Eid ki Namaz ke baad hath utha kar dua mangne ka Suboot | Risala Suroorul Eid by AalaHazrat

سرور العید السعید فی حل الدعاء بعد صلٰوۃ العید(۱۳۳۹ھ)

(نمازِ عید کے بعد ہاتھ اٹھا کر دُعاء مانگنے کا ثبوت)

 

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

 

مسئلہ نمبر ۱۴۱۳:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مولوی عبدالحی صاحب لکھنوی نے اپنے فتاوٰی  کی جلد ثانی میں یہ امر تحریر فرمایا کہ بعد دوگانہ عیدین یا بعد خطبہ عیدین دُعا مانگناحضور سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم و صحابہ وتابعین رضوان اﷲ تعالٰی  علیہم اجمعین سے کسی طرح ثابت نہیں اب وہابیہ نے اس پر بڑا غل شور کیا ہے دعائے مذکور کو ناجائز کہتے اور مسلمانوں کواس سے منع کرتے اور تحریر مذکور سے سند لاتے ہیں کہ مولوی عبدالحی صاحب فتوٰی  دے گئے ہیں اُن کی ممانعتوں نے یہاں تک اثر ڈالا کہ لوگوں نے بعد فرائض پنجگانہ بھی دعا چھوڑ دی اس بارے میں حق کیا ہے؟بینو توجروا۔

 

الجواب  :

 

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ۵ الحمدﷲ الذی حبّبناالعید وجعلہ مقر با لکل بعید و امرنا بالدعاء فی الیوم السعید ووعدنا بالاجابۃ فی الکلام الحمید والصلٰوۃ والسلام علی من وجہہ عید ولقاؤہ عید ومولدہ عید وای عیدوعلٰی اٰلہ الکرام وصحبہ العظام مادعااﷲ فی العید عبدسعید وتعانق النور والسرور غداۃ العید واشھدان لاالٰہ الااﷲوحدہ لاشریک لہ وان محمد عبدہ ورسولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہ وصحبہ من  یوم  اَبْدأ  الٰی یوم یعید اٰمین اٰمین یا عزیز یامجید۵۔

 

اﷲ کے نام سے شروع جو رحمٰن ورحیم ہے سب تعریف اﷲ تعالٰی  کے لئے جس نے ہمارے لئے عید کو محبوب بنایا اور اسے ہربعید کوقریب کرنیوالا بنایا، یومِ سعید میں دعاکا حکم دیا، کلامِ حمید میں قبولیت کا وعدہ فرمایا ،اور صلوۃ وسلام ہواس ذاتِ اقدس پر جس کا چہرہ عید، دیدار عید، میلاد عید، آپ کی آل محترم اورصحابہ عظام

پر بھی جب تک کوئی عبدسعید،عید کے موقع پر دعا کرنے والا ہے اورجب تک عید کی صبح کو نوروسرور باہم پائے جائیں ،میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ وحدہ، لاشریک ہے اورحضرت محمد صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم اﷲ کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں آپ کی ذات، آل اورصحابہ پر درود وسلام ابتدائی دن سے لے کر آخری دن تک ہو۔اے غالب اے صاحبِ مجد ! دعاقبول فرما دعاقبول فرما ۔(ت)

 

اللھم ھدایۃ الحق والصواب  (اے اﷲ حق اور صواب کی ہدایت عطا فرمادے۔ت)

 

نماز عیدین کے بعد دُعا حضراتِ عالیہ تابعین عظام ومجتہدین اعلام رضی ا ﷲ تعالٰی  عنہم سے ثابت، قال الفقیر عبدالمصطفٰی احمد رضاالمحمدی السنی الحنفی القادری البرکاتی البریلوی غفراﷲ لہ وحقق املہ، انبانا المولی عبدالرحمٰن السراج المکی مفتی بلداﷲ الحرام ببیتہ عندباب الصفالثمان بقین من ذی الحجۃ سنۃ خمس وتسعین بعد الالف والمائتین فی سائر مرویاتہ الحدیثیۃ والفقھیۃ وغیرذلک عن حجۃ زمانۃ جمال بن عبداﷲ بن عمر المکی عن  الشیخ الاجل عابدالسندی عن عمہ محمد حسین الانصاری اجازنی بہ الشیخ عبد الخالق بن علی المزجاجی قراءۃ علی  الشیخ محمد بن علاء الدین المزجاجی  عن احمدالنخلی عن محمد الباھلی عن سالم السنوری عن النجم الغیطی عن الحافظ زکریاالانصاری عن الحافظ ابن حجرالعسقلانی انابہ ابو عبداﷲ الجریری اناقوام الدین الاتقانی انا البرھان احمد بن سعد بن محمد البخاری والحاکم السفتاقی قالاابنانا حافظ الدین محمد بن محمد بن نصر البخاری ھوحافظ الدین الکبیر ابنانا الامام محمد بن عبدالستار الکردری ابنانا عمر بن عبدالکریم الورسکی انا عبدالرحمٰن بن محمد الکرمانی انابوبکرمحمد بن الحسین من محمد ھوالامام مخر القضاۃ الارشابندی اناعبداﷲ الزوزنی اناابوزید الدبوسی اناابوجعفرالاستروشنی ح وابنأنا عالیا (عہ۱ )باربع درج شیخی وبرکتی وولی نعمتی ومولائی وسیدی وذخری وسندی لیومی وغدی سیدناالانام الھمام العارف الاجل العالم الاکمل السید اٰل الرسول الاحمدی المارھری رضی اﷲ تعالٰی عنہ وارضاہ وجعل الفردوس متقلبہ ومشواہ لخمس خلت من جمادی الاولٰی سنۃ اربع وتسعین بدارہ المطھرۃ بمارھرۃ المنورۃ فی سائر یجوزلہ روایتہ عن استاذہ عبدالعزیز المحدث الدھلوی عن ابیہ عن الشیخ الدین القلعی مفتی الحنفیۃ عن الشیخ حسن العجمی عن الشیخ خیرالدین الرملی عن الشیخ محمد بن سراج الدین الخانوتی عن احمد بن الشبلی عن ابراہیم الکرکی یعنی صاحب کتاب الفیض عن امین الدین یحٰی ی بن محمد الاقصرائی عن الشیخ محمد بن محمد البخاری الحنفی یعنی سیدی محمد پارسا صاحب فصل الخطاب عن الشیخ حافظ الدین محمد بن محمد بن علی البخاری الطاھری عن الامام صدرالشریعۃ یعنی شارح الوقایہ عن جدہ تاج الشریعۃ عن والدہ صدرالشریعۃ عن والدہ جمال الدین المحبوبی عن محمد بن ابی بکر البخاری عرف بامام زادہ عن شمس ائمۃ الحلوانی کلاھما عن الامام الاجل ابی علی النسفی امام حلوانی فقالا عن ابی علی وذلک عنعن الی نھایۃ الاسناد وامالاستروشنی فقال انا ابوعلی الحسین بن خضرالنسفی انا ابوبکر محمد بن الفضل البخاری ھوالامام الشہیربالفضل اناابومحمد بن عبداﷲ بن محمد بن یعقوب الحارثی یعنی استاذ السند مونی انا عبداﷲ محمد بن ابی حفص الکبیر انا ابی انامحمد بن الحسن الشیبانی اخبرنا ابوحنیفۃ عن حماد عن ابراہیم قال کانت الصلٰوۃ فی العیدین قبل الخطبۃ ثم یقیف الامام علی راحلیہ بعد الصلوۃ فید عوویصلی بغیر اذان ولا اقامۃ۱ ؎۔

 

 (۱؎ کتاب الآثار للامام محمد باب صلٰوۃ العیدین مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ص۴۱)

 

فقیر عبدالمصطفٰی  احمد رضا محمدی سنّی حنفی قادری برکاتی بریلوی(اﷲ تعالٰی  اس کو بخش دے اوراسکی امید بر لائے) کہتا ہے کہ ہمیں شیخ عبدالرحمن السراجی مکی مفتیِ بلداﷲ الحرام نے باب صفا کے پاس اپنے گھر ۲۲ذوالحجہ ۱۲۹۵ھ کو اپنی تمام مرویات کی اجازت دی خواہ وُہ حدیث کی صورت میں تھیں یا فقہ کی صورت میں یااس کے علاوہ تھیں انھیں مرویات کی اجازت حجتِ زمانہ جمال بن عبداﷲ بن عمر مکی نے دی انہیں شیخ اجل عابد سندی نے انہیں ان کے چچا محمد حسین  انصاری نے دی،اس نے کہا مجھے ان کی اجازت  شیخ عبد الخالق بن مزجاجی نے، انھیں شیخ محمد بن علاء الدین مزجاجی سے قرأۃ کے طور ،انہیں احمد نخلی نے انہیں محمد باہلی نے  انھیں سالم سنوری نے انھیں حافظ زکریا انصاری  نے انہیں حافظ ابن حجر عسقلانی نے انہیں ابوعبداﷲجریری نے انہیں قوام الدین اتقانی نے انہیں برہان احمدبن سعدبن محمد البخاری اورحسام السفتاقی نے انہیں حافظ الدین محمد بن محمد بن نصر بخاری نے یہی حافظ الدین الکبیر ہیں انہیں عبدالستار الکردری نے انہیں عمر بن عبدالکریم الورسکی نے انہیں عبدالرحمن بن محمد الکرمانی نے انہیں ابوبکر محمد بن الحسین بن محمد نے جو فخرالقضاۃ الاشار بندیهيں انہیں عبداﷲ الزورنی نے انہیں ابو زید الدبوسی نے انہیں ابوجعفرا لاستروشی نے ''دوسری سند'' جو چار درجے عالی ہے میرے شیخ ،میری برکت، میرے دل، سیدی ذخری آج وکل کے لئے میر ا اعتماد سیّدنا امام ہمام عارف اجل اصل العالم الاکمل السیّد آل الرسول الاحمدی المارہری رضی اﷲ تعالٰی  عنہ و ارضاہ اﷲ تعالٰی  (اﷲ ان کا ٹھکانہ جنت الفردوس میں بنائے ) نے مارھرہ منورہ میں اپنے آستانے پر ۵ جمادی الاولٰی ۱۲۹۴ھ کو تمام روایات کی اجازت دی جو انہیں ان کے استاد شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی انہیں اپنے والد گرامی سے انہیں شیخ تاج الدین القلعی مفتی حنفیہ نے انہیں شیخ حسن عجمی نے انہیں شیخ خیرالدین رملی نے انہیں شیخ محمد بن سراج الدین الخانوتی نے انہیں احمد بن شبلی نے انہیں ابراہیم الکرکی صاحب کتاب الفیض نے انہیں امین الدین یحیٰی  بن محمد قصرائی نے انہیں شیخ محمد بن  محمد البخاری الحنفی یعنی سیدی محمد پارسا صاحبِ فصل الخطاب نے انہیں شیخ حافظ الدین محمد بن محمدبن علی بخاری طاھری نے انہیں امام صدرالشریعۃ یعنی شارحہ الوقایہ نے انہیں ان کے جد تاج الشریعۃ نے اپنے والد صدر الشریعۃ سے انہیں ان کے والدجمال الدین محبوبی نے انہیں محمد بن ابی بکر بخاری المعروف امام زادہ نے انہیں شمس الائمہ الزر تجری نے انہیں شمس الائمہ حلوانی نے اوران دونوں کے امامم اجل ابوعلی نسفی سےان دونوں نے کہا عن ابی علی ،اسی طرح انہوں نے تمام سند کو عن کےساتھ بیان کیا،استروشنی نے کہا ہمیں ابوعلی الحسین بن خضرالنسفی انہیں ابوبکر محمد بن الفضل بخاری اوریہ امام فضل کے ساتھ مشہور ہیں انہیں ابو محمد عبداﷲ بن محمد یعقوب الحارثی یعنی الاستاذ السند مونی انہیں عبداﷲ محمد بن ابی حفص الکبیر انہیں ان کے والد نے انہیں محمد بن حسن الشیبانی نے انہیں امام ابو حنیفہ نے انھیں حماد نے انھیں  ابراہیم نے بیان کیا کہ عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے ادا ہوتی پھر نماز کے بعد امام سواری پر کھڑے ہوکر دُعا کرتا تھا۔نماز اذان واقامت کے بغیر ہوتی تھی۔(ت)

 

عہ ۱ :  انظر الی لطافۃ ھذاالسند الجلیل وجلالۃ شأنہ فان رجالہ کلمھم من سیدنا الشیخ الی صاحب المذہب الامام الاعظم جمیعا من اجلۃ اعلام الحنفیۃ ومشاہیر واکثرھم اصحاب تالیفات فی المذھب ۱منہ (م)

 

اس سند جلیل کی لطافت اور شانِ جلالت مین غور کرو کہ اس کے رجال سیدنا شیخ سے صاحبِ مذہب امامِ اعظم تک سارے کے سارے معروف و مشہور حنفی ہیں اوران میں سے اکثر اصحاب کی مذہب میں تالیفات موجود ہیں۱۲منہ (م)

 

یعنی سیّدنا امام محمد رحمۃ اﷲ تعالٰی  علیہ فرماتے ہیں مجھےامام اعظم الائمہ ابو حنیفہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ نے امام اجل حماد بن ابی سلیمان رحمۃ اﷲ تعالٰی  علیہ سے خبر دی کہ امام المجتہدین امام ابراہیم نخعی رحمۃ اﷲ تعالٰی  علیہ نے فرمایا نمازِ عیدین خطبہ سے پہلے ہوتی تھی پھرا مام اپنے راحلہ پروقوف کرکے نماز کے بعد دُعا مانگتا اور نماز بے اذان واقامت ہوتی، یہ امام ابراہیم نخعی قدس سرہ، خود اجلۂ تابعین سے ہیں تو یہ طریقہ کہ اُنہوں روایت فرمایا لاقل اکابرتابعین کا معمول تھا تو نمازِ عیدین کے بعد دُعا مانگنا ائمۂ تابعین کی سنّت ہُوا اور پُر ظاہر کہ راحلہ پر وقوف وعدم وقوف سنتِ دُعاکی نفی نہیں کرسکتا کمالایخفی ،پھر ہمارے امام مجتہد امام محمد اعلی اﷲ درجاتہٖ فی دارالابدنے کتاب الآثار شریف میں اس حدیث کو روایت فرما کر مقرر رکھا اوران کی عادت کریمہ ہے جواثر اپنے خلاف مذہب ہوتا اُس پر تقریر نہیں فرماتے تو حنفیۂ اہل عقیدۂ مضمون ووہابیہ اہل تثلیث قرون، دونوں کے حق میں جوابِ مسئلہ اسی قدر بس ہے مگر فقیر غفرلہ الولی القدیر ایضاح مرام واتمام ِ کلام کے لئے اس مسئلہ میں مقال کو دو۲ عید پر منقسم کرتا ہے۔

عیدِ اوّل میں قرآن وحدیث سے اس دُعا کی اجازت اور ادعائے مانعین کی غلطی و شناعت۔

عیدِدوم فتوائے مولوی لکھنوی سے اسناد پر کلام اور اوہام مانعین کا ازالۂ تام

 

والعون من اﷲ ولی الانعام (مدد اﷲ کی جو انعام عطا کرنے والا ہے۔ت)

 

العید الاول وعلی فضل اﷲ المعول (عید اول، اﷲ ہی کے فضل پر بھروساہے۔ت) ظاہر ہے کہ شرع مطہر سے اس دعا کی کہیں ممانعت نہیں اور جس امر سے شرع نے منع نہ فرمایا ہرگز ممنوع نہیں ہوسکتا،جو ادعائے منع کرے اثبات  ممانعت اس کے ذمہ  ہے جس سے ان شاء اللہ تعالٰی  کبھی عہدہ برآ نہ ہوسکے گا بقاعدہ مناظرہ ہمیں اسی قدر کہنا کافی ، اور اسانید سائل کامژدہ لیجئے تو جو کچھ قرآن وحدیث سے قلبِ فقیر پر فائز ہُوابگوشِ ہوش استماع کیجئے۔

 

فاقول وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق (اﷲ ہی کی توفیق ہے اور اُسی سے تحقیق تک وصول ہوتا ہے۔ت)

 

اولا   : قال المولٰی سبحٰنہ وتعالٰی   : فاذافرغت فانصب o والٰی ربک فارغب o۱؎۔ جب تو فراغت پائے تو مشقت کر اور اپنے رب کی طرف راغب ہو

 

(۱؎ القرآن     ۹۴/ ۷و۸)

 

اس آیۂ کریمہ کی تفسیر میں اصح الاقوال قول  حضرت امام مجاہد تلمیذ رشید سلطان المفسرین حبرالامۃ عالم القرآن حضرت سیّدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہم ہے کہ فراغ سے مراد نماز سے فارغ ہونا اورنصب دعامیں جدجہد کرنا ہے یعنی باری عزوجل حکم فرماتا ہے جب تو نماز پرھ چکے تو اچھی طرح دُعامیں مشغول ہو اور اپنے رب کے حضور الحاح وزاری کر۔

 

تفسیر شریف جلالین میں ہے: فاذافرغت من الصلٰوۃ فانصب''تعب فی الدعاء،والٰی ربک فارغب''تضرع''۔۲؎

 

جب تو نماز سے فارغ ہو تو دعا میں تعب اور مشقت کر اور اپنے رب کے سامنے تضرع وزاری بجالا۔

 

(۲؎ جلالین کلاں      سورہ الم نشرح میں مذکور ہے        مطبوعہ اصح المطابع دہلی ہند      ۲ /۵۰۲)

 

خطبہ جلالین میں ہے : ھذا تکلمۃ تفسیرالامام جلال الدین المحلی علی نمطہ من الاعتماد علی ارجح الاقول وترک التطویل بذکر اقول غیر مرضیۃ ۳؎ اھ ملخصا

 

یہ تفسیر امام جلال الدین محلی کاتکملہ ہے جو انہیں کے طریقہ پر ہے یعنی راجح اقول پر اعتماد اور اقوال ضعیفہ کے ذکر سے بچتے اھ ملخصاً(ت)

 

(۳؎ جلالین کلاں    خطبۃ الکتاب   مطبوعہ اصح المطابع دہلی ہند         ۱/ ۴)

 

علامہ زرقانی شرح مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں۔ ھوالصحیح فقد اقتصرعلیہ الجلال وقد التزم الاقتصار علی ارجح الاقوال۴؎۔

 

یہی صحیح ہے اسی جلال نے اکتفاء کیا ہے حالانکہ انہوں نے یہ التزام کر رکھا کہ راجح اقوال ذکر کریں گے۔(ت)

 

(۴؎ شرح الزرقانی علی مواہب اللدنیہ المقصد الثانی فی اسمائہٖ    مطبوعہ مصر    ۳/ ۱۹۵)

 

اور پُرظاہر کہ آیۂ کریمہ مطلق ہے اورباطلاقہا نماز فرض وواجب ونفل سب کو شامل تو بلاشبہہ نماز عیدین بھی اس پاک مبارک حکم میں داخل ،یونہی احادیث سے بھی ادبار  صلوات کا مطلقاً محلِ دُعا ہونا مستفاد،و لہذا علماء بشہادت حدیث نماز مطلق کے بعد دُعا مانگنے کو آداب سے گنتے ہیں ،امام شمس الدین محمد ابن الجرزی حصن حصین اورمولانا علی قاری اُس کی شرح حزرثمین میں فرماتے ہیں: والصلٰوۃ ای ذات الرکوع والسجود والمراد ان یقع الدعاء المطلوب بعدھا۱؎۔

 

یعنی آداب سے ہے کہ مطلب کی دعا بعد نماز ذات رکوع وسجود واقع ہو۔

 

 (۱؎ حواشی حصن حصین  آداب الدعاء حاشیہ ۲۱۲   مطبوعہ افضل المطابع لکھنؤ        ص۹)

 

پھر فرمایا: عہ حب مس ای رواہ الاربعۃ وابن حبان والحاکم کلھم من حدیث الصدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ۲؎۔

 

یعنی یہ ادب حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کی اُس حدیث سے ثابت ہے جسے ابوداؤد ونسائی و ترمذی وابن ماجہ وابن حبان و حاکم نے صدیق اکبر رضی تعالٰی  عنہ سے روایت کیا۔

 

(۱؎ حواشی حصن حصین  آداب الدعاء حاشیہ۲۲    مطبوعہ افضل المطابع لکھنؤ        ص۹)

 

اقول یونہی یہ حدیث ابن السنی وبیہقی کے یہاں مروی اور صحیح ابن خزیمہ میں بھی مذکور،امام ترمذی نے اسکی تحسین کی۔ظاہر ہے کہ نماز ذات رکوع وسجود ،نماز جنازہ کے سوا ہر فرض وواجب ونافلہ کو شامل جن میں نمازِعیدین بھی داخل ۔

 

ثم اقول وباﷲ التوفیق  (پھر میں اﷲ کی توفیق سے کہتا ہوں ۔ت) اصل یہ ہے کہ اعمال صالحہ وجہ رضائے مولٰی  جل وعلاہوتے ہیں اور رضائے مولٰی  تبارک وتعالٰی  موجبِ اجابتِ دُعااور اس کا محل عمل صالح سے فراغ پاکر کما قال تعالٰی

فاذافرغت فانصب ۳؎

 

(جیسا کہ اﷲ تعالٰی  کا فرمان ہے :پس جب آپ فارغ ہوں تو مشقت کرو۔ت)

 

 (۳؂القرآن        ۹۴/۷)

 

ولہذا حدیث میں آیا حضور صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا: الم تر الی العمال یعملون فاذافرغوامن اعمالھم وفوا اجورھم۴؎۔رواہ البیھقی عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما فی حدیث طویل۔

 

کیا تُو نے نہ دیکھا کہ مزدور کام کرتے ہیں جب اپنے عمل سے فارغ ہوتے ہیں اُس وقت پوری مزدوری پاتے ہیں۔اسے بیہقی نے احادیث طویل کی صورت میں حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روایت کیا ہے۔

 

 (۴؎ شعب الایمان    باب فی الصیام۔حدیث ۳۳۶۰۳۶۰۳    مطبوعہ دارالفکر یروت    ۲/۳۰۳)

 

دوسری حدیث میں ہے : العامل انما یوفی اجرہ اذا قضی عملہ ۱؎۔رواہ احمد والبزار والبیھقی وابوشیخ فی الثواب عن ابی ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ فی حدیث۔

 

عامل کو اُسی وقت اجرِکامل دیا جاتا ہے جب عمل تمام کرلیتاہے۔اسے امام احمد،بزار، بیہقی اور ابولشیخ نے ثواب میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روایت کیا ہے۔

 

(۱؎ مسند احمد بن حنبل مروی ازابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ مطبوعہ دارالفکربیروت   ۲/ ۲۹۲)

 

تو سائل کے لئے بیشک بہت بڑا موقع دعا ہے کہ مولٰی  کی خدمت وطاعت کے بعد اپنی حاجات عرض کرے ولہذواردہُوا کہ ہر ختم ِ قرآن پر ایک دُعامقبول ہےبیہقی وخطیب و ابونعیم وابن عساکر انس رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے راوی ،حضور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: مع کل ختمۃ دعوۃ مستجابۃ۲؎۔

ہر ختم کےساتھ ایک دعا مستجاب ہے۔

 

(۲؎ شعب الایمان باب فی تعظیم القرآن حدیث۲۰۸۶مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت   ۲/۳۷۴)

 

طبرانی معجم کبیر میں عرباض بن ساریہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روای حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: من ختم القراٰن فلہ دعوۃ مستجابۃ۳؎۔ جو قرآن ختم کرے اس کے لئے ایک دُعامقبولہ ہے۔

 

(۳؎ المعجم الکبیر  مروی از عرباض بن ساریہ حدیث ۶۴۷  مطبوعہ مکتبہ فیصلیہ بیروت   ۱۸/۲۵۹)

 

اسی لئے روزہ دار کے حق میں ارشاد ہوا کہ افطار کے اس وقت اس کی ایک دعا رد نہیں ہوتی۔امام احمد ،مسنداورترمذی بافادہ تحسین جامع اور ابنائےماجہ و حبان و خزیمہ اپنی صحاح اوربزاز مسند میں حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے راوی حضور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: ثلثۃ لاترددعوتھم الصائم حین یفطر۴؎ الحدیث۔

 

تین ۳ شخصوں کی دُعا رد نہیں ہوتی ایک اُن میں روزہ دار جب افطار کرے۔الحدیث

 

 (۴؎ سنن ابن ماجہ    باب فی الصائم لاترددعوتہ الخ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۲۶)

 

ابن ماجہ وحاکم حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے راوی حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا: ان للصائم عند قطرہ لدعوۃ ماترد ۵؎۔ بیشک روزہ دار کے لئے وقتِ افطار بالیقین ایک دُعا ہے کہ رَد نہ ہوگی۔

 

 (۵؎ سنن ابن ماجہ    باب فی الصائم لاترددعوتہ الخ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۲۶)

 

امام حکیم ترمذی حضر ت عبداﷲ بن عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے راوی حضور پُرنورصلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ہر روزہ دار بندے کے لئے افطار کے وقت ایک دُعامقبول ہے خواہ دنیا میں دی جائے یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ رکھی جائے۔

 

 (۱؎ نوادرالاصول  الاصل الستون فی ان للصائم دعوۃ الخ مطبوعہ دارصادر بیروت ص۸۳)

 

وفی الباب احادیث اُخراوربالیقین یہ فضیلت روزہ فرض واجب ونفل سب کوعام کہ نصوص میں قید و خصوص نہیں۔ ولہذاامام عبدالعظیم منذری نے دو حدیث پیشین کو الترغیب فی الصوم مطلقاً میں ایراد فرمایا، اورعلامہ مناوی نے تیسیر شرح جامع صغیر میں زیرِ حدیث باب مروی عقیلی و بیہقی عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم بعد لفظ دعوۃ الصائم (روزہ دار کی دعاء۔ت) کے ولو نفلا۲؎(اگر چہ وہ نفلی روزہ ہو۔ت) تحریر کیا تو بلاشبہہ نماز بھی کہ افضل اعمال واعظم ارکانِ اسلام اورروزے سے زائد موجب رضائے ذوالجلال والاکرام ہے یُونہی اپنے عموم واطلاق پر رہے گی اور بعد فراغ محلیت دعاصرف فرائض سے خاص نہ ہوگی، اور کیونکر خاص ہو حالانکہ خودحضور پُرنور سیّدعالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے ہر دورکعت نفل کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا مانگنے کاحکم دیااور فرمایا :جو ایسا نہ کرے اُس کی نماز ناقص ہے

 

 (۲؎ تیسیر شرح الجامع صغیر حدیث ثلاث دعوات مستجابات  مطبوعہ مکتبۃ الامام الشافعی الریاض  ۱/۴۶۷)

 

ترمذی ونسائی و ابن خزیمہ حضرت فضیل ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہما اوراحمد وابوداؤد و ابن ماجہ حضرت مطلب بن ابی وداء رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے راوی حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: الصلوۃ مثنی مثنی  تشھدفی کل رکعتین وتخشع وتضرع وتمسکن وتفنع یدیک یقول ترفعھاالی ربک مستقبلا ببطونھما وجھک وتقول یارب یارب من لم یفعل ذلک فھی کذاوکذا۳؎۔

 

یعنی نماز نفل دو۲دو۲ رکعت ہے ہر دو۲ رکعت پر التحیات اورخضوع وزاری وتذلّل ،پھر بعدسلام دونوں ہاتھ اپنے رب کی طرف اُٹھا اور ہتھیلیاں چہرے کے مقابل رکھ کر عرض کر اے میرے رب اے رب میرے جوایسا نہ کرے تووہ نماز چنیں وچناں یعنی ناقص ہے۔

 

 (۳؎ جامع الترمذی باب ماجاء فی التخشع فی الصلٰوۃ مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ا/۵۰و۵۱)

 

مطلب رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کی روایت میں مصرحاً آیا ـ: فمن لم یفعل ذلک فھوخداج۴؎ جو ایسانہ کرے اُس کی نماز میں نقصان ہے۔

 

 (۴؎ مسند احمد بن حنبل    حدیث مطلب رضی اﷲ تعالٰی  عنہ    مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۴/ ۱۶۷)

 

علامہ طاہرتکملہ مجمع  بحا رالانوار میں فرماتے ہیں: فیہ ثم تقنع یدیک وھوعطف علی محذوف ای اذافرغت منھا فسلم ثم ارفع یدیک سائلا فوضع الخبر موضع الامر۱؎۔

 

پھر ہتھیلیاں چہرے کے مقابل کرے اس کا عطف محذوف پر ہے یعنی جب ان دو۲ رکعتوں سے فارغ ہو اور سلام کہے تو دعا کے لئے ہاتھ بلند کرے یہاں خبر امرکی جگہ مذکور ہے۔(ت)

 

(۱؎ تکلمہ بحارالانوار ملحق بمع البحار    تحت لفظ قنع    مطبوعہ منشی نولکشور لکھنؤ    ص۱۴۷)

 

تیسیر میں ہے : ای اذافرغت منھما فسلم ارفع یدیک فوضع الخبر موضع الطلب۲؎ الخ۔

 

یعنی جب ان دو۲ رکعات سے فارغ ہوں پس سلام کہے پھر ہاتھ اٹھائے یہاں خبر،طلب کی جگہ ہے الخ(ت)۔

 

 (۲؎ تیسیر شرح الجامع الصغیر    حدیث صلٰوۃ الیل مثنی مثنی الخ   مکتبہ الامام الشافعی الریاض        ۲ /۹۹)

 

لاجرم جبکہ حصن حصین میں اس حدیث ابی اما مہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف برمز ترمذی ونسائی نے اشارہ  کیا کہ

 

قلنا یارسول اﷲ ای الدعاء اسمع قال جوف الیل الاٰخروبرالصلوات المکتوبات۳؎

 

 (ہم نے عرض کی یارسول اﷲ! کون سی دُعا زیادہ سُنی جاتی ہے،فرمایا رات کے نصف اخیر میں اور فرض نمازوں کے بعد)

 

 (۳؎ حصن حصین    اوقات الاجابۃ    مطبوعہ افضل المطابع لکھنؤ ہند    ص۲۲

جامع الترمذی    ابواب الدعوات    مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ۲/۱۸۸)

 

مولٰناعلی قاری علیہ رحمۃ الباری نے اُس کی شرح میں لکھا: دبرالصلوات المکتوبات ای عقیب الصلوات المفروضات والتقییدبھالکونھاافضل الحالات فھی ارجی لاجابۃ الدعوات۴؎۔

 

دبرالصلوات المکتوبات کے معنی کہ فرض نمازوں کے بعد ،اور ان کی تخصیص اس لئے فرمائی کہ وہ سب حالتوں سے افضل ہیں توان میں امیدِ اجابت زیادہ ہے۔

 

 (۴؎ حواشی حصن حصین        صفحہ مذکورہ کا حاشیہ۱۶  مطبوعہ افضل المطابع لکھنؤ ہند  ص۱۴)

 

دیکھو صاف صریح ہے کہ نماز کے بعد محلیت ِدُعاکچھ فرضوں ہی سے خاص نہیں بلکہ اُن میں بوجہ افضلیت زیادہ خصوصیت ہے اور سائلین نے خود یہی پُوچھا تھا کہ سب میں زیادہ کون سی دُعامقبول ہے لہذا اُن کی تقیید فرمائی گئی،بالجملہ جب تخصیصِ فرائض باطل ہوچکی تواخراج واجبات پر کوئی دلیل نہیں بلکہ اُن پر دلائل مطلقہ کے سوا حدیث نافلہ برسبیل اولویت ناطق،کہ جب ادبار نوافل تک محل دُعا مظنۂ اجابت ہیں تو واجبات کہ اُن سے اعلٰی  واعظم اور ارضائے الہٰی میں اوفر و اتم ہیں کیونکر اس فضل سےخارج ہوں گے ھل ھذا الاترجیح المرجوح  (یہ ترجیح موجوع کے سوا کچھ نہیں۔ت)

ثم اقول بلکہ واقع نفس الامر کو لحاظ کیجئے تو فریضہ ونافلہ کے لئے ثبوت، خاص بعینہ واجبات کے لئے ثبوت خاص ہے کہ واجب حقیقۃً کوئی تیسری چیز نہیں بلکہ انہیں دو۲ طرفوں سے ایک میں ہے جسے شبہہ فی الثبوت نے مجتہد کے نزدیک ایک امر متوسط کردیاصاحبِ شرع صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم جس کے حضور روایۃً ودرایۃً ظنون وشبہات کو بار نہیں اگر اُس کے نزدیک شیئ مطلوب فی الشرع حقیقۃً مامور بہ ہے قطعاً فرض ورنہ یقینانافلہ،لاثالث لھما(ان دو۲ کے علاوہ کوئی تیسری صورت نہیں۔ت) تلویح میں زیر قول تنقیح فصل فی افعالہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم

 

فمنھما مایقتدی بہ وھومباح مستحب و واجب وفرض (آپ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے کچھ افعال قابل اقتداء مباح،کچھ مستحب ،کچھ واجب اور کچھ فرض ہیں۔ت) تحریر فرمایا: ان فعلہ علیہ الصلٰوۃ والسلام بالنسبۃ الینا یتصف بذلک بان جعل الوتر واجبا علیہ لامستحبا اوفرضا والافالثابت عندہ بدلیل یکون قطعیالامحالۃ حتی قیاسہ واجتہادہ ایضاقطعی الخ ۱؎

 

یعنی آپ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے افعال ہماری نسبت ان سے متصف ہیں مثلاًوتر آپ پر واجب تھے نہ کہ مستحب یا فرض ،ورنہ آپ کے ہاں دلیل ثابت شدہ امر یقینا قطعی ہوگا حتی کہ آپ کا قیاس واجتہاد بھی قطعی ہے الخ(ت)

 

 (۱؎ التوضیح والتویح    فصل فی افعالہ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم        مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشارو    ص ۴۹۱)

 

امام محقق علی الاطلاق امامۃالفتح میں فرماتے ہیں:

اللزوم یلاحظ باعتبار ین باعتبار صدورہ من الشارع وباعتبار ثبوتہ فی حقنافملاحظۃ باعتبار الثانی ان کان طریق ثبوتہ عن الشارع قطعیا کان متعلقہ الفرض وان کان ظنیاکان الوجوب ولذا لا یثبت ہذا القسم اعنی الواجب فی حق من سمع من النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مشافھۃ مع قطعیۃ دلالۃ المسموع فلیس فی حقہ الا الفرض اوغیر اللازم من السنۃ فمابعدھا وظھربھذا ان ملاحظۃ باعتبار الاول لیس فیہ وجوب بل الفرضیۃ اوعدم اللزوم اصلا۱؎ اھ ملخصا

 

لزوم میں دو۲اعتبار ہیں ایک یہ کہ وہ شارع علیہ السلام سے صادر ہوا اور دوسرا یہ کہ اس کا ثبوت ہمارے حق میں ہوا تو دوسرے اعتبار سے اگراس کا ثبوت شارع سے قطعی ہے تو اس کا تقاضا فرضیت ہے، اور اگر ثبوت ظنی ہے تو  وجوب ۔یہی وجہ ہے کہ یہ قسم (وجوب) اس شخص کے حق میں ثابت نہیں ہوسکتی جس نے براہ راست حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سےسُنا حالانکہ مسموع کی دلالت قطعی تھی تو اس کے حق میں وہ فرض ہی ہوگا، یا لازم نہ ہوگا سنّت ہوگا یا اس سے نچلا درجہ،اس سے طاہر ہوگیاکہ اول کے اعتبار سے وہاں وجوب نہیں بلکہ فرضیت ہے یا بالکل لزوم ہی نہیں اھ ملخصاً(ت)

