Sunni aur Ghair Sunni me Farq | Risala Umoore Ishreen by Aalahazrat

 

امورِ عشرین درامتیازِ عقائد سُنّیین

(سُنیوں کے عقائد کی پہچان میں بیس ۲۰ امور)

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الحمدﷲ رب الانس والجنۃ ،والصلٰوۃ والسلام علٰی نبینا العظیم والمنّۃ،  المنقذمن النار والمعطی الجنّۃ الذی ذکرہ حرز وحبہ جُنّۃ وعلٰی اٰلہ وصحبہ واَھل السّنۃ ۔

 

تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو انسانوں اور جِنّوں کا رب ہے،  اور درود و سلام ہو ہمارے عظمت وا حسان والے نبی پر جو جہنم سے بچانے اور جنت عطا فرمانے والا ہے،  جس کا ذکر حفاظت اور اس کی محبت ڈھال ہے،  اورآپ کی آل پر اور صحابہ پر اور اہلسنت پر۔(ت)

ماہِ رمضان المبارک ۳۱۸ ہجریہ قدسیہ علی صاحبہاالصلوۃ و التحیۃ میں فقیر کے پاس سانبھر علاقہ ریاست جَے پور (راجستھان ) سے ایک خط بایں تلخیص آیا۔

 

نقل نامہ حافظ محمد عثمان صاحب بنام فقیر (مصنّف علیہ الرحمہ)

 

بخدمتِ فیض درجت مولانا مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی محدّث و امام اہلِ سنت و جماعت بعد سلام سنت الاسلام کے عرض خدمت ہے کہ دریں ولا ہماری ملک مارواڑ (راجستھان) کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ آج کل یہاں سانبھر میں جناب مولانا مولوی احمد علی شاہ صاحب حنفی نقشبندی اویسی تشریف لائے ہیں،  ہم لوگ آپ کی تصنیفات گوناگو سے مستفیض ہوچکے تھے۔ اب خوش بیانی ،  اثر پنہانی وتوجہ قلبی سے فیض یاب ہورہے ہیں،  غیر مقلدین و دیگر عقائد باطلہ والے توبہ کرکے وعظ سے اُٹھتے ہیں کوئی وعظ ایسا نہیں ہوتا جس میں آپ ندوہ ( یعنی صلہ کلی الحاد) کی برائی بیان نہ کرتے ہوں،  یہاں کے لوگ ندوے کے بڑے ثنا خواں تھے اب ایسے متنفر ہوگئے جیسے کسی خبیث ( جِن) سے کوئی متنفر ہوتاہے۔ ایک مولوی ندوی بھی یہاں آگیا ہے وہ کہتا ہے اگر مولوی احمد علی شاہ صاحب مخالف ہیں تو خود جاہل و بددین ہیں۔ چند لوگ اس کے کہنے سے بہک گئے،  وہ کہتے ہیں اگر مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی دربارہ مولوی احمد علی شاہ صاحب لکھ دیں تو ہم ان کی باتیں سنیں گے اور اپنے خیالات سے توبہ کریں گے،  لہذا عرض خدمت ہے کہ مولوی احمد علی شاہ صاحب آپ کے علم میں جیسے ہوں تحریر فرمایئے،  آپ کی یہ تحریر سرکشوں کے لیے بہت مفید ہوگی۔                        العبد محمد عثمان۔

 

 (سیدامام اہل سنت اعلحضرت رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ تحریر فرماتے ہیں) فقیر کو اس سے پہلے مولانا موصوف سے تعرف تفصیلی نہ تھا اور امر شہادت خصوصاً دربارہ عقائد اہم واعظم ،  لہذا جواب میں یہ خط ارسال فرمایا۔(مکتوبِ اعلحضرت)

 

نامہ فقیر (مصنّف علیہ الرحمہ) بنام حافظ (محمد عثمان) صاحب

 

بملاحظہ کرم فرما حافظ محمد عثمان صاحب زید لطفہم ،  السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ،

لطف نامہ آیا،  ممنون یاد آوری فرمایا،  مولوی احمد علی شاہ صاحب نے غریب خانہ پر کرم فرمایا تھا،  پہلی ملاقات تھی،  بعدہ،  جلسہ عظیم آباد (پٹنہ بہار) میں نیاز حاصل ہوا۔ و ہ اس سے بھی مجمل تھا کہ سوائے سلام و مصافحہ کے کسی مکالمہ کی نوبت نہ آئی۔ امرِ شہادت عظیم ہے،  میں معاذ اﷲ کوئی سوء ظن نہیں کرتا بلکہ مولانا موصوف کے جن فضائل کو اب اجمالاً وسماعاً (بذریعہ حافظ مذکور) جانتا ہوں تفصیلاً وعیاناً جان لوں۔ مولانا کی حق پسندی سے امید ہے کہ فقیر کی اس عرض پر کمال خوش و مسرور ،  آج کل غیر مقلدین یا ندوے ہی کا فتنہ ہندوستان میں ساری نہیں بلکہ معاذ اﷲ صدہا آفتیں ہیں،  فقیر بیس امور حاضر کرتا ہے مولانا موصوف ان پر اپنی تصدیق کافی و وافی جس سے بکشادہ پیشانی تسلیم کامل روشن طور پر ثابت ہو تحریر فرما کر اپنی مہر سے مزین فرما کر فقیر کے پاس روانہ کردیں۔

 فقیر احمد رضا قادری عفی عنہ

از بریلی ۲۷ رمضان المبارک ۱۳۱۸ھ

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

 

اُمور عشرین تصدیق طلب از جناب مولانا مولوی احمد علی شاہ صاحب مرزا پوری

 

 (۱) سید احمد خاں علی گڑھ اور اس کے متبعین سب کفار ہیں۔

(۲) رافضی کہ قرآن عظیم کو ناقص کہے یا مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ یا کسی غیر نبی کو انبیاء سابقین علیہم السلام میں سے کسی سے افضل بتائے کافرو مرتد ہے۔

(۳) رافضی تبرائی فقہاء کے نزدیک کافر ہے اور اس کے گمراہ ،  بدعتی،  جہنمی ہونے پر اجماع ہے۔

(۴) جو مولی ٰ علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو حضرات شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما پر قربِ الہٰی میں تفضیل دے وہ گمراہ مخالفِ سنت ہے۔

(۵) جنگِ جمل و صفین میں حق بدست حق پرست امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ تھا ۔ مگر حضرات صحابہ کرام مخالفین کی خطا خطائے اجتہادی تھی جس کی وجہ سے ان پر طعن سخت حرام،  ان کی نسبت کوئی کلمہ اس سے زائد گستاخی کا نکالنا بے شک رفض ہے اور خروج از دائرہ اہلسنت جو کسی صحابی کی شان میں کلمہ طعن و توہین کہے،  انہیں بُرا جانے،  فاسق مانے،  ان میں سے کسی سے بغض رکھے مطلقاً رافضی ہے۔

 

 (۶) صدہا سال سے درجہ اجتہاد مطلق تک کوئی واصل نہیں ہے بے وصول درجہ اجتہاد تقلید فرض،  غیر مقلدین گمراہ بددین ہیں۔

(۷) اہلسنت صدہا سال سے چارگروہ میں منحصر ہیں جو ان سے خارج ہے بدعتی ناری ہے۔

(۸) وہابیہ کا معِلّم اوّل ابن عبدالوہاب نجدی اور معلمِ ثانی اسمعیل دہلوی مصنف تقویۃ الایمان دونوں سخت گمراہ بددین تھے۔

(۹) تقویۃ الایمان و صراطِ مستقیم و رسالہ یکروزی و تنویر العینین تصانیف اسمعیل دہلوی صریح ضلالتوں،  گمراہیوں اور کلماتِ کفریہ پر مشتمل ہیں۔

 

 (۱۰ ) مائۃ مسائل مولوی اسحق دہلوی غلط و مردود مسائل و مخالفاتِ اہل سنّت و مخالفات جمہور سے پُر ہیں۔

(۱۱) انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء قدست اسرار ہم سے استمدادو استعانت اور انہیں وقتِ حاجت توسل واستمداد کے لیے ندا کرنا یارسول اﷲ ،  یا علی،  یا شیخ عبدالقادر الجیلانی کہنا اور انہیں واسطہ فیضِ الہٰی جاننا ضرور حق و جائز ہے۔

 

(۱۲) عالم میں انبیاء علیہم السلام اور اولیاء قُدِّ سَتْ اَسْرارُھُم کاتصرف حیاتِ دنیوی میں اور بعد وصال بھی بعطاءِ الہٰی جاری اور قیامت تک اُن کا دریائے فیض موجزن رہے گا۔

 

(۱۳) عام اموات احیاء کو دیکھتے،  ان کا کلام سُنتے سمجھتے ہیں،  سماعِ موتی حق ہے،  پھر اولیاء کی شان توارفع واعلی ٰ ہے۔

(۱۴) اﷲ عزوجل نے روزِ اوّل سے قیامت تک کے تمام ماکان ومایکون ایک ایک ذرّے کا حال اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کو بتادیا حضور کا علم ان تمام غیبوں کومحیط ہے۔

 

 (۱۵) امکانِ کذب الہٰی جیسا کہ اسمعیل دہلوی نے رسالہ یکروزی اور اب گنگوہی نے براہین قاطعہ میں مانا صریح ضلالت ہے۔ اﷲ تعالٰی کا کذب قطعاً اجماعاً محال بالذات ہے۔ مسئلہ خلفِ وعید کوان کے اس ناپاک خیال سے اصلاً علاقہ نہیں۔

(۱۶) شیطان کے علم کو معاذ اﷲ حضور سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم سے زائد وسیع تر ماننا جیسا کہ براہین قاطعہ گنگوہی میں ہے صریح ضلالت و توہین حضرت رسالت علیہ افضل الصلوۃ والتحیۃ ہے۔

(۱۷) مجلس میں میلاد مبارک اور اس میں قیام تعظیمی جس طرح صدہا سال سے حرمین محترمین میں شائع وذائع ہے جائز ہے۔

(۱۸) گیارھویں شریف کی نیاز اوراموات کی فاتحہ اور عرسِ اولیاء کہ مزامیر وغیرہا منکرات سے خالی ہو سب جائز و مندوب ہے۔

 

 (۱۹) شریعتِ وطریقت دو متبائن نہیں ہیں،  بے اتباعِ شرع وصول الٰی اﷲ ناممکن،  کوئی کیسے ہی مرتبہ عالیہ تک پہنچے،  جب تک عقل باقی ہے احکامِ الہٰیہ اس پر سے ساقط نہیں ہوسکتے،  جھوٹے متصوف کہ مخالف شرع میں اپناکمال سمجھتے ہیں سب گمراہ مسخرگان شیطان ہیں،  وحدتِ وجود حق ہے اور حلول واتحاد کہ آج کل کے بعض متصوفہ (بناوٹی صوفی) بکتے ہیں صریح کفر ہے ۔

 

 (۲۰) ندوہ سرمایہ ضلالت و مجموعہ بدعات ہے،  گمراہوں سے میل جول اتحاد حرام ہے،  ان کی تعظیم موجبِ غضبِ الہٰی اور ان کے رَد کا انسداد لعنتِ الہٰی کی طرف بلانا،  انہیں دینی مجلس کارکن بنانا دین کو ڈھانا ہے۔ ندوہ کے لیکچروں اور روائیداد میں وہ باتیں بھری ہیں جن سے اﷲ و رسول بیزار و بَری ہیں جل جلالہ،  وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم،  اﷲ تعالٰی سب بدمذہبوں و گمراہوں سے پناہ دے اور سنّتِ حقّہ خالص پر ثابت قدم رکھے۔

 

0 ۔ حضرت فاضل بریلوی مدظلہ العالی کے ان امور مقررئہ مذکورہ کی تصدیق جناب مولانا شاہ احمد علی صاحب مرزا پوری نے فرمائی اور یہ عبارت لکھی۔"امورِ عشرین مندرجہ بالا بہت درست و ٹھیک ہیں۔ وحدت وجود حق ہے مگر اس میں بحث و مباحثہ فقیر کے نزدیک خوب نہیں،  یہ امور کشفیہ سے ہیں اور متعلق بکفییت ایسے امور کو اولیاء اﷲ ہی خوب سمجھے ہوئے ہیں چونکہ فقیر کے پاس مہُر نہیں لہذا دستخط ہی پر اکتفاء کیا۔"

   ۲ شوال ۱۳۱۸ھ روز چہار شنبہ۔

 

0  پھر امام اہلسنت فاضل بریلوی مدظلہم نے یہ تحریر فرما کر اپنے دستخط اور مہر ثبت فرمائی۔ " آج کل بہت لوگ اعادئے سنیت کرتے اور عوام بیچارے دھوکے میں پڑتے ہیں۔ بعض مصلحت وقت کے لیے زبان سے کچھ کہہ جاتے اور موقعہ پا کر پھر پلٹا کھاتے ہیں،  اکثر جگہ امتحان کے لیے ان شاء اﷲ العزیز یہ امور عشرین بطورِ نمونہ کافی ہیں جو بعونہ تعالٰی فراز سنیت پر سچا فائز ہے۔ بے تکلف دستخط کردے گا،  ورنہ پانی مرنا آپ ہی نشیب ضلالت کی خبر دے گا۔

 

فمن نکث فانما ینکث علٰی نفسہ ۱ ؎ ومن ینقلب علٰی عقبیہ فلن یضراﷲ شیئا۲ ؎۔ ومن یتول فان اﷲ ھو الغنی الحمید۳ ؎  والحمدﷲ رب العٰلمین۔ اور جس نے عہد توڑا اس عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اور جو الُٹے پاؤں پھرے گا اﷲ کا کچھ نقصان نہ کرے گا،  اور جو منہ پھیرے تو بے شک اﷲ ہی بے نیاز ہے سب خوبیوں سراہا،  اور سب تعریفیں رب العالمین کے لیے ہیں۔(ت)

 

 (۱؂القرآن الکریم ۴۸/ ۱۰)           (۲؂القرآن الکریم ۳/ ۱۴۴)           (۳؂القرآن الکریم ۵۷/ ۲۴)

 

کتـــبـــــــــــــــــــــــــــہ

عبدہ المذنب احمد رضا البریلویعفی عنہ

بمحمدن المصطفٰی النبی الامّی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

 

مسئلہ ۱۸۰: از ضلع میرٹھ مسئولہ محمد فضل الرحمن صاحب ۲۴ ربیع الاول ۱۳۳۲ھ

ایک قطعہ اشتہار " پروانہ خداوندی  " مجھے اس قصبہ میں دستیاب ہوا ہے،  لہذا ارسال بحضور ہے،  امید کہ مفصل مطلع فرمایا جائے کہ یہ اشتہار کہاں تک صحیح ہے۔

"پروانہ خداوندی"

