Saaye ki Nafi par Aitrazat ke Jawabat | Risala Hadi-ul-Hairan by AalaHazrat

 رسالہ

ھدی الحیران فی نفی الفیئ عن سید الاکوان(۱۲۹۹ھ)

(سرورِکائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے سایہ کی نفی کے بارے میں حیرت زدہ کے لئے راہنمائی)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 الحمد للہ حمدا تنجلی بہا ظلمات الا لٓام والصلوہ والسلام علی سیدنا محمد قمر التمام وعلی الہ واصحابہ مصایبح الظلام وعلی المھتدین بانوار ھم الی یوم القیام وبعد فقال العبد الملتجی الی ربہ القوی عن شر کل غوی وغبی عبدہ المذنب احمد رضا المحمدی ملۃ والسنی عقیدۃ والحنفی عملا والقادری البر کاتی الاحمدی طریقۃ وانتسابا و البریلوی مولدا وموطنا والمدنی والبقیعی ان شاء اللہ مدفنا ومحشرا فالعدنی الفردوسی رحمۃ اللہ منزلا ومد خلا مستنیرا بانوار الھدایۃ والیقین حاسما الخدشات الظن و التخمین بک یا ربنا فی کل باب نستعین ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔

 

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جن سے دکھوں کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں ۔ درود و سلام ہو ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر جو ماہ کامل ہیں اور آپ کی آل پر اور آپ کے صحابہ پر جواندھیروں میں چراغ ہیں اور پر جو قیامت آل واصحاب کے انوار سے سے ہدایت حاصل کرتے ہیں گے ۔ بعد از یں ہرگمراہ اور کند ذہن کے سر سے رب قوی کی پناہ کا طلبگار اس کا خطا کا ر بندہ احمد رضا کہتا ہے جو ملت کے اعتبار سے محمدی ، عقیدہ کے اعتبار سے سنی ، عمل کے اعتبار سے حنفی ، طریقت وانتساب کے اعتبار سے قادری بر کاتی احمد ی ، مولد و وطن کے اعتبار سے بریلوی اور اللہ نے چاہا تو مدفن ومحشر کے اعتبار سے مدنی وبقیعی ، پھر اللہ تعالی کی رحمت سے منزل ومدخل کے اعتبار سے عدنی وفردوسی ہے درا نحالیکہ وہ ہدایت ویقین کے انوار سے مستنیر ہونے والا اور ظن وتخمین کے خدشات کو مٹا نے والا ہے ، تیری تو فیق سے اے ہمارے رب ! ہم ہر بات میں تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ اور اللہ بلندی و عظمت والے کی توفیق کے بغیر نہ تو کسی کے لئے گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کو قوت ۔(ت)

 

فصل اول

 

ہم حول وقوت ربانی پر اتکاء واتکال کی عروہ وثقی دست التجاء میں مضبوط تھام کر پیش از جواب مفصل چند مقدمات ایسے تمہید کرتے ہیں جن سے بعون اللہ تعالی ارتفاع نزاع بہ آسانی بن پڑے ۔

 

عزیز ان حق طلب ! اگر عقل سلیم کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینگے تو ان شاء اللہ انہی شمعوں کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک شاہراہ صواب پر ہولیں گے اور کلفت خار زار اور آفت یمین ویسار سے بچتے ہوئے تجلائے ہدایت میں نور کے تڑ کے ٹھنڈے ٹھنڈے منزل تحقیق پر خیمہ زن ہوں گے اور جو تعصب اور سخن پروری کاساتھ دے تو ہم پرکیا الزام ہے کہ جلتے ریت پر چلانا ، بلا کے کانٹون میں پھنسانا ، اندھے کو دن میں گرانا ، ان دو آفت جا ن ، دشمن دین وایمان کا قدیمی کام ہے وباللہ التوفیق وبہ الوصول الی ذروۃ التحقیق ( اللہ ہی سے توفیق ہے اور اسی کی بدولت تحقیق کی بلندی تک پہنچا جاسکتا ہے ۔ت)

 

مقدمہ اولی:

 

جب دو چیز وں میں عقل یا نقل ملازمت ثابت کرے تو بحکم قضیہ لزوم ، بعد ثبوت ملزوم ، تحقیق لازم خود محقق ومعلوم ، اور تجشم دلیل کی حاجت معدوم ، اسی طر ح بعد انتفائے لازم انعدام ملزوم آپ ہی مفہوم ، کما ہو غیر خاف ولا مکتو م ، اور اسی ملازمت واقعہ کے با عث مرتبہ ادراک میں بھی بعد علم باللزوم ، وجود لازم وانتفائے ملزوم ، تحقیق ملزوم وعدم لازم کا شک ووہم وظن و یقین وتکذیب میں تا بع رہتا ہے ، مثلا جسے وجود ملزوم پر تیقن کا مل ہوگا اس کے نزدیک ثبوت لازم بھی قطعی یقینی ہوگا اور ظان وشاک وواہم کے نزدیک مظنون ومشکوک وموہوم ہوگا اور یہ معنی بد یہیات باہر ہ سے ہیں ۔

 

مقدمہ ثانیہ :

 

دعاوی ومقاصد خواہش ثبوت میں متساویۃ الاقدام نہیں بعض ایسے درجہ اہتمام ورفعت مقام یں ہیں کہ جب تک نص صحیح ، صریح ، متواتر قطعی الدلالۃ ہر طر ح کے شکوک و اوہام سے منزہ ومبر نہ پایا جائے ہر گز پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتے ، احادیث احاد اگر چہ بخاری ومسلم کی ہوں ان کے لئے کافی نہ ہوں گی۔

 

اسی قبیل سے ہے اطلاق الفاظ متشابہات کہ حضرت عزت میں اصح الکتب سے ثابت مگر عدم تواتر مانع قبول اور حلال وحرام کی جب بحث آئے تو احادیث ضعیفہ سے کام لیں گے اور فضائل اعمال و مناقب رجال میں دائر ہ کو خوب تو سیع دیں گے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ثابت الاصل کے مؤیدات و ملائمات میں چنداں اہتمام منظور نہیں ، مثلا ہمیں یقینیات سے معلوم ہوچکا کہ ذکر الہی وتکبیر وتہلیل ونماز و درود وغیرہا اعمال صالحہ محمود ہ ہیں ، اب خاص صلوۃ التسبیح کی حدیث درجہ صحت تک پہنچنا ضرور نہیں ، یا نصوص قرآنیہ واحادیث متواتر ۃ المعنی ہمیں ارشاد فرمایا چکیں کہ صحابہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و علیہم اجمعین سب ارباب فضائل وعلوشان ورفعت مکان اور اللہ تبارک وتعالی کے بندگان مقبول و بہترین امتیاں ہیں۔

 

اب خاص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مناقب بخاری و مسلم ہے پر مقصور نہیں ، اسی قبیل سے ہے باب معجزات وخوارق عادات کو حضور اقدس خلیفہ اعظم بارگاہ قدرت سے صدور آیات ومعجزات اور ملکوت السموۃ والارض میں حضور کے ظاہر وباہر تصرفات ، قاطعات یقینیہ سے ثابت ، تواب شہادت ظبی یا عدم ظل کا ثبوت صحاح ستہ پر محصور نہیں علماء نے تو با ب خوارق میں غرابت متین پر بھی خیال نہ کیا اور حدیث کو با وجود ایسے خدشہ کے حسن ومقبول رکھا ۔

 

اما م اجل ابو عثمان اسمعیل بن عبدالرحمن صابانی کتاب المائتین میں حدیث حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہ حضور پر نور سے مہد اقدس میں چاند باتیں کرتا اور جد ھر اشارہ فرماتے ہیں جھک دیتا ، ذکر کر کے فرماتے ہیں : ھذا حدیث غریب الاسناد والمتن و ھو فی المعجزات حسن ۱؂ اھ اٰثرہ الامام العلامۃ القسطلانی فی المواہب۔

 

یہ حدیث اسناد ومتن کے اعتبار سے غریب ہے اور وہ معجزات میں حسن ہے اھ اس کو امام قسطلانی نے مواہب میں ترجیح دی ۔(ت)

 

 (۱؂ المواہب اللدنیۃ بحوالہ الصابو ن فی المائتین المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۵۴)

 

علامہ رزقانی شرح لکھتے ہیں : لان عادۃ المحدثین التساھل فی غیر الاحکام والعقائد مالم یکن موضوعا ۱؂۔

 

کیونکہ محدثین کی عادت ہے کہ وہ احکام وعقائد کے غیر میں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں جب تک حدیث موضوع نہ ہو ۔(ت)

 

(۱؂ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول دار المعرفۃ بیروت ۱ /۱۴۷)

 

مقدمہ ثالثہ :

 

علماء کی تلقی بالقبول کو ایراث قوت میں اثر عجیب ہے کہ وہ ہر طر ح ہم سے اعرف و اعلم تھے ، ہماری ان کی کوزہ ومحیط کی بھی نسبت ٹھیک نہیں ، وہ سمائے علوم کے بد ر منیر اور ہم عامی انہیں کی روشنیوں سے مستنیر ، جب وہی ایک امر کو سلفا وخلفا مقبول رکھیں اوراپنی تصانیف اس کے ذکر سے موشح کریں توہمیں کیا جائے انکار ہے ،

 

وفی مثل ذالک یقول الامام العلامۃ العارف ربانی سیدی عبد الوھاب الشعرانی فی المیزان '' ان ھولاء الائمۃ الذین توقفت عن العمل بکلامہم کانوا اعلم منک واورع بیقین فی جمیع ما دونہ فی کتبھم لاتباعھم ،وان ادعیت انک اعلم منہم نسیک الناس الی الجنون اوالکذب جحدا و عنادا وقد افتی علماء سلفک بتلک الاقوال التی ترا ھا انت ضعیفۃ و دانوا للہ تعالی بھا حتی ماتوا فلا یقدح فی علمہم و ورعہم جہل مثلک بمناز عہم وخفا ء مدارکہم ومعلوم بل مشاھد ان کل عالم لایضع فی مؤلفہ عادۃ ا لاما تعب فی تحریر ہ و زنہ بمیزان الادلۃ والقواعد الشرعیۃ وحررہ تحریر الذھب والجوھر ، فایاک ان تنقبض نفسک من العمل بقول من اقوالہم اذا لم تعرف منزعہ فانک عامی بالنسبۃ الیہم والعامی لیس من مرتبۃ الانکار علی ا لعلماء لانہ جاھل۱؂ اھ

 

اور اسی کی مثل میں امام علامہ عارف ربانی سیدی عبدالوہاب شعرانی میزان میں فرماتے ہیں اور یہ تمام امام جن کے کلام پر عمل کرنے میں تو تو قف کرتا ہے تجھ سے علم ہمیں زیادہ ہیں اور دینی ذخیرہ انہوں نے اپنے مقلدین کے لئے جمع کیا ہے اس میں یقینا تجھ سے زیادہ متقی او رمحتاط ہیں اور اگر تو اپنی علمیت کا دعوی کرتا ہے تو لوگ قصدا  تجھے مجنون اور دروغ گو کہیں گے اور یہ اقوال جن کو تو ضعیف جانتا ہے وہی ہیں جن کے ساتھ علماء متقدمین نے فتوی دیا ہے اور اسی کی وجہ سے وہ اللہ کے قریب ہوئے حتی کہ اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہوئے اور اگر تجھے جیسا ان کے مراتب ومدارک سے ناواقف ہوتو ان کے مراتب وتقوی میں کچھ نقصان نہیں آسکتا اور یہ بات معلوم بلکہ مشاہد ہے کہ ہر عالم اپنی اپنی کتب میں وہ امورلائے جن کے لکھنے میں مشقت بر داشت کرنی پڑی اور جن کو ادلہ اور قواعد شرعیہ کے تر ازو پر تول لیا ہے اور ان کو سونے او ر چاندی کی طر ف مزین کیا ہے ، پس تو اپنے آپ کو اس سے بچاکہ ان کے اقوال میں سے کسی ایسے قول پر عمل کنے سے تمہارا دل تنگ ہو جس کا ماخذ تمہاری سمجھ میں نہ آیا ہو کیونکہ تو بہ نسبت ان کے عامی ہے اور عامی کا یہ مذہب نہیں کہ وہ علماء کا انکار کرے کیونکہ وہ عامی جاہل ہوتا ہے ۔(ت)

 

 (۱؂ میزان الشریعۃ الکبری فصل فی بیان ذکر بعض من اطنب فی الثنا ء الخ دار الکتب اللمیۃ بیروت ۱ /۹۰)

 

فقیر غفر اللہ تعالٰی لہ کا فتوی سابق کہ اسی بارے میں لکھ چکاہوں پیش نگاہ رکھ کر ان مقدمات میں امعان نظر کیجئے تو بحمد اللہ تمام شکوک واوہام ہباء منثور ہوجاتے ہیں ، ہاں میں بھولا ، ایک شرط اور بھی درکار ہے ، وہ کیا ، عقل کا اتباع اور تعصب سے امتناع ، مگر یہ دولت کسے ملے ؟ جسے خدادے ۔

 

یہاں تو اجمال کی غنچہ بندیاں تھیں اور تفصیل کی بہار گلفشانی پسند آئے تو لیجئے بگو ش ہوش وقلب شہید و انصاف کوش ، استماع کیجئے ۔

 

رب ارحم من انصف واھد عنیدا خالفا

 

 ( اے میرے پروردگار انصاف کرنے والے ! رحم فرمااور مخالف کرنے والے ہٹ دھرم کو ہدایت عطا فرما۔ت)

 

قولہ صرف حکیم ترمذی نے کہ غیر صاحب صحیح اور شخص ہیں ، اپنی کتاب نوادر الاصول میں روایۃ کہا ہے : ولم یکن لہ ظل لا فی الشمس ولا فی القمر ۔

 

آپ کا سایہ نہ تھا ، نہ دھوپ میں نہ چاندی میں(ت)

 

اقول:  صلی للہ تعالی علیہ وسلم  ( اللہ تعالی نبی کریم پر درود وسلام نازل فرمائے ۔ ت)

 

