Ya RasoolALLAH pukarne ke dalail | Risala Anwar ul Intibah by AalaHazrat

 

رسالہ

انوارالانتباہ فی حل نداء یارسول اﷲ

(یارسُول اﷲ کہنے کے جواز کے بارے میں نورانی تنبیہیں)

 

مسئلہ ۱۶۴ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید موحّد مسلمان جو خدا کو خدا اور رسول کو رسول جانتا ہے۔ نماز کے بعد اور دیگر اوقات میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بکلمہ یا ندا کرتا اور الصلّوۃ والسلام علیک یارسول اﷲ یا اسئلک الشفاعۃ یارسول اﷲ کہا کرتا ہے،  یہ کہنا جائز ہے یا نہیں ؟ اور جو لوگ اسے اس کلمہ کی وجہ سے کافر و مشرک کہیں ان کا کیا حکم ہے؟ بینوا بالکتاب توجروا یوم الحساب  ( کتاب سے بیان فرمائیے روزِ حساب اجر دیئے جاؤ گے۔ت)

 

الجواب

بسم اﷲ الرحمن الرحیم oط

الحمد ﷲ وکفٰی والصلوۃ والسلام علٰی حبیبہ المصطفٰی  واٰلہ واصحابہ اُولی الصدق والصّفا۔

 

کلماتِ مذکورہ بے شک جائز ہیںجن کے جواز میں کلام نہ کرے گا مگر سفیہ جاہل یا ضال مضل،  جسے اس مسئلہ کے متعلق قدرے تفصیل دیکھنی ہو شفاء السقام امام علام بقیۃ المجتہدین الکرام تقی الملۃ والدین علامہ زرقانی و مطالع المسرات علامہ فاسی ومرقاۃ شرح مشکوۃ علامہ علی قاری ولمعات و اشعۃ اللمعات شروح مشکوۃ و جذب القلوب الٰی دیار المحبوب و مدارج النبوۃ تصانیف شیخ عبدالحق محدث دہلوی و افضل القرٰی شرح اُمّ القرٰی امام ابن حجر مکی وغیرہا کتب وکلام علمائے کرام وضلائے عظام علیہم رحمۃ اﷲ العلام کی طرف رجوع لائے یا فقیر کا رسالہ الاھلال بفیض الاولیاء بعد الوصال مطالعہ کرے۔

 

یہاں فقیر بعدرِ ضرورت چند کلمات اجمالی لکھتا ہے،  حدیث صحیح مذیل بطراز گرانہائے تصحیح جسے امام نسائی و امام ترمذی وابن ماجہ وحاکم و بیھقی و امام الائمہ ابن خزیمہ و امام ابوالقاسم طبرانی نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا اور ترمذی نے حسن غریب صحیح اور طبرانی و بیہقی نے صحیح اور حاکم نے بر شرطِ بخاری و مسلم جس میں حضور ِ اقدس سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک نابینا کو دُعا تعلیم فرمائی کہ بعد نمازیوں کہے : " اللھم انی اسئلک واتوجّہ الیک بنبیک محمدٍ نبی الرحمۃ یا محمد انی اتوجہ بک الٰی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضٰی لی اللھم فشفعہ فیِّ ۱ ؎۔ اے اﷲ ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں بوسیلہ تیرے نبی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کہ مہربانی کے نبی ہیں،  یارسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ! میں حضور کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اس حاجت میں توجہ کرتا ہو کہ میری حاجت روا ہو۔ الہٰی ان کے شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔

 

 ( ۱ ؎جامع ترمذی   ابواب الدعوات      باب فی انتظار الفرج وغیر ذلک   امین کمپنی دہلی     ۲/ ۱۹۷)

(سنن ابن ماجہ   باب ماجاء فی صلوۃ الحاجۃ   ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۱۰۰)

(المستدرک للحاکم     کتاب الدعا مکتبہ     اسلامیہ بیروت    ۱ /۵۱۹  وصحیح ابن خزیمۃ باب صلوۃ الترغیب   ۲ /۲۲۶)

 

امام طبرانی کی معجم میں یوں ہے : " انّ رجلاً کان یختلف الٰی عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ فی حاجۃ لہ وکان عثمان لایلتفت الیہ ولا ینظر فی حاجتہ فلقی عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ فشکٰی ذلک الیہ فقال لہ عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ ائتِ المیضاء ۃ فتوضّأ ثم ائت المسجد فصلّ فیہ رکعتین ثم قل اللّٰھمّ انّی اسئلک و  اتوجّہالیک بنبینا نبی الرحمۃ یا محمد انی اتوجہ بک الٰی ربّی فیقضی حاجتی،  وتذکر حاجتک ورُح الیّ حتّی ارُوح معک فانطلق الرجل فصنع ماقال لہ ثم اتٰی باب عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ فجاء البوّابُ حتّٰی اخذہ بیدہ فادخلہ علٰی عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالٰی عنہ فاجلسہ معہ،  علی الطّنفسۃ وقال حاجتک ؟ فذکر حاجتہ فقضا ھالہ ثمّ قال ماذکرت حاجتک حتی کانت ھذہ الساعۃ وقال ماکان لک من حاجۃٍ فاتنا،  ثم انّ الرجل خرج من عندہ فلقی عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ فقال لہ، جزاک اﷲ خیرا ماکان ینظر فی حاجتی ولا یلتفت الیّ حتّٰی کلّمتہ فی فقال عثمٰن بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ واﷲ ماکلّمتہ،  ولٰکن شھدت رسول اﷲ لی اللہ تعالٰی علیہ وسلم واتاہ رجل ضریر فشکا  الیہ ذھاب بصرہ فقال لہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ائت المیضأۃ   فتوضّأ ثمّ صل رکعتین ثم ادع بھٰذہ الدعوات  فقال عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالٰی عنہ فواﷲ ماتفرقنا وطال بنا الحدیث حتّٰی دخل علینا الرجل کانہ لم یکن بہ ضرّ  قط  ۱ ؎۔

 

یعنی ایک حاجتمند اپنی حاجت کے لیے امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں آتا جاتا،  امیر المومنین نہ اس کی طرف التفات فرماتے نہ اس کی حاجت پر نظر فرماتے،  اس نے عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس امر کی شکایت کی،  انہوں نے فرمایا وضو کرکے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ پھر دعا مانگ " الہٰی میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف اپنے نبی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وسیلے سے توجہ کرتا ہوں،  یارسول اﷲ ! میں حضور کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ میری حاجت روا فرمائے۔" اور اپنی حاجت ذکر کر،  پھر شام کو میرے پاس آنا کہ میں بھی تیرے ساتھ چلوں۔ حاجتمند نے ( کہ وہ بھی صحابی یا لاقل کبار تابعین میں سے تھے۔) یوں ہی کیا،  پھر آستانِ خلافت پر حاضر ہوئے،  دربان آیا اور ہاتھ پکڑ کر امیر المومنین کے حضور لے گیا،  امیر المومنین نے اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا،  مطلب پوچھا ،  عرض کیا،  فوراً روا فرمایا،  اور ارشاد کیا اتنے دنوں میں اس وقت اپنا مطلب بیان کیا،  پھر فرمایا: جو حاجت تمہیں پیش آیا کرے ہمارے پاس چلے آیا کرو۔ یہ صاحب وہاں سے نکل کر عثمان بن حنیف سے ملے اور کہا اﷲ تعالٰی تمہیں جزائے خیر دے امیر المومنین میری حاجت پر نظر اور میری طرف توجہ نہ فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی،  عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : خدا کی قسم ! میں نے تو تمہارے معاملے میں امیر المومنین سے کچھ بھی نہ کہا مگر ہوا یہ کہ میں نے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا حضور کی خدمتِ اقدس میں ایک نابینا حاضر ہوا اور نابینائی کی شکایت کی حضور نے یونہی اس سے ارشاد فرمایا کہ وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھے پھر یہ دعا کرے۔ خدا کی قسم ہم اُٹھنے بھی نہ پائے تھے باتیں ہی کررہے تھے کہ وہ ہمارے پاس آیا گویا کبھی وہ اندھا نہ تھا۔

