی گمرہ فاسق فی الدّین ، والعیازباللہ ربالعالمین

 

(۳؂ القرآن الکریم  ۳۳/ ۵ )

 

فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے ان مسائل کے قدرے تحقیق و تفصیل اپنے رسالہ النھی الا کید عن الصلٰوۃ وراء عدی التقلید میں ذکر کی۔

 

علامہ ابراہیم حلبی غنیـہ شرح منیہ میں فرماتے ہیں : یکرہ تقدیم الفاسق کراھۃ تحریم وکذا المبتدع ۱؎ اھ ملخصاَ۔

 

 یعنی فاسق و بد مذہب کی امامت مکروہ تحریمی قریب بحرام ہے اھ ملخصا۔

 

 ( ۱؎ غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی    فصل فی الامامۃ     سہیل اکیڈیمی لاہور      ص ۱۴۔ ۵۱۳)

 

جس کے سبب نمازکا پھیرنا واجب ، یہ ہے حکم ، وللہ الحکم والیہ ترجعون oوالحمد للہ رب العٰلمین  (اور اللہ ہی کے لئے حکم ہے اورتم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ اور سب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جو دونوں جہانوں کا پالنے والا ہے۔ ت)

 

التماس ہدایت اساس: میں جانتا ہوں کہ فقیر کے اس رسالے پر حسبِ معمول سخن پروری و بحکم دستور تعصب و خود سری اگر بعض سلیم خاطرین شرمائیں گی، قبول وانصاف کو کام فرمائیں گی، تو بہت عنادی طبیعتیں گر مائیں گی،جبلی نزاکتیں غصہ لائیں گی، جاہلی حمیتں جوش دکھائیں گی، تعصبی حمائتیں ہمت پر آئیں گی، وحسبنا اللہ ونعم  الوکیل، نعم المولٰی ونعم الکفیل  (ہمارے لئے اللہ کافی اور وہ سب سے بڑا کار ساز، سب سے بہتر آقااور سب سے بہتر کفالت فرمانے والا ہے۔ ت)یہ سب کچھ قبول ، کھسینا عاجزوں کا قدیمی معمول ، مگر انمااعظکم بواحدۃ ۲؎(میں تمھیں ایک نصیحت کرتا ہوں۔ت) حق اسلام یادلا کر اتنا مامول کر چند ساعت کے لئے تعصب و نفسا نیت کو راہ بتائیں، مثنٰی و فرادٰی ، تنہا یا دو دو صاحب بیٹھ کر غور فرمائیں اگر کلام خصم حق و صواب ہو تو اللہ ! حق سے کیوں اجتناب ہو ، کیا قرآن نے نہ سنایا کہ تمھارے رب نے کیا فرمایا سیذکر من یخشٰیoو یتجنبہا الا شقی ۳؎o  (عنقریب نصیحت مانے گاجوڈرتا ہے اور اس سے وہ بڑا بد بخت دور رہے گا۔ت) اے میرے پیارے بھائیو! کلمہ اسلام کے ہمراہیو ! اگر نفس امّارہ رہزن عیّارہ اور شیطان لعین اس کا معین ، ولہذا خطا کا اقرار آدمی کو نا گوار ، مگر واللہ ! واذاقیل لہ اتق اللہ اخذتہ العزۃ با لا ثم ۴؎ اورجب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر تو اسے اور ضد چڑھے گناہ کی ۔ ت) کی آفت سخت شدید، الیس منکم رجل رشید ۵؎  (کیا تم میں ایک آدمی بھی نیک چلن نہیں ۔ ت)خدارا ذرا انصاف کو کام فرماؤ، خلق کا کیا پاس خالق سے شرماؤ، کچھ دیکھا بھی کس پر امکانِ کذب کی تہمت دھرتے ہو، کس پاک بے عیب میں عیب آنے کا احتمال کرتے ہو، العظمۃ للہ ! ارے وہ خدا ہے سب خوبیوں والا ہر عیب و نقصان سے پاک نرالا، ذرا تو گربیان میں منہ ڈالو جس نے زبان عطافرمائی اس کے بارے میں تو زبان سنبھالو ، وائے بے انصافی تمھیں کوئی جھُوٹا کہے تو آپے میں نہ رہو اور ملک جبار و احد قہار کا جُھوٹا ہونا یو ممکن کہو، یہ کون سی دیانت ہے، کیا انصاف ہے، اس پر یہ قہر  اصرار  یہ بلا اعتساف ہے،

 

 (۲؎ القر آن الکریم  ۳۴ / ۴۶ )    (۳؎ القرآن الکریم     ۸۷ / ۱۰ و ۱۱)

(۴؎القرآن الکریم    ۲ / ۲۰۶)       (۵؎ القرآن الکریم    ۱۱/ ۷۸)

 

