Eid ki Namaz ke baad gale milne ka suboot | Risala Wishahul Jeed by AalaHazrat

 

وِشاحُ الجید فی تحلیل معانقۃ العید ( ۱۳۱۲ ھ)

( نمازِ عید کے بعد معانقہ کے جائز ہونے کا ثبوت)

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد ﷲ الذی عید رحمتہ وسع کل قریب وبعید، وجعل اعیاد المؤمنین مُعَانَقَۃ بصفر الوعد وعفو الوعید، وافضل الصلوٰۃ واکمل السلام علی من تعانق عید جمالہ بِعید نوالہ، فوجھہ عید، ویدہ عید، یسعد بھما کُلُّ سعید، وعلٰی حزبَیِ الاٰل والا صحاب الذین ھما العید ان لایّام الایمان، وعلی کل من عانق جیدہ وِشاح الشہادتین بجمّان الایقان ماتعانق الملوان ، وتوارد العیدان، ھَنّأھم اﷲ باَعیاد الاسلام، وعیدالرویۃ فی دارالسلام، ولدَ یہ مزید، وانّہ یبدی ٕ  ویعید، تمام تعریف اللہ کے لئے جس کی عید رحمت ہر دور نزدیک کو محیط ہے، اور جس نے اہل ایمان کی عیدوں کو صفائیِ وعدہ اور معافی وعید سے بغلگیر کیا، اور بہتر درود اور کامل ترین سلام ہو ان پر جن کی عید جمال ( ان کی) عیدِ جود ونوال سے ہم آغوش ہے، جن کا چہرہ زیبا بھی عید اور دست عطابھی عید، ہر خوش نصیب ان دونوں سے فیروز مند ہے، ان کی آل واصحاب دونوں جماعتوں  پر جو ایام ایمان کی دو عیدیں ہیں اور ہر اس شخص پر جس کی گردن گوہر یقین سے آراستہ قلادہ شہادتین سے ہمکنار ہے، ( یہ درود سلام ہوں) جب تک روزو شب باہم بغلگیر اور دونوں عیدیں یکے بعد دیگرے ورود پذیر رہیں، اﷲ انھیں عید ہائے اسلام اور  جنت میں عید دیدار کی مبارکباد سے نوازے ۔ (ت)

 

اَمَّا بَعْدُ چند سال ہوئے کہ روز عید الفطر بعض تلامذہ مولوی گنگوہی نے بعض اہلسنت پر دربارہ معانقہ طعن وانکار کیا کہ:

''شرع میں معانقہ صرف قادمِ  ۱) سفر کے لئے وراد ہوا ، بے سفر بدعت ، ناروا، میں نے اپنے اساتذہ سے یوں ہی سنا''۔

ان سنیوں نے اس باب میں فقیر حقیر عبدالمصطفی احمد رضا محمدی سُنی حنفی قادری برکاتی بریلوی غفراﷲ لہ وحَقّقَ اَمَلہ سے سوال کیا فقیر نے ایک مختصر فتوٰی لکھ دیا کہ احادیث میں معانقہ سفر  و بے سفر دونوں کا اثبات اور تخصیصِ سفر تراشیدہ حضرات(ف۲) ۔ بحمد اﷲ اس تحریر کا یہ نفع ہوا کہ ان صاحب نے اپنے دعوٰی سے انکار کردیا کہ :

''نہ میں اس تخصیص کا مدعی تھا نہ اپنے اساتذہ سے نقل کیا''۔

خیر یہ بھی ایک طریقہ توبہ  و رجوع ہے اور الزام کذب بھی زائل و مدفوع ہے کہ جب اپنے معبود کا کذب ممکن جانیں، کیا عجب کہ  اپنے واسطے فرض و واجب مانیں (ف۳

۱) قادم سفر: سفر سے آنے والا۔( مترجم)

۲) یعنی میں نے اپنے فتوے میں لکھا کہ سفر سے آنے کی حالت اور اس کے علاوہ احوال میں بھی احادیث سے معانقہ کا جائز ہونا ثابت ہے۔ اور معانقہ کا جواز محض آمد سفر کی حالت سے خاص کرنا ان حضرات کی اپنی گھڑی ہوئی بات ہے، حدیث فقہ سے اس پر کوئی معتبر دلیل ہر گز نہیں ۔ (مترجم)

۳) جب انھوں نے اپنے دعوے سے انکار کردیا تو اتنا ظاہر ہوگیا کہ وہ اپنے پہلے قول پر نہ رہے اور جواز معانقہ بلا تخصیص تسلیم کرلیا__ البتہ ان  پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ انھوں نے دروغ گوئی سے کام لیا کہ پہلے ایک بات کہی پھر کہنے سے انکار کرڈالا ___ مگر دیوبندی حضرات جب اپنے معبود کے لئے جھوٹ بولنا ممکن مانتے ہیں، تو خود ان  پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے، بعید نہیں کہ و ہ  اسے اپنے لئے فرض و واجب مانتے ہوں، استاد محترم حافظ ملّت مولانا عبدالعزیز صاحب مراد آبادی علیہ رحمۃ بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور فرمایا کرتے تھے کہ علمائے دیوبند اور ان کے متبعین کا عقیدہ ہے کہ '' خدا جھوٹ بول سکتا ہے مگر بولتا نہیں'' اگر خو د ا ن کابھی یہی حال ہو کہ '' جھوٹ بول سکتے ہیں مگر بولتے نہیں'' تو ان کے عقیدے کی رو  سے شرک اور خدا کے ساتھ اس وصف میں برابری لازم آجائے گی، اس لئے ان کے اپنے عقیدہ و قاعدہ پر '' فرض اور ضروری ہے کہ وہ جھوٹ بولیں''۔ اگر '' جھوٹ بول سکتے ہیں مگر بولتے نہیں'' کی منزل میں رہ گئے تو مشرک ٹہریں گے۔ (مترجم)

اب اس عید الاضحی ۱۳۱۱ھ میں بعض علمائے شہر کے ایک شاگرد بعض اہلسنت سے پھر اُلجھے، انھوں نے پھر وہی فتوائے فقیر پیش کیا، خیالات کے  پکے تھے ہر گز نہ سلجھے، انھوں نے ان کے استاذکو فتوٰی دکھایا، تصدیق نہ فرمائیں تو جواب چاہا، مدت تک انکار  پھر بعد اصرار  وعدہ واقرار ، بالآخر مجموعہ فتاوٰی مولوی عبدالحی صاحب صفحہ ۵۳۹ جلد اول پر نشانی رکھ کر ارسا ل فرمایا، اور بعض عباراتِ ردالمحتار ومرقاۃ شرح مشکوٰۃ شریف سے حاشیہ چڑھایا، سائل مُصرِ ہوئے کہ'' جواب ضرور ہے آخر تحقیق حق نا منظور  ہے'' فقیر نے چند ورق لکھ کر  بھیج دیے اور رسالہ میں فتوٰی سابقہ کے ساتھ جمع کئے کہ ناظر دیکھیں، نفع پائیں، فقیر کو دعائے خیر سے یا د فرمائیں وباﷲ التوفیق وھِدَایۃ الطریق۔

اس رسالہ کا بلحاظ فتوٰی سابق وتحر یر لاحق دو (۲) عید پر انقسام۔ اور بنظر تاریخ کہ بستم ۲۰محرم ۱۳۱۲ ھ لکھا گیا ''وَشَاحُ الجِیْد فِی تَحْلیْل مُعَانَقَۃِ العِید'' نام (ف۱) والحمد ﷲ ولی الانعام ( اور تمام تعریف اﷲ تعالٰی کے لئے جو احسان کا مالک ہے ۔ت)

 

الجواب

کپڑوں کے اوپر سے معانقہ بطور برّوکرامت و اظہار محبت۔ بے فساد نیت وموادِّ شہوت، بالاجماع جائز جس کے  جواز  پر احادیث کثیرہ وروایات شہیرہ ناطق، اور تخصیص سفر کا دعوٰی محض بے دلیل ، احادیثِ نبویہ و تصریحاتِ فقہیہ اس بارے میں بروجہ اطلاق وارد، اور قاعدہ شرعیہ ہے کہ مطلق کو  اپنے اطلاق  پر رکھنا واجب اور بے مدرک شرعی تقیید وتخصیص مردود باطل ، ورنہ نصوصِ شرعیہ سے امان اُٹھ جائے ، کمالا یخفی ف۲ ( جیسا کہ مخفی نہیں ۔ ت)

ف۱:معانقہ کی تائے مدوّرہ حسب قاعدہ '' ہ '' مانی گئی ہے اس لئے اس کا عدد۴۰۰ نہیں بلکہ۵ ہوگا اور  پور ے نام کا عدد۱۷۰۷ نہیں بلکہ۱۳۱۲ ہوگا۔(مترجم)

ف۲: ان ہی سطور  میں اعلیحضرت نے پورے فتوے کا ماحصل اور تمام اعتراضات کا جواب ذکر کردیا ، ان جامع سطور کی قدرے تشریح درج ذیل ہے:    

جوازِ معانقہ کی مندرجہ ذیل شرطیں ہیں:

(۱) معانقہ کپڑوں کے اوپر سے ہو ۔

(۲) نیکی، اعزاز  اور اظہار محبت کے طور پر ہو۔

(۳) خرابی نیت اور شہوت کا کوئی دخل نہ ہو۔

مذکورہ بالاشرطوں کے ساتھ معانقہ سفر، غیر سفر ہر حال میں جائز ہے۔

دلیل: اس کا ماخذوہ روایات واحادیث ہیں جن میں قیدِ سفر کے بغیر معانقہ کا ثبوت ہے، جو لوگ صرف آمدِ سفر کے بعد معانقہ جائز بتاتے ہیں ان کا جواب یہ ہے :

تمام احادیث وروایات میں مطلق طور  پر جوازِ معانقہ کا ثبوت ہے، یہ کسی حدیث میں نہیں کہ بس سفر سے آنے کے بعد معانقہ جائزہے، باقی حالات میں ناجائز __ بلکہ بعض احادیث سے صراحۃً آمدِ سفر کے علاوہ حالات میں بھی معانقہ کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔

(۴) شریعت کا قاعدہ ہے کہ جو حکم، مطلق او رکسی قید کے بغیر ہو، اسے مطلق ہی رکھنا واجب وضروی ہے،

(۵) معانقہ کے بارے میں جب یہ حکم مطلق او رقید سفر کے بغیر ہے، تو اسے مطلق رکھتے ہوئے سفر ، غیر سفر ہر حال میں معانقہ جائز ہوگا۔

(۶) ہاں اگر کسی حکم میں خود شریعت کی جانب سے تخصیص اور تقیید کا ثبوت ہو تو اس حکم کو مخصوص او رمقید ضرور مانا جائے گا__ مگر معانقہ کے بارے میں سوا اُن شرائط کے جو ابتدا میں ذکر کی گئیں آمد وسفر وغیرہ کی کوئی قید نہیں۔

لہذا جواز معانقہ کے بارے میں بے دلیل شرعی آمدِ سفر کی قید لگانا محض باطل اور نا مقبول ہے۔ ( مترجم)

 

ا بن (ف۱) ابی الدنیا کتاب الاخوان اوردیلمی مسند الفردوس اور ابوجعفر عقیلی حضرت تمیم داری رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی واللفظ للعقیلی :

انہ قال سألت رسول اﷲ صلی تعالٰی علیہ وسلم عن المعانقۃ فقال تحیۃ الامم و صالح وُدِّھم وانّ اول من عانَقَ خلیل اﷲ ابراھیم ۱؎۔ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے معانقہ کو  پوچھا ، فرمایا: تحیّت ہے امتوں کی، اور ان کی اچھی دوستی، او بیشک پہلے معانقہ کرنے والے ابراہیم خلیل اﷲ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام۔

ف۱: یہاں سے دلیل کی تفصیل فرمائی، سب سے  پہلے ایک حدیث ذکر کی جس سے معانقہ کی تاریخ آغاز معلوم ہوتی ہے، پھر فقہ حنفی کے مستند مآخذ سے وہ نصوص تحریر فرمائے جن کا حاصل ابتداءً رقم فرماچکے۔ ( مترجم)

 

(۱؎ کتا ب الضعفاء الکبیر    ترجمہ نمبر۱۱۴۱ عمر بن حفص بن محبر    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت  ۳/۱۵۵)

 

خانیہ میں ہے: ان کانت المعانقۃ من فوقِ قمیصٍ او جُبّۃٍ جاز عند الکل اھ۲؎ ملخصا۔ اگر معانقہ کُرتے یا جُبّے کے اوپر سے ہو تو سب کے نزدیک جائز ہے اھ ملخصاً (ت)

 

(۲؎ فتاوٰی خانیہ         کتاب الحظروالاباحۃ        مطبوعہ نولکشور لکھنؤ       ۴/۷۸۳)

 

مجمع الانہر میں ہے: اذا کان علیھما قمیص اوجبۃ جاز بالاجماع ۳؎  اھ ملخصا۔ اگر معانقہ کرنے والے دونوں مردوں پر کُرتا یا جُبّہ ہو تو یہ معانقہ بالاجماع جائز ہے اھ ملخصا (ت)

 

 (۳؎ مجمع الانہر        کتاب الکراھیۃ        مطبوعہ  بیروت      ۲ /۵۴۱)

 

ہدایہ میں ہے: قالوا الخلاف فی المعانقۃ فی ازار واحدٍ واما اذا کان علیہ قمیص اوجُبۃ فلا باس بھا بالاجماع وھو الصحیح ۴؎ ۔ طرفین ( امام اعظم وا مام محمد) اور ابو یوسف میں اختلاف ایک تہمد کے اندر معانقہ کے بارے میں ہے لیکن جب معانقہ کرنے والا کُرتا یا جبہّ پہنے ہو تو بالاجماع اس میں کوئی حرج نہیں اور یہی صحیح ہے۔ (ت)

 

