Ikhtiyarat-e-Mustafa ﷺ | Risala Al Amnu wal Ula by AalaHazrat

 

رسالہ

الامن والعلٰی لنا عتی المصطفی بدافع البلاء

کلمہ دافع البلا کے ساتھ مصطفی علیہ الصلوۃ والسلام کی نعت بیان کرنے والوں کے لئے

بلاؤں سے امن اور انکے مرتبے کی بلندی ہے

مسمی بہ نام تاریخی

اکمال الطامۃ علی شرک سوی بالامور العامۃ

پوری قیامت ڈھانا وہابیوں کے اس شرک پر جو امور عامہ کی طرح موجود کی ہر قسم پر صادق ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

مسئلہ ۳۵ :  از دہلی باڑہ ہند ورائے مرسلہ مولوی محمد کرامت اللہ خان صاحب (عہ) ۲۱ جمادی الآخرۃ ۱۳۱۱ ھ

 

عہ: مولانا کرامت اللہ خاں صاحب خلیفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہما

 

علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں زید کہتا ہے کہ پڑھنا درود تاج اور دلائل الخیرات کا شرک محض اور بدعت سیئہ ہے اور تعلیم اس کی سم قاتل شرک اس لئے کہ درود تاج میں دافع البلاء والوبا ء والقحط والمرض والالم رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں مذکور ہے ،اور بدعت سیئہ اس لئے کہ یہ درودبعد صدہا سال کے تصنیف ہوئے ہیں ۔عمر وجواب میں کہتا کہ ورد اس درود  مقبول کا موجب خیر وبرکت اور باعث ازدیاد محبت ہے ۔ زید عربیت سے جاہل ہے وہ نہیں سمجھتا کہ حضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سبب ہیں دفع بلا کے ،اگرچہ دافع البلاء حقیقتاً خدائے تعالی ہے ۔مختصرالمعانی میں انبت الربیع البقل۱؂۔ (بہار نے سبزہ اگایا ۔ت) کہ بقول مومن مجاز اور بقول کافر حقیقت فرمایا ہے ۔

 

 (۱؂مختصر المعانی ،احوال اسناد الخبر ، المکتبہ الفاروقیہ ملتان ،ص ۸۵)

 

علاوہ ازیں و ما کان اللہ لیعذب بھم وانت فیھم ۲؂ (اللہ تعالی ان کافروں پر عذاب نہ فرمائے گا جب تک اے محبوب تو ان میں تشریف فرما ہے ۔ت )

 

(۲؂القران الکریم ۸ /۳۳) اور وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین ۳؂ (ہم نے نہ بھیجا تمھیں مگر رحمت سارے جہان کے لئے ۔ت )

 

 (۳؂القرآن الکریم    ۲۱ /۱۰۷)

 

ہمارے دعوئے پر دو بزرگ گواہ ہیں ،اور کیا سال ولادت حضرت رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں قحط عام کی وبا دفع نہیں ہوئی ،اس کے سوا جبرائیل خلیل کامقولہ قرآن کریم میں اس طرح درج ہے : لاھب لک غلما زکیا ۴؂ (میں عطا کروں تجھے ستھرا بیٹا ۔ت)

 

(۴؂القرآن الکریم   ۱۹ /۱۹)

 

یہاں بقول زید حضرت جبرائیل بھی معاذ اللہ مشرک ہوگئے کیونکہ وہ اپنے آپ کو وہاب فرما رہے ہیں ۔پس جو جواب زید کی طرف سے ہوگا وہی ہماری طرف سے ۔پھر چونکہ یہ درود معمول بہ اکثر علماء ومشائخ عظام ہے پس وہ سب بھی زید کے نزدیک مشرک ہوئے اور طرہ یہ کہ خود زید بھی اس خواہ مخواہ کے شرک سے بچ نہیں سکتا کیونکہ وہ بھی سم (عہ)کو قاتل اور ادویہ کو دافع درد رافع عشیاں کہتا ہے ۔

 

عہ: سم یعنی زہر

 

اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قصیدہ اطیب النغم میں آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دافع فرما رہے ہیں ۔سندیں تو اور بھی ہیں مگر اس مختصر میں گنجائش نہیں ۔ رہا صد ہا سال کے بعد تصنیف ہونے سے بدعت سیئہ ہونا ،یہ بھی زید کی حماقت پر دال ہے ۔خود زید جو مولوی اسمعیل صاحب کے خطبے جمعہ میں بر سر منبر پڑھتا ہے اس کے لئے اس کے پاس کوئی حدیث ہے یا وہ زمانہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ سلم کی تصنیف ہیں ۔سبحان اللہ ان خطبوں کا پڑھنا (جو صد ہا سال بعد کی تصنیف ہیں ) تو زید کے لئے سنت ہو او ر خاصان حق کی تصنیف درود کا پڑھنا بدعت سیئہ ٹھہرے ،ہاں جو صیغے درود کے حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے منقول ہیں ان کا پڑھنا ہمارے نزدیک بھی افضل وبہتر ہے مگرعلمائے راسخین وفقرائے کاملین نے حالت ذوق وشوق میں جو درود شریف بالفاظ بدیعہ تصنیف فرمائے ہیں جن میں جناب غوث الثقلین محبوب سبحانی بھی شامل ہیں اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے جذب القلوب میں درج فرمائے ہیں ،اور خودحضرت شیخ نے ایک مستقل رسالہ اس بارہ میں تالیف فرمایا ہے ،اور جتنے درود مشائخ عظام نے تصنیف فرمائے ہیں سب اس میں درج ہیں ،اور شرح سفر السعادۃ میں ۳۶صیغے رسول خدا سے منقول ہیں باقی صحابہ وتابعین نے زیادہ کئے ہیں ۔زید جاہل نے ان سب حضرات کو معاذ اللہ مشرک بنایا ہے ۔اب علمائے اعلام سے استفسار ہے کہ قول زید کا صحیح اور موافق عقائد سلف صالح کے ہے یا عمرو کا ؟یہ تشریح وتفصیل ارشاد ہو ،اللہ آپ کو جزائے خیر عنایت فرمائے ۔

 

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ علی ما علم وھدانا للذی اقوم وسلک بنا السبیل الاسلم وصلی ربنا وبارک وسلم علی دافع البلاء  والقحط والمرض والالم سیدنا ومولنا ومالکنا وماونا محمد مالک الارض ورقاب الامم و علی الہ وصحبہ اولی الفضل والفیض والعطاء والجود والکرم امین قال الفقیر المستدفع البلاء من فضل نبیہ العلی الاعلی صلی علیہ اللہ تعالی عبد المصطفی احمد رضا المحمدی السنی الحنفی القادری البرکاتی البریلوی دفع نبیہ عنہ البلاء ومنح قلبہ النور  والجلاء ۔ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں کہ اس نے ہمیں علم عطا فرمایا اور سب سے سیدھی راہ کی ہدایت فرمائی اور ہمیں سلامتی والے راستے پر چلایا ۔ہمارا پروردگار درود وسلام اور برکت نازل فرمائے بلا ، وبا ،قحط ،بیماری اور دکھوں کو دور کرنیوالے ہمارے آقا ومولی ومالک وماوی محمد پر ، جو زمین اور امتوں کی گردنوں کے مالک ہیں ،اور آپ کی آل اور آپ کے اصحاب پر جو فضل ،فیض ،عطا اور جود وکرم والے ہیں ،آمین ۔کہتا ہے فقیر عبد المصطفی احمد رضا سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی جو نبی اعلی کے بلند فضل کے بطفیل مصیبت سے بچنے کا طلب گار ہے ۔نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اس مصیبت کو دور فرمائیں اور اس کے دل کو روشنی اور چمک عطا فرمائیں (ت)

 

یہ مختصرجواب موضع صواب متضمن مقدمہ ودو باب وخاتمہ ۔مقدمہ اتمام الزام وتمہید مرام میں عائدہ قاہرہ وفائدہ زاہرہ پر مشتمل ۔

 

عائدہ قاہرہ

 

ایھا المسلمون دفع نبیکم عنکم بلاء المجنون وفتنۃ المفتون ۔ اے مسلمانو تمھارے نبی نے تم سے مجنون کی بلاء اور فتنہ انگیز کا فتنہ دور کردیا ہے ۔ت

 

زید بیقید کے ایسے کلمات کچھ محل تعجب نہیں مذہب وہابیہ کی بنا ہی حتی الامکان حضور سید الانس والجان علیہ وعلی الہ افضل الصلوۃ والسلام کے ذکر شریف مٹانے اور محبوبان خدا جل وعلا وعلیہم الصلوۃ والثناء کی تعظیم قلوب مسلمین سے گھٹانے پر ہے وسیعلم الذین ظلمو ا ای منقلب ینقلبون۱؂ (اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے ۔ت)

 

(۱؂القران الکریم  ۲۶ /۲۲۷)

 

مگر تعجب ان مسلمانان اہلسنت سے کہ ایسے ناپاک اقوال پر کان دھریں ،بہت کان کھانے والے دنیا میں ہوئے اور ہوتے رہیں گے ،مسلمان صحیح العقیدہ ان کی طرف التفات ہی کیوں کریں ،ایسوں کا علاج حضور میں خاموشی اور غیبت میں فراموشی ،اور اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ہر حال اپنے محبوب بے مثال صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ذکر پاک کی زیادہ گرمجوشی کہ مخالف خود ہی اپنی آگ میں جل بجھیں گے "قل موتوا بغیظکم ان اللہ علیم بذات الصدور" ۲؂  (تم فرما دو کہ مر جاؤ اپنی گھٹن میں ،اللہ خوب جانتا ہے دلوں کی بات ۔ ت)

 

(۲؂القران الکریم ۳ /۱۱۹)

 

اس تالفہ کے رد میں اقوال ائمہ وعلماء پیش کرنے کا کوئی محل ہی نہیں کہ یہ تم اپنے اعتقاد سے ائمہ وعلماء کہتے ہو ان کے نزدیک وہ بھی تمھاری طرح معاذ اللہ مشرک بدعتی تھے ،درود محمود میں کتب وصیغ کثیرہ کی تصنیف واشاعت انھیں نے کی تمھارے پیارے نبی محمد مصطفی دافع البلاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اللہ عزوجل کا خلیفہ اکبر ومدد بخش ہر خشک وتر وواسطہ ایصال ہر خیر وبرکت ووسیلہ فیضان ہر جود ورحمت وشافی وکافی وقاسم نعمت وکاشف کرب ودافع زحمت وہی لکھ گئے جس کی تصریحات قاہرہ سے ان کی تصنیفات باہر ہ کے آسمان گونج رہے ہیں ۔فقیر غفر اللہ لہ نے کتاب مستطاب سلطنۃ المصطفی فی ملکوت کل الوری ۱۲۹۷ھ میں بکثرت ارشادات جلیلہ ونصوص جزیلہ جمع کئے جن کے دیکھنے سے بحمد اللہ ایمان تازہ ہو اور روئے ایقان پر احسان کا غازہ تو ان کے نزدیک حقیقۃً یہ شرک وبدعت تمھیں وہی سکھاگئے آخر ان کا بانی مذہب شیخ نجدی علیہ ما علیہ ڈنکےکی چوٹ کہتا تھا کہ ۶۰۰برس سےجتنے علماء گزرے سب کافر تھے کما ذکرہ المحدث العلامۃ الفقیہ الفھامہ شیخ الاسلام زینت المسجد الحرام سیدی احمد بن زین ابن دحلان المکی قدس سرہ الملکی فی الدرر السنیۃ ۱؂۔  (جیسا کہ حضرت محدث العلامہ الفقیہ الفہامہ شیخ الاسلام زینت المسجد الحرام سیدی احمد بن زین ابن دحلان المکی قدس سرہ الملکی نے اس کو الدرر السنیۃ میں ذکر کیا ۔ت)

 

 (۱؂الدررالسنیۃ فی الرد علی الوہابیہ مکتبہ حقیقۃ دار الشفعۃ استانبول ترکی ۔ص۵۲)

 

احادیث دکھانے کا کیا موقع کہ آخر سب کتب حدیث صحاح وسنن ومسانید ومعاجیم وغیرہ حضور والا صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیہ کے بعد تصنیف ہوئیں تو ان کے طور پر معاذاللہ وہ سب بدعت اور مصنف بدعتی ۔رہی آیت کہ رب العزۃ جل وعلا نے بلا تخصیص لفظ وصیغہ ووقت وعدد مطلقا اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر درود وسلام کی طرف بلاتا ہے یا یھا الذین امنو صلوا علیہ وسلموا تسلیما ۲؂۔ اے ایمان والو ! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو ۔

 

(۲؂القران الکریم ۳۳ /۵۶)

 

اللھم صل وسلم وبارک علیہ وعلی اٰلہ  وصحبہ اجمعین کلما ولع بذکرہ الفائز ون ومنع من اکثارہ الھالکون۔ اے اللہ !درود وسلام اوربرکت نازل فرما آپ پر اور آپ کی آل اورآپ کے تمام صحابہ پر ، جب بھی آپ کے ذکر پرشیفتہ ہوں کامیاب ہونیوالے اوراس کی کثرت سے انکار کریں ہلاک ہونیوالے (ت)

 

تو دلائل الخیرات ودرود تاج وغیرہما سب اس حکم جانفزا کے دائرہ میں داخل ، یہ بھی انہیں مقبول ہوتی نظر نہیں آتی کہ ان کتب وصیغ میں حضور والا دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اوصاف عظیمہ جلیلہ ونعوت کثیرہ جزیلہ ہیں ۔

 

اورانکے امام الطائفہ کا حکم ہے کہ ''جو بشر کی سی تعریف ہو اس میں بھی اختصار کرو''۱؂

 

 (۱؂تقویۃ الایمان الفصل الخامس فی ردالاشراک الخ مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۴۴)

 

علاوہ ازیں وظیفہ درود میں صدہا بار نام اقدس لینا ہوگا اوران کا امام لکھ چکا کہ نام جپنا شرک ہے ۔ اب وہ اپنے امام کی تصریح مانیں یا تمہارے خدا کا اطلاق ۔ ہاں اگر انہیں کے امام الطائفہ اور اس کے آباؤ اجداد واکابر کی تصانیف دکھاؤ تو شاید کچھ کام چلے کہ امام الطائفہ کو کچھ کہیں تو ایمان کی گت بری بنے اوراس کے اکابر سے مکابر رہیں تو اس سے کیونکر گاڑھی چھنے ، ایسی ہی جگہ پر بدلگامی کا قافیہ تنگ ہوتاہے ہے کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن  (نہ رہنے کا یارا ، نہ چلنے کی تاب۔ ت)مثلاً:

 

اولاً : یوں پوچھئے کہ حیادارو!صرف اس جرم پر کہ حضرات علمائے دین مصنفین کتب رحمہم اللہ تعالٰی زمانہ اقدس حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں نہ تھے انہیں کی کتابیں بدعت اوروہ معاذاللہ اہل بدعت قرار پائیں گے یایہ حکم امام الطائفہ اوراس کے عم نسب وپدر شریعت جد طریقت جناب مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب اوراس کے جد نسب وجد شریعت وفرجد طریقت شاہ ولی اللہ صاحب اورفرجد نسب وتلمذ وجد الجد بیعت شاہ عبدالرحیم صاحب وغیرہم اکابر وعمائد خاندان دہلی کو بھی شامل ہوگا۔ کیا یہ حضرات زمانہ اقدس میں تھے ، کیا ان کی کتابیں جبھی تصنیف ہوئی تھیں ، کیا انہوں نے اپنی تصانیف کے خطبوں میں بیسیوں مختلف صیغوں سے جو درود لکھے ہیں سب بعینہ حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، اگر ہیں تو بتاد و اورنہیں تو کیا ہٹ دھرمی سینہ زوری ہے کہ انکی تصانیف بدعت اوریہ بدعتی نہ ٹھہریں ، کیا وحی باطنی اسمعٰیلی ہمیں یہ حکم تشریعی بھی آچکا ہے کہ یجوز لاٰبائک مالا یجوز لغیرھم (تیرے آباء کے لیے جائز ہے جو ان کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ۔ ت) ان کا امام صاف صاف لکھ چکا کہ بعض غیر انبیاء پر بھی (جن میں اس نے اپنے پیر اورپر دادا کو بھی داخل کیاہے ۔ ) بے وساطت انبیاء وحی باطنی آتی ہے جس میں احکام تشریعی اترتے ہیں وہ ایک جہت سے انبیاء کے پیرو اورایک جہت سے خو د محقق ہوتے وہ شاگرد انبیاء بھی ہیں اورہم استاد انبیاء بھی ، وہ مثل انبیاء معصوم ہیں۱؂۔(دیکھو صراط المستقیم مطبع ضیاء میرٹھ ص۳۸دو سطر اخیرتا ص۳۹سطر ۱۰،۱۱دوسطر اخیر ص ۴۱سطر ۵،۶تاص۴۲ سطر ۲و۳،۴)

 

 (۱؂صراط مستقیم حب ایمانی کا دوسرا ثمرہ کلام کمپنی تیرتھ داس روڈ کراچی ص۶۵)

( صراط مستقیم (فارسی )حب ایمان کا دوسرا ثمرہ المکتبۃ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور ص۳۴)

 

گمراہی بد دینی کا منہ کالا، پھر نبوت کیا کسی پیڑ کا نام ہے ، اللہ کی شان یہ کھلم کھلا اپنے استادوں پیروں کو نبی بنانے والے تو امام اورائمہ شریعت ، اورعلمائے سنت اس جرم پر کہ صیغہائے درود مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی کیوں کثرت کی معاذاللہ بدعتی بدنام ۔

 