 

 ( ۱ ؎ الترغیب والترھیب بحوالہ الطبرانی   الترغیب فی صلوۃ الحاجۃ حدیث ا    مصطفٰی البابی مصر     ۱ /۲۷۴ تا ۲۷۶)

(مجمع الزوائد  بحوالہ الطبرانی   باب صلوۃ الحاجۃ     دارالکتاب بیروت        ۲ /۲۷۹)

 

امام طبرانی پھر امام منذری فرماتے ہیں والحدیث صحیح ۲ ؎۔  (یہ حدیث صحیح ہے)۔

 

 (۲ ؎ الترغیب والترھیب بحوالہ الطبرانی   الترغیب فی صلوۃ الحاجۃ حدیث ا    مصطفٰی البابی مصر     ۱ /۲۷۴ تا ۲۷۶)

(مجمع الزوائد  بحوالہ الطبرانی   باب صلوۃ الحاجۃ     دارالکتاب بیروت        ۲ /۲۷۹)

 

امام بخاری کتاب  الادب المفرد (عہ) میں اور امام ابن السنی وامام ابن بشکوال روایت کرتے ہیں : انّ ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھما خدرت رجلہ فقیل لہ،  اذکراحب الناس الیک فصاح یا محمداہ فانتشرت ۳ ؎۔ یعنی حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہماکا پاؤں سوگیا ،  کسی نے کہا انہیں یاد کیجئے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ حضرت نے باآواز بلند کہا۔ یا محمداہ ! فوراً پاؤں کھل گیا۔

 

عہ :  ولفظ البخاری فی الادب المفرد خدرت رجل ابن عمر فقال لہ رجل اذکراحب الناس الیک فقال یا محمد۴؂ اھ ۱۲ منہ۔

 

( ۳ ؎عمل الیوم واللیلۃ    حدیث ۱۶۸     دائرۃ المعارف النعمانیہ    ص ۴۷)

( ۴ ؎الادب المفرد         حدیث ۹۶۴   مکتبۃ الاثریۃ سانگلہ       s ص ۲۵۰)

 

امام نووی شارح صحیح مسلم رحمۃ اﷲ تعالٰی نے کتاب الزکار میں اس کی مثل حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے نقل فرمایا کہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے پاس کسی آدمی کا پاؤں سوگیا تو عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا  : تو اس شخص کو یاد کر جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے،  تو اس نے یا محمداہ کہا،  اچھا ہوگیا ۱ ؎ ۔ اور یہ امر ان دو صحابیوں کے سوا اوروں سے بھی مروی ہوا۔ اہلِ مدینہ میں قدیم سے اس یا محمداہ کہنے کی عادت چلی آتی ہے۔

 

 ( ۱ ؎ الاذکار باب مایقولہ اذاخدرت رجلہ  دارالکتاب العربی بیروت ص۲۷۱)

 

علامہ شہاب خفا جی مصری نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں۔ ھذا مما تعاھدہ،  اھل المدینۃ۲ ؎ ۔ یہ اہل مدینہ کے معمولات میں سے ہے۔ (ت)

 

 ( ۲ ؎نسیم الریاض شرح الشفاء    فصل فیماروی عن السلف مرکز اہلسنت برکاتِ رضا گجرات ۳ /۳۵۵)

 

حضرت بلال بن الحارث مُزنی سے قحطِ عام الرمادہ میں کہ بعد خلافتِ فاروقی ۱۸ ھ میں واقع ہوا،  ان کی قوم بنی مزینہ نے درخواست کی کہ ہم مرے جاتے ہیں کوئی بکری ذبح کیجئے فرمایا بکریوں میں کچھ نہیں رہا ہے،  انہوں نے اصرا ر کیا ،  آخر ذبح کی ،  کھال کھینچی تو نِری سرخ ہڈی نکلی،  یہ دیکھ کر بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ندا کی ۔ یا محمداہ پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خواب میں تشریف لا کر بشارت دی۔ ذکرہ فی الکامل ۳ ؎۔  (اس کو کامل میں ذکر کیا گیا۔ت)

 

 ( ۳ ؂ الکامل فی التاریخ لابن الاثیر     ذکر القحط وعام الرمادہ      دارصادر بیروت      ۲ /۵۵۶)

 

امام مجتہد فقیہ اجل عبدالرحمن ہذلی کو فی مسعودی کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پوتی اور اجلہ تبع تابعین و اکابر ائمہ مجتہدین سے ہیں سرپر بلند ٹوپی رکھتے جس میں لکھا تھا : محمد یا منصور " اور ظاہر ہے کہ " اَلْقَلَمُ اَحَدُ اللِّسَانَیْنِ  ( قلم دو زبانوں میں سے ایک ہے۔ت)

 

ہثیم بن جمیل انطا کہ ثقات علمائے محدثین سے ہیں،  انہیں امام اجل کی نسبت فرماتے ہیں : رأیتہ وعلٰی رأسہ قلنسوتہ اطول من ذراع مکتوب فیہا مُحَمد یا منصورُ ذکرہ فی تہذیب التہذیب وغیرہ ۴؂ ۔ میں نے اُن کو دیکھا ان کے سر پر ہاتھ بھر سے لمبی ٹوپی تھی جس میں لکھا ہوا تھا۔محمد یا منصور۔ اس کو تہذیب التہذیب وغیرہ میں ذکر کیا ہے۔ت)

 

 ( ۴ ؎میزان الاعتدال فی نقدالرجل    ترجمہ ۴۹۰۷  دارالمعرفۃ للطباعۃ      ۲ /۵۷۴)

 

امام شیخ الاسلام شہاب رملی انصاری کے فتاوٰی میں ہے : سُئل عمّا یقعُ من العامّۃِ من قولھم عند الشدائد یا شیخ فلان ونحوذٰلک من الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والصالحین وھل للمشائخ اِغاثۃ بعد موتھم ام لا؟ فاجاب بما نَصّہ،  انّ الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والاولیاء والعلماء الصّالحین جائزۃ وللانبیا ء و للرسل والاولیاء والصالحین اِغاثۃ بعد موتھم الخ  ۱ ؎۔ یعنی ان سے استفتاء ہوا کہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت انبیاء و مرسلین واولیاء وصالحین سے فریاد کرتے اور یا شیخ فلاں (یارسول اﷲ ،  یا علی،  یا شیخ عبدالقادر جیلانی) اور ان کی مثل کلمات کہتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور اولیاء بعد انتقال کے بھی مدد فرماتے ہیں یا نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ بے شک انبیاء و مرسلین واولیاء و علماء سے مدد مانگنی جائز ہے اور وہ بعد انتقال بھی امداد فرماتے ہیں۔ الخ۔

 

( ۱ ؎فتاوٰی الرملی فی فروع الفقہ الشافعی  مسائل شتّٰی دارالکتب العلمیہ بیروت۴ /۷۳۳)

 

علامہ خیر الدین رملی اُستاذ صاحبِ دُرمختار ،  فتاوٰی خیر یہ میں فرماتے ہیں : قولھم یا شیخ عبدالقادر فہونداء فما الموجب الحرمتہ ۲ ؎ ۔ لوگوں کا کہنا کہ: یا شیخ عبدالقادر "  یہ ایک ندا ہے پھر اُس کی حرمت کا سبب کیا ہے۔

 

