RasoolULLAH ﷺ ke Saaye ki Nafi | Risala Qamrut Tamam by aalaHazrat

 

رسالہ

قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانام صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم(۱۲۹۶ھ)

(سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سایہ کی نفی میں کامل چاند)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

مسئلہ۴۴: کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ سید المرسلمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم اقدس کا سایہ تھا یا نہیں ؟بینواتوجروا(بیان کرو اجرپاؤگے۔ت)

 

الجواب  : ومن اللہ توفیق الصدق والصواب ولا حول قوۃ الاباللہ العزیز الوھاب ، اللھم صل وسلم وبارک علی السراج المنیر الشارق والقمر الزاھر البارق وعلٰی اٰلہٖ واصحابہٖ اجمعین ۔

 

اللہ تعالٰی کی طرف سے ہی سچائی اوردرستگی کی توفیق ہے۔  نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اورنہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر عزت والے بہت عطافرمانے والے اللہ کی توفیق سے ۔ اے اللہ !درود وسلام اور برکت نازل فرما روشن چمکدار چراغ اور خوشنما تابناک چاند پر اور آپ کی آل پر اور تمام صحابہ پر۔(ت)

 

بیشک اس مہرِ سپہرِ اصطفاء ، ماہِ منیرِ اِجتباء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا اوریہ امر احادیث واقوالِ ائمہ کرام سے ثابت، اکابر ائمہ وعلماء فضلاء کہ آج کل کے مدعیانِ خام کا رکو ان کی شاگردی بلکہ انکے کلام کے سمجھنے کی لیاقت نہیں، خلفاً ، سلفاً ، دائماً اپنی تصانیف میں اس معنٰی کی تصریح فرماتے آئے اوراس پر دلائلِ باہرہ وحُجَجِ قاہرہ قائم، جن پرمفتیِ عقل وقاضی نقل نے باہم اتفاق کر کے ان کی تاسیس وتشیید کی ۔آج تک کسی عالم دین اسے اس کا انکار منقول نہ ہوا یہاں تک کہ وہ لوگ پیدا ہوئے جنہوںنے دین میں ابتداع اورنیا مذہب اختراع اورہوائے نفس کا اتباع کیا اوربہ سبب اس سوء رنجش کے جوانکے دلوں میں اس رؤف ورحیم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے تھی ، انکے محو فضائل ورد معجزات کی فکر میں پڑے حتی کہ معجزئہ شق القمر جو بخاری ومسلم کی احادیث صحیحہ بلکہ خود قرآن عظیم ووحی حکیم کی شہادت حقہ اور اہل سنت وجماعت کے اجماع سے ثابت ، ان صاحبوں میں سے بعض جری بہادروں نے اسے بھی غلط ٹھہرایا اوراسلام کی پیشانی پر کلف کا دھبہ لگایا۔ فقیر کو حیرت ہے کہ ان بزرگواروں نے اس میں اپنا کیا فائدہ دینی یا دنیاوی سمجھاہے ۔

 

اے عزیز!ایمان ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محبت سے مربوط ہے اورآتش جاں سوز جہنم سے نجات انکی الفت پرمنوط (منحصرہے۔ت) جو ان سے محبت نہیں رکھتا، واللہ کہ ایمان کی بو اس کے مشام (ناک) تک نہ آئی،

 وہ خود فرماتے ہیں : لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہٖ وولدہٖ والناس اجمعین۱؂۔

 

تم میں سے کسی کو ایمان حاصل نہیں ہوتا جب تک میں اس کے ماںباپ اوراولاد ، سب آدمیوں سے زیادہ پیارا نہ ہوں۔

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷)

( صحیح مسلم کتاب الایمان باب وجوب محبۃ الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۹)

 

اورآفتاب نیم روز کی طرح روشن کہ آدمی ہمہ تن اپنے محبوب کے نشرِ فضائل وتکثیرِ مدائح میں مشغول رہتاہے اورجو بات اس کی خوبی اورتعرفی یف کی سنتاہے کیسی خوشی اورطیبِ خاطر سے اظہار کرتاہے ، سچی فضیلتوں کا مٹانا اورشام وسحر نفیِ اوصاف کی فکر میں رہنا کام دشمن کا ہے نہ کہ دوست کا ۔

جانِ برادر!تُو نے کبھی سُنا ہے کہ جس کو تجھ سے اُلفت سادقہ ہے وہ تیری اچھی بات سن کر چیں بہ جبیں ہو اوراس کی محو کی فکر میںرہے اورپھر محبوب بھی کیسا ، جانِ ایمان وکانِ احسان ، جس کے جمالِ جہاں آراء کا نظیر کہیں نہ ملے گااورخامہ قدرت نے اس کی تصویر بناکر ہاتھ کھینچ لیا کہ پھر کبھی ایسا نہ لکھے گا، کیسا محبوب، جسے اس کے مالک نے تمام جہان کے لئے رحمت بھیجا ۔ کیسا محبوب، جس نے اپنے تن پر ایک عالم کا بار اٹھالیا ۔ کیسا محبوب ، جس نے تمہارے غممیں دن کاکھانا ، رات کا سونا ترک کردیا، تم رات دن اس کی نافرمانیوں میں منہمک اورلہو ولعب میں مشغول ہو اوروہ تمہاری بخشش کے لئے شب وروز گریاں وملول ۔

شب ، کہ اللہ جل جلالہ، نے آسائش کے لئے بنائی، اپنے تسکین بخش پر دے چھوڑے ہوئے موقوف ہے ، صبح قریب ہے ، ٹھنڈی نسیموں کا پنکھا ہو رہا ہے ، ہر ایک کاجی اس وقت آرام کی طرف جھکتاہے ، بادشاہ اپنے گرم بستروں ، نرم تکیوں میں مست خواب ناز ہے اورجو محتاج بے نوا ہے اس کے بھی پاؤں دوگز کی کملی میں دراز، ایسے سہانے وقت ، ٹھنڈے زمانہ میں ، وہ معصوم ، بے گناہ، پاک داماں ، عصمت پناہ اپنی راحت وآسائش کو چھوڑ، خواب وآرام سے منہ موڑ ، جبین نیاز آستانہ عزت پر رکھے ہے کہ الہٰی !میری امت سیاہ کارہے ، درگزرفرما، اورانکے تمام جسموں کو آتش دوزخ سے بچا۔

 

جب وہ جانِ راحت کان رافت پیداہوابارگاہ الہٰی  میں سجدہ کیا اور رب ھب لی امتی ۱؂ فرمایا، جب قبر شریف میں اتارا لبِ جاں بخش کو جنبش تھی، بعض صحابہ نے کان لگا کر سنا آہستہ آہستہ  امتی امتی ۲؂ فرماتے تھے ۔ قیامت کے روز کہ عجب سختی کا دن ہے ، تانبے کی زمین ، ننگے پاؤں، زبانیں پیاس سے ، باہر ، آفتاب سروں پر ، سائے کا پتہ نہیں ، حساب کا دغدغہ ، مَلِکِ قہار کا سامنا ،عالَم اپنی فکر میں گرفتارہوگا ، مجرمانِ بے یار دامِ آفت کے گرفتار، جدھر جائیں گےسو ا نفسی نفسی اذھبوا الی غیری۳؂ کچھ جواب نہ پائیں گے ،

 

(۱؂تا ۳؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)

 

اس وقت یہی محبوبِ غمگسار کام آئے گا ، قفل شفاعت اس کے زورِ بازو سے کُھل جائے گا ، عمامہ سراقدس سے اتاریں گے اورسربسجود ہوکر ''یارب امتی ۴؂''۔ فرمائینگے ۔

 

 (۴؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)

 

وائے بے انصافی !ایسے غم خوار پیارے کے نام پر جان نثار کرنا اورمدح وستائش ونشر فضائل سے اپنی آنکھوں کو روشنی اوردل کو ٹھنڈک دینا واجب یا یہ کی حتی الوسع چاند پر خاک ڈالے اوران روشن خوبیوں میں انکار کی شاخیں نکالے۔

مانا کہ ہمیں احسان شناسی سے حصہ نہ ملا ، نہ قلب عشق آشنا ہے کہ حُسن پسند یا احسان دوست، مگر یہ تو وہاں چل سکے جس کا احسان اگرنہ مانئے ، اس کی مخالفت کیجئے تو کوئی مَضرت نہ پہنچے اوریہ محبوب تو ایسا ہے کہ بے اِس کی کفش بوسی کے جہنم سے نجات میسر،نہ دنیا وعقبٰی میں کہیں ٹھکانا متصور ، پھر اگر اس کے حسن واِحسان پر والہ وشیدانہ ہوتو اپنے نفع وضرر کے لحاظ سے عقیدت رکھو۔