 (۴؎ ہدایہ           کتاب الکراہیۃ        مطبوعہ  مطبع یوسفی لکھنؤ        ۴/۴۶۶)

 

در مختار میں ہے : لوکان علیہ قمیص او جبۃ جاز بلاکراھۃ بالاجماع وصححہ فی الھدایہ وعلیہ المتون ۵؎ ۔

 

اگر اس کے جسم پر کرتا یا جبہ ہو تو بلا کراہت بالاجماع جائز ہے، ہدایہ میں اسی کو صحیح قراردیا ، متون فقہ میں یہی ہے ۔(ت)

 

 (۵؎ درمختار         کتاب الحظر والاباحۃ       مطبوعہ  مجتبائی دہلی        ۲/ ۲۴۴)

 

شرح نقایہ میں ہے: عِناقُہ اذاکان معہ قمیص  او جبۃ او غیرہ لم یُکرہ بالاجماع وھو الصحیح ۱؎ اھ ملخصا۔

 

اس کا معانقہ جب اسی طرح ہو کہ کُرتا یا جبّہ یا کچھ حائل ہو تو بالاجماع مکروہ نہیں، اور یہی صحیح ہے اھ ملخصاً (ت)

 

(۱؂ شرح نقایہ (ملا علی قاری) کتاب الکراھیۃ    مطبوعہ   ایچ ایم سعید کراچی     ۲/ ۲۲۹)

 

اسی طرح امام نسفی نے کافی  پھر علامہ اسمٰعیل نابلسی نے حاشیہ درر مولٰی خسرو وغیرہا میں جزم کیا، اور یہ وقایہ و نقایہ و اصلاح وغیرہا متون کا مفاد، اور شروح ہدایہ وحواشی درمختار وغیرہا میں مقرر ان سب میں کلام مُطلق ہے کہیں تخصیص سفر کی بُو نہیں۔

اَ شِعَّۃُ اللّمعات میں فرماتے ہیں : اما معانقہ اگر خوف فتنہ نباشد مشروع ست خصوصاً نزد قدوم از سفر ۲؎۔

 

معانقہ میں اگر فتنے کا خوف نہ ہو تو جائز و مشروع ہے خصوصاً جب سفر سے آرہا ہو۔ (ت)

 

(۲؎ اشعۃ اللمعات     باب المصافحۃ والمعانقہ    مطبوعہ  نوریہ رضویہ سکھر        ۴/۲۰)

 

یہ'' خصوصاً '' بطلانِ تخصیص پر نصِّ صریح __  رہیں احادیث نہی، ان میں زید کے لئے حجت نہیں کہ ان سے اگر ثابت ہے تو نہی مطلق۔ پھر اطلاق پر رکھے تو حالتِ سفر بھی گئی، حالانکہ اس میں زید بھی ہم سے موافق ۔ اور توفیق پر  چلئے تو علماء  كرام فرماتے ہیں وہاں معانقہ بروجہ شہوت مراد۔ اور او پر ظاہر کہ ایسی صورت میں تو بحالتِ سفربھی مصافحہ بھی ممنوع ، تابمعا نقہ چہ رسد ف۱ ۔

 

ف۱: یہ اُن احادیث سے استدلال کا جواب ہے جن میں معانقہ سے ممانعت آئی ہے۔ تو ضیح  جواب یہ ہے کہ احادیث میں ممانعت مذکور ہے۔ اب اگر ان سے مطلقاً ہر حال میں ممانعت مراد لیں تو سفر، غیر سفر ہر جگہ معانقہ ناجائز ہوگا جب کہ سفر سےآنے کے وقت مانعین بھی معانقہ جائز مانتے ہیں۔ اس لئے وہ اگر احادیث نہی ہمارے خلاف پیش کریں تو خود ان کے بھی خلاف ہوں گی ___ لامحالہ جوازِ معانقہ اور ممانعتِ جواز دونوں قسم کی حدیثوں میں تطبیق کرنا ہوگی، اور دونوں کے ایسے معنی لینے ہوں گے جن سے تمام احادیث پر عمل ہوسکے ___ اور تطبیق یوں ہے کہ جہاں معانقہ سے ممانعت ہے وہاں معانقہ بطور شہوت مراد ہے __ اور جہاں جواز معانقہ کا ثبوت ہے وہاں معانقہ بے شہوت وفساد نیت مراد ہے جیسا کہ ہم نے ابتداءً ذکر کیا __ او رظاہر ہے کہ معانقہ بطور شہوت تو سفر سے آنے کے بعد بھی ناجائز ہے بلکہ اس طرح تو معانقہ کیا مصافحہ بھی ناجائزہے۔ احادیث جواز منع کے درمیان تطبیق مختلف فقہاء کرام نے فرمائی ہے اعلٰیحضرت رحمہ اﷲ تعالٰی نے ان کا حوالہ کتاب میں پیش کردیا ہے ۔ (مترجم)

 

امام فخرالدین زیلعی تبیین الحقائق اور اکمل الدین بابرتی عنایہ اور شمس الدین قہستانی جامع الرموز اور آفندی شیخی زادہ شرح ملتقی الابحر اور شیخ محقق دہلوی شرح مشکوٰۃ او رامام حافظ الدین شرح وافی اور سیدی امین الدین آفندی حاشیہ شرح تنویر اور مولٰی عبدالغنی نابلسی شرح طریقہ محمدیہ میں، اور ان کے سوا اور علماء ارشاد فرماتے ہیں: وھذا لفظ الاکمل، قال وَفّق الشیخ ابو منصور ( یعنی الماتریدی امام اھل السنۃ وسید الحنفیۃ ) بین الاحادیث فقال المکروہ من المعانقہ ماکان علی وجہ الشھوۃ وعبر عنہ المصنف ( یعنی الامام برھان الدین الفرغانی) بقولہ ازارواحدٍ فانہ سبب یفضی الیھا فاما علٰی وجہ البِر والکرامۃ اذاکان علیہ قمیص او جبۃ فلا باس بہ ۱؎ ۔

 

 ( یہ اکمل الدین بابرتی کے الفاظ ہیں) انھوں نے فرمایا شیخ ابو منصور ( ماتریدی، اہل سنت کے امام اور حنفیہ کے سردار) نے( معانقہ کے جواز و منع دونوں طرح کی) حدیثوں میں تطبیق دی ہے، انہوں نے فر مایا مکروہ وہ معانقہ ہے جو بطور شہوت ہو ۔اور مصنف ( یعنی امام برہان الدین فرغانی صاحب ہدایہ) نے اسی کو ایک تمہید میں معانقہ کرنے سے تعبیرکیا ہے، اس لئے کہ یہ سبب شہوت ہو سکتا ہے، لیکن نیکی او راعزاز کے طور پر کُرتا یا جُبہ پہنے ہوئے معانقہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ العنایۃ مع فتح القدیر شرح ہدایہ    کتاب الکراھیۃ    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر   ۸ /۴۵۸)

 

اور کیونکر روا ہوگا کہ بے حالتِ سفرمعانقہ کو مطلقاً ممنوع ٹھہرائے حالانکہ احادیث کثیر میں سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے بارہا بے صورت مذکورہ بھی معانقہ فرمایاف۱ ۔

 

ف۱: یہاں سے استدلال نے ایک دوسرا رنگ اختیار کیا، اعلٰیحضرت رحمہ اﷲ تعالٰی نے سولہ احادیث ان کے حوالوں کے ساتھ پیش فرمائی ہیں جن میں اُسی معانقہ کا ذکر ہے جو نیکی، اعزاز اور اظہار کے طور پر ہے___ خرابی نیت اور مواد شہوت سے ہر طرح دور ہے ___ مگر بے حالت سفر ہے ___ لہذا احادیث سے صراحۃً یہ ثبوت فراہم ہوجاتا ہے کہ صرف قدومِ سفر کے بعد ہی نہیں بلکہ دیگر حالات میں بھی معانقہ بلاشبہ جائز درست ہے ۔ اور جب خود سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے ان تمام احوال میں معانقہ کا ثبوت حاصل ہوجاتاہے تو کوئی دوسرا اسے '' بدعت و ناروا'' کہنے کا کیا حق رکھتا ہے ! (مترجم)

 

حدیث اول  :  بخاری و مسلم ونسائی وابن ماجہ بطُرُقِ عدیدہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی وھذا لفظ مؤلَّف منھا دخل حدیث بعضھم فی بعض  ( آئندہ الفاظ ان متعدد روایات کا مجموعہ ہے، بعض کی احادیث بعض میں داخل ہیں۔ ت)

 

قال خرج النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فجلس بفناء بیت فاطمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا فقال اُدعی الحسن بن علی فحبستہ شیئافظننت انھا تلبسہ سخابا او تغسلہ فجاء یشتد وفی عنقہ السخاب فقال النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بیدہ ھکذا فقال الحسن بیدہ ھکذا حتی اعتنق کل منھما صاحبہ فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اللھم اِنیّ اُحبُّہ، فَاَحِبَّہ، وَاَحِبَّ مَنْ یُّحِبُّہ، ۱؎ ۔

 

یعنی ایک بارسید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حضرت بتول زہرا رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے مکان پر تشریف لے گئے اور سید نا امام حسن رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو بلایا، حضرتِ زہرا نے بھیجنے میں کچھ دیر کی، میں سمجھا انھیں ہار پہناتی ہوں گی یا نہلا ررہی ہوں گی، اتنے میں دوڑتے ہوئے حاضر آئے ، گلے میں ہار پڑا تھا، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے دست مبارک بڑھائے حضور کو دیکھ کر امام حسن نے بھی ہاتھ پھیلائے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کو لپٹ گئے، حضور نے '' گلے لگا کر'' دعا کی: الہٰی! میں اسے دوست رکھتا ہوں تو اسے دوست رکھ اور جو اسے دوست رکھے اسے دوست رکھ۔ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی حِبِّہٖ وبارک وسلم۔

 

 (۱؎ الصحیح للمسلم        باب فضل الحسن والحسین    مطبوعہ راولپنڈی    ۲/ ۲۸۲)

 

حدیث دوم : صحیح بخاری میں امام حسن رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی : کان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا خُذ بیدی فیُقعدنی علی فخِذِہٖ ویقعد الحسین علٰی فخِذِہ الاُخرٰی ویَضُمُّناَ ثم یقول رب انی ارحمھما فار حمھما ۲؎ ۔

 

نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر ایک ران پر مجھے بٹھا لیتے اور دوسری ران پر امام حسین کو، اورہمیں '' لپٹا لیتے'' پھر دعا فرماتے : الہٰی! میں ان پر رحم کرتا ہوں تو ان پر رحم فرما۔

 

 (۲؎ الصحیح البخاری    باب وضع الصبی فی الحجر      مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۲/ ۸۸۸)

 

حدیث سوم  : اسی میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے: ضَمَّنیِ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الٰی صدرہ ۔ فقال اللھم علمہ الحکمۃ ۱؎ ۔

 

سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے '' سینے سے لپٹایا'' پھر دُعا فرمائی: الہٰی! اسے حکمت سکھا دے۔

 

 (۱؎ الصیح البخاری        مناقب ابن عباس    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۵۳۱)

 

حدیث چہارم : امام احمد اپنی مُسْنَد میں یعلٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی: ان حسناً وحُسینا رضی اﷲ تعالٰی عنہما یستبقا الٰی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فضمّھما الیہ ۲؎ ۔

 

ایک بار دونوں صاحبزادے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آپس میں دوڑ کرتے ہوئے آئے حضور نے دونوں کو '' لپٹالیا''

 

 (۲؎ مسند احمد بن حنبل     مناقب ابن عباس    مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۴/ ۱۷۲)

 

حدیث پنجم : جامع ترمذی میں انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے حدیث ہے: سُئِلَ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ای اھل بیتک احبّ الیک قال الحسن والحسین وکان یقول لفاطمۃ ادعی لی ابنی فیشمھما ویضمھما ۳؎ ۔

 

سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے پوچھا گیا حضور کو اپنے اہل بیت میں زیادہ پیارا کون ہے؟ فرمایا: حسن اور حسین۔ اور حضور دونوں صاحبزادوں کو حضرت زہرا سےبلوا کر '' سینے سے لگالیتے '' اور ان کی خوشبوُ سُونگھتے، صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلیہم و بارک وسلم۔

 

 (۳؂ جامع ترمذی    مناقب الحسن والحسین      مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص ۴۰ ۔ ۵۳۹)

 

حدیث ششم : امام ابوداؤد اپنی سُنن میں حضرت اُسید بن حُضیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روای : بینما ھو یحدث القوم وکان فیہ مزاحٌ بینما یضحکھم فطعنہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی خاصرتہ بعود فقال اصبرنی قال اصطبر قال ان علیک قمیصاً ولیس علیّ قمیص فوضع النبی صلی اﷲ تعالٰی عیہ وسلم عن قمیصہ فا حتضنہ و جعل یقبّل کشعہ قال انما اردت ھذا یارسول اﷲ ۱؎ ۔

 

اس اثنا میں کہ وہ باتیں کررہے تھے اور ان کے مزاج میں مزاح تھا، لوگوں کو ہنسارہے تھے کہ سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لکڑی ان کے پہلو میں چبھوئی، انھوں نے عرض کی مجھے بدلہ دیجئے، فرمایا: لے۔ عرض کی: حضور تو کرتا پہنے ہیں اور میں ننگا تھا۔ حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کرتا اُٹھایا انھوں نے حضور کو اپنی '' کنار میں لیا'' اور تہیگاہِ اقدس کو چُومناشروع کیا پھر عرض کی : یا رسول اﷲ! میرا یہی مقصود تھا۔

 

(۱؎ سنن ابوداؤد         باب قُبلۃ الجسد ( کتاب الادب)    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲/ ۳۹۳)

 

ع دلِ عشّاق حیلہ گر باشد

 

 ( عاشقو ں کے دل بہانہ تلاش کرنے والے ہوتے ہیں)

 

صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی کل من احبہ وبارک وسلم۔

 

