Shariat ke Ehkam RasoolULLAH ke hath me hain | Risala Muniyatul Labeeb by AalaHazrat

 

(رسالہ ضمنی )

منیۃ اللبیب ان التشریح بید الحبیب (۱۳۱۱ھ)

(عقلمند کا مقصد کہ بے شک احکام شرع حبیب اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اختیار میں ہیں)

احادیث تحریم حرم مدینہ بحکم احکم حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :

 

حدیث ۱۳۰ : صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے عرض کی: اللھم ان ابراھیم حرم مکۃ وانی احرم مابین لابتیہا ۔ ھما واحمد ۱؂والطحاوی فی شرح معانی الاٰثار عن انس رضی اللہ عنہ ۔ الہٰی! بیشک ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے مکہ معظمہ کو حرم کردیا اورمیں دونوں سنگستان مدینہ طیبہ کے درمیان جو کچھ ہے اسے حرم بناتاہوں ۔ (بخاری ، مسلم اوراحمد اور طحاوی نے شرح معانی الآثار میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب الانبیاء باب یزفون النسلان قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۷۷)

( صحیح البخاری، کتاب المغازی غزوہ احد قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۵۸۵)

(صحیح البخاری ، کتاب الاعتصام باب ماذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۰۹۰)

(صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱ /۴۴۱)

(مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت  ۳ /۱۴۹)

(شرح المعانی الآثار کتاب الصید باب صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۳۴۲)

 

حدیث ۱۳۱: نیز صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ان ابرھیم حرم مکۃ ودعا لاھلھا وانی حرمت المدینۃ کما حرم ابراھیم مکۃ وانی دعوت فی صاعھا ومدھا بمثلَی مادعا ابراھیم لاھل مکۃ۔ ھم ۱؂جمیعا عن عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ بیشک ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے مکہ معظمہ کو حرم بنادیا اوراس کے ساکنوں کے لیے دعافرمائی ، اوربیشک میں نے مدینہ طیبہ کو حرم کردیا جس طرح انہوں نے مکے کو حرم کیا اورمیں نے اس کے پیمانوں میں اس سے دونی برکت کی دعا کی جو دعا انہوں نے اہل مکہ کے لیے کی تھی (ان سب نے عبداللہ ابن زید بن عاصم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

(۱؂صحیح البخاری کتاب البیوع باب برکۃ صاع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۸۶)

(صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ ودعا النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۰)

(مسندا حمد بن حنبل عن عبداللہ بن زید رضی ا للہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۴۰)

(شرح المعانی الآثار کتاب الصید باب صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۳۴۲)

 

حدیث ۱۳۲: نیز صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے عرض کی : الہٰی ! بیشک ابراہیم تیرے خلیل اورتیرے نبی ہیں اور تو نے ان کی زبان پر مکہ معظمہ کو حرام کیا اللھم وانا عبدک ونبیک وانی احرم مابین لابتیھا ۲؂۔ الہٰی ! اور میں تیرا بندہ اورتیرا نبی ہوں میں مدینہ طیبہ کی دونوں حدوں کے اندر ساری زمین کو حرم بناتاہوں ۔

 

 (۲؂صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ ودعا النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۲)

(سنن ابن ماجۃ ابواب المناسک باب فضل المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۳۲)

(کنز العمال حدیث ۳۴۸۸۲مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۲۴۵)

 

امام طحاوی نے اس کے قریب روایت کی اوریہ زائد کیا : ونھی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان یعضد شجرھا اویخبط اویؤخذ طیرھا ۳؂۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ اس کا پیڑ کاٹیں یا پتے جھاڑیں یا اس کے پرندوں کو پکڑیں۔

 

 (۳؂شرح معانی الآثار کتاب الصید صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ۲ /۳۴۳ )

 

حدیث ۱۳۳: صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : انی احرم مابین لابتی المدینۃ ان یقطع عضاھھا او یقتل صیدھا ۔ ھو و احمد ۱؂والطحاوی عن سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ بیشک میں حرم بناتاہوں دوسنگلاخ مدینہ کے درمیان کو کہ اس کی ببولیں نہ کاٹی جائیں اور اس کا شکار نہ ماراجائے (مسلم اوراحمد اورطحاوی نے سعد بن ا بی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت )

 

(۱؂صحیح مسلم کتاب الحج باب فضائل المدینۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۰)

(مسندا حمد بن حنبل عن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۸۱)

(شرح معانی الآثار کتاب الصید صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۳۴۱)

 

حدیث ۱۳۴: نیز صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ان ابراھیم حرم مکۃ وانی احرم مابین لابتیھا ۔ ھو و الطحاوی ۲؂عن رافع بن خدیج رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ بیشک ابراہیم نے مکہ معظمہ کو حرم کردیا اورمیں مدینہ کے دونوں سنگلاخ کے درمیان کو حرم کرتاہوں (مسلم اورطحاوی نے رافع بن خدیج رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

(۲؂صحیح مسلم کتاب الحج باب فضائل المدینۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۰)

(شرح معانی الآثار کتاب الصید صید المدینۃ اچی ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۳۴۲)

 

حدیث ۱۳۵ : نیز صحیح مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عرض کرتے ہیں : اللھم ان ابراھیم حرم مکۃ فجعلھا حرماً وانی حرمت المدینۃ حرامًا مابین مازمیھا ان لایھر اق فیھا دم ولا یحمل سلاح لقتال ولا یخبط فیھا شجرۃ الا بعلف ۳؂۔ الہٰی! بیشک ابراہیم نے مکہ معظمہ کو حرام کر کے حرم بنادیا اور بیشک میں نے مدینہ کے دونوں کناروں میں جو کچھ ہے اسے حرم بناکرحرام کر دیا کہ اس میں کوئی خون نہ گرایا جائے نہ لڑائی کے لیے اسلحہ اٹھایا جائے نہ کسی پیڑ کے پتے جھاڑیں مگر جانور کو چارہ دینے کیلئے۔

 

 (۳؂صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱ /۴۴۳)

 

حدیث ۱۳۶: نیز صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عرض کرتے ہیں : اللھم انی قد حرمت مابین لابتیھا کما حرمت علی لسان ابراھیم الحرم ھو واحمد ۱؂ والرویانی عن ابی قتادۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ الہٰی ! بیشک میں نے تمام مدنیہ کو حرم کردیا جس طرح تو نے زبان ابراہیم پر حرم محترم کر حرم بنایا (مسلم ، احمد اوررویانی نےابی قتادہ رضی ا للہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت )

 

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۰تا۴۴۳)

( مسند احمد بن حنبل عن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۳۰۹)

(کنز العمال بحوالہ حم والرویانی عن ابی قتادہ رضی ا للہ عنہ حدیث ۳۴۶۸۷۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۲۴۴)

 

حدیث ۱۳۷: نیز صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ان ابراھیم حرم بیت اللہ وامنہ وانی حرمت المدینۃ مابین لابتیہا لایقطع عضا ھھا ولا یصادصیدھا ۔ ھو والطحاوی ۲؂عن جابر بن عبداللہ رضی ا للہ تعالٰی عنہما۔ بیشک ابراہیم نے بیت اللہ کو حرم بنادیا اورامن والا کردیا اورمیں نے مدینہ طیبہ کوحرم کیا کہ اس کے خار دار درخت بھی نہ کاٹے جائیں اور اس کے جانور شکار نہ کئے جائیں (مسلم اورطحاوی نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)

 

 (۲؂شرح معانی الآثار کتاب الصید صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۳۴۲)

(کنز العمال بحوالہ مسلم حدیث ۳۴۸۱۰ مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۲ /۲۳۲)

 

حدیث ۱۳۸: صحیحین میں ہے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: حرم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مابین لابتی المدینۃ وجعل اثنا عشر میلاًحول المدینۃ حمٰی ۔ ھما واحمد۳؂  وعبدالرزاق فی مصنفہ۔ تمام مدینہ طیبہ کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حرم کردیا اور اس کے آس پاس بارہ بارہ میل تک سبزہ ودرخت کو لوگوں کے تصرف سے اپنی حمایت میں لے لیا ۔ بخاری اورمسلم اورعبدالرزاق نے اپنی مصنف میں روایت کیا۔ت)

 

 (۳؂صحیح البخاری فضائل المدینۃ باب حرم المدینۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۵۱)

(صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۲)

(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۴۸۷)

 (المصنف لعبد الرزاق کتاب حرمۃ المدینۃ حدیث ۱۷۱۴۵ المجلس العلمی بیروت ۹ /۲۶۰و۲۶۱)

 

ابن جریرکی روایت یوں ہے :  حرم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شجرھا ان یعضد اویخبط ۔ رواہ عن خبیب ن الھذلی ۱؂ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کے پیڑکاٹنا یا ان کے پتے جھاڑنا حرام فرمایا ۔(اس کو خبیب ہذلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیاہے ۔ت)

 

حدیث ۱۳۹: صحیح مسلم شریف میں ہے رافع بن خدیج رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حرم مابین لابتی المدینۃ۔ ھو والطحاوی ۲؂فی معانی الاٰثار۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تمام مدینہ طیبہ کو حرم بنادیا۔ (مسلم اورطحاوی نے معانی الآثار میں روایت کیا ۔ ت )

 

(۲؂صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۰)

( شرح معانی الآثار کتاب الصید باب صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۳۴۲)

 

حدیث ۱۴۰: نیز صحیح مسلم ومعانی الآثار میں عاصم احول سے ہے : قلت لانس من مالک أحرم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم المدینۃ قال نعم الحدیث۳؂ ۔ زاد ابوجعفر فی روایۃ لایعضد شجرھا ۴؂ولمسلم فی اخرٰی نعم ھی حرام لایختلٰی خلاھا فمن فعل ذٰلک فعلیہ لعنۃ اللہ والملٰئکۃ والناس اجمعین۵؂۔ یعنی میں نے انس رضی ا للہ تعالٰی عنہ سے پوچھا، کیا مدینہ کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حرم بنادیا ؟ فرمایا : ہاں ، اس کا پیڑ نہ کاٹا جائے اس کی گھاس نہ چھیلی جائے ، جو ایسا کرے اس پرلعنت ہے اللہ اورفرشتوں اورآدمیوں سب کی ۔ والعیاذباللہ تعالٰی۔

 

 (۳؂صحیح مسلم کتاب الحج فضل المدینۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۱)

(۴؂  شرح معانی الآثار کتاب الصید باب صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۳۴۳)

(۵؂صحیح مسلم کتاب الحج   باب فضل المدینۃ الخ      قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ / ۴۴۱)

 

حدیث ۱۴۱: سنن ابی داود میں ہے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حرم ھذا الحرم۱؂۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس حرم محترم کو حرم بنادیا۔

 

 (۱؂سنن ابی داود کتاب المناسک باب فی تحریم المدینۃ آفتاب عالم پریس لاہور     ۱ /۲۷۸)

 

حدیث ۱۴۲: شرحبیل کہتے ہیں ہم مدینہ طیبہ میں کچھ جال لگا رہے تھے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ تشریف لائے جا ل پھینک دیے اورفرمایا:  تعلموا ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حرم صیدھا ۔ الامام ابو جعفر ۲؂فی شرح الطحاوی ۔ تمہیں خبر نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کا شکار حرام قراردیاہے ۔(امام ابو جعفر نے شرح طحاوی میں اس کو بیان کیا ہے۔ ت)

 

 (۲؂شرح معانی الآثار کتاب الصید صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ۲ /۳۴۲)

 

ابوبکر بن ابی شیبہ نے زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یوں روایت کی :  ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حرم مابین لابتیھا۳؂۔ بیشک نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مدینے کے دونوں سنگلاخ کے مابین کو حرم کردیا۔

 

حدیث ۱۴۳: ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حرم مابین لابتی المدینۃ ان یعضد شجرھا اویخبط۴؂۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تمام مدینے کو حرم بنادیا ہے کہ اس کے پیڑ نہ کاٹے جائیں نہ پتے جھاڑیں۔

 

 (۴؂ شرح معانی الآثار کتاب الصید صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ۲ /۳۴۲)

 

حدیث ۱۴۴: ابراہیم بن عبدالرحن بن عوف فرماتے ہیں میں نے ایک چڑیا پکڑی تھی اسے لئے ہوئے باہر گیا میرے والد ماجد حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ ملے شدت سے میر اکان مل کر چڑیا کو چھوڑدیا اورفرمایا : حرم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صید مابین لابتیھا۵؂۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مدینے کا شکار حرام فرمادیاہے ۔

 

(۵؂شرح معانی الآثار کتاب الصید صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۳۴۲)

 

حدیث۱۴۵: صعب بن جثامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حرم البقیع وقال لاحمٰی الا للہ ورسولہٖ۱؂۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بقیع کو حرم بنادیا اورفرمایا: چراگاہ کو کوئی اپنی حمایت میں نہیں لے سکتاسوا اللہ ورسول کے جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

 (۱؂شرح معانی الآثار باب احیاء الارض المیتۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی  ۲ /۱۷۵ )

 

روی الثلٰثۃ الا مام الطحاوی (تینوں احادیث امام طحاوی نے روایت کیں ۔ت)

 

یہ سولہ حدیثیں ہیں ، پہلی آٹھ میں خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے مدینہ طیبہ کو حرم کردیا، اورپچھلی آٹھ میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے کہا کہ حضور کے حرم کردینے سے مدینہ طیبہ حرم ہوگیا ، حالانکہ یہ صفت خاص اللہ عزوجل کی ہے ۔ پہلی آٹھ سے پانچ میں اپنے پدرکریم سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی طرف بھی یہی نسبت ارشادہوئی کہ مکہ معظمہ کی حرم محترم انہوں نے حرم کردی انہوں نے امن والی بنادی، حالانکہ خود ارشاد فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :   ان مکۃ حرمھا اللہ تعالٰی ولم یحرمھا الناس ۔البخاری والترمذی ۲؂  عن ابی شریح ن البغدادی رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ بیشک مکہ معظمہ کو اللہ تعالٰی نے حرم کیا ہے کسی آدمی نے نہ نہیں کیا۔ (بخاری اورترمذی نے ابی شریح بغدادی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

 (۲؂صحیح البخاری ابواب العمرۃ باب لایعضد شجر الحرم قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱ /۲۴۷)

(سنن الترمذی کتاب الحج حدیث ۸۰۹   دارالفکر بیروت   ۲ /۲۱۷)

 

یہ اسناد یں خاص ہمارے رسالے کی مقصود ہیں مگر یہاں جان وہابیت پر ایک آفت اورسخت وشدید تر ہے ، مدینہ طیبہ کے جنگل کا حرم ہونا نہ فقط انہیں سولہ بلکہ انکے سوا اوربہت احادیث کثیرہ وارد ہیں  ۔

 

حدیث ۱۷ صحیحین: انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :   المدینۃ حرم من کذا الی کذا لایقطع شجرھا ۔ ھما واحمد ۱؂ والطحاوی واللفظ للجامع الصحیح ۔ مدینہ یہاں سے یہاں تک حرم ہے اس کا پیڑ نہ کاٹا جائے ۔ امام بخاری اورمسلم اوراحمد اورطحاوی نے روایت کیااور لفظ جامع الصحیح کے ہیں۔ ت)

 

 (۱؂صحیح البخاری فضائل مدینہ باب حرمۃ المدینۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۵۱)

(صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی  ۱ /۴۴۱)

(کنز العمال بحوالہ حم وغیرہ حدیث ۳۴۸۰۴مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۲۳۱)

(مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۲۴۲)

 

حدیث۱۸صحیحین: ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : المدینۃ حرم الحدیث ھما ۲؂ والطحاوی  وابن جریر واللفظ للمسلم۔ مدینہ حرم ہے (بخاری ومسلم اورطحاوی اورابن جریر نے روایت کیااورلفظ مسلم کے ہیں ۔ت)

 

 (۲؂صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۲)

 

حدیث ۱۹صحیحین: مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم سے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : المدینۃ حرم مابین عیر الی کذا ولمسلم والطحاوی مابین عیر الی ثور الحدیث۳؂ زاد احمد وابو داود فی روایۃ لایختلی خلاھا ولاینفر صیدھا۴؂۔ مدینہ کوہ عیر سے جبل ثور تک حرم ہے ۔ احمداور ابو داود نے ایک روایت میں یہ اضافہ کیا کہ اس کی گھاس نہ کاٹی جائے اور اس کا شکار نہ بھڑکایاجائے ۔

 

(۳؂صحیح البخاری فضائل مدینہ باب حرمۃ المدینۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۵۱)

(صحیح مسلم کتاب الحج باب فضائل مدینہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۴۲)

(سسن ابی داود کتاب المناسک باب فی تحریم المدینۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۲۷۸)

(مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۸۱)

(شرح معانی الآثار کتاب الصید باب صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۳۴۱)

(۴؂مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۱۹)

(سنن ابی داود ، کتاب المناسک باب فی تحریم المدینۃ آفتاب عالم پریس لاہور۱ /۲۷۸)

 

حدیث۲۰صحیح مسلم: سہل بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دست مبارک سے مدینہ طیبہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : انھاحرم اٰمن ، ھو واحمد۱؂ والطحاوی وابو عوانۃ ۔ بیشک یہ امن والی حرم ہے ۔(مسلم ، احمد ، طحاوی اورابوعوانہ نے روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۳)

(مسند احمد بن حنبل عن سہل بن حنیف المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۴۸۶)

(کنز العمال بحوالہ ابی عوانہ حدیث ۳۴۸۰۰مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۲۳۰)

(شرح معانی الآثار کتاب الصید باب صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲/۳۴۲)

 

حدیث۲۱: امام احمدحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: لکل نبی حرم وحرمی المدینۃ ۲؂۔ ہر نبی کے لیے ایک حرم ہوتی ہے اورمیر ی حرم مدینہ ہے ۔

 

 (۲؂مسند احمد بن حنبل عن ابن عباس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۳۱۸)

 

حدیث ۲۲: عبدالرزاق حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے : ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حرم کل دافۃ اقبلت علی المدینۃ من العضۃ الحدیث۳؂۔ بیشک نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہر گروہ مردم کو کہ حاضر مدینہ ہو اس کے خاردار درختوں کو ممنوع فرمادیا۔

 

(۳؂المصنف لعبدالرزاق باب حرمۃ المدینۃ حدیث ۱۷۱۴۷ المجلس العلمی بیروت ۹ /۲۶۱)

 

حدیث ۲۳: امام طحاوی بطریق مالک عن یونس بن یوسف عن عطا بن یسار کہ لڑکوں نے ایک روباہ کو گھیر کر ایک گوشے میں کردیا تھا، ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لڑکوں کو دورکردیا، امام مالک فرماتے ہیں اور مجھے اپنے یقین سے یہ یا دہے کہ فرمایا:  انی حرم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یُصنع ھذا۴؂۔ کیارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حرم میں ایسا کیا جاتاہے ؟

 

 (۴؂شرح معانی الآثار کتاب الصید صید المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۳۴۲)

 

حدیث ۲۴: مسند الفردوس میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: یبعث اللہ عزوجل من ھٰذہ البقعۃ ومن ھذا الحرم سبعین الفا یدخلون الجنۃ بغیر حساب یشفع کل واحد منھم فی سبعین الفاوجوھھم کالقمر لیلۃ البدر۱؂۔ اللہ تعالٰی روز قیامت اس بقیع اوراس حرم سے ستر ہزار شخص ایسے اٹھائے گا کہ بیحساب جنت میں جائیں گے اوران میں ہر ایک ستر ہزار کی شفاعت کرے گا ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گے۔

 

(۱؂الفردوس بما ثور الخطاب حدیث ۸۱۲۳دارالکتب العلمیۃ بیروت ۵ /۲۶۰)

(کنز العمال حدیث ۳۴۹۶مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۲۶۲)

 

اوراگر وہ حدیثیں گنی جائیں جن میں مکہ معظمہ ومدینہ طیبہ کو حرمین فرمایا تو عدد کثیر ہیں ، بالجملہ حدیثیں اس باب میں حدتواتر پر ہیں ، تو بالیقین ثابت کہ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ کے جنگل کا بتاکید تام واہتمام تمام وہی ادب مقرر فرمادیا جو مکہ معظمہ کے جنگل کا ہے ،

 

بایں ہمہ طائفہ تالفہ وہابیہ کا امام بد فرجام بکمال دریدہ دہنی صاف صاف لکھ گیا : ''گردوپیش کے جنگل کا ادب کرنا یعنی وہاں شکار نہ کرنا، درخت نہ کاٹنا ، یہ کام اللہ نے اپنی عبادت کے لیے بتائے ہیں پھر جوکوئی کسی پیر ، پیغمبر یا بھوت وپری کے مکانوں کےگردوپیش کے جنگل کا ادب کرے تو اس پرشرک ثابت ہے''۲؂

 

 (۲؂تقویۃ الایمان مقدمۃ الکتاب مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہورص۸)

 

کیوں ، ہم نہ کہتے تھے کہ یہ ناپاک مذہب ملعون مشرب اسی لئے نکلا ہے کہ اللہ ورسول تک شرک کا حکم پہنچائے پھر اورکسی کی کیا گنتی ۔ تف ہزار تف بر روئے بددینی۔ اب دیکھنا ہے کہ اس امام بے لگام کے مقلد کہ بڑے موحّد بنے پھرتے ہیں اپنے امام کا ساتھ دیتے ہیں یا محمد رسول اللہ پڑھنے کی کچھ لاج رکھتے ہیں ۔ اللہ کے بے شمار درودیں محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اوران کے ادب داں غلاموں پر۔

 

تنبیہ نبیہ: مسلمانو! صرف یہی نہ سمجھنا کہ اس گمراہ امام الطائفہ کے نزدیک حرم محترم حضور پرنورمالک الامم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ادب ہی شرک ہے ، نہیں نہیں بلکہ اس کے مذہب میں جوشخص حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زیارت سراپا طہارت کے لیے مدینہ طیبہ کو چلے اگرچہ چار پانچ ہی کو س کے فاصلے سے (کہ کہیں وہابیت کے شرک شدالرحال کا ماتھا نہ ٹھنکے ) اس پر راستے میں بے ادبیاں بیہود گیاں کرتے چلنافرض عین وجز ایمان ہے یہاں تک کہ اگراپنے مالک وآقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے عظمت وجلال کے خیال سے باادب مہذب بن کر چلے گا اس کے نزدیک مشرک ہوجائے گا ۔ اسی کتاب ضلالت مآب کے اسی مقام میں ''رستے میں نامعقول باتیں کرنے سے ''۱؂۔بچنا بھی انہیں امورمیں گنادیا جنہیں خدا پر افتراً کہتاہے ''یہ سب کام اللہ نے اپنی عبادت کے لیے اپنے بندوں کوبتائے ہیں جو کوئی کسی پیر وپیغمبر کے لیے کرے اس پرشرک ثابت ہے '''۲؂

 

 (۱؂ و۲؂ تقویۃ الایمان مقدمۃ الکتاب مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہورص۷  و ۸)

 

سبحان اللہ ! نامعقول باتیں کرنا بھی جزو ایمان نجدیہ ہے بلکہ سچ پوچھو تو ان کا تمام ایمان اسی قدر ہے وہ تو خیریہ ہو گئی کہ مجتہد الطائفہ کو یہ عبارت لکھتے وقت آیہ کریمہ فلارفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج۳؂(تو نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو نہ کوئی گناہ نہ کسی سے جھگڑا حج کے وقت۔ ت) پوری یاد نہ آئی ورنہ راہ مدینہ طیبہ میں فسق وفجور کرتے چلنا بھی فرض کہہ دیتا وہ بھی ایسا کہ جو وہاں فسق سے بازآئے مشرک ہوجائے، ولاحول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم ۔

 

 (۳؂القرآن الکریم     ۲ /۱۹۷)

 

لطیفہ حَقّہ :   حضرات نجدیہ ! خداراانصاف ، کیا افعال عبادت سے بچنا انبیاء واولیاء ہی کے معاملے سے خاص ہے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ شرک کے کام جائز ، نہیں نہیں جو شرک ہے ہر غیر خدا کے ساتھ شرک ہے ، تو آپ حضرات جب اپنے کسی نذیر بشیر یا پیر فقیر یا مرید رشید یا دوست عزیز کے یہاں جایا کیجئے تو راستے میں لڑتے جھگڑتے ایک دوسرے کا سر پھوڑتے ماتھا رگڑتے چلا کیجئے ورنہ دیکھو کھلم کھلا مشرک ہوجاؤ گے ہرگز مغفرت کی بو نہ پاؤگے کہ تم نے غیر حج کی راہ میں ان باتوں سے بچ کر وہ کام کیا جو اللہ نے اپنی عبادت کے لیے اپنے بندوں کوبتایا تھا اوراس جوتی پیزار میں یہ نفع کیسا ہے کہ ایک کام میں تین مزے ، جدال ہونا تو خود ظاہر اورجب بلاوجہ ہے تو فسوق بھی حاضر اور رفث کے معنی ہر معقول بات کے ٹھہرے تو وہ بھی حاصل ۔ایک ہی بات میں ایمان نجدیت کے تینوں رکن کامل ۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔ الحمدللہ خامہ برق بار رضاخرم سوزی نجدیت میں سب سے نرالا رنگ رکھتاہے ، والحمدللہ رب العالمین۔

 

تذییل وتکمیل

 

اقول :  وباللہ التوفیق  (میں کہتاہوں اورتوفیق اللہ تعالٰی سے ہے ۔ت)

 

احکام الہٰی کی دو قسمیں ہیں : تکوینیہ مثل احیاء واماتت وقضائے حاجت ودفع مصیبت وعطائے دولت ورزق ونعمت وفتح وشکست وغیرہا عالم کے بندوبست۔

دوسرے تشریعیہ کہ کسی فعل کو فرض یا حرام یا واجب یا مکروہ یا مستحب یامباح کردینا مسلمانوں کے سچے دین میں ا ن دونوں حکموں کی ایک ہی حالت ہے کہ غیر خدا کی طرف بروجہ ذاتی احکام تشریعی کی اسناد بھی شرک۔ قال اللہ تعالٰی ام لھم شرکاء شرعوالھم من الدین مالم یأذن بہ اللہ۱؂۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: کیا ان کے لیے خدا کی الوہیت میں کچھ شریک ہیں جنہوں نے ان کے واسطے دین میں اورراہیں نکال دی ہیں جن کا خدا نے انہیں حکم نہ دیا۔

 

  (۱؂القرآن الکریم ۴۲ /۲۱)

 

اوربروجہ عطائی امور تکوین کی اسناد بھی شرک نہیں ۔

 

قال اللہ تعالٰی : فالمدبرات امرًا۲؂۔ قسم ان مقبول بندوں کی جو کاروبارعالم کی تدبیر کرتے ہیں ۔

 

(۲؂القرآن الکریم ۸۰ /۵)

 

مقدمہ رسالہ میں شاہ عبدالعزیز کی شہادت سن چکے کہ : حضرت امیر وذریۃ طاہرہ اوراتمام امت برمثال پیران ومرشدان می پرستند وامور تکوینیہ رابایشاں وابستہ میدانند۳؂۔ حضرت امیر (مولاعلی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم ) اور ان کی اولاد کو تمام امت اپنے مرشد جیسا سمجھتی ہے اورامورتکوینیہ کو ان سے وابستہ جانتی ہے ۔(ت)

 

 (۳؂تحفہ اثنا عشریہ باب ہفتم درامامت سہیل اکیڈمی لاہور ص۲۱۴)

 

مگر کچے وہابی ان دوقسموں میں فرق کرتے ہیں ، اگر کہئے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ بات فرض کی یافلاں کام حرام کردیا توشرک کاسودانہیں اچھلتا ، اوراگرکہئے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نعمت دی یا غنی کردیا تو شرک سوجھتاہے ۔ یہ انکا نرا تحکم ہی نہیں خود اپنے مذہب نامہذب میں کچا پن ہے ۔ جب ذاتی اورعطائی کا تفرقہ اٹھا دیا پھر احکام میں فرق کیسا ، سب کا یکساں شرک ہونا لازم ، آخر ان کا امام مطلق وعام کہہ گیا کہ :

''کسی کا م میں نہ بالفعل ان کو دخل ہے اورنہ اس کی طاقت رکھتے ہیں ''۱؂۔ نیز کہا: ''کسی کام کو روایا ناروا کر دینا اللہ ہی کی شان ہے ''۲؂۔

 

 (۱؂ و۲؂تقویۃ الایمان الفصل الثالث مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۲۰)

 

صاف ترکہا: ''کسی کی راہ ورسم کو ماننا اوراسی کے حکم کو اپنی سند سمجھنا یہ بھی انہیں باتوں میں سے ہے کہ خاص اللہ نے اپنی تعظیم کے واسطے ٹھہرائی ہیں تو جو کوئی یہ معاملہ کسی مخلوق سے کرے تو اس پر بھی شرک ثابت ہے ''۳؂۔ اورآگے اس کا قول : ''سو  اللہ کے حکم پہنچنے کی راہ بندوں تک رسول ہی کا خبر دینا ہے ''۴؂۔

 

 (۳؂ و۴؂   تقویۃ الایمان   الفصل الرابع     مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۲۸)

 

اس میں وہ رسول کو حاکم نہیں مانتاصرف مخبر وپیغام رساں مانتا ہے اوراس سے پہلے حصہ کے ساتھ تصریح کرچکا ہے کہ : ''پیغمبر کا اتنا ہی کام ہے کہ برے کام پر ڈرا دیوے اوربھلے کام پر خوشخبری سنا دیوے ''۵؂

 

 (۵؂ تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۲۸)

 

نیز کہا کہ : ''انبیاء اولیاء کو جو اللہ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا سو ان میں بڑائی یہی ہوتی ہے کہ اللہ کی راہ بتاتے ہیں اوربرے بھلے کاموں سے واقف ہیں سولوگوں کو سکھلاتے ہیں۱؂"۔

 

 (۱؂ تقویۃ الایمان الفصل الثانی فی ردالاشراک فی العلم مطبع علیمی اندرون لاہاری دروازہ لاہور ص۱۷)

 

صرف بتانے جاننے پہچاننے پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ حکم ان کے ہیں فرائض کو انہوں نے فرض کیا محرمات کو انہوں نے حرام کردیا ۔

آخر ہمیں جو احکام معلوم ہوئے اپنے بزرگوں سے آئے انہیں ان کے اگلوں نے بتائے ، یونہی طبقہ بطبقہ تبع کو تابعین ، تابعین کو صحابہ ، صحابہ کو سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ، تو کیا کوئی یوں کہے گا کہ نماز میرے باپ نے فرض کی ہے یا  زنا کو میرے استاد نے حرام کردیا۔ نبی کی نسبت اگر یوں کہئے گا تو وہی ذاتی عطائی کا فرق مان کر،اورکسی کی راہ ماننے اور اس کا حکم سند جاننے کو ان افعال سے گن چکا جو اللہ تعالٰی نے اپنی تعظیم کے لیے خاص کئے ہیں اورانہیں غیر کے لیے کرنے کا نام اشراک فی العبادۃ رکھا، اوراس قسم میں بھی مثل دیگر اقسام تصریح کی کہ :

''پھر خواہ یوں سمجھے کہ یہ آپ ہی اس تعظیم کے لائق ہیں یا یوں سمجھے کہ انکی اس طرح کی تعظیم سے اللہ خوش ہوتاہے ہر طرح شرک ثابت ہوتاہے ''۲؂۔

 

(۲؂تقویۃ الایمان مقدمۃ الکتاب مطبع علیمی اندرون لاہاری دروازہ لاہور ص۸)

 

توذاتی وعطائی کا تفرقہ دین نجدی میں قیامت کا تفرقہ ڈال دے گا۔ وہ صاف کہہ چکا  : ''نہیں حکم کسی کا سوائے اللہ کے اس نے تو یہی حکم کیا ہے کہ کسی کو اس کے سوا مت مانو''۳؂۔

 

 (۳؂تقویۃ الایمان الفصل الرابع مطبع علیمی اندرون لاہاری دروازہ لاہور ص۲۸)

 

جب رسول کو ماننے ہی کی نہ ٹھہری تو رسول کو حاکم ماننا اورفرائض ومحرمات کو رسول کے فرض وحرام کردینے سے جاننا کیونکر شرک نہ ہوگا ، غرض وہ اپنی دھن کا پکا ہے ، ولہذا محمدر سول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کس قدرتاکید شدید سے مدینہ طیبہ کے گردو پیش کے جنگل کا ادب فرض کیا اوراس میں شکار وغیرہ منع فرمایا ، مگر یہ جو ارشادہوا کہ ''مدینے کو حرم میں کرتاہوں۔''اس چوٹی کے موحدنے کہ جا بجا کہتاہے کہ ''خدا کے سواکسی کو نہ مانو''صاف صاف حکم شرک جڑدیا اوراللہ واحد قہار کے غضب کا کچھ خیال نہ کیا وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۱؂  (اور اب جان جائیں گے ظالم کہ کس کروٹ پلٹا کھائیں گے ۔ ت)

 

(۱؂ القرآن الکریم ۲۶ /۲۲۷)

 

تو مناسب ہواکہ بعض احادیث وہ بھی ذکر کرجائیں جن میں احکام تشریعیہ کی اسناد صریح ہے ، اوراب اس قسم کی خاص دو آیتوں کا ذکر بھی محمود، اگرچہ آیات گزشتہ سے بھی دوآیتوں میں یہ مطلب موجود، اوران کے ذکر سے جب عدد آیات انصاف عقود سے متجاوز ہوگا توتکمیل عقد کے لیے تین آیتوں کا اوربھی اضافہ ہوکہ پچاس کا عدد پورا ہوجس طرح احادیث میں بعونہٖ تعالٰی پانچ خمسین یعنی ڈھائی سو کا عدد کامل ہوگا، ورنہ استیعاب آیات(عہ) میں منظور ، نہ احادیث میں مقدور ، واللہ الھادی الی منائر النور ،

 

عہ : مثلاً یہی احکام تشریعیہ کی آیات بکثرت ہیں جن سے دو ہی یہاں مذکور ، یونہی اس مضمون میں کہ خلائق کو موت فرشتے دیتے ہیں ، صرف دوآیتیں اوپر گزریں ، قرآن پاک میں پانچ آیتیں اس مضمون کی اورہیں ، ہم ان پانچ کو یہاں ذکر کردیں کہ اول پانچ آیتیں کتب سابقہ سے مذکور ہوئی ہیں ان کے سبب پچاس پوری صرف قرآن عظیم سے ہوجائیں۔

 

آیت ۱: ان الذین توفتھم الملٰئکۃ ۲؂۔

 

بیشک وہ لوگ جنہیں موت دی فرشتوں نے ۔

 

 (۲؂القرآن الکریم ۴/ ۹۷)

 

آیت ۲: جاء تھم رسلنا یتوفونھم ۳؂۔

 

ہمارے رسول ان کے پاس آئے انہیں موت دینے کو۔

 

 (۳؂القرآن الکریم ۷ /۳۷)

 

آیت ۳: ولو ترٰی اذیتوفی الذین کفروا الملٰئکۃ ۴؂۔

 

کاش تم دیکھو جب کافروں کو موت دیتے ہیں فرشتے۔

 

 (۴؂القرآن الکریم  ۸/۵۰)

 

آیت ۴: ان الخزی الیوم والسوء علی الکٰفرین الذین تتوفھم الملٰئکۃ ظالمی انفسھم ۵؂۔

 

  بیشک آج کے دن رسوائی اورمصیبت کا فروں پر ہے جنہیں موت فرشتے دیتے ہیں اس حال میں کہ وہ اپنی جانوں پر ستم ڈھائے ہوئے ہیں۔

 

 (۵؂القرآن الکریم ۱۶ /۲۷،۲۸)

 

آیت ۵: کذٰلک یجزی اللہ المتقین الذین تتوفٰھم الملٰئکۃ طیبین۶؂ ۔

 

ایسا ہی بدلہ دیتاہے اللہ پرہیزگاروں کو جنہیں موت فرشتے دیتے ہیں پاکیزہ حالت میں۔

 

 (۶؂القرآن الکریم ۱۶ /۳۱و۳۲)

 

جعلنا منھم بفضل رحمتہٖ اٰمین

 

(اللہ تعالٰی ہمیں اپنے فضل ورحمت سے انہیں میں سے کردے ۔آمین۔ت)

 

ہم  پہلے وہ تین آیتیں تلاوت کریں کہ پھر احکام تشریعیہ کا بیان آیات واحادیث سے مسلسل رہے وباللہ التوفیق ۔

 

آیت ۴۶: ان کل نفس لما علیھا حافظ۱؂۔ کوئی جان نہیں جس پر ایک نگہبان متعین نہ ہو۔

 

(۱؂القرآن الکریم ۸۶ /۴)

 

آیت ۴۷: الر کتٰب انزلنٰہ الیک لتخرج الناس من الظلمٰت الی النور باذن ربھم الٰی صراط العزیز الحمید۲؂۔ یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف اتاری تاکہ تم اے نبی !لوگوں کو اندھیروں سے نکال لوروشنی کی طرف انکے رب کی پروانگی سے غالب سراہے گئے کی راہ کی طرف ۔

 

 (۲؂القرآن الکریم  ۱۴ /۱)

 

آیت ۴۸: ولقد ارسلنا موسٰی باٰیٰتنا ان اخرج قومک من الظلمٰت الی النور۳؂۔ اوربیشک بالیقین ہم نے موسٰی کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجاکہ اے موسٰی ! تونکال لے اپنی قوم کواندھیروں سے روشنی کی طرف ۔

 

 (۳؂القرآن الکریم۱۴  /۵)

 

اقول: اندھیریاں کفروضلالت ہیں اور روشنی ایمان وہدایت جسے غالب سراہے گئے کی راہ فرمایا۔ اورایمان وکفر میں واسطہ نہیں ، ایک سے نکالنا قطعاً دوسرے میں داخل کرنا ہے ۔ توآیات کریمہ صاف ارشاد فرمارہی ہیں کہ بنی اسرائیل کو موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کفر سے نکالا اورایمان کی روشنی دے دی اس امت کو مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کفر سے چھڑاتے ایمان عطافرماتے ہیں ، اگر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا یہ کام نہ ہوتا انہیں اس کی طاقت نہ ہوتی تو رب عزوجل کا انہیں یہ حکم فرمانا کہ کفر سے نکال لو معاذاللہ تکلیف مالا یطاق تھا۔

الحمدللہ ! قرآن عظیم نے کیسی تکذیب فرمائی امام وہابیہ کے اس حصر کی کہ :

''پیغمبر خدا نے بیان کردیا کہ مجھ کو نہ قدرت ہے نہ کچھ غیب دانی ، میری قدرت کا حال تو یہ ہے کہ اپنی جان تک کے نفع ونقصان کا مالک نہیں تو دوسرے کا تو کیا کرسکوں ۔غرض کہ کچھ قدرت مجھ میں نہیں ، فقط پیغمبری کا مجھ کو دعوٰی ہے اورپیغمبرکا اتنا ہی کام ہے کہ برے کام پر ڈرا دیوے اوربھلے کام پر خوشخبری سنا دیوے دل میں یقین ڈال دینا میرا کام نہیں انبیاء میں اس بات کی کچھ بڑائی نہیں کہ اللہ نے عالم میں تصرف کی کچھ قدرت دی ہو کہ مرادیں پوری کردیویں یا فتح وشکست دے دیویں یا غنی کردیویں یا کسی کے دل میں ایمان ڈال دیویں ان باتوں میں سب بندے بڑے اورچھوٹے برابر ہیں عاجز اوربے اختیار ۱؂ اھ ''ملخصاً۔

 

 (۱؂ تقویۃ الایمان الفصل الثانی فی ردالاشراک فی العلم مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۱۵)

 

مسلمانو! اس گمراہ کے ان الفاظ کو دیکھو اوران آیتوں اورحدیثوں سے کہ اب تک گزریں ملاؤ دیکھو یہ کس قدر شدت سے خدا ورسول کو جھٹلارہا ہے ، خیر اسے اس کی عاقبت کے حوالے کیجئے ، شکر اس اکرم الاکرمین کا بجالائیے جس نے ہمیں ایسے کریم اکرم دائم الکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ہاتھ سے ایمان دلوایا ان کے کرم سے امید واثق ہے کہ بعونہٖ تعالٰی محفوظ بھی رہے ؎

تو نے اسلام دیا تو نے جماعت میں لیا

تو کریم اب کوئی پھرتا ہے عطیہ تیرا۲؂

 

 (۲؂حدائق بخشش وصل اول مکتبہ رضویہ کراچی ص۳)

 

ہاں یہ ضرور ہے کہ عطائے ذاتی خاصہ خدا ہے انک لاتھدی من احببت۳؂  (بیشک یہ نہیں کہ تم جسے اپنی طرف سے چاہو ہدایت کردو۔ت) وغیرہا میں اسی کا تذکرہ ہے کچھ ایمان کے ساتھ خاص نہیں پیسہ کوڑی بھی بے عطائے خدا کوئی بھی اپنی ذات سے نہیں دے سکتا۔ ع

تاخداندہد سلیماں کَے دہد

 

 (جب تک خدا نہ دے سلیمان کیسے دے سکتاہے ۔ت)

 

 (۳؂القرآن الکریم ۲۸/ ۵۶)

 

یہی فرق ہے جسے گم کر کے تم ہرجگہ بہکے اور افتؤمنون ببعض الکتاب وتکفر ون ببعض۔۴؂  (اورخدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اورکچھ سے انکار کرتے ہو۔ ت) میں داخل ہوئے ۔

 

 (۴؂القرآن الکریم ۲/ ۸۵)

 

نسأل اللہ العافیۃ وتمام العافیۃ ودوام العافیہ والحمدللہ رب العٰلمین۔ ہم اللہ تعالٰی سے کامل دائمی عافیت کا سوال کرتے ہیں ، اورتمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔ (ت)

 

آیت ۴۹: قاتلوا الذین لایؤمنون باللہ ولا بالیوم الاٰخر ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ۱؂۔ لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے اورنہ پچھلے دن پر ، اورحرام نہیں مانتے اس چیز کو جسے حرام کردیا ہے اللہ اوراس کے رسول محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ۔

 

 (۱؂ القرآن الکریم   ۹ /۲۹)

 

آیت ۵۰: ماکان لمؤمن ولا مؤمنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرًا ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلالاً مبینا۲؂۔ نہیں پہنچتا کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو کہ جب حکم کریں اللہ ورسول کسی بات کا کہ انہیں کچھ اختیار ہے اپنی جانوں کا اورجو حکم نہ مانے اللہ ورسول کا وہ صریح گمراہی میں بہکا۔

 

 (۲؂القرآن الکریم ۳۳ /۳۶)

 

یہاں سے ائمہ مفسرین فرماتے ہیں حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبل طلوعِ آفتابِ اسلام زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مول لے کر آزاد فرمایا اور متبنّٰی بنایا تھا ، حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالٰی عنہا کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پھوپھی امیہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی تھیں سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نکاح کا پیغام دیا، اول تو راضی ہوئیں اس گمان سے کہ حضور اپنے لئے خواستگاری فرماتے ہیں، جب معلوم ہا کہ زید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لئے طلب ہے انکار کیا اور عرض کر بھیجا کہ یا رسول اللہ!میں حضور کی پھوپھی کی بیٹی ہوں ایسے شخص کے ساتھ اپنا نکاح پسند نہیں کرتی ، اوران کے بھائی عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی اسی بنا پر انکار کیا، اس پر یہ آیہ کریمہ اتری، اسے سن کر دونوں بہن بھائی رضی اللہ تعالٰی عنہما تائب ہوئے اورنکاح ہوگیا۳؂" ۔

 

(۳؂الجامع لاحکام القرآن (امام قرطبی )تحت الآیۃ ۳۳ / ۳۶  دارالکتاب العربی بیروت ۱۴ /۱۶۵)

( الدرالمنثور تحت الآیۃ ۳۳ /۳۶   داراحیاء التراث العربی بیروت ۶ /۵۳۷ و ۵۳۸)

 