ثانیاً : یہ قہرمانی حکم صرف حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود میں ہے یا خاندان امام الطائفہ کے ایجادات میں بھی کہ شاہ صاحب کی قول الجمیل جن کے لیے ضامن وکفیل ۔ اسی قول الجمیل میں اپنے اور اپنے پیران ومشائخ کے آداب طریقت واشغال ریاضت کی نسبت صاف لکھا کہ ہماری صحبت وسلوک آمیزی تو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک متصل ہے ۔ وان لم یثبت تعین الاٰداب ولا تلک الاشغال ۲؂ اگرچہ نہ ان خاص آداب کا نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثبوت ہے نہ ان اشغال کا۔

 

 (۲؂القول الجمیل گیارہویں فصل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۷۳)

 

شاہ عبدالعزیز صاحب حاشیہ میں فرماتے ہیں : ''اسی طرح پیشوا یان طریقت نے جلسات اور ہیأت واسطے اذکار مخصوصہ کے ایجا کئے ''۳؂۔

 

 (۳؂شفاء العلیل مع القول الجمیل چوتھی فصل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۱)

 

مولوی خرمعلی مصنف نصحیۃ المسلمین نے اسکے ترجمہ شفاء العلیل میں شاہ صاحب کا یہ قول نقل کر کے لکھا ہے :  ''یعنی ایسے امور کو مخالف شرع یا داخل بدعات سیئہ نہ سمجھنا چاہیے جیسا کہ بعض کم فہم سمجھتے ہیں''۴؂۔

 

 (۴؂شفاء العلیل مع القول الجمیل چوتھی فصل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۲)

 

اورسنئے اسی قول الجمیل میں اشغال مشائخ نقشبندیہ قدست اسرارہم تصور شیخ کی ترکیب لکھی ہے کہ : اذا غاب الشیخ عنہ یخیل صورتہ بین عینیہ بوصف المحبۃ والتعظیم فتفید صورتہ ماتفید صحبتہ۱؂۔ شیخ غائب ہوتو اس کی صورت اپنے پیش نظر محبت وتعظیم کے ساتھ تصور کرے جو فائدے اس کی صحبت دیتی تھی اب یہ صورت دے گی۔

 

(۱؂القول الجمیل چھٹی فصل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۸۲ و۸۱)

 

شفاء العلیل میں مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب نے نقل کیا: ''حق یہ ہے کہ سب راہوں سے یہ راہ زیادہ تر قریب ہے"۲؂۔

 

 (۲؂شفاء العلیل مع قول الجمیل چھٹی فصل ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۸۰)

 

مکتوبات مرز ا صاحب جانجاناں میں ہے (جنہیں شاہ ولی اللہ صاحب اپنے مکتوبات میں نفس ذکیہ قیم طریقہ احمدیہ داعی سنت نبویہ لکھتے ہیں ) : دعائے حز ب البحر وظیفہ صبح وشام وختم حضرات خواجگان قدس اللہ اسرارہم ہر روز بجہت حل مشکلا ت باید خواند۳؂۔ دعائے حزب البحر صبح وشام کا وظیفہ اورحضرات خواجگان قدس اللہ اسرارہم کا ختم شریف مشکلات کے حل کے لیے ہر روز پڑھنا چاہیے ۔ (ت)

 

(۳؂کلمات طیبات ملفوظات مظہر جان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۷۴)

 

ذرا اس صبح وشام وہر روز کے الفاظ پر بھی نظر رہے کہ وہی التزام ومداومت ہے جسے ارباب طائفہ وجہ ممانعت قرار دیتے ہیں یہ ان داعی سنت نے بدعت اوربدعت کا حکم دیا بلکہ اس ختم اور ختم مجددی کی نسبت انہیں مکتوبات میں ہے : بعد حلقہ صبح لازم گیرد۴؂۔ اس کے بعد صبح کے حلقے کو لازم قرار دے لیں ۔(ت)

 

 (۴؂کلمات طیبات ملفوظات مظہر جانان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۴۲)

 

انہیں میں ہے : بعد از حلقہ صبح براں مواظبت نمایند ۵؂۔ اس کے بعد صبح کے حلقے کی پابندی کرنی چاہیے ۔(ت)

 

 (۵؂کلمات طیبات ملفوظات مظہر جانان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۴۲)

 

سب جانے دو خود امام الطائفہ صراط مستقیم میں لکھتاہے : اشغال مناسبہ ہر وقت و ریاضات ملائمہ ہر قرن جدا جدا می باشد ولہذا محققان ہر وقت ازاکابر ہر طریق در تجدید اشغال کو ششہاکہ دہ اندبناء علیہ مصلحت دید وقت چناں اقتضاء کرد کہ یک باب ازیں کتاب برائے بیان اشغال جدیدہ کہ مناسب ایں وقت ست تعیین کرد شود ۱؂الخ۔ ہر وقت کے مناسب اعمال اورہرزمانے کے مطابق ریاضتیں مختلف ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اکابر میں سے ہر طریقے کے محققین نے اشغال واعمال میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی بایں وجہ جو مصلحت دیکھی یا حالات کا تقاضا ہوا اسی لئے اس کتاب کا ایک باب ایسے جدید اشغال کے لیے جو اپنے اپنے وقت کی مناسبت سے شروع کئے گئے متعین کیا گیا ہے ۔ (ت)

 

(۱؂صراط مستقیم مقدمۃ الکتاب المکتبۃ السلفیہ لاہور ص۷،۸)

 

للہ انصاف! یہ لوگ کیوں نہ بدعتی ہوئے ۔اورذرا تصور شیخ کی توخبریں کہئے جسے جناب شاہ صاحب مرحوم سب راہوں سے قریب تر راہ بتارہے ہیں، یہ ایمان تقویۃ الایمان پر ٹھیٹ بت پرستی تو نہیں یا یہ حضرات شریعت باطنہ اسمٰعیلی سے مستثنٰی ہیں۔

 

ثالثاً: بھلاحضور اقدس دافع البلاء مانح العطاصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دافع البلاء کہنا تو معاذاللہ شرک ہوا اب جناب شاہ ولی اللہ صاحب کی خبر لیجئے وہ اپنے قصیدہ نعتیہ اطیب النغم اور اس کے ترجمہ میں کیا بول بو ل رہے ہیں :  بنظر نمی آید مرامگر آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ جائے دست اندوہگین است در ہر شد تے۲؂ ۔   ہمیں نظر نہیں آتا مگر آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر مصیبت کے وقت غمخواری فرماتے ہیں۔(ت)

 

 (۲؂اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل اول تحت شعر معتصم المکروب فی کل غمرۃ مطبع مجتبائی دہلی ص۴)

 

پھر کہا : جائے پناہ گرفتن بندگان وگریزگاہ ایشاں دروقت خوف روزقیامت ۳؂۔ حضور قیامت کے دن خوفزدوں اورخوف سے بھاگنے والوں کی جائے پناہ ہیں۔ (ت)

 

 (۳؂اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل دوم تحت شعر ملاذعباداللہ ملجاء خوفہم مطبع مجتبائی دہلی ص۴)

 

پھر کہا: نافع تیرن ایشانست مردماں را زنز دیک ہجوم حوادث زماں ۴؂۔ زمانہ کے ہجوم کے وقت لوگوں کے لئے سب سے زیادہ نفع بخش ہیں ۔(ت)

 

 (۴؂اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل چہارم تحت شعر واحسن خلق اللہ خلقاًوخلقہ مطبع مجتبائی دہلی ص۶)

 

پھر کہا:  اے بہترین خلق خدا واے بہترین عطا کنندہ واے بہترین کسیکہ امیداودا شتہ شود برائے ازالہ مصیبتے ۱؂۔ اے خلق خد امیں بہترین ! اے بہترین عطاوالے اوراے بہترین شخصیت ، اورمصیبت کے وقت امیدوار کی مصیبت کو ٹالنے والے ۔ (ت)

 

 (۱؂اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل یازدہم تحت شعر وصلی علیک اللہ یا خیر خلقہ مطبع مجتبائی دہلی ص۲۲)

 

پھر کہا :  تو پناہ دہند ہ از ہجوم کردن مصیبتے ۲؂۔ آپ مصیبتوں کے ہجوم سے پناہ دینے والے ہیں ۔ (ت)

 

 (۲؂اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل یازدہم تحت شعر وانت مجیری من ہجوم ملمۃ الخ مطبع مجتبائی دہلی ص۲۲)

 

اپنے دوسرے قصیدہ نعتیہ ہمزیہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : آخر حالت مادح آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راوقتیکہ احساس کند نارسائی خود را از حقیقت ثنا آنست کہ ندا کند خوار وزار شدہ باخلاص درمناجات وبہ پناہ گرفتن بایں طریق اے رسول خدا عطائے ترامیخواہم روز حشر (الی قولہ ) توئی پناہ از ہربلا بسوئے تست رو آوردن من وبہ تست پناہ گرفتن من ودرتست امید داشتن من ۳؂اھ ملخصاً۔ حضور کی تعریف کرنے والا جب اپنی نارسائی کا احساس کرے تو حضور کو نہایت عاجزی اور اخلاص سے پکارے اورفریاد کرے اورحضور کی پناہ اس طرح چاہے کہ اے خدا کے رسول قیامت کے دن تیری عطا چاہتاہوں تو ہی میری ہر بلا کی پناہ ہے ۔ جبھی تو میں تیری طرف رجوع کرتاہوں اورتجھ سے پناہ کا طلب گار ہوں اورمیری امیدیں تجھ سے ہی وابستہ ہیں اھ ملخصاً۔(ت)

 

 (۳؂اطیب النغم فی مدح سید العرب والعجم فصل ششم تحت اشعار وآخر ما لما دحہ الخ مطبع مجتبائی دہلی ص۳۳ و۳۴)

 

یہی شاہ صاحب ہمعات میں زیر بیان نسبت اویسیہ لکھتے ہیں :  ازثمرات ایں نسبت رویت آں جماعت ست درمنام وفائدہا ایشاں یافتن ودرمہالک ومضائق سورت آں جماعت پددید آمدن وحل مشکلات وے بآں صورت منسوب شدن۱؂۔ اس نسبت کے ثمرات یہ ہیں کہ اس جماعت (اویسیہ)کی زیارت خواب میں ہوجاتی ہے اورہلاکت وتنگی کے اوقات میں وہ جماعت ظاہر ہوکر مشکلیں حل فرماتی ہے ۔ (ت)

 

 (۱؂ہمعات ہمعہ ۱۱ اکادیمیۃ الشاہ ولی اللہ الدہلوی حیدرآباد باکستان ص۵۹)

 

قاضی ثناء اللہ پانی پتی ان کے شاگرد رشید اورمرزا صاحب موصوف کے مرید تذکرۃ الموتٰی میں ارواح اولیائے کرام قدس اسرارہم کی نسبت لکھتے ہیں :  ارواح ایشاں از زمین وآسمان وبہشت ہرجا کہ خواہند ومیروند ودوستاں ومعتقداں را دردنیا وآخرت مددگاری میفرما یند ودشمناں راہلاک می سازند۲؂۔ ان کی ارواح زمین وآسمان اوربہشت سے ہر جگہ جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں اپنے دوستوں اورمعتقدوں کی دنیا اورآخرت میں مدد فرماتی ہیں اوردشمنوں کو ہلاک کرتی ہیں ۔(ت)

 

(۲؂تذکرۃ الموتٰی مطبع مجتبائی دہلی ص ۴۱)

 

اوردافع البلاء کس چیز کا نام ہے ۔ مرزاصاحب کے ملفوظات میں ہے :  نسبت مابجناب امیر المومنین علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ میر سند وفقیر رانیاز خاص بآنجناب ثابت ست دروقت عروض عارضہ جسمانی توجہ بآنحضرت واقع می شود وسبب حصول شفا میگردد۳؂۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے میری نسبت خاص وجہ سے ہے کہ فقیر کو آنجناب سے خاص نیاز حاصل ہے اورجس وقت کوئی عارضہ بیماری جسمانی پیش ہوتی ہے میں آنجناب کی طرف توجہ دیتاہوں جو باعث شفا ہوجاتی ہے ۔(ت)

 

(۳؂کلمات طیبات ملفوظات مرز امظہر جان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۷۸)

 

ذرا اس ''نیاز خاص''پر بھی نظر رہے ۔ یہی داعی سنت نبویہ فرماتے ہیں : التفات غوث الثقلین بحال متوسلان طریقہ علیہ ایشاں بسیار معلوم شد باہیچکس از اہل ایں طریقہ ملاقات نشدہ کہ توجہ مبارک بآنحضرت بحالش مبذول نیست ۴؂۔ حضور غوث الثقلین اپنے تمام متوسلین کے حالات کی طرف توجہ رکھتے ہیں کوئی ان کا مرید ایسا نہیں کہ اس کی طرف آنجناب کی توجہ نہ ہو۔ (ت)

 

(۴؂کلمات طیبات ملفوظات مرز امظہر جان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۸۳)

 

ذرا اس عبارت کے تیور دیکھئے اورلفظ مبارک ''غوث الثقلین ''بھی ملحوظ خاطر رہے اس کے یہی معنی ہے نا کہ انس وجن سب کی فریاد کو پہنچنے والے ۔

 

اورسنئے یہی نفس ذکیہ فرماتے ہیں :  ہمچنیں عنایت حضرت خواجہ نقشبند بحال معتقدان خود مصروف است مغلاں درصحرا یاوقت خواب اسباب واسپان خودبحمایت حضرت خواجہ می سپارند وتائیدات از غیب ہمراہ ایشاں می شود ۱؂۔ ایسا ہی حضرت خواجہ نقشبند اپنے معتقدین کے حالات میں ہمیشہ مصروف رہتے ہیں چرواہے اورمسافر جنگل میں یا نیند کے وقت اپنے اسباب اورچوپائے گھوڑے وغیرہ حضور خواجہ نقشبند کے سپر دکردیتے غیبی تائید ان کے ساتھ ہوتی ہے ۔ (ت)

 

(۱؂کلمات طیبات ملفوظات مرز امظہر جان جاناں مطبع مجتبائی دہلی ص۸۳)

 

اب تو شرک کا پانی سر سے اوپر ہوگیا ، ایمان سے کہیوتمہارے ایمان پر کتنا بڑا بھاری شرک ہے جس پر مدد غیبی نازل ہوتی اوریہ بات حضرت خواجہ قدس سرہ العزیز کے مدائح میں گنی جاتی ہے ، خدا کرے اس وقت کہیں تمہیں حدیث اعوذبعظیم ھٰذاالوادی ۲؂۔ (میں اس وادی کے حکمران کی پناہ چاہتاہوں ۔ ت)

 

 (۲؂المعجم الکبیر حدیث ۴۱۶۶ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۴ /۲۲۱)

(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ ذکر تحریم بن فائک دارالفکر بیروت ۳ /۶۲۱)

 

یا آیہ کریمہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن ۳؂۔ (آدمیوں میں کچھ مرد جنوں کے کچھ مردوں کے پناہ لیتے تھے ۔ت) یا د آجائے ،

 

 (۳؂القرآن الکریم ۷۲ /۶)

 

پھر جناب مرزا صاحب اور ان کے مداح جناب شاہ صاحب کا مزہ دیکھئے ، آخر تمہارا امام بھوت پریت جن پری اوراولیاء شہداء سب کو ایک ہی درجہ میں مان رہا ہے ، مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیزی میں اکابر اولیاء کا حال بعد انتقال لکھتے ہیں :  دریں حالت ہم تصرف دردنیا دادہ واستغراق آنہا بجہت کمال وسعت مدارک آنہا مانع توجہ بایں سمت نمی گرددواویسیاں تحصیل مطلب کمالات باطنی از انہامی نمایند وارباب حاجات ومطالب حل مشکلات خود ازانہامی طلبند ومی یابند۱؂۔ اولیاء اللہ بعد انتقال دنیا میں تصرف فرماتے ہیں اوران کے استغراق کا کمال اورمدارج کے رفعت ان کو اس سمت توجہ دینے کی مانع نہیں ہے اویسی اپنے کمالات باطنی کا اظہار فرماتے ہیں اورحاجت مند لوگ اپنی مشکلات کا حل اورحاجت روائی انہیں سے طلب کرتے ہیں اوراپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ (ت)

 

(۱؂تفسیر فتح العزیزتحت آیۃ ۸۴ /۱۸ مطبع مسلم بکڈپو لال کنواں دہلی پارہ عم ص۲۰۶)

 

ذرا یہ ''دنیا میں اولیاء کا تصرف بعد انتقال ''ملحوظ رہے اورحل مشکل ودفع بلا میں کتنا فرق ہے ۔ (یا علی مشکل کشا مشکلکشا)

 

اورتحفہ اثناعشریہ میں تو ا س سے بھی بڑھ کر جان نجدیت پر قیامت توڑگئے ، فرماتے ہیں : حضرت امیر وذریۃ طاہرہ او درتمام امت برمثال پیران ومرشد ان می پرستند وامور تکوینیہ را بایشاں وابستہ میدانندوفاتحہ ودرود وصدقات ونذر بنام ایشاں رائج ومعمول گردیدہ چنانچہ جمیع اولیاء اللہ ہمیں معاملہ است ۲؂۔ حضرت امیر یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اوران کی اولاد طاہرہ کو تمام افراد امت پیروں مرشدوں کی طرح مانتے ہیں اورتکوینی امور کو ان حضرات کے ساتھ وابستہ جانتے ہیں اورفاتحہ اوردرود وصدقات اورنذورنیاز انکے نام ہمیشہ کرتے ہیں ، چنانچہ تمام اولیاء اللہ کا یہی حال ہے ۔(ت)

 

 (۲؂تحفہ اثناء عشریہ باب ہفتم درامامت سہیل اکیڈیمی لاہور ص۲۱۴)

(تحفہ مطبوعہ کلکتہ ۱۲۴۳ھ آخر ص۳۹۶واول ۳۹۷)

 