مجیب کے اس سارے جواب کا مبنے صرف اسی زعم فاسد پر ہے جوقصور نظر سے ناشی ۔ حکیم ترمذی نے تو اس حدیث کو ذکو ان تابعی سے مرسلاروایت کیا اور اسے موصولا مع زیادت مفید ہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرنے کرنے والے امام جلیل ، حبر نبیل ، حجۃ اللہ فی الارضین ، معجزۃ من معجزات سید المر سلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، حضرت امام ہمام عبداللہ بن مبارک قدس سرہ المتبر ک جن کی جلالت شان و غزار ت علوم آفتاب نیم روز سے اظہر وازہر ، امام اجل احمد بن حنبل وامام سفین ثوری وامام یحیی ابن معین وابو بکر بن ابی شیبہ وحسن بن عرفہ وغیرہم اکابر محدثین ، فن حدیث میں اس جناب رفعت قباب کے شاگرد ان مستفیض ہیں اور کتا بو ں پر اگر نظر نہ ہو تو شاہ صاحب کی بستان ہی دیکھئے ، کیا کچھ مدائح اس جانب سے لکھ کر مستوجب رحمت الہی ہوئے ہیں ۔

 ان کے بعد اس حدیث کے راوی امام علامہ شمس الدین ابو الفرج ابن الجوزی ہیں ، رحمۃ اللہ تعالی علیہ ، کہ کتاب الوفاء میں اسے روایت فرمایا ۱؂۔

 

 (۱؂ الوفا ء با حوال المصطفٰی الباب التا سع والعشرو ں مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۴۰۷)

 

فن حدیث میں ان کی دستگاہ کامل کسے معلوم نہیں خصوصا بر عکس امام ابو عبداللہ حاکم جرح ونضعیف پر حرص شدید رکھتے ہیں ، پھر جس حدیث حدیث پر یہ اعتماد کریں ظاہر ہے کہ کس درجہ قوت میں ہوگی ، پس با وجود تعدد طر ق وکثرت مخرجین ، حدیث کو صرف روایت حکیم کہنا محض باطل ،اور باطل پر جو کچھ مبنی ، سب حلیہ صواب سے عاطل ،اور معلوم نہیں لفظ '' روایۃ '' کس غرض سے بڑھایا ، ظاہرا اعضال یا تعلیق کی طرف اشارہ فرمایا کقول القائل روی کذ ا وذکر عن زید عن عمر و کذا  ( جیسے قول قائل کہ یوں روایت کیا گیا ہے اور زید سے بحوالہ عمر و یوں ذکر کیا گیا ہے ۔ ت) کہ مقصود مجیب حدیث کو بے اعتبار ٹھہرا نا ہے تو بہ شہادت سوق وہی الفاظ لائے جائیں گے جو مقصود کے ملائم وموید ہوں نہ وہ کہ ایک قسم کی بے اعتباری کو دفع کریں اور اعتبار سے اصلا منافات نہ رکھیں ، حالانکہ محدثین کے نزدیک تخریج وروایت کا ایک ہی مفاد اور ذکر اسناد دونوں جگہ مراد کما تفصح عن کلمات العلماء الامجاد  (جیسا کہ بزرگ علماء کی عبارات نے اس کو خوب واضح کردیا ہے ۔ت ) پس اگر اس اصطلاح محدثین پر اطلاع تھی تو مقصود سے بیگانہ لفظ کی زیادت کیوں ہوئی اور ایسے مواخذ ے تو ہم ضروری بھی نہیں سمجھتے کہ روایت حکیم کی نقل میں کمی بیشی واقع ، ان کے پاس لفظ حدیث یوں ہیں : ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لم یکن یری لہ ظل فی شمس ولا قمر۲؂ سورج اور چند کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ نظر نہ آتا تھا ۔ (ت)

 

(۲؂ الخصائص الکبری بحوالہ الحکیم الترمذی باب الایۃ فی انہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لم  یکن یری الخ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات   ۱/ ۶۸)

 

قولہ مگر محدثان اعلام نے اس حدیث کو معتبر نہیں مانا ہے ۔

 

اقول : جب اس کتاب کے سوا اور ائمہ اعلام نے بھی حدیث کو روایت فرمایا تو اس کتاب کا غیر معتبر ہونا کیا مضر ت رکھتا ہے ، معہذا غیر معتبر ماننے کے یہ معنی کہ اس کی ہر روایت کو باطل سمجھا ، جب تو محض غلط ، نہ کوئی محدث اس کا قال ، خود اکابر محدثین اسی نوادر الاصول بلکہ فر دوس دیلمی سے جس کا حال نہایت ہی ردی ہے ، تو وہ روایتیں اپنی کتب میں لاتے اور ان سے احتجاج واستناد فرماتے ہیں کما لا یخفی علی من طالع کتب القوم  ( جیسا کہ کتب قوم کامطالعہ کرنے والے پر پو شیدہ نہیں ہے ۔ت )

 

اور جو یہ مقصود کہ اس میں روایات منکرہ وباطلہ بھی موجود ہیں تو بے شک مسلم ، مگر اس قدر سے یہ لازم نہیں آتا کہ ساری کتاب مطروح ومجروح ٹھہرے اور اس کی کسی حدیث سے استناد جائز نہ رہے آخر علمائے سلف احادیث نوادر و روایات فردوس سے کیوں تمسک کرتے ہیں اور جب وہ اس سے باز نہ رہے تو ہم کیوں ممنوع رہیں گے ،خود یہی شاہ عبدالعزیز صاحب اور ان کے والد واساتذہ ومشا ئخ شریعت وطریقت اپنی تصانیف میں احادیث کتب مذکور ہ ذکر اور ان سے استدلال کرتے ہیں ۔

 

قولہ :   اب یہ کہئے گا کہ جب تکاب مخدوش ومخلوط ہوچکی تو ہر حدیث پر احتمال ضعف قائم ، تو اس سے احتجاج اسی کو روا ہوگا جو بصیر وعارف اور نشیب وفراز فن سے واقف ہے ۔

 

اقول :   اب ہمارے مطلب پر آگئے ، حدیث عدم ظل سے بھی ہم عامیوں نے استدلال نہ کیا بلکہ یہی ائمہ شان ، اور ارباب تمیز وعرفان اسے بلا نکیر منکر مقبول رکھتے آئے اور ہم نے ان کی تقلید سے قبول کیا۔ اگر ان بصیرت والوں کے نزدیک متنازع فیہ قابل قبول نہ ہوتی تو حسب عادت اس رپ رد و انکار کیوں نہ فرماتے اور تلقی بالقبول سے باز آتے ۔

 قولہ :  اور مصنف نے بھی بھی الترازم تصحیح مافیہ نہیں کیا ہے صرح بذلک خاتم المحدثین مولانا شاہ عبدالعزیز محدث الدھلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فی بستان المحدثین ( خاتم المحدثین مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے بستان المحدثین میں اس کی تصریح فرمائی ہے ۔ت )

 

اقول: نہ التزام تصیح صحت کو مستلزم ، نہ عدم التزام اس کا مزاحم ۔ اہل التزام کی تصانیف میں بہت روایات باطلہ ہوتی ہیں اور التزام نہ کرنے والوں کی تصنیفو ں میں اکثر احادیث صحیحہ ، آخر مستدرک حاکم کاحال نہ سنا جنہوں نےصحت کیامعنی ، التزام شرط شیخین کا ادعا ء کیا ار بقدر چہارم احادیث ضعفیہ ومنکرہ وباطلہ وموضوعہ بھر دیں۔

 

اسی طرح ابن حبان کا یہ دعوی کتاب التقاسیم و الانواع میں ٹھیک نہ اتر اور سنن ابی داؤد جس میں التزام صحاح ہر گز نہیں ، صحاح ستہ میں معدود اور ان کا مسکوت عنہ مقبول ومحمود ، یہ سب امور خادم حدیث پر جلی وروشن ہیں۔

 

عزیز ا! مدار کا را سناد پر ہے ، التزام وعدم التزام کوئی چیز نہیں ، یہ دولت تو روز اول بخاری کے حصہ میں تھی کہ احادیث مسندہ میں حق سبحانہ ، نے ان کا قصد پورا کیا ، پھر ایسی فضول بات کے ذکر سے کیا حاصل ! کیا جس کتاب میں التزام صحاح نہیں اس سے احتجاج مطلقا مباح نہیں ؟ ایسا ہو تو بخاری و مسلم وچند کتب دیگر کے سوا سنن ابی داود وابن ماجہ ودارمی وتصانیف ابی بکر بن ابی شیبہ وعبدالرزاق ودارقطنی وطبرانی وبیہقی وبزار وابی لیلی وغیرہا معظم کتب حدیث جن پر گویا مدار شرع و سنت ہے محض بیکار ہوجائیں ۔ لاحوال ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم  (نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی وعظمت والے خدا کی طر ف سے ۔ ت)

 

قولہ :   اور کسی حدیث کی معتبر کتاب یں اس مسئلہ سے وجودا وعدما بحث نہیں۔

 

اقول : کاش ہمیں بھی معلوم ہوتا حدیث کی کتابیں جناب مجیب عفااللہ تعالی عناد عنہ کے کتب خانہ میں ہیں یا کتنی حضرت کی نظر سے گزری ہیں کہ بے دھڑک ایسا عام دعوی کرتے ہو ئے آنکھ نہ جھپکی ، ہم نے تا اکابر ائمہ کویوں سنا کہ جس حدیث پر اطلاع نہ پائی لم اجد  (میں نے یہ پایا ۔ت) یا لم ار  ( میں نے نہیں دیکھا ۔ت) یا لم اقف علیہ  ( میں اس پر آگاہ نہ ہوا ۔ ت) پر اقتصار فرمایا ، یہ لیس  (نہیں ہے ۔ت) اور لم یکن  ( نہیں ہوا ۔ ت) کی جراتیں ، حق تو یہ ہے کہ بڑے شخص کا کام ہے ۔

 

علامہ سیوطی سامحدث ان جیسی نظر واسع جنہوں نے دامن ہمت ، کمر عزیمت پر چست باند کر جمع الجوامع میں تمام احادیث واردہ کے جمع واستیعاب کا قصد فرمایا ، دیکھو حدیث اختلاف امتی رحمۃ  ( میری امت کا اختلاف رحمت ہے ۔ت)کی تخریج پر واقف نہ ہوئے اور جامع صغیر میں اسی قدر فرمایا کر خا موش رہے کہ شاید یہ حدیث کسی ایسی کتاب میں مروی ہوئی کہ ہم تک نہ پہنچی ۱؂۔

 

 (۱؂ الجامع الصغیر تحت حدیث ۲۸۸ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱ /۲۴)

 

پھر علامہ مناوی تییر میں اس کی تخریض ، مدخل بیہقی وفردوس دیلمی سے تلاش ہی کر لا ئے ۲؂۔

 

 (۲؂ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث اختلاف امتی رحمۃ مکتبۃامام الشافعی ریاض۱ /۴۹)

 

پھر ہم کو بایں بضاعت مزجاۃ ، چھوٹا منہ بڑی بات ، یہ دعوی کب زیب دیتا ہے مگر تصنیف امام عبداللہ بن مبارک وتالیفات حافظ رزین محدث وکتاب الوفا ء علامہ جوزی وشفاء الصدور علامہ ابن سبع و کتاب الشفاء فی تعریف حقوق المصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تصنیف علامہ قاضی عیاض ونسیم الریاض علامہ خفاجی وخصائص کبری علامہ جلال الدین سیوطی ومواہب لدنیہ منح محمدیہ امام علامہ قسطلانی و شرح مواہب علامہ زرقانی ومدارج النبوت شیخ محقق وغیرہا اسفار ائمہ دین وعلماء محققین ، آپ کے نزدیک معتبر نہیں یا جب تک بخاری مسلم میں ذکر مسئلہ نہ ہو قابل اعتبار متصور نہیں۔

 

فقیر حیران ہے جب حدیث کئی طریق سے مروی ہوئی اور چند ائمہ نے اسے تخریج کیا اور وہ مقتدایان ملت نے اس سے احتجاج فرمایا اور سلفا خلفا بے اعتراض معترض مقبول رکھا ، پھر نہ تسلیم کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ اگر بالفر ض حدیث میں ضعف ہی مانا جائے ، تا ہم مرتبہ مقام چاہے کہ یہاں تضییق مطلوب ہے یا تو سیع محبوب ، صحت نہ سہی ،کیا حسن سے احتجاج نہیں ہوتا ؟ حسن بھی نہ مانو ، کیا ضعف متماسک ایسی جگہ کام نہیں دیتا ؟ آخر اقسام حدیث میں ایک قسم کا نام صالح بھی سنا ہوگا ، اگر ماورائے صحاح سب بیکار ہیں تو حسن میں حسن اور صالح میں صلاحیت کس بات کی ہے انا اللہ وانا الیہ راجعون  (بیشک ہم اللہ تعالی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف ہم کو لوٹنا ہے ۔ ت)

 

قولہ : مسلمان کو ایک جانب پر اصرار نہ چاہے ۔

 

اقول : اگر چہ حق واضح ہے ؟ یہ کلمہ عجیب وضح کیا ، مسلمان کی شان وہ ہے جس سے رب تبارک وتعالی قرآن مجید میں خبر دیتا ہے  :  یستمعون القول فیتبعون احسنہ ۱؂۔ جو کان لگا کر بات سنیں پھر اس کے بہتر پر چلیں ۔(ت)

 

 (۱؂ القرآن الکریم ۳۹/ ۱۸)

 

دامن ائمہ ہاتھ سے دے کر شاہراہ یقین سے دور پڑیئے او رشکوک وتر د دا ت کے کانٹوں میں الجھے ۔

 

اے عزیز ! جب مسلمان نقی الایمان ادھر تو یہ سنے لگا کہ اس بات میں احادیث وارد اور اراکین دین متین واساطین شرع مبین کی تصانیف اس سے مملوو مشحون اور ادھر اس کے قلب کی حالت ایمانی جو تکثیر فضائل سید المحبوبین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جان سے پیاری ہے ، بہ شوق تمام سر و قد استادہ ہوکر مرحبا گویاں اسے مسند آمنا وصدقنا پر جگہ دے گی اور ادھر داعیہ عقل سلیم انبعاث تازہ پاکر حکم قطعی لگائے گا کہ میرا محبوب سر اپا نور ہے اور نور ک ا سایہ خرد سے دور ، تو ان انوار پے در پے کی متواتر ریز شوں کے حضور شکوک واوہام کی ظلمت کیونکہ ٹھہرسکے گی اور تیقن کامل کی رو شنی چار چانب سے سر اپا کو محیط ہوکر کس طر ح اصرار واذعان کے رنگ میں نہ رنگ دے گی ۔

 