 ( ۲ ؎فتاوٰی خیریہ      کتاب الکراھیۃ والاستحسان     دارالمعرفۃ للطباعۃ بیروت۲ /۱۸۲)

 

سیدی جمال بن عبداﷲ بن عمر مکی اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں : سئلت ممن یقول فی حال الشدائد یارسول اﷲ اویا علی اویا شیخ عبدالقادر مثلاً ھل ھو جائز شرعاً ام لا؟ اجبت نعم الاستغاثۃ بالاولیاء ونداؤھم والتوسل بھم امر مشروع وشیئ مرغوب لاینکرہ الامکابر اومعاند وقد حرم برکۃ الاولیاء الکرام ۳ ؎الخ۔ یعنی مجھ سے سوال ہوا اس شخص کے بارے میں جو مصیبت کے وقت میں کہتا ہو یارسول اﷲ یا علی یا شیخ عبدالقادر،  مثلاً آیا یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ میں نے جواب دیا: ہاں اولیاء سے مدد مانگنی اور انہیں پکارنا اور ان کے ساتھ توسّل کرنا شروع میں جائز اور پسندیدہ چیز ہے جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹ دھرم یا صاحبِ عناد،  اور بےشک وہ اولیاء کرام کی برکت سے محروم ہے۔

 

 ( ۳ ؎فتاوٰی جمال بن عبداﷲ بن عمر مکی)

 

امام ابن جوزی نے کتاب عیون الحکایات میں تین اولیائے عظام کا عظیم الشان واقعہ بسندِ مسلسل روایت کیا کہ وہ تین بھائی سوار ان دلاور ساکنانِ شام تھے کہ ہمیشہ راہِ خدا میں جہاد کرتے : فاسرہ الروم مّرۃ قال لھم الملک انی اجعل فیکم الملک وازوّجکم بناتی و تدخلون فی النصرانیّۃ فابَوا وقالوا یا مُحَمَّدَاہُ ۱ ؎۔ یعنی ایک بار نصاری روم انہیں قید کرکے لے گئے بادشاہ نے کہا میں تمہیں سلطنت دوں گا اور اپنی بیٹیاں تمہیں بیاہ دوں گا تم نصرانی ہوجاؤ۔ انہوں نے نہ مانا اور ندا کی یا محمداہُ ۔

 

 ( ۱ ؎شرح الصدور بحوالہ عیون الحکایات    باب زیادۃ القبور و علم الموتی الخ     خلافت اکیڈمی منگورہ سوات ص ۸۹)

 

بادشاہ نے دیگوں میں تیل گرم کرا کر دو صاحبوں کو اس میں ڈال دیا،  تیسرے کو اللہ تعالٰی نے ایک سبب پیدا فرما کر بچالیا۔ وہ دونوں چھ مہینے کے بعد مع ایک جماعت ملائکہ کے بیداری میں ان کے پاس آئے اور فرمایا :اللہ تعالٰی نے تمہاری شادی میں شریک ہونے کو بھیجا ہے انہوں نے حال پوچھا فرمایا : ماکانت الاّ الغطسۃ التی رأیت حتّٰی خرجنا فی الفردوس۔ بس وہی تیل کا ایک غوطہ تھا جو تم نے دیکھا اس کے بعد ہم جنت اعلی میں تھے۔

 

امام فرماتے ہیں : کانا مشہورین بذلک معروفین بالشام فی الزمن الاوّل ۔ یہ حضرات زمانہ سلف میں مشہور تھے اوران کا یہ واقعہ معروف ۔

 

پھر فرمایا : شعراء نے ان کی منقبت میں قصیدے لکھے ،  ازانجملہ یہ بیت ہے۔ ؎ سیعطی الصادقین بفضل صدق                 نجاۃ فی الحیاۃ وفی الممات۲؂ قریب ہے کہ ا ﷲ تعالٰی سچے ایمان والوں کو ان کے سچ کی برکت سے حیات و موت میں نجات بخشے گا۔

 

 ( ۲ ؎شرح الصدور بحوالہ عیون الحکایات   باب زیادۃ القبور و علم الموتی الخ     خلافت اکیڈمی منگورہ سوات ص ۹۰)

 

یہ واقعہ عجیب،  نفس و روح پرور ہے،  میں بخیالِ تطویل اسے مختصر کر گیا،  تمام و کمال امام جلال الدین سیوطی کی شرح الصدور میں ہے من شاء  فلیرجع الیہ  ( جو تفصیل چاہتا ہے اس کی طرف رجوع کرے۔ت) یہاں مقصود اس قدر ہے کہ مصیبت میں "  یارسول اﷲ "  کہنا اگر شرک ہے تو مشرک کی مغفرت و شہادت کیسی،  اور جنت الفردوس میں جگہ پائی کیا معنے،  اور ان کی شادی میں ۔

 

فرشتوں کو بھیجنا کیونکر معقول ؟ اور ان ائمہ دین نے یہ روایت کیونکر مقبول اور ان کی شہادت و ولایت کس وجہ سے مسلم رکھی۔ اور وہ مردانِ خدا خود بھی سلفِ صالح میں تھے کہ واقعہ شہر طرطوس کی آبادی سے پہلے کا ہے "  کما ذکرہ فی الرِّوایۃ نفسہا "  ( جیسا کہ خود روایت میں ذکر کیا ہے۔ت) اور طرطوس ایک ثغر ہے یعنی دارالاسلام کی سرحد کا شہر جسے خلیفہ ہارون رشید نے آباد کیا " کما ذکرہ الامام السیوطی ۱؂ فی تاریخ الخلفاء " جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے تاریخ الخلفاء  میں اس کاذکر کیا ہے۔ت)

 

 ( ۱ ؎ شرح الصدور   باب زیارۃ القبور     مصطفٰی  البابی مصر     ص ۸۹)

 

ہارون رشید کا زمانہ زمانہ تابعین و تبع تابعین تھا تو یہ تینوں شہدائے کرام اگر تابعی نہ تھے لا اقل تبع تابعین سے تھے واﷲ الہادی ( اور اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے۔ت)

 

حضور پرنور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ارشاد فرماتے ہیں : من استغاث بی فی کربۃٍ کشفت عنہ و من نادی باسمی فی شدۃ فرجت عنہ من توسّل بی الی اﷲ عزوجل فی حاجَۃٍ قضیت لہ ومن صلّٰی رکعتین یقرأفی کل رکعۃٍ بعد الفاتحۃ سورۃ اخلاص اِحدٰی عشرۃ مرَّۃً ثم یصلّی علی رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بعد السلام ویسلم علیہ ویذکر نی ثم یخطوالٰی جہۃ العراق احدٰی عشرۃ خطوۃ یذکرھا اسمی ویذکر حاجتہ فانہا تقضٰی باذن اﷲ۲ ؎۔

 

یعنی جو کسی تکلیف میں مجھ سے فریاد کرے وہ تکلیف دفع ہواور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر ندا کرے وہ سختی دور ہو اور جو کسی حاجت میں اﷲ تعالٰی کی طرف مجھ سے توسل کرے وہ حاجت بر آئے۔ اور جو دو رکعت نماز ادا کرے ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص گیارہ بار پڑھے پھر سلام بھیجے اور مجھے یاد کرے،  پھر عراق شریف کی طرف گیارہ قدم چلے ان میں میرا نام لیتا جائے اور اپنی حاجت یاد کرے اس کی وہ حاجت روا ہو اﷲ کے اذن سے۔

 

( ۲ ؎بہجۃ الاسرار    ذکر فضل اصحابہ وبشراہم         مصطفٰی البابی مصر    ص ۱۰۲)

(زبدۃ الاسرار     ذکر فضل اصحابہ ومریدیہ ومحبیہ    بکسلنگ کمپنی بمبئی    ص ۱۰۱)