 

 (۱؎ فتح القدیر     باب الامامۃ      مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر     ۱/۳۰۱)

 

پس بحمداﷲ لشہادتِ قرآن وحدیث واقوالِ علماء ثابت ہوا کہ نمازپنجگانہ و عیدین وتہجد وغیرہا ہرگونہ نماز کے بعد دُعا مانگنا شرعاً جائز بلکہ مندوب ومرغوب ہے وہوالمطلوب۔

 

ثانیاًاقول:  وباﷲالتوفیق دُعابنصِ قرآن وحدیث واجماع ائمۂ قدیم وحدیث اعظم مندوباتِ شرع سے ہے اوراس کے مظانِ اجابت کی تحری مسنون ومحبوب ،قال جل ذکرہ : ھنالک دعازکریا ربہ۲؎  (حضرت زکریا علیہ السلام نے وہاں اپنے رب سے دعا کی ۔ ت)

 

 (۲؎ القرآن   ۳/۳۸)

 

حدیث میں ہےحضور پُرنورسیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان لربکم فی ایام دھرکم نفحات،فتعرضوا لہ لعلہ ان یصیبکم نفخۃ منھا فلاتشقون بعدھا ابدا۳؎۔رواہ الطبرانی فی الکبیر عن محمد بن مسلمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

بیشک تمہارے رب کے لئے تمھارے زمانے کے دنوں میں کچھ وقت عطا وبخشش وتجلی وکرم وجود کے ہیں تو انہیں پانے کی تدبیر کرو شاید ان میں سے کوئی وقت تمہیں مل جائے تو پھر کبھی بدبختی تمہارے پاس نہ آئے۔اسے طبرانی نے کبیر میں محمد بن مسلمہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روایت کیا۔

 

 (۳؎ المعجم الکبیر    مروی ازمحمد بن مسلمہ حدیث۵۱۹    مطبوعہ مکتبۃ فیصلیہ بیروت        ۱۹/۲۳۴)

 

اور خود حدیث نے اُن اوقات سے ایک وقت اجتماع مسلمین کا نشان دیا کہ ایک گروہِ مسلمانان جمع ہوکر دعا مانگے کچھ عرض کریں کچھ آمین کہیں۔

 

کتاب المستدرک علی البخاری ومسلم میں ہے: عن حبیب بن مسلمۃ الفھری رضی اﷲ تعالٰی عنہ وکان مجاب الدعوۃ قال سمعت رسول اﷲ یقول لایجتمع ملؤ فیدعوبعضھم یؤمّن بعضعم الا اجابھم اﷲ۱؎۔

 

یعنی حبیب بن مسلمہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کہ مستجاب الدعوات تھے،فرماتے ہیں کہ میں نے حضور پُرنورسید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ کوئی گروہ جمع نہ ہوگاکہ اُن بعض دعا کریں بعض آمین کہیں،مگر یہ کہ اﷲ عزوجل اُن کی دعا قبول فرمائےگا۔

 

 (۱؎ المستدرک علی الصحیحین  کتاب الدعاء    حبیب بن مسلمہ کان مجیب الدعوات    مطبوعہ دارالفکر بیروت  ۳/۳۴۷)

 

علماء نے مجمعِ مسلمان کو اوقاتِ اجابت سے شمار کیا۔

 

حصن حصین میں ہے: واجتماع المسلمین۲؎ ع یعنی مسلمین کا اوقاتِ اجابت سے ہونا حدیثِ صحاح ستّہ سے مستفاد ہے۔

 

 (۲؎ حصن حصین      اوقات الاجابۃ    مطبوعہ افضل المطابع لکھنؤ ہند ص۲۳)

 

علی قاری شرح میں فرماتے ہیں: ثم کل مایکون الاجتماع فیہ اکثر کالجمعۃ والعیدین وعرفۃ یتوقع فیہ رجاء الاجابۃ اظھر۳؎۔

 

یعنی جس قدر مجمع کثیر ہوگا جیسے جمع وعیدین و عرفات میں، اسی قدر امیدِ اجابت ظاہرتر ہوگی۔

 

 (۳؎ حرزثمین شرح حصن حصین)

 

فقیر غفراﷲ کہتا ہے پھر دُعائے نماز پر اقتصار ہرگز شرعاً مطلوب نہیں بلکہ اس کے خلاف کی طلب ثابت،خود حدیث سے گزراحضور پُرنور سیّدِیوم النشور صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے ہر دو رکعت نفل کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دُعامانگنے کا حکم دیا اورجو ایسا نہ کرے اس کی نماز کو ناقص بتایا، حالانکہ نماز میں دُعائیں ہوچکیں اوروہ وقت چاربار آیا جو انتہائی درجہ قُرب الہٰی کا ہے یعنی سجود جس میں بالتخصیص حکمِ دُعا تھا،

 

حضور پُرنور سیّد المرسلین صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اقرب مایکون العبد من ربہ وھوساجد فاکثروا الدعاء۴؎۔رواہ مسلم وابوداؤد والنسائی عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

سب سے زیادہ قرب بندے کو اپنے رب سے حالتِ سجودمیں ہوتاہے تو اس میں دعا کی کثرت کرو۔اسےمسلم،ابوداؤداورنسائی نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روایت کیا۔

 

 (۴؎ سنن النسائی   اقرب مایکون العبد من اﷲ عزوجل  مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱/۷۱۔ ۱۷۰)

 

بلکہ اگر سوال نہ بھی ہوں تو تسبیح کہ سجود میں ہوتی ہے خود دعاہے کہ وہ ذکر ہے اور ہر ذکردعا۔مولانا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں: کل ذکردعاء ۵؎  (ہر ذکر دُعاہے۔ت)

 

 (۵؂مرقاۃ شرح مشکوٰۃ  باب ثواب التسبیح فصل ثانی  مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان  ۵/۱۱۲)

 

امام حافظ الدین النسفی کافی شرح وافی کی فصل فی تکبیر التشریق میں فرماتے ہیں: قال تعالٰی ادعوا ربکم تضرعاوخفیۃ ۱؎۔

 

اﷲ تعالٰی  کافرمان مبارک ہے: تم اپنے رب کو پکارو گڑ گڑا کر اور آہستہ (ت)

 

 (۱؎کافی شرح وافی    فصل فی تکبیر التشریق )

 

کل ذکردعاء۲؎  (ہرذکر دعاہے۔ت)

 

(۲؎ صحیح البخاری   کتاب الدعوات   مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/۹۴۴)

 

اس معنی پر فقیر نے اپنے رسالہ ''ایذان الاجرفی اذان القبر''(دفن کرنے کے بعد قبر پراذان کے جواز پر نادر تحقیق۔ت)میں دلائل واضحہ ذکر کئے اور اس سے  زیادہ کلام مستوفی فقیر کے رسالہ "نسیم الصبا فی ان الاذان یحول الوباء"(صبح کی ہوا اس بارے میں کہ اذان سے وباء ٹل جاتی ہے۔ت) میں ہے،امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب الدعوات میں باب الدعا اذاھبط وادیا(جب کسی نچلی جگہ اُترے تو دعا کرے۔ت) وضع کیا اوراس میں فرمایا : فیہ حدیث جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ۳؎  (اس بارے میں حضرت جابر رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے حدیث مروی ہے۔ت)

 

 (۳؎ ارشاد الساری    باب الدعاء اذا ھبط وادیا الخ    مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت    ۹/۲۱۸)

 

ارشاد الساری میں ہے : فیہ ای فی الباب حدیث جابر الانصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ السابق فی باب التسبیح اذاھبط وادیا من کتاب الجھاد بلفظ کنا اذاصعدناکبّرناوانزلنا سبّحناھذا اٰخرالحدیث اھ بحذف السند۔

 

اس میں یعنی اس مسئلہ میں حضرت جابر انصاری رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے مروی حدیث ہے جو کتاب الجہاد کے باب التسبیح اذا ھبط وادیا میں گزری ہے الفاظ یہ ہیں :جب ہم بلند جگہ چڑھتے تو تکبیر کہتے اور جب اُترتے تو سبحان اﷲ کہتے ۔ یہ حدیث کے آخری الفاظ ہیں اھ سند محذوف ہے۔(ت)

 

دیکھو امام بخاری علیہ رحمۃ الباری نے صرف تسبیح کو دُعا ٹھہرایا اور التسبیح اذاھبط وادیا والدعاء اذاھبط وادیا  (جب نیچے اُترے تو تسبیح پڑھے اور جب نیچے اُترے تو دعا کرے۔ت)کا ایک مصداق بتایا تو بآنکہ ایسے قربِ اتم کے وقت میں نماز میں دعائیں ہوچکیں پھر بھی حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے اُن پر قناعت پسند نہ فرمائی اور بعد سلام پھر دُعا کی تاکید شدید کی۔ علاوہ بریں نماز میں آدمی ہر قسم کی دعا نہیں مانگ سکتا کما بسط الائمۃ فی کتب الفقھیۃ  (جیسا کہ ائمہ کرام نے کتب فقہیہ میں اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ت) اور حاجت ہرقسم کی اپنے رب جل وعلا سے مانگا چاہے اور طلب میں مظنۂ اجابت کی تحری کا حکم اور یہ وقت بحکم احادیث اعلٰی  مظّان اجابت سے،تو بلا شبہہ مجمع عیدین میں نماز دعا، خاص اذن حدیث وارشادِ شرع سے ثابت ہُوئی اورحکم فتعرضوا لھاکی تعمیل ٹھہری وہو المقصود۔

ثم اقول اگرمجمع عیدین کے لئے شرع میں کوئی خصوصیت نہ آتی تو اس عموم میں دخول ثابت تھا نہ کہ احادیث نے اُس کی خصوصیت عظیم ارشاد فرمائی اوراُس میں دُعا پر نہایت تحریص وترغیب آئی یہاں تک کہ حضور پُرنور سیدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم اُس زمانۂ خیر و صلاح میں کہ فتنہ وفساد سے یکسر پاک و منزہ تھا حکم دیتے کہ عیدین میں کنواریاں اور پردہ نشین خاتونیں باہر نکلیں اورمسلمانوں کی دُعا میں شریک ہوں حتی کہ حائض عورتوں کو حکم ہوتا مصلّے سے الگ بیٹھیں اور اس دن کی دُعا میں شریک ہوجائیں ،

 

امام احمد واصحابِ صحاح ستّہ حضرت امِّ عطیہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہا سے راوی حضور پُرنور صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: تخرج العواتق وذوات الخدور والحیض ویعتزل الحیض المصلی ویشھدن الخیرودعوۃالمسلمین۱؎۔

 

نوجوان کنواریاں اور پردہ والیاں اور حائض سب عید گاہ کو جائیں اورحیض والیاں عید گاہ سے الگ بیٹھیں اور اس بھلائی اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں۔

 

 (۱؎ صحیح البخاری        باب شہود الحائض العیدین الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱/۴۷ و ۱۳۴)

 

صحیح بخاری کی دوسری روایت ان لفظوں سے ہے : قالت کنا نومر ان نخرج یوم العید حتی تخرج البکرمن خدرھا حتی تخرج الحیض فیکنّ خلف الناس فیکبرن بتکبیرھم ویدعون بدعائھم یرجون برکۃ ذلک الیوم وطھرتہ۲؎۔

 

یعنی ام عطیہ رضی اﷲتعالٰی  عنہا فرماتی ہیں کہ ہم عورتوں کوحکم دیا جاتا تھا کہ عید کے دن باہر جائیں یہاں تک کہ کنواری اپنے پردے سے باہر نکلے یہاں تک کہ حیض والیاں باہر آئیں صفوں کے پیچھے بیٹھیں مسلمانوں کی تکبیر پر تکبیر کہیں اوراُ ن کی دُعا کے ساتھ دُعا مانگیں اس دن کی برکت پاکیزگی کی امیدیں۔

 

 (۲؎ صحیح البخاری        باب شہود الحائض العیدین الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۳۲)

 

امام بیہقی اور ابو الشیخ ابن حبان کتاب الثواب میں حضرت عبداﷲ بن عباس(عہ) رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے راوی:

 

انہ سمع رسول ﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یقول اذاکانت غداۃ الفطربعث اﷲعزوجل الملئکۃ فی کل بلد(وذکر الحدیث الی ان قال)فاذابرزوا الی مصلاھم فیقول اﷲ عزوجل (وساق الحدیث الی ان قال) ویقول یاعبادی سلونی فوعزتی وجلالی لاتسئلونی الیوم شیئا فی جمعکم لاٰخرتکم الااعطیتکم ولا لدنیاکم الانظرت لکم، فوعزّتی لاسترن علیکم عثراتکم مار اقبتمونی وعزّتی وجلالی لااخزیکم ولاافضحکم بین اصحاب الحدود وانصرفوامغفورا لکم قد ارضیتمونی ورضیت عنکم۱؎(مختصرمن حدیث طویل)

 

یعنی حضور پر نور سیّد یوم النشور علیہ افضل الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا: جب عید کی صبح ہوتی ہے مولٰی  سبحٰنہ تعالٰی  ہر شہر میں فرشتے بھیجتا ہے(اس کے بعد حدیث میں فرشتوں کا شہر کے ہر ناکہ پر کھڑا ہونا اور مسلمانو ں کو عیدگاہ کی طرف بلانا بیان فرمایا، پھر ارشاد ہوا جب مسلمان عیدگاہ کی طرف میدان میں آتے ہیں (مولٰی  سبحٰنہ تعالٰی  فرشتوں سے یوں فرماتا ہے اور ملائکہ اس سے یوں عرض کرتے ہیں) پھر فرمایارب تبارک وتعالٰی  مسلمانوں سے ارشاد فرماتا ہے اے میرے بندو!مانگو کہ قسم مجھے اپنی عزت وجلال کی آج اس مجمع میں جو چیز اپنی آخرت کے لئے مانگو گے میں تمہیں عطافرماؤں گااورجو کچھ دنیا کا سوال کروگے اس میں تمہارے لئے نظر کروں گا(یعنی دنیا کی چیز میں خیر و شر دونوں کومتحمل ہیں اورآدمی اکثر اپنی نادانی سے خیر کو شر،شرکوخیر سمجھ لیتا ہے ،اور اﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے لہذا دنیا کے لئے جو کچھ مانگو گے اُس میں بکمال رحمت، نظر فرمائی جائے گی، اگر وُہ چیز تمہارے حق میں بہتر ہوئی عطاہوگی ورنہ اس کے برابر بلا دفع کریں گے یادُعاروزِقیامت کے لئے ذخیرہ رکھیں گے اور یہ بندے کے لئے ہر صورت سے بہتر ہے مجھے اپنی عزت کی قسم ہے جب تک تم میرا مراقبہ رکھوگے میں تمہاری لغزشوں کی ستاری فرماؤں گا مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم میں تمہیں اہل کبائر میں فضیحت و رسوا نہ کروں گا پلٹ جاؤ مغفرت پائے ہوئے ،بیشک تم نے مجھے راضی کیا اور میں تم سے خوشنود ہُوا۔

 

 (۱؎ شعب الایمان     ۲۳۲۳باب فی الصیام فصل فی لیلۃ القدر    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت    ۳/۳۷۔۳۳۶)

 

عہ :  اقول اس حدیث نفیس کا شاہد بروایت امام عقیلی حدیث انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے مرویات فقیر میں بندہ ضعیف سےحضور پُر نور صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم تک سند موجود ہے الحمد ﷲ ۱۲منہ(م)

 

فقیر غفر لہ  الغنی القدیر کہتا ہے اس کلام مبارک کا اوّل یاعبادی سلونی ہے یعنی میرے بندو! مجھ سے دعا کرو،اور آخر انصرفوا مغفورا لکم گھروں کو پلٹ جاؤ تمہاری مغفرت ہوئی۔توظاہر ہُوا کہ یہ ارشاد بعد ختمِ نماز ہوتا ہے ختم نماز سے پہلے گھروں کو واپس جانے کاحکم ہرگز نہ ہوگا تواس حدیث سے مستفاد کہ خود رب العزّت جل وعلا بعد نمازِ عید مسلمانوں سے دُعا کا تقاضا فرماتا ہے، پھر وائے بدبختی اُس کی جو ایسے وقت مسلمانوں کو اپنے رب کے حضور دُعا سے روکے نسأل اﷲ العفو والعافیۃ اٰمین(ہم اﷲ سے فضل وبخشش طلب کرتے ہیں ۔آمین ۔ت)

 

ثالثاً اقول: وباﷲالتوفیق ابوداؤد و ترمذی ونسائی وابن حبان وحاکم باسانید صحیحہ جیّدہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ اور ابو داؤد و دارمی و ابوبکر بن ابی شیبہ استادبخاری ومسلم حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اﷲ تعالٰی  عنہ اور نسائی و طبرانی بسند صحیح و ابن ابی الدنیا اورحاکم بافادہ تصحیح حضرت جبیر بن معطم رضی اﷲ تعالٰی  عنہ اورنسائی و ابن ابی الدنیا و حاکم وبیہقی حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہا سے روایت کرتے ہیں حضور پُرنور سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذاجلس احدکم فی مجلس فلایبرحن منہ حتی یقول ثلث مرات سبحٰنک اللھم ربنا وبحمدک لاالٰہ الا انت اغفرلی وتب علی فان کان اتی خیرا کان کالطابع علیہ وان کان مجلس لغو کان کفارۃ لماکان فی ذلک المجلس۱؎۔

 

جب تم میں کوئی کسی جلسے میں بیٹھے تو زنہار وہاں سے نہ ہٹے جب تک تین۳بار یہ دعا نہ کرلے ''پاکی ہے تجھے اے رب ہمارے، اور تیری تعریف بجالاتا ہوں، تیرے سوا کوئی سچّا معبود نہیں میرے گناہ بخش اور مجھے توبہ دے''کہ اگراس جلسے میں اس نے کوئی نیک بات کہی ہے تو یہ دُعا اس پر مہر ہوجائے گی اور اگر وہ جلسہ لغو تھا جوکچھ اس میں گزرایہ دعا اس کا کفارہ ہوجائےگی۔

 

 (۱؎ الترغیب والتراہیب بحوالۂ ابن ابی الدنیا     کتاب الذکر والدعاء    مطبوعہ مصطفی البابی مصر     ۲ /۴۱۱

المعجم الکبیر      مروی از جبیر بن مطعم    مطبوعہ مکتبہ فیصلیہ بیروت    ۲/ ۱۳۹

المستدرک علی الصحیحین     کتاب الدعاء    مطبوعہ دارالفکر بیروت     ۱/۵۳۷)

 

یہ لفظ بہ روایت امام ابو بکر ابن ابی الدنیا حدیثِ جبیر رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کے ہیں،اور ابو برزہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کی حدیث میں یوں ہے : کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذاجلس یقول فی اٰخرہ اذا اراد ان یقوم من المجلس سبحٰنک اللھم وبحمدک اشھد ان لا الٰہ الاانت استغفرک واتوب الیک۱؎۔

 

حضور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم جب کوئی جلسہ فرماتے تو ختم اُٹھتے وقت یہ دعا کرتے''تیری پاکی بولتا اور تیری حمد وثنا میں مشغول ہوتا ہوں اے اﷲ! میں گواہی دیتا ہوں تیرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں میں تیری مغفرت مانگتا اور تیری طرف توبہ کرتا ہوں''۔

 

 (۱؎ الترغیب والترہیب     بحوالہ سنن ابی داؤد کتاب الذکر والدعاء   مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۲/ ۴۱۱)

(سنن الدارمی   ۲۹۔باب فی کفارۃ المجلس    مطبوعہ مدینہ منورہ (حجاز) ۲/ ۱۹۵)

 

اسی طرح رافع بن خدیج رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کی حدیث میں لفظ اراد ان ینھض۲؎ ہے یعنی جب اُٹھنا چاہتے یہ دُعا فرماتے۔

 

 (۲؎ المستدرک علی الصحیحین    کتاب الدعاء دعاء کفارۃ المجالس   مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۱ /۵۳۷)

الترغیب والترہیب   بحوالہ سنن نسائی وحاکم وابوداؤد وابن حبان    مطبوعہ مصطفی البابی مصر   ۲/ ۴۱۱)

 

اور انہوں نے بعدِ الفاظِ مذکورہ دُعا میں اتنے الفاظ اور زائدکئے : عملت سوءً وظلمت نفسی انہ لا یغفر الذنوب الّاانت۳؎۔ میں نے بُرا کیا اور اپنی ہی جان کو آزار پہنچایا اب میری مغفرت فرمادے بیشک تیرے سوا کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں۔

 

 (۳؎ الترغیب والترہیب    بحوالہ سنن نسائی وحاکم وابوداؤد وابن حبان    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۲ /۴۱۱)

 

حدیث ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ دعا میں مثل حدیث ابو برزہ ہے اُس میں بھی ارشاد ہوا: قبل ان یقوم من مجلسہ۴؎ کھڑے ہونے سے پہلے دُعا کرتے۔

 

 (۴؎ الترغیب والترہیب    بحوالہ سنن نسائی وحاکم وابوداؤد وابن حبان    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۲ /۴۱۱)

(  جامع الترمذی     ابواب الدعوات    مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی   ۲/ ۱۸۱)

 

غرض اس حدیث صحیح مشہور علی اصول المحدثین میں جسے امام ترمذی نے حسن صحیح اور حاکم نے برشرط مسلم صحیح اورمنذری نےجیّدالاسانیدکہا،حضور پُرنور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم عام ارشاد وہدایت قولی وفعلی فرماتے ہیں کہ آدمی کوئی جلسہ کرے اُس سے اُٹھتے وقت یہ دعا ضرور کرنی چاہئے کہ اگر جلسہ خیر کا تھا تو وہ نیکی قیامت تک سر بمہر محفوظ رہے گی اور لغو تھا تو وہ لغو باذن اﷲ محو ہوجائے گا تو لفظ ومعنی دونوں کی رُو سے ثابت ہوا کہ ہرمسلمان کو  ہرنماز کے بعد بھی اس دُعا کی طرف اشارہ فرمایا گیا جہت لفظ سے تو یوں کہ مجلس نکرہ سیاقِ شرط میں واقع ہے عام ہوا،

 

تلخیص الجامع الکبیر میں ہے : النکرۃ فی الشرط تعم وفی الجزاء تخص کھی فی النفی والاثبات ۱؎۔

 

نکرہ مقامِ شرط میں عموم اور مقامِ جزا میں خصوص کا فائدہ دیتا ہے جیسا کہ نفی و اثبات میں ہے۔(ت)

 

 (۱؎ تلخیص الجامع الکبیر)

 

جامع صغیر میں ہے : انہ نکرۃ فی موضع الشرط وموضع الشرط نفی والنکرۃ فی النفی تعم۲؎۔

 

یہ موضع شرط میں نکرہ ہے اور مقام شرط نفی ہے اور نکرہ مقامِ نفی میں عموم کا مفید ہوتا ہے۔(ت)

 

(۲؎ الجامع الصغیر)

 

معہذا اسمائے شروط سب صورتوں کو عام ہوتے ہیں،امام محقق علی الاطلاق فتح میں فرماتے ہیں: اذا عام فی الصورعلی ماھوحال اسماء الشرط۳؎۔

 

اذا تمام صورتوں میں عام ہے جیسا کہ اسماءِ شرط کا حال ہوتا ہے۔(ت)

 

 (۳؎ فتح القدیر)

 

تو قطعاً تمام صلواتِ فریضہ و واجبہ ونافلہ کے جلسے اس حکم میں داخل اورادعائے تخصیص بے مخصص محض مردود وباطل،اور جہت معنی سے یوں کہ جلسہ خیر سے اُٹھتے وقت یہ دُعاکرنا اُس خیرکے نگاہداشت کے لئے ہے تو خیر جس قدر اکبر واعظم اُسی قدر اس کا حفظ ضروری و اہم، اور بلاشبہہ خیر نماز سے سب چیزوں سے افضل واعلٰی  تو ہر نماز کے بعد اس دعاکا مانگنا مؤکد تر ہوا یارب، مگر نمازِعیدین نماز نہیں یا اس کے حفظ کے جانب نیاز نہیں یاحضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے بنفس نفیس جلسۂ نماز کو اس حکم میں داخل فرمایا تخریج حدیث تو اوپر سُن چکے کہ نسائی وابن ابی الدنیا نے وحاکم وبیہقی نے روایت کی اب لفظ سنئے ،سنن نسائی کی نوع من الذکر بعد التسلیم میں ہے : عن عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا قالت ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان اذا جلس مجلسا او صلی تکلم بکلمات و سالتہ عائشۃ عن الکلمات فقال ای تکلم بخیر کان تابعا علیھن یوم القٰی مۃ وان تکلم بشر کان کفارۃ لہ، سبحٰنک اللہم و بحمدک استغفرک و اتوب الیک۔۱؂

 

یعنی ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہا فرماتی ہیں حضور پُرنور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم جب کسی مجلس میں بیٹھتے یا نماز پڑھتے کچھ کلمات فرماتے،ام المومنین نے وہ کلمات پُوچھے، فرمایا وہ ایسے ہیں کہ اگر اس جلسہ میں کوئی نیک بات کہی ہے تو یہ قیامت تک اس پر مُہر ہوجائیں گے اور بُری کہی ہے تو کفارہ۔الٰہی! میں تیری تسبیح وحمد بجالاتا ہوں اور تجھ سے استغفار و توبہ کرتا ہوں۔

 

 (۱؎ سنن النسائی         کتاب السہو نوع من الذکر بعد التسلیم   مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی  ۱/۱۹۷)

 

پس بحمد اﷲ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوگیا کہ نمازِ عیدین کے بعد دُعا مانگنے کی خودحضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے تاکید فرمائی لفظ لا یبرحن بنون تاکید ارشاد ہوا بلکہ انصاف کیجئے توحدیثِ ام المومنین صلی اﷲ تعالٰی  علٰی  زوجہاالکریم وعلیہا وسلم خودحضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کا بعد نماز عیدین دعا مانگنا بتا رہی ہے کہ صلی زیر اذا،داخل تو ہر صورت نماز کو عام وشامل اور منجملہ صور نماز عیدین،توحکم مذکور انہیں بھی متناول ،پس یہ حدیثِ جلیل بحمد اﷲ خاص جزئیہ کی تصریح کامل۔

 

رابعاً اقول: وباﷲ التوفیق ان سب سے قطع نظر کیجئے تو دُعا مطلقاً اعظم مندوباتِ دینیہ واجل مطلوبات شرعیہ سے ہے کہ شارع صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے ہمیں بے تقییدِ وقت وتخصیصِ ہیأت مطلقاً اس کی اجازت دی اور اُس کی طرف دعوت فرمائی اور اسکی تکثیر کی رغبت دلائی اور اس کے ترک پر وعید آئی،

 

مولٰی  سبحٰنہ وتعالٰی  فرماتا ہے : وقال ربکم ادعونی استجب لکم۲؎۔

 

اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعاکرو میں قبول کروں گا۔

 

(۲؎ القرآن    ۳۹/ ۶۰)

 

اور فرماتا ہے : اجیب دعوۃ الدّاع اذادعان۳؎۔ قبول کرتا ہوں دُعا کرنے والے کی دُعا جب مجھے پکارے۔

 

 (۳؎ القرآن     ۲ /۱۸۶)

 

حدیث قدسی میں فرماتا ہے : اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ وَاَنَا مَعَہ، اِذَا دَعَانِیْ۱؎۔

 

اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ وَاَنَا مَعَہ، اِذَا دَعَانِیْ۱؎۔ رواہ البخاری ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن ربہ

 

میں اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوں جب مجھ سے دعا کرے۔ اسے بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے انہوں نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے آپ نے اپنے رب عزوجل سے روایت کیا۔

 

(۱؎ صحیح البخاری    کتاب التوحید   مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۱۱۰۱)

(صحیح مسلم   کتاب الذکروالدعاء   مطبوعہ  نورمحمداصح المطابع کراچی    ۲ /۳۴۱و ۳۴۳ و۳۵۴)

 

اور فرماتاہے : یَااِبْنِ اٰدَمَ اِنَّکَ مَادَعَوْتَنِیْ غَفَرْتُ لَکَ عَلٰی مَاکَانَ مِنْکَ وَلَااُبَالِیْ۲؎۔ رواہ الترمذی وحسنہ عن انس بن مالک عن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن ربہ تبارک وتعالٰی۔

 

اے فرزندآدم! تو جب تک مجھ سے دعامانگے جائےگا اور اُمیدرکھے گا تیرے کیسے ہی گناہ ہوں بخشتارہوں گااور مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ ترمذی نے روایت کرکے اسے حسن قراردیاہے اور اسے حضرت انس بن مالک سے انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے آپ نے اپنے رب تبارک وتعالٰی  سے بیان فرمایا۔

 

(۲؎ جامع الترمذی    ابواب الزہد   مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ۲ /۶۲)

 

اور فرماتاہے عزوجل : مَنْ لاَّیَدْعُوْنِیْ اَغْضِبْ عَلَیْہِ۳؎۔ رواہ العسکری فی المواعظ بسند حسن عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن ربہ تعالٰی و تقدس۔

 

جومجھ سے دعانہ کرے گا میں اس پرغضب فرماؤں گا اسے عسکری نے مواعظ میں سندحسن کے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم  سےاور آپ نے رب تعالٰی  وتقدس سے بیان فرمایا۔

 

(۳؎ کنزالعمال   بحوالہ العسکری فی المواعظ حدیث  ۳۱۲۷  مطبوعہ مکتبۃ التراث الاسلامی بیروت    ۲ /۶۳

  سنن ابن ماجہ    باب فضل الدعاء   مطبوعہ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ص۲۸۰)

 

احادیث مصطفی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم  : اس باب میں سرحدِ تواتر پرخیمہ زن، ایک جملہ صالحہ اُن سے حضرت ختام المحققین سنام المدققین سیدنا الوالد قدس سرہ الماجد نے رسالہ مستطابہ ''احسن الوعا لاٰداب الدعا''میں ذکرفرمایا اور فقیر غفرلہ المولی القدیر نے اس کی شرح مسمی بہ ''ذیل المدعا لاحسن الوعا''میں اُن کی تخریجات کاپتابتایا، باقی کتاب الترغیب امام منذری وحصن حصین امام ابن الجزری وغیرہما تصانیف علما ان احادیث کی کفیل ہیں،میں بخوف اطالت احادیث فضائل سے عطف عنان کرکے صرف ان بعض حدیثوں پراقتصارکرتاہوں جن میں دعا کی تاکید یا اس کے ترک پرتہدید یا اس کی تکثیر کاحکم اکیدہے۔

 

حدیث۱: عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی  عنہما کی حدیث میں ہے حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: علیکم عباداﷲ بالدعاء۱؎۔ رواہ الترمذی مستغرباً والحاکم وصححہ۔

 

خدا کے بندو! دعا کولازم پکڑو۔ اسے ترمذی نے روایت کرکے غریب کہا اور حاکم نے روایت کرکے صحیح کہا۔

 

(۱؎ جامع الترمذی    ابواب الدعوات        مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ۲/۱۹۳)

 

حدیث۲ : زیدبن خارجہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہما کی حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: صلوا علیّ واجتھدوافی الدعاء۲؎۔ رواہ الامام احمد والنسائی والطبرانی فی الکبیر وابن سعدوسمویہ والبغوی والباوردی و ابن قانع۔

 

مجھ پردرودبھیجو اور دعامیں کوشش کرو۔ اسے امام احمد، نسائی اور طبرانی نے کبیرمیں، ابن سعد، سمویہ، بغوی، باوردی اور ابن قانع نے روایت کیا۔

 

(۲؎ سنن النسائی    باب الصلٰوۃ علی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم    مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱/۱۹۰)

 

حدیث۳: انس رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کی حدیث میں ہے سیّدعالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: لاتعجزوا فی الدعاء فانہ لن یھلک مع الدعاء احد۳؎۔ رواہ ابن حبان فی صحیحہ والحاکم وصححہ۔

 

دعامیں تقصیرنہ کرو جو دعاکرتارہے گا ہرگزہلاک نہ ہوگا۔ اسے ابن حبان نے صحیح میں اور حاکم نے روایت کرکے صحیح قراردیا۔

 

(۳؎ المستدرک علی الصحیحین    کتاب الدعاء        مطبوعہ دارالکتب بیروت   ۱/ ۴۹۴)

 

حدیث۴: جابربن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی  عنہما کی حدیث میں ہے نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: تدعون اﷲ لیلکم ونھارکم فان الدعاء سلاح المؤمن۱؎۔ رواہ ابویعلی

 

رات دن خدا سے دعامانگو کہ دعا مسلمان کا ہتھیار ہے۔ اسے ابویعلٰی  نے روایت کیاہے۔

 

 (۱؎ مسند ابی یعلٰی     مروی ازجابر رضی اﷲ تعالٰی  عنہ     حدیث ۱۸۰۶    مطبوعہ موسسۃ علوم القرآن بیروت    ۲/۳۲۹)

 

حدیث۵: عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہما کی حدیث میں ہے رحمت عالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: اکثروالدعاء بالعافیۃ۲؎۔ رواہ الحاکم بسند حسن۔

 

عافیت کی دعا اکثر مانگ۔ امام حاکم نے اسے سندحسن کے ساتھ روایت کیاہے۔

 

 (۲؎ المستدرک علی الصحیحین کتاب الدعاء  مطبوعہ دارالفکر بیروت   ۱/ ۵۲۹)

 

حدیث۶: انس رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کی حدیث میں ہے سیّدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: اکثر من الدعاء فان الدعاء یرد القضاء المبرم۳؎۔ اخرج ابوالشیخ فی الثواب۔

 

دعا کی کثرت کرو کہ دعا قضائے مبرم کو رَد کرتی ہے۔ اسے ابوالشیخ نے ثواب میں نقل کیاہے۔

 

 (۳؎ کنزالعمال بحوالہ ابی الشیخ عن انس رضی اﷲ عنہ حدیث۳۱۲۰ مطبوعہ مکتبۃ التراث الاسلامی بیروت    ۲/ ۶۳)

 

اس حدیث کی شرح فقیر کے رسالہ ذیل المدعامیں دیکھئے۔

حدیث۷و۸: عبادہ صامت وابوسعید خدری رضی اﷲ تعالٰی  عنہما کی حدیثوں میں ہے ایک بار حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے دعا کی فضیلت ارشاد فرمائی، صحابہ نے عرض کی: اذا نکثر۴؎ ایسا ہے تو ہم دعا کی کثرت کریں گے، فرمایا: اﷲ اکثر۵؎اﷲ عزوجل کا کرم بہت کثیرہے وفی الروایۃ الاخری (دوسری روایت میں ہے۔ت) اﷲ اکبراﷲ بہت بڑاہے،

 

(۴؎ جامع الترمذی    ابواب الدعوات     مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی      ۲ /۱۷۳)

(۵؂مسنداحمدبن حنبل مروی ازابوسعید الخدری مطبوعہ دارالفکر بیروت   ۳/۱۸)

 

رواہ الترمذی والحاکم عن عبادۃ وصححاہ واحمد والبزار وابویعلی باسانید جیّدۃ والحاکم وقال صحیح الاسناد عن ابی سعید رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔

 

اسے امام ترمذی اور حاکم نے حضرت عبادہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روایت کرکے 3صحیح قراردیا، امام احمد، بزار اور ابویعلٰی  نے اسانید جیدہ کے ساتھ روایت کیاہے اور حاکم نے حضرت ابوسعیدرضی اﷲتعالٰی  عنہما سے روایت کرکے فرمایا کہ اس کی سند صحیح ہے۔(ت)

 