ہم چھوٹی سی دو باتیں پوچھتے ہیں ، شک کرنے والے کو حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے نور بحت ہونے میں امل ہے یا سا یہ کوکثافت لازم ہونے میں تر دد ۔ اگر امر اول میں شک رکھتا ہے تو مین اپنی زبان سے کیا کہوں ، صرف اپنے ایمان صرف غیر مشوب بالاوہام اور قضیہ اشہد ان محمد اعبدہ و رسولہ ( میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ت)کے لازمی احکام سے حکم اپنادریافت کرلے ، اور امر دوم میں تردد ہے تو مفتی عقل کی بارگاہ سے جنون ودیوانگی کا فتوی مبارک ، اسی لئے ہم دعوی حتمی کرتے ہیں کہ اگر اس بات میں کوئی حدیث نہ آئی ہوتی ، نہ کسی عالم نے اس کی تصریح فرمائی ہوتی ، تاہم بملاحظہ ان آیات واحادیث متکاثرہ متوافرہ متظافرہ کے جن سے بالقطع والیقین سر اپائے سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا نور صرف کان لطافت وجان اضاءت ہونا ثابت ، ہم حکم کرسکتے کہ حضور کے لئے سایہ نہ تھا ، نہ کہ با وجود تو افق عقل ونقل تسلیم میں لیت ولعل ہو ( والہفاہ)

 

شک کرنے والا ہمیں نہیں بتا تا کہ اسے رد احادیث وطر ح اقوال علماء پر کون سی بات حامل ہوئی ، کیا ایسے ہی اکابر کے اقوال ، ان ارشادات کے صاف پرخلاف ،کہیں دیکھ پائے یا عقل نے نور محض کے سایہ ہونے کی بھی کوئی راہ نکالی ، جواس نے دلائل میں تعارض جان کر شک وتر دد کی بناء ڈالی اور جب ایسا نہیں تو شاید عظمت قدرت الہی میں تامل یا وہی بد مذہبوں کا قیاس مقلوع الاسنا س کہ

 

ما انتم الا بشر مثلنا ۱؂  (نہیں ہو تم مگر ہماری طر ح بشر ۔ت )

 

(۱؂ القرآن الکریم ۳۶ / ۱۵)

 

اس پر باعث ہو ا، جب تو آفت بہت ہی سخت ہے ، اللہ تعالی رحم فرمائے ۔ ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذھدیتنا وھب لنا من ل دنک رحمۃ انک انت الوھاب۲؂ اے رب ،ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر بعد اس کے کو تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کر ، بے شک تو ہے بڑا دینے والا ت(ت)

 

 (۲؂ القرآن الکریم ۳ /۸)

 

قولہ :  ادعائے وجود ظل میں ایہام سوء ادب ہے ۔

 

اقول  : "الان حصحص الحق"۳؂

 

 ( اب حق واضح ہوگیا ۔ت)

 

(۳؂ القرآن الکریم ۱۲/ ۵۱)

 

اللہ تعالی نے حق بات کو علو وغلبہ میں کچھ ایسی شان عجیب عطا فرمائی ہے کہ تشکیک وحیرت بلکہ تکذیب معاندت کی تاریکیوں میح بھی من حیث لایدری اپنا جلوی دکھاجاتی ہے ، مجیب کو منع اصرار پر اصرار تھا ، اب اقرار کرتے ہیں کہ وجود ظل ماننے میں ایہام سوء ادب ہے ، اور پر ظاہر کہ ایہام گستاخی تو وہیں ہوگا جہاں عیب ومنقصت کا پہلو نکلتا ہو ، اب شرع مطہر سے پوچھ دیکھئے کہ ایسی بات کا جز ماوقطعا رد وانکار وانکار واجب یا سکوت وحیرت کی کشمکش میں مہمل چھوڑدینا مناسب نہیں ۔ اب تو آپ کے اقرار سے فرض قطعی ٹھہرا کہ سایہ ہونے کا اقرار بلیغ کیا جائے ار اس پر حددر جہ کا اصرار تام رکھا جائے کہ ہرا س خس وخاشاک سے جو ایہاما واحتمالا بھی ہوئے تنقیص دیتا ہو، ساحت نبوت کی تبر یت اصول ایمان سے ہے اور بات بھی یہی ہے کہ جب سایہ کو کثا فت لازم اور لطا فت کاملہ عدم ظل کو مستلزم ، تو بحکم مقدمہ اولی جسے عدم سایہ میں شک ہوگا وہ درخقیقت سراپائے اقدس حضرت رسالت علیہ الصلوۃ والتحیۃ کی لطافت متردد ہے اور سایہ ماننے والا کثافت اور نہ ماننے ولاا کمال لطافت کا معتقد ہے پھر مسلمانوں کی نفی سایہ اصرار سے منع کر نا بعینہ یہ کہنا ہے کہ لطافت جرچ ولا کو یقینی نہ جانو اور عیاذا باللہ کثافت بھی محتمل مانو ۔ اب اس شک وابدائے احتمال کا حکم بغایت شدید ہونا چاہے تھا مگر خیر گزری کہ لازم مذہب ، مذہب نہیں قرار پاتا۔

 

قولہ : اور اصرار بر عدم میں احتمال دعوی غیرواقع ہے ۔

 

اقول :

 

احادیث صحاح بخاری ومسلم یکسراڑ گئیں ؟ کہیں نہیں کہہ سکتے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا یا ایسا کیا یا وہاں یہ واقعہ ہوا کہ جب تک تو اتر نہ ہوا احتمال دعوی غیر واقعہ سب جگہ قائم کچھ دنوں خدمت شر ح نصیب رہے تو خوب واضح ہوجائے کہ احتمالات مجر د جو مناشی صحیحہ سے ناشی نہ ہوں تک لخت پائے اعتبار سے ساقط ہیں او ران پر کسی طر ح بنائے کار نہیں ہو سکتی ورنہ واجبات سے تو یکسر ہاتھ دھوبیٹھے کہ قطع ویقین منافی وجوب اور بے تیقن اصرار معیوب، تمیم کے طریقے بالکل مسدود کہ ہر خاک وسنگ میں احتمال نجاست موجود نص قرآنی یا احادیث متو اتر میں تو ان مٹیوں کی پاکی مذکور نیہں ، نہ یہ زمینیں ابتدائے خلقت سے ہر وقت ہمارے پیش نظر رہیں کہ عد م تنجس پر یقین حاصل ہو ، ہر نماز کے وقت ہر بار کپڑے پاک کرنا ضرور ہو کہ ممکن ہے کوئی ناپاکی پہنچی ہواور ہمیں اطلاع نہ ہوئی ہو، وضو وغسل و غسل ثیاب آپ غیر جاری سے روانہ ہو کہ یہاں بھی وہی آتش کا سہ میں ہے ، اکثر عورتوں خصوصا زنان ہمسایہ وقرابت دار میں احتمال ہے کہ انہوں نے یا ان کی ماں یاباپ نے ناکح کی ماں کا دودھ پیاہو  یانا کح نے جس عورت کا دودھ پیا ہو اس نے انہیں دودھ پلایا ہو یا وہ عورتیں ناکح کے باپ یا دادا یا ناناکی ممسوسہ یا منظورہ بصور معہودہ ہوں ، پھر نکاح کیونکہ ہوکسے ، او رجنہوں نے اس قاعدہ جدیدہ سے ناواقفی میں کرلیا ہے ان پر متا رکہ لام زہو ، قاضی شہادت شہود پر حکم نہیں کرسکتا ، ممکن کہ گواہ جھوٹ بولتے ہوں یا انہیں ورت واقعہ یا د نہ رہی ہو الی غیر ذلک من المفاسد التی لاتحصی

 

( اس کے علاوہ بے شمار فساد لازم آئیں گے۔ت)غرض اس دو حرفی قاعدہ نے ایک عالم تہ وبالا کر ڈالا ، دین ودنیا کا عیش تلغ کردیا ۔

 

عزیز ا! یہ کہنا تو اس وقت روا تھا جب کوئی حدیث اس بارہ میں وارد نہ ہوتی ، نہ کلمات علماء میں اس کا پتا چلتا ، نہ وجود سایہ لطا فت ثابتہ کسی طر ف ترجیح نہ دیتی تو کہہ سکتے تھے کہ دلیل سے کچھ ثابت نہیں ہو تا اور ایک بات پر حکم حتمی میں احتمال نسبت غیر واقعی ہے اور مسئلہ اصول دین سے نہیں ، نہ ہمارا کوئی عمل یا عقیدہ اس پر موقوف ، پھر خواہ مخواہ خوض بیکار سے فائدہ ؟ من حسن اسلام المر ء ترکہ مالا یعنیہ۱؂

 

 (کسی شخص کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ بے مقصد باتوں کو چھوڑدے ۔ ت)

 

 (۱؂ جامع الترمذی ابواب الزہدباب منہ امین کمپنی دہلی ۲ /۵۵)

 

ایسے ہی مقامات پر علماء محتاط سکوت وتو قف کرتے اور تعارج دلائل ذکر کر کے اسی قسم کے کلمات لکھ دیتے ہیں ، امثال مسائل تفاضل نساء واثابت جنہ وحال اطفال اصحاب ضلال سے مجیب نے وہ لفظ سیکھ کر دیئے اورفر ق مبحثین پر نطر نہ کی ، ہم زیادہ نہیں مانگتے ایک ہی جگہ دکھادیں کہ کوئی مسئلہ احادیث سے ثابت اور اقوال علماء سے نقل خلاف اس پر متظافر اور ایک حکم یقینی ایمانی مثل لطافت جسم نوارنی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اسے مستلزم اور اس کے سبب عقل نورانی وحب ایمانی حقیقت مسئلہ پر حاکم ہو ، پھر کسی عالم معتبر نے وہاں تو قف اختیار کیا ہو اور اصول دین سے نہ ہونے یا مخالفت واقع کے احتمال کو مانع تسلیم قرار دیا ہو ورنہ یہ نو تراشید ہ مضمون قابل تو بہ واستغفار ہے ربنا اغفرلنا واللمومنین جمیعا  ( اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اورتمام مومنوں کو بخش دے ۔ت)

 

قولہ : مسئلہ اصولِ عقائد سے نہیں جس کے باب میں ہر شخص کو اہتمام ضرور ہو ۔

 

اقول :  مجیب صاحب (سامحنا اللہ وایاہ بالعفو والمغفرۃ)    اللہ تعالی عفو ومغفر ت کے ساتھ ہم سے اور اس سےدرگزرمائے ۔ ت)   نے اس چار سطر کے جواب میں عجب تماشاکیا ہے کہ اکثر دلیلیں جو قائم کیں ان کے صغری کہ ظاہرا تسلیم تھے لکھتے گئے او رکبری کہ بدیہی البطلان تھے ، مطوی فرماددیئے ، مثلا لکھا : '' محدثین اعلام نے اس کتاب کو معتبر نہیں مانا ہے '' اور کبرے کہ جس کتاب کو محدثان اعلام نے معتبر نہ مانا ہوا س کی کوئی حدیث قابل احتجاج نہیں ، ترک کردیا ، پھر لکھا :  '' مصنف نے التزام تصیح مافیہ نہیں کیا ''

اور کبری کہ جس مصنف نے یہ التزام نہ کیا اس کی حدیثیں مستند نہیں ، ذکر نہ فرمایا ، پھر لکھا :

 '' کسی حدیث کی معتبر کتا ب میں الخ۔''

اور کبرے کہ جو مسئلہ کتب معتبر ہ حدیث میں نہ ہو ، قابل تسلیم نہیں ، چھوڑدیا ۔ پھر لکھا:

''اصرار بر عدم میں احتمال الخ''

اور کبری کہ جہاں یہ احتمال ہوا س میں تو قف ضرور اور تسلیم بے جا ، تحریر نہ کیا ۔ اب اخیر درجہ یہ لکھا کہ :

'' مسئلہ اصول عقائد سے نہیں۔''

اکبری کی طر ف ان لفظوں سے اشارہ کیا :'' جس کے باب میں ہر شخص کو اہتمام ضرور ہو۔''

صاف کہا ہوتا کہ جو مسئلہ اصول عقائد سے نہیں ، اس میں اہتمام کی کچھ حاجت نہیں ۔ سبحان ! ایک ذرا سے فقرہ میں تمام سائلہ فقہیہ کی بیخ کنی کردی کہ وہ بداہۃ فروح ہیں نہ اصول ، پھر ان کا اتباع محل اہتمام سے معزول اور واجبات وسنن کا تو پتا نہ رہا کہ انہیں عقد قلب سے کب بہر ہ ملا، اب شاید بعد ورود اعتراض یہ تخصیص یاد آئے کہہ ہما رے کلام مسائل غیر متعلقہ بجوارح میں ہے

 

اقول : اب بھی غلط ، متکلمین تصریح کرتے ہیں ، مسائل خلافت اصول دینیہ سے نہیں ،

 

مواقف و شرح مواقف میں ہے :  (ولما تو فاہ) اشارہ الی مباحث الامامۃ فانہا وان کانت من فرو ع الدین الاانہا الحقت باصولہ دفعا للخرافات اھل البدع والاھواء وصونا للائمۃ المھتدین عن مطاعنہم (وفق اصحابہ لنصب اکرمہم واتقہم ) یعنی ابا بکر رضی اللہ تعالی عنہ۱؂ اھ ملخصاً۔وفیہ من المصدر الرابع مو الموقف الخامس فی الامامۃ و مباحثہا لیست من اصول الدیانات و العقائد خلافا للشیعۃ ۱؂ اھ

 

( شارح فرماتے ہیں) لماتو فاہ ، امامت کی بحث کی طر ف اشارہ ہے ، اگر چہ مسئلہ فروع دین سے ہے مگر اہل ہو اور بدعتیوں کے خرافات کو دفع کرنے کے لئے اورائمہ دین کو ان کے طعن سے بچانے کے لئے اصول دین سے ملحق کردیا(کہ تمام صحابہ کرام اپنے سے اتقی واکرم یعنی ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت پر متفق ہوگئے ۔)

 

(۱؂ شرح المواقف خطبۃ الکتاب منشورات الشرف الرضی قم ایران  ۱ /۲۱و۲۲ )

 (۱؂ شرح المواقف المرصد الرابع منشورات الشریف الرضی قم ایران ۸ /۳۴۴)

 

موقف خامس میں سے مصدر رابع امامت میں ہے امامت کی بحث اصول عقائد دین میں سے نہیں ہے بخلاف شیعوں کے (کہ ان کے نزدیک اصول دین سے ہے )اھ ت)

کیا یہ قاعدہ مخترعہ یہاں بھی اہتمام ضروی نہ رکھے گا اور اقرار وانکار امات ائمہ کو یکساں کردے گا ، ایران ومسقط کو مژدہ تہنیت ، اب چین سے اپناکام کیجئے ، خلافت راشدہ خلفاء اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم میں شوق سے کلام کیجئے ،تیرہ صدی کی برکت سنیوں کی ہمت ، اب انہیں ان مباحث سے کام ہی نہ رہا ۔ حقیقت خلافت کا اہتمام ہی نہ رہا ۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون  ( بے شک ہم اللہ تعالی کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طر ف پھرنا ہے ۔ت)