اے عزیز!چشمِ خِرد میں سرمہئ انصاف لگا اورگوشِ قبول سے پنبہ انکار نکال ، پھرتمام اہلِ اسلام بلکہ ہر مذہب وملت کے عقلاء سے پُوچھتا پھر عُشاق کا اپنے محبوب کے ساتھ کیا طریقہ ہوتا ہے اورغلاموں کو مولٰی کے ساتھ کیا کرناچاہیے ، آیا نشرِ فضائل وتکثیرِ مدائح اوران کی خوبیِ حسن سن کر باغ باغ ہوجانا، جامے میں پُھولا نہ سمانا یا رَدِمحاسِن ، نفیِ کمالات اوران کے اوصافِ حمیدہ سے بہ انکار وتکذیب پیش آنا ، اگر ایک عاقل منصف بھی تجھ سے کہہ دے کہ نہ وہ دوستی کا مقتضی نہ یہ غلامی کے خلاف ہے تو تجھے اختیار ہے ورنہ خدا ورسول سے شرما اوراس حرکت بے جا سے باز آ، یقین جان لے کہ محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خوبیاں تیرے مٹائے سے نہ مِٹیں گی۔

جانِ برادر! اپنے ایمان پر رحم کر، خدائے قہار وجبار جل جلالہ، سے لڑائی نہ باندھ ، وہ تیرے اورتمام جہان کی پیدائش سے پہلے ازل میں لکھ چکا تھا ورفعنا لک ذکرک ۱؂ یعنی ارشاد ہوتا ہے اے محبوب ہمارے !ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کیا کہ جہاں ہماری یا دہوگی تمہارا بھی چرچاہوگا اور ایمان بے تمہاری یاد کے ہرگز پورا نہ ہوگا،

 

(۱؂القرآن الکریم ۹۴ /۴)

 

آسمانوں کے طبقے اورزمینوں کے پردے تمہارے نام نامی سے گونجیں گے ، مؤذن اذانوں اورخطیب خطبوں اورذاکرین اپنی مجالس اور واعظین اپنے منابِر پر ہمارے ذکر کے ساتھ تمہاری یا د کریں گے ۔ اشجار واحجار، آہُو وسوسمارودیگر جاندار واطفال شیرخوار ومعبودان کفار جس طرح ہماری توحید بتائیں گے ویسا ہی بہ زبان فصیح وبیان صحیح تمہارامنشور رسالت پڑھ کر سنائیں گے ، چار اکناف عالم میں لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ کاغلغلہ ہوگا، جز اشقیائے ازل ہر ذرہ کلمہ شہادت پڑھتا ہوگا، مسبحانِ ملاء اعلٰی کو ادھر اپنی تسبیح وتقدیس میں مصروف کروں گا اُدھر تمھارے محمود درودِ مسعود کا حکم دوں گا ۔عرش وکرسی، ہفت اوراق سردہ ، قصور جناں، جہاں پر اللہ لکھوں گا ۔ محمد رسول اللہ بھی تحریر فرماؤں گا ، اپنے پیغمبروں اوراولوالعزم رسولوں کو ارشاد کروں گا کہ ہر وقت تمہار ادم بھریں اورتمہاری یاد سے اپنی آنکھوں کو روشنی اورجگر کو ٹھنڈک اورقلب کو تسکین اوربزم کو تزئین دیں ۔ جو کتاب نازل کروں گا اس میں تمہاری مدح وستائش اورجمال صورت وکمال سیرت ایسی تشریح وتوضیح سے بیان کروں گا کہ سننے والوں کے دل بے اختیار تمہاری طرف جھک جائیں اورنادیدہ تمہارے عشق کی شمع ان کے کانوں ، سینوں میں بھڑک اٹھے گی ۔ ایک عالم اگر تمہارادشمن ہوکر تمہاری تنقیص شان اورمحو فضال میں مشغول ہوتو میں قادر مطلق ہوں ، میرے ساتھ کسی کا کای بس چلے گا۔ آخر اسی وعدے کا اثر تھا کہ یہود صدہا برس سے اپنی کتابوں سے ان کا ذکر نکالتے اورچاند پر خاک ڈالتے ہیں تو اہل ایمان اس بلند آواز سے ان کی نعت سناتے ہیں کہ سامع اگر انصاف کرے بے ساختہ پکار اٹھے ۔ لاکھوں بے دینوں نے ان کے محو فضائل پر کمر باندھی ، مگر مٹانے والے خود مٹ گئے اور ان کی خوبی روز بروز مترقی رہی ، پھر اپنے مقصود سے تو یاس ونا امیدی کرلینا مناسب ہے ورنہ برب کعبہ ان کا کچھ نقصان نہیں ، بالآخر ایک دن تو نہیں ، تیرا ایمان نہیں۔

 

اے عزز !سلف صالح کی روش اخیتار کر اوران کے قدم پر قدم رکھ، ائمہ دین کا وطیرہ ایسے معاملات میں دائماً تسلیم وقبول رہا ہے ، جب کسی ثقہ معتمد علیہ نے کوئی معجزہ یا خاصہ ذکر کردیا اسے مرحبا کہہ لیا اور حبیب جان میں بہ طیب خاطر جگہ دی ، یہاں تک کہ اگر اپنے آپ احادیث میں اس کی اصل نہ پائی ، قصور اپنی نظر کا جانا، یہ نہ کہا کہ غلط ہے ، باطل ہے ، کسی حدیث میں وارد نہیں ، نہ یہی ہوا کہ جب حدیث سے ثبوت نہ ملا تھا اس کے ذکر سے باز رہتے بلکہ اسی طرح اپنی تصانیف میں اس کے ذکر سے باز رہتے بلکہ اسی طرح اپنی تصانیف میں اس ثقہ کے اعتماد پر اسے لکھتے آئے ، اورکیوں نہ ہو، مقتضٰی  عقل سلیم کا یہی ہے کہ : فائدہ جلیلہ : جب ہم اسے ثقہ معتمد عیہ مان چکے اور وقوع ایسے معجزے کا یا اختصاص ایسے خاصہ کا ذات پاک سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بعید نہیں کہ اس سے عجیب تر معجزات بہ تواتر حضور حضور سے ثابت ، اوران کا رب اس سے زیادہ پر قادر ، اوران کے لئے اس سے بہتر خصائص بالقطع مہیا اوران کی شان اس سے بھی ارفع واعلٰی ، پھر انکار کی وجہ کیا ہے ، تکذیب میں تو اس راوی سے ثقہ معتمد علیہ ہونا ثابت ہوچکا اور وثوق واعتماد اس کا بتاتا ہے کہ اگر من عند نفسہٖ کہہ دیتاخداوررسول پر مفتری ہوتا، ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا۱؂۔ اوراس سے بڑھ کر ظالم کو ن جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔(ت)

 

 (۱؂القرآن الکریم ۱۱ /۱۸)

 

ان وجوہ پر نظر کرکے سمجھ لیجئے کہ بالضرور اس نے حدیث پائی ، گوہماری نظر میں نہ آئی ۔ہر چند کہ فقیر کا یہ دعوٰی اس شخص کے نزدیک بالکل بدیہی ہے جو خدمت حدیث وسِیَرمیں رہا اور اس راہ میں روشِ علماء کو مشاہدہ کیا مگر ناواقفوں کے افہام اورمنکروں پرالزام کے لئے چند مثالیں بیان کرتاہوں: اولاً: جسم اقدس ولباس انفس پر مکھی نہ بیٹھنا ۔ علامہ ابن سبع نے خصائص میں ذکر فرمایا علماء نے تصریح کی اس کا راوی معلوم نہ ہوا ، اورباوجود اس کے بلا نکیر اپنی کتابوں میں اسے ذکر فرماتے آئے ۔

شفاءِ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ میں ہے :

 

وان الذباب کان لایقع علی جسدہٖ ولاثیابہ۱؂۔

 

مکھی آپ کے جسم اقدس اورلباس اطہر پر نہ بیٹھی تھی۔

 

 (۱؂ الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن ذالک ماظہر من الآیات عند مولدہ دارالکتب العلمیہ بیروت   ۱ /۲۲۵)

 

امام جلال الدین سیوطی خصائص کبرٰی میں فرماتے ہیں : باب ذکر القاضی عیاض فی الشفاء والعراقی فی مولدہٖ ان من خصائصہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہ کان لاینزل علیہ الزباب ، وذکرہ ابن سبع فی الخصائص بلفظ انہ لم یقع علی ثیابہ ذباب قط و زاد ان من خصائصہ ان القمل لم تکن یؤذیہ۲؂۔ قاضی عیاض نے شفاء میں اورعراقی نے اپنی مولد میں ذکر کیا کہ حضور کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ مکھی آپ پر نہ بیٹھتی تھی ۔ ابن سبع میں ان لفظوں سے ذکر کیا کہ مکھی آپ کے کپڑوں پر کبھی نہ بیٹھی ۔ اوریہ بھی زیادہ کیا کہ جوئیں آپ کو نہیں ستاتی تھیں۔