حدیث ۹و۱۰: سلمان فارسی و ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہما کی حدیثوں میں ہے حضورِ والا صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: من سرہ ان یستجیب اﷲ لہ عند الشدائد فلیکثرمن الدعا عندالرخاء۱؎۔ رواہ الترمذی عن ابی ھریرۃ والحاکم عنہ وعن سلمان وقال صحیح واقروہ۔

 

  (۱؎ جامع الترمذی ابواب الدعوات مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲/۱۷۴)

 

جسے خوش آئے کہ اﷲ تعالٰی  سختیوں میں اس کی دعاقبول فرمائے وہ نرمی میں دعا کی کثرت رکھے۔ اسے ترمذی نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے اور حاکم نے ان سے اور حضرت سلمان رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے روایت کرکے فرمایا کہ یہ صحیح ہے اور محدثین نے اس کی صحت کو برقراررکھا۔

 

حدیث۱۱: ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کی حدیث میں ہے حضورپرنورصلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: من لم یسأل اﷲ یغضب علیہ۲؎۔ رواہ احمد وابن ابی شیبۃ والبخاری فی الادب المفرد والترمذی وابن ماجۃ والبزار وابن حبان والحاکم وصححاہ۔

 

جو اﷲ تعالٰی  سے دعانہ کرے گا اﷲ تعالٰی  اس پر غضب فرمائے گا۔ اسے امام احمد، ابن ابی شیبہ اور بخاری نے ادب المفرد میں، ترمذی، ابن ماجہ، بزار، ابن حبان اور حاکم نے روایت کرکے صحیح کہا۔

 

 (۲؎ جامع الترمذی  ابواب الدعوات مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی     ۲ /۱۷۳)

(ادب المفرد   باب ۲۸۶ حدیث ۶۵۸مطبوعہ المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل  ص۱۷۱)

       مسنداحمدبن حنبل مروی ازابوہریرہ رضی اﷲ عنہ  مطبوعہ دارالفکر بیروت ۲ /۴۴۳

       مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الدعاء حدیث ۹۲۱۸مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۱۰/۲۰۰)

 

ایہاالمسلمون تم نے اپنے مولا جل وعلا اور اپنے رسول اکرم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے ارشادات سنے ان میں کہیں بھی تخصیص وتقیید کی بوہے، یہ تو بارہا فرمایا کہ دعاکرو، کہیں یہ بھی فرمایاکہ فلاں نمازکے بعدنہ کرو؟ یہ تو صاف ارشاد ہوا ہے کہ جس وقت دعاکروگے میں سنوں گا، کہیں یہ بھی فرمایا کہ فلاں وقت کروگے تو سنوں گا؟ یہ تو بتاکید باربار حکم آیا ہے کہ دعا سے عاجزنہ ہو، دعامیں کوشش کرو، دعا کو لازم پکڑو، دعا کی کثرت رکھو، رات دن دعامانگو،کہیں یہ بھی فرمایا ہے کہ فلاں نماز کے بعد نہ مانگو؟ یہ توڈر سناگیاہے کہ جو دعانہ مانگے گا اس پرغضب ہوگا، کہیں یہ بھی فرمایا ہے کہ فلاں نماز کے بعد جومانگے گا اس سے اﷲ تعالٰی  ناراض ہوگا؟ـ اور جب کہیں نہیں تو خداورسول جل جلالہ وصلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے جس چیز کو عام ومطلق رکھا دوسرا اسے مخصوص ومقیدکرنے والاکون؟ خداورسول عزمجدہ، وصلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے جس چیزسے منع نہ فرمایادوسرا اسے منع کرنے والا کون؟ قال تعالٰی : وَلَاتَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰل  وَھٰذَا حَرَا م لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ لَایُفْلِحُوْنَo۱؎

 

اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اﷲ پر جھوٹ باندھو بیشک جو اﷲ پرجھوٹ باندھتے ہیں ان کابھلا نہ ہوگا۔

 

  (۱؎ القرآن    ۱۶/۱۱۶)

 

اصل یہ ہے کہ اِنِ الْحُکمُ اِلاَّﷲِ

 

۲؎ حکم صرف خداہی کے لئے ہے۔

 

(۲؎ القرآن  ۶/۵۷)

 

جس چیز کو اس نے کسی ہیأتِ خاصہ محل معین سے مخصوص اور اس پر مقصورومحصور فرمایا اس سے تجاوز جائزنہیں، جو تجاوزکرے گا دین میں بدعت نکالے گا اور جس چیز کو اس نے ارسال واطلاق پررکھا ہرگز کسی ہیأت ومحل پرمقتصرنہ ہوگی اورہمیشہ اپنے اطلاق ہی پررہے گی جو اس سے بعض صور کو جداکرے گا دین میں بدعت پیداکرے گا، ذکرودعا اسی قبیل سے ہیں کہ زنہار شرع مطہر نے انہیں کسی قیدوخصوصیت پرمحصورنہ فرمایابلکہ عموماً ومطلقاً ان کی تکثیر کاحکم دیا۔ دعا کے بارے میں آیات وحدیث سن ہی چکے اور دلائل مطلقہ تکثیر ذکرجنہیں اس سلسلہ شمارمیں(خامساً) کہئے کہ ہر دعا بالبداہۃ ذکرالٰہی ہے اور اس پرعلما نے تنصیص بھی فرمائی، مولانا قاری شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں: کلہ دعاء ذکر (ہردعاذکرہے۔ت) تو اجازت عامہ ذکرکے دلائل بعینہا اجازت عامہ کے دلائل ہیں کہ تعمیم افراد اعم (عہ) یامساوی، لاجرم تعمیم افراد اخص ومساوی ہے کمالایخفی (جیسا کہ مخفی نہیں ہے۔ت) ان دلائل جلائل کاوفور کامل حداحصاکا طرف مقابل، فقیرغفرلہ المولی القدیر نے اپنے رسالہ نسیم الصبا فی ان الاذان یحول الوباء میں اس مدعا پر بکثرت آیات وحادیث لکھیں،

 

عہ : ذکر اعم صرف بنظرکلیہ حاضرہ ہے ورنہ سابق گزرا کہ دوسری طرف سے یہی کلیہ ہے تو دعا وذکرقطعاً متساوی اور اب اتحاد ادلہ اوریہی واضح وجلی ۱۲منہ (م)

 

ازانجملہ حدیث حسن ابوسعیدخدری رضی اﷲ تعالٰی  عنہ حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں : اکثروا  ذکراﷲ حتی یقولوامجنون ۱؎۔

 

ذکرِالٰہی کی یہاں تک کثرت کرو کہ لوگ مجنون بتائیں۔

 

(۱؎ المستدرک علی الصحیحین   کتاب الدعاء   مطبوعہ دارالفکر بیروت       ۱ /۴۹۹)

 

وحدیث حسن عبداﷲ بن بُسررضی اﷲ تعالٰی  عنہ سیدعالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا: لایزال لسانک رطبا من ذکراﷲ۲؎ہمیشہ ذکرالٰہی میں ترزبان رہ۔

 

 (۲؎ جامع الترمذی     ابواب الدعوات      مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی     ۲/۱۷۳)

 

حدیث جیّدالاسناد ام انس رضی اﷲ تعالٰی  عنہا حضورِوالا صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا: اکثری من ذکراﷲ فانک لاتاتین بشیئ احب الیہ من کثرۃ ذکرہ۳؎۔

 

اﷲ کاذکر بکثرت کرکہ تو کوئی چیزایسی نہ لائے جو خدا کو اپنی کثرتِ ذکرسے زیادہ پیاری ہو۔

 

 (۳؎ دُرمنثوربحوالہ الطبرانی ذکراًکثیراً کے تحت مذکورہے مطبوعہ آیۃ اﷲ العظمی قم ایران  ۵/ ۲۰۵)

 

وحدیث ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سرورِعالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں: من لم یکثر ذکراﷲ فقد برئ من الایمان۴؎

 

جو ذکرالٰہی کی کثرت نہ کرے وہ ایمان سے بیزارہوگیا۔

 

 (۴؎ دُرمنثور بحوالہ المعجم الاوسط  ذکراًکثیراً کے تحت مذکورہے مطبوعہ آیۃ اﷲ العظمی قم ایران    ۵/ ۲۰۵

الترغیب والترہیب   کتاب الذکروالدعاء  مطبوعہ مصطفی البابی مصر     ۲/ ۴۰۱)

 

وحدیث صحیح ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہا: کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یذکراﷲ تعالٰی علٰی کل احیانہ۵؎۔

 

 (۵؎ سنن ابی داؤد   باب فی الرجل یذکراﷲ تعالٰی  علٰی  غیروضوء مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۴)

 

حضورپرنورسیدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم ہروقت ذکرخدا فرمایاکرتے۔

 

الٰی غیرذٰلک من الاحادیث والاٰثار  (ان کے علاوہ متعدد احادیث وآثار ہیں۔ت)

یہاں صرف بعض آیات اور ان کی تفسیروں پراقتصارہوتاہے جوعموم تمامی اوقات واحوال میں نص ہیں:

 

آیت۱: قال جل ذکرہ : فَاذْکُرُوااﷲ قِیَامًاوَّقُعُوْدًاوَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ۶؎۔

 

اﷲ کاذکر کروکھڑے اوربیٹھے اور اپنی کروٹوں پر۔

 

(۶؎ القرآن    ۴/۱۰۳)

 

علمائے کرام اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں کہ جمیع احوال میں ذکرالٰہی ودعاکی مداومت کرو۔ بیضاوی میں ہے: داوموا علی الذکر فی جمیع الاحوال۱؎ ای داوموا علی ذکراﷲ تعالٰی فی جمیع الاحوال۲؎

 

تمام احوال میں ذکرپرمدامت کرو۔(ت) یعنی تمام احوال میں اﷲ تعالٰی  کے ذکرپر دوام اختیارکرو۔(ت)

 

 (۱؎انوارالتنزیل المعروف بتفسیر البیضاوی    آیہ مذکورہ کے تحت  مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۲۰۴)

(۲؎ تفسیر النسفی المعروف بتفسیر المدارک    آیہ مذکورہ کے تحت مطبوعہ  دارالکتب العلمیہ بیروت  ۱/۲۴۸)

 

ارشاد العقل السلیم میں ہے : داوموا علی الذکراﷲ تعالٰی۔ حافظوا علی مراقبتہ ومناجتہ ودعائہ فی جمیع الاحوال۔۳؎

 

تمام احوال میں اﷲ تعالٰی  کے ذکر پرمداومت کرو، اور مراقبہ، مناجات اور رب سے دعاکی محافظت کرو۔(ت)

 

 (۳؎ تفسیر ارشاد العقل السلیم     آیہ مذکورہ کے تحت   مطبوعہ  احیاء التراث الاسلامی بیروت    ۲/۲۲۸)

 

آیت۲: قال عزّاسمہ : یاۤایُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُوا اﷲ ذِکْرًا کَثِیْرًاط۴؎۔

 

اے ایمان والو! اﷲ کاذکر بکثرت کرو۔

 

 (۴؎ القرآن        ۳۳/۴۱)

 

علامۃ الوجود مفتی ابوالسعودارشادمیں ارشادفرماتے ہیں: یعم الاوقات والاحوال۵؎ یہ آیت تمام اوقات واحوال کوعام ہے۔  (۵؎تفسیر ارشاد العقل السلیم      آیہ مذکورہ کے تحت     مطبوعہ احیاء التراث الاسلامی بیروت    ۷/۱۰۶)

 

آیت۳: قال تعالٰی شانہ: فَاذًکُرُواﷲ کَذِکْرِکُمْ اٰبَائکُمْ اَوْاَشَدَّ ذِکْرًا ۶؎۔

 

اﷲ کاذکرکرو جیسے اپنے باپ دادا کویادکرتے ہوبلکہ اس سے بھی زیادہ

 

(۶ ؂القرآن   ۲/۲۰۰)

 

 

امام نسفی کافی شرح وافی میں فرماتے ہیں: ارید بہ ذکر اﷲ تعالٰی فی الاوقات کلہا۷؎

 

اس آیت سے یہ مراد کہ ذکرالٰہی جمیع اوقات میں کرو۔

 

                

(۷؎ کافی شرح وافی)

 

آیت۴: قال تبارک مجدہ : وَاذْکُرُوااﷲَ کَثِیْرًا

 

۱؎ اور بکثرت خدا کاذکرکرو

 

(۱؎ القرآن    ۸/۴۵ و ۶۲/۱۰)

 

معالم میں ہے: فی جمیع المواطن علی السراء والضراء۲؎   تمام مواضع میں خوشی وتکلیف میں۔

 

 (۲؎ معالم التنزیل علی ھامش خازن پ۲۱  مطبوعہ مصطفی البابی مصر   ۵ /۲۴۵)

 

آیت۵: قال تقدس اوصافہ : وَالذَّاکِرِیْنَ اﷲ کَثِیْرًاوَّالذَّاکِرَاتِ اَعَدَّ اﷲلَھُمْ مّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًاo۳؎

 

خدا کو بکثرت یادکرنے والے مرد اور بکثرت یاد کرنے والی عورتوں کے لئے اﷲ نے مغفرت اور بڑا ثواب تیارکررکھاہے۔

 

 (۳؎القرآن   ۳/۳۵)

 

مولٰنا شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ، ماثبت بالسنۃ میں لکھتے ہیں: لایخفی ان الذکر والتسبیح والتھلیل والدعاء لاباس بہ لانھا مشروعۃ فی کل الامکنۃ و الازمان۴؎۔

 

پوشیدہ نہیں کہ ذکروتسبیح وتہلیل ودعا میں کچھ مضائقہ نہیں کہ یہ چیزیں وہرجگہ اور ہروقت مشروع ہیں۔

 

 (۴؎ ماثبت بالسنۃ   خاتمہ کتاب    ادارہ نعیمیہ رضویہ لاہور    ص۳۲۶)

 

اﷲاﷲ کیاستم جری ہیں وہ لوگ کہ قرآن وحدیث کی ایسی عام مطلق اجازتوں کے بعد خواہی نخواہی بندگان خدا کو اس کی یادودعا سے روکتے ہیں حالانکہ اس نے ہرگز اس دعا سے ممانعت نہ فرمائی،

 

قُلْ آٰﷲ اَذِنَ لَکُمْ اَمْ عَلَی اﷲِ تَفْتَرُوْنَo۵؎

 

اے حبیب! ان سے پوچھئے کہ اﷲ نے اس کی تمہیں اجازت دی ہے یااﷲ پرجھوٹ باندھتے ہو۔(ت)

 

ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۔

 

 (۵؎ القرآن    ۱۰ /۵۹)

 

پس بحمداﷲ آفتاب روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ دعائے مذکور فی السوال قطعاً جائزومندوب، اور اس سے ممانعت محض بے اصل و باطل ومعیوب،

 

والحمدﷲ ھادی القلوب والصلٰوۃ والسلام علٰی شفیع الذنوب واٰلہ وصحبہ عدیمی العیوب ماتناوب للشمس الطلوع والغروب اٰمین!

 

سب تعریف اﷲ کے لئے ہے جو دل کو رہنمائی عطاکرنے والا ہے اور صلٰوۃ وسلام ہوگناہوں کی شفاعت کرنے والے پر آپ کی آل و اصحاب پرجن کے عیوب معدوم ہیں جب تلک شمس کے لئے طلوع وغروب ہے، آمین!(ت)

 

العیدالثانی وبجودالحبیب حصول الامانی (اﷲ تعالٰی  کی توفیق ہی سے مقاصد کا حصول ہے۔ت) پہلے وہ فتوی پیش نظررکھ لیجئے کہ مستندین کا حاصل سعی ومبلغ وہم ظاہرہوحاشا اس فتوے میں جواز وعدم جواز کی اصلاً بحث نہیں، نہ سائل نے اس سے پوچھا نہ مجیب نے ناجائز لکھا بلکہ سوال یوں ہے

 

ماقولھم رحمھم اﷲ تعالٰی (ان رحمہم اﷲ تعالٰی  کاکیاقول ہے۔ت) اس مسئلہ میں کہ جناب رسول مقبول علیہ الصلٰوۃ والسلام اور اصحاب وتابعین و تبع تابعین و ائمہ اربعہ رضوان اﷲ تعالٰی  علیہم اجمعین بعدنماز عیدین کے دعا مانگتے تھے یا بعد پڑھنے خطبہ عیدین کے کھڑے کھڑے یابیٹھ کریابدون ہاتھ اٹھائے

 

بیّنوا و افتوا بسند الکتاب توجرواعنداﷲ یحسن الماب  (کتاب کی سند کے ساتھ اسے بیان کرکے اﷲ تعالٰی  کے ہاں سے بہتر اجر وجزاپاؤ۔ت)اور جواب یہ ھوالمصوب روایاتِ حدیث سے اس قدر معلوم ہوتاہے کہ آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نمازعید سے فراغت کرکے خطبہ پڑھتے تھے اور بعد اس کے معاودت فرماتے، دعامانگنا بعد نمازیاخطبہ کے آپ سے ثابت نہیں، اسی طرح صحابہ کرام و تابعین عظام سے ثبوت اس امرکانظرسے نہیں گزرا۔واﷲ اعلم

 

حررہ الراجی عفو ربہ القوی ابوالحسنات محمد عبدالحی تجاوزاﷲ عن ذنبہ الجلی والخفی محمدعبدالحی ابوالحسنات

 

               

 

اقول وباﷲ التوفیق وبہ العروج علی اوج التحقیق

 

(اﷲ کی توفیق اور تحقیق کی بلندی پراسی سے عروج ہے۔ت) قطع نظر اس سے محل احتجاج میں کہاں تک پیش ہوسکتاہے حضرات مانعین کو ہرگزمفید، نہ ہمیں مضر، جواز و عدم کا تو اس میں ذکر ہی نہیں، سائل ومجیب دونوں کاکلام ورود وعدم ورود میں ہے پھرمجیب نے صحابہ کرام و تابعین عظام رضی اﷲ تعالٰی  عنہم سے ثابت نہ ہونے پرجزم بھی نہ کیا،صرف اپنی نظر سے نہ گزرنا لکھا اور ہرعاقل جانتاہے کہ  نہیں اور نہ دیکھا میں زمین وآسمان کافرق ہے یہ ان کے جو اکابر ماہران فنِ حدیث ہیں بارہا فرماتے ہیں ہم نے نہ دیکھی اور دوسرے محدثین اس کا پتادیتے ہیں فقیرنے اس کی متعدد مثالیں اپنے رسالہ صفائح اللجین فی کون التصافح بکفی الیدین میں ذکرکیں پھریہ نہ دیکھنا بھی مجیب،خاص اپنابیان کررہے ہیں نہ کہ ائمہ شان نے اس طرح کی تصریح فرمائی،کہ ایساہوتاتو نظرسے نہ گزرا کےعوض اس امام کا ارشاد نقل کرتے، خصوصاً جبکہ سائل درخواست کرچکاتھا کہ بیّنوا و افتوابسندالکتاب  (کتاب کی سند کے ساتھ بیان کرو اور فتوٰی  دو۔ت) تو آج کل کے ہندی علماء کانہ دیکھنا نہ ہونے کی دلیل کیونکرہوسکتاہے آخرنہ دیکھا کہ فقیرغفرلہ المولی القدیر نے حدیث صحیح سے اس کا نص صریح، ائمہ تابعین قدست اسرارہم سے واضح کردیا والحمدﷲ رب العٰلمین پھر خصوص جزئیہ سے قطع نظرکیجئے،جس کا التزام عقلاً ونقلاً کسی طرح ضرور نہیں جب تو فقیرنے خود حضورپرنورسیدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے جس جس طرح اس کا ثبوت روشن کیا منصف غیرمتعسف اس کی قدرجانے گا والحمدﷲ والمنۃ، پھر سوال میں تبع تابعین وائمہ اربعہ سے استفسار  تھا مجیب نے ان کی نسبت اس قدربھی نہ لکھا کہ نظرسے نہ گزرا، اب خواہ ان سے ثبوت نہ دیکھا یاپوری بات کاجواب نہ ہوا، بہرحال محل نظر واسناد مستند صرف اس قدر کہ مجیب حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے نفی ثبوت کرتے ہیں اور تقریب یہ کہ حدیثوں میں یہی وارد ہے کہ نماز کے متصل خطبہ اور خطبہ کے متصل معاودت فرماتے تو دعا کا وقت کون سارہا،اس تقدیر پرثبوتِ  عدم کا ادعاہوگا، دوسرے یہ کہ حدیثوں میں صرف نماز وخطبہ ومعاودت کاذکرہے دعامذکور نہیں، یہ عدم ثبوت کادعوٰی  ہوگا، اور کلام مجیب سے یہی ظاہرہے کہ ثابت نہیں، کہتے ہیں، نہ کہ نہ کرنا ہی ثابت ہے، اور لفظ ''اسی قدرمعلوم ہوتاہے'' بھی اسی طرف ناظر، کہ اگر اس سے اثبات عدم مقصود ہوتا توطرزادا یہ تھی، کہ حدیثوں سے صاف ثابت کہ نماز وخطبہ ومعاودت میں فصل نہ تھا، پس دعانہ مانگنا ثابت ہوا، باینہمہ شاید حضرات مانعین اپنے نفع کے گمان سے کلام مجیب کو خواہ مخواہ محمل اول پرحمل کریں، لہٰذا فقیرغفرلہ المولی القدیر دونوں محمل پرکلام کرتاہے وباﷲ التوفیق۔

 

محمل اول پریہ کلام خود ہی بوجوہ کثیر باطل:

اوّلاً یہ تو اصلاً کسی حدیث میں نہیں کہ حضورپرنورسیدعالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سلام پھیرتے ہی بفورحقیقی معاً خطبہ فرماتے تھے اور خطبہ ختم فرماتے ہی بے فصل فوراً واپس تشریف لاتے، غایت یہ کہ کسی حدیث میں فائے تعقیب آنے سے استدلال کیاجائے گا مگر وہ ہرگز اتصال حقیقی پردال نہیں کہ دو حرف دعا سے فصل کی مانع ہو،

 

فواتح شرح مسلم میں فرمایا: الفاء للترتیب علٰی سبیل التعقیب من غیر مھلۃ وتراخ، یعد فی العرف مھلۃ وتراخیا۱؎۔

 

فاء ترتیب کے لئے ہے یہ بغیر مہلت وتراخی کے تعاقب کے لئے ہے عرف میں اسے مہلت شمار کیاجاتاہے اور تراخی بھی صحیح ہے۔(ت)

 

(۱؎ فواتح الرحموت بذیل المستصفی    مسئلہ الفاء للترتیب    مطبوعہ مطبعۃ امیریہ قم ایران        ۱/ ۲۳۴)

 

یاہذا یہ، تدقیقات ضیفۂ فلسفیہ نہیں، محاورات صافیہ عرفیہ ہیں، اگر زید وعدہ کرلے نماز پڑھ کر فوراً آتاہوں تونماز کے بعد معمولی دوحرفی دعاہرگز عرفاً یاشرعاً مبطل فور وموجب خلاف وعدہ نہ ہوگی، مسئلہ سجود تلاوت صلاتیہ میں سناہی ہوگا کہ دو آیتیں بالاتفاق اور تین علی الاختلاف قاطع فورنہیں۔

 

یاہذا یہ، تدقیقات ضیفۂ فلسفیہ نہیں، محاورات صافیہ عرفیہ ہیں، اگر زید وعدہ کرلے نماز پڑھ کر فوراً آتاہوں تونماز کے بعد معمولی دوحرفی دعاہرگز عرفاً یاشرعاً مبطل فور وموجب خلاف وعدہ نہ ہوگی، مسئلہ سجود تلاوت صلاتیہ میں سناہی ہوگا کہ دو آیتیں بالاتفاق اور تین علی الاختلاف قاطع فورنہیں۔

ثانیاً دعاتابع ہے اور توابع فاصل نہیں ہوتے، واجبات میں ضم سورت سناہوگا مگرآمین فاصل نہیں کہ تابع فاتحہ ہے،

 

حضورپرنورسیدیوم النشور صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے تسبیح حضرت بتول زہرا صلوات اﷲ وسلامہ علٰی  ابیہا الکریم وعلیہا کی نسبت فرمایا: معقبات لایخیب قائلھن۱؎۔ رواہ احمدومسلم والترمذی والنسائی عن کعب بن عجرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

کچھ کلمات نماز کے ابعد بلافاصلہ کہنے کے ہیں جن کا کہنے والا نامرادنہیں رہتا۔ اسے امام احمد، مسلم، ترمذی اور نسائی نے حضرت کعب بن عجرہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روایت کیاہے۔

 

(۱؎ سنن النسائی    نوع آخر من عددالتسبیح        مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱/ ۱۹۸)

 

بااینہمہ علمافرماتے ہیں اگرسنن بعدیہ کے بعد پڑھے تعقیب میں فرق نہ آئے گا کہ سنن توابع فرائض سے ہیں

 

دُرمختار میں ہے: یکرہ تاخیرالسنۃ الابقدر اللھم انت السلام۲؎الخ سنتوں میں اللھم انت السلام الخ کی مقدار سے زائد تاخیرمکروہ ہے۔(ت)

 

 (۲؎ درمختار        فصل واذا ارادوا الشروع الخ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۷۹)

 

ردالمحتارمیں ہے : لما رواہ مسلم والترمذی عن عائشۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھا قالت کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لایقعد الابمقدار مایقول اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یاذا الجلال والاکرام واما ماورد من الاحادیث فی الاذکار عقیب الصلٰوۃ فلا دلالۃ فیہ علی الاتیان بھا قبل السنۃ ۱۲بل یحمل علی الاتیان بھا بعدھا لان السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعھا ومکملاتھا فلن تکن اجنبیۃ عنہا فمایفعل بعدھا یطلق علیہ انہ عقیب الفریضۃ۱؎۔

 

کیونکہ مسلم اور ترمذی نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہا سے روایت کیاہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم صرف اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یاذاالجلال والاکرام کی مقدار ہی بیٹھتے تھے، اور دیگر روایات میں جونماز کے بعد اذکار کا ذکرہے اس میں یہ دلالت نہیں کہ وہ اذکار سنن سے پہلے ہوتے تھے بلکہ بعد میں بھی بجالائے جاسکتے ہیں کیونکہ سنتیں فرائض کے لواحقات، توابع اور ان کی تکمیل کاسبب ہیں لہٰذا یہ فرائض سے اجنبی نہیں ہیں جو ان سنن کے بعد ہو اس پریہ اطلاق کیاجاسکتاہے کہ وہ فرائض کے بعد ہوا۔(ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار                فصل واذا ارادوا الشروع الخ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۳۹۱)

 

ثالثاً مانا کہ مفاد ''فا'' اتصال حقیقی ہے تاہم خوب متنبہ رہناچاہئے کہ حضورپرنورسیّدعالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے نوبرس عید کی نمازیں پڑھی ہیں تو احادیث متعددہ کا وقائع متعددہ پرمحمول ہوناممکن،پس اگرایک حدیث صلٰوۃ وخطبہ اوردوسری خطبہ وانصراف میں وقوع اتصال پردلالت کرے اصلاً بکارآمدنہیں کہ ایک بار بعد خطبہ،دوبارہ بعدنماز دعا کا عدم ثابت نہ ہوگا، تو (یوں وہ) مقصود سے منزلوں دورہے کمالایخفی۔

رابعاً مسلّم کہ ایک ہی حدیث میں دونوں اتصال مصرح ہوں تاہم بلفظ دوام تواصلاً کوئی حدیث نہ آئی ومن ادعی فعلیہ البیان (اور جو اس کادعوٰی  کرتاہے وہ دلیل لائے۔ت) اور ایک آدھ جگہ صلی فخطب فعاد (نمازپڑھائی، پس خطبہ دیا اور لَوٹ گئے۔ت) ہوبھی تو واقعہ حال ہے اور وقائع حال کے لئے عموم نہیں کمانصواعلیہ (جیسا کہ علماء نے اس پرتصریح کی ہے۔ت) اور ہم قائل وجوب ولزوم نہیں کہ ترک مرۃً ہمارے منافی ہو اور اگر لفظ کان یصلی فیخطب فیعود  (آپ نماز پڑھاتے خطبہ دیتے اور لَوٹ جاتے۔ت) بھی فرض کرلیں توہنوز اس کاتکرار پردلیل ہونا محل نزاع نہ کہ دوام،خود مجیب اپنے رسالہ غایۃ المقال میں کلام حافظ ابوزرعہ عراقی: ان فی الصحیحین وغیرھما عن سعید بن یزید قال سألت انس بن مالک کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یصلی فی نعلیہ فقال نعم وظاھرہ ان ھذاکان شانہ وعادتہ المستمرۃ دائماالخ۲؎

 

بخاری و مسلم وغیرہما میں حضرت سعیدبن یزید رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے پوچھا کہ رسالت مآب صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نعلین کے اندرنماز ادافرماتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:ہاں، اس کے ظاہرسے یہی محسوس ہوتاہے کہ آپ کا دائمی معمول تھا الخ(ت)

 

(۲؎ رسالہ غایۃ المقال من مجموعہ رسائل عبدالحی    فصل فی الصلٰوۃ        مطبع چشمۂ فیض لکھنؤ    ص۱۰۹)

 

نقل کرکے لکھتے ہیں : ماذکرہ من دلالۃ حدیث انس علی کون العادۃ النبویۃ مستمرۃ بالصلوۃ فی النعال منظورفیہ لعدم وجود مایدل علیہ فیہ ولعلہ استخرجہ من لفظ کان وھو استخراج ضعیف لما نص علیہ الامام النووی فی کتاب صلٰوۃ اللیل من شرح صحیح مسلم من ان لفظ کان لایدل علی الاستمرار والدوام فی عرفھم اصلا۱؎۔

 

حدیث انس سے ان کا اس پراستدلال کہ نعلین میں نماز اداکرنا حضورعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی عادت دائمی تھی محل نظر ہے کیونکہ الفاظ ِ حدیث میں ایسی کوئی شئ موجودنہیں شاید انہوں نے لفظ کان سے استنباط کیاہو حالانکہ یہ استنباط ضعیف ہے کیونکہ امام نووی نے شرح مسلم کے کتاب صلٰوۃ اللیل میں تصریح کی ہے کہ لفظ کان محدثین کے عرف میں ہرگز دوام و استمرار پردلالت نہیں کرتا۔(ت)

 

(۱؎ رسالہ غایۃ المقال من مجموعہ رسائل عبدالحی    فصل فی الصلٰوۃ        مطبع چشمۂ فیض لکھنؤ    ص۱۰۹)

 

اس مسئلہ کی تمام تحقیق فقیرکے رسالہ التاج۱۳۰۵ھ المکلل فی انارۃ مدلول کان یفعل میں ہے۔

 

خامساً :  یہ سب تو بالائی کلام تھا احادیث پرنظرکیجئے تو وہ اور ہی کچھ اظہارفرماتی ہیں صحاح ستہ وغیرہا خصوصاً صحیحین میں روایات کثیرہ بلفظ ثم وارد، ثم فاصلہ ومہلت چاہتاہے تو ادعاکہ احادیث میں اتصال ہی آیا محض غلط بلکہ حرفِ اتصال اگردو ایک حدیث میں ہے تو کلمہ انفصال آٹھ دس میں،اب روایات سنئے :

حدیث۱:  صحیحین میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے ہے: واللفظ لمسلم قال شھدت صلٰوۃ الفطر مع نبی اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم و ابی بکر وعمروعثمٰن رضی اﷲ تعالٰی عنھم فکلھم یصلیھا قبل الخطبۃ ثم یخطب۲؎۔

 

مسلم کے الفاظ یہ ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم،حضرت ابوبکرصدیق،حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالٰی  عنہم کی معیت میں نمازعیدالفطر اداکی ان سب نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی پھر خطبہ دیا۔(ت)

 

 (۲؎ صحیح مسلم     کتاب العیدین    مطبوعہ نورمحمدکارخانہ تجارت کتب کراچی۱/ ۲۸۹)

 

حدیث۲: صحیح بخاری میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے ہے: ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان یصلی فی الاضحی والفطر ثم یخطب بعد الصلٰوۃ۳؎۔

 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم عیدالاضحی اور عیدالفطر کی نمازپڑھاتے پھرنماز کے بعد خطبہ ارشادفرماتے۔(ت)

 

 (۳؎ صحیح البخاری          کتاب العیدین       مطبوعہ  قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/۱۳۱)

 

حدیث۳: اسی کے باب استقبال الامام الناس فی خطبۃ العید میں حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے ہے: خرج النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یوم اضحی فصلی العید رکعتین ثم اقبل علینا بوجھہ وقال الحدیث۱؎۔

 

نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم اضحی کے دن تشریف لائے پھر عیدکی دورکعات پڑھائیں پھر آپ نے ہماری طرف رخِ انورکیا اور خطبہ ارشاد فرمایا۔(ت)

 

 (۱؎ صحیح البخاری    کتاب العیدین    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی  ۱/ ۱۳۳)

 

حدیث۴: اسی میں حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے ہے: ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یصلی یوم النحر ثم خطب الحدیث۲؎۔

 

بلاشبہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے عیدالاضحی کے روز نمازپڑھائی پھرخطبہ دیا۔(ت)

 

 (۲؎ صحیح البخاری    کتاب العیدین    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱/ ۱۳۴)

 

حدیث۵: اسی میں حضرت جندب بن عبداﷲ بجلی رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے ہے: صلی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یوم النحر ثم خطب ثم ذبح۳؎۔

 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے قربانی کے دن نماز پڑھائی پھرخطبہ دیا پھرقربانی کی(ت)

 

 (۳؎ صحیح البخاری    کتاب العیدین    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱/ ۱۳۴)

 

حدیث۶: جامع ترمذی میں بافادۂ تحسین وتصحیح حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے ہے: کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم و ابوبکر وعمریصلون فی العیدین قبل الخطبۃ ثم یخطبون۴؎۔

 

 (۴؎ جامع الترمذی    باب فی صلٰوۃ العیدین    مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ۱ /۷۰)

 

حدیث۷: سنن نسائی میں حضرت ابوسعیدخدری رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے ہے: ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان یخرج یوم العید فیصلی رکعتین ثم یخطب۵؎۔

 

بلاشبہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم عیدکے دن باہرتشریف لاتے آپ دو رکعتیں پڑھاتے پھرخطبہ دیتے(ت)

 

 (۵؎ سنن نسائی    کتاب صلٰوۃ العیدین    مطبوعہ نورمحمدکارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱/۲۳۴)

 

یہ سات حدیثیں ظاہرکرتی ہیں کہ حضورپرنورصلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم اور صدیق وفاروق وعثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی  عنہم نمازعیدین کاسلام پھیرکرکچھ دیرکے بعد خطبہ شروع فرماتے۔

 

حدیث۸:صحیحین میں حضرت ابوسعیدخدری رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے ہے: واللفظ للبخاری کان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یخرج یوم الفطر والاضحی الی المصلی فاول شیئ یبدؤ بہ الصلٰوۃ ثم ینصرف فیقوم مقابل الناس والناس جلوس علی صفوفھم فیعظھم ویوصیھم فان کان یرید ان یقطع بعثا قطعہ اویامربشیئ امر بہ ثم ینصرف۱؎۔

 

الفاظ بخاری یہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم عیدالفطر اور اضحی کے دن باہرعیدگاہ میں تشریف لاتے سب سے پہلے آپ نماز پڑھاتے پھرلوگوں کی طرف متوجہ ہوتے لوگ اپنی اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے آپ انہیں وعظ ونصیحت فرماتے، اگرآپ نے کسی لشکر کو بھیجنا ہوتاتو روانہ فرماتے اور کسی کاحکم دینا ہوتا توحکم فرمادیتے پھرآپ واپس تشریف لاتے۔(ت)