 

فقیر کو حیرت ہے باوجود وتو افق عقول ونقل ودرود احادیث وشہادت ائمہ عدل وقتضائے خرد یمانی بحکم لطافت جرم نورانی وتاکید محبت سید اکرم صلی ال لہ تعالی علیہ وسلم قبول سے کیا چارہ اور ترک اصرار واہتمام کس کا یارا ، اور یہ یہ بھی نہیں کھلتا کہ لفظ ''ہر شخص ''فرماکر عموم سلب سے سلب عموم کی طر ف کیوں ہوا؟ کیا بعض کو اہتمام ضروی بھی ہے ؟ اور ایسا ہو تو وہ بعض معین ہیں یا غیر معین ؟ بر تقدیر ثانی کلام ، مقصود پر منعکس و منقلب ہوجائے گا اور تحرزا عن الوقوع فی المحذور ہر شخص کو اہتمام قرار پائے گا اور پہلی شق پرحکم احکم لتبیننہ للناس۲؂  (کہ تم ضرور اسے لوگو ں سے بیان کردینا ۔ ت)

 

(۲؂ القرآن الکریم ۳/۱۸۷)

 

کاانقیاد ہو ، اس تعین کی تبیین ، پھر اس پر دلیل مبین ارشاد ہو ۔

 

وصلی اللہ تعالی علیہ سیدنا محمد البدر وآلہ واصحابہ النجوم والعلم بالحق عند اللہ ربنا تبارک وتعالی واھب العلوم استراح القلم من ھذا التنمیق الانیق فی العشرۃ الوسطی من ذی الحجۃ المحرم سنۃ ۱۲۹۷ (سبع وتسعین بعد الالف و المائتین ) فی جلسۃ واحدۃ فی البلاۃ المطہرۃ مارھرۃ المنور ۃ بجنب مزار ات الکرام البررۃ ساداتنا و مشائخنا العرفا  الخیرہ افاض اللہ علینا من نفحات فیوضہم العطرۃ امین بر حمتک یا ارحم الراحمین ۔

 

اللہ تعالی درود نازل فرمائے ہمارے آقا محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر جو چودھویں کے چاند ہیں او رآپ کے آل واصحاب پر جو روشن ستارے ہیں ۔ حق کا علم اللہ تعالی کے پاس ہے جو ہمارا پروردگار ہے اور علوم عطافرمانے والا ہے ۔ اس عمدہ تحریر کی تزیین سے قلم نے حرمت والے مہینے ذوالحجہ کے دمیان عشرے کے اندر؁ ۱۲۹۷ھ کو ایک ہی نشست میں راحت حاصل کی ۔ شہر پاک مارہرہ منورہ میں آرام فرمانے والے ان اولیائے کرام کے مزارات مقدس کے پہلو میں یہ تحریرلکھی گئی جو ہمارے سردار ومشائخ عارفین گرامی قدر ہیں ۔ اللہ تعالی ان کے فیوض معطر ہ کی خوشبوئیں ہمیں عطا فرمائے ۔آمین ! تیری رحمت کے ساتھ اے بہترین رحم فرمانے والے ۔(ت)

 

فصلِ دوم

 

بسم اللہ رحمن الرحیم

نقلِ تحریرکہ الحال از ریاست محمدآباد ، عمراللہ بالرشد والسداد وصانھا عن الشر والفساد سلسلہ سخن راجنبش تازہ داد۔

 

نقل تحریر از ریاست محمد آباد جس نے سلسلہ سخن کوتازہ جنبش دی ، اللہ تعالٰی اس ریاست کو ہدایت ودرستگی کے ساتھ آباد رکھے اور اس کو شروفساد سے بچائے ۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

الحمدللہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علی رسولہ محمد واٰلہٖ واصحابہٖ اجمعین ، اما بعد مردم میگویندکہ برائے شخص مبارک عالی حضرت رسالت پناہی ، نبوت دستگاہی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ ظل چنانچہ جملہ اجسام واجرام کثیفہ ولطیفہ رامی باشد نبود وگاہے از ابتدائے خلقت حضرت رسالت پناہی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تاآخر لقائے رب العٰلمین تعالٰی شانہ، ہمچناں بودبے سایہ وبے ظل گزرانیدہ اند۔

 

تما م تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ درود وسلام نازل ہواس کے رسول محمدمصطفی پر، آپ کی آل پر اورآپ کے تمام صحابہ پر ۔ بعدازاں لوگ کہتے ہیں کہ جس طرح تمام اجسام کثیفہ ولطیفہ کے لئے سایہ ہوتاہے ، ایسا سایہ حضرت عالی مرتبہ ، رسالت پناہ ، نبوت دوستاہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم مبارک کے لئے نہیں تھا، اوریوں بھی کہتے ہیں کہ پیدائش سے آخر عمر تک ہمیشہ سایہ نہ تھا۔

 

فقیر میگوید کہ ایں معجزہ درکتابیکہ لائق اعتماد باشد واہل سند واسناد آنرابسند صحیح بیان کردہ باشند ، ندیدہ ام درکتاب صحاح وسنن کہ مروج انداز کسے نشنیدہ ام کہ ثبوت کردہ اند و آنچہ اہل سیر ومغازی بیان میکنند اعتماد آں چنانچہ اہل حدیث راہست ، معلوم پس ہر کرا از اہل علم ثبوت آں از روئے سند صحیح از کتاب وسنن ، بیان فرمایند، اجرآں از فقیر از خدا وند تعالٰی مامول دارند فقط۔

 

فقیر کہتاہے کہ یہ معجزہ کسی ایسی کتاب میں جو لائق اعتماد ہو اوراہل سند واسناد نے اسے بسند صحیح بیان کیاہو ، میں نے نہیں دیکھا ، کتب صحاح وسنن میں کسی سے نہیں سنا کہ ثابت کیا ہو۔ اہل سیر ومغازی جو بیان کرتے ہیں اس پر، جیسے کہ محدث کو اعتماد ہے ، معلوم ہے،لہذا تمام اہل علم کو چاہیے کہ اس کا ثبوت ازروئے سند صحیح کتاب وسنت سے بیان فرمائیں ، اس کا اجر فقیر سے خداوند تعالٰی سے امید رکھیں ۔ فقط۔

کتبہ ابو عبداللہ محمد عفی عنہ

 

بازاہتزاز نسیم ایمانی بپامال فصل خزانی

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

الحمدللہ خالق الظل والحرورجاعل الظلمٰت والنور، ثم الذین کفروا بربھم یعدلون والصلٰوۃ والسلام علی السراج المنیر فی نادی القلوب ، القمر المنزہ عن کل کلف وخسوف ومحاق وغروب ، ثم الذین فجروا عن نورہ یعمہون وعلٰی اٰلہ النجوم واصحابہ مصابیح العلوم مالم یکن للارمد عند ضوء العین سکون، سایہ پروردہ دامن ناسزائی، روئے نادیدہ نیردانائی، فقیر ناسزا ، رونق بازار معاصی فزا ، سربگر یبان فکر جزا، عبدالمصطفٰی معروف بہ احمد رضا غفراللہ لہ ما یجری منہ وما مضٰی ، خدائے خود رابہ یکتائی ومصطفائے وے رابہ بے ہتمائی ستودہ مہر بہشتی چہر تحقیق وآفتاب جہاں تاب تدقیق را ، چنانۃ بریزش امطار انوار، وبارش اضواء نصف النہار مے آرد کہ پیشترک از  ورود ایں جواب سوال نما ز وعرض اعراض فزا ووفاق شقاق آمود ، ولطف عتاب آلود، فقیر حقیر درہمیں مسئلہ پیش آیندہ دوستارہ تابندہ ، از آفاق سخن سرائے ، باشراق جلوہ نمائے ، آوردہ ام یکے کالشمس وضحٰہا ودگرکالقمر اذا تلٰہا ہرکہ چشمے دارد از رمد پاک، وولی پذپرائے نور ادراک ، بصر وبصیرتش را از تجلیہائے ظلمت  روالش نیکوترین بہرہ وریہا مہیا ومہنا باد ، عزیزان نوکہ طرحی تازہ افگندہ اند وراہے جدید پیش گرفتہ، اگر باینہا نیز برسم چالشگیر دے چند آویزشی کنیم ، یا رب بر خاطر خردہ بینان خرد پرور ودقت گزینان بالغ نظر، بے گوارش مرداد، اٰمین ، وباللہ ثم برسولہٖ نستعین ، ولا وحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم۔

 

فصلِ خزانی کی پامالی کیلئے نسیم ایمان کی پھر روانی

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم ط

تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جو سائے اوردھوپ کا خالق اورظلمت ونور کو پیدافرمانے والا ہے ۔ پھر کافر لوگ اپنے رب کے برابر ٹھہر اتے ہیں ۔اور درودوسلام نازل ہودلوں کی مجلس کو چمکانے والے آفتاب پر اور اس ماہتاب پر جو چھاؤں ، گرہن ، مٹ جانے اورغروب ہونے سے پاک ہے ۔ پھر نافرمان لوگ اس کے نور سے بے بہرہ ہیں ، اور ان کی آل پر جو ستارے ہیں اوراصحاب پر جو علوم کے چراغ ہیں ۔ آشوب چشم والے کو سورج کی روشنی کے وقت سکون نہیں ہوتا ۔ دامن نالائق کے سایہ میں پرورش پانے والا ، خورشید دانائی کا چہرہ نہ دیکھنے والا ، گناہ افزا بازار کی رونق ، فکر جزاء میں پریشان ، عبدالمصطفٰی معروف بہ احمد رضا (اللہ تعالٰی اسکی آئندہ وگزشتہ کوتاہیوں کو معاف فرمائے )اپنے خدا کو یکتا ولاشریک ہونے اوراس کے مصطفٰی کو بمثل ہونے کی توصیف کے بعد بہشتی چہرہ والے آفتاب تحقیق اورجہان کو روش کردینے والے خورشید کو اس طرح انوار واضواء کی برسات کے ساتھ لاتا ہے کہ تمہارے سوال کے جواب اور روگردانی بڑھانے والی عرض اورخلاف پر موافقت اورعتاب آلود نرمی سے کچھ پہلے فقیر حقیر نے ا س زیر نظر مسئلہ کے متعلق سرائے سخن کے کناروں سے دوچمکتے ہوئے ستارے لائے ہیں ، ایک کالشمس وضحٰہا اوردوسرا کالقمراذا تلٰہا، جو شخص صحت مند آنکھ اور قابل نور علم دل رکھتاہے اس کی بصارت وبصیرت کو ان ستاروں کی کاشف ظلمات تجلیات سے اچھی طرح کامیابیاں مہیا ومبارک ہوں۔ نئے پیاروں نے جو تازہ طرح ڈالی اورنیا راستہ اختیارکیا، اگرہم بھی ان کے ساتھ بطور جیسے کو تَیسا (ترکی بہ ترکی)مقابلہ کریں تو اے خدا!نکتہ داں عقلمندوں اورباریک بیں بالغ نظروں کے دل پر احساس تلخی ، انصاف !آمین ! اللہ تعالٰی سے پھر اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہم مدد چاہتے ہیں ، بلندی وعظمت والے خدا کی توفیق کے بغیر نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اورنہ ہی نیکی کرنے کی قوت۔

 

قولہ :  مردم میگویند الخ۔

 

قولہ :  لوگ کہتے ہیں الخ

 

اقول : ائمہ دین یا عوام مقلدین علی الاول بخانہ مقصود از درنقیض آمدن ست ، واستیناس نقد،بہ لباس اسد، خواستن، مگر ارشاد ائمہ بسند نیست ، کہ دلیلے دیگر جوائی ، یا ایں رابمنزل حضرت سلمٰی نمیر ودکہ بہ شعبے جدا گانہ پوئی۔ من فقیر گمان برم وناراست نمی برم کہ ان شاء اللہ تعالٰی روئے توجہ بسوئے مقدمہ ثالثہ تحریر ثانی تافتن ہماں باشد ، وایں وسوسہ را جواب شافی وعلاج کافی یافتن، ہماں ، آخر نہ خدائکہ حضرات عالیہ ایشاں را برسررامامت وارائک زعامت جائے داد وبحکم  الخراج بالضمان ۱؂ ثقل تحمل اعبائے گرانبار فاعتبرواٰیاولی الابصار۲؂ برذمت ہمت ایشاں نہاد وضعف وناتوانی ماعامیان نادیدہ رودبدست کم دانشی گرودید وبفھوائے ان مع العسر یسرا۳؂ووما جعل علیکم فی الدین من حرج ۴؂ خوان نعمت فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون ۵؂ چید۔

 

اقول :  لوگوں سے مراد ائمہ دین ہیں یا عوام مقلدین؟اگر ائمہ دین مراد ہیں تو پھر یہ خلاف مقصود کی طرف آنا اورلباس شیر میں انس نقد طلب کرنا ہے ، کیا ائمہ کرام کا ارشاد ناکافی ہے کہ دوسری دلیل طلب کرتے ہویا ائمہ دین کایہ راستہ مطلوب تک نہیں پہنچتا ، اس لئے علیحدہ پگڈنڈیوں پر بھٹکتے پھرتے ہو؟میں گمان کرتاہوں اوردرست گمان کرتاہوں کہ ان شاء اللہ تعالٰی توجہ کا رخ تحریر ثانی کے مقدمہ ثالثہ کی طرف ہی پھیرنا ہوگا اور تمہارے اس وسوسہ کا وہی جواب شافی وعلاج کافی ہوگا۔ آخر خدا وند تعالٰی نے حضرات عالی شان کو امامت کے تختوں اورسرداری کی سندوں پر مقام عطا نہ فرمایا اور الخراج بالضمان  (خراج ضمان کی وجہ سے ہوتاہے ۔ت)کے فیصلہ کے مطابق فاعتبروا ٰیاولی الابصار (توعبرت لو اے نگاہ والو ۔ ت)کے چراغوں کا بوجھ برداشت کرنا اور ان کے ذمہ ہمت پر نہ رکھا؟ اورہم نادیدہ رو کی کمزور کو اورکم علمی کے ہاتھ گروی شدگان کو نہ دیکھا اور بہ مقتضائے "ان مع العسر یسرا"  (بے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے ۔ ت) اور "وما جعل علیکم فی الدین من حرج"  (اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔ ت)نعمت "فاسئلو اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون"  (تو اے لوگو!علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو ۔ ت)کا خانچہ نہ چنا؟

 

 (۱؂جامع الترمذی ابواب البیوع باب ماجاء من یشتری العبدویغسلہ الخ امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۴۵)

(۲؂ القرآن الکریم ۵۹ /۲)

