Zaeef Hadeeson ke Ehkam | Risala Al Haad Al Kaaf Urdu

افادہ شانزدہم ۱۶: (حدیث سے ثبوت ہونے میں مطالب تین قسم ہیں)جن باتوں کا ثبوت حدیث سے پایا جائے وہ سب ایک پلّہ کی نہیں ہوتیں بعض تو اس اعلٰی درجہ قوت پر ہوتی ہیں کہ جب تک حدیث مشہور، متواتر نہ ہو اُس کا ثبوت نہیں دے سکتے احاد اگرچہ کیسے ہی قوت سند ونہایت صحت پر ہوں اُن کے معاملہ میں کام نہیں دیتیں۔(عقائد میں حدیث احاد اگرچہ صحیح ہو کافی نہیں)یہ اصول عقائد اسلامیہ ہیں جن میں خاص یقین درکار، علّامہ تفتازانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح عقائد نسفی میں فرماتے ہیں:خبر الواحد علی تقدیر اشتمالہ علٰی جمیع الشرائط المذکورۃ فی اصول الفقہ لایفید الا الظن ولاعبرۃ بالظن فی باب الاعتقادات ۲؎۔حدیث احاد اگرچہ تمام شرائط صحت کی جامع ہو ظن ہی کا فائدہ دیتی ہے اور معاملہ اعتقادمیں ظنیات کاکچھ اعتبار نہیں۔

 

 (۲؎ شرح عقائد نسفی    بحث تعداد الانبیاء    مطبوعہ دارالاشاعت العربیۃ قندھار    ص۱۰۱)

 

مولاناعلی قاری منح الروض الازہر میں فرماتے ہیں: الاحاد لاتفید الاعتماد فی الاعتقاد۱؎ (احادیث احاد دربارہ اعتقاد ناقابلِ اعتماد)۔

 

 (۱؎منح الروض الازہرشرح فقہ اکبر    الانبیاء منزھون عن الکباروالصغائر    مصطفی البابی مصر    ص۵۷)

 

 (دربارہ احکام ضعیف کافی نہیں) دوسرا درجہ احکام کا ہے کہ اُن کے لئے اگرچہ اُتنی قوت درکار نہیں پھر بھی حدیث کا صحیح لذاتہ خواہ لغیرہ یا حسن لذاتہ یا کم سے کم لغیرہ ہونا چاہئے، جمہور علماء یہاں ضعیف حدیث نہیں سنتے۔

 

 (فضائل ومناقب میں باتفاق علماء حدیثِ ضعیف مقبول وکافی ہے) تیسرا مرتبہ فضائل ومناقب کا ہے یہاں باتفاقِ (عـہ۱) علماء ضعیف (عـہ۲)حدیث بھی کافی ہے،مثلاً کسی حدیث میں ایک عمل کی ترغیب آئی کہ جو ایسا کرے گااتنا ثواب پائے گایاکسی نبی یاصحابی کی خُوبی بیان ہوئی کہ اُنہیں اللہ عزوجل نے یہ مرتبہ بخشا،یہ فضل عطا کیا، تو ان کے مان لینے کوضعیف حدیث بھی بہت ہے،ایسی جگہ صحت حدیث میں کام کرکے اسے پایہ قبول سے ساقط کرنا فرق مراتب نہ جاننے سے ناشیئ،جیسے بعض جاہل بول اُٹھے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں،یہ اُن کی نادانی ہے علمائے محدثین اپنی اصطلاح پر کلام فرماتے ہیں، یہ بے سمجھے خدا جانے کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں، عزیز ومسلم کہ صحت نہیں پھر حسن کیا کم ہے، حسن بھی نہ سہی یہاں ضعیف بھی مستحکم ہے، (عـہ۳) رسالہ قاری ومرقاۃ وشرح ابنِ حجر مکی وتعقبات ولآلی امام سیوطی وقول مسدّد امام عسقلانی کی پانچ عبارتیں افادہ دوم وسوم وچہارم ودہم میں گزریں،عبارتِ تعقبات میں تصریح تھی کہ نہ صرف ضعیف محض بلکہ منکر بھی فضائلِ اعمال میں مقبول ہے،بآنکہ اُس میں ضعف راوی کے ساتھ اپنے سے اوثق کی مخالفت بھی ہوتی ہے کہ تنہا ضعف سے کہیں بدتر ہے،

 

عـہ۱:ای ولاعبرۃ بمن شذ ۱۲منہ (یعنی کسی شاذ شخص کااعتبار نہیں ۔ت)

عـہ۲: الاجماع المذکور فی الضعیف المطلق کمانحن فیہ ۱۲منہ

عـہ۳:مسئلہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تحقیق وتنقیح فقیر کے رسالہ البشری العاجلہ من تحف اجلہ ورسالہ الاحادیث الراویہ لمدح الامیر المعاویہ ورسالہ عرش الاعزاز والاکرام لاول ملوک الاسلام ورسالہ ذب الاھواء الواہیہ فی باب الامیرمعاویہ وغیرھامیں ہے وفقنااللہ تعالی بمنہ وکرمہ لترصیفھاوتبیینھاونفع بھاوبسائر تصانیفی امۃ الاسلام بفھمھا و بتفہیمھا امین باعظم القدرۃ واسع الرحمۃ امین صلی اللہ تعالی وبارک وسلم علی سیدنامحمدوالہ وصحبہ وسلم ۱۲منہ رضی اللہ تعالی عنہ (م)

 

امام اجل شیخ العلماء والعرفاء سیدی ابوطالب محمد بن علی مکی قدس اللہ سرہ الملکی کتاب جلیل القدر عظیم الفخر قوت القلوب (عـہ۴) فی معاملۃ المحبوب میں فرماتے ہیں:الاحادیث فی فضائل الاعمال وتفضیل الاصحاب متقبلۃ محتملۃ علی کل حال مقاطیعھا ومراسیلھا لاتعارض ولاترد، کذلک کان السلف یفعلون ۱؎۔

 

 (۱؎ قوت القلوب فی معاملۃ المحبوب   فصل الحادی والعشرون  مطبوعہ دارصادر مصر    ۱/۱۷۸)

 

فضائل اعمال وتفضیلِ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی حدیثیں کیسی ہی ہوں ہر حال میں مقبول وماخوذ ہیں مقطوع ہوں خواہ مرسل نہ اُن کی مخالفت کی جائے نہ اُنہیں رَد کریں، ائمہ سلف کا یہی طریقہ تھا۔

 

 

امام ابوزکریا نووی اربعین پھر امام ابن حجر مکی شرح مشکوٰۃ پھر مولانا علی قاری مرقاۃ (عـہ۱) وحرز (عـہ۲)ثمین شرح حصن حصین میں فرماتے ہیں:

 

قداتفق الحفاظ ولفظ الاربعین قداتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال ۲؎ ولفظ الحرز لجواز العمل بہ فی فضائل الاعمال بالاتفاق ۳؎۔یعنی بیشک حفاظِ حدیث وعلمائے دین کا اتفاق ہے کہ فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے۔ (ملخصاً)

 

 (عـہ۱) تحت حدیث من حفظ علی امتی اربعین حدیثا قال النووی طرقہ کلھا ضعیفہ ۱۲ منہ (م)

(عـہ۲) فی شرح الخطبۃ تحت قول المصنّف رحمہ اللّٰہ تعالٰی اتی ارجوان یکون جمیع مافیہ صحیحاً ۱۲ منہ (م)

 

 (۲؎ شرح اربعین للنووی        خطبۃ الکتاب       مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ص ۴)

(۳؎ حرز ثمین شرح مع حصن حصین    شرح خطبہ کتاب    نولکشور لکھنؤ        ص۲۳)

 

فتح المبین بشرح (عـہ۳) الاربعین میں ہے: لانہ ان کان صحیحا فی نفس الامرفقد اعطی حقہ من العمل بہ، والالم یترتب علی العمل بہ مفسدۃ تحلیل ولاتحریم ولاضیاع حق للغیر وفی حدیث ضعیف من بلغہ عنی ثواب عمل فعملہ حصل لہ اجرہ وان لم اکن قلتہ اوکماقال واشار المصنّف رحمہ اللّٰہ تعالٰی بحکایۃ الاجماع علٰی ماذکرہ الی الرد علی من نازع فیہ ۱؎ الخ

 

یعنی حدیث ضعیف پر فضائل اعمال میں اس لئے ٹھیک ہے کہ اگر واقع میں صحیح ہُوئی جب تو جو اس کا حق تھا کہ اس پر عمل کیا جائے حق ادا ہوگیا اور اگر صحیح نہ بھی ہوتو اس پر عمل کرنے میں کسی تحلیل یا تحریم یا کسی کی حق تلفی کا مفسدہ تو نہیں اور ایک حدیث ضعیف میں آیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جسے مجھ سے کسی عمل پر ثواب کی خبر پہنچی وہ اس پر عمل کرلے اُس کا اجر اُسے حاصل ہو اگرچہ وہ بات واقع میں مَیں نے نہ فرمائی ہو۔ لفظ حدیث کے یونہی ہیں یاجس طرح حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم نے فرمائے، امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی نے اس پر نقل اجماع علماسے اشارہ فرمایا جو اس میں نزاع کرے اُس کا قول مردود ہے۔ الخ

 

عـہ۳:فی شرح الخطبۃ ۱۲منہ ر ضی اللہ تعالی عنہ (م)

 

 (۱؎ فتح المبین شرح الاربعین)

 

مقاصد حسنہ (عـہ۱) میں ہے: قدقال ابن عبدالبر البرانھم یتساھلون فی الحدیث اذاکان من فضائل الاعمال ۲؎۔بے شک ابو عمر ابن عبدالبر نے کہا کہ علماء حدیث میں تساہل فرماتے ہیں جب فضائل اعمال کے بارہ میں ہو۔

 

عـہ۱: ذکرہ فی مسألۃ تقدیم الاورع ۱۲ منہ (م)     صاحبِ ورع وتقوٰی کی تقدیم میں اس کا بیان ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ المقاصد الحسنۃ     زیر حدیث من بلغہ عن اللّٰہ الخ     مطبوعہ درالکتب العلمیۃ بیروت    ص ۴۰۵)

 

امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر میں فرماتے ہیں : الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل الاعمال ۳؎۔یعنی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے گا بس اتنا چاہئے کہ موضوع نہ ہو۔

 

 (۳؎ فتح القدیر    باب الامامۃ    نوریہ رضویہ سکھّر        ۱/۳۰۳)

 

مقدمہ امام ابوعمرو ابن الصلاح ومقدمہ جرجانیہ وشرح الالفیۃ للمصنّف وتقریب النواوی اور اس کی شرح تدریب الراوی میں ہے :واللفظ لھما یجوز عنداھل الحدیث وغیرھم التساھل فی الاسانید الضعیفۃوروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیربیان ضعفہ فی فضائل الاعمال غیرھما ممالاتعلق لہ بالعقائد والاحکام وممن نقل عنہ ذلک ابن حنبل وابن مھدی وابن المبارک قالوا اذاروینافی الحلال والحرام شددنا واذاروینا فی الفضائل ونحوھا تساھلنا ۱؎ اھ ملخصا۔

 

محدثین وغیرہم علما کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل اور بے اظہار ضعف موضوع کے سوا ہر قسم حدیث کی روایت اور اُس پر عمل فضائلِ اعمال وغیرہا امور میں جائز ہے جنہیں عقائد واحکام سے تعلق نہیں، امام احمد بن حنبل وامام عبدالرحمن بن مہدی وامام عبداللہ بن مبارک وغیرہم ائمہ سے اس کی تصریح منقول ہے وہ فرماتے جب ہم حلال وحرام میں حدیث روایت کریں سختی کرتے ہیں اور جب فضائل میں روایت کریں تو نرمی اھ ملخصا۔

 

 (۱؎ تدریب الراوی    قبیل نوع الثالث والعشرون    مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/۲۹۸)

 

امام زین الدین عراقی نے الفیۃ الحدیث میں جہاں اس مسئلہ کی نسبت فرمایا عن ابن مھدی وغیر واحد (یعنی امام ابن مہدی وغیرہ ائمہ سے ایسا ہی منقول ہے) وہاں شارح نے فتح المغیث میں امام احمد وامام ابن معین وامام ابن المبارک وامام سفین ثوری وامام ابن عیینہ وامام ابوزکریاعنبری وحاکم وابن عبدالبر کے اسماء واقوال نقل کیے اور فرمایاکہ ابن عدی نے کامل اور خطیب نے کفایہ میں اس کے لئے ایک مستقل باب وضع کیا۔ غرض مسئلہ مشہورہے اور نصوص نامحصور اور بعض دیگر عبارات جلیلہ وافادات آئندہ میں مسطور ان شاء اللہ العزیز الغفور۔

 

تذییل: کبرائے وہابیہ بھی اس مسئلہ میں اہلِ حق سے موافق ہیں، مولوی خرم علی رسالہ (عـہ۱) دعائیہ میں لکھتے ہیں:ضعاف درفضائلِ اعمال وفیما نحن فیہ باتفاق علما معمول بہااست ۲؎ الخفضائل اعمال میں اور جس میں ہم گفتگو کررہے ہیں اس میں باتفاق علماء ضعیف حدیثوں پر عمل درست ہے الخ (ت)

 

عـہ۱:  نقل ھذہ العبارات الثلثۃ محقق اعصارنا وزینۃ امصارنا تاج الفحول محب الرسول مولانا المولوی عبدالقادر البدایونی ادام اللّٰہ تعالی فیوضہ فی کتابہ سیف الاسلام المسلول علی المناع بعمل المولد والقیام ۱۲ منہ (م)

یہ تینوں عبارات ہمارے دور کے عظیم محقق اور ہمارے ملک کی زینت تاج الفحول محب الرسول مولانا مولوی عبدالقادر بدیوانی ادام اللہ فیوضہ نے اپنی کتاب ''سیف الاسلام المسلول علی المناع بعمل المولد والقیام'' میں ذکر کی ہیں ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ رسالہ دعائیہ مولوی خرم علی)

 

مظاہر حق میں راوی حدیث صلاۃ اوّابین کا منکر الحدیث ہونا امام بخاری سے نقل کرکے لکھا: ''اس حدیث کو اگرچہ ترمذی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے لیکن فضائل میں عمل کرنا حدیث ضعیف پر جائزہے ۳؎'' الخ

 

 (۳؎ مظاہر حق    باب السنن وفضائلھا    مطبوعہ دارالاشاعت کراچی        ۱/۷۶۶)

 

اُسی میں حدیث فضیلتِ شبِ برات کی تضعیف امام بخاری سے نقل کرکے کہا: ''یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن عمل کرنا حدیثِ ضعیف پر فضائلِ اعمال میں باتفاق جائز ہے ۴؎ الخ''

 

 (۴؎ مظاہر حق اردو ترجمہ مشکوٰۃ شریف    باب قیام شہر رمضان    مطبوعہ دارالاشاعت کراچی    ۱/۸۴۳)

 

افادہ ہفدہم ۱۷:فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے حدیث ضعیف ثبوت استحباب کے لئے بس ہے۔ امام شیخ الاسلام ابوزکریا نفعنا اللہ تعالٰی ببرکاتہ کتاب (عـہ۲) الاذکار المنتخب من کلام سید الابرارصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 

قال العلماء من المحدثین والفقھاء وغیرھم یجوز ویستحب العمل فی الفضائل والترغیب والترھیب بالحدیث الضعیف مالم یکن موضوعا ۱؎۔

 

محدثین وفقہا وغیرہم علما نے فرمایا کہ فضائل اور نیک بات کی ترغیب اور بُری بات سے خوف دلانے میں حدیث ضعیف پر عمل جائز ومستحب ہے جبکہ موضوع نہ ہو۔

 

عـہ۲: اول الکتاب ثالث فصول المقدمۃ ۲۱ منہ (م)  یہ کتاب کے شروع میں مقدمہ کی تیسری فصل میں ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 ( ۱؎ کتاب الاذکار المنتخب من کلام سید الابرار صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم     فصل قال العلماء من المحدثین     مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت    ص ۷)

 

بعینہا یہی الفاظ امام ابن الہائم نے العقد النضید فی تحقیق کلمۃ التوحید پھر عارف باللہ سیدی عبدالغنی نابلسی نے حدیقہ ندیہ(عـہ۱) شرح طریقہ محمدیہ میں نقل فرمائے، امام فقیہ النفس محقق علی الاطلاق فتح القدیر (عـہ۲) میں فرماتے ہیں :الاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع ۲؎ (حدیث ضعیف سے کہ موضوع نہ ہو فعل کا مستحب ہونا ثابت ہوجاتا ہے)

 

(۲؎ فتح القدیر  فصل فی الصلاۃ علی المیت  مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۲/ ۹۵)

 

عـہ۱:  اواخر الفصل الثانی من باب الاول ۱۲ منہ (م)   باب اول کی فصل ثانی کے آخر میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

عـہ۲:  قبیل فصل فی حمل الجنازۃ ۱۲ منہ (م)  فصل فی حمل الجنازہ سے تھوڑا پہلے اس کو بیان کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

علامہ(۳۵) ابراہیم حلبی غنیۃالمستملی  (عہ۳)  فی شرح منیۃ المصلی میں فرماتے ہیں : (یستحب ان یمسح بدنہ بمندیل بعدالغسل) لماروت عائشۃ رضی اللّٰہ تعالی عنھا قالت کان للنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم خرقۃ یتنشف بھا بعدالوضوء رواہ الترمذی وھو ضعیف ولکن یجوز العمل بالضعیف فی الفضائل ۳؎۔ (نہاکر رومال سے بدن پُونچھنا مستحب ہے جیسا کہ ترمذی نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی کہ حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وضو کے بعد رومال سے اعضاءِ مبارک صاف فرماتے۔ ترمذی نے روایت کیا یہ حدیث ضعیف ہے مگر فضائل میں ضعیف پر عمل روا۔

 

عہ ۳ : فی سنن الغسل ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)     سنن غسل میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

(۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی سنن الغسل    سہیل اکیدمی لاہور    ص۵۲)

 

مولانا(۳۶) علی قاری موضوعاتِ کبیر میں حدیث مسح گردن کا ضعف بیان کرکے فرماتے ہیں:الضعیف یعمل بہ فی الفضائل الاعمال اتفاقاولذا قال ائمتنا ان مسح الرقبۃ مستحب اوسنۃ ۱؎۔فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر بالاتفاق عمل کیا جاتا ہے اسی لئے ہمارے ائمہ کرام نے فرمایا کہ وضو میں گردن کا مسح مستحب یا سنّت ہے۔

 

 (۱؎ موضوعات کبیر    حدیث مسح الرقبۃ    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ص ۶۳)

 

امام جلیل(۳۷) سیوطی طلوع(عہ۱)  الثریا باظہار ماکان خفیا میں فرماتے ہیں:استحبہ ابن الصلاح وتبعہ النووی نظر الی ان الحدیث الضعیف یتسامح بہ فی فضائل الاعمال ۲؎۔تلقین کو امام ابن الصلاح پھر امام نووی نے اس نظر سے مستحب مانا کہ فضائل اعمال میں حدیث ضعیف کے ساتھ نرمی کی جاتی ہے۔         عہ۱ : نقلہ بعض العصریین وھو فیما نری ثقۃ فی النقل ۱۲ منہ (م)

 

 (۲؎ الحاوی للفتاوٰی خفیا      دارالفکر بیروت    ۲/ ۱۹۱)

 

علامہ(۳۸) محقق جلال دوانی رحمہ اللہ تعالٰی انموذج العلوم (عہ۲) میں فرماتے ہیں: الذی یصلح للتعویل علیہ ان یقال اذاوجد حدیث فی فضیلۃ عمل من الاعمال لایحتمل الحرمۃ والکراھیۃ یجوز العمل بہ ویستحب لانہ مامون الخطر ومرجو النفع ۳؎۔

 

 (۳؎ نسیم الریاض شرح شفا    دیباجہ    مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان    ۱/ ۴۳)

 

اعتماد کے قابل یہ بات ہے کہ جب کسی عمل کی فضیلت میں کوئی حدیث پائی جائے اور وہ حرمت وکراہت کے قابل نہ ہوتو اُس حدیث پر عمل جائز ومستحب ہے کہ اندیشہ سے امان ہے اور نفع کی اُمید۔

اندیشہ سے امان یوں کہ حُرمت وکراہت کا محل نہیں اور نفع کی اُمید یوں کہ فضیلت میں حدیث مروی ہے اگرچہ ضعیف ہی سہی۔

 

حلیہ(۳۹) شرح(عہ۱) منیہ میں فرماتے ہیں :  الجمھور علی العمل بالحدیث الضعیف الذی لیس بموضوع فی فضائل الاعمال فھو فی ابقاء الاباحۃ التی لم یتم دلیل علی انتقائھا کمافیما نحن فیہ اجدر  ۱؎۔

 

جمہور علماء کا مسلک فضائل اعمال میں حدیث ضعیف غیر موضوع پر عمل کرنا ہے تو ایسی حدیث اُس اباحت فعل کے باقی رکھنے کی تو زیادہ سزا وار ہے جس کی نفی پر دلیل تمام نہ ہوئی جیسا کہ ہمارے اس مسئلہ میں ہے۔

 

عہ ۱: سنن الغسل مسئلۃ المندیل ۱۲ نہ (م)     سنن غسل میں رومال کے مسئلہ میں اسی کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

امام(۴۰) ابوطالب مکی قوت القلوب عہ۲ میں فرماتے ہیں : الحدیث اذالم ینافہ کتاب اوسنۃ وان لم یشھد الہ ان لم یخرج تاویلہ عن اجماع الامۃ، فانہ یوجب القبول والعمل لقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کیف وقد قیل ۲؎۔

 

حدیث جبکہ قرآن عظیم یا کسی حدیث ثابت کے منافی نہ ہو اگرچہ کتاب وسنت میں اس کی کوئی شہادت بھی نہ نکلے، تو بشرطیکہ اُس کے معنی مخالفِ اجماع نہ پڑتے ہوں اپنے قبول اور اپنے اوپر عمل کو واجب کرتی ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کیونکر نہ مانے گا حالانکہ کہا توگیا۔

 

عہ۲ : فی الفصل الحادی والثلثین ۱۲ منہ (م)          اکتیسویں فصل میں اس کو بیان کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۲؎ قوت القلوب    الفصل الحادی والثلاثون     باب تفصیل الاخبار    مطبوعہ المطبعۃ المبنیۃ مصر    ۱/ ۱۷۷)

 

یعنی جب ایک راوی جس کا کذب یقینی نہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ایک بات کی خبر دیتا ہے اور اُس امر میں کتاب وسنّت واجماعِ اُمت کی کچھ مخالف نہیں تو نہ ماننے کی وجہ کیا ہے،

 

اقول اماقولہ قدس سرہ ''یوجب'' فکانہ یرید التاکد کماتقول لبعض اصحابک حقک واجب علی فقال فی الدرالمختار عہ۱ لان المسلمین توارثوہ فوجب اتباعھم ۱؎ اوان ملمحہ الٰی ماعلیہ السادات المجاھدون من الائمۃ والصوفیۃ قدسنا اللّٰہ تعالٰی باسرارھم الصفیۃ من شدۃ تعاھدھم للمستحبات کانھا من الواجبات وتوقیھم عن المکروھات بل وکثیر من المباحات کانھن من المحرمات اوان ھذا ھو الذھب عندہ فانہ قدس سرہما فیما نری من المجتھدین وحق لہ ان یکون منھم کماھو شان جمیع الواصلین الٰی عین الشریعۃ الکبری وان انتسوا ظاھرا الٰی احد من ائمۃ الفتوی ۲؎ کمابینہ عہ۲ العارف باللّٰہ سیدی عبدالوھاب شعرانی فی المیزان واللّٰہ تعالٰی اعلم بمراد اھل العرفان۔اقول امام ابوطالب مکی قدس سرہ، کے قول ''یوجب القبول'' سے تاکید مراد ہے جیسا کہ تُو اپنے قرض خواہ سے کہے کہ تیرا حق مجھ پر واجب ہے۔ درمختار میں ہے کہ یہ مسلمانوں کا تعامل ہے پس ان کی اتباع واجب ہے (وجوب بمعنی ثبوت ہے) یا اس میں اس مسلک کی طرف اشارہ ہے جو مجاہدہ کرنے والے سادات ائمہ وصوفیہ (اللہ تعالٰی ان کے پاکیزہ اسرار کو ہمارے لےے مبارک کرے) کا ہے کہ وہ مستحبات کی بھی اس طرح پابندی کرتے ہیں جیسا کہ واجبات کی اور مکروہات سے بلکہ بہت سے مباحات سے اس طرح بچتے ہیں کہ گویا وہ محرمات ہیں یا یہ ان (ابوطالب مکی) کا مذہب ہے کیونکہ ہم آپ قدس سرہ، کو مجتہدین میں شمار کرتے ہیں ان میں ہونا آپ کا حق ہے جیسا کہ ان تمام بزرگوں کا مقام اور شان ہے جو شریعت عظیمہ کی حقیقت کو پانے والے ہیں اگرچہ وہ ظاہراً اپنا انتساب کسی امام فتوی کی طرف کرتے ہیں۔ اس مسئلہ میں عارف باللہ سیدی عبدالوہاب شعرانی نے میزان میں تفصیلی گفتگو کی ہے اور اللہ تعالٰی اہلِ معرفت کی مراد کو زیادہ بہتر بہتر جانتا ہے۔ (ت)

 

عہ۱ : آخر باب العیدین ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)           باب العیدین کے آخر میں اس کا ذکر ہے (ت)

عہ۲ : فی فصل فان قال قائل فھل یجب عندکم علی المقلد الخ وفی فصل ان قال قائل کیف الوصول الی الاطلاع علی عین الشریعۃ المطھرۃ الخ وفی غیرھما ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

 

 (۱؎ درمختار        باب العیدین            مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱ /۱۱۷)

(۲؎ المیزان الکبرٰی    فصل ان قال قائل کیف الوصول الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۲۲)

 