 

اکابر علمائے کرام و اولیائے عظام مثل امام ابوالحسن نور الدین علی بن جریر لخمی شطنوفی وامام عبداﷲ بن اسد یافعی مکّی ،  مولانا علی قاری مکی صاحبِ مرقاۃ شرح مشکوۃ ،  مولینٰا ابوالمعالی محمد سلمی قادری و شیخ محقق مولانا عبدالحق محدثِ دہلوی وغیرہم رحمۃ اﷲ علیہم اپنی تصانیف جلیلہ بہجۃ الاسرار و خلاصۃ المفاخر و نزہۃ الخاطر وتحفہ قادریہ وزبدۃ الآثار وغیرہا میں یہ کلمات رحمت آیات حضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل و روایت فرماتے ہیں۔

 

یہ امام ابوالحسن نور الدین علی مصنف ِ بہجۃ الاسرار شریف اعاظمِ علماء وآئمۃ قراء ت و اکابر اولیاء وساداتِ طریقت سے ہیں،  حضور غوث الثقلین رضی اللہ تعالٰی عنہ تک صرف دو واسطے رکھتے ہیں،  امام اجل حضرت ابوصالح نصر قدس سرہ،  سے فیض حاصل کیا انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت ابوبکر تاج الدین عبدالرزاق نور اﷲ مرقدہ،  سے انہوں نے اپنے والد ماجد حضور پُر نور سیدالسادات غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے،

 

شیخ محقق رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ زبدۃ الآثار شریف میں فرماتے ہیں : یہ کتاب بجۃ الاسرار کتاب عظیم و شریف و مشہور ہے اور اس کے مصنف علمائے قراء ت سے عالم معروف و مشہور اور ا ن کے احوالِ شریفہ (عہ) کتابوں میں مذکور و مسطور  ۱ ؎۔

 

عہ : اما م جلال الدین سیوطی نے ان جناب کو الامام الاوحد لکھا یعنی امام یکتا بے نظیر

 

 (۱؂ زبدۃ الاثار      بکسلنگ کمپنی بمبئی    ص ۲)

 

امام شمس الدین ذہبی کہ علمِ حدیث و اسماء الرجال میں جن کی جلالت شان عالم آشکار اس جنا ب کی مجلس درس میں حاضر ہوئے اور اپنی کتاب طبقات المقرئین میں ان کے مدائح لکھے۔

امام محدث محمد بن محمد بن الجزری مصنفِ حصن حصین اس جناب کے سلسلہ  تلامذہ میں ہیں انہوں نے یہ کتاب مسطاب بہجۃ الاسرار شریف اپنے شیخ سے پڑھی اور اس کی سند و اجازت حاصل کی ۲ ؎۔

 

 (۲؂  زبدۃ الاثار      بکسلنگ کمپنی بمبئی    ص ۲)

 

ان سب باتوں کی تفصیل اور اس نماز مبارک کا دلائل شرعیہ و اقوال وافعالِ علماء وا ولیاء سے ثبوتِ جلیل فقیر غفر اﷲ تعالٰی لہ، کے رسالہ انہار الانوار من یم صلوۃ الاسرار میں ہے ۔

 

فعلیک بما تجدفیہا مایشفی الصدورویکشف العمٰی والحمدﷲ ربّ العلمین۔ اس رسالہ کا مطالعہ تجھ پر لازم ہے اس میں تُو وہ کچھ پائے گا جو دلوں کو شفا دیتا ہے اور اندھا پن کو دور کرتا ہی اور سب تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔(ت)

 

امام عارف باﷲ سیدی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ ربانی کتاب مستطاب "  لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار"  میں فرماتے ہیں : امام عارف باﷲ سیدی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ ربانی کتاب مستطاب "  لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار"  میں فرماتے ہیں :  سیدی محمد غمری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک مرید بازار میں تشریف لیے جاتے تھے ان کے جانور کا پاؤں پھسلا،  باآواز پکارا یا سیدی محمد یا غمری ، ادھر ابن عمر حاکمِ صعید کو بحکم سلطان چقمق قید کیے لیے جاتے تھے،  ابن عمر نے فقیر کا نداء کرنا سُنا ،  پوچھا یہ سیدی محمد کون ہیں؟ کہا میرے شیخ کہا میں ذلیل بھی کہتا ہوں، یا سیدی یا غمری لاحِظنی اے میرے سردار اے محمد غمری ! مجھ پر نظر عنایت کرو،  ان کا یہ کہنا کہ حضرت سیّدی محمد غمری رضی اللہ تعالٰی عنہ تشریف لائے اور مدد فرمائی کہ بادشاہ اور اس کے لشکریوں کی جان پر بن گئی،  مجبورانہ ابن عمر کو خلعت دے کر رخصت کیا ۱ ؎۔

 

 ( ۱ ؎لوا قح الانوار فی طبقات الاخیار     ترجمہ ۳۲۴ الشیخ محمد الغمری     مصطفٰی البابی مصر     ۲ /۸۸)

 

اسی میں ہے :

 سیدی شمس الدین محمد حنفی رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے حجرہ خلوت میں وضو فرمارہے تھے ناگاہ ایک کھڑاؤں ہوا پر پھینکی کے غائب ہوگئی حالانکہ حجرے میں کوئی راہ اس کے ہوا پر جانے کی نہ تھی۔ دوسری کھڑاؤں اپنے خادم کو عطا فرمائی کہ اسے اپنے پاس رہنے دے جب تک وہ پہلی واپس آئے،  ایک مدت کے بعد ملکِ شام سے ایک شخص وہ کھڑاؤں مع اور ہدایا کے حاضر لایا اور عرض کی کہ اﷲ تعالٰی حضرت کو جزائے خیر دی جب چور میرے سینہ پر مجھے ذبح کرنے بیٹھا میں نے اپنے دل میں کہا ۔ "  یاسیدی محمد یا حنفی " اُسی وقت یہ کھڑاؤں غیب سے آکر اس کے سینہ پر لگی کہ غش کھا کر الٹا ہوگیا اور مجھے یہ برکتِ حضرت اﷲ عزوجل نے نجات بخشی۲ ؎۔

 

( ۲ ؎ لواقح الانوار فی طبقات الاخیار     ترجمہ ۳۲۵ سیدنا و مولانا شمس الدین حنفی مصطفٰی البابی مصر  ۲ /۹۵)

 

اسی میں ہے : ولیِ ممدوح قدس سرّہ کی زوجہ مقدسہ بیماری سے قریبِ مرگ ہوئیں تو وہ یوں نداکرتی تھیں : "  یاسیدی احمد یا بدویُّ خاطرک معی " اے میرے سردار اے احمد بدوی ! حضرت کی توجہ میرے ساتھ ہے۔ ایک دن حضرت سیدی احمد کبیر بدوی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں، کب تک مجھے پکارے گی اور مجھ سے فریاد کرے گی تو جانتی نہیں کہ تو ایک بڑے صاحبِ تمکین ( یعنی اپنے شوہر ) کی حمایت میں ہے،  اور جو کسی ولیِ کبیر کی درگاہ میں ہوتا ہے ہم اس کی نداء پر اجابت نہیں کرتے،  یوں کہہ یا سیدی محمد یا حنفی کہ یہ کہے گی تو اﷲ تعالٰی تجھے عافیت بخشے گا۔

ان بی بی نے یونہی کہا،  صبح کو خاصی تندرست اُٹھیں ،  گویا کبھی مرض نہ تھا ۱ ؎۔

 

 ( ۱ ؎ لواقح الانوار فی طبقات الاخیار ترجمہ    ۳۲۵   سیدنا ومولٰنا شمس الدین الحنفی مصطفٰی  البابی مصر ۲ /۹۶)

 