 

 (۱؎ صحیح البخاری  کتاب العیدین باب خروج الصبیان مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۳۱)

 

یہ حدیث خطبہ ومعاودت میں فصل بتاتی ہے۔

 

حدیث۹: بخاری و مسلم ودارمی و ابوداؤد ونسائی وابن ماجہ حضرت حبرالامۃ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے راوی: قال خرجت مع النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یوم فطر او اضحی فصلی ثم خطب ثم اٰتی النساء فوعظھن وذکرھن وامرھن بالصدقۃ۲؎۔

 

فرمایا میں فطر اور اضحی کے روز نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے ساتھ نکلا آپ نے نمازپڑھائی پھرخطبہ دیاپھرخواتین کے اجتماع میں تشریف لے گئے انہیں وعظ ونصیحت فرمائی اور انہیں صدقہ کاحکم دیا۔(ت)

 

 (۲؂ صحیح البخاری        کتاب العیدین باب خروج الصبیان    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۳۳)

 

یہ حدیث دونوں جگہ فصل کااظہار کرتی ہے، سبحن اﷲ! پھرکیونکرادعاکرسکتے ہیں کہ نماز وخطبہ وخطبہ ومعاودت میں ایسااتصال رہا جو عدم دعاپر دلیل ہوا، اگرکہئے ثم کبھی مجازاً بحالتِ عدم مہلت بھی آتاہے

 

قال الشاعر:؎

کھزالردینی تحت العجاج

جری فی الانابیب ثم اضطرب۳؎

 

 (اس کی حرکت اس ردینی نیزے کی طرح ہے جو میدان کارزارمیں اڑنے والے غبارمیں حرکت کرتے ہوئے پوروں پرلگتاہے توجنبش کرتاہے)

 

 (۳؎ اوضح المسالک الی الفیہ ابن مالک  بحث لفظ ثمّ  مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۴۳)

(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ    فرع سادس من الفصل الثانی    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت   ۸/۲۹)

 

اقول  :  تم مستدل ہو اور مستدل کو احتمال کافی نہیں خصوصاً خلافِ اصل کمالایخفی علی ذی عقل (یہ کسی صاحب عقل پرپوشیدہ نہیں۔ت) معہذا ف بارہا مجرد ترتیب بے معنی اتصال وتعقیب کے لئے آتی ہے،

 

امام جلال الدین سیوطی اتقان میں زیربیان فرماتے ہیں: قدتجئ لمجرد الترتیب نحو فراغ الٰی اھلہ فجاء بعجل سمینo فقربہ الیھم فاقبلت امرأتہ فی صرّۃ فصکّت وجھھا۔ فالزاجرات زجراoفالتالیات۱؎۔

 

کبھی کبھی فاء محض ترتیب کے لئے آتی ہے،مثلاً ان آیات میں (ترجمہ آیات) پھراپنے گھرگیا توایک فربہ بچھڑا لے آیا پھر اسے ان کے پاس رکھا۔ اس پراس کی بیوی چلاتی آئی پھراپناماتھا ٹھونکا۔پھرقسم ان کی کہ جھڑک کرچلائیں۔پھران جماعتوں کی کہ قرآن پڑھیں۔(ت)

 

 (۱؎ الاتقان   النوع الاربعون فی معرفۃ معانی الادوات الخ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۱۶۶)

 

بلکہ مسلم الثبوت میں ہے: الفاء للترتیب علی سبیل التعقیب ولوفی الذکر۲؎۔

 

فاء بطریق تعقیب ترتیب کے لئے آتی ہے خواہ وہاں ترتیب ذکری ہو۔

 

 (۲؎ مسلم الثبوت     مسئلہ الفاء للترتیب     مطبوعہ مطبع انصاری دہلی    ص۶۱)

 

توایک ف کامجرد ترتیب یاترتیب فی الذکر مجازپرحمل اولٰی  ہے یادس ثمّ کامجازپر۔

سادساً یہ عدم فصل بطور سلب عموم لیتے ہو توہمیں کیامضراور تمہیں کیامفید کہ ہمیں ایجاب کلی کی ضرورت نہیں،کہ سلب جزئی ہمارے خلاف ہو، اور بطورعموم، سلب تودونوں جگہ اس کابطلان ثابت و واضح۔ صحیح حدیثیں تنصیص کررہی ہیں کہ بالیقین دونوں جگہ فصل واقع ہوا، نمازوخطبہ میں وہ حدیث عہ(۱۰) کہ ابوداؤد و نسائی وابن ماجہ نے حضرت عبداﷲ بن سائب رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے روایت کی: واللفظ لابن ماجۃ قال حضرت العید مع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فصلی بنا العید ثم قال قدقضینا الصلٰوۃ فمن احب ان یجلس للخطبۃ فلیجلس ومن احب ان یذھب فلیذھب۱؎۔

 

ابن ماجہ کے الفاظ یہ ہیں میں عید میں حضورپرنورصلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے ساتھ حاضرہوا حضور نے نمازعید پڑھائی پھرفرمایا ہم نماز توپڑھ چکے اب جوسننے کے لئے بیٹھنا چاہے بیٹھے اور جوجاناچاہے چلاجائے۔

 

عہ اقول یہ حدیث صحیح ہے،

رواہ ابوداؤد عن محمد بن الصباح البزار صدوق والنسائی عن محمد بن یحیی بن ایوب ثقۃ وابن ماجۃ عن ھدیۃ بن عبدالوھاب صدوق وعمربن رافع البجلی ثقۃ ثبت کلھم قالوا ثنا الفضل بن موسی ثقۃ ثبت ثنا ابن جریح عن عطاء وھما ماھما عن عبداﷲ بن السائب رضی اﷲ تعالٰی عنھما لہ ولابیہ صحبتہ فتصویب دس وابن معین ارسالہ غیرمتاثر عندنا بعد ثقۃ الرجال فالحدیث صحیح علٰی اصولنا۱۲منہ(م)

 

اس کو ابوداؤدنے محمدبن الصباح البزارسے (جوصادق ہیں)اور نسائی نے محمد بن یحیٰی  بن ایوب سے (جوثقہ ہیں) اور ابن ماجہ نے ہدیہ بن عبدالوہاب سے(جوکہ صدوق ہیں) اور عمربن رافع البجلی (جوکہ ثقہ ہیں) تمام نے کہاکہ ہمیں فضل بن موسٰی  (جوثقہ اور مضبوط ہیں) انہوں نے کہا ہمیں ابن جریج نے عطاء سے (یہ دونوں مقام میں مسلم ہیں) نے عبداﷲ بن السائب رضی اﷲ تعالٰی  عنہ (ان کو اور ان کے باپ کو صحبت ہے) پس ابوداؤد اور نسائی کی تصویب ہوئی اور ابن معین کارجال کے ثقہ ہونے کے بعد اس کومرسل بنانامتاثر نہیں کرے گا، پس ہمارے ہاں یہ حدیث صحیح ہے ۱۲منہ(ت)

 

 (۱؎ السنن لابن ماجہ    ماجاء فی صلٰوۃ العیدین مطبوعہ  ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ص۹۳)

 

اگرثم کاخیال نہ بھی کیجئے تویہ کلام نماز وخطبہ کے درمیان فاصل تھا توہمیشہ اتصال حقیقی ہوناباطل ہوا اور خطبہ ومعاودت میں تو فصل کثیر اسی حدیث نہم سے ثابت جوعنقریب گزری جس کی ایک روایت بخاری و مسلم وابوداؤدو نسائی کے یہاں یوں ہے: صلی (یعنی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) ثم خطب ثم اٰتی النساء ومعہ بلال فوعظہن وذکرھن وامرھن بالصدقۃ فرایتھن یھوین بایدیھن یقذفنھن فی ثوب بلال ثم انطلق ھو وبلال الٰی بیتہ۲؎۔

 

یعنی حضورسیدعالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے نمازِعید پڑھی پھربعدہ، خطبہ فرمایا پھربعدازاں صفوف زنان پرتشریف لاکرانہیں وعظ و ارشادکیااور صدقہ کا حکم دیا تو میں نے دیکھا کہ بیبیاں اپنے ہاتھوں سے گہنا اتاراتارکربلال رضی اﷲ عنہ کے کپڑے میں ڈالتی تھیں پھرحضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم اور بلال رضی اﷲ تعالٰی  عنہ کاشانۂ نبوت کوتشریف فرماہوئے۔

 

 (۲؎ صحیح البخاری    کتاب العیدین، باب العلم بالمصلی    مطبوعہ نورمحمدقدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۳۳)

 

دیکھو خطبہ کے کتنی دیربعد معاودت ہوئی یہ وعظ وارشاد کہ بیبیوں کوفرمایاگیا جزءِ خطبہ نہیں بلکہ اس سے جُداہے، صحیحین میں روایت جابربن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی  عنہما صاف فرماتے ہیں کہ: ثم خطب الناس بعد فلما فرغ نبی اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نزل فاتی النساء فذکرھن ۱؎ الحدیث۔

 

یعنی پھربعد نماز حضورپرنورصلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے خطبہ فرمایا، جب نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوئے اُترکربیبیوں کے پاس تشریف لائے اور انہیں تذکیرفرمائی، الحدیث۔

 

 (۱؎ صحیح مسلم            کتاب العیدین    مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱/۲۸۹)

 

علامہ زرقانی شرح مواہب میں ناقل: ھذہ الروایۃ مصرحۃ بان ذلک کان بعد الخطبۃ۲؎۔

 

یہ روایت اس پرتصریح ہے یہ عمل خطبہ کے بعد تھا۔(ت)

 

 (۲؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ    فرع سادس        مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۸/۲۹)

 

امام نووی منہاج میں فرماتے ہیں: انما نزل الیھن بعد فراغ خطبۃ العید۳؎۔ آپ خواتین کے اجتماع میں خطبۂ عیدکے بعد تشریف لے گئے تھے۔(ت)

 

 (۳؎ منہاج نووی شرح مسلم مع مسلم    کتاب صلٰوۃ العیدین    مطبوعہ نورمحمدکارخانہ تجارت کتب کراچی ۱/۲۸۹)

 

پس بحمداﷲ تعالٰی  ماہ نیم ماہ مھر نیم  روز کی طرح روشن ہوا کہ اس تقریر سے عدم دعا کا ثبوت چاہنا محض ہوس خام اور اس محمل پریہ کلام خود باطل وبے نظام والحمدﷲ ولی الانعام (سب تعریف اﷲ کے لئے جوانعام کامالک ہے۔ت)

اب محمل دوم کی طرف چلئے جس کا یہ حاصل کہ حدیثوں میں صرف نماز وخطبہ کاذکرہے ان کے بعد نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کادعا مانگنا مذکورنہ ہوا۔

اقول یہ حضرات مانعین کے لئے نام کوبھی مفیدنہیں،سائل نے اس فعل خاص بخصوصیت خاصہ کا سیّدعالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے صدورپوچھاتھا کہ کس طور پرہوا، اس کا جواب یہی تھا کہ حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے اس فعل خاص کی نقل جزئی نظر سے نہ گزری مگر اسے عدم جواز کافتوی جان لینا محض جہالت بے مزہ۔

اوّلاً عیداول میں گزراکہ حدیث ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہا اپنے عموم میں حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے اس دعا کاثبوت فعلی بتارہی ہے۔

ثانیاً ثبوت فعلی نہ ہو تو قولی کیاکم ہے بلکہ من وجہ قول فعل سے اعلٰی  واتم ہے۔ اب عید اول کی تقریریں پھریادکیجئے اور حدیث ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہما تو بعد نمازعید خود رب مجید جل وعلا کا اپنے بندوں سے تقاضائے دعافرمانا بتارہی ہے، اس کے بعد اور کسی ثبوت کی حاجت کیاہے، اگرکہئے وہ حدیث ضعیف ہے اقول فضائل اعمال میں حدیث ضعیف بالاجماع مقبول اور اثباتِ استحباب میں کافی ووافی ہے کما نص علیہ العلماء الفحول  (جیسا کہ اکابرعلماء نے اس پرتصریح فرمائی ہے۔ت) خود مجیب کے آخرجلددوم کے فتاوٰی میں ہے:

حدیث ضعیف برائے استحباب کافی ست چنانچہ امام ہمام درفتح القدیر درکتاب الجنائز می نویسند والاستحباب یثبت بالضعیف غیرالموضوع انتھی۱۱؎۔ حدیث ضعیف استحباب کے لئے کافی ہوتی ہے جیسا کہ ابن ہمام نے فتح القدیر کے باب الجنائز میں لکھا ہے کہ حدیث ضعیف غیرموضوع سے مستحب ہوناثابت ہوجاتاہے انتہی(ت)

 

 (۱؎ مجموعہ فتاوٰی محمدعبدالحی        کتاب الصلٰوۃ    مطبوعہ مطبع یوسفی لاہور    ۱/۲۴۸)

 

ثالثاً جب شرع مطہر سے حکم مطلق معلوم کہ جواز واستحباب ہے توہرفرد کے لئے جداگانہ ثبوت قولی یافعلی کی اصلاً حاجت نہیں کہ باجماع واطباق عقل ونقل حکم مطلق اپنی تمام خصوصیات میں جاری وساری اطلاقِ حکم کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس ماہیت کلیہ یافرد منتشر کاجہاں وجود ہو حکم کاورود ہو اور فردیت بے خصوصیت محال اور وجود عینی وتعین متساوق تو جس قدر خصوصیات وتعینات معقول ہوں سب بالیقین اسی حکم مطلق میں داخل، جب تک کسی خاص کا استثناء شرع مطہر سے ثابت نہ ہو، اس قاعدہ جلیلہ کی تحقیق مبین حضرت ختام المحققین امام المدققین حجۃ اﷲ فی الارضین سیّدنا الوالد قدس سرہ الماجد نے کتاب مستطاب اصول الرشاد لقمع مبانی الفسادمیں افادہ فرمائی من شاء فلیتشرف بمطالعتہ  (جوچاہے اس کے مطالعہ کا شرف حاصل کرے۔ت) یہاں اسی قدر کافی کہ خود حضرات وہابیہ کے امام ثانی ومعلم اول میاں اسمٰعیل دہلوی رسالہ بدعت میں لکھتے ہیں:

درباب مناظرہ درتحقیق حکم صورت خاصہ کسے کہ دعوے جریان حکم مطلق درصورت خاصہ مبحوث عنہا می نماید ہمانست متمسک باصل کہ دراثبات دعوے خود حاجت بدلیلے ندارد ودلیل اوہماں حکم مطلق ست وبس۱؎۔

مناظرہ میں کسی صورت خاصہ کے ثبوت کے لئے یہ دعوٰی  کہ حکم مطلق ہے اور اس کا اطلاق صورتِ خاصہ پر بھی ہوتاہے اصل کے ساتھ استدلال ہے کیونکہ اصل کے ساتھ استدلال میں دلیل کی حاجت نہیں ہوتی یہی دلیل کافی ہے کہ حکم مطلق ہے۔(ت)

 

 (۱؎ رسالہ بدعت میاں اسمعیل دہلوی)

 

رابعاً   :  ہم صدرجواب میں حضرت ائمہ تابعین سے اس دعا کا ثبوت روایت کرآئے پھر حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے ثبوت نہ ہونے کومانعین کس منہ سے منع ٹھہراسکتے ہیں کہ ان کے نزدیک تشریح احکام تابعین تک باقی رہتی اور ان کے بعد منقطع ہوتی ہے پھر قرن اول سے عدم ثبوت کیامضرومنافی ہے۔

خامساً ہرعاقل جانتاہے کہ ادعائے ثبوت میں قابل جزم وتصدیق صرف عدم وجدان قائل ہے اور عدم وجدان، عدم وجود کومستلزم نہیں خصوصاً ابنائے زماں میں۔ اور امر واضح ہے اور سبرفاضح۔ اورگزرا اشارہ اور آئےگا دوبارہ۔ ہم نے اس کاکچھ بیان اپنے رسالہ صفائح اللجین وغیرہا میں لکھا یہاں اتناہی بس ہے کہ خودمجیب اپنی کتاب السعی المشکورفی ردالمذھب الماثور میں لکھتے ہیں:

''نفی رؤیت سے نفی وجود لازم نہیں، نظائر اس کے بکثرت ہیں کم نہیں منجملہ ان کے حدیثِ عائشہ ہے جو صحیح بخاری وغیرہ میں مروی ہے: مارأیت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یسبح سبحۃ الضحٰی وانی لاسبحھا۲؎ انتھی۔

 

میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کونماز چاشت اداکرتے نہیں دیکھا اور میں اداکرتی ہوں انتہی(ت)

 

 (۲؎ کتاب السعی المشکور لعبدالحی    بحث اسکی کہ نفی رؤیت سے نفی وجود لازم نہیں مطبع چشمۂ فیض لکھنؤ        ص۱۱۳)

 

حالانکہ اس سے نفی وجودلازم نہیں ہے بااحادیث متکاثرہ آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کاصلٰوۃ الضحٰی  اداکرنا ثابت ہے اسی وجہ سے جلال الدین سیوطی رسالہ صلٰوۃ الضحی میں لکھتے ہیں الخ''

جب ام المومنین صدیقہ رضی اﷲتعالٰی  عنہا کے نزدیک عدم ثبوت عدم ثبوت واقعی کومستلزم نہ ہوا توزید وعمر و من وتوکس شمار وقطارمیں ہیں۔

سادساً عدم ثبوت مان بھی لیں تو اس کاصرف یہ حاصل کہ منقول نہ ہوا پھر عقلاء کے نزدیک عدم نقل نقل عدم نہیں یعنی اگرکوئی فعل بخصوصہ حضورپرنورصلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے منقول نہ ہوتو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضوراقدس صلی اﷲتعالٰی  علیہ وسلم نے کیابھی نہ ہو،

 

امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر میں فرماتے ہیں: عدم النقل لاینفی الوجود ۱؎  (عدم نقل نفی وجود کومستلزم نہیں۔ت)

 

 (۱؎ فتح القدیر    کتاب الطہارۃ        مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱/۲۰)

 

خود مجیب اپنی سعی مشکورمیں تنزیہہ الشریعۃ امام ابن عراق سے نقل کرتے ہیں: عدم الثبوت لایلزم منہ اثبات العدم۲؎  (عدمِ ثبوت سے اثبات عدم لازم نہیں آتا۔ت)

 

 (۲؎ کتاب السعی المشکور فی رد المذہب المشہور لعبدالحی    ضعیف روات و جہالت الخ مطبع چشمۂ فیض لکھنؤ    ص۱۹۷)

 

 (۲؎ کتاب السعی المشکور فی رد المذہب الماثور لعبدالحی    ضعیف روات و جہالت الخ مطبع چشمۂ فیض لکھنؤ    ص۱۹۷)

 

سابعاً خادمِ حدیث جانتاہے کہ بارہا رواۃ حدیث امورمشہورہ معروفہ کوچھوڑجاتے ہیں اور ان کا وہ ترک، دلیل عدم نہیں ہوتا، ممکن کہ یہاں بھی بربنائے اشتہار حاجت ذکرنہ جانی ہو، اس اشتہار کاپتا اس حدیث صحیح سے چلے گا جوہم نے صدرکلام میں روایت کی کہ جب تابعین عظام میں بعد نمازعیدین دعاکارواج تھا توظاہراً انہوں نے یہ طریقہ انیقہ  صحابہ کرام اور صحابہ کرام نے حضورسیدالانام علیہ علیہم الصلٰوۃ والسلام سے اخذکیا، حضرات مانعین اگردیانت پرآئیں تو سچ سچ بتادیں گے کہ عیدین کے قعدہ اخیرہ میں خود بھی دعا و درود پڑھتے اور اسے جائز و مستحب جانتے ہیں، اس کی خاص نقل حضورپرنور سیدعالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے دکھادیں یااپنے بدعتی ہونے کااقرارکریں، اور اگرفرائض پرقیاس یااطلاقات سے تمسک کرتے ہیں تو یہاں کیوں یہ طرق نامقبول ٹھہرتے ہیں واﷲ الموفق۔

ثامناً نقل عدم بھی سہی پر وہ نقل منع نہیں۔

 

اﷲ عزوجل نے فرمایاہے کہ مااٰتٰکم الرسول فخذوہ ومانھٰکم عنہ فانتھوا

 

۳؎جورسول دے وہ لو اور جس سے منع فرمائے باز رہو۔

 

(۳؎ القرآن   ۵۷/۲۳)

 

یہ نہیں فرمایا کہ مافعل الرسول فخذوہ ومالم یفعل فانتھوا رسول جوکرے کرو اور جونہ کرے اس سے بچو، کہ شرعاً یہ دونوں قاعدے منقوض ہیں۔ امام الوہابیہ کے عمِ نسب وپدرِ علم وجدِّطریقت شاہ عبدالعزیزصاحب دہلوی تحفۂ اثناعشریہ میں فرماتے ہیں:

نکردن چیزے دیگرست ومنع فرمودن چیزے دیگر۴؎۔

کسی چیزکانہ کرنا اورشئ ہے اور منع کرنا اور شئ ہے۔(ت)

 

 (۴؎ تحفہ اثناعشریہ            باب دہم مطاعن ابوبکر رضی اﷲ عنہ    سہیل اکیڈمی لاہور   ص۲۶۹)

 

تاسعاً اگرمجرد عدمِ نقل یاعدم فعل مستلزم ممانعت ہو توکیاجواب ہوگا، شاہ ولی اﷲ اور ان کے والد شاہ عبدالرحیم صاحب اور صاحب زادے شاہ عبدالعزیزصاحب اور امام الطائفہ میاں اسمٰعیل اور ان کے پیرسیّد احمد اور شیخ السلسلہ  جناب شیخ مجدّدصاحب اور عمائد سلسلہ مرزا مظہر صاحب وقاضی ثناء اﷲ صاحب وغیرہم سے جنھوں نے اذکار و اشغال و اوراد و غیرہا کے صدہا طریقے احداث وایجاد کئے اور ان کے محدث و مخترع ہونے کے خود اقرار لکھے پھر انھیں سبب قُرب الہٰی و رضائے ربانی جانا کئے اور خود عمل میں لاتے اوروں کو اُن کی ہدایت وتلقین کرتے رہے۔

 

  شاولی اﷲ قول الجمیل میں لکھتے ہیں: لم یثبت تعین الاداب ولاتلک الاشغال۱؎۔ نہ یہ تعیّن آداب ثابت ہے اور نہ یہ اشغال ۔(ت)

 

 (۱؎ القول الجمیل مع شفاء العلیل        فصل۱۱    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۷۳)

 

مرزا جان جاناں صاحب مکتوب اا میں فرماتے ہیں:

ذکر جہر  یا کیفیاتِ مخصوصہ ونیز مراقبات نہ اطوار معمولہ کہ درقرونِ متأخرہ رواج یا فتہ از کتاب و سنّن ماخوذ نیست بلکہ حضرات مشائخ بطریق الہام واعلام ازمبد ءفیاض اخذ نمودہ اند و شرع ازاں ساکت است وداخل دائرہ اباحت وفائدہ دراں متحقق وانکار آں ضرورتے ۔ ۲؎

ذکر بالجہر مخصوص کیفیات کے ساتھ اس طرح اطوار معمول کے ساتھ مراقبات جو متاخرین کے دور میں رواج پاچکے ہیں یہ کتاب وسنت سے ماخوذ نہیں بلکہ حضرات مشائخ نے بطریقِ الہام واعلام مبدء فیاض سے حاصل کئے ہیں، اور شریعت ان کے بارے میں خاموش ہے اور یہ دائرہ اباحت میں داخل ، اور ان کے فوائد ہیں نقصان کوئی نہیں ۔(ت)

 

 (۲؎ مکتوبات مرزا مظہر جانجاناں از کلمات طیبات     مکتوب۱۱   مطبوعہ  مطبع مجتبائی دہلی        ص ۲۳)

 

فقیر غفراﷲ تعالٰی لہ نے اس کی قدر ے تفصیل اپنے رسالہ انھار الانوار من یم صلٰوۃ الاسرار ( ۱۳۰۵ ھ) ذکر کی وباﷲ التوفیق۔

عاشراً ان سب صاحبوں سے درگزر یے ، خود وہ عالم جن کا فتوٰی اس مسئلہ میں تمھارا مبلغ استناد و منتہائے استمداد ہے یعنی مولوی لکھنوی مرحوم انھیں کے فتاوٰی کی تصریحات جلیہ تنصیصات قویہ دیکھئے کہ ان کے اصول، فروع کس درجہ تمھارے فروع واصول کے قاطع  و قامع ہیں، پھر ان مسائل میں اُن کا دامن تھامنا، چراغِ خرد کا، صرصرجہل سے سامنا ، عقل وہوش سے لڑائی ٹھاننا، نافع ومضر میں فرق نہ جاننا، نہیں تو کیا ہے۔ میں یہاں ان کی صرف دو (۲) عبارتیں نقل کروں گا جو حضرات وہابیہ کے اسی مغالطہ عامۃ الورود یعنی حدوثِ خصوص اور قرون ثلٰثہ سے عدمِ ورود کو دلیل منع جاننے کی قاطع و فاضح ہیں اور وہ بھی صرف اسی مجموعہ فتاوٰی ، نہ ان کے دیگر رسائل سے ، تاکہ سب پر ظاہر ہو ع

کہ باکہ باختہ عشق درشبِ دیجور

( تونے اندھیری رات میں کس سے عشق بازی کی )

پھر ان میں بھی قصدِ استیعاب نہیں بلکہ صرف چند عبارتیں پیش کروں گا، بعض مفید ضوابط و اصول اور بعض میں فروع قاطعہ اصولِ فضول واﷲ المستعان علٰی کل جہول۔

 

الاصول ___ عبارت ۱: مجموعہ فتاوی جلد اول کے صفحہ ۵۶ پر علامہ سید شریف کے حواشی مشکوٰۃ سے استناداً نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے حدیث: من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد ّ۔ جس نے ہمارے امر میں نئی ایجاد کی وہ اس میں سے نہ تھی وہ مردود ہوگی ۔(ت)

کی شرح میں فرمایا: المعنی ان من احدث فی الاسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاھر اوخفی ملفوظ او مستنبط فھو مردود علیہ انتھی ۱؎ ۔

 

یعنی حدیث کے یہ معنٰی ہیں کہ جو شخص دین میں ایسی رائے پیدا کرے جس کے لئے قرآن وسنت میں ظاہر یا پوشیدہ ، صراحۃً یا استنباطاً کسی طرح کی سندنہ ہو وہ مردود ہے انتہی ۔

 

 (۱؎ مجموعہ فتاوٰی    کتاب الحظروالاباحۃ    مطبوعہ یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ     ۲/۸ )

 

تو صاف ثابت ہوا کہ قرونِ ثلٰثہ سے ورودِ خصوصیت، زنہار ضرور نہیں بلکہ عوام واطلاق اباحت میں دخول بسند کافی ہے

 

کما ھو مذھب اھل الحق ( جیسا کہ اہل حق کا مذہب ہے ۔ ت)

 

عبارت۲: اُسی  كے صفحہ۵۷  پر  امام ابن حجر مکی کی فتح مبین شرح اربعین سے ناقل : المرادمن قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلی اٰلہ وسلم من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ ماینا فیہ اولا یشھدلہ قواعد الشرع والادلۃ العامۃ انتھی ۲؎ ۔

 

یعنی حدیث کی مراد یہ ہے کہ وہی نو پیدا چیز بدعت سیئہ ہے جو دین وسنت کا رد کرے یا شریعت کے قواعد اطلاق ودلائل عموم تک اس کی گواہی نہ دیں۔

 

 (۲؎ مجموعہ فتاوٰی    کتاب الحظروالاباحۃ    مطبوعی یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ    ۲/۹)

 

عبارت۳: اُسی صفحہ میں خود لکھتے ہیں:

گمان نبری کہ استحسان شرعی صفت آن ماموربہ است کہ صراحۃً درد لیلے از دلائل ا ربعہ امرباو  وارد شدہ باشد بلکہ استحسان صفت ہر مامور بہ است خواہ صراحۃً امر باو واردشدہ باشد یا از قواعد کلیہ شرعیہ سندش یافتہ شدہ باشد۱؎ ۔

یہ گمان نہ ہو کہ استحسان شرعی ایسے مامور بہ کی صفت ہوگا جس پر دلائل اربعہ میں سے صراحۃً کوئی دلیل وارد ہوگی بلکہ استحسان ہر اس مامور بہ کی صفت بن سکتا ہے خواوہ صراحۃً اس پر امروارد ہو یا قواعد کلیہ شرعیہ سےاس پر سند ہے ۔(ت)

 

 (۱ ؎ مجموعہ فتاوی    کتاب الحظر والاباحۃ     مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ  ۲/ ۹)

 

عبارت۴: صفحہ ۵۸ پر لکھا:

ہر محدثیکہ وجودش بخصوصہ درزمانے از ازمنہ ثلثہ نباشد لیکن سندش در دلیلے ازادلہ اربعہ یافتہ شود ہم مستحسن خواہد شد نمی بینی کہ بنائے مدارس ۲؎ الخ۔

ہر وہ نئی شی جس کا وجو د تین زمانوں میں سے کسی زمانہ میں نہ ہو لیکن اس پر ادلّہ اربعہ سے سند موجود ہو تو وہ بھی مستحسن ہوگی آپ مدارس وغیرہ کی ایجاد نہیں دیکھتے الخ (ت)

 

 (۲؎  مجموعہ فتاوی    کتاب الحظر والاباحۃ     مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ    ۲/۹)

 

عبارت۵: صفحہ۵۳۱:

کتب فقہ میں نظائراس کے بہت موجود ہیں کہ ازمنہ سابقہ میں ان کا وجود نہ تھا مگر بہ سبب اغراضِ صالحہ کے حکم اس کے جواز کا دیا گیا  ۳؎۔

 

 (۳؎ مجموعہ فتاوی     کتاب المساجد      مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ    ۱/۹۱۳)

 

الفروع ___ عبارت ۶ : صفحہ ۶۲:

اگر تسلیم کنم کہ ذکرِ مولد درازمنہ ثلثہ نبود ونہ ازمجتہدین حکم او منقول شد لیکن چوں درشرع ایں قاعدہ ممہد شدہ است کل فرد من افراد نشر العلم فھو مندوب وذکر مولد نیز زیر آنست لابدحکم مند وبیت اودادہ خواہدشد ۴؎ ۔

اگر میں تسلیم کرلوں کہ ذکر مولد تین زمانوں میں سے کسی میں نہیں اور مجتہدین سے اس کا حکم منقول نہیں ہے لیکن شرع میں جب یہ بنیادی قاعدہ ہے کہ ہر وہ فرد جس سے علم کی اشاعت ہو وہ مندوب ہوتا ہے تو ذکرِ مولد بھی اسی میں شامل ہے تو ضروری ہے اسے بھی مندوب کہا جائے ۔(ت)

 

 (۴؎ مجموعہ فتاوی     کتاب المساجد      مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ    ۲ /۹۱۳)

 

عبارت ۷: صفحہ ۲۹۸:

بعد دو رکعت سنتِ ظہر و مغرب و عشاکے دو رکعت نفل پڑھنا آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کااب  تک نظر سے نہیں گزرا لیکن جو شخص بقصدِ ثواب بدون اعتقاد سنیّت پڑھے گا ثواب پائیگا کیونکہ حدیث  میں وارد ہے: الصلٰوۃ خیر موضوع فمن شاء فلیقلل ومن شاء فلیکثر ۱؎۔

 

نماز سب سے بہتر عمل ہے جو چاہتا ہے کم کرے اورجو چاہتا ہے زیادہ کرے ۔(ت)

 

 (۱؂مجموعہ فتاوی     کتاب الصلوة      مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ      ۱/۱۵۳)

 

اقول سائل سے پوچھا تھا اصل اس کی سنت واجماع وقیاس سے ثابت ہے یا نہیں اور ان  میں بعض کے لئے ثبوت خاص احادیث سے نظرِ فقیر میں حاضر مگر کلام رد خیالات وہابیت میں ہے وھو حاصل ( اور یہی حاصل ہے ۔ت)

 

عبارت۸ : صفحہ ۲۹۴:

الوداع یا الفراق کا خطبہ آخر رمضان میں پڑھنا اور کلماتِ حسرت ورخصت کے ادا کرنا فی نفسہٖ امر مباح ہے بلکہ اگر یہ کلمات باعثِ ندامت وتوبہ سامعان ہوئے تو امیدِ ثواب ہے مگر اس طریقہ کا ثبوت قرونِ ثلٰثہ میں نہیں ۲؎ الخ

 

 (۲؎ مجموعہ فتاوٰی     کتاب الحظر والاباحۃ    مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ  ۲/۲۴،۲۵)

 

   عبارت ۹: مجموعہ فتاوی جلد دوم صفحہ ۱۷۰ :

کسیکہ می گوید وجودیہ وشہودیہ ازاہل بدعت اند قولش قابلِ اعتبار نیست ومنشاء قولش جہل و ناواقفیت است ازاحوال اولیاء از معنے توحید وجودی وشہودی وشاعری کہ ذم ہر دوفرقہ ساختہ قابلِ ملامت است واﷲ اعلم ۳؎ ۔

جو شخص یہ کہتا ہے کہ وحدت الوجود اور  وحدت الشہود والے اہل بدعت ہیں اس کے قول کاکوئی اعتبار نہیں اور اس کی وجہ اس کا احوال اولیاء اور معنی توحید وجودی اور شہودی سے جہالت و ناواقفیت ہے اور وہ شاعر جو  ان دونوں طبقات پر طعن کرتا ہے وہ قابلِ مذمت ہے واﷲ اعلم ۔(ت)

 

 (۳؎ مجموعہ فتاوٰی     کتاب الحظر والاباحۃ    مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ  ۲/ ۵۸)

 

ذرا تقویۃ الایمان کی بالا خوانیاں یادکیجئے ۔

عبارت ۱۰ : صفحہ ۴۲۱:

فی الواقع شغلِ برزخ اُس طور پر کہ حضرات صوفیہ صافیہ نے لکھا ہے نہ شرک ہے نہ ضلالت، ہاں افراط وتفریط اُس میں منجر ضلالت کی طرف ہے، تصریح اس کی مکتوب مجدد الف ثانی میں جابجا موجود ہے واﷲ اعلم۱؎

 

 (۱؎مجموعہ فتاوٰی)

 

سبحٰن اﷲ وہ عالم کہ تمھارے مذہب نامہذب  پرمعاذاﷲ صراحۃً مشرک ومجوز شرک ہوچکا اُس پر اعتماد اور اس کے فتوے سے استناد کس دین ودیانت میں روا۔

عبارت۱۱: اُسی کی جلد سوم صفحہ۵۸ میں ہے :

سوال : وقت ختم قرآن درتراویح سہ بار سورہ اخلاص می خوانند مستحسن است یا نہ۔

سوال: تراویح میں ختم قرآن کے وقت تین بار سورہ اخلاص پڑھنا مستحسن ہے یا نہیں؟

جواب : مستحسن است۲؎ ۔

جواب : مستحسن ہے ۔

 

 (۲؂مجموعہ فتاوٰی        باب التراویح        مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ   ۳/۵۷)

 

عبارت۱۲: صفحہ۱۲۵:

اماجمیع میان تکلم بالفاظِ سلام ودست برداشتن و برسر یا سینہ نہادن  پس ظاہر الاباس بہ است ۳؎ ۔

لفظِ سلام کہتے ہوئے سر یا سینہ پر ہاتھ رکھنے میں ظاہراً کوئی حرج نہیں ۔(ت)

 

 (۳ ؂ مجموعہ فتاوٰی        باب المصافحہ والمعانقہ   مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ   ۳/۱۲۱)

 