 

 (۲؂الخصائص الکبرٰی باب ذکر القاضی عیاض فی الشفاء والعراقی فی مولدہ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند   ۱ /۶۸)

 

شیخ ملا علی قاری شرح شمائل ترمذی میں فرماتے ہیں : ونقل الفخر الرازی ان الذباب کان لایقع علی ثیابہ وان البعوض لایمتص دمہ۔۳؂

 

رازی نے نقل کیا کہ مکھیاں آ پ کے کپڑوں پر نہیں بیٹھتی تھیں اورمچھر آپ کاخون نہیں چوستے تھے ۔

 

 (۳؂شمائل ترمذی)

 

علامہ خفاجی نے ''نسیم الریاض ''میں علماء کا وہ قول کہ اس کا راوی نہ معلوم ہوا ، نقل کیا ، اوراس خاصہ کی نسبت لکھا کہ ایک کرامت ہے کہ حق سبحانہ وتعالٰی نے اپنے حبیب کو عطا کی اوراپنے نتائج افکار سے ایک رباعی لکھی کہ اس اس میں بھی اس خاصہ کی تصریح ہے اوربعض علماء عجم نے اسی بناء پر کلمہ  محمد رسول اللہ کے سب حروف بے نقطہ ہوتے ہیں ، ایک لطیفہ لکھا کہ آپ کے جسم پر مکھی نہ بیٹھتی تھی، لہذا یہ کلمہ پاک کلی نقطوں سے محفوظ رہا کہ وہ شبیہ مکھیوں کے ہیں ۔

 

پھر اسی مضمون پردوسری عبارت  : عبارتہ برمتہ : ومن دلائل نبوتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان الذباب کان لایقع علی ثیابہ ھذا مما قالہ ابن سبع الا انھم قالوا لایعلم من روی ھذہٖ والذباب واحدہ ذبابۃ قیل انہ سمی بہ لانہ کلما اذب آب ای کلما طرد رجع وھذا مما اکرمہ اللہ بہ لانہ طھرہ اللہ من جمیع الاقذار وھو مع استقذارہ قدی یجیئ من مستقذر قیل وقد نقل مثلھا عن ولی اللہ العارف بہ الشیخ عبدالقادر الکیلانی ولابعد فیہ لان معجزات الانبیاء قد تکون کرامۃ لاولیاء امتہ وفی رباعیۃ لی ؎

من اکرم مرسل عظیم حلا

لم تدن ذبابۃ اذ ماحلا

ھذ اعجب ولم یذق ذونظر

فی الموجودات من حلاہ احلا

وتظرف بعض علماء العجم فقال محمدرسول اللہ لیس فیہ حرف منقوط لان الموجود ان النقط تشبہ الذباب فصین اسمہ ونعمتہ کما قلت فی مدحہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ؂

لقد ذب الذباب فلیس یعلو

رسول اللہ محمودا محمد

ونقط الحرف یحکیہ بشکل

لذاک الخط عنہ قد تجرد۱؂۔

 

ان کی مکمل عبارت یہ ہے : آپ کے دلائل نبوت سے یہ بھی ہے کہ مکھی آپ کے نہ تو ظاہری جسم پر بیٹھتی تھی اورنہ لبا س پر، یہ ابن سبع نے کہا ۔ محدثین نے کہا کہ اس کا راوی معلوم نہیں ۔ذباب کا واحد ذبابۃ ہے ۔ کہتے ہیں اس کا یہ نام اس لئے ہے کہ اس کو جب بھی بھگا یا جاتاہے واپس آجاتی ہے ۔ یہ کرامت آپکو اس لئے عطاہوئی کہ اللہ نے آپ کو پاک رکھا تھا۔شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں یہی کہا جاتاہے اوراس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ کبھی ایسا ہوتاہے کہ جو چیز نبی کا معجزہ ہوتی ہے وہ بطور کرامت ولی کے ہاتھ سے سرز ہوجاتی ہے اور میں (خفاجی )نے ایک رباعی کہی ہے :

''آپ بزرگ ترین ، عظیم ، مٹھاس والے رسول ہیں ، یہ عجیب بات ہے کہ آپ کی مٹھاس کے باوجود مکھی آپ کے قریب نہ جاتی تھی اورکسی بھی صاحب نظر نے موجودات میں آپ کی مٹھاس سے زیادہ مٹھاس نہ چکھی۔''

اوربعض علماء عجم نے کہا کہ محمدرسول اللہ میں کوئی نقطہ نہیں ہے اس لئے کہ نقطہ مکھی کے مشابہ ہوتاہے ، عیب سے بچانے کے لئے اورآپ کی تعریف کے لئے میں نے آپ کی مدح میں کہا ہے :

''بلاشبہ اللہ نے مکھیوں کو آپ سے دور کردیا توآپ پرمکھی نہیں بیٹھتی ہے ، اللہ کے رسول محمود ومحمد ہیں اورحروف کے نقطے جو شکل میں مکھی کی طرح ہیں ان سے بھی اللہ نے اس لئے آپ کو محفوظ رکھا۔''

 

 (۱؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ومن ذٰلک ماظہر من الآیات الخ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۳ /۲۸۲)

 

ثانیاً : ابن سبع نے حضور کے خصائص میں کہا جو ں آپ کو ایذا نہ دیتی۔ علامہ سیوطی نے خصائص کبرٰی میں اس طرح ابن سبع سے نقل کیا اوربرقرار رکھا کہ مرّ (جیسا کہ گزرچکا ہے ۔ ت) اورملاعلی قاری شرح شمائل میں فرماتے ہیں : ومن خواصہ ان ثوبہ لم یقمل۲؂

 

آپ کے مبارک کپڑوں میں جوئیں نہیں ہوتی تھیں ۔(ت)

 

ثالثاً : ابن سبع نے فرمایا جس جانو رپر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سوار ہوتے عمر بھر ویسا ہی رہتا اور حضور کی برکت سے بوڑھا نہ ہوتا۔

 

علامہ سیوطی خصائص میں فرماتے ہیں : باب : قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کال دابۃ رکبہا بقیت علی القدر الزی کانت علیہ ولم تھرم ببرکتہ ۲؂صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

ابن سبع نے کہا کہ آپ کے خصائص میں سے یہ تھا کہ آپ جس جانور پرسوار ہوتے تو وہ عمر بھر ویسا ہی رہتا اورآپ کی برکت کے باعث بوڑھا نہ ہوتا،صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

 (۲؂الخصائص الکبرٰی قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند۲ /۲۴)

 

رابعاً : ابو عبدالرحمن بقی بن مخلد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ، جو اکابر اعیان مائۃ ثالثہ سے ہیں حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا سے حکایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جیسا روشنی میں دیکھتے تھے ویسا ہی تاریکی میں ۔ اس حدیث کو بیہقی نے موصولاً مسنداً روایت کیا اورعلامہ خفاجی نے اکابر علماء مثل ابن بشکوال وعقیلی وابن جوزی وسہیلی سے اس کی تضعیف نقل کی، یہاں تک کہ ذہبی نے تو میرزان الاعتدال میں موضوع ہی کہہ دیا۔ بہ ایں ہمہ خود علامہ خفاجی فرماتے ہیں جیسا بقی بن مخلہ وغیرہ ثقات نے اسے ذکر کیا اورحضور والا کی شان سے بعید نہیں تو اس کا انکار کس وجہ سے کیا جائے ۔ وھذا نصہ ملتقطا وحکی بقی ابن مخلد ابوعبدالرحمن مولدہ فی رمضان سنۃ احدٰی  ومائتین وتوفی سنۃ ست وسبعین مائتین عن عائشۃ رضی اللہ تعالٰی عنہا انھا قالت کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یری فی الظلمۃ کما یرٰی فی الضوع وفی روایۃ کما یرٰی  فی النور ولا شک انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کان کامل الخلقۃ قوی الحواس فوقوع مثل ھذا منہ غیر بعید وقد رواہ الثقات کابن مخلد ھذا فلاوجہ لانکارہ۱؂۔

 

اس کی عبارت بالاختصار یہ ہے : بقی بن مخلد ابوعبدالرحمن قرطبی جن کی ولادت رمضان المبارک؁ ۲۰۱  ھ اور وصال؁ ۲۷۶ھ  میں ہے ، نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تاریکی میں دیکھا کرتے تھے ۔ او رایک روایت میں جس طرح کہ روشنی مین دیکھتے تھے ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، کامل الخلقۃ ، قوی الحواس تھے توآپ سے اس کیفیت کا وقوع بعید نہیں ، پھر اس کو ابن مخلد جیسے ثقات نے روایت کیا ہے لہذا اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔

 

 (۱؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل اما وفورعقلہ الخ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند  ۱ /۳۷۲و۳۷۳)

 

خامساً  بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اس سب سے زیادہ یہ ہے کہ باوجود حدیث کے شدید الضعف وغیرمتمسک ہونے کے احیاء والدین ، وسعت قدرت وعظمت شان رسالت پناہی پر نظر کر کے گردن تسلیم جھکائی اورسوا سلمنا وصدقنا کچھ بن نہ آئی۔

 

ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہاسے مروی ہوا ، حجۃ الوداع میں ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب عقبہ جحون پر گزر ہوا حجور اشکبار ورنجیدہ ومغموم ہوئے ، پھرتشریف لے گئے ، جب لوٹ کر آئے چہر بشاش تھ اورلب تبسم ریز ، میں نے سبب پوچھا ، فرمایا ، میں اپنی ماں کی قبر پر گیا اورخدا سے عرض کیا کہ انہیں زندہ کردے ، وہ قبول ہوئی ، اوروہ زندہ ہوکر ایمان لائیں اورپھر قبر میں آرام کیا۔ اخرج الخطیب عن عائشۃ رضی اللہ تعالٰی عنہا قالت حج بنارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فمربی علی عقبۃ الجحون وھو باک حزین مغتم ثم ذھب وعاد وھو فرح متبسم فسألتہ فقال ذھبت الی قبرامی فسألت اللہ ان یحییہا فاٰمت بی وردّھا اللہ ۱؂۔

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمارے ہمراہ حج کیا، جب عقبہ جحون پر پہنچے تو رو رہے تھے اورغمگین تھے ، پھرآپ کہیں تشریف لے گئے ، جب واپس آئے تو مسرور تھے اورتبسم فرما رہے تھے ۔ فرماتی ہیں میں نے سبب دریافت کیا توآپ نے فرمایا : میں اپنی ماں کی قبر پرگیا تھا، میں نے اپنے اللہ سے سوال کیا، اس نے ان کوزندہ کیا، وہ ایمان لائیں اورپھر انتقال فرماگئیں۔

 

 (۱؂الخصائص الکبرٰی بحوالہ الخطیب باب ماوقع فی حجۃ الوداع الخ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند    ۲ /۴۰)

 

امام جلال الدین سیوطی خصائص میں فرماتے ہیں : اس کی سند میں مجاہیل ہیں، اورسہیلی نے ام المومنین سے احیائے والدین ذکر کر کے کہا : اس کے اسناد میں مجہولین ہیں اورحدیث سخت منکر اورصحیح کے معارض ۔ ففی مجمع بحار الانوار روح احیاء ابوی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حتی امنا بہ ، قال فی اسنادہ مجاھیل وانہ ح منکر جدا یعارضہ ماثبت فی الصحیح ۲؂۔

 

مجمع بحار الانوار میں ہے کہ اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے والدین کو زندہ فرمایا وہ آپ پر ایمان لائے ۔ اس کے اسناد میں مجاہیل ہیں اوریہ حدیث سخت منکر اورصحیح کے معارض ہے ۔

بایں ہمہ اسی مجمع بحارالانوار میں لکھتے ہیں :  فی المقاصد الحسنۃ واما احسن ماقال ؎

حبااللہ النبی مزید فضل

علی فضل وکان بہ رؤوفا

فاحیٰی امہ وکذا اباہ

لایمان بہ فضلالطیفا

نسلم فالقدیم بذاقدیر

وان کان الحدیث بہٖ ضعیفا۳؂

 

حاصل یہ مقاصد میں ہے اورکیا خوب کہا، خدا نے نبی کو فضل پر فضل زیادہ عطافرمائے اوران پر نہایت مہربان تھا ، پس ان کے والدین کو ان پرایمان لانے کے لئے زندہ کیا او راپنے فضل لطیف سے ، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ قدیم تو اس  پر قدرت رکھتا ہے اگرچہ جو حدیث اس معنٰی میں وارد ہوئی ، ضعیف ہے ۔

 

 (۳؂مجمع بحار الانوار فصل فی تعیین بعض الاحادیث المشتہرۃ الخ دارالایمان مدینۃ المنورۃ        ۵ /۲۳۶)

 

اے عزیز ! سنا تو نے ، یہ ہے طریقہ اراکین دین متین واساطین شرح متین ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم ومحبت میں ، نہ یہ کہ جو معجزہ وخاصہ حضور کا احادیث صحیحہ سے ثابت اور اکابر علماء  برابراپنی تصانیف معتبرہ مستندہ میں ، جن کا اعتبار واستناد آفتاب نیمروز سے روش تر ہے ، بلانکیر ومنکر اس کی تصریح کرتے آئے ہوں اور اس کے ساتھ عقل سلیم نے ان پر وہ دلائل ساطعہ قائم کئے ہوں جن پرکوئی حرف نہ رکھ سکے،بایں ہمہ اس سے انکار کیجئے اور حق ثابت کے ردپر اصرار ، حالانکہ نہ ان حدیثوں میں کوئی سقم مقبول وجرح معقول مے دارو، نہ ان ائمہ کے مستند بادلائل معتمدہونے میں کلام کرسکو، پھر اس مکابارہ کج بحثی اورتحکم وزبردستی کا کیا علاج، زبان ہر ایک کی اس کے اختیار میں ہے چاہے دن کو رات کہہ دے یا شمس کو ظلمات ۔

آخر تم جو انکار کرتے ہو تو تمہارے پا س بھی کوئی دلیل ہے یا فقط اپنے منہ سے کہہ دینا ، اگربفرض محال جو حدیثیں اس باب میں وارد ہوئیں نامعتبرہوں اور جن جن علماء نے اس کی تصریح فرمائی انہیں بھی قابل اعتماد نہ مانو اورجو دلائل قاطعہ اس پر قائم ہوئے وہ بھی صالح التفات نہ کہے جائیں ، تاہم انکار کا کیا ثبوت اوروجود سایہ کا کس بناء پر ، اگر کوئی حدیث ا س بارے میں آئی ہو تو دکھاؤ یا گھر بیٹھے تمہیں الہام ہوا ہو تو بتاؤ ، مجرد ماومن پر قیاس تو ایمان کے خلاف ہے ع

چہ نسبت خاک را عالم پاک

(مٹی کو عالم پاک سے کیا نسبت ۔ت)

وہ بشر ہیں مگر عالم علوی سے لاکھ درجہ اشرف واحسن ، وہ انسان ہیں مگر ارواح وملائکہ سے ہزار درجہ الطف ، وہ خود فرماتے ہیں : لست کمثلکم '' میں تم جیسا نہیں ''رواہ الشیخان ۱؂  (اسے امام بخاری اورامام مسلم نے روایت کیا۔ت)

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳)

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱و۳۵۲)

 

ویروٰی  لست کھیئتکم۲؂۔''

 

میں تمہاری ہیئت پر نہیں ۔''

 

 (۲؂صحیح البخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳و۲۶۴)

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی  ۱ /۳۵۱و۳۵۲)

 

ویروٰی  ایک مثلی۳؂''

 

تم میں کون مجھ جیسا ہے ۔''

 

 (۳؂صحیح البخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳)

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱)

 

آخر علامہ خفاجی کو فرماتے سنا: آپ کا بشر ہونا اورنور ودرخشندہ ہونا منافی نہیں کہ اگرمجھے تو وہ نورعلی نورہیں، پھر اس خیال فاسد پ رکہ ہم سب کا سایہ ہوتاہے ان کا بھی ہوگا توثبوت سایہ کا قائل ہونا عقل وایمان سے کس درجہ دورپڑتاہے ؎ محمد بشر لاکالبشر                                                                                                            بل ھو یاقوب بین الحجر۱؂

 

 (محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایسے بشر ہیں جن جیسا کوئی بشر نہیں ، بلکہ وہ پتھروں کے درمیان یاقوت ہیں۔ت)

 

صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہٖ وصحبہٖ اجمعین۔

 

 (۱؂ افضل الصلاۃ علی سید السادات    فضائل درود    مکتبہ نبویہ لاہور     ۱۵۰)

 

القائے جواب

 

ایقاظ دفع بعض اوہام وامراض میں ، اس مقام پر باوجودیکہ قلب بحمدللہ غایت اطمینان وتسلیم پر تھا مگر مرتبہ کا وش وتنقیح میں بوسوسہ ایک خدشہ زہن ناقص میں گزرا تھا یہاں تک کہ حق جل وعلانے اپنے کرم عمیم سے فقیر کو اس کا جواب القاء فرمای اجس سے تصور کو نور اوردل منتظر کو سرور حاصل ہوا۔