ظاہر ہے کہ کسی عورت پر اللہ عزوجل کی طرف سے فرض نہیں کہ فلاں سے نکاح پرخواہی نخواہی راضی ہوجائے خصوصاً جبکہ وہ اس کا کفونہ ہوخصوصاً جبکہ عورت کی شرافت خاندان کواکب ثریا سے بھی بلند وبالاتر ہو، بایں ہمہ اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دیا ہوا پیام نہ ماننے پر رب العزۃ جل جلالہ نے بعینہٖ وہی الفاظ ارشادفرمائے جو کسی فرض الہ کے ترک پر فرمائے جاتے اوررسول کے نام پاک کے ساتھ اپنا نام اقدس بھی شامل فرمایا یعنی رسول جو بات تمہیں فرمائیں وہ اگرہمارا فرض نہ تھی تو اب ان کے فرمانے سے فرض قطعی ہوگئی مسلمانوں کو اس کے نہ ماننے کا اصلاً اختیار نہ رہا جو نہ مانے گا صریح گمراہ ہوجائے گا دیکھو رسول کے حکم دینے سے کام فرض ہوجاتاہے اگرچہ فی نفسہ خدا کا فرض نہ تھا ایک مباح وجائز امر تھا، ولہٰذا ائمہ دین خدا ورسول کے فرض میں فرق فرماتے ہیں کہ خدا کا کیا ہوا فرض اس فرض سے اقوٰی ہے جسے رسول نے فرض کیا ہے ۔ اورائمہ محققین تصریح فرماتے ہیں کہ احکام شریعت حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو سپرد ہیں جو بات چاہیں واجب کردیں جو چاہیں ناجائز فرمادیں، جس چیز یا جس شخص کو جس حکم سے چاہیں مستثنٰی فرمادیں ۔ امام عارف باللہ سید عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی میزان الشریعۃ الکبرٰی باب الوضومیں حضرت سیدی علی خواص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل فرماتے ہیں : کان الامام ابو حنیفۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ من اکثر الائمۃ ادباً مع اللہ تعالٰی ولذٰلک لم یجعل النیۃ فرضا وسمی الوتر واجباً لکونھما ثبتا بالسنۃ لابالکتاب فقصد بذٰلک تمییز مافرضہ اللہ تعالٰی وتمییز ما اوجبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فان مافرضہ اللہ تعالٰی اشد مما فرضہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من ذات نفسہ حین خیّرہ اللہ تعالٰی ان یوجب ماشاء اولایوجب ۱؂۔ یعنی امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ان اکابر ائمہ میں ہیں جن کا ادب اللہ عزوجل کے ساتھ بہ نسبت اورائمہ کے زائد ہے اسی واسطے انہوں نے وضو میں نیت کوفرض نہ کیا اور وتر کا نام واجب رکھا، یہ دونوں سنت سے ثابت ہیں نہ کہ قرآن عظیم سے ، تو امام نے ان احکام سے یہ ارادہ کیا کہ اللہ تعالٰی کے فرض اوررسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فرض میں فرق وتمیز کردیں اس لئے کہ خدا کا فرض کیا ہوا اس سے زیادہ مؤکد ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خود اپنی طرف سے فرض کردیا جبکہ اللہ عزوجل نے حضور کو اختیار دے دیا تھا کہ جس بات کو چاہیں واجب کردیں جسے نہ چاہیں نہ کریں۔

 

 (۱؂میزان الشریعۃ الکبرٰی باب الوضو دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۴۷)

 

اس میں بارگاہ وحی وتضرع احکام کی تصویر دکھا کر فرمایا: کان الحق تعالٰی جعل لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان یشرع من قبل نفسہ ماشاء کما فی حدیث تحریم شجر مکۃ فان عمّہ العباس رضی اللہ تعالٰی عنہ لما قال لہ یارسول اللہ الا الاذخر فقال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا الاذخر ولو ان اللہ تعالٰی لم یجعل لہ ان یشرع من قبل نفسہ لم یتجرّأ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان یستثنی شیئامما حرمہ اللہ تعالٰی۱؂۔ یعنی حضرت عزت جل جلالہ نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یہ منصب دیا تھا کہ شریعت میں جو حکم چاہیں اپنی طرف سے مقررفرمادیں جس طرح حرم مکہ کے نباتات کو حرام فرمانے کی حدیث میں ہے کہ جب حضور نے وہاں کی گھاس وغیرہ کاٹنے سے ممانعت فرمائی حضور کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ!گیاہ اذخر کو اس حکم سے نکال دیجئے ۔ فرمایا: اچھا نکال دی ، اس کا کاٹنا جائز کردیا۔اگر اللہ سبحانہ نے حضور کو یہ رتبہ نہ دیاہو تاکہ اپنی طرف سے جو شریعت چاہیں مقررفرمائیں تو حضور ہرگز جرأت نہ فرماتے کہ جو چیز خدا نے حرام کی اس میں سے کچھ مستثنٰی فرمادیں۔

 

 (۱؂میزان الشریعۃ الکبرٰی فصل فی بیان جملۃ من الامثلۃ المحسوسۃ الخ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۶۰)

 

اقول: یہ مضمون متعدد احادیث صحیحہ میں ہے :

 

حدیث۱ : ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما صحیحین میں :  فقال العباس رضی اللہ تعالٰی عنہ الا الا ذخر لساغتنا وقبورنا ،فقال الا الا ذخر ۲؂۔ یعنی عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی یارسول اللہ!مگر اذخر کہ وہ ہمارے سناروں اورقبروں کے کام آتی ہے ۔ فرمایا : مگر اذخِر۔

 

 (۲؂صحیح بخاری ، کتاب العمرۃ  ، باب باب لاینفر صیدالحرم  قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۴۷)

( صحیح مسلم کتاب الحج باب تحریم مکۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۳۸و۴۳۹)

 

حدیث۲: ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ نیز صحیحین میں :  قال رجل من قریش الا الاذخر یارسول اللہ فانا نجعلہ فی بیوتنا وقبورنا ۔ فقال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا الاذخر الا الا ذخر۱؂۔ ایک مرد قریش نے عرض کی : مگر اذخریارسول اللہ کہ ہم اسے اپنے گھروں اورقبروں میں صَرف کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : مگر اذخر مگر اذخر ۔

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب العلم باب کتابۃ العلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۲)

(صحیح مسلم کتاب الحج باب تحریم مکۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۳۹)

 

حدیث ۳: صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سنن ابن ماجہ میں : فقال العباس رضی اللہ تعالٰی عنہ الا الا ذخر فانہ للبیوت والقبور فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا الا ذخر۲؂۔ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی : مگر اذخر کہ وہ گھروں اور قبروں کے لیے ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا مگر اذخر۔

 

 (۲؂سنن ابن ماجہ ابواب المناسک فضل المدینۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۳۱)

 

نیز میزان مبارک میں شریعت کی کئی قسمیں کیں، ایک وہ جس پر وحی وارد ہوئی ، الثانی ما اباح الحق تعالٰی لنبیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان یسنہ علی رایہ ھو کتحریم لبس الحریر علی الرجال وقولہ فی حدیث تحریم مکۃ الا الا ذخر ولو لا ان اللہ تعالٰی کان یحرم جمیع نبات الحرم لم یستثن صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الاذخر ونحوحدیث لو لا ان اشق علی امتی لاخرت العشاء الی ثلث الیل ونحو حدیث لو قلت نعم لوجبت ولم تستطیعوا فی جواب من قال لہ فی فریضۃ الحج اکل عام یارسو ل اللہ قال لا ولو قلت نعم لو جبت وقد کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یخفف علی امتہ وینھاھم عن کثرۃ السؤال ویقول اترکونی ماترکتم ۱؂ اھ باختصار۔ یعنی شریعت کی دوسری قسم وہ ہے جو مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ان کے رب عزوجل نے ماذون فرمادیا کہ خود اپنی رائے سے جو راہ چاہیں قائم فرمادیں، مردوں پر ریشم کا پہننا حضور نے اسی طور پر حرام فرمایا اوراسی حرمت مکہ سے گیاہِ اذخر کو استثناء فرمادیا ۔ اگراللہ عزوجل نے مکہ معظمہ کی ہر جڑی بوٹی کو حرام نہ کیا ہوتا تو حضور کو اذخر کے مستثنٰی فرمانے کی کیا حاجت ہوتی۔ اوراسی قبیل سے ہے حضور کا ارشاد کہ اگر امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں عشاء کو تہائی رات تک ہٹا دیتا ۔ اوراسی باب سے ہے کہ جب حضور نے فرض حج بیان فرمایا کسی نے عرض کی : یارسول اللہ !کیا حج ہر سال فرض ہے ؟ فرمایا : نہ ، اوراگر میں ہاں کہہ دوں تو ہرسال فرض ہوجائے اورپھر تم سے نہ ہوسکے اوریہی وجہ ہے کہ حضور اپنی امت پر تخفیف وآسانی فرماتے اورمسائل زیادہ پوچھنے سے منع کرتے اورفرماتے ہیں مجھے چھوڑے رہو جب تک میں تمہیں چھوڑوں۔

 

 (۱؂ میزان الشریعۃ الکبرٰی فصل شریف فی بیان الذم من الائمۃ الخ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۶۷)

 

اقول: یہ مضمون بھی کہ ''میں نماز عشاکو مؤخر فرمادیتا''متعدد احادیث صحیحہ میں ہے ۔

 

حدیث ۴ : ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما معجم کبیر طبرانی میں سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : لولا ضعف الضعیف وسقم السقیم لاخرت صلوٰۃ العتمۃ۲؂ ۔ اگرضعیف کے ضعف اورمریض کے مرض کا پاس نہ ہوتا تو میں نماز عشاکو پیچھے ہٹادیتا۔

 

 (۲؂المعجم الکبیر عن عباس حدیث ۱۲۱۶۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۱ /۴۰۹)

 

حدیث ۵: ابی سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ مسند احمد وسنن ابی داود وابن ماجہ وغیرہا میں یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: لولا ضعف الضعیف وسقم السقیم وحاجۃ ذی الحاجۃ لاخرت ھذہ الصلوٰۃ الی شطر اللیل ۳؂۔ اگر کمزور کی ناتوانی اوربیمار کے مرض اورکامی کے کام کا خیال نہ ہوتا تو میں اس نماز کو آدھی رات تک موخر فرما دیتا۔

 

 (۳؂سنن ابی داودکتاب الصلوٰۃ باب وقت العشاء آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۶۱)

(سنن ابن ماجۃ کتاب الصلوٰۃ باب وقت العشاء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۰)

(مسند احمد بن حنبل عن ابی سعید الخدری المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۵)

 

ورواہ ابن ابی حاتم بلفظ لولا ان یثقل علی امتی لاخرت صلوٰۃ العشاء الی ثلث اللیل۴؂ ۔ ابن ابی حاتم نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا: اگر میں اپنی امت پر بوجھ محسوس نہ کرتا تو میں عشاء کو تہائی رات تک ہٹا دیتا۔(ت)

 

حدیث ۶: ابی ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ احمد وابن ماجہ ومحمد بن نصر کی روایت میں یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : لولا ان اشق علی امتی لاخرت العشاء الٰی ثلث اللیل او نصف اللیل ۱؂۔ اگر اپنی امت کو مشقت میں ڈالنے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں عشاء کو تہائی یا آدھی رات تک ہٹا دیتا۔

 

 (۱؂سنن ابن ماجۃ ، کتاب الصلوٰۃ وقت العشاء آفتاب عالم پریس لاہور ص۵۰)

( کنزالعمال بحوالہ حم ومحمد بن نصر حدیث ۱۹۴۸۴ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۷ /۳۹۹)

 

واخرجہ ابن جریر فقال الی نصف اللیل۲؂۔  (ابن جریرنے روایت کیا ، فرمایا : آدھی رات تک ۔ت)

 

اوران کے سوا احادیث صحیحہ عنقریب اسی معنٰی میں آتی ہیں ان شاء اللہ تعالٰی ۔ نیز یہ مضمون کہ ''میں ہاں فرمادوں تو حج ہرسال فرض ہوجائے ''متعدد احادیث صحاح میں ہے ۔ حدیث ۷: ابی ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ عند احمد ومسلم ۳؂ والنسائی  (امام احمد ،مسلم اور نسائی کے نزدیک ۔ت)

 

 (۳؂صحیح مسلم کتاب الحج باب فرض الحج مرۃ فی العمر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱  /۴۳۲)

(سنن النسائی کتاب مناسک الحج باب وجوب الحج نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲ /۱)

(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۵۰۸)

 

حدیث ۸: امیر المومنین علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: لاولو قلت نعم لوجبت ۔ رواہ احمد والترمذی وابن ماجۃ ۴؂۔ ہر سال فرض نہیں اورمیں ہاں کہہ دوں تو فرض ہوجائے ۔ (اس کو احمد ، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا۔ ت)

 

 (۴؂سنن الترمذی کتاب الحج باب ماجاء کم فرض الحج حدیث ۸۱۴دارالفکر بیروت  ۲ /۲۲۰)

(سنن الترمذی کتاب التفسیر باب ومن سورۃ المائدۃ حدیث ۳۰۶۶ دارالفکر بیروت ۵ /۴۰)

(سنن ابن ماجۃ ابواب المناسک باب فرض الحج ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۱۳)

(مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۱۱۳)

 

حدیث ۹: ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے : لوقلت نعم لو جبت ثم اذًا لاتسمعون ولا تطیعون ۔ رواہ احمد ۱؂ والدارمی والنسائی ۔ میں ہاں فرمادوں تو فرض ہوجائے پھر تم نہ سنو نہ بجا لاؤ۔ (اس کو احمد ، دارمی اورنسائی نے روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؂سنن النسائی کتاب مناسک الحج باب وجوب الحج نور محمد کارخانہ کراچی    ۱ /۶۱)

( سنن الدارمی کتاب مناسک الحج باب کیف وجوب الحج دارالمحاسن للطباعۃ القاہرۃ ۲ /۳۶۱)

(مسند احمد بن حنبل عن ابن عباس المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۵۵)

 

حدیث ۱۰: انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کو فرمایا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے : لو قلت نعم لوجبت ولو وجبت لم تقوموا بھاولولم تقوموابھا عذبتم ۔ رواہ ابن ماجۃ۲؂ ۔ اگر میں ہاں فرمادوں توواجب ہوجائے اوراگر واجب ہوجائے تو بجا نہ لاؤ اوراگر بجا نہ لاؤ تو عذاب کئے جاؤ(اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا۔ت)

 

 (۲؂ سنن ابن ماجۃ ابواب المناسک باب فرض الحج ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۱۳)

 

اورمضمون اخیر کہ ''مجھے چھوڑے رہو''یہ بھی صحیح مسلم وسنن نسائی میں اسی حدیث ابی ہریرہ کے ساتھ ہے کہ فرمایا : لو قلت نعم لوجبت ولما استطعتم ۔ اگر میں فرماتا ہاں ، تو ہرسال واجب ہوجاتااوربیشک تم نہ کرسکتے۔

 

پھر فرمایا : ذرونی ماترکتم فانما ھلک من کان قبلکم بکثرۃ سؤالھم واختلافھم علی انبیآئھم فاذا امرتکم بشیئ فاتوا منہ مااستطعتم واذا نھیتکم عن شیئ فدعوہ ۔ رواہ ابن ماجہ ۱؂مفردا۔ مجھے چھوڑے رہو جب تک میں تمہیں چھوڑوں کہ اگلی امتیں اسی کثرت سوال اور اپنے انبیاء کے خلاف مراد چلنے سے ہلاک ہوئیں تو جب میں تمہیں کسی بات کا حکم فرماؤ ں تو جتنی ہوسکے بجالاؤ اورجب بات سے منع فرماؤں تو اسے چھوڑدو۔ (اس کو تنہا ابن ماجہ نے ہی روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الحج باب فرض الحج مرۃ فی العمر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۳۲)

(سنن النسائی کتاب مناسک الحج باب وجوب الحج نور محمد کارخانہ کراچی ۲ /۱)

(سنن ابن ماجۃ باب اتباع سنۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲ )

 

یعنی جس بات میں میں تم پر وجوب یا حرمت کا حکم نہ کروں اسے کھود کھود کر نہ پوچھو کہ پھر واجب حرام کا حکم فرمادوں تو تم پر تنگی ہوجائے ۔

یہاں سے بھی ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جس بات کا نہ حکم دیا نہ منع فرمایا وہ مباح وبلاحرج ہے ۔ وہابی اسی اصل اصیل سے جاہل ہوکر ہرجگہ پوچھتے ہیں خداورسول نے اس کا کہاں حکم دیا ہے ۔ان احمقوں کو اتنا ہی جواب کافی ہے کہ خدا ورسول نے کہاں منع کیا ہے ، جب حکم نہ دیا نہ منع کیا تو جواز رہا، تم جو ایسے کاموں کو منع کرتے ہو اللہ ورسول پر افتراکرتے بلکہ خود شارع بنتے ہوکہ شارع صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے منع کیانہیں اورتم منع کر رہے ہو۔ مجلس میلا دمبارک وقیام وفاتحہ وسوم وغیرہا مسائل بدعت وہابیہ سب اسی اصل سے طے ہوجاتے ہیں ۔ اعلٰی حضرت حجۃ الخلف بقیۃ السلف خاتمۃ المحققین سیدنا الوالدقدس سرہ الماجد نے کتاب مستطاب اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد میں اس کا بیان اعلٰی درجہ کا روشن فرمایا ہے ۔ فنوراللہ منزلہ واکرم عندہ نزلہ اٰمین۔ امام احمد قسطلانی مواہب لدنیۃ شریف میں فرماتے ہیں : من خصائصہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہ کان یخص من شاء بما شاء من الاحکام۲؂ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خصائص کریمہ سے ہے کہ حضور شریعت کے عام احکام سے جسے چاہتے مستثنٰی فرمادیتے ۔

 

 (۲؂المواہب اللدنیۃ المقصد الرابع الفصل الثانی المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۶۸۹)

 

علامہ زرقانی نے شرح میں بڑھایا: من الاحکام وغیرھا۔ کچھ احکام ہی کی خصوصیت نہیں حضور جس چیز سے چاہیں جسے چاہیں خاص فرمادیں۳؂ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

 (۳؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الرابع دارالمعرفۃ بیروت      ۵ /۳۲۲)

 

امام جلیل جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے خصائص الکبرٰی شریف میں ایک باب وضع فرمایا : باب اختصاصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بانہ یخص من شاء بما شاء من الاحکام۱؂۔ باب اس بیان کا کہ خاص نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یہ منصب حاصل ہے کہ جسے چاہیں جس حکم سے چاہیں خاص فرمادیں۔

 

(۱؂الخصائص الکبرٰی باب اختصاصہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بانہ یخص من شاء الخ مرکز اہلسنت گجرات الہند  ۲ /۲۶۲)

 

امام قسطلانی نے اس کی نظیر میں پانچ واقعے ذکر کئے اورامام سیوطی نے دس ، پانچ وہ اورپانچ اور ۔ فقیر نے ان زیادات سے تین واقعے ترک کردئے اورپندرہ اوربڑھائے ، اوران کی احادیث بتوفیق اللہ تعالی جمع کیں کہ جملہ بائیس واقعےہوئے وللہ الحمد ان کی تفصیل اور ہر واقعے پر حدیث سے دلیل سنئے :

 

حدیث صحیحین۱ ، میں براء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے ان کے ماموں ابو بردہ بن نیاز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی تھی جب معلوم ہوا یہ کافی نہیں عرض کی : یارسول اللہ وہ تو میں کرچکا اب میرے پاس چھ مہینے کا بکری کا بچہ ہے مگر سال بھر والے سے اچھاہے ۔

فرمایا: اجعلھا مکانھا ولن تجزی عن احد بعدک۲؂ ۔ اس کی جگہ اسے کردو اورہرگز اتنی عمر کی بکری تمھارے بعد دوسروں کی قربانی میں کافی نہ ہوگی۔

 

 (۲؂صحیح البخاری کتاب العیدین باب الخطبۃ بعد العید قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۳۲)

(صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب وقتہا قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۵۴)

 

ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کے نیچے ہے : خصوصیۃ لہ لاتکون لغیرہٖ اذکان لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان یخص من شاء بما شاء من الاحکام۳؂۔ یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک خصوصیت ابو بردہ کو بخشی جس میں دوسرے کا حصہ نہیں اس لئے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اختیار تھا کہ جسے چاہیں جس حکم سے چاہیں خاص فرمادیں۔

 

 (۳؂ارشاد الساری شرح صحیح البخاری کتاب العیدین حدیث ۹۶۵دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۶۵۷)

 

نیز حدیث صحیحین میں عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو قربانی کے لئے جانور عطافرمائے ان کے حصے میں ششماہہ بکری آئی حضور سے حال عرض کیا۔ فرمایا : ضح بھا۱؂۔ تم اسی کی قربانی کردو۔

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب الاضاحی باب قسمۃ الاضاحی بین الناس قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۳۲)

(صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب سن الاضحیۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۵۵)

 

سنن بیہقی میں بسند صحیح اتنا اور زائد ہے:  ولارخصۃ فیھا لاحد بعدک۔ ۲؂ ۔ تمہارے بعد اورکسی کے لیے اس میں رخصت نہیں۔

 

 (۲؂السنن الکبرٰی للبیہقی کتاب الضحایا باب لایجزی الجذع الخ دارصادر بیروت ۹/ ۲۷۰)

(کنزالعمال حدیث ۱۲۲۵۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۵ /۱۰۵)

 

شیخ محقق اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں : احکام مفوض بود بوے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم برقول صحیح ۳؂۔ قول صحیح کے مطابق احکام حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سپرد تھے ۔(ت)

 

 (۳؂اشعہ اللمعات شرح المشکوٰۃ باب الاضحیۃ الفصل الاول مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر       ۱ /۶۰۹)

 

حدیث صحیح مسلم میں ام عطیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے جب بیعت زنان کی آیت اتری اوراس میں ہر گناہ سے بچنے کی شرط تھی کہ لایعصینک فی معروف ، اورمردے پر بَین کر کے رونا چیخنا بھی گناہ تھا میں نے عرض کی ؛ یارسول اللہ الا اٰل فلان فانھم کانوا اسعد ونی فی الجاھلیۃ فلابدلی من ان اسعدھم۔ یارسول اللہ ! فلاں گھر والوں کو استثناء فرمادیجئے کہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں میرے ساتھ ہوکر میری ایک  میت پر نوحہ کیاتھا تو مجھے ان کی میت پر نوحے میں ان کا ساتھ دینا ضروری ہے ۔ فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا اٰل فلان۴؂۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا اچھا وہ مستثنٰی کردئے ۔

 

 (۴؂صحیح مسلم کتاب الجنائز فصل فی نہی النساء عن النیاحۃ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۳۰۴)

 

اورسنن نسائی میں ارشاد فرمایا : اذھبی فاسعدیھا۔ جاان کا ساتھ دے آ۔ یہ گئیں اور وہاں نوحہ کر کے پھر واپس آکر بیعت کی۱؂۔

 

 (۱؂سنن النسائی کتاب البیعۃ باب بیعۃ النساء نور محمد کارخانہ کراچی ۲ /۱۸۳)

 

ترمذی کی روایت میں ہے : فاذن لھا۲؂۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں نوحہ کی اجازت دے دی۔

 

 (۲؂سنن الترمذی کتاب التفسیر تحت الآیۃ ۶۰ /۱۲   حدیث ۳۳۱۸   دارالفکر بیروت   ۵ /۲۰۲)

 

مسند احمد میں ہے ، فرمایا : اذھبی فکافیھم ۳؂۔ جاؤ ان کا بدلہ اتارآؤ۔

 

 (۳؂مسند احمد بن حنبل ۶ /۴۰۷ و ۴۰۸     والدرالمنثور تحت الآیۃ  ۶۰/ ۱۲    بیروت  ۸/ ۱۳۳)

 

امام نووی اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں یہ حضور نے خاص رخصت ام عطیہ کو دے دی تھی خاص آل فلاں کے بارے میں وللشارع ان یخص من العموم ماشاء ۴؂۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اختیار ہے کہ عام حکموں سے جو چاہے خاص فرما دیں ۔

 

 (۴؂شرح صحیح مسلم مع صحیح مسلم کتاب الجنائز فصل فی نہی النساء عن النیاحۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۰۴)

 

یہی مضمون حدیث ۱۲ ابن مردویہ میں عبداللہ ابن عباس سے خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہما سے ہے : انھا قالت یارسول اللہ کان ابی واخی ماتافی الجاھلیۃ وان فلانۃ اسعدتنی وقدمات اخوھا الحدیث ۵؂۔ اس نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، زمانہ جاہلیت میں میرا باپ اوربھائی فوت ہوئے تو فلاں عورت نے میرا ساتھ دیاتھا اوراب اس کا بھائی فوت ہوا ہے ۔(ت) حدیث ۱۳: ترمذی میں اسماء بنت یزید انصاری رضی اللہ عنہا سے ہے انہوں نے بھی ایک نوحے کا بدلہ اتارنے کی اجازت مانگی حضور نے انکار فرمایا، قالت فراجعتہ مرارا فاذن لی ثم لم انح بعد ذٰلک ۶؂۔ میں نے کئی بار حضور سے عرض کی ، آخر حضور نے اجازت دے دی ۔ پھر میں نے کہیں نوحہ نہ کیا۔

 

 (۶؂سنن الترمذی کتاب التفسیر سورۃ الممتحنۃ حدیث ۳۳۱۸دارالفکر بیروت ۵ /۲۰۲)

 

حدیث۱۴: احمد طبرانی میں مصعب بن نوح سے ہے ایک بڑی بی(عہ)نے وقت بیعت نوحے کا بدلہ اتارے کا اذن چاہا، فرمایا :  اذھبی فکافیھم۱؂ ۔ جاؤ عوض کرآؤ۔

 

عہ: محتمل ہے کہ یہ بی بی ام عطیہ ہوں لہذا واقعہ جدا گانہ نہ شمار ہوا ۱۲منہ

 

 (۱؂ الدرالمنثور بحوالہ احمد وغیرہ الآیۃ ۶۰/۱۲داراحیاء التراث العربی بیروت ۸ /۱۳۳)

 

اقول: فظاھر ان کلا رخصۃ تختص بصاحبتھا لاشرکۃ فیھا لغیرھا فلاینکر بما ذکرنا علی قول النووی ان ھذا محمول علی الترخیص لام عطیۃ فی اٰل فلان خاصۃ وبمثلہ یندفع ما استشکلوا من التعارض فی حدیثی التضحیۃ لابی بردۃ وعقبۃ لاسیما مع زیادۃ البیھقی المذکورۃ فانہ حکم لاخبر ولاشک ان الشارع اذا خص ابابردۃ کان کل من سواہ داخلاً فی عموم عدم الاجزاء وکذا حین خص عقبۃ فصدق فی کل مرۃ لن تجزی احدً ا بعد فافھم فقد خفی علی کثیر من الاعلام۔ میں کہتاہوں ظاہر ہے کہ ہر رخصت صاحت رخصت کے ساتھ مختص ہوتی ہے ۔ اس میں کسی غیر کی شرکت نہیں ہوتی ۔ چنانچہ جو ہم نے ذکر کیا اس کی وجہ سے امام نووی کے قول کا انکار نہیں ہوتاکہ بیشک یہ بطور خاص آل فلاں کے بارے میں ام عطیہ کو رخصت دینے پر محمول ہے ۔ اوراسکی مثل سے قربانی کے بارے میں ابو بردہ اورعقبہ کی حدیثوں میں واقع تعارض کا اشکال بھی مندفع ہوجاتاہے خصوصاً اس زیادتی کے ساتھ جو بیہقی میں مذکور ہے کہ بیشک یہ حکم ہے خبر نہیں ہے اور اس میں شک نہیں کہ شارع علیہ السلام نے جب ابو بردہ کو مختص فرمایا تو ان کے ماسوا ہر ایک عدم اجزا ء کے عموم میں داخل ہوگیا ۔ اسی طرح جب عقبہ کو خاص فرمادیا تو ہر مرتبہ یہ بات صادق آئی کہ تیرے بعد ہرگز یہ کسی کے لیے کفایت نہیں کرے گا ، تو سمجھ لے ، تحقیق بہت سے علماء پر یہ بات مخفی رہی ۔ (ت)

 

حدیث ۱۵: طبقات ابن سعد میں اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے جب ان کے شوہر اول جعفر طیار رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید ہوئے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : تسلبنی ثلٰثاً ثم اصنعی ماشئت ۱؂۔ تین دن سنگار سے الگ رہو پھر جو چاہو کرو۔

 

 (۱؂الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر جعفر بن ابی طالب دارصادر بیروت ۴ /۴۱)

(کنزالعمال حدیث ۲۷۸۲۰مؤوسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۶۵۰)

 

یہاں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کو اس حکم عام سے استثناء فرمادیا کہ عورت کو شوہر پر چار مہینے دس دن سوگ واجب ہے ۔

 

حدیث ۱۶ : ابن السکن میں ابو نعمان ازدی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے ، ایک شخص نے ایک عورت کو پیام نکاح دیا سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : مہردو ۔ عرض کی : میرے پاس کچھ نہیں ۔ فرمایا : اما تحسن سورۃ من القراٰن فاصدقہا السورۃ ولایکون لاحدٍ بعد ک مھرًا ۲؂۔ رواہ سعید بن منصور مختصراً۔ کیا تجھے قرآن عظیم کی کوئی سورت نہیں آتی ، وہ سورۃ سکھانا ہی اس کا مہر کر، اورتیرے بعد یہ مہر کسی اورکو کافی نہیں ۔ (اس کو سعید بن منصور نے مختصراً روایت کیا ۔ ت)

 

(۲؂الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ترجمہ ۱۰۶۳۹ ابو النعمان الازدی دارالفکر بیروت ۶ /۲۶۷)

 

حدیث ۱۷ : ابی داود ونسائی وطحاوی وابن ماجہ وخزیمہ میں عم عمارہ بن خزیمہ بن ثابت انصاری اور حدیث ۱۸۔ مصنف ابن ابی شیبہ وتاریخ بخاری ومسند ابی یعلٰی وصحیح ابن خزیمہ ومعجم کبیر طبرانی میں حضر ت خزیمہ اور حدیث ۱۹ حارث بن اسامہ بن نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے گھوڑا خریداوہ بیچ کر مُکر گیا اور گواہ مانگا، جو مسلمان آتا اعرابی کو جھڑکتا کہ خرابی ہو تیرے لئے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حق کے سوا کیا فرمائیں گے (مگر گواہی نہیں دیتا کہ کسی کے سامنے کا واقعہ نہ تھا) اتنے میں خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ حاضر بارگاہ ہوئے گفتگو سن کر بولے : انا اشھد انک قد بایعتہ میں گواہی دیتاہوں کہ تُو نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ہاتھ بیچا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : تم موجود تو تھے ہی نہیں تم نے گواہی کیسے دی؟عرض کی : بتصد یقک یارسول اللہ۱؂ (وفی الثانی) صدقتک بما جئت بہ وعلمت انک لاتقو ل الا حقا۲؂(وفی الثالث) انا اصدقک علی خبر السماء والارض الا اصدقک علی الاعرابی ۳؂۔

 

یارسول اللہ! میں حضور کی تصدیق سے گواہی دے رہاہوں میں حضور کے لائے ہوئے دین پر ایمان لایا ہوں اور یقین جانا کہ حضور حق ہی فرمائیں گے میں آسمان وزمین کی خبروں پر حضور کی تصدیق کرتاہوں کیا اس اعرابی کے مقابلے میں تصدیق نہ کروں ۔

 

(۱؂سنن ابی داود کتاب القضاء باب اذا علم الحاکم صدق الخ آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۱۵۲)

(شرح معانی الآثار کتاب القضاء والشہادات حدیث کفایۃ شہادۃ خزیمہ الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۲ /۳۱۰)

(۲؂کنزالعمال بحوالہ ع حدیث ۳۷۰۳۸مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۳ /۳۷۹)

(المعجم الکبیر حدیث ۳۷۳۰المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۴ /۸۷)

(اسدالغابۃ ترجمہ ۱۴۴۶خزیمۃ بن ثابت دارالفکر بیروت            ۱ /۶۹۷)

(۳؂کنزالعمال حدیث ۳۷۰۳۹مؤسسۃ الرسالۃ بیروت           ۱۳ /۳۸۰)

 

اس کے انعام میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمیشہ ان کی گواہی دو مردکی شہادت کے برابر فرمادی اورارشاد فرمایا :  من شھد لہ خزیمۃ او شھد علیہ فحسبہ۴؂۔ خزیمہ جس کسی کے نفع خواہ ضرر کی گواہی دیں ایک انہیں کی شہادت بس ہے ۔

 

 (۴؂المعجم الکبیر عن خزیمہ حدیث ۳۷۳۰ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت      ۴ /۸۷)

(کنزالعمال بحوالہ مسند ابی یعلٰی وغیرہ حدیث ۳۷۰۳۸موسسۃ الرسالہ بیروت        ۱۳ /۳۸۰)

(التاریخ الکبیر حدیث ۲۳۸دارالباز للنشر والتوزیع مکۃ المکرمۃ     ۱ /۸۷)

 

ان احادیث سے ثابت کہ حضور نے قرآن عظیم کے حکم عام واشھد وا ذوی عدل منکم ۵؂۔     (اوراپنے میں دو ثقہ کو گواہ کرلو ۔ ت) سے خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ عنہ کو مستثنٰی فرمادیا۔

 

(۵؂القرآن الکریم   ۶۵/۲)

 

حدیث۲۰ : صحاح ستہ میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ ایک شخص نے بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی : یارسول اللہ! میں ہلاک ہوگیا۔فرمایا: کیا ہے ؟عر ض کی: میں نے رمضان میں اپنی عورت سے نزدیکی کی ۔ فرمایا : غلام آزاد کرسکتاہے ؟ عرض کی : نہ فرمایا : لگاتار دومہینے کے روزے رکھ سکتا ہے ؟عرض کی : نہ ۔ فرمایا : ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاسکتا ہے ؟عرض کی : نہ ۔ اتنے میں خرمے خدمت اقدس میں لائے گئے حضور نے فرمایا: انہیں خیرات کردے ۔ عرض کی : اپنے سے زیادہ کسی محتاج پر؟ مدینے بھر میں کوئی گھر ہمارے برابر محتاج نہیں ۔ فضحک النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حتی بدت نواجذہ وقال اذھب فاطعمہ اھلک۱؂ ۔ رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یہ سن کر ہنسے یہاں تک کہ دندان مبارک ظاہر ہوئے ، اورفرمایا : جا اپنے گھروالوں کو کھلادے۔

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب الصوم باب اذا جامع فی رمضان الخ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱ /۲۵۹)

(صحیح البخاری کتاب الہبۃ باب اذا وھب ھبۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۴)

(صحیح مسلم کتاب الصیام باب تغلیظ تحریم الجماع فی نہار الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۴)

(سنن الترمذی کتاب الصوم باب ماجاء فی کفارۃ الفطر الخ حدیث ۷۲۴قدیمی کتب خانہ کراچی  ۲ /۱۷۵)

(سنن ابی داود کتاب الصیام باب کفارۃ من اتی اھلہ فی رمضان آفتاب عالم پریس لاہور   ۱ /۳۲۵)

(سنن ابن ماجۃ ابواب ماجاء فی الصیام باب ماجاء فی کفارۃ من افطر الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۲۱)

(مسند احمد بن حنبل  عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ  المکتب الاسلامی بیروت   ۲/ ۲۴۱ و ۲۸۱)

(مسند الدارمی کتاب الصیام باب الذی یقع علی امرأتہ فی شہر رمضان دارالمحاسن للطباعۃ قاہرۃ  ۱ /۳۴۳و۳۴۴)

(سنن الدارقطنی کتاب الصیام باب القبلۃ للصائم حدیث ۲۲۷۱ / ۴۹ دارالمعرفۃ بیروت   ۲/۴۱۰ و ۴۰۹)

(سنن الدارقطنی کتاب الصیام باب القبلۃ للصائم حدیث ۲۳۶۳   /۲۲   تا  ۲۳۶۸ /  ۲۷  دارالمعرفۃ بیروت ۲ /۴۳۶تا ۴۴۱)

(السنن الکبری کتاب الصیام باب کفارۃ من اتٰی اھلہ فی نہار رمضان دارصادر بیروت ۴ /۲۲۱و۲۲۲)

 

مسلمانو ! گناہ کا ایسا کفارہ کسی نے بھی نہ سنا ہوگا سوا دو من خرمے سرکار سے عطا ہوتے ہیں کہ آپ کھالو ، کفارہ ہوگیا ۔ واللہ !یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ رحمت ہے کہ سزا کو انعام سے بدل دے ، ہاں ہاں یہ بارگاہ بیکس پناہ فاولٰئک یبدل اللہ سیاٰتھم حسنٰت ۲؂  (توایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا۔ ت)کی خلافت کبرٰی ہے ،

 

(۲؂القرآن الکریم ۲۵ /۷۰)

 

ان کی ایک نگاہ کرم کبائر کو حسنات کردیتی ہے جب توارحم الراحمین جل جلالہ نے گناہگاروں ، خطاواروں ، تباہ کاروں کو ان کا دروازہ بتایا کہ : ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاءوک۱؂ الاٰیۃ ۔ گناہگار تیرے دربار میں حاضر ہوکرمعافی چاہیں اورتوشفاعت فرمائے تو خداکو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔ والحمدللہ رب العٰلمین ۔

 

(۱؂ القرآن الکریم ۴ /۶۴)

 

یہی مضمون حدیث ۲۱: مسلم میں ام المومنین صدیقہ ۲؂ رضی اللہ تعالٰی عنہااور حدیث ۲۲: مسند بزار ومعجم اوسط طبرانی میں عبداللہ بن عمر۳؂ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے ۔

 

 (۱؂ صحیح مسلم کتاب الصیام باب تغلیظ تحریم الجماع فی نہار رمضان قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۵)

 (۳؂مجمع الزوائد بحوالہ ابو یعلٰی کتاب الصیام باب فی من افطر الخ دارالکتاب بیروت ۳ /۱۶۷و۱۶۸)

 

حدیث ۲۳ : دارقطنی میں مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ سے ہے ، ارشادفرمایا : کل انت وعیالک فقد کفر اللہ عنک۴؂۔ تواور تیرے اہل وعیال یہ خُرمے کھالیں کہ اللہ تعالٰی نے تیری طرف سے کفارہ اداکردیا۔

 

 (۴؂سنن الدار قطنی کتاب الصیام باب السواک للصائم حدیث ۲۳۶۱ /  ۲۱  دارالمعرفۃ بیروت   ۲ /۴۳۸)

 

ہدایہ میں ہے ، فرمایا: کل انت ویالک تجزئک ولا تجزئی احد ابعدک ۵؂۔ تو اورتیرے بچے کھالیں تجھے کفارے سے کفایت کرے گا اورتیرے بعد اورکسی کو کافی نہ ہوگا۔

 

 (۵؂الہدایۃ کتاب الصوم باب مایوجب القضاء والکفارۃ المکتبۃ العربیۃ کراچی ۱ /۲۰۰)

 

سنن ابی داود میں امام شہاب زہری تابعی سے ہے :   انما کان ھٰذہ رخصۃ لہ خاصۃ ولو ان رجلا فعل ذٰلک الیوم لم یکن لہ بدمن التکفیر۶؂ ۔ یہ خاص اسی شخص کےلئے رحمت تھی آج کوئی ایسا کرے تو کفارہ سے چارہ نہیں ۔

 

 (۶؂سنن ابی داود کتاب الصیام باب من اتی اہلہ فی رمضان آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۳۲۵ )

 

امام جلال الدین سیوطی وغیرہ علماء نے بھی اسے خصائص مذکورہ سے گنا وفی الحدیث وجوہ اخر۔

 

حدیث ۲۴ : صحیح مسلم وسنن نسائی وابن ماجہ ومسند امام احمد میں زینت بنت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا ابوحذیفہ کی بی بی رضی اللہ تعالٰی عنہما نے عرض کی : یارسول اللہ! سالم (غلام آزاد کردہ ابوحذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہما ) میرے سامنے آتا جاتاہے اووہ جوان ہے ابوحذیفہ کو یہ ناگوار ہے ، سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : ارضعیہ حتی یدخل علیک تم اسے دودھ پلادو کہ بے پردہ تمہارے پاس آنا جائز ہوجائے ۔ ام المومنین ام سلمہ وغیرہا باقی ازواج مہطرات رضی اللہ تعالٰی عنہن نے فرمایا : مانرٰی ھٰذہٖ الا رخصۃ ارخصھا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لسالم خاصۃ۱؂۔ ہمارا یہی اعتقاد ہے کہ یہ رخصت حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خاص سالم کے لیے فرمادی تھی۔

 

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الرضاع فصل رضاعۃ الکبیر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۶۹)

(سنن النسائی کتاب النکاح باب رضاع الکبیر نور محمد کارخانہ کراچی ۲ /۸۳)

(سنن ابن ماجہ ابواب النکاح باب رضاع الکبیر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۴۱)

(مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ عنہا المکتب الاسلامی بیروت     ۶/  ۳۹و۱۷۴و۲۴۹)

(مسند احمد بن حنبل حدیث سہلۃ امرأۃ حذیفہ رضی اللہ عنہا المکتب الاسلامی بیروت     ۶ /۳۵۶)

 

حدیث ۲۵ : ابن سعد وحاکم میں بطریق عمرہ بنت عبدالرحمن خودسہلہ زوجہ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مضمون مذکور ، مروی کہ انہوں نے جب حال سالم عرض کیا فامر ھا ان ترضعیہ۲؂ حضور نے دودھ پلادینے کا حکم فرمایا ، انہوں نے دودھ پلادیا اورسالم اس وقت مردجوان تھے جنگ بدر میں شریک ہوچکے تھے ۔ جو ان آدمی کو اول تو عورت کا دودھ پینا ہی کب حلا ل ہے پئے توا س سے پسر رضاعی نہیں ہوسکتا مگر حضور نے ان حکموں سے سالم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مستثنی فرمادیا۔

 

(۲؂الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر سالم مولٰی ابی حذیفہ دارصادر بیروت ۳/  ۸۶و۸۷)

(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ الرضاع فی الکبیر الخ دارالفکر بیروت ۴ /۶۱)

 

حدیث ۲۶: صحاح ستہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے : ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رخس لعبد الرحمن بن عوفٍ والزبیر فی لبس الحریر لحکمۃ کانت بھما۱؂۔ یعنی عبدالرحمن بن عوف اورزبیر بن العوام رضی اللہ تعالٰی عنہما کے بدن میں خشک خارش تھی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں ریشمی کپڑے پہننے کی اجازت دے دی۔

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب اللباس باب مایرخص للرجال الخ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۲ /۸۶۸)

(صحیح مسلم کتاب اللباس باب اباحۃ لبس الحریر للرجال الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۹۳)

( سنن ابی داود کتاب اللباس باب لبس الحریر لعدذر آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۲۰۵)

(سنن ابن ماجۃ کتاب اللباس باب من رخس لہ فی لبس الحریرایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۲۶۵)

(سنن النسائی کتاب الزینۃ باب الرخصۃ فی لبس الحریر   نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲ /۲۹۷)

(مسند احمد بن حنبل عن انس المکتب الاسلامی بیروت ۱۲۲ ،۱۲۷، ۱۹۲ ،۲۱۵ ،۲۵۲، ۲۵۵)

 

حدیث ۲۷ : ترمذی وابو یعلٰی وبیہقی میں ابو سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے کہ حضورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے امیر المومنین علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ سے فرمایا : یا علی لایحل لاحد ان یجنب فی ھٰذا المسجد غیری  وغیرک ۲؂۔ اے علی !میرے اورتمہارے سواکسی کو حلال نہیں کہ اس مسجد میں بحال جنابت داخل ہو۔

 

(۲؂سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب علی ابن ابی طالب دارالفکر بیروت   ۵ /۴۰۸)

(مسند ابن یعلٰی عن ابی سعید الخدری حدیث ۱۰۳۸  مؤسسۃ علوم القرآن بیروت  ۲ /۱۳)

(السنن الکبرٰی للبیہقی کتاب النکاح باب دخولہ المسجد جنبا دارصادر بیروت  ۷ /۶۶)

 

امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے۳؂ ۔

 

 (۳؂سنن الترمذی کتاب المناقب حدیث ۳۷۴۸   دارالفکر بیروت ۵ /۴۰۹)

 

حدیث۲۸ : مستدرک حاکم میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : علی کو تین باتیں وہ دی گئیں کہ ان میں سے میرے لئے ایک ہوتی تو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پیاری تھی۔ (سرخ اونٹ عزیز ترین اموال عرب ہیں )کسی نے کہا : امیر الومنین !وہ کیا ہیں؟فرمایا : دختر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے شادی وسکناہ المسجد مع رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یحل لہ ما یحل لہ اوران کا مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ رہنا کہ انہیں مسجد میں روا تھا جو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو روا تھا(یعنی بحالت جنابت رہنا) اور روز خیبر کا نشان ۱؂۔

 

(۱؂المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ سدوا ھذہ الابواب الاباب علی  دارالفکر بیروت ۳ /۱۲۵)

 

حدیث ۲۹ : معجم کبیر طبرانی وسنن بیہقی وتاریخ ابن عساکر میں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :   الا ان ھذا المسجد لایحل لجنب ولالحائض الا للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وازواجہ وفاطمۃ بنت محمد وعلی الا بینت لکم ان تضلوا ۔ ھذا روایۃ الطبرانی ۲؂۔ سن لو یہ مسجد کسی جنب کو حلال نہیں ہے نہ کسی حائض کو ، مگر سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اورحضور کی ازواج مطہرات وحضرت بتول زہرا اورمولا علی کو، صلی اللہ تعالٰی علی الحبیب وعلیہم وسلم ۔ سن لو میں نے تم سے صاف بیان فرماد دیاکہ کہیں بہک نہ جاؤ (یہ طبرانی کی روایت ہے ۔ ت)

 

(۲؂المعجم الکبیر عن ام سلمۃ رضی اللہ عنہا حدیث ۸۸۳   المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۳ /۳۷۴)

(السنن الکبیر کتاب النکاح باب دخولہ المسجد جنبا دارصادر بیروت     ۷ /۶۵)

(تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۵۰۲۹علی ابن ابی طالب داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴۵ /۱۰۸)

 

حدیث۳۰ : صحیحین میں براء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے : نھانا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عن خاتم الذھب ۳؂۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔

 

(۳؂صحیح مسلم کتاب اللباس با ب تحریم استعمال انا ء الذھب الخ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۱۸۸)

(صحیح البخاری کتاب اللباس باب خواتیم الذھب الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۷۱)