افادہ ہیجدہم۱۸ :(خود احادیث حکم فرماتی ہیں کہ ایسی جگہ حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے) جان برادر اگر چشم بینا اور گوش شنوا ہے تو تصریحاتِ علما درکنار خود حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے احادیث کثیرہ ارشاد فرماتی آئیں کہ ایسی جگہ حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے اور تحقیق صحت وجودت سند میں تعمق وتدقق راہ نہ پائے ولکن الوھابیۃ قوم یعتدون۔ بگوشِ ہوش سُنیے اور الفاظِ احادیث پر غور کرتے جائیے، حسن بن عرفہ اپنے جزوحدیثی اور ابو الشیخ مکارم الاخلاقی میں سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما اور دارقطنی اور موہبی کتاب فضل العلم میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما اور کامل جحدری اپنے نسخہ میں اور عبداللہ بن محمد بغوی اُن کے طریق سے اور ابن حبان اور ابوعمر بن عبدالبرکات کتاب العلم اور ابواحمد ابن عدی کامل میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین فرماتے ہیں:من بلغہ عن اللّٰہ عزوجل شیئ فیہ فضیلۃ فاخذ بہ ایمانابہ ورجاء ثوابہ اعطاہ اللّٰہ تعالٰی ذلک وان لم یکن کذلک ۱؎۔جسے اللہ تبارک وتعالٰی سے کسی بات میں کچھ فضیلت کی خبر پہنچے وہ اپنے یقین اور اُس کے ثواب کی اُمید سے اُس بات پر عمل کرے اللہ تعالٰی اُسے وہ فضیلت عطا فرمائے اگرچہ خبر ٹھیک نہ ہو۔

 

 (۱؎ کنزالعمال بحوالہ حسن بن عرفہ فی جزء حدیثی حدیث ۴۳۱۳۲    مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۵ /۷۹۱)

 

یہ لفظ حسن کے ہیں، اور دارقطنی کی حدیث میں یوں ہے :اعطاہ اللّٰہ ذلک الثواب وان لم یکن مابلغہ حقا ۲؎۔اللہ تعالٰی اسے وہ ثواب عطا کرے گا اگرچہ جو حدیث اسے پہنچی حق نہ ہو۔

 

 (۲؎ کتاب الموضوعات    باب من بلغہ ثواب عمل فعمل بہ    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۳/ ۱۵۳)

 

ابنِ حبان کی حدیث میں یہ لفظ ہیں :کان منی اولم یکن ۳؎ (چاہے وہ حدیث مجھ سے ہو یا نہ ہو)

ابنِ عبداللہ کے لفظ یوں ہیں :وان کان الذی حدثہ کاذبا ۴؎ (اگرچہ اس حدیث کا راوی جھُوٹا ہو)

 

 (۳؎ مکارم الاخلاق لابی الشیخ)

 

امام احمد وابنِ ماجہ وعقیلی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ماجاء کم عنی من خیر قلتہ اولم اقلہ فانی اقولہ وماجاء کم عنی من شرفانی لا اقول الشر  ۱؎۔تمہیں جس بھلائی کی مجھ سے خبر پہنچے خواہ وہ میں نے فرمائی ہو یا نہ فرمائی ہو میں اسے فرماتا ہُوں اور جس بُری بات کی خبر پہنچے تو میں بُری بات نہیں فرماتا۔

 

 (۱؎ مسند امام احمد بن حنبل    مرویاتِ ابی ہریرہ   مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۲ /۳۶۷)

 

ابنِ ماجہ کے لفظ یہ ہیں :ماقیل من قول حسن فانا قلتہ ۲؎۔جو نیک بات میری طرف سے پہنچائی جائے وہ میں نے فرمائی ہے۔

 

 (۲؎ سنن ابن ماجہ  باب تعظیم حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الخ مطبوعہ مجتبائی لاہورص۴)

 

عقیلی کی روایت یوں ہے : خذوابہ حدثت بہ اولم احدث بہ ۳؎۔ وفی الباب عن ثوبان مولٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وعن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم۔اُس پر عمل کرو چاہے وہ میں نے فرمائی ہو یا نہیں۔ (اس بارے میں حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم  سے بھی روایت ہے۔ ت)

 

 (۳؎ کنزالعمال     بحوالہ عق الاکمال من روایۃ الحدیث، حدیث ۲۹۲۱۰ مطبوعہ موسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۰/ ۲۲۹)

 

خلعی اپنے فوائد میں حمزہ بن عبدالمجید رحمہ اللہ تعالٰی سے راوی: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی النوم فی البحر فقلت بابی انت وامّی یارسول اللّٰہ انہ قدبلغنا عنک انک قلت من سمع حدیثا فیہ ثواب فعمل بذلک الحدیث رجاء ذٰلک الثواب اعطاہ اللّٰہ ذلک الثواب وان کان الحدیث باطلا فقال ای ورب ھذہ البلدۃ انہ لمنی و اناقلتہ ۱؎۔میں نے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خواب میں حطیم کعبہ معظمہ میں دیکھا عرض کی یارسول اللہ میرے ماں باپ حضور پر قربان ہمیں حضور سے حدیث پہنچی ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا ہے جو شخص کوئی حدیث ایسی سُنے جس میں کسی ثواب کا ذکر ہو وہ اُس حدیث پر باُمید ثواب عمل کرے اللہ عزوجل اسے وہ ثواب عطا فرمائے گا اگرچہ حدیث باطل ہو۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہاں قسم اس شہر کے سب کی بے شک یہ حدیث مجھ سے ہے اور میں نے فرمائی ہے، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

 (۱؎ فوائد للخلعی)

 

ابویعلی اور طبرانی معجم اوسط میں سیدنا ابی حمزہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :من بلغہ عن اللّٰہ تعالٰی فضیلۃ فلم یصدق بھالم یتلھا ۲؎۔جسے اللہ تعالٰی سے کسی فضیلت کی خبر پہنچے وہ اسے نہ مانے اُس فضل سے محروم رہے۔

 

 (۲؎ مسند ابویعلی  انس بن مالک  حدیث ۳۴۳۰    مطبوعہ دارالقبلہ للثقافۃ الاسلامیہ جدہ سعودی عرب   ۳/۳۸۷)

 

ابوعمر ابن عبدالبر نے حدیث مذکور روایت کرکے فرمایا:اھل الحدیث بجماعتھم یتساھلون فی الفضائل فیردونھا عن کل وانما یتشددون فی احادیث الاحکام ۳؎۔تمام علمائے محدثین احادیث فضائل میں نرمی فرماتے ہیں اُنہیں ہر شخص سے روایت کرلیتے ہیں، ہاں احادیث احکام میں سختی کرتے ہیں۔

 

(۳؎ کتاب العلم     لابن عبدالبر    )

ان احادیث سے صاف ظاہر ہوا کہ جسے اس قسم کی خبر پہنچی کہ جو ایسا کرے گا یہ فائدہ پائے گا اُسے چاہتے نیک نیتی سے اس پر عمل کرلے اور تحقیق صحتِ حدیث ونظافتِ سند کے پیچھے نہ پڑے وہ ان شاء اللہ اپنے حسن نیت سے اس نفع کو پہنچ ہی جائیگا اقول یعنی جب تک اُس حدیث کا بطلان ظاہر نہ ہوکہ بعد ثبوت بطلان رجاء وامید کے کوئی معنے نہیں۔فقول الحدیث وان لم یکن مابلغہ حقا ونحوہ انما یعنی بہ فی نفس الامر لابعد العلم بہ وھذا واضح جدا فتثبت ولاتزل۔تو حدیث کے یہ الفاظ ''اگرچہ جو حدیث اسے پہنچی وہ حق نہ ہو'' یا اس کی مثل دوسرے الفاظ ''اس سے مراد نفس الامر ہے نہ کہ بعد ازحصول علم''۔ اور یہ بہت ہی واضح ہے اسے یاد رکھو۔ (ت)

اور وجہ اس عطائے فضل کی نہایت ظاہر کہ حضرت حق عزوجل اپنے بندہ کے ساتھ اُس کے گمان پر معاملہ فرماتا ہے، حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے رب عزوجل وعلا سے روایت فرماتے ہیں کہ مولٰی سبحانہ، وتعالٰی فرماتا ہے کہاناعند ظن عبدی ۴؎ بی(میں اپنے بندہ کے ساتھ وہ کرتا ہوں جو بندہ مجھ سے گمان رکھتا ہے) (رواہ البخاری ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ والحاکم بمعناہ عن انس بن مالک (اسے بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، اور حاکم نے حضرت انس بن مالک سے معناً اسے روایت کیا۔ ت)

 

 (۴؎ الصحیح لمسلم  کتاب التوبہ  مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۳۵۴)

 

دوسری حدیث میں یہ ارشاد زائد ہے:''فلیظن بی ماشاء ۱؎'' (اب جیسا چاہے مجھ پر گمان کرے) اخرجہ الطبرانی فی الکبیر والحاکم عن واثلۃ بن الاسقع رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بسند صحیح (اسے طبرانی نے معجم کبیر میں اور حاکم نے حضرت واثلہ بن اسقع سے بسندِ صحیح روایت کیا ہے۔ ت)

 

 (۱؎ المستدرک علی الصحیحین للحاکم    کتاب التوبۃ والانابۃ    مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان    ۴ /۲۴۰)

 

تیسری حدیث میں یوں زیادت ہے:''ان ظن خیر افلہ وان ظن شرافلہ ۲؎'' (اگر بھلا گمان کرے گا تو اس کے لئے بھلائی ہے اور بُرا گمان کرے گا تو اس کے لئے بُرائی)رواہ الامام احمد عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بسند حسن علی الصحیح ونحوہ الطبرانی فی الاوسط وانونعیم فی الحلیۃ عن واثلۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (اسے امام احمد نے سند حسن سے صحیح قول پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور اس کی مثل طبرانی نے اوسط اور ابونعیم نے حلیہ میں حضرت واثلہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ ت)

 

 (۲؎ مسند الامام احمد بن حنبل    مسند ابی ہریرۃ   مطبوعہ بیروت            ۲/ ۳۹۱)

 

جب اُس نے اپنی صدق نیت سے اس پر عمل کیا اور رب عزجلالہ سے اُس نفع کی امید رکھی تو مولٰی تبارک وتعالٰی اکرم الاکرمین ہے اُس کی اُمید ضائع نہ کرے گا اگرچہ حدیث واقع میں کیسی ہی ہو۔ وللّٰہ الحمد فی الاولی والاٰخرۃ۔افادہ نوزدہم ۱۹ :(عقل بھی گواہ ہے کہ ایسی جگہ حدیث ضعیف مقبول ہے) وباللہ التوفیق، عقل اگر سلیم ہوتو ان نصوص ونقول کے علاوہ وہ خود بھی گواہ کافی ہے کہ ایسی جگہ ضعیفف حدیث معتبر اور اس کا ضعف مغتفر کہ سند میں کتنے ہی نقصان ہوں آخر بطلان پر یقین تو نہیں فان الکذوب قدیصدق (بڑا جھُوٹا بھی کبھی سچ بولتا ہے) تو کیا معلوم کہ اس نے یہ حدیث ٹھیک ہی روایت کی ہو۔ مقدمہ امام ابوعمر تقی الدین شہرزوری میں ہے:

 

اذاقالوا فی حدیث انہ غیر صحیح فلیس ذلک قطعا بانہ کذب فی نفس الامراذ قد یکون صدقا فی نفس الامر وانما المراد بہ  انہ لم یصح اسنادہ علی الشرط المذکور ۳؎۔

 

محدثین جب کسی حدیث کو غیر صحیح بتاتے ہیں تو یہ اس کے فی الواقع کذب پر یقین نہیں ہوتا اس لئے کہ حدیث غیر صحیح کبھی واقع میں سچی ہوتی ہے اس سے تو اتنی مراد ہوتی ہے کہ اُس کی سند اس شرط پر نہیں جو محدثین نے صحت کے لئے مقرر کی۔

 

 (۳؎ مقدمہ ابن الصلاح  النوع الاول فی معرفۃ اتصحیح  مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان        ص ۸)

 

تقریب وتدریب میں ہے : اذاقیل حدیث ضعیف، فمعناہ لم یصح اسنادہ علی الشرط المذکور لاانہ کذب فی نفس الامر لجواز صدق الکاذب ۱؎ اھ ملخصا۔کسی حدیث کو ضعیف کہاجائے تو معنی یہ ہیں کہ اس کی اسناد شرط مذکور پر نہیں نہ یہ کہ واقع میں جھُوٹ ہے ممکن ہے کہ جھُوٹے نے سچ بولا ہو اھ ملخصاً

 

 (۱؎ تدریب الرادی شرح تقریب النوادی    النوع الاول الصحیح    مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۷۵ تا ۷۶)

 

 (تصحیح وتضعیف صرف بنظرِ ظاہر ہیں واقع میں ممکن کہ ضعیف صحیح ہو وبالعکس) محقق حیث اطلق (عہ۱)فتح میں فرماتے ہیں :ان وصف الحسن والصحیح والضعیف انما ھو باعتبار السند ظنا امافی الواقع فیجوز غلط الصحیح وصحۃ الضعیف ۲؎۔حدیث کو حسن یا صحیح یا ضعیف کہنا صرف سند کے لحاظ سے ظنی طور پر ہے واقع میں جائز ہے کہ صحیح غلط اور ضعیف صحیح ہو۔

 

   عہ۱ : مسألۃ التنفل قبل المغرب ۱۲ منہ (م)

 

 (۲؎ فتح القدیر   باب النوافل   مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر         ۱/ ۳۸۹)

 

اُسی (عہ۲)میں ہے : لیس معنی الضعیف الباطل فی نفس الامر بل لالم یثبت بالشروط المعتبرۃ عند اھل الحدیث مع تجویز کونہ صحیحاً فی نفس الامر فیجوز ان یقترن قرینۃ تحقق ذلک، وان الراوی الضعیف اجاد فی ھذا المتن المعین فیحکم بہ ۳؎۔

 

ضعیف کے یہ معنی نہیں کہ وہ واقع میں باطل ہے بلکہ یہ کہ جو شرطیں اہلِ حدیث نے اعتبار کیں اُن پر نہ آئی اس کے ساتھ جائز ہے کہ واقع میں صحیح ہو، تو ممکن کہ کوئی ایسا قرینہ ملے جو ثابت کردے کہ وہ صحیح ہے اور راوی ضعیف نے یہ حدیث خاص اچھے طور پر ادا کی ہے اُس وقت باوصف ضعف راوی اس کی صحت کا حکم کردیا جائے گا۔    عہ۲ :مسألۃ السجود علٰی کور العمامۃ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

 

(۳؎فتح القدیر   باب صفۃ الصلاۃ    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۲۶۶)

 

موضوعاتِ کبیر میں ہے : المحققون علٰی ان الصحۃ والحسن والضعف انما ھی من حیث الظاھر فقط مع احتمال کون الصحیح موضوعا وعکسہ کذا افادہ الشیخ ابن حجر ۱؎ المکی۔محققین فرماتے ہیں صحت وحسن وضعف سب بنظر ظاہر ہیں واقع میں ممکن ہے کہ صحیح موضوع ہو اور

اور موضوع صحیح، جیسا کہ شیخ ابن حجر مکّی نے افادہ فرمایا ہے۔

 

 (۱؎ موضوعات کبیر لملّا علی قاری    زیر حدیث من بلغہ عن اللّٰہ شیئ الخ     مطبوعہ مجتبائی دہلی    ص ۶۸)

 

اقول (احادیث اولیائے کرام کے متعلق نفیس فائدہ) یہی وجہ ہے کہ بہت احادیث جنہیں محدثین کرام اپنے طور پر ضعیف ونامعتبر ٹھہرا چکے علمائے قلب، عرفائے رب، ائمہ عارفین، سادات مکاشفین قدسنا اللہ تعالٰی باسرارہم الجلیلہ ونور قلوبنا بانوارہم الجمیلہ انہیں مقبول ومعتمد بناتے اور بصیغ جزم وقطع حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف نسبت فرماتے اور ان کے علاوہ بہت وہ احادیث تازہ لاتے جنہیں علما اپنے زبر ودفاتر میں کہیں نہ پاتے، اُن کے یہ علوم الٰہیہ بہت ظاہر بینوں کو نفع دینا درکنار اُلٹے باعث طعن ووقعیت وجرح واہانت ہوجاتے،حالانکہ العظمۃللہ وعباداللہ ان طاعنین سے بدرجہا اتقی اللہ واعلم باللہ واشد توقیافی القول عن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (حالانکہ وہ ان طعن کرنے والوں سے زیادہ اللہ تعالٰی سے خوف رکھنے والے، اللہ تعالٰی کے بارے میں زیادہ علم رکھنے والے، سرورِ دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت کرنے میں بہت احتیاط کرنے والے تھے۔ ت) تھے۔

 

ولکن کل حزب بمالدیھم فرحون ۲؎، وربک اعلم بالمھتدین ۳؎۔اور ہر ایک گروہ اپنے موجود پر خوش ہے اور تیرا رب ہدایت یافتہ کے بارے میں بہتر جانتا ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ القرآن        ۲۳/ ۵۳ و ۳۰/ ۳۲)     (۳؎ القرآن        ۲۸ /۷ و ۱۶/ ۱۲۵ و ۶ /۱۱۷)

 

میزان (عہ) مبارک میں حدیث : اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم ۴؎۔میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤگے۔ (ت)

 

عہ: فی فصل فان ادعی احد من العلماء فوق ھذہ المیزان ۱۲ منہ (م)

 

 (۴؎ المیزان الکبرٰی    فصل فان ادعٰی احد من العلماء الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۳۰)

 

کی نسبت فرماتے ہیں :ھذا الحدیث وان کان فیہ مقال عندالمحدثین فھو صحیح عند اھل الکشف ۱؎۔اس حدیث میں اگرچہ محدثین کو گفتگو ہےمگر وہ اہل کشف کے نزدیک صحیح ہے۔

 

 (۱؎ المیزان الکبرٰی    فصل فان ادعٰی احد من العلماء الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۳۰)

 

کشف (عہ۱)  الغمہ عن جمیع الاُمہ میں ارشاد فرمایا:کان صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یقول من صلی علی طھر قلبہ من النفاق، کمایطھر الثوب بالمائ، وکان صلی اللّٰہ تعالٰی یقول من قال صلی اللّٰہ علی محمد فقد فتح علی نفسہ سبعین بابا من الرحمۃ، والقی اللّٰہ مجلتہ فی قلوب الناس فلایبغضہ الامن فی قلبہ نفاق، قال شیخنا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ھذا الحدیث والذی قبلہ رویناھما عن بعض العارفین عن الخضر علیہ الصلاۃ والسلام عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وھما عندنا صحیحان فی اعلٰی درجات الصحۃ وان لم یثبتھما المحدثون علی مقتضی اصطلاحھم ۲؎۔حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے جو مجھ پر درود بھیجے اس کا دل نفاق سے ایسا پاک ہوجائے جیسے کپڑا پانی سے، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے جو کہے ''صلی اللّٰہ علٰی محمد'' اس نے سترہ۱۷ دروازے رحمت کے اپنے اوپر کھول لیے، اللہ عزوجل اُس کی محبّت لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا کہ اُس نے بغض نہ رکھے گا مگر وہ جس کے دل میں نفاق ہوگا۔ ہمارے شیخ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: یہ حدیث اور اس سے پہلی ہم نے بعض اولیاء سے روایت کی ہیں انہوں نے سیدنا خضر علیہ الصلاۃ والسلام، اُنہوں نے حضور پُرنور سید الانام علیہ افضل الصّلاۃ واکمل السلام سے یہ دونوں حدیثیں ہمارے نزدیک اعلٰی درجہ کی صحیح ہیں اگرچہ محدثین اپنی اصطلاح کی بنا پر اُنہیں ثابت نہ کہیں۔

 

عہ۱ : آخر الجلد الاول باب جامع فضائل الذکر اٰخر فصل الامر بالصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ۔

 

(۲؎ کشف الغمۃ عن جمیع الاُمۃ    فصل فی الامر بالصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم    مطبوعہ درالفکر بیروت    ۱/ ۳۴۵)

 

نیز میزان (عہ۲) شریف میں اپنے شیخ سیدی علی خواص قدس سرہ العزیز سے نقل فرماتے ہیں : کمایقال عن جمیع مارواہ المحدثون بالسند الصحیح المتصل ینتھی سندہ الی حضرت الحق جل وعلا فکذٰلک یقال فیما نقلہ اھل الکشف الصحیح من علم الحقیقۃ ۱؎۔

 

جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ محدثین نے سند صحیح متصل سے روایت کیا اس کی سند حضرت الٰہی عزوجل تک پہنچتی ہے یونہی جو کچھ علم حقیقت سے صحیح کشف والوں نے نقل فرمایا اُس کے حق میں یہی کہا جائےگا۔           عہ۲: فصل فی بیان استحالۃ خروج شیئ من اقوال المجتھدین عن الشریعۃ ۱۲ منہ

 

 (۱؎ المیزان الکبرٰی    فصل فی استحالہ خروج شیئ من اقوال المجتہدین الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۴۵)

 

بالجملہ اولیا کے لئے سوا اس سند ظاہری کے دوسرا طریقہ ارفع وعلٰی ہے ولہذا حضرت سیدی ابویزید بسطامی رضی اللہ تعالٰی عنہ وقدس سرہ السامی اپنے زمانہ کے منکرین سے فرماتے :

 

قداخذتم علمکم میتا عن میت واخذنا علمنا عن الحی الذی لایموت ۲؎۔ نقلہ سیدی الامام الشعرانی فی کتابہ المبارک الفاخر الیواقیت والجواھر اٰخر المبحث السابع والاربعین۔

 

 (۲؎ الیواقیت والجواہر    باب الثالث والسابع والاربعین     مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۲/ ۹۱)

 

تم نے اپنا علم سلسلہ اموات سے حاصل کیا ہے اور ہم نے اپنا علم حی لایموت سے لیا ہے۔ اسے سیدی امام شعرانی نے اپنی مبارک اور عظیم کتاب الیواقیت والجواہر کی سینتالیس بحث کے آخر میں ذکر کیا ہے۔ (ت)

حضرت سیدی امام المکاشفین محی الملۃ والدین شیخ اکبر ابن عربی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کچھ احادیث کی تصحیح فرمائی کہ طور علم پر ضعیف مانی گئی تھیں،کماذکرہ فی باب الثالث والسبعین من الفتوحات المکیۃ الشریفۃ الالھٰیۃ الملکیۃ ونقلہ فی الیواقیت ھنا ۳؎۔جیسا کہ انہوں نے فتوحات المکیۃ الشریفۃ الالہٰیۃ الملکیۃ کے تیرھویں باب میں ذکر کیا اور الیواقیت میں اس مقام پر اسے نقل کیا ہے۔ (ت)

 

(۳؎الیواقیت والجواہر   باب الثالث والسابع والاربعین مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۲ /۸۸)

 

اسی طرح خاتمِ حفاظ الحدیث امام جلیل جلال الملّۃ والدّین سیوطی قدس سرہ العزیز پچھتر۷۵ بار بیداری میں جمالِ جہاں آرائے حضور پُرنور سید الانبیا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بہرہ ورہُوئے بالمشافہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے تحقیقاتِ حدیث کی دولت پائی بہت احادیث کی کہ طریقہ محدثین پر ضعیف ٹھہر چکی تھیں تصحیح فرمائی جس کا بیان ۴؎ عارف ربانی امام العلامہ عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ النورانی کی میزان(عہ)الشریعۃ الکبرٰی میں ہےمن شاء فلیتشرف بمطالعۃ(جو اس کی تفصیل چاہتا ہے میزان کا مطالعہ کرے۔ ت)

 

عہ:  فی الفصل المذکور قبل مامر بنحوہ صفحۃ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

 

 (۴؎ المیزان الکبرٰی    فصل فی استحالۃ خروج شیئ الخ         مطبوعہ مصطفی البابی مصر   ۱/ ۴۴)

 

یہ نفیس وجلیل فائدہ کہ بمناسبت مقام بحمداللہ تعالٰی نفع رسانی برادرانِ دین کے لئے حوالہ قلم ہوا لوحِ دل پر نقش کرلینا چاہے کہ اس کے جاننے والے کم ہیں اور اس لغزش گاہ میں پھسلنے والے بہت قدم ؎

 

خلیلی قطاع الفیانی الی الحمی

کثیر  و ارباب الوصول قلائل

 

 (اے میرے دوست! چراگاہوں میں ڈاکہ ڈالنے والے کثیر اور منزل کو پانے والے کم ہیں۔ ت)

بات دُور پہنچی، کہنا یہ تھا کہ سند پر کیسے ہی طعن وجرح ہوں اُن کے سبب بطلانِ حدیث پر جزم نہیں ہوسکتا ممکن کہ واقع میں حق ہو اور جب صدق کا احتمال باقی تو عاقل جہان نفع بے ضرر کی اُمید پاتا ہے اُس فعل کو بجالاتا ہے دین ودنیا کے کام اُمید پر چلتے ہیں پھر سند میں نقصان دیکھ کر ایکدست اس سے دست کش ہونا کس عقل کا مقتضی ہے کیا معلوم اگر وہ بات سچی تھی تو خود فضیلت سے محروم رہے اور جھُوٹی ہوتو فعل میں اپنا کیا نقصان

 

فافھم وتثبت ولاتکن من المتعصبین

 