اے طائفہ حائفہ اے قوم مفتون ! مانو تو ایک تدبیر تمھیں بتاؤں ، میرا رسا لہ تنہائی میں بیٹھ کر بغور دیکھو، ان دو سو ۲۰۰ دلائل و اعتراضات کو ایک ایک کرکے انصاف سے پرکھو ، فرض کر دم کہ دہ سو ۲۰۰ میں استحالہ کذبِ الٰہی پر صرف  ایک دلیل اور تمھارے خیال اور تمھارے امام کے ہذیانی اقوال پر فقط ایک ایک اعتراض قاطع ہر قال و قیل باقی رہ گیا، باقی سب تم نے جواب دے لیا، تو جان برادر ! احقاقِ حق کو ایک دلیل کافی، ابطال باطل کوایک اعتراض و افی ، نہ کر دلائل باہرہ اعتراضیا ت قاہرہ صد ہانسو اور ایک نہ گِنو۔ دل میں جانتے جاؤ کہ دلائل باصواب اور اعتراض لاجواب، مگر ماننے کی قسم ' توبہ کی اان بلکہ اُلٹے تائید باطل کی فکر سامان، یہ تو حق پرستی نہ ہُوئی بادبد ستی ،نشہ تعصب میں سیاہ مستی ہوئی، پھر قیامت تو نہ آئے گی،حساب تو نہ ہو گا،خدا کےحضور سوال و جواب تو نہ ہوگا، اے رب میرے ! ہدایت فرما اور ان لجیلی آنکھوں کو کُچھ تو شرما ؎

 

می توانی کہ دہی اشک مراحسن قبول         اے کہ دُر ساختہ قطرہ بارانی را

 

 ( اے اللہ ! تُو میرے آنسو ؤ ں کو حسنِ قبول دے سکتا ہے جیسا کہ تو بارس کے قطرہ کو موتی بنا دیتا ہے ۔ ت)

 

اور یہیں سے ظاہر کہ جو صاحب قصد جواب کی ہمت رکھیں ایک ایک دلیل ایک ایک اعتراض کا تفصیلی جواب سمجھ کر لکھیں، یہ نہ ہو کہ ابقائے مشیخت ، رفع مزامت ، فریب عوام، جواب کے نام کو کہیں، کچھ اعتراج باقی سے اعراض ، یہ کلا خصم کا رَد نہ کرے گا، الٹا تمھیں پر صاعقہ بن کر گرےگا کہ جب حجت خصم مٹا نہ سکے مذہب سے اعتراض ہتا نہ سکے تو نا حق تکلیف خامہ اٹھائی، مصیبت سیاہی نامہ اٹھائی، اپنے ہی عجز کا اظہار کیا، بطلان مذہب کا اقرار کیا، للہ کُچھ دیر تو حق و انصاف کی قدر سمجھو، زنجیر تعصب کی قید سے سلجھو، خار زارتکبرّ میں اتنا نہ اُلجھو، افسوس کہ حق کا چاند جلوہ نما اور تمھارے نصیب کی وہی کا لی گھٹا، ہمارے ہُمایُوں سایہ فگن اور تمھارا تاج وہی بالِ زغن ،اے سچے ّ خدا سچ سے مو صوف جُھوٹ سے نرالے، سچے رسو ل پر سچی کتاب اتارنے والے ! اپنے سچے حبیب کی سچی و جاہت کا صدقہ آمت مصطفٰی کو سچّی ہدایت نصیب فرما،

 

صلی اللہ تعالٰی علی الحبیب وسلم  وعلٰی اٰلہ و صحبہ و شرف کرمہ مانجی الصادق و ھلک الکا ذب و نھی الصدق عن تعاطی الکواذب   قولک الحق و وعدک الصدق ولک الحمد والیک المصیر انک علٰی کل شئی قدیر و صلی اللہ تعالٰی علٰی سیدّ الصادقین محمد و آلہ و صحبہ اجمین اٰمین اٰمین  الہ الحق اٰمین !

 

اے اللہ ! رحمیتں نازل فرما اور آپ کے شرف و بزرگی میں مزید اضافہ فرما جو حبیب ہیں جب تک صادق نجات پاتے رہیں، کاذب ہلاک ہوتے رہیں، جنھوں نے تمام کواذب سے منع فرمایا ، تیرا قول حق تیرا وعدہ سچاّ حمد تیرے لئے ، تمام کا لوٹنا تیر طرف اور تو ہر شیئ پر قادر ہے، اللہ تعالٰی کی رحمت ہو سید الصادقین حضرت محمد ، آپ کی آ ل اور اصحاب سب پر ، آمین آمین الٰہ الحق آمین ! (ت)

 