 

الحمدللہ علی مااولٰی والصلوٰۃ والسلام علی ھذالمولٰی ۔

 

سب تعریفیں اللہ کے لئے جو تعریفوں کے لائق ہے اوردرودوسلام آقائے دوجہاں پر۔

 

فاقول :  وباللہ التوفیق  (چنانچہ میں کہتاہوں اورتوفیق اللہ ہی کی طرف سے ہے ۔ت)

 

مقدمہ اولٰی :

 

حادیث صحیحہ سے ثۤبت کہ صحابہ کرام رجوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین حضور رسالت میں نہایت ادب ووقار سے سرجھکائے ، آنکھیں نیچی کئے بیٹھے ، رعب جلال سلطانی ان کے قلوب صافیہ پر ایسا مستولی ہوتاکہ اوپر نگاہ اٹھانا ممکن نہ تھا۔ خ عن مستور بن مخرمۃ ومروان ابن الحکم فی حدیث طویل فی قصۃ الحدیبیۃ ثم ان عروۃ جعل یرمق اصحاب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بعینیہ قال فواللہ ما تنخم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نخامۃ الاوقعت فی کف رجل منہم فدلک بہا وجہہ وجلدہ واذا امرھم ابتدروا اامرہ واذا توضأ کادو ایقتتلون علی وجوئہٖ  واذاتکلم خفضوا اصواتھم عندہ وما یحدون النظر الیہ تعظیما لہ فرجع عمروۃ الی اصحاب فقال ای قوم واللہ لقد وفدت علی الملولک قیصر و کسرٰی والنجاشی واللہ ان مارأیت ملکا قط یعظمہ اصحابہ مایعطم اصحاب محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۱؂۔

 

مسور بن مخرمہ اورمروان بن الحکم حدیبیہ کے طویل قصے میں ذکر کرتے ہیں کہ عروہ اصحاب نبی کو گھور رہا تھا ، اس نے کہا کہ بخدا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جب بھی ناک سُنکی تو کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ میں پڑی اور اس نے اپنے چہرے پر مَلی اوراپنے جسم پر لگائی، جب آپ نے حکم دیا تو انہوں نے ماننے میں جلدی کی ، جب آپ وضو فرماتے تو وہ وضو کا پانی لینے پر لڑنے کے قریب ہوجاتے ، اورجب گفتگوفرماتے تو صحابہ اپنی آوازیں پست کرلیتے اورآپ کی تعظیم کی وجہ سے آپ کی طرف نگاہ نہ کر پاتے تھے ، تو وہ اپنے ساتھیوں کی طر ف لوٹ آیا اور کاہ میں قیصروکسرٰی ونجاشی کے درباروں میں آیا مگر ایسا کوئی بادشاہ نہ دیکھا جس کی تعظیم اس کے ساتھی ایسے کرتے ہوں جیسی محمد کی ان کے صحابی کرتے ہیں۔

 

 (۱؂صحیح البخاری باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اہل الحرب الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۷۹)

(الخصائص الکبرٰی باب ماوقع عام الحدیبیۃ من الآیات مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند    ۱ /۲۴۰ و ۲۴۱)

 

اسی وجہ سے حلیہ شریف میں اکثر اکابر صحابہ سے حدیثیں وارد ہیں کہ وہ نگاہ بھر کر نہ دیکھ سکتے بلکہ نظر اوپر نہ اٹھاتے کما سیأتی (جیسا کہ آگے آرہا ہے ۔ت)بلکہ اس معنٰی میں کسی حدیث کے ورود کی بھی حاجت کیاتھی، عقل سلیم خود گواہی دیتی ہے کہ ادنٰی ادنٰی نوابوں اور والیوں کے حاضرین دربار ان کے ساتھ کس ادب سے پیش آتے ہیں ، اگرکھڑے ہیں تو نگاہ قدموں سے تجاوز نہیں کرتی ، بیٹھے ہیں تو زانو سے آگے قدم نہیں رکھتے ، خود اس حاکم سے نگاہ چار نہیں کرتے ، پس وپیش یادائیں بائیں دیکھنا تو بڑی بات ہے حالانکہ اس ادب کو صحابہ کرام کے ادب سے کیا نسبت ، ایمان ان کے دلوں میں پہاڑ سے زیادہ گراں تھا اور دربار اقدس کی حاضری ان کے نزدیک ملک السمٰوٰت والارض کا سامنااورکیوں نہ ہوتا کہ خود قرآن عزیز نے انہیں صدہا جگہ کان کھول کھول کر سنا دیا کہ ہمارا اورہمارے محبوب کا معاملہ واحدہے ،اس کا مطیع ہمارا فرمانبردار اوراس کا عاصی ہمارا گنہگار ، ان سے الفت ہمارے ساتھ محبت اوران سے رنجش ہم سے عداوت ، ان کی تکریم ہماری تعظیم اوران کے ساتھ گستاخی ہماری بے ادبی ، لہذا جب ملازمت والا حاصل ہوئی قلب ان کے خوف خدا سے ممتلی اورگردنیں خم اورآنکھیں نیچی اور آوازیں پست اوراعضاء ساکن ہوجاتے ۔ ایسی حالت میں نظراین وآں کی طرف کب ہوسکتی ہے جو سیاہ کے عدم یا وجود کی طرف خیال جائے اوربالضرور ایسے سراپا ادب ، ہمہ تن تعظیم لوگوں کی نگاہ اپنے عرش پائے گا ہ کی طرف بے غرض مہم نہ ہوگی ، اس حالت میں نفس کو اس مقصود کی طرف توجہ ہوگی، مثلاً نظارہ جمال باکمال یا حضور کا مطالعہ افعال واعمال ، تاکہ خود ان کا اتباع کریں اور غائبین تک روایت پہنچائیں کہ وہ حاملان شریعت تھے اور راویان ملت اورحاضری دربار اقدس سے ان کی غرض اعطم یہی تھی ، جب نگاہ اس رعب وہیبت اوراس ضرورت وحاجت کے ساتھ اٹھے تو عقل گواہ ہے کہ ایسی حالت میں ادھرادھردھیان نہیں جائے گا کہ قامت اقدس کاسایہ ہمیں نظر نہ آیا ، آخر نہ سنا کہ ایک ان کا نماز میں مصروف ہوتا، تکبیر کے ساتھ دونوں جہان سے ہاتھ اٹھاتا، کوئی چیز سامنے گزرے اطلاع نہ ہوتی ، اورکیس اہی شوروغوغاہوا، انہیں مطلق خبر نہ ہوئی ، یہی حالت صحابہ کی حضور رسالت میں تھی اور دربار نبوت میں بارگاہ عزت باری ۔

 

اے عزیز ! زیادہ خوض بیکار ہے ، تو اپنے ہی نفس کی طرف رجوع کر ، اگر کسی مقام پر عالم رعب وہیبت میں تیرا گزرہوا ہو ، وہاں جو کچھ پیش نظر آتا ہے اسے بھی اچے طور پر ادراک کا مل نہیں کرسکتا ، نہ امر معدوم کی طرف خیال کیاجائے کہ مثلاً  اگر تجھے کسی والی ملک سے ایسی ضرورت پیش آئے جس کی فکر تجھے دنیا ومافیہا پر مقد ہوا اوراس کے دربارتک رسائی کر کے اپنا عرض حال کرے تو تجھے اول تو رعب سلطانی ، دوسرے اپنی اس ضرورت کی طرف قلب کو نگرانی ہر چیز کی طرف توجہ سے مانع ہوں گے ۔ پھر اگر تو واپس آئے اورتجھ سے سوال ہو وہاں دیواروں میں سنگ موسٰی تھا یا سنگ مرمر اورتخت کے پائے سِیمیں تھے یا زریں اورمسند کارنگ سبز تھا یا سرخ؟ہرگز ایک بات کا جواب نہ دے سکے گا بلکہ خود اسی بات کو پوچھا جائے کہ بادشا ہ کا سایہ تھا یا نہ تھا، تو اگرچہ اس قیاس پر کہ سب آدمیوں کے لئے ظل ہے ، ہاں کہہ دے مگر اپنے معائنے سے جواب نہ دے سکے گا۔

صحابہ  رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر تو اول روز ملامت سے تاآخر حیات جو کیفیت رعب وہیبت کی طاری رہی ، ہماری عقول ناقصہ اس کی مقدار کے ادراک سے بھی عاجز ہیں، پھر ان کی نظر اوپر اٹھ سکتی اورچپ وراست دیکھ سکتی کہ سائے کے عدم یا جود پر اطلاع ہوتی ۔