 (اسے اچھی طرح سمجھ لے اس پر قائم راہ اور تعصب کرنے والوں سے نہ ہو۔ ت) انصاف کیجئے مثلاً کسی کو نقصان حرارت عزیزی وضعف ارواح کی شکایت شدید ہو زید اس سے بیان کرے کہ فلاں حکیم حاذق نے اس مرض کے لئے سونے کے ورق سونے کے کھرل میں سونے کی موصلی سے عرق بید مشک یا ہتھیلی پر انگلی سے شہد میں سحق بلیغ کرکے پینا تجویز فرمایا ہے تو عقلی سلیم کا اقتضا نہیں کہ جب تک اُس حکیم تک سند صحیح متصل کی خوب تحقیقات نہ کرلے اس کا استعمال طباً حرام جانے، بس اتنا دیکھنا کافی ہے کہ اصولِ طبیہ میں میرے لئے اس میں کچھ مضرت تو نہیں ورنہ وہ مریض کہ نسخہ ہائے قرابادین کی سندیں ڈُھوڈتا اور حالِ رواۃ تحقیق کرتا پھرے گا قریب ہے کہ بے عقلی کے سبب اُن ادویہ کے فوائد ومنافع سے محروم رہے گا نہ عراق تنقیح سے تریاق تصحیح ہاتھ آئے گا نہ یہ مارگزیدہ دوا پائیگا، بعینہ یہی حال ان فضائل اعمال کا ہے جب ہمارے کان تک یہ بات پہنچی کہ اُن میں ایسا نفع ذکر کیا گیا اور شرع مطہر نے ان افعال سے منع نہ کیا، تو اب ہمیں تحقیق محدثانہ کیا ضرور ہے اگر حدیث فی نفسہٖ صحیح ہے فبہا ورنہ ہم نے اپنی نیک نیت کا اچھا پھل پایا،ھل تربصون بنا الااحدی الحسنیین ۱؎ (تم ہم پر کس چیز کا انتظار کرتے ہو مگر دو۲ خوبیوں میں سے ایک کا۔ ت)

 

 (۱؎ القرآن    ۹/ ۵۲)

 

افادہ بستم۲۰ :(حدیث ضعیف احکام میں بھی مقبول ہے جبکہ محلِ احتیاط ہو) مقاصد شرع کا عارف اور کلماتِ علما کا واقف جب قبول ضعیف فی الفضائل کے دلائل مزکورہ عبارات سابقہ فتح المبین امام ابن حجر مکی وانموذج العلوم محقق دوانی وقوت القلوب امام مکی رحمہم اللہ تعالٰی ونیز تقریر فقیر مذکور افادہ سابقہ پر نظر صحیح کرے گا

 

ان انوار متجلیہ کے پر توسے بطور حدس بے تکلّف اُس کے آئینہ دل میں مرتسم ہوگا کہ کچھ فضائل اعمال ہی میں انحصار نہیں بلکہ عموماً جہاں اُس پر عمل میں رنگ احتیاط ونفع بے ضرر کی ضرورت نظر آئے گی بلاشبہہ قبول کی جائے گی جانب فعل میں اگر اس کا ورود استحباب کی راہ بتائے گا جانب ترک میں تنزع وتورع کی طرف بلائے گا کہ آخر مصطفی صلّی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا:کیف وقدقیل ۱؎۔ (کیونکہ نہ مانے گا حالانکہ کہا تو گیا) رواہ البخاری عن عقبۃ بن الحارث النوفلی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (اسے امام بخاری نے عقبہ بن حارث نوفلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؎ صحیح البخاری    کتاب العلم باب الرحلۃ فی المسألۃ النازلۃ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۹)

 

اقول وقال صلی اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم دع مایربک الی مایریبک ۲؎۔اقول رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس میں شبہہ پڑتا ہو وہ کام چھوڑدے اور ایسے کی طرف آ جس میں کوئی دغدغہ نہیں''۔

 

رواہ الامام احمد وابوداود الطیالسی والدارمی والترمذی وقال ''حسن صحیح'' والنسائی وابن حبان والحاکم ''وصححاہ'' وابن قانع فی معجمہ عن الامام ابن الامام سیدنا الحسن بن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما بسند قوی وابو نعیم فی الحلیۃ والخطیب فی التاریخ بطریق مالک عن نافع عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔اسے امام احمد، ابوداود طیالسی، دارمی، ترمذی، نے روایت کیا اور اسے حسن صحیح کہا۔ نسائی، ابن حبان اور حاکم ان دونوں نے اسے صحیح کہا۔ ابن قانع نے اپنی معجم میں امام ابن امام سیدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہما نے سند قوی کے ساتھ روایت کیا۔ ابونعیم نے حلیہ اور خطیب نے تاریخ میں بطریق مالک عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما روایت کیا۔ (ت)

 

 (۲؎ مسند احمد بن حنبل    مسند اہلبیت رضوان اللہ علیہم اجمعین    مطبوعہ  دارالفکر بیروت        ۱/ ۲۰۰)

 

ظاہر ہے کہ حدیث ضعیف اگر مورثِ ظن نہ ہو مورث شبہہ سے تو کم نہیں تو محلِ احتیاط میں اس کا قبول عین مراد شارع صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مطابق ہے، احادیث اس باب میں بکثرت ہیں، از انجملہ حدیث اجل واعظم کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم:من اتقی الشبھات فقد استبرأ لدینہ وعرضہ ومن وقع فی الشھبات وقع فی الحرام کالراعی حول الحمی یوشک ان ترتع فیہ الاوان لکل ملک حمی الاوان حمی اللّٰہ محاورمہ ۱؎۔

 

جو شبہات سے بچے اُس نے اپنے دین وآبرو کی حفاظت کرلی اور جو شبہات میں پڑے حرام میں پڑ جائے گا جیسے

رمنے کے گرد چرانے والا نزدیک ہے کہ رمنے کے اندر چرائے، سُن لو ہر پادشاہ کا ایک رمنا ہوتا ہے، سُن لو اللہ عزوجل کا رمنا وہ چیزیں ہیں جو اس نے حرام فرمائیں۔رواہ الشیخان عن النعمان بن بشر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما۔اسے بخاری ومسلم دونوں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ (ت)

 

 (۱؎ صحیح البخاری    باب فصل من استبرأ لدینہ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ص۱۳

مسلم شریف    باب اخذ الحلال وترک الشبہات    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۲۸)

 

امام ابنِ حجر مکّی نے فتح المبین میں ان دونوں حدیثوں کی نسبت فرمایا :رجوعھما الٰی شیئ واحد وھو النھی التنزیھی عن الوقوع فی الشھبات ۲؎۔یعنی حاصل مطلب ان دونوں حدیثوں کا یہ ہےکہ شبہہ کی بات میں پڑنا خلافِ اولٰی ہےجس کا مرجع کراہت تنزیہ۔

 

 (۲؎ فتح المبین شرح اربعین    )

 

اللہ عزوجل فرماتا ہے :ان یک کاذبا فعلیہ کذبہ وان یک صادقا یصبکم بعد الذی یعدکم ۳؎۔اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھُوٹ کا وبال اس پر ہے اور اگر سچّا ہوا تو تمہیں پہنچ جائے گی کچھ نہ کچھ وہ مصیبت جس کا وہ تمہیں وعدہک دیتا ہے۔

 

  (۳؎ القرآن        ۴۰ /۲۸)

 

بحمداللہ تعالٰی یہ معنی ہیں ارشاد امام ابوطالب مکی قدس سرہ، کے قوت القلوب عہ  شریف میں فرمایا:ان الاخبار الضعاف غیر مخالفۃ الکتاب والسنۃ لایلزمنا ردھا بل فیھا مایدل علیھا ۴؎۔ضعیف حدیثیں جو مخالفِ کتاب وسنّت نہ ہوں اُن کا رَد کرنا ہمیں لازم نہیں بلکہ قرآن وحدیث اُن کے قبول پر دلالت فرماتے ہیں ۔

 

عہ:فی فصل الحادی والثلثین ۱۲ منہ (م)

اکتیسویں فصل میں اس کا بیان ہے۔ (ت)

 

 (۴؎ قوت القلوب     باب تفضیل الاخبار الخ    مطبوعہ دارصادر بیروت        ۱/ ۱۷۷)

 

لاجرم علمائے کرام نے تصریحیں فرمائیں کہ دربارہ احکام بھی ضعیف حدیث مقبول ہوگی جبکہ جانب احتیاط

میں ہو، امام نووی نے اذکار میں بعد عبادت مذکور پھر شمس سخاوی نے فتح المغیث پھر شہاب خفاجی نے نسیم الریاض  (عہ۱) میں فرمایا:

 

اما الاحکام کالحلال والحرام والبیع والنکاح والاطلاق وغیر ذلک فلایعمل فیھا الا بالحدیث الصحیح اوالحسن الاان یکون فی احتیاط فی شیئ من ذلک کما اذا ورد حدیث ضعیف بکراھۃ بعض البیوع او الا نکحۃ فان المستحب ان یتنزہ عنہ ولکن لایجب ۱؎۔یعنی محدثین وفقہا وغیرہم علما فرماتے ہیں کہ حلال وحرام بیع نکاح طلاق وغیرہ احکام کے بارہ میں صرف حدیث صحیح یا حسن ہی پر عمل کیا جائیگا مگر یہ کہ ان مواقع میں کسی احتیاطی بات میں ہو جیسے کسی بیع یا نکاح کی کراہت میں حدیث ضعیف آئے تو مستحب ہے کہ اس سے بچیں ہاں واجب نہیں۔

 

عہ ۱ : فی شرح اخطبۃ حیث اسند الامام المصنّف حدیث من سئل عن علم فکتمہ الحدیث ۱۲ منہ

 

 (۱؎ نسیم الریاض شرح الشفاء        تتمہ وفائدۃ مہمہ فی شرح الخطبۃ    مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۱/ ۴۲)

 

امام جلیل جلال سیوطی تدریب میں فرماتے ہیں :ویعمل بالضعیف ایضا فی الاحکام اذاکان فیہ احتیاط ۲؎۔حدیث ضعیف پر احکام میں بھی عمل کیا جائیگا جبکہ اُس میں احتیاط ہو۔

 

 (۲؎ تدریب الراوی شرح تقریب النواوی  النوع الثانی والعشرون المقلوب  مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ بیروت ۱/  ۲۹۹)

 

علامہ حلبی غنیہ(عہ۲) میں فرماتے ہیں:الاصل ان الوصل بین الاذان والاقامۃ یکرہ فی کل الصلٰوۃ لماروی الترمذی عن جابر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قال لبلال اذا انت فترسل واذا اقمت فاحد رواجعل بین اذانک واقامتک قدر مایفرغ الاکل من اکلہ فی غیر عہ۳  المغرب والشارب من شربہ والمعتصر اذادخل لقضاء حاجتہ وھو وان کان ضعیفا لکن یجوز العمل بہ فی مثل ھذا الحکم ۱؎۔یعنی اصل یہ ہے کہ اذان کہتے ہی فوراً اقامت کہہ دینا مطلقا سب نمازوں میں مکروہ ہے اس لئے کہ ترمذی نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا اذان ٹھہر ٹھہر کر کہا کر اور تکبیر جلد جلد اور دونوں میں اتنا فاصلہ رکھ کر کھانیوالا کھانے سے (مغرب کے علاوہ میں) اور پینے والا پینے اور ضرورت والا قضائے حاجت سے فارغ ہوجائے، یہ حدیث اگرچہ ضعیف عہ۱ ہے مگر ایسے حکم میں اس پر عمل روا ہے۔

 

عہ ۲ : فی فصل سنن الصلاۃ ۱۲ منہ

عہ ۳ : قولہ فی غیر المغرب ھکذا ھو فی نسختی الغنیۃ ولیس عند الترمذی بل ھو مدرج فیہ نعم ھو تاویل من العلماء کماقال فی الغنیۃ بعد مانقلنا قالوا قولہ قدر مایفرغ الاکل من اکلہ فی غیر المغرب ومن شربہ فی المغرب ۱۲ منہ

عہ۱ : امام ترمذی نے فرمایا: ھو اسناد مجھول (یہ سند مجہول ہے) ۱۲ منہ (م)

 

 (۱؎ غنیۃ المستملی        فصل سنن الصلاۃ    مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور    ص۷۷۔ ۳۷۶)

 

نفیسہ (بُدھ کے دن بدن سے خون لینے کے باب میں) ایک حدیث ضعیف میں بُدھ کے دن پچھنے لگانے سے ممانعت آئی ہے کہ:من احتجم یوم الاربعاء ویوم السبت فاصابہ برص فلایلومن الانفسہ ۲؎۔جو بُدھ یا ہفتہ کے روز پچھنے لگائے پھر اُس کے بدن پر سپید داغ ہوجائے تو اپنے ہی آپ کو ملامت کرے۔

 

 (۲؎ الکامل لابن عدی    من ابتدئ اسمہ عین عبداللہ ابن زیاد    مطبوعہ المکتبۃ الاثریہ شیخوپورہ    ۴/ ۱۴۴۶)

 

امام سیوطی لآلی عہ۲  وتعقبات عہ۳  میں مسند الفردوس دیلمی سے نقل فرماتے ہیں:سمعت ابی یقول سمعت ابا عمرو محمد بن جعفر بن مطر النیسابوری قال قلت یوما ان ھذا الحدیث لیس بصحیح فافتصدت یوم الاربعاء فاصابنی البرص فرأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی النوم فشکوت الیہ حالی فقال ایاک والاستھانۃ بحدیثی فقلت تبت یارسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فانتھبت وقدعا فانی اللّٰہ تعالٰی وذھب ذلک عنی ۱؎ ۔

 

ایک صاحب محمد بن جعفر بن مطر نیشاپوری کو فصد کی ضرورت تھی بُدھ کا دن تھا خیال کیا کہ حدیث مذکور تو صحیح نہیں فصد لے لی فوراً برص ہوگئی، خواب میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے حضور سے فریاد کی، حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:ایاک والاستھانۃ بحدیثی ۳؎ (خبردار میری حدیث کو ہلکانہ سمجھنا) انہوں نے توبہ کی، آنکھ کھُلی تو اچھے تھے۔

 

عہ ۲ : اواخر کتاب المرض والطب ۱۲ منہ (م)    کتاب المرض والطب کے آخر میں اس کو ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

عہ ۳ : باب الجنائز ۱۲ منہ (م)       باب الجنائز میں اس کو بیان کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ    کتاب المرض والطب     مطبوعہ ادبیہ مصر        ۳/ ۲۱۹)

 

جلیلہ (ہفتہ کے دن خون لینے کے بارے میں) امام ابن عساکر روایت فرماتے ہیں ابو معین حسین بن حسن طبری نے پچھنے لگانے چاہے، ہفتہ کا دن تھا غلام سے کہا حجام کو بُلالا، جب وہ چلا حدیث یاد آئی پھر کچھ سوچ کر کہا حدیث میں تو ضعف ہے، غرض لگائے، برص ہوگئی، خواب میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فریاد کی، فرمایا:ایاک والاستھانۃ بحدیثی(دیکھ میری حدیث کا معاملہ آسان نہ جاننا)

 

اُنہوں نے منّت مانی اللہ تعالٰی اس مرض سے نجات دے تو اب کبھی حدیث کے معاملہ میں سہل انگاری نہ کروں گا صحیح ہو یا ضعیف، اللہ عزوجل نے شفا بخشی ۲؎۔

 

 (۱؎ اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ    کتاب المرض والطب    مطبعہ ادبیہ مصر    ۲/ ۲۱۹)

 

لآلی  (عہ۱)  میں ہے : اخرج ابن عساکر فی تاریخہ من طریق ابی علی مھران بن ھارون الحافظ الھازی قال سمعت ابامعین الحسین بن الحسن الطبری یقول اردت الحجامۃ یوم السبت فقلت للغلام ادع لی الحجام فلما ولی الغلام ذکرت خبر النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم من احتجم یوم السبت  ویوم الاربعاء فاصابہ وضح فلایلو من الا نفسہ قال فدعوت الغلام ثم تفکرت فقلت ھذا حدیث فی اسنادہ بعض الضعف فقلت للغلام ادع الحجام لی فدعاہ، فاحتجمت فاصا بنی البرص، فرأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی النوم فشکوت الیہ حالی فقال ایاک والاستھانۃ بحدیثی فنذرت للّٰہ نذرا لئن اذھب اللّٰہ مابی من البرص لم اتھاون فی خبر النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم صحیحا کان اوسقیمافأذھب اللّٰہ عنی ذلک البرص ۲؎۔

 

 (نوٹ: اس عربی عبارت کا ترجمہ لفظ 'جلیلہ' سے شروع ہوکر عربی عبارت سے پہلے ختم ہوجاتا ہے)

عہ:  تلومامر ۱۲ منہ (م)          لآلی میں اس عبارت کے قریب جو پہلے گزرچکی ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ    کتاب المرض والطب    مطبعہ ادبیہ مصر    ۲/ ۲۱۹)

 

مفیدہ (بُدھ کے دن ناخن تراشنے کے امر میں) یوں ہی ایک حدیث ضعیف میں بُدھ کے دن ناخن کتروانے کو آیا کہ مورثِ برص ہوتا ہے، بعض علما نے کتروائے، کسی نے بربنائے حدیث منع کیا، فرمایا حدیث صحیح نہیں فوراً مبتلا ہوگئے، خواب میں زیارت جمال بے مثال حضور پُرنور محبوب ذی الجلال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مشرف ہُوئے، شافی کافی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حضور اپنے حال کی شکایت عرض کی، حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا تم نے نہ سُنا تھا کہ ہم نے اس سے نفی فرمائی ہے؟ عرض کی حدیث میرے نزدیک صحت کو نہ پہنچی تھی۔ ارشاد ہوا: تمہیں اتنا کافی تھا کہ حدیث ہمارے نام پاک سے تمہارے کان تک پہنچی۔ یہ فرماکر حضور مبرئ الاکمہ والا برص محی الموتٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنا دست اقدس کو پناہِ دوجہان ودستگیر بیکساں ہے، ان کے بدن پر لگادیا، فوراً اچھے ہوگئے اور اُسی وقت توبہ کی کہ اب کبھی حدیث سُن کر مخالفت نہ کرونگا۔ (اھ)

 

علّامہ شہاب الدین خفاجی مصری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نسیم الریاض شرح شفا امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں:''قص الاظفار وتقلیمھا سنۃ رورد النھی عنہ فی یوم الاربعا ع وانہ یورث البرص، وحکی عن بعض العلماء انہ فعلہ فنھی عنہ فقال لم یثبت ھذا فلحقہ البرص من ساعتہ فرای النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی منامہ فشکی الیہ فقال لہ الم تسمع نھیی عنہ، فقال لم یصح عندی، فقال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یکفیک انہ سمع، ثم مسح بدنہ بیدہ الشریفۃ، فذھب مابہ فتاب عن مخالفۃ ماسمع ۱؎ اھ''۔

 

 (نوٹ: اس عربی عبارت کا ترجمہ 'مفیدہ' ص ۴۹۹ سے شروع ہوکر عربی عبارت سے ختم ہوجاتا ہے)

 

 (۱؎ نسیم الریاض شرح الشفا    فصل واما نظافۃ جسمہ    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۱/ ۳۴۴)

 

یہ بعض علماء امام علّامہ ابن الحاج مکی مالکی قدس اللہ سرہ العزیز تھے علامہ طحطاوی حاشیہ درمختار میں فرماتے ہیں:وردفی بعض الاٰثار النھی عن قص الاظفار یوم الاربعاء فانہ یورث وعن ابن الحاج صاحب المدخل انہ ھم بقص اظفارہ یوم الاربعاء، فتذکر ذلک، فترک، ثم رای ان قص الاظفار سنۃ حاضرۃ، ولم یصح عندہ النھی فقصھا، فلحقہ ای اصابہ البرص، فرأی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی النوم فقال الم تسمع نھیی عن ذلک، فقال ''یارسول اللّٰہ لم یصح عندی ذلک'' فقال یکفیک ان تسمع، ثم مسح صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم علی بدنہ فزال البرص جمیعا، قال ابن الحاج رحمہ اللّٰہ تعالٰی فجددت مع اللّٰہ توبۃ انی لااخالف ماسمعت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ابداً ۱؎۔

 

بعض آثار میں آیا ہے کہ بدھ کے دن ناخن کتروانے والے کو برص کی بیماری عارض ہوجاتی ہے اور صاحبِ مدخل ابن الحاج کے بارے میں ہے کہ انہوں نے بدھ کے روز ناخن کاٹنے کا ارادہ کیا، انہیں یہ نہیں والی بات یاد دلائی گئی تو انہوں نے اسے ترک کردیا پھر خیال میں آیا کہ ناخن کتروانا سنّتِ ثابتہک ہے اور اس سے نہی کی روایت میرے نزدیک صحیح نہیں۔ لہذا انہوں نے ناخن کاٹ لیے تو انہیں برص عارض ہوگیا تو خواب میں نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت ہُوئی سرکارِ دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تُونے نہیں سُنا کہ میں نے اس سے منع فرمایا ہے؟ عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم! وہ حدیث میرے نزدیک صحیح نہ تھی، تو آپ نے فرمایا کہ تیرا سُن لینا ہی کافی ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے جسم پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو تمام برص زائل ہوگیا۔ ابن الحاج کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالٰی کے حضور اس بات سے توبہ کی کہ آئندہ جو حدیث بھی نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سُنوں گا اس کی مخالفت نہیں کروں گا۔ (ت)

 

 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    فصل فی البیع    مطبوعہ  دارالمعرفۃ بیروت لبنان    ۴ /۲۰۲)

 

سُبحان اللہ! جب محلِ احتیاط میں احادیث ضعیفہ خود احکام میں مقبول ومعمول، تو فضائل تو فضائل ہیں، اور ان فوائد نفیسہ جلیلہ مفیدہ سے بحمداللہ تعالٰی عقل سلیم کے نزدیک وہ مطلب بھی روشن ہوگیا کہ ضعیف حدیث اُس کی غلطی واقعی کو مستلزم نہیں۔ دیکھو یہ حدیثیں بلحاظِ سند کیسی ضعاف تھیں اور واقع میں اُن کی وہ شان کہ مخالفت کرتے ہیں فوراً تصدیقیں ظاہر ہُوئیں، کاش منکر اِن فضائل کو بھی اللہ عزوجل تعظیم حدیث مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی توفیق بخشے اور اُسے ہلکا سمجھنے سے نجات دے، آمین!

 

افادہ بست۲۱ ویکم (حدیث ضعیف پر عمل کے لئے خاص اُس باب میں کسی صحیح حدیث کا آنا ہر گز ضرور نہیں) بذریعہ حدیث ضعیف کسی فعل کے لئے محلِ فضائل میں استحباب یا موضع احتیاط میں حکم تنزہ ثابت کرنے کے لئے زنہار زنہار اصلاً اس کی حاجت نہیں کہ بالخصوص اس فعل معین کے باب میں کوئی حدیث صحیح بھی وارد ہوئی ہو، بلکہ یقینا قطعاً صرف ضعیف ہی کا درود ان احکام استحباب وتنزہ کے لئے ذریعہ کافیہ ہے، افادات سابقہ کو جس نے ذرا بھی بگوش ہوش استماع کیا ہے اُس پر یہ امر شمس وامس کی طرح واضح وروشن۔ مگر ازانجا کہ مقام مقام افادہ ہے ایضاحِ حق کے لئے چند تنبیہات کا ذکر مستحسن۔

اوّلاً کلمات علمائے کرام میں باآنکہ طبقہ فطبقۃ اُس جوش وکثرت سے آئے، اس تقیید بعید کا کہیں نشان نہیں تو خواہی نخواہی مطلق کو ازپیش خویش مقید کرلینا کیونکر قابل قبول۔

ثانیا بلکہ ارشاداتِ علما صراحۃً اس کے خلاف، مثلاً عبارت اذکار وغیرہا خصوصاً عبارت امام ابن الہمام جو نص تصریح ہے کہ ثبوتِ استحباب کو ضعیف حدیث کافی۔

 

اقول بلکہ خصوصاً اذکار کا وہ فقرہ کہ اگر کسی مبیع یا نکاح کی کراہت میں کوئی حدیث ضعیف آئے تو اس سے بچنا مستحب ہے واجب نہیں ۔ اس استحباب وانکار وجوب کا منشا وہی ہے کہ اُس سے نہی میں حدیث صحیح نہ آئی کہ وجوب ہوتا، تنہا ضعیف نے صرف استحباب ثابت کیا اور سب اعلٰی واجل کلام امام ابوطالب مکی ہے اس میں تو بالقصد اس تقیید جدید کا رد صریح فرمایا ہے کہ ''وان لم یشھد الہ'' (اگرچہ کتاب وسنّت اس خاص امر کے شاہد نہ ہوں)

ثالثا علمائے فقہ وحدیث کا عملدرآمد قدیم وحدیث اس قید کے بطلان پر شاہد عدل، جابجا انہوں نے احادیث ضعیفہ سے ایسے امور میں استدلال فرمایا ہے جن میں حدیث صحیح اصلاً مروی نہیں۔

اقول مثلاً:   (۱)    نماز نصف شعبان کی نسبت علی قاری۔

(۲)    صلاۃ التسبیح کی نسبت برتقدیر تسلیم ضعف وجہالت امام زرکشی وامام سیوطی کے اقوال افادہ دوم میں گزرے۔

(۳)     نماز میں امامت اتقی کی نسبت امام محقق علی الاطلاق کا ارشاد افادہ شانزدہم میں گزرا وہاں اس تقیید کے برعکس حدیث ضعیف پر عمل کو فقدانِ صحت سے مشروط فرمایا ہے:قال روی ا لحاکم عنہ علیہ الصلاۃ والسلام ان سرکم ان تقبل صلاتکم فلیؤمکم خیار کم فان صح والا فالضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل الاعمال  ۱؎۔حاکم نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ذکر کیا ہے کہ اگر تم یہ پسند کرتے کہ تمہاری نمازیں قبول ہوجائیں تو تم اپنے میں سے بہتر شخص کو امام بناؤ۔ اگر یہ روایت صحیح ہے ورنہ یہ ضعیف ہے موضوع نہیں اور فضائلِ اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کیا جاتا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ فتح القدیر    باب الامامۃ        مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۳۰۳)

 

(۴)    نیز امام ممدوح نے تجہیز وتکفین قریبی کافر کے بارہ میں احادیث ذکر کیں کہ جب ابوطالب مرے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سیدنا مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو حکم فرمایا کہ اُنہیں نہلاکر دفن کرائیں پھر خود غسل کرلیں بعدہ غسل میت سے غسل کی حدیثیں نقل کیں، پھر فرمایا:لیس فی ھذا ولافی شیئ من طرق علی حدیث صحیح، لکن طرق حدیث علی کثیرۃ والاستحباب یثبت بالضعیف غیر الموضوع ۲؎۔ان دونوں باب میں کوئی حدیث صحیح نہیں مگر حدیث علی کے طرق کثیر میں اور استحباب حدیث ضعیف غیر موضوع سے ثابت ہوجاتا ہے۔

 

 (۲؎فتح القدیر    فصل فی الصلاۃ علی المیت    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۲ /۹۵)

 

غسل کے بعد استحباب مندیل کی نسبت علّامہ ابراہیم حلبی۔

(۶)    تائید اباحت کی نسبت امام ابن امیرالحاج۔

(۷)    استحباب مسح گردن کی نسبت مولانا علی مکّی۔

(۸)    استحباب تلقین کی نسبت امام ابن الصلاح وامام نووی وامام سیوطی کے ارشادات افادہ ہفدہم۔

(۹)    کراہت وصل بین الاذان والاقامت کی نسبت علامہ حلبی کلام۔

(۱۰)    بدھ کو ناخن تراشنے کی نسبت خود نسیم الریاض وطحاوی کے اقوال افادہ بستم میں زیور گوش سا معین ہوئے۔

یہ دس۱۰ تو یہیں موجود ہیں اور خوفِ اطالت نہ ہوتو سو۱۰۰ دوسو۲۰۰ ایک ادنٰی نظر میں جمع ہوسکتے ہیں، مگر ایضاح واضح میں اطناب تاکے۔

 

رابعاً، اقول نصوص واحادیث مذکورہ افادات ہفدہم وبستم کو دیکھئے کہیں بھی اس قید بے معنی کی مساعدت فرماتے ہیں؟ حاشا بلکہ باعلی ندا اُس کی لغویات بتاتے ہیںکمالایخفی علی اولی النھی(جیسا کہ صاحبِ عقل لوگوں پر مخفی نہیں۔ ت)

 

خامساً، اقول وباللہ التوفیق اس شرط زائد کا اضافہ اسل مسألہ اجماعیہ کو محض لغو ومہمل کردے گا کہ اب حاصل یہ ٹھہرے گا کہ احکام میں تو مقتضائے حدیث ضعیف پر کاربندی اصلاً جائز نہیں اگرچہ وہاں حدیث صحیح موجود ہو اور ان کے غیر میں بحالت موجود صحیح صحیح ورنہ قبیح۔

 

اوّلا اس تقدیر پر عمل بمقتضی الضعیف من حیث ہو مقتضی الضعیف ہوگا یا من حیث ہو مقتضی الصحیح، ثانی قطعاً احکام میں بھی حاصل اور تفرقہ زائل، کیا احکام میں درود ضعیف صحاح ثابتہ کو بھی رَد کردیتا ہے؟ھذا لایقول بہ جاھل (اس کا قول کوئی جاہل بھی نہیں کرسکتا۔ ت) اور اول خود شرط سے رجوع یا قول بالمتنافیین ہوکر مدفوع کہ جب مصحح عمل درود صحیح ہے تو اس سے قطع نظر ہوکر صحت کیونکر!