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم،صلی اﷲ علی سیّدنا محمد وعلٰی اٰلہ واصحابہ وسلم، یہ وصیت حضرت جناب محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے شیخ احمد خادمِ روضۃ النبی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف ہے کہ جمعہ کی رات کو خواب میں قرآن شریف کی تلاوت فرماتے ہوئے دیکھا اور فرمایا : اے شیخ احمد ! یہ دوسری وصیت تیری طرف ہے علاوہ اس پہلی وصیت کے،  وہ یہ ہے کہ تم جملہ مسلمین کو رب العالمین کی طرف سے خبر کردو کہ میں ان کے بابت ان کے کثرتِ گناہ و معاصی کے سخت بیزار ہوں،  جس کا سبب یہ ہے کہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک (کلمہ گو) نّوے ہزار اموات ہوئی ہیں جن میں ستّر ہزار اسلام باقی تمام غیر اسلام یعنی کفر پر مرے ہیں۔ جس وقت ملائکہ نے یہ بات سُنی تو انہوں نے کہا : یا محمد ! آپ کی امت گناہوں کی طرف بہت مائل ہوگئی ہے کہ انہوں نے اﷲ تعالٰی کی عبادت چھوڑدی ہے پس اﷲ تعالٰی نے ان کی صورتوں کی تبدیلی کاحکم فرمادیا۔ پھر حضرت رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : اے رب ! ان پرتھوڑا صبرکر اور ان کومہلت دے جب تک یہ خبر میں ان کو پہنچادوں ،  پس اگروہ تائب نہ ہوئے تو حکم تیرے ہاتھ میں ہے،  اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ دائمی گناہوں ،  کبیرہ گناہوں، زنا کاری ،  کم تولنے،  کم میزان رکھنے،  سود کھانے ،  شراب کے پینے کی طرف بہت مائل ہوگئے ہیں،  اور فقراء و مساکین کو خیرات نہیں د یتے ،  اور دنیا کی محبت آخرت کی نسبت زیادہ کرتی ہیں اور نماز کو ترک کر بیٹھے ہیں،  اور زکوۃ نہیں دیتے پس اے شیخ احمد! تُو ان کو اس بات کی خبر دے،  ان کو کہو کہ قیامت قریب ہے،  اور وہ وقت قریب ہے کہ آفتاب مغرب سے طلوع کرے ان شاء اﷲ تعالٰی اور ہم نے اس سے پہلے بھی وصیت پہنچائی تھی لیکن یہ لوگ نافرمانی اور غرور میں زیادہ دلیر ہوگئے ۔ اوریہ آخر ی وصیت ہے۔ شیخ احمد خادمِ حجرہ شریف نے کہا کہ فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کہ جو کوئی اس کو پڑھے اور اس کی نقل کرکے ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچائے وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا اور اس کی میں شفاعت کروں گا دن قیامت کے،  اور جو اس کو پڑھے اور اس کی نقل نہ کرے وہ قیامت کو میرا دشمن ہوگا۔اور کہا شیخ احمدنے میں اﷲ سبحانہ ،  و تعالٰی کی تین مرتبہ قسم کھاتا ہوں کہ یہ بالکل سچی بات ہے،  اور میں اس میں جھوٹا ہوں تو خدا مجھ کو دنیا سے کافر کرکے نکالے،  اور جو اس کی تصدیق کرے گا وہ دوزخ کی آگ سے نجات پائے گا۔ صلی اللہ علٰی سیدنا محمد و علٰی آلہ واصحابہ وسلم۔

 

الجواب : جن باتوں کی اس میں ہدایت ہے وہ باتیں اچھی ہیں،  انکے احکام قرآن و حدیث میں موجود ہیں،  ان پر عمل ضرور ہے۔ باقی یہ تمہید جو اشتہار میں لکھی گئی ہے بے اصل ہے۔ بارہا اس قسم کے اشتہار شائع ہوئے ہیں،  کسی میں خادمِ روضہ انور کا نام صالح ہے کسی میں شیخ احمد ہے۔ اور ایسے ہی بے باکی کے کلمات لکھے ہیں کہ اتنے مسلمان مرے ان مین سے صرف اتنے ایمان کے ساتھ گئے اور باقی معاذ اﷲ بے ایمان مرے۔ اس اشتہار میں تو اتنی رعایت ہے کہ نوے ہزار اموات میں صرف بیس ہزار معاذ اﷲ کافر رکھے ہیں۔ اور اشتہار وں میں تو گنتی کے مسلمان رکھے۔ رب عزوجل سے جوحضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عرض نسبت کی ہے ،  کس قدر بے معنی ہے۔   نسأل اﷲ العفووالعافیۃ ہم اﷲ تعالٰی سے معافی اور سلامتی کے طلبگار ہیں،  ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

مسئلہ١٨١ : ۱۷ ربیع الثانی ۱۳۳۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک جاہل نے کوئی گناہ کیا جس کو قطعی نہ جانتا تھا کہ حلال ہے یا حرام۔ اور اسی یا دوسرے گناہ کو عالم نے کیا،  تو ان دونوں کے لیے از جانبِ شریعت حکم مختلف ہے،  یا نہیں؟ اور اگر مختلف ہے تو کیوں؟ اور اگر مختلف نہیں ہے تو کیوں؟ بیّنوا توجروا ( بیان فرمائیے اجر دیئے جاؤ گے۔ت)

 

الجواب : حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ذنب العالم ذنب واحد وذنب الجاھل ذنبان ۱ ؎۔ قیل ولم یارسول اﷲ ،  قال العالم یعذب علٰی رکوبہ الذنب والجاھل یعذب علٰی رکوبہ الذنب وترک التعلم ۲ ؎۔ عالم کا گناہ ایک گناہ ہے اور جاہل کا گناہ دوہرا گناہ ،  عرض کی : یارسول اﷲ ! یہ کس لیے ؟ فرمایا : عالم پر گناہ کرنے کا عذاب ہے اور جاہل پر ایک عذاب گناہ کرنے کا ہے اور ایک علم نہ سیکھنے کا۔

 

( ۱ ؎الجامع الصغیرحدیث ۴۳۳۵دارالکتب العلمیۃ بیروت۲ /۲۶۴)

( ۲ ؎۔ فیض القدیر تحت حدیث ۴۳۳۵دارالمعرفۃ بیروت ۳ /۵۶۵)

 

مسئلہ ۱۸۲:  از مارہرہ مطہرہ ضلع ایٹہ سرکار کلاں مرسلہ سید محمد میاں صاحب دامت برکاتہم ۲۴ ذیقعدہ ۱۳۳۲ھ دوشنبہ

مولانا المعظم ذوالمجدو الکرم معظم ومکرم دام مجدھم ،  پس از سلامِ مسنون عارضِ خدمت ہوں۔ بفضلہ تعالٰی جناب کی صحت و عافیت کا مستدعی بخیر ہوں۔ میں نے جناب سے سیّد ظہور حیدر صاحب مرحوم کے لیے جو اُن کے نام سے ایک عدد کم کرکے تاریخ وفات ان کی کردینے کو کہہ آیا تھا اور جناب نے وعدہ فرمایا تھا ۔ اب اگر ہوگئی ہو تو روانہ فرمائیں۔ تقریظات الحدوث والقدوم اور التناسخ بھی روانہ ہوں جو بدایونی رسائل ہیں،  اور اگر کوئی جدید رسالہ مبحث اذان میں شائع ہوا ہو تو روانہ ہو،  کنزالآخرۃ جو چودھری صاحب سہاروی کی ہے وہ جدید الطبع سُنا ہے کہ جناب کی نظر و اصلاح سے بتما مہاگزری ہے،  آیا یہ درست ہے؟ اور اس میں جو صفحہ ۷۲ پر امامت کے مسائل ہیں،  قبروں پر چادریں چڑھانے کو بدعت سیئہ کے قسم اعتقاد یہ اور باب زیادۃ القبور میں قبر وں پر کچھ چڑھانے یا چُومنے کو جو حرام اور بدعت لکھ دیا ہے۔ آیا یہ بھی جناب کے نزدیک صحیح ہے؟ اس سے مطلع فرمائیے۔ والسلام

 

الجواب :

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

نحمدہ،  ونصلی علٰی رسولہ الکریم بشرف ملاحظہ عالیہ حضرت صاحبزادہ والا قدر بالا فخر حضرت جناب مولانا مولوی سید محمد میاں صاحب دامت برکاتہم بعد تسلیم مع التکریم ملتمس والا حضرت سیدنا شاہ مہدی میاں صاحب قبلہ کے حکم سے ان عظیم بے فرصتیوں میں یہ کتاب فقیر نے بنائی۔ اغلاطِ شدیدہ کثیرہ عظیمہ شرعیہ کا نکالنا تو لازم و واجب ہی تھا۔ حکم یہ ہوا کہ اشعار کی بھی اصلاح کر۔ جس سے بلا مبالغہ اتنی بڑی کتاب نظم اور اتنے کثیر حواشی از سرِ نو تصنیف کرنی ہوئی،  بلکہ تصنیفِ جدیدہ میں اس کی نصف محنت بھی نہ ہوتی جو اس کے بنانے میں ہوئی،  طبع اول صفحہ ۱۲۳ تک کہ طبع جدید کے صفحہ ۱۳۳ ہے،  تمام اصلاحات کی نقل میں نے اپنے پاس رکھی ،  اور جناب چودھری صاحب کی خدمت میں گزارش کی کہ بعد تبیضیں یہاں پھر دیکھنے کو بھیج دیا کریں۔ جناب موصوف نے کچھ اجزاء کافی شدہ دیکھنے کو بھیجے۔ اس کے مطالعہ سے واضح ہوا کہ اصلاح میں شدید تبدیلیں فرمادیں ہیں۔ اس کے بعد مجھے چاہیے تھا کہ باقی کتاب واپس کرتا۔ مگر حکمِ حاکم سے چارہ نہ تھا۔ باقی کی بھی اسی محنت سے اصلاح کی اور چودھری صاحب سے عرض کر بھیجی کہ اب مبیضہ یہاں بھیجنے کی حاجت نہیں۔ یہ مسئلہ چادر وغیرہ کا جو حضرت نے دریافت فرمایا ہے الحمد ﷲ کہ اسی صفحہ ۱۲۳ پر تھا جسے میں یہ دکھا سکتا ہوں کہ میری اصلاح یہ تھی،  اور یہ حضرت خود ملاحظہ فرمالیں گے کہ طبع جدید میں اس کی کیا گت ہوگئی ہے۔

 

طبع اول کے صفحہ ۸۵ و ۸۶ پر کہ اب صفحہ ۹۲ تا ۹۴ہے،  اس میں یہ شعر" کچھ چڑھانا قبر پر یا چومناالخ كا ٹ کر یہ بنام تھا:؂

سجدہ قبر اور طوافِ باخضوع                اُن کے آگے جھُکناتاحدِ رکوع۱؂

 

 (۱؂ کنزالاخرۃ)

 

طبع دوم میں وہی اپنا شعر رہا، یہیں میں نے یہ اشعار اضافہ کیے تھے۔ ؎ع

اولیاء سے استعانت ہے روا                وہ وسائل ہیں تِرے پیشِ خدا

معُطی و مالک فقط اﷲ ہے                    واسطہ اپنا ولی اﷲ ہے

ہے توسّل کی طلب القرآن میں           وابتغوا آیا ہے اس کی شان میں

دیکھ تفسیر عزیزی پارہ عم                 لکھتے ہیں یوں شاہ صاحب محترم

اولیاء کرتے ہیں امدادِ بشر                              جارحہ ہیں بہرِ امداد بشر

اہلِ حاجت ان سے حاجت مانگ کر       اپنی مشکل کرتے ہیں حل سربسر

یہ بھی فرمایا کہ نذرِ اولیاء                    ہے تمام امت میں رائج بے خطا

ہے یہ مقصودِ شہ عبدالعزیز                 نذر عرفی ہے،  نہ شرعی اے عزیز

تحفہ جولے جائیں شاہوں کے حضور                   نذر کہتے ہیں اسے اہل شعور

فرقِ عُرف و شرع سے غافل نہ ہو                    کہہ نہ مشرک اہلِ الااﷲ کو

اُمت احمد کوجو مشرک کہے                      خود ہے وہ نزدیک شرک و کفر سے

اور سماع و علمِ موتی مطلقا                          اہلِ سنت کا ہے اجماع اے فتٰی

مُردے مومن ہوں کہ کافر لاکلام       دیکھتے سُنتے سمجھتے ہیں مُدام

اس پہ ناطق ہے تواتر سے حدیث                      ہے فنائے رُوح تو قولِ خبیث

وہ نہیں سُنتے تو کیوں اُن پر سلام           کیا شریعت چاہے پتھر سے کلام

عام کے یہ دھڑ نہیں سُنتے ضرور                       ہیں یہی موتی یہی من فی القبور

یہ بھی جب حق چاہے سُنتے ہیں ندا        کیونکہ انّ اﷲ یسمع من یشاء ۱ ؎

 

 (۱؂ کنزالاخرۃ)

 

ملاحظہ ہو طبعِ دوم میں ان کی کیا تبدیلی ہوئی ہے، سب سے زیادہ سخت افسوس مجھے ان اشعار کا ہوا کہ نعت شریف میں میں نے اضافہ کیے تھے وہ یہ ہیں۔ع

 

حضرتِ علّامِ کُل بے شک و ریب                     بخشا ہے انبیاء کو علم غیب

ان کو کرتا ہے مسلط غیب پر                           اوروں کو ان کے توسط سے خبر

ان پہ کردیتا ہے روشن لاکلام                          ختم تک دنیا و مافیہا تمام

مصطفی کو جس سے بخشا ہے سِوا                         مایکون ماکان جس کا جز ہوا

علم مانے شہ سے شیطاں کا وسیع                        کس سے جز شیطاں ہو یہ کفر شنیع

علمِ غیب اُن کا سا جو ثابت کرے                      بچے پاگل جانور کے واسطے

وہ شقی مرتد عدو اﷲ ہے                                کافروں سے بھی سوا گمراہ ہے

جوکریں تنقیصِ شانِ شاہ دیں                         لعنۃ اﷲ علیہم اجمعین

مصطفٰی ہی ہیں،  قیامت میں شفیع                       ہے انہیں کا حصہ یہ شان رفیع

فاتحِ باب شفاعت ہیں وہی                  کہفِ ارباب شفاعت ہیں وہی

جو کبائر والے بے توبہ مریں               وہ کریم ان کی شفاعت بھی کریں

جو کہے اس دن کے وہ شافع نہیں           وہ ہے گمراہ و خبیث اے اہلِ دیں

فضلہ خو رانِ سگانِ اعتزال                  بکتے ہیں ایسے بداقوال ضلال

اُن کی گمراہی سے تم مُنہ موڑنا              اپنے مولا کا نہ دامن چھوڑنا

وہ نہ ہوں شافع ہمارے گر وہاں                       کہیے ہم سوں کا ٹھکانہ پھر کہاں۲؎

 

ملاحظہ ہو کہ اس میں کتنا اور کیا باقی رہا،  ان تمام اضافات پر حواشی تھے جن میں ہر لفظ کا آفتاب سے زیادہ ثبوت تھا وہ بھی اکثر حذف ہوگئے،

 

 (۲؂ کنزالاخرۃ)

 

اب حضرت اپنی مسئول عبارت ملاحظہ فرمائیں،  اشاعتِ اولٰی میں اس حاشیہ کی عبارت یہ تھی۔

ص۵ ہوتی ہے مگر وہ الخ یعنی فاسق فاجر اور نابینا اور اہلِ بدعت اور جاہل کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے ولیکن بعض کے پیچھے مکروہ تحریمہ اور بعض کے پیچھے مکروہ تحریمہ اور بعض کے پیچھے مکروہ تنزیہی یعنی اہل بدعت اور وہ جاہل جو قراء ت توڑے اور ادھ کٹ حرفوں سے پڑھے،  ان کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمہ  ہوتی ہےاور نابینا و فاسق کے پیچھے اگر وہ  اہل بدعت اور جاہل نہ ہو تو نماز مکروہ تنزیہی ہوتی ہے ، اہل بدعت کے پیچھے  اس لیے کہ حضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا  : من احدث فی امرنا ھٰذا الیس منہ فہورد ۱ ؎۔ یعنی جس شخص نے نئی بات نکالی اپنی طرف سے بیچ دین میں ہمارے کے جو کہ کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے۔(مراد اس سے بدعت سیئہ ہے) پس وہ شخص یعنی بدعتی مردود ہے۔اورایک جگہ فرمایا : کل بدعۃ ضلالۃ ۲ ؎۔ یعنی ہر بدعت گمراہی کا راستہ ہے۔پس جو شخص مرتکب ایسی بدعت کا ہو اس کے پیچھے نماز ہر گز نہ پڑھنا چاہیے ، اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمہ ہوگی۔