 

ثم اقول :  (پھر میں کہتاہوں ۔ت)اپنے نفس پر قیاس کر کے گمان نہ کرنا چاہیے کہ بعد مرورزمان وتکررحضور کے ،ان کی اس حالت میں کمی ہوجاتی بلکہ بالیقین روز بہ روز زیادہ ہوتی کہ باعث اس پر دو امر ہیں: ایک خوف کہ اس عظمت کے تصور سے پیدا ہوا جو اس سلطانِ دوعالم کو بارگاہِ ملک السمٰوٰت والارض جل جلالہ میں حاصل ہے ۔ دوسری محبتِ ایمانی کہ مستلزم خشوع کو اورمنافیِ جرأت وبیباکی ، اوریہ ظاہر کہ جس قدر درباروالا میں حضوری  زائد ہوتی۔

یہ دونوں امر جو اس پر باعث ہیں بڑھتے جاتے ، حضو رکے اخلاق وعادات اوررحمت والطاف معائنے میں آتے ، حسن واحسان کے جلوے ہر دم لطف تازہ دکھاتے ، قرآن آنکھوں کے سامنے نازل ہوتا اور طرح طرح سے اس بارگاہ کے آداب سکھاتا اورظاہر فرماتا کہ :

آدابِ بارگاہ : ہمارا ان کا معاملہ واحد ہے ، جو ان کا گلام ہے ہمارا قائد ہے ، انکے حضورآواز بلند کرنے سے عمل حبط ہوجاتے ہیں ، انہیں نام لے کر پکارنے والے سخت سزائیں پاتے ہیں، اپنے جان ودل کا انہیں مالک جانو، ان کے حضو رزندہ بدست مردہ ہوجاؤ ، ہمارا ذکر انکی یاد کے ساتھ ہے ، ان کا ہاتھ بعینہٖ ہمارا ہاتھ ہے ، ان کی رحمت ہماری مہر، ان کا غضب ہمار اقہر ،جس قدر ملازمت زیادہ ہوتی حضور کی عظمت ومحبت ترقی پاتی اور وہ حال مذکور یعنی خشوع وخضوع ورعب ہیبت روزافزوں کرتی قال تعالٰی زادتھم ایمانا۱؂۔  (اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ آیات ان کے ایمان کو زیادہ کرتی ہیں ۔ ت)

 

(۱؂القرآن الکریم ۹ /۱۲۴)

 

اور ایمان حضور کی تعظیم ومحبت کا نام ہے ، کمالا یخفٰی  (جیسا کہ پوشیدہ نہیں ۔ت)

 

مقدمہ ثانیہ:

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

پُر ظاہر کہ آدمی بلا وجہ کسی بات کے درپے تفتیش نہیں ہوتااور جوبات عام وشامل ہوتی ہے او ر تمام آدمی اس میں یکساں کسی شخص خاص میں بالقصد اس کی طرف غور نہیں کرتا ،مثلا ہر ہاتھ کی پانچ انگلیاں ہونا ایک امر عام ہے لہذا بلا سبب کسی آدمی کی انگلیوں کوکوئی شخص اس مقصد خاص سے نہیں دیکھتا کہ اس کی انگلیاں پانچ ہیں یا کم ، ہاں اگر پہلے سے سن رکھا ہو کہ زید کی انگلیاں چار ہیں یا چھ تو اس صورت میں البتہ بقصد مذکور نظر کی جائے گی ۔ اسی طر ح سایہ ایک امر عام شامل ہے ، اگر بعض آدمیوں کا سایہ پڑتا اور بعض کا نہیں تو البتہ بے شک خیال جانے کی بات تھی کہ دیکھیں حضور کے بھی سایہ ہے یانہیں ، نہ اس سے کوئی امر دینی مثل اتباع واقتداء کے متعلق تھا کہ اس کے خیال سے بالقصد اس طر ف لحاظ کیا جاتا ، ہاں ایسی صورت میں ادراک کا طریقہ یہ ہے کہ بے قصد وتوجہ خاص نظر پڑجائے اور وہ صورت بعد تکرر مشاہدہ ذہن میں منقش اور مثل مربیات قصد یہ کے خزانہ خیال میں مخزون ہوجائے ، مثلا زید کہ ہمارا دوست ہے ، ہم اپنے مشاہدے کی رو سے بتا سکتے ہیں کہ اس کے ہر ہا تھ کی انگلیاں پانچ ہیں اگر چہ ہم نے کبھی اس قصد سے اس کے ہاتھوں کو نہیں دیکھا ہے مگر ہم نے اس کے ہاتھوں کو بارہا دیکھاہے ، وہ صورت خزانہ میں محفوظ ہے ، نفس اسے اپنے حضور حاضر کر کے بتاسکتاہے لیکن ہم مقدمہ اولٰی میں ثابت کرآئے ہیں کہ یہ طریقہ اداراک وہاں معدوم تھا کہ رعب وہیبت اورامور مہمہ کی طرف توجہ اورحضور کے استماع اقوال ومطالعہ افعال ہمہ تن صرف ہمت اورنگاہ کابسبب غایت ادب وخوف الٰہی کے اپنے زانو وپشت پاسے تجاو نہ کرنا اس ادراک بلا قصہ سے مانع قوی تھا علی الخصوص کسی شے کا عدم کہ وہ تو کوئی امر محسوس نہیں جس پر بے ارادہ بھی نگاہ پڑجائے اورنفس اسے یاد رکھے ، یہاں تو جب تک خیال نہ کیا جائے علم عدم حاصل نہ ہوگا ، آدمی جب ایسے مقام رعب وہیبت اورقلب کی مشغولی ومشغوفی میں ہوتا ہے توکسی چیز کا عدم رؤیت سے اس کے عدم پر استدلال نہیں کرتا اور جب اذہان میں بنا ء برعادت اس کا عموم وشمول متمکن ہوتا ہے تو برخلاف عادت اس کے معدوم ہونے کی طرف خیال نہیں جاتا بلکہ اس سے اگر تفتیش کی جائے اور اس امر کی طرف خیال دلایا جائے تو خواہ مخواہ اس کا گمان اس طرف مسارَعَت کرتاہے کہ جب یہ امر عام ہے تو ظاہرً ایہاں بھی ہوگا۔ میرا نہ دیکھان کچھ نہ ہونے پر دلیل نہیں ، میری نظر میں نہ آنا اس وجہ سے تھا کہ اول میری نگاہ ادھر ادھر نہ اٹھتی تھی اورجو اٹھی بھی تو ہزار رعب ، ہیبت اورنفس کے امور دیگر کی طرف صرف ہمت کے ساتھ ایسی حالت میں کیسے کہہ سکوں گا کہ تھا یا نہ تھا۔

 

ثم اقول : یہ کیفیت تو اس وقت کی تھی جب صحابہ کرام حضور سے ملاقی ہوتے اورجو ہرماہ رکاب سعادت انتساب ہوتے تو وہاں باوجود ان وجوہ کے ایک وجہ اوربھی تھی کہ غالب اوقات صحابہ کرام کو آگے چلنے کا حکم ہوتا اورحضور ان کے پیچھے چلتے ۔

ترمذی نے شمائل کی حدیث طویل میں حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا : یسوق اصحابہ۱؂

 

یعنی حضور والا صحابہ کرام کو اپنے آگے چلاتے ۔

 

 (۱؂شمائل ترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امین کمپنی دہلی ص۲)

 

امام احمد نے حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالٰی عنہما سے رایت کیا: مارأیت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یطأعقبہ رجلان۲؂۔

 

حاصل یہ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نہ دیکھا کہ دو آدمی بھی حضور کے پیچھے چلے ہوں۔

 

 (۲؂مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عمرو بن العاص المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۱۶۵)

( سنن ابن ماجہ باب من کرہ ان یوطأعقباہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۲)

 

جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا : کان اصحابہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یمشون امامہ ویکون ظھرہ للملٰئکۃ ۱؂۔

 

اصحاب ، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے آگے چلتے اورپشت اقدس فرشتوں کے لئے چھوڑتے ۔

 

 (۱؂سنن ابن ماجہ باب من کرہ ان یوطا عقباہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۲)

( مسند احمد بن حنبل عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۳۰۲)

( موارد الظلمان کتاب علاماۃ نبوۃ نبیناصلی اللہ تعالٰی علیہ حدیث ۲۰۹۹   المطبعۃ السلفیۃ ص۵۱۵)

 

دارمی نے بہ اسناد صحیح مرفوعاً روایت کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نےفرمایا: خلوا ظھری للملٰئکۃ۲؂۔ میری پیٹھ فرشتوں کےلئے چھوڑدو۔

 