عبارت۱۳: صفحہ۱۲۷:

سوال : بسم اﷲ نوشتن برپیشانی میّت ازانگشت درست یا نہ ؟

سوال: میت کی  پیشانی  پر انگلی سے بسم اﷲ لکھنا درست ہے یا نہیں؟

جواب: درست است۴ ؎ ۔

جواب: درست ہے ۔ (ت)

 

 ۴ مجموعہ فتاوٰی         باب مایتعلق بالموتی  مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ    ۳ / ۱۲۳)

 

 عبارت۱۴ : صفحہ ۱۳۳:

سوالِ قیامِ وقت ذکر ولادت باسعادت کے جواب میں قیام بالقصد کا قرون ثلٰثہ سے منقول نہ ہونا اور بعض احوال میں صحابہ کرام کا حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے قیام نہ کرنا نقل و تحریر کرکے لکھتے ہیں :

لیکن علمائے حرمین شریفین زاد ہمااﷲ شرفا قیام می فرمایند امام برزنجی رحمۃ اﷲ تعالٰی در رسالہ مولد می نویسند

 

وقد استحسن القیام عند ذکر مولدہ الشریف ائمۃ ذو  روایۃ ودرایۃ فطوبی لمن کان تعظیمہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم غایۃ مرامہ ومرماہ انتھی ۱؎ ۔

 

لیکن حرمین شریفین ( اللہ تعالٰی ان کواور شرف عطا فرمائے ) کے علماء قیام کرتے ہیں ، امام برزنجی رحمۃ اﷲ

 رسالہ مولد میں لکھتے ہیں صاحب روایۃ ودرایۃ ائمہ ذکرِ مولد شریف کے وقت قیام مستحسن تصور کرتے ہیں مبارک ہے ان علمائے کے لئے جس کا مقصد ومنزل نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں تعظیم ہے انتہی (ت)

 

 (۱؎ مجموعہ فتاوٰی        باب قیامِ میلاد شریف            مطبوعہ مطبع یُوسفی فرنگی محلی لکھنؤ    ۳/ ۱۳۰)

 

یعنی ذکرِ ولادت شریف کے وقت قیام کرنے کو ان اماموں نے مستحسن فرمایا ہے جو صاحبِ روایت و درایت تھے تو خوشی وشادمانی ہو اسے جس کی نہایت مراد و مقصد حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم ہے اور خود مجیب لکھنؤ ی حرمین طیبین کی مجالسِ متبرکہ میں اپنا حاضرو شریک ہونا بیان کرتے اور انھیں مجالس متبرکہ لکھتے ہیں حالانکہ بشہادت مجیب ومشاہدہ تواتر ان مجالس ملائک مآنس کا قیام پر مشتمل ہونا یقینی ، مجیب موصوف اسی جلد فتاوٰی صفحہ۵۲ میں لکھتے ہیں:

درمجالس مولد شریف کہ ازسورۂ والضحی تا آخر می خوانند البتہ بعد ختم ہر سورہ تکبیر می گویند راقم شریک مجالس متبرکہ بودہ ایں امر را مشاہد کر دہ ام ہم درمکہ معظمہ وہم درمدینہ منورہ وہم درجدہ ۲؎ ۔

مولد شریف کی مجالس میں سورہ والضحٰی سے لے کر آخر تک پڑھتے ہیں ہر سورت کے اختتام پر تکبیر کہتے ہیں راقم الحروف مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور جدّہ میں ان مجالس مبارکہ میں شریک ہوا ہے ۔(ت)

 

 (۳ ؎ مجموعہ فتاوٰی    باب القراءۃ فی الصلوٰۃ قراءۃ فاتحہ خلف الامام      مطبوعہ مطبع یُوسفی فرنگی محلی لکھنؤ ۳/۵۲)

 

عبارت ۱۵:طرفہ یہ کہ صفحہ ۱۲۰پر لکھتے ہیں:

 

سوال: پارچہ جھنڈا سالار مسعود غازی ودر مصرف خود آردیا تصدق نماید؟

 

سوال: سالار مسعود غازی کے جھنڈے کا کپڑا اپنے مصرف میں لایا جاسکتا ہے یا اسے صدقہ کردیا جائے؟

 

جواب : ظاہراً دراستعمال پارچہ مذکور بصرفِ خود و جہی کہ موجب ہزہ کاری باشد نیست واولے آنست کہ بمساکین وفقراء دہد۳ ؂۔

 

جواب: ظاہراً اپنے استعمال میں لانے میں کوئی گناہ نہیں، ہاں بہتر یہ ہے کہ مساکین وفقراء پر خرچ کردیا جائے ۔(ت)

 

 ( ؎۳ مجموعہ فتاوٰی     باب مایحل استعمالہ ومالایحل        مطبوعہ مطبع یُوسفی فرنگی محلی لکھنؤ ۳/۱۱۶)

 

ذرا حضرات مخالفین اس اولٰی آنست ( بہتر  یہ ہے ۔ ت) کی وجہ بتائیں اور اسے اپنے اصول پر منطبق فرمائیں ولاحول ولا قوۃ الّا باﷲ العلی العظیم اس قسم کے کلام رسائل ومسائل مجیب میں بکثرت ملیں گے

 

وفیما ذکرنا کفایۃ اﷲ واﷲ سبحٰنہ ولی الھدایۃ  ( جو کچھ ہم نے ذکر کیا یہ کافی ہے۔ اور اﷲ تعالٰی کی ذات پاک ہے اور وہی ہدایت کا مالک ہے ۔ت)بحمد اﷲ جواب اپنے منتہی کو پہنچا اور تحقیق حق تا دزدۂ علیا اب نہ رہا مگر سعی مانعین کا وہ پہلا رونما یعنی عوام کا بعد نماز فرائض بھی دعا سے دست کش ہونا، یہاں اگر میں نقل احادیث پر اتروں تو ایک مستقل رسالہ املا کروں مگر بحکم ضرورت صرف مولوی عبدالحی صاحب کاایک فتوٰی ملخصا نقل کرتا ہوں جس پر غیر مقلدین زمانہ کے امام اعظم نذیر حسین دہلوی کی بھی مہر ہے، مجموعہ فتاوٰی جلد دوم صفحہ ۴۷۷: چہ می فرمایند علمائے دین اندریں مسئلہ کہ رفع یدین در دعا بعد نماز چنانکہ معمول ائمہ ایں دیارست ہر چند فقہا مستحسن می نویسند واحادیث درمطلق رفع یدین دردعا نیز وارد دریں خصوص ہم حدیثے وارد ست یانہ ، بینوا توجروا۔

 

اس بارے میں علماء کیا فرماتے ہیں کہ نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھا ناجیسا کہ اس علاقے کے ائمہ کا طریقہ ہے کیسا ہے ؟ فقہاء نے اسے مستحسن لکھا ہے احادیث میں مطلقاً دُعا میں ہاتھ اٹھانے کا تذکرہ بھی آیا ہے کیا اس سلسلہ میں کوئی حدیث ہے یا نہیں؟ بیان کرکے اجر پاؤ۔

 

ھوالمصوب دریں خصوص نیز حدیثے وارد ست حافظ ابوبکر احمد بن محمد بن اسحٰق بن السنی درعمل الیوم واللیلہ می نویسند حدثنی احمد بن الحسن حدثنا ابواسحق یعقوب  بن خالد بن یزید الیالسی حدثنا عبدالعزیز بن عبدا لرحمن القرشی عن خصیف عن انس عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ قال مامن عبد بسط کفیہ فی دبر کل صلٰوۃثم یقول اللھم الٰھی والہ ابراھیم واسحٰق ویعقوب والہ جبرئیل و میکائیل واسرافیل اسئلک ان تستجیب دعوتی فانی مضطر و تعصمنی فی دینی فانی مبتلی وتنالنی برحمتک فانی مذنب وتنفی عنی الفقر فانی متمسکن الا کان حقا علی اﷲ عزوجل ان لایردید یہ خائبتین واﷲ تعالٰی اعلم ۱؎

 

ھوالمصوب، اس بارے میں خصوصاً حدیث بھی وارد ہے حافظ ابوبکر احمد بن محمد بن اسحٰق بن السنی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں لکھتے ہیں کہ مجھے احمد بن حسن انھیں ابواسحٰق یعقوب بن خالد بن یزید الیالسی نے انھیں عبدالعزیز بن عبدالرحمن القرشی نے انھیں خصیف نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے بھی ہر نماز کے بعد اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور پھر عرض کیا : اے اﷲ میرے معبود ، سیدنا ابراہیم و اسحٰق اور یعقوب کے معبود، جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے الہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میری دعا قبول کیجئے، میں مضطر، مجھے میرے دین میں محفوظ رکھئے، میں مبتلا ہوں مجھے اپنی رحمت عطا کیجئے میں نہایت گنہگار  ہوں میرے فقر کو دور کر دیجئے میں نہایت مسکین ہوں، تو اﷲ تعالٰی پر حق ہے کہ اس کے ہاتھوں کو خالی نہ لوٹائے۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)

 

               

 

 (۱؎  مجموعہ فتاوٰی    کتاب الصلوٰۃ رفع یدین در دعا بعد ادائے نماز پنجگانہ     مطبوعہ مطبع یوسفی فرنگی محلی لکھنؤ ۱/۲۴۸ )

 

الجواب صحیح ویؤ یدہ ما رواہ ابوبکر ابن ابی شیبۃ فی المصنف عن الاسود العامری عن ابیہ قال صلیت مع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الفجر فلما سلم انصرف ورفع یدیہ و دعاالحدیث فثبت بعد الصلٰوۃ المفروضۃ رفع الیدین فی الدعاء عن سید الانبیاء اسوۃ الاتقیاء صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کما لا یخفی علی العلماء الاذکیا ء۔

 

جواب صحیح ہے اور اس کی تائید وہ روایت بھی کرتی ہے جو ابوبکر بن ابی شیبہ نے مصنف میں اسود عامری سے انھوں نے اپنے والد سے بیان کی کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر ادا کی آپ نے سلام پھیرا، ہاتھ اٹھائے اور دُعا کی الحدیث، لہذا نماز فرض کے بعد سیّد الانبیاء اسوۃ الاتقیاء صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے ہاتھ اٹھا کر دُعا مانگنا ثابت ہے جیسا کہ علماء اذکیاء پر مخفی نہیں ۔(ت)

 

               

 

لطیفہ : فقیرغفر لہ المولی القدیر نے وہابیہ کے اس خیال ضلال کے رَ د و ابطال کو کہ جو کچھ بخصوصہ قرون ثلٰثہ سے منقول نہیں ممنوع ہے، مجیب کی پندرہ (۱۵) عبارتیں نقل کیں مگر لطف یہ ہے کہ خود ہی فتوے جس سے یہاں انھوں نے استناد کیا اس خیال کے ابطال کو بس ہے، مجیب کی عادت ہے کہ شروع جواب میں ھوا لمصوب( وہی درست کرنے والا ہے ۔ت) یہی لفظ اُس فتوے کی ابتداء میں بھی لکھا کما سمعت نصہ ( جیسا کہ اس کے الفاظ آپ پیچھے پڑھ چکے ۔ ت) اب حضرات مخالفین ثابت کر دکھا ئیں کہ حضور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یا صحابہ کرام وتابعین عظام علیہم الرضوان ،  اﷲ جل وعلا کو مصّوب کہا کرتے ہوں خصوصاً بحالیکہ اسمائے الہٰیہ توقیفی ہیں،

 

واذ قد بلغنا الٰی ذکر التوقیف وقف القلم و کان ذلک اللیلۃ بقیت من اوسط عشرات شعبان المعظم سنۃ، الف(۱۳۰۷ھ) وثلثمائۃ و سبع من ھجرۃ سید العالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم والحمد اﷲ علی ما الھم والصلٰوۃ والسلام علی المولی الاعظم واٰلہ وصحبہ سادات الامم واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔

 

جب ہم لفظ توقیف پر پہنچ چکے قلم رک گیا اس کا اختتام ۱۳۰۷ھ میں شعبان المعظم کے وسط میں ہوا، سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو رہنمائی کرتا ہے صلوٰۃ وسلام مولی اعظم پر، آپ کی آل پر اور اصحاب پر جو کہ امت کے سربراہ ہیں۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔ (ت)

 

مسئلہ ۱۴۱۴تا ۱۴۱۵: بنارس محلہ کنڈی گڑ تولہ مسجد بی بی راجی شفا خانہ از مولوی عبدالغفور صاحب

۶ جمادی الآخر  ۱۳۱۲ھ

 بخدمت لازم البرکۃ جامع معقول ومنقول حاوی فروع واصول جناب مولانا مولوی احمد رضا خاں صاحب مداﷲ فیضانہ از جانب خادم الطلبہ عبدالغفور سلام علیک قبول باد، کچھ مسائل میں یہاں درمیان علما کے اختلاف ہے لہذا مسئلہ ارسال خدمت لازم البر کۃ ہے امید ہے کہ جواب سے مطلع فرمائیں

(۱)  زید کہتا ہے نماز عیدین صحرا میں پڑھنی سنت ہے لیکن شہر میں بھی جائز ہے جس شخص نے نماز مذکور شہر میں پڑھی نماز  اس کی ضرور ادا ہوئی البتہ ترکِ سنت اس نے کیا اور ثواب سنّت سے محروم رہا، عمرو کچھ روز تک قائل تھا نماز عیدین شہر میں جائز نہیں مگر چند روز سے بذاتِ خود یا بوجہ تعلم کسی غیر کے کہتاہے گو نماز مذکور شہر میں جائز ہے لیکن پڑھنے والے گنہگار ہوں گے۔

(۲) زید کہتاہے نمازِ عیدین مسجد پختہ چھت دار کے اندر جو صحرا میں واقع ہے پڑھنے سے ثواب صحرا میں پڑھنے کا نہ ملے گا عمرو کہتا ہے گو مسجد پختہ چھت دار ہے مگر چونکہ صحرا میں واقع ہے لہذا ثواب صحرا میں پڑھنے کا ملے گا، ان سب مسائل میں قول زید کا صحیح ہے یا عمرو کا؟ بینوا توجروا

 

الجواب

(۱) قولِ زید صحیح ہے عامہ کتبِ مذ ہب متون وشروح وفتاوٰی میں تصریح ہے کہ نماز عیدین بیرون شہر مصلی یعنی عیدگاہ میں پڑھنی مندوب ہے، مستحب ہے، افضل ہے، مسنون ہے ، فرض نہیں کہ شہر میں ادا ہی نہ  ہو ،  واجب نہیں کہ شہر میں پڑھنا مطلقاً گناہ ہو، نقایہ وکنز و وافی و غرر واصلاح و ملتقی وغیرہا متون میں بلفظ ندب ۱؎ ،

 

 (۱؎  کنز الدقائق        باب العیدین        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۴۹)

 

وقایہ بکلمہ حبب۲؎ ،

 

 (۲؎  شرح وقایہ           باب العیدین     مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ دہلی      ۱/ ۲۴۵)

 

ہدایہ میں بلفظ یستحب۳؎ ،

 

 (۳؎  الہدایہ          باب العیدین          مطبوعہ المکتبہ العربیہ کراچی        ۱ /۱۵۱)

 

تعبیر فرمایا۔ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں علامہ ابن ملک سے ہے: الافضل اداؤھا فی الصحراء فی سائر البلدان وفی مکۃ خلاف ۴؎۔

 

تمام شہرو ں میں میدان میں عید ادا کرنا افضل ہے لیکن مکہ میں اختلاف ہے ۔(ت)

 

 (۴؎  مرقاۃ شرح المشکوٰۃباب صلوٰۃ العیدین         مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان       ۳/۲۹۸)

 

متنِ تنویر  و فتح القدیر و درر  و ہندیہ و مضمرات وبزازیہ و غنیہ و خانیہ و خلاصہ وخزانۃ المفتین و فتاوٰی ظہیریہ وغیرہا میں ہے: الخروج الیھا سنّۃ۵؎ ۔  ( عیدگاہ کی طرف نکلناسنّت ہے ۔ت)

 

 (۵؎  تنویر الابصار مع الدرالمختار     باب العیدین        مطبوعہ  مطبع مجتبائی دہلی       ۱/۱۱۴)

 

بحرمیں ہے: التوجہ الی المصلی مندوب کما افادہ فی التجنیس وان کانت صلٰوۃ العید واجبۃ حتی لوصلی العید فی الجامع ولم یتوجہ الی المصلی فقد ترک السنۃ ۶؎ ۔

 

عید گاہ کی طرف جانا مندوب ہے جیساکہ تجنیس میں ہے اگر چہ نماز عید واجب ہے حتی کہ اگر کسی نے جامع مسجد میں عید پڑھی اور عیدگاہ کی طرف نہیں گیا تو اس نے سنّت کو ترک کیا ۔(ت)

 

 (۶؎  بحرالرائق      باب العیدین       مطبوعہ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی       ۲/۱۵۹)

 

شرح نقایہ قہستانی میں ہے : الخروج الیہ یندب وان کان الجامع یسعھم فالخروج لیس بواجب ۷؂ ۔

 

عید گاہ کی طرف نکلنا مندوب ہے اگر جامع مسجد میں لوگوں کی گنجائش ہو البتہ نکلنا واجب نہیں ۔(ت)

 

 (۷؎ جامع الرموز     فصل صلوٰۃ العیدین      مطبوعہ  مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران   ۱/۲۷۱)

 

غنیہ میں جامع الفقہ ومنیہ المفتی وذخیرہ سے ہے : یجوز  اقامتھا فی المصر و فنائہ و موضعین فاکثرو بہ قال الشافعی واحمد ۱؎۔

 

شہر اور فنائے شہر میں عید دو یا زیادہ مقامات پر ادا کی جاسکتی ہے، امام شافعی اور امام احمد کی یہی رائے ہے ۔ (ت)

 

 (۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیہ المصلی    فروع خروج الی المصلی    مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور    ص  ۵۷۲)

 

ہاں جو سنت مؤکدہ ہو اور کوئی شخص بلاضرورت بے عذر براہ تہاون وبے پروائی اس کے ترک کی عادت کرے اُسے ایک قسم اثم لاحق ہوگی نہ ترکِ سنت بلکہ اس کی کم قدری وقلت مبالات کے باعث،

 

فی شرح المنیۃ للعلامۃ ابراھیم الحلبی لا یترک رفع الیدین عند التکبیر لانہ سنۃ مؤکدۃ ولو ا عتاد ترکہ یا ثم لالنفس الترک بل لانہ استخفاف و عدم مبالاۃ بسنۃ واظب علیھا النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مدۃ عمرہ امالو ترکہ بعض الاحیان من غیر اعتداد لا یا ثم وھذا مطرد فی جمیع السنن المؤکدۃ  ۲؎ اھ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔

 

شرح منیۃ میں علامہ ابراھیم حلبی کہتے ہیں کہ تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا ترک نہ کیا جائے کیونکہ یہ سنت مؤکدہ ہے اور اگر ترک کو عادت بنا لیتا ہے تو گناہ گار ہوگا مگر نفسِ ترک کی وجہ سے نہیں بلکہ ایسی سنت کو ہلکا سمجھنے اوراس سے لاپروائی کی وجہ سے ہوگا جس پر نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تمام عمر ہمیشگی فرمائی، ہا ں بغیر عادت کے بعض اوقات ترک کردے تو گنہگار نہ ہوگا اور  یہی اصول تمام سنن مؤکدہ میں جاری ہوتا ہے اھ واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم  (ت)

 

 (۲؂غنیۃ المستملی شرح منیہ المصلی  باب صفۃ الصلوٰۃ     مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور      ص ۳۰۰)

 

 (۲) عمرو کا قول صحیح ہے اور زید کا دعوٰی بھی وجہِ صحت رکھتا ہے اگر صحرا سے اُس کی مراد فضائے خالی ہو۔

اقول وبا ﷲ التوفیق تحقیق یہ ہے کہ یہاں دو (۲) چیزیں ہیں ایک اصل سنت کہ نمازی عیدین بیرونِ شہر جنگل میں ہو شارع علیہ الصلاۃ والسلام نے اُس میں حکمت اظہار شعار اسلام وشوکت وکثرت مسلمین رکھی ہے یہ بات نفس خروج واجتماع سے حاصل اگر چہ صحرا میں کوئی عمارت بنالیں پس قولِ عمرو کہ جب مسجد صحرا میں ہے تو  بیرونِ شہر جانے جنگل میں پڑھنے کا ثواب حاصل  بلاشبہ صحیح  ہے۔ دوم سنت،  سنت کہ تکمیل و تاکید  اصل سنت کے لئے ہے یعنی فضائے خالی بے عمارت میں پڑھنا کہ اس میں زیادت اظہار شعار و شوکت ہے، مسجد عیدگاہ واقع صحرا میں پڑھنے سے اگر چہ اصل اظہار شعار  و صلوٰۃ فی الصحرا کا ثواب حاصل، مگر صلوٰۃ فی الفضا میں اتباع اتم پر جو ثواب ازید ملتا وہ نہ ہوا جبکہ  جانب تعمیر کسی مصلحتِ شرعیہ سے مترجح نہ ہوا، اس معنی پر قول زید بھی روبصحت ہے زمانہ اکرم حضور  پر نور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں مصلائے عید کفِ دست میدان تھا جس میں اصلاً تعمیر نہ تھی مدینہ طیبہ کے شرقی دروازے پر ،

 

کما فی المقصد التاسع من المواھب  (جیسا کہ مواہب اللدنیہ کے نویں مقصد میں ہے ۔ت) مسجد اطہر کے باب السلام سے ہزار قدم کے فاصلے  پر ،

 

کما فی الزرقانی عن فتح الباری عن عمر بن شبھۃ فی الاخبار المدینۃ عن ابن غسان الکتانی صاحب مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ

 

(جیسا کہ زرقانی میں فتح الباری سے ہے کہ عمر بن شبہ نے اخبار المدینہ میں ابوغسان الکتانی جو صاحب مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ ہیں سے روایت کیا ہے ۔ت) سنن ابن ماجہ و صحیح ابن خزیمہ و مستخرج اسمٰعیل میں عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے ہے : ان  رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان یغد والی المصلی فی یوم عید والعنزۃ تحمل بین یدیہ فاذا بلغ المصلی نصبت بین یدیہ فصلی الیھا وذلک ان المصلی کان فضاء لیس فیہ ما یستربہ ۱؎ ۔

 

بلا شبہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عید کے دن صبح سویرے عیدگاہ کی طرف نکلتے آپ کے آگے آگے کسی کے ہاتھ میں نیزہ اٹھایا ہوتا ، جب آپ عیدگاہ میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کے سامنے نیزہ گاڑ دیا جاتا آپ اس کے سامنے ہو کر نماز پڑھاتے اور  یہ عیدگاہ میدان میں تھی وہاں کوئی دیوار  وغیرہ نہ تھی (ت)

 

 (۱؎  السنن لابن ماجہ     باب ماجاء فی الحربۃ یوم العید    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ص ۹۳)

 

اب صدہا سال سے اس کا احاطہ بن گیا، علامہ سید نورالدین سمہودی قدس سرہ استظہار فرماتے ہیں کہ یہ عمارت زمانہ امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں تعمیر ہوئی،

 

کما فی کتابہ قدس سرہ فی تاریخ طیبہ الطیّبۃ صلی اﷲ تعالٰی علی طیب اطیب طیبہا بطیبہ واٰلہ الطائب وبارک وسلم

 

 (جیسا کہ ان کی کتاب تاریخ طیبہ میں ہے تمام پاکوں سے پاک پر صلوٰۃ وسلام ہو، اُن کی آلِ  پاک پر  ہو  اور برکات و سلام ہو، ت) اور  واقعی جب امیر المومنین ممدوح نے مسجد اقدس حضور  پر نور صلوات اﷲ وسلامہ علیہ کی تجدید تعمیر فرمائی ہے جہاں جہاں حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا نماز پڑھنا معلوم ہو اُن سب کی بھی تعمیر جدید، خواہ تجدید فرمائی

 

کما یستفاد من عمدۃ القاری للعلامۃ الامام البدر محمود العینی عن عمر بن شبہۃ عن ابی غسان عن غیر  واحد من اھل العلم

 

(جیسا کہ عمدۃ القاری علامہ بدرالدین محمود العینی نے عمر بن شبہہ سے انھوں نے ابو غسان سے اور انھوں نے متعدد اہل علم سے بیان کیا ہے۔ ت) علمائے کرام کو عیدین کے لئے مصلی کو جانا مسنون ومستحب بتاتے ہیں وہی یہ بھی بحث فرماتے ہیں کہ مصلائے عید جمیع احکام میں مسجد ہے یا صرف بعض میں، اور اس میں بول وبراز  و  وطی جائز ہیں یا نہیں کہ اگر چہ وہ سب احکام میں مسجد نہ سہی مگر بانی نے یہ عمارت اس لئے نہ بنائی،

 

بحرالرائق میں ہے : اختلفوا  فی مصلی الجنازۃ والعید فصحح فی المحیط فی مصلی الجنائز انہ لیس لہ حکم المسجد اصلا وصحح فی مصلی العید کذلک الا فی حق جواز الاقتداء وان لم تتصل الصفوف وفی النھایۃ وغیرھا والمختار للفتوی فی المسجد الذی اتخذ لصلٰوۃ الجنازۃ والعید انہ مسجد فی حق جواز الاقتداء  وان انفصل الصفوف رفقا بالناس وفیما عد اذلک لیس لہ حکم المسجد اھ وظاھر ما فی النھایۃ انہ یجوز الوطئ والبول والتخلی فی مصلی الجنائز و العید ولا یخفی ما فیہ فان البانی لم یعدہ لذلک فینبغی ان لا تجوز ھذہ الثلثۃ وان حکمنا بکونہ غیر مسجد وانما تظھر فائدتہ فی بقیۃ الاحکام التی ذکرناھا وفی حل دخول للجنب والحائض ۱ ؎ اھ

 

جنازہ گاہ اور عیدگاہ میں اختلاف ہے محیط میں اسے صحیح کہا کہ جنازہ گاہ کا حکم بالکل مسجد والا نہیں اور عیدگاہ کے بارے میں یہی صحیح ہے مگر جو از اقتدا کے حق میں مسجد والا ہے اگر چہ صفیں متصل نہ ہوں، عنایہ وغیرہ میں ہے کہ لوگوں کی رعایت کی وجہ سے فتوٰی میں مختار یہ ہے کہ عیدگاہ اور جنازہ گاہ جوازِ اقتدا کے حوالے سے مسجد کے حکم میں ہیں اگر چہ صفیں متصل نہ ہوں اورا ن کے علاوہ میں مسجد کا حکم نہیں اھ نہایہ کی عبارت سے یہی ظاہر ہے کہ عیدگاہ اور جنازہ گاہ کے اوپر وطی اور بول وبراز جائز ہے اور یہ محل نظر ہے کیونکہ بانی نے اسے اس لئے نہیں بنایا لہذا اگر چہ انھیں ہم مسجد کا حکم نہیں دیتے مگر  یہ تینوں چیزیں ( وطی، بول و براز ) اس کے اوپر جائز نہیں اور اس کا فائدہ بقیہ احکام میں ظاہر ہوگا جو  ہم ذکر کر رہے ہیں اور جنبی وحائضہ کا داخلہ بھی ہوسکتا ہے اھ (ت)

 

 (۱؎  بحرالرائق        باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فیہا    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲/ ۳۶)

 

جواہر الاخلاطی فصل فی العیدین میں ہے: لوکان محراب المصلی عشرۃ اذرع وصف القوم مائۃ ذراع ولایتصل الصفوف جازت صلٰوۃ الکل۲؎۔

اگر عید گاہ کا محراب دس ذراع تھا اور لوگوں کی صف سَو ذراع، صفیں متصل نہ  ہوں تو تب بھی تمام کی نماز جائز ہوگی ۔(ت)

 

 (۲؎  جواہر الاخلا طی    فصل فی العیدین         غیر مطبوعہ نسخہ            ص ۵۱)

 

جامع الرموز میں ہے : المصلی محوط بالفناء۱؎ ( عیدگاہ وہ ہے جو میدان میں احاطہ بنا ہو ۔ت)

 

 (۱؎  جامع الرموز        فصل صلوٰۃ العیدین    مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۱ /۲۷۱)

 

صحیح بخاری شریف میں ایک باب وضع فرمایا : باب العلم بالمصلی ۲ ؎ یعنی مصلائے عید میں شناخت کے لئے کوئی علامت امام بدر محمودنے اس علامت میں عمارت مصلے کو بھی داخل فرمایا :

 

 (۲؎ صحیح بخاری        کتاب العیدین    مطبوعہ  قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/ ۱۳۳)

 

عمدۃ القاری میں ہے: ص باب العلم الذی بالمصلی ش ای ھذا باب فی بیان العلم الذی ھو بمصلی العید والعلم بفتحتین ھو الشیئ الذی عمل من بناء او وضع حجر او نصب عمود ونحو ذلک یعرف بہ المصلی ۳؎ ۔

 

باب عیدگاہ کی علامت کے بیان میں ہے ش یعنی یہ باب اس علامت کے بیان میں ہے کہ یہ جگہ عیدگاہ ہے العلم عین  اور لام دونوں پر زبر ہے اس سے مراد علامت ہے خواہ بنا کی صورت میں ہو یا پتھر ولکڑی وغیرہ نصب کرنے سے ہو جس سے اس کے عیدگاہ ہونے کا پتا چل سکے ۔(ت)

 

 (۳؎ عمدۃ القاری شرح البخاری    باب العلم بالمصلی    مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت    ۶ / ۲۹۸)

 

بالجملہ تعمیر عیدگاہ جواز ظاہر ، اگر افضل فضائے خالی ہوبلکہ امام تاج الشریعۃ کی تصحیح پر نظر کیجئے ( کہ انھوں نے فرمایا صحیح یہ ہے کہ مصلائے عید جمیع احکام میں مسجد ہے ) جب تو اس کی تعمیر ضروری ہوگی خصوصا بلاد ہندوستان میں جہاں کفار کا غلبہ ہے کہ یوں ہی رکھیں تو آدمی جانور، جنب، حائض سب اس میں چلیں گے، پیشاب کریں گے، مسجد کی بے حرمتی ہوگی،

 

علامہ شرنبلالی غنیہ ذوی الاحکام میں فرماتے ہیں: ذکر الصدر الشھید المختار للفتوی فی الموضع الذی یتخذ لصلٰوۃ الجنازۃ و العیدانہ مسجد فی حق جواز الاقتداء و ان انفصل الصفوف رفقا بالناس و فیما عدا ذلک لیس لہ حکم المسجد کذا ذکرہ الامام المحبوبی اھ ذکرہ الکاکی و مثلہ فی فتح القدیر ویخالفہ ماقالہ تاج الشریعۃ والاصح انہ ای مصلٰی العید یاخذ حکمھا ای المساجد لانہ اعد لاقامۃ الصلٰوۃ فیہ بالجماعۃ لاعظم الجموع علی وجہ الاعلان الا انہ ابیح ادخال الدواب فیھا ضرورۃ الخشیۃ علی ضیا عھا وقد یجوز ادخال الد واب فی بقعۃ المساجد لمكان  العذر  والضرورة اھ فقد اختلف التصحیح فی مصلی العید واتفق فی مصلی الجنازۃ ۱؎  ۔

 

صدر الشہید نے فرمایا کہ لوگوں کی رعایت کی وجہ سے فتوٰی کے لئے مختار یہ کہ وہ جگہ جو جنازہ یا عید کی نماز کے لئے بنائی گئی ہو اسے جواز اقتدا میں مسجدکا حکم دیا جائے گا اگر چہ صفیں متصل نہ ہوں اور اس کے علاوہ اس کا حکم مسجد والا نہ ہوگا، امام محبوبی نے بھی اسی طرح بیان کیا ہے اھ اسے کاکی نے ذکر کیا اور اسی کی مثل فتح القدیر میں ہے اور تاج الشریعۃ نے اس کی مخالفت کی ہے اور اصح یہ ہے کہ عیدگاہ مسجد والا حکم رکھتی ہے کیونکہ عیدگاہ جماعتِ اعظم کے ساتھ اجتماعی صورت میں بطور اعلان اقامتِ نماز کے لئے بنائی گئی ہوتی ہے البتہ اس میں چار پایوں کا داخلہ مباح اس لئے قرار دیا گیا ہے تاکہ ان کا ضیاع نہ ہو اور عذر وضرورت کے  پیش نظر مساجد کی جگہ میں چوپایوں کا داخلہ جائز ہوتاہے، عیدگاہ میں تصحیح اقوال میں اختلاف ہے مگر جنازہ گاہ میں اتفاق ہے ۔(ت)

 

 (۱؎  ٖغنیہ ذوی الاحکام حاشیہ دررغرر    باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فیہا    مطبوعہ احمد کامل الکائنہ دارسعادت بیروت      ۱/۱۱۰)

 

اس قول پر زمانہ اقدس میں عمارت نہ ہونا وارد نہ ہوگا کہ مدینہ طیبہ میں رو ز اول سے بحمد اﷲ تعالٰی اسلام ہی حاکم اسلام ہی غالب ہے عہد اطہر کے حضرات میں آداب شریعت کا جو تحفظ تھا روشن ہے ۔ جمہور ائمہ ترجیح اگر چہ اس تصحیح کے خلاف پر ہیں تاہم قول مصحح ہے اور خلاف علماء کا لحاظ بالاجماع مستحب اگر چہ غیر مذہب میں ہو نہ کہ خود اپنے مذہب میں خلاف قوی باختلاف تصحیح ، بہر حال اس قدر میں شک نہیں کہ اس تعمیر سے وہ جگہ صحرا سے نکل کر آبادی نہ ہوجائے گی اور اس میں نماز صحرا ہی میں نماز  رہے گی اور نماز صحرا کا ثواب ہاتھ سے نہ جائے گا، تو قولِ عمرو  واضح الصحۃ ہے

 

ھذا کلہ ماظھر لی والعلم بالحق عند العلیم العلی ( مجھ پر یہی واضح ہوا ہے اور حقیقت کا علم اللہ تعالٰی کے  پاس ہے ۔ت) واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم ۔

 

مسئلہ ۱۴۱۶تا۱۴۱۹:  مسئولہ مولوی رحیم بخش صاحب ازآرہ شاہ آباد مدرسہ فیض الغربار ۳۰ محرم ۱۳۳۲ھ

علمائے دین ان سوالوں میں کیا فرماتے ہیں:

(۱) نمازِ عید اور خطبہ کے درمیان یا خطبہ اول و دوم کے درمیان تحریک چندہ اور کسی ( مسلمان جج ) کی مدح وثناء ، خوشامد وغیرہ ( مثلاً امام نے جج کو قاضیِ وقت وقاضی شرع کہا او ریہ بھی کہا کہ قاضی (جج ) صاحب کے ہوتے مجھے نماز پڑھانے کا حق نہ تھا لہذا ان کی اجازت سے نماز پڑھاتا ہوں قرآن و حدیث، اجماع مجتہد و تعامل علمائے ثقہ کسی سے ثابت ہے یا نہیں؟

(۲) ثابت نہ ہونے کی صورت میں نماز اور خطبہ میں کسی قسم کی کراہت پیدا ہوئی یا نہیں؟

(۳) امامت جمعہ وعیدین وامامت نماز پنجگانہ کا حکم ایک ہی ہے یا فرق ہے ؟

(۴) قاضیِ شرع کسے کہتے ہیں، قاضی کے شرائط کیا ہیں، جج شرعی قاضی ہے یا نہیں، اگرہے تو ہر جج یا صرف مسلمان جج، اگر صرف مسلمان جج تو کیوں؟ بینوا توجروا

 