کیوں صاحبو! یہ کتنے برے شرکہا ئے اکبر واعظم ہیں کہ شاہ صاحب جن پر اجماع امت بتارہے ہیں ، اب تو عجب نہیں کہ روافض کی طرح امت مرحومہ کو معاذاللہ امت ملعونہ لقب دیجئے بھلا دفع بلا بھی امور تکوینیہ میں ہے یا نہیں جو دامن پاک حضرت مولی  علی واہلبیت کرام سے وابستہ ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ سید ھم ومولاھم وعلیہم وبارک وسلم۔

 

طرفہ تر سنئے ، شاہ ولی اللہ صاحب کے انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے روشن کہ شاہ صاحب والا مناقب اورانکے بارہ اساتذہ  علم حدیث ومشائخ طریقت جن میں مولانا ابو طاہر مدنی اوان کے والد واستاذ پیر مولانا ابراہیم کردی اوران کے استاد مولانا احمد قشاشی اوران کے استاد مولانا احمد شناوی اورشاہ صاحب کے استاذالاستاذ مولانا احمد نخلی وغیرہم اکابر داخل ہیں کہ شاہ صاحب کے اکثر سلاسل حدیث انہیں علماء سے ہیں جو اہر خمسہ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری علیہ الرحمۃ الباری وخاص دعائے سیفی کی اجازتیں لیتے اور اپنے مریدین ومعتقدین کو اجازت دیتے ۔

اعمال جواہر خمسہ ودعائے سیفی کا زمانہ اقدس حضور دافع البلاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تصنیف ہونے سے بدعت ، اور اس وجہ سے ان صاحبو ں کا بدعتی ومروج بدعت قرار پانا درکنار، اسی جواہر خمسہ کی سیفی میں وہ جوہر دار سیف خونخوار ، جسے دیکھ کر وہابیت بیچاری اپنا جوہرکرنے کو تیار ، وہ کیا کہ نادعلی کہ ایمان طائفہ پر شرک جلی ۔ جواہرخمسہ میں ترکیب دعائے سیفی میں فرمایا: نادعلی ہفت بار یاسہ بار یا یک بار بخواند و آن ایں ست ناد علیاًمظھر العجائب ، تجدہ عوناً لک فی النوائب ، کل ھم وغم سینجلی بولایتک یا علی یا علی یا علی ۱؂۔ ناد علی سات بار یا تین بار یا ایک بار پڑھنا چاہئے ، اوروہ یہ ہے : علی (رضی ا للہ عنہ )کو پکار جن کی ذات پاک مظہر عجائب ہے ، جب تو انہیں پکارے گا انہیں مصائب وافکار میں اپنا مددگارپائے گا ہر پریشانی وغم فوراً دور ہوجاتاہے آپ کی مدد سے یا علی یا علی یا علی ۔(ت)

 

 (۱؂جواہر خمسہ مترجم اردو مرزا محمد بیگ نقشبندی دارالاشاعت کراچی ص  ۲۸۲  و۴۵۳)

 

یعنی پکار علی مرتضٰی (کرم اللہ وجہہ)کو کہ مظہر عجائب ہیں تو انہیں اپنا مددگار پائے گا ۔ مصیبتوں میں ، سب پریشانی وغم اب دورہوتے جاتے ہیں حضور کی ولایت سے یا علی یا علی یا علی ۔

 

ذرا اب شرک طائفہ کا مول تول کہئے ، اس نفیس سند کی قدرے تفصیل درکار ہوتو فقیر کے رسائل ''انھارالانوار من یم صلٰوۃ الاسرار''(ف۱) و''حیاۃ الموات فی بیان سماع الاموات ''(ف۲) و ''انوار الانتباہ فی حل ندا ء یارسول اللہ ''(ف۳) ملاحظہ ہوں ۔ ہے یہ کہ ان خاندانی اماموں نے طائفہ کی مٹی اوربھی خراب کی ہے وللہ الحمد۔

 

ف۱ : رسالہ انہار الانوار من یم صلوٰۃ الاسرار فتاوی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ ، لاہور جلد ہفتم میں ص ۵۶۹پر موجود ہے ۔

ف۲ :  رسالہ حیاۃ الموات فی بیان سماع الاموات فتاوٰ ی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ ،لاہور ، جلد نہم میں ص ۶۷۵پر موجود ہے ۔

ف۳ : رسالہ انوار الانتباہ فی حل ندا ء یا رسول اللہ فتاوی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور جلد۲۹میں ص ۵۴۹ پر موجود ہے ۔

 

کیوں صاحبو!یہ سب حضرات بھی ایمان طائفہ پر مشرک ، بے ایمان ، واجب العذاب، مستحیل الغفران تھے یا تقویۃ الایمان کی آیتیں حدیثیں امام الطائفہ کا کنبہ چھوڑ کر باقی علمائے اہلسنت ہی کو مشرک بدعت بنانے کے لئے اتری ہیں۔ اللہ ایمان وحیابخشے ۔ آمین ۔

 

غرض ان حضرات کے مقابل شاید ایسے ہی گرم دودھوں سے کچھ کام چلے جنہیں نہ نگلتے بنے نہ اگلتے ۔ وللہ الحجۃ الساطعۃ ۔

 

فائدہ زاہرہ

 

خیر ، یہ تو اجمالاً ان حضرات کی خدمت گزاری تھی ، اوربدعت کی بحث تو علمائے سنت بہت کتب میں غایت قصوٰی تک پہنچا چکے ومن احسن من فصلہ وحققہ خاتم المحققین سیدناالوالدرضی اللہ عنہ المولٰی الماجد فی کتابہ الجلیل المفاد''اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد''  (خاتم المحققین سیدنا والد ماجد رضی اللہ عنہ نے اپنی جلیل ومفید کتاب ''اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد''میں اس کی تحسین وتفصیل وتحقیق کی ہے ۔ت)

 

فقیر غفراللہ تعالٰی نے بھی اپنے رسالہ ''اقامۃ القیامہ علی طاعن القیام لنبی تھامہ''وغیرہا رسائل میں بقدر کافی نکات چیدہ گزارش کئے اوراپنے رسالہ ''منیر العین فی حکم تقبیل الابھا مین ''(ف) وغیرہا میں خاندان مذکور کے بکثرت ایجادو احداث لکھے کہ اس نو تصنیفی کی صفرا شکنی کو بس ہیں اورحضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وبا وبلاوقحط ومرض والم کو دفع فرمانے کے جزئیات ووقائع جو احادیث میں مروی ان کے جمع کرنے کی ضرورت نہ حصر کی قدرت، ان میں سے بہت سے بحمدللہ تعالٰی کتب وخطب علماء میں مسلمانوں کے کانوں تک پہنچ چکے اوراب جو چاہے کتب سیر وخصائص ومعجزات مطالعہ کرے ۔

 

ف :  رسالہ ''منیر العین فی حکم تقبیل الابھا مین ''فتاوی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور جلد پنجم صفحہ ۴۲۹ پر موجود ہے ۔ رسالہ ''اقامۃ القیامۃ ''جلد ۲۶ص۴۹۵ پر موجود ہے ۔

 

نکتہ جلیلہ کلیہ

 

مگرفقیر غفراللہ تعالٰی لہ ایک نکتہ جلیلہ کلیہ بغایت مفید القاکرے کہ ان شاء اللہ تعالٰی تمام شرکیات وہابیہ کی بیخ کنی میں کافی ووافی کام دے ، مسلمانو!کچھ خبر بھی ہے ان حضرات کا لفظ دافع البلاء اوراس کے مثال کو شرک بتا نے بلکہ یہ بات بات پرشرک پھیلانے سے اصل مدعا کیا ہے وہ ایک دائے باطنی ومرض خفی ہے کہ اکثر عوام بیچاروں کی نگاہ سے مخفی ہے ان نئے فلسفوں پرانے فیلسوفوں کے نزدیک شرک امور عامہ سے ہے کہ عالم میں کوئی موجود اس سے خالی نہیں یہاں تک کہ معاذاللہ حضرات علیہ انبیائے کرام وملٰئکہ عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام تاآنکہ عیاذاًباللہ خود حضرت رب العزۃ وحضور پر نور سلطان رسالت علیہ افضل الصلوٰۃ والتحیۃ ، ولہذا امام الطائفہ نے جابجا وبیجا مسائل جی سے گھڑے کہ یہ ناپاک چھینٹا وہاں تک بڑھے ، جس کی بعض مثالیں مجموعہ فتاوٰی فقیر ''العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ '' کی جلد ششم ''البارقۃ الشارقہ علی مارقۃ المشارقہ '' میں ملیں گی ، ان کی تفصیل سے تطویل کی حاجت نہیں ، یہ حضرات کہ اس امام کے مقلد ہیں انا علی اٰثارھم  مقتدون۱؂  (ہم ان کی لکیر کے پیچھے ہیں۔ت) پڑھتے ہوئے اسی ڈگر ہوئے ، یہ حکم شرک بھی اسی دبی آگ کا دھواں دے رہا ہے، اجمال سے نہ سمجھو تو مجھ سے مفصل سنو۔

 

 (۱؂القرآن الکریم ۴۳ /۲۳)

 

اقول : وباللہ التوفیق ، نسبت واسناد دوقسم ہے : حقیقی کہ مسند الیہ حقیقت سے متصف ہو۔

اورمجازی کہ کسی علاقہ سے غیر متصف کی طرف نسبت کردیں جیسے نہر کو جاری یا حابس سفینہ کو متحرک کہتے ہیں ، حالانکہ حقیقۃً آب وکشتی جاری متحرک ہیں۔

پھر حقیقی بھی دو قسم ہے : ذاتی کہ خود اپنی ذات سے بے عطائے غیر ہو، اورعطائی کہ دوسرے نے اسے حقیقۃً متصف کردیا ہو خواہ وہ دوسرا خود بھی اس وصف سے متصف ہو جیسے واسطہ فی الثبوت میں ، یانہیں جیسے واسطہ فی الاثبات میں ۔ ان سب صورتوں کی اسنادیں تمام محاورات عقلائے جہاں واہل ہر مذہب وملت وخود قرآن وحدیث میں شائع وذائع ، مثلاً انسان عالم کو عالم کہتے ہیں ، قرآن مجید میں جابجا اولوالعلم وعلمؤابنی اسرائیل اورانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی نسبت لفظ علیم وارد ، یہ حقیقت عطائیہ ہے یعنی بعطائے الہٰی وہ حقیقۃً متصف بعلم ہیں، اورمولٰی عزوجل نے اپنے نفس کریم کو علیم فرمایا یہ حقیقت ذاتیہ ہے کہ وہ بے کسی کی عطا کے اپنی ذات سے عالم ہے ۔ سخت احمق وہ کہ ان اطلاقات میں فرق نہ کرے۔ وہابیہ کے مسائل شرکیہ استعانت وامداد وعلم غیب وتصرفات ونداوسماع فریاد وغیرہا ایسے فرق نہ کرنے پر مبنی ہیں ۔ فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے اس بحث شریف میں ایک نفیس رسالہ کی طرح ڈالی ہے اس میں متعلق نزاعات وہابیہ صدہا اطلاقات کو آیات واحادیث سے ثابت اوراحکام اسنادات کو مفصل بیان کرنے کا قصد ہے ان شاء اللہ تبارک وتعالٰی حضور پر نور ، معطی البہار والسرور ، دافع البلاء والشرور، شافع یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دافع البلاء کہنا بھی بمعنی حقیقی عطائی ہے مخالف متعسف کو یوں توفیق تصدیق نہ ہو تو فقیر کا رسالہ ''سلطنۃ المصطفٰی فی ملکوت کل الورٰی '' مطالعہ کرے کہ بعونہٖ تعالٰی تحقیق وتوثیق کے باغ لہکتے نظر آئیں اورایمان وایقان کے پھول مہکتے ، خیر یہاں اس بحث کی تکمیل کا وقت نہیں تنزیلاً یہی سہی کہ احد الامرین سے خالی نہیں نسبت حقیقی عطائی ہے یا ازانجاکہ حضور سبب ووسیلہ وواسطہ دفع البلاء ہیں لہذا نسبت مجازی ، رہی حقیقی ذاتی حاشا کہ کسی مسلمان کے قلب میں کسی غیر خدا کی نسبت اس کا خطرہ گزرے۔

 

امام علامہ سیدی تقی الملۃ والدین علی بن عبدالکافی سبکی قدس سرہ الملکی  (جن کی امامت وجلالت محل خلاف وشبہت نہیں ، یہاں تک کہ میاں نذیر حسین دہلوی اپنے ایک مہری مصدق فتوٰی میں انہیں بالاتفاق امام مجتہد مانتے ہیں )کتاب مستطاب شفاء السقام شریف میں ارشاد فرماتے ہیں : لیس المراد نسبۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الی الخلق والاستقلال بالافعال ھذا لایقصدہ مسلم فصرف الکلام الیہ ومنعہ من باب التلبیس فی الدین والتشویش علی عوام المؤحدین۱؂۔ یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مدد مانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ حضور خالق وفاعل مستقل ہیں یہ تو کوئی مسلمان ارادہ نہیں کرتا، تو اس معنی پرکلام کو ڈھالنا اورحضور سے مدد مانگنے کو منع کرنا دین میں مغالطہ دینا اورعوام مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔

 

 (۱؂شفاء السقام الباب الثامن فی التوسل والاستغاثہ الخ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۱۷۵)

 

صدقت یا سید ی جزاک اللہ عن الاسلام والمسلمین خیراً، اٰمین  (اے میرے آقا!آپ نے سچ فرمایا ، اللہ تعالٰی آپ کو اسلام اورمسلمانوں کی طرف سے جزاء خیر عطافرمائے ۔ت)

 

فقیر کہتاہے ایک دفع بلاء وامداد وعطاہی پر کیا موقوف مخلوق کی طرف اصل وجود ہی کی اسنادبمعنی حقیقی ذاتی نہیں پھر عالم کو موجود کہنے میں وہابیہ بھی ہمارے شریک ہیں کیا ان کے نزدیک عالم بذاتہٖ موجود ہے یا جو فسطائیہ کی طرح عقیدہ حقائق الاشیاء ثابتۃ  (اشیاء کی حقیقت ثابت ہے ۔ت) سے منکر ہیں اورجب کچھ نہیں توکیا ظلم ہے کہ جو محاورے صبح وشام خود بولتے رہیں مسلمانوں کے مشرک بنانے کو ان کی طرف سے آنکھیں بندکرلیں ، کیا مسلمان پر بدگمانی حرام قطعی نہیں ، کیا اس کی مذمت پر آیات قرآنیہ واحادیث صحیحہ ناطق نہیں بلکہ انصاف کی آنکھ کھلی ہوتو اس ادعائے خبیث کا درجہ تو بدگمان سے بھی گزرا ہوا ہے ، سوئے ظن کے لئے اس گمان کی گنجائش تو چاہیے ، مسلمان کے بارہ میں ایسے خیال کا احتمال ہی کیا ہے اس کا موحد ہونا ہی اس کی مراد پر گواہ کافی ہے کما لایخفی عند کل من لہ عقل ودین (جیسا کہ کسی صاحب عقل ودین پر پوشیدہ نہیں۔ت)

 

فتاوی خیریہ کتاب الایمان میں ہے : سئل فی رجل حلف انہ لایدخل ھذہ الدار الا ان یحکم علیہ الدھر فدخل ھل یحنث اجاب لاوھذا مجاز لصدورہ من الموحد واذا دخل فقد حکم ای قضٰی علیہ رب الدھر بدخولہا وھو مستثنی فلا حنث ۱؂اھ بتلخیص ۔ ایک شخص کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس نے قسم کھائی ہے کہ جب تک مجھے دہر حکم نہیں دے گا میں اس گھر میں داخل نہیں ہوں گا ، اوروہ داخل ہوگیا، کیا وہ قسم توڑنے والا ہے یا نہیں، اس کا جواب یہ تحریر ہے کہ حانث نہیں ہوا، یہ کلمہ مجازی ہے ، موحد جو خدا کو ایک مانتا ہے اس سے شرک کا صدور ناممکن ہے ۔ جب داخل ہوا تو رب الدہر یعنی خدا کے حکم سے داخل ہوا، اس لئے وہ حانث نہیں ہوا اھ ملخصاً(ت)

 

 (۱؂الفتاوی الخیریۃ  کتاب الایمان  دارالمعرفۃ بیروت  ۱ /۸۱)

 

توایسا ناپاک ادعابدگمانی نہیں صریح افترا ہے ، وہ بھی مسلمان پر وہ بھی کفر کا ، مگر قیامت تو نہ آئیگی ، حساب تو نہ ہوگا ، ان خبائث کے دعووں سے سوال تو نہ کیا جائے گا، مسلمان کی طرف سے لاالہٰ الا الہ جھگڑتا ہوا  نہ آئے گا ۔ ستمگر !جواب تیار رکھ اس سختی کے دن کا ، وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۲؂۔  (اور اب جاناچاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے ۔ت )

 

(۲؂القرآن الکریم ۲۶ /۲۲۷)

 

بالجملہ اس احتمال کو  یہاں راہ ہی نہیں بلکہ انہیں دو سے ایک مراد بالیقین یعنی اسناد غیر ذاتی کسی قسم کی ہو اب جو اسے شرک کہا جاتاہے تو اس کی دو ہی صورتیں متصور بنظر مصداق(عہ) نسبت یا بنفس حکایت ۔

 

عہ: فرق یہ کہ اول میں حکم منع حکایت بنظر بطلان وعدم مطابقت ہوگا یعنی واقعہ میں موضوع ایسے صفت سے متصف ہی نہیں جو اس حکایت کا مصحح ہو ، اوردوم میں حکایت خود ہی محذور ہوگی اگر صادق ہوکہ صدق وصحت اطلاق الزام نہیں ،

 