 

 ( ۱ ؎۔ صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ الخقدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۷)

(۲ ؎۔ صحیح مسلم کتاب الجمعۃباب تخفیف الصلوۃ والخطبۃقدیمی کتب خانہ کراچی۱ /۷۷)

(سُنن ابن ماجۃ باب اجتناب البدع والجدل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۶)

 

واضح ہو کہ قبروں کو سجدہ کرنے والے اور اہل قبور سے منت ماننے والے اور فرقہائے باطلہ مثل خوارج وجبریہ و قدریہ کے،  اور وہ اَن پڑھ جاہل جو کہ کتاب و سنت سے بالکل ناواقف و بے بہرہ ہیں اور پھر ترکِ تقلید کرتے ہیں،  یہ لوگ اہلِ بدعت ہیں انکی صحبت سے بچنا چاہیے،  غرضیکہ جن باتوں پر صحابہ و تابعین و آئمہ مجتہدین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کا اجماع ہوچکا ہے انکے خلاف عقیدہ رکھنا یہی بدعت ہے۔

 

اس فقیر نے یوں بنایا تھا۔

نمبر ۵  : پچھلے دور میں الخ یعنی جاہل اور نابینا اور ولدالزنا اور غلام،  فاسق اور اہلِ بدعت کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے لیکن اگلے چار کے پیچھے مکروہِ تنزیہی او ر پچھلے دو کے پیچھے مکروہ تحریمی ہوتی ہے،  جب کہ وہ فاسق معلن ہویعنی اس کا فسق ظاہر اور مشہور ہو،  ورنہ اس کے پیچھے بھی مکروہ تنزیہی ہوگی۔ اور جب کہ اس مبتدع کی بدعت و بدمذہبی حَدِ کفر تک نہ پہنچی ہو،  ورنہ اس کے پیچھے باطل محض ہوگی،  جیسے آج کل کے روافض ووہابی ونیچری وقادیانی و چکڑالوی کہ اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتے ہیں،  اور غیر مقلد،  حدیث میں فرمایا : کل بدعۃ ضلالۃ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے۔

 

اور اس سے مراد بدعت سیئہ ہے،  پس جو شخص مرتکب ایسی بدعت کا ہو اس کے پیچھے نماز ہر گز نہ پڑھنا چاہیے اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ادا ہوگی۔

 

واضح ہو کہ بدعتِ سیئہ دو قسم ہے: عملی اور اعتقادی ،  عملی جیسے عَلم، تعزیے اور قبروں کو سجدہ،  اور اعتقادی جیسے تفضیلیہ وخوارج وجبریہ وقدریہ وغیرہ ،  یہ لوگ اہلِ بدعت ہیں ان کی صحبت سے بچنا چاہیے،  غرضیکہ جن باتوں پر صحابہ و تابعین و آئمہ مجتہدین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کا اجماع ہوچکا ہے ان کے خلاف عقیدہ رکھنا یہی بدعت ہے ۔ پھر ان میں جن کی بدعتِ حد کفر کو نہ پہنچی ہو جیسے تفضیلیہ ،  اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی ہے ورنہ باطل محض ۱۲ منہ۔

 

اب اشاعتِ ثانیہ میں جس طرح کرلیا گیا ہے وہ پیش نظر ہے۔ اسی طرح بیشمار تبدیلات ہیں،  اشعار میں بھی پھر اسی قسم کی اغلاط نے عود کیا ہے۔ صفحہ ۱۲۳ کے بعد کی اصلاحات یہاں نہ رہیں اگر وہ بھی ہوں اور یہ کتاب مطابق اصلاِح فقیر کوئی صاحب چھاپیں تو کتابِ ثالث ہوگی اور بفضلہ تعالٰی اغلاطِ شرعیہ و شعریہ سے پاک۔

 

حضرت سید ظہور حیدر میاں صاحب رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کی تاریخِ وصال جبھی خیال میں آگئی تھی معروض ہے:ع نحو لقاء جدہ          اُم ظہور حیدر

حسن الی الجنان اذ            ثمّ ظہور حیدر

قیل متٰی ھذا السفر           ھمَّ ظہور حیدر

قلت لان بقی السنۃ(عہ)   ثمَّ ظہور حیدر

۱۳۳۲                                      ۱۳۳۳

 

 (عہ : بقی یبقٰی ،  سمع اور ضرب دونوں سے آتا ہے،  علاوہ ازیں ضرب سے بمعنی انتظار لغتِ معروف ہے۔

 

بدایوں کے رسالہ تناسخ اور رسالہ حدوث و قدوم پر جو الفاظ نیاز مند نے لکھے تھے ان کی نقل حاضر ہے،  مولانا کے خط کی نقل گر بدایوں سے مل گئی ہو تو میں بھی دیکھتا۔

والا خدمت حضرت جناب سیدنا شاہ ابوالقاسم حاج سید اسمعیل حسن میاں صاحب قبلہ تسلیم معروض رسالہ ہزار ضرب اقوی جس میں مولوی عبدالغفار خاں صاحب کے چوتھے رسالہ آثار المتدعین پر کامل ایک ہزار رد ہیں،  تین چار روز میں ان شاء اﷲ تعالٰی طبع ہوجائے گا بعونہ تعالٰی حاضر کیا جائے گا۔ کلکتہ والوں کا ردَ حاضر ہے حسب تحریر اسماء تقسیم فرمادیا جائے فقط۔

 

مسئلہ ۱۸۳: مسئولہ احمد علی معمار محلہ برہی،  روز پنچشنبہ تاریخ ۹ محرم ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص امام مسجد شیرینی اور کھانے کی چیزوں پر فاتحہ پڑھنے سے انکار کرتا ہے۔ اور عذر یہ پیش کرتا ہے کہ فاتحہ دی ہوئی چیز کا اگر کچھ حصہ زمین پر گر گیا یا اور کسی قسم کی بے ادبی ہوئی تو فاتحہ دینے والا گنہگار ہوگا۔ ایسے شخص پر شرعاً کوئی عذاب یا ثواب ہوسکتا ہے یا نہیں؟

 

الجواب : اس کا یہ خیال باطل اور یہ عذر لاطائل ہے،  زمین پر بلاقصد ِ گرجانے میں کچھ گناہ کسی کے ذمہ نہیں،  اور اگر کوئی وہابی یا رافضی معاذ اﷲ قصداً بے ادبی کرے تو اس کا گناہ اس کے سر کیوں باندھا جائے۔   قال اﷲ تعالٰی : ولا تزر وازرۃ وزر اُخرٰی  ۱ ؎۔ اورکوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی۔(ت)

 

 ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۶۴)

 

ہاں اگر دینے الا جان کر وہابی یا رافضی اور کسی کافر کو دے تو وہ بے ادبی کہ یہ لوگ کریں اس دینے والے کی طرف عائد ہوگی۔ شخصِ مذکور اگر واقعی یہ عقیدہ رکھتا ہے جو زبان سے کہا تو قرآن مجید کا مخالف ہے کماتلونا۔ ورنہ ظاہر یہ ہے کہ وہ باطن میں فاتحہ اولیاء کرام کا منکر ہے۔ اور براہِ تقیہ یہ عذر بے ہودہ گھڑتا ہے۔ دونوں صورتوں میںیہ شخص مستحق عذاب ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم۔

 

مسئلہ ۱۸۴: مسئولہ جناب حکیم مقیم الدین صاحب بہیڑی ضلع بریلی ۱۱رجب المرجب ۱۳۳۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دینِ و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ جب نیکی بدی میزان میں تولینگی تو نیکی کا پلہ بھاری ہوگا یا بدیوں کا،  کیونکہ قاعدے سے جب نیکیاں زیادہ ہوں نیکیوں کا پلہ بھاری اور نیچا ہوگا اور بدیاں زیادہ ہوں تو بدی کا پلہ بھاری اور نیچا ہونا چاہیے،  اور کتابوں میں لکھا بھی ایسا ہی ہے کہ جب نیکیاں زیادہ ہوں گی تو نیکوں کاپلہ بھاری ہوگا اور جھکے گا تو کیا واقعی نیکیاں زیادہ ہوں گی تو نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا۔ مفصل بیان ہو کیونکہ نیکیاں بمقابلہ گناہوں کے ہلکی ہونا چاہیں۔

 

الجواب : وہ میزان یہاں کے ترازو کے خلاف ہے وہاں نییکوں کا پلہ اگر بھاری ہوگا تو اُوپر اُٹھے گا اور بدی کا پلہ نیچے بیٹھے گا۔ قال اﷲ تعالٰی عزوجل : الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصلح یرفعہ ۱ ؎۔ اسی کی طرف چڑھنا ہے پاکیزہ کلام اور جو نیک کام ہے وہ اس کو بلند کرتا ہے۔(ت)

 

 ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳۵/ ۱۰)

 

مسئلہ ۱۸۵ :  از گونڈل علاقہ کا ٹھیاروار مسئولہ عبدالستار بن اسمعیل بروز سہ شنبہ تاریخ ۱۳ رجب المرجب ۱۳۳۴ھ

بعض متصوفہ زندیقہ جو زید،  عمر،  بکر یہ وہ سب کا خدا ہی خدا کہتے ہیں وہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ اس وجہ سے منصور نے دعوٰی انا الحق کا کیا،  بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے اسی لیے سبحانی ما اعظم شانی  ( میں پاک ہوں اورکتنی عظیم میری شان ہے۔ت) فرمایا۔ اور شمس تبریزی نے اسی وجہ سے قم باذنی  ( اٹھ میرے حکم سے ۔ت) کہہ کر مردہ زندہ کیا۔ اب عرض یہ ہے کہ کیا واقعی یہ کلمات اوپر کے بزرگوں سے صادر ہوئے ہیں؟ اور کیا اس صوفی زندیق کا یہ کہنا صحیح ہے؟ اور اگر ہے تو کیا یہ کلمات عندالشرع مردود ہیں یا نہیں؟ اور اگر مردود ہیں تو اُوپر کے تینوں بزرگوں کے ساتھ اہلِ سنت و جماعت کس طرح کا عقیدہ رکھیں؟

 

الجواب الملفوظ

اُن زنادقہ کا یہ قول کفر صریح ہے اور ان کے قول کی صحت کا شک واقع ہونا سائل کے ایمان کا مضر ہے تجدیدِ اسلام چاہیے،  وہ تینوں حضرات کرام اکابر اولیائے عظام سے ہیں۔ قدسنا اﷲ باسرار ھم ،  حضرت شمس تبریزی قدس سرہ،  سے یہ کلمہ ثابت نہیں،  اور ثابت ہو تو معاذ اﷲ اُسے ادعائے الوہیت سے کیا علاقہ ! ایسی اضافات مجازیہ شائع ہیں۔

حضرت حسین منصور انا الحق نہیں کہتے تھے بلکہ انا  الاحق ( میں ہی احق ہوں۔ت) ابتلائے الہی کے لیے سامعین کی فہم کی غلطی تھی ان کی بہن اکابر اولیائے کرام سے تھیں۔ ہر روز اخیر شب میں جنگل کو تشریف لے جاتیں اور عبادتِ الہی میں مشغول ہوجاتیں ،  ایک رو زحضرت حسین منصور کی آنکھ کھلی اور بہن کو نہ پایا،  شیطان نے شبہہ ڈالا۔ دوسری رات قصداً جاگتے رہے،  جب وہ اپنے وقتِ معمول پر اٹھ کر باہر چلیں یہ آہستہ اٹھ کر پیچھے ہولیے،  وہ جنگل میں پہنچیں اور عبادت میں مشغول ہوئیں۔ یہ پیڑوں کی آڑ میں چھپے دیکھتے تھے،  قریبِ صبح انہوں نے دیکھا کہ آسمان سے سونے کی زنجیر میں یاقوت کا جام اُترا اور وہ ان کی بہن کے دہن مبارک کے پاس آگیا۔

انہوں نے پینا شروع کیا،  یہ بے چین ہوئے اورچلا کر کہا۔ بہن ! تمہیں خدا کی قسم تھوڑا میرے لیے بھی چھوڑ دو۔ انہوں نے صرف ایک جرعہ ان کے لیے چھوڑا جس کے پیتے ہی ان کو ہر شجر و حجر و درو دیوار سے آواز آنے لگی کہ کون اس کا زیادہ احق ہے کہ ہماری راہ میں قتل کیاجائے ؟ یہ اس کا جواب دیتے انا  الاحق بے شک میں احق ہوں۔ لوگوں نے کچھ سنا اور جو منظور تھا واقع ہوا۔

 

حضرت سیّدی بایزید بسطامی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اُس سوال کا خود جواب ارشاد فرمادیا،  فرمایا : میں نہیں کہتا وہ فرماتا ہے جسے فرما نازیبا ہے،  سائلوں نے اس پر دلیل چاہی۔ فرمایا : تم سب ایک ایک خنجر ہاتھ میں لے کر بیٹھ جاؤ اور جس وقت مجھے ایسا کہتے سنو بے تامل خنجر مارو کہ ایسے قائل کی سزا قتل ہے انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب حضرت پر حالت وارد ہوئی اور وہی کلمہ نکلا اُن سب نے بے مہابا خنجر مارے۔ جس نے جس جگہ کے قصد پر خنجر مارا تھا خود اس کے اسی جگہ لگا۔ جب حضرت کو افاقہ ہوا ملاحظہ فرمایا کہ وہ سب گھائل پڑے ہیں ۔ فرمایا : میں نہ کہتا تھا کہ میں نہیں کہتا وہ کہتا ہے جس کا کہنا بجا ہے،  سیدنا موسٰی کلیم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والتسلیم نے کوہِ طور پر اُس درخت میں سے ندا سنی کہ یا موسٰی انی انا اﷲ رب العلمین، ۱؂۔  ( اے موسٰی میں ہوں ،  اﷲ رب سارے جہانوں کا، ت) کیا یہ درخت نے کہا تھا،

 

(۱؂ القرآن الکریم    ۲۸/ ۳۰)

 

حاشا بلکہ رب العالمین نے درخت پر تجلی فرمائی اور حضرت کلیم کو اُس میں سے ندا مسموع ہوئی،  کیا وہ ایک درخت پر تجلی فرماسکتا ہے۔ اور بایزید  پر نہیں؟ کیا محال ہے کہ بایزید پر تجلی کرے اور سبحانی ما اعظم شانی  ۲ ؎۔  (میں پاک ہوں اور کتنی عظیم میری شان ہے۔ت) اور لوگوں کو ان میں سے ندا آئے۔

 

 (۲؂تذکرۃ الاولیاء (اردو) شیخ فریدالدین عطار      ملک اینڈ کمپنی  اردو بازار  لاہور   ص ۸۳  )

 

حضرت مولوی معنوی قدس اﷲ سرہ الشریف فرماتے ہیں۔ ایک جِن جس پر تسلط کرتا ہے اس کی زبان سے کلام کرتا ہے اس کے جوارح سے کام کرتا ہے۔۳ ؎۔ کیا تمہارے نزدیک رب عزوجل ایسا نہیں کرسکتا۔ کلام اس کا ہے اور زبان بایزید کی،  بایزید شجرہ موسٰی ہیں اور متکلم وہ جس نے فرمایا اانی انا اﷲ رب العلمین ۔ فللّٰہ الحجۃ البالغۃ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم "

 

 (۳؂ مثنوی معنوی      دفتر چہارم قصہ سبحانی ما اعظم شانی     مؤسسۃ انتشارات اسلامی لاہور    ۴/ ۲۰۵)

 