الجواب

چندہ کی تحریک اگر کسی امر دینی کے لئے ہو تو عین خطبہ میں اس کی اجازت اور خود حدیث میں ثابت ہے ایک بار خطبہ فرماتے ایک صاحب کو ملا حظہ فرمایا کہ بہت حالت فقر ومسکنت میں تھے ، حاضرین سے ارشاد فرمایا: تصدقوا ، صدقہ دو،ایک صاحب نے ایک کپڑا، دوسرے صاحب نے دوسرا کپڑا دیا، پھر ارشاد فرمایا: تصدقوا ، صدقہ دو ۔ یہ مسکین جن کو ابھی دو کپڑے ملے تھے اُٹھے اور ان دو کپڑوں میں سے ایک حاضر کیا، یعنی حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا حکم کہ تصدقوا حاضرین کے لئے عام ہے اور میں بھی حاضر ہوں اور اس وقت دو (۲) کپڑے رکھتا ہوں ایک حاضر کرسکتا ہوں، ان کو اس سے باز رکھا گیا تو تمھارے ہی لئے تصدّق کا حکم فرمایا جاتا ہے نہ کہ تم کو، مگر ہندوستان میں تحریک چندہ اگر چہ کیسے ہی ضروری کام کے لئے ہو زبان اردو میں ہوگی اور خطبہ میں غیر عربی کا خلط مکروہ و خلاف سنت ہے، لہذا اُس وقت نہ چاہئے بلکہ بعد ختم خطبہ عید جس طرح صحیحین میں ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خطبہ عید تمام فرما کر گروہِ نساء پر تشریف لے گئے اور ان کو تصدق کا حکم فرمایا وہ اپنے زیور اتار اتار کر حاضر کرتی تھیں اور بلال رضی اﷲ تعالٰی اپنے دامن میں لئے تھے واﷲ تعالٰی اعلم۔

جو قاضی خلاف احکام شرعیہ حکم کرتا ہو، اگر چہ مسلمان ہو، اگر چہ سلطنت اسلامیہ کا قاضی ہو، ہرگز اس کی مدح جائز نہیں خصوصا منبرپر خصوصا خطبہ جمعہ یا عیدین میں اس کے سبب خطبہ میں تو کراہت یقینی ہے

 

لاشتما لھا علی المحرم ( کیونکہ یہ حرام پر مشتمل ہے ۔ت) اوراگر خطبہ جمعہ میں ہو تو اس کی کراہت نماز کی طرف بھی سرایت کرے گی کہ جمعہ میں خطبہ شرائط نماز سے ہے اور نماز سے قبل ہوتا ہے، ہاں عیدین میں کہ نماز ہوچکی اور خطبہ نہ اس کی شرائط نہ اس میں فرض نہ  واجب بلکہ ایک سنتِ مستقلہ ہے، خطبہ کی کراہت نماز کی طرف سرایت نہ کرے گی ، یہ تو خطبہ ہے کہ خاص امردین ہے اور منبر کہ خاص مسند سید المرسلین ہے صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ، مطلقاً مدح فاسق کی نسبت میں ارشاد ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اذامدح الفاسق غضب الرب واھتزلہ عرش الرحمٰن ۱؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

جب فاسق کی مدح کی جاتی ہے رب عزوجل غضب فرماتا ہے اور اس کے سبب رحمن کا عرش ہل جاتا ہے۔

 

 (۱؎  الکامل لابن عدی    تحت اسم سابق عبداللہ    مطبوعہ المکتبہ الاثریۃ سانگلہ ہل   ۳/۱۳۰۷)

 

شرعی احکام اور عرفی خیالات میں بہت تفاوت ہے، شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ ہر حاکم پر فرض ہے کہ مطابق احکامِ الہٰیہ کے حکم کرے ، اگر خلاف حکم الہی کرے تو اس کی دو صورتیں ہیں: ایک عمداً اور ایک خطاً۔

 

عمداً کے لئے قرآن عظیم میں تین ارشاد ہوئے کہ: من لم یحکم بما انزل اﷲ فاولٰئک ھم الفسقون ۱؎o جو لوگ اﷲ تعالٰی کی نازل کردہ تعلیمات کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں ،

 

 (۱؎ القرآن    ۵/ ۴۷)

 

اولٰئک ھم الظلمون ۲؎ o وہ ظالم ہیں،

 

 (۲؎ القرآن        ۵ /۴۵)

 

اولٰئک ھم الکفرون ۳؎o وہ کافر ہیں، (ت)

 

 (۳؎ القرآن        ۵ /۴۴)

 

قرآن مجید ایسے حکم کو فسق وظلم وکفر فرماتا ہے یعنی اگر عناداً ہو کہ حکم کو حق نہیں مانتا تو کافر ہے ورنہ ظالم وفاسق، اور اگر خطأ ہو تو اس کی پھر دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ خطا بوجہ جہل ہو یعنی علم نہ رکھتا تھا کہ صحیح احکام سے واقف ہوتا، یہ صورت بھی حرام وفسق ہے، صحیح حدیث میں قاضی کی تین قسمیں فرمائیں: قاضی فی الجنۃ وقاضیان فی النار۔

 

ایک قاضی جنت میں ہے اور دو قاضی دوزخ میں، وہ کہ عالم و عادل ہو جنت میں ہے اور وہ کہ قصداً خلاف حکم کرے یا بوجہ جہل، یہ دونوں نارمیں ہیں ، بوجہ جہل پر ناری ہونے کایہ سبب ہے کہ اس نے ایسی بات پر اقدام کیا جس کی قدرت نہ رکھتا تھا وہ جانتا تھا کہ میں عالم نہیں اور بے علم مطابقتِ احکام ممکن نہیں، تو مخالفتِ احکام  پر قصداً راضی ہوا، بلکہ اُس سے اگر کوئی حکم مطابق شرع بھی صادر ہو جب بھی وہ مخالفتِ شرع کر رہا ہے کہ اس اتفاقی مطابقت کا اعتبار نہیں، ولہذا حدیث میں فرمایا: من قال فی القراٰن برأیہ فاصاب فقد اخطأ ۴؎ ۔

 

جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہا اگر ٹھیک کہا تو بھی غلط کہا ۔

 

 (۴؎ السنن لابی داؤد    کتاب العلم        مطبوعہ آفتاب پریس لاہور    ۲/ ۱۵۸)

 

دوسری صورت خطا کی یہ ہے کہ عالم ہے احکام شرعیہ سے آگاہ ہے قابلیت قضا رکھتا ہے احکامِ الہٰیہ کے مطابق ہی فیصلہ کرنا چاہا اور براہ بشریت غلط فہمی ہوئی۔ اس کی پھر دو صورتیں ہیں : اگر  وہ مجتہد ہے  اور  اس کے اجتہاد نے خطا کی تو اس پر اُس کے لئے اجر  ہے اور  وہ فیصلہ جو اس نےکیا نافذ ہے، اور اگر مقلد ہے جیسے عمو ماً قاضیانِ زمانہ، اور جدوجہد میں اس نے کمی نہ کی اور فہم حکم میں اس سے غلطی واقع ہوئی اور  ہے  پورا عالم اور اس عہدہ جلیلہ کے قابل ، تو اس کی یہ خطا معاف ہے مگر  وہ فیصلہ نافذ نہیں، یہ سب احکام قاضیان سلطنت اسلامیہ سابقہ کے لئے ہیں جو اسی کا م کے لئے مقرر  ہوئے تھے کہ مطابق احکام الہیہ فیصلہ کریں بخلاف حال کہ اکثر اسلامی سلطنتوں کے جن میں خود سلاطین نے احکام شرعیہ کے ساتھ اپنے گھڑے ہوئے باطل قانون بھی خلط کئے ہیں اور قاضیوں کو ان پر فیصلہ کرنے کا حکم ہے ان کی شناخت کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ  و رسول کے خلاف حکم کرنے ہی پرمقرر ہوئے، ان اسلامی سلطنتوں کے ایسے قاضیوں کوبھی قاضیِ شرع کہنا حلال نہیں ہوسکتا بلکہ اس کلمہ کی تَہہ میں جو خباثت ہے قائل اگر اس پر آگاہ ہو اور اس کا ارادہ کرے تو قطعاً خارج از اسلام ہو جائے کہ اس نے باطل کا نام شرع رکھا، ولہذا ائمہ کرام نے اپنے زمانہ کے سلا طینِ اسلام کی نسبت فرمایا کہ: من قال لسلطان زماننا عادل فقد کفر ۱؎ ۔

 

ہمارے زمانے کے سلطان کو عادل کہنا کفر ہے ۔

 

 (۱؎ ردالمحتار        کتاب الاشربہ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۵/ ۳۲۷)

 

کہ وہ خلافِ احکام الہیہ حکم کرتے ہیں اور خلاف احکام الہیہ عدل نہیں ہوسکتا، عدل حق ہے، تو اسے عدل کہنے کے یہ معنی ہوئے کہ خلافِ احکام الہیہ حق ہے، تو معاذاﷲ احکام الہیہ ناحق ہوئے اوریہ کفر ہے، بہر حال جوقاضی خلاف احکام الہیہ حکم کرتا ہو، ہر گز قاضیِ شرع نہیں ہوسکتا، جب قاضیان سلطنت اسلامیہ کی نسبت یہ احکام ہیں تو سلطنت غیر اسلامیہ کے حکام تو مقرر ہی اس لئے کئے جاتے ہیں کہ مطابق قانون فیصلہ کریں، رہی رجسٹراری اس میں اگر چہ کوئی حکم نہیں مگر  وہ دستاویزوں پر شہادت ہے اور انھیں رجسٹر  پر چڑھانا اور ان میں بہت دستاویزیں سود کی بھی ہوتی ہیں اور صحیح حدیث میں ہے: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اٰکل الربٰو ومؤکلہ وکاتبہ وشاھدیہ و قال ھم سواء ۲؎ ۔

 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذ لکھنے والے اور اس پر گواہیاں کرنے والوں پر ۔ اور فرمایا سب برابرہیں۔

 

 (۲؎ سنن ابوداؤد    باب فی آکل الربا ٕ     مطبوعہ  آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۱۱۷)

 

جمعہ وعیدین کی امامت پنجگانہ کی امامت سے بہت خاص ہے ، امامت پنجگانہ میں صرف اتنا ضرور ہے کہ امام کی طہارت ونماز صحیح ہو ، قرآن عظیم صحیح پڑھتاہو، بد مذہب نہ ہو، فاسق معلن نہ ہو، پھر جو کوئی پڑھائے گا نماز بلاخلل ہوجائے گی بخلاف نماز جمعہ وعیدین کہ ان کے لئے شرط ہے کہ امام خود سلطان اسلام ہویا اس کا ماذون، اور جہاں یہ نہ ہوں تو بضرورت جسے عام مسلمانوں نے جمعہ وعیدین کا امام مقرر کیا ہو

 

کما فی الدر المختار وغیرہ ( جیسا کہ درمختار وغیرہ میں ہے ۔ت) دوسرا شخص اگر ایسا ہی عالم وصالح ہو ان نمازوں کی امامت نہیں کرسکتا اگر کرے گا نماز نہ ہوگی۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

مسئلہ۱۴۲۰:  از ملک بنگالہ ضلع میمن سنگھ مرسلہ عبد الحکیم ۲۸ جمادی الاولٰی ۱۳۲۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و شرع متین اس بارہ میں کہ جمعہ مسجد میں نماز عید پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟ بینو اتوجروا

 

الجواب

جائز ہے مگرسنت یہ ہے کہ نمازِ عیدین عیدگاہ میں چاہئے جبکہ کوئی عذر شرعی مانع نہ ہو، واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

مسئلہ ۱۴۲۱:  از گلگت مرسلہ سر دار امیر خاں ملازم کپتان اسٹوٹ ۲۱ ذی الحجہ ۱۳۱۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جس شخص کو نماز عید کی خبر دی جائے اہل اسلام کو اور وُہ دعوٰی کرتا ہے اسلام کا اور اس کو فرصت بہت ہے، اگر وہ قصداً نہ آئے تو اس کو کیا کیا جائے ؟ بینوا توجروا

 

الجواب

نماز عید شہروں میں ہر مرد آزاد، تندرست، عاقل ، بالغ، قادر پر واجب ہے ، قادر کے یہ معنی کہ نہ اندھا ہو ،نہ لولا ہو، نہ لنجھا ، نہ قیدی، نہ کسی ایسے مریض کا تیماردار ہو کہ یہ اُسے چھوڑ کر گھر سے جائے تو مریض ضائع رہ جائے ، نہ ایسا بوڑھا کہ چل پھرنہ سکے، نہ اسے نماز کو جانے میں حاکم یا چور یا دشمن کی طرف سے جان یا مال یا عزت کا سچا خوف ہو، نہ اس وقت مینہ یا برف یا کیچڑ یا سردی ا س قدر شدت سے ہو کہ نماز کو جانا سخت مشقت کا موجب ہو،

 

فی التنویر تجب صلٰوتھما ای العیدین علی من تجب علیہ الجمعۃ بشرائطھا سوی الخطبۃ ۱؎ اھ

 

تنویر میں ہے عیدین کی نماز ان پر لازم ہے جن پر جمعہ لازم ہے، خطبہ کے علاوہ شرائط بھی وہی ہیں اھ

 

 (۱؎ درمختار    باب العیدین        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی   ۱/ ۱۱۴)

 

و فی جمعۃ الدرالمختار شرط لافتراضھا اقامۃ بمصر و صحۃ و الحق بالمریض الممرض والشیخ الفانی وحریۃ وذکورۃ وبلوغ وعقل ووجود بصروقدرتہ علی المشی وعدم حبس و خوف ومطر شدید ودحل وثلج و نحوھما ۱؎ اھ ملخصا

 

درمختار کے باب جمعہ میں ہے کہ اس کی فرضیت کے لئے شہر میں مقیم ہونا اور صحتمند ہونا شرط ہے اور مریض کے ساتھ ممرض ( مریض کا تیمار دار کہ یہ اسے چھوڑ کر گھر سے جائے تو مریض ضائع رہ جائے ) شیخ فانی ملحق ہے ، حریت ، ذکورت، بلوغ، عقل، نظر کا ہونا، چلنے پر قدرت، نہ قیدی ،نہ خوف ، نہ شدید بارش، نہ کیچڑ، نہ برف وغیرہ ہو اھ ملخصاً ،

 

 (۱؎ درمختار    باب الجمعہ        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۱۱۲)

 

فی ردالمحتار قولہ الممرض، ھذا ان بقی المریض ضائعا بخروجہ فی الاصح حلیۃ وجوھرۃ ۲؎ ،

 

ردالمحتار میں ہے کہ ماتن کا قول کہ ممرض یعنی مریض کا تیماردار وہ کہ اسے چھوڑ کر گھر سے چلا جائے تو مریض ضائع رہ جائے، حلیہ و جوہر ہ،

 

 (۲؎ ردالمحتار    مطلب فی شروط الجمعۃ     مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۶۰۲)

 

قولہ وعدم خوف ای من السلطان اولص، منح، قال فی الامداد ویلحق بہ المفلس اذاخاف الحبس کما جاز التیمم بہ قولہ ونحوھما ای کبرد شدید۳؎ اھ ملتقطا

 

اور ماتن کا قول عدمِ خوف، سلطان کا یا چور کا، منح، امداد میں ہے اس کے ساتھ مفلس بھی لاحق ہے جب اسے حبس کا خوف ہو جیسا کہ اس کے لئے تیمم جائز ہے، ماتن کا قول ونحوہما یعنی دونوں کی مثل یعنی شدید سردی اھ ملتقطا ۔ (ت)

 

(۳؎ ردالمحتار    مطلب فی شروط الجمعۃ     مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۶۰۳)

 

   جو شخص شہر  میں ان صفات كا جامع اور ان موانع سے خالی ہو اور وہاں  عید بروجہ شرعی ہو پھر نہ  پڑھے تو گنہگار اور شرعاً مستحق سزا وتعزیر ہوگا لارتکابہ معصیۃ لا حد فیھا ( کیونکہ یہ ایسی معصیت کا ارتکاب ہے جس میں حد نہیں ہے ۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم

 

مسئلہ ۱۴۲۲: از رام پور متصل مراد آباد محلہ ملا ظریف گھیرفرنگن محل مرسلہ مولوی ریاست حسین صاحب۴ رمضان المبارک ۱۳۱۵ھ

چہ می فرمایند علمائے دین دریں مسئلہ کہ تکبیرات زوائد عیدین بکدام سال مشروع شدہ اندو علتش چہ بود؟

 

اس بارے میں علمائے کرام کیا فرماتے ہیں کہ عیدین کی تکبیرات زائد کس سال شروع ہوئیں اور ان کی علت کیا ہے ؟

 

الجواب

تشریع نماز عید درسال اول از ہجرت ست فی الدر  شرع فی الاولی من الھجرۃ واو معروف نہ شد درشرع مگر بہمیں نہج و وضع وحکمت در تکبیرات اظہار سرور دینی وامتثال قولِ اوتعالٰی ست عز جلا لہ

 

ولتکملوا العدۃ ولتکبروا اﷲ علٰی ماھدٰکم ۱؎

 

 نماز عید ہجرت کے سال اول میں شروع ہوئی، در میں ہے کہ نماز عید ہجرت کے پہلے سال شروع ہوئی، اور  وہ شرع میں معروف نہ ہوئی تھی، مگر اسی سلوب وطریقہ پر، اور تکبیرات میں حکمت دینی سرور کا اظہار اور اﷲ تعالٰی کے اس فرمان پر عمل ہے کہ تم اس مدت ( رمضان ) کو مکمل کرو اور اللہ کی عطا کردہ ہدایت پر اﷲ کی بڑائی بیان کرو،

 

 (۱؎ القرآن       ۲/۱۸۵)

 

ھذا فی عید الفطر وقولہ عزو جل لتکبروا اﷲ علی ماھدٰکم وبشر المحسنین ۲؎ فی عید الاضحی۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

یہ عید الفطر میں ہے، اور اللہ تعالٰی کا فرمان ہے تم اﷲ تعالٰی کی عطاکردہ ہدایت پر تکبیر کہو اور محسنین کو بشارت دو، یہ عید الاضحی کے بارے میں ہے، واﷲ تعالٰی اعلم (ت)

 

 (۲؎ القرآن    ۲۲/ ۳۷)

 

مسئلہ۱۴۲۲: سائل مذکورہ بالا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر بلاعذر عید روز اول نہ پڑھیں تو روز دوم مع الکراہت جائزہے جیسا کہ بعض خطبوں میں لکھا ہے یا اصلاً صحیح نہیں ؟ بینوا توجروا

 

الجواب

نماز عید الفطر میں جو بوجہ عذر ایک دن کی تاخیر روا رکھی ہے وہاں شرط عذر صرف نفی کراہت کے لئے نہیں بلکہ اصل صحت کے لئے ہے یعنی اگر بلا عذر روز اول نہ پڑھے تو روز دوم اصلاً صحیح نہیں، نہ یہ کہ مع الکراہت جائز ہو، عامہ معتبرات میں اس کی تصریح ہے مصنف خطبہ کہ شخص مجہول ہے قابل اعتماد نہیں اُسے نماز عیدالاضحی سے اشتباہ گزرا کہ وہاں دو  روز کی تاخیر  بوجہ عذر بلاکراہت اور بلا عذر بروجہ کراہت روا ہے ۔

 

فی الدرلمختار وتأخر کمطر الی الزوال من الغد فقط واحکامھا احکام الاضحی لکن یجوز تاخیرھا الی اٰخرثالث ایام النحر بلا عذر مع الکراھۃ وبہ ای بالعذر بدونھا فالعذر ھنا النفی الکراھۃ وفی الفطر للصحۃ ۱؎ اھ ملخصا

 

درمختار میں ہے کہ عذر مثلاً بارش کی وجہ سے فقط دوسرے دن زوال تک مؤخر کی جا سکتی ہے اور عید الفطر کے احکام عید الاضحی کی طرح ہیں لیکن عید الاضحی کو بلا عذر ایامِ نحر کے تیسرے دن تک مؤخر کیا جاسکتا ہے ، ہاں کراہت ہے اور عذر ہوگا تو کراہت نہیں ہوگی، یہاں عذر کا ہونا نفی کراہت کے لئے ہے اور عید الفطر میں صحت کے لئے اھ تلخیصا

 

 (۱؎درمختار            باب العیدین        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی   ۱ /۱۱۶)

 

وفی نورالایضاح وشرحہ مراقی الفلاح کلاھما للعلامۃ الشرنبلالی تؤخر صلٰوۃ عید الفطر بعذر الی الغد فقط و قید العذر للجواز لالنفی الکراھۃ فاذا لم یکن عذر لاتصح فی الغد ۲؎اھ ملتقطا

 

نورالایضاح اور اس کی شرح مراقی الفلاح میں علامہ شرنبلالی فرماتے ہیں کہ عذر کی وجہ سے عید الفطر کو دوسرے دن تک مؤخر کیا جاسکتا ہے، عذر کی قید جواز کے لئے ہے نفی کراہت کے لئے نہیں، تو جب عذر نہ ہو تو دوسرے دن میں نماز صحیح نہ ہوگی اھ ملتقطاً،

 

 (۲؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی    باب احکام العیدین    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی  ۳۹۳)

 

وفی مجمع الانھر للفاضل شیخی زادہ العذر فی الاضحی لنفی الکراھۃ وفی الفطر للجواز ۳؎

 

مجمع الانہر میں فاضل شیخی زادہ کہتے ہیں کہ اضحی میں عذر نفی کراہت اور فطر میں جوا ز کے لئے ہے ،

 

 (۳؎مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر    باب صلوٰۃ العیدین      مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۱۷۵)

 

وفی شرح النقایۃ للشمس القھستانی لوترکت بغیر عذر سقطت کما فی الخزانۃ ۴؎ اھ

 

شرح نقایہ للشمس قہستانی میں ہے کہ اگر نمازِ عید بغیر عذر کے چھوڑدی تو ساقط ہوجائے گی، خزانہ میں بھی اسی طرح ہے اھ

 

 (۴؎ جامع الرموز        فصل فی العیدین     مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۱/۱۷۵)

 

ففی شرح المنیۃ الکبیر للعلامۃ الحلبی صلٰوۃ عید الاضحٰی تجوز فی الیوم الثانی والثالث سواء اخرت بعذر اوبدونہ اماصلٰوۃ الفطر فلاتجوز الافی الثانی بشرط حصول العذر فی الاول ۵؎ اھ

 

شرح منیہ کبیر للعلامہ حلبی میں ہے کہ عید الاضحی کی نماز  دوسرے اور  تیسرے دن بھی جائز ہے خواہ عذر کی وجہ سے موخر ہوئی یا بلاعذر، لیکن نماز عید الفطر اگر پہلے دن کسی عذر کی وجہ سے ادا نہ کی جاسکی تو فقط دوسرے دن پڑھی جاسکتی ہے اھ

 

 (۵؎غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی    باب العیدین        مطبوعہ  سہیل اکیڈمی لاہور        ص ۵۷۱)

 

وفی الفتاوی الخانیۃ ان فاتت صلٰوۃ الفطر فی الیوم الاول بعذر یصلی فی الیوم الثانی وان فاتت بغیر عذر لا یصلی فی الیوم الثانی فان فاتت فی الیوم الثانی بعذر اوبغیر عذر لایصلی بعد ذلک واماعید الاضحی ان فاتت فی الیوم الاول بعذر او بغیر عذر یصلی فی الیوم الثانی فان فاتت فی الیوم الثانی بعذر او بغیر عذر یصلی فی الیوم الثالث فان فاتت فی الیوم الثالث بعذر او بغیر عذر لایصلی بعد ذلک ۱؎

 

فتاوٰی خانیہ میں ہے کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے عید الفطر  پہلے دن رہ گئی تو دوسرے دن  ادا کی جائے اور اگر عذر نہ تھا تو دوسرے دن نہیں پڑھی جاسکتی، اور اگر دوسرے دن بھی نہ پڑھی جاسکی خواہ عذر تھا یا نہیں، تو اس کے بعد نہیں پڑھی جاسکتی، باقی نماز عید الاضحی اگر عذر  یا بغیر عذر  پہلے دن رہ گئی تو دوسرے دن پڑھ لی جائے ، اگر دوسرے دن فوت ہوگئی عذرتہا یا نہ تھا تو تیسرے دن پرھ لی جائے، اور اگر تیسرے دن بھی رہ گئی خواہ عذر تھا یا نہ تھا تو اس کے بعد ادا نہیں کی جاسکتی،

 

 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    باب صلوٰۃ العیدین    مطبوعہ منشی نولکشور لکھنؤ    ۱/۸۸)

 

وفی الھندیۃ عن تبیین الامام الزیلعی، العذر ھھنا لنفی الکراھۃ حتی لواخروھا الی ثلاثہ ایام من غیر عذرجازت الصلٰوۃ وقد اساؤ اوفی الفطر للجواز حتی لو اخروھا الی الغد من غیر عذر لایجوز۲؎انتھی ومثلہ فی رمزالحقائق للعلامۃ العینی۔

 

ہندیہ میں امام زیلعی کی تبیین سے ہے کہ یہاں عذر نفی کراہت کے لئے ہے، حتی کہ اگر بغیر عذر کے تین دن نماز موخر کردی تو اب بھی نماز جائز  البتہ تاخیر کرکے بُرا کیا اور فطر میں عذر جواز کے لئے ہے حتی کہ اگر بغیر عذر کے نماز دوسرے دن تک مؤخر کی تو اب اس کی ادائیگی جائز نہ ہوگی انتہی، علامہ عینی کی رمز الحقائق میں اسی طرح ہے ۔(ت)

 

 (۲؎فتاوٰی ہندیہ    باب صلوٰۃ العیدین               نوری کتب خانہ پشاور              ۱ / ۱۵۳ )

 

بالجملہ اس کا خلاف کتب متداولہ میں فقیر کی نظر سے کسی روایت ضعیفہ میں بھی نہ گزرا۔

 

اللھم الا ما رأیت  فی جواھر الاخلاطی من قولہ اذافاتت صلٰوۃ عید الفطر فی الیوم الاول بعذر اوبغیرہ صلی فی یوم الثانی و لم یصل بعدہ اھ

 

مگر یہ کہ میں نے جواہر اخلاطی میں یہ عبارت دیکھی کہ جب نماز عید الفطر  پہلے دن فوت ہو خواہ عذر تھا یا نہ تھا دوسرے دن ادا کی جائے اور اس کے بعد نہیں پڑھی جاسکتی اھ

 

فیظن ان یکون خلطا من الاخلاطی فانی رأیت لہ غیر  ما مسئلۃ خالف فیھا الکتب المعتمدۃ والاسفار المعتبرۃ اویکون من خطأ الناسخ ۔  واﷲ تعالٰی اعلم

 

تو گمان یہ ہے کہ اخلاطی کا خلط ہے کیونکہ میں نے متعدد مسائل میں دیکھا ہے کہ وہ کتب معتمدہ اور اسفار معتبرہ کے خلاف لکھتے ہیں یا یہ کاتب کی غلطی ہوسکتی ہے، واﷲ تعالٰی اعلم (ت)

 

مسئلہ ۱۴۲۴: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عیدگاہ میں ایک دن ایک ہی خطبہ ہے دو  امام نے دو جماعت نماز پڑھائی ان میں سے پہلے امام نے مع خطبہ نماز پڑھائی اور ثانی امام نے بدون خطبہ کے نماز ادا کی اب ان دونوں جماعتوں کی نماز ہوئی یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو دونوں کی جائز  ہوئی یا ایک کی، اور اگر ایک جائز ہوئی تو پہلے کی یا ثانی کی، اور اگر ناجائز ہے تو دونوں کی ناجائز  ہے یا ایک کی؟ اگر  ایک ہے تو  پہلے کی یا ثانی کی؟

 

بینوا بحوالۃ الکتاب وتؤجروا یوم الحساب  ( کتاب کے حوالے کے ساتھ بیان کرو اور حساب کے دن اجر پاؤ۔ ت)

 

الجواب

اگر دونوں امام ماذون باقامت نماز عید تھے دونوں جائز ہوگئیں اگر چہ امام دوم نے ترک سنّت کیا کہ عیدین میں خطبہ ہے فرض وشرط نہیں تو اس کا ترک موجب ناجوازی نہ ہوگا البتہ موجب اساءت و کراہت ہے ۔

 

فی الدرالمختار تجب صلٰوتھما علی من تجب علیہ الجمعۃ بشرائطھا المتقدمۃ سوی الخطبۃ فانھا سنۃ بعدھا ۱؎

 

درمختار میں ہے کہ عیدین کی نماز ان لوگوں پر لازم ہے جن پر جمعہ لازم اور خطبہ کے علاوہ تمام شرائط بھی جمعہ والی ہی ہیں کیونکہ عید کے بعد خطبہ سنت ہے ،

 

 (۱؎درمختار        باب العیدین        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۱۱۴)

 

فی ردالمحتار قال فی البحر حتی لو لم یخطب اصلاصح واساء لترک السنۃ۲؎

 

ردالمحتار میں ہے کہ بحر میں ہے حتی کہ اگر بالکل خطبہ دیا ہی نہیں تو نماز صحیح ہوگی لیکن ترک سنت کی وجہ سے براکیا۔

 

 (۲؎ ردالمحتار         باب العیدین    مطبوعہ  مصطفی البابی مصر     ۱/۶۱۱)

 

فی التنویر تؤدی بمصر بمواضع اتفاقا ۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

تنویر میں ہے کہ شہر میں بالاتفاق متعدد مقامات پر عید ادا کی جا سکتی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم ۔ (ت)

 

 (۳؎ تنویرالابصار     باب العیدین    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۱۴)

 

مسئلہ۱۴۲۵ تا ۱۴۲۶: از ملک بنگالہ ضلع ڈھاکہ ڈاک خانہ بدیعار بازار موضع قاضیہ گاؤں

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان مسائل مندرجہ ذیل میں:

(۱) جس جگہ میں عید کی نماز کے واسطے احتیاط نہیں بلکہ پنج  یا چھ ماہ تک پانی کے نیچے ڈوبا ہوا رہتا ہے

اور باقی چھ ماہ بیل بکریاں اُسی جگہ میں چرتی ہیں اور وہ جگہ خراجی ہے وقفی نہیں، تواس جگہ کو شرع میں عیدگاہ کہتے ہیں یا نہیں اور اس میں نماز عید درست ہے یا نہیں؟

(۲) عید کے دن بعد نماز عید کے مصافحہ کرنا درست ہے یا نہیں؟ اگر مصافحہ کریں تو حرام ہے یانہیں؟ اور معانقہ  کرنابھی درست ہے یا نہیں؟

 

الجواب

(۱) اگر  وہ  زمین کسی شخص کی ملک ہے اور اس نے نماز عید کے لئے وقف نہ کی تو  وہ عید گاہ نہ ہوگی،

 

فان مصلی العید عرفاھو عادی الارض المقرر من جھۃ سلطان الاسلام او جماعۃ مسلمی البلد لصلٰوۃ العید او للمملوک الموقوف لھا من جہۃ المالک۔

 

کیونکہ عیدگاہ عرفاً زمین کاوہ ٹکڑا ہے جسے بادشاہ اسلام یا مسلمانوں کی ایک جماعت نے نماز عید کے لئے چھوڑا ہو یا وہ مالک کی طرف سے نماز عید کے لئے وقف ہو ۔(ت)

ہاں باجازت مالک اُس میں نماز درست ہے،

 

فانہ لیس المسجد ولاالوقف من جھۃ شرائط صحۃ صلٰوۃ اصلا، صلٰوۃ العید کانت او الجمعۃ اوغیر ذلک کما نصوا علیہ فی کتب المذھب ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

کیونکہ نہ مسجد اور نہ صحت صلوٰۃ کے لئے شرائط وقف کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے خواہ وہ نماز عید ہویا جمعہ یاا س کے علاوہ کوئی نماز ہو جیسا کہ کتبِ میں فقہاء نے تصریح کی ہے ۔ (ت) واﷲ تعالٰی اعلم

(۲) بعد نماز عید مصافحہ ومعانقہ دونوں درست ہیں جبکہ کسی منکر شرعی  پر مشتمل یا اس کی طر ف منجر نہ ہوں جیسے خوبصورت امرد، اجنبی محلِ فتنہ  سے معانقہ بلکہ مصافحہ بھی کہ بحالت خوف فتنہ اس کی طرف نظر بھی مکروہ ہے نہ  كہ مصافحہ نہ کہ مضانقہ،

 

کما فی الدرالمختار وغیرہ من معتمدات الاسفار وتفصیل المسائل موکول الی رسالتنا وشاح الجید فی تحلیل معانقہ العید۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

جیسا کہ درمختار جیسی معتبر کتب میں ہے اوراس کی تفصیل ہمارے رسالہ '' وشاح الجید فی معانقۃ العید '' میں خوب ہے ۔ (ت)

 

مسئلہ ۱۴۲۷: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں اگر ہلال شوال دن چڑھے تحقیق ہو اور بارش شدید ہو بعض اہل شہر نماز عید پڑھیں بعض بسبب بارش نہ پڑھیں توجماعت باقیما ندہ دوسرے دن اداکریں یا اب انھیں اجازت نہ دی جائے گی کہ نماز ہوچکی،

اور قہستانی میں ہے: اذا صلی الامام صلٰوتہ مع بعض القوم لایقضی من فاتت تلک الصلٰوۃ عنہ لافی الیوم الاول ولامن الغد ۱؎ انتھی بینوا توجروا۔

 

جب امام نے کچھ لوگوں کو نماز پڑھادی تو جن کی نماز فوت ہوگئی وہ اسے قضا نہیں کرسکتے ، نہ پہلے دن اور نہ دوسرے دن ۔ انتہی ( ت) بینوا توجروا

 

 (۱؎ جامع الرموز        فصل فی صلوٰۃ العیدین    مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۱/۲۷۴)

 

الجواب

اللھم ھدایۃ الحق والصواب

 

 ( اے اﷲ !حق اور صواب کی توفیق عطا فرما ۔ ت) صورۃ مستفسرہ میں جماعت باقیماندہ بیشک دوسرے دن ادا کرے عید الفطر میں بوجہ عذر ایک دن کی تاخیر جائز ہے اور بارش عذر شرعاً مسموع،

 

فی الدرالمختار و توخربعذر کمطرالی الزوال من الغد فقط ۲؎ انتہی

 

درمختار میں ہے عذر کی وجہ سے نماز فطر فقط دوسرے دن تک مؤخر کی جائے گی جیسے بارش۔ انتہی (ت)

 

 (۲؎ درمختار        باب العیدین         مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱/ ۱۱۶)

 

اور صلوٰۃ عید میں جواز تعدد متفق علیہ ہے بخلاف جمعہ کہ اس میں خلاف ہے اور راجح جواز ،

 

فی الدرالمختار تؤدی بمصر واحد بمواضع کثیرۃ اتفاقا ۳؎  اھ

 

درمختار میں ہے کہ ایک شہر میں بالاتفاق متعدد مقامات پرنماز عید ادا کی جاسکتی ہے اھ (ت)

 

 (۳؎ درمختار        باب العیدین         مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی       ۱/ ۱۱۶)

 

تو ادائے بعض اہل شہر سے بعض دیگر کو دوسرے روز پڑھنا کیونکر ممنوع ہوسکتا ہے ، کلام قہستانی وغیرہ اس صورت میں ہے جب عامہ اہل بلد پڑھ لیں اور ایک آدمی باقی رہ جائے کہ نماز عید بے جماعت مشروع نہیں ناچار پڑھنے سے باز رہے گا، ہدایہ کی تعلیل اس پر صاف دلیل،

 

قال من فاتتہ صلٰوۃ العید مع الامام لم یقضہا لان الصلٰوۃ بھذہ الصفۃ لم تعرف قربۃ الا بشرائط لا تتم بالمنفرد ۴؎ اھ