 (۲؂سنن الدارمی تحت الحدیث ۴۶ دارالمحاسن للطباعۃ قاہرہ ۱ /۲۹)

 

بالجملہ ہمای راس تقیرر سے جو بالکل وجدانیات پر مشتمل ہے ، کوئی شخص اگر مکا برہ نہ کرے ، بالیقین اس کا دل ان سب کیفیات کے صدق پر گواہی دے ، بخوبی ظاہر ہوگیا کہ ظاہراً اکثر صحابہ کرام کا خیال اس طرف نہ گیا اوراس معجزے کی انہیں اطلاع نہ ہوئی اوراگر یہ برسبیل تنزل ثابت ومبرہن ہوجانا نہ مانئے توان تقریروں کی بناء پر یہ توکہہ سکتے ہیں کہ عدم اطلاع کا احتمال قوی ہے ، قوت بھی جانے دو اتنا ہی سہی کہ شک واقع ہوگیا، پھر یہی استدلال سن کر کہ اگر ایساہوتا تو مثل حدیث ستون حنانہ مشہور ومستفیض ہوتا، کب باقی رہا ، خصم کہہ سکتاہے کہ ممکن ہے عدم شہرت بسبب عدم اطلاع کے ہو کما ذکرنا وباللہ التوفیق  (جیسا کہ ہم نے اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہا ۔ ت)

 

مقدمہ ثالثہ :

 

ہماری تنقیح سابق سے یہ لازم نہیں آتا کہ بالکل کسی کو اس معجزے پر اطلاع نہ ہو اورکوئی اسے روایت نہ کرے ، صغیر السن بچوں کو بعض اوقات اس قسم کی جرأتیں حاصل ہوتی ہیں اوروہ اسی طریقہ سے جو ہم نے مقدمہئ ثانیہ میں ذکر کیا ادراک کر سکتے ہیں ، اسی سبب سے اکثر احادیث حلیہ شریفہ ہند ابن ابی ہالہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مشتہر ہوئیں نہ کہ اکابر صحابہ سے ۔

 

ترجمہ ابن ابی ہالہ میں علامہ خفاجی فرماتے ہیں  :

 

وکان ربیب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اخالفا طمۃ (رضی اللہ تعالٰی عنہا) وخال الحسنین رضی اللہ تعالٰی عنہم فکان لصغرۃ یتشبع من النظر لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ویدیم النظر لو جھہ الکریم لکونہ عندہ داخل بیتہ فلذا اشتھر وصف النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عنہ دون غیرہ من کبارالصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم فانھم لکبرھم کانوا یھابون اطالۃ النظر الیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فاحاط بہ نظرہ احاطۃ الھالۃ بالبدر  والاکمام بالثمر ھنیئا لہ مع ان ماقالہ قطرۃ من بحر۱؂۔

 

ہند ابن ابی ہالہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زیر سایہ پرورش پانے والے تھے ۔آپ سیدہ فاطمۃ الزہرارضی اللہ تعالٰی عنہاکے بھائی ( اخیافی ) اورحسنین کریمین رضی اللہ تعالی تعالی عنہما کے ماموں تھے ۔ آپ صغر سنی  میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو سیر ہو کر دیکھتے اور چہرہ اقدس پر ہمیشہ نگاہ ٹکائے رکھتے کیونکہ آپ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس آپ کے گھر میں رہتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ حلیہ رسول اللہ تعالی علیہ وسلم کا وصف ہند بن ابی ہالہ سے مشتہر ہوا نہ کہ اکابر صحابہ سے ، رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ۔ کیونکہ صحابہ کبار شان وعظمت رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ہیبت کے با عث آپ پر نظریں نہیں ٹکاسکتے تھے ۔ ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا یوں احاطہ کرتی تھی جیسا کہ ہالہ چودھویں کے چاند کا اور کلیاں کھجوروں کا احاطہ کرتی ہیں ۔ آپ کو یہ سعادت مبارک ہو ۔ مگر اس کے با وجود جو کچھ ابن ابی ہالہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان فرمایا وہ ایسے ہی ہے جیسے سمند ر سے ایک قطرہ ۔ (ت)

 

(۱؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ثالث مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند۱ /۳۲۷)

 

وعلی تفنن عاشقیہ بوصفہ

 یفنی الزمان وفیہ مالم یوصف ۲؂

 

قسم قسم کی تعریفیں کرتے ہوئے اس کے عاشقوں کو زمانے ختم ہگئے مگر اس میں وہ خوبیاں ہیں جن کو بیان نہیں کیا جا سکا ۔ت) صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔

 

 (۲؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ثالث مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند۱ /۳۲۷)

 

مقدمہ رابعہ : صحابہ کرام میں ہزاروں ایسے ہیں جنہیں طول صحبت نصیب نہ ہوا او ربہت ایسے ہیں جنہوں نے سوئے مجامع عظیم کے شرف زیارت نہ پایا ۔ غیر مدینہ کے گر وہ کے گرو ہ حاضر ہوتے اور عرصہ قلیلہ میں واپس جاتے ، ایسی صورت اور مجمع کی کثرت میں موقع سایہ پر نظر اور اس کے ساتھ عدم سایہ کی طرف خیال جانا کیا ضرور ۔ ظاہر ہے کہ مجمع میں سایہ ایک کا دوسرے سے ممتا ز نہیں ہوتا اور کسی شخص خاص کی طرف نسبت امتیاز کرنا کہ اس کے لئے ظل ہے یا نہیں ، دشوار ہوتا ہے ۔ علاوہ بریں یہ کس نے واجب کیا کہ ان اوقات پر حضور والا دھوپ یا چاند نی میں جلوہ فرماہوں ، کیا مدینہ طیبہ میں سایہ دار مکان نہ تھے یا مسجد شریف کہ اکثر وہیں تشریف رکھتے بے سقف تھی ۔

 

احادیث سے ثابت کہ سفر میں صحابہ کرام حضور کے لئے سایہ دار پیڑ چھوڑ دیتے اور جو کہیں سایہ نہ ملا تو کپڑے وغیرہ کا سایہ کرلیا جیسا کہ روز قدوم مدینہ طیبہ سیدنا بی بکر صدیق اور حجۃ الوداع میں واقع ہوا اور قبل از بعثت تو ابر سایہ کے لئے متعین تھا ہی ، جب چلتے ساتھ چلتا او رجب ٹہرتے ٹھہرجاتا ، اور ام المومنین خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ان کے غلام میسرہ نے فرشتوں کو سر اقدس پر سایہ کرتے دیکھا اور سفر شام میں آپ کسی حاجت کو تشریف لے گئے تھے ، لوگو ں نے پیڑ کا سایہ گھیر لیا تھا ، حضور دھوپ میں بیٹھ گئے سایہ حضور پر جھک گیا۔ بحیر اعالم نصاری نے کہا دیکھو سایہ ان کی طرف جھکتا ہے ۔ اور بعض اسفار میں ایک درخت خشک وبے برگ کے نیچے جلوس فرمایا ، فورا زمین حضور کے گرد کی سبزہ زار ہوگئی اور پیڑ ہرا ہوگیا ، شاخیں اسی ساعت بڑھ گئیں اور اپنی کمال بلندی کو پہنچ کر سائے کہ کئے حضور پر لٹک آئیں ۔ چنانچہ یہ سب حدیثیں کتب سیر میں تفصیلا مذکور ہیں۔

 

اب نہ رہے مگر وہ لوگ جنہیں طول صحبت روزی ہوا اور حضور کو آفتاب یا ماہتا ب یا چراغ کی روشنی میں ایسی حالت میں دیکھا کہ مجمع بھی کم تھا اور موقع سایہ پر بالقصد نظر بھی کی اور ادراک کیا کہ جسم انور ہمسائیگی سایہ سے دور ہے ، اور ظاہر ہے کہ ان سب کا احساس وانکشاف جن لوگو ں کے لئے ہوا ہے وہ بہت کم ہیں ، جن کے واسطے نہ ہوا پھر اس طائفہ قلیلہ سے یہ کیا ضرورہے کہ ہر شخص یا اکثر اس معجزے کو رو ایت کرے ، ہم نہیں تسلیم کرتے کہ مجر د خرق عادت با عث تو فرد داعی ونقل جمیع اکثر حاضرین ہے ۔

 

خادم حدیث پر کاتشمس فی نصف النہار رو شن کو صدہا معجزات قاہر ہ حضور سے غزوت واسفار ومجامع عامہ میں واقع ہوئے کہ سیکڑوں ہزاروں آدمیوں نے ان پر اطلاع پائی مگر ان کی ہم تک نقل صرف احاد سے پہنچی ۔