ثانیا اگر صحیح نہ آتی ضعیف بیکار تھی آتی تو وہی کفایت کرتی بہرحال اس کا وجود عدم یکساں پھر معلوم بہ ہونا کہاں!ثالثاً بعبارۃ اخری اظھر واجلی(ایک دوسری عبارت کے ساتھ زیادہ ظاہر وواضح ہے۔ ت) حدیث پر عمل کے یہ معنی کہ یہ حکم اس سے ماخوذ اور اُس کی طرف مضاف ہوکہ اگر نہ اُس سے لیجئے نہ اُس کی طرف اسناد کیجئے تو اس پر عمل کیا ہوا، اور شک نہیں کہ خود صحیح کے ہوتے ضعیف سے اخذ اور اس کی طرف اضافت چہ معنی، مثلاً کوئی کہے چراغ کی روشنی میں کام کی اجازت تو ہے مگر اس شرط پر کہ نورِ آفتاب بھی موجود ہو۔ سبحان اللہ جب مہر نیمروز خود جلوہ افروز تو چراغ کی کیا حاجت اور اس کی طرف کب اضافت! اسے چراغ کی روشنی میں کام کرتا کہیں گے یا نورِ شمس میں! ع

 

آفتاب اندر جہاں آنگہ کہ میجوید سہا

 

 (جب جہاں میں آفتاب ہوتو سہا (ستارہ) ڈھونڈنے سے کیا فائدہ!)

لاجرم معنی مسئلہ یہی ہیں کہ حدیث ضعیف احکام میں کام نہیں دیتی اور دوبارہ فضائل کافی ووافی۔

 

 (تحقیق المقام وازاحۃ الاوھام)                             (تحقیق مقام وازالہ اوھام)

ثمّ اقول تحقیق المقام وتنقیح المرام بحیث یکشف الغمام ویصرّف الاوھام، ان المسألۃ تدوربین العلماء بعبارتین العمل والقبول اما العمل بحدیث، فلایعنی بہ الا امتثال مافیہ تعویلا علیہ والجری علی مقتضاہ نظر الیہ ولابد من ھذا القید الاتری ان لوتوافق حدیثان صحیح وموضوع علی فعل ففعل للامر بہ فی الصحیح، لایکون ھذا عملا علی الموضوع، واما القبول فھووان احتمل معنی الروایۃ من دون بیان الضعف، فیکون الحاصل ان الضعیف یجوز روایتہ فی الفضائل مع السکوت عمافیہ دون الاحکام لکن ھذا المعنی علی تقدیر صحۃ انما یرجع الی معنی العمل کیف ولامنشاء لایجاب اظھارالضعف فی الاحکام الا التحذیر عن العمل بہ حیث لایسوغ فلولم یسغ فی غیرھا ایضا لکان ساوٰھا فی الایجاب فدار الامر فی کلتا العبارتین الی تجویز المشی علی مقتضی الضعاف فی مادون الاحکام فاتضح ماستدللنا بہ خامسا وانکشف الظلام ھذا ھو التحقیق بیدان ھھنا رجلین من اھل العلم زلت اقدام اقلامھما فحملا العمل والقبول علی مالیس بمراد ولاحقیقا بقبول۔

 

ثمّ اقول اب ہم تحقیق مقام اور وضاحتِ مقصد کیلئے ایسی گفتگو کرتے ہیں جس سے پردے ہٹ جائیں اور شکوک وشبہات ختم ہوجائیں گے اور وہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں علماء دو۲ طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں عمل اور قبول، عمل بالحدیث سے مراد یہ ہے کہ اس حدیث پر اعتماد کرتے ہُوئے اور اس کے مقتضٰی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس میں مذکور حکم کو بجالایا جائے، اس قید کا اضافہ ضروری ہے اس لئے کہ آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ کسی فعل کے متعلق حدیث صحیح اور حدیث موضوع دونوں اگر موافق ہوں اور فعل کو بجالانے والا حدیث صحیح کو پیش نظر رکھتے ہوئے عمل کرے تو اب موضوع ہر عمل نہ ہوگا قبول بالحدیث پر ہے کہ اگرچہ ضعف بیان کئے بغیر روایت کے معنی کا احتمال ہوتو اس کا حاصل یہ ہوگا کمہ ضعیف میں جو کمزوری ہے اس پر سکوت کرتے ہوئے فضائل میں اس کی روایت کرنا جائز ہے لیکن احکام میں نہیں، اگر قبول بالحدیث کا یہی معنی صحیح ہوتو یہ معنی عمل بالحدیث ہی کی طرف لوٹ جاتا ہے، کیسے؟ وہ ایسے کہ احکام کے بارے میں مروی روایات کے ضعف کو بیان کرنا اس لئے واجب وضروری ہے کہ اس پر عمل سے روکا جائے کہ احکام میں ہر چیز جائز نہیں پھر اگر غیر احکام میں بھی یہ چیز جائز نہ ہوتو ایجاب میں فضائل واحکام دونوں برابر ہوجائیں گے۔ خلاصہ یہ کہ دونوں عبارتوں میں اس امر پر دلیل کے غیر احکام میں ضعیف حدیثوں پر عمل کرنا جائز ہے

 

اب ہمارا پانچواں استدلال واضح ہوگیا اور تاریکی کھُل گئی اور تحقیق یہی ہے۔ علاوہ ازیں یہاں دو۲ اہلِ علم ایسے ہیں جن کے قلم کے قدم پھسل گئے، انہوں نے عمل بالحدیث اور قبول بالحدیث کو ایسے معنی پر محمول کیا ہے جو مراد اور قابل قبول نہیں۔ (ت)

 

احدھما العلامۃ الفاضل الخفاجی رحمہ اللّٰہ تعالٰی حیث حاول الرد علی المحقق الدوانی واوھم بظاھر کلامہ ان محلہ مااذاروی حدیث ضعیف فی ثواب بعض الامور الثابت استجابھا والترغیب فیہ اوفی فضائل بعض الصحابۃ اوالاذکار الماثورۃ قال ولاحاجۃ الی لتخصیص الاحکام والاعمال کماتوھم للفرق الظاھر بین الاعمال وفضائل الاعمال ۱؎ اھ

 

ان میں سے ایک علّامہ خفاجی رحمہ اللہ تعالٰی ہیں انہوں نے محقق دوانی کے رَدکا ارادہ کیا اور انہیں ان کے کلام کے ظاہر سے وہم ہوگیا کہ اس کا محل وہ ہے جب حدیث ضعیف ان امور کے ثواب کے بارے میں وارد ہو جن کا استحباب ثابت ہو اور اس میں ثواب کی رغبت ہویا بعض صحابہ کے فضائل یا اذکار منقولہ کے بارے میں ہوکہا: حکام واعمال کی تخصیص کی ضرورت ہی نہیں جیسا کہ وہم کیاگیا کیونکہ اعمال اور فضائل اعمال میں فرق ظاہر ہے اھ

 

 (۱؎ نسیم الریاض    تتمۃ وفاعدۃ مہمۃ فی الخطبۃ    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۱/ ۴۳)

اقول لولا ان الفاضل المدقق خالف المحقق لکان لکلامہ معنی صحیح، فان الثبوت اعم من الثبوت عینا اوباندراج تحت اصل عام ولواصالۃ الاباحۃ فان المباح یصیر بالنیۃ مستحبا ونحن لاننکران قبول الضعاف مشروط بذٰلک کیف ولولاہ لکان فیہ ترجیح الضعیف علی الصحیح وھوباطل وفاقا، فلواراد الفاضل ھذا المعنی لاصاب ولسلم من التکرار فی قولہ اوالاذکار الماثورۃ لکنہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی بصدد مخالفۃ المحقق المرحوم وقدکان المحقق انما عول علی ھذا المعنی الصحیح حیث قال المباحات تصیر بالنیۃ عبادۃ فکیف مافیہ شبھۃ الاستحباب لاجل الحدیث الضعیف والحاصل ان الجواز معلوم من خارج والاستحباب ایضا معلوم من القواعد الشرعیۃ الدالۃ علی استحباب الاحتیاط فی امرالدین فلم یثبت شیئ من الاحکام بالحدیث الضعیف بل اوقع الحدیث شبھۃ الاستحباب فصار الاحتیاط ان یعمل بہ فاستحباب الاحتیاط معلوم من قواعد الشرع ۱؎ اھ ملخصا فالظاھر من عدم ارتضائہ انہ یرید الثبوت عینا بخصوصہ ویؤیدہ تشبثہ بالفرق بین الاعمال وفضائلھا فان ارادہ فھذہ جنود براھین لاقبل لاحدبھا وقداتاک بعضھا۔

 

 (۱؎ انموذج العلوم للدوانی)

 

اقول کاش فاضل مدقق محقق دوانی کی مخالفت نہ کرتے تو ان کے کلام کا معنی درست ہوتا کیونکہ ثبوت بعض اوقات عینی ہوتا ہے اور بعض اوقات کسی عمومی اصل کے تحت ہوتا ہے اگرچہ اباحت کی اصل پر ہو کیونکہ مباح نیت سے مستحب ہوجاتا ہے اور ہم قبول ضعاف کو اس کے ساتھ مشروط ہونے کا انکار نہیں کرتے یہ کیسے ممکن ہے؟ اگر یہ بات نہ ہوتو اس میں ضعیف کو صحیح پر ترجیح لازم آتی اور وہ بالاتفاق باطل ہے، اگر فاضل مدقق بھی یہی مراد لیتے تو درست تھا اور اپنے قول ''اوالاذکار الماثورۃ'' کے تکرار سے محفوظ ہوجاتے، لیکن فاضل رحمۃ اللہ علیہ محقق کی مخالفت کے درپے تھے اور محقق نے اسی معنی صحیح پر اعتماد کیا تھا چنانچہ کہا کہ مباحات نیت سے عبادت قرار پاتے ہیں تو اس کا کیا حال ہوگا جس کے استحباب میں حدیث ضعیف کی وجہ سے شُبہہ ہو؟ حاصل یہ ہے کہ جواز خارج سے معلوم ہوتا ہے اور استحباب بھی ایسے قواعد شرعیہ سے معلوم ہوتا ہے جو امر دین میں احتیاطاً استحباب پر دال ہیں، پس احکام میں سے کوئی بھی حکم حدیث ضعیف سے ثابت نہ ہوگا بلکہ حدیث استحباب کا شبہہ پیدا کردے گی لہذا احتیاطاً اسی پر عمل کرنا ہوگااور احتیاطاً استحباب پر عمل قواعد شرع سے معلوم ہوا ہے اھ ملخصا ان کی عدم پسندیدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ثبوت سے مراد صرف عینی لیا ہے اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ انہوں نے اس پر استدلال اعمال اور فضائل اعمال کے فرق سے کیا ہے اگر انہوں نے یہی مراد لیا ہے تو یہ دلائل کا انبار ہے جس کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا اور بعض کا ذکر آپ تک پہنچ گیا۔ (ت)

 

عہ: ویکدرہ ایضا علی ماقیل مغایرۃ العلماء بین فضائل الاعمال والترغیب علی ماھو الظاھر من کلامھم فلفظ ابن الصلاح فضائل الاعمال وسائر فنون الترغیب والترھیب وسائر مالاتعلق لہ بالاحکام والعقائد ھذا توضیح ماقیل، اقول بل المراد بفضائل الاعمال الاعمال التی ھی فضائل تشھد بذلک کلمات العلماء المارۃ فی الافادۃ السابعۃ عشر کقول الغنیۃ والقاری والسیوطی وغیرھم کمالاینھی علی من لہ اولٰی مسکۃ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

اسے یہ بات بھی رد کرتی ہے کہ علماء کی عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ فضائلِ اعمال اور ترغیب ایک شَے نہیں، ابن صلاح کے الفاظ یہ ہیں کہ فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب کے معاملات اور وہ چیزیں جن کا تعلق احکام وعقائد سے نہیں ہے یہ ماقیل کی وضاحت ہے اقول (میں کہتا ہوں) بلکہ اس سے مراد وہ فضائلِ اعمال میں جن کی شہادت علماء کا کلام دیتا ہے جو کہ سترھویں۱۷ افادہ میں گزرا مثلاً غنیہ، قاری اور سیوطی وغیرہ کے اقوال اور یہ بات ہر اس شخص پر مخفی نہیں جس میں ادنٰی سا شعور ہو ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

علی انی اقول اذن یرجع معنی العمل بعد الاستقصاء التام الی ترجی اجر مخصوص علی عمل منصوص ای یجوز العمل بشیئ مستحب معلوم الاستحباب مترجیا فیہ بعض خصوص الثواب لورود حدیث ضعیف فی الباب، فالآن نسألکم عن ھذا الرجاء اھو کمثلہ بحدیث صحیح ان وردام دونہ، الاول باطل فان صحۃ الحدیث بفعل لایجبر ضعف ماوردفی الثواب المخصوص علیہ وعلی الثانی ھذا القدر من الرجاء یکفی فیہ الحدیث الضعیف فای حاجۃ الٰی ورود صحیح بخصوص الفعل نعم لابد ان یکون ممایجیز الشرع رجاء الثواب علیہ وھذا حاصل بالاندراج تحت اصل مطلوب اومباح مع قصد مندوب فقد استبان ان الوجہ مع المحقق الدوانی واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

 

علاوہ ازیں میں کہتا ہوںانتہائے گفتگو کے بعد اب عمل کا معنی عمل منصوص پر اجر مخصوص کی امید دلانا ہے یعنی شیئ مستحب جس کا استحباب واضح ہے پر عمل کرنا اور اس میں خصوص ثواب کی امید کرنا جائز ہوگا اس لئے کہ اس بارے میں حدیث ضعیف موجود ہے اب ہم اس امید کے بارے میں تم سے پُوچھتے ہیں کیا یہ اسی رجاء کی مثل ہے جو حدیث صحیح کی وجہ سے ہوتی ہے اگر وہ وارد ہو یا اس سے کم درجہ کی ہے پہلی صورت باطل ہے کیونکہ صحتِ حدیث کسی ایسی روایت پر جابر نہیں ہوسکتی جو کسی مخصوص ثواب کے بیان کے لئے وارد ہو اور دوسری صورت میں اس قدر رجاء کے لئے حدیث ضعیف ہی کافی ہے تو اب کسی مخصوص فعل کے لئے حدیث صحیح کے وارد ہونے کی ضرورت نہ رہی، ہاں یہ بات ضروری ہے کہ وہ فعل ایسے اعمال میں سے ہوکہ شریعت نے اس پر ثواب کی امید دلائی ہو اور یہ حاصل ہے اصل مطلوب کے تحت اندراج کا یا مباح بقصد مندوب کا تو اب واضح ہوگیا کہ دلیل محقق دوانی کے ساتھ ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

 

ثانیھما بعض من تقدم الدوانی زعم ان مراد النووی ای بمامر من کلامہ فی الاربعین والاذکار انہ اذاثبت حدیث صحیح اوحسن فی فضیلۃ عمل من الاعمال تجوز روایۃ الحدیث الضعیف فی ھذا الباب قال المحقق بعد نقلہ فی الانموذج لایخفی ان ھذا لایرتبط بکلام النووی فضلا عن انیکون مرادہ ذلک، فکم بین جواز العمل واستحبابہ وبین مجرد نقل الحدیث فرق، علی انہ لولم یثبت الحدیث الصحیح و الحسن فی فضیلۃ عمل من الاعمال یجوز نقل الحدیث الضعیف فیھا، لاسیما مع التنبیہ علی ضعفہ ومثل ذلک فی کتب الحدیث وغیرہ شائع یشھدبہ من تتبع ادنی تتبع ۱؎ اھ

 

ان میں سے دوسرے دوانی سے پہلے کے کچھ لوگ ہیں جنہوں نے یہ گمان کیا کہ امام نووی نے اربعین اور اذکار میں جو گفتگو کی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جب کسی عمل کی فضیلت کے بارے میں حدیث صحیح یا حسن ثابت ہوتو اس کے بارے میں حدیث ضعیف کا روایت کرنا جائز ہے، محقق دوانی نے انموذج العلوم میں اسے نقل کرنے کے بعد لکھا مخفی نہ رہے کہ اس زعم کا امام نووی کے کلام کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں چہ جائیکہ یہ انکی مراد ہو کیونکہ اکثر طور پر جواز عمل واستحباب عمل اور محض نقل حدیث کے درمیان بڑا فرق ہوتا ہے، علاوہ ازیں اگر کسی عمل کی فضیلت میں حدیث صحیح یا حسن ثابت نہ بھی ہو تب بھی اس میں حدیث ضعیف کا روایت کرنا جائز ہے، خصوصاً اس تنبیہ کے ساتھ نقل کرنا کہ یہ ضعیف ہے اور اس کی مثالیں کتب حدیث اور دیگر کتب میں کثیر ہیں اور اس بات پر ہر وہ شخص گواہ ہے جس نے اس کا تھوڑا سا مطالعہ بھی کیا ہے اھ (ت)

 

(۱؎ انموذج العلوم للدوانی)

 

اقول لااری احدا ممن ینتمی الی العلم ینتھی فی الغباوۃ الی حدیحیل روایۃ الضعاف مطلقا حتی مع بیان الضعف فان فیہ خرقا لاجماع المسلمین وتاثیما بین لجمیع المحدثین وانما المراد الروایۃ مع السکوت عن بیان الوھن فقول المحقق لاسیما مع التنبیہ علی ضعفہ، لیس فی محلہ والآن نعود الی تزییف مقالتہ فنقول اوّلا ھذا الذی ابدیج ان سلم وسلم لم یتمش الافی لفظ القبول کمااشرنا الیہ سابقا فمجرد روایۃ حدیث لوکان عملا بہ لزم ان یکون من روی حدیثا فی الصلاۃ فقد صلی اوفی الصوم فقدصام وھکذا مع ان الواقع فی کلام الامام فی کلاالکتابین انما ھو لفظ العمل وھذا مااشار الیہ الدوانی بقولہ ان ھذا لایرتبط الخ

 

اقول میں ایسے کسی اہلِ علم کو نہیں جانتا جو غباوت کے اس درجہ پر پہنچ چکا ہوکہ حدیث ضعیف کا ضعف بیان کررنے کے باوجود اس کی روایت کو مطلقاً محال تصور کرتا ہو کیونکہ اس میں اجماع مسلمین کی مخالفت ہے اور واضح طور پر تمام محدثین کو گناہ کا مرتکب قرار دینا ہے، لہذا مراد یہ ہے کہ ضعف بیان کےے بغیر روایت حدیث ہوتو درست ہے لہذا محقق دوانی کا قول ''لاسیما مع التنبیہ علی ضعفہ'' بجا نہیں۔ اب ہم اس کے قول کی کمزوری کے بیان کی طرف لوٹتے ہیں: اولاً اگر یہ بیان کردہ قول اگر صحیح ہو اور اسے درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر قبول حدیث ہی اس سے مراد ہوگا جیسا کہ ہم پیچھے اشارہ کر آئے ہیں کیونکہ اگر محض روایت کا نام ہی عمل ہوتو لازم آئے گا کہ وہ شخص جس نے نماز کے بارے میں حدیث روایت کی اس نے نماز بھی ادا کی، یا اس طرح روزے کے بارے میں روایت کرنیوالے روزہ بھی رکھاہو، باوجود اس کے امام نووی کی دونوں کتب میں لفظ عمل ہے اور اسی کی طرف محقق دوانی نے اشارہ کرتے ہوئے کہا اٰن ھذا لایرتبط الخ ۔

 

وثانیا اقول قدبینا ان القبول انما مرجعہ الٰی جواز العمل وحینئذ یکفی فی ابطالہ دلیلنا المذکور خامسا مع ماتقدم۔

 

ثانیا میں کہتا ہوں کہ ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں کہ قبول کا مرجع جوازِ عمل ہے تو اب اس کے اطبال کے لئے ''خامساً'' سے ہماری مذکورہ دلیل مع مذکور گفتگو کے کافی ہے۔

 

وثالثا اذن یکون حاصل التفرقۃ ان الاحکام لایجوز فیھا روایۃ الضعاف اصلا ولووجد فی خصوص الباب حدیث صحیح اللھم الامقرونۃ ببیان الضعف اماما دونھا کالفضائل فتجوز اذاصح حدیث فیہ بخصوصہ والا لا  الا ببیان وح ماذا یصنع بالوف مؤلفۃ من احادیث مضعفۃ رویت فی السیر والقصص والمواعظ والترغیب والفضائل والترھیب وسائر مالاتعلق لہ بالعقد والحکم مع فقدان الصحیح فی خصوص الباب وعدم الاقتران ببیان الوھن وھذا مااشار الیہ الدوانی بالعلاوۃ۔

 

ثالثا اب حاصل فرق یہ ہوگا کہ احکام کے بارے میں حدیث ضعیف کی روایت جائز نہیں اگرچہ اس خصوصی مسئلہ کے بارے میں حدیث صحیح موجود ہو مگر صرف اس صورت میں جائز ہے جب اس کا ضعف بیان کردیا جائے مگر احکام کے علاوہ فضائل میں اگر اس خصوصی مسئلہ میں کوئی حدیث صحیح پائی جائے تو ضعیف کی روایت جائز ہے اگر حدیث صحیح نہ ہوتو جائز نہیں مگر بیان ضعف کے ساتھ جائز ہے اب ان ہزارہا کتب کا کیا بنے گاجن میں ایسی احادیث ضعیفہ مروی ہیں جو سِیر، واقعات، وعظ، ترغیب وترہیب، فضائل اور باقی حدیثیں جن کا تعلق عقیدہ اور احکام سے نہیں اس کے ساتھ ساتھ خاص اس مسئلہ میں کوئی حدیث صحیح بھی موجود نہ ہو اور ضعیف حدیث کا ضعف بھی بیان نہ کیاگیا ہو یہ وہ ہے جس کی طرف دوانی نے ''علاوۃ'' کے سااتھ اشارہ کیا ہے۔

 

اقول دع عنک توسع المسانید التی تسند کل ماجاء عن صحابی، والمعاجیم التی توعی کل ماوعی عن شیخ بل والجوامع التی تجمع امثل مافی الباب وردہ ان لم یکن صحیح السند ھذا الجبل الشامخ البخاری یقول فی صحیحہ حدثنا علی بن عبداللّٰہ بن جعفر ثنا معن بن عیسٰی ثنا اُبی بن عباس بن سھل عن ابیہ عن جدہ قال کان للنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی حائطنا فرس یقال لہ اللحیف ۱؎ اھ

 

اقول ان مسانید کی وسعت کو چھوڑئےے جو صحابی سے روایات بیان کرتی ہیں اور معاجیم جو شیخ سے محفوظ شدہ احادیث کی حفاظت کرتی ہیں بلکہ جوامع جو اس باب میں وارد شدہ احادیث میں اعلٰی قسم کی روایات جمع کرتی ہیں اگرچہ سند صحیح نہ ہو مثلاً حدیث کے عظیم پہاڑ امام بخار اپنی صحیح میں کہتے ہیں ہمیں علی بن عبداللہ بن جعفر نے حدیث بیان کی، ہمیں معن بن عیسٰی نے حدیچ بیان کی، ہمیں ابن عباس بن سہل نے اپنے باپ سے اپنے دادا سے حدیث بیان کی، فرمایا نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ہمارے ہمارے باغ میں ایک گھوڑا تھا جس کا نام لحیف تھا اھ۔