(۳؂ القرآن الکریم ۹۴ /۶)

(۴؂ القرآن الکریم ۲۲ /۷۸)

(۵؂القرآن الکریم ۱۶ /۴۳و ۲۱/ ۷)

 

اے خوشاکسیکہ بحکم ان اللہ تصدق علیکم فاقبلوا صدقتہ۱؂ فرمان ایں صلائے جانفزا پذیر فت ، وازکشاکش لم وکیف پاک رست وبداکسیکہ بہ ناکامی ، اما ھذا فقد اعرض فاعرض اللہ عنہ ۲؂۔ کاربرخود دشوار کردو پائے از اندازہ گلیم بیروں کشیدن جست ع

آفتاب اندرمیان آنگہ کہ میجو ید سُہا

 

دوستو! بہت ہی خوش نصیب ہے وہ جس نے بہ تقاضائے "ان اللہ تصدق علیکم فاقبلوا صدقتہ"  (بے شک اللہ نے تم پر صدقہ کیا تو اللہ تعالٰی کے صدقہ کو قبول کرو۔ ت)اس روح فزا فرمان کو قبول کیا ور چون وچراکے چکر سے خلاص ہوا ؟اور بہت بدبخت ہے ہو جس نے "اما ھذا فقد اعرض فاعرض اللہ عنہ"  (لیکن اس نے اعراض کیا تو اللہ تعالٰی نے اس سے اعراض فرمایا ۔ت )کی ناکامی کے سبب اپنے اوپر کا م مشکل کرلیا اور اوراندازہ گودڑی سے پاؤں باہر کھینچ لئے ع

آفتاب اندر میاں آنگہ کہ میجو ید سُہا

(آفتاب موجود ہوتو سُہاکو کون تلاش کرتاہے ۔)

 

(۱؂صحیح مسلم کتاب صلٰوۃ المسافرین وقصر ھا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۴۱)

(سنن ابی داود، باب صلوٰہ المسافر آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۷۰)

(جامع الترمذی ابواب التفسیر تحت آیۃ ۴ /۱۰۱       امین کمپنی دہلی ۲ /۱۲۸)

(سنن ابن ماجۃ باب تقصیر الصلٰوۃ فی السفر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۷۶)

(۲؂صحیح البخاری کتاب العلم باب من قعد حیث ینتہی بہ المجلس قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۶)

(صحیح مسلم کتاب السلام باب من اتی مجلسا فوجد فرجۃ الیخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۱۷)

 

فائدہ  :   بنات النعش میں ایک باریک ستارہ ہے جس کو سہُا کہتے ہیں ۔

 

وعلی الثانی یارب مگر سیدنا وابن سیدنا حبر الامہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما وحضرت ذکوان تابعی وامام ہمام حجۃ اللہ فی الانام عبداللہ بن مبارک وامام حافظ شمس الملۃ والدین ابوالفرج ابن الجوزی وامام علامہ ابن سبع وحافظ رزین محدث وامام الامہ حافظ الشرق والغرب مولانا جلال الملۃ والحق والدین ابوبکر سیوطی وامام علامہ عاشق المصطفٰی سید الحفاظ جبل الشرع والدین حبل الاللہ المتین قاضی عیاض یحصبی وامام ربانی احمد بن محمد خطیب قسطلانی وفاضل اجل محمد بن عبدالباقی زرقانی وعلامہ فہامہ شہاب الملۃ والدین خفاجی وشیخ محقق سیدنا عبدالحق محدث دہلوی وغیرہم ائمہ دین وجہابذقادہ ناقدین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین ونفعنا ببرکاتہم فی الدنیا والدین رامعاذ اللہ  درسلک عوما منخرط شمارند، یافصوص نصوص ایناں راز  زنگ غلط منزہ نہ پندارند، ان ھذا  لشیئ عجاب ۔ اوردوسری شق پر (بصورت عوام مقلدین )پناہ بخدا !کیا سیدنا عبداللہ بن عباس ، حضرت ذکوان تابعی، عبداللہ بن مبارک ، امام ابن الجوزی ، ابن سبع حافظ رزین محدث ، علامہ جلال الدین سیوطی ، قاضی عیاض، امام احمد قسطلانی ، علامہ زرقانی ، علامہ خفاجی اورشیخ عبدالحق محدث دہلوی وغیرھم کو معاذاللہ عوام میں شمار کرتے ہیں ، یان ان کے نگینہ ہائے نصوص کو زنگ اغلاط سے مصفّٰے ومبرا گمان نہیں کرتے ان ھذا  لشیئ عجاب (بے شک یہ عجیب بات ہے ۔)

 

قولہ :  چنانچہ جملہ اجسام واجرام کثیفہ ولطیفہ رامے باشد۔

 

قولہ :  جیسا کہ تمام اجسام کثیفہ ولطیفہ کے لئے ہوتاہے۔

 

اقول :  نازم ایں کلیت مطلقہ واحاطت مستغرقہ را کہ ہجوم عموم واغراق اطلاقش برسنگلاخ کثافت بس نکردہ خیمہ تابسرحد لطافت کشید ، ماناہ عزیز اں از حقیقت ظل آگاہی ندا رند۔ اے مخاطب !سایہ پروردگار مگر دانی کہ سایہ چیست ؟نیرے تافتن آغا ز کرد وبہ ہرجابساط نور گستر، واجسامے ازمیان خاستہ ونفوذ اشعہ رامانع آمدہ اینہا پردہ فروہشت ، وپردگی از نور مہجور گشت ، ہوائے متوسط کہ حکم مقابلت وشدت قابلیت ، از تنور واستضاءت بہرہ کافی ربود ، آں محروم رانیز پارہ از انجلاء ارزانی نمود۔

 

اقول : اس کلیت مطلقہ اوراحاطہ مستغرقہ پر ناز کہ اس اطلاق کو سنگ کثات پر ہی بند ہ رکھا، حد لطافت تک کھینچ ڈالا، شاید وہ دوست سایہ کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ اے نازو نعمت میں پلے ہوئے مخاطب !شائید تمہیں معلوم ہے سایہ کیا شے ہے ؟سورج چمکنے لگا، ہرجگہ نور کی چادر بچھا دی ، درمیانی اجسام رکاوٹ بنے اورروشنی کے آگے پردہ لٹکا دیا ، پردگی نور سے مہجور ہوگئی ، ہوائے متوسط نے بسبب مقابلہ و شدت قابلیت روشنی سے کافی حصہ لیا اوراس محروم کو بھی روشنی کا کچھ حصہ عطاکیا۔

 

ایں ضوء ثانی راظل نامند ونیکو روشن کہ ایں معنٰی بے حجب ،وحجب بے منع نفوذ ، ومنع نفوذ بے کثافت صورت نہ بندد ، واوفراہ اگرایں اطلاق راست باشد اشراق ارض محال گرددکہ میان فاعل وقابل جرم آسمان حائل ، بلکہ ہم از مدعا نقیض مدعا لازم آید کہ چوں جسمے ہمچو فلک درمیان سنت، استنارہ ہوا کہ مضیئ ثانی ست خود چہ امکان ست ، پس ازروئے زمین تاسطح آسمان ہیچ جسمے راسایہ نباشد، والسالبۃ الجزئیۃ تناقض الموجوبۃ الکلۃ وتقییدمرئی بودن کہ حاجب نباشد مگر از مبصرات با آنکہ تخصیص بعدالاعتراض ست درامثال ہو اورنارجاری۔

 

اس دوسری روشنی کو ظل کہتے ہیں اورخوب ظاہر کہ یہ معنٰی بے پردہ اورپردہ بلامنع نفوذ اورمنع نفوذ کثافت کے سوا ناممکن ہے ۔ ہائے زیادتی !اگر یہ اطلاق درست ہوتو زمین کاروشن ہونا محال ہوجائے ، اس لئے کہ سورج اورزمین کے درمیان جسم آسمان حائل ہے بلکہ تمہارے دعوٰی سےہی تمہارے مدعی کی نقیض لازم آتی ہے کہ جب آسمان جیسا جسم درمیان ہے تو ہوا جو ثانوی درجہ میں روشن ہے ، کیسے ممکن کہ روشن ہو، لہذا روئے زمین سے آسمان جیسا جسم درمیان ہے تو ہوا جو ثانوی درجہ میں روشن ہے ، کیسے ممکن کہ روشن ہو ، لہذا روئے زمین سے آسمان تک کسی جسم کا سایہ نہ ہو

 

والسالبۃ الجزئیۃ تناقض الموجبۃ الکلیۃ  (اورسالبہ جزئیہ موجبہ کلیہ کی نقیض ہے ۔ت)

 

اور چونکہ جو چیزیں نظر آتی ہیں وہی پردہ بنتی ہیں اس لئے مرئی ہونے کی قید لگانا ، باوجودیکہ بعد از اعتراض ہے صرف ہو ا اور آگ جیسی اشیاء میں جاری ہے ۔

 

اما نامرئی بودن آسمان مسلم نداریم، واز شہادت بصر و ظواہر نصوص چراروئے برتابیم، مااسلامیاں راباخرافات فلاسفہ ناہنجار وافسانہ عالم نسیم وکرہ بخار چکار، وہمچو ادعاہائے نامنتظمہ راپیش ظواہر قرآن وحدیث چہ قیمت وکدام وقعت؟

 

بہر حال آسمان کا غیر مرئی ہونا ہم نہیں مانتے ، ہم کیونکر عینی شہادت اورظاہر نصوص سے روگردانی کریں، ہم اہل اسلام کو بے راہ فسلفہ کی خرافات اورکرئہ ہوا وبخار سے کیا کام؟اورایسے بے سرپا دعاوی کی قرآن وحدیث کے ظاہر مفہومات کے سامنے کیا قیمت اورکیسی وقعت؟

 

قال اللہ تبارک وتعالٰی ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیح۱؂ ومعلوم است کہ ازیں قسم زین وشین جز درمبصرات راست نیاید ، بادرانہ از پوشاک مہوشاں زریں کمر زینتے ، نہ از خرقہ گدایاں دلق دربروصمتے ، بلکہ اگر نیکو بنگری دراجسام کثیفہ نیز عموم بجائے خود نیست ، کہ میان حجب وکثافت عموم وخصوص مطلق ست، جسم مثلث اگرچند کثیف باشد سایہ ندارد، نہ درآفتاب ، نہ در ماہتاب ، کہ بہ ہمیں معنے ایمائے لطیف فرمودہ اندر درکریمہ انطلقواالی ظل ذی ثلٰث شعب oلاظلیل ولا یغنی من اللھب۱؂ کما استنبطہ الامام العلامۃ السیوطی فی تفسیر الاکلیل فی استنباط التنزیل ۲؂۔

 

اللہ تعالٰی نے فرمایا: اوربیشک ہم نے نیچے کے آسمان کوچراغوں سے آراستہ کیا۔اور معلوم ہے کہ اس قسم کی زینت وعیب مبصرات کے سواکسی چیز پر صادق نہیں ، مثلاکوئی کیسا ہی  مہ رو ز رق برق لباس پہن کر سنہری کمر بند باندھے ہوا میں کھڑا ہوجائے تو ہوا کے لئے وہ زینت نہیں کہلات اوراگرکوئی منگتا پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہوتو وہ ہواکیلئے عیب نہیں کہلاتا (کیونکہ ہوامبصرنہیں)بلکہ اگر بغور دیکھیں تو اجسام کثیفہ میں بھی عموم نہیں کیونکہ حاجب بننے اورکثیف ہونے میں عموم وخصوص مطلق ہے ، چنانچہ جسم مثلث کا سایہ نہیں ہوتا خواہ کتانا ہی کثیف ہو نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں ، آیہ کریمہ "انطلقوا الٰی ظل ذی ثلٰث شعب لاظلیل ولا یغنی من اللھب"  (چلواس دھوئیں کے سائے کی طرف جس کی تین شاخیں ہیں نہ سایہ دے نہ لپٹ سے بچائے )میں مفسرین کرام نے اسی معنی کی طرف لطیف اشارہ بیان فرمایا ہے کما استنبطہ الامام العلامۃ السیوطی فی تفسیر الاکلیل فی استنباط التنزیل  (جیسا کہ امام علامہ سیوطی علیہ الرحمۃ نے تفسیر الاکلیل فی استنباط التنزیل میں اس کو مستنبط فرمایا ہے ۔

 

 (۱؂القرآن الکریم  ۶۷ /۵)

(۱؂ القرآن الکریم ۷۷ /۳۰و۳۱)

(۲؂ الاکلیل     فی استنباط التنزیل            تحت الآیۃ ۷۷ /۳۰و۳۱        مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ص۲۱۹)

 

اللھم !مگر شبہا دیدہ باشند کہ از شعلہ شمع باآنکہ نارجرمے لطیف ست سایہ سربرمے زند وبحکم عدم فارق دست بدامن اطلاق زدند ، وپے باصل کا رنبردہ کہ آنچہ مے بینند ظل دخان ست ، نہ سایہ نیّراں۔ یا اللہ !شاید انہوں نے رات کو دیکھا ہوگا کہ شعلہئ شمع سے سایہ پیداہوتاہے باوجودیکہ آگ جسم لطیف ہے اور اس سایہ کو آگ کا سایہ سمجھ کر بحکم عدم فارق  (بین الاجسام اللطیفہ) دامن اطلاق پر ہاتھ مارا اور حکم کلی لگا دیا اور اصل حقیقت نہ سمجھ سکے کہ یہ نظر آنے والا سایہ سایہ دخان ہے ، آگ کا سایہ نہیں۔

 

قولہ :   وگاہے ازابتدائے خلقت الخ ۔

 

قولہ :  کبھی ابتدائے آفرنیش سے الخ

 

اقول: ہمچنیں ست واطلاق دلائل مارا بسند ، ہر کہ ابدائے تخصیص کند مدعی اوست وبارثبوت برگردن او، شاید برعکس نفس الامر از دستیاری قوت واہمہ در آئنہ تخیل عزیز اں مرتسم شدہ باشد کہ بایں تنصیص عویص نافیان ظل رادراثبات نفی گونہ صعوبتے روئے خواہد نمود کہ تبیین دائمہ از تفریر مطلقہ عامہ مشکل تراست ، اما ندانستہ کہ ذہن سامع درہمچو مقام از سلب ناموقت جز بادامت سلب تبادرکند، وخلافش کہ خلاف ظاہر ست محتاج بہ دلیل باشد ، واظلا ل سحب راکہ علماء غیر دائم گفتہ اندازیں ہت ست کہ احادیث صحیحہ بہ سایہ کردن صحابہ کرام باردیہ خود شان ومیل اشجار بہ غصون آنہا برسر حضور سید الانس والجان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ناطق شدہ ، اینجا نیزاگر حدیثے معتمد بر ثبوت سایہ گواہی دہد آنگاہ از دوام سلب بہ سلب دوام نقل وعدول ، متصور ومعقول ، ورنہ از معرض قبول بمر احل معزول ، معہذا نورانیت جسم انور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بحمداللہ قاطع وساوس وقامع ہوا جس آمدہ ست، وباللہ التوفیق ۔