 

بایں ہمہ خود براء رضی اللہ تعالٰی عنہ انگشتری طلائی پہنتے ۔ ابن ابی شیبہ نے بسند صحیح ابواسحٰق اسفرائنی سے روایت کی : قال رأیت علی البراء خاتما من ذھب ۱؂ ۔وروٰی نحوہ البغوی فی الجعد یات عن شعبۃ عن ابی اسحٰق ۔ فرما یا : میں نے براء رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سونے کی انگوٹھی پہنے دیکھا۔ (ایسے ہی بغوی نے جعدیات میں شعبہ سے انہوں نے ابی اسحٰق سے روایت کیا ۔ ت)

 

 (۱؂ المصنف لابن ابی شیبۃ کتاب اللباس الخ نبمر ۶۲حدیث ۲۵۱۴۲  دارالکتب العلمیۃ بیروت   ۵ /۱۹۵)

 

امام احمد مسند میں فرماتے ہیں : حدثنا ابو عبدالرحمٰن ثنا ابورجاء ثنا محمد بن مالک قال رأیت علی البراء خاتماً من ذھبٍ وکان الناس یقولون لہ لم تختم بالذھب وقد نھٰی عنہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وبین یدیہ غنیمۃ یقسمھا سبی وخرثی قال فقسمھا حتی بقی ھذا الخاتم فرفع طرفہ فنظر الی اصحابہٖ ثم خفض ثم رفع طرفہ، ثم خفض ثم طرفہ ، فنظر الیھم  قال ای براء فجئتہ حتی قعدت بین یدیہ فاخذ الخاتم فقبض علی کرسوعی ثم قال خذ البس ماکساک اللہ ورسولہ۲؂۔ یعنی محمد بن مالک نے کہا میں نے براء رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سونے کی انگوٹھی پہنے دیکھا لوگ ان سے کہتے تھے آپ سونے کی انگوٹھی کیوں پہنتے ہیں حالانکہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس سے ممانعت فرمائی ہے ۔ براء رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ہم حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے حضور کے سامنے اموال غنیمت غلام ومتاع حاضر تھے حضور تقسیم فرما رہے تھے سب اونٹ بانٹ چکے یہ انگوٹھی باقی رہ گئی حضور نے نظر مبارک اٹھا کر اپنے اصحاب کرام کو دیکھا پھر نگاہ نیچی کرلی پھرانظر اٹھا کر ملاحظہ فرمایا پھر نگاہ نیچی کرلی پھر نظر اٹھا کر دیکھا اور مجھے بلایا اے براء !میں حاضر ہوکر حضور کے سامنے بیٹھ گیا سید اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انگوٹھی لے کر میری کلائی تھامی ، پھر فرمایا پہن لے جو کچھ تجھے اللہ ورسول پہناتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

(۲؂مسندا حمد بن حنبل حدیث البراء بن عازب رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۲۹۴)

 

براء رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے : تم لوگ کیونکر مجھے کہتے ہو کہ میں وہ چیز اتارڈالوں جسے مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے پہن لے جو کچھ اللہ ورسول نے پہنایا، جل جلالہ، و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم ۔

 

حدیث ۳۱: دلائل النبوۃ بیہقی میں بطریق الحسن مروی ، سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا: کیف بک اذا لبست سواری کسرٰی۔ وہ وقت تیرا کیسا وقت ہوگا جب تجھے کسرٰی بادشاہ ایران کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔

 

جب ایران زمانہ امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ میں فتح ہوا اورکسرٰی کے کنگن، کمربند، تاج خدمت وفاروقی میں حاضر کئے گئے امیر المومنین نے انہیںپہنائے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا : اللہ اکبر الحمدللہ الذی سلبھما کسرٰی بن ھرمز والبسھما سراقۃ الاعرابی۱؂۔ اللہ بہت بڑا ہے سب خوبیاں اللہ کو جس نے یہ کنگن کسرٰی بن ہرمز سے چھینے اورسراقہ دہقانی کو پہنائے ۔

 

(۱؂دلائل النبوۃ للبیہقی باب قول اللہ عزوجل وعداللہ الذین اٰمنو ا الخ دارالکتب العلمیۃ بیروت     ۶ /۳۲۵و۳۲۶)

 

قال العلامۃ الزرقانی لیس فی ھذا استعمال الذھب وھو حرام لانہ، انما فعلہ تحقیقا لمعجزۃ الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من غیر ان یقرھما فانہ روٰی انہ امرہ فنزعھما وجعلھما فی الغنیمۃ ومثل ھذا لایعد استعمالاً ۲؂۔ علامہ زرقانی نے فرمایا اس سے سونے کو استعمال کرنا لازم نہیں آیا حالانکہ وہ حرام ہے ، کیونکہ امیر المومنین کا یہ فعل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معجزہ کی تحقیق کے لئے تھا، اس فعل کو برقرار نہیں رکھا ۔ مروی ہے کہ آپ نے سراقہ کو حکم دیا انہوں نے وہ کنگن اتار دیئے اور آپ نے انہیں مال غنیمت میں شامل فرمادیا اوراس کو استعمال شمار نہیں کیا جاتا۔

 

(۲؂شرح الزرقانی علی المواھب المقصد الثامن الفصل الثالث دارالمعرفۃ بیروت ۷ /۲۰۸)

 

اقول : رحمک اللہ من فاضل کبیر الشان انما المعجزۃ اخبارہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بانہ سواری کسرٰی فانما تحقیقا بلبسہ وانما حرام اللبس ومن شرط الحرمۃ اللبث فالو اضح ماجنحت الیہ من ان ھذا ترخیص وتخصیص من النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لسراقۃ ولم یکن فی الحدیث مایدل علی التملیک ففعل امیر المومنین ما ارشد الیہ الحدیث ثم ردھما مردّھما ۔ میں کہتاہوں اے فاضل کبیر الشان ، اللہ تعالٰی آپ پر رحم فرمائے ، معجزہ تورسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اس بات کی خبر دینا ہے کہ سراقہ کسرٰی کے کنگن پہنے گا ۔ چنانچہ اس کا تحقق تو ان کے کنگن پہننے سے ہوگیا ، اوربے شک حرام پہننا ہے اورحرمت کی شرط لبث ہے ۔ پس واضح ہے کہ یہ سراقہ کے لئے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف رخصت وتخصیص ہے ۔ اورحدیث میں تملیک پر دلالت نہیں چنانچہ امیرالمومنین نے وہ کام کای جس کی طرف حدیث نے راہنمائی فرمائی ، پھر ان کنگنوں کو ان کی جگہ کی طرف لوٹا دیا۔ (ت)

 

حدیث ۳۲ : طبقات ابن سعد میں منذر ثوری سے ہے امیر المومنین علی وحضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہما میں کچھ گفتگو ہوئی طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا آپ نے (اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ ابوالقاسم )کا نام بھی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پر رکھا اورکنیت (عہ) بھی حضور کی ، حالانکہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے جمع کرنے سے منع فرمایا ہے امیر المومنین کرم اللہ تعالٰی وجہہ نے ایک جماعت قریش کو بلا کر گواہی دلوائی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے امیر المومنین سے ارشاد فرمایا تھا: سیولدلک بعدی غلام فقد نحلتہ اسمی وکنیتی ولا نحل لاحدٍ من امتی بعدہ ۔ عنقریب میرے بعد تمہاے ہاں ایک لڑکا ہوگا میں نے اسے اپنے نام وکنیت دونوں عطافرمادئے اوراس کے بعد میرے کسی اور امتی کوحلال نہیں ۔

 

عہ :  شیخ محقق اشعۃ للمعات میں فرماتے ہیں :

 

علماء رادریں مسئلہ اقوال ست وقول صواب ازیں مقالات آنست کہ تسمیہ بنام شریف وے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جائز بلکہ مستحب ست وتکنی بکنیت وے اگرچہ بعد از زمان قوی تروسخت تربودوہمچنیں جمع کردن میان نام وکنیت آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ممنوع بطریق اولٰی وآنکہ علی مرتضٰی کردمخصوص بودبوے رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیر او را جائز نبود ۱؂ اھ لکن فی التنویر من کان اسمہ محمد لاباس بان یکنی اباالقاسم اھ۱؂۔ وعللہ فی الدر۲؂۔بنسخ النھی محتجا بفعل علی رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

 

اس مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں ، درست قول اس سلسلہ میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نام پر نام رکھنا جائز بلکہ مستحب ہے ۔ اورآپ کی کنیت کے ساتھ کنیت رکھنا اگرچہ آپ کے وصال کے بعد ہوسخت منع ہے اوراسی طرح آپ کے نام اورکنیت کو جمع کرنا بطریق اولٰی ممنوع ہے ۔ اوروہ جو حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا ہے وہ انکی خصوصیت ہے ، انکے غیر کو ایسا کرنا جائز نہیں اھ ۔لیکن تنویر میں ہے کہ جس کا نام محمد ہو اس کے لیے ابوالقاسم کنیت رکھنے میں کوئی حرج نہیں اھ اوردرمیں نسخ نہی کے ساتھ اسکی علت بیان کی گئی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فعل سے استدلال کرتے ہوئے ۔

 

 (۱؂اشعۃ اللمعات کتاب الادب باب الاسامی الفصل الاو ل مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۴ /۴۴،۴۵)

(۱؂الدرالمختار شرح تنویر الابصار کتاب الحظر والاباحۃ   فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۵۲)

(۲؂الدرالمختار شرح تنویر الابصار کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی البیع مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۵۲)

 

اقول وکیف یفید النسخ مع نص الحدیث نفسہ ان ذٰلک کان رخصۃ من النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لعلی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کما سیأتی والمرام یحتاج الی زیادۃ تحری لایرخص فیہ غرابۃ المقام  واللہ تعالٰی اعلم ۱۲منہ۔

 

میں کہتاہوں کہ کیسے مفید ہے نسخ خود نص حدیث کے ہوتے ہوئے کہ بیشک یہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے رخصت ہے جیسا کہ عنقریب آئیگا ۔ اگرچہ مقصود زیادہ تفصیل کا مقتضی ہے مگر غرابت اس مقام کی اجازت نہیں دیتی۔ اوراللہ تعالٰی خوب جانتا ہے ۔ (ت)

 

مولاعلی کرم اللہ تعالٰی وجہہ فرماتے ہیں :   قلت یارسول اللہ ان ولد لی ولد بعد اُسَمِّیہ باسم واکنیہ بکنتک فقل نعم ۔ فکانت رخصۃ من رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لعلی ۱؂۔احمد وابوداود۲؂  والترمذی وصحح وابو یعلی والحاکم فی الکنٰی والطحاوی والحاکم فی المستدرک والبیھقی فی السنن والضیاء فی المختارۃ عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ!حضور کے بعد اگر میرے کوئی لڑکا پیدا ہوا تو میں حضور کا نام پاک اس کا نام رکھوں اور حضور کی کنیت اس کی کنیت ۔ فرمایا : ہاں ۔ یہ مولٰی علی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رخصت تھی۔ (امام احمد وابوداود وترمذی نے اسے روایت کیا اوراس کی تصحیح کی ۔ اور ابو یعلٰی وحاکم نے کنٰی میں اورطحاوی اورحاکم نے مستدرک میں اوربیہقی نے سنن میں اور ضیاء نے مختارہ میں مولا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ ت)

 

 (۱؂الطبقات الکبری لابن سعد ومن ھذہ الطبقۃ ممن روی عن عثمان وعلی الخ دارصادر بیروت ۵ /۹۱و۹۲)

 (۲؂مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۹۵)

( سنن ابی داود کتاب الادب باب فی الرخصۃ فی الجمع بینہما آفتاب عالم پریس ۲ /۳۲۳)

(سنن الترمذی کتاب الادب باب ماجاء   فی کراھیۃ الجمع بین الاسم النبی وکنیہ حدیث ۲۸۵۲   دارالفکربیروت ۴ /۳۸۴)

( المستدرک للحاکم کتاب الادب   قول النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تسموا باسمی ولاتکنوا بکنیتی دارالفکر بیروت ۴ /۲۷۸)

(السنن الکبرٰی کتاب الضحایاباب ماجاء من الرخصۃ الخ داراصادر بیروت ۹ /۳۰۹)

(شرح معانی الآثار کتاب الکراہیۃ باب التکنی بابی القاسم الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۴۳۲)

(مسند ابو یعلٰی عن علی رضی اللہ عنہ حدیث ۲۹۸  مؤسسۃ علوم القرآن بیروت ۱ /۱۸۴)

(الضیاء المختارۃ ۲ /۳۴۳)

 

حدیث۳۳: صحیح بخاری وترمذی ومسند احمد بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے غزوہ بدر میں حضرت رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم زوجہ امیرالمومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہما بیمار تھیں سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں مدینہ طیبہ میں شاہزادی کی تیمارداری کے لیے ٹھہرنے کا حکم دیا اورفرمایا  : ان لک اجر رجل من شھد بدراً ا وسھمہ۱؂، بیشک تمہارے لئے حاضر ان بدر کے برابر ثواب اورحاضر ی کے مثل غنیمت کا حصہ ہے ۔

 

(۱؂صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مناقب عثمان قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۲۳)

(سنن الترمذی کتاب المناقب    باب عثمان بن عفان حدیث ۳۷۲۶   دارالفکربیروت   ۵ /۳۹۵)

(مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت    ۲ /۱۰۱)

 

یہ خصوصیت حضرت عثمان کو عطافرمادی حالانکہ جو حاضر جہاد نہ ہوغنیمت میں اس کا حصہ نہیں ۔

سنن ابو داود میں انہیں سے ہے : فضرب لہ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بسھم ولم یضرب لاحدٍ غاب غیرہ۲؂۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقررفرمایا اوران کے سواکسی غیر حاضر کو حصہ نہ دیا۔

 

 (۲؂سنن ابی داود کتاب الجہاد باب فی من جاء بعد الغنیمۃ الخ آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۱۸)

 

حدیث آئندہ کتاب الفتوح میں ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یمن پر صوبہ دار کر کے بھیجا ان سے ارشادفرمایا : میں نے تمہارے لئے رعایا کے ہدایا طیب کر دئے اگرکوئی چیز تمہیں ہدیہ دی جائے قبول کرلو ۔ عبید بن صخر کہتے ہیں جب معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ واپس آئے تیس غلام لائے کہ انہیں ہدیہ دیے گئے ، حالانکہ عاملوں کو رعایا سے ہدیہ لینا حرام ہے ۳؂۔

 

 (۳؂الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ بحوالہ سیف فی الفتوح ، ترجمہ ۸۰۳۷  معاذ بن جبل دارالفکر بیروت ۵ /۱۵۴)

 

مسند ابویعلٰی میں حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ھدایا العمال حرام کلھا۴؂۔ عاملوں کے سب ہدئے حرام ہیں۔

 

 (۴؂کنز العمال بحوالہ عن عن حذیفہ حدیث ۱۵۰۶۸مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۱۱۲)

 

مسند احمد وسنن بیہقی میں اب وحمدی ساعدی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ھدایا لعمال غلُول ۱؂ ۔ عاملوں کے ہدیے خیانت ہیں۔

 

 (۱؂مسند احمد بن حنبل حدیث ابی حمید الساعدی المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۴۲۴)

(السنن الکبرٰی للبیہقی کتاب آداب القاضی باب لایقبل منہ ہدیۃ دارصادر بیروت ۱۰ /۱۳۸)

(کنز العمال حدیث ۱۵۰۶۷مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۶ /۱۱۱)

 

حدیث ۳۴ :   صحیحین میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے کہ ایک شخص (یعنی حبان بن منقذ بن عمرو انصاری یا ان کے  والد منقذ رضی اللہ تعالٰی عنہما نے ) سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں فریب کھا جاتاہوں (یعنی لوگ مجھ سے زیادہ قیمت لے لیتے ہیں)فرمایا : من بایعت فقل لاخلابۃ۲؂ ۔ زاد الحمیدی فی مسندہٖ ثم انت بالخیار ثلٰثا۳؂۔ جس سے خریداری کرو کہہ دیا کرو فریب کی نہیں سہی ۔ حمید ی نے اپنی مسند میں اتنا اضافہ کیا: پھر تمہیں تین دن تک اختیار ہے (اگر ناموافق پاؤ بیع رد کردو)

 

(۲؂صحیح البخاری کتاب البیوع باب مایکرہ الخداع فی البیع    قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۸۴)

(صحیح البخاری کتاب فی الاستقراض باب ماینہی عن اضاعۃ المال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۲۴)

( صحیح البخاری فی الخصومات باب من رد امر السفیہ والضعیف العقل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۲۵)

(صحیح مسلم کتاب البیوع باب من یخدع فی البیع قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷)

(کنز العمال عن عبداللہ بن عمر حدیث ۹۹۶۲   مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۴ /۱۵۵)

(۳؂ المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الرد علی ابی حنیفہ حدیث ۳۷۳۱۷دارالکتب العلمیہ بیروت    ۷ /۳۰۵)

(مسندی حمیدی ۲ /۷۴)

 

یہی مضمون حدیث۳۵ سنن اربعہ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے وذکر قصۃً ولم یذکر الزیادۃ (قصے کا ذکر کیاگیا اورزیادتی کا ذکر نہ کیا گیا ۔ت)

امام نووی شرح مسلم شریف میں فرماتے ہیں : امام ابو حنیفہ وامام شافعی اورروایت اصح میں امام مالک وغیرہم ائمہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نزدیک غبن باعث خیار نہیں کتنا ہی غبن کھائے بیع کو رد نہیں کرسکتاحضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس حکم سے خاص انہیں کو نوازا تھا اوروں کے لیے نہیں ، یہی قول صحیح ہے۴؂ ۔

 

 (۴؂شرح صحیح مسلم مع صحیح مسلم کتاب البیوع باب من یخدع فی البیع قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷)

 

حدیث ۳۶ : مشہور میں ہے کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد نماز سے ممانعت فرمائی ۔ فیہ عن عمر وعن ابی ھریرۃ وعن ابی سعید ن الخدری کلہا فی الصحیحین ۱؂ وعن معاویۃ فی صحیح البخاری۲؂ وعن عمروبن عنبسۃ فی صحیح مسلم ۳؂رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ اس بارے میں حضرت عمر ، حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری سے صحیحین میں مروی ہے اورحضرت معاویہ سے صحیح بخاری میں اورحضرت عمرو بن عنبسہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم (ت)۔

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلٰوۃ   باب الصلٰوۃ بعد الفجر   قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۸۲)

(صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلٰوۃ    باب لاتتحری الصلٰوۃ قبل غروب الشمس   قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۸۲)

(صحیح البخاری ، کتاب مواقیت الصلٰوۃ   باب من یکرہ الصلٰوۃ الا بعد العصر والفجر    قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۸۳)

(صحیح مسلم کتاب صلٰوۃ المسافرین   باب الاوقات التی نہی عن الصلٰوۃ  قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱ /۲۷۵)

(۲؂صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلٰوۃ   باب لاتتحری الصلٰوۃ بعد غروب الشمس قدیمی کتب خانہ کراچی  ۱ /۸۳)

(۳؂صحیح مسلم کتاب المسافرین    باب الاوقات التی نہی عن الصلٰوۃ   قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۷۶)

 

خود ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی اس ممانعت کو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں رواہ ابو داود فی سننہٖ۴؂  (ابوداود نے اپنی سنن میں اس کو روایت کیا۔ ت )

 

 (۴؂سنن ابی داود کتاب الصلٰوۃ باب الصلٰوۃ بعد العصر آفتاب عالم پریس لاہور      ۱/ ۱۸۱)

 

باینہمہ ام المومنین عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتیں : رواہ الشیخان عن کریب عن ابن عباس وعبدالرحمن بن ازھر والمسوَربن مخرمۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم انھم ارسلوہ الی عائشۃ زوج النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقالو ا اقرء علیھا السلام منا جمیعا وسلھا عن الرکعتین بعد العصر وقل لھابلغنا انک تصلینھما وان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نھٰی عنہما۱؂۔ اس کو بخاری ومسلم نے بحوالہ کریب حضرت ابن عباس بن عبدالرحمن بن ازھر اورمسوربن مخرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ، ان تینوں نے کریب کو ام المومنین زوجہ رسول سیدہ عائشہ صدیقہ کے پاس بھیجا کہ انہیں ہمارا سلام کہیں اوران سے نماز عصر کے بعد والی دورکعتوں کے بارے میں پوچھو اوران سے عرض کرو کہ ہمیں یہ اطلاع ملی ہے کہ آپ وہ پڑھتی ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے منع فرمایا ہے ۔ (ت)

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب التہجد باب اذا کلم وھو یصلی الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۶۴و۱۶۵)

(صحیح مسلم کتاب صلٰوۃ المسافرین باب الاوقات ان انہی عن الصلٰوۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۷۷)

(مشکوٰۃ المسابیح بحوالہ متفق علیہ کتاب الصلٰوۃ باب اوقات النہی قدیمی کتب خانہ کراچی ص۹۴)

 

علماء فرماتے ہیں یہ ام المومنین کی خصوصیت تھی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کےلئے جائز کردیا تھا۔ قالہ الامام الجلیل خاتم الحفاظ السیوطی فی انموزج البیب ثم الزرقانی فی شرح المواھب ۱؂۔ امام جلیل خاتم الحفاظ سیوطی علیہ الرحمۃ نے انموذج اللبیب میں پھر زرقانی نے شرح المواھب میں بیان کیا ۔(ت)

 

 (۱؂شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ)

 

حدیث ۳۷ : صحیحین ومسند احمد وسنن نسائی وصحیح ابن حبان میں ام المومنین صدیقہ۳؂ اور حدیث ۳۸ احمد ومسلم وابو داود وترمذی ونسائی وابن ماجہ وابن حبان میں حضرت عبداللہ بن عباس ۴؂ اور حدیث ۳۹ احمد وابن ماجہ وابن خزیمہ وابونعیم وبیہقی میں ضباعہ ۱؂ بنت زبیر اور حدیث ۴۰ بیہقی وابن مندہ میں بطریق ھشام عن ابی الزبیر حضرت جابر بن عبداللہ ۲؂ اور حدیث ۴۱  احمد وابن ماجہ وطبرانی میں جدہ ۳؂ ابی بکر بن عبداللہ بن زبیر یعنی اسماء بنت صدیق یا سعدی بنت عوف اور حدیث طبرانی میں حضرت عبداللہ ۴؂بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ہے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی چچا زاد بہن ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب کے پاس تشریف لے گئے اورفرمایا : حج کا ارادہ ہے ؟عرض کی : یارسول اللہ! واللہ میں تو اپنے آپ کو بیمار پاتی ہوں (یعنی گمان ہے کہ مرض کے باعث ارکان ادا نہ کرسکوں پھر احرام سے کیونکر باہر آؤں گی)۔ فرمایا :   اھلّی واشترطی ان محلی حیث جستنی ۔ احرام باندھ اورنیت میں یہ شرط لگالے کہ جہاں تومجھے روکے گا وہیں میں احرام سے باہر ہوں۔

 

 (۳؂صحیح البخاری   کتاب النکاح    باب الاکفاء فی الدین   قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۶۲)

(صحیح مسلم کتاب الحج باب اشتراط المحرم التحلل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۸۵)

(مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ عنہا    المکتب الاسلامی بیروت     ۶ /۲۰۲)

(سنن النسائی کتاب مناسک الحج الاشتراط فی الحج        نور محمد کارخانہ کراچی     ۲ /۱۹)

(موارد الظمآن کتاب الحج باب الاشتراط فی الاحرام حدیث ۹۷۳المطبعۃ السلفیہ    ص۲۴۲)

 (۴؂مسند احمد بن حنبل عن ابن عباس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت   ۱ /۳۳۷)

(صحیح سملم کتاب الحج باب اشتراط المحرم التحلل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۸۵)

(سنن الترمذی کتاب الحج حدیث ۹۴۹  دارالفکر بیروت ۲ /۲۷۸)

(سنن ابی داود کتاب المناسک باب الاشتراط فی الحج آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۲۴۷)

(سنن النسائی کتاب مناسک الحج الاشتراط فی الحج نور محمد کارخانہ کراچی ۲ /۱۹)

(سنن ابن ماجۃ ابواب المناسک باب الشرط فی الحج ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۱۷)

(۱؂مسند احمد بن حنبل حدیث ضباعۃ بنت الزبیر المکتب الاسلامی بیروت   ۶ /۳۶۰و۴۲۰)

(سنن ابن ماجہ ابواب المناسک باب الشرط فی الحج ایچ ایم سعید کمپنی کراچی   ص۲۱۷)

(صحیح ابن خزیمہ کتاب المناسک باب اشتراط من بہ علۃ الخ المکتب الاسلامی بیروت   ۴ /۱۶۴)

(السنن الکبرٰی کتاب الحج باب استثناء فی الحج دارصادر بیروت ۵ /۲۲۱و۲۲)

(کنزالعمال بحوالہ م ، د ، ت ، ن ھ ھب حدیث ۱۲۳۲۸   مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۵ /۱۲۲)

 (۲؂ السنن الکبرٰی کتاب الحج باب الاستثناء فی الحج دارصادر بیروت   ۵ /۲۲۲)

(۳؂مسند احمد بن حنبل عن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۳۴۹)

(سنن ابن ماجۃ ابواب المناسک باب الشرط فی الحج ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۱۷)

(المعجم الکبیر عن اسماء بنت ابی بکر حدیث ۲۳۳   المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت   ۲۴ /۸۷) atOptions = { 'key' : '37db403746068c9af9712248992b7b25', 'format' : 'iframe', 'height' : 90, 'width' : 728, 'params' : {} }; document.write(''); p>

(۴؂المعجم الکبیر عن صباعۃ بنت الزبیر المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت      ۲۴ /۳۳۲تا۳۳۷)

(مجمع الزوائد بحوالہ ابن عمر کتاب الحج باب الاشتراط فی الحج     دارالکتاب بیروت     ۳ /۲۱۸)

 

نسائی نے زائد کیا : فان لک علی ربک ماستثنیت۵؂ ۔ تمہارا یہ استثناء تمہارے رب کے یہاں مقبول رہے گا۔

 

 (۵؂سنن النسائی کتاب مناسک الحج باب الاشتراط فی الحج نور محمد کارخانہ کراچی ۲ /۱۹)

 

ضباعہ نے زائد کیا کہ فرمایا  : فان حبست او مرضت فقد حللت من ذٰلک بشرطک علی ربک عزوجل۱؂۔ اب اگر تم حج سے روکی گئیں یا بیمار پڑیں تو ا س شرط کے سبب جو تم نے اپنے رب عزوجل پر لگائی ہے احرام سے باہر ہوجاؤ گی۔

 

(۱؂مسند احمد بن حنبل حدیث ضباعۃ بنت الزبیر رضی اللہ تعالٰی عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۴۲۰)

 

ہمارے آئمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم فرماتے ہیں : یہ ایک اجازت تھی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں عطافرمادی ورنہ نیت میں ایسی شرط اصلاً مقبول ومعتبر نہیں۔ بل وافقنا علی اختصاصہ بھا بعض الشافعیۃ کالخطابی ثم الرویانی کما فی عمدۃ القاری ۲؂للامام العینی من باب الاحصار۔ بلکہ اس حکم کے اس صحابہ کے ساتھ مختص ہونے پر بعض شوافع بھی ہمارے ساتھ متفق ہیں ، مثلاً خطابی پھر رویانی جیسا کہ عمدۃ القاری نے باب الاحصار میں امام عینی نے ذکر فرمایا ۔ (ت)

 

 (۲؂عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری باب الاحصار فی الحج تحت الحدیث ۳۸۶ /۱۸۰   دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۰ /۲۰۸)

 

حتی کہ حدیث ۴۳ مسند امام احمد میں بسند ثقات رجال صحیح مسلم ہے : حدثنا محمد بن جعفر ثنا شعبۃ عن قتادۃ عن نصر بن عاصم عن رجل منھم رضی اللہ تعالٰی عنہ انہ اتی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فاسلم علی انہ لایصلی الا صلٰوتین فقبل ذٰلک منہ ۳؂۔ یعنی ایک صاحب خدمت اقدس حضو رسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوکر اس شرط پر اسلام لائے کہ صرف دو ہی نمازیں پڑھاکروںگا، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبول فرمالیا۔

 

 (۳؂مسند احمد بن حنبل حدیث رجال من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۲۵و۳۶۳)

 

ان کے سوا امام جلیل جلال سیوطی رحمہ اللہ تعالٰی نے کتاب مستطاب انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب۴؂ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، میں ایک مجمل فہرست میں نوواقعوں کے اورپتے دئے ہیں کہ فقیر نے ان تین کی طر ح یہ بھی ترک کردئے لوجوہ یطول ایرادھا وللہ الحمد علی تواتر اٰلآئہ ۔  (بعض ایسی وجوہ کی بنا پرکہ انکا ذکر طوالت کا باعث ہے اوراللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں اسکی متواتر نعمتوں پر )۴۳حدیثیں یہ اور ۸حدیثیں دربارہ تحریم مدینہ طیبہ جملہ اکاون احادیث ہیں جن میں بہت ازروئے اسنا د بھی خاص مقصود رسالہ کے مناسب تھیں اوربحیثیت تذلیل وہابیہ وتضلیل وتجہیل امام الوہابیہ تو سب ہی مقصود عالم رسالہ کے ملائم ہیں انہیں بھی گنے توشمار احادیث یہاں تک ایک سوچھیانوے ہو۔

 

(۴؂ انموذج للبیب فی خصائص الحبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)

 

مگر ہمارے نبی کریم رؤف ورحیم علیہ وعلٰی آلہٖ افضل الصلٰوۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا ہے  :   ان اللہ کتب الاحسان علی کل شیئ فاذا قتلتم فاحسنوا القتلۃ واذا ذبحتم فاحسنوا الذبحۃ۔ احمد ۱؂ والستۃ الا البخاری عن شداد بن اوس رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ بیشک اللہ تعالٰی نے ہر چیز پر احسان کر نا مقرر فرمادیا ہے تو جب تم کسی کو قتل کرو تو قتل میں بھی احسان برتو اور ذبح کرو تو ذبح میں بھی احسان برتو۔(احمد اورصحاح ستہ نے (علاوہ بخاری کے )شداد بن اوس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

(۱؂صحیح مسلم کتاب الصید باب الامر باحسان الذبح قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۵۲)

(سنن النسائی کتاب الضحایا باب حسن الذبح نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲ /۲۰۹)

(سنن الترمذی کتاب الدیات حدیث ۱۴۱۴   دارالفکر بیروت ۳ /۱۰۵)

 (سنن ابن ماجۃ ابواب الذبائح باب اذا ذبحتم فاحسنوا الذبح ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۳۶)

(سنن ابی داود کتاب الضحایا باب فی الدفق بالذبیحۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۳۳)

(مسند احمد بن حنبل حدیث شداد بن اوس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۱۲۳تا۱۲۵)

 

ولہذا میرا خامہ تیغبار نجدی شکار اپنے مقتولین مخذولین مذبوحین مقبوحین حضرات وہابیہ پر احسان کے لیے یہ پچاسا شمارسے الگ رکھتا  اوربتوفیق اللہ تعالٰی آگے صرف وہ بعض احادیث کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف جلائل احکام تشریعیہ کی صریح اسنادوں پر مشتمل اوروہ کہ ان دلائل تفویض احکام بحضور سید الانام علیہ افضل الصلٰوۃ والسلام کی مؤید ومکمل ہیں لکھتا ہے ان میں مؤید ات تفویض کی تقویم کیجئے کہ اس مبحث کا سلسلہ مسلسل رہے وباللہ التوفیق ۔

 

حدیث(۴۴) ۱۴۶ : حدیث صحیح جلیل سنن ابی داود وسنن ابن ماجہ ومسند امام طحاوی ومعجم طبرانی ومعرفت بیہقی کلھم بطریق منصوربن المعمر عن ابراھیم التیمی عن عمرو بن میمون عن ابی عبداللہ الجدلی عن خزیمۃ بن ثابت الا بن ماجۃ فعن سفیان عن ابیہ عن ابراھیم التیمی عن عمروبن میموفٍ عن خزیمۃ کہ حضرت ذوالشہادتین خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : جعل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم للمسافر ثلٰثاً ولو مضی السائل علی مسألتہٖ لجعلھا خمساً۱؂۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسافر کے لئے مسح موزہ کی مدت تین رات مقرر فرمائی ،ا ور اگر مانگنے والا مانگتا رہتا تو ضرورحضور پانچ راتیں کردیتے ۔ یہ ابن ماجہ کی روایت ہے ۔

 

 (۱؂سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی التوفقیت فی المسح للمقیم والمسافر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۴۲)

 

اورروایت ابی داود اورایک روایت معانی الآثار ابی جعفر اورایک روایت بیہقی میں ہے : فرمایا : ولو استزد ناہ لزادنا۲؂۔ اوراگرہم حضور سے زیادہ مانگتے تو حضور مدت اوربڑھا دیتے ۔

 

(۲؂سنن ابی داود کتاب الطہارۃ باب التوقیت فی المسح آفتاب عالم پریس لاہور ص۲۱)

(شرح معانی الآثار کتاب الطہار باب المسح علی الخفین الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۶۱)

(السنن الکبرٰی للبیہقی کتاب الطہارۃ باب ماوردفی ترک التوقیت دارصادر بیروت    ۱ /۲۷۷)

 

دوسری روایت طحاوی میں ہے  : عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہ جعل المسح علی الخفین للمسافرثلٰثۃ ایام ولیا لیھن وللمقیم یوماًولیلۃً ولو اطنب لہ السائل فی مسألتہ لزادہ۳؂۔ بیشک نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسح موزہ کی مدت مسافر کے لیے تین رات دن اورمقیم کے لیے ایک رات دن کردی ، اوراگر مانگنے والا مانگے جاتا تو حضور افور زیادہ مدت عطافرماتے ۔

 

 (۳؂شرح معانی الآثار کتاب الطہار باب المسح علی الخفین الخ ایچ یم سعید کمپنی کراچی ۱ /۶۱)

 

بیہقی کی روایت اخرٰی یوں ہے : وایم اللہ لو مضی السائل فی مسألتہٖ لجعلہا خمساً۴؂۔ اگرسائل عرض کئے جاتا تو حضور مدت کے پانچ دن کردیتے ۔

 

 (۴؂السنن الکبرٰی للبیہقی کتاب الطہارۃ باب ماوردفی ترک التوقیت دار صادر بیروت      ۱ /۲۷۷)

 

یہ حدیث بلاشبہہ صحیح السند ہے اس کے سب رواۃ اجلّہ ثقات ہیں۔ لاجرم امام ترمذی نے اسے روایت کر کے فرمایا: ھذاحدیث حسن صحیح۱؂ ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔

 

 (۱؂سنن الترمذی ابواب الطہارۃ با ب ماجاء فی المسح علی الخفین حدیث ۹۵دارالفکر بیروت   ۱ /۱۵۲)

 

نیز امام الشان یحٰیی بن معین سے نقل کیاکہ حدیث صحیح ہے ۔ وھو ان لم یذکر الزیادۃ فانما المخرج المخرج والطریق الطریق حیث قال حدثنا قتیبۃ نابوعوانۃ عن سعید بن مسروق عن ابراھیم التیمی عن عمرو بن میمون عن ابی عبداللہ الجدلی عن خزیمۃ بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۲؂۔ امام ترمذی نے اگرچہ زیادت کو ذکر نہیں کیا مگر مخرج بھی وہی ہے اورطریق بھی وہی ہے ، اس لئے کہ فرمایا ہمیں حدیث بیان کی قتیبہ نے انہوں نے ہمیں حدیث بیان کی ابو عوانہ سے انہوں نے سعید بن مسروق سے انہوں نے ابراہیم تیمی سے انہوں نے عمرو بن میمون سے انہوں نے ابو عبداللہ جدلی سے انہوں نے خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ۔

 

 (۲؂سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی المسح علی الخفین حدیث ۹۵دارالفکر بیروت ۱ /۱۵۲)

 

وقد اطال الامام ابن دقیق  العید الکالم فی تقویۃ ھذا الحدیث والذات (عہ) عنہ فی کتابہ الامام واثرہ الامام الزیلعی فی نصب الرایۃ ۱؂ فراجعہ ان شئت۔ امام ابن دقیق العید نے اس حدیث کی تقویت میں اپنی کتاب الامام میں خوب لمبی گفتگو فرمائی ہے ، اورامام زیلعی نے نصب الرایہ میں ان کی پیروی کی ہے ۔ (ت)

 

(۱؂نصب الرأیۃ کتاب الطہارۃ باب المسح علی الخفین المکتبۃ النوریۃ رضویہ پبلشنگ لاہور    ۱ /۲۳۲تا۲۳۵)

 

عہ : اعظم مایرتاب فہ فیہ روایۃ البیھقی عن الترمذی عن البخاری لایصح عندی لانہ لایعرف لابی عبداللہ الجدلی سماع من خزیمۃ۳؂ع

وتلک شکاۃ ظاھرعنک عارھا

فان مبناہ علی ماذھب الیہ ھو رحمۃ اللہ من اشتراط ثبوت السماع ولو مرۃ للاتصال والصحیح الاجتزاء بالمعاصرۃ ھو المنصور علیہ الجمہور کما افادہ المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر وقد اطال مسلم فی مقدمۃ صحیحہ فی الرد علی ھذا المذھب لاجرم ان لم یکثر بہ تلمیذہ الترمذی وحکم بانہ حسن صحیح وکذا حکم بصحتہ شیخ البخاری بامام الناقدین یحیٰی بن معین ۔

 

اس میں سب سے بڑا شبہ اس رواتی سے کیا جاتاہے جو بیہقی نے امام ترمذی سے اورانہوں نے امام بخاری سے کی ہے کہ میرے نزدیک یہ حدیث نہیں کیونکر ابوعبداللہ جدلی کا خزیمہ سے سماع ثابت نہیں ۔ یہ وہ شکوٰی ہے جس کا عارتجھ سے دور ہے ، کیونکہ امام بخاری علیہ الرحمہ کے مؤقف کے مطابق اس بات پر ہے کہ راوی کا مروی عنہ سے سماع شرط ہے اگرچہ ایک مرتبہ وہا تصال کے لیے ۔ صحیح یہ ہے کہ معاصرت ہی کافی ہے ۔ جمہور کا موقف یہی ہے جیسا کہ محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اس کا افادہ فرمایا ہے ۔ امام مسلم نے صحیح مسلم کے مقدمہ میں اس مذہب کے رد پر طویل بحث کی ہے ۔ امام بخاری کے شاگرد امام ترمذی نے بھی امام بخاری کی تائید نہیں کی اوراس حدیث کے صحیح ہونے کا حکم لگایا ہے ۔ یونہی امام بخاری کے استاذامام الناقدین یحیٰی بن معین نے اس کی صحت کا حکم لگایا ہے۔

 

(۳؂الجوہر النقی حوشی علی السنن الکبرٰی للبیہقی کتاب الطہار باب ماوردفی ترک التوقیت دارصادر بیروت ۱ /۲۷۸و۲۷۹)

 

اقول: علاانہ لو سلم فقصواہ الا نقطاع ولیس بقادح عند نا وعند سائر قابلی المراسیل وھم الجہور ثم علک من دندنۃ ابن حزم ان الجدلی لایعتمد علی روایتہ فان الرجل فی الجرح والوقعیۃ کالا عمیین السیل الھوجم والبیعر الصؤل حتی عند الترمذی من المجاھیل والجد لی فقد وثقہ الا مامان المرجوع الھما احمد بن حنبل وابن معین فما ھو ابن حزم وائش ابن ھزم بعد ھٰذین وھو متفردفیہ لم یسبقہ احد بھٰذا القول الا تری ان البخاری انما اعلہ اذا  عللہ بانہ لم یعرف سماع الجدلی لابانھا روایہ الجدلی وقدصحح لہ الترمذی وقال فی التقریب ۱؂ ثقہ۔واللہ تعالٰی اعلم ۱۲منہ ۔

 

میں کہتاہوں اگرامام بخاری کی بات تسلیم بھی کرلی جائے تو اس سے زیادہ سے زیادہ انقطاع لازم آتاہے اوروہ ہمارے نزدیک اورمساسیل کو قبول کرنیوالے دیگر حضرات جو کہ جمہور ہیں کے نزدیک قادح نہیں ہے پھر تم پر ابن حزم کی گنگناہٹ کا سننالازم ہے کہ جدلی کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاتا، کیونکہ آدمی جرح وتصادم میں دو اندھوں کی مثل ہوتاہے یعنی بڑھتا ہوا سیلا ب اورحملہ کرنیوالا مست اونٹ ۔ یہاں تک کہ ترمذی کے ہاں مجاہیل میں سے ہے ، اورجدلی کی توثیق ان دواماموں نے کی ہے جن کی طرف رجوع کیا جاتاہے ، اوروہ امام احمد بن حنبل اوریحیٰی بن معین ہیں ۔ ان دو اماموں کے مقابلہ میں ابن حزن وابن ھزم کیا شے ہے درانحالیکہ وہ اس میں تنہا ہے ۔ اس سے پہلے کسی نے یہ قول نہیں کیا ۔ کیا تو دیکھتا نہیں کہ امام بخاری نے اس کو اس وجہ سے معلل قرار دیا کہ جدلی کا سماع معروف نہیں، نہ اس وجہ سے کہ یہ جدلی کی روایت ہے ۔ امام ترمذی نے اس کو صحیح قراردیا اورتقریب میں کہا کہ وہ ثقہ ہے ۔ اوراللہ تعالٰی خوب جانتاہے ۔(ت)

 

(۱؂ تقریب التہذیب ترجمہ ابی عبداللہ الجدلی ۸۲۴۳      دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۴۲۸)

 

اقول : یہ حدیث صحیح حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تفویض واختیار میں نص صریح ہے ورنہ یہ کہنا اورکہنا بھی کیسا مؤکد بقسم کہ واللہ سائل مانگے جاتاتو حضور پانچ دن کردیتے اصلاً گنجائش نہ رکھتا تھا کما لایخفٰی (جیسا کہ پوشید ہ نہیں ۔ت)اوریہاں جزم خصوص بے جزم عموم نہ ہوگا کہ اس خاص کی نسبت کوئی خبر خاص تخییر ارشاد نہ ہوئی تھی تو جزم کا منشاء وہی کہ حضرت خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو معلوم تھا کہ احکام سپرد اختیار حضورسید الانام ہیں علیہ وعلٰی آلہٖ افضل الصلٰوۃ والسلام۔

 

حدیث ۱۴۷ : مالک واحمد وبخاری ومسلم ونسائی وابن ماجہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : لولا ان اشق علی امتی لامر تھم بالسواک عند کل صلٰوۃ۱؂۔

 

 (۱؂صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ باب السواک یوم الجمعۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۲و۲۵۹)

( صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب السواک قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۸)

(سنن النسائی کتاب الطہارۃ الرخصۃ فی السواک نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۶)

(سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب السواک ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۵)

(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۴۵،۲۵۰،۲۵۹،۲۸۷،۳۹۹،۴۰۰)

(مؤطاامام مالک کتاب الطہارۃ ماجاء فی السواک میر محمد کتب خانہ کراچی ص۵۰)

 

اگرمشقت امت کا خیال نہ ہوتا تو میں ان پر فرض فرمادیتاکہ ہرنماز کے وقت مسواک کریں۔

 

علماء فرماتے ہیں یہ حدیث متواتر ہے قالہ، فی التیسیر وغیرہٖ  (تیسیر۲؂ وغیرہ میں اےس بیان کیا گیا۔ ت)

 

 (۲؂التیسیرشرح الجامع الصغیر تحت الحدیث لولا ان اشق علی امتی الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض  ۲/ ۳۱۴)

 

احمد ونسائی نے انہیں سے بسند صحیح یوں روایت کی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :   لولاان اشق علی امتی لامرتھم عند کل صلٰوۃ بوضو ء او مع کل وضوء بسواک۳؂  ۔ امت پر دشواری کا لحاظ نہ ہو تو میں ان پر فرض کردوں کہ ہر نماز کے وقت وضو کریں اور ہر وضو کے ساتھ مسواک کریں۔

 

(۳؂سنن النسائی کتاب الطہارۃ الرخصۃ فی السواک نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی۱ /۶)

(مسند احمد بن حنبل عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۵۹ )

 

اقول :   امردوم  دوقسم ہے حتمی جس کا حاصل ایجاب اوراس کی مخالفت معصیت ، وذٰلک قولہ، تعالٰی فلیحذرالذین یخالفون عن امرہٖ۴؂۔ اوروہ اللہ تعالٰی کا ارشاد کہ اللہ تعالٰی کے امر کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے ۔ (ت)

 

(۴؂القرآن الکریم ۲۴ /۶۳)

 

دوسرا ندبی جس کا حاصل ترغیب اوراس کے ترک میں وسعت، وذٰلک قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امرت بالسواک حتی خشیت ان یکتب علی احمد۵؂بن واثلۃ بن الا سقع رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند حسنٍ۔ اوروہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد کہ مجھے مسواک کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ مجھے ڈر ہواکہ کہیں مجھ پر فرض نہ ہوجائے ۔اس کو امام احمد نے واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ (ت)

 

(۵؂مسند احمد بن حنبل حدیث واثلہ بن الاسقع المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۴۹۰)

 