 

فرمایا جس کی نمازِ عید امام کے ساتھ فوت ہوگئی وہ اسے قضا نہیں کرسکتا کیونکہ اس طرح کی نماز شرائط کے ساتھ مشروع ہے اور وہ شرائط تنہا ہونے کی صورت میں پوری نہیں ہوتیں اھ (ت)

 

 (۴؎ الہدایۃ           باب العیدین     المکتبہ العربیۃ کراچی        ۱/ ۱۵۴)

 

اور عبارت تنویر الابصار مورث تنویر الابصار  امام  ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ غزی رحمۃ اﷲ تعالٰی نے ابتداء اس مسئلہ کو ایسے  پیرا میں ادا فرمایا وہم واہم، راہ نہ پائے،

 

حیث یقول ولایصلیھا وحدہ ان فاتت مع الامام ۱؎ اھ

 

یہاں انھوں نے کہا تنہا نماز نہ پڑھے جب امام کے ساتھ فوت ہوگئی اھ (ت)

 

 (۱؎ درمختار         باب العیدین            مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱/ ۱۱۶)

 

یونہی امام حافظ الدین ابوالبرکات نسفی رحمہ اﷲ تعالٰی کا اپنے متن و شرح وافی و کافی میں ارشاد ازالہ اوہام ایقاظِ افہام کے لئے کافی ووافی،

 

لم یقض ان فاتت مع الامام ای صلی الامام العید وفاتت من شخص فانھا لاتقضی لانھا ماعرفت قربۃ الابفعلہ علیہ الصلٰوۃ و السلام وما فعلھا الابالجماعۃ فلا تؤدی الابتلک الصفۃ ۲؎اھ ملخصا

 

نہ قضا کی جائے اگر امام کے ساتھ رہ گئی ہو یعنی امام نے نماز عید پڑھادی اور ایک شخص کی فوت ہوگئی تو وہ اسے قضا نہ کرے کیونکہ یہ نماز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معمول کے مطابق ہی مشروع ہے اور آپ نے اسے جماعت ہی سے ادا فرمایا لہذا اب اس صفت کے علاوہ اسے ادا نہیں کیا جاسکتا اھ ملخصاً (ت)

 

 (۲؎ کافی شرح وافی)

 

علامہ بدرالدین محمود عینی رمز الحقائق میں فرماتے ہیں: صلاھا الامام مع الجماعۃ ولم یصلھا ھو لایقضیھا الا فی الوقت ولابعدہ لانھا شرعت بشرائط لاتتم بالمنفرد ۳؎ اھ

 

امام نے جماعت کروادی لیکن اس شخص نے نہیں پڑھی تو اب وہ قضا نہ کرے نہ وقت کے اندر نہ بعد میں کیونکہ یہ کچھ شرائط کے ساتھ مشروع تھی اور  وہ اکیلا ہونے کی صورت میں پوری نہیں ہوتیں اھ (ت)

 

 (۳؎ رمزا لحقائق    باب فی احکام صلوٰۃ العیدین    مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱/۵۸)

 

مستخلص میں زیر قول کنز، لم تقض ان فاتت مع الامام ( قضا نہ کی جائے اگر امام کے ساتھ رہ گئی ہو ۔ت) لکھتے ہیں: معناہ لو لم یصل رجل مع الامام لم یقضھا منفردا ۴؎  ۔

 

معنٰی اس کا یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے امام کے ساتھ نمازِ عید نہیں پڑھی تو  وہ اب تنہا قضا نہ کرے (ت)

 

 (۴؎ مستخلص الحقائق     باب فی احکام صلوٰۃ العیدین  کانشی رام پر نٹنگ پریس ،لاہور    ۱/۲۹۹)

 

یا تویہ معنی ہیں کہ امام معین ماذون من السلطان ادا کرچکا اور ان باقیما ندہ میں کوئی مامور نہیں، اقامت کون کرے ، فاضل محقق حسن شرنبلالی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کا کلام مراقی الفلاح شرح نورالایضاح میں اس طرف ناظر

ۤ اذ قال من فاتتہ الصلٰوۃ فلم ید رکھا مع الامام لا یقضیھا لانھا لم تعرف قربۃ  الابشرائط لاتتم بدون الامام ای السلطان اومامورہ ۱؎۔

 

کیونکہ انھوں نے کہا ہے کہ جو نماز  امام کے ساتھ نہ پڑھ سکا وہ اب قضا نہ کرے کیونکہ یہ نماز شرائط کے ساتھ مشروع ہے اور وہ اما م یعنی سلطان یا اس کے نائب کے بغیر پوری نہیں ہوسکتیں(ت)

 

 (۱؂ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی    باب احکام العیدین    مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۲۹۲)

 

اس لئے فاضل سید احمد مصری اس کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:

 

ای وقد صلاھا الامام اومامورہ فان کان مامور ا باقامتھا لہ ان یقیمھا ۲؎اھ

 

یعنی امام یا اس کے نائب نے نماز پڑھادی پس اگر وہ امامتِ عید کے لئے مامور تھا تو وہ اسے پڑھا سکتا ہے (ت)

 

 (۲؎حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح باب احکام العیدین    مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۲۹۲)

 

اقول وقد یشیر الیہ تعریف الامام فی عبارۃ النقایۃ المذکورۃ وغیرھا کما لا یخفی علی العارف باسالیب الکلام۔

 

اقول اس کی طرف عبارت نقایہ وغیرہ میں ہیں جو امام نے تعریف کی ہے وہ بھی اشارہ کرتی ہے جیسا کہ کلام کے اسالیب کے ماہر  پر مخفی نہیں ۔(ت)

 

بہر طور عبارت جامع الرموز سے بدیں وجہ کہ نماز ایک بار  ہوچکی باقیماندہ لوگوں کے لئے ممانعت تصور کرنا محض خطا اقول بلکہ اگر نظر سلیم ہو تو وہی عبارت بعینہا مانحن فیہ میں جواز پر دال ، کہ اس میں صرف دوسرے ہی دن کی نسبت ممانعت نہیں بلکہ جب امام جماعت کر چکے تو اس روز بھی نہ پانے والے كو منع کرتے ہیں حیث قال لافی الیوم الاول ولا من الغد ( نہ پہلے اور دوسرے دن ۔ت) اور اول بیان ہوچکا کہ تعدد جماعت عیدین میں بالاتفاق جائز  اور  معلوم ہے کہ یہ تعدد تاخر سے خالی نہیں ہوتا اگر عبارت مفرح، نقایہ کے یہ معنی ہوتے کہ جب ایک جماعت پڑھ لے تو دوسروں کو مطلقاً اجازت نہیں تو یہ تعدد کیونکر روا ہوتا اور نماز عیدکا بھی حکم اس امر میں اُس کے مذہب پر جو تعددِ جمعہ روا نہیں رکھتا،مانند نماز جمعہ ہوجاتا یعنی جماعت سابقہ کی تو نماز ہوگئی باقی سب کی ناجائز

 

کما فی الدرالمختار علی المرجوح فی الجمعۃ لمن سبق تحریمتہ ( جیسا کہ درمختار میں مرجوح قول کے مطابق ہے کہ جمعہ ان لوگوں کا ہے جن کی تحریمہ پہلے ہو ۔ ت) تو بالیقین معنی کلام وہی ہیں جو ہم نے بیان کئے اور قاطع شغب یہ ہے کہ درمختار میں درصورت فوات مع الامام تصریح کی:

 

لو امکنہ الذھاب الی الامام الاخر فعل لانھا تؤدی بمصر واحد بمواضع کثیرۃ اتفاقا ۱؎ ۔ اگر دوسرے امام کی طرف جانا ممکن ہو تو چلا جائے کیونکہ ایک شہر میں بالاتفاق متعدد جگہوں پر نماز عید ادا کی جاسکتی ہے (ت)

 

(۱؎ درمختار            باب العیدین        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱/ ۱۱۶)

 

حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے : لوقدر بعد الفوات مع الامام علی ادراکھا مع غیر فعل للاتفاق علی جواز  تعددھا ۲؎ اھ

 

اگر ایک امام کے ساتھ فوت ہونے کے بعد دوسرے امام کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے تو نمازی وہاں چلاجائے کیونکہ متعدد مقامات پر عید کے جواز پر اتفاق ہے اھ (ت)

 

 (۲؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی     باب احکام العیدین    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص۲۹۲)

 

دیکھو نص فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے نہ پڑھے تو دوسرے اما م کے پیچھے پڑھے اور حالِ عذر میں روز اول و دوم یکساں، آج پڑھے تو کل کون مانع، مگر یہ ضرور ہے کہ جوامام عیدین وجمعہ کے لئے مقرر ہو اسے بھی فوت ہوئی ہو کہ امامت کے لئے امام معین مل سکے اور اگر مقرر کردہ امام سب پڑھ چکے اور بعض لوگ رہ گئے تو یہ بیشک نہیں پڑھ سکتے نہ آج نہ کل واﷲ تعالٰی اعلم بالصواب والیہ المرجع والماٰب۔

 

مسئلہ۱۴۲۸ تا۱۴۳۱: از پیلی بھیت مدرسۃ الحدیث جناب مولانا وصی احمد صاحب محدّث سورتی رحمہ اﷲ تعالٰی ۸ ذی الحجہ ۱۳۲۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین مسائل ذیل میں:

(۱) اگر حاکم وقت نے عام طور پر اجازت دے دی کہ تم لوگ فلاں زمیں پر اپنی عیدگاہ بنالو یا بلااجازت عیدگاہ بنانے کے، فقط دوگانہ اداکرنے کی اجازت دی تو ان دونوں صورتوں میں نماز کا ثواب اسی قدر ملے گا جس قدر مسلمان کی وقف کردہ عیدگاہ میں ملتا ہے یا اس سے کم؟

(۲) اور صورتِ اولٰی میں اگر مسلمانوں نے عیدگاہ بنالی تو وہ وقف سمجھی جائے گی اور احکام عیدگاہ اس کے لئے ثابت ہوں گے یا وہ زمین ملک حاکم پر باقی ہے اور وقف کے احکام جاری نہ ہوں گے؟

(۳) اگر بے اجازت گورنمنٹ گورنمنٹ كی  زمین پر نمازِ عید پڑھی گئی تو نماز بلاکراہت ہوگئی یا نہیں؟

(۴) مصلی اعنی عیدگاہ کے مفہوم میں اس کا محاط ہونا داخل ہے جیسے کہ جامع الرموز کی عبارت سے واضح  ہے یا نہیں بلکہ جس جگہ نماز ہو محاط ہو یا نہ ہو وہ عیدگاہ ہے ۔ بینوا توجروا

 

الجواب

( ۱)  ہاں اتنا ہی ثواب ہے ، زمین وقف کردہ میں پڑھنا نہ عیدین کے سنن سے ہے نہ مستحبات سے، سنت اس قدر ہے کہ صحرا میں ہو،

 

وقد کان المصلی فی زمنہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم و زمن الخلفاء الراشدین رضی اﷲ تعالٰی عنھم من عادی الارض بغیر وقف ولابناء ۔

 

کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ظاہری حیات اور خلفاء راشدین رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے دور میں عیدگاہ افتادہ زمین تھی، نہ وقف تھی اورنہ تعمیر شدہ تھی ۔ (ت)

 

 (۲) صحراؤں جنگلوں کی افتادہ زمینیں بادشاہ کی ملک نہیں ہوتیں وُہ اصل ملک خدا ور رسول  پر ہیں جل جلالہ وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ،

 

حدیث میں ہے: عادی الارض ﷲ ورسولہ ۱؎ رواہ البیھقی فی الشعب عن طاؤس عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وعن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما وقفا۔

 

افتادہ زمینیں اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ہیں، اسے بیہقی نے شعب الایمان میں طاؤس سے اور انھوں نے نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا، اور حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے یہ موقوفاً روایت ہے (ت)

 

 (۱؎ الجامع الرموز مع فیض القدیر بحوالہ بیہقی     حدیث  ۵۳۶۳  مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۴/ ۲۹۸)

 

 (۳) نماز بلاکراہت صحیح ہے، لما مر ان الارض ﷲ ورسولہ جل وعلاوصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

جیسا کہ گزرا کہ زمین اﷲ جل وعلا اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ہے ۔(ت)

(۴) محاط ہونا مفہوم مصلی میں داخل نہیں،

 

لما قد منا ان الصلٰوۃ فی زمنہ و زمن الخلفاء کانت فی ارض بیضاء بدون بناء وما فی القھستانی فلہ علی العادۃ الحادثۃ بناء قصد بہ التعریف لااشتراط بنا ء  ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

پیچھے ہم نے بیان کیا کہ نماز عید سرورِ دوعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ظاہری حیات اور خلفاء کے دور

میں چٹیل میدان میں بغیر کسی عمارت کے ہوتی تھی، اور قہستانی میں جو کچھ ہے وہ عادت معروفہ پر مبنی ہے یہ نہیں کہ بناء کو بطور شرط بیان کیاگیا ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم ۔ (ت)

 

مسئلہ۱۴۳۲: قاضی عبدالحمید صاحب از قصبہ کیکڑی ضلع اجمیر شریف ۲۸ محرم ۱۳۳۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین وفضلائے شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسجدِ عیدگاہ میں جبکہ مسلمانوں میں رنج ہو اور مذہب غیر ہو تواس صورت میں نماز عید کی دونوں گروہ اپنے اپنے امام کے ساتھ علیحدہ علیحدہ نماز و خطبہ ایک مسجد میں ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟ جواب دو  پروردگار  اجر  دے گا۔

 

الجواب

نمازِ عید مثل نماز جمعہ ہے نمازِ پنجگانہ کی طرح نہیں جن میں ہر شخص صالح امامت کرسکتا ہے، عیدین اور جمعہ کے لئے شرط ہے کہ امام خود سلطانِ اسلام ہو  یا اُس کا نائب یا اس کا ماذون ، اور نہ ہو تو بضرورت جسے عام مسلمانوں نے امامتِ جمعہ وعیدین کے لئے مقرر کیا ہو، ظاہر ہے کہ ایک مسجد میں ایک نماز کے لئے دو (۲) شخص امام مقرر نہیں ہوتے تو جوان میں مقرر نہیں ہے اسکی اور اس کے پیچھے والوں کی نماز نہ ہوگی اور یہاں اختلاف مذہب حنفیت وشافعیت عذر نہیں ہوسکتا، ہاں اگر ایسا اختلاف مذہب ہے کہ ان میں ایک گروہ سُنیّ اور دوسرا وہابی یا غیر مقلد ، تو اس صورت میں اُس امام اور اُس کے مقتدیوں کی نما ز باطل محض ہے، اور سنیوں  پر لازم ہے کہ اپنا امام اپنے میں سے مقرر کریں ا نھیں کی نماز نماز ہوگی وبس واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

مسئلہ ۱۴۳۳: از شہر محلہ بازار صندل خاں مرسلہ ہدایت اﷲ صاحب ۱۱ ذی الحجہ ۱۳۳۶ھ

زید عید کی نماز سے  پہلے درزی کا کام کرتا رہا ، بکر نے کہا کہ زید نے نماز سے پہلے جتنی مزدوری کی وہ حرام ہے اس لئے کہ اس نے جتنا کام قبل از نمازکیا وہ ناجائز تھا، آیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟

 

الجواب

بکر محض غلط کہتا ہے جبکہ زید نے ادائے نماز میں قصور نہ کیا تو نہ قبل نماز کام کرنا حرام  تھا نہ بعد نماز نہ اُس اُجرت میں کوئی حرج ہے، ہاں اگر کام کے سبب نمازنہ  پڑھتا تو وہ کام حرام ہوتا اُجرت پھر بھی حرام نہ تھی، یہ تو حلت وحرمت کا حکم ہے البتہ مستحب ہے کہ ضرورت نہ ہو تو عید کے دن نماز سے پہلے متعلقات عید کے سوا کوئی دنیوی کام نہ کرے کہ خوشی کا دن ہے نہ کہ محنت کا ، اُس دن کا اور دنوں سے امتیاز چاہئے ، اسی واسطے ہر گروہ میں اپنی اپنی عیدوں کے دن تعطیل کا معمول ہے پھر بھی یہ کوئی واجب نہیں، اور ضرورت ہو جب تو کوئی گنجائشِ کلام ہی نہیں، واﷲ تعالٰی اعلم

 

مسئلہ۱۴۳۴: نماز عید میں امام نے تکبیر تحریمہ کے بعد سورہ فاتحہ شروع الحمد اﷲ رب العٰلمین کہنے کے بعد مقتدی کے یاد دلانے پر تکبیر ثلٰثہ کہیں اور بعد تکبیرات دوبارہ قرات شروع کی، اس شکل میں نماز ہوئی یا نہیں؟

 

الجواب

پہلی صورت میں نماز نہ ہوئی دوسری میں ہوگئی، ایسا شخص احق بالامامۃ نہیں ہو سکتا۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

مسئلہ۱۴۳۵: از پیلی بھیت محلہ شیر مرسلہ حاجی حامد حسین صاحب و عزیز الدین صاحب ۳ شوال ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین، زید نے ایک مسجد میں جو شہر میں واقع ہے مقتدی بن کر نماز عید الفطر پڑھی، بعد اس کے زید عیدگاہ کو گیا اور وہاں بکر امام تھا، اُس سے نماز پڑھاتے وقت اخیر رکعت میں تکبیریں چھوٹ گئی تھیں جس سے نماز فاسد ہوگئی، تب زید نے دوبارہ امام بن کر نماز عید الفطر پڑھائی حالانکہ وہ نماز مقتدی کی حالت میں پڑھ کر گیا تھا، ایسی حالت میں زید کو نماز پڑھانا چاہئے تھا یا نہیں؟ آیا زید کی نماز جو اس نے پیشتر مقتدی ہو کر پڑھی تھی صحیح ہے یاامام کی حالت میں ہے ؟ اور دیگر مقتدیان کی نماز جنھوں نے زید کے پیچھے کہ جس نے دوبارہ حالتِ امام میں نماز پڑھائی اُن کی نماز درست ہوئی یا نہیں؟

 

الجواب

زید کو امامت ہر گز جائز نہ تھی، جن لوگوں نے اُس کے پیچھے نماز پڑھی ان کی نماز باطل ہوئی، اُن میں جو ناواقف تھے ان کی نماز رہ جانے کا وبال بھی زید کے سر رہا،

 

درمختار میں ہے: لایصح اقتداء مفترض بمتنفل ولاناذر بمتنفل ۱؎ ۔ فرض پڑھنے والے کی نفل پڑھنے والے کی اقتداء درست نہیں اور نہ نذر پوری کرنیوالے کی متنفل کی اقتدا ۔ (ت)

 

 (۱؎ درمختار    باب الامامۃ        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۸۴)

 

ردالمحتار میں ہے: لان النذر واجب فیلزم بناء القوی علی الضعیف ۲؎ح۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

کیونکہ نذر واجب ہے لہذا قوی کی ضعیف پر بنا لازم آئے گی ۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار  باب الامامۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر     ۱/ ۴۲۹)

 

مسئلہ ۱۴۳۶: از سلہٹ    ۲۸ شوال ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چند محلے کے لوگ مسجد میں جمعہ وعید کی نماز پڑھتے ہیں اور ہر شخص ازرُوئے تغافل وتکاسل وقتِ معیّن میں حاضر نہیں ہوتے لہذا بعض لوگوں کی نماز فوت ہوتی ہے اس لئے جھگڑا فساد لڑائی برپا کرتے ہیں اب سب محلہ والے مل کر ایک صاحب علم سے مشورہ کیا اُس نے یہ امر کیا کہ تین بنگلولہ جلانا مناسب ہے، یکے بعد دیگرے اگر تیسرے بنگولے کے متصل کوئی حاضر نہ ہوتو جھگڑا لڑائی نہیں، سب لوگوں نے اس بات پر متفق ہو کر یہ عمل شروع کیا کہ عید کے دن تین بنگولہ جلاتے ہیں اور کہتا ہے کہ یہ واسطے اعلام اور اعلان مصلیوں کے کرتے ہیں، اب یہ بات جب دوسرے کسی صاحب علم نے سنا تو کہا یہ آتشبازی فعل بدعت سیئہ محرمہ ہنود کا کام ہے وہ لوگ اپنے عیدوں تہواروں میں کیا کرتے ہیں، ہر گز جائز نہیں۔

 

الجواب

فی الواقع یہ بدعت سیئہ ہے اور مشابہت کفار ہے، اس سے بچنا واجب ، حدیث اذان میں اس کا فیصلہ ہوچکا، نارونا قوس سب رد کردئے گئے اور اذان مقرر فرمائی گئی جس سے اعلائے کلمۃ اللہ ہے، اور عیدین کے لئے تو اذان کا بھی حکم نہیں، احادیث صحیحہ میں ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے عیدین میں نہ اذان دلوائی نہ اقامت کہلوائی صرف الصلوۃُ جامعۃ دوبار پکارا جاتا ہے، اسی پر اختصار کریں اوراس سے زائد ہر گز کچھ نہ ہو، تغافل والوں کا وبال اُن پر ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

مسئلہ ۱۴۳۷: از بریلی مدرسہ منظر اسلام مسئولہ مولوی رحیم بخش صاحب بنگالی ۱۶ صفر ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عیدگاہ میں مسجد کے بستر وغیرہ لے جانا جائز ہے یا نہیں؟

 

الجواب

عیدگاہ میں مسجد کا مال لے جانا ممنوع ہے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

مسئلہ۱۴۳۸: از تارا کاندی مدرسہ اسلامیہ پوسٹ پاکند یہ ضلع میمن سنگھ مسئولہ محمد عبدالحافظ صاحب مدرس اول تارا کاندی ۲۴ محرم۱۳۳۹ ھ

چہ می فرمایند علمائے دین ومفتیان شرع متین اندریں مسئلہ ذیل کہ بعد نماز عیدین قبل الخطبہ یابعد الخطبہ دعا خواستن جائز است یا نہ،بر تقدیر اول دلیلش چہ بحوالہ کتب حنفیہ باظہار دلائل متعدد بیان فرمایند دربہشتی گوہر مصنفہ مولوی اشرف علی مرقوم است کہ باتباع سنت دعا مانگنے سے دعا نہ مانگنا بہتر ہے۔

 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیا ن شرع متین اس مسئلہ میں کہ عیدین کی نماز کے بعد قبل از خطبہ یا بعد از خطبہ دعا مانگنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو حنفی کتب سے متعدد حوالہ جات سے بیان فرمائیں مولوی اشرف علی کی کتابِ بہشتی گوہر میں لکھا ہےکہ اس صورت میں سنت کی پیروی کرتے ہوئے دعا نہ مانگنا بہتر ہے۔

 

الجواب

بہشتی گوہروبہشتی  زیور ہر دو تصنیف ہمچوکسے ست کہ ہمہ علمائے کرام حرمین شریفین زاد ہما اﷲ شرفاً و تعظیماً بالاتفاق تحریر فرمودہ اند کہ اومرتدست و آنکہ ہر کہ براقوال ملعونہ اومطلع شدہ در کفر او شک آرد خود کافراست وایں کتابہا بر بسیاری از مسائل فاسدہ واغلاط کاسدہ مشتمل ست دیدن آنہا حرام وموجب ضلالتِ عوام ودعا بعد نماز عید باتباع سنت عامہ وآثار خاصہ جائز و مستحب است والتفصیل فی رسالتنا سرور العید فی حل الدعاء بعد صلوٰۃ العید، واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

بہشتی گوہر اور بہشتی زیور دونوں کتابیں اس شخص کی ہیں جس کے بارے میں علمائے حرمین ( حرمین کو اﷲ تعالٰی زیادہ شرف وتعظیم عطا فرمائے) نے تحریر فرمایا ہے کہ وہ شخص ( اپنے کفریہ الفاظ کی وجہ سے) مرتد ہے، اور جو شخص اس کے کفریات پر مطلع ہو کر اس کے کافر ہونے میں شک کرے وہ کافر ہوگا، یہ بہت سے غلط اور فاسد مسائل پر مشتمل ہے اس کا پڑھنا حرام ہے اور عوام کی گمراہی کا سبب ہے جبکہ عید کی نماز کے بعد سنت معروفہ اور آثار مخصوصہ کی اتباع میں جائز اور مستحب ہے ، اور اس کی تفصیل ہمارے رسالہ '' سرور العید فی حل الدعاء بعد صلوٰۃ العید'' میں ہے، واﷲ تعالٰی اعلم

 

مسئلہ ۱۴۳۹،۱۴۴۰: از  تین سوکیا ڈاک خانہ خاص ضلع ڈبر و گڑھ ملک آسام مسئولہ عبداللطیف ۱۲ شوال ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسئلوں میں:

(۱) اگر تار کی خبر پر افطار کرنا جائز ہو تو  عید کی نماز پانے کے سبب دور دراز کے آدمی کی خبر گیری کے لئے ایسے موقع پرایک روز کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟

(۲) اور مسلم جماعت کے سردار پر ہیز گار نے کہا آج تار کی خبر سے افطار تو کرلیں گے اگر شرعاً جائز ہو ، لیکن ایسے تنگ وقت پڑھنے سے دور دراز کے آدمی سب نماز سے محروم رہیں گے لہذا بہتر ہے کہ دوسرے روز نماز پڑھی جائے تاکہ سب لوگ شامل ہوں اور کوئی محروم نہ رہے، اب بغیر رضا سردار کے نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا

 

الجواب

(۱) تار کی تو خبر معتبر ہی نہیں اگر شہادت شرعیہ ایسے وقت گزری کہ وقت تنگ ہے شہر میں اطلاع اور لوگوں کا اجتماع متعذر  ہے تو دوسرے دن  پڑھیں

 

لانھا تؤ خربعذر الی الغد کما نصوا علیہ  ( کیونکہ عذر کی وجہ سے نماز عید کو دوسرے دن تک موخر کیا جاسکتا ہے جیسا کہ اس پر نص ہے ۔ت) اور اگر شہر کے لئے وقت کافی ہے مگر دور دراز کے دیہات کو خبر جانا اور ان لوگوں کا آنا نہیں ہوسکتا تو واجب ہے کہ عید آج کرلیں، دیہاتوں کے لحاظ سے کل کے لئے تاخیر جائز نہیں کہ نماز عید الفطر کی تاخیر بلاعذر گناہ و ممنوع ہے اور دیہاتوں کا نہ آسکنا کوئی عذر ہی نہیں ۔

 

درمختا ر میں ہے: تؤخر بعذر کمطر الی الزوال من الغد فقط و الاضحی یجوز تاخیرھا الٰی آخر ایام النحر بلاعذر مع الکراھۃ وبالعذر بدونھا فالعذرھنا لنفی الکراھۃ وفی الفطر للصحۃ۱؎ ۔

 

عذ رکی وجہ سے فقط دوسرے دن تک مؤخر کیا جاسکتا ہے مثلاً بارش ، اور نماز عید الاضحی کو بغیر عذر کے ایام نحر کے آخری دن تک مؤخر کیا جاسکتا ہے البتہ کراہت ہوگی، اور اگر عذر ہو تو کراہت بھی نہیں، تو یہاں عذر نفی کراہت کے لئے اور فطر میں عذر صحت کے لئے ہے ۔(ت)

 

 (۱؎ درمختار    باب العیدین        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۱۶)

 

ردالمحتار میں ہے: قولہ بعذر کمطر دخل فیہ مااذا لم یخرج الامام وما اذاغم الھلال فشھدوا بہ بعد الزوال اوقبلہ بحیث لایمکن جمع الناس ۲؎ ۔

 

ماتن کا قول کہ عذر ہو مثلاً بارش ، تواس میں وہ صورت بھی شامل ہے جب امام نہ آیا ہو اور وہ صورت بھی جب چاند مخفی رہا، اور اس کے نظر آنے پر زوال کے بعد گواہی ملی یا اتنی پہلے کہ لوگو ں کا جمع ہوناممکن نہ تھا۔(ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار باب العیدین        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۶۱۸ )

 

درمختار میں ہے: تجب صلٰوتھما (ای العیدین ) علی من تجب علیہ الجمعۃ ۳؎ ۔ عیدین کی نماز انھیں لوگوں پر لازم ہے جن پر جمعہ لازم ہے ۔(ت)

 

 (۳؎ درمختار   باب العیدین        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی            ۱ /۱۱۴)

 

ردالمحتار میں برہان شرح مواہب الرحمن سے ہے: وجوبہا مختص باہل المصر ؎۱واللہ تعالی اعلم اس کا وجوب اہل شہر کے لئے مخصوص ہے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

 (۱؎رد المحتار باب العیدین                 مطبوعہ مصطفی البابی مصر                   ۱ /۶۱۱)

 

 (۲) اوپر معلوم ہوا کہ تار پر افطار حرام ہے اور اس پر عید کرکے نماز پڑھنا بھی گناہ اور وہ نماز نہ ہوگی کہ سردار درکنار شریعت ہی کی رضا نہیں کہ پیش از وقت ہے ، ہاں اگر شرعی ثبوت ہوجاتا تو دیہاتوں کے لئے تاخیرنا جائز تھی اور دوسرے دن پڑھتے تو نماز ہی نہ ہوتی، ایسی حالت میں سردار کے قول پر عمل ناجائز تھا اسی روز نماز عید پڑھ لینی واجب ہوتی ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

مسئلہ ۱۴۴۱: از اُوجین مکان میر خادم علی اسسٹنٹ مرسلہ یعقوب علی خاں صاحب ۹ محرم الحرام ۱۳۰۹ھ

 

الحمد للہ رب العٰلمین والعاقبہ للمتقین والصلٰوۃ والسلام علی رسولہ محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین

 

چہ می فرمایند علما وفضلائے دین دریں مسئلہ کہ نماز عید ین درقصبہ خواہ شہر باشد بجز عیدگاہ بشرط تکرار یا ہمیں درمساجد دیگر بگزارد درست ست یا ممنوع وبرتقدیر قاضی فاسق نماز  را ملک خود قراردادہ نماز عید دیگر مساجد شہر را بجماعت حکام بند کنانیدہ دہدبدیں سبب کہ مرد مان شہر پس من نماز  ادا  نما یند پس باقتدائے فاسق نماز  درست ست یا نہ وحکم قضائے قاضی فاسق پیر وانِ او چیست بیان فرمایند بالتشریح بحوالہ کتب رحمہ اﷲ اجمعین۔

 

سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور آخرت متقین کی ہے اور صلوٰۃ وسلام ناز ل ہو اللہ کے رسول محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم  پر اور آپ کی آل  واصحاب تمام پر ، علماء و فضلائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ عید ین کی نماز قصبہ یا شہر میں عیدگاہ کے علاوہ بشرط تکرار یا انھیں دیگر مساجد میں ادا کی جاسکتی ہے یا ممنوع ہے ، اگر قاضی فاسق نماز کو اپنی ملک سمجھتے ہوئے شہر کی دوسری مساجد میں حکام کو جماعت سے منع کردیتا ہے تاکہ تمام لوگ میرے پیچھے ہی نماز ادا کریں تو فاسق کی اقتداء میں نماز درست ہوگی یا نہ؟ قاضی فاسق کی قضا کا حکم اور اس کی پیروی کرنے والوں کا کیا حکم ہے، بحوالہ کتب تفصیلاً جواب عطا کریں رحمہ اﷲ اجمعین۔ (ت)

 

الجواب

رفتن عیدگاہ سنت ست

 

فی الدرالمختار الخروج الیھا ای الجبانۃ لصلٰوۃ العید سنۃ وان وسعھم المسجد الجامع ھوا لصحیح ۱؎

 

اما واجب نیست اگربہ مسجد شہرنمازگزارند قطعادرست وبے خلل باشد اگر چہ ترک سنت کردہ باشند فی ردالمحتار الواجب مطلق التوجہ لاالتوجہ الی خصوص الجبانۃ۲؎

 

عید گاہ كی جانب جانا سنت ہے در مختار میں ہے  جماعت عید کے لئے جبانہ ( نماز کی وہ جگہ جو جنگل میں بنائی جائے )کی طرف نکلنا سنت ہے اگر چہ جامع مسجد میں لوگوں کی گنجائش ہو، اور  یہی صحیح ہے لیکن نکلنا واجب نہیں ، اگر چہ شہر کی مسجد میں نماز  پڑھ لی تو  یقینا درست ہے اس میں کوئی کمی نہیں اگر چہ سنت کا ترک ہوا ہے، ردالمحتار میں ہے کہ واجب مطلق نکلنا ہے نہ کہ مخصوص عیدگاہ کی طرف نکلنا،

 

 (۱؎ درمختار            باب العیدین        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۱۴)

(۲؎ ردالمحتار              باب العیدین        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۶۱۲)

 

وتکرار نماز عید درمصر واحد بمواضع کثیرہ بالاتفاق جائز ست فی الدرالمختار تؤدی بمصر واحد بمواضع کثیرۃ اتفاقا۳؎ واقتداء بفاسق معلن مکروہ تحریمی قریب بحرام ست وھو الذی یقتضیہ الدلیل ولایعدل عن درایۃ ما وافقتہا روایۃ،

 

اور ایک شہر میں تکرارِ نماز عید بالا تفاق جائز  ہے، درمختار میں ہے کہ ایک شہر میں بالاتفاق متعدد مقامات پر عید ادا کی جاسکتی ہے، فاسق معلن کی اقتداء مکروہ تحریمی حرام کے قریب ہے، اور دلیل کا تقاضا بھی یہی ہے اور اس درایت سے عدول مناسب نہیں جو روایت کے موافق ہو،

 

 (۳؎ درمختار              باب العیدین        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۱۱۶)

 

علامہ ابراھیم حلبی درغنیہ فرمودہ یکرہ تقدیم الفاسق کراھۃ تحریم وکذا المبتدع۴؎

 

علامہ ابراہیم حلبی غنیہ میں فرماتے ہیں فاسق کی تقدیم مکروہ تحریمی ہے اور اسی طرح بدعتی کی،

 

 (۴؎ غنیہ المستملی شرح منیہ المصلی    فصل الامامۃ        سہیل اکیڈمی لاہور    ۱/۵۱۳)

 

پس تاوقتیکہ نماز پس مصالحے صحیح القراء ۃ سلیم العقیدہ  زنہار اقتدا بانکنند اما اگر ظلما نماز دیگر مساجد بند کردہ شود وجز باقتدائے اور اہے نیابند مجبورباشند ومعذو ر و  وبال ایں ظلم  و جبر برگردن  آں فاسق مغرور لایکلف اﷲ نفسا الاوسعھا ۵؎

 

جب تک کسی صالح صحیح القرأۃ سلیم العقیدہ کی اقتداء میسر  ہو ہر گز کسی فاسق کے  پیچھے نماز نہ پڑھی جائے اگر ظلماً دیگر مساجد نماز کے لئے بند کردی گئی ہیں اور اس کی اقتداء کے علاوہ اورکوئی راستہ نہیں تو  اب  مجبوری اور    معذوری ہے ، اس کا وبال بھی اس فاسق  پر ہی ہوگا اور اللہ تعالٰی کسی نفس کو اس کی طاقت سے بڑھ کر حکم نہیں دیتا،

 

 (۵؎ القرآن      ۲/ ۲۸۶)

 

نماز عید از اعظم شعائر اسلام ست بایں علت عارضہ ترکش نتواں گفت فی ردالمحتار عن المعراج قال اصحابنا لا ینبغی ان یقتدی بالفاسق الا فی الجمعۃ لانہ فی غیرھا یجد اماما غیرہ اھ

 