حدیث ہفتم: اسی میں حضرت ابوذر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے: مالقیتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قط الاصافحنی وبعث الی ذات یوم ولم اکن فی اھلی فلما جئت اخبرت بہ فاتیتہ وھو علی سریرفالتزمنی فکانت تلک اجود واجود ۲؎ ۔

 

میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو حضور ہمیشہ مصافحہ فرماتے۔ ایک دن میرے بلانے کو آدمی بھیجا میں گھرمیں نہ تھا، آیا تو خبر پائی، حاضر ہوا، حضور تخت پر جلوہ فرماتھے '' گلے سے لگالیا'' تو زیادہ جیّد اور نفیس ترتھا۔

 

 (۲؎ سنن ابوداؤد          باب فی المعانقۃ (کتاب الادب)       مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۲/۳۵۲)

 

حدیث ہشتم ابو یعلٰی اُم المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے راوی: قالت رأیت النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم التزمَ علیًّا وقبّلہ، وھو یقول بابی الوحید الشھید ۳؎ ۔

 

میں نے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا حضور نے مولٰی علی کو '' گلے لگایا'' اور پیار کیا ، اور فرماتے تھے میرا باپ نثار اس وحید شہید پر۔

 

 (۳؎ مسند ابو یعلٰی     مسند عائشہ            مطبوعہ موسس علوم القرآن بیروت    ۴/ ۳۱۸)

 

حدیثِ نہم  : طبرانی کبیر اور ابن شاہین کتاب السُّنُّۃ میں عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں: دخل رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واصحابہ غدیرا فقال لیسبح کل رجل الی صاحبہ فسبح کل رجل منھم الٰی صاحبہ حتی بقی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وابوبکر فسَبَّحَ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الٰی ابی بکر حتی اعتنقہ فقال لو کنت متخذا خلیلا لا اتخذت ابا بکر خلیلا ولکنّہ صاحبی ۱؎

 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور حضور کے صحابہ ایک تالاب میں تشریف لے گئے، حضور نے ارشاد فرمایا: ہر شخص اپنے یار کی طرف پَیرے۔ سب نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ صرف رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق باقی رہے، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم صدیق کی طرف پَپر کے تشریف لے گئے اور انھیں گلے لگا کر فرمایا: میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرکو  بناتا لیکن وہ میرا یار ہے۔ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی صاحبہٖ وبارک وسلم۔

 

 (۱؎ طبرانی کبیر    حدیث ۱۱۶۷۶ و ۱۱۹۳۸        مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۱/ ۲۶۱ و ۳۳۹)

 

حدیث دہم : خطیب بغدادی حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی: قال کنا عند النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقال یطلع علیکم رجل لم یخلق اﷲ بعدی احدا خیرا منہ ولا افضل ولہ شفاعۃ مثل شفاعۃ النبیین فما برحنا حتی طلع ابوبکر فقام النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقبّلہ والتزمہ ۲؎ ۔

 

ہم خدمت اقدس حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھے، ارشاد فرمایا: اس وقت تم پر وہ شخص چمکے گا کہ اﷲ تعالی نے میرے بعد اس سے بہتر وبزرگ تر کسی کو نہ بنایا اور اس کی شفاعت شفاعتِ انبیاء کے مانند ہوگی ، ہم حاضر ہی تھے کہ ابو بکر صدیق نظر آئے سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے قیام فرمایا اور صدیق کو پیار کیا اور '' گلے لگایا''

 

 (۲؎ تاریخ بغداد    ترجمہ ۱۱۴۱    محمد بن عباس ابوبکر القاص    مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت    ۳/ ۲۴ ۔ ۱۲۳)

 

حدیث یازدہم  : حافظ عمر بن محمد ملاّ اپنی سیرت میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲتعالٰی عنہما سے راوی : قال رأیت رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واقفاً مع علی بن ابی طالب اذااقبل ابوبکر فَصاَفحہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وعانَقہ، و قبّل فاہ فقال علی اتقبل فاابی بکر فقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا ابا الحسن منزلۃ ابی بکرٍ عندی کمنزلتی عند ربیّ ۱؎ ۔

 

میں نے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ، کے ساتھ کھڑے دیکھا اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ حاضر ہوئے، حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے مصافحہ فرمایا اور ''گلے لگایا'' او ران کے دہن پر بوسہ دیا ۔ مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ نے عرض کی: کیا حضورابو بکر کا مُنہ چومتے ہیں ؟ فرمایا: اے ابوالحسن ! ابوبکر کا مرتبہ میرے یہاں ایسا ہے جیسا میرا مرتبہ میرے رب کے حضور۔

 

 (۱؎ سیرت حافظ عمر بن محمد ملاّ)

 

حدیث دوازدہم (۱۲) :ابن عبدِ ربہّ کتاب بہجۃ المجالس میں مختصراً اور ریاض نضرہ میں ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے مطَوَّلاً، صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ابتدائے اسلام میں اظہار اسلام اورکفار سے حرب وقتال فرمانا،اور ان کے چہرۂ مبارک پر ضربِ شدید آنا،اس سخت صدمے میں بھی حضور اقدس سید المحبوبین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا خیا ل رہنا،حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دارالارقم میں تشریف فرما تھے اپنی ماں سے خدمتِ اقدس میں لے چلنے کی درخواست کرنا مفصلاً مروی ، یہ حدیث ہماری کتاب مَطْلَعُ الْقُّمَریْن فی اَباَنَۃِ سَبْقَۃِ الْعُمَرَیْن ( ۱۲۹۷ھ ) میں مذکور، اس کے آخر میں ہے: حتی اذا ھدأت الرجل وسکن الناس خرجتابہ یتّکی علیھا حتی ادخلتاہ علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فانکبّ علیہ فقبّلہ وانکب علیہ المسلمون ورقّ لہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم رَقّۃ شدیدۃ ۲؎ ۔الحدیث۔

 

یعنی جب پہچل موقوف ہوئی اور لوگ سورہے ان کی والدہ اُم الخیر اور حضرت فاروق اعظم کی بہن ام جمیل رضی اﷲ تعالٰی عنہما انھیں لے کر چلیں،بوجہ ضعف دونوں پر تکیہ لگائے تھے، یہاں تک کہ خدمت اقدس میں حاضر کیا، دیکھتے ہی '' پروانہ وارشمع رسالت پر گر پڑے''( پھر حضور کو بوسہ دیا) اور صحابہ غایت محبت سے ان پر گرے۔حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے لئے نہایت رقت فرمائی۔

 

 (۲؎ الریاض النضرۃ    ذکرام الخیر    مطبوعہ چشتی کتب خانہ فیصل آباد    ۱/ ۷۶)

ۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤۤ

 

حدیث سیز دہم (۱۳): حافظ ابو سعید شرف المصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی: قال صعد رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم المنبر ثم قال این عثمان بن عفان؟ فوَثَبَ وقال انا ذایارسولَ اﷲ فقال اُدْنُ مِنِّیْ فَدَنَا مِنْہُ فَضَمَّہ اَلٰی صَدْرَہٖ وقَبَّلَ بَیْنَ عَیْنَیْہِ ۱؎ الخ

 

حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے پھر فرمایا: عثمان کہاں ہیں؟ عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ بے تابانہ اُٹھے اور عرض کی: حضور ! میں یہ حاضر ہوں۔ رسول اﷲ صـلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس آؤ۔ پاس حاضر ہوئے۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے '' سینہ سے لگایا'' اور آنکھوں کے بیچ میں بوسہ دیا۔

 

(۱؎ شرح المصطفی ( شرف النبی)      باب بیست ونہم        میدان انقلاب تہران        ص ۲۹۰)

 

حدیث چہاردہم (۱۴) حاکم صحیح مستدرک میں بافادہ تصحیح اور ابویعلٰی اپنی مسند اور ابو نعیم فضائل صحابہ میں اور برہان خجندی کتاب اربعین مسمّی بالماء المَعِین اور عمر بن محمد ملاّ سیرت میں جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روای: قال بینا نحن مع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی نفر من المھاجرین منھم ابوبکروعمر و عثمان وعلی و طلحۃ والزبیر و عبدالرحمٰن بن عوف وسعدبن ابی وقاص فقال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لِیَنْھَضْ کُلُّ رَجُلٍ الی کفوہ ونَھَضَ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الی عثمان فاعتنقہ،وقال اَنْتَ وَلِیّی فِی الدُنْیاَ والْاٰخِرَۃ ۲؎ ۔

 

ہم چند مہاجرین کے ساتھ خدمتِ اقدس حضور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھے حاضرین میں خلفائے اربعہ و طلحہ و زبیر و عبدالرحمن بن عوف وسعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہم تھے،حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں ہر شخص اپنے جوڑ کی طرف اٹھ کر جائے اور خود حضور والا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عثمانِ غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی طرف اُٹھ کر تشریف لائے ان سے'' معانقہ'' کیا اور فرمایا: تو میرا دوست ہے دُنیا و آخرت میں ۔

 

 ( ۲؎ المستدرک         باب فضائل عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ    مطبوعہ  بیروت        ۳/ ۹۷)

 

حدیث پانزدہم (۱۵): ابن عساکر تاریخ میں حضرت امام حسن مجتبٰی وُہ اپنے والد ماجد مولٰی علی مرتضی کرم اﷲ تعالٰی وجوہما سے راوی : ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عَانَقَ عثمان بن عفان وقال قد عَانَقْتُ اَخِیْ عثمان فَمَنْ کانَ لَہ اَخ فَلْیُعَانَقْہُ۔ ۳؎

 

حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے معانقہ کیا اور فرمایا:میں نے اپنے بھائی عثمان سے معانقہ کیا جس کے کوئی بھائی ہو اسے چاہئے اپنے بھائی سے '' معانقہ کرے''

 

 (۳؎ کنز العمال بحوالہ ابن عساکر    حدیث ۳۶۲۴۰      مطبوعہ دارالکتب الاسلامی حلب   ۱۳/ ۵۷)

 

ا س حدیث میں علاوہ فعل کے مطلقاً حکم بھی ارشادہوا کہ ہر شخص کو اپنے بھائیوں سے معانقہ کرنا چاہئے۔

 

حدیث شانزدہم (۱۶) : کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت بتول زہرا سے فرمایا کہ عورت کے حق میں سب سے بہتر کیا ہے؟ عرض کی کہ نامحرم شخص اُسے نہ دیکھے۔ حضور نے '' گلے لگالیا اور فرمایا: ذُرِّیَّۃ بَعْضُھَا مِنْ بَعْض    ۱ ؎  ( یہ ایک نسل ہے ایک دوسرے سے ۔ ت)

 

اوکما ورد عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ واٰلہ وبارک وسلم ( یا جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے وارد ہے۔ ت)

 

 (۱؎ القرآن        ۳/ ۳۴)

 

بالجملہ احادیث اس بارے میں بکثرت وارداور تخصیص سفر محض بے اصل وفاسد۔ بلکہ سفر وبے سفر ہر صورت میں معانقہ سنت، او رسنت جب ادا کی جائے گی سنت ہی ہوگی تاوقتیکہ خاص کسی خصوصیت پر شرع سے تصریحاً نہی ثابت نہ ہو، یہاں تک کہ خود امام الطائفہ مانعین اسمٰعیل دہلوی رسالہ نذور میں کہ مجموعہ زبدۃ النصائح میں مطبوع ہوا صاف مُقِر کہ معانقہ روز عید گو بدعت ہو بدعت حسنہ ہے۔

 

حیث قال ( یوں کہا ۔ت) ف۱:  ہمہ وقت از قرآن خوانی فاتحہ خوانی وخورانیدن طعام سوائے کندن چاہ وامثال دعاواستغفار واُضحیہ بدعت ست بدعت حسنہ بالخصوص است مثل معانقہ روز عید ومصافحہ بعد نماز صبح یا عصر ۱؎ ۔

 

کُنواں کھود نے ۔اور اسی طرح حدیث میں سے ثابت دوسری چیزوں، اور دعا استغفار، قربانی کے سوا تمام طریقے، قرآن خوانی ، فاتحہ خوانی، کھانا کھلاناسب بدعت ہیں ۔ مگر خاص بدعت حسنہ ہیں، جیسے عید کے دن معانقہ ۔ اور نماز فجر یا عصر کے بعد مصافحہ کرنا (بدعتِ حسنہ ہے )۔ (ت)  واﷲ تعالٰی اعلم

 

  (۱؎ مجموعہ زبدۃ النصائح)

 

کتبہ عبدہ المذنب احمد رضاالبریلوی عفی عنہ بمحمدن المصطفی النبی الامیّ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم

(سنی حنفی قادری عبدالمصطفی احمد رضاخاں)

 

ف۱: مولوی اسمٰعیل دہلوی پیشو یان علماء دیوبندی کی اس عبارت میں چند باتیں قابل غور ہیں:

(۱) ایصال ثواب کے لئے کنواں کھدوانا، دعا ، استغفار، قربانی اور اسی طرح کی دوسری چیزیں بدعت نہیں بلکہ سنت سے ثابت ہیں۔

(۲) قرآن خوانی، فاتحہ خوانی، کھانا کھلانا اوراس طرح کے دوسرے طریقے بدعت ہیں مگر بدعت حسنہ ہیں ۔

(۳) اس سے بدعت کی دو قسمیں معلوم ہوئیں:( ۱) بدعتِ حسنہ۔(۲) بدعتِ سیئہ۔ لہذا ہر بدعت بُری نہیں۔ او رہر نیا کام صرف بدعت ہونے کے باعث ناجائز و حرام نہیں ہوسکتا بلکہ بعض کام بدعت ہوتے ہوئے بھی حسن اور اچھے ہوتے ہیں

(۴) روزِ عید کا معانقہ ،اور ہر روز فجر وعصر کے بعد مصافحہ بدعت حسنہ جائز اور اچھا ہے ع