اسی میں ہے حضرت ممدوح رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے مرضِ موت میں فرماتے تھے۔ من کانت حاجۃ فلیأت الٰی قبری و یطلب حاجتہ اقضہالہ فانّ مابینی وبینکم غیر ذراعٍ من تراب وکل رجل یحجبہ عن اصحٰبہ ذراع من تراب فلیس برجل۲ ؎۔ جسے کوئی حاجت ہو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر حاجت مانگے میں رَوا فرمادوں گا کہ مجھ میں تم میں یہی ہاتھ بھر مٹی ہی تو حائل ہے اور جس مرد کو اتنی مٹی اپنے اصحاب سے حجاب میں کردے وہ مرد کا ہے کا۔

 

 (۲ ؎ لواقح الانوار فی طبقات الاخیار ترجمہ    ۳۲۵   سیدنا ومولٰنا شمس الدین الحنفی مصطفٰی  البابی مصر ۲ /۹۶)

 

اسی طرح حضرت سیدی محمد بن احمد فرغل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے احوال شریفہ میں لکھا : کان رضی اللہ تعالٰی عنہ یقول انا من المتصرفین فی قبورھم فمن کانت لہ حاجۃ فلیأت الٰی قبالۃ وجھی ویذکرھا لی اقضہالہ ۳ ؎۔ فرمایا کرتے تھے میں اُن میں ہوں جو اپنی قبور میں تصرف فرماتے ہیں جسے کوئی حاجت ہو میرے پاس میرے چہرہ مبارک کے سامنے حاضر ہو کر مجھ سے اپنی حاجت کہے میں روا فرمادوں گا۔

 

 ( ۳ ؎لواقح الانوار فی طبقا ت الاخیار ترجمہ ۳۲۹ الشیخ محمد بن احمد الفرغل مصطفٰی  البابی مصر ۲ /۱۰۵)

 

اسی میں ہے  :  مروی ہوا ایک بار حضرت سیدی مدین بن احمد اشمونی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وضو فر ماتے ہیں ایک کھڑاؤں بلاد مشرق کی طرف پھینکی،  سال بھر کے بعد ایک شخص حاضر ہوئے اور وہ کھڑاؤں ان کے پاس تھی انہوں نے حال عرض کیا کہ جنگل میں ایک بدوضع نے ان کی صاحبزادی پر دست درازی چاہی،  لڑکی کو اس وقت اپنے باپ کے پیرو مرشد حضرت سیدی مدین کا نام معلوم نہ تھا یوں ندا کی "  یا شیخ ابی لاحظنی " اے میرے باپ کے پیر مجھے بچائیے،  یہ ندا کرتے ہی وہ کھڑاؤں آئی لڑکی نے نجات پائی وہ کھڑاؤں اُن کی اولاد میں اب تک موجود ہے۔ ۱ ؎۔

 

 ( ۱ ؎لواقح الانوار فی طبقا ت الاخیار ترجمہ ۳۲۶  الشیخ محمد بن احمد الفرغل مصطفٰی  البابی مصر ۲ /۱۰۲)

 

اسی میں سیدی موسٰی ابو عمران رحمہ اﷲ تعالٰی کے ذکر میں لکھتے ہیں : کان اذا ناداہُ مریدہ ،  اجابہ من مسیرۃِ سنۃٍ اواکثر  ۲ ؎ ۔ جب ان کا مرید جہاں کہیں سے انہیں نداء کرتا جواب دیتے اگرچہ سال بھر کی راہ پر ہوتا یا اس سے بھی زائد۔

 

 (۲ ؎الو قح الانوار فی طبقا ت الاخیار ترجمہ ۳۱۳  الشیخ محمد بن احمد الفرغل مصطفٰی  البابی مصر ۲ /۲۱)

 

حضرت شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی اخبار الاخیار شریف میں ذکر مبارک حضرت سید اجل شیخ بہاء الحق والدین بن ابراہیم عطا ء اﷲ الانصاری القادری الشطاری الحسینی رضی اللہ تعالٰی عنہ میں حضرت ممدوح کے رسالہ مبارکہ شطاریہ سے نقل فرماتے ہیں۔ ذکرِ کشفِ ارواح یا احمد یا محمد در دو طریق ست ،  یک طریق آنست یا احمد را در راستابگوید و یا محمد را درچپا بگوید و دردل ضرب کند یا رسول اﷲ طریق دوم آنست کہ یا احمد را در راستا گوید وچپا یا محمد و در دل و ہم کندیا مصطفٰی  دیگر ذکر یا احمد یا محمد یا علی یا حسن یا حسین یا فاطمہ شش طرفی ذکر کندکشف جمیع ارواح شود دیگر اسمائے ملائکہ مقرب ہمیں تاثیر دارند یا جبریل،  یا میکائیل یا اسرافیل یا عزرائیل چہار ضربی ،  دیگر ذکر اسم شیخ یعنی بگوید یا شیخ یا شیخ ہزار بار بگوید کہ حرفِ نداء را ازدل بکشدطرف راستابرد و لفظ شیخ را در دل ضرب کند  ۱ ؎۔

 

کشف ارواح کے ذکریا احمد و یا محمد میں دو طریقے ہیں پہلا طریقہ یہ ہے کہ یا احمد دائیں طرف اور یا محمد بائیں طرف سے کہتے ہوئے دل پر یارسول اﷲ کی ضرب لگائے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یا احمد دائیں طرف اور یا محمد بائیں طرف سے کہتے ہوئے دل میں یا مصطفٰی  کا خیال جمائے۔ اس کے علاوہ دیگر اذکار یا محمد ،  یا احمد،  یا علی ،  یا حسن،  یا حسین،  یا فاطمہ کا چھ طرفی ذکر کرنے سے تمام ارواح کا کشف حاصل ہوجاتا ہے۔ مقرب فرشتوں کے ناموں کا ذکر بھی تاثیر رکھتا ہے،  یا جبرائیل،  یا میکائیل ،  یا اسرافیل ،  یا عزرائیل کا چار ضربی ذکر کرے،  نیز اسم  شیخ کا ذکر کرتے ہوئے یا شیخ یا شیخ ہزار بار اس طرح کرے کہ حرفِ ندا کو دل سے کھینچتے ہوئے دائیں طرف لے جائے اور لفظِ شیخ سے دل پر ضرب لگائے۔(ت)

 

 ( ۱ ؎ اخبار الاخبار ترجمہ شیخ بہاؤ الدین ابراہیم عطاء اﷲ انصاری      مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر         ص۱۹۹)

(نفحات الانس   ترجمہ مولانا جلال الدین رومی،  کتاب فروشی محمودی   ص ۴۶۲ و ۴۶۳)

 

حضرت سیدی نور الدین عبدالرحمن مولانا جامی قدس سرہ السامی نفحات الانس شریف میں حضرت مولوی معنوی قدس سرہ العلی کے حالات میں لکھتے ہیں کہ مولانا روح اﷲ روحہ،  نے قریب انتقال ارشاد فرمایا : ازرفتینِ من غمناک مشوید کہ نور منصور رحمۃ اﷲ تعالٰی بعد ازصدو پنجاہ سال برروحِ شیخ فرید الدین عطار رحمہ اﷲ تعالٰی تجلّٰی کردو مرشد او شد  ۲؎ ۔

 

ہمارے جانے سے غمگین مت ہوں کہ حضرت منصور علیہ الرحمہ کا نور ایک سو پچاس سال بعد شیخ فرید الدین عطار کی روح پر تجلی کرتے ہوئے ان کا مرشد ہوگیا۔ (ت)

 

 (۲ ؎ نفحات الانس      ترجمہ مولانا جلال الدین رومی  کتاب فروشی محمودی     ص ۴۶۲ و ۴۶۳)

 