 

اقول:  یہی صحیح ہے اورہمارے لئے اطلاق دلائل دلیل کافی ہے ، جو شخص تخصیص کرتاہے وہ مدعی ہے اوربارثبوت اس کی گردن پر ، شاید نفس الامر کےخلاف قوت وبہمیہ کی مدد سے ان کے آئینہ تخیل میں یہ بات آئی ہوگی کہ اس مطالبہ  تنصیص سے نافیان ظل کے لئے اثبات نفی میں بہت مشکلات پیش آئیں گی کیونکہ دائمہ کا اثبات مطلقہ عامہ کے اثبات سے بہت زیادہ مشکل ہے مگر وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ سامع کا ذہن ایسے مقامات میں سلب غیر موقت سے سلب دوامی چھوڑ کر کسی بھی اورشے کی طرف متوجہ نیں ہوا اوراس کا خلاف جو خلاف ظاہر ہے وہی محتاج دلیل ہے ۔ اور(آپ پر)بادلوں کے سایہ کو علماء نے اس لئے غیر دائمی فرمایا کہ صحابہ کرام کا چادر وں سے اوردرختوں کا اپنی شاخین جھکا کر سایہ کرنا سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سر انور پر ، احادیث صحیحہ سے ثابت ہوچکا ہے ، اگراس مسئلہ میں بھی کوئی معتمد حدیث گواہی دے تو اس وقت دوام سلب سے سلب دوام کی طرف عدول متصو ومعقول ہوگا ورنہ معرض قبول سے کوسوں دور، اور اس کے ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم انو رکی نورانیت بحمداللہ قاطع وساوس وقامع ہوا جس آئی ہے ،وباللہ التوفیق۔

 

قولہ :  ایں معجزہ درکابیکہ لائق اعتماد باشد الخ ۔

 

قولہ :  یہ معجزہ کسی ایسی کتاب میں جو لائق اعتماد ہو الخ۔

 

اقول : اے کاش آنکہ آفتاب نہ بیند بارے از انکار خامشی گزیند ، نہ آنکہ بربینندگان خرد شد ، یادربزم آناں نکتہ فروشد کہ سلامت درسکوت ست، ومجازف درانجام مبہوت ، مگر تصانیف ائمہ ممدوحین اعتماد رانشاید ، یا درجلوہ گاہ مہر وماہ شمع وچراغے دگر باید۔

 

اقول : افسوس !جس کو سورج نظر نہیں آتا وہ انکار سے صبر وخاموشی اختیار کرتا ، نہ یہ کہ الٹا دیکھنے والوں پر شوروغل مچاتا یا ان کی بزم میں آکر نکتہ فروشی کرتا کیونکہ خاموشی میں سلامتی ہے اورجھوٹا آخر پریشان وناکام ہوتاہے ، کیا ائمہ کرام کی تصانیف قابل اعتماد نہیں یا پھر چاند سورج کی جلوہ گاہ میں کوئی اوردیے جلانا چاہتے ہو؟

 

قولہ :  اہل سند واسناد آنرا بسند صحیح ۔

 

قولہ :  اہل سند واسناد نے اس کو بسند صحیح الخ۔

 

اقول :  ساعتے باش کہ از حال مطالبہ صحت سخن گفتن داریم ، وایں کہ ہم برصحت سند پائے خامہ شکستہ است ، مگر برشذوذ وعلت راہ جرح وقدح بستہ است، ورنہ قید اسناد ، علی خلاف المراد ، ازچہ روگوارا افتاد۔

 

اقول :  کچھ دیر ٹھہریں کہ مطالبہئ صحت کے بارے اور صحت سند پر جو قلم کی ٹانگ توڑدی ، کے متعلق ہم بات کریں ۔ شاید شذوذ وعلت پر جرح وقدح کا راستہ بند ہوچکا ہے ورنہ برخلاف مراد قید اسناد کیسے گوارا ہوئی ؟

 

قولہ :  درکتب صحاح وسنن کہ مروج است۔

 

قولہ :  کتب صحاح وسنن میں جو مروجہ ہیں الخ

 

اقول :  کاش روزے چند خدمت علماء ومطالعہ کلمات طیبات ایشاں روزی شدے ، کہ درمجارئی کلام بہ مدارج مرام تمیز مقام بدست آمدے ، مقدمہ ثانیہ تحریر ثانی ازدیاد دادہ وبرباد رفتہ مباداوازا ں ہم صریح تربشنو جلالت شان، ورفعت مکان ، حضرت امام خاتم الحفاظ سیدنا جلال الملۃ والدین سیوطی قدس سرہ العزیز علی الخصوص درفن شریف حدیث تابہ حدے واضح وجلی ست کہ معلوم ہر صبی ، ومفہوم ہر غبی ست۔

 

اقول :  کاش تمہیں چند روز خدمت علماء کا موقع اوران کے کلمات کا مطالعہ نصیب ہوتا اور ان کے کلام ومقاصد کے مواردودرجات میں تمیز مقام حاصل ہوتی ۔ تحریر ثانی کا دوسرا مقدمہ بڑھا دیا، برباد نہ ہوبلکہ اس اسے بھی بہت زیادہ صریح سنئے ۔ حضرت امام خاتم الحفاظ جلال الملۃ والدین قد س سرہ العزیز کی جلالت شان اوررفعت مقام ، خصوصاً فن حدیث میں ایسی واضح ہے کہ ہر صبی وغبی کی بھی جانی پہچانی ہے ۔

 

امام علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ در شفاء شریف حد یثے نقل فرمودکہ سیدنا امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ برحضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم چناں وچناں مے گریست ، واز فضائل پاکش کذا وکذا یاد مے کرد۱؂۔

 

امام قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی نے شفاء شریف میں ایک حدیث نقل کی کہ سیدنا امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر اس طرح روتے اورفضائل وخصائص بیان کرتے۔

 

 (۱؂ الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی القسم الاول الباب الاول الفصل الرابع دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۶)

 

امام ممدوح المقام ، اعلی اللہ درجاتہ فی دارالسلام ، درتخریج احادیثش فرماید ، درکتب حدیث ازیں اثر ہیچ اثر ے نیست ، اما او راصاحب اقتباس الانوار وامام ابن الحاج درمدخل مفصل ومطول آوردہ اند ودرہمچو مقام ایں قدربہ سند ست کہ اینجا سخن از حلال وحرام نمیر ود۔

 

امام ممدوح المقام (جلال الدین سیوطی) اعلی اللہ درجاتہ فی دارالسلام ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں : کتب حدیث میں اس حدیث کے بارے میں کوئی نشان نہیں ہے ، البتہ صاحب اقتباس نے اورمدخل میں امام ابن الحاج  نے اس کو مفصل ذکر فرمایا ہے اوراس قسم کے مقامات میں اس قدر سند کے ساتھ حدیث کافی ہےکہ یہاں حلال وحرام کا مسئلہ نہیں ۔

 

علامہ خفاجی ایں معنٰی را از جناب رفعت قبایش نقل کردہ بمسند قبول وتقریر جائے مے دہد، حیث قال ، قال السیوطی فی تخریجہ: لم اجدہ فی شیئ من کتب الاثر لکن صاحب الاقتباس الانوار وابن الحاج فی مدخلہ ذکراہ فی ضمن حدیث طویل وکفٰی بذٰلک سند المثلہ فانہ لیس مما یتعلق بالاحکام۱؂۔

 

خفاجی اس کو حضرت امام سیوطی سے نقل کر کے مسند قبول وتقریر پر جگہ دیتے ہیں ، حدیث قال ، قال السیوطی فی تخریجہ (جہاں کہ امام سیوطی نے اپنی تخریج میں فرمایا ۔ت ) : میں نے اس کو کتب حدیث میں سے کسی میں نہ پایا لیکن صاحب اقتباس انوار اورمدخل میں ابن الحاج نے ایک طویل حدیث کے ضمن میں اس کاتذکرہ کیا ہے اورایسے مسائل کے لئے اتنی ہی سند کافی ہے کیونکہ اس کا تعلق احکام سے ہے ۔

 

 (۱؂نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض الباب الاول ، الفصل السابع ، مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۲۴۸)

 

عزیزا !چشم انصاف از رمد تعصب صاف بکشا، وشیوہ ائمہ دین ، پس از تصحیح عقیدت بین کہ دریں چنیں مسالک چگونہ راہ رفتہ اند، وکدامیں سیر پیش گرفتہ ، سپید میگویند کہ ازیں خبر درکتب الاثر لاخبر ولا اثر ، باز بر مجرد ذکر بعض اعتماد واستناد روامے دارند ، وحدیث راز پایہ تکمیل ساقط نمی پندارند، مگر پایہ نکتہ دانی ، وترک توانی ، ودروغ فلانی ، برتدقیق وتحقیق ، واحتیاط انیق ، ایں سادہ کرام ، وقادہ عظام ، نیز چربیدہ است، کہ سخن از کتب فن دامن پرچیدہ ، بردائرہ تنگ صحاح وسنن مروجہ محصور ومقصور گرویدہ است فالی اللہ المشتکٰی ممن یسمع فلا یسمع ویرٰی فلایرٰی ۔

 

عزیزا ! مرض تعصب سے تندرست چشم انصاف کھول اورعقیدہ درست کر کے ائمہ دین کا پاکیزہ شیوہ دیکھ کر ایسے مسالک میں کس طرح چلتے ہیں اورکیا طریقہ اختیار کرتے ہیں ، واضح طور پر کہتے کہ اس حدیث کے متعلق کتب حدیث میں نہ کوئی خبر ہے نہ نشان ، پھرصرف بعض کے ذکر کرنے پر اعتماد واستناد جائز رکھتے ہیں اور حدیث کو پایہ تکمیل سے ساقط گمان نہیں کرتے ، شاید اپنی نکتہ دانی ، ہوشیاری وپرہیزگاری کا مقام ان سادات کرام ، قائدین عظام کی تدقیق وتحقیق اوربہترین احتیاط پر بڑھا دیاکہ گفتگو نے اپنا دامن تمام کتب فن سے لپیٹ کر صحاح وسنن مروجہ کے دائرہ تنگ میں بند کردیا الی اللہ المشتکٰی (تواللہ تعالٰی ہی کی بارگاہ میں فریادہے ۔ت)

 

قولہ :  وآنچہ اہل سیر ومغازی بیان میکنند۔

 

قولہ :  اورجو اہل سیر ومغازی بیان کرتے ہیں الخ

 

اقول :  ہماناگوش عزیزاں گاہے بہ امثال ایںسخناں ازکلمات ائمہ والا شان آشناشدہ است وازمحال محاورہ ومجال مناظرئہ آناں بوئے نشنیدہ بے راہہ اسپ دوانیدن گرفت،ازخیبربصیرپرس،محل ایں کلام آنست کہ قصاص واعظین،وجہال مورخین،تودہ تو دہ حکایات بے سروپا،وافسانہائے فتنہ راتکثیراً للسواد،یاترویجاًللفساد،ورکتب خودشان مے آرند،وازمناقضہئ اصول،ومعارضہ نقول،باکے ندارند،گاہے افسانہ اوریاوداستان زلیخاوصہ زہرہ وتذکرہ شجرہ،بہ نہمے تقریرکنندوساحت عصمت حضرات رسالت،وجنودصمدیت،عیاذاًباللہ آلودہ عیبے کند،وگاہے حادثہ جمل وواقعہئ صفین،ومشاجرات صحابہ، ومحاورات امہات المومنین بہ نوعے وانمایندکہ معاذاللہ بہ تنقیص مقام واجب الاعظام یکے ازاناں پہلوزند،آنجاائمہ دین کہ خدائے ایشاں رابہرحمایت سنن ونکایت فتن برپاساختہ است،درمقام تفصیل زبان بہ تضعیف وتزییف آں اقوال سخیف میکشایند،ودرمحل اجمالی باعتماداصول،وصحاح نقول، پیوستن وازخوض خائفاں وکشاکش ایں وآں پاک برجستن مے فرمایند، کہ دع مایریبک الی مالایریبک۱؂

 

اقول :  غالباً عزیزوں کے کان ایسی باتوں سے تو آشنا ہوئے مگر ائمہ عالیشان کے مکالمات اورجوابی کلمات سے کچھ نہ سنا اور بے راہ گھوڑا دوڑایا، کسی دانابینا سے پوچھ ، دراصل بات یہ ہے کہ قصہ گوواعظوں اورجاہل مورخوں نے مجمع بڑھانے اورفساد پھیلانے کے لئے اپنی کتابوں میں بے سروپا حکایات اورفتنہ انگیز افسانے درج کردئے، اصول شکنی اورمنقولات کی خلاف ورزی سے کچھ خوف نہ کیا، کبھی اوریاکا افسانہ ، زلیخا کی داستان ، زہرہ کا قصہ اورشجرہ کا تذکرہ اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ معاذاللہ عصمت انبیاء کرام ودیگر معصومین کو عیب آلود کرتے ہیں اورکبھی جنگ جمل کا حادثہ ، صفین کا واقعہ ،صحابہ کرام کا اختلاف اورامہات المومنین کا باہمی مکالمہ ایسے طریقہ سے نمایاں کرتے ہیں کہ معاذاللہ ان نفوس قدسیہ کے مقام واجب الاحترام کی تنقیص کا پہلو نمایاں ہوتاہے ، اسی وجہ سے ائمہ دین ،جن کو اللہ تعالٰی نے سنن کی حمایت ونگرانی اورفساد وفتن کے محودسرکوبی کا عظیم منصب عطافرمایا ہے ، مقام تفصیل میں ان ناشائستہ اقوال کا ضعف وعیب ثابت کرتے ہیں اورمحل اجمال میں اصول اورمنقولات صحیحہ کو مضبوط پکڑنے اورغیر ذمہ دار نکتہ چینوں کی من گھڑت حکایات حکایات سے اجتناب کا حکم فرماتے ہیں کہ دع ما یریبک الی ما یریبک  (جوتیرے کھٹکے اس کو چھوڑ دے اورجو نہ کھٹکے اس کو اختیار کرلے ۔)

 

 (۱؂ صحیح البخاری کتاب البیوع باب تفسیرالمشبہات قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱ /۲۷۵)

 