الاترٰی انانؤمن بان محمداً صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اعز عزیز واجل جلیل من خلق اللہ عزوجل ولکن لایقال محمد عزوجل بل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارااعتقاد ہے کہ محمد صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم مخلوق الہٰی میں ہر عزیز سے بڑھ کر عزیز اورہر جلالت والے سے بڑھ کر جلیل ہیں مگر محمد عزوجل نہیں کہا جاتابلکہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہا جاتاہے ۔ (ت)

 

تو درجہ اول میں ہمیں یہ بیان کرنا ہے کہ اسناد غیر ذاتی کا مطلقاً متحقق ، اوردوم میں یہ کہ یہ اطلاق یقینا جائز ۔ پر ظاہر کہ دلائل وجہ دوم سب دلائل وجہ اول بھی ہیں کہ حکایات الہٰیہ ونبویہ قطعاًصادق ۔ لہذا ہم انہیں جانب کثرت بقلت توجہ کریں گے نصوص وجہ ثانی بکثرت لائیں گے وباللہ التوفیق ۱۲منہ دامت فیوضہ۔

 

اول یہ کہ غیر خدا کے لیے ایسا اتصاف ماننا ہی مطلقا شرک اگرچہ مجازی ہو ،جس کا حاصل اس مسئلہ میں یہ کہ حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم دفع بلا کے سبب ووسیلہ وواسطہ بھی نہیں کہ مصداق نسبت کسی طرح متحقق جو غیر خدا کو ایسے امور میں سبب ہی مانے وہ بھی مشرک ۔

دوم یہ کہ ایسی نسبت وحکایت خاص بذاتہ حدیت جل وعلا ہے غیر کے لئے مطلقا شرک اگرچہ اسناد غیر ذاتی مانے ،آدمی اگر عقل وہوش سے کچھ بہرا رکھتا ہو تو غیر ذاتی کا لفظ آتے ہی شرک کا خاتمہ ہوگیا کہ جب بعطائے الہی مانا تو شرک کے کیا معنی برخلاف اس طاغی سرکش کےجو عقل کی آنکھ پر مکابرہ کی پٹی باندھ کر صاف کہتا ہے پھر خواہ یوں سمجھے کہ یہ بات ان کو اپنی ذات سے ہے خواہ اللہ کے دینے سے غرض اس عقیدے سے ہر طرح شرک ثابت ہوتا ہے۱؂ ۔

 

(۱؂تقویۃ الایمان ،پہلا باب ،مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۷)

 

کسی سفیہ مجنوں سے کیا کہا جائے گا کہ صفت الہی بعطائے الہی نہیں تو جو بعطائے الہی ہے صفت الہی نہیں ،تو اس کا اثبات اصلا کسی صفت الہی کا اثبات بھی نہ ہوا نہ کہ خاص صفت ملزومہ الوہیت کا کہ شرک ثابت ہو بلکہ یہ تو بالبداہۃ صفت ملزومہ عبدیت ہوئی کہ بعطائے غیر کسی صفت کا حصول تو بندہ ہی کے لئے معقول تو اس کا اثبات صراحتا عبدیت کا اثبات ہوا نہ کہ معاذ اللہ الوہیت کا ،ایک یہی حرف تمام شرکیات وہابیہ کو کیفر چشانی کے لئے بس ہے ،مگر مجھے تو یہاں وہ بات ثابت کرنی ہے جس پر میں نے یہ تمہید اٹھائی ہے یعنی ان صاحبوں کا حکم شرک اللہ ورسول تک متعدی ہونا،ہاں اس کا ثبوت لیجئے ابھی بیان کرچکا ہوں کہ اس حکم ناپاک کے لئے دو ہی وجہیں متصور ،ان میں سے جو وجہ لیجئے ہر طرح یہ حکم معاذ اللہ ورسول تک منجر جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔

 

با ب اول

 

وجہ اول پر نصوص سنئے اس میں چھ آیتیں اور ساٹھ حدیثیں ،جملہ چھیاسٹھ نص ہیں ۔

 

فصل اول آیات کریمہ میں

 

ۤآیت ۱: قال اللہ عزوجل  ، وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم ۱؂۔ اللہ ان کافروں پر عذاب نہ فرمائے گا جب تک اے محبوب ! تو ان میں تشریف فرما ہے ۔

 

(۱؂ القران الکریم ۸ /۳۳)

 

سبحان اللہ ! ہمارے حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کفار پر سے بھی سبب دفع بلا ءہیں کہ مسلمانوں پر تو خاص رؤف ورحیم ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔

 

آیت ۲: وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین ۲؂۔  ہم نے نہ بھیجا تمھیں مگر رحمت سارے جہان کیلئے ۔

 

 (۲؂القران الکریم   ۲۱ /۱۰۷)

 

پر ظاہر کہ رحمت سبب دفع بلا وزحمت (جو خوب ظاہر ہے کہ رحمت سبب ہے مصیبت وزحمت کی دوری کا ۔ت)

 

آیت ۳: ولوانھم اذ ظلموا انفسہم جاءو ک واستغفروااللہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما ۳؂۔ اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے حضور حاضر ہوں پھر اللہ سے بخشش چاہیں اور معافی مانگیں ان کے لئے رسول ،تو بیشک اللہ کو توبہ کرنے والا مہربان پائیں ۔

 

 (۳؂القران الکریم ۴ /۶۴)

 

آیۃ کریمہ صاف ارشا د فرماتی ہے کہ حضور پر نور عفو غفور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری سبب قبول توبہ ودفع بلائے عذاب ہے ،بلکہ آیت بیمار دلوں پر اور بھی بلا وعذاب کہ رب العزت قادر تھا یونہی گناہ بخش دے مگر ارشاد ہوتا ہے کہ قبول ہونا چاہو تو ہمارے پیارے کی سرکا ر میں حاضر ہو صلی اللہ تعالی علیہ وسلم والحمد للہ رب العالمین ۔

 

آیت ۴: ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لھدمت صوامع۱؂۔ اگراللہ تعالی آدمیوں کو آدمیوں سے دفع نہ فرمائے تو ہر ملت ومذہب کی عبادت گاہ ڈھادی جائے۔

 

(۱؂القران الکریم ۲۲ /۴۰)

 

آیت۵ : ولو لادفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض ولٰکن اللہ ذو فضل علی العٰلمین ۲؂۔ اگر نہ ہوتا دفع کرنا اللہ عزوجل کا لوگوں کو ایک دوسرے سے تو بیشک تباہ ہو جاتی زمین مگر اللہ فضل والا ہے سارے جہان پر۔

 

 (۲؂القرآن الکریم ۲ / ۲۵۱)

 

ائمہ مفسرین فرماتے ہیں : اللہ تعالٰی مسلمان کے سبب کافروں اورنیکوں کے باعث بدوں سے بلادفع کرتا ہے ۔

 

آیت ۶: ولو لارجال مؤمنون ونساء مؤمنٰت لم تعلموھم ان تطؤھم فتصیبکم منہم معرۃ بغیر علم لیدخل اللہ فی رحمتہ من یشاء لو تزیلوا لعذبنا الذین کفروا منھم عذابا الیما ۳؂۔ اوراگر نہ ہوتے ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں جن کی تمہیں خبر نہیں کہیں تم انہیں روندڈالو تو ان سے تمہیں انجانی میں مشقت پہنچے تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت میں لے لے وہ اگر الگ ہوجاتے تو ہم ان میں سے کافروں کو دردناک عذاب دیتے ۔

 

(۳؂القرآن الکریم ۴۸ /۲۵)

 

یہ فتح مکہ سے پہلے کا ذکر ہے جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عمرے کے لئے مکہ معظمہ تشریف لائے ہیں اورکافروں نے مقام حدیبیہ میں روکا شہر میں نہ جانے دیاصلح پر فیصلہ ہوا ظاہر کی نظر میں اسلام کے لیے ایک دبتی ہوئی بات تھی اورحقیقت میں ایک بڑی فتح نمایاں تھی جسے اللہ عزوجل نے انا فتحنالک فتحامبینا۱؂۔  (بےشک ہم نے تمہارے لئے روشن فتح فرمادی ۔ت)

 

(۱؂القرآن الکریم ۴۸ /۱)

 

فرمایا اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کی تسکین کو یہ آیت نازل فرمائی کہ اس سال تمہیں داخل مکہ نہ ہونے دینے میں کئی حکمتیں تھیں مکمہ معظمہ میں بہت مردوعورت مغلوبی کے سبب خفیہ مسلمان ہیں جن کی تمہیں خبر نہیں تم قہراً جاتے تو وہ بھی تیغ وبند کے روندنے میں آجاتے اوران کے سوا بھی وہ لوگ ہیں جو ہنوزکافر ہیں اورعنقریب اللہ تعالٰی انہیں اپنی رحمت میں لے گا اسلام دے گا ان کا قتل منطور نہیں ان وجوہ سے کفار مکہ پر سے عذاب قتل وقہر موقوف رکھاگیا یہ سب لوگ الگ ہوجاتے تو ہم ان کافروں پر عذاب فرماتے ۔کیسا صریح روشن نص ہے کہ اہل اسلام کے سبب کافروں پر سے بھی بلادفع ہوتی ہے وللہ الحمد۔

 

فصل دوم احادیث عظیمہ میں

 

حدیث ۱: کہ رب العزت جل وعلافرماتاہے : انی لاھم باھل الارض عذابا فاذا نظرت الی عماربیوتی والمتحابین فیّ والمستغفرین بالاسحارصرفت عنھم ۔ البھیقی فی الشعب عن انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال ان اللہ تعالٰی یقول الحدیث۲؂۔ میں زمین والوں پر عذاب اتارنا چاہتاہوں جب میرے گھر آباد کرنے والے اورمیرے لئے باہم محبت رکھنے والے اورپچھلی رات کو استغفار کرنے والے دیکھتاہوں اپنا غضب ان سے پھیر دیتاہوں ۔ (بیہقی نے شعب الایمان میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کہ فرمایااللہ تعالٰی یہ حدیث بیان فرماتاہے ۔ت)

 

 (۲؂شعب الایمان حدیث ۹۰۵۱دارالکتب العلمیۃ بیروت    ۶ /۵۰۰)

(کنزالعمال حدیث ۲۰۳۴۳مؤسسۃ الرسالہ بیروت     ۷/ ۵۷۹)

 

حدیث ۲ : کہ حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : لولاعباد للہ رکع وصبیۃ رضع وبھائم رتع تصب علیکم العذاب صبا ثم رض رضّا۔الطبرانی۱؂ فی الکبیروالبیہقی فی السنن عن مسافع ن الدیلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ اگر نہ ہوتے اللہ تعالٰی کے نماز ی بندے اور دود ھ پیتے بچے اورگھاس چرتے چوپائے تو بیشک عذاب تم پر بسختی ڈالا جاتا پھر مضبوط ومحکم کردیا جاتا(طبرانی نے کبیر میں اوربیہقی نے سنن میں مسافع الدیلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ ت)

 

 (۱؂السنن الکبری للبیہقی کتاب صلٰوۃ الاستسقاء باب استحباب الخروج الخ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ دکن ۳/ ۳۴۵)

( المعجم الکبیر حدیث۷۸۵المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت      ۲۲ /۳۰۹)

 

حدیث ۳: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ان اللہ تعالٰی لیدفع بالمسلم الصالح عن مائۃ اھل بیت من جیرانہ البلاء ۔ بیشک اللہ عزوجل نیک مسلمان کے سبب اس کے ہمسائے میں سو گھروں سے بلادفع فرماتاہے ۔

 

ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہمانے یہ حدیث روایت فرما کر آیہ کریمہ ولو لا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض تلاوت کی ۔

 

رواہ عنہ الطبرانی فی الکبیر۲؂ وعبداللہ بن احمد ثم البغوی فی المعالم ۔ طبرانی نے کبیر میں ابن عمر سے اورعبداللہ بن احمد پھر بغوی نے معالم میں اس کو روایت کیا ۔ت)

 

(۲؂معالم التنزیل (تفسیر البغوی )تحت الآیۃ   ۲ /۲۵۱   دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۷۷)

(الترغیب والترہیب بحوالہ الطبرانی الترہیب من اذی الجار حدیث ۳۹مصطفی البابی المصر ۳ /۳۶۳)

(الدرالمنثور تحت الآیۃ  ۲ /۲۵۱  داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۷۲۶)

 

حدیث ۴:  فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :  من استغفرللمؤمنین والمؤمنات کل یوم سبعاً وعشرین مرۃ کان من الذین یستجاب لھم ویرزق بھم اھل الارض ۔ الطبرانی فی الکبیر۱؂عن ابی الدرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند جید۔ جو ہر روز ستائیس بار سب مسلمان مردوں اورسب مسلمان عورتوں کے لئے استغفار کرے وہ ان لوگوں میں ہوجن کی دعا قبول ہوتی ہے اور ان کی برکت سے تمام اہل زمین کو رزق ملتا ہے (طبرانی نے کبیر میں ابو درداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سند جید کے ساتھ روایت کیا۔ ت)

 

(۱؂کنزالعمال حدیث۲۰۶۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱ /۴۷۶)

 

حدیث۵: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ھل تنصرون وترزقون الا بضعفائکم ۔ البخاری ۲؂عن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ کیا تمہیں مدد ورزق کسی اورکے سبب بھی ملتاہے سوائے اپنے ضعیفوں کے ۔ (بخاری نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)

 

 (۲؂صحیح البخاری کتاب الجہاد باب من استعان بالضعفاء الخ قدیمی کتب خانہ  ۱ /۴۰۵)

 

حدیث ۶: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :  ان اللہ ینصرالقوم باضعفھم ۔ الحارث فی مسندہ ۳؂عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ بیشک اللہ تعالٰی قوم کی مدد فرماتاہے ان کے ضعیف ترکے سبب ۔ حارث نے اپنی مسند میں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ۔ ت)

 

 (۳؂کنزالعمال حدیث ۱۰۸۸۲مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۴ /۳۵۷)

(الجامع الصغیر حدیث ۵۱۰دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۷)

 

حدیث ۷ : زمانہ اقدس میں دوبھائی تھے ایک کسب کرتے ، دوسرے خدمت والا ئے حضور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوتے ۔ کما نے والے ان کے شاکی ہوئے ، فرمایا : لعلک ترزق بہ ۔ الترمذی ۴؂وصححہ والحاکم عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ کیا عجب کہ تجھے اس کی برکت سے رزق ملے ۔(اسے ترمذی نے روایت کیا اوراس کی تصحیح کی ، اورحاکم نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)

 

 (۴؂سنن الترمذی کتاب الزہد حدیث ۲۳۵۲دارالفکر بیروت ۴ /۱۵۴)

(المستدرک للحاکم کتاب العلم خطبۃ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی حجۃ الوداع دارالفکر بیروت ۱ /۹۴)

 

حدیث۸: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : الابدال فی امتی ثلٰثون بھم تقوم الارض وبھم تمطرون وبہم تنصرون۔ الطبرانی ۱؂فی الکبیر عن عبادۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ بسندٍ صحیحٍ ۔ ابدال میری امت میں تیس ہیں انہیں سے زمین قائم ہے انہیں کے سبب تم پر مینہ اترتا ہے ۔ انہیں کے باعث تمہیں مدد ملتی ہے ۔ (طبرانی نے کبیر میں عبادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسند صحیح روایت کیا۔ت)

 

 (۱؂کنزالعمال بحوالہ عبادۃ ابن الصامت حدیث ۳۴۵۹۳مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۸۶)

(مجمع الزوائد ، باب ماجاء فی الابدال الخ دارالکتب بیروت ۱۰ /۶۳)

(الجامع الصغیر بحوالہ الطبرانی عن عبادۃ بن الصامت حدیث ۳۰۳۳دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۸۲)

 

حدیث ۹: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ابدال شام میں ہیں اور وہ چالیس ہیں جب ایک مرتا ہے اللہ تعالٰی اس کے بدلے دوسرا قائم کرتاہے ۔ یسقٰی بھم الغیث وینتصر بھم علی الاعداء ویصرف عن اھل الشام بھم العذاب ۔ احمد۲؂ عن علی کرم اللہ تعالٰی وجھہ بسند حسن۔ انہی کے سبب مینہ دیا جاتاہے ، انہیں سے دشمنوں پر مدد ملتی ہے ، انہیں کے باعث شام والوں سے عذاب پھیرا جاتاہے ۔ (امام احمد نے حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ سے بسند حسن روایت کیا ۔ ت)

 

 (۲؂مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۱۲)

 

دوسری روایت یوں ہے :  یصرف عن اھل الارض البلاء والغرق ۔ ابن عساکر ۳؂رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ انہیں کے سبب اہل زمین سے بلاء اورغرق دفع ہوتا ہے ۔(ابن عساکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روایت کیا۔ت)

 

 (۳؂تاریخ دمشق الکبیر باب ماجاء ان بالشام یکون الابدال داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۱۳)

 

حدیث ۱۰: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :ابدال شام میں ہیں ، بھم ینصرون وبھم یرزقون ۔ الطبرانی فی الکبیر ۱؂عن عوف بن مالک وفی الاوسط عن علی  المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما کلاھما بسند حسن۔ وہ انہیں کی برکت سے مدد پاتے ہیں اورانہیں کی وسیلہ سے رزق۔ (طبرانی نے کبیر میں عوف بن مالک سے اوراوسط میں علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے دونوں میں بسند حسن روایت کیا ۔ت)

 

 (۱؂المعجم الکبیر عن عوف بن مالک حدیث ۱۲۰ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۸ /۶۵)

 

حدیث ۱۱: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لن تخلوالارض من اربعین رجلا مثل ابراھیم خلیل الرحمن فیھم تسقون وبھم تنصرون ۔ الطبرانی فی الاوسط۲؂ عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند حسن ۔ زمین ہرگز خالی نہ ہوگی چالیس اولیاء سے کہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے پرتو پر ہوں گے، انہیں کے سبب تمہیں مینہ ملے گا اورانہیں کے سبب مدد پاؤ گے (طبرانی نے اوسط میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا۔ت)