امرندبی تو یہاں قطعاًحاصل ہے توضروری نفی حتمی کی ہے ، امر حتمی بھی دوقسم ہے ظنی جس کا مفاد وجوب اورقطعی جس کا مقتضٰی فرضیت ، ظنیت خواہ من جہۃ الرؤیۃ یا من جہۃ الدلالۃ ہمارے حق میں ہوتی ہے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علوم سب قطعی یقینی ہیں جن کے سراپردہ عزت کے گرد ظنوں کو اصلاً بار نہیں تو قسم واجب اصطلاحی حضور کے حق میں متحقق نہیں وہاں یا فرض ہے یا مندوب، نص علیہ الامام المھقق حیث اطلق فی الفتح (اس پر محقق امام علیہ الرحمہ نے فتح میں نص فرمائی ہے ۔ ت)

 

اب واضح ہوگیا کہ ان ارشاد ات کریمہ کے قطعاً یہی معنی ہے کہ میں چاہتا تو اپنی امت پر ہرنمازکے لیے تازہ وضو اور ہر وضو کے وقت مسواک کرنا فرض فرمادیتامگر ان کی مشقت کے لحاظ سے میں نے فرض نہ کئے اوراختیاراحکام کے کیا معنی ہیں۔ وللہ الحمد۔

 

حدیث(۴۶) ۱۴۸ : مالک وشافعی وبیہقی ان سے اورطبرانی اوسط میں امیرالمومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے بسند حسن راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : لولا ان اشق علی امتی لامرتھم بالسواک مع کل وضوءٍ۱؂۔ مشقت امت کا پاس ہے ونہ میں ہر وضو کے ساتھ مسواک ان پر فرض کردوں ۔

 

 (۱؂ مؤطا لامام مالک کتاب الطہارۃ ماجاء فی السواک میر محمد کتب خانہ کراچی ص۵۰)

(السنن الکبرٰی کتاب الطہارۃ باب الدلیل علی ان السواک سنۃ دارصادر بیروت ۱ /۳۵)

( کنزالعمال بحوالہ والشافعی حدیث ۲۶۱۹۱   مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۳۱۵)

(المعجم الاوسط ، حدیث ۱۲۶۰  مکتبۃ المعارف ریاض ۲ /۱۳۸)

 

حدیث(۴۷) ۱۴۹ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ مسواک کرو مسواک منہ کو پاکیزہ اوررب عزوجل کو راضی کرتی ہے ، جبریل جب میرے پاس حاضر ہوئے مجھے مسواک کی وصیت کی ۔ حتی لقد خشیت ان یفرضہ، علی وعلٰی امتی ولولا انی اخاف ان اشق علی امتی لفرضتہ علیہم ابن ماجہ۱؂ عن ابی امامۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ یہاں تک کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ جبریل مجھ پر اور میری امت پر فرض کردیں گے اوراگر مشقت امت کا خوف نہ ہوتا تو ان پر فرض کردیں گے ۔(ابن ماجہ نے ابی امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

(۱؂سنن ابن ماجۃ ابواب الطہارۃ باب السواک ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۵)

 

یہاں جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کی طرف بھی فرض کردینے کی اسناد ہے ۔

 

حدیث(۴۸) ۱۵۰ : طبرانی وبزارودارقطنی وحاکم حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں  : لولا ان اشق علی امتی لفرضت علیہم السواک عند کل صلٰوۃ ۲؂ (زاد غیر الدار قطنی )کما فرضت علیہم الوضوء۳؂۔ مشقتِ امت کا لحاظ نہ ہوتو میں ہر نماز کے وقت مسواک ان پر فرض کردوں جس طرح میں نے وضو ان پر فرض کردیا ہے ۔

 

(۲؂کنزالعمال بحوالہ قط عن ابن عباس حدیث ۲۶۱۷۰مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹/۳۱۲)

(۳؂المستدرک للحاکم کتاب الطہارۃ لولاان اشق علی امتی دارالفکر بیروت   ۱ /۱۴۶)

(البحر الزخار عن ابن عباس حدیث ۱۳۰۲مکتبۃ العلوم والحکم مدینۃ المنورۃ ۴ /۱۳۰)

(مجمع الزوائد بحوالہ العباس کتاب الطہارۃ باب فی السواک دارالکتاب بیروت ۱ /۲۲۱)

(مجمع الزوائد    کتاب الصلٰوۃ باب ماجاء فی السواک   دارالکتاب بیروت  ۲ /۹۷)

 

یہاں وضو کو بھی فرمایا گیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی امت پرفرض کردیا ۔

 

حدیث(۴۹، ۵۰۱۵۱، ۱۵۲ : فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  : لولاان اشق علی امتی لامرتھم بالسواک واطیب عند کل صلٰوۃ ۔ ابو نعیم فی کتاب السواک ۴؂ عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما بسند حسنٍ وسعید بن منصور فی سننہٖ عن مکحول مرسلاً۔ مشقت امت کا خیال نہ ہوتا تو اپنی امت پر ہر نماز کے وقت مسواک کرنا اور خوشبولگانا فرض کردوں ۔ (ابو نعیم نے کتاب السواک میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بسند حسن اورسعید بن منصور نے اپنی سنن میں مکحول سے مرسلاٍ روایت کیا۔ت)

 

(۴؂کنزالعمال بحوالہ صعن مکحول مرسلاً حدیث ۲۶۱۹۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹/ ۳۱۶)

 

یہاں خوشبو کی فرصت بھی زائد فرمادی ۔

 

حدیث(۵۱) ۱۵۳ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لولاان اشق علی امتی لامرتھم ان یستاکوا بالاسحار۔ ابو نعیم فی السواک ۱؂ عن عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ مشقتِ امت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ان پر فرض فرمادیتا کہ ہر سحر پہلے پہر اٹھ کر مسواک کریں (ابو نعیم نے کتاب السواک میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)

 

 (۱؂ کنزالعمال بحوالہ ابی نعیم فی کتاب السواک حدیث ۲۶۱۹۶مؤسسۃ الرسالہ بیروت  ۹ /۳۱۶)

(الدرالمنثور بحوالہ ابی نعیم تحت الآیۃ  ۲ /۱۲۴     داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۵۲)

 

حدیث(۵۲ ،۵۳) ۱۵۴ و ۱۵۵ : فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لولا ان اشق علی امتی لامر تھم بالسواک عن دکل صلٰوۃ ولاخرت العشاء الی ثلث اللیل ۔ مشقت امت کا خیال نہ ہوتو میں ہر نماز کے وقت ان پر مسواک فرض کردوں اورنماز عشاء کو تہائی رات تک ہٹادوں ۔ احمد ۲؂ والترمذی والضیاء عن زید بن خالد نالجھنی رضی اللہ تعالٰی عنہ بسندٍ صحیح والبزار عن امیر المومنین علی کرم اللہ تعالٰی وجھہ، وروٰی عن زید احمد وابو داود والنسائی کحدیث ابی ھریرۃ الاول بالاقتصار علی السطر الاول والحاکم والبیھقی بسندٍ صحیح عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ کحدیث زیدٍ ھذا وفیہ لفرضت علیھم السواک مع الوضوء ولاخرت صلٰوۃ العشاء الاٰخرۃ الی نصف اللیل۳؂۔ یعنی میں وضو میں مسواک کرنا فرض کردیتا اورنماز عشاء آدھی رات تک ہٹا دیتا۔

 

(۲؂مسند احمد بن حنبل عن زید بن خالد رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۱۱۴)

(سنن الترمذی ابواب الطہارۃ باب ماجاء فی السواک حدیث ۲۳دارالفکر بیروت ۱ /۱۰۰)

 (کنزالعمال بحوالہ حم ، ت والضیاء حدیث ۲۶۱۹۰مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۳۱۵)

(البحرالزخار عن علی رضی اللہ عنہ حدیث ۴۷۸مکتبۃ العلوم والحکم مدینۃ المنورۃ ۲ /۱۲۱)

(مسند احمد بن حنبل عن زید بن خالد المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۱۱۶)

(سنن ابی داود کتاب الطہارۃ باب السواک آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۷)

(۳؂المستدرک للحاکم کتاب الطہارۃ فضیلۃ السواک دارالفکر بیروت ۱ /۱۴۶)

(السنن الکبری کتاب الطہارۃ باب الدلیل علی ان السواک السنۃ الخ دارصادر بیروت ۱/ ۳۶)

(کنزالعمال بحوالہ ک وھق عن ابی ہریرۃ حدیث ۲۶۱۹۴مؤسسۃ الرسالہ بیروت۹ /۳۱۶)

 

وللنسائی عن ابی ھریرۃ بلفط الامر تھم تاخیر العشاء بالسواک عند کل صلٰوۃ ۱؂۔ نسائی نے ابو ہریر ہ سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا: میں ان پر فرض کردیتا کہ عشاء دیر کر کے پڑھیں اورنماز کے وقت مسواک کریں۔

 

 (۱؂سنن النسائی کتاب المواقیت باب مایستحب من تاخیر العشاء نو ر محمد کتب خانہ کراچی ۱ /۹۲و۹۳)

 

حدیث(۵۴) ۱۵۶: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لولاان اشق علی امتی لامر تھم ان یصلوھا ھٰکذا یعنی العشاء نصف اللیل ۔ احمد ۲؂والبخاری ومسلم والنسائی عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ امت پر مشقت نہ ہوتی تو میں ان پر فرض کردیتا کہ عشاء آدھی رات کو پڑھیں ۔ (احمد ، بخاری ، مسلم اورنسائی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۲؂مسند احمد بن حنبل عن ابن عباس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۳۶۶)

(صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلٰوۃ باب النوم قبل العشاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۸۱)

(صحیح مسلم کتاب المساجد باب وقت العشاء وتاخیر ھا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۲۹)

(سنن النسائی کتاب المواقیت باب یستحب من تاخیر العشاء نور محمد کارخانہ کراچی ۱ /۹۲)

 

حدیث(۵۵) ۱۵۷ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لولا ضعف الضعیف وسقم السقیم لامرت بھٰذہ الصلٰوۃ ان توخر الی شطراللیل۔ النسائی ۳؂عن ابی سعد ن الخدری رضی اللہ تعالٰی ومرت روایۃ احمد وابی داود وابن ماجۃ وابی حاتم بلالفظ الامر۔ اگرناتواں اوربیماروں کا لحاظ نہ ہوتا تو میں فرض کردیتاکہ یہ نماز آدھی رات تک مؤخر کریں (اس کو نسائی نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ احمد ، ابو داود، ابن ماجہ اورابو حاتم کی روایت گزر چکی ہے جو لفظ امر کے بغیر ہے ۔ (ت)

 

(۳؂ سنن النسائی کتاب المواقیت باب یستحب من تاخیر العشاء نور محمد کارخانہ کراچی ۱ /۹۳)

 

حدیث(۵۶)۱۵۸: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لولاان اشق علی امتی لامرتھم ان یؤخروا(عہ) العشاء الی ثلث اللیل اونصفہٖ ۔احمد ۱؂ والترمذی وصححہ، وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ومرت اخری لابن ماجۃ کاحمد وابی داود  ومحمد بن نصر خالیۃ عن الامر ۔ مشقت امت کا اندیشہ نہ ہوتو میں ان پر فرض کردوں کہ عشاء میں تہائی یاآدھی رات تک تاخیر کریں (اس کو امام احمد وترمذی نے اسکو صحیح قرار دیا ۔ اورابن ماجہ نے اس کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔اوردوسری روایت ابن ماجہ کی احمد وابو داود ومحمد بن نسر کی طرح گزرچکی ہے جو امر سے خالی ہے ۔(ت)

 

 (۱؂مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۴۳۳و۵۰۹)

(سنن الترمذی ابواب الصلٰوۃ باب ماجاء فی تاخیر صلٰوۃ العشاء الخ حدیث ۱۶۷دارالفکر بیروت ۱ /۲۱۴)

 (سنن ابن ماجۃ کتاب الصلٰوۃ باب وقت صلٰوۃ العشاء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵)

(کنزالعمال عن ابی ہریرۃ حدیث ۱۹۴۶۴ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۷ /۳۹۵)

 

عہ : سبب ھٰذا انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اخرذات لیلۃ صلٰوۃ العشاء حتی ابھا راللیل او ذھب عامۃ اللیل ونام النساء والصبیان فجاء فصلی وذکرہ کما ورد مبینا فی احادیث ابن عباس وابی سعید وابن عمرو انس وغیرھمٍ رضی اللہ تعالی عنہم، وسبب حدیث السواک ایتان ناس عندہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قلحا فقال استاکوا استاکوا لاتاتونی قلحا لولا ان اشق علی امتی لفرضت علیھم السواک عند کل صلٰوۃ کما بینہ الدارقطنی ۱؂ من حدیث العباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فھما حدیثان ربما افرزھما ابو ھریرۃ وربما جمع وکذٰلک غیرہ رضی اللہ تعالٰی عنہم وان اتفق ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھو الذی قال مرۃ ھٰکذا اواخرٰی ھٰکذا و تارۃ جمع فالتعدداظھر واکثر ، ولالہ تعالٰی اعلم ۱۲منہ دامت فیوضہ۔

 

اس کا سبب یہ ہے کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مؤخر فرمادی یہاں تک کہ آدھی رات یا زیدہ گزرگئی ۔ عورتیں اوربچے سوگئے توآپ تشریف لائے اورنماز پڑھائی ، جیسا کہ ابن عباس ، ابو سعید ، ابن عمر اورانس وغیرہ کی احادیث میں واضح طور پر وارد ہوا ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ حدیث سواک کاسبب یہ ہے کہ لوگ میلے کچیلے دانتوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے توآپ نے فرمایا مسواک کیا کرو اورمیرے پاس میلے کچیلے دانتوں کے ساتھ مت آیاکرو ، اگر مجھے امت کی مشقت کا لحاظ نہ ہوتا تو میں ان پر ہر ناز کے وقت فرض کردیتا ۔ جیساکہ اس کو دارقطنی نے بحوالہ حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کیا ہے ۔ ان دونوں حدیثوں کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کبھی الگ الگ بیان فرمایا ہے اورکبھی دونوں کوجمع کیا ہے ، یونہی ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غیر نے کیا ہے ، اگرچہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی اس طرح بیان فرمایا ہے اورکبھی اس طرح اورکبھی دونوں کو جمع فرمایا۔ چنانچہ تعدد اظہر واکثر ہے ۔ اوراللہ تعالٰی خوب جانتا ہے ۔۱۲منہ (ت)

 

(۱؂کنز العمال بحوالہ قط عن ابن عباس حدیث ۲۶۱۷۰مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۹ /۳۱۲)

 

حدیث(۵۷) ۱۵۹: صحیح بخاری میں زید بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک آیت سورہ احزاب کی نسبت ہے : وجدتھا مع خزیمۃ الذی جعل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شہادتہ بشہادتین ۲؂۔ وہ میں نے لکھی ہوئی خزیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس پائی جن کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دوگواہوں کے برابر فرمائی ۔

 

 (۲؂صحیح البخاری کتاب الجہاد باب قول اللہ تعالٰی من المومنین رجال الخ قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۳۹۴)

(صحیح کتاب التفسیر سورۃ احزاب قدیمی کتب خانہ کراچی      ۲ /۷۰۵)

 

حدیث(۵۸) ۱۶۰: کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یمن پر صوبیدا ربنا کر بھیجتے وقت ان سے ارشاد فرمایا  : قد عرفت بلاء ک فی الدین والذی قدر کبک من الدین وقد طیبت لک الھدیۃ فان اھدی لک شئی فاقبل۔ سیف فی کتاب الفتوح ۱؂ عن عبید بن صخر رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ مجھے معلوم ہے جو تمہاری آزمائشیں دین متین میں ہوچکیں اورجو کچھ دیون تم پر ہوگئے ہیں رعیت کے تحفے میں نے تمہارے لئے حلال طیب کردئے جو تمہیں کچھ تحفہ دے لے لو ۔ (سیف نے کتاب الفتوح نے عبید بن صخر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

(۱؂کنزالعمال بحوالہ طب عن عبید بن صخر المکتب الاسلامی بیروت     ۶ /۱۱۵)

 

حدیث۱۶۱ (عہ) : عہ : یہاں تک اٹھاون حدیثیں تفویض امر کی مفیدات ومؤیدات مذکور ہوئیں آگے صرف اسناد ات جلیلہ ہیں ۱۲۔

 

فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : قد عفوت عن الخیل والرقیق فھا توا صدقت الرقۃ من کل اربعین درھما درھم۔ احمد۲؂ وابوداود والترمذی عن امیر المؤمنین المرتضٰی رضی ا للہ تعالٰی عنہ بسند صحیح ۔ گھوڑوں اورغلاموں کی زکوٰۃ تو میں نے معاف کردی روپوں کی زکوٰۃ دو ہرچالیس درہم میں سے ایک درہم ۔(احمد اورابوداود اورترمذی نے امیر المومنین علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسند صحیح روایت کیا۔ ت )

 

(۲؂سنن ابی داود کتاب الزکوٰۃ باب زکوٰۃ السائمۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۲۲۱)

 (سنن الترمذی کتاب الزکوٰۃ باب ماجاء فی زکوٰۃ الذہب الخ حدیث ۶۲۰دارالفکر بیروت ۲ /۱۲۳)

(مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت    ۱ /۹۲)

 

سواری کے گھوڑوں ، خدمت کے غلاموں میں زکوٰۃ جو واجب نہ ہوئی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :  ''یہ میں نے معاف فرمادی ہے ۔''ہاں کیوں نہ ہوکہ حکم ایک روف ورحیم کے ہاتھ میں ہے بحکم رب العالمین جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

حدیث۱۶۲: حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے فرمایا: ماتقولون فی الزنا، قالو احرام حرَّمہ اللہ ورسولہ فھو حرام الی یوم القیٰمۃ ۔ احمد۱؂بسند صحیح والطبرانی فی الاوسط والکبیر عن المقداد بن الاسود رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ زنا کو کیسا سمجھتے ہو؟عرض کی : حرام ہے اسے اللہ ورسول نے حرام کردیا تو وہ قیامت تک حرام ہے ۔(احمد نے بسند صحیح اورطبرانی نے اوسط اورکبیر میں مقداد بن اسود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

(۱؂مسند احمد بن حنبل بقیہ حدیث مقداد بن اسود المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۸)

(المعجم الکبیر عن مقداد بن اسود حدیث ۶۰۵المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۰ /۲۵۶)

 

حدیث ۱۶۳ :  فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : انی احرم علیکم حق الضعیفین الیتیم والمرأۃ ۔ الحاکم۲؂علی شر ط مسلم والبیہقی فی الشعب واللفظ لہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ میں تم پر حرام کرتاہوں دو کمزوروں کی حق تلفی ، یتیم اورعورت ۔ (حاکم شرط مسلم پر اوربیہقی نے بحوالہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ شعب الایمان میں اس کو روایت کیا ہے ، اورلفظ بیہقی کے ہیں۔(ت)

 

(۲؂المستدرک للحاکم کتاب الایمان انی احرج علیکم حق الضعیفین دارالفکر بیروت ۱ /۶۳)

(کنزالعمال بحوالہ کہ ، ھب عن ابی ہریرۃ حدیث ۶۰۰۱مؤسسۃ الرسالہ بیروت  ۳ /۱۷۱)

 

حدیث۱۶۴ : صحیحین میں جابر بن عبداللہ تعالٰی عنہما سے ہے انہوں نے سال فتح میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سنا :  ان اللہ ورسولہ، حرم بیع الخمر والمیتتۃ والخنزیر والاصنام ۳؂۔ بیشک اللہ اوراس کے رسول نے حرام کردیا شراب اورمردار اورسوئر اوربتوں کا بیچنا ۔

 

(۳؂صحیح البخاری کتاب البیوع باب بیع المیتۃوالاصنام قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱ /۲۹۸)

( صحیح مسلم کتاب البیوع باب تحریم الخمر والمیۃالخ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۲ /۲۳)

 

حدیث ۱۶۵ :  فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لاتشرب مسکراً فانی حرمت کل مسکرٍ۔ النسائی ۴؂بسند حسن عن ابی موسٰی الاشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ نشہ کی کوئی چیز نہ پی کہ بیشک نشہ کی ہر شیئ میں حرام(عہ)کردی ہے . نسائی نے بسند حسن ابی موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔(ت)

 

(۴؂سنن النسائی کتاب الاشربۃ تفسیر نور محمد کارخانہ کراچی ۲ /۳۲۵)

 

عہ : فائدہ: ابوالشیخ ابن حبان نے کتاب الثواب میں روایت کی حدثنا ابن ابی عاصم ثنا عمر بن حفص ن الوصائی ثنا سعید بن موسٰی ثنارباح بن زید عن معمر عن ازھری عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انی فرضت علی امتی قرأۃ ٰیٰس کل لیلۃ فمن داوم علی قرأتھا کل لیلۃ ثم مات شہیدا۱؂

 

یعنی اس سند سے آیا کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنی امت پر یٰس  شریف کی ہر رات تلاوت فرض کی جو ہمیشہ ہر شب اسے پڑھے پھر مرے شہید مرے ۔

 

(۱؂تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ بحوالہ ابی الشیخ فی الثواب حدیث ۳۲دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۲۹۷)

 

اقول : وسعید وان اتھم فالمحقق عند المحققین ان الوضع لایثبت بمجرد تفردکذاب فضلاً عن متھم مالم ینضم الیہ شئی من القرائن الحاکمۃ بہ کمخالفۃ نصٍ اواجماع قطعیین اوالحس اواقرار المواضع بوضعہٖ الی غیر ذٰلک کما نص علیہ السخاوی فی فتح المغیث واٹبتنا علیہ عرش التحقیق فی ''منیرالعین فی حکم تقبیل الابھا مین(ف۱) "واجمع العلماء ان اضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی الفضائل وقد بیناہ فی''الہاد" (ف ۲)

 

میں کہتاہوں سعید اگرچہ متہم ہے مگر محققین کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ بیشک وضع حدیث محض ایک کذاب کے تفرد سے ثابت نہیں ہوتا چہ جائیکہ متہم سے ثابت ہوجب تک اس کے ساتھ قرائن وضع منضم نہ ہوں ، جیسے نص قطعی کی مخالفت اوراجماع قطعی کی مخالفت اورحس کی مخالفت اورخود واضع کا اقرار وغیرہ ، جیسا کہ امام سخاوی نے فتح المغیث میں اس پر نص فرمائی ہے ، اورہم نے ''منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین'' میں اس کی تحقیق کو حد کمال تک پہنچایا ہے ۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ جو حدیث ضعیف موضوع نہ ہو وہ فضائل میں قابل عمل ہے اورہم اس کو ''الہاد الکاف فی حکم الضعاف ''میں بیان کیا ہے ۔(ت)

 

اس حدیث اوراس کی فرضیت کے متعلق فقیر کے پاس سوال آیاتھا جس کا جواب فتاوی  فقیر العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ کے مجلد پنجم کتاب مسائل شتٰی میں مذکور واللہ الھادی الی معالی الامور ۱۲منہ۔

 

ف ۱ :    رسالہ ''منیز العین فی حکم تقبیل الابھا مین ''فتاوٰی رضویہ جلد پنجم مطبوعہ رضا فاؤنڈیش لاہور کے صفحہ ۴۲۹ پر مرقوم ہے۔

ف ۲ : اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ ''منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین ''میں افادہ شانزدہم ۱۶سے افادہ بست وسوم ۲۳تک آٹھ افادات کا نام ''الہاد الکاف فی حکم الضعاف ۱۳۱۳ھ''رکھا ہے ۔ملاحظہ ہوفتاوی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیش لاہور جلد پنجم صفحہ ۴۷۷ تا۵۳۷"الکاف فی حکم الضعاف''۔

 

حدیث ۱۶۶ : فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  : سن لو مجھے قرآن کے ساتھ اس کا مثل ملایعنی حدیث دیکھو کوئی پیٹ بھرا اپنے تخت پر بیٹھا یہ نہ کہے کہ یہی قرآن لئے رہو جو اس میں حلا ل ہے اسے حلال جا نو جو اس میں حرام ہے اسے حرام مانو، وان ماحرم رسول اللہ مثل ما حرم اللہ ۔ احمد۱؂ والدارمی وابو داود والترمذی وابن ماجۃ عن المقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالٰی عنہ بسندٍ حسن۔ جو کچھ اللہ کے رسول نے حرام کیا وہ بھی اسی کی مثل ہے جسے اللہ عزوجل نے حرام کیا، جل جلالہ، و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔(احمد اوردارمی اورابو داود اورترمذی اورابن ماجہ نے مقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بسند حسن روایت کیا۔ ت)

 

(۱؂سنن ابی داود کتاب السنۃ باب فی لزوم السنۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۷۶)

 

یہاں صراحۃً حرام کی دو قسمیں فرمائیں ا: ایک وہ جسے اللہ عزوجل نے حرام فرمایا اور دوسرا وہ جسے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حرام کیا۔ اورفرمادیا کہ وہ دونوں برابر ویکساں ہیں۔

اقول : مراد واللہ اعلم نفس رحمت میں برابری ہے تو اس ارشاد کے منافی نہیں کہ خدا کا فرض رسول کے فرض سے اشد واقوٰی ہے۔ حدیث ۱۶۷: جہیش بن اویس نخعی رضی اللہ تعالٰی عنہ مع اپنے چند اہل قبیلہ کے باریاب خدمت اقدس حضورسیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہوئے قصیدہ عرض کیا ازاں جمہ یہ اشعار ہیں ؎ الا یارسول اللہ انت مصدق

فبورکت مھدیا وبورکت ھادیاً

شرعت لنا دین الحنیفۃ بعد ما

عبدنا کامثال الحمیر طواغیاً

 

یارسول اللہ!حضور تصدیق لئے گئے ہیں حضور اللہ عزوجل سے ہدایت پانے میں بھی مبارک اورخلق کو ہدایت عطافرمانے میں بھی مبارک حضور ہمارے لئے دین اسلام کے شارع ہوئے بعد اس کے کہ ہم گدھوں کی طرح بتوں کو پوج رہے تھے۔ مندۃ ۱؂ من طریق عما ربن عبدالجبار عن عبداللہ بن المبارک عن الازواعی عن یحیٰی بن ابی سلمۃ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ حدیث طویل ۔ مندہ نے عماربن عبدالجبار کے طریقے سے عبداللہ بن مبارک سے انہوں نے اوزاعی سے انہوںنے یحیٰی بن ابی سلمہ سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ، حدیث لمبی ہے ۔(ت)

 

(۱؂الاصابہ فی تمییز الصحابۃ بحوالہ ابن مندۃ    ترجمہ ۱۲۵۱        جہیش بن اویس دارالفکر بیروت     ۱/ ۳۵۸)

 

یہاں صراحۃً تشریع کی نسبت حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف ہے کہ شریعت اسلامی حضور کی مقرر کی ہوئی ہے ولہذا قدیم سے عرف علمائے کرام میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو شارع کہتے ہیں۔ 

علامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں :  قداشتھر اطلاقہ علیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لانہ شرع الدین والاحکام۲؂۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو شارع کہنا مشہور ومعروف ہے اس لئے کہ حضور نے دین متین واحکام دین کی شریعت نکالی۔

 

(۲؂شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ  المقصد الثانی الفصل الاول دارالمعرفۃ بیروت ۳ /۱۳۴)

 

اسی قدر پربس کیجئے کہ اس میں سب کچھ آگیا ایک لفظ شارع تمام احکام تشریعیہ کو جامع ہوا ، میں نے یہاں وہ احادیث نقل نہ کیں جن میں حضور کی طرف امر ونہی وقضا وامثالہا کی اسناد ہے کہ : امر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قضٰی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے امر فرمایا ۔رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا۔ (ت)

اتنی حدیثوں میں وارد جن کے جمع کو ایک مجلد کبیر بھی کافی نہو، اورخود قرآن عظیم ہی نے جو ارشاد فرمایا : وما اٰتٰکم الرسول فخذوہ وما نھٰکم عنہ فانتھوا ۱؂۔ جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لو اورجس سے منع فرمائے اس سے باز رہو،

 

(۱؂القرآن الکریم     ۵۹ /۷)

 

کہ امر ونہی وقضا اوروں کی طرف بھی اسناد کرتے ہیں ۔ قال اللہ تعالٰی : اطیعوااللہ واطیعواالرسول واولی الامر منکم۲؂۔ حکم مانو اللہ کا اورحکم مانو رسول کا اوران کا جو تم میں حکومت والے ہیں۔(ت)

 

(۲؂ القرآن الکریم ۴/ ۵۹)

 

مجھے تو یہ ثابت کرنا تھا کہ حضور اقدس کو احکام شرعیہ سے فقط آگاہی وواقفیت کی نسبت نہیں جس طرح وہ سرکشی طاغی آخر تقویۃ الایمان میں سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر صریح افتراء کرکے کہتا : "انہوں نے فرمایا کہ سب لوگوں سے امتیاز مجھ کو یہی ہے کہ اللہ کے احکام سے میں واقف ہوں اور لوگ غافل "۳؂۔

 

(۳؂تقویۃ الایمان الفصل الخامس  مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۴۶)

 

مسلمانو! للہ انصاف ، یہ اس کس وناکس نے محمد رسول اللہ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضائل جلیلہ وخصائص جمیلہ وکمالات رفیعہ ودرجات منیعہ جن میں زید وعمر کی کیا گنتی انبیاء ومرسلین وملائکہ مقربین علیہم الصلٰوۃ والتسلیم کا بھی حصہ نہیں سب یک لخت اڑادئے سب لوگوں سے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا امتیاز صرف دربارہ احکام رکھا اوروہ بھی اتنا کہ حضور واقف ہیں اورلوگ غافل ، تو انبیاء سے تو کچھ امتیاز رہاہی نہیں کہ وہ بھی واقف ہیں غافل نہیں اورامتیوں سے بھی امتیاز اتنی ہی دیر تک ہے کہ وہ غافل رہیں واقف ہوجائیں تو کچھ امتیاز نہیں کہ اب وقوف وغفلت کا تفاوت نہ رہا اور امتیاز اس میں منحصر تھا انا اللہ وانا الیہ راجعون۔

 

مسلمانو!دیکھا یہ حاصل ہے اس شخص کے دین کا ، یہ پچھلا کلمہ ہے محمد رسول اللہ پر اس کے ایمان کا جس پر اس نے خاتمہ کیا ، حالانکہ واللہ دربارہ احکام بی صرف اتنا ہی امتیاز نہیں بلکہ حضور حاکم ہیں، صاحب فرمان ہیں، مالک افتراض ہیں، والی تحریم ہیں۔ سن اوسرکش ! احکام سے اپنے نزدیک واقف تو تُو بھی ہے پھر تجھے کوئی مسلمان کہے گا کہ شریعت کے فرائض تیرے فرض کئے ہوئے ہیں شرع کے محرمات تُو نے حرام کردئے ہیں جن پر زکوٰۃ نہیں انہیں تُو نے معاف کردیا ہے شریعت کا راستہ تیرا مقرر کیا ہے شرائع میں تیرے احکام بھی ہیں اور وہ احکام احکام خد ا کے مثل ماوی ہیں مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں یہ سب باتیں کہی جاتی ہیں خود محمد رسول اللہ نے ارشاد فرمائی ہیں لہذا فقیر نے صرف اسی قسم احادیث پر اقتصار کیا اوربفضلہٖ تعالٰی اپنا نیزہ خار اگزار وآہن گزار ان گستاخان چشم بند و دہن باز کے دل وجگر کے پار کردیا وللہ الحمد۔ اللہ تعالی کی بے شمار رحمتیں علامہ شہاب خفاجی پر کہ نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں قصیدہ بردہ شریف کے اس شعر: ؎

 

نبینا الاٰمر الناھی فلااحد

ابرفی قول لامنہ ولا نعمٖ۱؂ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صاحب امرونہی ، تو ان سے زیادہ ہاں اور نہ کے فرمانے میں کوئی سچا نہیں ۔

کی شرح میں فرماتے ہیں  :  معنی نبینا الاٰمر الخ انہ لاحاکم سواہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فھو حاکم غیر محکوم۲؂الخ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے صاحب امر ونہی ہونے کے یہ معنٰی ہیں کہ حضور حاکم ہیں حضور کے سوا عالم میں کوئی حاکم نہیں ، نہ وہ کسی کے محکوم ، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ ذکرہ، فی فصل جودہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  (اس کو صاحب نسیم نے  فصل فی وجودہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں ذکر فرمایا ہے ۔ت)

 

(۱؂الکواکب الدریۃ فی مدح خیر البریۃ الفصل الثالث مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند ص۲۱)

(۲؂نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واما الجود والکرم مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند۲ /۳۵)

 

الحمدللہ یہ تذییل جلیل اپنے باب میں فرد کامل ہوئی احادیث تحریم مدینہ طیبہ بھی اسی باب سے تھیں کہ امام الوہابیہ کے اس خاص حکم شرک کے سبب جد اشمار میں رہیں اگر کوئی چاہے انہیں اور اس بیان تذلیل کو ملاکر احکام تشریعیہ کے بارے میں سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اقتدار واختیار کا ظاہر کرنے والا یک مستقل رسالہ بنائے اوربنام  ''منیۃ اللبیب ان التشریع بید الحیبب ۱۳۱۱ھ'' موسوم ٹھہرائے ۔ واٰخر دعوٰنا ان الحمدللہ رب العٰلمین والصلٰوۃ والسلام علی سید المرسلین محمدٍ واٰلہٖ وصحبہٖ اجمعین ، اٰمین۔

 

مسک الختام  : اب فقیر غفرلہ المولی القدیر سات حدیثیں اس وصل مبارک میں اورذکر کرے جن سے امام الوہابیہ کا سخت کور وکرہونا شمس وامس کی طرح ظاہر ہوکہ جن احادیث سے جن باتوں کو شرک بتانا چاہا تھا خود وہی اوران کے نظائر صاف گواہی ہیں کہ وہ ہرگز شرک نہیں مگر بیچاے معذور کی داد نہ فریاد ، ومن یضلل اللہ فمالہ من ھاد ۱؂۔  (اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کا کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔ت)

 

(۱؂القرآن الکریم ۴۰ /۳۳)

 

حدیث ۱۶۸:  صحیح بخاری ومسند احمد وسنن ابی داود وترمذی وابن ماجہ رُبَیّع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میری شادی میں تشریف لائے چھو کر یاں دف بجا کر میرے باپ چچا جو بدر میں شہید ہوئے تھے ان کے اوصاف گاتی تھیں اس میں کوئی بولی ع وفینا نبی یعلم ما فی غدٍ ہم میں وہ نبی ہیں جنہیں آئندہ کا حال معلوم ہے

صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

اس پر سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: دعی ھٰذا وقولی بالذی کنت تقولین۲؂۔ اسے رہنے دے اورجو کچھ پہلے کہہ رہی تھی وہی کہے جا۔

 

(۲؂صحیح البخاری کتاب النکاح باب ضرب الدف فی النکاح والولیمۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۷۳)

(سنن ابی داود کتاب الادب باب فی الغناء آفتاب عالم پریس لاہور     ۲ /۳۱۸)

( سنن الترمذی کتاب النکاح حدیث ۱۰۹۲   دارالفکر بیروت    ۲ /۲۴۷)

(سنن ابن ماجۃ ابواب النکاح باب الغناء والدف ایچ ایم سعید کمپنی کراچی       ص۱۳۸)

(مسند احمد بن حنبل حدیث الربیع بنت معوذ المکتب الاسلامی بیروت         ۶ /۳۵۹)

 

اقول:  وباللہ التوفیق امام الوہابیہ اس حدیث کو شرک فی العلم کی فصل میں لایاجسے کہا : ''اس فصل میں ان آیتوں حدیثوں کا ذکر ہے جس سے اشراک فی العلم کی برائی ثابت ہوتی ہے۱؂۔''

 

 (۱؂تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۱۸)

 

تو وہ اس حدیث سے ثابت کرنا چاہتا ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف آئندہ بات جاننے کی اسناد مطلقاً شرک ہے اگرچہ بعطائے الہٰی جانے کہ اس نے صاف کہہ دیا : ''پھر خواہ یوں سمجھے کہ یہ بات ان کو اپنی ذات سے ہے خواہ اللہ کے دینے سے ہرطرح شرک ہے۲؂ ۔''

 

 (۲؂ تقویۃ الایمان    پہلا باب   مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور          ص۷)

 

اور خود مصرع مذکور کا مطلب ہی یوں بتایا کہ : ''چھوکریاں گانے لگیں اوراس میں پیغمبر خدا کی تعریف یہ کہی ان کو اللہ نے ایسا مرتبہ دیا ہے کہ آئندہ کی باتیں جانتے ہیں۳؂۔ ''

 

 (۳؂تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور        ص۱۸)

 

بایں ہمہ حدیث کو شرک فی العلم کی فصل میں لایا مگر جب حدیث میں حکم شرک کی بُواصلاً نہ پائی تو خود ہی اپنے دعوے سے تنزل پر آیا اورصرف اتنا لکھنے پر بس کی :  ''اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ انبیاء کی جناب میں یہ عقیدہ نہ رکھے کہ وہ غیب کی باتیں جانتے ہیں ، پیغمبر خدا نے اس قسم کا شعر اپنی تعریف کا انصار کی چھوکریوں کو گانے بھی نہ دیا چہ جائیکہ عاقل مرد اس کو کہے یا سن کر پسند کرے ۴؂۔''

 

 (۴؂تقویۃ الایمان   الفصل الثانی   مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۱۸)

 

اللہ اللہ، اللہ دئے سے بھی ایسا مرتبہ ماننا اس کے نزدیک شرک ہوتو شکایت نہیں کہ اس کے دھرم میں اس کا معبود خود ہی کسی کو آئندہ باتیں جاننے کا مرتبہ دینے پر قادر نہیں کیا اپنا شریک کسی کو بناسکے گا ، یونہی یہ امر بھی اسے مضر نہیں کہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والتسلیم کو بعطائے الہٰی بھی اطلاع علی الغیب کا مرتبہ ملتا صریح مخالف قرآن ہے ۔

 

قال اللہ تعالٰی : وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولٰکن اللہ یجتبی من رسلہٖ من یشاء ۱؂۔ اللہ اس لئے نہیں کہ تمہیں غیب پر اطلاع کا منصب دے ہاں اپنے رسولوں سے چن لیتاہے جسے چاہے ۔

 

(۱؂القرآن الکریم ۳ /۱۷۹)

 

وقال تعالٰی: عٰلم الغیب فلایظھر علی غیبہ احدًا الا من ارتضٰی من رسولٍ۲؂۔ غیب کا جاننے والا تو کسی کو اپنے غیب پر غالب ومسلط نہیں کرتا مگر اپنے پسندیدہ رسولوں کو ۔

 

 (۲؂القرآن الکریم    ۷۲ /۲۶و۲۷)

 

یہاں لایظھر غیبہ، علی احدٍ نہ فرمایا کہ اللہ تعالٰی اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں فرماتا کہ اظہار غیب تو اولیائے کرام قدست اسرارھم پر بھی ہوتاہے اوربذریعہ انبیاء واولیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام ہم پر بھی ، بلکہ فرمایا : لایظھر علی غیبہٖ احداً اپنے غیب خاص پر کسی کو ظاہر وغالب ومسلط نہیں فرمایا مگر رسولوں کو ۔ ان دونوں مرتبوں میں کیسا فرق عظیم ہے اوریہ اعلٰی مرتبہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والثناء کو عطاہونا قرآن عظیم سے کیسا ظاہرہے مگر اسے کیا مضر کہ جب اس کے نزدیک اللہ عزوجل کا کذب ممکن جیسا کہ اس کے رسالہ ''یکروزی ''سے ظاہر ، اور فقیر کے رسالہ ''سبحان السبوع عن عیب کذب مقبوح''(ف) میں اس کا رد ظاہر وباہر، تو قرآن کی مخالفت اس پر کیا موثر ،

 

ف : رسالہ ''سبحان السبوع عن عیب کذب مفتوح ''فتاوٰ ی رضویہ جلد ۱۵مطبوعہ رضا فاؤنڈیش جامعہ نظامیہ رضویہ اندرون لوہاری دروازہ لاہور کے صفحہ ۳۱۱پر مرقوم ہے ۔

 

واللہ المستعان علی کل غویٍ فاجرٍ (ہرگمراہ فاجر کے خلاف اللہ تعالٰی ہی سے مدد مانگی جاتی ہے )اس سب سے گزر کر ہوشیار عیّار سے اتنا پوچھئے کہ بالفرض اگر حدیث سے ثابت ہے بھی تو صرف ممانعت کہ انبیاء کی جناب میں ایسا عقیدہ نہ رکھے وہ شرک کاجبروتی حکم جس کے لیے اس فصل اورساری کتاب کی وضع ہے کہاں سے نکلا کیا اسی کو اتمام تقریب کہتے ہیں اوریہ اس کا قدیم داب ہے کہ دعوٰی کرتے وقت آسمان سے بھی اونچا اڑے گا اوردلیل لاتے وقت تحت الثّرٰی میں جاچھپے گا اورپیچھا کیجئے تو وہاں سے بھی بھاگ جائے گا، ایسے ہی ناتمام اٹکل بازیوں سے عوام کو چھلا اور کاغذ کا چہر ہ اپنے دل کی طرح سیاہ کیا۔

 

ثم اقول :  اورانصاف کی نگاہ سے دیکھئے تو بحمدللہ تعالٰی حدیث نے شرک کا تسمہ بھی لگا نہ رکھا، اورشرک پسند ، اوشرک کی حقیقت وشناخت سے غافل !کیا شرک کوئی ایسی ہلکی چیز ہے کہ اللہ کا رسول اوررسولوں کا سردار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی مجلس میں اپنےحضور اپنی امت کو شرک بکتے کفر بولتے سنے اوریونہی سہل دوحرفوں میں گزاردے کہ اسے رہنے دو وہی پہلی بات کہے جاؤ۔ اب یاد کر و حدیث ابی داود ویحک انہ لایستشفع باللہ علی احدٍ۱؂۔  (تجھ پر افسوس ہے مخلوق میں سے کسی کے پاس اللہ تعالٰی سے سفارش نہیں کرائی جاتی )کے متعلق اپنی بدلگامی کی۔

 

 (۱؂سنن ابی داود کتاب السنۃ    باب فی الجہمیۃ آفتاب عالم پریس لاہور        ۲ /۲۹۴)

 

تقریر کہ : ''عرب میں قحط پڑا تھا ایک گنوارنے آکر پیغمبر کے روبرو اس کی سخت بیان کی اوردعا طلب کی اورکہا تمہاری سفارش ہم اللہ کے پاس چاہتے ہیں اوراللہ کی تمہارے پاس، یہ بات سن کر پیغمبر خدا بہت خوف اور دہشت میں آگئے اوراللہ کی بڑائی ان کے منہ سے نکلنے لگی اوساری مجلس کے چہرے اللہ کی عظمت سے متغیر ہوگئے پھراس کو سمجھایا کہ اللہ کی شان بہت بڑی ہے سب انبیاء واولیاء اس کے روبروذرہ ناچیز سے کمتر ہیں وہ کس کے رو برو سفارش کرے۲؂۔''

 

 (۲؂تقویۃ الایمان الفصل الخامس مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور      ص۳۸)

 

سبحان اللہ !اشرف المخلوقات محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اس کے دربار میں یہ حالت ہے کہ ایک گنوار کے منہ سے اتنی بات سنتے ہی مارے دہشت کے بے حواس ہوگئے اورعرش سے فرش تک جو اللہ کی عظمت بھری ہوی ہے بیان کرنے لگے ۔

 

اقول :  انبیاء واولیاء کو ذرہ ناچیز سے کمتر کہنے کی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا کہ حضور نے اسے یوں سمجھایا یا تیرا افتراہے حدیث میں اس کا وجود نہیں ، اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بے حواس کہنا یہ تیری بے دینی کا ادنی کرشمہ اور افترا پر افترا ہے حدیث میں اس کابھی نشان نہیں اوراللہ عزوجل کی عظمت اس کی صفت پاک اس کی ذات اقدس سے قائم ہے مکان ومحل سے منزہ ہے ، کیا جانئے تو کس چیز کو خدا سمجھاہے جس کی عظمت مکانوں میں بھری ہوئی ہے ، خیر یہ تو تیرے بائیں ہاتھ کے کھیل ہیں ؎ تیر برجاہ انبیاء اندازہ                                                                         طعن درحضرت الٰہی کن

بے ادب با ش وانچہ دانی گو                                                                                          بیحیا باش وہرچہ خواہی کن

 

 (انبیاء کرما علیہم الصلٰوۃ والسلام کے مقام ومرتبہ پر تیر اندازی کراوربارگاہ الٰہی میں طعن کر، بے ادب بن جا اورجو کچھ چاہتاہے کتہا جا، بے حیان بن جا اور جو چاہتاہے کرتا جا۔ ت)

 