 

 (۱؎ صحیح البخاری    باب اسم الفرس والحمار    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۴۰۰)

 

فی تذھیب التھذیب للذھبی "خ ،ت،ق " ابی بن عباس ۲؎ بن سھل بن سعد الساعدی المدنی عن ابیہ وابی بکر بن حزم وعنہ معن القزاز وابن ابی فدیک وزید بن الحباب وجماعۃ ۳؎۔

 

امام ذہبی نے تذہیب التہذیب میں لکھا کہ اُبی بن عباس بن سہلی بن سعد الساعدی مدنی نے اپنے والد گرامی اور ابربکر بن حزم سے روایت کیا اور ان سے معن القزار، ابن ابی فدیک، زید بن الحباب اور ایک جماعت نے روایت کیا،

 

 (۲؎ ''خ'' سے بخاری، ''ت'' سے ترمذی اور ''ق'' سے قزوینی مراد ہے۔)

(۳؎ خلاصہ تذہیب التہذیب ترجمہ نمبر ۳۲۷ من اسمہ ابی    مطبوعہ مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل        ۱/ ۶۲)

 

قال الدولا بی لیس بالقوی قلت وضعفہ ابن معین وقال احمد منکر الحدیث ۴؎ اھ وکقول الدولابی قال النسائی کمافی المیزان ولم ینقل فی الکتابین توثیقہ عن احدوبہ ضعف الدارقطنی ھذا الحدیث لاجرم ان قال الحافظ فیہ ضعف عہ قال مالہ فی البخاری غیر حدیث واحد ۵؎ اھ قلت فانما الظن بابی عبداللّٰہ انہ انما تساھل لان الحدیث لیس من باب الاحکام واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

 

دولابی کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں۔ میں کہتا ہوں اسے ابنِ معین نے ضعیف کہا اور امام احمد کے نزدیک یہ منکر الحدیث ہے اور میزان میں ہے نسائی کا قول دولابی کی طرح ہی ہے اور دونوں کتب میں اس کے بارے میں کسی کی توثیق منقول نہیں، دارقطنی نے اسی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا۔ لاجرم حافظ نے کہا ہے کہ اس میں ضعف ہے اور کہا کہ بخاری میں اس ایک حدیث کے علاوہ اس کی کوئی حدیث نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ابوعبداللہ کے بارے میں گمان ہے کہ انہوں نے تساہل سے کام لیا، کیونکہ اس حدیث کا تعلق احکام سے نہیں، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

 

عہ قلت واما اخوہ المھیمن فاضعف واضعف ضعفہ النسائی والدارقطنی وقال البخاری منکر الحدیث ای فلاتحل الروایۃ عنہ کمامر لاجرم ان قال الذھبی فی اخیہ ابی انہ واہ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (م)

میں کہتا ہوں اس کا بھائی عبدالمہیمن ہے اور وہ اضعف الضعاف ہے اسے نسائی اور دارقطنی نے ضعیف کہا، بخاری نے اسے منکر الحدیث کہا یعنی اس سے روایت کرنا جائز نہیں جیسا کہ گزرا لاجرم ذہبی نے اسے اس کے بھائی ابی کے بارے میں کہا کہ وہ نہایت ہی کمزور ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۴؎ میزان الاعتدال فی نقدالرجال ترجمہ نمبر ۲۷۳ من اسمہ ابی    مطبوعہ  دارالمعرفۃ بیروت    ۱/ ۷۸)

نوٹ:    تذہیب التہذیب نہ ملنے کی وجہ سے اس کے خلاصے اور میزان الاعتدال دو۲ کتابوں سے یہ نقل گیا ہے۔

(۵؎ تقریب التہذیب    ذکر من اسمہ ابی    مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی    ص ۱۷)

 

ورابعاً اقول قدشاع وذاع ایراد الضعاف فی المتابعات والشواھد فالقول بمنعہ فی الاحکام مطلقا وان وجد الصحیح باطل صریح وح یرتفع الفرق وینھدم اساس المسئلۃ المجمع علیھا بین علماء المغرب والشرق، لااقول عن ھذا وذاک بل عن ھذین الجبلین الشامخین صحیحی الشیخین فقد تنزلا کثیرا عن شرطھما فی غیرالاصول قال الامام النووی فی مقدمۃ شرحہ لصحیح مسلم عاب عائبون مسلما رحمہ اللّٰہ تعالٰی بروایتہ فی صحیحہ عن جماعۃ من الضعفاء والمتوسطین الواقعین فی الطبقۃ الثانیۃ الذین لیسوا من شرط الصحیح ولاعیب علیہ فی ذلک بل جوابہ من اوجہ ذکرھا الشیخ الامام ابوعمر وبن الصلاح (الٰی ان قال) الثانی انیکون ذلک واقعا فی المتابعات والشواھد لافی الاصول وذلک بان یذکر الحدیث اولا باسناد نظیف رجالہ ثقات ویجعلہ اصلا ثم اتبعہ باسناد اٰخرا واسانید فیھا بعض الضعفاء علی وجہ التاکید بالمتابعۃ اولزیادۃ فیہ تنبہ علی فائدۃ فیما قدمہ وقداعتذر الحاکم ابوعبداللّٰہ بالمتابعۃ والاستشھاد فی اخراجہ من جماعۃ لیسومن شرط الصحیح منھم مطر الوراق وبقیۃ بن الولید ومحمد بن اسحاق بن یساور وعبداللّٰہ بن عمر العمری والنعمان بن راشد اخرج مسلم عنھم فی الشواھد فی اشباہ لھم کثیرین انتھی ۱؎۔

 

رابعاً میں کہتا ہوں کہ متابع اور شواہد میں احادیث ضعیفہ کا ایراد شائع اور مشہور ہے لہذا حدیث صحیح کی موجودگی میں احکام کے بارے میں حدیث ضعیف کے مطلقاً روایت کرنے کو منع کرنا صریحاً باطل ہے، او راس صورت میں فرق مرتفع ہوجاتا ہے اور اس مسئلہ کی اساس جس پر علماءِ مشرق ومغرب کا اتفاق ہے گر کر ختم ہوجاتی ہے یہ میں اس یا اُس (یعنی عام آدمی) کی بات نہیں کرتا بلکہ علم حدیث کے دوبلند اور مضبوط پہاڑ بخاری ومسلم کی صحیحین کہ وہ اصول کے علاوہ میں اپنے شرائط سے بہت زیادہ تنزل میں آگئیں، امام نووی نے مقدمہ شرح صحیح مسلم میں فرمایا کہ عیب لگانے والوں نے مسلم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ پر یہ طعن کیا کہ انہوں نے اپنی کتاب میں بہت سے ضعیف اور متوسط راویوں سے روایت لی ہے جو دوسرے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور صحیح کی شرط پر نہیں، حالانکہ اس معاملہ میں ان پر کوئی طعن نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا کئی طریقوں سے جواب دیا گیا ہے جنہیں امام ابوعمرو بن صلاح نے ذکر کیا (یہاں تک کہ کہا) دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ بات ان روایات میں ہے جنہیں بطور متابع اور شاہد ذکر کیا گیا ہے اصول میں ایسا نہیں کیا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک ایسی حدیث ذکر کی جس کی سند درست ہو اور تمام راوی ثقہ ہوں اور اس حدیث کو اصل قرار دے کر اسکے بعد بطور تابع ایک اور سند یا متعدد اسناد ایسی ذکر کی جائیں جن میں بعض راوی ضعیف ہوں تاکہ متابعت کے ساتھ تاکید ہو یا کسی اور مذکور فائدے پر تنبیہ کا اضافہ مقصود ہو، امام حاکم ابوعبداللہ نے عذر پیش کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ جن میں صحیح کی شرط نہیں ان کو بطور تابع اور شاہد روایت کیاگیا ہے، اور ان روایت کرنے والوں میں یہ محدثین ہیں مطرالوراق، بقیۃ بن الولید، محمد بن اسحٰق بن یسار، عبداللہ بن عمر العمری اور نعمان بن راشد، امام مسلم نے ان سے شواہد کے طور پر متعدد روایات تخریج کی ہیں انتہٰی۔

 

(۱؎ المقدمۃ للامام النووی من شرح صحیح مسلم    فصل عاب عائبون مسلماً رحمہ اللہ تعالٰی    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۶)

 

وقال الامام البدر محمود العینی فی مقدمۃ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری یدخل فی المتابعۃ والاستشھاد روایۃ بعض العضعاء وفی الصحیح جماعۃ منھم ذکروا فی المتابعات والشواھد ۲؎ اھ

 

امام بدرالدین عینی نے مقدمہ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں تحریر کیا ہے کہ توابع اور شواہد میں بعض ضعفاء کی روایات بھی آئی ہیں اور صحیح میں ایک جماعت محدثین نے توابع اور شواہد کے طور پر ایسی روایات ذکر کی ہیں اھ (ت)

 

(۲؎ المقدمۃ للعینی صحیح بخاری        الثامنہ فی الفرق بین الاعتبار والمتابعۃ الخ    مطبوعہ بیروت  ۱ /۸)

 

وخامسا اقول مالی اخص الکلام بغیر الاصول ھذہ قناطیر مقنطرۃ من السقام مرویۃ فی الاصول والاحکام ان لم تروھا العلماء فمن جاء بھا وکم منھم التزموا بیان ماھنا، اما الرواۃ فلم یعھد منھم الروایۃ المقرونۃ بالبیان اللھم الانادر الداع خاص، وقد اکثروا قدیما وحدیثا من الروایۃ عن الضعفاء والمجاھیل ولم یعد ذلک قدحاً فیھم ولا ارتکاب مأثم وھذا سلیمٰن بن عبدالرحمٰن الدمشقی الحافظ شیخ البخاری ومن رجال صحیحہ قال فیہ الامام ابوحاتم صدوق الا انہ من اروی الناس عن الضعفاء والمجھولین ۱؎ اھ

 

خامسا ضعیف اور متوسط راوی کی روایت کی بات صرف غیر اصول وشواہد متابعات سے مختص کرنے کی مجھے کیا ضرورت، جبکہ کمزور اغیر صحیح روایات کا یہ ایک ذخیرہ ہے جو اصول واحکام میں مروی ہے اگر علماء ہی ان کو ذکر نہ کریں تو کون ذکر کریگا اور بہت کم ہیں جنہوں نے یہاں اس بات کا التزام کیا۔ رہا معاملہ راویوں کا تو ان کے ہاں روایت کے ساتھ بیان کا طریقہ معروف نہیں، البتہ کسی خاص ضرورت کے تقاضے کے پیش نظر بیان بھی کردیا جاتا ہے اور ان میں سلفاً وخلفاً یہ معمول ہے کہ ضعیف اور مجہول راویوں سے روایت بیان کرتے ہیں اور اس بات کو ان میں طعن وگناہ شمار نہیں کیا جاتا دیکھنے سلیمان بن عبدالرحمن ومشقی جو کہ حافظ ہیں اور امام بخاری کے استاذ ہیں اور صحیح بخاری کے راویوں میں سے ہیں ان کے بارے میں امام ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ صدوق ہے اگرچہ ان لوگوں میں سے ہے جو ضعیف اور مجہول راویوں سے بہت زیادہ روایت کرنے والے ہیں اھ۔

 

 (۱؎ میزان الاعتدال    ترجمہ سلیمان بن عبدالرحمان الدمشقی نمبر ۳۴۸۷    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۲۱۳)

 

ولوسردت اسماء الثقات الرواۃ عن المجروحین لکثر وطال فلیس منھم من التزم ان لایحدث الا عن ثقۃ عندہ الانزر قلیل کشعبۃ ومالک واحمد فی المسند ومن شاء اللّٰہ تعالٰی واحدا بعد واحد ثم ھذا ان کان ففی شیوخھم خاصۃ لامن فوقھم والا لما اتی من طریقھم ضعیف اصلا ولکان مجرد وقوعھم فی السند دلیل الصحۃ عندھم اذاصح السند الیھم ولم یثبت ھذا لاحد، وھذا الامام الھمام یقول لابنہ عبداللّٰہ لواردت ان اقتصرہ علی ماصح عندی لم ار ومن ھذا المسند الا الشیئ بعد الشیئ ولکنک یابنی تعرف طریقتی فی الحدیث انی لااخالف مایضعف الا اذاکان فی الباب شیئ یدفعہ ۲؎ ذکرہ فی فتح المغیث عہ واما المصنفون فاذا عدوت امثال الثلٰثۃ للبخاری ومسلم والترمذی ممن التزم الصحۃ والبیان الفیت عامۃ المسانید والمعاجیم والسنن والجوامع والاجزاء تنطوری فی کل باب علی کل نوع من انواع الحدیث من دون بیان ،

 

اگر میں ان ثقہ محدثین کے نام شمار کروں جنہوں نے مجروح راویوں سے روایت کی ہے تو یہ داستان طویل ہو اور ان میں کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جس نے یہ التزام کیا ہوکہ وہ اسی سے روایت کرے گا جو اس کے نزدیک ثقہ ہو مگر بہت کم محدثین مثلاً شعبہ، امام مالک اور احمد نے مسند میں اور کوئی اِکّا دُکّا جس کو اللہ تعالٰی نے توفیق دی، پھر ان کے ہاں بھی یہ معاملہ ان کے اپنے شیوخ تک ہی ہے اس سے اوپر نہیں ورنہ ان کی سند سے کوئی ضعیف حدیث مروی نہ ہوتی اور محدثین کے ہاں ان میں سے کسی کا سند میں آجانا صحتِ حدیث کے لئے کافی ہوتا ہے جبکہ صحت کے ساتھ سندان تک پہنچی ہو حالانکہ یہ بات کسی ایک کے لئے بھی ثابت نہیں، یہ امام احمد اپنے بیٹے عبداللہ کو فرماتے ہیں: اگر میں اس بات کا ارادہ کرتا کہ میں ان ہی احادیث کی روایت پر اکتفا کروں گا جو میرے ہاں صحیح ہیں تو پھر اس مسند میں بہت کم احادیث روایت کرتا، مگر اے میرے بیٹے! تُو روایت حدیث میں میرے طریقے سے آگاہ ہے کہ میں حدیث ضعیف کی مخالفت نہیں کرتا مگر جب اس باب میں مجھے کوئی ایسی شیئ مل جائے جو اسےرَد کردے یہ فتح المغیث میں مذکور ہے، باقی رہیں محدثین کی تصنیفات تو اگر آپ امثال الکتب بخاری ومسلم اور ترمذی تینوں کتابوں کو سے تجاوز کریں جنہوں نے صحت وبیان کا التزام کرر رکھا ہے تو آپ اکثر مسانید، معاجیم، سنن، جوامع اور اجزا کے ہر باب میں ہر قسم کی احادیث بغیر بیان کے پائیں گے

 

عہ:  اواخر القسم الثانی الحسن ۱۲ منہ (م)

 

 (۲؎ فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث    القسم الثانی        الحسن دارالامام الطبری بیروت    ۱/ ۹۶)

 

وھذا مما لاینکرہ الاجاھل اومتجاھل فان ادعی مدع انھم لایستحلون ذلک فقد نسبہم الی افتخام مالایبیحون وان زعم زاعم انھم لایفعلون ذلک فھم بصنیعھم علی خلفہ شاھدون وھذا ابوداؤد الذی الین لہ الحدیث کماالین لداود علیہ الصلاۃ والسلام الحدید، قال فی رسالتہ الٰی اھل مکۃ شرفھا اللّٰہ تعالٰی ان ماکان فی کتابی من حدیث فیہ وھن شدید فقدبینتہ ومنہ مالایصح سندہ ومالم اذکر فیہ شیئا فھو صالح وبعضھا اصح من بعض ۱؎ اھ۔

 

اس بات کا انکار جاہل یا متجاہل ہی کرسکتا ہے اور اگر کوئی دعوٰی کرے کہ محدثین کے ہاں یہ جائز نہیں تو یہ ان کی طرف ایسی بات کی نسبت کرنا ہے جس سے لازم آتا ہے کہ ایسا عمل کرتے ہیں جسے وہ جائز نہ سمجھتے تھے اور اگر کوئی یہ زعم رکھتا ہوکہ وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کا عمل اس کے برخلاف خود شاہد ہے، امام ابوداؤد کو ہی لیجئے ان کے لئے حدیث اسی طرح آسان کردی گئی جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے لوہا نرم ہوجاتا تھا، اہل مکہ ''شرفہا اللہ تعالٰی'' کی طرف خط میں لکھا: میری کتاب (سنن ابی داؤد) میں جن بعض احادیث کے اندر نہایت سخت قسم کا ضعف ہے اس کو میں نے بیان کردیا ہے، اور بعض ایسی ہیں کہ ان کی سند صحیح نہیں اور جس کے بارے میں میں کچھ ذکر نہ کروں وہ استدلال کے لئے صالح ہیں اور بعض احادیث دوسری بعض کے اعتبار سے اصح ہیں اھ۔

 

 (۱؎ مقدمہ سنن ابی داؤد، فصل ثانی    آفتاب عالم پریس لاہور        ص۴)

 

والصحیح ماافادہ الامام الحافظ ان لفظ صالح فی کلامہ اعم من ان یکون للاحتجاج اوللاعتبار فما ارتقی الی الصحۃ ثم الی الحسن فھو بالمعنی الاول وماعداھما فھو بالمعنی الثانی وماقصر عن ذلک فھو الذی فیہ ومن شدید ۲؎ اھ وھذا الذی یشھدبہ الواقع فعلیک بہ وان قیل وقیل (عہ)۔

 

اور صحیح وہ ہے جس کا امام حافظ نے افادہ فرمایا ہے کہ ابوداؤد کے کلام میں لفظ صالح استدلال اور اعتبار دونوں کو شامل ہے، پس جو حدیث صحت پھر حسن کے درجہ پر پہنچے وہ معنی اول کے لحاظ سے صالح ہے اور جو ان دونوں کے علاوہ ہے وہ معنی ثانی کے لحاظ سے صالح ہے اور جو اس سے بھی کم درجہ پر ہے وہ ایسی ہوگی جس میں ضعفِ شدید ہے اھ نفس الامر اس پر شاہد ہے اور تجھ پر یہی لازم ہے اگرچہ قبل کے طور پر کیا گیا ہے۔

 

 (۲؎ ارشاد الساری بحوالہ حافظ ابن حضر    مقدمہ کتاب    دارالکتاب العربی بیروت    ۱ /۸)

 

عہ :  ای قیل حسن عندہ واختارہ الامام المنذری وبہ جزم ابن الصلاح فی مقدمتہ وتبعہ الامام النووی فی التقریب ای وقد لایکون حسنا عندغیرہ کمافی ابن الصلاح وقیل صحیح عندہ ومشی علیہ الامام الزیلعی فی نصب الرایۃ عنہ ذکر حدیث القلتین وتبعہ العلامہ حلبی فی الغنیۃ فی فصل فے التوافل وکذلک یقال ھھنا انہ قدلایصح عند غیرہ بل ولایحسن واما الامام ابن الھمام فی الفتح اھل الکتاب وتلمیذہ فی الحلیۃ قبیل صفۃ الصلاۃ فاقتصرا علی الحجیۃ وھی تشملھما فیقرب من قول من قال حسن وھذا الذی ذکرہ الحافظ وتبعہ فیہ العلامۃ القسطلانی فی مقدمۃ الارشاد وختم الحفاظ فی التدریب فی فروع فی الحسن قال لکن ذکر ابن کثیر انہ روی عنہ ماسکت عنہ فھو حسن فان صح ذلک فلااشکال ۱؎ اھ اقول لقائل ان یقول ان للحسن اطلاقات وان القدماء قل ماذکروہ وانما الترمذی ھو الذی شھرہ وامرہ فاید ربنا انہ ان صح عنہ ذلک لم یرد بہ الاھذا لا الذی استقر علیہ الاصطلاح فافھم واللّٰہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ (م)

 

یعنی بعض نے کہا کہ اس کے نزدیک وہ حسن ہے، اسے امام منذری نے اختیار کیا، اسی پر ابن صلاح نے مقدمہ میں جزم کیا اور امام نووی نے تقریب میں اسی کی اتباع کی یعنی کبھی اس کے غیر کے ہاں وہ حسن نہیں ہوتی جیسے کہ مقدمہ ابن صلاح میں ہے، اور بعض نے کہا کہ اس کے نزدیک وہ صحیح ہے، امام زیلعی نصب الرایہ میں قلتین والی حدیث کے ذکر میں اسی پر چلے ہیں۔ اور علّامہ حلبی نے غنیۃ المستملی کی فصل فی النوافل میں اسی کی اتباع کی ہے اور اسی طرح یہاں کہا جائے گا یعنی کبھی اس کے غیر کے ہاں وہ صحیح نہیں بلکہ حسن بھی نہیں ہوتی۔ امام ابن ہمام نے فتح القدیر ابتدائے کتاب میں اور ان کے شاگرد نے حلیۃ المحلی میں صفۃ الصلٰوۃ سے تھوڑا پہلے اس کے صحیح ہونے پر اقتصار کیا ہے اور یہ بات ان دونوں اقوال کو شامل ہے پس یہ اس کے قول کے قریب ہے جس نے کہا وہ حسن ہے یہ وہ ہے جس کا ذکر حافظ نے کیا ہے اور مقدمہ ارشاد الساری میں علامہ قسطلانی نے اسی کی اتباع کی ہے اور تدریب میں خاتم الحفاظ نے بیان فروع فی الحسن، لیکن ابن کثیر نے کہا کہ ان سے ہے کہ جس پر انہوں نے سکوت کیا، وہ حسن ہے۔ پس اگر یہ صحیح ہوتو کوئی اشکال باقی نہیں رہتا اھ اقول (میں کہتا ہوں) کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ حسن کے تو مختلف اطلاقات ہیں بہت کم قدماء نے اس کا ذکر کیا ہے صرف امام ترمذی نے اس کو شہرت دی اور اس کا اجراء کیا، پس اللہ رب العزت نے ہماری تائید فرمائی کہ اگر ان سے یہ بات صحت کے ساتھ ثابت ہوجائے تو انہوں نے اس سے یہی مراد لی ہے نہ وہ جس پر اصطلاح قائم ہوچکی ہے واللہ تعالٰی اعلم ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ تدریب الراوی شرح تقریب النووی    فروع فی الحسن    دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۱۶۸)

 

وقدنقل عن اعلام سیرا النبلاء للذھبی ان ماضعف اسنادہ لنقص حفظ اوید فمثل ھذا یسکت عنہ ابوداود غالبا ۱؎ الخ۔اور امام ذہبی کی اعلام سیر النبلا سے منقول ہے کہ جس حدیث کی سند ضعیف اس کے راوی کا حفظ ناقص ہونے کی وجہ سے ہوتو ایسی حدیث کے بارے میں ابوداؤد سکوت اختیار کرتے ہیں الخ۔

 

 (۱؎ سیر اعلام النبلاء    ترجمہ نمبر ۱۱۷    ابوداؤد بن اشعت    مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱۳ /۲۱۴)

 

ومعلوم ان کتاب ابی داؤد انما موضوعہ الاحکام وقدقال فی رسالتہ انمالم اصنف فی کتاب السنن الا الاحکام ولم اصنف فی الزھد وفضائل الاعمال وغیرھا ۲؎ الخ ۔اور یہ بات معلوم ہے کہ ابوداؤد شریف کا موضوع احکام ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے رسالہ میں یہ بات کہی ہے میں نے یہ کتاب احکام ہی کے لئے لکھی ہے زہد اور فضائل اعمال وغیرہ کے لئے نہیں الخ۔

 

 (۲؎ رسالہ مع سنن ابی داؤد    الفصل الثانی فی الامور التی تعلق بالکتاب    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۵)

 

وقال الشمس محمدن السخاوی فی فتح المغیث اما حمل ابن سید الناس فی شرحہ الترمذی قول السلفی علی مالم یقع التصریح فیہ من مخرجھا وغیرہ بالضعف، فیقتضی کما قال الشارح فی الکبیر ان ماکان فی الکتب الخمسۃ مسکونا عنہ ولم یصرح بضعفہ ان یکون صحیحا، ولیس ھذا الاطلاق صحیحا بل فی کتب السنن احادیث لم یتکلم فیھا الترمذی او ابوداود ولم ینجد لغیرھم فیھا کلاما ومع ذلک فھی ضعیفۃ ۳؎ اھ۔

 

اور شمس محمد سخاوی نے فتح المغیث میں بیان کیا ہے کہ ابن سید الناس نے اپنی شرح ترمذی نے قول سلفی کو ایسی حدیث پر محمول کیا ہے جس کے بارے میں اس کے مخرج وغیرہ کی ضعف کے ساتھ تصریح واقع نہیں ہوئی۔ پس اس کا تقاضا ہے جیسا کہ شارح نے کبیر میں کہا کہ کتب خمسہ میں جس حدیث پر سکوت اختیار کیا گیا ہو اور اس کے ضعف کی تصریح نہ کی گئی ہو وہ صحیح ہوگی حالانکہ یہ اطلاق صحیح نہیں کیونکہ کُتبِ سنن میں ایسی احادیث موجود ہیں جن پر ترمذی یا ابوداؤد نے کلام نہیں کیا اور نہ ہی کسی غیر نے ہمارے علم کے مطابق ان میں گفتگو کی ہے اسکے باوجود وہ احادیث ضعیف ہیں اھ ۔

 

 (۳؎ فتح المغیث شرح الفیۃ     الحدیث للسخاوی    القسم الثانی الحسن دارالامام الطبری بیروت        ۱/ ۱۰۰ و ۱۰۱)

 