                                                                 مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری

منکرین اعلٰیحضرت کا پورا رسالہ نہ مانیں، تمام احادیث وفقہی نصوص سے آنکھیں بند کرلیں مگر انھیں اپنے'' پیشوائے اعظم'' کے اقرار صریح اور کلام واضح سے ہر گز مفرنہ ہونا چاہئے ۔(مترجم)

 

               

 

اس کے معارضے میں جو فتوٰی مولوی عبدالحی صاحب کا پیش کیا گیا اس کی عبارت یہ ہے:

'' کیا فرما تے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بعد خطبہ عیدین کے جو مصافحہ ومعانقہ لوگوں میں مروّج ہے وہ مسنون ہے یا بدعت؟

 

بَیِّنُوا   تُؤَجِّرُوْا  ( بیان کرو اور اجر پاؤ ۔ت)

 

ھوالمُصَوِّب ( وہی درستی تک پہنچانے والاہے ۔ت) بعد عید مصافحہ و معانقہ مسنون نہیں، اور علماء اس باب میں مختلف ہیں، بعض بدعت مباحہ کہتے ہیں اور بعض بدعت مکروہہ۔ علٰی کل تقدیر ترک عہ اس کااولٰی ہے( ف۱)الخ۔

 

عہ:اس کے بعد فتوٰی مذکور میں چار(۴) عبارتیں نقل کیں:

(۱) عبارت اذکار کہ اس مصافحہ میں کوئی حرج نہیں۔

(۲) عبارت درمختار کہ یہ بدعتِ مباحہ بلکہ حسنہ ہے کما ھو موجود فی الدر وان اقتصر المجیب فی النقل ( یہ درمختار میں موجود ہے اگر چہ مجیب نے صرف نام پر کفایت کی ہے ۔ت)

(۳) عبارت  ردالمحتار کہ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ ہمیشہ بعد نماز کئے جاؤ تو جاہل سنت سمجھ لیں گے۔ اورابن حجر شافعی نے اسے مکروہ کہا ہے۔

(۴) عبارت مدخل ابن حاج مالکی المذہب کہ غیبت کے بعد ابن عیینہ نے جائز رکھا ،اور عیدمیں ان لوگوں سے جو اپنے ساتھ حاضر ہیں، نہیں ف۱۔

ف۱: یعنی عید میں ان لوگوں سے معانقہ جائزنہیں جو اپنے ساتھ حاضر ہیں۔ ( مترجم)

اور مصافحہ بعد عید مجھے معروف نہیں مگرعبداﷲ بن نعمان فرماتے ہیں میں نے مدینہ خاص میں جبکہ وہاں علماء صالحین بکثرت موجود تھے، دیکھا کہ وہ نماز عید سے فارغ ہوکر آپس میں مصافحہ کرتے، تو اگر سلف سے نقل مساعد ہوتو کیا کہنا ورنہ ترک اولٰی ہے۔ ۱۲ منہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ (م)

ف۱: مولانا عبدالحی صاحب فرنگی کے اس فتوے کا حاصل یہ ہے کہ بعد عید مصافحہ ومعانقہ حدیث سے ثابت نہیں __ رہے علماء وفقہاء___ توان میں اختلاف ہے کچھ بدعت مباحہ کہتے ہیں کچھ بدعت مکروہہ۔ بہر تقدیر اسے نہ کرنابہتر ہے۔ ('' نہ کرنا بہتر ہے '' سے اتنا ضرور ثابت ہوجاتا ہے کہ کرلیا تو جائز ہے ) مولانا فرنگی محلی کا یہی فتوٰی( جو ان کے مجموعہ فتاوٰی طبع اول کے ج اص ۵۲۸پر ہے )بریلی کے ان عالم نے بھیجا جن سے اعلٰیحضرت اپنے جواب میں خطاب کررہے تھے، ساتھ ہی انھوں نے اس مجموعہ فتاوٰی کے حاشیہ پر معانقہ عید کی ممانعت کے ثبوت میں وہ عبارتیں بھی لکھ دیں جنھیں کتاب '' وشاح الجید فی تحلیل معانقۃ العید '' میں اعلیحضرت نے بعینہٖ نقل فرمایا اور التماس چہارم سے ان پر بحث کی ۔ (مترجم)

 

                            ابوالحسنات محمد عبدالحی

عبارات کہ حاشیہ پر لکھ کر پیش کی گئیں بَحُرُوْفہٖ یہ ہیں: اذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ کان ترک السنۃ راجحاً علٰی فعل البدعۃ ۱۲ردالمحتار ۱؎

 

جب حکم سنت و بدعت کے درمیان مُتَرَدِّد ہو تو ارتکاب بدعت پر ترک سنت کو ترجیح دی جائیگی۔ ف۲

ف۲: یعنی جب معاملہ ایسا ہوکہ کرے توکسی بدعت کامرتکب ہوتا ہے، نہ کرے تو کوئی سنت چھوٹتی ہے، ایسی صورت میں یہی حکم ہے کہ نہ کرے اس سے سنت اگر چہ چھوٹ جائے گی مگر بدعت کامرتکب تو نہ ہوگا۔ معانقہ عید کا بھی یہی حال ہے، لہذا اس سے بھی ممانعت ہی کا حکم دیا جائے گا۔ اعلٰیحضرت نے التماس نعم میں اس استدلال کا جواب دیا ہے کہ یہاں بدعت سے مراد بری بدعت ہے، اور معانقہ عید ایسا ہرگز نہیں، بلکہ اپنی اصلیت کے لحاظ سے سنت اور خصوصیت بعد عید کے لحاظ سے مباح، اور قصد حسن کے ساتھ ہو تو مستحسن ہے۔لہذا آپ کی عبارت مذکورہ معانقہ عید پر منطبق(فٹ) ہوہی نہیں سکتی، (مترجم )

 

 (۱؎ ردالمحتار    مطلب اذاتردد الحکم    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۶۸۲)

 

نقل فی تبیین المحارم عن الملتقط انہ تکرہ المصافحۃ بعد اداء الصلٰوۃ بکل حال لان الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہم ماصافحوا بعد اداء الصلٰوۃ ولانھا من سنن الروافض اھ ثم نُقِل عن ابن حجر من الشافعیۃ انھا بدعۃ مکروھۃ لااصل لھا فی الشرع وانہ ینبہ فاعلھا اولاً و یعزر ثانیا ثم قال وقال ابن الحاج من المالکیۃ فی المدخل انھا من البدع وموضع المصافحۃ فی الشرع انما ھو عند لقاء المسلم لاخیہ لافی ادبار الصلوات فحیث وضعھا الشرع یضعھا فینھٰی عن ذلک و یزجرفا علہ لمااتی بہ من خلاف السنۃ اھ ردالمحتار

 

ردالمحتار میں ہے کہ تبیین المحارم میں ملتقط سے منقول ہے کہ ادائے نماز کے بعد مصافحہ بہر حال مکروہ ہے (۱)اس لئے صحابہ نے بعد نماز مصافحہ نہیں کیا، (۲) اس لئے کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے اھ پھر علامہ ابن حجر شافعی سے منقول ہے کہ یہ مصافحہ بدعتِ مکروہہ ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں اس کے مرتکب کو اولاً متنبہ کیا جائے گا۔ نہ مانے تو سرزنش کی جائے گی، پھر فرمایا کہ ابن الحاج مالکی مدخل میں لکھتے ہیں کہ یہ مصافحہ بدعت ہے (۳) اور شریعت میں مصافحہ کا محل مسلمان کی اپنے مسلمان بھائی سے ملاقات کا وقت ہے۔ نمازوں کے بعد اوقات مصافحہ کا شرعی محل نہیں، شریعت نے جو محل مقرر کیا ہے اسے وہیں رکھے، تو نمازوں کے بعد مصافحہ کرنے والے کو روکا اور زجر کیا جائے گا اس لئے کہ وہ خلاف سنت فعل کا مرتکب ہے اھ ردالمحتار (حاشیہ ذیل میں مندرج امام نووی کی عبارتِ اذکار پر اعتراض کرتے ہوئے مولوی صاحب مذکور نے حاشیہ لکھاہے)

 

عہ: کتبہ المعترض حاشیۃ علی مانُقل فی الفتاوی المکنویۃ فی عبارۃ الاذکار للامام النووی رحمہ اﷲ تعالٰی من قولہ '' لابأس بہ فان اصل المصافحۃ سنۃ وکونھم حافظوا علیہا فی بعض الاحوال وفرطوا فی کثیر من الاحوال اواکثرھا لایخرج ذلک البعض عن کونہ من المصافحۃ التی ورد الشرع باصلھا'' اھ ۱۲ منہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ (م)

 

فتاوٰی مولوی عبدالحی لکھنو ی میں امام نووی کی کتاب اذکار سے منقولہ عبارت پر بریلی کے معترض مولوی صاحب نے یہ حاشیہ لکھا ہے امام نووی کی عبارت یہ ہے: '' اس مصافحہ میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ اصل مصافحہ سنت ہے ، اور اکثر حالات میں لوگ مصافحہ کے اندر کوتاہی کرنے کے ساتھ صرف بعض حالات میں اگر مصافحہ کی پابندی کرتے ہیں تو اس سے بعض حالات والا مصافحہ (مثلاً مصافحہ بعد نماز) اس مصافحہ جائزہ کے دائرے سے خارج نہ ہوگا جس کی اصلیت شرع سےثابت ہے۔(ت)

 

قولہ عہ لایخرج الخ ولا یخفی ان فی کلام الامام نوع تناقض لانّ اتیان السنۃ فی بعض الاوقات لایسمی بدعۃ مع ان عمل الناس فی الوقتین المذکورین لیس علی وجہ الاستحباب المشروع، لان محل المصافحۃ المذکورۃ اوّل الملاقاۃ وقد یکون جماعۃ یتلاقون من غیر مصافحۃ ویتصاحبون بالکلام وبمذاکرۃ العلم وغیرہ مدۃ مدیدۃ ثم اذا صلوا یتصافحون فاین ھذا من السنۃ المشروعۃ وبھذا صرح بعض العلماء بانھا مکروھۃ عہ و ح انھا من البدع المذمومۃ ۱؎ کذافی المرقاۃ۔

 

ظاہر ہے کہ امام نووی کے کلام میں ایک طرح کا تعارض ہے ۔ اس لئے کہ اگر لوگ بعض اوقات ''سنت کے مطابق'' مصافحہ کرتے ہیں تواسے بدعت نہیں کہا جائے گا ۔ لیکن فجر وعصر کے بعد کا عمل استحبابِ مشروع کے طور پر نہیں ہے اس لئے کہ جائز مشروع مصافحہ کا محل بس اول ملاقات ہے ، اور یہاں تو بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ملاقات بلامصافحہ کرتے ہیں اور دیر تک گفتگو و علمی بحث وغیرہ میں ایک ساتھ رہتے ہیں پھر جب نماز پڑھ لیتے ہیں تو مصافحہ کرتے ہیں، یہ سنت مشروعہ کہاں! اسی لئے تو بعض علماء نے صراحۃً فرمایا ہے کہ یہ مکروہ ہے اور اس کا شمار مذموم بدعتوں میں ہے، یہی عبارت مرقاۃ میں ہے ۔ (ت)

 

عہ: ھکذا بخطہ ولیست بھذہ الحاء فی عبارۃ المرقاۃ ولا لہا محل فی العبارۃ کما لا یخفی ۱۲منہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ (م)

 

صاحب موصوف کی تحریر میں اسی طرح یہ '' ح'' بنی ہوئی ہے مگر یہ عبارۃ مرقاۃ میں نہیں ہے ، عبارت میں اس کا موقع بھی نہیں جیسا کہ ظاہر ہے ۔ (ت)

 

                                                                               عیدثانی میں

تحریر جواب وتقریر صواب وازالۂ اوہام وکشفِ حجاب___ یعنی اس تحریر کی نقل جو برسم جواب مولوی معترض کے پاس مرسل ہوئی۔

                                                                       بسم اﷲ الرحمن الرحیم

                                                               نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

جناب مولانا ! دام مجد کم، بعد ماھو المسنون ملتمس، فتوٰی فقیر دربارۂ معانقہ کے جواب میں مجموعہ فتاوٰی مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی جناب نے ارسال فرمایا اور اس کی جلد اول صفحہ ۵۲۸طبع اول میں جوفتوٰی معانقہ

مندرجہ ہے پیش کیااور اس کے حاشئے پر تائید کچھ عبارت ردالمحتار مرقاۃ بھی تحریر فرمادی،سائل مُظہر کہ جب جناب سے یہ گزارش ہوئی کہ آیا یہ مجموعہ آپ کے نزدیک مُسْتَنَد ہے تو فرمایا: '' ہمارے نزدیک مستند نہ ہوتا تو ہم پیش کیوں کرتے''۔ اور واقعی یہ فرمانا ظاہر وبجا ہے، فقیر کو اگر چہ ایسے مُعارضَہ کا جواب دینا ضرور نہ تھا مگر حسبِ اصرار سائل، محض بغرض احقاقِ حق وازہاق باطل چند التماس ہیں ، معاذاﷲ کسی دوسری وجہ پر حمل نہ فرمائیے فقیر ہر محسن مسلمان کو مستحق ادب جانتا ہے خصوصاً جناب تو اہل علم سادات سے ہیں، مقصود صرف اتنا ہے کہ جناب بھی بمقتضائے بزرگی حسب و نسب وعمر وعلم ان گزارشوں کو بنظر غور تحقیق حق استماع فرمائیں،اگر حق واضح ہو تو قبول مرجوح ومامول کہ علماء کے لئے رجوع الی الحق عارض نہیں بلکہ معاذاﷲ اصرار علی الباطل____ قال تعالٰی: فَبَشِّرْ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہ، ۱؎ ف۱۔ تو خوشی سناؤ اُن بندوں کو جو کان لگا کر بات سُنیں پھراس کے بہتر پر چلیں ۔(ت)