اور فرمایا  : درہرحالتے کہ باشید مرا یاد کنید تامن شمارا مِمدباشم درہرلبا سے کہ باشم ۳ ؎۔ تم جس حالت میں رہو مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہارا مددگار بنوں میں چاہے جس لباس میں ہوں۔(ت)

 

(۳ ؎ نفحات الانس      ترجمہ مولانا جلال الدین رومی،  کتاب فروشی محمودی   ص ۴۶۲ و ۴۶۳)

 

اور فرمایا: در عالم مارا دو تعلق ست،  یکے بہ بدن و یکے بشما ،  و چوں بہ عنایت ِ حق سبحانہ و تعالٰی فردومجرد شوم و عالم تجرید و تفرید روئے نماید آں تعلق نیز ازآں شما خواہد بود ۱ ؎۔ دنیا میں ہمارےدو تعلق ہیں ایک بدن کے ساتھ اور دوسرا تمہارے ساتھ،  جب حق تعالٰی کی عنایت سے میں فرد و مجرد ہوجاؤں گا اور عالمِ تفرید و تجرید ظاہر ہوجائے گا تو یہ تعلق بھی تمہارے لیے ہوگا۔ (ت)

 

 ( ۱ ؎ نفحات الانس     ترجمہ مولانا جلال الدین الرومی      کتاب فروشی محمودی        ص ۴۶۲و ۴۶۳)

 

شا ہ ولی اﷲ صاحب دہلوی اطیب النغم فی مدح سیّدالعرب والعجم میں لکھتے ہیں۔ وصلّٰی علیک اﷲ یا خیر خلقہ         ویاخیرمامول ویاخیرَ  واھب

ویاخیرمن یرجٰی لکشف رَزِیّۃٍ        ومن جودہ،  قد فاق جودالسحائب

وانت مجیری من ھجوم مُلمَّۃٍ         اذا انشبت فی القلب شرّ المخالب۲ ؎

 

اور خود اس کی شرح وترجمہ میں کہتے ہیں:  (فصل یازدہم در ابتہال بجناب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) رحمتِ فرستد برتو خدائے تعالٰی اے بہترین خلقِ خدا ،  واے بہترین کسیکہ امید داشتہ شود،  اے بہترین عطا کنندہ وائے بہترین کسیکہ امیدداشتہ باشد برائے ازالہ مصیبتے واے بہترین کسیکہ سخاوتِ او زیادہ است از باراں،  بارہا گواہی میدہم کہ تو پناہ دہندہ منی از ہجوم کردن مصیبتے وقتے کہ بخلاند در دل بدترین چنگالہارا ۳ ؎ اھ ملخصاً

 

 (گیارھویں فصل حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں عاجزانہ فریاد کے بارے میں) اے خلقِ خدا سے بہتر! آپ پر اﷲ تعالٰی درود بھیجے،  اے بہترین شخص جس سے امید کی جاتی ہے اور اے بہترین عطا کرنے والے اے بہترین شخص کہ مصیبت کو دور کرنے میں جس سے امید رکھی جاتی ہے،  اور جس کی سخاوت بارش پر فوقیت رکھتی ہے۔ آپ ہی مجھے مصیبتوں کے ہجوم سے پناہ دینے والے ہیں جب وہ میرے دل میں بدترین پنجے گاڑتی ہیں۔(ت)

 

 ( ۲ ؎ اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم     فصل یازدہم     مجتبائی دہلی    ص ۲۲)

( ۳ ؎ اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم    فصل یازدہم     مجتبائی دہلی    ص ۲۲)

 

اسی کے شروع میں لکھتے ہیں : ذکر بعد حوادث زماں کہ دراں حوادث لابدست ازاستمدا د بروحِ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۴؂ ۔ بعض حوادثِ زمانہ کا ذکرجن حوادث میں حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روح اقدس سے مدد طلب کرنا ضروری ہے۔ت)

 

 ( ۴ ؎ اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم    فصل اول     مجتبائی دہلی    ص ۲)

 

اسی کی فصل اول میں لکھتے ہیں : بہ نظرنمی آیدمرامگر آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ جائے دست زدن اندوہگین ست در ہرشد تے ۱ ؎ ۔ مجھے حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سوا کوئی نظر نہیں اتا کیونکہ ہر سختی میں غمزدوں کی پناہ گاہ آپ ہی ہیں۔(ت)

 

 ( ۱ ؎اطیب النغم فی مدح سیدالعرب والعجم     فصل اول     مجتبائی دہلی        ص۴)

 

یہی شاہ صاحب قصیدہ " مدحیہ حمزیہ"  میں لکھتے ہیں :

 

ینادی ضارعاً لخضوع قلب                                      وذلّ وابتھال والتجاء

رسول اﷲ یا خیرالبرایا                                نوالک ابتغی یوم القضاء

اذا ما حلّ خطب مدلھم                            فانت الحصن من کل البلاء

الیک توجھی وبک استنادی               وفیک مطامعی وبک ارتجائی ۲ ؎

 

اور خود ہی اس کی شرح و ترجمہ میں لکھتے ہیں : فصل شمشم درمخاطبہ جناب عالی علیہ افضل الصلوات واکمل التحیات والتسلیمات ندا کند زادوخوارشدہ بشکستگی دل و اظہار بے قدری خود بہ اخلاص درمناجات و بہ پناہ گرفتن بایں طریق کہ اے رسولِ خدا اے بہترین مخلوقات عطائے مے خواہم روز فیصل کردن ،  وقتے کہ فرود آید کار عظیم درغایت تاریکی پس توئی پناہ ازہر بلا بسوئے تست رو آوردن من و بہ تست پناہ گرفتن من و درتست امید داشتنِ من اھ ملخصاً ۳؂ "

 

چھٹی فصل عالی مرتبت سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو پکارنے کے بیان میں۔ آپ پر بہترین درود اور کامل ترین سلام ہو۔ ذلیل و خوار شخص شکستہ دل ،  ذلت و رسوائی عجزو انکسار کے ساتھ پناہ طلب کرتے ہوئے یوں پکارتا ہے،  اے اللہ تعالٰی کے رسول،  اے بہترین خلق ! میں فیصلے کے دن آپ کی عطا کا طلبگار ہوں،  جب انتہائی اندھیرے میں بہت بڑی مصیبت نازل ہو تو ہر بلائیں پناہ گاہ تو ہی ہے۔ میری توجہ تیری طرف ہے،  تجھ ہی سے میں پناہ لیتا ہوں،  تجھ ہی سے طمع وامید رکھتا ہوں اھ ملخصاً (ت)

 

 ( ۲ ؎اطیب النغم فی مدح سیدالعرب والعجم     فصل ششم     مطبع مجتبائی دہلی    ص۳۳)

 ( ۳ ؎اطیب النغم فی مدح سیدالعرب والعجم     فصل ششم     مطبع مجتبائی دہلی    ص۳۳ و ۳۴)

 

یہی شاہ صاحب "  انتباہ فی سلاسل اولیاء اﷲ"  میں قضائے حاجت کے لیے ایک ختم کی ترکیب یوں نقل کرتے ہیں۔

اوّل دورکعت نفل، بعد ازاں یک صدو یازدہ بار درود و بعدازاں یک صدو یازدہ بار کلمہ تمجید ویک صدو یازدہ بارشیئاً ﷲ یا شیخ عبدالقادر جیلانی  ۱ ؎۔

 

پہلے دو رکعت پڑھے پھر ایک سو گیارہ بار درود شریف،  ایک سو گیارہ بار کلمہ تمجید ،  پھر ایک سو گیارہ بار یہ پڑھے،  اے شیخ عبدالقادر جیلانی خدارا کچھ عطا فرمائیں۔(ت)

 

 (۱؂ الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ)

 