 

 (۲؂المعجم الاوسط حدیث ۴۱۱۳ مکتبۃ المعارف ریاض ۵ /۶۵)

( کنزالعمال حدیث ۳۴۶۰۳مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۸۸)

 

حدیث ۱۲: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :  لن یخلو الارض من ثلٰثین مثل ابراھیم بھم تغاثون وبھم ترزقون وبھم تمطرون۔ ابن حبان ۳؂فی تاریخہ عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلٰوۃ  والثناء سے خُوبُو میں مشابہت رکھنے والے تیس شخص زمین پر ضرور رہیں گے ، انہیں کی بدولت تمہاری فریاد سنی جائے گی اورانہیں کے سبب رزق پاؤ گے اورانہیں کی برکت سے مینہ دئے جاؤ گے (ابن حبان نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)

 

(۳؂کنزالعمال بحوالہ حب فی تاریخہ عن ابی ہریرۃ حدیث ۳۴۶۰۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۸۷)

 

حدیث ۱۳: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لایزال اربعون رجلاً من امتی قلوبھم علی قلب ابراھیم یدفع اللہ بھم عن اھل الارض یقال لھم الابدال ۔ ابو نعیم فی الحلیۃ۱؂ عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ میری امت میں چالیس مرد ہمشیہ رہیں گے کہ ان کے دل ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دل پر ہوں گے اللہ تعالٰی ان کے سبب زمین والوں سے بلا دفع کرے گا ان کا لقب ابدال ہوگا۔ (ابو نعیم نے حلیہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ ت)

 

(۱؂حلیۃ الاولیاء ترجمہ زید بن وہب ۲۶۳دارالکتاب العربی بیروت ۴ /۱۷۳)

(کنزالعمال بحوالہ طب عن ابن مسعود حدیث ۳۴۶۱۲مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۹۰)

 

حدیث ۱۴: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لایزال اربعون رجلا یحفظ اللہ بھم الارض کلما مات رجل ابدل اللہ مکانہ اٰخر وھم فی الارض کلھا۔ الخلّال ۲؂عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ چالیس مرد قیامت تک ہوا کریں گے جن سے اللہ تعالٰی زمین کی حفاظت لے گا جب ان میں کا ایک انتقال کرے گا اللہ تعالٰی اسکے بدلے دوسرا قائم فرمائیگا ، اوروہ ساری زمین میں ہیں ۔ (خلّال نے ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)

 

(۲؂کنز العمال بحوالہ الخلال عن ابن عمر حدیث ۳۴۶۱۴موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۹۱)

 

حدیث ۱۵: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :بیشک اللہ تعالٰی کے لیے خلق میں تین سو اولیاء ہیں کہ ان کے دل قلب آدم پر ہیں ، اور چالیس کے دل قلب موسٰی اور سات کے قلب ابراہیم ، اورپانچ کے قلب جبریل، اورتین کے قلب میکائیل ، اورایک کا دل قلب اسرافیل پر ہے علیہم الصلٰوۃ والتسلیم ۔ جب وہ ایک مرتا ہے تین میں سے کوئی ایک اس کا قائم مقام ہوتاہے ، اورجب ان میں سے کوئی انتقال کرتاہے تو پانچ میں سے اس کا بدل کیا جاتاہے اورپانچ والے کا عوض سات اور سات کا چالیس اور چالیس کا تین سو اور تین سو کا عام مسلمین سے ، فیھم یحیی ویمیت ویمطر وینبت ویدفع البلاء ۔ ابو نعیم فی الحلیۃ ۱؂وابن عساکر عن ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ انہیں تین سو چھپن اولیاء کے ذریعہ سے خلق کی حیات موت ، مینہ کا برسنا، نباتات کا اُگنا ، بلاؤں کا دفع ہونا ہواکرتاہے ۔ (ابو نعیم نے حلیہ میں اورابن عساکر نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

 (۱؂حلیۃ الاولیاء    مقدمۃ الکتاب    دارالکتاب العربی بیروت     ۱ /۹)

(تاریخ دمشق الکبیر باب ماجاء ان بالشام یکون الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۲۳)

 

حدیث ۱۶: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : قرء القراٰن ثلٰثۃ (فذکر الحدیث الی ان قال ) ورجل قرأالقراٰن فوضع دواء القراٰن علی داء قلبہ فاسھر بہ لیلہ واظمأبہ نھارہ وقاموا فی مساجدھم واحبوابہ تحت برانسھم فھٰؤلاء یدفع اللہ بھم البلاء ویزیل من الاعداء وینزل غیث السماء فواللہ ھؤلاء من قراء القراٰن اعز من الکبریت الاحمر۔ ابن حبان ۲؂فی الضعفاء وابو نصر السجزی فی الابانۃ والدیلمی عن بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ورواہ البیھقی فی الشعب عن الحسن البصری رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ تین قسم کے آدمیوں نے قرآن پڑھا (دو قسمیں دنیا طلب وقاری بے عمل بیان کر کے فرمایا) ایک وہ شخص جس نے قرآن عظیم پڑھا اور دواکو اپنے دل کی بیماری کا علاج بنایا تو ا س نے اپنی رات جاگ کر اوراپنا دن پیاس یعنی روزے میں کاٹا اوراپنی مسجدوں میں قرآن کے ساتھ نماز میں قیام کیا اور اپنی زاہدانہ ٹوپیاں پہنے نرم آواز سے اس کے پڑھنے میں روئے ، تو یہ لوگ وہ ہیں جن کے طفیل میں اللہ تعالٰی بلا کو دفع فرماتااور دشمنوں سے مال ودولت وغنیمت دلاتا اورآسمان سے مینہ برساتا ہے خدا کی قسم قاریان قرآن میں ایسے لوگ گوگرد سرخ سے بھی کمیاب تر ہیں ۔ (ابن حبان نے الضعفاء میں اورابو نصر سجزی نے ابانۃ میں اوردیلمی نے حضرت بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اوربیہقی نے شعب میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ ت)

 

 (۲؂شعب الایمان     حدیث ۲۶۲۱  دارالکتب العلمیہ بیروت   ۲/ ۵۳۱و ۵۳۲)

(کنز العمال بحوالہ حب فی الضعفاء وابی نصر السجزی الخ حدیث ۲۸۸۲مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱ /۶۲۳)

 

حدیث ۱۷: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : النجوم امنۃ للسماء فاذا ذھبت النجوم اتی السماء ما توعد ، وانا امنۃ لاصحابی فاذا ذھبت اتٰی اصحابی مایوعدون ، واصحابی امنۃ لامتی فاذا ذھب اصحابی اتٰی امتی مایوعدون۔ ستارے امان ہیں آسمان کے لئے ، جب ستارے جاتے رہیں گے آسمان پر وہ آئے گا جس کا اس سے وعدہ ہے یعنی شق ہونا فنا ہوجانا ۔ اور میں امان ہوں اپنے اصحاب کےلئے جب میں تشریف لے جاؤں گا میرے اصحاب پر وہ آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہے یعنی مشاجرات۔ اورمیرے صحابہ امان ہیں میر ی امت کے لیے ، جب میرے صحابہ نہ رہیں گے میری امت پر وہ آئے گا جس کا ان سے وعدہ ہے یعنی ظہور کذب ومذاہب فاسدہ وتسلط کفار۔

 

صدق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔  سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ۔(ت) احمد ومسلم۱؂ عن ابی موسی الاشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ امام احمد ومسلم نے حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ (ت)

 

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الفضائل باب بیان ان بقاء النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امان لاصحابہ قدیمی کتب خانہ کراچی۲/۳۸۸)

(مسند احمد بن حنبل عن ابی موسٰی الاشعری المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۳۹۹)

 

حدیث ۱۸،۱۹: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : النجوم امان لاھل السماء واھل بیتی امان لامتی۲؂۔ واللہ ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

اور برتقدیر خصوص ظہور طوائف ضالہ مراد ہو ، کما فی روایۃ ابی یعلی فی مسندہ عن سلمۃ بن الاکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند حسن والحاکم فی المستدرک وصحح وتعقب عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ولفظہ النجوم امان  لاھل الارض من الغرق واھل بیتی امان لامتی من الاختلاف ۱؂الحدیث۔ جیسا کہ مسند ابو یعلٰی کی روایت میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسند حسن ہے ۔ اور حاکم نے مستدرک میں اسے روایت کیا ا وراس کی تصحیح کی اورابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس کی پیروی کی ، ان کے الفاظ یہ ہیں : ستارے زمین والوں کے لئے غرق ہونے سے امان ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کے لیے اختلاف سے امان ہیں، الحدیث ۔(ت)

 

 (۱؂المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ اہل بیتی امان لامتی دارالفکر بیروت ۳ /۱۴۹)

 

حدیث۲۰: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم :ا ھل بیتی امان لامتی فاذ اذھب اھل ابیتی اتاھم مایوعدون۔ الحاکم ۲؂وتعقب عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ میرے اہلبیت میری امت کے لے امان ہیں جب اہل بیت نہ رہیں گے امت پروہ آئیگا جو ان سے وعدہ ہے (حاکم نے روایت کی اورجابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کی پیروی کی ۔ ت)

 

 (۲؂المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ اہل بیتی امان لامتی دارالفکر بیروت ۳ /۱۴۹)

 

حدیث ۲۱: عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کہ انہوں نے فرمایا : کان من دلالات حمل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کل دابۃ کانت لقریش نطقت تلک اللیلۃ وقالت حمل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ورب الکعبۃ وھو امان الدنیا وسراج اھلھا۱؂۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حمل مبارک کی نشانیوں سے تھا کہ قریش کے جتنے چوپائے تھے سب نے اس رات کلام کیا اورکہا رب کعبہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حمل میں تشریف فرماہوئے وہ تمام دنیا کی پناہ اوراہل عالم کے سورج ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

 (۱؂الخصائص الکبرٰی بحوالہ ا بو نعیم عن ابن عباس باب مظہر فی لیلۃ مولدہ الخ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۴۷)

 

حدیث ۲۲و۲۳: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اطلبوا الحوائج الی ذوی الرحمۃ من امتی ترزقوا وفی لفظ اطلبوا الفضل عند الرحماء من امتی تعیشوا فی اکنافھم فان فیھم رحمتی وفی لفظ اطلبوا الفضل من الرحماء وفی روایۃ اخرٰی اطلبوا المعروف من رحماء امتی تعیشوا فی اکنافھم۔ العقیلی ۲؂والطبرانی فی الاوسط باللفظ الاول وابن حبان والخرائطی والقضاعی وابوالحسن الموصلی والحاکم فی التاریخ ۳؂بالثانی والعقیلی بالثالث کلھم عن سعید الخدری والاخری للحاکم فی المستدرک ۴؂عن علی ن المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ میرے رحم دل امتیوں سے حاجتیں مانگو رزق پاؤگے اورایک روایت میں ہے ان سے فضل طلب کرو ان کے دامن میں آرام سے رہوگے کہ ان میں میری رحمت ہے ۔ اورایک اور روایت میں ہے میری رحمدل امتیوں سے بھلائی چاہو ان کی پناہ میں چین سے رہوگے ۔ عقیلی اورطبرانی نے اوسط میں بلفظ اول اورابن حبان ، خرائطی ، قضاعی ، ابوالحسن موصلی اورحاکم نے تاریخ میں بلفظ دوم جبکہ عقیلی نے بلفظ سوم روایت کیا ہے ۔ ان سب نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے اورمستدرک حاکم میں دوسری روایت میں بروایت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے ۔(ت)

 

(۲؂کنزالعمال بحوالہ عق ، طس عن ابی سعید حدیث ۱۶۸۰۱موسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۵۱۸)

( الجامع الصغیر بحوالہ عق ، طس عن ابی سعید حدیث ۱۱۰۶دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۷۲)

(۳؂الجامع الصغیر بحوالہ الخرائطی فی مکام الاخلاق حدیث ۱۱۱۴   دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۷۲)

(کنزالعمال بحوالہ الخرائطی فی مکارم الاخلاق حدیث ۱۶۸۰۹مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۵۱۹)

(۴؂المستدرک للحاکم کتاب الرقاق اہل المعروف فی الدنیا الخ دارالفکر بیروت ۴ /۳۲۱)

(کنزالعمال حدیث ۱۶۸۰۷مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶/ ۵۱۹)

 

حدیث ۲۴تا۳۷: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اطلبوا الخیر والحوائج من حسان الوجوہ ۱؂۔ بھلائی اوراپنی حاجتیں خُوشرُویوں سے مانگو۔

 

(۱؂المعجم الکبیر عن ابن عباس حدیث ۱۱۱۱۰ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۱ /۸۱)

 

ع__________________ کہ معنی بود وصورت خوب را کہ یہ خوش رو حضرات اولیائے کرام ہیں کہ حسن ازلی جن سے محبت فرماتاہے ۔

 

من کثرت صلوٰتہ باللیل حسن وجھہ بالنھار۲؂۔  (جو رات کو کثرت سے نماز پڑھتا ہے اللہ تعالٰی اس کے چہرے کو دن کی روشنی جیسا حسن عطاکردیتاہے۔ت)

 

 (۲؂کنزالعمال حدیث ۲۱۳۹۴مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۷ /۷۸۳)

 

اورجودکامل  وسخائے شامل بھی انہیں کا حصہ کہ وقت عطاشگفتہ روئی جس کا ادنٰی ثمرہ ۔ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عباس بھٰذا اللفظ والعقیلی والخطیب وتمام  الرازی فی فوائد ہٖ والطبرانی فی الکبیر والبیہقی فی شعب الایمان عنہ  وابن ابی الدنیا فی قضاء الحوائج والعقیلی والدارقطنی فی الافراد والطبرانی فی الاوسط وتمام والخطیب فی رواۃ مالک عن ابی ھریرۃ ، وابن عساکر والخطیب فی تاریخھما عن انس بن مالک ، والطبرانی فی الاوسط والعقیلی والخرائطی فی اعتلال القلوب وتمّام وابوسھل وعبدالصمدبن عبدالرحمن البزار فی جزئہ وصاحب المھر انیات فیھا عن جابر بن عبداللہ ، وعبدبن حمید فی مسندہ وابن حبان فی الضعفاء وابن عدی فی الکامل والسلفی فی الطیوریات عن ابن عمر، وابن النجار فی تاریخہ عن امیرالمومنین علی ، والطبرانی فی الکبیر عن ابی خصیفۃ وتمام عن ابی بکرۃ ، والبخاری فی التاریخ وابن ابی الدنیا فی قضاء الحوائج ، وابویعلٰی فی مسندہٖ ، والطبرانی فی الکبیر والعقیلی والبیہقی فی شعب الایمان وابن عساکر عن ام المؤمنین الصدیقۃ کلھم بلفظ اطلبوا الخیر عند حسان الوجوہ۱؂ ، کماعند الاکثر اوالتمسوا ۱؂ کما التما م عن ابن عباس والخطیب عن انس۔ والطبرانی عن ابی خصیفۃ۔ طبرانی نے کبیر میں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ان ہی لفظوں کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ عقیلی ، خطیب ، تمام رازی اپنی فوائد میں، طبرانی کبیر میں اور بیہقی شعب الایمان میں ان ہی سے راوی ہیں ۔ ابن ابی الدنیا نے قضاء الحوائج میں ، عقیلی ودارقطنی نے افراد میں، طبرانی نے اوسط میں ، تمام اور خطیب نے بواسطہ مالک حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ ابن عساکر اور خطیب نے اپنی تاریخ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ طبرانی نے اوسط میں ، عقیلی وخرائطی نے اعتلال القلوب میں، تمام وابو سہل اورعبدالصمد بن عبدالرحمن بزار نے اس کو اپنی جزء میں اورصاحب مہرانیات نے مہرانیات میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ جبکہ عبد بن حمید نے اپنی مسند میں ، ابن حبان نے ضعفاء میں ، ابن عدی نے کامل میں اورسلفی نے طیور یات میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ابن نجار نے اپنی تاریخ میں امیر المومنین علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ۔ طبرانی نے کبیر میں ابو خصیفہ سے اور تمام نے ابو بکرہ سے روایت کیا۔ بخاری  نے تاریخ میں ، ابن ابی الدنیا نے قضاء الحوائج میں، ابو یعلٰی نے اپنے مسند میں ، طبرانی نے کبیر میں ، عقیلی وبیہقی نے شعب الایمان میں اورابن عساکر نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا ہے ۔ ان سب نے بایں الفاظ ذکر کیا ہے کہ ''خوشرویوں سے بھلائی طلب کرو''جیسا کہ اکثر کے نزدیک ہے ۔ یا اطلبوا کی جگہ التمسواہے جیسا کہ تمام نے ابن عباس ، خطیب نے حضرت انس اورطبرانی نے ابوخصیفہ سے روایت کیا رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔

 

 (۱؂اتحاف السادۃ المتقین کتاب الصبر والشکربیان حقیقۃ النعمۃ واقسامہا دارالفکر بیروت ۹ /۹۱)

(کشف الخفاء تحت الحدیث ۳۹۴دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۲۲و۱۲۳)

(تاریخ بغداد ذکر مثانی الاسماء دارالکتاب بیروت ۴ /۱۸۵)

(تاریخ بغداد ترجمہ ایوب بن الولید ۳۴۸۳ دارالکتاب بیروت ۷ /۱۱)

(تاریخ بغداد ترجمہ عبدالصمد بن احمد ۵۷۲۲دارلکتاب بیروت ۱۱ /۴۳)

(تاریخ بغداد عصمۃ بن محمد الانصاری ۷۱۴۱دارالکتاب بیروت ۱۳ /۱۵۸)0

(الضعفاء الکبیر حدیث ۱۳۶۶دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳ /۳۴۰)

( شعب الایمان تحت الحدیث ۳۵۴۳دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/۲۷۹)