 

(۱؎ القرآن        ۳۹/۱۸)

 

التماس اوّل: اس مجموعہ فتاوٰی سے استناد الزاماً ہے یا تحقیقاً؟ علی الاول فقیر نے کب کہاتھا کہ کسی مُعاصر کی تحریر مجھ پر حجت ہے، علی الثانی پہلے دلیل سے ثابت کرنا تھا کہ یہ کتاب خادمان علم پر احتجاجاً پیش کرنے کے قابل ہے ف۲۔

ف۱: حاصل یہ ہے کہ ہم نے معانقہ عید کا جواز احادیث کریمہ سے ثابت کیا، مستند فقہی عبارتیں پیش کیں، اس احادیث اور نصوص سے مدلل فتوے کے جواب میں آپ مولوی عبدالحی صاحب کا فتوٰی مستند بناکر پیش کررہے ہیں، ایسی مخالف دلیل کا جواب تو کوئی ضروری نہ تھا مگر سائل کے اصرار پر حق کو حق دکھانے اور باطل و ناحق کو مٹانے کی خاطر آپ کی خدمت میں چند التماس ہیں ، ان التماسوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ بنگاہ غور دیکھیں اگر حق واضح ہوتو آپ  سےاسے قبول کرلینے کی امید ہے اس لئے کہ حق کی طرف رجوع اور اسے قبول کرلینا علماء کے لئے عار نہیں بلکہ معاذاﷲ باطل وناحق بات پر اڑے رہنا شانِ علماء کے خلاف ہے ۔(ت)

ف۲: توضیح: آپ نے میرے فتوے کے جواب میں مولوی عبدالحی صاحب کا مجموعہ فتاوی مستند بناکر پیش کیا ہے اس کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں:

(۱) یا تو مجھے الزام دینا مقصود ہے کہ دیکھئے آپ کی مستند اور مانی ہوئی کتاب میں آپ کے خلاف ہے، مگر میں نے کب کہا کہ ا س زمانے کے کسی عالم کی تحریر  مجھ پر حجت ہے۔

(۲) یا یہ کہ آپ نے خود تحقیقی طور پر اُسے سب کے لئے معتمد اور مستند جان کر پیش کیا ہے۔ تو آپ کو پہلے دلیل سے ثابت کرناتھا کہ یہ کتاب قابل استدلال اور علماء پر حجت وسند بنا کر پیش کرنے  کے لائق ہے۔ اور جب یہ دونوں صورتیں صحیح نہیں تواس مجموعہ فتاوٰی کو یہاں پیش کرنا ہی بے محل ہے ۔ (مترجم)

دوم: شاید جناب نے اس مجموعہ کو اِستِیْعَاباً ملاحظہ نہ فرمایا اس میں بہت جگہ وہ مسائل وکلمات ہیں جو آج کل کے فرقہ مانعین کے بالکل مخالف و قالع اصل مذہب ہیں۔ تَمثیلاً ان میں سے چند کا نشان دوں۔

جلد اول صفحہ ۵۳۱ پر لکھتے ہیں:

''کتب فقہیہ میں نظائر اس کے بہت موجو دہیں کہ ا زمنہ سابقہ میں اُن کاو جود نہ تھا مگر بسبب اَغراض صالحہ کے حکم اس کے جواز کا دیا گیا''۔۱؎

 

 (۱؎ مجموعہ فتاوٰی عبد الحی)

 

صفحۃ ۲۹۴ پر ہے:

'' الوداع یا الفراق کا خطبہ آخر رمضان میں پڑھنا اور کلمات حسرت ورخصت کے ادا کرنا فی نفسہٖ امر مباح ہے بلکہ اگر یہ کلمات باعث ندا مت وتوبۂ سامعان ہوئے تو امید ثواب ہے مگر اس طریقہ کا ثبوت قرونِ ثلثہ میں نہیں ۲؂

 

 (۲؎ مجموعہ فتاوٰی عبدالحی    کتاب الحظر والاباحۃ    مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ    ۲/۲۴ ۔ ۲۵)

 

جلددوم صفحہ ۱۷۰ میں ہے: کسے کہ می گوید کہ وجودیہ وشہودیہ از اہل بدعت اند قولش قابل اعتبار نیست ومنشاء قولش جہل وناواقفیت است ازاحوالِ اولیاء واز معنی توحید وجودی وشہودی وشاعرے کہ ذم ہر دوفرقہ ساخت قابل ملامت ست ۳؎ ۔

 

جو کہتاہے کہ وجودیہ اور شہودیہ اہل بدعت سے ہیں اس کاقول قابل اعتبار نہیں، اور اس کے قول کی بیناد یہ ہے کہ وہ اولیاء کے احوال اور توحید وجودی و شہودی کے معنی سے جاہل وبے خبر ہے اور جس شاعر نے دونوں فرقوں ( وجود یہ وشہودیہ ) کی مذمت کی ہے وہ قابل ملامت ہے ۔(ت)

 

 (۳؎ مجموعہ فتاوٰی عبدالحی    کتاب الحظروالاباحۃ    مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ       ۲/ ۵۸)

 

صفحہ ۴۲۱ پر ہے: شغل برزخ اس طورپر کہ حضرات صوفیہ صافیہ نے لکھا ہے نہ شرک ہے نہ ضلالت۔ ہاں افراط وتفریط اس میں منجر ضلالت کی طرف ہے۔ تصریح اس کی مکتوبات مجدد الف ثانی میں جابجا موجود ہے؂۱  ف۱

 

 (۱؎ مجموعہ فتاوٰ ی عبدالحی)

 

ف۱: ارواح سے توجہ طلبی، تصور شیخ، شغلِ برزخ وغیرہ سے متعلق اعلٰیحضرت قدس سرہ ایک مدلل رسالہ ہے الیاقوت الواسطۃ فی قلب عقد الرابطۃ (۱۳۰۹ھ) جس میں نصوص علماء اور مستند ینِ مانعین کی عبارتوں سے اس کا جواز ثابت فرمایا ہے۔ قابل مطالعہ ہے ۔(مترجم)

 

جلد سوم صفحہ۸۵ میں ہے: سوال : وقتِ ختم قرآن در تراویح سہ بار سورۂ اخلاص می خوانند مستحسن است یا نہ؟

 

سوال: تراویح میں ختم قرآن کے وقت تین بار سورہ اخلاص پڑھتے ہیں یہ مستحسن ہے یا نہیں؟

 

جواب: مستحسن ست ۲؎ ۔

 

جواب: مستحسن ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ مجموعہ فتاوٰ ی عبدالحی   باب التراویح        مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳/ ۵۷)

 

صفحہ ۱۲۷ پر ہے : سوال: بسم اﷲ نوشتن برپیشانی میت ازانگشت درست ست یا نہ؟

 

سوال: انگلی سے میت کی پیشانی پر بسم اﷲ لکھنا درست ہے یا نہیں؟

 

جواب: درست ست ۳؎ ۔

 

جواب: درست ہے ۔(ت)

 

 (۳؎ مجموعہ فتاوٰ ی عبدالحی    باب مایعلق بالموتی     مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ ۱ /۱۲۳)

 

صفحہ ۱۵۲ میں ہے: درمجالس مولد شریف کہ از سورۂ والضحی تا آخر می خوانند البتہ بعد ختم ہر سورۃ تکبیر می گویند راقم شریک مجالس متبرک بودہ ایں امررامشاہدہ کردم ہم درمکہ معظمہ وہم درمدینہ منورہ وہم درجدہ ۴؂ ۔

 

میلاد شریف کی محفلوں میں سورۂ والضحی سے آخر قرآن تک پڑھتے ہیں ہر سورۃ ختم کرنے کے بعد تکبیر کہتے ہیں، راقم نے ان متبرک محفلوں میں شریک ہوکر اس امر کامشاہدہ کیا ہے  مکہ معظمہ میں بھی، مدینہ منورہ میں بھی اور جدہ میں بھی ۔ (ت)

 

 (۴؎ مجموعہ فتاوٰ ی عبدالحی باب القرأۃ فی الصلوٰۃ     مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ ۳ /۵۲)

 

طرفہ یہ کہ صفحہ ۱۲۰ پر لکھتے ہیں: سوال: پارچہ جھنڈا سالار مسعود غازی درمصرف خود آرد یا تصدق نماید: سوال: سید سالار مسعود غازی کے جھنڈے کا کپڑا اپنے مصرف میں لائے یا صدقہ کردے؟

 

جواب: ظاہراً دراستعمال پارچہ مذکور بصرف خودوجہے موجب بزہ کاری باشد نیست و اولی آنست کہ بمساکین وفقرادہد ۱؎

 

جواب: مذکورہ کپڑا اپنے مصرف میں لانے کے اند ر بظاہر گناہ کی کوئی وجہ نہیں، اور بہتر یہ ہے کہ مساکین وفقراء کو دے دے ۔(ت)

 

۔ (۱؎ مجموعہ فتاوٰی        باب مایحل استعمالہ ومالا یحل    مطبوعہ مطبع یوسفی لکھنؤ        ۳/ ۱۱۶)

 

جناب سے سوال ہے کہ مولوی صاحب کے یہ اقوال کیسے؟ اور ان کے قائل ومعتقد کا حکم کیا ہے؟ خصوصاً شغلِ برزخ کو جائز جاننے والا معاذاﷲ مشرک یا گمراہ ہے یا نہیں؟اور جس کتاب میں ایسے اقوال مندرج ہوں مستند و معتمد ٹھہرے گی یا پایہ احتجاج سے ساقط ہوگی؟ بینوا توجروا

 

سوم : مولوی صاحب نے اس فتوٰی میں معانقہ عید کی نسبت صرف اتنا حکم دیا ہے کہ '' ترک اس کا اولٰی ہے'' اس سے ممانعت درکنار اصلاً کراہت بھی ثابت نہیں ہوتی'' اَوْ لَوِیَّت ترکہ نہ مشروعیت واباحت کے منافی نہ کراہت کو مستلزم '' ف۱۔

 

ف۱: فقہاء اگر یہ حکم کریں کہ فلاں امر کا ترک بہتر ہے تواس سے ہرگز یہ نہیں ثابت ہوتاکہ وہ چیز ناجائز ہے بلکہ مکروہ ہونا بھی لازم نہیں آتا۔ یہ ایک عظیم قاعدہ ہے جو حفظ کرلینے کے قابل اور بہت  سےمقامات میں مفید ہے۔ اس قاعدے کے پیش نظر مولانا عبدالحی صاحب نے معانقہ عیدکے متعلق جب صرف اتنا لکھا کہ اس کا نہ کرنا بہتر ہے تو اس سے معانقہ مذکورہ کا ناجائز یا مکروہ ہونا بالکل ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ کر لے تو کوئی حرج نہیں ۔ پھر ممانعتِ معانقہ کے بارے میں فتوٰی مذکور سے استدلال ہی بالکل بیکار اور اپنے خلاف استدلال ہے ۔ (ت)

 

   ردالمحتار میں ہے:  الا قتصاد علی الفاتحۃ مسنون لاوَاجِب فکان الضم خلاف الاَولٰی وذلک لاینافی المشروعیۃ والاباحۃ بمعنی عدم الاثم فی الفعل والترک ۲؎ ۔

 

نماز فرض کی تیسری چوتھی رکعتوں میں سورہ فاتحہ پر اکتفا کرنا صرف مسنون ہے، واجب نہیں، تو ان رکعتوں میں سورہ ملانا خلافَ اولٰی ہوگا اور یہ اس کے جائز ومباح ہونے کے منافی نہیں، اباحت بایں معنٰی کہ کرنے نہ کرنے دونوں میں کوئی گناہ نہیں۔ (ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار         مطلب کل صلوٰۃ مکروھۃ تجب اعادتہا    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ۱/ ۴۵۹)

 

اسی میں ہے: صَرَّحَ فی البحر فی صلوۃ العید عند مسئلۃ الاکل بانہ لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ '' اذلا بُدَّلھا من دلیل خاص'' اھ واشار الٰی ذلک فی التحریر الاصولٰی بان خلاف الاولی مالیس فیہ صیغۃ نھی کترک صلوۃ الضحٰی بخلاف المکروہ تنزیھا ۱؎

 

۔ّ(۱؎ ردالمحتار    مطلب لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ۲/ ۱۷۷)

 

بحرالرائق میں جہاں یہ مسئلہ کہ نماز عید سے پہلے کچھ کھا لینا مستحب ہے وہیں ہے کہ اس مستحب کو اگر کسی نے ترک کردیا تو وہ فعلِ مکروہ کا مرتکب نہ ہوگا، کیونکہ ترکِ مستحب سے کراہت کا ثبوت لازم نہیں، اس لئے کہ مکروہ ہونے کے لئے کوئی خاص دلیل ضروری ہے، اور اس کی طرف تحریر اصولی میں بھی اشارہ کیا ہے کہ ''خلاف اولٰی وہ ہے جس میں ممانعت اور نہی کا صیغہ نہ ہو'' جیسے نماز چاشت کا ترک بخلاف مکروہ تنزیہی کے کہ اس میں نہی وممانعت کا صیغہ ہوتا ہے ۔(ت)

پھر اگر جناب کے نزدیک بھی حکم وہی ہے جو مولوی صاحب نے اپنے فتوٰی میں لکھا تو تصریح فرمادیجئے کہ عید کا معانقہ شرعاً ممنوع نہیں، نہ اس میں اصلاً کوئی حرج ہے، ہاں نہ کرنا بہتر ہے کرلے تو مضائقہ نہیں،

چہارم: آپ نے جو عبارات ردالمحتار ومرقات نقل فرمائیں ان میں معانقہ عید کی ممانعت کا کہیں ذکر نہیں ان میں تو مصافحہ بعد نماز فجر و عصر یا نماز پنجگانہ کا بیان ہے، اور جناب کو منصب اجتہاد حاصل نہیں کہ ایک مسئلہ کو دوسرے پر قیاس فرماسکیں ، اگر فر مائے کہ '' جو دلائل اس میں لکھے ہیں یہاں بھی جاری''