نوٹ  : الانتباہ دو حصوں پر مشتمل ہے ، پہلے حصہ میں سلاسلِ طریقت بیان کیے گیے ہیں اور دوسرے حصہ میں فقہ و حدیث کی سندیں بیان کی گئی ہیں  دوسرا حصہ مکتبہ سلفیہ لاہور نے "وصّاف النبیہ " کے نام سے شائع کیا تھا، ناشر نے مقدمہ میں تصریح کی ہے کہ اس حصہ کا ایک باب نہیں مل سکا اور وہ کچھ ضروری بھی نہ تھا، غالباً  یہ حوالہ اسی "غیر ضروری " حصہ میں قلم زد ہوگیا ہے ۱۲ شرف قادری

 

اسی انتباہ سے ثابت کہ یہی شاہ صاحب اور ان کے شیخ و استاذ حدیث مولانا طاہر مدنی جن کی خدمت میں مدتوں رہ کر شاہ صاحب نے حدیث پڑھی اور ان کے شیخ وا ستاذ و والد مولٰینا ابراہیم کُردی اوران کے استاذ الاستاذ مولٰینا احمد نخلی کہ یہ چاروں حضرات بھی شاہ صاحب کے اکثر سلاسلِ حدیث میں داخل اور شاہ صاحب کے پیرو مرشد شیخ محمد سعید لاہوری جنہیں انتباہ میں "شیخ معمر تقہ کہا اور اعیان مشائخ طریقت سے گنا اور ان کے پیرشیخ محمد اشرف لاہوری اور ان کے شیخ مولینا عبد المالک اور ان کے مرشد شیخ بایزید ثانی اور شیخ شناوی کے پیر حضرت سید صبغۃ اﷲ بروجی اور ان دو صاحبوں کے پیرو مرشد مولانا وجیہ الدین علوی شارح ہدایہ و شرح وقایہ اور ان کے شیخ حصرت شاہ محمد غوث گوالیاری علیہم رحمۃ الملک الباری،  یہ سب اکابر نادِ علی کی سندیں لیتے اور اپنے تلامذہ و مستفیدین کو اجازتیں دیتے اور یا علی یا علی کا وظفیہ کرتے واﷲ الحجۃ السامیہ،  جسے اس کی تفصیل دیکھنی ہو فقیرکے رسالہ "  انھارالانوار وحیات الموات فی بیان سماع الاموات " کی طرف رجوع کرے۔

 

شاہ عبدالعزیز صاحب نے بُستان المحدثین میں حضرتِ ارفع واعلٰی امام العلما نظام الاولیا حضرت سیدی احمد زرّوق مغربی قدس سرہ استاذ شمس الدین لقانی و امام شہاب الدین قسطلانی شارح صحیح بخاری کی مدحِ عظیم لکھی کہ وہ جناب ابدالِ سبعہ ومحققین صوفیہ سے ہیں،  شریعت و حقیقت کے جامع،  باوصفُ علوّباطن،  ان کی تصانیف علومِ ظاہری میں بھی نافع و مفید وبکثرت ہیں ،  اکابر علماء فخر کرتے ہیں کہ ہم ایسے جلیل القدر عالم و عارف کے شاگرد ہیں،  یہاں تک کہ لکھا : "  بالجملہ مردے جلیل القدر ے ست کہ مرتبہ کمالِ اُوفوق الذکراست " ۔

 

خلاصہ یہ کہ وہ بڑی قدرو منزلت والے بزرگ ہیں کہ ان کا مقام و مرتبہ ذکر سے ماوراء ہے۔ (ت)

 

پھر اس جناب جلالت مآب کے کلامِ سے دو بیتیں نقل کیں کہ فرماتے ہیں، ع انا لمریدی جامع لشتات              اذا ماسطاجورُ الزمان بنکبتہ

وان کنت فی ضَیقٍ وکربٍ ووحشۃٍ                    فنادبیازرّوق اٰت بسُرعتہ۱ ؎

 

یعنی میں اپنے مرید کی پریشانیوں میں جمعیت بخشنے والا ہوں جب ستمِ زمانہ اپنی نحوست سے اس پر تعدی کرے اور توتنگی و تکلیف و وحشت میں ہو تو یوں نداء کر: یازروق میں فوراً آ موجود ہوں گا۔

 

 ( ۱؂ بستان المحدثین      حاشیہ سید زروق فاسی علیالنجاری ایچ ایم سعید کمپنی کراچی      ص۳۲۲ )

 

علامہ زیادی،  پھر علامہ اجہوری صاحبِ تصانیفِ کثیرہ مشہورہ پھر علامہ داؤدی محشی شرح منہج ،  پھر علامہ شامی صاحبِ ردالمحتار حاشیہ درمختار گم شدہ چیز ملنے کے لیے فرماتے ہیں کہ : بلندی پر جا کر حضرت سیّدی احمد بن علوان یمنی قدس سرہ،  کے لیے فاتحہ پڑھے پھر انہیں نداء کرے کہ یا سیدی احمد یا ابن علوان۲ ؎۔

 

 ( ۲؂ حواشی الشامی علی ردالمحتار         کتاب اللقطہ          دار احیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۲۴ )

 

شامی مشہور و معروف کتاب ہے،  فقیر نے اس کے حاشیہ کی یہ عبارت اپنے رسالہ حیاۃ الموات کے ہامش تکملہ پر ذکر کی۔

غرض یہ صحابہ کرام سے اس وقت ت ک کے اس قدر ائمہ اولیاء و علماء ہیں جن کے اقولِ فقیر نے ایک ساعتِ قلیلہ میں جمع کیے۔ اب مشرک کہنے والوں سے صاف صاف پوچھنا چاہیے کہ عثمان بن حنیف و عبداﷲ بن عباس و عبداﷲ بن صحابہ کرام رضیا للہ تعالٰی عنہم سے لے کر شاہ ولی اﷲ و شاہ عبدالعزیز صاحب اور ان کے اساتذہ و مشائخ تک سب کو کافر و مشرک کہتے ہو یا نہیں؟ اگر انکار کریں تو الحمدﷲ ہدایت پائی اور حق واضح ہوگیا اور بے دھڑک ان سب پر کفر و شرک کا فتوٰی جاری کریں تو ان سے اتنا کہئے کہ اﷲ تمہیں ہدایت کرے۔ ذرا آنکھیں کھول کر دیکھو تو کسے کہا اور کیا کچھ کہا "  انّا ﷲ وانّا الیہ راجعون " اور جان لیجئے کہ مذہب کی بنا پر صحابہ سے لے کر اب تک کے اکابر سب معاذ اﷲ مشرک و کافر ٹھہریں۔ وہ مذہب خدا و رسول کو کس قدر دشمن ہوگا۔

 

صحیح حدیثوں میں آیا کہ "  جو مسلمان کو کافر کہے خود کافر ہے ۱ ؎۔

 

 ( ۱؂صحیح البخاری کتاب الادب     باب من اکفر اخاہ بغیر تاویل       قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۹۰۱)

(صحیح مسلم     کتاب الایمان     باب بیان حال الایمان من قال الخیہ المسلم یا کافر      قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱/ ۵۷)

 

اور بہت ائمہ دین نے مطلقاً اس پر فتوٰی دیا جس کی تفصیل فقیر نے اپنے رسالہ "  النھی الاکیدعن الصلوۃ وراء عدی التقلید " میں ذکر کی۔ ہم اگرچہ بحکم احتیاط تکفیر نہ کریں تاہم اس قدر میں کلام نہیں کہ ایک گروہ ائمہ کے نزدیک یہ حضرات کہ یارسول اللہ و یاعلی و یا حسین و یا غوث الثقلین کہنے والے مسلمانوں کو کافر و مشرکین کہتے ہیں خود کافر ہیں تو ان پر لازم کہ نئے سِرے سے کلمہ اسلام پڑھیں اور اپنی عورتوں سے نکاح جدید کریں۔