الحمد للہ کہ یہ مبارک رسالہ موجز عجالہ باوجود کثرت اشغالِ تحریر مسائل و ترتیب رسائل ، تیرہ ۱۳ دن کے متفرق جلسوں میں مسودہ اور تئیس ۲۳ دن میں صاف و مبیضہ ہو کر دوازدہم ماہ مبارک و فاخر شہر ربیع الآخر رو ز ہمایوں جمعہ ۱۳۰۷ھ علٰی صاحبہا الصلٰوۃ والتحیۃ کو بہم وجوہ بدر سمای تمام و شمع بزمِ ہدایت انام ہوا۔

للہ الھمد والمنہ کہ آج اس مبارک رسالے ،سنّت کےقبالے، رنگِ صدق جمانے والے، زنگِ کذب گمانے والے سے علومِ دینیہ میں تصانیفِ فقیر نے ۱۰۰ سُو کا عد کامل پایا ،

 

والحمد للہ وھّاب العطایا، ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم oوالحمد للہ رب العٰلمین والصلاۃ والسلام علٰی سید المرسلین محمد و الہ وصحبہ اجمعین ، سبحٰن ربک رب العزۃ عمّا یصفون ، و سلام علی المرسلین، والحمد للہ رب العٰلمین، تمّت و بالخیر عمّت بعون من قال وقولہ الحق تمت کلمٰت ربک صدقا وعدلا ط لامبدل لکمٰتہ ج وھو السمیع العلیم o الحمد للہ الذی بنعمہ وجلالہ تتم الصالحات ، والصلٰوۃ والسلام علی سیدنا ومولانا محمد سید الکائنات و اٰلہ و صحبہ وامتہ و حزبہ الجمعین ، والحمد للّہ رب العٰلمین۔ تمام حمد اللہ تعالٰی کی ہے جو تمام انعامات کا اعطا کرنیوالا ہے، اے ہمارے رب ! ہماری طرف سے قبول فرما بلا شبہ تُو سننے والا ہے ، تمام حمداللہ کی جو جہانوں کا پرور دگار ہے، صلٰوۃ وسلام نازل ہو تمام رسولوں کے سردار حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر آپ کی آل و اصحاب تمام پر ، سلام علی المرسلین والحمد للہ رب العٰلمن۔رسالہ تام ہوا اور خیر کے ساتھ وسیع ہوا اس ذات کی مدد سے جس نے فرمایا جبکہ اس کا فرمان بر حق ہے '' ترے رب کے کلمات صدق و عدل میں تام ہیں کوئی ان کو تبدیل کرنے والا نہیں وہی سننے جاننے والا ہے ۔'' تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کی جس کی نعمت و جلال سے خوبیا تام ہوتی ہیں اور صلٰوۃ ولام ہمارے آقا مولٰی سید کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل و اصحاب و اُمت اور ان کی سب جماعت پر ، والحمد رب العالمین (ت)

 

کتب عبدہ المذنب احمد رضا البریلوی عفی عنہ بمحمدن المصطفٰی النبی الامی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

 

تحریر جناب مولانا گلام دستگیر علیہ الرحمۃ من ربنا القدیر بر رسالہ مبرکہ '' سُبحٰن السبوح من عیب کذب المقبوح فقیر غلام دستگیر قصوری کان اللہ لہ جمادی الاول ۱۳۰۸ ھ میں بریلی میں وار دہُوا اور اس مبارک رسالہ کے دیکھنے کا اتفاق پڑا، چونکہ مدتِ دراز کے بعد یہاں آنے کا اتفاق ہوا ہے اور ملاقات احباب اور نیز مشورہ امر دینی کے سبب جو وکلاء سے کرنا تھااس قدر کم فرصتی ہُوئی کہ معمولی و ظائف جو کبھی سفر و حضر میں ترک نہیں ہوئے تھے ان چارروز میں وُہ بھی پُورے نہ ہوسکے، اس کشاکش میں اس رسالہ سلالہ کو فقیر بالا ستیعا ب کیا کچھ حصّہ معتد بہا بھی نہ دیکھ سکا مگر ابتدا اور درمیان اور انتہا سے جو دیکھا تو مسئلہ امکان کذب باری تعالٰی کا رَد پایا اور اس کا آنکھوں سے لگایا الحمد للہ حمداکثیراکہ اس کے مولف علامہ فہامہ نے جو ایک علم اور فضل کے خاندان سے عمدۃ الخلف و بقیۃ السلف ہیں اس بارے میں بھی اپنے عزیز واقارب کو جو ہمیشہ کارِ خبر اشاعت علوم دینیہ میں مصروف ہیں صرف فرمایا

 

جزاہ اللہ الشکور عنی وعن جمیع المسلمین خبر الجزا ء واوصلہ الی غایۃ ما یحب و یر ضی، اللھم تقبل مّنا انّک انت السمیع العلیم ، وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ و مظھر لطفہ و احسانہ سیدنا محمد و عترتہ اجمعین اللھم ارحمنا معھم برحمتک یا ارحم الراحمین !

 

۱۵ جمادی الاول روز روانگی وطن پر چند حروف لکھے گئے وللہ ھو المسیر للصعاب۔

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post