اقول : یہ محض ہو س ہے اُن عبارتوں میں تین دلیلیں مذکور ہوئیں:

(۱) محلِ مصافحہ ابتدائے ملاقات ہے نہ بعد صلوات۔

(۲) یہ مصافحہ مخصوصہ سنت روافض ہے۔

(۳) صحابہ کرام نے یہ خاص مصافحہ نہ کیا۔

یہ تینوں تعلیلیں اگرچہ  فی اَنفُسہا خود ہی علیل اور ناقابل قبول ہیں

 

کما حققناہ بتوفیق اﷲ تعالٰی فی فتاوٰنا ( جیسا کہ ہم نے اﷲ تعالٰی کی مدد سے اپنے فتوٰی میں اس کی تحقیق کی ہے ۔ت) ولہذا قول اصح یہی ٹھہرا کہ وہ مصافحہ مخصوصہ بھی جائز ومباح ہے کما سنذکر ان شاء اﷲ تعالٰی ( جیسا کہ ہم ان شاء اﷲ تعالٰی آگے ذکر کریں گے ۔ت) مگر ہمارے مسئلہ دائرہ یعنی معانقہ عید سے دو دلیل پیشیں کو تو اصلاً علاقہ نہیں ۔

محلِ '' مصافحہ'' خاص ابتدائے لقا ہو تو بھی '' معانقہ'' کی اس وقت سے تخصیص ہر گز مسلم نہیں ومن ادعٰی فعلیہ البیان  ( جو مدعی ہوبیان اس کے ذمہ ۔ ت)

مولوی صاحب لکھنوی کا بے دلیل وسند لکھنا ممسوع نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ معانقہ مثل تقبیل اظہار سرور وبشاشت و وداد و محبت ہے جیسے تقبیل خاص ابتدائے لقا سے مخصوص نہیں ، یوں ہی معانقہ۔

جناب نے فتوٰی فقیر میں حدیث عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما مروی کتاب السنۃ ابن شاہین ومعجم کبیر امام طبرانی ملاحظہ فرمائی ہوگی کہ حضور پر نور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے تالاب پیرنے میں امیر المومنین صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو گلے لگایا___ ونیز حدیث اُسیدبن حضیر رضی اﷲ تعالٰی عنہ مرویِ سُنن ابی داؤد کہ انھوں نے باتیں کرتے کرتے حضور والا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے کُرتا اٹھانے کی درخواست کی حضور نے قبول فرمائی، وہ حضور کے بدن اقدس سے لپٹ گئے اور تہی گاہ مبارکہ پر بوسہ دیا ___ ونیز حدیث صحیح مستدرک کہ اثنائے مجلس میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت ذی النورین سے معانقہ فرمایا __ ونیز حضرت بتول زہرا رضی اﷲ تعالٰی عنہا کہ حضور پر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: عورت کے لئے سب سے بہتر کیا ہے؟ عرض کی: یہ کہ کوئی نامحرم اُسے نہ دیکھے۔ حضور نے گلے سے لگالیا___ ان سب صورتوں میں ابتدائے لقا کا وقت کہاں تھا کہ معانقہ فرمایا گیا، ___ یوں ہی پیار سے اپنے بچوں ۔ بھائیوں، زوجہ کو گلے لگانا شاید اول ملاقات ہی پر جائز ہوگا۔ پھر ممانعت کی جائے گی؟

یوں ہی مصافحہ بعد نماز فجر وعصر اگر کسی وقت کے روافض نے ایجاد کیا اور خاص ان کا شعار رہا ہو، اور بدیں وجہ اس وقت علماء نے اہلسنت کے لئے اسے ناپسند رکھا ہو تو معانقہ عید کا زبردستی اسی پر قیاس کیونکر ہو جائے گا، پہلے ثبوت دیجئے کہ یہ '' رافضیوں کا نکالا اور انھیں کا شعار خاص ہے '' ورنہ کوئی امر جائز کسی بدمذہب کے کرنے سے ناجائز یا مکروہ نہیں ہوسکتا ۔ لاکھوں باتیں ہیں جن کے کرنے میں اہلسنت وروافض بلکہ مسلمین وکفار سب شریک ہیں۔ کیا وہ اس وجہ سے ممنوع ہوجائیں گی؟

بحرالرائق ودرمختار و ردالمحتار وغیرہا ملاحظہ ہوں کہ'' بد مذہبوں سے مشابہت اُسی امر میں ممنوع ہے جو فی نفسہٖ شرعا مذموم یا اس قوم کا شعار خاص یا خود فاعل کو ان سے مشابہت پیدا کرنا مقصود ہو ورنہ زنہار وجہ ممانعت نہیں''

رہا صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا نہ کرنا ،یہ دلیل منع نہیں ہوسکتا، آپ تینوں کتب مُسْتَنَدہ اَعْنِی مجموعہ فتاوٰی وردالمحتار ومرقاۃ شریف اور ان کے سوا صد ہا کتب معتمدہ ا سکے بطلان پر گواہ ہیں، فقہاء کرام سیکڑوں چیزوں کو یہ تصریح فرماکر کہ نو پیدا ہیں ، جائز بلکہ مستحب ومستحسن بلکہ واجب بتاتے اور مُحدَثات کو اقسامِ خمسہ کی طرف تقسیم فرماتے ہیں۔ مجموعہ فتاوٰی کی عبارتیں گزریں ۔

 

ردالمحتار میں ہے: قولہ ای صاحب بدعۃ ای محرمۃ والا فقد تکون واجبۃ کنصب الادلۃ للردعلی اھل الفرق الضالۃ وتعلم النحو المفھم الکتاب والسنۃ ومندوبۃ کا حداث نحو رباط ومدرسۃ وکل احسانٍ لم یکن فی الصدر الاول ومکروھۃ کزَخْرَفَۃِ المساجد ومباحۃ کالتوسع بلذ یذالمآکل والمشارب و الثیاب کما فی شرح الجامع الصغیر للمناوی عن تھذیب النووی ومثلہ فی الطریق المحمدیۃ للبرکوی۱؎۔

 

 (۱؎ ردالمحتار        باب الامامت        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۵۶۰)

 

شارح کا قول '' جو صاحب بدعت'' یہاں بدعت سے مراد حرام بدعت ہے، ورنہ بدعت واجب بھی ہوتی ہے، جیسے گمراہ فرقوں کا رد کرنے کے لئے دلائل قائم کرنا علم نحو سیکھنا جس سے کتاب وسنت سمجھ سکیں، مستحب بھی جیسے سرائے اور مدرسہ جیسی چیزیں تعمیر کرنا، اور ہر وہ نیک کام جو زمانہ اول میں نہ رہا ہو ، مکروہ بھی جیسے مسجدوں کو آراستہ ومنقش کرنا۔ مباح بھی جیسے کھانے پینے کی لذیذ چیزوں اور کپڑوں میں وسعت وفراخی کی راہ اختیار کرنا، جیسا کہ علاّمہ مناوی کی شرح جامع صغیری میں علاّمہ نووی کی کتاب تہذیب سے منقول ہے ، اور اسی طرح علامہ برکوی کی کتاب'' الطریق المحمدیہ '' میں مذکور ہے ۔(ت)

 

مرقاۃ شریف میں ہے: احداث مالاینازع الکتاب والسنۃ کما سنقررہ بعدلیس بمذموم ۲؎ ۔

 

ایسا فعل ایجاد کرنا جو کتاب وسنت کے مخالف نہ ہو برا نہیں، جیسا کہ ہم آگے ثابت کریں گے ۔(ت)

 

 (۲؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ    باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ    مطبوعہ امدادیہ ملتان        ۱/ ۲۱۵)

 

پھر ایک صفحہ کے بعد بدعت کا واجب وحرام ومندوب ومکروہ ومباح ہونا مفصلاً ذکر فرمایا۔

عالمگیری میں ہے: لاباس بکتابۃ اَسَامی السور وعدد الآی وھوان کان احد اثا فھو بدعۃ حسنۃ وکم من شیئ کان احداثا وھو بدعۃ حسنۃ ۱؎ ۔

 

مصحف شریف میں سورتوں کے نام، اور آیتوں کی تعداد لکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور وہ اگر چہ نئی ایجاد اور بدعت ہے مگر بدعت حسنہ ہے اوربہت سی چیزیں ایسی ہیں جو نو ایجاد تو ہیں مگر بدعتِ حسنہ ہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ عالمگیری ( فتاوٰی ہندیہ)    باب آداب المسجد    مطبوعہ پشاور        ۵/ ۳۲۳)

 

امام ابن الہمام فتح القدیر میں رکعتیں قبل مغرب کا حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے ثا بت نہ ہونا ثابت کر کے بتاتے ہیں: ثم الثابت بعد ھذا ھو نفی المندوبیۃ اما ثبوت الکراھۃ فلا الاان یَّدُلَّ دلیل اخر ۲  ؎ ۔

 

پھر اس ساری بحث کے بعد صرف یہ ثابت ہوا کہ نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں مندوب ومستحب نہیں لیکن مکروہ ہونا ثا بت نہیں، ہاں اگر ثبوتِ کراہت پر کوئی اور دلیل ہو تو البتہ ۔(ت)

 

(۲؎ فتح القدیر        با ب النوافل         مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر   ۱ /۳۸۹)

 

مع ہذا حضرات مانعین زمانہ تین قرن تک اختیار تشریع مانتے ، اور مُحدثاتِ تابعین کو بھی غیر مذموم جانتے ہیں تو صرف فعل صحابہ سے استدلال ان کے طور پر بھی ناقص وناتمام ہے ف۱۔ کلام ان مباحث میں طویل ہے کہ ہم نے اپنے رسائل عدیدہ میں ذکر کیا یہاں بھی دوحرف مجمل کافی ہیں وباﷲ التوفیق۔

 

ف۱: مانعین کسی چیز کی ایجاد اور جائز ومشروع قراردینے کا اختیار صرف تین زمانوں تک محدود مانتے ہیں:

(۱) زمانہ رسالت    (۲) زمانہ صحابہ    (۳) زمانہ تابعین

ان کے اس نظریہ سے اتنا ثابت ہے کہ زمانہ تابعین کی ایجادات بھی بری نہیں، تو مصافحہ مذکورہ کی ممانعت کے ثبوت میں صرف صحابہ کرام کے نہ کرنے سے استدلال ناقص وناتمام ہے، اپنے ہی نظریہ کے مطابق یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ زمانہ تابعین میں بھی اس کا وجود وثبوت نہیں۔ (ت)

 

پنجم : ردالمحتار ومرقات کی یہ عبارتیں اگرجناب نے دیکھیں تو درر وغرر و کنزالدقائق و وقایہ و نقایہ و مجمع و منتقی واصلاح وایضاح وتنویر وغیرہا عامہ متونِ مذہب کے اطلاق ملاحظہ فرمائے ہوتے جنھوں نے مطلقاً بلاتقیید وتخصیص مصافحہ کی اجازت دی، درمختار وحاشیہ علامہ طحطاوی وشرح علامہ شہاب شلبی و فتح اﷲ المعین حاشیہ کنز وغنیہ ذوی الاحکام حاشیہ درر و حاشیہ مراقی الفلاح ونسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض ومجمع بحارا لانوار ومطالب المومنین ومسوی شرح مؤطا وتکملہ شرح اربعین علامہ برکوئی للعلامہ محمد آفندی وحدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ للعلامۃ النابلسی وفتوٰی امام شمس الدین بن امام سراج الدین حا نوتی  وغیرہم علمائے حنفیہ کی تصریحات جلیلہ بھی دیکھی ہوتیں کہ صاف صاف مصافحہ مذکورہ اور اسی طرح مصافحہ عید کو بھی جائز بلکہ مستحسن بلکہ سنت بتاتے ہیں۔

 

درمختار میں ہے: اطلاق المصنف تبعاللدرر والکنز والوقایۃ والمجمع والملتقی وغیرھا یفید جوازھا مطلقا ولوبعد العصر وقولھم انہ بدعۃ ای مباحۃ حسنۃ کما افادہ النووی فی اذکارہ وغیرہ فی غیرہٖ ۔۱؎

 

درر ، کنز، وقایہ، مجمع، ملتقی، وغیرہا کے اتباع میں مصنف نے بھی یہاں مصافحہ کا ذکر مطلق رکھا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مصافحہ مطلقا جائز ہے خواہ بعد عصرہی کیوں نہ ہو، اور لوگو ں کا یہ کہنا کہ وہ بدعت ہے تو اس سے مراد بدعت مباحہ حسنہ ہے ، جیسا کہ امام نووی نے اذکار میں اوردوسرے علماء نے دوسری کتابوں میں افادہ فرمایا ہے ۔(ت)

 

( ۱؎ درمختار     کتاب الحظروالا باحۃ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ۶/ ۳۸۱)

 

اصلاح وایضاح میں ہے: کُرہ تقبیل الرجل وعناقہ فی ازار  واحد وجاز مع قمیص کمصافحتہ۲؎ ۔

 

آدمی کابوسہ دینا اور معانقہ کرنا ایک ازار میں مکروہ ہے اور کرتا پہن کر ہو تو جائز ہے۔ جیسے مصافحہ جائز ہے ۔ (ت)

 

 (۲؎ اصلاح وایضاح    )

 

حدیقہ ندیہ میں ہے: بعض المتاخرین من الحنفیۃ صرّح بالکراھۃ فی ذلک ادعاء بانہ بدعۃ مع انہ داخل فی عموم سنۃ المصافحۃ مطلقا۔ ۳؎

 

بعض متاخرین حنفیہ نے اس مصافحہ کے بدعت ہونے کا دعوٰی کرتے ہوئے اسے صراحۃً مکروہ بتایا ہے باجود یکہ وہ مطلق مصافحہ کے عموم میں داخل ہو کر مسنون ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ الحدیقۃ الندیہ    الخلق الثامن والاربعون الخ        مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۲/ ۱۵۰)