وقال فی المرقاۃ  الحق ان فیہ ''ای فی مسند الامام لمحمد رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ'' احادیث کثیرۃ ضعیفۃ وبعضھا اشد فی الضعف من بعض ۴؎ الخ ۔

 

اور مرقات میں فرمایا: حق یہ ہے کہ اس یعنی مسند احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ میں بہت سی احادیث ایسی ہیں جو ضعیف ہیں اور بعض دوسری بعض کے اعتبار سے زیادہ ضعیف ہیں الخ ۔

 

 (۴؎ مرقات شرح مشکوٰۃ المصابیح    شرط البخاری ومسلم الذی التزماہ الخ    مطبوہع مکتبہ امداد ملتان    ۱/ ۲۳)

 

ونقل بعیدہ عن شیخ الاسلام الحافط انہ قال لیست الاحادیث الزائدۃ فیہ علی مافی الصحیحین باکثر ضعفا من الاحادیث الزائدۃ فی سنن ابی داؤد والترمذی علیھا وبالجملۃ فالسبیل واحد فمن اراد الاحتجاج بحدیث من السنن لاسیما سنن ابن ماجۃ ومصنف ابن ابی شیبۃ وعبدالرزاق مما الامر فیہ اشد او بحدیث من المسانید لان ھذہ کلھا لم یشترط جامعوھا الصحۃ والحسن وتلک السبیل ان المحتج انکان اھلا للنقل والتصحیح فلیس لہ ان یحتج بشیئ من القسمین حتی یحیط بہ وان لم یکن اھلا لذلک فان وجد اھلا لتصحیح اوتحسین قلدہ والا فلایقدم علی الاحتجاج فیکون کحاطب لیل فلعہ یحتج بالباطل وھو لایشعر ۱؎ اھ۔

 

اور تھوڑا سا اس کے بعد شیخ الاسلام حافظ سے نقل کیا کہا کہ اس میں (یعنی مسند احمد بن حنبل میں صحیحین پر جو زائد احادیث ہیں وہ سنن ابی داؤد اور ترمذی میں صحیحین پر زائد احادیث سے زیادہ ضعیف نہیں ہیں۔ الغرض راستہ ایک ہی ہے اس شخص کے لئے جو احادیث سنن سے استدلال کرنا چاہتا ہے خصوصا سنن ابن ماجہ، مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق۔ کیونکہ ان میں بعض کا معاملہ سخت ہے یا استدلال ان احادیث سے جو مسانید میں ہیں کیونکہ ان کے جامعین نے صحت وحسن کی کوئی شرط نہیں رکھی اور وہ راستہ یہ ہے کہ استدلال کرنے والا اگر نقل وتصحیح کا اہل ہے تو اس کے لئے ان سے استدلال کرنا اس وقت درست ہوگا جب ہر لحاظ سے دیکھ پرکھ لے اور اگر وہ اس بات کا اہل نہیں تو اگر ایسا شخص پائے جو تصحیح وتحسین کا اہل ہے تو اس کی تقلید کرے اور اگر ایسا شخص نہ پائے تو وہ استدلال کے لئے قدم نہ اٹھائے ورنہ وہ رات کو لکڑیاں اکٹھی کرنے والے کی طرح ہوگا، ہوسکتا ہے وہ باطل کے ساتھ استدلال کرلے اور اسے اس کا شعور نہ ہو  اھ۔

 

 (۱؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ المصابیح    شرط البخاری ومسلم الذی التزماہ الخ    مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان        ۱/ ۲۳)

 

وقال الامام عثمٰن الشھرزوری فی علوم الحدیث حکی ابوعبداللّٰہ بن مندۃ الحافظ انہ سمع محمد بن سعد الباوردی بمصر یقول کان من مذہب ابی عبدالرحمٰن النسائی ان یخرج عن کل من لم یجمع علی ترکہ، وقال ابن مندۃ وکذلک ابوداؤد السجستانی یاخذ ماخذہ ویخرج الاسناد الضعیف اذالم یجد فی الباب وغیرہ لانہ اقوی عندہ من رای الرجال ۲؎ اھ وفیھا بعیدہ ثم فی التقریب والتدریب وھذا لفظھا ملخصا۔

 

اور امام عثمان شہرزوری نے علوم الحدیث میں فرمایا: ابوعبداللہ بن مندہ حافظ نے بیان کیا کہ انہوں نے مصر میں محمد بن سعد باروردی سے یہ کہتے ہُوئے سُنا ''ابوعبدالرحمن نسائی کا مذہب یہ ہے کہ ہر اس شخص سے حدیث کی تخریج کرتے ہیں جس کے ترک پر اجماع نہ ہو، اور ابن مندہ نے کہا، اسی طرح ابوداؤد سجستانی اس کے ماخذ کو لیتے اور سند ضعیف کی تخریج کرتے ہیں جبکہ اس باب میں اس کے علاوہ کوئی دوسری حدیث موجود نہ ہو کیونکہ ان کے نزدیک وہ لوگوں کی رائے وقیاس سے قوی ہے اھ اور اس میں تھوڑا سا بعد میں ہے پھر تدریب وتقریب میں ہے اور یہ الفاظ ملخصاً ان دونوں کے ہیں،

 

 (۲؎ مقدمۃ ابن الصلاح        النوع الثانی فی معرفۃ الحسن        مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۱۸)

 

اما مسند الامام احمد بن حنبل وابی داؤد الطیالسی وغیرھما من المسانید کمسند عبیداللّٰہ بن موسٰی واسحٰق بن راھویہ والدارمی وعبدبن حمید وابویعلی الموصلی والحسن بن سفین وابی بکر ن البزار فھؤلاء عادتھم ان یخرجوا فی مسند کل صحابی ماورد من حدیثہ غیر مقیدین بان یکون محتجا بہ اولا ۱؎ الخ وفیہ اعنی التدریب قیل ومسند البزار یبین فیہ الصحیح من غیرہ قال العراقی ولم یفعل ذلک الا قلیلا ۲؎ وفی البنایۃ عہ۱  شرح الھدایۃ للعلامۃ الامام البدر العینی الدارقطنی کتابہ مملومن الاحادیث الضعیفۃ والشاذۃ والمعللۃ وکم فیہ من حدیث لایوجد فی غیرہ ۳؎ اھ وذکر اشد منہ للخطیب ونحوہ للبیہقی۔

 

مسند امام احمد بن حنبل، ابوداؤد طیالسی اور ان کے علاوہ دیگر مسانید مثلاً مسند عبیداللہ بن موسٰی، مسند اسحٰق بن راہویہ، مسند دارمی، مسند عبد بن حمید، مسند ابویعلی موصلی، مسند حسن بن سفیان، مسند ابوبکر بزار ان تمام کا طریقہ یہی ہے کہ مسند میں ہر صحابی سے مروی حدیث بیان کردیتے ہیں اس قید سے بالاتر ہوکر کہ یہ قابلِ استدلال ہے یا نہیں الخ اور اس یعنی تدریب میں ہے کہ بیان کیا گیا ہے کہ مسند بزاار وہ ہے جس میں احادیث صحیحہ کو غیر صحیحہ سے جُدا بیان کیا جاتا ہے۔ عراقی کہتے ہیں کہ ایسا انہوں نے بہت کم کیا ہے۔ امام بدرالدین عینی نے بنایہ شرح ہدایہ میں تصریح کی ہے کہ دارقطنی کتاب احادیث ضعیفہ، شاذہ اور معللہ سے پُر ہے اور بہت سی احادیث اس میں ایسی ہیں جو اس کے غیر میں نہیں پائی جاتیں اھ اور خطیب کے لئے اس سے بڑھ کر شدت کا ذکر ہے اور اسی کی مثل بہیقی کے لئے ہے ۔

 

عہ۱ :فی مسئلۃ الجھر فی البسملۃ ۱۲ منہ (م)           بسم اللہ کو جہراً پڑھنے کے مسئلہ میں اس کو ذکر کیا ہے (ت)

 

 (۱؎ تدریب الراوی شرح التقریب النواوی   مرتبۃ المسانید من الصحۃ    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور  ۱ /۱۷۱)

(۲؎تدریب الراوی شرح التقریب النواوی   اول من صنف مسندا    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۱۷۴)

(۳؎ البنایۃ شرح الہدایۃ        باب صفۃ الصلٰوۃ    مطبوعہ ملک سنز کارخانہ بازار فیصل آباد    ۱ /۶۲۸)

 

وفی فتح المغیث عہ۲ یقع ایضا فی صحیح ابی عوانۃ الذی عملہ مستخرجا علی مسلم احادیث کثیرۃ زائدۃ علی اصلہ وفیھا الصحیح والحسن بل والضعیف ایضا فینبغی التحرز فی الحکم علیھا ایضا ۱؎ اھ نصوص العلماء فی ھذا الباب کثیرۃ جدا وما اوردنا کاف فی ابانۃ ماقصدنا، وبالجملۃ فروایتھم الضعاف من دون بیان فی کل باب وان لم یوجد الصحیح معلوم مقرر لایرد ولاینکر، وانما اطنبنا ھھنا لماشممنا خلافہ من کلمات بعض الجلۃ،

 

اور فتح المغیث میں ہے کہ صحیح ابو عوانہ جو مسلم پر احادیث کا استخراج کرتے ہُوئے اصل پر بہت کچھ زائدہ احادیث نقل کی ہیں ان میں صحیح، حسن بلکہ ضعیف بھی ہیں لہذا ان پر حکم لگانے سے خوب احتراز واحتیاط چاہے اھ علماء کی تصریحات اس معاملہ میں بہت زیادہ ہیں اور جو ہم نے نقل کردی ہیں ہمارے مقصود کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں، الغرض محدثین نے ضعیف احادیث بغیر نشاندہی کے ہر مسئلہ میں ذکر کی ہیں اگرچہ اس مسئلہ میں کوئی صحیح حدیث نہ پائی گئی ہو اور یہ بات معلوم ومسلّم ہے، نہ اسے رَد کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کا انکار ممکن ہے۔ ہم نے یہ طویل گفتگو اس لئے کردی ہے کہ بعض بزرگوں کے کلام سے ہم نے اس کے خلاف محسوس کیا تھا۔

 

عہ۲ :فی الصحیح الزائد علی الصحیحین۔ (م)       صحیحین پر زائد صحیح کے بیان میں اسے ذکر کیا ہے (ت)

 

 (۱؎ فتح المغیث    الصحیح الزائد علی الصحیحین دارالامام الطبری بیروت    ۱/ ۴۳)

 

والحمد للّٰہ علی کشف الغمۃ وتبثیت القدم فی الزلۃ فاستبان ان لوکان المراد مازعم ھذا الذی نقلنا قولہ لکانت التفرقۃ بین الاحکام والضعاف قدانعدمت، والمسألۃ الاجماعیۃ من اساسھا قدانھدمت ھذا وجہ ولک ان تسلک مسلک ارخاء العنان وتقول علی وجہ التشقق ان الحکم الذی رویت فیہ الضعاف مطلقۃ ھل یوجد فیہ صحیح ام لافان وجد فقد رووا الضعیف ساکتین فی الاحکام ایضا عند وجود الصحیح فاین الفرق وان لم یوجد فالامرا شد فان التجأ ملتج الی انھم یعدون سوق الاسانید من البیان ای فلم یوجد منھم روایۃ الضعاف فے الاحکام الامقرونۃ:

 

اللہ تعالٰی کے لئے ہی حمد ہے جس نے تاریکی دُور کردی اور پھسلنے کے مقام پر ثابت قدم رکھا پس اب یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر ان کی مراد وہی ہے جو ہم نے ان کا قول نقل کیا تو پھر احکام اور ضعاف کے درمیان تفریق ختم ہوگی اور اجماعی مسئلہ کی بنیاد منہدم ہوگئی ایک تو یہ توجیہ ہے اور ایک دوسری آسان راہ اختیار کرتے ہوئے علی وجہ التشقق یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ حکم جس کے بارے میں مطلقاً ضعیف حدیثیں مروی ہوں دیکھا جائیگا اس میں کوئی صحیح حدیث پائی جاتی ہے انہیں اگر حدیث صحیح پائی جائے تو لازم آیا کہ انہوں نے حدیث ضعیف احکام میں بھی صحیح کے ہوتے ہوئے سکوتاً روایت کی ہے تو اب فرق کہاں ہے؟ اور اگر موجود نہ ہوتو معاملہ اس سے بھی زیادہ شدید ہے اگر معترض یہ کہہ دے کہ محدثین سوقِ سند کو ہی بیان قرار دیتے ہیں، پس اس صورت میں احکام میں ضعیف حدیثوں کی روایت سکوتاً نہ ہوگی بلکہ بیان کے ساتھ ہوگی تو اس کے جواب میںـ:

 

قلت اوّلاً : ھذا شیئ قد یبدیہ بعض العلمآء عذرا ممن روی الموضوعات ساکتا علیھا ثم ھم لایقبلون قال الذھبی عہ۱ فی المیزان کلام ابن مندۃ فی ابی نعیم فظیع لا احب حکایتہ ولا اقبل قول کل منھما فی الآخر بل ھما عندی مقبولان لااعلم لھما ذنبا اکبر من روایتھما الموضوعات ساکتین عنھا  ۱؎ اھ۔میں کہتا ہوں اولاً: یہ وہ چیز ہے جس کو بعض علماء نے ان لوگوں کی طرف سے عذر کے طور پر پیش کیا جو موضوعات کو سکوتاً روایت کرتے ہیں پھر انہیں قبول نہیں کرتے۔ ذہبی نے میزان میں کہا کہ ابونعیم کے بارے میں ابن مندہ کا کلام نہایت ہی رکیک ہے میں اسے بیان کرنا بھی پسند نہیں کرتا اور میں ان دونوں کا کوئی قول ایک دوسرے کے بارے میں نہیں سنتا بلکہ یہ دونوں میرے نزدیک مقبول ہیں اور میں ان کا سب سے بڑا گناہ یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے روایاتِ موضوعہ کو سکوتاً روایت کیا ہے اور انکی نشان دہی نہیں کی اھ ۔

 

عہ۱ :فی احمد بن عبداللّٰہ ۱۲ منہ (م)

احمد بن عبداللہ کے ترجمہ میں ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال للذہبی    ترجمہ نمبر ۴۳۸    احمد بن عبداللہ ابونعیم الخ    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۱/ ۱۱۱)

 

وقدقال العراقی عہ۲  فی شرح الفیتہ ان من ابرز اسنادہ منھم فھو ابسط لعذرہ اذ أحال ناظرہ علی الکشف عن سندہ وان کان لایجوزلہ السکوت علیہ ۲؎ اھ۔عراقی نے شرح الفیہ میں کہا ہے کہ ان میں سے جس نے اپنی سند کو واضح کیا تو اس نے اپنا عذر طویل کیا کیونکہ اس طرح اس نے ناظر کو سند کے حال سے آگاہ کیا ہے اگرچہ اس کے لئے اس پر سکوت جائز نہ تھا اھ۔

 

عہ ۲ : نقلہ فی التدریب نوع الموضوع قبیل التنبیھات ۱۲ منہ رضی اللّٰہ عنہ (م)

اس کو نقل کیا ہے تدریب میں نوع موضوع کے تحت تنبیہات سے کچھ پہلے۔ (ت)

 

 (۲؎ تدریب الراوی شرح التقریب     المعروفون بوضع الحدیث    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۲۸۹)

 

ثانیا: لایعھد منھم ایراد الاحادیث من ای باب کانت الامسندۃ فھذا البیان لم تنفک عنہ احادیث الفضائل ایضاً فبماذا تساھلوا فی ھذا دون ذلک۔

 

ثانیا: ان کے ہاں ہر باب میں یہ معروف ہے کہ اس میں مسند احادیث لائی جائیں گی تو اس بیان سے احادیث فضائل بھی الگ نہیں، پھر ان میں تساہل کیوں اور دُوسری روایات میں نہ ہو۔

 

ثالثاً:لوکان الاسناد وھو البیان المراد لاستحال روایۃ شیئ من الاحادیث منفکا عن البیان فان الروایۃ لاتکون الا بالاسناد، قال فی التدریب حقیقۃ الروایۃ نقل السنۃ ونحوھا واسناد ذلک الی من عزی الیہ بتحدیث واخبار وغیر ذلک ۱؎ اھ وقال عہ۱  الزرقانی تحت قول المواھب روی عبدالرزاق بسندہ الخ بسندہ ایضاح والافھو مدلول روی ۲؎ اھ وقال ایضا عہ۲  تحت  قولہ روی الخطیب بسندہ ایضاح فھو عندھم مدلول روی ۳؎ اھ واذا  انتھی الکلام بنا الی ھنا واستقرعرش التحقیق بتوفیق اللّٰہ تعالٰی علی ماھو مرادنا فلنعد الی ماکنا فیہ حامدین للّٰہ تعالٰی علی مننہ الجزیلۃ الی کل نبیہ ومصلین علی نبیہ الکریم واٰلہ وصحبہ وسائر مجیہ۔

 

ثالثاً: اگر سند بیان مراد ہی ہو تو بیان کے بغیر کوئی حدیث مروی ہی نہ ہوگی کیونکہ روایت میں سند تو ضروری ہے، تدریب میں ہے کہ حقیقت روایت سنّت وغیرہ کا نقل کرنا اور اس بات کی سند کا ذکر کرنا ہے کہ یہ فلاں نے بیان کی یا فلاں نے اس کی اطلاع دی ہے وغیرہ ذلک اھ زرقانی نے مواہب کی عبارت ''روی عبدالرزاق بسندہ الخ'' کے تحت کہا کہ بسند کا لفظ صرف وضاحت کے لئے ہے ورنہ وہ ''روی'' کا مدلول ہے اھ اور مواہب کی عبارت ''روی الخطیب بسندہ'' کے تحت یہی بات زرقانی نے کہی کہ ''بسندہ'' وضاحت ہے تو ان کے ہاں لفظ ''روی'' کا مدلول بھی یہی ہے اھ جب ہماری یہ گفتگو مکمل ہوچکی تو اللہ تعالٰی کی توفیق سے تحقیق کا اعلٰی درجہ پختہ ہوگیا اس طور پر جو ہماری مراد تھی، اب ہم واپس اس مسئلہ کی طرف لوٹتے ہیں جو ہمارا موضوع تھا اللہ تعالٰی کی بے بہا نعمتوں پر حمد کرتے ہوئے جو اس نے اپنے ہر نبی کو عطا کی ہیں اور صلاۃ وسلام پڑھتے ہوئے نبی کریم اور آپ کی آل واصحاب اور باقی محبین پر۔ (ت)

 

عہ۱ : اوائل الکتاب عند ذکر خلق نورہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ (م)   عہ۲ :فی ذکر ولادتہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ

 

 (م)  (۱؎ تدریب الراوی شرح التقریب    خطبۃ المؤلف/ وفیہا فوائد/ حد علم حدیث    مطبوعہ نشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱ /۴۰)

(۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ    المقصد الاول فی تشریف اللہ تعالٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام    مطبوعہ مطبعۃ العامرہ مصر   ۱/ ۵۵)

(۳؎شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ  المقصد الاول ذکر تزوج عبداللہ آمنہ  مطبوعہ مطبعۃ العامرہ مصر  ۱/۱۳۳)

 

افادہ بست ودوم۲۲:  (ایسے اعمال کے جواز یا استحباب پر ضعیف سے سند لانا دربارہ احکام اسے حجت بنانا نہیں) جس نے افادات سابقہ کو نظرِ غائر وقلب حاضر سے دیکھا سمجھا اُس پر بے حاجت بیان ظاہر وعیاں ہے کہ حدیث ضعیف سے فضائلِ اعمال میں استحباب یا محلِ احتیاط میں کراہت تنزیہ یا امر مباح کی تائید اباحت پر استناد کرنا اُسے احکام میں حجت بنانا اور حلال وحرام کا مثبت ٹھہرانا نہیں کہ اباحت تو خود بحکم اصالت ثابت اور استحباب تنزہ قواعد قطعیہ شرعیہ وارشاد اقدس ''کیف وقدقیل'' وغیرہ احادیث صحیحہ سے ثابت جس کی تقریر سابقاً زیور گوش سامعان ہُوئی حدیث ضعیف اس نظر سے کہ ضعف سند مستلزم غلطی نہیں ممکن کہ واقع میں صحیح ہو صرف امید واحتیاط پر باعث ہُوئی، آگے حکمِ استحباب وکراہت اُن قواعد وصحاح نے افادہ فرمایا اگر شرع مطہر نے جلب مصالح وسلب مفاسد میں احتیاط کو مستحب نہ مانا ہوتا ہرگز ان مواقع میں احکام مذکورہ کا پتا نہ ہوتا تو ہم نے اباحت، کراہت، مندوبیت جو کچھ ثابت کی دلائل صحیحہ شرعیہ ہی سے ثابت کی نہ حدیث ضعیف سے اقول تاہم از انجاکہ درود ضعیف وہ بھی نہ لذاتہ بلکہ بملاحظہ امکان صحت ترجی واحتیاط کا ذریعہ ہُوا ہے اگر اُس کی طرف تجوزاً نسبت اثبات کردیں بجا ہے اور ثبوت بالضعیف میں بائے استعانت تو ادنٰی مداخلت سے صادق، ہاں اگر دلائل شرعیہ سے ایک امر کلی کی حرمت ثابت ہو اور کوئی حدیث ضعیف اُس کے کسی فرد کی طرف بُلائے مثلاً کسی حدیث مجروح میں خاص طلوع وغروب یا استوا کے وقت بعض نماز نفل کی ترغیب آئی تو ہرگز قبول نہ کی جائے گی کہ اب اگر ہم اُس کا استحباب یا جواز ثابت کریں تو اسی حدیث ضعیف سے ثابت کریں گے اور وہ صالح اثبات نہیں یونہی اگر دلائل شرعیہ مثبت ندب یا اباحت ہوں اور ضعاف میں نہی آئی اسی وجہ سے مفید حرمت نہ ہوگی مثلاً مقرر اوقات کے سوا کسی وقت میں ادائے سنن یا معین رشتوں کے علاوہ کسی رشتہ کی عورت سے نکاح کو کوئی حدیث ضعیف منع کرے حرمت نہ مانی جائے گی ورنہ ضعاف کی صحاح پر ترجیح لازم آئے بحمداللہ یہ معنی ہیں کلام علماء کے کہ حدیث ضعیف دربارہ احکام حلال وحرام معمول بہ نہیں۔

ثم اقول اصل یہ ہے کہ مثبت وہ جو خلاف اصل کسی شَے کو ثابت کرے کہ جو بات مطابق اصل ہے خود اسی اصل سے ثابت، ثابت کیا محتاجِ اثبات ہوگا ولہذا شرع مطہر میں گواہ اس کے مانے جاتے ہیں جو خلاف اصل کا مدعی ہو اور ماورائے دماء وفروج ومضار وخبائث تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے تو ان میں کسی فعل کے جواز پر حدیث ضعیف سے استناد کرنا حلت غیر ثابتہ کا اثبات نہیں بلکہ ثابتہ کی تائید ہے،

 

ھذا تحقیق مااسلفنا فی الافادۃ السابقۃ عن المحقق الدوانی، وھذا ھو معنی مانص علیہ الامام ابن دقیق العید وسلطٰن العلماء عزالدین بن عبدالسلام وتبعھما شیخ الاسلام الحافظ ونقلہ تلمیذہ السخاوی فی فتح المغیث وفی قول البدیع والسیوطی فی التدریب والشمس محمد الرملی فی شرح المنھاج النووی، ستھم من الشافعیۃ، ثم اثرہ عن الرملی العلامۃ الشرنبلالی فی غنیۃ ذوی الاحکام والمحقق المدقق العلائی فی الدرالمختار واقراہ ھما ومحشو الدر الحلبی والطحطاوی والشامی فیھا وفی منحۃ الخالق خمستھم من الحنفیۃ، من اشتراط العمل بالضعیف باندراجہ تحت اصل عام، وھو اذا حققت لیس بتقیید زائد بل تصریح بمضمون مانصوا علیہ ان العمل بہ فیما وراء العقائد والاحکام، کمااوضحناہ لک وبہ ازداد انزھاقا بعد انزھاق ماظن الظانان من ان الکلام فی الاعمال الثابتۃ بالصحاح، کیف ولوکان کذل لما احیتج الی ھذا الاشتراط کمالایخفی واللّٰہ الھادی الی سوی الصراط۔

 

یہ وہ تحقیق ہے جو ہم نے افادہ سابقہ میں محقق ووافی کے حوالے سے بیان کی اور یہ وہ حقیقت ومعنی ہے جس کی تصریح امام ابن دقیق العید اور سلطان العلماء عزالدین بن عبدالسلام نے کی اور شیخ الاسلام حافظ نے ان دونوں کی اتباع کی اور ان کے شاگرد سخاوی نےفتح المغیث اور القول البدیع میں، سیوطی نے تدریب میں، شمس الدین محمد رملی نے شرح المنہاج النووی میں اسے نقل کیا ہے یہ چھ۶ شوافع میں سے ہیں، پھر رملی سے علاّمہ شرنبلالی نے غنیہ ذوی الاحکام میں اور محقق ومدقق العلائی نے درمختار میں اسے نقل کیا اور اسے ان دونوں نے اور درمختار کے محشین حلبی، طحطاوی اور شامی نے اپنے اپنے حواشی اور منحہ الخالق میں ثابت رکھا یہ پانچ حنفی ہیں (اور وہ یہ ہے) کہ حدیث ضعیف پر عمل کے لئے شرط یہ ہے کہ کسی عمومی ضابطہ کے تحت داخل ہو اور جب تو اس کی تحقیق کرے تو یہ کوئی زائد قید نہیں بلکہ اسی مضمون کی وضاحت ہے جس کی انہوں نے تصریح کی ہے کہ اس پر عمل عقائد واحکام کے علاوہ میں کیا جائیگا، جیسا کہ ہم نے پہلے اسے واضح کردیا ہے اور اس سے ان دو علماء کا خوب رَد ہوگیا جو یہ گمان رکھتے تھے کہ یہ ان اعمال کے بارے میں کلام ہے جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں اور یہ مطلب اس لئے نہیں ہوسکتا کہ اگر معاملہ یہ ہوتا تو یہ شرط لگانے کی محتاجی نہ تھی جیسا کہ واضح ہے، اور اللہ تعالٰی سیدھے راہ کی ہدایت دینے والا ہے۔ (ت)