نماز عید اسلام کے عظیم شعائر میں سے ہے ، اس عارضہ کی وجہ سے اسے ترک نہ کیا جائے، ردالمحتار میں معراج کے حوالے سے ہے کہ ہمارے اصحاب نے فرمایا جمعہ کے علاوہ فاسق کی اقتداء نہ کی جائے کیونکہ دوسری نمازوں میں کسی دوسرے کی اقتداء ہوسکتی ہے اھ

 

قال فی الفتح وعلیہ فیکرہ فی الجمعۃ اذا تعددت اقامتھا فی المصر علی قول محمد المفتی بہ لانہ بسبیل الی التحول ۱؎

 

وایناکہ برنکاح وامامت جمعہ واعیاد ازجانب نصاری   وغیرہم حکام زمانہ مقرر باشند از عہدہ قضا جز  اسم بے مسمی ولفظ بے معنی بہرہ ندارند پس حکم قضائے  ایشاں  چہ گفتہ آید حکم برموجود باشد و قضائے ایشاں خود معدوم ست کہ حقیقت درکنار صورت قضاہم ندار دآرے اگر مراد آنست کہ فساق رابایں کار ہا معین کر دن جواب آنست کہ ہر گز نشاید حال امامت خود حالے شدو غرض از تولیت انکحہ توثیق و اشہاد ست وآں خود از فاسق حاصل نباشد۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

فتح میں ہے کہ اس بنا پر جمعہ میں بھی اقتداء مکروہ  ہے کیونکہ امام محمد کے مفتٰی بہ قول کے مطابق شہر میں متعدد جگہ جمعہ ہوسکتا ہے تو دوسرے مقام کی طرف چلے جانا ممکن ہوا اور  یہ جو نصارٰی کی طرف سے نکاح ، امامتِ جمعہ واعیاد کے لئے عہدہ قضاء پر مقرر لوگ ہیں، یہ اسم بے مسمی اور لفظ بے معنی ہیں، ان کی قضا کیا حقیقت رکھتی ہے حکم موجود پر ہوگا اور ان کی قضا خود معدوم ہے جو درحققیت قضا ہی نہیں، اگر سوال یہ ہے کہ ایسے فاسق لوگوں کو اس عہدہ پر مقرر کرنا کیسا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ ہرگز جائز نہیں، اور امامت کا معاملہ خود اہم ہے ، والی بنانے سے مقصد ان کی توثیق واشہاد ہے جو فاسق سے حاصل نہیں ہوتی۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

 (۱؎ ردالمحتار    باب الامامۃ        مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۴۱۴)

 

مسئلہ ۱۴۴۲:  از دمن خرد ملک پرتگال محلہ کھارا موڑ مرسلہ مولوی محمد ضیاء الدین صاحب۱۰ محرم الحرام ۱۳۱۸ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عید گاہ ایک چھوٹی سی بستی میں ۱۲۲۶ھ سے بنی ہوئی ہے، بعض مسلمان اہل شہر کو  اپنے محلہ سے ربع میل کے قریب مسافت طے کر کے جانا پڑتا ہے اور بعض اہل محلہ ربع میل سے بھی کم چل کر داخل عیدگاہ ہوجاتے ہیں، سال مذکور سے جملہ اہل شہر اُسی عیدگاہ میں برابر نماز عید ادا کرتے رہے، حال میں ان اشخاص نے جن سے بہت نزدیک عیدگاہ تھی بباعث نفسانیت دنیوی کے عیدگاہ میں نماز عید پڑھنا ترک کردیا حالانکہ ان کو کسی نے عیدگاہ سے ممانعت بھی نہیں کی، آخر صرف اسی نفسانیت کی بنا پر  یا کسی مفسد کے بہکانے سے یہ بات اپنی طبیعت سے گھڑلی کہ ہم بانیانِ عیدگاہ کی طرف والے عیدگاہ میں داخل ہونے سے منع کرتے ہیں بایں وجہ ہم نے عیدگاہ میں دوگانہ ادا کرنا ترک کردیا، دو تین سال سے میدان میں جو عیدگاہ کے قریب ہے نماز عید پڑھتے تھے امسال ان کا ارادہ اسی میدان میں دوسری عیدگاہ کی تعمیر کا ہے، تو آیا ان چند اشخاص کو صورتِ مذکورہ بالا میں اپنی جدید گاہ کا ایسے مختصر شہر میں تعمیر کرنا ازرُوئے شرع شریف درست ہے یا نا درست؟ اگر درست ہے تو اب دو (۲) عیدگاہوں کے ہوجانے سے قلت جماعت عیدگاہ سابق موجب کمی ثواب ہے یانہیں؟ اور باعث قلت ثواب کے ایسی حالت میں بانیانِ عیدگاہ جدید ٹھہریں گے یا نہیں؟ اگر یہ لوگ ٹھہرے تو عیدگاہ سابق کو محض نفسانیتِ دنیوی کے سبب ترک کردینے والوں کی نیت اور ثواب کثیرکو قلیل کرنے والوں کی بابت ہماری شریعتِ مطہرہ کیا حکم کرتی ہے؟  بینوا توجروا

 

الجواب

نماز عید ایک شہر میں متعدد جگہ اگر چہ بالاتفاق روا ہے مگر ایک شہر کے لئے دو عیدگاہ بیرون شہر مقرر کرنا زمان برکت نشان حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے اب تک معہود نہیں نہ زنہار اس میں شرع مطہر ودین منور کی کوئی مصلحت خصوصاً ایسی چھوٹی بستی میں تو اگر اس میں اس کے سوا کوئی حرج نہ ہوتا تو اسی قدر اس فعل کی کراہت کو بس تھا کہ محض بے ضرورت شرعی ومصلحتِ دینی خلاف متوارث مسلمین ہے اور ایسا فعل ہمیشہ مکروہ ہوتا ہے،

 

درمختار باب العیدین میں ہے: لان المسلمین توارثوہ فوجب اتباعھم ۱؎ ( کیونکہ یہ مسلمانوں کے ہاں متوارث ہے لہذا ان کی اتباع لازم ہے ۔ت)

 

 (۱؎ درمختار    باب العیدین         مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی   ۱/۱۱۷)

 

ردالمحتار کتاب  الذبائح میں غایۃ البیان سے ہے: توارثہ الناس فیکرہ ترکہ بلا عذر۲؎  ( لوگوں کے ہاں متوارث ہے لہذا اس کا ترک بلاعذر مکروہ ہوگا ۔ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار    کتاب الذبائح     مطبوعہ  مصطفی البابی مصر    ۱/ ۲۰۸)

 

اور یہیں سے ظاہر کہ تعدد مساجد پنجگانہ پر اس کا قیاس نہیں ہوسکتا کہ وہ خود متوارث ومطلوب فی الشرع ہے،

 

سنن ابوداؤد و ترمذی وابن ماجہ میں ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے ہے: امر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ببناء مساجد فی الدور وان تنظف و تطیب ۱؎ ۔

 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ہر علاقے میں مسجد کی تعمیر اور ان کی نظافت وطہارت کا حکم دیا ۔ (ت)

 

 (۱؎ سنن ابن ماجہ    اتخاذ المساجد فی الدو ر        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص ۶۶)

 

جب یہ تعمیر مصلحت دینی سے خالی ہوئی اور اس میں کوئی مصلحت دنیوی نہ ہونا بدیہی ، تومحض عبث ہوئی اور ایسا ہر عبث ناجائز و ممنوع ہے ،

 

ہدایہ میں ہے: العبث خارج الصلٰوۃ حرام فما ظنک فی الصلٰوۃ۲؎ ۔ عبث کام نماز سے باہر حرام تو نماز میں کیا حال ہوگا ۔(ت)

 

 (۲؎ الھدایۃ        باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فیہا     مطبوعہ  المکتبہ العربیۃ کراچی       ۱/۱۱۹)

 

حلیہ میں ہے: الفرق بین العبث والسفہ علی ماذکرہ بدر الدین الکردی ان السفہ مالا غرض فیہ اصلا والعبث فعل فیہ غرض لکن ،لیس بشرعی وعبارۃ غیرہ العبث مالیس فیہ غرض صحیح لفاعلہ۳؎ ۔

 

عبث اور سفہ میں فرق بقول علامہ بدرالدین الکردی کے یہ ہے کہ سفہ وہ عمل جس میں کوئی غرض نہ ہو اور عبث وہ فعل جس میں غرض ہو لیکن شرعی نہ ہو، دیگر لوگوں کے الفاظ میں عبث وہ فعل ہے جس کے فاعل کی غرض صحیح نہ ہو ۔(ت)

 

 (۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

یہ عمارت بے حاجت کی تعمیر ہوئی اور ہر عمارت بے حاجت اپنے بنانے والے پر روز قیامت وبال ہے

 

کما وردت بہ احادیث عند البیھقی عن انس والطبرانی عن واثلۃ وفیہ عن غیرھما رضی اﷲ تعالٰی عنہم ۔

 

جیسا کہ اس پر بیہقی نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ، طبرانی نے حضرت واثلہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے اور اس سلسلہ میں ان کے علاوہ صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے مرویات ہیں ۔(ت)

جنگل میں بے حاجت شرعی ایک عمارت بنا کر کھڑی کردینا اسراف ہوا ا ور اسراف حرام ہے

 

قال اﷲ ولا تسرفوا انہ لایحب المسرفین۴؎  ( اللہ تعالٰی کا فرمان ہے : اور اسراف نہ کرو کہ اﷲ تعالٰی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ ت)

 

 (۱؎ القرآن                ۶/ ۱۴۱ و ۷/ ۳۱)

 

صورت مستفسرہ میں یہ سب شناعتیں خود اس فعل بے معنی میں موجود تھیں اگر چہ اس کی تعمیر براہٖ نفسانیت نہ ہو اور جبکہ یہ بناء براہٖ نفسانیت ہے جیسا کہ بیان سوال سے ظاہر، تواس کا مذموم و مردود ہونا خود واضح و روشن ہے کما لا یخفی، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم

 

مسئلہ۱۴۴۳: از موضع مہچندی ضلع پیلی بھیت مرسلہ حاجی نصیر الدین صاحب ۱۴محرم الحرام ۱۳۱۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کہ عید قرباں میں مستحب ہے کہ جب تک نماز نہ پڑھی جائے کھانا نہ کھائے یعنی جو کہ نگاہ رکھے اپنے آپ کو کھانے اور پینے سے اور جماع کرنے سے دن قربانی کے یہاں تک کہ پڑھی جائے نماز عید کی، اب مرد مان اہل اسلام دن قربان کے دس ذی الحجہ کو اپنے مکان سے کھانا کھا کر اور حقہ پانی پی کر واسطے نماز عید کے عیدگاہ کو جاتے ہیں، یہ حکم نہیں مانتے اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی حکم عدولی کرتے ہیں توان کے واسطے شرع شریف سے کیا ہے، پس اس امر میں اس سے کیا کہا جائے گا اور نماز ان کی صحیح طور  پر ہوگی و یا کوئی نقصان ان کی نماز میں عائد ہوگا۔ بینوا توجروا

 

الجواب

اس باب میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے کوئی حدیث قولی جس طرح سائل نے ذکر کی وارد نہیں، ہاں حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا فعل ثابت ہوا  ہے کہ عید قرباں میں نماز سے  پہلے کچھ نہ کھاتے  بعد نماز گوشتِ قربانی سے تناول فرماتے ۔

 

الترمذی وابن ماجۃ عن بریدۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان لا یخرج یوم الفطر حتی یأکل وکان لا یأکل یوما النحر حتی یصلی ۱؎

 

ترمذی اورابن ماجہ نے حضرت بریدہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عیدالفطر کو کوئی چیز کھائے بغیر تشریف نہ لاتے اور یوم النحر کو نماز ادا کرکے تناول فرماتے،

 

 (۱؎ جامع الترمذی    باب فی صلوٰۃ العیدین        مطبوعہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی   ۱/۷۱)

 

ورواہ الدار قطنی فی سننہ حتی یرجع فیأکل من اضحیتہ ۲؎ صححہ ابن قطان ۔

 

اسے دارقطنی نے سنن میں ذکر کیا اور اس سلسلہ میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یہاں تک کہ نماز سے واپس لوٹتے اور اپنی قربانی سے تناول فرماتے، اسے ابن قطان نے صحیح قراردیا،

 

 (۲سنن الدارقطنی          كتاب العیدین               حدیث ۷    مطبوعہ        نشرالسنۃ ملتان               ۲/۴۵)

 

وفی اوسط الطبرانی عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما من السنۃ ان لایخرج یوم الفطر حتی یطعم ولایأکل یوم النحر حتی یرجع ۱؎ ۔

 

طبرا نی کی اوسط میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے ہے کہ سنت یہ ہے کہ یوم الفطر کو کھانے کے بغیر نہ نکلا جائے اور  یوم النحر کو نماز سے واپسی  پر کھا یا جائے۔ (ت)

 

 (۱؎ مجمع الزوائد    بحوالہ الطبرانی والاوسط    باب الاکل یوم الفطر الخ    مطبوعہ دارالکتاب بیروت    ۲/۱۹۹)

 

بہر حال یہ امر استحبابی ہے یعنی کرے ثواب ، نہ کرے تو حرج نہیں ، ایسے امر کے ترک کو حکم عدولی نہیں کہہ سکتے اور نماز میں نقص کا تو کوئی احتمال ہی نہیں،

 

درمختار میں ہے: یندب تاخیر اکلہ عنھا وان لم یضح ولو اکل لم یکرہ  ۲؎ اھ باختصار

 

یوم النحر میں کھانا مؤخر کرنا مندوب ہے اگر چہ قر بانی نہ دینی ہو اور اگر کھایا تو اس میں کراہت نہیں اھ اختصاراً (ت)

 

 (۲؎ درمختار            باب العیدین        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۱۶)

 

ردالمحتار میں ہے: ای یندب الامساک عما یفطر الصائم من صبحہ الٰی ان یصلی قال فی البحر وھم مستحب ولا یلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃ اذ لا بدلھا من دلیل خاص اھ وفی البدائع ان شاء ذاق وان شاء لم یزق والادب ان لایذوق شیأ  الٰی وقت الفراغ من الصلٰوۃ حتی  یکون تناولہ من القرابین۳؎ اھ  اھ مختصرا واﷲ تعالٰی اعلم

 

یعنی نماز کی ادائیگی تک ہر اس شی  سے رکنا مندوب ہے جس سے صائم کا روزہ افطار ہوتا ہے، بحر میں فرمایا : یہ مستحب ہے اور ترکِ مستحب سے کراہت لاز م نہیں آتی کیونکہ ا س کے لئے مستقل دلیل ضروری ہے اھ بدائع میں ہے اگر چاہے تو چکھ لے اور نہ چاہے نہ چکھے، اور ادب یہی ہے کہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے کوئی شے نہ کھائے یہاں تک کہ اس کا تناول قربانی کے جانور سے ہو ۔  اھ مختصراً واﷲ تعالٰی اعلم

 

 (۳؎ ردالمحتار          باب العیدین             مصطفی البابی مصر    ۱/ ۶۱۸)

 

مسئلہ۱۴۴۴:  زید بغیر کچھ اپنی رائے ظاہر کرے علمائے حاضرہ کی تحقیق وثبوت شہادت صحیح جان کر سہ شنبہ کو دس ذی الحجہ یقینی جان کر عید الاضحی کی امامت کراتا ہے لیکن شب سہ شنبہ کو ایک بڑے متدیّن مستند عالم

تشریف لائے اور انھوں نے ثبوت رؤیت صحیح نہ جان کر سہ شنبہ کو عید نہیں کی، لوگوں سے کوشش کرائی گئی کہ کسی صورت سے مجھ کو ثبوت رؤیت معلوم ہو جائے تو میں بھی عید کروں مگر کسی سے  پتا نہیں چلا جن کے پاس ثبوت گزرا وہ اس قدر فرماکر گئے کہ مجھے سچّا جانتے ہیں تو عیدکریں ورنہ جواب کچھ نہیں، ا س وجہ سے ایک عالم صاحب نے عیدنہیں کی ان کے موافق موجود علماء میں سے ایک عالم اور ہوگئے زید امامت وخطبہ سے فارغ ہو کر یوں کہتا ہے کہ دینی بھایؤ! آج عید ہے، اور نماز بھی پڑھئے مگر قربانی جو دس گیارہ بارہ کو جائز ہے بجائے سہ شنبہ کے چہار شنبہ کو کرو  احتیاطاً تو  بہتر  ہو ، اس آخری فقرہ  پر سوال ہوتا ہے لوگوں کی جانب سے کہ کیا مطلب احتیاط کا، تو  زید  جواب دیتا ہے کہ اگر آج قربانی کرو  تو جن علماء نے عید نہیں  وہ فرمائیں گے کہ قربانی نہیں ہوئی اور اگر چہار شنبہ کو کرو گے تو سب بالاتفاق فرمائیں گے کہ صحیح ہے اور اختلاف سے بچنا اولٰی، زید کا اس فقرہ کے تلفظ سے مجرم شرعی ہے یا نہیں، اور جو لوگ مشورہ کرکے اور لوگوں کو فراہم کر کے اپنے زعم میں زید کو ذلیل کر نا چاہتے ہیں کوشش بلیغ کرتے ہیں کہ جرم ثابت ہو، یہ لوگ اچھا کام کرتے ہیں یا نا محمود؟

 

الجواب

زید  اس فقرہ کے سبب مجرم شرعی نہیں کہ احتیاط کرنے اور اختلاف معتبر شرعی سے بچنے کا حکم شرع مطہر میں ہے اتنی بات پر جو اسے ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اچھا کام نہیں کرتے بلکہ گناہ کے ساعی ہیں

 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: کل المسلم علی المسلم حرام مالہ وعرضہ ودمہ حسب امرئ من الشرع ان  یحقر  اخاہ المسلم  ۱؎۔ رواہ ابوداؤد و ابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

مسلمان کا سب کچھ دوسرے مسلمان  پر حرام ہے اُ سکا مال، اُس کا آبرو، اس کا خون، آدمی کے بد ہونے کو یہ بہت ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔ اسے ابوداؤد اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ھریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔

 

 (۱؎ سنن ابن ماجہ    باب حرمۃ المومن ومالہ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص ۲۹۰)

 

البتہ وہ نماز کہ پڑھی اس میں بہت شقوق ہیں جن میں سے ملخص یہ کہ اگر وہ جن کو  علمائے حاضرہ کہا رسمی علماء ہیں نہ کہ فقیہ ماہر جن کے فتوے پر اعتماد جائز ہو، ان کی تحقیق  پر وثوق جائز نہ تھا اور اگر اس وقت تک ان کی بات زید کے حق میں لائق وثوق  تھی اور جب دوسرے عالم جن کو  بڑے متدین مستند عالم کہا ہے انھوں نے وہ ثبوت صحیح نہ جانا تو زید کو اگلوں کے بیان پر وثوق نہ رہا، اور سہ شنبہ کو دسویں ہونا بے ثبوت ہوگیا، پھر نماز پڑھی تو نماز ہی نہ ہوئی کہ نماز کے لئے جس طرح وقت شرط ہے یونہی اعتقاد مصلی میں وقت آجانا شرط ہے مثلاً  اگر صبح کی نماز پڑھی اور اسے طلوعِ صبح میں شبہ تھا، نماز نہ ہوئی اگر چہ واقع میں صبح ہوگئی ہو۔

 

ردالمحتار میں ہے: وکذا یشترط اعتقاد دخول فلو شک لم تصح صلوتہ وان ظھر انہ قد دخل ۱؎ ۔

 

اسی طرح اس کے دخول کا اعتقاد بھی شرط ہے لہذا اگر شک ہوا تو نماز صحیح نہ ہوگی اگر چہ ظاہر یہی ہو کہ وقت شروع ہوچکا ہے ۔ (ت)

 

اور اگر وہ قابل وثوق تھے اور اسے وثوق ہی رہا تو قربانی میں احتیاط کی کیا حاجت تھی، اور تھی تو کیا نماز میں احتیاط درکار نہ تھی، عید الاضحی کی نماز بھی بارھویں تک ہوسکتی ہے اگر چہ بلاعذر تاخیر مکروہ ہے،

 

 (۱؎ ردالمحتار    با ب شروط الصلوٰۃ    مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ    ۱/۲۹۶)

 

تنویرا لابصار میں ہے: یجوز تاخیرھا الٰی ثالث ایام النحر بلا عذر مع الکراھۃ وبہ بدونھا ؎۲ ۔  واﷲ تعالٰی اعلم

 

عذ ر کے بغیر نماز عید الاضحی کو ایام نحر کے آخر تک مؤخر کرنا کراہت کے ساتھ جائز ہے اور عذرکی صورت میں بغیر کراہت کے جائز ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)

 

 (۲؎ درمختار    باب العیدین         مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۱۱۶)

 

مسئلہ۱۴۴۵: از کانپور محلہ نئی سڑک مرسلہ حاجی فہیم بخش عرف چھٹن ۱۳ صفر المظفر ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں عمرو نے نماز عید الاضحی اپنی امامت سے کثیرالتعداد مقتدیوں کے ساتھ ادا کی، نماز خطبہ کے بعد عمرو  نے  بوجہ اختلاف رؤیت قربانی کے لئے بخیال مزید احتیاط ممانعت کی ، بکر نے دوسرے روز نماز عید الاضحی مع قلیل التعداد مقتدیوں کے شہر کی ایک مسجد میں پڑھی عمرو نے جو ہنگام ادائے نماز وہاں موجود تہا   بکر کی اقتداء میں تکرار نماز کی، پس ایسی صورت میں عمرو کی کون سی نماز واجب اور کون سی نفل ہوگی؟بینوا توجروا

 

الجواب

پہلے دن اگر عمر کو روز عید ہونے میں شک تھا یا بلاثبوت شرعی عید مان کر نماز عید پڑھی تھی تو وہ نماز ہی نہ ہوئی یہ دوسری ہی واجب واقع ہوئی اور اگریہ ثبوت شرعی بلا تردد پہلے دن پڑھی تو  وہی واجب تھی دوسری بلاوجہ رہی۔            واﷲ تعالٰی اعلم

 

مسئلہ۱۴۴۶ از ملک بنگالہ ضلع کمرلہ موضع چاند پور مرسلہ مولوی عبدالحمید صاحب غرہ۱۳ صفر ۱۳۲۰ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی شخص نماز عید الاضحی کی نیت  میں عیدالاضحی کہے یعنی یوں کہے نویت ان اصلیﷲ تعالٰی رکعتی صلٰوۃ العید الاضحی الخ

 

 (میں نے نیت کی کہ میں اللہ تعالٰی کو ر اضی کرنے کے لئے نماز عید الاضحی پڑھ رہا ہوں الخ ۔ت) تو نماز اس کی صحیح ہوگی یانہیں؟

بینوا توجروا عند اﷲ۔

 

الجواب

اگر چہ یہ لفظ غلط ہے صحیح صلوٰۃ عید الاضحی ہے مگر نہ نیت زبانی کی نماز میں حاجت ہے نہ وہ نماز کے اندر ہے نہ اس میں فساد معنٰی ہے، تو اس غلطی کاصحتِ نماز پر اصلاً اثر نہیں ہوسکتا، دل میں عیدالاضحی ہی کا قصد ہے اگرچہ نام میں غلطی کی بلکہ دل میں نماز عید الاضحی کا ارادہ کرتا اور زبان سے عید الفطر بلکہ مثلاً نماز تروایح کا نام نکلتا جسے اس نما زسے کوئی مناسبت ہی نہیں ، جب بھی صحت نماز  میں شبہ نہ تھا کہ نیت فعل قلب ہے۔ جب قلب کا ارادہ ہے زبان کا کچھ اعتبار نہیں،

 

درمختار میں ہے: المعتبر فیھا عمل القلب اللازم للارادۃ فلا عبرۃ للذکر باللسان ان خالف القلب لانہ کلام لانیۃ ۱؎۔

 

یہاں اعتبار فعل دل کا ہے جو ارادہ کو لازم ہے لہذا زبان کے ذکر کا کوئی اعتبار نہیں اگر چہ اس نے دل کی مخالفت کردی ہو کیونکہ وہ تو کلام والفاظ ہیں نیت نہیں ۔(ت)

 

 (۱؎ درمختار    باب شروط الصلوٰۃ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۱۱۶)

 

ردالمحتار میں ہے: فلو قصد الظھر وتلفظ بالعصر سھواً اجزأہ کما فی الزاھدی قھستانی ۲؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

اگر ارادہ ظہر کا تھا مگر سہواً عصر کہہ دیا تو نماز ہوجائیگی جیسا کہ زاہدی میں ہے قہستانی، واﷲ تعالٰی اعلم (ت)

 

 (۲؎ ردالمحتار      باب شروط الصلوٰۃ    مصطفی البابی مصر   ۱/ ۳۰۵)

 

مسئلہ۱۴۴۷: از شہر بریلی محلہ ملوکپور  مسئولہ منشی ہدایت یا رخاں صاحب قیس ۸  محرم الحرام۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ عیدگاہ مثل مساجد قابل حرمت  و  وقعت ہے یانہیں؟ اس کا حکم حکمِ مسجد ہے یا نہیں؟ اس احاطہ کے اند رغیر قومیں جوتے پہنے ہوئے جاسکتی ہے یا نہیں؟ا ور اس چاردیواری کے اندر خرید وفروخت ہوسکتی ہے ؟ خطبہ کے وقت دکانداروں یا خوانچہ  والوں کا گشت اس میں جائز  ہوسکتا ہے  یانہیں؟  بالتشریع اس کا جواب مرحمت فرمایا جائے۔

 

الجواب

عیدگاہ ایک زمین ہے کہ مسلمانوں نے نمازِ عید کے لئے خاص کی، امام تاج الشریعۃ نے فرمایا صحیح یہ ہے

کہ وہ مسجد ہے اس پر تمام احکام احکام مسجد ہیں نہایہ میں اگر چہ مختار للفتوٰی یہ رکھا کہ وہ عین مسجد نہیں، مگر اس کے یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ اس کی تنظیف وتطہیر ضروری نہیں ، غیر  وقت نماز  و خطبہ میں اس میں خرید وفروخت قولِ اول پر مطلقاً حرام ہے اور خرید فروخت کے لئے اس متعین کرنا بالاتفاق حرام ہے۔

 

اذ لا یجوز  تغییر الوقف عن ھیأتہ فضلا عن ضیعتہ کما فی الھندیۃ وغیرھا ۱؎ ۔

 

وقف کی ہیئت وحالت میں تبدیلی جائز نہیں چہ جائیکہ اسے ضائع کرنا جائز ہو  ہندیہ وغیرہ ۔ (ت)

 

 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ      کتاب الوقف     الباب الرابع عشرفی المتفرقات   مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور   ۲/ ۴۹۰)

 

اور  یوں کہ اتفاقاً غیر  وقت نماز خطبہ میں ایک کے پاس کوئی شے ہو وہ دوسرے کے ہاتھ بیع کرے، قول دوم  پر اس میں حرج نہیں، وقت نماز یا خطبہ میں خوانچہ والوں کا گشت بلا شبہ ممنوع و واجب الانسداد ہے کہ مخل استماع وناقض ہے اور ان کے غیر اوقات میں وہی اختلاف قولین، یونہی کفار کی آمد و رفت خصوصاً جوتا پہنے کہ یہ نجاست سے خالی نہیں ہوتے نہ وہ جنابت سے

 

کما حققہ فی الحلیۃ و بیناہ فی فتاوٰنا ( جیساکہ اس کی تحقیق حلیہ میں ہے اور ہم نے اپنے فتاوی میں اسے تفصیلاً بیان کیا ہے ۔ت)

 

درمختار میں ہے: اماالمتخذ لصلٰوۃ جنازۃ اوعید فھو مسجد فی حق جوا زالاقتداء  وان انفصل الصفوف رفقا بالناس لا فی حق غیرہ بہ یفتی نھایۃ ۲؎ ۔

 

لوگوں کی سہولت کی وجہ سے عیدگاہ او رجنازہ گاہ جواز اقتداء کے حق میں مسجد ہے اگر چہ صفیں متصل نہ ہوں، ہا ں اس کے علاوہ میں یہ حکم نہیں، اسی پر فتوٰی ہے ۔ نہایہ ۔(ت)

 

(۲؎ درمختار                باب مایفسد  الصلوٰۃ وما یکرہ فیہا    مطبوعہ   مطبع مجتبائی دہلی       ۱/ ۹۳)

 

ردالمحتار میں ہے: قال فی البحر ظاھرہ انہ یجوز الوطئ والبول والتخلی فیہ ولا یخفی مافیہ فان البانی لم یعدہ لذلک فینبغی ان لایجوز  وان حکمنا بکونہ غیر مسجد وانما تظھر فائدتہ فی حق بقیۃ الاحکام و حل دخولہ للجنب والحائض ۳؎  انتھی

 

بحر میں ظاہر عبارت بتا رہی ہے کہ وطی اور بول وبراز جائز ہے لیکن یہ واضح رہنا چاہئے کہ بانی نے اس کے لئے نہیں بنائی لہذایہ جائز نہیں ہونا چاہیے اگر چہ ہم اسے مسجد کا حکم نہیں دیتے اس کا فائدہ بقیہ احکام میں ظاہر ہوتا ہے اور اس میں جنبی اور حائضہ کے دخول کا جواز بھی انتہی (ت)

 

(۳؎ ردالمحتار             باب مایفسد  الصلوٰۃ وما یکرہ فیہا   مصطفی البابی مصر       ۱/ ۴۸۶)

 

اسی میں ہے: صحح تاج الشریعۃ ان مصلی العید لہ حکم المساجد ۱؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

تاج الشریعۃ نے عید گاہ کے لئے مسجدکے حکم کی تصحیح کی ہے ۔(ت) واﷲ تعالٰی اعلم

 

(۱؎ ردالمحتار    باب مایفسد الصلوٰۃ وما یکرہ فیہا    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۴۸۶)

 

مسئلہ ۱۴۴۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ نماز عید کو امام نے اس طور ادا کیا کہ پہلی رکعت میں بعد ثناء کے او ل قرأت سے چار تکبیریں کہیں، دوسری رکعت میں قبل از قرأت کے چار تکبیریں کہیں اور قرأت کر کے نماز تمام کی پہلی رکعت میں بعد ثناء کے تین تکبیریں کہیں بعد کو قرأت اور دوسری رکعت میں اول میں تین تکبیریں کہیں اور قرأت ادا کرکے نماز تمام کی، تو اس صورت سے نماز عید ہوگئی یا نہیں؟ بینوا توجروا

 

الجواب

پہلی صورت میں دو  باتیں خلافِ اولٰی کیں چار چار تکبیریں کہنی اور دوسری رکعت  قبل قرأت تکبیر ہونی ، اور دوسری صورت میں یہی بات خلاف اولٰی ہوئی، مگر دونوں صورتوں میں نہ نماز میں نقصان آیا نہ کسی امر ناجائز  وگناہ کا ارتکاب ہوا، ہاں بہتر نہ کیا،

 

درمختار میں ہے: ھی ثلات تکبیرات فی کل رکعۃ ولو زاد تابعہ الی ستۃ عشر لانہ ماثور ۲؎۔

 

یہ ہر رکعات میں تین تکبیرات ہیں اگر امام اضافہ کردے تو سولہ تک اس کی اتباع کی جائے کیونکہ یہاں تک منقول ہیں، (ت)

 

 (۲؎ درمختار    باب العیدین             مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۱۵)

 

ردالمحتار میں ہے: ذکر فی البحران الخلاف فی الاولویۃ ونحوہ فی الحلیۃ ۳؎ ۔

 

بحر میں ہے کہ اختلاف اولٰی ہونے میں ہے ، اور اسی طرح حلیہ میں ہے (ت)

 

 (۳؎ ردالمحتار  باب العیدین             مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۶۱۵)

 

درمختار میں ہے: یوالی ندبابین القرأتین ۴؎  ( دونوں رکعتوں کی قرأت کو تکبیراتِ زائدہ کے فصل کے بغیر ادا کرنا مستحب ہے ۔ت)

 

 (۴؎ درمختار     باب العیدین             مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۱۱۵)

 

ردالمحتار میں ہے: اشار الی انہ لوکبر فی اول رکعتہ جاز لان الخلاف فی الاولویۃ ۱؎  ۔

 

اس میں اشارہ ہے کہ اگر چہ رکعت کی ابتداء میں تکبیر کہہ لی تو جائز ہے کیونکہ اختلاف اولٰی ہونے میں ہے ۔ (ت) واﷲ تعالٰی اعلم

 

 (۱؎ ردالمحتار                باب العیدین        مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱/ ۶۱۶)

 

مسئلہ ۱۴۴۹: از اورنگ آباد ضلع گیا مرسلہ محمد اسمٰعیل مدرس مدرسہ اسلامیہ ۱۵ صفر ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید عید الاضحی میں بعد اختتام نماز منبر  پر گیا اور خطبہ شروع کیا، اثنائے خطبہ اولٰی میں مستمعین سے ہی آپ لوگ ذرا  زور  سے سبحان اﷲ پڑھیں۔ سب چپ رہے، پھر دوبارہ سہ بارہ کہہ کر لوگوں کو مجبورکیا کہ کیوں نہیں پڑھتے، تم لوگوں کا منہ کیوں بند ہوگیا، تب لوگوں نے بآواز بلند سبحان اﷲ پڑھنا شروع کیا پھر لبیّک واﷲ اکبر کہلوایا پھر لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ پڑھوایا پھر نعتیہ خطبہ پڑھ کر منبر  پر بیٹھا اور اٹھ کر خطبہ شروع کیا، ابھی خطبہ ثانیہ تمام ہونے نہ پایا تھا کہ لوگو ں کو کھڑے ہوکر یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک پڑھنے کو کہا ، چناچہ لوگوں نے اٹھ کر زور  زور  سے  یا نبی سلام علیک مع اشعار  اردو کتب میلاد مروجہ ترنم سے  پڑھا اورزید نے پھر کچھ اردو میں دعا  مانگی اور خطبہ ثانیہ کو اسی طرح نا تمام چھوڑدیا آیا یہ فعل موافق سنتِ متوارثہ ہو ا یا خلاف سنت سراسر عبث اور ایسا کرنے والے پر عند الشرع کیا حکم لگا یا جائے گا؟ بینوا توجروا

 

الجواب

حالت خطبہ میں کلام اگرچہ ذکر  ہو مطلقاً حرام ہے

 

اذا خرج الامام فلا صلوۃ ولاکلام ۲؎ ( جب امام آجائے تو صلوٰۃ وکلام نہیں، ت)

 

 (۲؎ نصب الرایۃ    کتاب الصلوٰۃ    باب صلوٰۃ الجمعۃ    مطبوعہ المکتبہ الاسلامیہ الریاض       ۲/ ۲۰۱

فتح الباری        کتاب الجمعۃ                مطبوعہ  دارالمعرفۃ بیروت        ۲/ ۳۳۸)

 

امام نے جو کچھ کیا سب بدعت شنیعہ سیئہ ہے، اُن جاہلوں کا وبال بھی اس  پر بغیر اس کے کہ ان کے وبال میں کمی ہو،

 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا  ومن دعا الی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لاینقص ذلک من اثامھم شیئا  ۱؎  رواہ الائمۃ احمد ومسلم والاربعۃ عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ واﷲ تعالٰی اعلم جس نے کسی اچھی بات کی طرف بلایا اس کو اتباع کرنے کے اجر کی مثل اجر ملے گا  اور ان کے اجر میں کوئی کمی

نہ ہوگی اور جس نے برائی کی طرف بلایا اس پر گناہ ہوگا اتباع کرنے والوں کی مثل ،ا ور ان کے گناہ میں بھی کمی نہ ہوگی، اسے امام احمد ، مسلم اور  چار  ائمہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

 (۱؎ صحیح مسلم    باب من سن سنۃحسنۃ او سیئۃ  الخ    مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی    ۲ /۳۴۱)

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post