مسئلہ ۱۸۶: علمائے عظام و مشائخ کرام نے منصورکو کیوں سُولی دی؟ اگر بوجہ کفر سُولی دی گئی ہے تو کیا منصور کو اب مسلمان اور کاملین میں سے شمار کریں یا اُن کی نسبت کیا عقیدہ رکھیں؟

 

الجواب الملفوظ

ظاہر مسموع اُن کا کلام سے وہ تھا جس پرشرعاً تعزیر قتل ہے لہذا حکمِ شرع پورا کیا گیا ؂ نہ برحکم شرع آب خوردن خطاست

دگر خون بہ فتوے بریزی رواست ۴ ؎۔  (کیا ایسا نہیں شرع کے حکم کے بغیر پانی پینا گناہ ہے،  اور اگر شرعی فتوٰی کے ساتھ توخون بہائے تو جائز ہے۔ت)

 

 (۴؂ بوستانِ سعدی باب اول پہلی گفتار  مکتبہ شرتت علمیہ ملتان      ص ۲۹)

 

مسئلہ ۱۸۷ :  ازریاست رامپور کونچہ قاضی مرزا صابر حسین بروز شنبہ ۱۷ رجب ۱۳۳۴ھ

کیا ارشاد فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ومشائخ کرام اور اولیائے عظام اس مسئلہ میں کہ حضرت بڑے پیر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی چند مشہور کرامتیں جو کہ مولود شریف ووعظ وغیرہ میں بیان کی جاتی ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ ایک بڑھا لبِ دریا بیٹھی روتی تھی،  اتفاقاً حضرت کا اس طرف سے گزرہوا۔ حضرت نے فرمایا کہ اس قدر کیوں روتی ہو؟ بڑھیا نے عرض کیا : حضرت ! میرے لڑکے کی بارہ برس ہوئے یہاں دریا میں مع سامان کے برات ڈوبی ہے میں یہاں آکر روزانہ روتی ہوں،  آپ نے دعا فرمائی آپ کی دعا کی برکت سے بارہ برس کی ڈوبی ہوئی برات مع کل سامان کے صحیح و سالم نکل آئی اور بڑھیا خوش و خرم اپنے مکان کو چلی گئی۔

 

دوسرے یہ کہ حضرت کے ایک مرید کا انتقال ہوگیا،  موتٰی کا لڑکا حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت سے عرض کیا کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس پر لڑکا زیادہ رویا پیٹا اور اُڑ گیا۔ تو آپ کو رحم آیا آپ نے وعدہ فرمایا اور لڑکے کی تسکین کی۔ بعدہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کو مراقب ہو کر روکا،  جب حضرت عزرائیل علیہ السلام رکے آپ نے دریافت کیا کہ ہمارے مرید کی روح تم نے قبض کی ہے؟ جواب دیا کہ ہاں آپ نے فرمایا۔ روح ہمارے مرید کی چھوڑ دو  عزرائیل علیہ السلام نے کہا کہ میں نے بحکم رب العالمین رُوح قبض کی ہے ۔ بغیر حکم نہیں چھوڑ سکتا۔ اس پر جھگڑا ہوا۔ آپ نے تھپڑ مارا،  حضرت کے تھپڑ سے عزرائیل علیہ السلام کی ایک آنکھ نکل پڑی اورآپ نے ان سے زنبیل چھین کر اس روز کی تمام رُوحیں جو کہ قبض کی تھیں چھوڑ دیں۔ اس پر حضرت عزرائیل علیہ السلام نے رب العالمین سے عرض کیا وہاں سے حکم ہوا کہ ہمارے محبوب نے ایک رُوح چھوڑنے کو کہاتھا تم نے کیوں نہیں چھوڑ ی ہم کو ان کی خاطر منظور ہے اگر انہوں نے تمام روحیں چھوڑدیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔

 

شرعاً ان روایتوں کا بیان کرنا مجلس مولود شریف یا وعظ وغیرہ میں درست ہے،  یا نہیں؟ بحوالہ کتب معتبرتحریر فرمائیے۔ بینوا توجروا۔ ( بیان فرمائیے اجر دیئے جاؤ گے۔ت)

 

الجواب الملفوظ :

پہلی روایت اگرچہ نظر سے کسی کتاب میں نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے ،  اوراُس میں کوئی امر خلافِ شرع نہیں،  اس ا کا انکار نہ کیا جائے۔

اور دوسری روایت ابلیس کی گھڑی ہوئی ہے اور اُس کا پڑھنا اور سُننا دونوں حرام ۔

احمق،  جاہل بے ادب نے یہ جانا کہ وہ اس میں حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تعظیم کرتا ہے حالانکہ وہ حضور کی سخت توہین کررہا ہے،  کسی عالم مسلمان کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوگی کہ معاذ اﷲ اُسے کفر کی طرف نسبت کیا جائے نہ کہ محبوبانِ الہٰی سیدنا عزرائیل علیہ السلام مرسلین ملائکہ میں سے ہیں اور مرسلین ملائکہ بالاجماع تمام غیر انبیاء سے افضل ہیں کسی رسول کے ساتھ ایسی حرکت کرنا توہین رسول کے سبب معاذ اﷲ اس کے لیے باعثِ کفر ہے،  اﷲ تعالٰی جہالت و ضلالت سے پناہ دے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

مسئلہ ۱۸۸ :  مرسلہ عبدالستار بن اسمعیل شہر گونڈل علاقہ کاٹھیاوار یکشنبہ ۹ شعبان ۱۳۳۴ھ

ان دنوں اکثر احباب کو گمنام خطوط بدیں مضمون ملے ہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ قل ھواﷲ احد اﷲ الصمد،  ایاک نعبدو ایاک نستعین ، انعمت علیھم عرصہ تین روز میں نو خط نوجگہ بھیجئے اس سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا ورنہ نقصان۔

اب عرض یہ ہے کہ اس مضمون کا عندالشرع کیا اصل ہے؟ اس پر عمل ضروری ہے یا نہیں؟ اگر واجب العمل ہے تو بلا نام و نشان کے گمنام خط لکھنے کی کیا وجہ ہے؟

 

الجواب الملفوظ :

یہ بدعتِ شنیعہ ہے کہ کسی جاہل نے ایجاد کی جو مسلمانوں کا بدخواہ ہے اور قرآن عظیم کے ساتھ بے ادب کھلے ہوئے کارڈوں پر کلام الہی لکھ کر بھیجا جاتا ہے کہ چھٹی رساں جو اکثر ہنود اور عموماً بے وضو ہوتے ہیں اُسے مس کرتے ہیں،  ڈاکخانوں میں مہریں لگانے والے بے وضو یا نجس ہاتھوں سے چھوتے ہیں زمین پر رکھ کر مہر لگاتے ہیں اور خصوصاً زمین پر وہی رُخ ہوتا ہے جس پر آیات ہیں،  یہ سب ناپاکیاں اس بدعتِ خبیثہ کے سبب ہیں،  اور پھر یہ اﷲ پر افترا ہے کہ ایسا کرو گے تو نو دن میں خوشی ہوگی ورنہ آفت میں مبتلا ہو گے۔ ام تقولون علی اﷲ مالاتعلمون ۱ ؎۔ یا اﷲتعالٰی پر وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں۔(ت)

 

 (۱ ؎القرآن الکریم۲ /۸۰)

 

مسئلہ ۱۸۹ : الف خان مہتمم مدرسہ انجمن اسلامیہ قصبہ سانگورریاست کوٹہ راجپوتانہ یکشنبہ ۱۳۳۴ھ

ارواح مومنین یا کافر کا کسی وقت اپنے اپنے مکان میں آنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے یا نہیں؟ فقط۔

 

الجواب الملفوظ :

ارواحِ کفار کا آنا کیونکر ہوسکتا ہے وہ محبوس و مقید ہیں،  اور روحِ مومنین کی نسبت حدیث میں ارشاد ہوا : اذا مات المؤمن یخلٰی سریہ حیث شاء  ۱ ؎۔ اس کی راہ کھول دی جاتی ہے،  جاتی ہے جہاں چاہے۔

 

 ( ۱ ؎۔ اتحاف السادۃ المتقین کتاب ذکر الموت فضیلۃ ذکر الموتدارالفکر بیروت ۱۰ /۲۲۷)

 

جہاں چاہے میں اپنا گھر بھی داخل ہے،  اور بارہا ارواحِ صالحین کا اپنے اور اپنے متعلقین کے گھر آنا اور مدد کرنا ثابت ہے۔

شاہ ولی اﷲ صاحب نے اپنے ایک مریض کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ صاحبِ فراش تھے،  رات کو جب سورہے تھے انہیں پیاس لگی اور کپڑا اوڑھنے کی ضرورت ہوئی،  کوئی پاس نہ تھا،  ان کے ایک بزرگ کی روح ظاہر ہوئی اس نے پانی پلایا اور کپڑا اُڑھایا ۲ ؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

 ( ۲ ؎۔ انفاس العارفین مترجم اردو امداد اولیاءص ۳۶۹)

 

مسئلہ ۱۹۰ : مرسلہ محمد عبدالواحد خاں مسلم کمیٹی اسلام پورہ معرفت عبداللطیف ہیڈ ماسٹر میونسپل اردو اسکول ۱۳ ربیع الاول شریف ۱۳۳۵ھ

واجب الاحترام و التعظیم اعلٰیحضرت مدظلہم ،  قادیانی نے جس قدر تحریرات رسائل کتب اپنے دعوے کی تائید میں لکھے ہیں اگر آپ کے پاس ہوں اور ممکن ہو تو روانہ فرمادیجئے تاکہ اس کی تمام باتوں پر میں غور کرکے ایک رائے قائم کرلوں اور مباحثہ کے وقت سہولیت پیدا ہوجائے کیونکہ مخالف کتابیں دینے سے انکار کرتا ہے اگر یہ نہیں ہوسکتا ہے تو کم از کم ان کی کتابوں کے نام اور جگہ جہاں سے وہ دستیاب ہوسکتی ہیں تحریر فرمادیں،  یہ تکلیف آپ کو دینا جائز نہیں مگر کوئی اور شخص ایسا نظر نہیں آتا جو اس کام کو انجام دے سکے۔ اب دوسری بات تردید یعنی جس قدر رسائل اشتہارات وغیرہ اس کے رد میں لکھے گئے ہوں روانہ فرمائے جائیں،  ورنہ آخر درجہ ان کی فہرست ہی سہی۔ اور مندرجہ ذیل شکوک رفع کردیجئے۔ (قرآن ،  صحاح ستہّ ہی کے دلائل ہوں تو خوب ہے۔)

 

 (۱) میں صحاح ستہ کو دیکھنا چاہتا ہوں مگر عربی نہیں جانتا،  کیا کوئی اردو ترجمہ تحت اللفظ اس کا فراہم ہوسکتا ہے اور کون سی کتاب زیادہ معتبر اور فائدہ رساں ہے؟

(۲) مشکوۃ شریف میں کیا بیان ہے اس سے کیا مدد مل سکتی ہے؟

(۳) ہمارے یہاں سب سے زیادہ کون کون سی کتابیں معتبر ہیں۔

(۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے مذہب پر آپ کی کیا رائے ہے؟

(۵) حضرت مسیح (علیہ السلام) کے زندہ ہونے کی کن کن حدیثوں سے دلیل مل سکتی ہے؟

(۶) سُبحان الذی الخ میں سبحان کے لفظ میں کیا خوصیت ہے؟

(۷) اور آپ کو رات کو کیوں معراج ہوا،  دن کو کیوں نہ ہوا؟

(۸) ادریس ،  خضر ،  عزیز ،  الیاس (علیہم السلام) ان کے قصص قدرے صراحت کے ساتھ بیان کیجئے۔

(۹) حضرت مہدی اور عیسٰی (علیہما السلام) دونوں جدا جدا اشخاص ہونےکی کن کن حدیثوں میں خبر ہے ؟

 

الجواب :  (۱) صحاح ستّہ کے اردومیں ترجمے ہوئے ہیں مگر عموماً وہابیہ نے کیے ہیں،  اور ترجمہ دیکھ کر کوئی شخص قرآن و حدیث نہیں سمجھ سکتا۔

(۲) مشکوۃ شریف ایک جامع کتاب ہے، بہت باتوں میں مدد دیتی ہے،  مگر تنہا کوئی کتاب سوا قرآن عظیم کے کافی نہیں۔

(۳) ہمارے یہاں قرآن عظیم کے بعد حدیث میں صحیحیں اور سننِ اربعہ،  مسانید امام اعظم ،  موطا و کتاب الآثار امام محرر،  کتاب الخراج امام ابویوسف ،  کتاب الحج امام عیسٰی بن ابان،  شرع معانی الاثار امام طحطاوی ،  مشکلات الاثار امام طحطاوی_____ عقائد میں فقہ اکبر ،  وصایائے امام اعظم،  عقائد امام مفتی الانس والجن نجم الدین عمر نسفی_____فقہ میں ہدایہ ،  بدائع مبسوط۔جامع صغیر،  جامع کبیر،  خانیہ ،  خلاصہ ،  بزازیہ،  غرر،  درر،  تنویرالابصار،  درمختار،  غنیہ ،  حلیہ اور ہزار ہا کتب بے شمار۔

 

(۴) ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا شبِ معراج تک خدمت اقدس میں حاضر بھی نہ ہوئی تھیں بہت صغیر السن بچی تھیں۔ وہ جو فرماتی ہیں،  ان روحانی معراجوں کی نسبت فرماتی ہیں جو اُن کے زمانے میں ہوئیں۔ معراجِ جسمانی انکی حاضری سے کئی سال پیشتر ہوچکا تھا۔

(۵) اس کے لیے دُرمنثور و ابن جریر و تفاسیر دیکھنی چاہیئں،  ابھی میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ ان مسائل میں بحث یہ قادیانیوں کا دھوکا ہے بحث اس کے ان کفریات میں چاہیے جس کا نمونہ اوپر مذکور ہوا۔

(۶) حضرت عزّت جل وعلا اپنے محبوبوں کی مدح سے اپنی حمد فرمایا کرتا ہے۔ اس کی ابتداء كہيں ھو الذي سےہوئي ہے جيسے ھو الذی بعث فی الامیین رسولا ۱ ؎۔   جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ۔(ت)

 

 ( ۱؎القرآن الکریم ۶۲/۲ )

 

ھوالذی ارسل رسولہ بالھدٰی ودین الحق  ۲؎۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ۔(ت)

 

 (۲ ؎القرآن الکریم ۴۸ /۲۸ و ۶۱ /۹)

 

کہیں تبارک الذین سے  : تبارک الذی نزل الفرقان علٰی عبدہ لیکون للعٰلمین نذیرا  ۳ ؎۔ بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اتارا قرآن اپنے بندے پر جو سارے جہان کو ڈر سنانے والا ہو۔(ت)

 

 ( ۳ ؎القرآن الکریم ۲۵ /۱ )

 

کہیں حمد سے،  جیسے :   الحمد ﷲ الذی نزل علٰی عبدہ الکتب ولم یجعل لہ عوجا ۴ ؎۔ سب خوبیاں اﷲ کو جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں اصلاً کجی نہ رکھی۔(ت)

 

( ۴ ؎القرآن الکریم ۱۸ /۱)

 

یہاں تسبیح سے ابتداء فرمائی ہے کہ : سبٰحن الذی اسرٰی بعبدہ لیلا من المسجدالحرام ۵ ؎۔ پاکی ہے اُسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے۔(ت)

 

( ۵ ؎القرآن الکریم ۱۷ /۱)

 