مگرآنکھوں کی پٹی اترواکر ذرا یہ سوچ کہ جو بات عظمت شان الٰہی کے خلاف ہو اسے سن کر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ برتاؤ ہوتاہے حالانکہ سفارشی ٹھہرانے کو یہ بات کہ اس کا مرتبہ اس سے کم ہے جس کے پاس اس کی سفارش لائی گئی ایسی سریح لازم نہیں جسے عام لوگ سمجھ لیں ولہذا وہ صحابی اعرابی رضی ا للہ تعالٰی عنہ بآنکہ اہل زبان تھے اس نکتے سے غافل رہے تو کیا ممکن ہے کہ صریح شرک وکفر کےکلمے حضو رسنیں اور اصلاًکوئی اثر غضب وجلا ل چہرہ اقدس پر نمایاں نہ ہو، ہ حضور دیر تک سبحان اللہ سبحان اللہ کہیں ، نہ اہل مجلس کی حالت بدلے ، نہ ان کے کہنے والیوں پر کوئی مواخذہ ہو، ایک آسان سی بات پرقناعت فرمائیں کہ اسے رہنے دو، کویں نہیں فرماتے کہ اری !تم کفر بک رہی ہو ، اری !تقویۃ الایمان کے حکم سے تم مشرکہ ہوگئیں تمہارا دین جاتا رہا تم مرتد ہوئیں از سرانو ایمان لاؤ کلمہ پڑھو نکاح ہوگیا ہے تو تجدید نکاح کرو۔ گرض ایک حرف بھی ایسا نہ فرمایا جس سے شرک ہونا ثابت ہو، کہنے والیوں کو اپنا حال اوراہل مجلس کو اس لفظ کا حکم معلوم ہوحالانکہ وقت حاجت بیان حکم فرض ہے اورتاخیر اصلاً روا نہیں ، تو خود اس حدیث سے صاف ظاہر ہوا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف اطلاع علی الغیب کی نسبت ہرگز شرک نہیں ۔ رہا ممانعت فرمانا ، وہ بھی یہ بتائےکہ انبیائے کرام وخود سید الانام علیہ وعلیہم افضل الصلٰوۃ والسلام کی جانب میں اس کا اعتقاد فی نفسہٖ باطل ہے ، یہ منہ دھو رکھئے منع لفظ بطلان معنٰی ہی میں منحصر نہیں بلکہ اس کے لیے وجوہ ہیں اورعقل ونقل کا قاعدہ مسلمہ ہے کہ اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال (جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہوجاتاہے ۔ت)

 

اولاً : ممکن ہے کہ لہو ولعب کے وقت اپنی نعت اوروہ بھی زنانے گانے اوروہ بھی دف بجانے میں پسند نہ فرمائی ،لہذا ارشادہوا : اسے رہنے دور اور وہی پہلے گیت گاؤ ۔ ارشاد الساری ، لمعات ومرقات وغیرہ میں اس احتمال کی تصریح ہے ۔

 

ثانیاً ,اقول: ممکن کہ مجلس عورتوں ، کنیزوں ، کم فہم لوگوں کی تھی ان میں منع فرمایا کہ توہُّم ذاتیت کا سدباب ہو ، شرح حکیم ہے اورامام الوہابیہ کی مت اوندھی جو متحمل ذو وجوہ بات جس میں برے پہلو کی طرف لے جانے کا احتمال ہوچھوکریوں کو منع کی جائے دانشمند مردوں کے لیے اس کی ممانعت بدرجہ اولٰی جانتاہے حالانکہ معاملہ صاف الٹا ہے ایسی بات سے کم علموں کم فہموں کو روکتے ہیں کہ غلط نہ سمجھ بیٹھیں، عاقلوں دانشمندوں کو منع کیا ضرور کہ ان سے اندیشہ نہیں ۔صحیح مسلم ومسند احمد وسنن ابی داود وسنن نسائی میں عدی بن حاتم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے ایک شخص نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سامنے خطبہ پڑھا اور اس میں یہ لفظ کہے : ومن یطع اللہ ورسولہ، فقد رشد ومن یعصہما فقد غوٰی ۔ جس نے اللہ ورسول کی اطاعت کی اس نے راہ پائی اورجس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا۔

 

سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :  بئس الخطیب انت ، قل ومن یعص اللہ ورسولہ، فقد غوٰی۱؂ ۔

 

کیا براہ خطیب ہے تُو، یوں کہہ کہ جس نے اللہ ورسول کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا۔

 

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الجمعۃ فصل فی ایجاز الخطبۃ واطالۃ الصلٰوۃ    قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۸۶)

 (سنن الکبرٰی للبیہقی کتاب الطہارۃ   ۱ /۸۶  وکتاب الجمعۃ ۳ /۲۱۶   دارصادر بیروت )

 ( مسند احمد بن حنبل حدیث عدی بن حاتم المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۲۵۶)

 

ابوداؤد کی روایت میں ہے :  قال قم اوقال اذھب فبئس الخطیب انت۲؂۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : اٹھ ، یا فرمایا : چلا جاکہ تو برا خطیب ہے ۔

 

(۲؂سنن ابی داود کتاب الصلٰوۃ باب الرجل یخطب علی قوس آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۱۵۶)

 

امام قاضی عیاض وغیرہ ایک جماعتِ علماء کا ارشاد ہے : انما انکر علیہ تشریکہ فی الضمیر المقتضی للتسویۃ وامرہ بالعطف تعظیما للہ تعالٰی بتقدیمہ اسمہ۱؂۔ یعنی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس خطیب کا اللہ ورسول کو ایک ضمیر تثنیہ (عہ) میں جمع کرنا کہ جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی کو پسند نہ فرمایا اس میں برابری کا دہم نہ ہوجائے اورحکم دیا کہ یوں کہے کہ جس نے اللہ ورسول کی نافرمانی کی جس میں اللہ عزوجل کا نام اقدس نام پاک رسول سے تعظیماً مقدم رہے ۔

 

 (۱؂شرح صحیح مسلم للقاضی عیاض کتاب الجمعۃ حدیث ۸۷۰دارالوفاء   ۳ /۲۷۵)

(شرح صحیح مسلم مع صحیح مسلم  للنووی کتاب الجمعۃ   فصل فی ایجاز الخطبۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱ /۲۸۶)

 

عہ : اقول ھذا ھو الصحیح علۃ ومنافاتہ حدیث ابی داود الاتی مند فعۃ بما ذکر العبد الضعیف غفر اللہ تعالٰی لہ اما ما استصوب الامام الاجل النووی رحمہ اللہ تعالٰی فی المنھاج ان سبب النھی ان الخطب شانھا البسط والایضاح واجتناب الاشار ات والرموز ومثل ھذا الضمیر قد تکر رفی الاحادیث الصحیحۃ من کام رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کقولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان یکون اللہ ورسولہ احب الیہ مما سواھما وانام ثنی الضمیر ھٰھنا الانہ لیس خطبۃ وعظ وانما ھو تعلیم حکم فکلما قل لفظ کان اقرب الٰی حفظہ بخلاف خطبۃ الوعظ فانہ لیس المراد حفظھما وانما یراد الا تعاظ بھا ۱؂اھ

 

اقول: (میں کہتاہوں) یہی علت درست ہے ، اورا سکی منافات حدیث ابو داود کے ساتھ جو کہ عنقریب آرہی ہے ، عبد ضعیف (اللہ تعالٰی اس کی مغفرت فرمائے )کے بیان مذکور کے ساتھ مندفع ہے ۔ امام اجل نوری علیہ الرحمہ نے منہاج میں جو خیال ظاہر فرمایا ہے کہ انہی کا سبب یہ ہے کہ خطبات کی شان یہ ہے کہ ان میں تفصیل وتوضیح سے کام لیاجائے اورارشادات ورموز سے اجتناب کیا جائے حالانکہ اس قسم کی ضمیر کا استعمال کلام رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں متعدد احادیث صحیحہ میں وارد ہے ۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ''اللہ ورسول کی محبت اس کے دل میں ان دونوں کے ماسوا سے زیادہ ہو۔''یہاں ضمیر تثنیہ اس لئے آپ نے استعمال فرمائی کہ یہ خطبہ ووعظ نہیں بلکہ حکم شرعی کیت علیم ہے ، چنانچہ لفظوں کی قلت انہیں حفظ کرنے کے زیادہ قریب ہے بخلاف خطبہ کے کہ اس میں حفظ الفاظ مقصد نہیں ہوتا بلکہ ان سے نصیحت حاصل کرنا مقصود ہوتاہے ۔اھ

 

 (۱؂شرح صحیح مسلم مع صحیح مسلم کتاب الجمعۃ فصل فی ایجاز الخطبۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱ /۲۸۶)

 

فاقول : انما حداہ رحمہ اللہ تعالٰی علی ھذا التکلف السعید ما رأی من التنافی بین نھیہ الخطیب وثبوتہ عن نفسہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وقد علمت ان لاتنا فی ولیس من واجبات الخطبۃ ترک الاضمار لامن شریطۃ الا یضاح وضع المظھر موضع المضمر وانماکان الاضمار یخل بالاظھار حیث یخشی الا لتباس وھٰھنا لا لیس فکیف یکون ھٰذا مقتضیا لان یواجھہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بالذم ویقول لہ اذھب اوقم وقدکان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یحب الایجاز فی الکلام بحیث لایخل بالافھام وکان یقول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ان طول صلٰوۃ الرجل وقصر خطبتہ مئنۃ من فقھہ فاطیلو االصلٰوۃ واقصروالخطبۃ وان من البیان لسحرا ثم ثبوت مثلہ عنہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی الخطبۃ کما ستسمع من حدیثی ابی داؤدلایذرلہذا الوجہ وجہ قبول اصلاً فانما المحیص الی ماذکر العبدالضعیف والحمدللہ علی التوقیف ۱۲منہ۔

 

فاقول : (تو میں کہتاہوں) امام نووی علیہ الرحمہ کو اس تکلف سعید پر اس بات نے برانگیختہ کیا ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خطیب کو ضمیر تثنیہ کے استعمال سے منع کرنے اور خود اس کو استعمال فرمانے میں منافات سمجھی، حالانکہ تُوجان چکا ہے کہ کوئی منافات نہیں۔ اورضمائر کو ترک کرنا خطبہ کے واجبات میں سے نہیں اور نہ ہی ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کو رکھنا شرط توضیح ہے ۔ ضمیر کو استعمال کرنا وہاں مخلِّ اظہار ہوتاہے جہاں التباس کا ڈر ہوجبکہ یہاں ایسا نہیں ہے ۔ پھر یہ بات اس امر کی مقتضی یسے ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس خطیب کو مذمت فرمائیں اورحکم دیں کہ یہاں سے چلا جایا اٹھ جا، حالانکہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کلام میں ایسے اختصار کو پسند فرماتے تھے جو مخلِّ فہم نہ ہو ۔ اورآپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے تھے کہ مرد کا نماز کو لمبا کرنا اورخطبہ کو مختصر کرنا اس کی فقاہت کی دلیل ہے لہذا نماز لمبی اورخطبہ مختصر کیا کرو ۔ اوربعض بیان جادو ہوتے ہیں۔ پھر خود رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس جیسے کلام کا خطبہ میں ثبوت جیسا کہ ابو داود کی دو حدیثوں سے تُو سنے گا اس وجہ کو قابل قبول نہیں رہنے دیتالہذا مخلص اسی وجہ میں ہے جس کو عبدضعیف (مصنف علیہ الرحمہ) نے ذکر کیا ہے ۔ اس سوجھ بوجھ کی عطا پر تمام تعریف اللہ تعالٰی کیلئے ہے ۔(ت)

 

حالانکہ حدیث شریف میں ہے خود حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خطبے میں یوں فرمایا کرتے : من یطع اللہ ورسولہ فقد رشد  ومن یعصمھا فانہ لایضر الا نفسہ۔ ابو داؤد ۱؂ عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند صحیحٍ۔ جس نے اللہ ورسول کی اطاعت کی وہ راہ یاب ہوا اور جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ (ابو داود نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؂ سنن ابی داود کتاب الصلٰوۃ (ابواب الجمعۃ)باب الرجل یخطب علٰی قوس آفتاب عالم پریس لاہور   ۱ /۱۵۷)

 

نیزابن شہاب زہری نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کاخطبہئ جمعہ روایت کیا اس میں بعینہٖ وہی الفاظ ہیں کہ : ومن یعصمھا فقد غوٰی ۔ رواہ ایضاً۲؂عنہ مرسلاً۔ جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی گمراہ ہوا۔ (نیز اس کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مرسلاً روایت کیا گیا۔ت)

 

(۲؂ سنن ابی داود کتاب الصلٰوۃ (ابواب الجمعۃ)باب الرجل یخطب علٰی قوس آفتاب عالم پریس لاہور   ۱ /۱۵۷)

 

حدیث آئندہ سے بتوفیق اللہ تعالٰی اس فقیر کی عمدہ تائید وتقریر ہوتی ہے فانتظر ۔

 

ثالثاً  : وجہ ممانعت علم غیب کی اسناد مطلق بے ذکر تعلیم الٰہی عزوجل ہے ۔ شیخ محقق رحمہ اللہ تعالٰی نے لمعات میں اس طرف ایمافرمایا ۔

 

اقول: اوروہ بے شک وجیہ ہے جس طرح بغیر اللہ عزوجل کی مشیت کو ملائے یوں کہنا کہ میں یوں کروں گا، مکروہ ہے ۔ قال اللہ تعالٰی :  ولا تقولن لشیئٍ انی فاعل ذٰلک غداً الا ان یشاء اللہ۱؂ ۔ ہرگز نہ کہان کسی چیز کو کہ میں کل بایسا کرنے والا ہوں مگر یہ کہ خدا چاہے۔

 

 (۱؂القرآن الکریم ۱۸ /۲۳)

 

علم غیب بالذۤت اللہ عزوجل کے لئے خاص ہے کفاراپنے معبود ان باطل وغیرہم کےلئے مانتے تھے لہذا مخلوق کو'' عالم الغیب ''کہنا مکروہ ، اوریوں کوئی حرج نہیں کہ اللہ تعالٰی کے بتائے سے امور غیب پر انہیں اطلاع ہے ، یہ دوسرا احتمال ہے کہ علماء نے اس حدیث میں ذکر فرمایا اس تقدیر پر بھی ممانعت ادب کالم کی طرف ناظر ہے نہ یہ کہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کو بتعلیم الٰہی غیب پر اطلاع کا عقیدہ ممنوع ہی ہوشرک تو درکنا جو اس طاغی کا مقصود ہے ھکذا ینبغی التحقیق واللہ تعالٰی ولی التوفیق (تحقیق یونہی مناسب ہے اوراللہ تعالٰی توفیق دینے والا ہے ۔ ت)

 

حدیث ۱۶۹ : محمد بن اسحٰق تابعی ثقہ امام السیروالمغازی نے ابو وجزہ یزید بن عبید سعدی سے روایت کی ، جب (غزوئہ حنین میں ) مشرکین بھاگ گئے مالک بن عوف (کہ اس لڑائی میں سردارکفار ہوازن تھے)بھاگ کر طائف میں پناہ گزیں ہوئے رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ ایمان لاکر حاضرہو تو ہم اس کے اہل ومال اسے واپس دیں۔ یہ خبر مالک بن عوف کو پہنچی ، خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ کہ حضور مقام جعرانہ سے نہضت فرماچکے گھے ، سید اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کےاہل ومال واپس دئے اورسو اونٹ اپنے خزانہ کرم سےعطاکئے،فقال مالک بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ یخاطب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من قصیدۃ (تو مالک بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اپنے قصیدہ سے مخاطب ہوئےت): ؎

 

ماان رایت ولا سمعت بواحدٍ                                                                    فی الناس کلھم کمثل محمد

اوفٰی واعطٰی للجزیل لمجتدٍ                                                                                          ومتٰی تشاء یخبرک عما فی غدٖ

 

میں نے تمام جہان کے لوگوں میں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مثل نہ کوئی دیکھا نہ سنا، سب سے زیادہ وفا فرمانے والے اورسب سے فزوں تر سائل نفع کو کثیر عطابخشنے والے اورجب تو چاہے تجھے کل کی خبر بتادیں ۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں ان کی قوم ہوازن اورقبائل ثمالہ وسلمہ وفہم پر سردارفرمایا۱؂۔

 

 (۱؂الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ بحوالہ ابن اسحٰق ترجمہ ۷۶۷۲ مالک بن عوف دارالفکر بیروت ۵ /۴۴و۴۵)

 

حدیث ۱۷۰ : معافی نے کتاب الجلیس والانیس میں بطریق حرمازی ابوعبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، مالک بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ رئیس ہواز اسلام لاکر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اورحضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنا وہ قصیدہ نعتیہ سنایا (جس میں اسی مضمون کے شعر ذکر کئے ) فقال لہ، خیراً وکساہ حلّۃ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے حق میں کلمہ خیر فرمایا اور انہیں خلعت پہنایا ۔ ذکرھما الحافظ فی الاصابۃ۲؂  (ان دونوں روایتوں کو حافظ نے اصابہ میں بیان کیا۔ت)

 

 (۲؂الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ الجلیس والانیس للمعانی ترجمہ ۷۶۷۲ مالک بن عوف دارالفکر بیروت     ۵ /۴۵)

 

اقول : رضوان الٰہی کے بے شمار اباران یاران مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر برسیں یوں نہ کہا کہ متی یشاء جب وہ چاہیں تجھے غیب کی خبر دے دیں ۔ اس میں اس صورت پر بھی صادق آسکنے کا احتمال رہتا، جب بتانے والے کو کوئی اختیار نہ دیا جائے بلکہ سال دو سال میں ایک آدھ بات پر اطلاع عطا ہوا یسا جاننے والا بھی تو ریہ وایہام کے طور پر کہہ سکتاہے کہ جب چاہوں گا تمہین غیب کی خبر دے دوں کہ وہ اس وقت چاہے گا جب اسے اتفاق سے کوئی خبر ملے گی تو شرطیہ سچا ہے بلکہ یوں فرمایا کہ جب تُو چاہے وہ تجھے غیب کی کبر دے دیں گے ، یہاں سائل مطلق مخاطب ہے کسے باشد نہ وہ معین نہ ا سکے پوچھنے کا وقت محدود نہ غدٍ معرفہ بلکہ نکرہ غیر مخصوص ، تو حاصل یہ ٹھہرے گا کہ جو شخص چاہے جس وقت چاہے جس آئندہ بات کو چاہے حضور بتادیں گے ، یہ اسی کی شان ہوسکتی ہے جو بالفعل تما م آئندہ باتوں کو جانتاہو یا اطلاع غیب اس کے ارادہ وخواہش پر کردی گئی ہو کہ جب چاہے معلوم کرلے ورنہ یہ اطلاق ہرگز صادق نہیں آسکتا ، اسے ایک نظیر محسوس میں دیکھئے ۔ زید فقیر ہے نہ پاس کچھ رکھتا ہے نہ بادشاہی خوانوں پر اس کا ہاتھ پہنچتا ہے مگر بادشاہ کبھی کبھی اسے دوچار توڑے بخش دیتاہے وہ شخص پہلو رکھ کر یہ کہے تو کہہ لے کہ میں جب چاہوں ایک توڑا خیرات کردوں کہ وہ آپ ہی اسی وقت چاہے گا جب پائے گا مگر عام فقیروں کو اشتہار دے کر تم جس وقت چاہو میں توڑا عطاکردوں ، توضرور غلط کہا ،اوردم بھر میں اس کا دروغ کھل سکتاہے ، فقیر مانگیں اورنہ مال ہے نہ خزانے پر اختیار ، تو کہاں سے دے گا، ہاں اگر بادشاہ نے بالفعل ایسے خزانے دے دئے کہ جب کوئی کچھ مانگے یہ دے اورکمی نہ ہو، یا بالفعل نہ سہی تو خزانوں  پر اختیار ہی دیا ہوکہ جس وقت جو چاہے لے لے تو وہ بیشک ایسی بات کہہ سکتاہے ۔ اب یہ حدیثیں فرمارہی ہیں کہ صحابی یہ سفت کریم حضو ر کی نعت اقدس میں عرض کرتے ہیں اورحضور انکار نہیں فرماتے بلکہ خلعت وانعام بخشتے ہیں ، توصراحۃً یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالٰی نے اطلاع غیب حضور کے ارادہ واختیار پر رکھ دی ہے ، اورواقعی انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کی شان ایسی ہی ہے ،

 

 امام حجۃ الاسلام محمد محمد محمد غزالی قدس سرہ العالی فرماتے ہیں: النبوۃ عبارۃ عما یختص بہ النبی ویفارق بہ غیرہ وھو یختص بانواع من الخواص ،

 احدھا : انہ یعرف حقائق الامور المتعلقۃ باللہ تعالٰی وصفاتہ وملٰئکتہ والدارالاٰخرۃ علما مخالفاً لعلم غیرہٖ بکثرۃ المعلومات وزیادۃ الکشف والتحقیق ،

ثانیھا:  ان لہ فی نفسہ صفۃ بھا تتم الافعال الکارقۃ للعادۃ کما ان لنا صفۃ تتم بھا الحرکات المقرونۃ بارادتنا وھی القدرۃ ، 

ثالثھا:  ان لہ، صفۃ بھا یبصر الملٰئکۃ ویشاھدھم کما ان للبصیر صفۃ بھا یفارق الاعمٰی ،

 رابعھا:  ان لہ، صفۃ بھا یدرک ماسیکون فی الغیب ۔ نقلہ عنہ العلامۃ الزرقانی فی صدرشرح المواھب۱؂۔

 

یعنی نبوت وہ چیز ہے جو نبی کے ساتھ خاص ہے اورنبی اس کے سبب اوروں سے ممتاز ہے اوروہ کئی قسم کے خاصے ہیں جنسے نبی مختص ہوتاہے ،

 ایک  : یہ کہ جو امور اللہ عزوجل کے ذات وصفات اورملائکہ وآخرت سے متعلق ہیں نبی انکے حقائق کا ایساعلم رکھتا ہے کہ اوروں کے علم زیادت معلومات وفزونی تحقیق وانکشاف میں ان سے نسبت نہیں رکھتے ۔

دوم  : یہ کہ نبی کے لیے اس کی زات میں ایک وصف ہوتاہے جس سے افعال خلاف عادت (جنہیں معجزہ کہتے ہیں )انصرام پاتے ہیں جس طرح ہمارے لئے ایک صفت ہے کہ اس سے ہماری حرکات ارادیہ پوری ہوتی ہیں جسے قدرت کہتے ہیں ۔

سوم  : یہ کہ نبی کے لیے ایک صفت ہوتی ہے جس سے وہ ملائکہ کو دیکھتاہے جس طرح انکھیارے کے پاس ایک صفت ہوتی ہے جس کے باعث وہ اندھے سے ممتاز ہے ۔

 چہارم :  یہ کہ نبی کے لیے ایک صفت ہوتی ہے جس سے وہ آئندہ غیب کی باتیں جان لیتاہے ۔(علامہ زرقانی علیہ الرحمۃ نے شرح المواھب کے آغاز میں اسے امام غزالی علیہ الرحمۃ نے نقل کیا۔ت)

 

 (۱؂شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ بحوالۃ الغزالی مقدمۃ الکتاب دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۱۹،۲۰)

 

اقول : مسلمانو!اس حدیث شریف اوران امام باعظمت ان حکیم امت قدس سرہ المنیف کے ارشاد لطیف کوامام الوہابیہ کے قول کثیف سے ملا کر دیکھو کہ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کے بارے میں اہل حق واہل باطل کے عقائد کا فرق ظاہر ہویہ فرماتے ہیں انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کی زۤت میں رب عزوجل نے ایک صفت ایسی رکھی ہے جس سے وہ خرقِ عادت کرتے ہیں جس طرح ہم اپنے ارادے سے چلتے پھرتے ، حرکت کرتے ہیں ، ایک صفت رکھی ہے جس سے وہ ملائکہ کو دیکھتے ہیں، ایک صفت دی ہے جس سے وہ غیب کی آئندہ باتیں جانتے ہیں ۔ یہ کہتا ہے : ''ان کو کسی نوع کی قدرت نہیں ، کسی کام میں نہ بالفعل ان کو دخل ہے نہ اس کی طاقت رکھتے ہیں ۔ ایضاً کچھ اس بات میں بھی ان کو بڑائی نہیں کہ اللہ صاحب نے غیب دانی ان کے اختیار میں دی ہوکہ جس آئندہ بات کو جب ارادہ کریں تو دریافت کرلیں کہ فلانے کی اولاد ہوگی یا نہ ہوگی، یا اس سوداگری میں اس کو فائدہ ہوگا یا نہ ہوگا، یا اس لڑائی میں فتح پاوے گا یا شکست کہ ان باتوں میں بھی سب بندے بڑے ہوں یا چھوٹے یکساں بے خبر ہیں اورنادان ۔ ایضاً جو کچھ اللہ اپنے بندوں سے معاملہ کرے گا دنیا خواہ قبرخواہ آخرت میں اس کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں نہ نبی کو نہ ولی کو ، نہ اپنا حال نہ دوسرے کا ، اوراگر کچھ بات اللہ نے کسی مقبول بندے کو وحی یا الہام سے بتائی کہ فلانے کا م کا انجام بخیر ہے یا برا، سو وہ مجمل ہے اوراس سے زیادہ معلوم کرلینا اوراس کی تفصیل دریافت کرنی ان کے اختیار سے باہر ہے ۲؂۔''

 

 (۲؂تقویۃ الایمان الفصل الثانی فی ردالاشراک فی العلم          مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۱۷)

 

اقول:  اتنا لفظ سچ ہے کہ اللہ عزوجل کے بتانے سے زیادہ کوئی معلوم نہیں کرسکتا ۔ ہمارے اختیاری افعل کب عطائے الٰہی وارادئہ الٰہیہ سے بڑھ کر ہوسکتے ہیں مگر کلمۃ حق ارید بھا باطل  (کلمہ حق ہے جس سے باطل کا ارادہ کیا گیا ہے ۔ت)خوارج کی طرح یہ سچا لفظ اس نے باطل ارادے سے کہا ہے وہ اس سے ان کے اختیار عطائی کا بھی سلب چاہتاہے یعنی ابنیاء علیہم الصلٰوۃ والتسلیم کو خدا کا دیا ہوا اختیار بھی نہیں بلکہ عاجز ومجبو رمحض ہیں۔

 

اس نے صاف تصریح کی ہے کہ : ''ظاہر کی چیزوں کو دریافت کرنا لوگوں کے اختیار میں ہے جب چاہیں کریں جب چاہیں نہ کریں ، سواس طرح غیب کا دریافت کرنا اپنے اختیار میں ہو کہ جب چاہے دریافت کرلیجئے یہ اللہ صاحب ہی کی شان ہے ، کسی نبی و ولی کو بھوت وپری کو اللہ صاحب نے یہ طاقت نہیں بخشی، اللہ صاحب اپنے ارادے سے کبھی کسی کو جتنی بات چاہتا ہے خبردیتاہے ، سویہ اپنے ارادے کے موافق نہ ان کی خواہش پر ۱؂۔''

 

(۱؂تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۱۴)

 

اسی کے اس اعتقاد باطل کا حدیث مذکوروقول مسطور امام مشہور میں ردّصریح ہے ۔

 

بالجملہ فرق یہ ہے کہ حدیث کے ارشاد اوران کے مطابق اہل حق کے اعتقاد میں انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام اظہار خوارق وادراک غیب میں انسان مختار بعطائے قادر جلیل الاقتدار ہیں کہ جس طرح عام آدمیوں کو ظاہری حرکات وظاہری ادراکات کے اختیارات حضرت واہب العطیات نے بخشے ہیں کہ جب چاہیں دست وپاک وجنبش دیں چاہیں نہ دیں، جب چاہیں آنکھ کھول کر چیز دیکھ لیں چاہیں نہ دیکھیں، اگرچہ بے خدا کے چاہے وہ کچھ نہیں چاہ سکتے ، اوروہ چاہیں خدا نہ چاہے تو ان کا چاہا کچھ نہیں ہوسکتا اوروہ عطائی اختیارات اس کے حقیقی ذاتی اختیارکے حضورکچھ نہیں چل سکتے بعینہٖ یہی حالت حضرات انبیائے کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کی درباہ معجزات وادراک معیبات ہے کہ رب عزوجل نے انہیں ظاہری جوارح ومسع وبصر کی طرح باطنی سفات وہ عطافرمائی ہیں کہ جب چاہیں خرق عادات فرمادیں مغیبات کو معلوم فرمالیں چاہیں نہ فرمائیں اگرچہ بے خدا کے چاہے نہ وہ چاہ سکتے ہیں نہ بے ارادہ الٰہیہ ان کا ارادہ کام دے سکتا ہے ، اورامام الوہابیہ کے نزدیک ایسانہیں بلکہ انبیائے کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام پتھر کی طرح عاجز محض ومجبور مطلق ہیں کہ ہلانے والا محض اپنے قسری ارادے سے بے ان کے توسط اختیار عطائی کے اپنے ارادے کے موافق نہ ان کی خواہش پر ، ہلادے تو ہل جائیں ورنہ مجبور پڑے رہیں یہ کس ناکس اپنے اس خیال پر دلیل لایا کہ   :   ''چنانچہ پیغمبر کو بارہا ایسا اتفاق ہوا کہ بعض بات دریافت کرنے کی خواہش ہوئی اور وہ بات نہ معلوم ہوئی پھر جب اللہ صاحب کا ارادہ ہوا تو ایک آن میں بتا دی چنانچہ منافقوں نے حضرت عائشہ پرتہمت کی اورحضرت کو بڑا رنج ہوا اورکئی دن تک بہت تحقیق کیا کچھ حقیقت معلوم نہ ہوئی ، جب اللہ صاحب کا ارادہ ہوا تو بتادیا کہ منافق جھوٹے ہیں اورعائشہ پاک ۱؂۔''

 

 (۱؂تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۱۴)

 

اقول : اگراختیار ذاتی وعطائی میں فرق کی تمیز ہوتی تو جان لیتا کہ ایسے اتفاقات اختیار عطائی کے اصلاً منافی نہیں، مراد کا اکتیار سے متخلف نہ ہوسکتان قدرت ذاتیہ الٰہیہ کا خاصہ ہے ، قدرت عطائیہ انسانیہ میں لاکھ بار ایسا ہوتاہے کہ آدمی ایک کام کیا چاہتاہے اوراللہ نہیں چاہتانہیں بن پڑتا، اس سے نہ انسان پتھر ہوگیا نہ اس کا اختیار عطائی مسلوب، عطائی کی شان ہی یہ ہے کہ جب تک ارادہ ذاتیہ حقیقیہ الٰہیہ مساعدت نہ فرمائے کام نہیں دیتا۔ طرفہ قہر بر قہریہ ہے کہ ادھر تو تُو نے انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کو عیاذاً باللہ پتھر بنایا تھا ادھر اپنے معبود کو ایک آدمی کے برابر کر چھوڑا کہ  :   ''غیب کی بات دریافت کرنا اپنے اختیار میں ہوکہ جب چاہے کرلیجئے یہ اللہ صاحب کی شان ہے ۲؂۔''

 

(۲؂تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۱۴)

 

او اللہ عزوجل کو سخت عیب لاگانے والے بے ادب گستاخ !یہ ہرگز ہرگز اللہ تعالٰی کی شان نہیں، وہ اس بیہودہ مہمل شان سے پاک ومنزہ ہے اس کا علم اس کی صفت ذاتیہ ہے اس کے اختیار سے نہیں اس کا علم مخلوق نہیں ازلی ابدی ہے حادث نہیں۔ اوبدعقل بدزبان !غیب کا دریافت کرنا اختیار میں ہونے کے یہی معنٰی یا کچھ اورکہ بافعل تو معلوم نہیں مگر چاہے تو معلوم کرسکتاہے ،تُف بررُوئے بے دینی، یہ تیرا موہوم خدا جاہل بالفعل محل حوادث ہوگا سچا خدا تیری یہ صریح گالی ہے بے نہایت متعالی ہے تعالٰی اللہ عما یقول الظٰلمون علوّاکبیرا  (اللہ تعالٰی بہت بلند وبرتر ہے ۔ان باتوں سے جو ظالم کہتے ہیں ۔ت)

 

مسلمانو !دیکھاتم نے ، یہ ایمان ہے اس گمراہ کا انبیاء اورخود حضرت عزت کی جناب میں ، انا للہ وانا الیہ راجعون ، ولا حول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم۔ خیر اس کی ضلالتیں کہاں تک لکھئے ماعلی مثلہ یعد الخطاء  (اس جیسے کی خطاؤں کا شمار نہیں کیاجاتا۔ت)حدیث دکھا کر اتنا پوچھئے کہ کیوں صاحب !وہاں تو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے غضب فرمایا نہ حکم شرک لگایا مگرانسار کی چھوکریوں کو اتنا ارشادہوا کہ اسے رہنے دو۔ یہاں جو یہ مرد عاقل یہ صحابی فاضل نعت حضور میں اس سے بھی زیادہ عظیم بات کررہے ہیں اورحدیث فرماتی ہے کہ حضور منع نہیں کرتے بلکہ اورانعام واکرام بخشتے ہیں۔ یہ شرک وہابیت پر کیسی آفت ہے ، اب یاد کر وہ اپنی اوندھی مت الٹی کھوپڑی ''چہ جائکہ عاقل مرد کہے یا سن کر پسند کرے۱؂''۔

 

 (۱؂تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۱۸)

 

کچھ یہ بھی سُوجھا کہ کہنے والے کون تھے اورسن کر پسند کرنیوالے کون بل نقذف بالحق علی الباطل فید مغہ فاذا ھو زاھق ط ولکم الویل مما تصفون ۲؂۔ بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں تو وہ اس کا بھیجہ نکال دیتاہے تو جبھی وہ مٹ کر رہ جاتاہے ، اورتمہاری خرابی ہے ان باتوں سے جو بناتے ہو۔ (ت)

 

(۲؂القرآن الکریم ۲۱/  ۱۸)

 

حدیث ۱۷۱ : او ربڑھ کر سنئے ، شرک فی العادۃ کے بیان میں لکھا : ''اللہ صاحب نے اپنے بندوں کو سکھایا ہے کہ دنیا کے کاموں میں اللہ کو یاد رکھیں اوراس کو کچھ تعظیم کرتے رہیں جیسے اولاد کا نام عبداللہ ، خدا بخش رکھنا جس چیز کو فرمایا اس کو برتنا جو منع کیا اس سے دور رہنا اوریوں کہنا کہ اللہ چاہے تو ہم فلانا کام کرینگے اوراس کے نام کی قسم کھانی اس قسم کی چیزیں اللہ نے اپنی تعظیم کے واسطے بتائی ہیں پھر کوئی کسی انبیاء اولیاء بھوت پری کی اس قسم کی تعظیم کرے جیسے اولاد کا نام عبدالنبی امام بخش رکھنے کھانے پینے پہننے میں رسموں کی سند پکڑے یا یوں کہے کہ اللہ ورسول چاہے گا تو میں آؤں گا یا پیغمبر کی قسم کھاوے سو ان سب باتوں سے شرک ثابت ہوتاہے اس کو اشراک فی العادۃ کہتے ہیں۳؂۔''

 

 (۳؂تقویۃ الایمان     مقدمۃ الکتاب   مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۸،۹)

 

پھر اس شرک کی فصل میں اس مدعا کے ثبوت کو مشکوٰۃ کے باب الاسامی سے شرح السنہ کی حدیث بروایت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ لایا کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : لاتقولوا ماشاء اللہ وشاء محمد وقولوا ما شاء اللہ وحدہ۱؂ ۔ نہ کہو جو چاہے اللہ اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یوں کہو کہ جو چاہے ایک اللہ۔

 

(۱؂تقویۃ الایمان الفصل الخامس مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۴۰)

 

اوراس پر یہ فائدہ چڑھایا: ''یعنی جو کہ اللہ کی شان ہے اوراس میں کسی مخلو ق کو دخل نہیں سو اس میں اللہ کے ساتھ کسی مخلوق کو نہ ملادے گوکیساہی بڑا ہو مثلاً یوں نہ بولو کہ اللہ ورسول چاہے گا تو فلاں کام ہوجائے گا کہ ساراکاروبار جہاں کا اللہ ہی کے چاہے سے ہوتاہے رسول کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۲؂۔''

 

 (۲؂تقویۃ الایمان الفصل الخامس مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۴۰)

 

اقول : وباللہ التوفیق   اولاً : وہی قدیملت وہی پرانی علت کو دعوے کے وقت آسمان نشین اور دلیل لانے میں ا سفل السافلین ۔ حدیث میں تواتنا ہے کہ ''یوں نہ کہو ''وہ شرک کا حکم کدھر گیا۔

 

ثانیاً : سخت عیاری ومکاری کی چال چلا ، مشکوٰۃ شریف کے باب مذکور میں حدیث حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ یوں مذکور تھی کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : لاتقولوا ماشاء اللہ وشاء فلان ولٰکن قولوا ماشاء اللہ ثم شاء فلان۳؂۔ نہ کہو جو چاہے اللہ اورچاہے فلاں بلکہ یوں کہو جو چاہے اللہ پھر چاہے فلاں ۔

 

 (۳؂مشکوٰۃ المصابیح کتاب الادب باب الاسلامی قدیمی کتب خانہ کراچی ص۴۰۸)

 

مشکوٰۃ میں اسے مسند امام احمد وسنن ابی داود کی طرف نسبت کر کے فرمایا : وفی روایۃٍ ۴؂منقطعاً

 

 (۴؂مشکوٰۃ المصابیح کتاب الادب باب الاسلامی قدیمی کتب خانہ کراچی ص۴۰۸،۴۰۹)

 

او رایک روایت منقطع یعنی جس کی سند نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک متصل نہیں یوں آئی ہے یہاں وہ روایت شرح السنہ ذکر کی ہوشیار عیار نے دیکھا کہ اصل حدیث تو اس کے دعوٰی شرک کو داخل جہنم کئے دیتی ہے اسے صاف الگ اڑا گیا اورفقط یہ منقطع روایت نقل کرلیا ۔ کیا یہ سمجھتا تھا کہ مشکوٰۃ اہل علم کی نظر سے نہاں ہے ، نہیں نہیں ، خوب جانتاتھا کہ مبتدی طالب علم حدیث میں پہلے اسی کو پڑھتا ہے مگر اسے تو ان بیچارے عوام کو چھَلنا مقصود تھا جنہیں علم کی ہوا نہ لگی سمجھ لیا کہ ان پراندھیری ڈال ہی لوں گا ، اہل علم نے اورکون سی مانی ہے کہ اسی پر معترض ہونگے ۔

ع اس آنکھ سے ڈریے جو خدا سے نہ ڈرے آنکھ

 

ثالثاً : امام الوہابیہ کا تو مبلغ علم یہی مشکوٰۃ ہے ، ہم اس مطلب کی احادیث اول ذکر کریں پھر بتوفیقہٖ تعالٰی ثابت کردکھائیں کہ یہی حدیثیں اس کے شرک کا کیسا سرتوڑتی ہیں ۔ اول تو یہی حدیث حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی (حدیث ۱۷۱) احمد وابی داؤد نے یوں مختصر اً اورابن ماجہ نے بسند حسن اس طرح مطولاً روایت کی : حدثنا ھشام بن عمار ثنا سفیان بن عیینہ عن عبدالملک بن عمیر عن ربعی بن حراش عن حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ تعالٰی عنہما ان رجلاًمن المسلمین راٰی فی النوم انہ لقی رجلاً من اھل الکتاب فقال نعم القوم انتم لولا انکم تشرکون تقولون ما شاء اللہ وشاء محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وذکر ذٰلک للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال اما واللہ ان کنت لاعرفھا لکم قولواما شاء اللہ ثم ماشاء محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۱؂ ۔ یعنی اہل اسلام سے کسی صاحب کو خواب میں ایک کتابی ملا وہ بولا : تم بہت خوب لوگ ہو اگر شرک نہ کرتے تم کہتے ہوجو چاہے اللہ اورچاہیں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ ان مسلم نے یہ خواب حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی، فرمایا : سنتے ہو خدا کی قسم تمہاری اس بات پر مجھے بھی خیال گزرتا تھا یوں کہا کرو جو چاہے اللہ پھر جو چاہیں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ (۱؂مسند احمد بن حنبل حدیث حذیفۃ بن الیمان المکتب الاسلامی بیروت   ۵ /۳۹۳)

(سنن ابی داود ، کتاب الادب باب منہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۳۲۴)

(سنن ابن ماجۃ ابواب الکفارات باب النہی ان یقال ماشاء اللہ الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۵۴) یہ حدیث ابن ابی شیبہ ۱؂وطبرانی وبیہقی وغیرہم نے بھی روایت کی۔

 

 (۱؂اتحاف السادۃ بحوالہ ابن ابی شیبۃ الآفۃ التاسعۃ عشر دارالفکر بیروت ۷ /۵۷۴)

(اتحاف السادۃ بحوالہ المعجم الکبیر الآفۃ التاسعۃ عشر دارالفکر بیروت ۷ /۵۷۴)

(الاسماء والصفات باب قول اللہ عزوجل وما تشاؤن الخ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل ۱ /۲۳۷و۲۳۸)

 

حدیث ۱۷۲: ابن ماجہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : اذا حلف احدکم فلا یقل ماشاء اللہ وشئت ولٰکن لیقل ماشاء اللہ ثم شئت ۲؂۔ جب تم میں سے کوئی شخص قسم کھائے تو یوں نہ کہے کہ جو چاہے اللہ اورمیں چاہوں ، ہاں یوں کہے کہ جو چاہے اللہ پھر میں چاہوں۔

 

 (۲؂سنن ابن ماجۃ ابواب الکفارات باب النہی ان یقال ما شاء اللہ الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۵۴)

 

حدیث ۱۷۳: نیز ابن ماجہ واحمد وبغوی وابن قانع وغیرہم نے یہی مضمون طفیل بن سخبرۃ برادر مادری ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا: بیدانہ اعنی ابن ماجہ ۳؂احالہ علی حدیث حذیفۃ فقال نحوہ ولم یسق لفظہ۔ سوائے اس کے کہ ابن ماجہ نے اسکو حدیث حذیفہ کی طرف پھیرتے ہوئے نحوہ، کہا ہے اس کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔(ت)

 

 (۳؂سنن ابن ماجۃ ابواب الکفارات باب النہی ان یقال ما شاء اللہ الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۵۴)

 

اورمسند امام احمد بسند حسن صحیح کہ حدثنا بھز وعفان ثنا حماد بن سلمۃ عن عبدالملک بن عمیر عن ربعی بن ھراش عن طفیل بن سخبرۃ  اخی عائشۃ لامھا رضی اللہ تعالٰی عنہما یوں ہے کہ انہیں خواب میں کچھ یہودی ملے انہوں نے ابنیت عزیرعلیہ الصلٰوۃ والسلام ماننے کا ان پر اعتراض کیا انہوں نے کہا تم خاص کا مل لوگ ہوا گر ویں نہ کہو کہ جو چاہے اللہ اورچاہیں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، پھر کچھ نصارٰی ملے ان سے بھی ابنیت مسیح کے جواب میں یہی سنا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے خواب عرض کیا ، حضور نے خطبے میں بعد حمدوثناء الٰہی فرمایا : انکم کنتم تقولون کلمۃ کان یمنعنی الحیاء منکن ان انھٰکم عنہا لاتقولوا ماشاء اللہ وما شاء محمد۱؂۔ تم لوگ ایک بات کہا کرتے تھے مجھے تمہارا لحاظ روکتاتھا کہ تمہیں اس سے منع کرودوں یوں نہ کہو جو چاہے اللہ اورجو چاہیں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم ۔

 

 (۱؂ مسند احمد بن حنبل حدیث طفیل بن سخبرۃ المکتب الاسلامی بیروت     ۵ /۷۲)

 

حدیث ۱۷۴: سنن نسائی میں بسند صحیح بطریق مسعرعن معبدبن خالد عن عبداللہ بن یسارٍ قتیلہ بنت صیفی جہنیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے  : ان یہودیا اتی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال انکم تنددون وانکم تشرکون تقولون ماشاء اللہ وشئت وتقولون والکعبۃ فامرھم النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذا اراد وان یحلفواان یقولوا ورب الکعبۃ ویقول احد ماشاء اللہ ثم شئت ۲؂۔ یعنی ایک یہودی نے خدمت اقدس حضورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حاضر ہوکر عرض کی : بیشک تم لوگ اللہ کا برابروالا ٹھہراتے ہو بیشک تم لوگ شرک کرتے ہو یوں کہتے ہوجو چاہے اللہ چاہو توم ، اورکعبے کی قسم کھاتے ہو۔اس پر سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو فرمایا کہ قسم کھانا چاہیں تو یوں کہیں''رب کعبہ کی قسم ''اورکہنے والا یوں کہے ''جو چاہے اللہ اورپھر جو چاہو تم۔''

 

 (۲؂سنن النسائی کتاب الایمان والنذور        الحلف بالکعبۃ         نورمحمد کارخانہ کرچی ۲ /۱۴۳)

 

یہ حدیث سنن بیہقی ۳؂میں بھی ہے ،

 

 (۳؂السنن الکبرٰی کتاب الجمعۃ باب مایکرہ من الکلام فی الخطبۃ دارصادر بیروت ۳ /۲۱۲)

(الطبقات الکبرٰی لابن سعد تسمیۃ غرائب نساء العرب دارصادر بیروت ۸ /۳۰۹)

(المعجم الکبیر عن قتیلۃ بنت صیفی الجہنیہ حدیث ۵المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۵ /۱۴و۱۵)

 