 

مجمع البحارمیں ہے: ھِیَ مِنَ الْبِدَعِ الْمبَاحَۃِ ۱؎ ( یہ مصافحہ ان بدعتوں سے ہے جو مباح ہیں ۔ت)

 

 (۱؎ مجمع البحار الانوار    تحت لفظ صفح        مطبوعہ نو ل کشور لکھنؤ    ۲/ ۲۵۰)

 

آپ کی اسی ردالمحتارمیں بعد نقل عبارت امام نووی ہے: قال الشیخ ابوالحسن البکری وتقییدہ بما بعد الصبح والعصر علی عادۃ کانت فی زمنہ والافعقب الصلوات کلھا کذلک، کذافی رسالۃ الشُّرُنْبُلاَلیِ فی المصافحۃ ونُقِلَ مثلہ عن الشمس الحانوتی وانہ اَفتٰی بہ مستدلا بعموم النصوص الواردۃ فی مشروعیتھا وھو الموافق لما ذکرہ الشارح من اطلاق المتون ۲؎ ۔

 

شیخ ابوالحسن بکری فرماتے ہیں امام نووی نے بعد فجر و عصر کی قید کے ساتھ مصافحہ کا ذکر اس لئے فرمایا کہ ان کے زمانے میں یہی رائج تھا، ورنہ بعد فجر وعصر کی طرح تمام نمازوں کے بعد مصافحہ جائز ہے۔ یہی علامہ شرنبلالی کے اس رسالہ میں ہے جو انھوں نے مصافحہ کے بارے میں لکھا ہے اور اسی کے مثل علامہ شمس الدین حانوتی سے منقول ہے۔ انھوں نے جوازِ مصافحہ کے بارے میں وارد شدہ احادیث اور نصوص سے استدلال فرماتے ہوئے اس مصافحہ کے بھی جائز ہونے کا فتوٰی دیا ہے۔ اور یہی اس کے موافق ہے جو شارح ( صاحب درمختار علاء الدین حصکفی ) نے متونِ فقہ کا اطلاق ذکر کیا ہے ۔(ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار        کتاب الحظر والاباحۃ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶/ ۳۸۱)

 

شاہ ولی اﷲ دہلوی مسوّٰی میں کلامِ امام نووی نقل کرکے کہتے ہیں: اقول وھکذا ینبغی ان یقال فی المصافحۃ یوم العید ۳؎ ۔

 

میں کہتا ہوں جس طرح امام نووی نے مصافحہ بعد فجر وعصر کے جواز میں استدلال کیا ہے یہی استدلال مصافحہ روز عید میں بھی جاری ہونا چاہئے۔ (ت)

 

(۳؎ مسوّٰی        باب استحباب المصافحۃ     مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲/ ۲۲۱)

 

اوربعض نسخِ مسوی میں '' والمعانقۃ یوم العید ایضا '' ( اور روزعید کے '' معانقہ '' میں بھی ۔ ت) بھی ہے۔

 

''مناصحۃ فی تحقیق مسائل المصافحۃ ''میں تکملہ شرح اربعین سے ہے: لاوجہ لجواب ابن حجر الشافعی وقد سُئل عن المصافحۃ بعد الصلٰوۃ فقال ھی بدعۃ انتھی، لان حالۃ السلام حالۃ اللقاء لان المصلی لما احرم صار غائبا عن الناس مقبلا علی اﷲ تعالٰی، فلما ادی حقہ قیل لہ ارجع الی مصالحک وسلم علی اخوانک لقد ومک عن غیبتک، و لذلک ینوی القوم بسلام کما ینوی الحفظۃ واذاسلم یندب المصافحۃ اوتسن کالسلام، کما اجاب شیخ الاسلام شیخ مشائخنا شمس الدین محمد بن سراج الدین الحانوتی وقد رفع لہ ھذا السؤال فقال نص العلماء علی ان المصافحۃ للمسلم لا للکافر مسنونۃ من غیر ان یقیدوھا بوقت دون وقت لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام من صافح اخاہ والمسلم وحرّک یدہ تناثرت ذنوبہ و نزلت علیھا مأۃ رحمۃ تسعۃ وتسعون منھا لاسبقھما وواحدۃ لصاحبہ وقال ایضا مامن مسلمین یلتقیان فیتصافحان الا غفر لھما قبل ان یتفرقا فالحدیث الاول یقتضی مشروعیۃ المصافحۃ مطلقا اعم من ان تکون عقب الصلوات الخمس والجمعۃ و العیدین او غیر ذلک،۔ لان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لم یقیدھا بوقت دون وقت والدلیل العام عند الحنفیۃ اذا لم یقع فیہ تخصیص من الادلۃ الموجبۃ للحکم قطعا، کالدلیل الخامس وقالوا لدلیل العام یعارض الخاص لقوتہ۔ والدلیل ھھنا عام لان صیغۃ ''مَن '' من صیغ العموم وکذانقل عن شیخ مشائخنا العلامۃ المقدسی حدیث '' من صافح مسلما وقال عند المصافحۃ اللھم صل علی محمد وعلٰی آل محمد لم یبق من ذنوبہ شیئ'' فصیغتہ ایضا من صیغ العموم ذکرہ الشُّرُنْبُلَالی فی رسالتہ المسماۃ '' بسعادۃ اھل الاسلام'' ۱؎

 

علامہ ابن حجر شافعی نے مصافحہ بعدنماز سے متعلق جواب دیتے ہوئے اسے بدعت کہا ہے، ان کے اس جواب کی کوئی قابل قبول وجہ نہیں، اس لئے کہ مصافحہ بعد نماز بھی مصافحہ اول ملاقات ہے کیونکہ سلام نماز کی حالت ، حالتِ ملاقات ہے ۔ اس لئے کہ جب مصلی نے تحریمہ باندھ لیا تو انسانوں سے غیر حاضر اور خدا کی طرف متوجہ ہوگیا، پھر جب حقُّ اﷲ کی ادائیگی سے فارغ ہوا تو اس سے کہا گیاکہ اب اپنے کاموں اور مصالح کی طرف واپس ہو اور اپنے مسلمان بھائیوں کو سلام کر ، کیونکہ تو اپنی غیر حاضری اور غیبت سے آرہا ہے اسی لئے تو اپنے سلام میں لوگو ں کی بھی نیت کرے گا، جیسے محافظ فرشتوں کی نیت کرے گا، اور جب سلام کیا تو مصافحہ اس کے لئے مندوب یا مسنون ہے، جیسے سلام، اسی طرح شیخ الاسلام ہمارے مشائخ کے شیخ شمس الدین محمد بن سراج الدین حانوتی نے جواب دیا ہے ، ان کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا تھا توانھوں نے فرمایا علماء نے کافر سے تو نہیں مگر مسلمان سے مصافحہ کو کسی خاص وقت کی کوئی قید لگائے بغیر مسنون ہونے پر نص فرمایا ہے، اسی لئے کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے: '' جس نے اپنے مسلمان بھائی سے مصافحہ کیا اور اپنے ہاتھ کو حرکت دی تو اس کے گناہ جھڑتے ہیں ، اور دونوں پر کل سو (۱۰۰) رحمتیں نازل ہوتی ہیں، نناوے (۹۹) اس کے لئے جس نے مصافحہ میں سبقت وپیش قدمی کی اور

ایک اس کے دوسرے ساتھی کے لئے'' اور حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ '' جب دو مسلمان ایک دوسرے سے ملتے پھر مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت ہو جاتی ہے '' پہلی حدیث کامقتضٰی ہے کہ مصافحہ مطلقاً جائز ومشروع ہو، خواہ نماز پنجگانہ، جمعہ وعیدین کے بعد ہو یاکسی اور وقت، اس لئے کہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مصافحہ کو کسی خاص وقت سے مقید نہ فرمایا، اور حنفیہ کے نزدیک دلیل عام کا بھی وہی رتبہ ہے جو دلیل خاص کا ہے جبکہ دلیل عام کا حکم کو قطعی طور پر لازم کرنے والی دلیلوں سے کوئی تخصیص نہ ہوئی ہو، بلکہ وہ تو اس کے قائل ہیں کہ دلیل عام اتنی قوی ہوتی ہے کہ دلیل خاص کے معارض اور اس پر ترجیح یافتہ ہوا کرتی ہے ، اور یہاں دلیل مصافحہ بھی عام ہے، اس لئے کہ حدیث میں کلمہ '' مَن'' ہے جو صِیَغِ عموم سے ہے، یوں ہی ہمارے شیخ المشائخ علامہ مقدسی سے یہ حدیث منقول ہے ''جس نے کسی مسلمان سے مصافحہ کیا اور بوقت مصافحہ ( درود شریف) اللھم صل علٰی محمد وعلٰی آل محمد '' پـڑھا تو اس کے گناہوں سے کچھ باقی نہیں رہ جاتا '' اس حدیث کا صیغہ بھی عموم کا صیغہ ہے۔ اسے علامہ شرنبلالی نے اپنے رسالہ '' سعادۃ الاسلام '' میں ذکر کیا ہے ۔(ت)

 

(۱؎ مناصحۃ فی تحقیق مسألۃ المصافحہ )

 

علامہ سید ابو السعود ازہری حا شیہ کنز میں فرماتے ہیں؛ فی شرح لشھاب الشلبِی وما اعتادہ الناس بعد صلٰوۃ الصبح والعصر فلا اصل لہ لکن لابأس بہ ۱؎ الخ۔

 

شہاب الدین شلبی کی شرح میں ہے : نماز فجر وعصر کے بعد جو مصافحہ را ئج ہے اس کی کوئی اصل نہیں، مگر اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ فتح المعین حاشیہ علی شرح ملا مسکین کتاب الکراھیۃ   فصل فی الاستبراء   مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ۳ /۴۰۲ )

 

غنیہ حاشیہ غرر ودرر باب صلوٰۃ العیدین میں ہے:

 

المستحب الخروج ماشیا والرجوع من طریق اٰخر والتھنئۃ بتقبل اﷲ منا و منکم لَاننکر کما فی البحر وکذا المصافحۃ بل ھی سنۃ عقب الصلوات کلھا عند کل لقی ولنا فیھا رسالۃ سمیتھا سعادۃ اھل الاسلام بالمصافحۃ عقب الصلٰوۃ والسلام'' ۲؎۔

 

عیدکے دن عیدگاہ کو پیادہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا یہی مستحب ہے ۔ اور بالفاظ تَقَبَّلَ اﷲ مِنَّا وَ مِنْکُمْ ( اﷲ ہمارے تمھارے عمل قبول فرمائے) مبارکباد پیش کرنا کوئی منکر اور بُرا نہیں، جیسا کہ بحرالرائق میں ہے، اسی طرح مصافحہ بھی، بلکہ وہ تو تمام نمازوں کے بعد ہر ملاقات کے وقت سنت ہے اور اس بارے میں ''سعادۃ اھل الاسلام بالمصافحۃ عقب الصلوٰۃ والسلام '' نامی ہمارا ایک رسالہ ہے ۔(ت)

 

(۲؎ غنیۃ ذوی الاحکام حاشیہ غرر    باب صلوٰۃ العیدین            مطبوعہ احمد مصر       ۱/ ۱۴۲)

 

فتح اﷲ المعین علٰی شرح العلامۃ الملامسکین میں ہے: من المستحب اظھار الفرح والبشاشۃ ( الی قولہ) والتھنئۃبتقبل اﷲ منا ومنکم وکذا المصافحۃ بل ھی سنۃ عقب الصلٰوۃ کلھا و عند کل لقی۔ شرنبلالیۃ ۳؎ ۔

 

عید کے دن مسرت و خندہ روئی ظاہر کرنا اور تقبل اﷲ منا ومنکم ( اﷲ ہم سے اور تم سے قبول فرمائے) کے ذریعہ مبارک باد دینا مستحب ہے، اسی طرح مصافحہ بھی، بکہ یہ تو تمام نمازوں کے بعد اور ہر ملاقات کے وقت سنت ہے، شرنبلالیہ ۔(ت)

 

(۳؎ فتح المعین علی شرح العلامہ الملامسکین    باب صلوٰۃ العیدین            مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی      ۱/۳۲۵)

 

علامہ سید احمد طحطاوی حاشیہ نورالایضاح میں فرماتے ہیں: کذا تطلب المصافحۃ فھی سنۃ عقب الصلوات کلھا ۱؎

 

اسی طرح مصافحہ بھی مطلوب ہے بلکہ یہ تو تمام نمازوں کے بعد سنت ہے۔ (ت )

 

 (۱؎ حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح    باب العیدین        مطبوعہ نور محمد کراچی    ص ۲۸۸)

 

حاشیہ درمختار میں ہے: تستحب المصافحۃ بل ھی سنۃ عقب الصلوات کلھا وعند کل لقی، ابوالسعود عن الشُّرُنْبُلَالیۃ ۲؎ ۔

 

مستحب ہے مصافحہ ، بلکہ یہ تو نمازوں کے بعد اور ہر ملاقات کے وقت سنت ہے۔ ابوا لسعود عن الشرنبلالیہ ۔ (ت)

 

 (۲؎ حاشیہ طحطاوی علی الدرالمختار       باب العیدین             دارالمعرفۃ بیروت    ۱/ ۳۵۳)

 