اس میں ایک صریح نکتہ یہ ہے کہ جو بات نہایت عجیب ہوتی ہے اس پر تسبیح کی جاتی ہے،  سبحن اﷲ الذی کیسی عمدہ چیز ہے۔ سبحن کیسی عجیب بات ہے جسم کے ساتھ آسمانوں پر تشریف لے جانا کوئی زمہر یر طے فرمانا،  کُرہ نار طے فرمانا،  کروڑوں برس کی راہ کو چند ساعت میں طے فرمانا۔ تمام ملک و ملکوت کی سیر فرمانا۔ یہ تو انتہائی عجیب آیات بینّات ہی ہیں۔ اتنی بات کہ کفارِ مکہ پر حجت قائم فرمانے کے لیے ارشاد ہوئی کہ شب کو مکہ معظمہ میں آرام فرمائیں صبح بھی مکہ معظمہ میں تشریف فرما ہوں،  اور رات ہی رات  بیت المقدس تشریف لے جائیں اور واپس تشریف لائیں۔

 

کیا کم عجیب ہے ،  اس لیے سبحن الذی ارشاد ہوا،  کفار نے آسمان کہاں دیکھے،  ان پر تشریف لے جانے کا اُن کے سامنے ذکر ایک ایسا دعوٰی ہوتا جس کی وہ جانچ نہ کرسکتے،  بخلاف بیت المقدس جس میں ہر سال اُن کے دو پھیرے ہوتے ۔ رحلۃ الشتاء والصیف۱ ؎۔ (سردی اور گرمی میں کوچ کرنا۔ت)

 

 ( ۱ ؎القرآن الکریم ۱۰۶ /۲)

 

اور وہ خوب جانتے تھے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کبھی وہاں تشریف نہ لے گئے تو اس معجزے کی خوب جانچ کرسکتے تھے اور ان پر حجت الہی پوری قائم ہوسکتی تھی۔ چنانچہ بحمداﷲ تعالٰی یہ ہی ہوا کہ جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بیت المقدس تشریف لے جانا اور شب ہی شب میں واپس آنا بیان فرمایا،  ابوجہل لعین اپنے دل میں بہت خوش ہوا کہ اب ایک صریح حجت معاذ اﷲ ان کے غلط فرمانے کی مل گئی،  ولہذا ملعون نے تکذیب ظاہر نہ کی بلکہ یہ عرض کی کہ آج ہی رات تشریف لے گئے؟ فرمایا : ہاں ۔ کہاں اور آج شب میں واپس آئے؟ فرمایا : ہاں کہاں : ارووں کے سامنے بھی ایسا ہی فرمادیجئے گا؟ فرمایا : ہاں اب اس نے قریش کو آؤاز دی اور وہ جمع ہوئے اور حضور سے پھر اس ارشاد کا اعادہ چاہا،  حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اعادہ فرمادیا۔ کافر بغلیں بجاتی صدیق اکبر کے پاس حاضر ہوئے ۔ یہ گمان تھا کہ ایسی ناممکن بات سن کر وہ بھی معاذ اﷲ تصدیق سے پھر جائیں گے۔ صدیق سے عرض کی۔ آپ نے کچھ اور بھی سنا آپ کے یار فرماتے ہیں کہ میں آج کی رات بیت المقدس گیا اور شب ہی میں واپس ہوا۔ صدیق اکبر نے فرمایا : کیا وہ ایسا فرماتے ہیں ؟ کہاں : ہاں وہ یہ حرم میں تشریف فرما ہیں۔ صدیق نے فرمایا۔ توواﷲ حق فرمایا یہ تو مکہ سے بیت المقدس تک کا فاصلہ ہے میں تو اس پر ان کی تصدیق کرتا ہوں کہ صبح شام آسمان کی خبر ان کے پاس آتی ہے ،  پھر کافروں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے نشان پوچھے،  جانتے تھے کہ یہ تو کبھی تشریف لے گئے نہیں کیونکر بتائیں گے وہ جو کچھ پوچھتے گئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارشاد فرماتے گئے۔

 

کافروں نے کہا : واﷲ ! نشان تو پورے صحیح ہیں۔ پھر اپنے ایک قافلہ کا حال پوچھا جو بیت المقدس کو گیا ہوا تھا کہ وہ بھی راستہ میں حضور کو ملا تھا اور کہاں ملا تھا اور کیا حالت تھی کب تک آئے گا؟ حضور نے ارشاد فرمایا : فلاں منزل میں ہم کو ملا تھا اور یہ کہ اُتر کر ہم نے اس میں ایک پیالہ سے پانی پیا تھا اور اس میں ایک اونٹ بھاگا اور ایک شخص کا پاؤں ٹوٹ گیا اور قافلہ فلاں دن طلوع شمس کے وقت آئے گا۔ یہ مدت جو ارشاد ہوئی منزلوں کے حساب سے قافلہ کے لیے بھی کسی طرح کافی نہ تھی۔ جب وہ دن آیا کفار پہاڑ پر چڑھ گئے کہ کسی طرح آفتاب چمک آئے اور قافلہ نہ آئے اور قافلہ نہ آئے تو ہم کہہ دیں کہ دیکھو معاذ اﷲ وہ خبر غلط ہوئی۔ کچھ جانبِ شرق طلوع آفتاب کو دیکھ رہے تھے کچھ جانبِ شام راہ قافلہ پر نظررکھتے تھے اُن میں سے ایک نے کہا : وہ آفتاب چمکا،  کہ اُن میں سے دوسر ابولا کہ وہ قافلہ آیا۔ یہ ہوتی ہے سچی نبوت جس کی خبر میں سرمُوفرق آنا محال ہے۔

قادیانی سے زیادہ تو اُن کفار ِ مکہ ہی کی عقل تھی وہ جانتے تھے کہ ایک بات میں بھی کہیں فرق پڑ جائے تو دعوٰی نبوت معاذ اﷲ غلط ہوجائے گا۔ مگر یہ جھوٹا نبی ہے کہ جھوٹ کے پھینکے اڑاتا ہے اور نہ وہ شرماتا ہے۔ اور نہ اس کے ماننے والوں کو اس کا حس ہوتا ہے بلکہ دریکمال شوخ چشمی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے کہ ہاں ہاں اگلے چار سو انبیاء کی بھی پیشگوئیاں غلط ہوئیں اور وہ جھوٹے یعنی پنجاب کا جھوٹا کذاب نبی اگر دروغ گو نکلا کیا پروا ہ ہے اس سے پہلے بھی چار سو نبی جھوٹے گزر چکے ہیں۔ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ جب نبوت اور جھوٹ جمع ہوسکتے ہیں تو انبیاء کی تصدیق شرطِ ایمان کیوں ہوئی انکی تکذیب کفر کیوں ہوئی۔

 

ولٰکن لعنۃ اﷲ علی الظّٰلمین الذین یکذبون المرسلین۔ لیکن اﷲ تعالٰی کی لعنت ہو ان ظالموں پر جو رسولوں کو جھٹلاتے ہیں۔(ت)

 

ان عظیم وقائع نے معراجِ مبارک کا جسمانی ہونا بھی آفتاب سے زیادہ واضح کردیا اگر وہ کوئی روحانی سیر یا خواب تھا تواس پر تعجب کیا۔ زید و عمر و خواب میں حرمین شریفین تک ہو آتے ہیں اور پھر صبح اپنے بستر پر ہیں۔ رؤیا کے لفظ سے استدلال کرنا اور الاّفتنۃ للناس نہ دیکھنا صریح خطا ہے۔ رؤیا بمعنی رویت آتا ہے۔ اور فتنہ و آزمائش بیداری ہی میں ہے نہ کہ خواب میں ولہذا ارشاد ہوا۔

 

سبٰحن الذی اسرٰی بعبدہ ۱ ؎۔ پاکی ہے اُسے جو اپنے بندے کو لے گیا ۔(ت)واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

 ( ۵ ؎القرآن الکریم ۱۷ /۱)

 

(۷) رات تجلی لطفی ہے اور دن تجلی قہری ،  اور معراج کمالِ لطف ہے جس سے مافوق متصور نہیں،  لہذا تجلی لطفی ہی کا وقت مناسب تھا۔ معراج وصلِ محب و محبوب ہے اور وصال کے لیے عادۃً شب ہی انسب مانی جاتی ہے معراج ایک معجزہ عظیم قاہرہ ظاہرہ تھا۔ اور سنتِ الہٰیہ ہے کہ ایسے واضح معجزہ کو دیکھ کر جو قوم نہ مانے ہلاک کردی جاتی ہے اُن پر عذاب عام بھیجا جاتا ہے ،  جیسے اگلی امتوں میں بکثرت واقع ہوا۔ معراج کو شریف لے جانا اگر دن میں ہوتا تو یا سب ایمان لے آتے یا سب ہلاک کیے جاتے ،  ایمان تو کفار کے مقدر میں تھا نہیں تو یہ ہی شِق رہی کہ اُن پر عذاب عام اُترتا اور حضور بھیجے گئے سارے جہان کے لیے رحمت ،  جنہیں اُن کا رب فرماتا ہے :

 

وما کان اﷲ لیعذبھم وانت فیھم۱ ؎۔ اے رحمت عالم ! جب تک تم ان میں تشریف فرما ہو اﷲ انہیں عذاب کرنے والا نہیں۔

 

 ( ۱ ؎ القرآن لکریم ۸ /۳۳)

 

لہذا شب ہی مناسب ہوئی۔

(۸) تصانیف علماء میں قصص الانبیاء دیکھئے اگر کوئی خاص بات دریافت کرنی ہو تو پوچھیے۔

حضرت عزیز علیہ السلام کا قصہ قرآن عظیم ہی میں مذکور ہے کہ اُن کی روح قبض فرمائی پھر سو برس بعد زندہ فرمایا ،  کھانا پانی جو ساتھ تھا وہ اس سو برس میں نہ بگڑا۔ اور سواری کے لیے جانور کی ہڈیاں بھی گل چکی تھیں،  ان کی نظر کے سامنے اس کی ہڈیاں اُبھاریں اُن پر گوشت چڑھایا اسے زندہ فرمایا ۔۲ ؎۔

 

 ( ۲ ؎ القرآن لکریم ۲ /۲۵۹)

 

حضرت خضر علیہ السلام کا قصہ سیدنا موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی قرآن عظیم میں ہے ۳ ؎۔

 

حضرت ادریس علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا سے مع جسم بہشت بریں میں اٹھالیا، واذکر فی الکتٰب ادریس انہ کان صدیقا نبیا ورفعٰنہ مکاناً علیّا۴ ؎۔ اورکتاب میں ادریس کو یاد کرو بے شک وہ صدیق تھا،  غیب کی خبریں دیتا اور ہم نے اسے بلند مقام کی طرف اٹھالیا۔(ت)

 

 ( ۳ ؎ القرآن لکریم ۱۸/ ۶۵ تا ۸۲)

( ۴ ؎ القرآن لکریم ۱۹/ ۵۶ و ۵۷)

 

الیاس علیہ الصلوۃ والسلام مرسلین کرام میں ہیں،  انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سب بحیات حقیقی روحانی جسمانی زندہ ہیں،  ان کی موت صرف ایک آن کو تصدیقِ وعدہ الہٰیہ کے لیے ہوتی ہے،  جمہور علماء کے نزدیک چار نبی بے عروضِ موت اب تک زندہ ہیں،  دو آسمان پر،  سیدنا ادریس و سیدنا عیسی اور دو ز مین میں،  سیدنا الیاس و سیدنا خضر علیہم الصلوۃ والسلام ۱؂ اور یہ دونوں حضرات ہر سال حج کرتے ہیں اور ختم حج پر زمزم شریف کے پاس باہم ملتے ہیں،  اور آبِ زمزم شریف پیتے ہیں کہ آئندہ سال تک ان کے لیے کافی ہوتا ہے پھر کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوتی۔

 

ان کلمات پر باہم ملاقات ختم فرماتے ہیں : سبحان اﷲ ماشاء اﷲ لایسوق الخیر الاّ اﷲ ماشاء اﷲ لایصلح السوء الا اﷲ ماشاء اﷲ ماکان من نعمۃ فمن اﷲ ماشاء اﷲ لاحول ولاقوۃ الا باﷲ۲ ؎۔ اللہ تعالٰی پاک ہے جو اﷲ چاہے،  بھلائی نہیں لاتا،  مگر اﷲ جس قدر چاہے جو بھی نعمت ہے وہ اﷲ ہی کی طرف ہے جس قدر اﷲ چاہے،  نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت ہے مگر اﷲ تعالٰی کی توفیق سے۔(ت)

 

 ( ۱ ؎۔تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۱۰۰۴الیاس بن عیسٰی علیہ السلام  داراحیاء التراث العربی بیروت  ۹ /۱۵۵)

(۲ ؎تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۱۰۰۴ الیاس بن عیسٰی علیہ السلام داراحیاء التراث العربی بیروت۹/ ۱۵۸)

 

الیاس علیہ الصلوۃ والسلام لشکرِ اقدس حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک غار میں یہ دعا کرتے ملتے۔ اللھم اجعلنی من امۃ احمد المرحومۃ المبارکۃ المستجاب لھا ۳ ؎۔ اے اﷲ ! مجھے احمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی امت سے بنا دے جس پر تیری رحمت و برکت نازل ہوتی ہے اور جس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔(ت)

 

 ( ۳ ؎تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۱۰۰۴ الیاس بن عیسٰی علیہ السلام داراحیاء التراث العربی بیروت  ۹/ ۱۵۹)

 

خضر علیہ الصلوۃ والسلام بعد وصال اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعزیت کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لائے،  مسجد نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے راستہ میں امیرا لمومنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ سے باتیں کرتے اور ان پر تکیہ لگاتے ہوئے راہ چلتے نظر آئے،  اکابر اولیاء کے پاس اکثر تشریف لاتے ،  حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجالس وعظ میں بکثرت کرم فرمایا،  اور اب تک اولیاء سے ملتے ہیں،  جنگل میں بے بسی کے وقت مسلمانوں کی مدد فرماتے ہیں۔

 

 (۹) ان احادیث کی تفصیل خصائص کبرٰی امام جلال الدین سیوطی و کتاب الاشاعۃ فی اشراط الساعۃ سیدنا علامہ محمد ابن عبدالرسول برزنجی وغیرہما میں ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

مسئلہ ۱۹۹و۲۰۰:  مرسلہ حکیم عبدالجبار خان دہام پور ضلع بجنور ۲۹ ربیع الاول شریف ۱۳۳۵ھ

(۱) کیا سید پر دوزخ کی آنچ قطع حرام ہے،  اور وہ کسی بداعمالی کی پاداش میں دوزخ میں جاہی نہ سکے گا؟

(۲) آل فاطمہ کا مخصوص اعزاز و امتیاز کیا حضرت فاطمہ خاتونِ جنت کے ذریعہ سے ہے کیونکہ جناب سیدہ موصوفہ سید کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں یا حضرت علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ کی ذات خاص کی بدولت یہ رُتبہ سادات ہے فقط۔

 

الجواب :

(۱) ساداتِ کرام جوواقعی علمِ الہٰی میں سادات ہوں ان کے بارے میں رب عزوجل سے امید واثق یہی ہے کہ آخرت میں اُن کو کسی گناہ پر عذاب نہ دیا جائے گا۔ حدیث میں ہے : انما سیت فاطمۃ لان اﷲ تعالٰی حرمھا وذریتہا علی النار  ۱ ؎۔ ان کا فاطمہ نام اس لیے ہوا کہ اﷲ نے ان کو اور ان کی تمام ذریت کو نار پر حرام فرمادیا۔

 

 ( ۱ ؎الجامع الصغیرحدیث ۲۳۰۹دارالکتب العلمیۃ بیروت۱ /۱۳۹)

المواہب الدنیۃ المقصد الثانیالفصل الثانی  المکتب الاسلامی بیروت۲ /۶۴)

 