(موسوعۃ رسائل ابن ابی الدنیا قضاء الحوائج حدیث ۵۳مؤسسۃ الکتب الثقافیہ بیروت ۲ /۵۱)

(کنزالعمال بحوالہ قط فی الافراد حدیث ۱۶۷۹۲موسسۃ الرسالہ بیروت         ۶ /۵۱۶)

(الجامع الصغیر بحوالہ قط فی الافراد حدیث ۴۴دارالکتب العلمیۃ بیروت        ۱ /۹ )

(الجامع الصغیر بحوالہ تخ حدیث ۱۱۰۷دارالکتب العلمیۃ بیروت          ۱ /۷۲)

(المعجم الاوسط عن ابی ہریرۃ حدیث ۳۷۹۹مکتبۃ المعارف ریاض        ۴ /۴۷۲)

(کنز العمال حدیث ۱۶۷۹۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت        ۶ /۵۱۶)

(المعجم الاوسط عن جابر رضی اللہ تعالی عنہ  حدیث ۶۱۱۳مکتبۃ المعارف ریاض      ۷/۷۱)

(مجمع الزوائد باب مایفعل طالب الحاجۃ وممن یطلبھا دارالکتاب بیروت        ۸ /۱۹۴و۱۹۵)

( الکامل لابن عدی ترجمہ سلیم بن مسلم، دارالفکر بیروت ۳ /۱۱۶۷)

(المنتخب من مسند عبد بن حمید حدیث ۷۵۱عالم الکتب بیروت         ص۲۴۳)

(اعتلال القلوب للخرائطی حدیث ۳۴۲و۳۴۳مکتبہ نزار مصطفی البازمکۃالمکرمۃ          ۱ /۱۶۶و۱۶۷)

(موسوعۃ رسائل ابن ابی الدنیا قضاء الحوائج حدیث ۵۲ و ۵۱ مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت    ص۵۰و۵۱)

(الضعفاء الکبیر ترجمہ سلیمان بن راقم ۵۹۹  ۲ /۱۲۱ وترجمہ سلیمان بن کراز ۶۲۸     ۲ /۱۳۹)

( شعب الایمان حدیث ۳۵۴۱و۳۵۴۲دارالکتب العلمیۃ بیروت۳ /۲۷۸)

(۱؂المعجم الکبیر عن ابی خصیفۃ حدیث ۹۸۳المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۲ /۳۹۶)

(تاریخ بغداد ترجمہ محمد بن محمد ۱۲۸۷ دارالکتاب العربی بیروت ۳ /۲۲۶)

 

او ابتغو ا۲؂کما للدارقطنی عن ابی ھریرۃ ولفظہ عندابن عدی عن ام المؤمنین اطلبوا الحاجات وھو فی کاملہ ۳؂ یا لفظ ابتغوا ہے جیسا کہ دارقطنی نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے ۔ ابن عدی کی کامل میں بروایت ام المومنین حدیث کے الفاظ یوں ہیں کہ ''اپنی حاجات طلب کرو''۔

 

 (۲؂کنز العمال بحوالہ قط فی الافراد عن ابی ہریرۃ حدیث ۱۶۷۹۲موسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۵۱۶)

(۳؂الکامل لابن عدی ترجمہ الحکم بن عبداللہ دارالفکر بیروت ۲ /۶۲۲)

 

والبیہقی فی شعب عن عبداللہ بن جراد بلفظ اذا ابتغیتم المعروف فاطلبوہ عند حسان الوجوہ ۱؂ واحمد بن منیع فی مسندہ عن یزیدالقسملی بلفط اذا طلبتم الحاجات فاطلبوھا ۲؂ وابن ابی شیبۃ فی مصنفہ عن ابن مصعب ن الانصاری وعن عطاء وعن ابن شہاب الثلٰثۃ مراسیل رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ بیہقی نے شعب الایمان میں عبداللہ بن جراد سے بایں الفاظ روایت کیاہے کہ ''جب بھلائی طلب کرو تو خوشرویوں کے پاس طلب کرو۔ ''احمد بن منیع نے اپنی مسند میں یزید القسملی سے ان لفظوں کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ''جب حاجات طلب کرو توخوشرویوں کے ہاں طلب کرو۔ ''ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ابن مصعب انصاری ، عطاء اورابن شہاب سے روایت کیا ، یہ تینوں حدیثیں مرسل ہیں ، رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔(ت)

 

 (۱؂شعب الایمان حدیث ۱۰۸۷۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت۷/۴۳۵)

(۲؂اتحاف السادۃ المتقین کتاب الصبر والشکر بیان حقیقۃ النعمۃ واقسامہا دارالفکر بیروت ۹ /۹۱)

(کشف الخفاء تحت الحدیث ۳۹۴دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۲۳)

(المصنف لابن ابی شیبۃ حدیث ۲۶۲۶۷،۲۶۲۶۸،۲۶۲۶۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۵ /۴۳۵)

 

حدیث ۳۸: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اطلبوا الابادی عند فقراء المسلمین فان لھم دولۃ یوم القیٰمۃ۳؂ ۔  ابو نعیم فی الحلیۃ عن ابی الربیع السائح معضل۔ نعمتیں مسلمان فقیروں کے پاس طلب کرو کہ روز قیامت ان کی دولت ہے ۔ (ابو نعیم نے حلیہ میں ابو الربیع السائح سےمعضل(سخت مشکل) روایت کی۔ت)

 

 (۳؂حلیۃ الاولیاء ترجمہ ابی الربیع السائح ۴۱۸ دارالکتاب العربی بیروت ۸ /۲۹۷)

 

حدیث ۳۹: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ان اللہ تعالٰی عبادااختصھم لحوائج الناس یفزع الناس الیھم فی حوائجھم اولٰئک الاٰمنون من عذاب اللہ ۔ الطبرانی فی الکبیر ۱؂عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما بسند حسن۔

 

 (۱؂کنزالعمال بحوالہ طب عن ابن عمر حدیث ۱۶۰۰۷مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۳۵۰)

 

اللہ تعالٰی کے کچھ بندے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے انہیں حاجت روائی خلق کے لیے خاص فرمایاہے لوگ گھبرائے ہوئے اپنی حاجتیں اپنے پاس لاتے ہیں ، یہ بندے عذاب الہٰی سے امان میں ہیں ۔ (طبرانی نے کبیر میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ۔ت)

 

حدیث ۴۰ : کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اذا اراد اللہ بعبد خیرا استعملہ علی قضاء حوائج الناس۔ البیھقی فی الشعب ۲؂عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ جب اللہ تعالٰی کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتاہے اس سے مخلوق کی حاجت روائی کا کام لیتا ہے (بیہقی نے شعب میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۲؂شعب الایمان حدیث ۷۶۵۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۱۱۷)

 

حدیث ۴۱: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اذا اراد اللہ بعبد خیراً صیر حوائج الناس الیہ ۔ مسند الفردوس ۳؂ عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ اللہ تعالٰی جب کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتاہے تو اسے لوگوں کا مرجع حاجات بناتاہے (مسند فردوس میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا گیا ۔ت)

 

 (۳؂الفردو س بماثور الخطاب حدیث ۹۳۸دارالکتب العلمیۃ بیروت   ۱ /۲۴۳)

 

حدیث ۴۲و۴۳ : فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : میری تمہاری کہاوت ایسی ہے جیسے کسی نے آگ روشن کی ، پنکھیاں اورجھینگراس میں گِرنا شروع ہوئے وہ انہیں آگ سے ہٹا رہا ہے، وانا اٰخذ بحجزکم عن النار وانتم تفلتون من یدی ۔ احمد ومسلم عن جابر واحمد۴؂عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ اورمیں تمہاری کمریں پکڑے تمہیں آگ سے بچارہا ہوں اورتم میرے ہاتھ سے نکلنا چاہتے ہو۔ (احمد اورمسلم نے حضرت جابر سے اوراحمد نے حضرت ابو ہریرۃ سے روایت کیا رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ ت)

 

 (۴؂صحیح مسلم کتاب الفضائل باب شفقتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی اٰمتہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۴۸)

(مسند احمد بن حنبل عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۳۹۲)

(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۵۴۰)

 

حدیث ۴۴: کہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : لیس منکم رجل الا انا ممسک بحجزتہ ان یقع فی النار ۔ الطبرانی فی الکبیر۱؂ عن سمرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔

 

 (۱؂المعجم الکبیر عن سمرۃ رضی اللہ عنہ حدیث ۷۱۰۰المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۷ /۲۶۹)

 

تم میں ایسا کوئی نہیں کہ میں اس کا کمر بند پکڑے روک نہ رہاہوں کہ کہیں آگ میں نہ گرپڑے ۔ (طبرانی نے کبیر میں سمرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

حدیث ۴۵: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: اللہ عزوجل نے جو حرمت حرام کی اس کے ساتھ یہ بھی جاناکہ تم میں کوئی جھانکنے والا اسے ضرورجھانکے گا۔ الاو انی ممسک بحجز کم ان تھافتوا فی النار کما تھافت الفراش والذباب ۔ احمد والطبرانی ۲؂فی الکبیر عن ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ سن لو اور میں تمہارے کمر بند پکڑے ہوں کہ کہیں پے درپَے آگ میں پھاند نہ پڑو جیسے پروانے اورمکھیاں ۔ (احمد اور طبرانی نے کبیر میں ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)

 

(۲؂مسند احمد بن حنبل عن ابن مسعود المکتب الاسلامی بیروت    ۱ /۴۲۴)

( المعجم الکبیر عن ابن مسعود حدیث ۱۰۵۱۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۰ /۲۶۵)

 

اللہ اکبر! اس سے زیادہ اورکیا دفع بلا ہوگا ، ولٰکن الوھابیۃ لایعلمون (لیکن وہابی نہیں جانتے ۔ ت)

 

تنبیہ : بائیس سے چوالیس تک چوبیس حدیثیں قابل اندراج وجہ دو تھیں کہ قطعاً للشغف یہیں درج ہوئیں ۔

 

حدیث ۴۶تا۵۲: سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل سے دعا کی : اللھم اعز الاسلام باحب ھٰذین الرجلین الیک بعمربن الخطاب او بابی جھل بن ھشام ۱؂۔ احمد وعبد بن حمید والترمذی وحسنہ وصححہ وابن سعد وابو یعلٰی والحسن بن سفٰین فی فوائدہٖ والبزار وابن مردویۃ وخیثمۃ بن سلیمان فی فضائل الصحابۃ وابو نعیم والبیہقی فی دلائلھما وابن عساکر کلھم عن امیر المومنین عمر ۔ والترمذی عن انس والنسائی عن ابن عمر واحمد وابن حمید وابن عساکر عن خباب بن الارت والطبرانی فی الکبیر والحاکم عن عبداللہ ابن مسعود والترمذی والطبرانی وابن عساکر عن ابن عباس والبغوی فی الجعد یات عن ربیعۃ السعدی رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ، ورواہ ابن عساکر عن ابن عمر بلفظ اللھم اشدد ۱؂وکابن النجار عنہ بلفظ الحدیث الثانی وابو داؤد الطیالسی والشاشی فی فوائدہ والخطیب عن ابن مسعود بلفظ الصدیق الآتی ۔ الہٰی ! اسلام کو عزت دے ان دونوں مردوں میں جو تجھے زیادہ پیارا ہو اس کے ذریعہ سے یا تو عمر بن الخطاب یا ابو جہل بن ہشام ۔ (روایت کیا اس کو احمد وعبدبن حمید وترمذی نے اوراسے حسن اورصحیح کہا۔ اورابن سعد وابویعلٰی وحسن بن سفیان نے اپنی فوائد میں ۔ اور بزار، ابن مردویہ ، خیثمہ بن سلیمان فضائل صحابہ میں ، ابو نعیم وبیہقی دلائل النبوۃ میں اورابن عساکر ، یہ تمام امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ہیں۔ ترمذی نے اس سے ، نسائی نے ابن عمر سے ، احمد بن حمید وابن عساکر نے خباب بن الارت سے ، طبرانی نے کبیر میں اورحاکم نے عبداللہ بن مسعود سے ۔ ترمذی ، طبرانی اور ابن عساکر نے ابن عباس سے اوربغوی نے جعدیات میں ربیعہ بن سعدی سے روایت کیا رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ اورابن عساکر نے اس کو ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ''اللھم اشدد''کے لفظ سے روایت کیا اورابن نجار کی طرح اس کو بلفظ حدیث دوم روایت کیا ۔ ابو داود طیالسی اورشاشی نے اپنی فوائد میں اورخطیب نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بلفظ صدیق روایت کیا جو آگے آرہاہے ، رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔ ت )

 

(۱؂مسند احمد بن حنبل عن ابن عمر رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۹۵)

( المنتخب من مسند عبد بن حمید حدیث۷۵۹ عالم الکتب بیروت      ص۲۴۵)

(سنن الترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب عمر بن خطاب حدیث ۳۷۰۱دارالفکر بیروت         ۵ /۳۸۳)

(سنن الترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب عمر بن خطاب حدیث ۳۷۰۳دارالفکر بیروت    ۵ /۳۸۴)

(کنزالعمال بحوالہ البغوی عن ربیع السعدی حدیث ۳۲۷۷۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت     ۱ /۵۸۳)

(کنزالعمال حدیث ۷۴ ،۷۳ ،۷۲ ۔۳۲۷۷۱مؤسسۃ الرسالہ بیروت        ۱/۵۸۲)

(کنز العمال بحوالہ خیثمۃ فی فضائل الصحابۃ حدیث ۳۵۸۸۱موسسۃ الرسالہ بیروت     ۱۲ /۶۰۲)

(کنزالعمال بحوالہ یعقوب بن سفیان حدیث ۳۵۸۴۰موسسۃ الرسالہ بیروت     ۱۲ /۵۹۲)

(تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ عمر بن الخطاب ۵۳۰۲داراحیاء التراث العربی بیروت ۴۷/۵۰تا۶۸)

(کشف الخفاء تحت حدیث ۵۴۶دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۶۶)

(دلائل النبوۃ للبیہقی باب ذکر اسلام عمر بن الخطاب دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/ ۲۱۶و۲۲۰)

(الطبقات الکبرٰی لابن سعد ترجمہ ارقم بن ابی الارقم دارصادر بیروت ۳/  ۲۴۲ و ۲۶۷ و ۲۶۹)

(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارصادر بیروت ۳/ ۸۳و۵۰۲)

(السنن الکبرٰی کتاب قسم الفئی والغنیمۃ دارصادر بیروت ۶ /۳۷۰)

(المعجم الکبیر عن ثوبان رضی اللہ عنہ حدیث ۱۴۲۸ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲ /۹۷)

(المعجم الکبیر عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ حدیث ۱۰۳۱۴ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۰ /۱۹۷)

(تاریخ بغداد ترجمہ احمد بن بشر ۱۶۶۱دارالکتاب العربی بیروت ۴ /۵۴)

(المعجم الاوسط حدیث ۴۷۴۹مکتبۃ المعارف ریاض ۵ /۳۷۸)

(المعجم الاوسط حدیث ۱۸۸۱مکتبۃ المعارف ریاض ۲ /۵۱۲)

(۱؂تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ عمر بن الخطاب ۵۳۰۲داراحیاء التراث العربی بیروت     ۴۷ /۵۱)

 

حدیث ۵۳تا۸۷: کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دعافرمائی : اللھم اعز الاسلام بعمر بن الخطاب خاصۃ۱؂۔ ابن ماجۃ وابن عدی والحاکم والبیہقی عن ام المومنین الصدیقۃ وبلالفظ خاصۃ ابوالقاسم الطبرانی عن ثوبان والحاکم عن الزبیر وابن سعد من طریق الحسن المجتبٰی وخیثمۃ بن سلیمان فی الصحابۃ واللالکائی فی السنۃ وابو طالب ن العشاری فی فضائل الصدیق وابن عساکر جمیعاً من طریق النزال بن سبرۃ عن امیر المومنین علی وابن عساکر عنہما اعنی الزبیر والامیر معاً کالطبرانی فی الاوسط عن ابی بکر ن الصدیق بلفظ ایدالاسلام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ الہٰی ! خاص عمر بن الخطاب کے ذریعے سے اسلام کو عزت دے ۔ (ابن ماجہ، ابن عدی ، حاکم اوربیہقی نے اس کو ام المومنین صدیقہ سے روایت کیا اورلفظ خاصّۃ کے بغیر اس کو ابوالقاسم طبرانی نے ثوبان سے ، حاکم نے زیبر سے ، ابن سعد نے بطریق حسن مجتبی وخیثمہ بن سلیمان نے صحابہ میں اورلالکائی نے سنّہ میں اورابو طالب عشاری نے فضائل صدیق میں اور ابن عساکر نے ، ان سب نے بطریق نزال بن سبرہ امیر المومنین سیدنا حضرت علی سے اورابن عساکر نے حضرت زبیر اورحضرت علی دونوں سے ، جیسا کہ طبرانی نے اوسط میں حضرت ابو بکر صدیق سے ''اید الاسلام ''کے لفظوں کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ت)

 

 (۱؂سنن ابن ماجۃ فضل عمر رضی ا للہ عنہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۷۱)

(الکامل لابن عدی ترجمہ مسلم بن خالد دارالفکر بیروت ۶/۲۳۱۰)

(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت ۳/۸۳)

(السنن الکبرٰی کتاب قسم الفئی والغنیمۃ دارصادر بیروت ۶/۳۷۰)

(المعجم الکبیر عن ثوبان حدیث ۱۴۲۸ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲/۹۷)

(تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ عمر بن الخطاب ۵۳۰۲داراحیاء التراث العربی بیروت ۴۷/۵۲)

(کنزالعمال بحوالہ خیثمہ واللالکائی والعشاری حدیث ۳۶۶۹۸موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۲۳۲)