نیز ابن سعد نے طبقات اور طبرانی معجم کبیر میں میں بطریق مذکور مسعر اور ابن مندہ نے بطریق المسعودی عن معبدن الجدلی عن ابن یسارن الجھنی عن قتیلۃ الجھنیۃ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت کی اورامام احمد نے مسند میں اس طریق مسعودی سے بسند صحیح یوں روایت فرمائی   :   حدثنا یحیٰی بن سعید ثنا یحیی المسعودی ثنی معبد بن خالد عن عبداللہ بن یسارعن قتیلۃ بنت صیفی ن الجھنیۃ ، قالت اتٰی خبر من الاخبار رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال یا محمد نعم القوم انتم لولا انکم تشرکون قال سبحان اللہ وما ذاک قال تقولون اذا حلفتم ولکعبۃ قالت فامھل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شیأا ثم قال انہ قد قال فمن حلف فلیحلف برب الکعبۃ قال یا محمد نعم القوم انتم لولا انکم تجعلون للہ ندًّا قال سبحان اللہ وما ذاک قال تقولون ما شاء اللہ وشئت قالت فامھل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شیئا قال انہ قد قال ماشاء اللہ فلیفصل بینھما ثم شئت ۱؂۔ یعنی یہود کے ایک عالم نے خدمت اقدس حضورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضرہوکر عرض کی ، اے محمد!آپ بہت عمدہ لوگ ہیں اگر شرک نہ کیجئے ۔ فرمایا : سبحان اللہ !یہ کیا۔ کہا:آپ کعبہ کی قسم کھاتے ہیں ۔ اس پر سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کچھ مہلت دی یعنی ایک مدت تک کچھ ممانعت نہ فرمائی ، پھر فرمایا : یہودی نے ایسا کہا ہے تو اب جو قسم کھائے وہ رب کعبہ کی قسم کھائے ۔ یہودی نے عرض کی : اے محمد ! آپ بہت عمدہ لوگ ہیں اگر اللہ کا برابر نہ ٹھہرائےے ۔ فرمایا: سبحان اللہ !یہ کیا ۔ کہا : آپ کہتے ہیں جو چاہے اللہ اورچاہو تم۔ اس پر بھی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک مہلت تک کچھ نہ فرمایا ، بعدہ، فرمادیا : اس یہودی نے ایسا کہا ہے تو اب جو کہے کہ جو چاہے للہ تعالٰی تو دوسرے کے چاہنے کو جدا کر کے کہے کپ پھر چاہو تم۔

 

 (۱؂مسند احمد بن حنبل عن قتیلہ بنت صیفی حدیث قتیلہ المکتب الاسلامی بیروت   ۶ /۳۷۱و۳۷۲)

 

بحمد اللہ یہ احادیث کثیرہ صحیحہ جلیلہ متصلہ کتب صحاح سے ہیں، امام الوہابیہ نے ان سب کو بالائے طاق رکھ کر شرح السنہ کی ایک روایت منقطع دکھائی اوربحمداللہ اس میں بھی کہیں اپنے حکم شرک کی بو نہ پائی ۔

 

اقول : وباللہ التوفیق اب بفضلہ تعالٰی ملاحظہ کیجئے کہ یہی حدیثیں اسکے دعوٰی شرک کو کس کس طرح جہنم رسید فرماتی ہیں :  اولاً  : ان احادیث سے ثابت کہ صحابہ کرام میں قول کہ اللہ ورسول چاہیں تو یہ کام ہوجائیگا یا اللہ اورتم چاہو تو یوں ہوگا شائع وذائع تھا اورحضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس پر مطلع تھے اور انکار نہ فرماتے تھے بلکہ اس عالم یہود کے ظاہر الفاظ تو یہ ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خود بھی ایسا فرمایا کرتے تھے ، امام الوہابیہ اسے شرک کہتاہے ، تو ثابت ہوا کہ اس کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم شرک کرتے تھے اورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم منع نہ فرماتے تھے۔

 

ثانیاً : حدیث طفیل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لفظ دیکھو کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ''اس لفظ کا خیال مجھے بھی گزرتا تھا مگر تمہارے لحاظ سے منع نہ کرتا تھا ۔''جب یہ لفظ امام الوہابیہ کے نزدیک شرک ٹھہرا تو معاذاللہ نبی نے دانستہ شرک کو گواراکیا اوراس سے ممانعت پر اپنے یاروں کے لحاظ پاس کو غلبہ دیا اور امام الوہابیہ کے یہاں یہ نبوت کی شان ہے ، والعیاذباللہ باللہ رب العالمین ۔

 

ثالثاً : ایک یہودی نے آکر اعتراض کیا اس کے بعد حکم ممانعت ہوا، تو امام الوہابیہ کے نزدیک صحابہ کرام بلکہ سید انام علیہ الصلٰوۃ والسلام کو سچی توحید اوراس پر استقامت کی تاکید ایک یہودی نے سکھائی ولا حول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم۔

 

رابعاً : قتیلہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کہ حدیث صحیح دیکھو، اس یہودی کی عرض پر بھی فوراً حضور نے ممانعت نہ فرمائی بلکہ ایک زمانہ کے بعد خیال آیا اوفرمایا : وہ یہودی اعتراض کر گیا ہے اچھا یوں نہ کہا کرو۔ تو امام الوہابیہ کے نزدیک اللہ کے رسول نے آپ تو شرک سے نہ روکا یا شرک کو شرک نہ جانا جب ایک کافر نے بتایا اس پر بھی ایک مدت تک شرک کو روا رکھا پھر ممانعت بھی کی تو یوں نہیں کی شرک کی برائی سے ، بلکہ یوں کہ ایک مخالف اعتراض کرتا ہے لہذا چھوڑدو ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

 

خامساً : ان سب دقتوں کے بعد جو تعلیم فرمائی وہ بھی ہماں آس درکاسہ لائی ارشادہوا کہ یوں کہا کرو ''جو چاہے اللہ پھر چاہیں محمد'' صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ تو یہ کام ہوگا ، امام الوہابیہ کے لفظ یا دکیجئے : ''یہ خاص اللہ کی شان ہے اس میں کسی مخلو ق کو دخل نہیں رسول کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۱؂۔''

 

 (۱؂تقویۃ الایمان الفصل الخامس مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۴۰)

 

مسلمانو! لِلہ انصاف ،جو بات خاص شان الٰہی عزوجل ہے جس میں کسی مخلوق کو کچھ دخل نہیں اس میں دوسرے کو خد اکے ساتھ ''اور ''کہہ کر ملایات تو کیا ، شرک سے کیونکر نجات ہوجائے گی ۔ مثلاً آسمان وزمین کا خالق ہونا ، اپنی ذاتی قدرت سے تمام اولین وآخرین کا رازق ہونا خاص خدا کی شانیں ہیں ۔ کیا اگر کوئی یوں کہے کہ اللہ ورسول خالق السمٰوٰت والارض ہیں ، اللہ ورسول اپنی ذاتی قدرت سے رازق عالم ہیں جبھی شرک ہوگا۔ اور اگرکہے کہ اللہ پھر رسول خالق السمٰوٰت والارض ہیں ، اللہ پھر رسول اپنی ذاتی قدرت سے رازق جہاں ہیں تو شرک نہ ہوگا۔

 

مسلمانو!گمراہوں کے امتحان کے لیے ان کے سامنے یونہی کہہ دیکھو کہ اللہ پھر رسول عالم الغیب ہیں، اللہ پھر رسول ہماری مشکلیں کھول دیں ، دیکھ وتو یہ حکم شرک جڑتے ہیں یا نہیں ۔ اسی لئے تویہ عیارمشکوٰۃ کی اس حدیث متصل صحیح ابو داؤدکی میر بحری بجا گیا تھا جس میں لفظ ''پھر ''کے ساتھ اجازت ارشاد ہوئی تو ثابت ہوا کہ اس مرد ک کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہودی کا اعتراض پاکر بھی جو تبدیلی کی وہ خود شرک کی شرک ہی رہی۔

 

مسلمانو! یہ حاصل ہے رسولوں کی جناب میں اس گستاخ کے اعتقادکا۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۱؂۔ (اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پلٹا کھائیں گے ۔ت)

 

(۱؂القرآن الکریم ۲۶/ ۲۲۷)

 

یہ تو انکے طور پر نتیجہ احادیث تھا ہم اہل حق کے طور پر پوچھو تو اقول وباللہ التوفیق (تومیں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہتا ہوں ۔ ت)بحمداللہ تعالٰی نے صحابہ نہ شرک کیا نہ معاذاللہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شرک سن کر گوارفرمایا، کسی کے لحاظ وپاس کو کام میں لانا ممکن نہ تھا، نہ یہودی مردک تعلیم توحید کرسکتا تھا ، بلکہ حقیقت امری یہ ہے کہ مشیت حقیقیہ ذاتیہ مستقلہ اللہ عزوجل کے لیے خاص ہے اورمشیت عطائیہ تابعہ لمشیۃ اللہ تعالٰی اللہ تعالٰی نے اپنے عباد کو عطا کی ہے ، مشیت محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کائنات میں جیسا کچھ دخل عظیم بعطائے رب کریم جل جلالہ، ہے وہ ان تقریرات جلیلہ سے کہ ہم نے زیر حدیث ذکر کیں واضح وآشکار ہے ، محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ایک نائب وخادم سید نا علی مرتضٰی مشکل کشا کرم اللہ تعالٰی وجہہ الاسنی کی نسبت امت مرحومہ کا جو اعتقاد ہے وہ شاہ عبدالعزیز صاحب کی عبارت مذکورہ مقدمہ سے اظہار ہے کہ : حضرت امیر  وذریۃطاہرہ اوراتمام امت برمثال پیران می پر ستند وامور تکوینیہ رابایشاں وابستہ میدانند۱؂۔ حضرت امیر یعنی حضر ت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ اوران کی اولاد کو تمام امت اپنے مرشد جیسا سمجھتی ہے اورتکوینی امور کو ان حضرات کے ساتھ وابستہ جانتی ہے ۔(ت)

 

 (۱؂تحفہ اثنا عشریہ باب ہفتم درامامت سہیل اکیڈمی لاہور ص۲۱۴)

 

اورخود امام الوہابیہ اس تقویۃ الایمان کے کفری ایمان سے پہلے جو ایمان صراط مستقیم میں رکھتا تھا وہ بھی یہی تھا جہاں کہتاتھا  :   مقامت ولایت بل سائر خدمات مثل قطبیت وغوثیت وابدالیت وغیرہا ہمہ از عہد کرامت مہد حضرت مرتضٰی تاانقراض دنیا ہمہ بواسطہ ایشان ست ودرسلطنت سلاطین وامارتِ امرا ہمت ایشاں رادخلے ست کہ برسیاحین عالم ملکوت مخفی نیست۲؂۔ مقامات ولایت بلکہ تمام خدمات مثل قطبیت ، غوثیت وابدالیت وغیرہ سب رہیتی دنیا تک حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کے واسطے سے ملتے ہیں اوربادشاہوں کی سلطنت اورامیروں کی امارت میں بھی آنجناب کی ہمت کا دخل ہے ، یہ سیاحان عالم ملکوت پر پوشیدہ نہیں ۔ (ت)

 

 (۲؂صراط مستقیم باب دوم فصل اول المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۵۸)

 

اب کہ تقویۃ الایمان نے بحکم : قل بئسما یامرکم بہ ایمانکم ان کنتم مؤمنین ۳؂۔ تم فرمادو کیا براحکم دیتا ہے تم کو تمہارا ایمان اگر ایمان رکھتے ہو۔

 

(۳؂القرآن الکریم ۲ /۹۳)

 

اسے تمام امت مرحومہ کے خلاف ایک نیا ایمان سخت برا ایمان نام کا ایمان اورحقیقت میں پرلے سرے کا کفران سکھایا یا اسفل السافلین پہنچا، اب وہ بات کہ سیاحان عالم پر ظاہر تھی اسے کیونکر سُجھائی دے ، ومن لم یجعل اللہ نوراً فمالہ، من نور۴؂۔ اورجسے اللہ نور نہ دے اس کے لئے کہیں نور نہیں ۔(ت)

 

 (۴؂ القرآن الکریم۲۴/۴۰)

 

اس مشیت مبارکہ عطائیہ کے باعث صحابہ کرام نام الٰہی عزوجل کے ساتھ حضو اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک ملا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ ورسول چاہیں تو یہ کام ہوجائے گا مگر از انجاکہ طریق ادب سے اقرب وانسب یہ ہے کہ مشیت ذاتیہ ومشیت عطائیہ میں فرق مراتب نفس کلام سے واضح ہوکہ کسی احمق کو توہّم مساوات نہ گزرے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس کلمے پر خیال گزرتاتھا پھر ملاحظہ فرماتے کہ یہ اہل توحید ہیں معنی حق وصدق انہیں ملحوظ ہیں محبت خدا اوررسول اورنام پاک خلیفۃ اللہ الاعظم جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے تبرک وتوسل انہیں اس قول پر باعث ہے اوربات فی نفسہٖ شرعاً ممنوع نہیں کہ واؤمطلق جمع کے لیے ہے نہ مساوات (عہ) نہ معیت کے واسطے ، لہذا منع نہ فرماتے تھے ۔

 

عہ : اقول وھذا نکتۃ غفل عنہا بعض الجلۃ فجوز ماشاء اللہ ثم شاء محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وزعم ان لواتی بالواو لکان شرکا جلیا فانما یتم ان کانت الواوالمستویۃ وھو باطل قطعاقال تعالٰی ان اللہ وملٰئکتہ یصلون علی النبی۱؂ قال تعالٰی اغنٰھم اللہ  ورسولہ۲؂الٰی غیر ذٰلک مما لایحصی ومع ذٰلک بحمدلالہ لیس ملحظہ ملحظ ھٰؤلاء الا بخاس الجاعلۃ اثبات المشیئۃ للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شرکا بنفسہ کما سمعت من امامھم السحیق ان ذاشان یختص باللہ عزوجل وان لامدخل فی لمخلوق ومشیتہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لایأتی بشیئ فلوکان یذھب مذھب ھٰؤلاء والعیاذباللہ لجعل ذکر مشیتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شرکا مطلقا سواء فیہ الواو وثم کما علمت وھو قد سرح بجواز ماشاء اللہ ثم شاء محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فتثبت ولا تزل ۱۲منہ۔

 

اقول : (میں کہتاہوں )اس نکتہ کی طرف بعض بزرگوں کی توجہ نہ ہوئی، چنانچہ انہوں نے یوں کہنے کو تو جائز قرار دیا کہ ''جو چاہے اللہ پھر چاہیں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ''مگر گمان کیا کہ اگر ثم کی جگہ واو ہو توشرک جلی ہوگا ۔لیکن یہ استدلال توتب تام ہوتا اگر واو مقتضی مساوات ہوتی ، حالانکہ یہ قطعا باطل ہے ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا : بے شک اللہ تعالٰی اوراس کے فرشتے نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں ۔ اورفرمایا : اللہ اوراس کے رسول نے غنی کردیا ۔ اس کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر ایسا ہی ہے مگر باوجود اس عدم توجہ کے ان بزرگوں کا مطمع نظر بحمدللہ وہ نہیں جو ان کمینے وہابیوں کا ہے جو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کےلئے مشیت کے محض اثبات کو ہی شرک قرار دیتے ہیں جیسا تو ان کے ذلیل امام کی بات سن چکا ہے کہ یہ خاص اللہ تعالٰی کی شان ہے اس میں کسی مخلو ق کا کوئی دخل نہیں اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔اگر ان بزرگوں کا نظریہ وہی ہوتا جو ان وہابیوں کا ہے تو العیاذباللہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مشیت کے ذکر کو مطلقاً شرک قرار دیتے چاہے اس میں واؤمذکور ہویا ثم ،جیس اکہ تو جان چکا ہے ، حالانکہ انہوں نے تصریح فرمائی ہے کہ یوں کہنا جائز ہے ''جو چاہے اللہ پھر چاہیں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ''ثابت قدم رہ مت ڈگمگا۔۱۲مہ (ت)

 

(۱؂القرآن الکریم ۳۳ /۵۶)

(۲؂القرآن الکریم ۹ /۷۴)

 

حکمت :

 

جب اس یہودی خبیث نے جس کے خیالات امام الوہابیہ کے مثل تھے ، اعتراض کیا او رمعاذاللہ شرک کا الزام دیا ، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رائے کریم کا زیادہ رجحان اسی طرف ہو اکہ ایسے لفظ کو جس میں احمق بدعقل مخالف جائے طعن جانے دوسرے سہل لفظ سے بدل دیا جائے کہ صحابہ کرام کا مطلب تبرک وتوسل برقرار رہے اورمخالف کج فہم کو گنجائش نہ ملے مگر یہ بات طرز عبارت کے ایک گونہ آداب سے تھی معناًتو قطعاً صحیح تھی لہذا اس کافر کے بکنے کے بعد بھی چنداں لحاظ نہ فرمایا گیا یہاں تک کہ طفیل بن سنجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ خواب دیکھا اور رؤیائے صادقہ القائے ملک ہوتاہے اب اس خیال کی زیادہ تقویت ہوئی اورظاہر ہوا کہ بارگاہ عزت میں یہی ٹھہرا ہے کہ یہ لفظ محالفوں کا جائے پناہ ٹھہرا ہے بدل دیا جائے جس طرح رب العزۃجل جلالہ، نے راعنا کہنے سے منع فرمایا تھا کہ یہود وعنود اسے اپنے مقصد مردود کا ذریعہ کرتے ہیں اور اس کی جگہ انظرنا کہنے کا ارشاد ہوا تھا ولہذا خواب میں کسی بندہ صالح کو اعتراض کرتے نہ دیکھا کہ یوں تو بات فی نفسہٖ محل اعتراض نہ ٹھہرتی بلکہ خواب بھی دیکھا تو انہیں یہود ونصارٰی اس امام الوہابیہ کے خیالوں کو معترض دیکھاتاکہ  ظاہر وکہ صر فدہن دوزی مخالفان کی مصلحت داعی تبدیل لفظ ہے ۔ اب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خطبہ فرمایا اورارشاد فرمایاکہ یوں نہ کہو کہ اللہ ورسول چاہیں تو کام ہوگا بلکہ یوں کہو کہ اللہ پھر اللہ کا رسول چاہے تو کام ہوگا۔ ''پھر ''کا لفظ کہنے سے وہ توہمّ مساوات کہ ان وہابی خیال کے یہود ونصارٰی یایوں کہئے کہ ان یہودی خیال کے وہابیوں کو گزرتا ہے باقی نہ رہے گا الحمدللہ علی تواتر اٰلائہٖ والصلٰوۃ والسلام علی انبیائہ  (تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کیلئے ہیں اسکی مسلسل نعمتوں پر ، اور دروودوسلام ہواسکے نبیوں پر۔)

 

اہل انصاف ودین ملاحظہ فرمائیں کہ یہ تقریر منیر کہ فیض قدیر سے قلب فقیر پر القاء ہوئی کیسی واضح ومستنیر ہے ان احادیث کو ایک مسلسل سلک گوہریں میں منظوم کیا اورتمام مدارج مراتب مرتبہ حمدللہ تعالٰی نورانی نقشہ کھینچ دیا۔ الحمدللہ کہ یہ حدیث فہمی ہم اہلسنت ہی کا حصہ ہے ،وہابیہ وغیرہم بدمذہبوں کو ا س کیا علاقہ ہے ، ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم ، والحمدللہ رب العٰلمین  (یہ اللہ تعالٰی کا فضل ہے جسے چاہتاہے عطا کرتاہے ، اوراللہ بڑے فضل والا ہے ، اورسب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔ت) غرض احادیث صحیحہ ثابتہ تو اس دروغ گوکو تابخانہ پہنچا رہی ہیں ۔ رہی وہ روایت مقطعہ کہ اس نے ذکر کی اوریونہی روایت (عہ) اعتبار ام المومنین صدیقہ سے کہ یہود کے اعتراض پر فرمایا یوں کہ کہو بلکہ کہو ماشاء اللہ وحدہ،۔

 

عہ : ای کتاب الاعتبار للحاوی ۱۲

 

اقول  : اگر صحیح بھی ہوتو نہ ہمٰن مضر نہ اسے مفید کہ واوسے احتراز کی دو صورتیں ہیں : تبدیل حرف جس کی طرف وہ احادیث صحیحہ ارشاد فرمارہی ہیں ، اوررأساًترک عطف جس کا اس روایت میں ذکر آیا۔ ایک صورت دوسری کی نافی ومنافی نہیں ، نہ ذاتی میں حصر عطائی کی نفی کرے ، قال اللہ تعالٰی : فلم تقتلوھم ولٰکن اللہ قتلھم وما رمتی اذ رمیت ولٰکن اللہ رمٰی ۱؂۔ تو تم نے انہیں قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اوراے محبوب !وہ خا تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی ۔ (ت)

 

(۱؂القرآن الکریم ۸ /۱۷)

 

اورجب بحمدہٖ تعالٰی ہم خود حدیث سے ماشاء اللہ ثم شاء فلان کی طرح ماشاء اللہ ثم شاء محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بھی اجازت دکھاچکے تو اب اصلاً ہمیں ان نکات وتوجیہات کی حاجت نہ رہی جو شراح نے اس روایت منقطعہ اوراس حدیث مستقل میں بظاہر ایک نوع تغایر کے لحاظ سے ذکر کئے ہیں۔ شیخ محقق قدس سرہ، نے یہاں یہ نکتہ ذکر فرمایا : دریں جا غایت بندگی وتواضع وتوحید ست زیرا کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اسناد مشیت اگرچہ بطریق تاخر وتبعیت باشد تجویز کردامادرحق خود بآں نیز راضی نہ شد بلکہ امر کر دباسناد مشیت بہ پروردگار تعالٰی تنہا بے توہم شرکت۱؂۔ یہاں انتہائی بندگی ، انکساری اورتوحید ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے غیر کی طرف اسناد مشیت کو جائز قرار دیا اگرچہ بطور تاخر وتبعیت ، لیکن اپنے لئے اس کی بھی اجازت دینے  پر راضی نہ ہوئے بلکہ فقط پروردگار عالم کی طرف بے توہم شرکت مشیت کا اسناد کرنے کا حکم دیا۔ (ت)

 

 (۱؂اشعۃ اللمعات کتاب الادب باب الاسامی الفصل الثانی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۴ /۵۳)

 

اقول : یہ توجیہہ بھی شرک امام الوہابیہ کی کیفر چشانی کو بس ہے ۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تواضعاً اپنی مشیت کا ذکر کرنے کو نہ فرمایا اوروں کے ذکر مشیت کی اجازت دی ، اگر شرک ہو تو معاذاللہ یہ ٹھہرے گی کہ حضور انے اپنی ذات کریم کو شریک خدا کرنے سے منع فرمایا اورزید عمرکو شریک کردینا جائز رکھا۔ علامہ طیبی نے ایک اورتوجیہ لطیف ودقیق کی طرف اشارہ کیاکہ  : انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رأس الموحدین ومشیئتہ، معمورۃ فی مشیئۃ اللہ تعالٰی ومضمحلۃ فیھا۲؂۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سردار موحّدین ہیں اورحضور کی مشیئت اللہ عزوجل کی مشیئت میں مستغرق وگم ہے ۔

 

 (۲؂الکاشف عن حقائق السنن شرح الطیبی علی المشکوٰۃ کتاب الادب حدیث ۴۷۷۹   اداراۃ القرآن کراچی   ۹ /۷۹)

 

اقول : تقریر اس اشارہ لطیفہ کی یہ ہے کہ عطف واؤسے ہو خواہ ثم خواہ کسی حرف سے ، معطوف ومعطوف علیہ میں مغایرت چاہتاہے بلکہ ثم بوجہ افادئہ فصل وتراخی زیادہ مفید مغایرت ہے اورسید الموحدین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے لئے کوئی مشیئت جداگانہ اپنے رب عزوجل کی مشیئت سے رکھی ہی  نہیں انکی مشیئت بعینہٖ خدا کی مشیئت ہے اورمشیئت خدا بعینہٖ ان کی مشیئت،اورعطف کر کے کہئے تو دوئی سمجھی جائے گی کہ اللہ کی مشیئت اورہے اور رسول کی مشیئت اور، لہذا یہاں عطف کے لیے ارشاد نہ فرمایا فقط مشیت اللہ وحدہ کا ذکر بتایا کہ اس میں خود ہی مشیۃ الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ذکر آجائے گا جل جلالہ، و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ ھٰکذا ینبغی ان یفھم ھذا المقام وبہٖ یندفع ما اوردعلیہ القاری من النقض بان مشیئۃ غیرہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایضاً مضمحلۃ فی مشیئۃ اللہ تعالٰی سبحانہ۱؂اھ اس مقام پر اسی طرح سمجھنا چاہیے اور اس سے ملا علی قاری علیہ الرحمہ کا وارد کردہ اعتراض بھی مندفع ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے غیر کی مشیت بھی تو اللہ تعالٰی سبحانہ، کی مشیت میں گم ہے اھ ۔

 

 (۱؂مرقاۃ المفاتیح کتاب الادب    باب الاسامی    الفصل الثانی   تحت الحدیث ۴۷۷۹  المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸ /۵۳۳)

 

اقول : فلم یفرق بین الاضمحلال الاضطر اری الحاصل لکل الخلق والاختیاری المختص بخلص عباداللہ الممتاز فیہ وفی کل صفۃ الٰھیّہ من بینھم سید ھم نبیھم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم واعترض علیہ ایضاً بانہ، لایفید جواز الاتیان بالواؤ۲؂اھ اقول :(میں کہتاہوں) کہ اضمحلال (مستغرق اورگم ہونا )دو قسم ہے

 (۱) اضطراری : یہ تمام مخلوق کے لئے ثابت ہے ۔

(۲) اختیاری :  یہ اللہ تعالٰی کے لیے مخصوص بندوں کے ساتھ ہے جو صفت مشیت اواللہ تعالٰی کی ہر صفت میں امتیاز رکھتے ہیں، ان کے سردار ان کے نبی ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، ملا علی قاری نے علامہ طیبی کی تقریرپر یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ ان کے جواب سے ''واو''کے استعمال کا جواب ثابت نہیں ہوتا اھ ۔

 

 (۲؂مرقاۃ المفاتیح کتاب الادب باب الاسامی الفصل الثانی تحت الحدیث ۴۷۷۹ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸ /۵۳۳)

 

اقول : ماکان مساق کلام الطیبہ لاثبات جواز الاتیان بالواوحتی یکون عدم افادتہ نقصاً فی مرامہٖ انما ارادبداء نکتۃ الفرق بین مشیئتہ ومشیئۃ غیرہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حیث ذکر الاولٰی بثم وطوی ذکر ھذہٖ رأساً وھذا مستفاد من کلامہٖ مابین وجہٍ کما سمعت منا تقریرہ، فلا ادری مالمراد بذالایراد ثم افادہ وجہ اٰکر للفرق فقال ماسبق م قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولٰکن قولوا ماشاء اللہ ثم شاء فلان لمجرد الرخصۃ ولوقال ھنا قولوا ماشاء اللہ ثم شاء محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لکان امر وجوب اوندب ولیس الامر کذٰلک ۱؂اھ۔ اقول : علامہ طیبہ نے اپنا کلام ''واؤ''کے استعمال کو جائز ثابت کرنے کے لیے نہیں چلایا تھا، یہاں تک کہ اگر ان کاکلام اس مقصد کا فائدہ نہ دے سکے توانکے مقصد میں نقص لازم آئے ، بلکہ ان کا مقصد تویہ تھا کہ وہی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اوردوسروں کی مشیت میں فرق ظاہر کریں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فلاں کی مشیت کا ذکر لفظ''ثم''کے ساتھ کردیا لیکن اپنی مشیت کا ذکر نہیں فرمایا ۔ یہ فرق ان کے ایک وجہ کے بیان سے مستفاد ہے جیسا کہ آپ ہم سے اس کی تقریر سن چکےہیں ، مجھے معلوم نہیں ہوسکا کہ اس اعتراض سے انکا مقصد کیا ہے ۔ پھر فرق کی ایک اوروجہ بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس سے پہلے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جوفرمان گزرچکا ہے ''لیکن کہو جو چاہے اللہ تعالٰی پھر چاہے فلاں ''یہ محض رخصت کیلئے ہے اوراگر اس جگہ یوں فرماتے ''کہو جو چاہے اللہ پھر چاہیں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ''تو یہ امر وجوب یا استحباب کے لئے ہوتا ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔اھ۔

 

 (۱؂مرقاۃ المفاتیح کتاب الادب باب الاسامی الفصل الثانی تحت الحدیث ۴۷۷۹   المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸ /۵۳۳)

 

اقول :کانہ یستنبط من ترک لفظۃ لٰکن ھٰھنا فانہ، یکون حینئذٍ امراً مقصوداً واقلہ الندب بخلاف الاول فانہ استدراک علی النھی فیفید مجرد الرخسۃ ھٰذا ما ظھرلی فی تقریر مرامہ وانت تعلم انہ یرجع الفرق علی ھذا الٰی جھۃ العبارۃ فلو ذکر ھٰھنا لکن لساغ ان یذکر العطف بثم ولو ترکہا ثمہ لقال قولوا ماشاء اللہ وحدہ، ثم قال مع المشیئۃ المسندۃ الی فلان انما ھی مشیئۃ جزئیۃ لایجوز حملھا علی المشیئۃ الکلیۃ کما رمزنا الیہ فیما سبق من الکلام ۱؂اھ۔ اقول : دوسرے ارشاد میں لفظ ''لکن ''مذکور نہیں ہے ۔ گویا کہ ملا علی قاری اس سے اس بات کا استنباط کرتے ہیں کہ اس صورت میں امر مقصودی ہوگا جو کم از کم استحباب کے لیے ہوتاہے برخلاف پہلے ارشاد کے کہ وہاں نہی کے بعد لفظ ''لکن ''استدراک کیلئے ہے اس لئے محض رخصت کا فائدہ دے گا ۔ یہ وہ بات ہے جو انکے مقصد کی وضاھت کیلئے مجھے ظاہر ہوئی ہے ۔ قارئین کرام !آپ جانتے ہیں کہ اس تقریر کے مطابق فرق عبارت ذکر کیا جاتا تو ''ثم ''کے ساتھ عطف جائز ہوتااوراگر اس جگہ لفظ ''لٰکن ''ترک کردیا جاتا تو فرماتے کہ کہ ''ماشاء اللہ وحدہ، ''پھر علامہ قاری نے فرمایاکہ فلاں کی طرف جس مشیت کی نسبت کی گئی ہے وہ مشیت جزئیہ ہے اسے مشیت کلیہ پر محمول کرنا جائز نہیں ہے ، جیسا کہ ہم کلام سابق اسکی طرف اشارہ کرچکے ہیں ۔اھ

 

 (۱؂مرقاۃ المفاتیح کتاب الادب باب الاسامی الفصل الثانی تحت الحدیث ۴۷۷۹ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸ /۵۳۳)

 

اقول : ھٰذا شیئ متحاز عن البحث ومشیئۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایضاً لاتحیط بجمیع مرادات اللہ تعالٰی سبحٰنہ ھٰذا قد کان افادۃ العلامۃ الطیبی وجھا رابعاً وھو انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال ھذا ای قولوا ما شاء اللہ وحدہ دفعا لمظنۃ التھمۃ قولھم ماشاء اللہ وشاء محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تعظما لہ وریاء لسمعتہ۲؂ اھ ۔ اقول : (میں کہتاہوں )یہ بحث سے علیحدہ چیز ہے ، نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مشیت بھی اللہ تعالٰی کی تمام مرادوں کا احاطہ نہیں کرتی ۔ اسکو یادکرلو ۔ علامہ طیبی نے ایک چوتھی وجہ بھی بیان کی تھی اوروہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''کہو ماشاء اللہ وحدہ، ''اس لئے کہ اگر صحابہ کرام یوں کہتے ''ما شاء اللہ وشاء محمد ''تو اس میں آپ کی عظمت کے بطور ریاء وسمعہ اظہار کے وہم کا گمان ہوتا ، اس وہم کو دور کرنے کے لیے فرمایا کہ کہو''ماشاء اللہ وحدہ۔''

 

 (۲؂  الکاشف عن حقائق السنن (شرح الطیبی علی المشکوٰۃ) الفصل الثانی تحت الحدیث ۴۷۷۹  ادارۃ القرآن کراچی ۹ /۷۹)

 

اقول : ای والمظنۃ بحالھا فی ذکر اسمہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولو بثم فعدل الٰی ذکر اللہ تعالٰی وحدہ ولیس یرید ان المظنۃ نشأت من(عہ) الواو اذ لو ارادہ لہ یصلح ماذکرہ وجھا للفرق بذکر مشیئۃ غیرہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  بثم لامشیئۃ ھو فان المحذور علی ھذا ان کان ففی الواؤلا فی ثم وفیھا الکلام فارادۃ ھذا خروج عن اصل المرام ھٰذا تقریرکلامہ علی ماظھر لی۔ اقول : نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک لفظ''ثم ''کے ساتھ بھی ذکر کیاجاتاہے تب بھی وہ وہم برقرار رہتا، اس لئے وہاں بھی صرف اللہ تعالٰی کاذکر ہونا چاہیے تھا، ان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہم لفظ ''واؤ''کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ، اگریہ ان کا مقصد ہوتا تو جو کچھ انہوں نے بیان کیا ہے وہ وجہ فرق نہیں بن سکتایعنی ''ثم''کے بعد غیر مشیت کا ذکر کیا جاسکتاہے ، نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مشیت کا ذکر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس تقریر کے مطابق اگر خرابی لازم آتی ہے تو ''واؤ''میں ہے نہ کہ ''ثم''میں ، حالانکہ گفتگو ''ثم''ہی میں ہے ۔ لہذا یہ مطلب مراد لینے سے اصل مقصد سے خارج ہونا لازم آئے گا، یہ انکے کلام کی تقریر ہے جو میری سمجھ میں آئی ہے ۔

 

عہ :کما توھم الفاضل الراد ففاہ بما قد علمت بطلانہ بدلائل قاھرۃ لاقبل لاحدبھا زعما منہ ان الواؤنص فی التسویۃ لامجرد مظنۃ تھمۃ وباللہ العصمۃ ۱۲منہ۔

 

جیسا کہ رد کرنیوالے فاضل (ملا علی قاری)نے وہم کیا ہے کہ واؤمیں محض تہمت کا گمان نہیں ہے بلکہ وہ برابری میں نص ہے ۔ اورآ پ ان کے وہم کا ناقابل تردید وجوہ سے باطل ہونا جان چکے ہیں ، اور عصمت اللہ تعالٰی ہی کی طرف سے ہے ۔ت)

 

اقول : وھو ارؤوا الوجوہ عندی وکیف یظن ان یظن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بصحابتہ فی ذکر نفسہ السمعۃ والریاء وحاشاہ وحاشاھم عن ذٰلک واحسن الوجوہ ما ذکر نا سابقا عن الطبیبی وما قد منا عن الشیخ المحقق مع ان کل ذٰلک مستغنی عنہ کما علمت وقد اشارالیہ القاری ایضاً اذ قال اصل السؤال مدفوع لانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم داخل فی عموم فلان فیجوز ان یقال ماشاء اللہ ثم ماشاء محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولا یجوز ان یقال ماشاء اللہ وشاء محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱؂اھ اقول :(میں کہتاہوں ) میرے نزدیک یہ سب سے کمزور وجہ ہے ۔ اس گمان کا کیا جواز ہے کہ اگرنبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنا ذکر فرمادیں تو آپ کو اپنے صحابہ کے بارے میں یہ گمان ہوکہ انہیں ریاء اورسُمعہ کا وہم ہوگا ۔ یہ گمان نہ تو نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لائق ہے اورنہ ہی صحابہ کرام کے ۔ سب سے بہتر وجہ وہ ہے جو ہم علامہ طیبہ اورشیخ محقق کے حوالے سے بیان کرچکے ہیں، اگرچہ ان توجیہات کی ضرورت نہیں ہے ، جیسا کہ آپ جان چکے ہیں ، اورملا علی قاری نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے ، انہوں نے فرمایا کہ اصل سوال مندفع ہے ، کیونکہ بنی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فلان کے عموم میں داخل ہیں، اس لئے ما شاء اللہ ثم ماشاء محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہنا جائز ہے اورماشاء اللہ وشاء محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہنا جائز نہیں ہے ۔

 

 (۱؂مرقاۃ المفاتیح کتاب الادب باب الاسامی الفصل الثانی تحت الحدیث ۴۷۷۹المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸ /۵۳۳)

 

اقول : ولو استحضر حدیث ابن ماجۃ لم یحتاج الی عموم فلان کما ان السائل لو استظھر لما سائل کما ان المحبیبین لو تذکروہ لما ذھبوا الی ھنا وھنا فسبحان من لایعزب عنہ شیئ ۔ اقول : (میں کہتاہوں) اگر ملا علی قاری کو ابن ماجہ کی حدیث مستحضر ہوتی تو انہیں فلان کے عموم کی حاجت نہ ہوتی اوریہ حدیث سائل کے پیش نظر ہوتی تو وہ سوال ہی نہ کرتا اور جواب دینے والے حضرات کو یاد ہوتی تو انہیں طرح طرح کی توجیہوں کی ضرورت نہ پڑتی۔ پاک ہے وہ ذات جس سے کوئی چیز مخفی نہیں رہتی۔(ت)

 

الحمدللہ ! یہ وصل مبارک کہ اعظم مقصد کتاب تھا بروجہ احسن واجمل اختتام کو پہنچا اورہنوز اس کی ابحاث میں ردّوہابیت کا بہت کلام باقی جس کا بعض ان شاء اللہ العزیز خاتمہ کتاب میں مذکور ہوگا ، یہاں تک اس باب میں وجہ دوم پر بعد اسم پاک جامع ایک سو چودہ حدیثیں متعلق بذات اقدس حضوراکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مذکورہوئیں اوربعض آئندہ آتی ہیں اورپچاس حدیثیں کہ ہم نے شمار کر کے شمار نہ کیں علاوہ ہم ابنائے زماں میں کسل وتقاعد ہے ، لہذا بخوف ملالت زیادہ اطالت نہ کیجئے اوربتوفیقہ تعالٰی بقیہ وصلوں کے وصل سے راحت وبرکت لیجئے وباللہ التوفیق۔

 

وصل دوم

احادیث متعلقہ بحضرات انبیاء واولیاء علیھم الصلٰوۃ والثناء

 

حدیث ۱۷۵ : طبرانی معجم اوسط اورخرائطی مکارم الاخلاق میں امیر المومنین مولاعلی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم سے راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے جب کوئی شخص سوال کرتا اگر حضور کو منطور ہوتا نعم فرماتے یعنی اچھا ، اورنہ منظور ہوتا تو خاموش رہتے ، کسی چیز کو لایعنی نہ فرماتے ۔

ایک روز ایک اعرابی نے حاضر ہوکر سوال کیاحضور خاموش رہے ، پھر سوال کیاسکوت فرمایا ، پھر سوال کیا اس پر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جھڑکنے کے انداز سے فرمایا: سل ما شئت یا اعرابی ! اے اعرابی !جو تیرا جی چاہے ہم سے مانگ۔

مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ ، فرماتے ہیں : فغبطناہ فقلنا الاٰن یسأل الجنۃ یہ حال دیکھ کر (کہ حضور خلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمادیا ہے جو دل میں آئے مانگ لے )ہمیں اس اعرابی پر رشک آیا ہم نے اپنے جی میں کہا اب یہ حضور سے جنت مانگے گا، اعرابی نے کہا تو کیا کہا کہ میں حضور سے سواری کا اونٹ مانگتاہوں ۔ فرمایا: عطا ہوا ۔ عرض کی : حضو سے زادراہ مانگتاہوں ۔ فرمایا : عطاہوا۔ ہمیں اس کے ان سوالوں پر تعجب آیا۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : کتنا فرق ہے اس اعربی کی مانگ اوربنی اسرائیل کی ایک پیرزن کے سوال میں ۔ پھرحضو رنے اس کا ذکر ارشاد فرمایا کہ جب موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دریا میں اترنے کا حکم ہوا کناردریا تک پہنے سواری کے جانوروں کے منہ اللہ عزوجل نے پھیر دیے کہ خود واپس پلٹ آئے ، پلٹ آئے ، موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عرض کی : الٰہی !یہ کیا حال ہے ؟ارشاد ہوا : تم قبر یوسف (علیہ الصلٰوۃ والسلام )کے پاس ہو ان کا جسم مبارک اپنے ساتھ لے لو۔ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو قبر کا پتہ معلوم نہ تھا فرمایا: اگر تم میں کوئی جانتا ہوتو شاید بنی اسرائیل کی پیرزن کو معلوم ہو، اس کے پاس آدمی بھیجا کہ تجھے یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام کی قبر معلوم ہے ؟کہا: ہاں۔ فرمایا : تو مجھے بتادے ۔ عرض کی : لاواللہ حتی تعطینی ما اسئلک خدا کی قسم میں نہ بتاؤں گی یہاں تک کہ میں جو کچھ آپ سے مانگوں آپ مجھے عطافرمادیں ۔ فرمایا :ذٰلک لک تیری عرض قبول ہے ۔ قالت فانی اسئلک ان اکون معک فی الدرجۃ التی تکون فیہا فی الجنۃ پیرزن نے عرض کی : تو یں حضور سے یہ مانگتی ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ ہوں اس درجے میں جس درجے میں آپ ہوں گے ۔ قال سلی الجنۃ موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا: جنت مانگ لے ، یعنی تجھے یہی کافی ہے اتنا بڑا سوال نہ کر۔ قالت لا واللہ الا ان اکون معک پیرزن نے کہا: خدا کی قسم میں نہ مانوں گی مگر یہی کہ آپ کے ساتھ ہوں ۔ فجعل موسٰی یرد دھا فاوحی اللہ ان اعطھا ذٰلک فانہ، لن ینقصک شیئاً فاعطاھا موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام اس سے یہی رد وبدل کرتے رہے ۔اللہ عزوجل نے وحی بھیجی موسٰی ! وہ جو مانگ رہی ہے تم اسے وہی عطاکردو کہ اس میں تمھاراکچھ نقصان نہیں، موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جنت میں اسے اپنی رفاقت عطافرمادی ، اس نے یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام کی قبر بتادی ،موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نعش مبارک کو ساتھ لے کر دریا سے عبور فرماگئے ۱؂۔

 

 (۱؂کنز العمال بحوالہ طس والخرائطی الخ حدیث ۴۸۹۵   مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۲ /۱۷۔۶۱۶)

( المعجم الاوسط عن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ۷۷۶۳مکتبۃ المعارف ریاض ۸ /۳۷۶و۳۷۷)

 

اقول: وباللہ التوفیق ، بحمدہٖ تعالٰی اس حدیث نفیس کا ایک ایک حرف جان وہابیت پر کوکب شہابی ہے ۔

 

اولاً : حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اعرابی سے ارشاد کہ ''جو جی میں آئے مانگ لے ۔''حدیث ربیعہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں تو اطلاق ہی تھا جس سے علمائے کرام نے عموم مستفاد کیا یہاں صراحۃً خود ارشاد اقدس میں عموم موجود کہ جو دل میں آئے مانگ لے ہم سب کچھ عطافرمانے کا اختیار رکھتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وبارک علیہ وعلٰی اٰلہ قدرجودہٖ ونوالہ ونعمد وافضالہٖ  (اللہ تعالٰی درود وسلام اوربرکت نازل فرمائے آپ پر اور آپ کی آل  پر آپ کے جو دوسخا اورانعام واکرام کے مطابق۔ت)

 

ثانیاً : یہ ارشاد سن کر مولی علی وغیرہ صحابہ حاضرین رضی اللہ تعالٰی عنہم کا غبطہ کہ کاش یہ عام انعام کا ارشاد اکرام ہمین نصیب ہوتاحضور تو اسے اختیار عطافرماہی چکے اب یہ حضور سے جنت مانگے گا۔ معلوم ہواکہ بحمداللہ تعالٰی صحابہ کرام کا یہی اعتقاد تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ہاتھ اللہ عزوجل کے تما م خزائن رحمت دنیا وآخرت کی ہر نعمت پر پہنچتا ہے یہاں تک کہ سب سے اعلٰی نعمت یعنی جنت جسے چاہیں بخش دیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

ثالثاً : خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اس وقت اس اعرابی کے قصور ہمت پر تعجب کہ ہم نے اختیار عام دیا اورہم سے حطام دنیا مانگنے بیٹھا پیر زن اسرائیلیہ کی طرح جنت نہ صرف جنت بلکہ جنت میں اعلٰی سے اعلٰی درجہ مانگتا تو ہم زبان دے ہی چکے تھے اورسب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے وہی اسے عطافرمادیتے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ رابعاً  : ان بڑی بی پر اللہ عزوجل کے بےشمار رحمتیں بھلا انہوں نے موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو خدائی کا رخانہ کا مختار جان کر جنت اورجنت میں بھی ایسے اعلٰی درجے عطا کردینے پر قادر مان کر شرک کیا تو موسٰی کلیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کو کیا ہو اکہ یہ با آں شان غضب وجلا اس شرک پر انکار نہیں فرماتے اس کے سوال پر کیوں نہیں کہتے کہ میں نے جو اقرار کیا تھا تو ان چیزوں کا جو اپنے اختیار کی ہوں بھلا جنت اورجنت کا بھی ایسادرجہ یہ خد اکے گھر کے معاملے میں ان میں میرا کیا اختیار تو نے نہیں سنا کہ وہابیہ کے امام شہید اپنے قرآن جدید نام کے تقویۃ الایمان اورحقیقت کے کلمات کفر وکفران میں فرمائیں گے کہ :