دوسری حدیث میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بتول زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرمایا : ان اﷲ غیر معذبک ولا ولدک اوکما قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  ۲ ؎۔ اے فاطمہ ! اﷲ نہ تجھے عذاب کرے گا نہ تیری اولاد میں کسی کو،  مگر حکم قطعی بے نص قطعی ناممکن ہے۔

 

( ۲ ؎المعجم الکبیر حدیث ۱۱۶۸۵المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۱ /۲۶۳)

 

 (۲) امیر المومنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ کی اولاد امجاد اور بھی ہیں قریشی ہاشمی علوی ہونے سے ان کا دامان فضائل مالا مال ہے مگر یہ شرفِ اعظم حضرت سادات کرام کو ہے،  اُن کے لیے نہیں یہ شرفِ حضرت بتول زہرا کی طرف سے ہے کہ۔ فاطمۃ بضعۃ منّی ۱ ؎۔ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔

 

 ( ۱ ؎صحیح البخاری  کتاب المناقب مناقبِ فاطمۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۳۲)

( صحیح البخاری  کتاب المناقب باب مناقب قرابت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۲۶)

(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فضائل من فاطمہ رضی اللہ عنہما قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۹۰)

 

کل بنی اٰدم ینتمون الی عصبۃ ابیھم الابنی فاطمۃ فانا ابوھم۲؂ ۔ سب کی اولادیں اپنے باپ کی طرف نسبت کی جاتی ہیں سوائے اولادِ فاطمہ کے  کہ میں ان کا باپ ہوں ۔واﷲ تعالٰی اعلم

 

 ( ۲ ؎الاسرار المرفوعۃ فی اخبار الموضوعۃ حرف الکاف حدیث ۶۷۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت ص ۱۷۶)

 

مسئلہ ۲۰۱: ازا مروہہ مرسلہ رفیق احمد صاحب عباسی محلہ ۱۹ ربیع الاول شریف ۱۳۳۶ھ

مرشدی و مولائی مدفیوضکم العالٰی

بعد آداب و نیاز غلامانہ گزارش ہے کہ یہاں بعض اشخاص اس امر کے مدعی ہیں کہ سادات بنی فاطمہ علیہا الصلوۃ والسلام میں سے کوئی متنفس خواہ وہ کوئی مشرب رکھتا ہو اور کیسے ہی اعمال کا ہونا رِ دوزخ سے بری ہے اور ثبوت میں آیت تطہیر و حدیث اکرموااولادی۳ ؎۔ الخ( میری اولادکا احترام کرو ۔ت) وغیرہ کے علاوہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی فتوحات مکیہ کا باب سلمان فارسی پیش کرتے ہیں اس کے متعلق آں قبلہ کی جو کچھ رائے اقدس ہو اس سے مطلع فرمائیے ،  زیادہ آرزوئے قدمبوسی فقط۔

 

 (۳ ؎)

 

الجواب : سیّد کوئی مشرب رکھتا ہو یہ لفظ بہت وسیع ہے،  آج کل بہت مشرب صریح کفر و ارتداد کے ہیںجیسے قادیانی،  نیچری ،  رافضی،  وہابی،  چکڑالوی،  دیوبندی وغیرہم،  جو مشرب رکھتا ہو ہر گز سید نہیں۔ انہّ لیس من اھلک فانہ عمل غیر صالح  ۵؎۔ وہ تیرے گھر والوںمیں سے نہیں،  بے شک اس کے کام بہت نالائق ہیں۔(ت)

 

 ( ۴ ؎القرآن الکریم ۱۱/ ۱۶)

 

ہاں سلامت ایمان کے اعمال کیسے ہی ہوں اﷲ عزوجل کے کرم سے امید واثق یہ ہی ہے کہ جواس کے علم میں سیّد ہیں اُن سے اصلاً کسی گناہ پر کچھ مواخذہ نہ فرمائے،

 

حدیث ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان فاطمۃ احصنت فرجھا فحرمھا اﷲ وذریتہا علی النار ۱؂  رواہ البزار و ابویصلی والطبرانی فی الکبیر والحاکم وصح وتمام فی فوائد ہ کلھم عن عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

 

بے شک فاطمہ نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو اﷲ تعالٰی نے اس پر اورا س کی اولاد پر دوزخ کی آگ حرام فرمادی۔ اس کو بزار ،  ابویعلی،  طبرانی نے معجم کبیر میں،  اور حاکم نے روایت کیا اور اس کی تصیح کی۔ یہ تمام اس کے فوائد میں ہے،  سب نے اس کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

 ( ۱ ؎۔ الجامع الصغیر بحوالہ البزاروع،  طب،  ک، حدیث ۲۳۰۹ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۱۳۹)

 

اسی باب میں اور احادیث بھی وارد ہیں کہ ذریت بتول زہرا عذاب سے محفوظ ہے۔ وزعم المناوی اماھی وابناھا فالمراد فی حقھم التحریم المطلق،  واما من عداھم فالمحرم علیھم نارالخلود۲؂ اھ ورأیتنی کتبت علیہ اقول : قد علم المحفوظون من اھل السنۃ والجماعۃ ان نارالخلو: محرمۃ علٰی کل من قال لا الٰہ الا اﷲ فما خصوصیۃ ذریۃ زھراء بل المعنی بحول العزیز المقتدر ھو التمعمیم واﷲ ذوالفضل العظیم۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

مناوی نے کہا کہ خود خاتونِ جنت اور ا ن کے دونوں بیٹوں کے حق میں تو مطلقاً دوزخ کا حرام ہونا مراد ہے۔ لیکن ان کے غیر میں دائمی طور پر دوزخ میں رہنا حرام ہے اھ۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے اس پر یوں لکھا۔اقول : ( میں کہتا ہوں ) اہلِ سنت و جماعت جو کہ محفوظ ہیں جانتے ہیں کہ دوزخ میں دائمی طور پر رہنا تو ہر اس شخص پر حرام ہے جس نے لا الٰہ الا اﷲ کہا۔ اس میں سیدہ زہرا رضی ا ﷲ تعالٰی عنہا کی اولاد کی کیا تخصیص ہوئی بلکہ عزت واقتدار والے معبود کی توفیق سے معنی میں تعمیم ہے یعنی مطلقاً حرمت اﷲ تعالٰی فضل وعظمت والا ہے۔(ت)

 

 ( ۱ ؎۔ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر  طب،  ک،   دارالمعرفۃ بیروت۲ /۴۶۲)

 

مسئلہ ۲۰۲ : مرسلہ از محمد ابراہیم موضع گردھر پور ڈاکخانہ رچھا ضلع بریلی

ایک شخص نجابت خاں جاہل اور بدعقیدہ ہے اور سود خوار بھی ہے ،  نماز روز خیرات وغیرہ کرنا بے کار محض سمجھتا ہے،  اس شخص کی نسبت عام طور پر جملہ مسلمانان ِ واہل ہنود میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر صبح کو اس کی منحوس صورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضرور کچھ نہ کچھ وقت اور پریشانی اٹھانی پڑے گی اور چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہوجانے کا وثوق ہو لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور رکاوٹ اور پریشانی ہوگی چنانچہ اُن لوگوں کو ان کے خیال کے مناسب بربار تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر کہیں جاتے ہوئے سامنی پڑگیا تو اپنے مکان کو واپس جاتے ہیں اور چندے توقف کرکے یہ معلوم کرکے وہ منحوس سامنے تو نہیں ہے جاتے ہیں،  اب سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور طرز عمل کیسا ہے؟ کوئی قباحتِ شرعیہ تو نہیں؟

 

الجواب : شرع مطہر میں اس کی کچھ اصل نہیں،  لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے۔

 

شریعت میں حکم ہے: اذا تطیرتم فامضوا ۱؂۔ جب کوئی شگون بدگمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو،

 

 ( ۱ ؎فتح الباری کتاب الطب     باب الطیرۃ        مصطفٰی  البابی مصر۱۲ /۳۲۳)

 

وہ طریقہ محض ہندوانہ ہے مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہیے کہ : اللّھم لا طیر الا طیرک ولا خیرالا خیرک ولا الٰہ غیرک۲ ؎۔ اے اﷲ ! نہیں ہے کوئی برائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے بغیر کوئی معبود نہیں۔(ت) پڑھ لے ،  اور اپنے رب پر بھروسا کرکے اپنے کام کو چلا جائے ،  ہر گز نہ رُکے نہ واپس آئے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

 ( ۲ ؎فتح الباری کتاب الطب  باب  الطیرۃ  مصطفٰی  البابی مصر ۱۲ /۳۲۳)

(کنزالعمال حدیث ۲۸۵۸۸   مؤسسۃ الرسالہ بیروت  ۱۰ /۱۱۵)

 

مسئلہ ۲۰۳تا ۲۰۶ : از اکبر آباد محلہ گھٹا اعظم کان  مکان منشی مظفر حسین خاں مختار مرسلہ محمد رضی الدین چشتی نظامی ۲ جمادی الاولی ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اِن مسائل میں کہ:

(۱) مشرک داخل سلسلہ کسی مشائخ سلسلہ سے کس حیثیت سے اور کس طرح پر داخل سلسلہ ہوسکتا ہے؟

مشرک کی آلودگی ظاہر اُس میں نمایاں ہو جیسے اہلِ ہنود میں سی۔

(۲) ایسے شخص کی بیعت کسی مشائخ سلسلہ سے کب معتبر اور کیسی ہوگی؟

(۳) ایسا مشرک کسی مشائخ سلسلہ کا خلیفہ اور صاحبِ اجازت یا صاحبِ مجاز ہوسکتا ہے جس کی نسبت یقیناً بظاہر  معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کا پابند نہیں ،  نہ اس نے احکامِ شریعت کی بظاہر پابندی کی۔ دائرہ اسلام میں بظاہر شامل نہیں ہوا۔ نہ اس نے شرک و کفر و فسق و فجور سے کسی جلسہ عام مسلمانوں میں توبہ کی ،  نہ توبہ کا شاہد بنایا۔

(۴) عوام الناس اپنی اغراض نفسانی سے ایسے شخص کو جس کی نسبت عرض کیا جارہا ہے اس کو رشدو ہدایت کا اپنی ہادی بناسکتے ہیں یا نہیں۔

 

الجواب : لا الٰہ الا اﷲ کوئی کافر خواہ مشرک ہو یا موحد ہر گز نہ داخل سلسلہ ہوسکتا ہے۔ نہ بے اسلام اس کی بیعت معتبر ہوسکتی ہے،  نہ قبل اسلام اس کی بیعت معتبر ہواگرچہ بعد کو مسلمان ہوجائے کہ بیعت ہو یا کوئی عمل،  سب کے لیے پہلی شرط اسلام ہے قال تعالٰی : وقدمنا الٰی ماعملوا من من عمل فجعلنٰہ ھباء منثورا ۱ ؎۔ اور جو کچھ انہوں نے کام کیے تھے ہم نے قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کردیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے ہیں، (ت) جو اس کے کفر پر رہتے ہوئے اسے مجاز و ماذونِ بعیت و خلیفہ طریقت کرے اور جو اسے پیررُشد و ہدایت سمجھے یہ سب کافر ہوجائیں گے ۔بزازیہ ،  مجمع الانہرو دُرمختار وغیرہ میں ہے : من شک فی کفرہ فقدکفر  ۲ ؎۔ جس نے اس کے کفر میں شک کیا وہ کافر ہوگیا۔(ت)

 

 ( ۱ ؎القرآن الکریم ۲۵ /۲۳)

 ( ۲ ؎۔ الدرالمختارکتاب الجہاد باب المرتدمطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۶)

 

ہاں اگر وقتِ بیعت اس نے کلمہ طیبہ پڑھا اور دینِ اسلام کا مقر ہوا تو بیعت صحیح ہوئی اور اس کے بعد قبل اظہار کفر ماذون کیا تو پیر پر الزام نہیں مگر جب بعد کو اس نے کفر کیا مرتد ہوگیا بیعت فسخ ہوگئی اب جو اُسے ہادی بنائے یہ کافر ہوگا، والعیاذ باﷲ تعالٰی واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

مسئلہ ۲۰۷ تا ۲۱۱:  از کلکۃ نمبر ۲۴۷ پوسٹ شملہ مانک تلہ  مرسلہ منصور علی میاں بگاں قدمِ رسول ۱۷ شعبان ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ،

(۱) مومن اور ولی میں کون سی نسبت ہے؟

 

 (۲) درود شریف کے اندر بجائے علٰی ابراہیم وعلٰی آل ابراہیم کے علٰی ال داؤد یا علی اٰ ل زکریا وغیرھما نہ آنے کی کیا وجہ ؟

 

 (۳) جو مضمون قران شریف کے ہے اس کو مدلولِ قرآنی کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر کہہ سکتے ہیں تو طھرابیتی وطھر اقلبی میں کیا فرق ہے ؟ اور اگر مدلول نص نہیں تو کیوں؟

 

 (۴) صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں اصحاب پر آل کو مقدم کیوں کیا ؟

(۵) درجہ ولایت باقی رہنے اور نبوت کے ختم ہوجانے کی کیا وجہ ہے؟

 

الجواب

(۱) اگر ولایتِ عامہ مراد ہے تو تساوی، اﷲ ولی الذین اٰمنوا ۱ ؎۔  ( اﷲ تعالٰی ایمان والوں کا ولی ہے۔ت) اور خاصہ تو عموم خصوص مطلق ان اولیاء ہٗ  الا المتقون ۲ ؎۔  ( اس کے ولی تو پرہیزگار ہیں۔ت)

 

 ( ۱ ؎القرآن الکریم  ۲ /۲۵۷)

 ( ۲ ؎القرآن الکریم ۸ /۳۴)

 

 (۲) آل ابراہیم علیہ السلام میں آل داؤد و آل زکریا علیہما السلام سب داخل ولا عکس۔

(۳) جس مضمون پر قرآن عظیم دلالت فرمائے مدلولِ قرآنی ہے بیتی اور قلبی میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور متشابہات میں قیاس جاری کرنا ضلالت اٰمنّا بد کل من عندربنا ۳ ؎۔  ( ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس ہے۔ ت) نہ کہ من عند نفسک  ( تیرے نفس کے پاس سے ۔ت)  ( ۳ ؎القرآن الکریم ۳ /۷)

 

 (۴) آل اصحاب کو بھی شامل ہے ولا عکس یہ تخصیص بعد تمیم ہے۔

 

(۵) اﷲ عزوجل نے فرمایا : وٰلکن الرسول اﷲ و خاتم النّبین  ۱ ؎۔ ہاں وہ اﷲ تعالٰی کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے ۔(ت)

 

 ( ۱ ؎القرآن الکریم۳۳ /۴۰)

 

اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : لاتزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق لایضرھم من خذلھم ولا خالفہم حتی یاتی امر اﷲ وھم علٰی ذٰلک۲ ؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ میری اُمت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا،  ان کی رُسوائی کا ارادہ کرنے والا اور ان کا مخالف ان کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالٰی کا امر ( قیامت) آجائے در آنحالیکہ وہ حق پر قائم ہوں گے۔ اور اﷲ تعالٰی خوب جانتا ہے۔ (ت)

 

 ( ۲ ؎الدرالمنثور بحوالہ مسلم والترمذی و ابن ماجہ تحت آیۃ ولولا دفع اﷲ الناس الخ مکتبہ آیۃ اﷲ العظمی قم ایران ۱ /۳۲۱)

(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لاتزال طائفۃ من امتی قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۴۳)

 