واینہاکہ میگویم ہمبرسبیلِ مدارتِ عزیزاں وارخائے عنانِ کَلْ میکندورنہ خودچہ میگوئی ازمسئلہ کہ تن تنہاہمیں قسم مردماں بہ ذکرش انفرادوارندبہ طرقِ عدیدہ مروی آمدہ،وچندائمہ آنراہ تخریج کردہ،ناقدانِ فن سلفاًوخلفاًنہ کنارِسلّمناوآغوشِ صدقناگرفتہ، ودلیلے باہزارنصوصِ متکاثرہ براں قیام پذیرفتہ۔

 

اوریہ جوہم کہتے ہیں بطورِنرم روی واِرخائےعنان،خاموش کرانے کے لئے کافی ہے۔ورنہ تم اس مسئلہ کے متعلق کیاکہوگے جس کونہ صرف ایسے لوگ ہی اکیلے بیان کررہے ہیں بلکہ بہت سے طُرق واَسانید سے مروی ہے،کئی اماموںنے تخریج فرمایاہے اورسلفاًوخلفاًناقدینِ فن نے تسلیم کیاہے اورتصدیق فرمائی ہے اوراس پرنصوصِ کچیرہ سے واضح اورمضبوط دلیل قائم ہوئی۔

 

مع ہذاحاشاکہ امثال مواہب،وکتاب الشفاء،ودلائل النبوہ،وتحقیق النضرہ،وخصائص خیفری،وروض سہیلی ، وخلاصۃالوفاء ، وخصائصِ کبرٰی،وسیرت شامی،وسیرت حلبی وغیرہاکتبِ ائمہ دین رحمۃاللہ تعالےٰ علیہم اجمعین کہ درخصائص وفضائل وسِیَروشمائل حضورپُرنورصلوات اللہ تعالٰی وسلامہ، علیہ تصنیف کردہ اند،درسلکِ ایں چُنیں کتب منخرط،ونزدِمحدثین ازپایہ اعتبارساقط باشد۔

 

پھرمع ہذاخداکی پناہ!کہ کتاب مواہب،شفاء،دلائل النبوہ،تحقیق النضرہ،خصائص خیفری،روض سہیلی، خلاصۃالوفاء، خصائص کبرٰی،سیرتِ شامی،سیرتِ حلبی ایسی کتابیںودیگرتصانیفِ ائمہئ دین رحمہم اللہ تعالےٰ،اس قسم کی غیرمعتبرکتابوں میں شمار ہوں اورمحدثین کے نزدیک بے اعتمادوبے اعتبارہوں۔

 

ایناں کہ خداسعیِ اینہامشکور وجزاءِ آناں موفورگرداند،چہ عمرہاکہ درتنقیح وتنقید،وتصحیح وتسوید،برسَربردہ اند ، وچہ شبہاکہ درتنظیف وترصیف،تا لیف ونصنیف،دُودِچراغ وخون جگرنخوردہ،وہم ایشانندکہ بہ قضیّہ لاعبرۃبماقال المؤرخون لب کشادہ اند۔

 

ان حضرات(اللہ ان کی کوشش کوسعیِ مشکوراورجزاء کوجزائے کامل بنائے)نے کیسی عمریں تنقیح وتنقیداورتصحیح وتسویدمیں گزار دیں اورکتنی بے شمارراتیں کتبِ سیرتِ طیّبہ کی تنظیف وترصیف اورتالیف وتصنیف میں دُودِچراغ اورخونِ جگرنہ پیا،یہی حضرات گرامی شان ہیں جنہوں نے لاعبرۃبماقال المؤرخون  (مؤرخون کے قول کاکوئی اعتبارنہیں)کاحکم صادرفرمایاہے۔

 

اگرمقصوداطلاق است،چنانکہ خاطرِعزیزاں بدان مشتاق ست،یارب،مگرمحنت ایناں یکدست بربادرفتہ باشد،وایں ہمہ کاوکاوجانکاہ رنگے ندادہ آبے نہ گرفتہ،علٰی ہذاایشاں راچہ روئے نمودکہ باوجودنابہبودوانعدام سودایں ہمہ وقت رائیگاں کردند، وآں حاصل بیحاصل وطائل لاطائل راثمرہ اوقات،ونخبہ حسنات شمردند۔

 

اگرمقصوداطلاق ہے جیساکہ عزیزوں کادل اسی کامشتاق ہے،یارب!پھرتوشائدان کی ساری محبت بر باد وضائع ہوگئی اور یہ تمام جانگداز کو ششیں کوئی رنگ لائیں نہ کوئی عزت پاسکیں ۔ پھر ان ائمہ کرام کو کیا نظر آیا کہ یہ سارا وقت بے سود ضائع کردیا اور اس بے فائدہ چیز کو اپنے اوقات کا ثمر ہ اور حسنات کا نتیجہ شمار کر بیٹھے ۔

 

مگر سخن آنست کوچوں روئے سلمے ندیدہ ، وبوئے سلمے نشنیدہ ، آخر درحسن سلمی چانہ بے جا مزن واللہ الھادی لقمع الفساد و قلع الفتن ۔

 

در اصل با ت یہ ہے کہ جب تو نے رخ محبوب دیکھا ہی نہیں ، خوشبوئے حبیب پائی ہی نہیں تو تو حسن محبوب کے متعلق بیہود ہ گوئی مت کرو واللہ الھادی لقمع الفساد وقلع الفتن  ( اور اللہ تعالی ہی ہدایت دینے والا ہے فتنوں اور فساد کے خاتمہ کی)

 

قولہ :  پس ہرکر ااز اہل علم ثبوت آں ازروئے سند صحیح الخ۔

 

قولہ : پس اہل علم کے لئے چاہے کہ اس کا ثبوت از روئے سند صحیح الخ ۔

 

اقول :  پیش از جواب سوال شما چند بجناب شماد ارم ہر کہ داند خود بگوید لتبیننہ للناس و لاتکتمونہ ۱؎ ورنہ از دانندگان پر سد کہ

 

فاسئلوااھل الذکر ان کنتم لاتعلمون ۔ ۲؎ اقول :  تمہارے سوال کے جواب سے پہلے ہم چند سوال پیش کرتے ہیں ، صاحب علم خود جواب دیں۔ لتبیننہ للناس ولاتکتمونہ  (کہ تم ضرور اسے لوگو ں سے بیان کردینا اور نہ چھپانا ) اور بے علم اہل علم سے استفادہ کریں فاسئلوا اھل الذکر ان کتنم لاتعلمون  (تو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو )

 

 (۱؂  القرآن الکریم ۳/ ۱۸۷)

(۲؂  القرآن الکریم     ۱۶ /۴۳و۲۱/۷)

 

(۱) زید ہندہ رابشہادت دو مرد فا سق بزنی گرفت ، صباح نکاح خلوت ناکردہ ، ترک زن میگوید ، ونیمہ مہر دادن نمے خواہد ، کہ نکاح مرا شہود عدول مے بایست ۔

 

سوال (۱) دو گواہوں کے سامنے زید نے ہندہ کے ساتھ نکاح کیا اور صبح خلوت سے پہلے ہی اسکو چھوڑدیا اور نصف مہر بھی نہیں دینا چاہتا ، کہتا ہے کہ میرے نکاح کے لئے گواہ عادل چاہئے ۔

 

 (۲) یوم غیم مردے بہ رویت ہلال صوم گواہی داد ، صبحدم زید قلیان بد ست و پان در ودہان بر آمد ، کہ مرا لا اقل شہادت دو مرد باید ۔

 

 (۲) مطلع ابر آلود تھا ایک مرد نے روزہ کے چاند دیکھنے کی گواہی دی ، صبح کے وقت زید ہاتھ میں حقہ ،منہ میں پان ڈال کر باہر آیا کہ مجھے ایک مرد کی گواہی کافی نہیں دو مردو ں کی شہادت چاہے ۔

 

 (۳) عمر و زید دعوے مالے کرد ، وبشہادت دوعدل اثبات نمود ، زید گوید نپذیرم تا چار گواہ نباشند۔

 

 (۳) عمر و نے زید پر کچھ مال کا دعوی کردیا اور دوعادل گواہوں کی شہادت سے ثابت بھی کردیا مگر زید کہتا ہے جب تک چار گواہ نہ ہوں میں قبول نہیں کرتا ۔

 

 (۴) گواہاں در امثال ونکاح شہادت بر تسامع دادند ، زید گفت مرا شہود معائنہ درکار ست ۔

 

 (۴) گواہوں نے وقف اور نکاح ایسے امور کے متعلق شنید پر گواہی دی ، زید کہتا ہے مجھے عینی گواہ چاہے ۔

 

 (۵) بکر برادرِ زید مرد ، زنش نازنین ازو دخترے دارد شیریں ، زید مے خواہد کہ شیریں را عروس خانہ خود نماید ، نازنیں گفت ستمگار اآخر از خدا شرمے کہ بر ادر زادہ تست ، زید مے گوید مرا چہ داناند کہ قالب شیریں ہم از نطفہ بکر تخمیر یافتہ ست ، آخر ہر دعوی را بینہ لازم ، اینجاگواہ کہ بینہ کدام ؟ نازنین گفت بر بستر بر ادرت زائید الولد للفراش ۱؎گفت آحادم نمے شاید ، حدیثے متواتر باید ۔

 

 (۵) زید کا بھائی بکر فوت ہوگیا ، اس کی زوجہ مسماۃ نازنین کے بطن سے اس کی ایک لڑکی مسماۃ شیریں تھی، زید شیریں کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہے ۔ نازنین کے کہا ظالم ! خدا سے شرم کر یہ تیری بھتیجی ہے ۔ زید کہتا ہے مجھے کیا علم کہ شیریں کا بد ن میرے بھائی بکر کے نطفہ سے پیدا ہوا ہے ، آخر دعوی کے لئے گواہ لازم ہیں اور یہاں کوئی گواہ نہیں، نازنین نے کہا تیرے بھائی کے بستر پر پیدا ہوئی ہے الولد للفراش ( بچہ فراش کے لئے ہے ) اس نے کہا یہ خبر واحد ہے مجھے خبر متواتر چاہے۔

 

 (۱؂ صحیح البخاری کتاب الخصومات باب دعوی الوصی للمیت قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۲۶)

(صحیح مسلم کتاب الرضاع باب الولد للفراش قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۷۰)

(جامع الترمذی ابواب الرضاع باب الولد للفراش امین کمپنی دہلی ۱ /۱۳۸ )

(سنن ابی داؤد ،کتاب الطلاق باب الولد للفراش آفتاب عالم یرس لاہور   ۱ /۳۱۰)

 

(۶) سعید بامردماں نماز میکر د ، زید اقتداء ناکردہ برمے گر دد ، کہ اوہمیں تنہا وضو کردہ است ، ومن امامے خواہم کہ از ہر حدیث غسل آرد۔

 

 (۶) سعید نے باجماعت نماز ادا کی مگر زید نے اقتداء نہ کی اور یہ کہتا ہوا باہر نکل گیا کہ اس امام نے صرف وضو کیا ہے ، مجھے وہ امام چاہے جو ہر حدث سے غسل کرے ۔

 

 (۷)بر زیدا ز خواص آیات معینہ وفضائل صور مخصوصہ احادیث صحاح خواندند کہ ببیں چناں چمنے ست شاداب وگلشنے با آب وتاب گفت بخارے نیر زد تا بخاری نیار د یامسلم ندانم تادر مسلم نخوانم ۔

 

 (۷) مخصوص آیات کے خواص اور خاص سورتوں کے فضائل زید کو احادیث صحیحہ سے سنائے گئے کہ دیکھ یہ کیسا تر و تا زہ چمنستان اور خوبصورت گلستان ہے ۔ اس نے کہا ایک کانٹے برابر نہیں جب تک بخاری نہ لائے یا میں نہیں مانتا جب تک میں مسلم میں نہ پڑھ لوں۔

 

 (۸) زید را گفتند مالک عن نافع عن ابن عمر گفت بہ ہیچ نخرم کہ معنعن ست نہ متصل بسماع ۔

 

 (۸) بطور حوالہ زید کو سند مالک عن نافع عن ابن عمر سنائی گئی ، اس نے کہا میں سند معنعن پر اعتمادنہیں کرتا سند متصل بہ سماع ہونی چاہے ۔

 

 (۹) زید گوید مفتی اطراف ریاست فلانی را اجازت مداخلت درمعارک شریعت کہ داد ، گفتہ شد علمے دارند و خیلے بزرگو ارند ، گفت مردماں چنیں وچناں گویند ، اما فقیر ایں سخن را در کتا بے کہ لائق اعتماد باشد واہل اسنا دآں رابہ بہ سند صحیح بیان کردہ باشند ، ندیدہ و نہ در صحاح وسنن مروجہ از کسے شنیدہ ، وآنچہ اہل صدی سیزدہم بمجرد دعوے بر زبان آرند اعتماد آں چنانچہ اہل حدیث راست معلوم ۔

 

 (۹) زید کہتا ہے کہ فلاں ریاست کے مفتی کو مسائل شرعیہ میں فتوی دینے کی کس نے اجازت دی ہے ؟ کہاگیا کہ بہت بڑے عالم میں ۔ اس نے کہا لوگ ایسی ویسی باتیں کرتے ہیں مگر فقیر نے اس بات کو کسی کتاب میں جو لائق اعتماد ہوا ور اہل اسناد نے اس کو بہ سند صحیح بیان کیا ہو ، نہیں دیکھا اور نہ صحاح وسنن مروجہ میں کسی سے سنا اور جو کچھ تیرھویں صدی کے لوگ صرف زبانی دعوٰی کرتے ہیں ، اس کا اعتماد جس طر ح اہل حدیث کو ہے معلوم ہی ہے ۔

 

(۱۰) ازمناقب رجال وفضائلِ اعمال ہزاردرہزاراحادیث حِسان وصوالح برزیدخواندندشوخ چشم گوید بے صحت اسناد خرط القتاد۔

 

 (۱۰) مناقب وفضائل کے متعلق ہزاروں حدیثیں حسن وصالح زید کو سنائی گئیں ، وہ شوخ چشم کہتا ہے کہ صحت اسناد کے سوا خرط القتاد ہے (یعنی بے سود اور نقصان دہ ہے )

 

دریں صُوَردہ گانہ ازحضراتِ علماءِ ایدھم اللہ تعالٰی بالفوزالمبین،استفتاء میروکہ دریںہرہمہ صورزیدنزدشرعِ مطہّربرخطاوایں چنیں مطالبہ ومواخذہ اش محض فضول وبیجاست یانہ؟بَیّنُواتُوجَروا۔

 