 

درمختار میں ہے : مافیہ خلاف یؤمر بالاستغفار و التوبۃ وتجدید النکاح ۲ ؎۔ اور جس چیز کے کفر میں اختلاف ہو اس کے مرتکب کو استغفار و توبہ اور تجدید نکاح کا حکم دیا جائے گا۔(ت)

 

 (۲؂ الدرالمختار       کتاب الجھاد         باب المرتد           مطبع مجتبائی دہلی         ۱/ ۳۵۹  )

 

فائدہ : حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نداء کرنے کے عمدہ دلائل سے " التحیات"  ہے جسے ہر نمازی ہر نماز کی دو رکعت پر پڑھتا ہے اوراپنے نبی کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم سے عرض کرتا ہے السلام علیک ایہاالنبی و رحمۃ اﷲ وبرکاتہ سلام حضور پر اے نبی اور اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔

 

اگر ندا معاذ اﷲ شرک ہے،  تو یہ عجب شرک ہے کہ عین نماز میں شریک و داخل ہے۔ ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم ۔

 

اور یہ جاہلانہ خیال محض باطل کہ التحیات زمانہ اقدس سے ویسے ہی چلی آتی ہے تو مقصود ان لفظوں کی ادا ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نداء حاشا وکلا شریعتِ مطہرہ نے نماز میں کوئی ایسا ذکر نیں رکھا ہے جس میں صرف زبان سے لفظ نکالے جائیں اور معنی مراد نہ ہوں،  نہیں نہیں بلکہ قطعاً یہی درکار ہے ۔ التحیاتُ ﷲ والصلوات سے حمدِ الہٰی کا قصد رکھے اور السلام علیک ایھاالنبی و رحمۃ اﷲ وبرکاتہ،   سے یہ ارادہ کرے کہ اس وقت میں اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو سلام کرتا اور حضور سے بالقصد عرض کررہا ہوں کہ سلام حضور اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔

 

فتاوائے عالمگیری میں شرح قدوری سے ہے :   لایّدَّ من ان یقصد بالفاظ التشہد معا نیہا التی وضعت لہا من عندہ کانہ یُحیِّ اﷲ تعالٰی ویسلم علی النبی صلی اللہ تعالٰی علی وسلم وعلٰی نفسہ وعلٰی اولیاء اﷲ تعالٰی ۱ ؎۔ تشہد کے الفاظ سے ان معانی کا قصد کرنا ضروری ہے جن کے لیے ان الفاظ کو وضع کیا گیا ہے اور جو نمازی کی طرف سے مقصود ہوں ہوں۔ گویا کہ نماز ی اﷲ تعالٰی کی بارگاہ میں نذرانہ عبادت پیش کررہا ہے،  اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر،  خود اپنی ذات پر اور اولیاء اﷲ پر سلام بھیج رہا ہے۔(ت)

 

 ( ۱ ؎الفتاوٰی الھندیۃ کتاب الصلوۃ      الفصل الثانی         نورانی کتب خانہ پشاور     ۱ /۷۲)

 

تنویر الابصار اور اس کی شرح دُرمختار میں ہے :  (ویقصدبالفاظ التشہد) معانیہا مرادۃ لہ علٰی وجہ (الانشاء) کانہ یحیّ اﷲ تعالٰی ویسلم علٰی نبیہ و علٰی نفسہ واولیائہ (لاالاخبار) عن ذلک ذکرہ،  فی المجتبٰی ۲ ؎۔

 

الفاظِ تشہد سے اُن کے معانی مقصودہ کابطور انشآء قصد کرے ،  گویا کہ وہ اﷲ تعالٰی کی بارگاہ میں اظہارِ بندگی کررہا ہے اور اس کے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، خود اپنی ذات اور اولیاء اﷲ پر سلام بھیج رہا ہے،  ان الفاظ سے حکایت و خبر کا قصد نہ کرے اس کو مجتبی میں ذکر کیا ہے۔(ت)

 

 ( ۲ ؎الدرالمختار شرح تنویر الابصار     کتاب الصلوۃ     باب صفۃ الصلوۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۷۷ )

 

علامہ حسن شرنبلالی مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں فرماتے ہیں : یقصد معانیہ ، مرادۃً لہ، علٰی اَنَّہ،  یُنْشِئُھَا تَحِیَّۃً وَسَلَاماً مِنْہ ۱ ؎۔ قصد کرے معنی مقصودہ کا بایں طور کہ نمازی اپنی طرف سے تحیّہ اور سلام پیش کررہا ہے۔ت)

 

 ( ۱ ؎مراقی الفلاح علی ھامش حاشیۃ الطحطاوی   کتاب الصلوۃ   نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی     ص۱۵۵)

 

اسی طرح بہت علماء نے تصریح فرمائی۔ اس پر بعض سفہائے منکرین یہ عذر گھڑتے ہیں کہ صلوۃ وسلام پہنچانے پر ملائکہ مقرر ہیں تو ان میں ندا ء جائز اور ان کے ماوراء میں ناجائز ،  حالانکہ یہ سخت جہالت بے مزہ ہے قطع نظر بہت اعتراضوں سے جو اس پر وارد ہوتے ہیں ان ہوشمندوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ صرف درود و سلام ہی نہیں بلکہ اُمت کے تمام اقوال و افعال و اعمال روزانہ دو قت سرکار عرش وقار حضور سیدالابرار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں عرض کیے جاتے ہیں۔ احادیث کثیرہ میں تصریح ہے کہ مطلقاً اعمالِ حسنہ و سیّہ سب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں،  اور یونہی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور والدین و اعزاء و اقارب سب پر عرضِ اعمال ہوتی ہے۔ فقیر نے اپنے رسالہ "سلطنۃ المصطفٰی  فی ملکوت کل الورٰی " میں وہ سب حدیثیں جمع کیں ،  یہاں اسی قدر بس ہے کہ امام اجل عبداﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی : لیس من یومٍ الاوتعرض علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اعمال  اُمّتہ غدوۃ وعشیاّ فیعرفھم بسیماھم واعمالھم ۲ ؎۔ یعنی کوئی دن ایسا نہیں جس میں سیّد عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر اعمالِ اُمت ہر صبح و شام پیش نہ کیے جاتے ہوں،  تو حضور کا اپنے امتیوں کو پہچاننا ان کی علامت اور ان کے اعمال دونوں وجہ سے ہے۔( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلٰی آلہ وصحبہ وشرف وکرم)۔

 

 ( ۲ ؎المواھب اللدنیہ بحوالہ ابن المبارک عن سعید ابن مسیب المقصد الرابع    الفصل الثانی بیروت    ۲ /۶۹۷ )

 

فقیر غفراﷲ تعالٰی لہ،  بتوفیق اﷲ عزوجل اس مسئلے میں ایک کتاب مبسوط لکھ سکتا ہے مگر منصف کے لیے اسی قدر دانی ،  اور خدا ہدایت دے تو ایک حرف کافی۔

 

اکفنا شرالمضلین یا کافی وصلّ علٰی سیّدنا ومولٰینا محمدن الشافی واٰلہ وصحبہ حُماۃِ الدین الصافی اٰمین والحمد ﷲ رب العالمین ۔ اے کفایت فرمانے والے ! ہماری طرف سے گمراہ کرنے والوں کے شرکا دفاع فرما۔ ہمارے آقا و مولٰی محمد مصطفٰی پر درود نازل فرما۔ جو شفاء عطا فرمانے والے ہیں اور آپ کے آلِ و اصحاب پر جو دین صافی کے حمایتی ہیں آمین والحمدﷲ رب العالمین o

 

Post a Comment

Previous Post Next Post