مسئلہ ۲۱۲:ازتھانہ فتح پور چوراسی ضلع اناؤ ۔ مرسلہ علی احمد خان صاحب ہیڈ محرر ۲۳ جمادی الاولٰی ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے تیسری لڑکی ہوئی ،  اس دن سے زید نہایت پریشان ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ تیسری لڑکی اچھی نہیں ہوتی تیسرا لڑکا نصیب ور اور اچھا ہوتا ہے۔ زید نے ایک صاحب سے دریافت کیا انہوں نے فرمایا یہ سب باتیں اہل ہنود اور عورتوں کی بنائی ہوئی ہیں اگر تم کو وہم ہو صدقات کردو  ایک گائے یا سات بکریاں قربانی کردو اور توشہ شاہنشاہِ بغداد رضی اللہ تعالٰی عنہ کر دو ، حق تعالٰی بتصدق سرکار غوثیت رضی اللہ تعالٰی عنہ ہر طرح کی بلاو نحوست سے محفوظ رکھے گا۔ توشہ دو ہیں۔

 

ایک خشکہ گیلانی : برنج (۵ ماِ) ،  روغن زرد (۵ مِا) ،  شکر (۵ ماِ )،  میوہ (۵ ماِ) شیر گاؤ (۵ ماِ) زعفران (۵ تولہ) ،  گلاب (ایک بوتل ) ،  کیوڑا ( ایک بوتل ) الائچی خورد (۵ ماِ)،  لونگ (۳ تولہ)۔

 

اس کو پکا کر نیاز شہنشاہِ بغداد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کرکے مسلمانوں کو تقسیم کردیا جائے دوسرا حلوہ اس طرح کہ : میدہ گندم (۵ ماِ) ،  روغن زرد (۵ ماِ ) شکر (۵ ماِ) میوہ (۵ مِار)

 

حلوہ پکا کر کیوڑا،  گلاب،  ورق نقرہ لگا کر فاتحہ دے کر تقسیم کردیا جائے۔ پانچ سیر سے کم ہونا اچھا نہیں زیادہ کا اختیار ہے۔ چونکہ زید اور اس کی اہلیہ متبع حضور کے ہیں اس وجہ سے حضور کو تکلیف دی جاتی ہے کہ یہ باتیں صحیح ہیں یا غلط آپ کچھ صدقات تحریر فرمادیجئے تاکہ ان کی تعمیل زید کرسکے کیونکہ ان صدقات میں مبلغ ایک سو روپے صرف ہوں گے اور زید کی تنخواہ صرف عہ روپے ہے یا ان صدقات میں کمی فرمادیں۔

 

الجواب

یہ محض باطل اور زنانے ادہام اور ہندوانہ خیالات شیطانیہ ہیں ان کی پیروی حرام ہے۔ تصدیق اور توشہ سرکار ابدقرار رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت اچھی چیز ہے مگر اس نیت سے کہ اس کی نحوست دفع ہو جائز نہیں کہ اس میں اس کی نحوست مان لینا ہوا اور یہ شیطان کاڈالا ہوا وہم تسلیم کرلینا ہوا والعیاذ باَ تعالٰی،  اس قسم کے خطرے وسوسے جب کبھی پیدا ہوں اُن کے واسطے قرآن کریم و حدیث شریف سے چند مختصر و بیشمار نافع دعائیں لکھتا ہوں انہیں ایک ایک بار خواہ زائد آپ اور آپ کے گھر میں پڑھ لیں۔ اگر دل پختہ ہوجائے اور وہ وہم جاتا رہے بہتر ورنہ جب وہ وسوسہ پیدا ہو ایک ایک دفعہ پڑھ لیجئے اور یقین کیجئے کہ اﷲ و رسول کے وعدے سچے ہیں اور شیطان ملعون کا ڈرانا جھوٹا۔ چند بار میں بعونہ تعالٰی وہ وہم بالکل زائل ہوجائے گا اور اصلاً کبھی کسی طرح اس سے کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ وہ دعائیں یہ ہیں :

 

لن یصیبنا ماکتب اﷲ لنا ھو مولٰینا وعلی اﷲ فلیتوکل المؤمنون  ۱ ؎۔   ہمیں نہ پہنچے گی مگر جو ہمارے لیے اﷲ نے لکھ دی وہ ہمارا مولٰی،  اور اﷲ ہی پر بھروسا کرنالازم۔

 

 ( ۱ ؎القرآن الکریم ۹ /۵۱)

 

حسبنا اﷲ ونعم الوکیل  ۲ ؎۔ ا ﷲ ہمیں کافی ہے اور کیا اچھا بنانے والا۔

 

( ۲ ؎القرآن الکریم۳ /۱۷۳)

 

اللھم لایاتی بالحسنات الا انت ولا یذھب السیئات الا انت ولاحول ولاقوۃ الاّ بک  ۱ ؎۔ الہٰی ! اچھی باتیں کوئی نہیں لاتا تیرے سوا اور بُری باتیں کوئی دور نہیں کرتا تیرے سوا اور کوئی زور طاقت نہیں مگر تیری طرف سے۔

 

 ( ۱ ؎۔ کنزالعمال حدیث ۲۸۵۸۴  موسسۃ الرسالہ بیروت۱۰ /۱۱۶)

 

اللھم لا طیرا لاطیرک ولا خیر الا خیرک ولا الٰہ غیرک  ۲ ؎۔ الہٰی تیری فال فال ہے اور تیری ہی خیر،  خیر اور تیری سوا کوئی معبود نہیں۔

 

( ۲ ؎۔ کنزالعمال حدیث ۲۸۵۸۰موسسۃ الرسالہ بیروت۱۰ /۱۱۵)

 

یہ توشہ کہ انہوں نے بتایا نہایت مفید چیز ہے اور حاجتیں بر لانے کے لیے مجرب،  ہمارے خاندان کے مشائخ میں اس کی ترکیب یوں ہے۔

میدہ گندم (۵ ماِ) ،  شکر (۵ ماِ) ،  گھی (۵ ماِ) مغز بادام (۱ ماِ) ، پستہ (۱ ماِ) ،  کشمکش (۱ ۔ماِ) ناریل (۱ مِا) ۔لوگ ،  دار چینی ،  چھوٹی الائچی ہر ایک سوا چھٹانک۔

 

حضور کی نیاز دے کر صالحین کو کھلائے اور اپنے مطلب کی دُعا کرائے۔ اصل وزن یہ ہیں،  بقدرِ قدرت ان میں کمی بیشی کا اختیار ہے۔ نصف،  چوتھائی ،  آٹھواں حصہ یا جتنا مقدور ہو کرے وہی اثر دے گا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

مسئلہ ۲۱۳:  از مدرسہ نعمانیہ اسلامیہ محلہ فراشخانہ دہلی ،  مسئولہ محمد ابراہیم احمد آبادی ۸ شعبان ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس مسئلہ میں کہ عبادت جس کے غیر خدا عزوجل کو کرنے سے آدمی مشرک ہوجاتا ہے اس کی کیا تعریف ہے جو جامع اور مانع ہو اور اپنی جنس وفصل یا عرض عام اور خاصہ پر مشتمل ہو۔

 

الجواب :

امام لامشی پھر ابوالسعود ازہری پھر سید احمد طحطاوی پھر سید محمد شامی فرماتے ہیں : العبادۃ عبارۃ عن الخضوع و التذلل وحدھا فعل لایراد بہ الا تعظیم اﷲ تعالٰی بامرہ  ۱ ؎۔ عبادت انتہائی عاجزی اور انکساری کا نام ہے،  اس کی تعریف یہ ہے وہ ایک ایسا فعل ہے جس سے اﷲ تعالٰی کے حکم سے اس کی تعظیم کے بغیر کچھ بھی مراد نہیں ہوتا۔(ت)

 

 ( ۱ ؎حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار مقدمۃ الکتاب المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۱ /۴۴)

 

امام شیخ الاسلام زکریا انصاری پھر علامہ سید احمد حموی عمزالعیون نیز علامہ شامی ردالمحتار میں فرماتے ہیں: العبادۃ مایثاب علٰی فعلہ ویتوقف علٰی نیتہ ۲ ؎۔ عبادت وہ ہے کہ جس کے کرنے پر ثواب دیا جاتا ہے اور وہ ثواب کی نیت پر موقوف ہوتی ہے۔(ت)

 

 ( ۲ ؎۔ غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر الفن الاول القاعدۃ الاولٰی ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۳۴)

 

نیز شرح الاشباہ والنظائر میں ہے  : العبادۃ ما یُعبَّد بہ بشرط النیۃ و معرفۃ المعبود  ۳ ؎۔ عبادت وہ فعل ہے جس کے ذریعے بندگی کا اظہار کیا جاتا ہے بشرطیکہ ثواب کی نیت ہو اور معبود کی معرفت حاصل ہو۔(ت)

 

 ( ۳ ؎۔ غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر الفن الاول القاعدۃ الاولٰی ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۳۴)

 

تعریفات علامہ سیّد شریف میں ہے : العبادۃ ھو فعل الملکف علٰی خلاف ھوی نفسہ تعظیما لربہ ۴ ؎۔ عبادت مکلف کا وہ فعل ہے جو وہ اپنے رب کی تعظیم کے لیے اپنے نفس کی خواہش کے خلاف کرے۔(ت)

 

 ( ۴ ؎۔ کتاب التعریفات باب العین  مطبعۃ الخیریۃ المنشأۃ بجمالیۃ مصرص ۶۳)

 

مفردات امام راغب میں ہے : العبودیۃ اظھار التذلل والعبادۃ ابلغ منہا لانہا غایۃ التذلل ولا یستحقہا الا من لہ غایۃ الافضال وھواﷲ تعالٰی ولہذا قال لا تعبدوا الا یاہ  ۵ ؎۔ عبودیت،  عجز و رسوائی کو ظاہر کرنا ہے،  اور عبادت اس سے زیادہ بلیغ ہے،  کیونکہ وہ انتہائی عاجز ی اور رسوائی کا نام ہے،  چنانچہ عبادت کا مستحق اس کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا جو انتہائی فضل والا ہو اور وہ ا ﷲ تعالٰی ہے۔ اسی لیے اس نے فرمایا ہے کہ مت عبادت کرو مگر صرف اسی کی۔(ت)

 

 ( ۵ ؎۔ المفردات فی غرائب القرآن العینکارخانہ تجارت کتب کراچی ص  ۳۲۱)

 

تاج العروس میں نقل کیا : العبادۃ فعل مایرضی بہ الرب  ۱ ؎۔ عبادت وہ فعل ہے جس کے کرنے پر رب راضی ہوتا ہے۔ (ت)

 

 ( ۱ ؎تاج العروس شرح القاموس فصل العین داراحیاء التراث العربی بیروت  ۲ /۴۱۰)

 

یہ تعریفیں بجائے خود قابلِ تعریف ہیں وانا اقول : وباﷲ التوفیق  (اور میں کہتا ہوں اﷲ تعالٰی کی توفیق سے۔ت) عبادت کسی کو اقصی غایات تعظیم کا مستحق جان کر اس کی تعظیم بجالانا ہے اور اسی سے باعتقادمذکور اس کے لیے تذلّل نیز اس کے امر کا امتثال اس حیثیت سے کہ اس کا امر ہے،  اس تعریف کی تسجیل اور اور اُن تحریفات کے مالہا وما علیہا کی تفصیل موجبِ تطویل یہاں بعض نکت کے طرف ایما کریں۔

 

فاقول وبہ استعین  (تو میں کہتا ہوں اور اسی سے مدد چاہتا ہوں۔ت)

 

 (۱) عبادت حقّہ کو مستحقِ عبادت عزّجلالہ،  کے لیے ہواس میں اُس فعل کا واقعی تعظیم ہونا ضرور،  مجرد،  زعم فاعل کافی نہیں،  اور عبادتِ باطلہ میں اس کا زعم بس،  مکاء وتصدیہ مشرکین عبادتِ الہٰی نہ تھا اور بُتوں کے سامنے اُن کا سنکھ اور گھنٹی بجانا عبادت،  اگرچہ یہ بیہودہ افعال حقیقۃً تعظیم نہ ہوں،  یونہی امتثال امر میں عبادت حقہ جب ہی ہے کہ واقعی وہ اس کا امر ہو،  کفار کا  واﷲ امرنابھا  ۲ ؎۔  (اﷲ نے ہمیں اس کا حکم دینا۔ت) کہنا اگر واقعی اُن کے زعم میں بھی ہو مراد وہی اور عبادتِ باطلہ میں صرف زعم کافی۔

 

 ( ۲ ؎ القرآن الکریم ۷ /۲۸)

 

(۲) عبادت کے لیے نیت شرط ہے اور معرفتِ معبود لازم ،  جیسا کہ اس کی تعریف سے ظاہر ہے،  اور کوئی کافر اصلاً رب عزوجل کو نہیں جانتا جس کی تحقیق ہمارے رسالہ باب العقائد والکلام میں ہے۔

 اور امام رستغفنی نے تصریح فرمائی کہ : الکفرھو الجہل باﷲ تعالٰی۳ ؎۔ کفریہ ہے کہ اﷲ تعالٰی کو نہ جانے (ت)

 

 ( ۳؎ )

 

ولہذا کافر نہ اہلِ نیت ہے نہ اہل عبادتِ حقہ " ،  کما نصوا علیہ قاطبۃ جیسا کہ اس پر سب نے نص فرمائی۔(ت) اور مشرک عبادت باطلہ کرتا ہے کہ اپنے معبود باطل کا تصور کرکے اس کی تعظیم کا قصد رکھتا ہے۔

 

(۳) عبادتِ باطلہ میں التزامِ عبادت و قول بہ الوہیت غیر ہی اُسے اقضٰی غایات تعظیم کا مستحق جاننے پر دلیل واضح ہے اگرچہ مرتکب عناداً منکر ہو کر مانعبدھم الا لیقربونا الی اﷲ! زلفٰی ۱ ؎۔  (ہم تو انہیں صرف اتنی بات کے لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اﷲ کے پاس نزدیک کردیں۔ت) کہے،

 

 ( ۱ ؎القرآن الکریم ۳۹ /۳ )

 

رب عزوجل اُن کی تکذیب فرماتا ہے کہ ثم الذین کفروابربھم یعدلون  ۲ ؎۔  (پھر کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہراتے تھے۔ت)

 

 ( ۲ ؎القرآن الکریم ۶ /۱)

 

خود مشرکین روزِ قیامت اعتراف کریں گے۔ اذنسویکم برب العٰلمین  ۳ ؎۔ جب کہ ہم تمہیں رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے۔ت)

 

 ( ۳ ؎القرآن الکریم ۲۶ /۸)

 

 (۴) بعض افعال کی وضع ہی عبادت کے لیے ہے تو ان سے تعظیمِ غیر کا قصد اور اس قصد باطل سے انہیں کرنا ہی مطلقاً حکم شرک لائے گا جیسے صلوۃ وصوم ورنہ قصد عبادت پر موقوف رہے گا،  جیسے سجدہ کہ فی نفسہ عبادت نہیں ولہذا سجدات اربعہ صلوۃ وسہو وتلاوت  وشکر کے سوا سجدہ بے سبب حنفیہ کے نزدیک صرف مباح ہے کما فی الدرالمختار  ( جیسا کہ در مختار میں ہے۔ت) اور شافعیہ کے نزدیک حرام کما فی الجوھر المنظم للامام ابن حجر المکی جیسا کہ جوہر المنظم للام ابن حجر مکی میں ہے۔ت) ولہذا غیر خدا کے لیے سجدہ عبادت کفر ہوا اور سجدئہ تحیت حرام و کبیرہ ہے کفر نہیں کمافی الہندیۃ والدروغیرھما من الاسفار الغر وقد حققناہ فی رسالتنا مستقلۃ فی الرد علی بعض المضلۃ ۔ جیسا کہ ہندیہ اور دروغیرہ روشن کتابوںمیں ہے اس کی تحقیق ہم نے بعض گمراہوں کے رَد میں اپنے ایک مستقل رسالہ میں کردی ہے۔ت)