 

بحمداللہ اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ بعض متکلمین طائفہ جدیدہ کا زعم باطل کہ ان احادیث سے جوازِ تقلیل ابہامین پر دلیل لانا احکامِ حلال وحرام میں انہیں حجت بنانا ہے اور وہ بتصریح علماء ناجائز، محض مغالطہ وفریب وہی عوام ہے ذی ہوش نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ وہی علماء جو حدیث ضعیف کو حلال وحرام میں حجت نہیں مانتے صدہا جگہ احادیث ضعیفہ سے افعال کے جواز واستحباب پر دلیل لاتے ہیں جس کی چند مثالیں افادہ سابقہ میں گزریں کیا معاذاللہ علمائے کرام اپنا لکھا خود نہیں سمجھتے یا اپنے مقررہ قاعدہ کا آپ خلاف کرتے ہیں کیا افادہ ہفدہم میں امام ابن امیرالحاج کا ارشاد نہ سنا کہ جمہور علماء کے نزدیک فضائل اعمال میں حدیث ضعیف قابلِ عمل ہے تو کسی فعل کی اباحت قائم رکھنا بدرجہ اولٰی ولکن الوھابیۃ لایسمعون واذا سمعوا لایعقلون رب انی اسألک العفو والعافیۃ اٰمین (وہابی تو سُنتے ہی نہیں، سُنتے ہیں تو سمجھتے نہیں، اے میرے رب! میں تجھ سے عفو ومعافی کا سوال کرتا ہُوں، آمین۔ ت)

 

افادہ بست ۲۳ وسوم (ایسے مواقع میں ہر حدیث ضعیف غیر موضوع کام دے سکتی ہے)اقول اوّلاً جمہور علماء کے عامہ کلمات مطالعہ کیجئے تو وہ مواقع مذکورہ میں قابلیت عمل کیلئے کسی قسم ضعف کی تخصیص نہیں کرتے، صرف اتنا فرماتے ہیں کہ موضوع نہ ہو فتح(۱) القدیر والفیہ(۲) عراقی وشرح(۳) الفیۃ للمصنف میں تھا غیر الموضوع ۱؎ (موضوع کے علاوہ ہو۔ ت) مقدمہ(۴) ابن الصلاح وتقریب(۵) میں ماسوی الموضوع ۲؎ (موضوع کے سوا ہو۔ ت) مقدمہ(۶) سید شریف میں دون الموضوع ۳؎ (موضوع نہ ہو۔ ت) حلیہ(۷) میں الذی لیس بموضوع ۴؎ (ایسی روایت جو موضوع نہ ہو۔ ت) اذکار (۸) میں ان الفاظ سے اجماع ائمہ نقل فرمایا کہ مالم یکن موضوعا ۵؎ (وہ جو کہ موضوع نہ ہو۔ ت) یونہی(۹) امام ابن عبدالبر نے اجماعِ محدثین ذکر کیا کہ یرونھا عن کل ۶؎ (محدثین ان کو تمام سے روایت کرتے ہیں۔ ت) یہ سب عبارات باللفظ یا بالمعنی افادات سابقہ میں گزریں،

 

 (۱؎ فتح القدیر        باب الامامۃ        مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/ ۳۰۳)

(۲؎ مقدمہ ابن الصلاح    النوع الثانی والعشرون معرفۃ المقلوب    مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان    ص ۴۹)

(۳؎ مقدمہ سیہ شریف)     (۴؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

(۵؎ الاذکار المنتخبہ من کلام سید الابرار    فصل قال العلماء الخ    مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت    ص ۷)

(۶؎ کتاب العلم لابن عبدالبر)

 

زرقانی(۱۰) شرح عہ۱  مواہب میں ہے عادۃ المحدثین التساھل فی غیر الاحکام والعقائد مالم یکن موضوعا ۷؎ (محدثین کی عادت ہے کہ غیر احکام وعقائد میں تساہل کرتے ہیں اس میں جو موضوع نہ ہو)

 

عہ۱ : ذکر رضاعہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم تحت حدیث مناغاۃ القمرلہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ (م)

 

نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ذکر رضاعت میں اس حدیث کے تحت جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انگلی کے اشارے سے چاند کے ساتھ کھیلنے (جھک جانے) کا بیان ہے وہاں اس کا ذکر ہے دیکھو۔ (ت)

 

 (۷؎ شرح الزرقانی المواہب اللدنیۃ    المقصد الاول ذکر رضاعہ صلی اللہ علیہ وسلم    مطبعۃ عامرہ مصر    ۱/ ۱۷۲)

 

یونہی(۱۱) علّامہ حلبی سیرۃ عہ۲  الانسان العیون میں فرماتے ہیں:لایخفی ان السیر تجمع الصحیح والسقیم والضعیف والبلاغ والمرسل والمنقطع والمعضل دون الموضوع وقدقال الامام احمد وغیرہ من الائمۃ اذاروینا فی الحلال والحرام شددنا واذا روینا فی الفضائل ونحوھا تساھلنا ۱؎۔

 

واضح رہے کہ اصحاب سیر ہر قسم کی روایات جمع کرتے ہیں صحیح، غیر صحیح، ضعیف، بلاغات، مرسل، منقطع اور معضل وغیرہ، لیکن موضوع روایت ذکر نہیں کرتے۔ امام احمد اور دیگر محدثین کا قول ہے کہ جب ہم حلال وحرام کے بارے میں احادیث روایت کرتے ہیں تو شدت کرتے ہیں اور جب ہم فضائل وغیرہ کے بارے میں روایات لاتے ہیں تو ان میں نرمی برتتے ہیں۔ (ت)

 

عہ۲ : نقل ھذا وماسیاتی عن عیون الاثر بعض الاثرین ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

عیون الاثر کی یہ عبارت اور وہ جو عنقریب ذکر کی جائیگی ان کو بعض معاصرین نے نقل کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ انسان العیون    خطبۃ الکتاب    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۳)

 

شیخ محقق(۱۲) مولانا عبدالحق محدّث دہلوی قدس سرہ القوی شرح صراط المستقیم میں فرماتے ہیں:گفتہ اندکہ اگر ضعف حدیث بجہت سوئے حفظ بعض رواۃ یا اختلاط یا تدلیس بود باوجود صدق ودیانت منجبر میگرود بتعدد طرق واگر ازجہت اتہام کذب راوی باشدیا شزوذ بمخالفت احفظ واضبط یابقوت ضعف مثل فحش خطا اگرچہ تعدد طرق داشتہ باشد منجبر نگرود وحدیث محکوم بضعف باشد ودرفضائل اعمال معمول ۲؎ الخمحدثین نے بیان فرمایا ہے کہ اگر کسی حدیث میں ضعف بعض راویوں کے سُوئے حفظ یا تدلیس کی وجہ سے ہو جبکہ صدق ودیانت موجود ہوتو یہ کمی تعدد طرق سے پُوری ہوجاتی ہے اور اگر ضعف راوی پر اتہامِ کذب کی وجہ سے ہو یا احفظ واضبط راوی کی مخالفت کسی جگہ ہو یا ضعف نہایت قوی ہو مثلاً فحش غلطی ہو تو اب تعدد طرق سے بھی کمی کا ازالہ نہیں ہوگا اور حدیث ضعیف پر ضعیف کا ہی حکم ہوگا اور فضائل اعمال میں ہے الخ (ت)

 

 (۲؎ شرح صراط مستقیم    دیباچہ شرح سفر السعادت مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ص ۱۳)

 

ثانیا کلبی کا نہایت شدید الضعف ہونا کسے نہیں معلوم اُس کے بعد صریح کذاب وضّاع ہی کا درجہ ہے ائمہ شان نے اُسے متروک بلکہ منسوب الی الکذب تک کیا کذبہ ابن حبان والجوزجانی وقال البخاری ترکہ یحیٰی وابن مھدی وقال الدارقطنی وجماعۃ متروک (ابن حبان اور جوزجانی نے اسے جھُوٹا قرار دیا ہے، بخاری کہتے ہیں کہ اسے یحیٰی اور ابن مہدی نے ترک کردیا، دارقطنی اور ایک جماعت نے کہا کہ یہ متروک ہے۔ ت) لاجرم حافظ نے تقریب میں فرمایامتھم بالکذب ورمی بالرفض ۳؎ (اس پر کذب کا اتہام ہے اور اسے روافض کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ ت)

 

 (۳؎ تقریب التہذیب ترجمہ محمد بن السائب بن بشر الکلبی  مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ص ۲۹۸)

 

بااینہمہ عامہ کتب سیر وتفاسیر اس کی اور اس کی امثال کی روایات سے مالامال ہیں علمائے دین ان امور میں اُنہیں بلانکیر نقل کرتے رہے ہیں، میزان میں ہے :

 

قال ابن عدی وقدحدث عن الکلبی سفٰین وشعبۃ وجماعۃ ورضوہ فی التفسیر واما فی الحدیث فعندہ مناکیر ۱؎۔ابن عدی نے کہا کہ کلبی سے سفیان، شعبہ اور ایک جماعت نے حدیث بیان کی ہے اور ان روایات کو پسند کیا ہے جس کا تعلق تفسیر کے ساتھ ہے اور حدیث سے متعلقہ روایات انکے نزدیک مناکیر ہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال    نمبر ۷۵۷۴    ترجمہ محمد بن السائب الکلبی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت  ۳/ ۵۵۸)

 

امام ابن سید الناس سیرۃ عیون الاثر میں فرماتے ہیں: غالب مایروی عن الکلبی انساب واخبار من احوال الناس وایام العرب وسیرھم ومایجری مجری ذلک مماسمح کثیر من الناس فی حملہ عمن لایحمل عنہ الاحکام وممن حکی عنہ الترخیص فی ذلک الامام احمد ۲؎۔

 

کلبی سے اکثر طور پر لوگوں کے انساب واحوال، عربوں کے شب وروز اور ان کی سیرت یا اسی طرح کے دیگر معاملات مروی ہیں جو کثرت کے ساتھ ایسے لوگوں سے لے لیے جاتے ہیں جن سے احکام نہیں لیے جاتے اور جن لوگوں سے اس معاملہ میں اجازت منقول ہے وہ امام احمد ہیں۔ (ت)

 

 (۲؎ عیون الاثر    ذکر الاجوبہ عمارمی بہ        مطبوعہ دارالحضارۃ بیروت    ۱ /۲۴)

 

ثالثاً (امام واقدی ہمارے علماء کے نزدیک ثقہ ہیں) امام واقدی کو جمہور اہلِ اثر نے حپنین وچناں کہا جس کی تفصیل میزان وغیرہ کتبِ فن میں مسطور، لاجرم تقریب میں کہا:متروک مع سعۃ علمہ ۳؎ (علمی وسعت کے باوجود متروک ہے۔ ت) اگرچہ ہمارے علماء کے نزدیک اُن کی توثیق ہی راجح ہے ۔

 

 (۳؎ تقریب التہذیب  ترجمہ محمد بن عمر بن واقد الاسلمی  مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالا ص۱۳۔ ۳۱۲)

 

کماافادہ الامام المحقق فی فتح القدیر عہ ۴؎ (جیسا کہ امام محقق نے فتح القدیر میں اس کو بیان کیا ہے۔ ت)

 

عہ :حیث قال فی باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء عن الواقدی قال کانت بئر بضاعۃ طریقا للماء الی البساتین وھذا تقوم بہ الحجۃ عندنا اذا وثقنا الواقدی، اما عندالمخالف فلالتضعیفہ ایاہ ۲؎ اھ وقال فی فصل فی الآسار قال فی الامام جمع شیخنا ابوالفتح الحافظ فی اول کتابہ المغازی والسیر من ضعفہ ومن وثقہ ورجح توثیقہ وذکر الاجوبۃ عماقیل فیہ ۳؎ اھ ۱۲ منہ (م)

جہاں انہوں نے ''باب الماء الذی یجوزبہ الوضوئ'' میں واقدی سے نقل کیا کہ بضاعۃ کے کنویں سے باغوں کو پانی دیا جاتا تھا ہمارے نزدیک حجت کے لئے یہی کافی ہے کیونکہ ہم نے واقدی کی توثیق کردی ہے باقی مخالف کے نزدیک حجت نہیں کیونکہ وہ اس کی تضعیف کا قائل ہے اھ اور ''فصل فی الآسار'' میں کہا کہ امام کے بارے میں ہمارے شیخ ابوالفتح حافظ نے اپنی پہلے کتاب المغازی والسیر میں ان روایات کو جمع کیا ہے جن کی توثیق کی گئی یا ان کو ضعیف کہا گیا اور ان کی توثیق کو ترجیح دیتے ہوئے ان پر وارد شدہ اعتراضات کے جوابات بھی ذکر کیے اھ ۱۲ منہ۔ (ت)

 

 (۴؎ فتح القدیر        باب الماء الذی یجوزبہ الوضوء    مطبوعہ مکتبہ نُوریہ رضویہ سکھر    ۱/ ۶۹)

(۲؎فتح القدیر    مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر       ۱ /۶۹ و ص ۹۷)

(۳؎ فتح القدیر    مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر       ۱/ ۶۹ و ص ۹۷)

 

بااینہمہ یہ جرح شدید ماننے والےبھی انہیں سِیر ومفازی واخبار کا امام مانتے اور سلفاً وخلفاً ان کی روایات سِیر میں ذکر کرتے ہیں کمالایخفی علی من طالع کتب القوم (جیسا کہ اس شخص پر مخفی نہیں جس نے قوم کی کُتب کا مطالعہ کیا ہے۔ ت) میزان میں ہے:کان الی حفظہ المنتھی فی الاخبار والسیر والمغازی الحوادث وایام الناس والفقہ وغیر ذلک ۱؎۔یہ اخبار واحوال، علم سِیر ومفازی، حواد ثاتِ زمانہ اور اس کی تاریخ اور علمِ فقہ وغیرہ کے انتہائی ماہر اور حافظ ہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال  نمبر ۷۹۹۳  ترجمہ محمد بن عمربن واقد الاسلمی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت لبنان ۳/ ۶۶۳)

 

رابعاً ہلال بن زید بن یسار بصری عسقلانی کو ابنِ حبان نے کہا روی عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اشیاء موضوعۃ (انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے موضوع روایات نقل کی ہیں۔ ت) حافظ الشان نے تقریب میں کہا متروک باوصف اس کے جب انہیں ہلال نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث فضیلت عسقلان روایت کی جسے حافظ ابوالفرج نے بعلّتِ مذکورہ درج موضوعات کیا اُس پر حافظ الشان ہی نے وہ جواب مذکور افادہ دہم دیا کہ حدیث فضائلِ اعمال کی ہے سو اُسے طعن ہلال کے باعث موضوع کہنا ٹھیک نہیں امام احمد کا طریق معلوم ہے کہ احادیث فضائل میں تساہل فرماتے ہیں، اور یہ بھی افادہ نہم میں حافظ الشان ہی کی تصریح سے گزرچکا کہ متروک ایسا شدید الضعیف ہے جس کے بعد بس متہم بالوضع ووضاع ہی کا درج ہے اب یہ بات خوب محفوظ رہے کہ خود امام الشان ہی نے ہلال کو متروک کہا خود ہی متروک کو اتنا شدید الضعف بتایا خود ہی ایسے شدید الضعف کی روایت کو دربارہ فضائل مستحق تساہل رکھا اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہوگی کہ ضعف کیسا ہی شدید ہو جب تک سرحدِ کذب ووضع تک نہ پہنچے حافظ الشان کے نزدیک بھی فضائل میں قابلِ نرمی وگوارائی ہے وللہ الحجۃ السامیہ۔

 

خامساً اور سُنیے وضو کے بعد اِنّا انزلنا پڑھنے کی حدیثوں کا ضعف نہایت قوّت پر ہے، سخاوی نے مقاصد حسنہ میں اسے بے اصل محض کہا، امام جلیل ابواللیث سمرقندی نے اپنے مقاصد میں ان حدیثوں کو ذکر فرمایا، امام الشان سے اس بارہ میں سوال ہُوا وہی جواب فرمایا کہ فضائلِ اعمال میں ضعاف پر عمل روا ہے۔امام ابن امیرالحاج حلیہ میں فرماتے ہیں : قد سئل شیخنا حافظ عصرہ قاضی القضاۃ شھاب الدین الشھیر بابن حجر رحمہ اللّٰہ تعالٰی من ھذہ الجملۃ فاجاب بمانصہ الاحادیث التی ذکرھا الشیخ ابواللیث نفع اللّٰہ تعالٰی ببرکتہ ضعیفۃ والعلماء یتساھلون فی ذکر الحدیث الضعیف والعمل بہ فی فضائل الاعمال ولم یثبت منھا شیئ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لامن قولہ ولامن فعلہ ۱؎ اھہمارے شیخ حافظ العصر قاضی القضاۃ شہاب الدین المعروف ابنِ حجر رحمہ اللہ تعالٰی سے ان روایات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے یہ جواب ارشاد فرمایا کہ وہ احادیث جن کو امام ابواللیث، ''اللہ تعالٰی ان کی برکت سے نفع عطا فرمائے'' نے ذکر کیا ہے وہ ضعیف ہیں، اور علماء حدیث ضعیف کے ذکر کرنے اور فضائل اعمال میں اس پر عمل کرنے میں نرمی برتتے ہیں اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ان کے متعلق کوئی قول وعمل ثابت نہ ہو اھ (ت)

 

(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

سادساً یہ حدیث کہ چاند گہوارہ میں عرب کے چاند عجم کے سورج صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے باتیں کرتا، حضور کو بہلاتا، انگشت مبارک سے جدھر اشارہ فرماتے اُسی طرف جھُک جاتا کہ بیہقی نے دلائل النبوۃ، امام ابوعثمٰن اسمعیل بن عبدالرحمن صابونی نے کتاب المائتین، خطیب نے تاریخ بغداد، ابنِ عساکر نے تاریخ دمشق میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی اُس کا مدار احمد بن ابراہیم حلبی شدید الضعف پر ہے، میزان میں ہے امام ابوحاتم نے کہا:احادیثہ باطلۃ تدلہ علی کذبہ ۲؎(اس کی احادیث باطلہ اس کے کذب پر دال ہیں۔ ت)

 

(۲؎ میزان الاعتدال    ترجمہ نمبر ۲۸۷    احمد بن ابراہیم حلبی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت لبنان   ۱/ ۸۱)

 

باوجود اس کے امام صابونی نے فرمایا:ھذا حدیث غریب الاسناد والمتن وھو فی المعجزات حسن ۱؎(اس حدیث کی سند بھی غریب اور متن بھی غریب بااینہمہ معجزات میں حسن ہے) اُن کے اس کلام کو امام جلال الدین سیوطی نے خصائص کبرٰی، امام احمد قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں نقل کیا اور مقرر رکھا۔

 

 (۱؎ المواہب اللدنیۃ بحوالہ کتاب المائتین حدیث غریب الاسناد المتن    المکتب الاسلامی بیروت    ۱/ ۱۵۴)

 

سابعاً حدیث الدیک الابیض صدیقی وصدیق صدیقی وعد وعدواللّٰہ وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یبتیہ معہ فی البیت ۲؎ (مرغ سپید میرا خیر خواہ اور میرے دوست کا خیر خواہ، اللہ تعالٰی کے دشمن کا دشمن ہے، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُسے شب کو مکان خوابگاہ اقدس میں اپنے ساتھ رکھتے تھے) کہ ابوبکر برقی نے ابوزید انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی،

 

 (۲؎ کتاب الموضوعات لابن الجوزی    باب فی الدیک الابیض    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۳ /۴)

 

علامہ مناوی نے تیسیر میں فرمایا: باسناد فیہ کذاب ۳؎ (اس کی سند میں کذاب ہے) باوصف اس کے فرمایا: فیندب لنا فعل ذلک تأسیا بہ ۴؎ جبکہ حدیث میں ایسا وارد ہوا تو ہمیں باقتدائے حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مرغ سپید کو اپنی خوابگاہ میں ساتھ رکھنا مستحب ہے۔

 

 (۳؎ تیسیر شرح جامع صغیر للمناوی    حدیث مذکور کے تحت    مکتبہ الامام الشافعی ریاض سعودیہ    ۲/ ۱۵)

(۴؎ التیسر شرح الجامع الصغیر        حدیث مذکور کے تحت    مکتبہ الامام الشافعی ریاض سعودیہ    ۲ /۱۵)

 

مثالیں اس کی اگر تتبع کیجئے بکثرت لیجئےوھذا الاخیر قدبلغ الغایۃ وفیما ذکرنا کفایۃ لاھل الدرایۃ (یہ آخری انتہاء پر ہے اور جو کچھ ہم نے ذخر کردیا وہ اہل فہم کے لئے کافی ہے۔ ت)

 

ثامناً احادیث ودلائل مذکورہ افادات سابقہ بھی اسی اطلاق کے شاہد عدل ہیں خصوصاً حدیثوان کان الذی حدثہ بہ کاذباً(اگرچہ جس نے اسے بیان کیا کاذب ہو۔ ت) ظاہر ہے کہ احتمالِ صدق ونفع بے ضرر ہر ضعیف میں حاصل تو فرق زائل بالجملہ یہی قضیہ دلیل ہے اور یہی کلام وعمل قوم سے مستفاد مگر حافظ الشان سے منقول ہوا کہ شرط عمل عدم شدت ضعف ہےنقلہ تلمیذہ السخاوی وقال سمعتہ مرارا یقول ذلک (اسے ان کے شاگرد امام سخاوی نے نقل کیا اور کہا کہ میں نے ان سے یہ کئی مرتبہ کہتے سُنا ہے۔ ت)

 

اقول (بحث قبول شدید الضعف) یہاں شدتِ ضعف سے مراد میں حافظ سے نقل مختلف آئی، شامی عہ نے فرمایا طحطاوی نے فرمایا امام ابن حجر نے فرمایا:شدید الضعف ھو الذی لایخلو طریق من طرقہ عن کذاب اومتھم بالکذب ۱؎۔شدید الضعف وہ حدیث ہے جس کی اسنادوں سے کوئی اسناد کذاب یا متہم بالکذب سے خالی نہ ہو۔

 

عہ: فی مستحبات الوضوء ۱۲ منہ (م)           (شامی نے مستحبات الوضوء میں فرمایا ۱۲ منہ۔ ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار        مستحبات الوضوء    مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱/ ۹۵)

 

یہاں صرف انہیں دو۲ کو شدّتِ ضعف عہ میں رکھا امام سیوطی نے تدریب میں فرمایا حافظ نے فرمایا:ان یکون الضعف غیر شدید فیخرج من انفرد من الکذابین والتھمین بالکذب ومن فحش غلطہ ۲؎۔وہ ضعف شدید نہ ہو پس اس سے وہ نکل گیا جو کذاب اور متہم بالکذب میں منفرد ہو یا جو فحش الغلط ہو۔ (ت)

 

عہ : وھکذا عزابعض العصریین وھو المولوی عبدالحی اللکنوی فی ظفر الامانی الی التدریب والقول البدیع حیث قال الشرط للعمل بالحدیث الضعیف ثلٰث شروط علی ماذکرہ السیوطی فی شرع تقریب النووی والسخاوی فی القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع وغیرھما الاول عدم شدۃ ضعفہ بحیث لایخلوطریق من طرقہ من کذاب اومتھم بالکذب الخ اقول لکن سنسمعک نص التدریب والقول البدیع فیظھرلک ان وقع ھھنا فی النقل عنھما تقصر شنیع فلیتنبہ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

معاصرین میں سے مولوی عبدالحی لکھنوی نے ''ظفرالامانی'' ''التدریب'' اور ''القول البدیع'' کی طرف ایسے ہی منسوب کیا، جہاں انہوں نے کہا کہ ضعیف حدیث پر عمل کی تین شرطیں ہیں جیسا کہ نووی نے ''شرع تقریب النووی'' اور سخاوی نے ''القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع'' میں اور ان کے علاوہ دوسروں نے بھی ذکر کیا، پہلی شرط یہ ہے کہ اس کا ضعف شدید نہ ہو بایں طور کہ اس کے تمام طرق کذاب اور متہم بالکذب سے خالی نہ ہوں الخ اقول ابھی بعد میں ہم آپ کو ان دونوں کتابوں کی عبارت سنائیں گے جس سے آپ کو معلوم ہوجائیگا کہ اس نقل میں ان دونوں سے انتہائی کوتاہی سرزو ہوئی ہے، غور کرنا چاہئے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۲؎ تدریب الراوی     شرح تقریب النووی    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۲۹۸)

 

یہاں ان دو۲ کے ساتھ فحش غلط کو بھی بڑھایا نسیم الریاض میں قول البدیع سے کلام حافظ بایں لفظ نقل کیا:ان یکون الضعف غیر شدید کحدیث من انفرد من الکذابین والمتھمین ومن فحش غلطہ ۳؎۔حدیث میں ضعف شدید نہ ہو مثلاً اس شخص کی حدیث جو کذابین اور متہمین سے ہو یا وہ فحش الغلط ہو۔ (ت)

 

 (۳؎ نسیم الریاض شرح الشفاء        مقدمۃ الکتاب    مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۱/ ۴۳)

 

یہاں کاف نے زیادتِ توسیع کا پتا دیا، تحدید اول پر امر سہل وقریب ہے کہ ایک جماعت علما حدیث کذابین ومتہمین پر اطلاقی وضع کرتے ہیں تو غیر موضوع سے انہیں خارج کرسکتے ہیں مگر ثانی تصریحات ومعاملات جمہور وعلما وخود امام الشان سے بعید اور ثالث بظاہرہ ابعد ہے ہم ابھی روشن بیان سے واضح کرچکے ہیں کہ خود حافظ نے متروک شدید الضعف راوی موضوعات کی حدیث کو بھی فضائل میں محتمل رکھا مگر بحمداللہ تعالٰی ہمارا مطلب ہر قول پر حاصل ہم افادات سابقہ میں مبرہن کرآئے ہیں کہ تقبیل ابہامین کی حدیثیں ہرگُونہ ضعف شدید سے پاک ومنزّہ ہیں اُن پر صرف انقطاع یا جہالتِ راوی سے طعن کیاگیا یہ ہیں بھی تو ضعفِ قریب نہ ضعف شدید والحمدللّٰہ العلی المجمید ''ھذا'' (اسے یاد رکھو۔ ت)