ان دس۱۰صورتوں کے بارے میں علمائے کرام(اللہ تعالٰی ان کی روشن کامیابی سے مددفرمائے)سے فتوٰی مطلوب کہ ان تمام صورتوں میں زیدشرعِ مطہّرکے نزدیک غلطی پرہے یانہیں اوراس کے مطالبات ومواخذات بے جاوفضول ہیں یانہیں؟بیان فرماؤاجرپاؤگے۔

 

حالیااگرازخدمتِ علماء فرمان رسدکہ زیدفضولی میکند،وبرشرع مے افزاید،نہ جوازنکاح راعدالت شہوددرکار،نہ دریوم غیم تعدّدنظار،نہ درمعاملہ مال بیش ازدوگواہ،نہ دروقف ونکاح شہادت نگاہ،فراش مثبت نسب فرزند،ودرحلال حرام آحادبسند،و ازہرحدث غسل چہ ضرور،وقبول درصحیحین غیرمحصور،مالک ونافع ازتدلیس بری،پس عنعنہ ایشاں چوں سماع جلی،حدیث درعلم فلانی نیایدومناقب وفضائل راصحت نیایدیازیداہ ایں چہ ہرچہ زہ چانگی وجوشِ دیوانگی ست کہ ہرجاخواستنی مے خواہی،وبرقدرِمطلوب افزائی ایں مطالبہ ہائے ازپیشِ خودتراشیدہ ات،زنہارناپذیرفتنی،وبے چارہ مطالبان ازتجشم اتباعِ ہوایت غنی۔  تم الجواب واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

 

فی الحال اگرعلمائے کرام کی طرف سے حکم ملے کہ زیدزیادتی کرتاہے،شریعت پرتجاوزکرتاہے،جوازِنکاح کے لئے عدالتِ شہودضروری نہیں۔بادل ہوںتوایک سے زیادہ گواہ لازم نہیں۔مالی معاملہ میں دو۲سے زیادہ گواہوں کامطالبہ درست نہیں۔ وقف ونکاح میں شہادتِ عینی کالزوم بھی نہیں۔فراش ثبوتِ نسب کے لئے کافی ہیں،اورحلال وحرام کے لئے آحادکافی ہیں۔ہرحدث سے غسل کیوں ضروری ہے؟صرف صحیحین کی احادیث میں قبول بندنہیں۔مالک ونافع تدلیس سے بَری ہیں لہٰذا اُن کااسنادِمعنعن سماعِ جلی کاحکم رکھتاہے۔فلاں کے علم ثابت کرنے کے لئے حدیث نہیں آتی۔مناقب وفضائل کے لئے حدیثِ صحیح کاموجودہوناضروری نہیں،پس اومُردہ دل زید! یہ کیامفت کابکواس اورجوشِ جنونی کہ توہرجگہ بے ضرورت دلیل مانگتاہے یاقدرِمطلوب سے زیادہ طلب کرتاہے۔تیرے یہ تمام مطالبات اپنے ہی مَن گھڑت اورنامقبول ہیں اورمجیبِ مطالب تیری خواہشات کے مطابق جواب کی مشقّت برداشت کرنے سے بے نیازہے۔  تم الجواب واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

 

عزیزا ! آنگاہ ازیں جواب ،جوابِ سوال خودت دریاب،کہ ایں طلب عزیزاں نیزبہ ہمیں طلبہاماندہ وایں ناگفتنی گفتن،وناجستنی جستن،روزے بروز زیدت نشاند۔

 

اے عزیز! اب اس جواب سے اپنے سوالوں کاجواب دریافت کرکہ ہی مطالبات انہی مطالبات کی مثل ہیں اورہی ناگفتنی باتیں اورنالائق طلب مطالبہ ایک دن تجھے زیدکی جگہ بٹھائے گا۔

 

سخنے پرسمت راست گووبہانہ مگیرتو وخدائے تودرکتب دیدہ یا ازعلماء شنیدہ کہ درہمچومحال وسیع المجال حسن وصلاح بکار نیاید،وغیرازصحت چیزے نشاید،ونقولِ علماء پائے ندارد،وقبول ائمہ بارے نیارد،ورنہ الزام غیرلازم،وردیقین جازم،چہ قیامت ذوق یافتہ کہ سرازہمہ تافتَہ ع

فان کنت لاتدری فتلک مصیبۃ

وان کنت تدری فالمصیبۃاعظم ۱؎

 

میں تم سے ایک بات پُوچھتاہوں،سچ کہنااوربہانہ نہ بنانا،کیاتم نے کتابوں میں دیکھایاعلماء سے سُناکہ ایسے وسیع تر مقامات میں حسن وصالح حدیث بیکارہے اورصحت کے سواکوئی چیزدرکارنہیں اورعلمائے کرام کے منقولات کاکوئی درجہ ومقام نہیں؟اورقبولِ ائمہ کچھ وزن نہیںرکھتا؟ورنہ غیرلازم کاالزام اوریقینِ جازم کارَد،کیامظلب؟عجیب ذوق ہے کہ سب کوٹھکرادیا۔

(ترجمہ شعر)''اگرتُونہیں جانتاتویہ ایک مصیبت ہے اوراگرتُوجانتاہے تومصیبت بہت بھاری ہے۔''

 

 (۱؎ نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل فی تفضیلہ بالمحبۃوالخلۃمرکزاہلسنت گجرات ہند۲ /۳۲۸)

 

وزنہاررندانی کہ ایں بال وپرے کہ مے فشانم از انت کہ حدیث راضعیف میدانم بلکہ برتصانیف امامِ حجت سیدناعبداللہ بن مبارک وقوف نیافتہ ام ورنہ گمان نہ آنچناں ست کہ مخالف راجائے شادی باشد۔

 

اوریہ ہرگزنہ سمجھیں کہ میں نے اتنی تفصیلی گفتگواس لئے کی ہے کہ حدیث کوضعیف جانتاہوں بلکہ امامِ حجت سیّدناعبداللہ بن مبارک کی تصانیف سے واقف نہیں ہوں ورنہ اس طرح گمان نہیں کہ مخالف خوش ہو۔

 

سیدی عبداللہ از اعاظم ائمہ وتبع تابعین است ، غالب مشائخ ورجالش ہمیں تا بعین وصحابہ باشند ، یا تبع کہ باایشاں در خور و آزمودن احوال شاں کرد ، ودراں زماں چنانکہ دانی غالب عدالت بو د ، ولہذا استا ذش سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بہ اصالت عدالت قائل شدہ است ، وخود ایں ناقدین کہ تلقی بالقبول کر دہ اند مگر بدمی بری کہ نا دیدہ راہ رفتہ اند ۔

 

 سید ی حضرت عبداللہ بن مبارک عظیم ترین اماموں اور تبع تابعین سے ہیں ، ان کے اکثر مشائخ یہی تابعین وصحابہ ہیں یا تبع اور ان کے کوائف وحالات کی اچھی طرح جانچ پڑتا ل کی ، اور جس طر ح کہ تم خود جانتے ہو اس زمانہ میں عدالت غالب تھی ، اسی وجہ سے ان کے استا د سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اصل عدالت کے قائل ہیں اور خود ناقدین نے تلقی بالقبول کی ہے اور ان کا یہ تلقی بالقبول کا اقدام پوری دیا نتداری اور کامل انشراح صدر کے ساتھ ہے ، اندھی تقلید نہیں ہے ۔

 

جان برادر ! تو وایمان تو ایں ہمہ ائمہ اولی الا ید ی والابصار کہ یک زبان بر نفی ظل گواہی دہند ، پناہم بخدائے اگر سخن یکے ازیناں یا امثال ایناں بر طبق مزعوم خود ت یا بی چہ غلغلہا کہ نکنی وکلہ بر آسماں افگنی وبر خویشتن بالی وپیش ہر کسے نالی کہ ہے انچہ ستم ست، امامے چناں از نفی ظل بر کراں وفلانے تن نمی دہد، وگوش نمی نہد ، حالیاکہ ستم از تست خدارا دمے نصاف دہ وکلاہ غروررا از سرہنہ ، کہ چرا راہ ایشاں نمی سپر ی ، واز اتفاق دامن کشاں میگذری ، حدیث خواہی ؟ حدیث حاضر ، نقول جوئی ؟ نقول ظاہر ، دلیل طلبی ؟ دلیل موجود ، نقیض جوئی؟ نقیض مفقود ، باز کدامیں سنگ در رہ ، وکبک در موزہ است کہ جائے تسلیم سبزمے بینم ، وروئے خلاف سر خ ، وچہرہ انصاف زرد ، وجبین قر طا س زنا گفتنیہا سیاہ ، عیاذم بخدائے مگر آنکہ مصطفے را صلی اللہ تعالی علیہ وسلم از نور خود ش آفرید ، ومہر نیم روز و ماہ نیم ماہ را کینہ گدائے سرکار ش گر د انید ، نتواند کہ سر و جانفزائے مارا بے سایہ پرورد ، و شاخ گلے کہ ہزار چمنستان جاں فدائے ہر رگ و بر گ او باد ، از گل ز مین لطا فت ، بر جو ئبارنظافت ، پاک از ہمہ کثافت سر براورد ۔

 

جان برادر ! یہ جو تمام ائمہ کرام بیک زبان نفی ظل کی گواہی دیتے ہیں ، اگر ان میں یا ان کے ہمسر ائمہ سے کوئی بات تو اپنے مزعومہ کے مطابق پاتا تو وہ کون سا شور جو بر پا نہ کرتا ، کلہ آسمان پرچڑھاتا اور پھولانہ سماتا ، ہر ایک کے آگے آہ وزاری کرتا کہ ہائے یہ کیا ظلم ہے ، ایسا امام نفی ظل کا قائل نہیں ، نہ اس کو قبول کرتا ہے نہ اس کی طر ف کان لگاتا ہے لہذا اس وقت ظلم تیری طر ف سے ہے ، خدا را انصاف کر اور تکبر کی ٹو پی سر سے اتا ر ، کیوں ان ائمہ کرام کی راہ پر نہیں چلتا اور اتفاق سے دور کیوں بھاگتا ہے حدیث مطلوب ہے تو حاضر ، اگر نقول چاہئیں تو نقول واضح ہیں ، دلیل کی طلب ہے تو دلیل موجود ، لیکن اگر نقیض کی خواہش ہے تو وہ معدوم ہے ۔ تو اب کون سا پتھر راستہ میں پڑا ہے ،کیوں تسلیم کا مقام خالی دیکھتا ہوں ، خلاف کا چہرہ خوش ، انصاف کا چہرہ شرم وحیاء سے زرد ، اور کا غذ کی پیشانی شرمناک باتوں سے سیاہ ، خدا کی پناہ!لیکن قادر مطلق جل وعلا جس نے مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اپنے نور خاص سے پیدا فرمایا اور خور شید در خشانندہ وبد ر درخشندہ کو ان کی سرکار کا ادنی گداگر بنایا ، کیا وہ یہ نہیں کر سکتا کہ ہمارے سر وِ جانفزا کو بغیر سایہ کے پرورش فرمائے اور وہ شاخ گل جس کے ہر رگ وبرگ پر ہزاروں چمنستان قربان ہوں ، پاکیزگی کہ نہر پر گل زمین لطافت سے ، ہر قسم کی کثافت سے پاک پیدا ہو۔

 

وصلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ قد رحسنہ وجمالہ وجاھہ وجلالہ وجودہ ونوالہ وعزہ و کمالہ ونعمہ وافضالہ ورشدہ فی افعالہ وجہد ہ فی اعمالہ وصدقہ فی اقوالہ وحسن جمیع خصالہ ومحمودیۃ فعالہ وعلینا معشرالملتثمین لنعالہ والمتعلقین باذیالہ امین الہ الحق امین !

 

اور دورد نازل فرمائے اللہ تعالی آپ پر اور آپ کی آل پر جس قدر آپ کا حسن ، جمال ، مرتبہ ، بزرگی ، فیاضی ، عطا ، عزت ، کمال ، نعمتیں ، نواز ش ، افعال میں رشد ، اعمال میں محنت ، اقوال میں سچائی ، تمام خصلتوں میں حسن اور عادات میں پسندیدگی ہے ، اور ہم پر بھی جو آپ کے نعلین مبارک کو بوسہ دینے والے اور آپ کے دامن کو تھامنے والے ہیں ۔ اے معبود بر حق ہماری دعا کو قبول فرما۔

 

این ست سطر ے چند کہ با عموم غموم ، وہجوم ہموم ، وتراکم امراض وتلاطم اعراض ، بر نہجے کہ خدائے خواست ، درد و جلسہ گیسوآراست ، من فقیرمی خواستم کہ زلف سخن راشانہ د گر کشم ، اما چہ کنم کہ دریں کوردہ از وطن دور ، واز کتب مہجور افتا دہ ام ، ایں جاجز ء شفاء ونسیم الریاض،مطالع المسر ت وبعض کتب فقہ ہیچک بد ستم نیست ، ورنہ اولی الانظار دیدندے آنچہ دیدندے ۔

 

یہ چند سطر یح جس طر ح خدانے چاہا ، غم واندوہ کے اجتماع اور امراض وعوارض کے ازدحام کے با وجود دو جلسوں میں تحریرکی گئیں ، دل چاہتا ہے کہ زلف سخن دوسری کنگھی سے سنواروں ، مگر کیا کروں اس اندھی بستی میں وطن سے دور ہوں ، کتابیں پاس نہیں ، یہاں سوائے شفاء نسیم الریاض ، مطالع المسرات اور بعض کتب فقہ کے کوئی کتاب موجود نہیں ، ورنہ آنکھ والے دیکھتے جو دیکھتے ۔

 

ولکن من یرد اللہ خیرہ یشرح بھذالقدر صدرہ وماذلک علی اللہ بعزیز ان ذلک علی اللہ یسیر، ان اللہ علی کل شی قدیر ، وکان ذلک لمنتصف جمادی الاخری عام تسع وتسعین بعد الالف والمائتین ۔

 

لیکن اللہ تعالی جس کی بھلائی کا ارادہ فرمائے اسی قدر سے اس کا سینہ کھول دے ، اور اللہ تعالی پر یہ کوئی مشکل نہیں ، بے شک اللہ تعالی کے لئے یہ آسان ہے ، بے شک اللہ تعالی ہر شے پر قادر ہے ۔یہ نصف جمادی الاخری ۱۲۹۹ ھ کو مکمل ہوا ۔(ت)

 

رسالہ

ھدی الحیران فی نفی الفی عن سیدالاکوان

ختم ہوا۔

 

اللہ کے فضل وکرم سے ۲۵ رجب المرجب ۱۴۲۹ ھ

بروز منگل بوقت ۳ بجکر ۳۰ منٹ  یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ گیا

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post