 

 (۵) عبادت کہ لغۃً خضوع ہے عبادت شرعیہ کو لازم ہے وہ تذلل سے خالی نہیں اگرچہ بظاہر صورۃً تذلل نہ ہو جیسے زکوۃ وجہاد کہ اسے حاکم و آمرو قاہر اور اپنے آپ کو محکوم و مامور و مقہور جان کے امتثال امرعین تذلل ہے مگر اقصٰی غایات تذلل ہونا ضرور نہیں کہ نماز زکوۃ سے زائد تذلل ہے بلکہ نماز کا سجدہ اس کے رکوع،  رکوع قیام،  قیام قعود سے اگرچہ اجزائے نماز سب عبادت ہیں۔ ہاں اسے اقصٰی غایات تعظیم کا مستحق جاننا ضرورہے۔

 

 (۶) فقہاءکبھی نفسِ فعل پر نظر کرتے ہیں اگر وہ وضعاً عبادت نہیں اسے عبادت نہیں کہتے جیسے عتق ووقف اور کبھی نیت مخصوصہ کے ساتھ دیکھتے اور عبادت کہتے ہیں،  جیسے قضا،  عنایہ میں اسے منجملہ اشرف عبادات بتایا ہی حتی کہ درمختار وغیرہ میں نکاح کو بھی عبادت فرمایا۔ علامہ حموی نے اس سے مراد جماع حلیلہ ٹھہرایا۔

 

اشباہ میں ہے : اماالعتق فعندنالیس بعبادۃ وضعا بدلیل صحتہ من الکافر و لاعبادۃ لہ فان نوی وجہ اﷲ تعالٰی کان عبادۃ مثابا علیہ وان اعتق بلانیۃ صح ولاثواب لہ ان کان صریحا،  واما الکنایات فلابد لھا من النیۃ فان اعتق للصنم اوللشیطان صح و اثم وان اعتق لاجل مخلوق صح و کان مباحا لاثواب ولا اثم وینبغی ان یخصص الاعتاق للصنم بما اذا کان المعتق کافرا،  اما المسلم اذا اعتق لہ قاصد ا تعظیمہ کفر کما ینبغی ان یکون الاعتاق لمخلوق مکروھا والتدبیر والکتابۃ کا لعتق ،  واما الجہاد فمن اعظم العبادات فلابہ لہ من خلوص النیۃ ،  واما الوصیۃ  فکان لعتق ان قصد التقرب فلہ الثواب والافھی صحیحۃ فقط واما الوقف فلیس بعبادۃ وضعا بدلیل صحتہ من الکافر فان نوی القربۃ فلہ الثواب والا فلا،  واما النکاح فقالوا انہ اقرب الی العبادات حتی الاشتغال بہ افصل من التخلی لمحض العبادۃ وھو عندالاعتدال سنۃ مؤکدۃ علی الصحیح فیحتاج الی النیۃ لتحصیل الثواب وھو ان یقصداعفاف نفسہ وتحصینہا وحصول ولد قدفسرنا الاعتدال فی الشرع الکبیر شرح الکنز ولما لم تکن النیۃ فیہ شرط صحتہ قالوا یصح النکاح مع الھزل وعلٰی ھذا سائر القرب لا بدفیھا من النیۃ بمعنی توقف حصول الثواب علٰی قصد التقرب بہا الٰی اﷲ تعالٰی من نشرالعلم تعلیما وافتاء وتصنیفا واما القضاء فقالواانہ من العبادات فالثواب علیہ متوقف علیھا وکذلک اقامۃ الحدود والتعازیر وکل مایتعاطاہ الحکام والولاۃ وکذا تحمل الشہادۃ واداؤھا ۱ ؎۔

 

لیکن عتق تو وہ ہمارے نزدیک وضع کے اعتبار سے عبادت نہیں اس دلیل کے ساتھ کہ عتق کافر سے بھی صحیح ہوجاتا ہے جب کہ کافر کا کوئی فعل عبادت نہیں ہوتا۔ اگر آزاد کرنے والا اﷲ کی رضا کی نیت کرے تو یہ عتق عبادت بن جائے گا جس پر ثواب دیا جائے گا اور اگر اس نے نیت کے بغیر آزاد کیا تو صحیح ہے اور اس کے لیے کوئی ثواب نہیں ہوگا اگر یہ صریح ہے،  ر ہے کنایات تو ان میں نیت ضروری ہے اگر کسی نے بت یا شیطان کے لیے غلام کوآزاد کیا تو صحیح ہے اور وہ گنہگار ہوگا۔ اور اگر مخلوق کے لیے آزاد کیا تو صحیح اور مباح ہے اس پر نہ تو اُسے ثواب ہوگا۔ نہ ہی گناہ،  اور بُت کے لیے آزاد کرنے میں یہ تخصیص ہونی چاہیے کہ جب آزاد کرنے والا کافر ہو۔ رہا مسلمان اگر وہ بُت کے لیے آزاد کرے درانحالیکہ وہ بُت کی تعظیم کا ارادہ کرنے والا ہو تو وہ کافر ہوجائے گا۔ جیسا کہ مخلوق کے لیے آزاد کرنا مکروہ ہونا چاہیے۔ مدبر بنانا اور مکاتب بنانا عتق کی طرح ہے لیکن جہاد تو وہ سب سے بڑی عبادتوں میں سے ہے۔ چنانچہ اس کے لیے خلوص نیت ضروری ہے،  لیکن وصیت تو وہ عتق کی مثل ہے۔ اگر تقرب کا ارادہ کرے گا تو اسے ثواب ملے گا ورنہ فقط وہ صحیح ہوجائے گی۔ رہا وقف، تو وضع کے اعتبار سے عادت نہیں ہے،  اس پر دلیل یہ ہے کہ وہ کافر کی طرف سے بھی صحیح ہوجاتا ہے،  چنانچہ اگر تقرب کی نیت کرے گا تو اسے ثواب ملے گا ورنہ نہیں۔ لیکن نکاح اس کے بارے میں تو مشائخ نے کہا کہ وہ عبادات کے قریب ترین ہے یہاں تک کہ اس میں مشغول ہونا محض عبادت کے لیے خلوت سے افضل ہے۔ اور صحیح قول کے مطابق اعتدال کے وقت نکاح سنتِ مؤکدہ ہے۔ چنانچہ ثواب حاصل کرنے کے لیے اس میں نیت کی حاجت ہے اور وہ یہ کہ نفس کی پاکدامنی اور اولاد حاصل کرنے کا قصد کرے ۔ اور اعتدال کی تفسیر ہم نے کنز کی شرح " شرح الکبیرمیں کردی ہے۔ اور جب نکاح کے صحیح ہو نے کےلیے نیت شرط نہیں ہے تو فقہاء نے کہا ہے کہ نکاح ہزل کے ساتھ بھی صحیح ہوجائے گا۔ اسی پر باقی عبادات کو قیاس کیا جائے گا کہ ان میں نیت ضروری ہے بایں معنی کہ ثواب کا حصول اس بات پر موقوف ہے کہ ان میں اﷲ تعالٰی کے تقرب کا ارادہ کرے جیسے علم کو پھیلانا چاہیے کسی کو علم سکھا کر یافتوٰی دے کر یا کوئی کتاب لکھ کر۔ رہا قاضی بننا تو مشائخ نے فرمایا کہ وہ عبادات میں سے ہے چنانچہ اس میں ثواب عبادت کی نیت پر موقوف ہوگا۔ اسی طرح حدود و تعزیرات کا قائم کرنا اور ہر وہ کام جس کو حاکم اور ولی سر انجام دیتے ہیں اور یونہی گواہی کو اپنے ذمے لینا اور اُسے ادا کرنا۔(ت)

 

 (۱؂الاشباہ والنظائر        الفن الاول       القاعدۃ الاولٰی    ادارۃ القرآن کراچی      ۱ /۳۳۔۳۴)

 

شرح التنویر للعلائی بلکہ خود اشباہ والنظائر فن ثانی میں : لیس لنا عبادۃ شرعت من عہد اٰدم الی الاٰن ثم تستمر فی الجنۃ الا الایمان والنکاح  ۲ ؎۔ ہمارے لیے کوئی عبادت ایسی نہیں جو آدم علیہ السلام کے زمانے سے اب تک مشروع رہی ہو پھر وہ جنت میں بھی جاری رہے گی سوائے ایمان اور نکاح کے۔(ت)

 

 (۲؂الاشباہ والنظائر          الفن الثانی         کتاب النکاح       ادارۃ القرآن کراچی        ۱ /۲۴۶)

 

حموی میں ہے : الظاھر ان المراد بالنکاح ھنا الوطئ لا العقدوان کان حقیقۃ فی العقدعندنا  ۳ ؎۔ ظاہر یہ ہے کہ نکاح سے مراد یہاں پر وطی ہے نہ کہ عقد،  اگرچہ ہمارے نزدیک نکاح عقد میں حقیقت ہے۔ت)

 

 (۳؂غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر          الفن الثانی         کتاب النکاح       ادارۃ القرآن کراچی        ۱ /۲۴۶)

 

بلکہ اس کے فنِ اوّل میں ہے : المراد بالنکاح ھنا الوطی المترتب علی العقدالصحیح بقرینۃ قولہ حتی ا ن الاشتغال بہ افضل من التخلی لمحض للعبادۃ اھ اقول لادلالۃ فربما یکون الاشتغال بتدبیرالعقد اطول مکثامن الوطی بل القرینۃ قولہ یستمر فی الجنۃ فلم یثبت وقوع العقد فیہا کما نقلہ الحموی فی النکاح عن العلامۃ محمد بن ابی شریف اقول وای حاجۃ الیہ بعد قولہ تعالٰی و زوجنٰھم بحورعینo۱؎کما لم تحتج الیہ ام المؤمنین زینب رضی اﷲ تعالٰی عنہا بعد قولہ عزوجل زوجنکہا  ۲ ؎۔ یہاں نکاح سے مراد وہ وطی ہے جو عقدِ صحیح پر مرتب ہوتی ہے اس پر قرینہ مصنف کا یہ قول ہےجہاں تک کہ نکاح میں مشغول ہونا محض عبادت کے خلوت سے افضل ہے ،  الخ میں کہتا ہوں یہ کوئی دلالت وقرینہ نہیں بسا اوقات عقد کی تدبیر میں مشغول ہونا وطنی میں مشغول ہونے سے زیادہ طویل ہوتا ہے،  بلکہ قرینہ اس پر مصنف کا یہ قول ہے کہ پھر وہ جنت میں جاری رہے گی چنانچہ جنت میں وقوع ِ عقد ثابت نہیں جیسا کہ اس کو علامہ حموی نے باب النکاح میں بحوالہ علامہ محمد بن ابوشریف نقل فرمایا ہے۔ میں کہتا ہوں ا ور اس کی کیا ضرورت ہے اﷲ تعالٰی کے اس ارشاد کے بعد اور ہم نے انہیں بیاہ دیا بڑی آنکھوں والی حوروں کے ساتھ جیسا کہ نہیں محتاج ہوئیں اس کی طرف ام المومنین سیدّہ زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا اﷲ تعالٰی کے اس ارشاد کے بعد ہم نے وہ تمہیں نکاح میں دے دی۔ت)

 

 (۴؂غمزعیون البصائر مع الاشباہ والنظائر      الفن الاول     القاعدۃ الاولٰی     ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۳۳۔۳۴)

 ( ۱ ؎القرآن الکریم ۵۲ / ۲۰)  ( ۲ ؎القرآن الکریم ۳۳ /۳۷)

 

اقول : تحقیق یہ ہے کہ یہ اختلافِ حیثیت ہے ورنہ وضعاً ان میں سے کچھ عبادات نہیں ولہذا قضا بھی کافر سے صحیح ہے جب کہ امام نے اُسے ذمیوں کا قاضی بنایا ہو اور عتق بھی عبادت ہے جب کہ نیت مذکورہ کے ساتھ ہو اور ثواب نیت پر مطلقاً موقوف اگرچہ فعل عبادت نہ ہو اور یہیں سے ظاہر کہ اخیر میں جو افعال ذکر کیے یعنی اقامت حدود وتعزیرات وافعال حکام و ولاۃ وادا و تحمل و شہادت سب کی تشبیہ قضا کے ساتھ بشرط عبادت ہوجانے میں بھی ممکن نہ صرف توقف ثواب علی النیتہ میں کہ مطلقاً ہر فعل کو حاصل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔( جواب نامکمل دستیاب ہوا)

 

مسئلہ ۲۱۴: از بمبئی کلابا کافی شاپ سید وزیر علی صاحب مسئولہ محمد ابراہیم صاحب ۵جمادی الاخر ۱۳۳۹ھ

بحضور فیض گنجور پیر روشن ضمیر جناب مولانا مولوی احمد رضا خاں صاحب بریلوی،  بعد آدابِ خادمانہ کے عرض پرداز ہوں کہ یہاں پر عیسائیوں کا ( عیسائی) بہت زور شور ہے اور ہر وقت یہ لوگ پریشان کرتے ہیں،  فی الحال ان کے دو سوال جن کے حل کرنے کے واسطے عرض کی جاتی ہی ہم لوگ حضور کے خادم اور نام لینے والے حضور کو ہی ہماری لاج ہے (۱) کلمہ شریف  (لا الہٰ الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ ) یہ قرآن میں کس جگہ لکھا ہے اگر نہیں تو وہ اس کی تشریح مانگتے ہیں۔

 

(۲) حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کہتے ہیں کہ وہ شافع محشر کس طرح سے ؟ اس کا ثبوت دو کہ قرآن شریف میں کہاں لکھا ہے؟ حضور اس کو نہایت ضروری تصور فرما کر جلدی جواب سے سرفراز فرمائیں۔

 

الجواب :

(۱) قرآن مجید سورہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں لا الٰہ الّا اﷲ۱ ؎۔ ہے اور اس کے متصل سورہ فتح میں محمد رسول اﷲ  ۲ ؎۔

 

 ( ۱ ؎القرآن الکریم ۴۷ /۱۹)  ( ۲ ؎ القرآن الکریم  ۴۸ /۲۹)

 

 (۲) سورہ بنی اسرائیل میں ہے : عٰسی ان یبعثک ربک مقاما محمود ا  ۳ ؎۔ قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کردے جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔(ت)

 

 ( ۳ ؎القرآن الکریم  ۱۷/ ۷۹)

 

مقامِ محمود مقامِ شفاعت کا نام ہے ۔  سورہ نساء پارہ ۵ رکوع ۶ میں ہے : وانھم اذ ظلموا انفسھم جاءوک فاستغفر وااﷲ واستغفر لھم الرسول لوجدوا اﷲ توّاباً رحیماً  ۴ ؎۔ اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تو اے محبوب ! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اﷲ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اﷲ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(ت)

 

 (۴ ؎القرآن الکریم  ۴ /۶۹)

 

رسول کا گناہگاروں کےلیے استغفار کرنا شفاعت ہی ہے۔ بےعلم آدمی کوکافروں سےبدمذہبوں سےالجھنا بحث کر نا  سخت حرام ہے انہیں رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ حکم ہے ایاکم وایاھم لایضلونکم ولایفتنونکم  ۵ ؎ ۔ اُن سے دُور رہوانہیں اپنے سے دور کرو وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔

 

والعیاذ باﷲ تعالٰی اعلم  ( اور اﷲ تعالٰی ا علم ( اور اﷲ تعالٰی کی پناہ،  اور اﷲ تعالٰی خوب جانتا ہے۔ت)

 

 ( ۵ ؎صحیح مسلم  باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء الخ ،  قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی ۱ /۱۰)

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post