 واقعہ حدیبیہ میں انگشتا ن اقدس سے پانی کا دریا کی طر ف جو ش مارنا او رچودہ پندر ہ سو آدمی کا علی اختلاف الروایات اسے پینا اور وضو کرنا اور بقیہ تو شہ کو جمع کر کے دعا فرمانا اور اس سے لشکر کے سب بر تن بھر دینا اور اسی قدر باقی بچ رہنا ، ایسے معجزات میں ہیں اور بالضرور چودہ پندر ہ سو آدمی سب کے سامنے اس کا وقوع ہو او رسب نے اس پر اطلاع پائی مگر ان میں سے چودہ نے بھی اسے روایت نہ فرمایا ۔

 

فقیر نے کتب حاضرہ احادیث خصوصا وہ کتا بیں سیر وفضائل کی جن کا موضوع ہی اس قسم کی باتوں کا تذکر ہ ہے مانند شفائے قاضی عیاض وشرح خفا جی ومواہب لدنیہ وشرح زرقانی ومدارج النبوۃ وخصائص کبری علامہ جلال الدین سیوطی وغیرہا مطالعہ کیں ، پانچ سے زیادہ راوی اس واقعے کے نہ پائے ۔ اسی طر ح رد شمس یعنی غرو ب ہو کر سورج کا لوٹ آنا او رمغرب سے عصر کا وقت ہوجانا جو غزوہ خیبر میں مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ کے لئے واقع ہو ا ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ عدم ظل کو اس سے اصلا نسبت نہیں اور اس کا وقوع بھی ایک غزوہ میں ہو اکما ذکر نا ( جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ۔ ت) اور تعداد لشکر خیبر کی سولہ ۱۶۰۰ سو ، بالضرور یہ سب حضرات اس پر گواہ ہونگے کہ ہرنمازی مسلمان خصوصا صحابہ کرام کو بغر ض نماز آفتا ب کے طلوع وغروب زوال کی طرف لاجرم نظر ہوتی ہے ۔

 

تو ریت میں وصف اس امت مرحوم کا رعاۃ الشمس کے ساتھ وادد ہوا کما رواہ ابو نعیم عن کعب الاحبار عن سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام  ( جیسا کہ اس کو ابونعیم نے بحوالہ کعب الاحبار عن سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کیا ہے ۔ ت) یعنی آفتا ب کے نگہبان کہ اس کے تبدل احوال اور شروق وافول زوال کے جویاں وخبر گیران رہتے تھے ، جب آفتاب نے غروب کیا ہوگا بالضرور تمام لشکر نے نماز کا تہیہ کیا ہوگا ، دفعۃ شام سے دن ہوگیا ور خورشید الٹے پاؤں آیا ، کیا ایسے عجیب واقعہ کو دریافت نہ کیا اور نہ معلوم ہوا ہوگا کہ اس کے حکم سے لوٹا ہے جسے قادر مطلق کی نیابت مطلقہ اور عالم علوی میں دست بالا حاصل ہے (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ) لیکن اس کے سوا اگر کسی صاحب کو معلوم ہو کہ اتنی بڑی جماعت سے دو چار آدمیوں نے اور بھی اس معجزے کو روایت کیا تو نشان دیں ۔

 

بالجملہ یہ حدیث واہبہ ہے جس کی بناء پر ہم عقل ونقل واتباع حدیث وعلماء کو تر ک نہیں کرسکتے ، کیا یہ اکابر اس قدر نہ سمجھتے تھے یا انہیں نے دیدہ ودانستہ خدا اور رسول پر افتراء گواراکیا ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ،

 

بلکہ جب ایک راوی اس حدیث عدن ظل کے ذکوان ہیں اور وہ خود ابو صالح سمان زیات ہوں یا ابو عمر و مدنی مولائے صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہما تردد فیہ الزرقانی (اس میں زرقانی نے تردد کیا ۔ ت) بہر تقدیر تا بعی ثقہ معتمد علیہ ہیں کما ذکر ایضا و ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ اور تا بعین وعلماء ثقات اہل ورع واحتیاط سے مظنون یہی ہے کہ غالب حدیث کو مرسلا اسی وقت ذکر کریں گے جب انہیں شیوخ و صحابہ کثرین سے اسے سن کر مرتبہ قرب ویقین حاصل کرلیا ہو۔ابراہیم نخعی فرماتے ہیں اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ در صورت اسناد صدق وکذب سے اپنے آپ کو غرض نہ رہی ۔

 

جب ہم نے کلام کو اس کی طر ف نسبت کردیا جس سے سنا ہے تو ہم بری الذمہ ہوگئے بخلاف اس کے کہ اس کا ذکر ترک کریں اور خود لکھیں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کیا ، ایسا فرمایا ، اس صورت میں بار اپنے سر پر رہا تو عالم ثقہ ، متورع ، محتا ط ، بے کثرت سماع واطمینان کلی قلب کے ایسی بات سے دوررہے گا ۔ اس طور پر ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سایہ نہ ہونا بہت صحابہ نے دیکھا اور ان سب سے ذکوان کو سماع حاصل ہوا گر چہ ان کی روایات ہم تک نہ پہنچیں ۔ ھکذ ا ینبغی ان یفہم المقام وینقح المرام ، واللہ ولی الفضل والتوفیق والانعام ، ھذاوقد بقی بعد خبایا فی زوایا الکلام لعلہا یفوز بہا فکر و ھذا کلہ وقد و جد مما الھمنی ربی بفضل منہ ونعمۃ لایجد من قلبی ان ربی لذو فضل عظیم انہ ھو الروف الرحیم ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العزیز الحکیم وظنی افی بحمد ربی الجلیل قد اثبت فی المسئلۃ مایشفی العلیل بالکثیر ولا بالقلیل ، واللہ یقول الحق وھو یہدی السبیل انہ حسبی ونعم الوکیل اسالہ ان یجنبنی بہا و کل من زل زلۃ ویجعلہا ظلا ظلیلا علی روسنا یوم لاظل الا ظلہ وان یصلی علی ابہی اقما ر الرسالۃ وابہر ھا و اسنی شموش الکرامۃ وانوارھا الذی لم یکن لہ ظل فی شمس و لا قمر وفدیات وصلہ ولی صحبہ والہ متظلین باذیالہ الداعین الی نعم اظلا لہ وعلینا معہم اجمعین بر حمۃ انہ رؤف رحیم واخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین۔

 

اسی طر ح طر ح چاہے مقام کی تفہیم اور مقصد کی تنقیح اللہ تعالی ہی فضل وتو فیق اور انعام کاملک ہے ۔ تحقیق ابھی کچھ پوشیدگیاں کلام کے گو شوں میں باقی ہیں۔ امید ہےکہ فکر صائب ان تک رسائی حاصل کرلے گی ۔ یہ جو کچھ مذکور ہو امیرے رب نے اپنے فضل ونعمت سے میرے دل میں ڈالا ہے یہ میرے دل کی تخلیق نہیں ہے ۔ بے شک میرا رب بڑے فضل والا ہے اور وہ روف ورحیم ہے ۔ عزت و حکمت والے اللہ کی توفیق کے بغیر نہ گناہ سے بچنے کی طا قت ہے نہ نیکی کرنے کی قوت۔ میرا گمان ہے کہ میں نے اپنے رب جلیل کی حمد سے مسئلہ مذکورہ میں وہ کچھ ثابت کردیا ہے جو بیمار کو شفا دے گا اور پیاسے کو سیراب کرے گا اور قلت و کثر ت کے ساتھ مخل نہ ہوگا ۔ اللہ تعالی حق فرماتا ہے اور راہ راست کی ہدایت فرماتا ہے بے شک وہ میرے لئے کافی ہے اور کیا ہی اچھا کا ر ساز ہے ، میں اللہ تعالی سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اور ہر لغزش کرنے والے کو اس کی برکت سے لغزش سے بچائے اور اسے ہمارے سروں پر گہرا سایہ بنائے جس روز اس کے سایہ کے سواکوئی سایہ نہ ہوگا ۔ اللہ تعالی درو د نازل فرمائے روشن ترین ماہتاب رسالت پر اور سب سے زیادہ چمکدار آفتاب کرامت اور  اس کے انوار پر جس کا سایہ نہ تھا دھوپ میں نہ چاندنی میں ، اور آپ کے صحابہ وآل پر جو آپ کے دامن رحمت کے سایہ میں ہیں اور آپ کے سایہ رحمت کے سایہ میں ہیں اور آپ کے سایہ رحمت کی نعمتوں کی طر ف دعوت دینے والے ہیں ، اور ان کے ساتھ ہم سب پر رو ف وحیم کی رحمت سے ۔(ت)

 

رسالہ

قمرالتمام فی نفی الظل عن سید الانام صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم

ختم ہوا

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post