''انبیاء میں اس بات کی کچھ بڑائی نہیں کہ اللہ نے انہیں عالم میں تصرف کی کچھ قدرت دی ہو۔۱؂ ''

 

 (۱؂تقویۃ الایمان  الفصل الثانی  مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہورص۱۷)

 

میں تو میں مجھ سے اورتمام جہان سے افضل محمدرسول اللہ خاتم المرسلمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت ان کی وحی باطنی میں اترے گا کہ :  ''جس کا نام محمد ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں ۲؂۔''

 

 (۲؂تقویۃ الایمان الفصل الرابع مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور   ص۲۸)

 

خود انہیں کے نام سے بیان کیا جائے گا کہ : ''میری قدرت کا حال تو یہ ہے کہ اپنی جان تک کے بھی نفع ونقصان کا مالک نہیں تو دوسرے کا کیا کرسکوں۳؂۔''

 

 (۳؂تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہورص۱۷)

 

نیز کہا جائے گا : ''پیغمبر نے سب کو اپنی بیٹی تک کو کھول کر سنادیا کہ قرابت کا حق ادا کرنا اسی چیز میں ہوسکتاہے کہ اپنے اختیار میں ہو سو یہ میرا مال موجد ہے اس میں مجھ کو کچھ بخل نہیں اوراللہ کے یہاں کا معاملہ میرے اختیار سے باہر ہے وہاں میں کسی کی حمایت نہیں کرسکتا اورکسی کا وکیل نہیں بن سکتا سو وہاں کا معاملہ ہر کوئی اپنا اپنا درست کرلے اوردوزخ سے بچنے کی ہر کوئی تدبیرکرے ۴؂۔ ''

 

 (۴؂تقویۃ الایمان   الفصل الثالث   مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہورص۲۵)

 

بڑی بی !کیا تم سَٹھ گئی ہو، دیکھو تقویۃ الایمان کیا کہہ رہی ہے کہ رسول بھی کون ، محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ او رمعاملہ بی کس کا ، خود ان کے جگر پارے کا ۔اور وہ بھی کتنا کہ دوزخ سے بچالینا اس کا تو انہیں خود اپنی صاحبزادی کے لئے کچھ اختیار نہیں وہ اللہ کے یہاں کچھ کام نہیں آسکتے تو کہاں وہ اورکہاں میں ، کہاں ان کی صاحبزادی اورکہاں تم ، کہاں صرف دوزخ سے نجات اورکہاں جنت ، اور جنت کا بھی ایسا اعلٰی درجہ بخش دینا ۔ بھلا بڑی بی !تم مجھے خدا بنا رہی ہو، پہلے تمہارے لئے کچھ امید ہو بھی سکتی تو اب تو شرک کر کے تم نے جنت اپنے اوپر حرام کرلی۔ افسوس کہ موسٰی کلیم علیہ الصلٰوہ والتسلیم نے کچھ نہ فرمایا ، اس بھاری شرک پر اصلاً انکار نہ کیا۔

خامساًدرکنار اوررجسٹری کہ سلی الجنۃ اپنی لیاقت سے بڑھ کر تمنا نہ کر و  ہم سے جنت مانگ لو ہم وعدہ فرماچکے ہیں عطا کردیں گے تمہیں یہی بہت ہے ۔ افسوس موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کیا شکایت کہ امام الوہابیہ اگرچہ یہودی خیالات کا آدمی ہے جیسا کہ ابھی آخر وصل اول میں ثابت ہوچکا ہے مگراپنے آپ کو کہتا تو محمدی ہے ، خود محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کے جدید قرآن تقویۃ الایمن کو جنہم پہنچایا۔ ربیعہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور سے جنت کا سب سے اعلٰی درجہ مانگا، اس عظیم سوال کے صریح شرک پر انکار نہ فرمایا بلکہ صراحۃً عطافرمادینے کو متوقع کردیا اب اگر وہ جل جل کر ان کی توہین نہ کرے ان کا نام سَوسَو گستاخیوں سے نہ لے تو اورکیا کرے بیچاہر کلیم کا مردود حبیب کا مارا اپنے جلے دل کے پھپھولے بھی نہ پھوڑے ، مثل مشہور ہے کسی کا ہاتھ چلے کسی کی زبان۔ وللہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین ولٰکن المنٰفقین لایعلمون۱؂۔ اورعزت اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اورمومنین کے لیے ، لیکن منافقین نہیں جانتے ۔(ت)

 

(۱؂القرآن الکریم ۶۳ /۸)

 

سادساً : سب فیصلوں کی انتہا خدا پر ہوتی ہے ، کلیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے امام الوہابیہ سے یہ رکھائی برتی تو  اسے جائے عزر تھی کہ موسٰی بدین خود مابدین خود حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تقویۃ الایمان کی یہ صریح تذلیل وتضلیل فرمائی تو اسے آنسو پوچھنے کو جگہ تھی کہ وہ نبی امی ہیں پڑھے لکھے نہیں کہ تقویۃ الایمان پڑھ لیتے ان احکام جدیدہ سے آگاہوتے مگر پورا قہر تو خدا نے توڑا کہ بڑی بی کے شرک اورموسٰی کے اقرار کوخوب مسجّل ومکمل فرمادیا۔ وحی آئی تو کیا آئی کہ اعطھا ذٰلک موسٰی !یہ جو مانگ رہی ہے تم اسے عطا کر بھی دو اس بخشش فرمانے میں تمہارا کیا نقصان ہے ۔ واہ ری قسمت یہ اوپر کا حکم تو سب سے تیز رہا، یہ نہیں فرمایا جاتاکہ موسٰی !تم ہوکون بڑھ بڑھ کر باتیں مارنے والے ،ہمارے یہاں کے معاملے کا ہمارے حبیب کو تو ذرہ بھراختیار ہے ہی نہیں یہاں تک کہ خود اپنی صاحبزادی کو دوزخ سے نہیں بچاسکتے تم ایک بڑھیا کو جنت پھنٹائے دیتے ہو ، اپنی گرمجوشی اٹھا رکھو، تقویۃ الایمان میں آچکا ہے کہ  "ہمارے یہاں کا معاملہ ہرشخص اپنا درست کرلے" ۱؂ بلکہ علی الرغم الٹا یہ حکم آتاہے کہ موسٰی! تم اسے جنت کا یہ عالی درجہ عطاکردو۔ اب کہئے یہ بیچارہ کس کا ہوکر رہے جس کے لئے توحید بڑھانے کو تمام انبیاء سے بگاڑی ، دین وایمان پر دولتّی جھاڑی، صاف کہہ دیا کہ : ''خدا کے سوا کسی کو نہ مان اوروں کو ماننا محض خبط ہے۲؂ ۔''

 

 (۱؂تقویۃ الایمان   الفصل الاول    مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۱۲)

(۲؂تقویۃ الایمان   پہلا باب   مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۵)

 

اسی خدا نے یہ سلوک کیا اب وہ بیچارہ ازیں سوماندہ وزآں سو راندہ (نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا ۔دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ت)سو ااس کے کیا کرے کہ اپنی اکلوتی چمر توحید کا ہاتھ پکڑ کر جنگل کو نکل جائے اور سر پر ہاتھ رکھ کر چلّائے ؎ مازیاراں چشم یاری داشتیم

خود غلط بودانچہ ماپنداشتیم

 

 (ہم نے دوستوں سے مدد کی امید رکھی ، جو ہمارا گمان تھا وہ خود غلط تھا۔ت)

 

مجھے امام الوہابیہ کے حال پر ایک حکایت یاد آئی اگرچہ میں ذکر احادیث میں ہوں مگر بمناسبت محل ایک آدھ لیطف بات کا ذکر خالی از لطف نہیں ہوتا جسے تمحیض کہتے ہیں اوریہ بھی سنت سے ثابت ہے کما فی حدیث خرافۃ وام زرع  (جیسا کہ خرافہ اورام زرع کی حدیث میں ہے ۔ت) میں نے ایک عالم سنت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو فرماتے سنا کہ رافضیوں کے کسی محلے میں چند غریب سنی رہتے تھے ، روافض کا زور تھا ان کا مجہتد پچھلے پہر سے اذان دیتا اور اس میں کلمات ملعونہ بکتا، ان غریبوں کے قلب پر آرے چلتے،آخر مرتاکیا نہ کرتا،چارشخص مستعد ہوکر پہلے سے مسجد میں جا چھپے ، وہ اپنے وقت پر آیا جبھی تبرا شروع کیا ، ان میں سے ایک صاحب برآمد ہوئے اوراس بڈھے کو گرا کر دست ولکد ونعل سے خوب خدمت کی کہ ہیں میں ابو بکر ہوں تومجھے برا کہتاہے ۔ آخر اس نے گھبرا کر کہا حضرت !میں آپ کو نہیں کہتا تھا میں نے تو عمر کو کہا تھا۔ دوسرے صاحب تشریف لائے اورمارتے مارتے بیدم کردیا کہ ہیں مجھے کہتا تھا، یا حضرت!توبہ ہے میں تو عثما ن کو کہتا تھا ۔ تیسرے صاحب آئے اورایسی ہی تواضع فرمائی کہ ہیں مجھے کہے گا۔ اب سخت گھبرایا بیتاب ہوکر چِلّایا کہ مولٰی دوڑیئے دشمن مجھے مارے ڈالتے ہیں ۔ اس پر چوتھے حضرت ہاتھ میں استرا لئے نمودارہوئے اوناک جڑسے اڑالی کہ مردک تو خدا کے محبوبوں اورہمارے دین کے پیشواؤں کو بر اکہے گا اورہم سے مدد چاہے گا ، اب مؤذن صاحب درد کے مارے شرم وذلت سے گورکنارے کسی کو نے میں سرک رہے ۔ مومنین آئے نمازیں پڑھتے اورکہتے جاتے ہیں آج قبلہ وکعبہ تشریف نہ لائے ۔ جناب قبلہ بولیں تو کیا بولیں، جب اجالا ہوا ارے حضرت قبلہ تویہ پڑے ہیں، قبلہ !خیر ہے ؟(روکر)خیر کیا ہے آج وہ تینوں دشمن آپڑے تھے مارتے مارتے کچومر نکال گئے تمہارا دیکھنا مقدر میں تھا کہ سانس باقی ہے ۔ قبلہ !پھر آپ نے حضرت مولٰی کو کیوں نہ یاد فرمایا ؟جب کئی بار یہی کہے گئے توآخر جھنجھلا کر ناک پر سے رومال پھینک دیا کہ یہ کوتک تو انہیں کے ہیں دشمن تو مارہی کرچھوڑگئے تھے انہوں نے تو جڑسے پونچھ لی ؎

 

مازیاراں چشم یاری داشتیم

خود غلط بودانچہ ماپنداشتیم (۱)

 

 (ہم نے دوستوں سے مدد کی امید رکھی ، جو ہم نے گمان کیا وہ خود غلط تھا۔ت) واستغفروااللہ العظیم ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العزیز الحکیم۔

 

سابعاً : پچھلافقرہ تو قیامت کا پہلا صور ہے فاعطاھا موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیرزن کو وہ جنت عالیہ عطافرمادی ۔ والحمدللہ رب العالمین۔

 

مسلمانو! دیکھا تم نے کہ اللہ اوراس کے مرسلین کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام وہابیت کے شرک کا کیا کی برا دن لگاتے ہیں کہ بیچارے کو اسفل السافلین میں بھی پناہ نہیں ملتی کذٰلک العذاب ولعذاب الاٰخرۃ اکبر لو کانوا یعلمون۲؂۔ (مار ایسی ہوتی ہے اوربیشک آخرت کی مار سب سے بڑی ، کیا اچھا تھا اگر وہ جانتے ۔ت)

 

(۲؂القرآن الکریم ۶۸ /۳۳)

 

حدیث ۱۷۶ : کہ حضو رسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہوازن کی غنیمتیں حنین میں تقسیم فرما رہے تھے ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کی : یارسول اللہ!حضور نے مجھ سے کچھ وعدہ فرمایا تھا ۔ ارشاد ہوا : صدقت فاحتکم ماشئت تو نے سچ کہا اچھا جو جی میں آئے گا حکم لگا دے ۔ عرض کی : اسی دنبے اوران کا چرانے والا غلام عطاہو۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : یہ تجھے عطا ہوا اور تو نے بہت تھوڑی چیز مانگی ولصاحبۃ موسی التی دلتہ علی عظام یوسف کانت افھم منک حین حکمہا موسٰی فقالت حکمی ان تردنی شابّۃ وادخل معک الجنۃ اوربیشک موسٰی جس نے انہیں یوسف علیہم الصلٰوۃ والسلام کا تابوت بتایا تھا تجھ سے زیادہ دانشمند تھی جبکہ اسے موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اختیار دیا تھا کہ جو چاہے مانگ لے ، اس نے کہا : میں قطعی طور پر یہی مانگتی ہوں کہ آپ میری جو انی واپس کر دیں اور میں آپ کے ساتھ جنت میں جاؤں ۔ یونہی ہوا کہ وہ ضعیفہ فوراً نوجوان ہوگئی اس کا حسن وجمال واپس آیا اور جنت میں بھی معیت کا وعدہ کلیم کریم نے عطا فرمایا ۔ ابن حبان۱؂ والحاکم فی المستدرک مع اختلاف عن ابی موسٰی الاشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ حاکم نے کہا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ یہاں جوانی بھی موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پھیر دی ۔

 

 (۱؂المستدرک للحاکم کتاب التفسیر سورۃ الشعراء دارالفکر بیروت ۲ /۴۰۴)

(اتحاف السادۃ المتقین بحوالہ ابن حبان والحاکم کتاب آفات اللسان الخ   دارالفکر بیروت ۷ /۵۰۹)

 

حدیث ۱۷۷: کہ موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو رب عزوجل نے وحی بھیجی : یا موسٰی کن للفقراء کنزاً وللضعیف حصناً وللمستجیر غیثاً ۔ ابن النجار عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال اوحی اللہ تعالٰی الی موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام فذکرہ فی حدیث طویل۲؂ ۔

 

اے موسٰی !فقیروں کے لئے خزانہ ہوجا اورکمزور کے لیے قلعہ اورپناہ مانگنے والے کے لیے فریاد رس ۔ (ابن النجار نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے انہوں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے فرمایا : اللہ تعالٰی نے موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو وحی فرمائی پھر طویل حدیث میں اس کا ذکر کیا۔ ت)

 

 (۲؂کنزالعمال بحوالہ ابن النجار عن انس حدیث ۱۶۶۶۴  مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۴۸۷)

 

وہابیہ کے طور پر اس حدیث کا حاصل یہ ہوگا کہ اے موسٰی !تو خدا ہوجا کہ جب یہ خاص شان الوہیت ہیں اور ان باتوں میں بڑے چھوٹے سب برابر ہیں اوریکساں عاجز تو موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کو ان باتوں کا حکم ضرور خدا بن جانے کا حکم ہے ۔

 

ولا حول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم۔

 

حدیث ۱۷۸و۱۷۹ : ترمذی وحاکم حضرت ابوہریرہ اور امام احمد وابو داود طیالسی وابن سعد وطبرانی وبیہقی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : جب حضرت عزت جل وعلانے آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو پیداکیا ان کی پیٹھ کو مسح فرمایا جس قدر لوگ ان کی نسل سے قیامت تک پیداہونے والے تھے سب ظاہر ہوگئے ۔ رب عزوجل نے ہرایک کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں ایک نور چمکایا پھرانہیں آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام پر پیش فرمایا۔ عرض کی : الہٰی! یہ کون ہیں؟ فرمای ا: تیری اولاد ہیں۔آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ان میں ایک مرد کو دیکھا ان کی پیشانی کا نور انہین بہت بھایا، عر کی : الہٰی!یہ کون ہے ؟فرمایا: یہ تیری اولاد سے پچھلی امتوں میںایک شخص داود نام ہے ۔عرض کی : الہٰی ! اس کی عمر کتنی ہے ؟فرمایا : ساٹھ برس۔ عرض کی : الہٰی!اس کی عرم زیادہ فرما۔ رب جل وعلا نے فرمایا: لاالا ان تزید انت من عمرک میں زیادہ نہ فرماؤں گا مگر یہ کہ تو اپنی عمر سے اس کی عمر میں زیادت کردے ۔  (آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی عمر کے ہزار برس تھے ۔) عرض کی : تو میری عمر سے چالیس سال اس کی عمر میں بڑھا دے ۔ فرمایا : ایسا ہے تو لکھ لیا جائے گا اورمہر کرلیجائیگی اورپرھ بدلے گا نہیں (نوشتہ لکھ کر ملائکہ کی گواہیاں کرای گئیں ) فلما انقضی عمر اٰدم الا اربعین جاء ہ ملک الموت فقال اٰدم اولم یبق من عمری اربعون سنۃ قال اولم تعطھا ابنک داؤدجب آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کی عرم سے صرف چالیس برس باقی رہے یعنی نو سو ساٹھ برس گزر گئے ملک الموت علیہ الصلوۃ والسلام ان کے پاس آئے ۔ فرمایا: کیا میری عمر سے ابھی چالیس سال باقی نہیں ؟کہا : کیا آپ اپنے بیٹے داود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو نہ دے چکے (پھر اللہ عزوجل نے آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے لیے ہزار اورداود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے لئے سو برس پورے کردیے)ھذا حدیث ابی ھریرۃ  ۱؂الا مابین الخطین فمن حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم (یہ حدیث ابوہریرۃ ہے مگر قوسین کے درمیان حدیث ابن عباس ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ت)

 

(۱؂سنن الترمذی کتاب التفسیر سورۃ الاعراف حدیث ۳۰۸۷دارالفکر بیروت ۵ /۵۳)

(المستدرک للحاکم کتاب الایمان قصہ خلق آدم علیہ السلام دارالفکر بیروت  ۱ /۶۴)

(السنن الکبرٰی للبیہقی کتاب الشہادات باب الاختیار فی الاشہاد دار صادر بیروت  ۱۰/ ۱۶۴)

(مسند احمد بن حنبل عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت  ۱ /۲۵۱و۲۵۲)

(المعجم الکبیر عن ابن عباس حدیث ۱۲۹۲۸المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۲ /۲۱۴ )

(مسند ابی داود الطیالسی حدیث ۲۶۹۲دارالمعرفۃ بیروت الجزء الحادی عشر ص۳۵۰)

(کنزالعمال عن ابن عباس حدیث ۱۵۱۵۱مؤسسۃ الرسالہ بیروت   ۶/۱۳۴و۱۳۵)

الدرالمنثور بحوالہ الطیالسی الخ تحت الآیۃ ۲/۲۸۲داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۱۱۶)

(الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر من ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الخ دارصادر بیروت  ۱/ ۲۸و ۲۹)

 

ان حدیثوں کا ارشاد ہے کہ داود علہ الصلٰوۃ والسلام کو آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عمر عطافرمائی ۔

 

حدیث ۱۸۰ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اذا ضل احکم شیأاً واراددعوناً وھو بارضٍ لیس بھا انیس فلیقل یا عبداللہ اعینونی یا عبادللہ اعینونی یا عباداللہ اعینونی ، فان للہ عبادًا لایراھم ۔الطبرانی ۱؂عن عتبۃ بن غزوان رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ جب تم میں کسی کی کوئی چیز گم جائے اورمدد مانگنی چاہے اورایسی جگہ ہوجہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے: اے اللہ کے بندو!میری مدد کرو ، اے اللہ کے بندو!میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو!میری مدد کرو۔ اللہ تعالٰی کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا۔وہ اس کی مدد کرینگے ۔ والحمدللہ رب العالمین۔ (طبرانی نے عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؂المعجم الاکبیر عن عتبہ بن غزوان حدیث ۲۹۰المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۷ /۱۱۷و۱۱۸)

 

حدیث ۱۸۱: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : جب جنگل میں جانور چھوٹ جائے فلیناد یا عبداللہ احبسوا تویوں ندا کرے : اے اللہ کے بندو! روک دو ۔ عبادللہ اسے روک دیں گے ۔ ابن السنی۲؂ عن ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ (ابن السنی نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

 (۲؂عمل الیوم واللیلۃ حدیث ۲۰۸دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد دکن ص۱۳۶)

 

حدیث ۱۸۲ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : یوں ندا کرے :  اعینونی یا عباداللہ ۔ ابن ابی شیبۃ ۱؂والبزار عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ میری مدد کرو اے اللہ کے بندو!(ابن ابی شیبہ اوربزار نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)

 

(۱؂المصنف لابن ابی شبۃ کتاب الدعاء حدیث ۲۹۷۱۱دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۹۲ )

(البحرالزخار (مسند البزار)حدیث ۴۹۲۲  ۱۱/۱۸۱  والمعجم الکبیر حدیث۲۹۰ ۱۷/ ۱۱۸)،9

(کشف الاستار عن زوائد البزار کتاب الاذکار حدیث ۳۱۲۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۴ /۳۴)

 

یہ تین حدیثیں وہابیت کش کہ تین صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کی روایت سے آئیں ، قدیم سے اکابر علماء دین رحمہم اللہ تعالٰی کی مقبول ومجرب رہیں ، اس مطلب جلیل کی قدر ے تفصیل فقیر کا رسالہ انھار الانوار من یم صلٰوۃ الاسرار(ف)کہ نماز غوثیہ شریف کے فضل رفیع اوربغداد شریف کی طرف گیارہ قدم چلنے وغیرہ ایک ایک فعل کے سِرِّ بدیع مین تصنیف کیا، ملاحظہ ہو ۔ ان حدیثوں اورحدیث اجل واعظم یا محدم انی توہت بک الی ربی کی شوکت قاہرہ کے حضور وہابیہ کی حرکت مذبوحی کا حال تخاتمہ رسالہ میں عنقریب آتاہے ۔ ان شاء اللہ تعالٰی ۔

 

ف : رسالہ ''انھار الانوار من یم صلٰوۃ الاسرار(۱۳۰۵ھ) ''فتاوی رضویہ جلد ہفتم مطبوعہ رضا فاؤنڈیش جامعہ نظامیہ رضویہ ، اندرون لوہاری دروازہ ، لاہورکے صفحہ ۵۶۹ پر مرقوم ہے۔

 

حدیث ۱۸۳: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : من کنت ولیہ، فعلی ولیہ، ۔ احمد ۲؂والنسائی والحاکم عن بریدۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند صحیحٍ۔  جس کا میں مددگار وکارساز ہوں علی اس کا مددگار وکارساز ہے کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم۔(احمد ونسائی وحاکم نے بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسند صحیح روایت کیا ۔ ت)

 

(۲؂مسند احمد بن حنبل عن بریدۃ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۳۵۸و۳۶۱)

(المستدرک للحاکم کتاب قسم الفَئی من کنت ولیہ فان علیاً ولیہ دارالفکر بیروت ۲ /۱۳۰)

(الجامع الصغیر عن بریدۃ حدیث ۹۰۰۱دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۵۴۲)

 

علامہ مناوی نے شرح میں فرمایا: یدفع عنہ ما یکرہ ۱؂۔ علی اس کے مددگار ہیں اس سے مکروہات وبلیات دفع فرماتے ہیں ۔

 

 (۱؂التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث من کنت ولیہ الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۴۴۲)

 

او رشک نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر مسلمان کے ولی ووالی ہیں ، اللہ عزوجل فرماتاہے : النبی اولٰی بالمؤمنین من انفسھم۲؂۔ نبی مسلمانوں کا زیادہ والی ہے ان کی جانوں سے ۔

 

(۲؂القرآن الکریم ۳۳ / ۶)

 

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: انا اولٰی بالمؤمنین من انفسھم ۔ احمد ۳؂والبخاری ومسلم والنسائی وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ میں مسلمانوں کا ان کی جانوں سے زیادہ والی ہوں ۔ (احمد وبخاری ومسلم ونسائی وابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

(۳؂صحیح البخاری  کتاب الکفالۃ     باب جوار ابی بکر الصدیق فی عہد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۳۰۸)

(صحیح البخاری کتاب النفقات ۲ /۸۰۹ وکتاب الفرائض ۲ /۹۹۷   وباب ابنی عم احدھما الخ ۲ /۹۹۸)

(صحیح مسلم کتاب الفرائض فصل فی اداء الدین قبل الوصیۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۵)

(،سنن النسائی کتاب لاجنائز الصلوۃ علی من علیہ دین نور محمد کارخانہ کراچی ۱ /۲۷۹)

(سنن ابن ماجۃ ابواب الصدقات التشدید فی الدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۷۶)

(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت      ۲ /۲۹۰و۴۵۳)

 

علامہ مناوی شرح میں فرماتے ہیں : لانی الخلیفۃ الاکبر الممد لکل موجود ۴؂۔ اس لئے کہ میں اللہ عزوجل کا نائب اعظم اور تمام مخلوق الہٰی کا مددرساں ہوں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

 (۴؂التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث انا اولٰی بالمومنین الخ مکتبۃ الاما الشافعی ریاض ۱ /۳۷۷)

 

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : مامن مؤمن الا وانا اولی بہٖ فی الدنیا والاٰخرۃ اقرء و ا ان شئتم النبی اولٰی بالمؤمنین من انفسھم فایما مؤمن مات وترک مالا فلیرثہ عصبتہ من کانو ومن ترک دیناً اوضیاعاً فلیاتنی فانا مولاہ ۔ البخاری ۱؂ومسلم والترمذی عن ابی ھریرۃ وابو داود والترمذی عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ میں دنیا اور آخرت میں سب سے زیادہ اس کا والی نہ ہوں ، تمہارے جی میں آئے تو یہ آیہ کریمہ پڑھو کہ ''نبی زیادہ والی ہے مسلمانوں کا ان کی جانوں سے ''تو جو مسلمان مرے اورترکہ چھوڑے اس کے وارث اس کے عصبہ ہوں اورجو اپنے اوپر کوئی دَین بیکس بے زر بچے چھوڑے وہ میری پناہ میں آئے کہ اس کا مولٰی میں ہوں صلی اللہ تعالٰی علیک وعلٰی آلک وبارک وسلم ۔(بخاری ومسلم وترمذی نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اورابوداود وترمذی نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا۔ت )

 

(۱؂صحیح البخاری کتاب فی الاستقراض واداء الدین باب الصلوٰہ علی من ترک دینا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۲۳)

(صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ الاحزاب قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۰۵)

(صحیح مسلم کتاب الفرائض فصل فی اداء الدین قبل الوصیۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۶)

(سنن الترمی ، سنن ابی داود کتاب الامارۃ باب فی ارزاق الذریۃ         آفتاب عالم پریس لاہور  ۲ /۵۴)

(مسند احمد بن حنبل عن ابی ھریرۃ المکتب الاسلامی بیروت          ۲ /۳۳۴و۳۳۵)

(شرح السنۃ کتاب الفرائض حدیث ۲۲۴۱المتکب الاسلامی بیروت           ۸ /۳۲۴)

(سنن الکبرٰی للبیہقی باب العصبۃ ۶ /۲۳۸     و     کتاب النکاح      ۷ /۵۸     دارصادر بیروت )

 

امام عینی عمدۃ القاری میں زیر حدیث مذکور فرماتے ہیں :  المولی الناصر ۲؂۔ یہاں مولٰی بمعنٰی مدد گار ہے ۔

 

 (۲؂عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ الاحزاب تحت حدیث   ۳۰۲ /۴۷۸۱   بیروت        ۱۹ /۱۶۴)

 

تولاجرم بحکم حدیث مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ بھی ہر مسلمان کے ولی ومددگار ودافع بلا ومکروہات ہیں، والحمدللہ رب العٰلمین،

 

اسی لئے شاہ ساحب نے فرمایا : حضرت امیر وذرئیہ ظاہرہ اورا ۱؂الخ۔

 

 (۱؂تحفہ اثنا ء عشریۃ باب ہفتم درامامت سہیل اکیڈمی لاہور ص۲۱۴)

 

اقول : عموم حدیث میں حضرات خلفائے ثلثۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم بھی داخل اورتخصیص کی اصلاً حاجت نہیں کہ ناصر کا منصور سے افضل ہونا کچھ ضرور نہیں ، قال اللہ تعالٰی :   ینصرون اللہ ورسولہ۲؂ ۔ مہاجرین اللہ ورسول کی مدد کرتے ہیں ۔

 

 (۲؂القرآن الکریم      ۵۹ /۸)

 

وقال اللہ تعالٰی : فان اللہ ھو مولٰہ وجبریل۳؂۔(الاٰیۃ) نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مددگار اللہ ہے اورجبریل وابوبکر وعمر وملائکہ علیہم الصلٰوۃ والسلام۔

 

 (۳؂القرآن الکریم ۶۶/۴)

 

حدیث ۱۸۴: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :  ابنتی فاطمۃ حوراء اٰدمیۃ لم تحض ولم تطمث وانام سما ھا فاطمۃ لان اللہ تعالٰی فطمھا ومحبیہا من النار۔ الخطیب ۴؂عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ میری صاحبزادی فاطمہ آدمیوں میں حور ہے کہ نجاستوں کے عارضے جو عورت کو ہوتے ہیں ان سے پاک ومنزہ ہے ۔ اللہ عزوجل اس نے کا فاطمہ اس لئے نام رکھا کہ اسے اوراس سے محبت رکھنے والوں کو آتش دوزخ سے آزاد فرمادیا۔ (خطیب نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)

 

 (۴؂تاریخ بغداد ترجمہ غانم بن حمید ۶۷۷۲دارالکتب العربی بیروت ۱۲ /۳۳۱ )

(کنز العمال عن ابن عباس حدیث ۳۴۲۲۶موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۰۹)

 

غلامانِ زہرا کو نار سے چھڑایا تو اللہ عزوجل نے مگر نام حضرت زہرا کا ہے فاطمہ چھڑانے والی آتش جہنم سے ، نجات دینے والی۔ صلی اللہ تعالٰی علٰی ابیہا وعلیہا وبعلہا وابنیہا وبارک وسلم۔

 

حدیث ۱۸۵: ان عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ دعا ام کلثوم بنت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہما وکانت تحتہ، فوجد ھا تبکی فقال مایبکیک ، فقال یا امیر المومنین ھذا الیھودی یعنی کعب الاحبار یقول انک علی باب من ابواب جھنم فقال عمر ماشاء اللہ واللہ انی لارجو ان یکون ربی خلقنی سعیدا ثم ارسل الی کعب فدعاہ فلما جاء ہ کعب قال یا امیر المومنین لاتعجل علی والذی نفسی بیدہٖ لاینشلخ ذوالحجۃ حتی تدخل الجنۃ فقال عمر ای شیئ ھذا مرۃ فی الجنۃ مرۃً فی النار فقال یا امیر المومنین والذی نفسی بیدہ انا لنجدک فی کتاب اللہ عزوجل علی باب من ابواب جھنم تمنع الناس ان یقعوا فیھا فاذا مت لم یزالوایقتحمون فیہا الٰی یوم القیٰمۃ ۔ ابن اسعد ۱؂فی طبقاتہ وابوالقاسم بن بشر ان فی مالیہ عن البخاری مولٰی عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔

 

یعنی امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی زوجہ مقدسہ حضرت ام کلثوم دختر امیر المومنین مولی علی وبتول زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہم کو بلایا انہیں روتے پایا سبب پوچھا، کہا یا امیر المومنین یہ یہودی کعب احبار (رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اجلہ ائمہ تابعین وعلمائے کتابین واعلم علمائے توراۃ سے ہیں پہلے یہودی تھے خلافت فاروقی میں مشرف باسلام ہوئے ، شاہزادی کا اس وقت حالت غضب میں انہیں اس لفظ سے تعبیر فرمانابربنائے نازک مزاجی تھا کہ لازمہ شاہزادگی ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ) یہ کہتا ہے کہ آپ جہنم کے دروازوں سے ایک دروازے پر ہیں، امیر الومنین نے فرمایا جو خدا چاہے خدا کی قسم بیشک مجھے امید ہے کہ میرے رب نے مجھے سعید پیدا کی ہو ، پھر حضرت کعب کو بلا بھیجا ، انہوں نے حاضرہوکر عرض کی : امیرالمومنین ! مجھ پر جلدی نہ فرمائیں قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ذی الحجۃ کا مہینہ ختم نہ ہونے پائے گا کہ آپ جنت میں تشریف لے جائیں گے ۔ فرمایا : یہ کیا بات ہے کبھی جنت میں کبھی نار میں ؟ عرض کی : یا امیرالمومنین !قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آپ کو کتاب اللہ میں جہنم کے دروازوں سے ایک دروازے پر پاتے ہیں کہ آپ لوگوں کو جہنم میں گرنے سے روکے ہوئے ہیں جب آپ انتقال فرمائیں گے قیامت تک لوگ نار میں گراکریں گے (وحسبنااللہ ونعم الوکیل ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ارب عمر الجلیل) (ابن سعد نے اپنی طبقات میں اورابوالقاسم بن بشران نے اپنی امالی میں حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے آزاد کردہ غلام سے روایت کیا ہے ۔ت)

 

(۱؂الطبقات الکبرٰی لابن سعد زکر استخلاف عمر رضی اللہ عنہ دارصۤدر بیروت ۳ /۳۳۲)

(کنز العمال بحوالہ ابن سعد وابی القاسم بن بشران حدیث ۳۵۷۸۷مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۵۷۰و۵۷۱)

 

بھلادوزخ میں گرنے سے بچانا دفع بلا کا ہے کو ہوا۔

 

حدیث ۱۸۶: معانی الآثار امام طحاوی میں ہے : حدثنا ابن مرزوق ثنا ازھر السمان عن ابن عون محمد قال قال عمررضی اللہ تعالٰی عنہ : لنا رقاب الارض ۲؂۔ یعنی امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: زمین کے مالک ہم ہیں۔

 

 (۲؂شرح معانی الآثار کتاب السیر باب احیاء الارض المیتۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۱۷۶)

 

حدیث ۱۸۷:  بعث النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الی عثمان یستعینہ فی جیش العسرۃ فبعث الیہ عثمٰن بعشرۃ اٰلاف دینارٍ ۔

 

یعنی جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے لئے لشکر اسلام کو تیاری کا حکم دیا مسلمانوں پر بہت حالت تنگی وعُسرت تھی اس باب میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے امیر المومنین عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے استعانت فرمائی ان سے مددچاہی ، ذوالنورین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دس ہزار اشرفیاں حاضر کیں حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اے عثمٰن ! اللہ تیری چھپی اورظاہر خطائیں اورآج سے قیامت تک جو کچھ تجھ سے واقع ہو سب کی مغفرت فرمائے ، اس کے بعد عثمٰن کو کچھ پرواہ نہیں کوئی عمل کرے ۔ ابن عد ی۳؂ والدارقطنی و ابو نعیم فی فضائل الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم عن حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ تعالٰی عنہما  (ابن عدی ودارقطنی وابو نعیم نے فضائل صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم میں حذیفہ بن الیمان رضی ا للہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)

 

(۳؂کنزالعمال بحوالہ عد، قط حدیث ۳۶۱۸۹مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱ /۳۸)

 

کیوں وہابی صاحبو! غیر خداسے استعانت شرک تو نہیں ، ایاک نستعین کے کیا معنی کہتے ہو۔

 

حدیث ۱۸۸: ایک مصری نے امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی : یا امیر المومنین عائذبک من  الظلم۔امیر المومنین !میں حضور کی پناہ لیتا ہوں ظلم سے ۔

امیر المومنین نے فرمایا : عذت معاذاً  ، تو نے سچی جائے پناہ کی پناہ لی۔ہمارا مطلب توحدیث کے اتنے ہی لفظوں سے ہوگیا ، پناہ لینے والوں نے امیر المومنین کی دہائی دی اورامیر المومنین نے اپنی بارگاہ کو سچی جائے پناہ فرمایا، مگرتتمہئ حدیث بھی ذکر کریں کہ اس میں امیر المومنین کے کمال عدل کا ذکر ہے ۔عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ مصر پر امیر المومنین کے صوبیدار تھے ، یہ فریادی مصری عرض کرتاہے کہ میں نے ان کے صاحبزادے کے ساتھ دوڑ لگائی میں آگے نکل گیا صاحبزادے نے مجھے کوڑے مارے اورکہا : میں دو معزز وکریم والدین کا بیٹاہوں ۔ اس کی فریاد پر امیر المومنین نے فرمان نافذ فرمایا کہ عمرو بن عاص مع اپنے بیٹے کے حاضر ہوں ،حاضر ہوئے ۔ امیر المومنین نے مصری کو حکم دیا: کوڑالے اور مار ۔ اس نے بدلہ لینا شروع کیا۔ اورامیر المومنین فرماتےجاتے ہیں : مارد ولئیموں کے بیٹے کو ۔ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : خدا کی قسم !جب اس فریاد نے مارنا شروع کیا ہمارا جی یہ چاہتا تھا کہ یہ مارے اوراپنا عوض لے ۔ اس نے یہاں تک مارا کہ ہم تمنا کرنے لگے کاش !اپنا ہاتھ اٹھا لے ۔ جب مصری فارغ ہوا امیر المومنین نے فرمایا: اب یہ کوڑا عمرو بن عاص کی چند یا پر رکھ (یعنی وہاں کے حاکم تھے انہوں نے کیوں نہ داد رسی کی ، بیٹے کا کیوں لحاظ پاس کیا) مصری نے عرض کی : یا امیر المومنین !ان کے بیٹے ہی نے مجھے مارا تھا اس سے میں عوض لے چکا ۔

امیر المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عمر وبن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا :  مذکم تعبدتم الناس وولدتھم اماتہم احرارا۔ تم لوگوں نے بندگان خدا کو کب سے اپنا غلام بنالیاحالانکہ وہ ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوئے تھے ۔

عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی : یا امیر المومنین ! نہ مجھے کوئی خبر ہوئی نہ یہ شخص میرے پاس فریادی آیا۔ ابن عبدالحکم ۱؂عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ (ابن عبدالحکم نے حضر ت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

(۱؂کنز العمال بحوالہ ابن عبدالحکم حدیث ۳۶۰۱۰مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲/ ۶۶۰و۶۶۱)

 

حدیث ۱۸۹: خلافتِ فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ایک سال مدینہ میں قحط عظیم پڑا اس سال کا ''عالم الرمادہ ''نام رکھا گیا یعنی ہلاک وتباہی جان ومال کا سا۔ امیر المومین نے عمرو بن العاص کو مصر میں فرمان بھیجا : یہ شقہ ہے بندہ خدا عمر امیر المومنین کی طرف سے ابن عاص کے نام  سلام اما بعد فلعمر ی یاعمر وما تبالی اذا شبعت انت ومن معک ان اھلک انا ومن معی فیاغوثاہ ثم یاغوثاہ یرددقولہ۔ سلام کے بعد واضح ہومجھے اپنی جان کی قسم ! اے عمرو !جب تم اورتمہارے ملک والے سیر ہوں تو تمہیں کچھ پرواہ نہیں کہ میں اورمیرے ملک والے ہلاک ہوجائیں ارے فریاد کو پہنچ ارے فریاد کو پہنچ ۔ اوراس کلمے کو باربارتحریر فرمایا۔

 

عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواب حاضر کیا :  یہ عرضی بندہ خدا امیر المومنین عمر کو عمرو بن عاص کی طرف سے اما بعد فیالبیک ثم یالبیک وقد بعثت الیک بعیرا اولہا عندک واٰخر ھا عندی والسلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ بعد سلام معروض حضو رمیں بار بار خدمت کو حاضر ہوں پھر بار بار خدمت کو حاضر ہوں میں نے حضور میں وہ کارواں روانہ کیا ہے جس کا اول حضور کے پاس ہو گا اورآخرمیرے پاس اورحضور پرسلام اوراللہ عزوجل کی رحمت اوربرکتیں۔ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایسا ہی کارواں حاضر کیا کہ مدینہ طیبہ سے مصر تک یہ تمام منزلہا ئے دو۱ر دراز اونٹوں سے بھری ہوئی تھیں یہاں سے وہاں تک ایک قطار تھی جس کا پہلا اونٹ مدینہ طیبہ میں تھا اور پچھلا مصر میں ، سب پر اناج تھا، امیر المومنین نے وہ تمام اونٹ تقسیم فرمادیے ہر گھر کو ایک ایک اونٹ مع اپنے بار کے عطاہوا کہ اناج کھاؤ اوراونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت کھاؤ،چربی کھاؤ، کھال کے جوتے بناؤ، جس کپڑے میں اناج بھرا تھا اسکا لحاف وغیرہ بناؤ۔ یوں اللہ عزوجل نے لوگوں کی مشکل دفع کی، امیر المومنین حمد بجالائے ۔ ابن خزیمۃ فی صحیحہ ۱؂ والحاکم فی المستدرک والبیھقی فی السنن عن اسلم مولٰی عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ وابن عبدالحکم واللفظ لہ، عن اللیث بن سعد۔ ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اورحاکم نے مستدرک میں اوربیہقی نے سنن میں عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اذاد کردہ غلام اسلم سے ، اور ابن عبدالحکم نے لیث بن سعد سے روایت کیا ہے ، لفظ ابن عبدالحکم کے ہیں۔(ت)

 

(۱؂ المستدرک للحاکم    کتاب الزکٰوۃ      دارالفکر بیروت        ۱ /۴۰۵)

( السنن الکبرٰی للبیہقی   کتاب قسم الفیئ والغنیمۃ    باب یکون للولی الخ    دارصادر بیروت   ۶ /۳۵۵)

(صحیح ابن خزیمہ   باب ذکر الدلیل علی ان العامل  الخ  حدیث  ۲۳۶۸   المکتب الاسلامی بیروت  ۴/  ۶۸ )

(کنز العمال بحوالہ ابن خزیمہ  حدیث  ۳۵۸۸۹     مؤسسۃ الرسالہ بیروت      ۱۲/ ۶۰۹ و ۶۱۰)

(کنز العمال بحوالہ ابن عبدالحکم  حدیث   ۳۵۹۰۶   مؤسسۃ الرسالہ بیروت   ۱۲  /۶۱۴ و۶۱۷)

 

حدیث ۱۹۰: حضور سید عالم تو سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضور کے نائب کریم علی مرتضٰی امیر المومین کرم اللہ اللہ تعالٰی وجہہ الکریم فرماتے ہیں  : انی لاستحیی من اللہ ان یکون ذنب اعظم من غفری اوجھل اعظم من حلمی اوعورۃ لایواریھا ستری اوخلۃ لایسدھا جودی۔ ابن عساکر عن جبیر عن الشعبی عن علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ، ۔ بے شک اللہ عزوجل سے شرم آتی ہے کہ کسی کا گناہ میری صفت مغفرت سے بڑھ جائے وہ گناہ کرے اورمیری مغفرت اس کی بخشش میں تنگی کرے کہ میں نہ بخش سکوں یا کسی کی جہالت میرے علم سے زائد ہوجائے کہ وہ جہل سے پیش آئے اورمیں حلم سے کام نہ لے سکوں یا کسی عیب کسی شرم کی بات کو میرا پردہ نہ چھپائے یا کسی حاجتمندی کو میرا کرم بندہ نہ فرمائے ۔(ابن عساکر۱؂ نے جبیر سے انہوں نے شعبی سے انہوں نے حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ سے روایت کیا۔ت)

 

 (۱؂تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ علی بن ابی طالب ۵۰۲۹داراحیاء التراث العربی بیروت ۴۵ /۳۹۹)

(کنزالعمال بحوالہ کر عن علی رضی اللہ عنہ حدیث ۳۶۳۶۴مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۱۱۱)

 

وہابیو ! دیکھا تم نے محبوبان خدا کا احسان ، ان کی غفران ، ان کی حاجت برآری ، ان کی شان ستّاری ۔

 

اللھم انفعنا بفضلھم وعفوھم وحلمھم وجودھم وکرمھم فی الدنیا والاٰخرۃ اٰمین۔ یا اللہ ! ہمیں ان کے فضل ، ان کے عفو، ان کے حلم ، ان کے جود اور ان کے کرم سے دنیاوآخرت میں نفع عطافرما آمین ۔(ت)

 

حدیث ۱۹۱ : فرماتے ہیں کرم اللہ تعالٰی وجہہ : لاادری ای النعمتین اعظم علی منۃ من رجل بذل مصاص وجہہٖ الی فراٰنی موضعاً لحاجتہ واجری اللہ قضا ء ھا اویسرہ، علی یدی ولان اقضی لامرئ مسلم حاجۃ احب الی من ملاالارض ذھبا وفضۃ۔ ابوالغنائم النرسی فی کتاب قضاء الحوائج عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ۲؂۔ بے شک میں نہیں جانتا کہ ان دو نعمتوں میں کون سے مجھ پر زیادہ احسان ہے کہ ایک شخص میری سرکار کو اپنی حاجت روائی کا محل جان کر اپنا معززمنہ میرے سامنے لائے اوراللہ تعالٰی ا سکی حاجت کا روا ہونا اسکی آسانی میرے ہاتھ پر واں فرمائے ، یہ تمام روئے زمین بھر کر سونا چاندی ملنے سے مجھے زیادہ محبوب ہے کہ میں کسی مسلمان کی حاجت روافرماؤں۔ (ابو الغنائم الزسی نے کتاب قضا ء الحوائج میں مولا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