(المعجم الاوسط حدیث ۸۲۴۹مکتبۃ المعارف ریاض ۹ /۱۱۹و۱۲۰)

 

اس دعائے کریم کے باعث عمرفاروق اعظم کے ذریعہ سے جو عزتیں اسلام کو ملیں جو بلائیں اسلام ومسلمین پر سے دفع ہوئیں مخالف وموافق سب پر روشن ومبین ۔ ولہذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : مازلنا اعزۃ منذ اسلم عمر ۱؂۔البخاری فی صحیحہٖ وابو حاتم الرازی فی مسندہ وابن حبان عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ہم ہمیشہ معزز رہے جب سے عمر اسلام لائے۔ (امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی بخاری میں اورابو حاتم رازی نے اپنی مسند میں اور ابن حبان نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب المناقب مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۲۰)

(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت ۳ /۸۴)

(الطبقات الکبری لابن سعد اسلام عمر رضی اللہ عنہ دارصادر بیروت ۳ /۲۷۰)

(صفۃ الصفوۃ ذکر اسلام عمر رضی اللہ عنہ دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۷۴)

 

نیز فرماتے ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ : کان اسلام عمر فتحا وھجرتہ نصراً وامارتہ رحمۃ لقد رأیتنا وما نستطیع ان نصلی بالبیت حتی اسلم عمر۲؂۔ رواہ ابو ظاھر السلفی واٰخرہ لابن اسحٰق فی سیرتہ بمعناہ ۔ عمر (رضی اللہ تعالٰی عنہ )کا اسلام فتح تھا اوران کی ہجرت نصرت اور ان کی خلافت رحمت ، بیشک میں نے اپنے گروہ صحابہ کو دیکھا کہ جب تک عمر مسلمان نہ ہوئے ہمیں کعبہ معظمہ میں نماز پر قدرت نہ ملی ۔ (اس کو روایت کیا ابو ظاہر سلفی نے اوراس کے بعد سیرۃ ابن اسحٰق میں انہیں معنوں میں ۔ت)

 

 (۲؂السیرۃ النبویۃ لابن ہشام اسلام ابن عمر رضی اللہ عنہ دارابن کثیر بیروت الجزئین الاولین ص۳۴۲)

(اسدالغابۃ ترجمہ ۳۸۲۴عمر بن الخطاب دارالفکر بیروت ۳ /۶۴۸)

الریاض النضرۃ الباب الثانی فی مناقب عمر بن الخطاب حدیث ۵۸۶   دارالمعرفۃ بیروت الجزء الثانی ص۲۴۴)

 

نیز فرماتے ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ :  ماصلینا ظاھرین حتی اسلم عمر ظھر الاسلام ودعاالی اللہ علانیۃً۔ اخرجہ الدولابی فی الفضائل ۱؂۔ جب تک عمر مسلمان نہ ہو ئے ہم نے آشکارنماز نہ پڑھی جس دن سے وہ اسلام لائے دین نے غلبہ پایا اور انہوں نے علانیہ اللہ عزوجل کی طرف بلایا(دولابی نے فضائل میں اسے بیان کیا۔ت)

 

 (۱؂الریاض النضرۃ الباب الثانی فی مناقب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حدیث ۵۸۶دارالمعرفۃ بیروت ،الجزء الثانی ص۲۴۴)

 

صہیب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : لما اسلم عمر جلسنا حول البیت حلقاً وطفنابہ وانتصفنا ممن غلظ علینا ۔ خرجہ ابوالفرج فی صفۃ الصفوۃ ۲؂۔ جب عمر مسلمان ہوئے ہم گردخانہ کعبہ حلقہ باندھ کر بیٹھ گئے اورطواف کیا اورہم پر جو سختی کرتے تھے ان سے اپنا انصاف لیا ۔ (ابوالفرج نے اسے صفۃ الصفوۃ میں بیان کیا۔ ت)

 

 (۲؂صفۃ الصفوۃ ذکر اسلام عمر رضی اللہ عنہ دارالمعرفۃ بیروت    ۱ /۲۷۴)

 

باب دوم

 

وجہ دوم پر نصوص لیجئے اوربحمداللہ تعالٰی کیسے نصوص نجدیت شکن ، جان وہابیت پر برق افگن ، اس میں چوالیس آیتیں اوردوسو چالیس حدیثیں ہیں۔

 

فصل اول آیات شریفہ میں

 

آیت ۷: قال ربنا تبارک وتعالٰی : وما نقموا الا اغنٰھم اللہ ورسولہ من فضلہ ۱؂۔ اورانہیں کیا برا لگا یہی نا کہ انہیں دولتمند کردیا اللہ اور اللہ کے رسول نے اپنے فضل سے ۔

 

(۱؂القرآن الکریم ۹ /۷۴)

 

ہاں یہ جگہ ہے کہ غیظ میں کٹ جائیں بیمار دل۔ اللہ تعالٰی فرماتاہے کہ اللہ اوراللہ کے رسول نے دولتمند کردیا اپنے فضل سے۔

اے اللہ کے رسول !مجھے اورسب اہلسنت کو دین ودنیا کا دولتمند فرما اور اپنے فضل سے ۔ صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم ؎

میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا

نور دن دونا ترادے ڈال صدقہ نور کا۲؂

 

 (۲؂حدائق بخشش مکتبہ رضویہ آرام باغ کراچی ۲ /۳)

 

آیت ۸: ولو انھم رضوا مااٰتاھم اللہ ورسولہ وقالوا حسبنا اللہ سیؤتینا اللہ من فضلہٖ ورسولہ انا الی اللہ راغبون۳؂۔ اورکیا خوب تھا اگر وہ راضی ہوتے خدا اوررسول کے دئے پر ، اورکہتے ہمیں اللہ کافی ہے اب دے گا اللہ ہمیں اپنے فضل سے اوراس کا رسول، بیشک ہم اللہ کی طرف راغبت والے ہیں۔

 

 (۳؂القرآن الکریم ۹  /۵۹)

 

یہاں رب العزت جل وعلانے اپنے ساتھ اپنے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بھی دینے والا فرمایا اورساتھ ہی یہ بھی ہدایت کی کہ اللہ ورسول سے امید لگی رکھو کہ اب ہمیں اپنے فضل سے دیتے ہیں

 

جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

آیت ۹: انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ۱؂۔   اللہ نے اسے نعمت بخشی ، اوراے نبی !تو نے اسے نعمت دی۔

 

 (۱؂القرآن الکریم ۳۳ /۳۷)

 

آیت ۱۰: لہ معقبٰت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ۲؂ ۔  آدمی کے لیے بدلی والے ہیں اس کے آگے اور اس کے پیچھے کہ اس کی حفاظت کرتے یں اللہ کے حکم سے ۔

 

(۲؂القرآن الکریم ۱۳ /۱۱)

 

بدلی والے یہ کہ صبح کے محافظ عصر کو بدل جاتے ہیں اورعصر کے صبح کو ، وللہ الحمد۔

 

آیت ۱۱: ویرسل علیکم حفظۃ۳؂۔ اللہ بھیجتاہے تم پر نگہبانوں کو ۔

 

(۳؂القرآن الکریم۶ /۶۱)

 

ان آیات میں مولٰی سبحٰنہ وتعالٰی فرشتوں کو ہمارا حافظ ونگہبان فرماتاہے ۔

 

آیت ۱۲: یایھا النبی حسبک اللہ ومن اتبعک من المؤمنین ۴؂۔ اے نبی!کافی ہے تجھے اللہ اورجو مسلمان تیرے پیرو ہوئے۔

 

  (۴؂القرآن الکریم  ۸ /۶۴)

 

یہاں رب تبارک وتعالٰی نے اپنے نام پاک کے ساتھ صحابہ کرام کو ملاکر فرماتاہے : اے نبی ! اب کہ عمر اسلام لے آیا تجھے اللہ اوریہ چالیس مسلمان کفایت کرتے ہیں۔ فی الجلالین حسبک اللہ وحسبک من اتبعک ۱؂۔ جلالین میں ہے کافی ہے تجھے اللہ اور کافی ہے تجھے وہ جس نے تیری پیروی کی ۔ (ت)

 

 (۱؂جلالین کلاں تحت الآیۃ ۸ /۶۴   اصح المطابع دہلی ص۱۵۳)

 

ترجمہ شاہ ولی اللہ میں ہے : اے پیغامبر کفایت ست ترا خدا وآناکہ پیروی توکردہ انداز مسلمانان۲؂۔ اے پیغمبر !کافی ہے تجھے خدا اوروہ مسلمان جنہوں نے تیری پیروی کی ۔ (ت)

 

 (۲؂فتح الرحمن فی ترجمۃ القرآن (ترجمہ شاہ ولی اللہ ) مطبع ہاشمی دہلی ص۱۸۷)

 

آیت ۱۳: یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا : انہ ربی احسن مثوای۳؂۔ بیشک عزیز مصر میرارب ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا۔

 

(۳؂القرآن الکریم ۱۲ /۲۳)

 

فی الجلالین انہ ای الذی اشترانی ربی سیدی ۴؂۔  تفسیر جلالین میں ہے بیشک وہ جس نے مجھے خریدا وہ میرا رب یعنی میرا آقا ہے ۔(ت)

 

 (۴؂جلالین کلاں تحت الآیۃ ۱۲/۲۳ اصح المطابع دہلی ص۱۹۱)

 

آیت ۱۴ : امااحدکما فیسقی ربہ خمرا۵؂۔ اے زندان کے ساتھیو! تم میں ایک تواپنے رب کو شراب پلائے گا۔

 

 (۵؂القرآن الکریم   ۱۲ /۴۱)

 

آیت ۱۵: وقال للذی ظن انہ ناج منہما اذکرنی عند ربک۶؂۔  اوریوسف نے کہا اس سے جسے ان دونوں میں چھٹکارا پاتا سمجھا کہ اپنے رب کے پاس میرا چرچا کیجیو۔ یعنی بادشاہ مصر کے سامنے ۔

 

(۶؂القرآن الکریم   ۱۲ /۴۲)

 

آیت ۱۶ : اس پر مولٰی تبارک وتعالٰی فرماتاہے :  فانسٰہ الشیطٰن ذکر ربہٖ۱؂۔ تو اسے بھلادیا شیطان نے اپنے رب بادشاہ مصر کے آگے یوسف کا ذکر کرنا۔

 

(۱؂القرآن الکریم ۱۲ /۴۲)

 

فی الجلالین ای الساقی الشیطن ذکر یوسف عند ربہ۲؂ ۔ جلالین میں ہے یعنی ساقی کو شیطان نے یوسف علیہ السلام کا ذکر اس کے رب کے آگے کرنا بھلادیا۔ (ت)

 

 (۲؂جلالین کلاں تحت الآیۃ ۱۲ /۴۲ اصح المطابع دہلی ص۱۹۳)

 

آیت ۱۷: قال ارجع الی ربک فاسئلہ مابال النسوۃ التی قطعن ایدیھن۳؂ ۔ یوسف نے کہا پلٹ جا اپنے رب کے پاس سواس سے پوچھ کیا حال ہے ان عورتوں کا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے۔

 

 (۳؂القرآن الکریم ۱۲ /۵۰)

 

سبحان اللہ ! بادشاہ وغیرہ کو تو مجازی پرورش کے باعث اس کا رب ، تیرا رب ، میرا رب کہنا صحیح ہو ،اللہ فرمائے اللہ کا رسول فرمائے اورمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دافع البلاء کہنا شرک ۔

 

آیت ۱۸: رب جل وعلا اپنے مبارک بندے عیسٰی ابن مریم علیہما الصلٰوۃ والسلام سے فرماتاہے : واذ تخلق من الطین کھیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیھا فتکون طیراً باذنی وتبرئ الاکمہ والابرص باذنی واذتخرج الموتٰی باذنی۴؂۔ اورجب تو بناتا مٹی سے پرند کی شکل میری پروانگی سے ، پھر پھونک مارتا اس میں تو وہ ہوجاتی پرند میری پروانگی سے ، اورتو اچھا کرتا مادر زاد اندھے اورسفید داغ والے کو میری پروانگی سے ، اورجب توقبروں سے مُردے نکالتا میری  پروانگی سے ۔

 

(۴؂القرآن الکریم   ۵ /۱۱۰)

 

دفعِ بلائے مرض وابرائے اکمہ وابرص میں کتنا فرق ہے ۔

 

آیت ۱۹: حضرت مسیح علیہ الصلٰوۃ والتسلیم فرماتے ہیں :  انی اخلق لکم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیراً باذن اللہ وابرئ الاکمہ والابرص واحی الموتٰی باذن اللہ وانبئکم بما تأکلون وما تدخرون فی بیوتکم (الی قولہ ) ولاحل لکم بعض الذی حرم علیکم۱؂۔ میں بناتاہوں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت پھر پھونکتاہوں ا سمیں تو وہ ہوجاتی ہے پرند اللہ کی پروانگی سے ، اورمیں شفاء دیتاہوں مادر زا داندھے اوربدن بگڑے کو، اورمیں زندہ کرتاہوں مردے اللہ کی پروانگی سے ، اورمیں تمہیں خبردیتاہوں جو تم کھاتے اور جو گھروں میں بھر رکھتے ہو تاکہ میں حلال کردوں تمہارے لئے بعض چیزیں جو تم پر حرام تھیں۔

 

 (۱؂القرآن الکریم ۳ /۴۹و۵۰)

 

سبحان اللہ !

 

عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام جو فرمارہے ہیں میں خلق کرتاہوں ، شفا دیتاہوں، مردے جِلاتاہوں ، بعض حراموں کو حلال کئے دیتاہوں۔ ان اسنادوں کی نسبت کیا حکم ہوگا!

 

آیت ۲۰ :   وانکحوا الا یامٰی منکم والصالحین من عبادکم واما ئکم۲؂ ۔ نکاح کردو اپنی بے شوہر عورتوں اوراپنے نیک بندوں اورکنیزوں کا۔

 

(۲؂القرآن الکریم ۲۴ /۳۲)

 

یہاں مولا عزوجل ہمارے غلاموں کو ''ہمارابندہ''فرمارہا ہے ۔ اللہ کی شان زید کابندہ، عمروکا بندہ، اس کا بندہ ، اس کا بندہ اللہ فرمائے رسول فرمائے صحابہ فرمائیں ائمہ فرمائیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بندہ کہا اورشرک فروشوں نے حکم شرک جڑا، شائد ان کے نزدیک زید وعمرو خدا کے شریک ہوسکتے ہوں گے ۔

 

ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔

 

آیت ۲۱: الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونہ مکتوباعند ھم فی التوراۃ والانجیل یاْمرھم بالمعروف وینھٰھم عن المنکر ویحل لھم الطیبٰت ویحرم علیہم الخبٰئث ویضع عنہم اصرھم والاغلٰل التی کانت علیہم۱؂۔ وہ لوگ کہ پیروی کریں گے اس بھیجے ہوئے غیب کی باتیں بتانے والے بے پڑھے کی جسے لکھا پائیں گے اپنے پاس توریت وانجیل میں، وہ انہیں حکم دے گا بھلائی کااور روکے گا برائی سے ، او رحلال کرے گا ان کے لیے ستھری چیزیں اورحرام کرے گا ان پر گندی چیزیں، اوراتارے گا ان پر سے ان کا بھاری بوجھ اورسخت تکلیفوں کے طوق جو ان پر تھے ۔ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)

 

(۱؂القرآن الکریم ۷ /۱۵۷)

 

جان جہان وجہان جان اس جان جان وجان ایمان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاک مبارک ہاتھوں پر قربان جس نے ہماری پیٹھوں سے بھاری بوجھ اتارلئے ہماری گردنوں سے تکلیفوں کے طوق کا ٹ دئے ۔ للہ انصاف ! اوردافع بلاکسے کہتے ہیں، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

آیت ۲۲: سیدنا ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنے رب عزوجل سے عرض کی : ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم اٰیتک ویعلمھم الکتٰب والحکمۃ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم۲؂۔ اے رب ہمارے ! اوران میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیج کہ ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب وحکمت سکھائے اوروہ پیمبر انہیں گناہوں سے پاک کردے ، بیشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔

 

 (۲؂القرآن الکریم      ۲ /۱۲۹)

 

یہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہوئے کہ : انا دعوۃ ابی ابراھیم ۳؂۔ میں اپنے باپ ابراہیم کی دعاہوں (صلی اللہ تعالٰی علیہما وسلم)

 

 (۳؂دلائل النبوۃ باب ذکر مولادالمصطفٰی الخ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۸۱)

( الدرالمنثور تحت الآیۃ  ۲ /۱۲۹  داراحیاء التراث العربی بیروت      ۱ /۳۰۳و۳۰۴)

 

آیت ۲۳: خود رب العزۃ جل وعلاء فرماتاہے : کما ارسلنا فیکم رسولامنکم یتلوا علیکم اٰیٰتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتٰب والحکمۃ ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون۱؂۔ جس طرح بھیجا ہم نے تم میں ایک رسول تمہیں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت کرتا اورتمہیں پاکیزہ بناتا اورتمہیں قرآن وعلم سکھاتا اوران باتوں کا تم کو علم دیتا ہے جو تم نہ جانتے تھے ۔

 

 (۱؂القرآن الکریم    ۲ /۱۵۱)

 

آیت ۲۴: لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلوا علیھم اٰیٰتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتٰب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلٰلٍ مبین۲؂۔ بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا ایمان والوں پر جبکہ بھیجا ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ پڑھتاہے ان پر آیتیں اللہ کی اورپاک کرتاہے انہیں گناہوں سے اورعلم دیتا ہے انہیں قرآن وحکمت کا اگرچہ تھے اس سے پہلے بیشک کھلی گمراہی میں ۔

 

 (۲؂القرآن الکریم ۳ /۱۶۴)

 