 

ورأیتنی کتبت ھھنا علی ھامش فتح المغیث، کلاماً یتعلق بالمقام احببت ایرادہ اتماماً للمرام، فذکرت اولاماعن الشامی عن الطحطاوی عن ابن حجر ثم ایدتہ باطلاق العلماء ثم اوردت ماعن النسیم عن السخاوی عن الحافظ ثم قلت مانصہ۔

 

اور مجھے یاد آرہا ہے کہ میں نے اس مقام پر فتح المغیث کے حاشیہ میں ایسی گفتگو کی ہے جو اس مقام پر مناسب ہے میں اتمامِ مقصد کی خاطر اس کا یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں، پہلے میں وہ ذکر کروں گا جو امام شامی نے طحطاوی سے اور انہوں نے ابنِ حجر سے نقل کیا ہے پھر اسے مزید قوی کروں گا علماء کے اطلاق سے پھر وہ نقل کروں گا جو نسیم نے سخاوی سے انہوں نے حافظ سے نقل کیا۔ پھر میرا قول یہ ہے:

 

اقول وھذا کماتری مخالف لاطلاق مامر عن النووی عن العلماء قاطبعۃ، ولتحدید مامر عن الطحطاوی عن شیخ الاسلام نفسہ لکن یظھرلی دفع التخالف عن کلامی شیخ الاسلام بانہ ھھنا ذکر المتفرد وفیما سبق قال ''لایخلوطریق من طرقہ، فیکون الحاصل ان شدید الضعف بغیر الکذب والتھمۃ لایقبل عندہ فی الفضائل حین التفرد، اما اذاکثرت طرقہ فح یبلغ درجۃ یسیر الضعف فی خصوص قبولہ فی الفضائل، بخلاف شدید الضعف بالکذب والتھمۃ فانہ وان کثرطرقہ التی لاتفوقہ بان لایخلو شیئ منھا عن کذاب اومتھم لایبلغ تلک الدرجہ، ولایعمل بہ فی الفصائل، وھذا ھو الذی یعطیہ کلام السخاوی فیما مرحیث جعل قبول مافیہ ضعف شدید مطلقا ولوبغیر کذب فی باب الفضائل موقوفا علی کثرۃ الطرق، لکنہ یخالفہ فی خصلۃ واحدۃ، وھو حکمہ بالقبول بکثرۃ الطرق فی الضعف بالکذب ایضا کماتقدم، وھو کماتری مخالف لصریح مانقل عن شیخ الاسلام وعلی کل فلم یرتفع مخالفۃ نقل شیخ الاسلام عن العلماء جمیعا لنقل الامام النووی عنھم کافۃ، فانھم لم یشرطوا للقبول فی الفضائل فی شدید الضعف کثرۃ الطرق ولاغیرھا سوی ان ان لایکون موضوعا، فصریح مایعطیہ کلامھم قبول مااشتد ضعفہ لفسق اوفحش غلط، مثلا وان تفرد ولم یکثر طرقہ، فافھم، وتأمل، فان المقام مقام خفاء وزلل، واللّٰہ المسؤل لکشف الحجاب، وابانۃ الصواب الیہ المرجع والیہ المآب اھ، مااردت نقلہ مما علقتہ علی الھامش۔

 

اقول جیسا کہ تمہیں معلوم ہے یہ بات علّامہ نووی کے نقل کردہ تمام علماء کے اطلاق اور خود شیخ الاسلام سے امام طحطاوی کی گزشتہ نقل کردہ تعریف کے خلاف ہے۔ لیکن شیخ الاسلام کی دونوں کلاموں میں مخالف کو ختم کرنے کی وجہ مجھ پر ظاہر ہورہی ہے وہ یہ کہ یہاں انہوں نے راوی کی تفرد کی بات کی ہے اور پہلے انہوں نے کہا ہے کہ طُرق میں سے کوئی طریق بھی (کذاب ومہتم سے) خالی نہ ہو، پس حاصل یہ ہوا کہ کذب وتہمت کے بغیر شدید ضعف ہوتو ان کے ہاں تفرد کی صورت میں فضائل میں قابل قبول نہیں، لیکن جب وہ کثرتِ طُرق سے مروی ہوتو اس صورت میں وہ شدید ضعف سے خفیف ضعف کے درجہ میں آجائےگی پس اب وہ صرف فضائل میں مقبول ہوجائیگی، اس کے برخلاف جو کذب اور تہمت کی وجہ سے شدید ضعف والی ہوتو بیشمار کثرتِ کے باوجود وہ مقبولیت کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتی اور نہ ہی فضائل میں قابلِ عمل ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے ہر طریق میں کوئی نہ کوئی کذاب اور مہتم ضرور ہوتا ہے۔ یہی بات علمامہ سخاوی کے گزشتہ کلام سے حاصل ہوتی ہے جہاں انہوں نے شدید ضعف والی حدیث کے فضائل میں مقبول ہونے کو کثرتِ طرق پر موقوف کیا وہاں شدّتِ ضعف مطلق مراد ہے خواہ وہ کذب کے علاوہ ہی ہو، لیکن یہ بات ان کو ایک جگہ آڑے آئے گی۔ جہاں انہوں نے ضعف بالکذب پر بھی کثرتِ طرق کی بنا پر مقبول ہونے کا حکم کیا ہے جیسا کہ گزرا ہے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ بات شیخ الاسلام سے نقل کردہ کے صراحۃً خلاف ہے، بہرصورت شیخ الاسلام کا تمام علماء سے نقل کردہ مؤقف اور امام نووی کا نقل کردہ انہی تمام علماء کا مؤلف مختلف ہے یہ اختلاف مرتفع نہیں ہوسکتا، کیونکہ علماء نے فضائل میں شدید ضعف والی حدیث کو قبول کرنے کے لئے کثرت طُرق وغیرہا کی شرط نہیں لگائی صرف یہ کہا ہے کہ وہ موضوع نہ ہو، ان کے کلام کا صریح ماحصل یہ ہے کہ مثلاً فسق یا فحش غلطی کی بنا پر جس حدیث کا ضعف شدید ہو خواہ اس کا راوی متفرد ہی کیوں نہ ہو اور اس حدیث کے طرق کثیر بھی نہ ہوں تب بھی یہ حدیث (فضائل میں) مقبول ہے، غور وتأمل کرو، کیونکہ یہ مقامِ خفی ہے اور غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے، پردوں کو کھولنے اور درستی کو ظاہر کررنے کا سوال صرف اللہ تعالٰی سے ہے اسی کی طرف لوٹنا ہے اور وہی جائے پناہ ہے۔ فتح المغیث کے حاشیہ میں سے جو میں نقل کرنا چاہتا تھا وہ ختم ہوا۔ (ت)

 

فان قلت ھذا قید زائد افادہ امام فلیحمل اطلاقاتھم علیہ دفعاً للتخالف بین النقلین قلت نعم لولا ان ماذکروا من الدلیل علیہ لایلائم سریان التخصیص الیہ، وکیف نصنع بما نشاھدھم یفعلون یرون شدۃ الضعف ثم یقبلون، وبالجملۃ فالاطلاق ھو الاوفق بالدلیل والالصق بقواعد الشرع الجمیل فنودان یکون علیہ التعویل والعلم بالحق عند الملک الجلیل۔

 

اگر اعتراض کے طور پر تو یہ کہے کہ امام شیخ الاسلام کے بیان میں ایک زاید قید ہے جس پر علماء کے اطلاقات کو محمول کیا جاسکتا ہے اس سے دو نقل کردہ کلاموں میں اختلاف ختم ہوسکتا ہے قلت (تو میں جواباً کہتا ہوں) ہاں اگر علماء کے ذکر کردہ پر کوئی دلیل نہ ہو تب بھی ان کے کلام کو اس قید سے خاص کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ ان کا کلام ہی نہیں ہے بلکہ وہ شدید ضعف پاکر بھی قبول کرنے پر عمل پیرا ہیں جس کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ (شدید ضعیف حدیث کو قبول کرنے کے لئے کثرتِ طرق) کی قید نہ لگانا، دلیل کے زیادہ موافق اور قواعدِ شرح جمیل کے زیادہ مناسب ہے، ہماری خواہش ہے کہ یہی قابلِ اعتماد ہو اور حق کا علم اللہ جل جلالہ، کے ہاں ہے۔ (ت)

 

فائدۃ جلیلۃ (فائدۃ جلیلۃ فی احکام انواع الضعیف والجبار ضعفھا) ھذا الذی اشرت الیہ من کلام السخاوی المار المتقدم ھو قولہ مع متنہ فی بیان الحسن، ان یکن ضعف الحدیث لکذب اوشذوذ بان خالف من ھو احفظ اواکثر اوقوۃ الضعف بغیرھما فلم یجبر ولوکثرت طرقہ، لکن بکثرۃ طرقہ یرتقی عن مرتبۃ المردود المنکر الی مرتبۃ الضعیف الذی یجوز العمل بہ فی الفضائل وربما تکون تلک الطرق الواھیۃ بمنزلۃ الطریق التی فیھا ضعف یسیر بحیث لوفرض مجیئ ذلک الحدیث باسناد فیہ ضعف یسیر کان مرتقیا بھا الٰی مرتبۃ الحسن لغیرہ ۱؎ اھ ملخصا۔

 

فائدہ جلیلہ (ضعیف حدیثوں کے احکام، اقسام اور انکی کمی کو پُورا کرنے کے بیان میں) امام سخاوی کے جس گزشتہ کلام کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے وہ بمع متن، حدیث حسن کے بارے میں ہے کہ حدیث کا ضعف کذب یا شذوذ یعنی وہ حدیث احفظ راوی یا کثیر رواۃ کی روایت کے خلاف ہو، یا یہ ضعیف قوی ہو جوان دو مذکورہ (کذب اور شذوذ) کے علاوہ کسی اور وجہ سے پیدا ہوا ہو، یہ ضعف کثرتِ طُرق سے بھی ختم نہیں ہوسکتا، لیکن کثرتِ طرق کی بنا پر یہ حدیث مردود منکر کے مرتبہ سے ترقی کرکے ایسے ضعف کے مرتبہ پر پہنچ جاتی ہے جس سے فضائل میں عمل کے لئے مقبول ہوجاتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدیث کے متعدد کمزور طُرق ایک معمولی کمزور طریقہ جیسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ حدیث کسی معمولی ضعف والی سند کے ساتھ مروی فرض کرلی جائے تو یہ درجہ حسن لغیرہ پر فائز ہوجاتی ہے، ملخصاً۔ (ت)

 

 (۱؎ فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث    الحسن دارالامام الطبری بیروت    ۱/ ۸۳)

 

ورائتنی علقت علیہ ھھنا مانصہ اقول حاصل ماتقرر وتحررھھنا مع زیادات نفیسۃ منا ان الموضوع لایصلح لشیئ اصلا ولایلتئم جرحہ ابدا ولوکثرت طرقہ ماکثرت، فان زیادۃ الشرلایزید الشیئ الا شرا، وایضا الموضوع کالموضوع کالمعدوم والمعدوم لایقوی ولایتقوی، ومنہ عند جمع منھم شیخ الاسلام ماجاء بروایۃ الکذابین وعند آخرین منھم خاتم الحفاظ مااتی من طریق المتھمین، وسوّٰھما السخاوی بشدید الضعف الآتی لذھابہ الی ان الوضع لایثبت الابالقرائن المقررۃ ان تفرد بہ کذاب اووضاع کمانص علیہ فی ھذا الکتاب، وھو عندی مذھب قوی اقرب الی الصواب، اما الضعف بغیر الکذب والتھمۃ من ضعف شدید مخرج لہ عن حیز الاعتبار کفحش غلط الراوی فھذا یعمل بہ فی الفضائل علی مایعطیہ کلام عامۃ العلماء وھو الاقعد بقضیۃ الدلیل والقواعد، لاعند شیخ الاسلام علی احدی الروایات عنہ ومن تبعہ کالسخاوی الا اذاکثرت طرقہ الساقطۃ عن درجۃ الاعتبار فح یکون مجموعھا کطریق واحد صالح لہ فیعمل بھا فی الفضائل ولکن لایحتج بھا فی الاحکام ولاتبلغ بذلک درجۃ الحسن لغیرہ الا اذاانجبرت مع ذلک بطریق اخری صالحۃ للاعتبار فان مجموع ذلک یکون کحدیثین ضعیفین صالحین متعاضدین فح ترتقی الی الحسن لغیر فتصیر حجۃ فی الاحکام ،اما مطلقا علی ماھو ظاھر کلام المصنف اعنی العراقی اوبشرط تعدد الجابرات الصالحات البالغۃ مع ھذہ الطرق القاصرۃ المتکثرۃ القائمۃ مقام صالح واحد حد الکثرۃ فی الصوالح علی مافھمہ السخاوی من کلام النووی وغیرہ الواقع فیہ لفظ الکثرۃ مع نزاع لنا فیہ مؤید بکلام شیخ الاسلام فی النزھۃ والنخبۃ المکتفیتین عہ بوحدۃ الجابر مع جواز ان تکون الکثرۃ فی کلام النووی بمعنی مطلق التعدد، وھو الاوفق بما رأینا من صنیعھم فی غیر مقام والضعیف بالضعف الیسیر اعنی مالم ینزلہ عن محل الاعتبار یعمل بہ فی الفضائل وحدہ، وان لم ینجبر فان انجبر ولوبواحد صار حسنا لغیرہ، واحتج بہ فی الاحکام علی تفصیل وصفنالک فی الجابر، فھذہ ھی انواع الضعیف، اما الذی لانقص فیہ عن درجۃ الصحیح الا القصور فی ضبط الراوی غیر بالغ الی درجۃ الغفلۃ فھو الحسن لذاتہ المحتج بہ وحدہ حتی فی الاحکام، وھذا اذاکان معہ مثلہ ولوواحدا صار صحیحا لغیرہ اودونہ ممایلید فلاالا بکثرۃ انتھی ماکتبت بتخلیص۔

 

اور مجھے یاد ہے کہ میں نے اس کے اس مقام پر حاشیہ لکھا ہے جو یہ ہے اقول ہماری زائد ابحاث کے ساتھ جو یہاں ثابت اور واضح ہوچکا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ موضوع حدیث کسی طرح کارآمد نہیں ہے اور کثرت طُرق کے باوجود اس کا عیب ختم نہیں ہوسکتا کیونکہ شرکی زیادتی سے شر مزید بڑھتا ہے، نیز موضوع، معدوم چیز کی طرح ہے اور معدوم چیز نہ قوی ہوسکتی ہے اور نہ قوی بنائی جاسکتی ہے، موضوع کی ایک قسم وہ ہے جس کو ایک جماعت نے، جس میں شیخ الاسلام بھی ہیں، نے بیان کیا ہے، وہ یہ کہ جس کو کذاب لوگ روایت کریں، اور ایک دوسری جماعت جس میں سے ''خاتم الحفاظ'' بھی ہیں، نے بیان کیا ہے کہ ''موضوع'' وہ ہے جس کو متہم بالکذب روایت کریں۔ امام سخاوی نے ان دونوں بیان کردہ قسموں کو ''شدید الضعف'' کے مساوی قرار دیا ہے، جس کو عنقریب بیان کرینگے، امام سخاوی کا خیال ہے کہ موضوع کی پہچان مقررہ قرائن ہی سے ہوتی ہے جیسا کہ روایت کرنے والا کذّاب یا وضّاع اس روایت میں متفرد ہو، جیسا کہ امام سخاوی نے اس کتاب میں بیان کیا ہے میرے نزدیک یہی مؤقف قوی اور اقرب الی الصواب ہے، مگر کذب اور تہمتِ کذب کے بغیر کوئی بھی شدید ضعف جس کی بنا پر حدیث درجہ اعتبار سے خارج ہوجاتی ہے مثلاً راوی کی انتہائی فحش غلطی ہو، ضعیف کی یہ قسم فضائل میں کارآمد ہوسکتی ہے جیسا کہ عام علماء کے کلام سے حاصل ہے اور یہی موقف دلیل وقواعد سے مطابقت رکھتا ہے، مگر شیخ الاسلام سے ایک روایت میں اور امام سخاوی کی طرح ان کے پیروکار حضرات کے ہاں یہ قسم فضائل میں معتبر نہیں ہے تاوقتیکہ اس کے کمزور طرق کثیر نہ ہوں اور یہ طرق کثیر ہوں تو ان سب کے مجموعہ کو وہ ایک طریقہ صالحہ کے مساوی قرار دے کر فضائل میں قابلِ عمل قرار دیتے ہیں، تاہم اس قسم کی ضعیف حدیث کو احکام کے لئے حجت قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی یہ درجہ ''حسن لغیرہ'' کو پاسکتی ہے۔ ہاں اگر ان متعدد طرق کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے صالح طریق سے اس کی کمزوری زائل ہوجائے تو اور بات ہے، کیونکہ کمزور متعدد طرق اور ایک صالح طریق کی بنا پر وہ حدیث دو ایسی ضعیف حدیثوں کی طرح بن جاتی جو آپس میں مل کر تقویت کا باعث بن جاتی ہیں اور وہ ضعیف حدیث ''حسن لغیرہ'' کے مرتبہ کو پہنچ کر احکام میں حجّت بن جاتی ہے، اب یہ اختلاف اپنی جگہ پر ہے کہ صرف اسی قدر سے مقبول ہے جیسا کہ مصنف یعنی علّامہ عراقی کے کلام سے عیاں ہے یا بشرطیکہ بمع متعدد صالح طرق جن کی بنا پر کمزوری زائل ہوسکے ان متعدد صالح وجوہ اور کمزور طرق، جو ایک صالح طریق کے مساوی ہیں، مل کر کثرت طرقِ صالحہ بن جاتے ہیں جیسا کہ امام سخاوی نے امام نووی وغیرہ کے کلام سے سمجھا جن میں لفظِ کثرت استعمال ہُوا ہے، باوجودیکہ ہمارا اس میں اختلاف ہے جوکہ شیخ الاسلام کے اس کلام سے مؤید ہے جو انہوں نے ''النزبۃ'' اور ''الننجۃ'' میں کیا دونوں کتابوں میں ایک جابر (کمزوری کو زائل کرنے والا امر) کا بیان ہے (نیز اپنی تائید میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں) کہ امام نووی کے کلام میں لفظِ کثرت سے مطلق تعدّد ہے اور یہی احتمال ان کی عادت کے زیادہ قریب ہے جیسا کہ ہم نے متعدد جگہ یہ استعمال پایا ہے اور ضعیف کی ایسی قسم جس میں معمولی ضعف ہو یعنی جس سے حدِ اعتبار ساقط نہ ہو یہ فضائل میں تنہا معتبر ہے خواہ کوئی مؤید بھی نہ ہو، اور اگر کوئی ایک ایسا مؤید پایا جائے جو اس کے ضعف کو زائل کردے تو یہ ''حسن لغیرہٖ'' بن جاتی ہے اور اس کو احکام میں حجت قرار دیا جائیگا جس کی تفصیل ہم نے کمزوری کو زائل کرنے والے امور میں بیان کردی ہے۔ یہ تمام ضعیف کی انواع ہیں۔ اگر صحیح حدیث کے شرائط میں ماسوائے ضبط راوی کی کمزوری کے اور کوئی کمزوری نہ ہوتو یہ حدیث ''حسن لذاتہٖ'' ہوگی بشرطیکہ ضبط راوی کی یہ کمزوری غفلت کے درجہ تک نہ پہنچتی ہو، تو یہ ''حسن لذاتہٖ'' واحد حدیث بھی احکام کے لئے حجت ہوسکتی ہے اگر حسن لذاتہٖ کے ساتھ اس کی ہم مثل ایک اور بھی مل جائے تو یہ حدیث ''صحیح لغیرہ'' بن جاتی ہے اور اگر اس سے کم درجہ کی کوئی مؤید اس سے مل جائے تو ''صحیح لغیرہ'' نہ بنے گی تاوقتیکہ اس سے کم درجہ کی متعدد روایات جمع نہ ہوجائیں میری لکھی ہُوئی تعلیق ختم ہُوئی، ملخصاً۔ (ت)

 

عہ: حیث قال متی توبع السیئ الحفظ بمعتبر کان یکون فوقہ اومثلہ لادونہ وکذا المختلط الذی لایتمیز والمستور والاسناد المرسل وکذا المدلس اذا لم یعرف المحذوف مند صار حدیثہم حسناً لالذاتہ بل وصفہ بذلک باعتبار المجموع لان کل واحد منہم (اے ممن ذکر من السیئ الحفظ والمختلط الخ) باحتمال کون روایتہ صواباً اوغیر صواب علی حد سواء فاذا جاء ت من المعتبرین روایۃ موافقۃ لاحدھم رجح احد الجانبین من الاحتمالین المذکورین دول ذلک علی ان الحدیث محفوظ فارتقی من درجۃ التوقف الی درجۃ القبول واللّٰہ اعلم ۱؎ اھ وانظر کیف اجتزئ فی المتن بتوحید معتبر وفی الشرح بافراد روایۃ وحکم بالارتقاء الی درجۃ القبول وما المرادبہ ھھنا الاالقبول فی الاحکام فانہ جعل الضعیف صالحا للاعتبار من الرد ومع انہ مقبول فی الفضائل بالاجماع ویظھرلی ان الوجہ معھما اعنی العراقی وشیخ الاسلام لمابین فی النزھۃ من الدلیل لھما منقولا مما علقتہ علی فتح المغیث ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

ان کے الفاظ یہ ہیں: جب راوی سوءِ حفظ کا متابع معتبر راوی بن جائے جو اس سے اوپر ہو یا اس کی مثل اس سے کم نہ ہو اور اسی طرح وہ مختلط جو امتیاز نہیں کرتا، مستور، اسناد مرسل اور اسی طرح مدلس جبکہ محذوف منہ کو  نہ پہچانتا ہو تو ان کی حدیث حسن ہوجائے گی ہاں لذاتہٖ نہیں بلکہ باعتبار المجموع ہوگی کیونکہ ہر ایک ان میں سے (یعنی سوءِ حفظ اور مختلط جن کا ذکر ہوا الخ) برابر احتمال رکھتا ہے کہ اس کی حدیث صحیح ہو یا غیر صحیح، پس جب معتبر راویوں میں سے کسی ایک کے موافق روایت آجائے تو مذکورہ دونوں احتمالوں میں سے ایک کو ترجیح حاصل ہوجائے گی اوریہ بات دلالت کرتی ہے کہ یہ حدیث محفوظ ہے اور درجہ توقف سے درجہ قبول پر فائز ہوگئی ہے اھ واللہ اعلم، ذرا غور کرو متن میں محض ایک معتبر کے ساتھ اور شرح میں کئی افراد کے ساتھ موافقت روایت پر اکتفا کیسے کیا اور اسے قبول کا درجہ دیا ہے اور یہاں قبول سے مراد احکام میں قبولیت مراد ہے کیونکہ انہوں نے حدیث ضعیف کو صالح للاعتبار والرد کہا ہے کیونکہ حدیث ضعیف فضائل میں تو بالاجماع مقبول ہے، خواہ اس کے ساتھ کوئی دوسری روایت نہ ہو اور میرے لئے یہ ظاہر ہوا کہ وجہ ان دونوں عراقی اور شیخ الاسلام کے ساتھ ہے، اس بنا پر جو نزہۃ میں ان دونوں کی دلیل بیان کی گئی ہے یہ فتح المغیث پر میری تعلیق سے منقول ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۱؎شرح ننجۃ الفکر    بحث سوء الحفظ   مطبوعہ مطبع علیمی اندرون لوہاریگیٹ لاہور    ص ۷۴)

 

یہ چند جملے لوحِ دل پر نقش کرلینے کے ہیں کہ بعونہٖ تعالٰی اس تحریر نفیس کے ساتھ شاید اور جگہ نہ ملیں، وباللّٰہ التوفیق ولہ الحمد، الحمداللّٰہ القادر القوی علم ماعلم وصلی اللّٰہ تعالٰی علی ناصر الضعیف واٰلہ وسلم، قبول ضعیف فی فضائل الاعمال کا مسئلہ جلیلہ ابتدائً مسووہ فقیر میں صرف دو۲ افادہ مختصر میں تین صفحہ کے مقدار تھا اب کو ماہِ مبارک ربیع الاول ۱۳۱۳ھ میں رسالہ بعونہٖ تعالٰی بمبئی میں چھپنا شروع ہوگیا اثنائے تبییض میں بارگاہِ مفیض علوم ونعم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بحمدہ اللہ تعالٰی نفائس جلیلہ کا اضافہ ہوا افادہ شانزدہم سے یہاں تک آٹھ افاداتِ نافعہ اسی مسئلہ کی تحقیق میں القا ہُوئے قلم روکتے روکتے اتنے اوراق املا ہوئے، امید کی جاتی ہے کہ اس مسئلہ کی ایسی تسجیل جلیل وتفصیل جزیل اس تحریر کے سوا کہیں نہ ملے، مناسب ہے کہ یہ افادے اس مسئلہ خاص میں جدا رسالہ قرار دئے جائیں اوربلحاظ تاریخ الھاد الکاف فی حکم الضعاف عہ (۱۳۱۳ھ) (ضعیف حدیثوں کے حکم میں کافی ہدایت۔ ت)

 

لقب پائیں وباللّٰہ التوفیق ولہ المنۃ علی مازرق من نعم تحقیق ماکنا لعشر معشاار عشرھا نلیق والصلاۃ والسلام علی الحبیب الکریم واٰلہ وصحبہ ھداۃ الطریق اٰمین۔

Post a Comment

Previous Post Next Post