حدیث ۱۹۲: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ھجاھم حسان فشفٰی واشتفٰی۔ حسان نے کافروں کی ہجو کہی توشفادی شفالی۔ مسلم ۱؂عن ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا ۔  (مسلم نے ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی ۔ت)

 

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فضائل حسان بن ثابت قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۰۱)

(تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۱۵۴۶حسان بن ثابت داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۳ /۲۸۵)

 

حدیث ۱۹۳: جب کفار قریش نے شان اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں اشعار گستاخی بکے ، عبداللہ بن رواحہ رضی ا للہ تعالٰی عنہ کو حکم جواب ہوا، انہوں نے جواب دیا، حضور نے ناکافی پایا، پھر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ارشاد ہوا، ان کا جواب بھی پسند خاطر اقدس نہ آیا ۔ پھر حسان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ارشادہوا ۔ انہوں نے کفار کی ہجو کہی ۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : لقد شفیت یا حسان واشتفیت ۔ ابن عساکر ۲؂عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ حسان !تم نے شفادی اورشفالی۔(ابن عساکر نے ابی سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)

 

(۲؂تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۱۵۴۶حسان بن ثابت داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۳ /۲۷۸)

(کنزالعمال بحوالہ کر حدیث ۳۶۹۵۸مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۳۴۱و۳۴۲)

 

حدیث ۱۹۴ : حسان رضی اللہ تعالٰی عنہ ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے ام المومنین نے ان کے لئے مسند بچھوائی ، عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہما نے گزارش کی : آپ انہیں مسند پر بٹھاتی ہیں ۔ وقد قال ما قال ام المومنین نے فرمایا :انہ کان یجیب عن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ویشفی صدرہ، من اعدآئہٖ۔ ابن عساکر۳؂ عن عطاء ابن ابی رباح ۔ ترجمہ: یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  کی طرف سے جواب  دیا کرتے  اور رنج اعداء سے سینہ اقدس کو شفاء دیتے (ابن عساکر نے  عطاء ابن ابی رباح سے روایت کیا ۔ت)؟

 

 (۳؂ کنز العمال بحوالہ کر حدیث ۳۶۸۵۵مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۳ /۳۳۹)

( تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۱۵۴۶  حسان بن ثابت داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱۳ /۲۷۷)

 

حدیث ۱۹۵: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :  اکرموا الانصار فانھم ربوا الاسلام کما یربی الفرخ فی وکرہٖ ۔ الدارقطنی ۱؂فی الافراد والدیلمی عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ انصار کی عزت کرو کہ انہوں نے اسلام کو پالا ہے جس طرح پرند کا پٹھا آشیانے میں پالا جاتاہے ۔ (دارقطنی نے افراد میں اوردیلمی نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

(۱؂کنز العمال بحوالہ قط فی الافراد والدیلمی حدیث ۳۳۷۲۴موسسۃ الرسالہ بیروت   ۱۲ /۹)

(الفردوس بما ثور الخطاب حدیث ۲۲۳دارالکتب العلمیہ بیروت       ۱ /۷۵)

 

وصل سوم

احادیث متعلقہ بملائکہ کرام علیہم الصلوۃ والسلام

 

حدیث ۱۹۶: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :  ان العبد المؤمن لیدعوا اللہ تعالٰی فیقول اللہ تعالٰی لجبریل لاتجبہ فانی احب ان اسمع صوتہ ، واذا دعاہ الفاجر قال یا جبیریل اقض حجتہ فانی لاحب ان اسمع صوتہ، ۔ ابن النجار ۲؂ عن انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ۔  بیشک بندہ مومن اللہ عزوجل سے دعا کرتاہے تو رب جل وعلا جبریل علیہ الصلوۃوالسلام سےفرماتاہے : اس کی دعا قبول نہ کر کہ میں اس کی آواز سننے کو دوست رکھتاہوں۔اور جب فاجر دعاکرتاہے رب جل جلالہ، فرماتاہے : اے جبریل !اس کی حاجت روا کر دے کہ میں اس کی آواز سننا نہیں چاہتا(ابن النجار نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

(۲؂کنزالعمال بحوالہ ابن النجار حدیث ۳۲۶۱ و ۴۹۰۵ مؤسسۃ الرسالہ بیروت   ۲ /۸۵ و ۶۲۰)

 

اس حدیث سے واضح کہ جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام دعائیں قبول کرتے حاجتیں روا فرماتے ہیں ۔ دین وہابیت میں اس سے بڑھ کر اورکیا شرک ہوگا۔

 

حدیث ۱۹۷ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :  ان اللہ ملٰئکۃ مؤکلین بارزاق بنی اٰدم قال لھم ایما عبدٍ وجد تموہ جعل الھم ھمّاواحد فضمنوا رزقہ السمٰوٰت والارض وبنی اٰدم ایسما عبدٍ وجد تموہ طلب فان تحری الصدق فطیبوا لہ، ویسروا ومن تعدی ذٰلک فخلوا بینہ، وبیان مایرید ثم لاینا ل فوق الدرجۃ التی کتبتہا لہ۔ الترمذی ۱؂الاکبر الامام فی النوادر۔ اللہ تعالٰی کے کچھ فرشتے بنی آدم کے رزقوں پر مؤکل ہیں انہیں اللہ عزوجل کا حکم ہے کہ جس بندے کو ایسا پاؤ کہ سب فکریں چھوڑ کر آخرت کا ہورہا ہے آسمان وزمین وانسان سب کو اس کے رزق کا ضامن کردو یعنی بے طلب ہر طرف سے اسے رزق پہنچا ؤ اورجسے روزی کی تلاش میں دیکھو وہ اگر راستی کا قصد کرے تو اس کے لیے اس کا رزق پاک وآسان کردو اورجو حد سے بڑھے اسے اس کی خواہش پر چھوڑ دو پھر ملے گا تو اتنا ہی جو میں نے اس کے لئے لکھ دیا ہے (اس کو حکیم ترمذی نے نوادرمیں روایت کیا۔ت)

 

 (۱؂نوادرالاصول للترمذی الاصل الحادی والسبعون والمائتان فی جمع الھموم دارصادر بیروت ص۳۹۵)

 

حدیث ۱۹۸ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ملک قابض علٰی ناصیتک فاذا تواضعت للہ رفعک واذا لجبرت علی اللہ قصمک وملک قائم علی فیک لایدع الحیۃ آن تدخل فی فیک ۔ ابن جریر عن کنانۃ العدوی رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ھذا مختصر۲؂۔ ایک فرشتہ تیری پیشانی کے بال تھامے ہوئے ہے جب تو اللہ عزوجل جل شانہ، کے لئے تواضع کرے تجھے بلندی بخشتاہے اورجب تو اس پر معاذاللہ تکبر کرے تجھے توڑڈالتا ہلاک کردیتاہے ، اورایک فرشتہ تیرے منہ پرکھڑا ہے کہ سانپ کو تیری منہ میں نہیں جانے دیتا۔(ابن جریر نے کنانہ عدوی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔یہ مختصرہے ۔ت)

دیکھومتواضعوں کو فرشتہ بلند قدری دیتاہے ، متکبروں کو فرشتہ ہلاک کرتاہے ، اور کیوں صاحبو! یہ فرشتہ جو منہ کی حفاظت کررہا ہے دافع البلا تو نہ ہوا شاید دفع بلال اس کا نام ہوگا کہ وہ چھوڑدے کہ سانپ تمہارے منہ میں گھس جائے ۔

 

حدیث۱۹۹: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ان ابن اٰدم لفی غفلۃ عما خلق لہ ویبعثاللہ ملکاً فیحفظہ حتی یدرک ۔ ابنا ابوی ۱؂حاتم والدنیا وابو نعیم عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہم ھذا مختصر۔ آدم زاد اس کام سے غافل ہے جس کے لیے پیدا کیا گیا اوراللہ تعالٰی فرشتہ بھیجتاہے کہ وقت پہنچنے تک اس کا نگہبان رہتاہے ۔ (اسکو ابو حاتم وابوالدنیا کے بیٹوں اورابو نعیم نے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا، یہ مختصر ہے ۔ت)

 

 (۱؂حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۲۳۵محمد بن علی الباقر دارالکتاب العربی بیروت ۳ /۱۹۰)

(الدرالمنثور بحوالہ ابن ابی الدنیا وابن ابی ھاتم الخ تحت الآیۃ ۵۰ /۲۱     داراحیاء لتراث بیروت۷ /۵۲۴)

 

حدیث ۲۰۰: صحیح مسلم شریف میں حذیفہ بن اسید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا مر بالنطفۃ اثنتان واربعون لیلۃ بعث اللہ الیھا ملکاً فصور ھا وخلق سمعہا وبصرھا وجلدھا ولحمہا وعظامہا ۲؂۔الحدیث جب نطفے پر بیالیس راتیں گزرتی ہیں اللہ تعالٰی اس کی طرف فرشتہ بھیجتاہے وہ آکر اس کی صورت بناتاہے ، کان ، آنکھ ، کھال ، گوشت ، ہڈیاں خلق کرتاہے ۔

 

 (۲؂صحیح مسلم، کتاب القدر باب کیفیت خلق الآدمی فی بطن امہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۳۳)

 

انہیں کی دوسری روایت میں ہے : یتسورعلیہا الملک ۔ قال زھیر حسبتہ قال الذی یخلقہا۳؂۔ فرشتہ آکر اس پر گرتا ہے ، زہیر نے کہا میرے خیال میں حدیث کے لفظ یہ ہیں کہ وہ فرشتہ جو اسے خلق کرتاہے ۔

 

 (۳؂صحیح مسلم، کتاب القدر باب کیفیت خلق الآدمی فی بطن امہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۳۳)

 

انہیں کی تیسری روایت میں ہے : ان ملکاً مؤکلاً بالرحم اذا اراد اللہ ان یخلق شیئا باذن اللہ الحدیث ۱؂۔ بیشک عورتوں کے رحم پر ایک فرشتہ متعین ہے جب اللہ تعالٰی چاہتاہے کہ وہ فرشتہ باذن الہٰی کچھ خلق کرے ۔

 

 (۱؂صحیح مسلم کتاب القدرباب کیفیۃ خلق الآدمی فی بطن امہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۳۳)

 

طبرانی کی روایت میں ہے : ان النطفۃ اذا استقرت فی الرحم فمضٰی لہا اربعون یوماً جاء ملک الرحم فصور عظمہ، ولحمہ، ودمہ، وبشرہ۲؂۔ نطفے کو جب رحم میں ٹھہرے چلہ گزر جاتاہے فرشتہ کہ رحم پرمؤکل ہے آکر اس کی ہڈیوں ، گوشت ، خون اور بال کھال کی تصویر کرتاہے ۔

 

 (۲؂المعجم الکبیر عن حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ حدیث ۳۰۴۱المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۳ /۱۷۷)

(کنز العمال حدیث ۵۷۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت          ۱ /۱۲۱)

 

حدیث ۲۰۱: صحیحین بخاری ومسلم وغیرہما میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : بچے کا مادہ آفرنیش چالیس دن تک ماں کے پیٹ میں جمع ہوتا ہے پھر اتنے ہی دن جما ہوا خون رہتاہے ، پھر اتنے ہی دن خون کی بوتی ، ثم یرسل اللہ الیہ الملک فینفخ فیہ الروح جب تین چلے گزر لیتے ہیں اللہ تعالٰی اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتاہے کہ وہ اس میں جان ڈالتاہے ، ھذا لفظ مسلم۳؂۔ (یہ مسلم کے الفاظ ہیں۔ت)

 

 (۳؂صحیح البخاری کتاب بدء الخلق ۱ /۴۵۶ وکتا ب الانبیاء ۲ /۴۶۹ قدیمی کتب خانہ کراچی )

(،صحیح مسلم کتاب القدر باب کیفیۃ خلق الآدمی فی بطن امہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۳۲)

 

اللہ عزوجل فرماتاہے : ھوالذی یصوکم فی الارحام کیف یشاء ۴؂۔   اللہ ہے کہ تمہاری تصویر فرماتاہے ماؤں کے پیٹوں میں جیسے چاہے ۔

 

 (۴؂ القرآن الکریم ۳ /۶)

 

اورفرماتاہے جل وعلا: ھل من خالقٍ غیر اللہ ۱؂۔ کیا کوئی اور بھی خلق کرنے والا ہے اللہ کے سوا۔

 

 (۱؂القرآن الکریم۳۵/۳)

 

یہاں مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جن کا نام پاک ماحی ہے یعنی کفر وشرک کے مٹانے والے ، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، وہ خود صحیح حدیثوں میں فرما رہے ہیں کہ فرشتہ تصویر کرتہاے ، فرشتہ صورت بناتاہے ۔فرشتہ آنکھ ، کان ، گوشت ، استخواں ، بال ، کھال ، خون خلق کرتاہے ۔ اورصرف یہی نہیں بلکہ یہ سب کچھ فرشتے کے ہاتھ سے ہوکر جان بھی فرشتہ ڈالتا ہے ۔ شرک پسند گمراہوں کے نزدیک اس سے بڑھ کر اورکیا شرک ہوگا والعیاذباللہ رب العٰلمین۔ جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم تو اتنا ہی فرما کر چپ ہو رہے تھے : لاھب لک غلٰماً زکیا۲؂۔ میں تجھے ستھرا بیٹا دوں۔

 

 (۲؂القرآن الکریم ۱۹ /۱۹)

 

یہاں تو ان سے کم درجہ شخص کے ہاتھوں پر دنیا بھر کے بیٹی بیٹوں کی خلق وتصویر ہو رہی ہے ۔ احمق جاہلو! اپنے سسکتے ایمان کی جان پر رحم کرو، یہ فرق نسبت اٹھانااقسام اسنا د مٹانا خدا جانے تمہیں کن برے حالوں پرپہنچائے گا ۔ مسلمانوں کو مشرک بنانا ہنسی کھیل سمجھاہے ۔

 

حدیث ۲۰۲: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لو لم ابعث فیکم لبعث عمر اید اللہ عمر بملکین یوفقانہ ویسدد انہ فاذا اخطأصرفاہ حتی یکون صواباً۔ الدیلمی ۳؂عن ابی بکرن الصدیق وابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ اگر نبی میں تم میں مبعوث نہ ہوتا توبیشک عمر نبی کر کے بھیجا جاتا۔ اللہ عزوجل نے دو فرشتوں سے عمر کی تائید فرمائی ہے کہ وہ دونوں عمر کو توفیق دیتے اورہر امر مین اسے ٹھیک راہ پر رکھتے ہین اگر عمر کی رائے لغزش کرتی ہے تو فرشتے عمر کو ادھر سے پھیر دیتے ہیں تاکہ عمر سے حق ہی صادر ہو(دیلمی نے ابو بکرصدیق اورابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)

 

  (۳؂الفردوس بمأثور الخطاب حدیث ۵۱۲۷دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۳۷۲)

(کنزالعمال حدیث ۳۲۷۶۱مؤسسۃ بیروت      ۱۱/ ۵۸۱)

 

حدیث ۲۰۳ : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : بیشک عمر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا اسلام عزت تھا اور ان کی ہجرت فتح ونصرت اوران کی خلافت میں رحمت ۔ خدا کی قسم گردکعبہ علانیہ نماز نہ پڑھنے پائے جب تک عمر اسلام نہ لائے ۔ جب وہ مسلمان ہوئے کافروں سے قتال کیا یہاں تکہ کہ ہم نے علانیہ گردکعبہ نماز ادا کی ۔ وانی لاحسب بین عینی عمر ملکاً یسددہ، اوربیشک میں سمجھتا ہوں کہ عمر کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک فرشتہ ہےکہ انہیں راستی ودرستی دیتاہے اورمیں سمجھتاہوں کہ عمر سے شیطان ڈرتاہے اورجب نیک بندوں کا ذکر ہوتو عمر کا ذکر لاؤ۔ ابن عساکر۱؂ رضی اللہ تعالٰی عنہ وقدمر بعضہ، اواخر الباب الاول بتخریج اٰخر غیر محدود۔ (اس کو ابن عساکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روایت کیا ، اوراس کا بعض حصہ دوسری تخریج کے ساتھ باب اول کے آخر میں گزرگیا ہے ۔ت)

 

(۱؂ تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۵۳۰۲عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴۷ /۶۷)

(کنزالعمال حدیث ۳۵۸۶۹مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۵۹۹)

 

حدیث۲۰۴: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اذا جلس القاضی فی مجلسہ ھبط علیہ ملکان یسددانہ ویوفقانہ ویرشد انہ مالم یجرفاذا جار عرجا وترکاہ ۔ البیہقی ۲؂عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ جب قاضی مجلس حکم میں بیٹھتا ہے اس پر دو فرشتے اترتے ہیں کہ وہ اسے راستی دیتے توفیق بخشتے سیدھی راہ چلاتے ہیں جب تک حق سے میل نہ کرلے جہاں اس نے میل کیا فرشتوں نے اسے چھوڑا اوراڑگئے ۔ (بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۲؂کنز العمال عن ابن عباس حدیث ۱۵۰۱۵     مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶/ ۹۹)

(السنن الکبرٰی للبیہقی آداب القاضی باب فضل من ابتلی بشئی الخ دارصادر بیروت ۱۰ /۸۸)

 

حدیث ۲۰۵: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : جو مسلمان کسی مسلمان کا دل خوش کرتاہے اللہ عزوجل اس خوشی سے ایک فرشتہ پیدا کرتاہے کہ اللہ تعالٰی کی تمجید وتوحید کرتاہے جب وہ مسلمان اپنی قبر میں جاتاہے اس کے پاس آکر کہتاہے کیا مجھے نہیں پہچانتا ؟وہ مسلمان پوچھتا ہے تو کون ہے ؟کہتا ہے میں وہ خوشی ہوں جو تو نے فلاں مسلمان کے دل میں داخل کی تھی انا الیوم اونس وحشتک والقنک حجتک واثبتک بالقول الثالث واشھد ک مشاھدک یوم القیٰمۃ واریک منزلک من الجنۃ۔  آج میں تیرا جی بہلاکر تیری وحشت دورکروں گا ، میں تجھے تیری حجت سکھاؤں گا ، میں تجھے نکیرین کے جواب میں حق بات پر ثبات دوں گا ، میں تجھے محشر کی بارگاہ میں لے جاؤں گا، میں تیرے رب کے حضور تیری شفاعت کروں گا، میں تجھے جنت میں تیرا مکان دکھاؤں گا۔

 

ابن ابی الدنیا ۱؂فی قضاء الحوائج وابو الشیخ فی الثواب عن الامام جعفر ن الصادق عن ابیہ عن جدہٖ رضی اللہ تعالٰی عنہم وکرم وجوھھم۔

 

اس کو ابن ابی الدنیا نے قضاء الحوائج میں اورابوالشیخ نے ثواب میں امام جعفر سادق سے ، انہوں نے اپنے باپ سے ، انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے ، اللہ تعالٰی ان سے راضی ہوا اوران کے چہروں کو مکرم بنایا۔ (ت)

 

 (۱؂موسوعۃ رسائل ابن ابی الدنیا قضاء الحوائج حدیث ۱۱۵   مؤسسۃ الکتب الثقافیہ بیروت ۲ /۸۶)

(کنزالعمال بحوالہ ابن ابی الدنیا حدیث ۱۶۴۰۹  مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۴۳۱)

 

حدیث۲۰۶ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : بیشک میں کتاب اللہ میں ایک سورت تیس آیتوں کی پاتاہوں جو اسے سوتے وقت پڑھے اللہ عزوجل اس کے لئے تیس نیکیاں لکھے اوراس کے تیس گناہ محو فرمائے اوراس کے تیس درجے بلند کرے ، وبعث اللہ الیہ ملکا من الملٰئکۃ لیبسط علیہ جناحہ ویحفظہ من کل سوء حتی یستیقظ وھی المجادلۃ تجادل عن صاحبھا فی القبر وھی تبارک الذی سورۃ الملک الدیلمی۱؂ عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ اللہ عزوجل اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجے کہ اپنا بازو اس پر کشاہ رکھے جب تک سوکر اٹھے وہ فرشتہ اسے ہر برائی سے محفوظ رکھے وہ سورت مجادلہ ہے اپنے قاری کی طرف سے اس کی قبر میں جھگڑے گی وہ تبارک الذہ سورہ ملک ہے ۔(دیلمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ۔ت)

 

(۱؂الفردوس بمأثور الخطاب حدیث۱۷۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۶۲و۶۳ )

(کنزالعمال حدیث  ۲۷۰۸  مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱ /۵۹۴)

 

حدیث ۲۰۷: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : من حمٰی مؤمنا منافق یغتابہ بعث اللہ لہ ملکاًیحمی لحمہ، من نا ر جھنم ۔ احمد ۲؂وابوداود عن معاذ بن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ جب کوئی منافق کسی مسلمان کو پیٹھ پیچھے برا کہہ رہا ہو تو جو شخص اس منافق سے اس مسلما ن کی حمایت کرے اللہ عزوجل اس کے لئے ایک فرشتہ بھیجےکہ آتش دوزخ سے اس کے گوشت کو بچائے (احمد وابو داود نے معاذ بن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

(۲؂مسند احمد بن حنبل حدیث معاذ بن انس الجہنی المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۴۴۱)

(سنن ابی داود کتاب الادب باب الرجل یذب عن عرض اخیہ آفتاب عالم پریس لاہور   ۲ /۳۱۳)

 

حدیث ۲۰۸: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : رأیت جعفرا یطیر ملکاً فی الجنۃ تدمی تادمتاہ ورأیت زیدا دون ذٰلک فقلت ماکنت اظن ان زیادا دون جعفر فقال جبریل (علیہ الصلٰوۃ والتسلیم )ان زیدا بدون جعفر ولٰکنا فضلنا جعفر بقرابتہ منک ابن سعد ۱؂عن محمد بن عمروبن علی مرسلاً۔ میں نے جعفر طیار رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ملاحظہ فرمایا کہ فرشتہ بن کر جنت میں اڑرہے ہیں اوران کے بازؤوں کے اگلے دونوں شہپروں سے خون رواں ہے اورزید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو میں نے ان سے کم مرتبہ پایا۔ میں نے فرمایا مجھے گمان نہ تھا کہ زید کا مرتبہ جعفر سے کم ہوگا ۔ جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے عرض کی : زید جعفر سے کم نہیں مگر ہم نے جعفر کا مرتبہ زید سے بڑھا دیا ہے اس لئے کہ وہ حضور سے قرابت رکھتے ہیں۔ (ابن سعد نے محمد بن عمرو بن علی سے مرسلاً روایت کیا۔ت)

 

(۱؂الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر جعفر بن ابی طالب دار صادر بیروت ۴ /۳۸)

(کنز العمال حدیث ۳۳۲۱۳مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱ /۶۶۵)

 

حدیث ۲۰۹: طلحہ بن عبیداللہ احد العشرۃ المبشرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم فرماتے ہیں:  روز احدمیں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کندھیاں لے کر ایک چٹان پر بٹھادیا کہ مشرکین سے آڑہوگئی ، سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے پس پشت دس مبارک سے ارشاد فرمایا : ھذا جبریل یخبرنی انہ لایراک یوم القیٰمۃ فی ھولٍ الا انقذک منہ ۔ ابن عساکر۲؂ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ یہ جبریل مجھے خبر دے رہے ہیں کہ اے طلحہ!وہ روز قیامت تمہیں جس کسی دہشت میں دیکھیں گے اس سے تمہیں چھڑادیں گے ۔ (ابن عساکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روایت کیا۔ ت)

 

 (۲؂کنز العمال حدیث ۳۶۶۰۶مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۲۰۲)

(تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۳۰۶۴طلحہ بن عبیداللہ داراحیاء التراث العربی بیرو ت ۲۷ /۵۰)

 

حدیث ۲۱۰: جب امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ابو لولومجوسی خبیث نے خنجر مارا اورامیر المؤمنین نے مشورے کا حکم دیا(کہ میرے بعد عثمان غنی وعلی مرتضٰی وطلحہ وزبیر وعبدالرحمن بن عوف  وسعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہم چھ صاحبوں سے مسلمان جسے مناسب تر جانیں خلیفہ بنائیں )حضرت ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا خدمت امیر المومنین میں آئیں اورکہا : اے باپ میرے !بعض لوگ کہتے ہیں یہ چھ شخص پسندیدہ نہیں ۔ امیر المومنین نے فرمایا : مجھے تکیہ لگا کر بٹھا دو ۔ بٹھائے گئے ، ارشاد فرمایا : ''علی اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں لا تُو روز قیامت میرے ساتھ میرے درجےمیں ہوگا ۔ بھلا عثمان کی شان میں کیا کہہ سکتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سنا جس دن عثمان انتقال کرے گا آسمان کے فرشتے اس پر نماز پڑھیں گے ۔ میں نے عرض کی : یارسول اللہ!یہ فضیلت خاص عثمان کے لئے ہے یا ہر مسلمان کے لئے ۔ فرمایا : خاص عثمان کے لئے ۔ طلحہ بن عبید اللہ کو کیا کہیں گے، ایک رات رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا کجاوا پشت مرکب سے گرگیا تھا میں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سنا کون ہے کہ میرا کجاوا ٹھیک کردے اورجنت لے لے ۔ یہ سنتے ہی طلحہ دوڑے اورکجاوا درست کردیا ، حضور پر نورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سوار ہوئے اوران سے ارشادفرمایا : یا طلحۃ ھذا جبریل یقرئک السلام ویقول انا معک فی اھوال یوم القیٰمۃ حتی انجیک منھا۔ اے طلحہ! یہ جبریل ہیں تجھے سلام کہتے اور بیان کرتے ہیں کہ میں قیامت کے ہولوں میں تمہارے ساتھ رہوں گا یہاں تک کہ ان سے تمہیں نجات دوں گا ۔ زبیر بن عوام کو کیا کہیں گے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ حضور آرام فرماتے تھے زبیر بیٹھے پنکھا جھلتے رہے یہاں تک کہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بیدار ہوئے ، فرمایا : اے ابو عبداللہ !(زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کنیت ہے )کیا جب سے توجھل رہا ہے؟عرض کی : میرے ماں باپ حضور پر نثار جب سے برابر جَھل رہاہوں۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ھذا جبریل یقرئک السلام ویقول انا معک یوم القیٰمۃ حتی ادب عن وجھک شرر جھنم۔ یہ جبریل ہیں تجھے سلام کہتے ہیں اوربیان کرتے ہیں کہ میں روز قیامت تمہارے ساتھ رہوں گا یہاں تک کہ تمہارے چہرے سے جہنم کی اڑتی ہوئی چنگاریاں دور کروں گا۔ سعد بن ابی وقاص کو کیا کہیں گے، میں نے روز بدردیکھا سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے چودہ بار ان کی کمان چلہ باندھ کر انہین عطا کی اورفرمایا تیر مار، تیرے قربان میرے ماں باپ۔ عبدالرحمن بن عوف کو کیا کہیں گے ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا حضور حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالٰی عنہا کے یہاں تشریف فرماتھے دونوں صاحبزادے رضی اللہ تعالٰی عنہما بھوکے روتے بلکتے تھے، سید المرسلمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کون ہےکہ کچھ ہماری خدمت میں حاضر کرے ، اس پر عبدالرحمن بن عوف حیس (کہ خرمائے خستہ برآوردہ ، اورپنیر کو باریک کوٹ کر گھی میں گوندھتے ہیں ) اور دو روٹیاں کہ ان کے بیچ میں روغن رکھا تھا لے کر حاضرہوئے ، رحمت دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : کفاک اللہ امردنیاک واما امراٰخرتک فانا لھا ضامن۔ اللہ تعالٰی تیرے دنیا کے کام درست کردے اور تیری آخرت کے معاملہ کا تو میں ذمہ دار ہوں ۔ ''معاذبن المثنٰی۱؂ فی زیادات مسند مسددٍ والطبرانی فی الاوسط وابو نعیم فی فضائل الصحابۃ وابوبکر ان الشافعی فی الغیلانیات وابوالحسن بن بشر ان فی فوائد ہٖ والخطیب فی التلخیص المتشابہ وابن عساکر فی تاریخ دمشق والدیلمی فی مسند الفردوس عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ امام جلیل جلال الدین سیوطی جمع الجوامع میں فرماتے ہیں : سندہ، صحیح۱؂ ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔

 

 (۱؂کنزالعمال بحوالہ معاذ بن المثنٰی حدیث ۳۶۷۳۶مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۴۷۔۲۴۶)

 

تکملہ کاملہ :

 

وصل اول کی طرف پھر عود کرنا والعود احمد ؎

اعدذکر والینا لنا ان ذکرہ،                                                                         ھوالمسک ماکررتہ یتضوع،

 

 (ہمارے والی کا ذکر ہمارے لئے پھر لوٹا ؤ کہ بیشک ان کا ذکر ایسی کستوری ہے جسے جتنا رگڑ ووہ خوشبو دیتی ہے ۔ت)

 

؎ باز ہوائے چمنم آرزو ست                                                                        جلوہ سرودسمنم آرزوست

 

 (پھر مجھے چمن کی ہوا کی خواہش ہے جنبیلی کے نغمے کے جلوے کی خواہش ہے ۔ت)

؎ پھر اٹھا ولولہ یادبیابان حر م                پھر کھنچا دامن دل سوائے مغیلان حرم

اللہ اس حدیث صحیح کے پچھلے جملے نے پھر وصل اول احادیث متعلقہ محبوب اجمل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی آتش شوق سینے میں بھڑکا دی ، کتا اپنے پیارے آقا مہربان مولٰی کا دروازہ چھوڑ کر کہاں جائے ، ہر پھر کروہیں کا وہیں رہا چاہے بلکہ واللہ یہ کتا اپنے پیارے کریم کا دراطہر سے ہٹا ہی نہیں ، انبیاء کے دروازے پر جائے تو انہیں کا گھرہے ، اولیاء کے یہاں آئے تو انہین کا درہے ، ملائکہ کی منزلوں پر گزرے تو انہیں کا نگر ہے ع

کوئی اوران کے سوا کہاں وہ اگر نہیں و جہاں نہیں

 

؎ یک چراغ ست دریں خانہ کہ از پرتوآں                                                                                                     ہرکجا در نگری انجمنے ساختہ اند

 

 (اس گھرے میں ایک چراغ ہے جس کی روشنی سے جہاں دیکھو ایک انجمن بنائے ہوئے ہیں ۔ت)؎

 

آسمان کواں زمیں خوان زمانہ مہمان                                                                        صاحبِ خانہ لقب کس کا ہے تیر اتیرا

؎ بندہ ات غیر ت بردکے بردرغیرت رود                                                                                                    دررودچوں بنگر دہم شاہ آں ایواں توئی

 

 (تیرا غیرتمند غلام درغیر پر کیسے جاسکتاہے ، اوراگر جائے تو دیکھے گا کہ اس ایوان کا بادشاہ بھی تو ہی ہے ۔ت)

 

حدیث۲۱۱: نزال بن سبرہ فرماتے ہیں ایک دن ہم نے امیر المومین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کو خو ش دل پایا ، عرض کی : یا امیر المومنین !اپنے یاروں کا حال ہم سے بیان کیجئے ۔ فرمایا ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سب صحابہ میرے یار ہیں۔ہم نے عرض کی : اپنے خاص یاروں کاتذکرہ کیجئے ۔ فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا کوئی صحابی نہیں کہ میرا یار نہ ہو۔ ہم نے عرض کی : ابو بکر صدیق کا حال بیان کیجئے ۔ فرمایا : یہ وہ صاحب ہیں کہ اللہ عزوجل نے جبریل امین ومحمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہما وسلم کی زبان پر ان کا نام صدیق رکھا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خلیفہ تھے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں ہمارے دین کی امامت کو پسند فرمایا تو ہم نے اپنی دنیا میں بھی انہیں کو پسند کیا۔ ہم نے عرض کی : عمر بن خطاب کا حال بیان فرمائیے۔ فرمایا: یہ وہ صاحب ہیں جن کا نام اللہ عزوجل کے فاروق رکھا، انہوں نے حق کو باطل سے جدا کردیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو عرض کرتے سنا کہ الہٰی !عمر بن خطاب کے سبب اسلام کی عزت دے ۔ ہم نے عرض کی: عثمان کا حال کہئے ۔ فرمایاذٰلک امرء  تدعٰی فی الملاء الا علی ذالنورین کان ختن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ابنتیہ ضمن لہ فی الجنۃ یہ وہ صاحب ہیں کہ ملاءِ اعلٰی وبزمِ بالا  میں ذی النورین  پکارے جاتے ہیں ، سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دوشاہزادیوں کے شوہر ہوئے ، سرورِاکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کےلئے جنت میں ایک مکان کی ضمانت فرمائی ہے ۔ خیثمۃ ۱؂ واللالکائی والعشاری فی فضائل الصدیق وابن عساکر عنہ عن علی کرم اللہ تعالٰی وجھہ وراہ عنہ ابو نعیم  قال سألنا علیا عن عثمٰن رضی اللہ تعالٰی عنہما قال ذاک امروفذکرہ۲؂ ۔ خیثمہ ، لالکائی اورعشاری نے فضائل صدیق میں اورابن عساکر نے انہی سے بحوالہ حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم سے اسکوروایت کی اکہ ہم نے حضر ت علی سے حضرت عثمان کے بارے میں پوچھا رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ وہ ایسے عظیم شخص ہیں ، پھر پوری حدیث ذکر کی ۔ (ت)

 

 (۱؂کنزالعمال بحوالہ خیثمہ واللالکائی والعشاری        حدیث ۳۶۶۹۸     مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۲۳۱۔ ۲۳۲)

(۲؂ معرفۃ الصحابہ لابی نعیم حدیث ۲۳۹مکتبۃ الحرمین ریاض ۱ /۲۴۶)

 

حدیث ۲۱۲: کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مکہ معظمہ میں کسی سے فرمایا کہ اپنا گھرے میرے ہاتھ بیچ ڈال کہ مسجدِ حرام میں زیادت فرماؤں اورتیرے لئے جنت میں مکان کا ضامن ہوں ۔ اس نے عذر کیا ۔ پھر فرمایا ۔ انکار کیا۔ عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خبر ہوئی ، یہ شخص زمانہ جاہلیت میں ان کا دوست تھا اس سے باصرارِ تمام دس ہزار اشرفی دے کر خریدلیا، پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضور !اب وہ گھر میرا ہے فھل انت اٰخذھا ببیتٍ تضمن لی فی الجنۃ کیا حضور مجھ سے ایک مکان بہشت کے عوض لیتے ہیں جس کے حضورمیرے لئے ضامن ہوجائیں ۔ قال نعم فرمایا: ہاں ۔ فاخذھا منہ وضمن لہ بیتاً فی الجنۃ واشھد لہ علی ذٰلک المومنین حضور نے ان سے وہ مکان لے کر جنت میں ان کے لئے ایک مکان کی ضمانت فرمائی اور مسلمانوں کو اس معاملہ پر گواہ کرلیا۔ احمد الحاکمی ۱؂فی فضائل عثمان عن سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ احمد حاکمی نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فضائل میں سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا۔ (ت)

 

(۱؂الریاض النضرۃ بحوالہ الحاکمی الباب الثالث دارالمعرفۃ بیروت ۳ /۲۰و۲۱)

 

حدیث ۲۱۳: کہ جب مہاجرین مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ میں آئے یہاں کا پانی پسند نہ آیا شور تھا، بنی غفار سے ایک شخص کی مِلک میں ایک شیریں چشمہ مسمّٰی بہ رومہ تھا وہ اس کی ایک مشک نیم صاع کو بیچتے ، سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : بعنیہا بعین فی الجنۃ یہ چشمہ میرے ہاتھ ایک چشمہ بہشت کے عوض بیچ ڈال ۔ عرض کی : یارسول اللہ !میری اورمیرے بچوں کی معاش اسی میں ہے مجھ میں طاقت نہیں ۔ یہ خبر عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پہنچی وہ چشمہ مالک سے پینتیس ہزار روپے کو خریدلیا ، پھر خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کی : یارسول اللہ اتجعل لی مثل الذی جعلت لہ عینا فی الجنۃ اشتریتھا یارسول اللہ !کیا جس طرح حضور اس شخص کو چشمہ بہشتی عطافرماتے تھے اگر میں یہ چشمہ اس سے خرید لوں تو حضو رمجھے عطافرمائیں گے ؟ قال نعم فرمایا:ہاں ۔ عرض کی : میں نے بِئر رومہ خرید لیا اورمسلمانوں پر وقف کردیا۔ الطبرانی ۲؂ فی الکیبر وابن عساکر عن بشیر رضی اللہ تعالٰی عنہ (طبرانی نے کبیر میں اورابن عساکر نے بشیر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

 ( ۲؂ المعجم الکبیر عن بشیر اسلمی حدیث ۱۲۲۶المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲ /۴۱و۴۲)

(تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۴۷۱۵عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴۱ /۴۹)

(کنز العمال بحوالہ طب کر حدیث ۳۶۱۸۳مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۳۵و۳۶)

 

حدیث ۲۱۴: ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : اشترٰی عثمان بن عفان من رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الجنۃ مرتین یوم رومۃ ویوم جیش العسرۃ۔ الحاکم ۱؂ وابن عدی وعساکر عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دوبار نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے جنت خرید لی بئر رومہ کے دن اورلشکر کی تنگدستی کے روز۔ (حاکم اورابن عدی اورابن عساکر نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؂ المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ اشترٰی عثمان الجنۃ مرتین دارالفکر بیروت ۳ /۱۰۷)

(تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۴۷۱۵   عثمان بن عفان    داراحیاء التراث العربی بیروت  ۴۱ /۴۹)

(الکامل لابن عدی ترجمہ بکر بن بکار دارالفکر بیروت            ۲ /۴۶۴)

 

حدیث ۲۱۵: کہ حضور مالک جنت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا : لک الجنۃ علی یا طلحۃ غداً ۔ ابو نعیم ۲؂فی فضائل الصحابۃ عن امیر المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ کل تمہارے لئے جنت میرے ذمہ ہے (ابو نعیم نے فضائل صحابہ میں امیر المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

 (۲؂کنزالعمال بھوالہ ابی نعیم حدیث ۳۳۳۶۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱/۶۵۹)

 

حدیث ۲۱۶: صحیح بخاری شریف میں سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : من یضمن لی مابین لحییہ وما بین رجلیہ اضمن لہ الجنۃ۳؂ ۔ جو میرے لئے اپنی زبان اورشرمگاہ کا ضامن ہوجائے (کہ ان سے میری نافرمانی نہ کرے ) میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں۔

 

 (۳؂صحیح البخاری کتاب الرقا ق باب حفظ اللسان قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۵۸و۹۵۹)

(السنن الکبرٰی للبیہقی کتاب قتال اھل البغی باب ماعلی الرجل من حفظ اللسان الخ دارصادر بیروت ۸ /۱۶۶)

 

امام الوہابیہ علیہ ماعلیہ اپنے مقر کو پہنچا ،اب یہ حدیثیں کسے دکھائیں کہ اوبے بصر بدزبان! تیرے نزدیک تو ''وہ کسی چیز کے مختار نہیں ،ان کو کسی نوع کی قدرت نہیں ،کسی کام میں نہ بالفعل ان کو دخل ہے نہ اس کی طاقت رکھتے ہیں اپنی جان تک کے نفع ونقصان کے مالک نہیں دوسرے کا تو کیا کرسکیں، اللہ کے یہاں کا معاملہ انکے اختیار سے باہر ہے ، وہاں کسی کی حمایت نہیں کرسکتے کسی کے وکیل نہیں بن سکتے ۱؂۔''

 

 (۱؂تقویۃ الایمان الفصل الثالث مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص ۱۹تا۲۵)

 

ان حدیثوں کو سوجھ کو وہ بتملیک الہٰی عزوجل جنت کے مالک ، کارکانہ الہٰی کے مختار ہیں ، ضمانتیں فرماتے ہیں، اپنے ذمے لیتے ہیں ، عطا فرماتے ہیں ، بیع کردیتے ہیں، ہر عاقل جانتاہے کہ بیع وہی کرے گا جو خود مالک ہویا مالک کی طرف سے ماذون ومختار ، ورنہ فضولی ہے جس کا قصد فضول اورعقد بیکار۔

 

الحمدللہ اہل حق کے نزدیک نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو نفاذ تصرف کی دونوں وجہیں حاصل ، حقیقت عطائیہ لیجئے تو وہ ضرور مالک جنان ، بلکہ مالک جہان ہیں۔اورذاتیہ لیجئے تو مالک حقیقی کے ماذون مطلق ونائب کامل ہاں گمراہ بددین وہ جو دونوں شقیں باطل جانے اوراللہ کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو معاذ اللہ فضولی محض مانے ، وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۲؂۔  (اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے ۔ت)

 

 (۲؂القرآن الکریم ۲۶ /۲۲۷)

 

حدیث ۲۱۷: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : من بکر یوم السبت فی طلب حاجۃ فانا ضامن بقضائھا ۔ ابو نعیم۳؂ عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ جو شنبے کے دن تڑکے کسی حاجت کی تلاش کو جائے میں ا سکی حاجت روائی کا ذمہ دار ہوں ۔ (ابو نعیم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)

 

(۳؂کنزالعمال بحوالہ ابو نعیم عن جابر حدیث ۱۶۸۱۲مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۵۲۰)

 

حضرت سید نظام الحق والدین محبو ب الہٰی سلطان الاولیاء قدست اسرارہم کی نسبت لوگ کہتے ہیں : "بعد جمعہ جو کیجئے کام اس کے ضامن شیخ نظام" ۔

وہابی اسے شرک کہتے ہیں ، وہی حکم اس حدیث پر لازم ۔

 

حدیث ۲۱۸: حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ قبل بعثت حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یمن کو تاجرانہ جاتے تھے ایک پیر مرد عسکلان بن عواکر  کے یہاں قیام فرماتے ، وہ ان سے مکہ معظمہ کا حال پوچھتے تم میں کوئی مشہو ربلند چرچے والا پیداہوا؟کسی نے تم پر تمہارے دین میں خلاف کیا؟ یہ انکار کرتے ، جب بعد بعثت اقدس گئے پیر مرد نے کہا : میں تمہیں وہ بشارت دیتاہوں کہ کہ تمارے لئے تجارت سے بہتر ہے ، اللہ تعالٰی نے تمہاری قوم سے نبی برگزیدہ مبعوث فرمایا، ان پراپنی کتاب اتاری ، وہ اصنام سے روکتے اوراسلام کی طرف بلاتے ہیں، حق کا حکم دیتے اور اس کے فاعل ہیں، باطل سے منع کرتے اوراس کے مبطل ہیں، وہ ہاشمی ہیں ۔ اور تم اے عبدالرحمن ان کے ماموں !جلد پلٹو اوران کی خدمت وتصدیق کرو، اوریہ اشعار میری طرف سے انکی بارگاہ والا میں پہنچاؤ، چند اشعار دربارہ تصدیق رسالت واظہار شوق وعذر پیرانہ سالی واستعانت سرکار عالی صلوات اللہ وسلامہ علیہ کہے ازاں جملہ یہ دوشعر ؎

 

اذا نای بالدّیار بعد                                                                                                 فانت حرزی  ومستراجی

فکن شفیعی الٰی ملیک                      یدعوا البرایا  الی الفلاحی

 

جبہ کہ شہروں کو دوری فاصلہ نے بعید کردیا، تو حضور میری پناہ اورمیری راحت ملنے کی جگہ ہیں۔ توحضور میری شفیع ہوں اس بادشاہ کے یہاں جو مخلوق کو نجات کی طرف بلاتاہے ۔

عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے واپس آکر یہ حال صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے گزارش کیا، انہوں نے فرمایا؛ یہ محمد بن عبداللہ ہیں جنہیں اللہ عزوجل نے اپنی تمام مخلوق کی طرف رسول کیا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، تم ان کے حضور حاضرہو، یہ حاضر ہوئے ، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر تبسم فرمایا اور ارشاد ہوا : مین ایک سزا وار چہرہ دیکھتاہوں جس کے لئے خیر کی امدی ہے کہو کیا خبر ہے ؟انہوں نے عرض کی : کیسی ؟ فرمایا : پیام بھیجنے والے نے جو پیام ہمارے حضور بھیجا ہے وہ امانت ادا کرو ، سنتے ہو  اولاد حمیر خواص مومنین سے ہیں۔ عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ سنتے ہی مسلما ن ہوئے ، پھروہ اشعار حضور میں عرض کئے ۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : "رب مومن بی ولم یرنی ومصدق بی وماشھدنی اولٰئک اخوانی"۱؂۔ یعنی مجھ پر بعض ایمان لانے والے (ایسے ہیں)جنہوں نے مجھ کو دیکھانہیں اوربعض لوگ میری تصدیق کرنے والے (ایسے ہیں )جن کو میرے پا س حضور ی حاصل نہ ہوسکی ، یہ لوگ میرے بھائی ہیں۔(کلمہ اخوت کو ان کے اعزاز کے لئے تواضعاً فرمایا)

 

(۱؂کنزالعمال بحوالہ کر حدیث ۳۶۶۹۰     مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۲۲۷ تا ۲۲۹)

 

و صلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہ محمد واٰلہٖ وصحبہٖ اجمعین ، اٰمین !

عبدہ المذنب احمد رضا البریلوی

کتبـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــہ

عفی عنہ بمحمد ن المصطفٰی النبی الامی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

رسالہ

الامن والعلٰی لنا عتی المصطفٰی بدافع البلاء ختم ہوا

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post