افسوس کہ دو عبارتیں جناب نے دیکھیں، اور اتنی عباراتِ کثیرہ جو کہ جناب کے خلاف تھیں نظر سے رہ گئیں۔ خیر مانا کہ اس میں اکثر کتب مطالعہ سامی میں نہ آئی ہوں، آخر درمختار اور ردالمحتار تو پیش نظر تھیں، درمختار کی وہ عبارت ملاحظہ فرمائی ہوگی کہ مصافحہ مذکورہ بدعت حسنہ ہے۔ ردالمحتار میں رسالہ علامہ شرنبلالی کا کلام اور علامہ شمس الدین حانوتی کا فتوٰی دیکھا ہی ہوگا، سب جانے دیجئے ، یہ فتاوٰی لکھنؤ جوا ستناداً پیش فرمایا اسی میں یہیں یہیں یہ الفاظ موجود کہ علماء اس باب میں مختلف ہیں بعض بدعت مباحہ کہتے ہیں اور بعض بدعت مکروہہ۔ مسئلہ مصافحہ کا اختلافی ہونا پایا نہیں؟ بہت واضح راہ تھی کہ ترجیح تلاش فرمائی جاتی، جو قول مرجَّح نکلتا اُسی پر عمل کرنا تھا، اگر جناب کی نظر ترجیح تک نہ پہنچتی تو فقیر سے سنئے علامہ شہاب الدین خُفاجی حنفی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں: ھی بعد الصّلٰوۃ بدعۃ عندنا ، والاَ صَحُّ انھا مباحۃ لما فیھا من الاشارۃ الی انہ کانّ قدم من غیبۃ لانہ کان عند ربہ ینا جیہ فافھم ۳؎ ۔

 

یہ مصافحہ، نماز کے بعد ہمارے نزدیک بدعت ہے، اور صحیح تریہ ہے کہ مباح ہے کیونکہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ غَیبت اور غیر حاضری سے آیا ہے اس لئے کہ وہ اپنے رب کے حضور مصروفِ مناجات تھا۔ اسے سمجھو۔ (ت)

 

(۳؎ نسیم الریاض شرح شفاء)

 

ملاحظہ فرمائیے کیسی صاف تصریح ہےکہ مصافحہ مذکورہ کی اباحت ہی قولِ اصح ہے ، پھر اگر بالفرض دوسری طرف بھی تصحیح پائی جاتی ، تاہم، یہی قول مرجّح رہتاکہ خود باقرار ردالمحتار '' مذہب اباحت ہی موافقِ اطلاقِ مُتُون ہے'' ۔ اور خود انھیں  کی تصریح ہے کہ '' اختلافِ فتوٰی کے وقت اُسی قول پر عمل اولٰی جواِطلاقِ مُتون کے موافق ہو ''۔ حیث قال قد اختلف التصحیح والفتوی کما رأٰیت والعمل بما وافق اطلاق المُتُونِ اَوْلٰی ۔ بحر ۱؎۔

 

اُنھوں نے یُوں فرمایا کہ جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو تصحیح اور فتوٰی میں اختلاف ہوگیا، اور عمل اُسی پر اولٰی ہے جو اطلاق متون کے موافق ہو ،بحر (ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار    مطلب رسم المفتی    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی         ۱/۷۲)

 

درمختار میں ہے: علی المعتمد لانہ متی اختلف الترجیح رجح اطلاق المتون، بحر ۲؎ ۔

 

یہ حکم بربنائے مُعتمد ہے ، اس لئے کہ اختلاف ترجیح کے وقت اطلاقِ متون ہی کو تر جیح ہے، بحر (ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار    مطلب رسم المفتی    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/ ۷۷)

 

اور جب کہ ترجیح صرف اسی طرف ہے تو اب اس قول کا اختیار فَقاہت سے بالکل برطرف ہے،

 

درمختار میں ہے: امانحن فعلینا اتباع مارجّحوہ و صحّحوہ۔ ۳؎

 

ہم عام مقلدین پر تو بس اُسی کی پیروی کرنا ہے جسے ان بزگوں نے راجح وصحیح قرار دے دیا ۔(ت)

 

 (۳؎ ردالمحتار    مطلب رسم المفتی    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی         ۱/ ۷۴)

 

اسی میں ہے: الحکم والفُتیا بالقول المرجوح جھل و خرق للاجماع ۴؎ ۔

 

مرجوح قول پر حکم اور فتوٰی دینا جہالت اور اجماع کی مخالفت ہے۔ (ت)

 

 (۴؎ ردالمحتار    مطلب رسم المفتی    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی           ۱/ ۷۴)

 

الحمد ﷲ اب حق باحسن وجوہ واضح ہوگیا، اُمید کرتا ہوں کہ جناب بھی اب تو مصافحہ مذکورہ ومعانقہ عید کے جواز واباحت پر فتوٰی دیں گے اور اپنے تلامذہ کو ان امور جائزہ کے طعن وانکار سے باز رہنے کی ہدایت کریں گے واﷲُ الھادی وولیّ الاَ یادی۔

ششم : الحمدﷲ کہ ضمنِ تقریر میں مسئلہ مصافحہ بعدِ صلوٰۃ بھی صاف ہوگیا، اور تعلیلاتِ ثلٰثہ کا علیل ہونا بھی منکشف ہولیا، ثالث پر کلام تو صراحۃً گزرا اور اول کا جواب عبارتِ تکملہ شرح اربعین ونسیم الریاض سے واضح ہوا کہ بعد ختم نماز ملنا بھی ابتدائے لقاہے، ولہذا اس وقت سلام مشروع ہوا، تو مصافحہ کیوں نامشروع ہونے لگا۔ رہی تعلیل ثانی اس کے جواب کا اشارہ کلامِ فقیر میں گزرا مشابہت صرف ان تین صورتوں میں مذموم ہے ورنہ نہیں۔

تکمیلِ کلام: اتنا اور سُن لیجئے کہ کسی طائفہ باطلہ کی سنت جبھی تک لائقِ احتراز رہتی ہے کہ وہ ان کی سنت رہے، اور جب ان میں سے رواج اُٹھ گیا توا ن کی سنت ہونا ہی جاتا رہا، احتراز کیوں مطلوب ہوگا، مصافحہ بعد نماز اگر سنتِ روافض تھا تو اب ان میں رواج نہیں، نہ وہ جماعت سے نماز پڑھتے ہیں نہ بعد نماز مصافحہ کرتے ہیں، بلکہ شاید اول لقاء پر بھی مصافحہ ان کے یہاں نہ ہوکہ اِن اعدائے سُنن کو سنن سے کچھ کام ہی نہ رہا، توایسی حالت میں وہ علت سرے سے مُرتَفع ہے۔

 

درمختار میں ہے: یجعلہ لبطن کفّہ فی یدہ الیسرٰی ، وقیل الیمنٰی الاانہ من شعارالروافض فیجب التحرزعنہ، قھستانی وغیرہ، قلت ولعلہ کان وبان فتبصر ۱؎ ۔

 

 ( مرد) انگوٹھی بائیں ہاتھ میں ہتھیلی کی طرف کرے، اور کہا گیا دائیں ہاتھ میں پہنے، مگر یہ رافضیوں کا شعارہے، تواس سے بچنا ضروری ہے، (قہستانی وغیرہ) میں نے کہا یہ کسی زمانے میں رہاہوگا پھر ختم ہوگیا، تو اس پر غور کرلو ۔(ت)

 

             (۱؎ درمختار    کتاب الحظرو الاباحۃ     مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶ /۳۶۱)

 

ردالمحتار میں ہے: ای کان ذلک من شعار ھم فی الزمن السابق ثم انفصل وانقطع فی ھذہ الازمان فلا ینھٰی عنہ کیفما کان ۲؎۔

 

یعنی وہ گزشتہ زمانے میں ان کا شعار تھا پھر ان زمانوں میں نہ رہا اور ختم ہوگیا تواب اس سے ممانعت نہ ہوگی، جیسے بھی ہو ۔(ت)

 

(۲؎ ردالمحتار    کتاب الحظرو الاباحۃ     مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶/۳۶۱)

 

اب تو بحمد اﷲ سب شکوک کا ازالہ ہوگیا،

 

فاحفظ واحمد وکن من الشاکرین والحمد ﷲ ربّ العلمین

 

( تو اسے یاد رکھو اور حمد کرو اور شکر گزار بنو اور ساری تعریف اﷲ کے لئے ہے جو سارے جہانو ں کا پروردگار ہے۔ ت)

 

ممانعت نہ آئی ۔ اس طرح تمام مساعدت کی باتیں جبکہ ان سے دل خوش کرنا مقصود ہو، ایک گروہ کی رسم ہوگئی تو ان کی موافق کرنا کچھ حرج نہیں بلکہ موافقت ہی بہتر ہے مگر اُس صورت میں کہ صاف نہی وارد ہو جو قابل تاویل نہ ہو۔ (ت)

 

 (۲؎ احیاء العلوم    آداب السماع والوجد        مطبوعہ قاہرہ، مصر        ۲/ ۳۰۵)

 

دیکھئے اطبّائے قلوب رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے ارشاد یہ ہیں، اﷲ عزّوجل جسے نیک توفیق دے وہی ان نفیس الہٰی ہدایتوں پر عمل کرے۔

حضرات مانعین ان سے منزلوں دورہیں ولاحول ولاقوۃ الاّ باﷲ العلی العظیم

بالجملہ اگر آپ کو مرقات پر عمل ہے تو صاف تصریح فرمادیجئے کہ بعد عید جو شخص معانقے کو ہاتھ بڑھائے

اس سے انکار ہر گز نہ کیا جائے بلکہ فوراً معانقہ کرلیں، افسوس کہ مرقاۃ سے سند لانا تو بالکل الٹاپڑا۔ مجھے جناب کی بزرگی سے امید ہے کہ شاید مرقاۃ شریف خود ملاحظہ نہ فرمائی ہو بلکہ مانعین زمانہ عبارات میں قطع وبرید وسرقہ کے عادی ہیں، کسی سارق نے آدھی عبارت کہیں نقل کردی ہے آپ کے اعتماد پر اسناد کرلیا، اب کہ پوری عبارت پر مطلع ہوئے ضرور حق کی طرف رجوع فرمائے گا وَاﷲُ الْمُوَفّق۔

نہم: بحمد اﷲ تعالٰی ہماری تحقیقات رائقہ سے آفتاب روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ معانقہ عید کو بدعتِ مذمومہ سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ وہ سنت مباح کے اندر دائر ہے، یعنی من حیث الاصل سنت اور من حیث الخصوص مباح، اور بقصد حَسن محمود مُستَحسَن، تو ظاہر ہواکہ عبارت ردالمحتار : اِذَاتَرَدَّدَ الْحُکْمُ بَیْنَ سُنَّۃٍ وَّ بِدْعَۃ الخ ۱؎ جب حکم کسی سنت وبدعت کے درمیان دائر ہو تو ترک سنت کو ارتکاب بدعت پر ترجیح حاصل ہے ۔(ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار    مطلب اذاتردّد الحکم    مطبوعی ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ۱/ ۶۸۲)

 

کو اسی مسئلہ سے اصلاً تعلق نہیں کہ وہاں بدعت سے مراد بدعتِ مذمومہ ہے۔ جب تو اس سے بچنے کے لئے سنت کا چھوڑنا تک گوارا کیا ورنہ بدعت مباحہ سے بچنا خودہی مطلب نہیں، نہ کہ اس کے لئے سنت چھوڑ دینے کا حکم دیا جائے،

 

وھذا ظاھر علٰی کل من لہ حظامن عقل صفی  ( یہ ہر اس شخص یر عیار ہے جسے پسندیدہ اور خالص عقل سے کچھ حصہ ملا ہے ۔ت)

دہم: فتوٰی فقیر میں میاں اسمٰعیل دہلوی کی بھی عبارت تھی جس میں معانقہ عید کے مستحسن ہونے کی صاف تصریح ہے، اس سے جناب نے کچھ تعرض نہ فرمایا بلکہ مجموعہ فتاوٰی وعباراتِ ردالمحتار و مرقاۃ پیش فرمائیں۔ اس میں دو احتمال ہیں:

ایک وہ ، طائفہ مانعین جس کے خوگر ہیں یعنی ہفواتِ باطلہ وخرافات عاطلہ میں دہلوی مذکور کا امام اکبر مانتے ہیں اور جو باتیں وہ بعلت مناقضت جس کا اس کے یہاں حد سے زائد جوش و خروش ہے اصول و فروعِ طائفہ کے خلاف لکھتا ہے دیوار سے مارتے ہیں۔

دوم یہ کہ جناب کو اس سے کچھ کام نہیں جو کلام اس کا تصریحاتِ امثال مرقات وردالمحتار حتی کہ مولوی صاحب لکھنوی کے خلاف ہو قابل قبول نہیں۔ اگر شق اخیر مختار ہے اور جناب کی انصاف پسندی سے یہی مامول، توصراحۃً اس کی تصریح فرمادیجئے کہ جو مسائل تقویۃ الایمان وصراطِ مسقیم وایضاح الحق وغیرہا تصانیف شخص مذکور، مولانا علی قاری وعلاّمہ شامی یہاں تک کہ مولوی صاحب لکھنوی او ران کے امثال کی تصریحات سے رد ہوتے ہیں ان کا بطلان تسلیم فرماتے جائیے، امید کرتا ہوں کہ بہت مسائل نزاعیہ جن میں جہلائے مانعین کو بے حد شور وشغب ہے یوں بَاحْسَنِ وُجُوہ انفصال پائیں گے اور ہم آپ بتوفیقہٖ تعالٰی شخص مذکور کی ضلالتِ عقائد وبطالت مکائد پر متفق ہو کر حقِ ناصح کے اعلان میں باہم مُمِدّ ومعاون یک دیگر ہوجائیں گے۔

 

وباﷲ التوفیق والوصول الٰی سواء الطریق، واٰخردعوٰنا ان الحمد ﷲ رب العٰلمین، والصلٰوۃ والسلام علٰی سیدن المرسلین محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین، اٰمین!

 

اور اﷲ ہی کی طرف سے توفیق اور سیدھی راہ تک رسائی ہے، اور ہماری آخری پکار یہ ہے کہ ساری تعریف اﷲ کے لئے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ، اور درود وسلام ہو رسولوں کے سردار محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور ان کی آل واصحاب سب پر ۔ خدا وند قبول فرما۔ (ت)

 

کتبہ، عبدہ المذنب احمد رضا البریلوی عُفِیَ عنہ بمحمد المصطفی النبی الامی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم

 

Post a Comment

Previous Post Next Post