آیت ۲۵: ھوالذی بعث فی الامیین رسولاً منہم یتلواعلیہم اٰیٰتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال  واٰخرین منھم لما یلحقوابھم وھو العزیز الحکیم ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۳؂۔ اللہ ہے جس نے بھیجا ان پڑھوں میں ایک رسول انہیں میں سے یہ ان پر آیات الہٰیہ پڑھتا اورانہیں ستھراکرتا اورانہیں کتاب وحقائق کا علم بخشتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے نیز پاک کرے گا اورعلم عطافرمائے گا ان کی جنس کے لوگوں کو جواب تک ان سے نہیں ملے اوروہی غالب حکمت والا ہے ، یہ خد اکا فضل ہے جسے چاہے عطافرمائے اوراللہ بڑے فضل والا ہے ۔

 

 (۳؂القرآن الکریم ۶۲ / ۲تا۴)

 

الحمدللہ !اس آیہ کریمہ نے بیان فرمایا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا عطافرمانا ، گناہوں سے پاک کرنا ، ستھرا بناناصرف صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے خاص نہیں بلکہ قیام قیامت تک تمام امت مرحومہ حضورکی ان نعمتوں سے محظوظ اورحضور کی نظر رحمت سے ملحوظ رہے ۔ والحمدللہ رب العٰلمین۔

 

بیضاوی شریف میں ہے : ھم الذین جاءوابعد الصحابۃ الی یوم الدین۱؂۔ یعنی یہ دوسرے جنہیں مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علم دیتے اورخرابیوں سے پاک کرتے ہیں تمام مسلمان ہیں کہ صحابہ کرام کے بعد قیامت تک ہوں گے۔

 

(۱؂انوار التنزیل (تفسیر البیضاوی)تحت الآیۃ ۶۲ /۳  دارالفکر بیروت      ۵ /۳۳۷)

 

معالم شریف میں ہے :  قال ابن زید ھم جمیع من دخل فی الاسلام بعد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم (الی یوم القیٰمۃ) وھی روایۃ ابن ابی نجیحٍ عن مجاھد۲؂۔ ابن زید نے فرمایا : یہ دوسرے لوگ تمام اہل اسلام ہیں کہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گے ۔اوریہی معنی امام مجاہد شاگرد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ابن ابی نجیح نے روایت کئے۔

 

 (۲؂معالم التنزیل (تفسیر البغوی) تحت الآیۃ ۶۲ /۳       دارالکتب العلمیۃ بیروت   ۴ /۳۱۱)

 

الحمدللہ ! قرآن عظیم میں حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ان تعریفوں کا اس قدر اہتمام ہے کہ چارجگہ یہ اوصاف بیان فرمائے دو جگہ سورہ بقرہ ، تیسرے آل عمران ، چوتھے سورہ جمعہ ، اور ا سکے آخر میں تو وہ جانفزا کلمے ارشادہوئے جنہوں نے ہم خفتہ بختوں کی تقدیر جگا دی بیماردلوں پر بجلی گرادی ۔ والحمدللہ رب العٰلمین۔

 

آیت ۲۶: جب ابولبابہ وغیرہ بعض صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے غزوہ تبوک میں ہمراہ رکاب سعادت حاضر نہ ہوئے تھے اپنے آپ کو مسجد اقدس کے ستونوں سے باندھ دیا کہ جب تک حضور والا صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ نہ کھولیں گے نہ کھلیں گے ،    آیت اُتری : خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم وتزکیھم بھا وصل علیہم ان صلٰوتک سکن لھم۱؂۔ اے نبی!لے لو ان توبہ کرنے والوں کے مالوں سے صدقہ کہ تم پاک کرو انہیں اور تم ستھرا کرو انہیں گناہوں سے اس صدقے کے سبب، اوردعائے رحمت کرو ان کے حق میں کہ تمہاری دعاان کے دلوں کا چین ہے ۔

 

(۱؂القران الکریم ۹/۱۰۳)

 

دیکھو حضور دافع البلاصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں گناہوں سے پاک کیااور حضور نے بلائے گناہ ان کے سروں سے ٹالی ، اورجب حضور کی دعا ان کے دلوں کا چین ہواا تویہی دفع الم ہے صلی اللہ تعالٰی علی دافع البلاء والالم وعلٰی اٰلہ وصحبہ وبارک وسلم۔

 

آیت ۲۷: لایملکون الشفاعۃ الا من اتخذ عند الرحمن عھدا۲؂۔ اللہ عزوجل کے یہاں شفاعت کے مالک وہی ہیں جنہوں نے رحمن کےساتھ عہدو پیمان کر رکھاہے ۔

 

 (۲؂القران الکریم  ۱۹ /۸۷ )

 

آیت ۲۸:  ولایملک الذین یدعون من دونہ الشفاعۃ الا من شھد بالحق وھم یعلمون۳؂۔ جنہیں مشرکین اللہ کے سوا پوجتے ہیں ان میں شفاعت کے مالک صرف وہی ہیں جنہوں نے حق کی گواہی دی اوروہ علم رکھتے ہیں (یعنی عیسٰی وعزیر وملائکہ علیہم الصلٰوۃ والسلام )

 

(۳؂القران الکریم۴۳ /۸۶ )

 

ان آیات میں مولٰی تعالٰی اپنے محبوبوں کو شفاعت کا مالک بتاتاہے اورعہد وپیمان مقرر ہوجانے سے تقویۃ الایمان کی اس بدلگامی کا منہ بھی سی دیا کہ شفاعت میں کسی کی خصوصیت نہیں جسے چاہے گا کھڑاکردے گا۔

 

آیت ۲۹: ولا تؤتواالسفہاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاماً وارزقوھم فیہا واکسوھم وقولوالھم قولامعروفا۱؂۔ نادانوں کو اپنے مال کہ خدانے تمہاری ٹیک بنائے ہیں نہ دو اورانہیں ان میں سے رزق دواور کپڑے پہناؤ اوران سے اچھی بات کہو۔

 

  (۱؂القران الکریم ۴/ ۵)

 

آیت ۳۰: واذاحضر القسمۃ اولواالقربٰی والیتامٰی والمساکین فارزقوھم منہ وقولوا لھم قولامعروفا۲؂۔ جب ترکہ بانٹتے وقت قرابت والے اوریتیم اورمسکین آئیں تو انہیں ان میں سے رزق دو اوران سے اچھی بات کہو۔

ان آیات میں بندوں کو حکم فرماتاہے کہ تم رزق دو۔

 

 (۲؂القران الکریم ۴/ ۸)

 

آیت ۳۱: اذیوحی ربک الی الملٰئکۃ انی معکم فثبتوا الذین اٰمنوا۳؂۔ جب وحی بھیجی تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں تمھارے ساتھ ہوں تم ثابت قدمی دو ایمان والوں کو ۔

 

(۳؂القران الکریم ۸/ ۱۲ )

 

آیت ۳۲: فالمدبرات امرًا۴؂۔ قسم ہے ان فرشتوں کی کہ تمام کاروبارِ دنیا ان کی تدبیر سے ہے۔

 

 (۴؂القران الکریم ۷۹ /۵)

 

یہ صفت بھی بالذات ذات الہٰی جل وعلاکی ہے ۔ قال اللہ تعالٰی :  یدبر الامر ۵؂ کام کی تدبیر فرماتاہے ۔(ت)

 

(۵؂القران الکریم      ۳۲ /۵ )

 

خازن ومعالم التنزیل میں ہے : قال ابن عباس ھم الملٰئکۃ وکلوا بامورعرفھم اللہ تعالٰی العمل بھا قال عبدالرحمن بن سابط یدبر الامر فی الدنیا اربعۃ جبریل ومیکائیل وملک الموت واسرافیل علیھم السلام، اما جبریل فمؤکل بالریاح والجنود واما میکائیل فمؤکل بالقطر والنبات واما ملک الموت فمؤکل بقبض الانفس واما اسرافیل فھو ینزل علیہم بالامر ۱؂۔ یعنی عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : یہ مدبرات الامر ملائکہ ہیں کہ ان کاموں پر مقرر کئے گئے جن کی کارروائی اللہ عزوجل نے انہیں تعلیم فرمائی، عبدالرحمن بن سابط نے فرمایا: دنیا میں چار فرشتے کاموں کی تدبیر کرتے ہیں جبریل ، میکائیل ، عزرائیل ، اسرافیل علیہم السلام۔ جبریل توہواؤں اورلشکروں پر مؤکل ہیں (کہ ہوائیں چلانا، لشکروں کو فتح وشکست دینا ان کا تعلق ہے ) اورمیکائیل باراں وروئیدگی پر مقررہیں ۔ (کہ مینہ برساتے اوردرخت اور گھاس اورکھیتی اگاتے ہیں ) اورعزرائیل قبض ارواح پر مسلط ہیں ۔اسرافیل ان سب پر حکم لے کر اترتے ہیں علیہم السلام اجمعین ۔

 

(۱؂لباب التأویل (تفسیر الخازن) تحت الآیۃ ۷۹ /۵     دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴ /۳۹۱)

( معالم التنزیل (تفسیرالبغوی )تحت الآیۃ ۷۹ /۵     دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴ /۴۱۱)

 

اللہ اکبر!قرآن عظیم وہابیہ پر ایک سے ایک سخت تر آفت ڈالتاہے۔

حدیث میں فرمایا :  القرآن ذووجوہ ۔ رواہ ابو نعیم ۲؂عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما عن النبی صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ قرآن متعدد معانی رکھتاہے ۔ (اس کو ابونعیم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا۔ت)

 

 (۲؂کنزالعمال بحوالہ ابی نعیم عن ابن عباس حدیث ۲۴۶۹موسسۃ الرسالہ بیروت      ۱ /۵۵۱)

 

علماء فرماتے ہیں قرآن عظیم اپنے ہر معنی پر حجت ہے ۔ ولم یزل الائمۃ یحتجون بہٖ علی وجوھہ وذٰلک من اعظم وجوہ اعجازہ وقد فصلنا ھذا المرام فی رسالتنا الزلال الانقٰی من بحر سبقۃ الاتقٰی ۔ ائمہ کرام ہمیشہ قرآن کے تمام معنی سے استدلال کرتے رہے ہیں ۔ اوریہ بات قرآن مجید کے وجوہ اعجاز میں سے عظیم ترین وجہ ہے ۔ اس کی تفصیل ہم نے اپنے رسالہ ''الزلال الانقٰی من بحر سبقۃ الاتقٰی '' میں بیان کردی ہے ۔ (ت)

اب آیہ کریمہ کے دوسرے معنی لیجئے، تفسیر بیضاوی شریف میں ہے : اوصفات النفوس الفاضلۃ حال المفارقۃ فانھا تنزع عن الابدان غرقا ای نزعاشدیدامن اغراق النازع فی القوس وتنشط الی عالم الملکوت وتسبح فیہ فتسبق الی حظائر القدس فتصیر لشرفھا وقوتھا من المدبرات۱؂۔ یعنی یا ان آیات کریمہ میں اللہ عزوجل ارواح اولیاء کرام کاذکر فرماتاہے جب وہ اپنے پاک مبارک بدنوں سے انتقال فرماتی ہیں کہ جسم سے بقوت تمام جدا ہوکر عالم بالا کی طرف سبک خرامی اور دریائے ملکوت میں شناوری کرتی حظیر ہائے حضرت قدس تک جلد رسائی پاتی ہیں پس اپنی بزرگی وطاقت کے باعث کاروبارعالم کے تدبیر کرنے والوں سے ہوجاتی ہیں۔

 

 (۱؂انوار التنزیل (تفسیر البیضاوی )تحت الآیۃ ۷۹ /۵   دارالفکر بیروت     ۵ /۴۴۵)

 

اب توبحمداللہ تعالٰی اولیائے کرام بعد وصال عالم میں تصرف کرتے اور اس کے کاموں کی تدبیر فرماتے ہیں فللّٰہ الحجۃ البالغۃ ۔

 

علامہ احمد بن محمد شہاب خفاجی عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی میں امام حجۃ الاسلام محمد غزالی قدس سرہ العالی وامام فخررازی رحمۃ اللہ علیہ سے اس معنی کی تائید میں نقل فرماتے ہیں : ولذا قیل اذا تحیرتم فی الامور فاستعینوا من اصحاب القبور الا انہ لیس بحدیث کما توھّم ولذا اتفق الناس علی زیارۃ مشاھد السلف والتوسل بھم الی اللہ وان انکرہ بعض الملاحدۃ فی عصرنا والمشتکٰی الیہ ھو اللہ ۲؂۔ یعنی اس لئے کہا گیا کہ جب تم کاموں میں متحیر ہوتومزارات اولیاء سے مددمانگو ۔ مگر یہ حدیث نہیں ہے جیسا کہ بعض کو وہم ہوا۔ اوراسی لئے مزارات سلف صالحین کی زیارت اورانہیں اللہ عزوجل کی طرف وسیلہ بنانے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے اگرچہ ہمارے زمانے میں بعض ملحد بے دین لوگ اس کے منکر ہوئے اورخدا ہی کی طرف ان کے فساد کی فریاد ہے ۔

 

(۱؂عنایۃ القاضی وکفایۃ الراضی (حاشیۃ الشہاب علی البیضاوی) تحت الآیۃ ۷۹ /۵  دارالکتب العلمیۃ بیروت   ۹ /۳۹۹)

 

لاحول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم ۔ ہاں میں نے کہا تھا کہ یہ صفت حضرت عزت کی ہے ، نہیں نہیں یہ خاص صفت اسی کی ہے ۔

 

رب عزوجل فرماتاہے :  قل من یزرق من السماء والارض امن یملک السمع والابصار ومن یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی ومن یدبر الامر  فسیقولون اللہ  فقل افلا تتقونo۱؂ اے نبی! ان کافروں سے فرما وہ کون ہے جو تمہیں آسمان وزمین سے رزق دیتاہے یا کون مالک ہے کان اورآنکھوں کا، اورکون نکالتا ہے زندہ کو مردے اورنکالتاہے مردے کو زندہ سے ، اورکون تدبیر کرتاہے کام کی، اب کہہ دیں گے کہ اللہ ، تو فرما پھر ڈرتے کیوں نہیں۔

 

 (۱؂القرآن الکریم   ۱۰ /۳۱)

 

قرآن عظیم خود ہی فرماتاہے کہ یہ صفت اللہ عزوجل کے لئے ایسی خاص ہے کہ کافر مشرک تک اس کا اختصاص جانتے ہیں ان سے بھی پوچھو کہ کام کی تدبیر کرنے والا کون ہے ، تواللہ ہی کو بتائیں گے دوسرے کا نام نہ لیں گے اورخود ہی اس صفت کو اپنے مقبول بندوں کیلئے ثابت فرماتاہے کہ : قسم ان محبوبان خدا کی جو عالم میں تدبیر وتصرف کرتے ہیں ۔''ایمان سے کہنا وہابیت کے دھرم پر قرآن عظیم شرک سے کیونکر بچا ۔ اے ناپاک طائفے کی سنگت والو!جب تک ذاتی وعطائی کے فرق پر ایمان نہ لاؤ گے کبھی قرآن وحدیث کے قہروں سے پناہ نہ پاؤ گے ، اوراس پرایمان لاتے ہی یہ تمہاری شرکیات کے راگ متعلقہ تدیبر وتصرف واستمداد واستعانت ودافع البلاء وحاجت روا ومشکلکشا وعلم غیب وندا وغیرہا سب کافور ہوجائیں گے اور اللہ تعالٰی کے مبارک منصور (نصرت دئے گئے، مدد دئے گئے ) بندے آنکھوں دیکھے منصور نظر آئیں گے۔ الا ان حزب اللہ ھم الغٰلبون ۲؂۔ تو بیشک اللہ ہی کا گروہ غالب ہے ۔ (ت)

 

(۲؂القرآن الکریم      ۵۸ /۲۲)

 

آیت ۳۳: قل یتوفٰکم ملک الموت الذی وکل بکم۳؂۔ توفرما تمہیں موت دیتاہے وہ مرگ کا فرشتہ جو تم پر مقرر ہے ۔

 

 (۳؂القرآن الکریم۳۲ /۱۱)

 

آیت ۳۴:  توفتہ رسلنا۱؂۔ موت دی اسے ہمارے رسولوں نے ۔

 

 (۱؂القرآن الکریم۶  /۶۱)

 

حالانکہ خود فرماتاہے : اللہ یتوفٰی الا نفس۲؂۔ اللہ ہے کہ موت دیتاہے جانوں کو۔

 

 (۲؂القرآن الکریم۳۹  /۴۲)

 

آیت ۳۵:  لاھب لک غلٰماً زکیاً۳؂۔   (جبریل نے مریم سے کہا)کہ میں عطاکروں تجھے ستھرا بیٹا، صلی اللہ تعالٰی علیہم وسلم۔

 

 (۳؂القرآن الکریم۱۹ /۱۹)

 

اللہ اللہ ! اب تو جبریل بیٹا دے رہے ہیں ۔ بھلانجدیہ کے یہاں اس سے بڑھ کر اورکیا شرک ہوگا۔ ولا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ وہابیہ تو اسی کو روتے تھے کہ محمد بخش ، احمد بخش نام رکھنا شرک ہے یہاں قرآن عظیم سیدنا عیسٰی علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کو جبریل بخش بتارہا ہے ۔ وللہ الحجۃ السامیۃ ۔

 

آیت ۳۶: فان اللہ ھو مولٰہ وجبرائیل وصالح المومنین والملائکۃ بعد ذلک ظہیر ۴؂۔ بیشک اللہ اپنے نبی کا مدد گار ہے اور جبرائیل اور نیک مسلمان اور اس کے بعد سب فرشتے مدد پر ہیں۔

 

 (۴؂القران الکریم  ۶۶ /۴)

 

حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : صالح المومنین ابوبکر وعمر رواہ الطبرانی فی الکبیر۵؂وابن مردویہ والخطیب عن ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ۔  یہ نیک مسلمان ابو بکر صدیق وعمر فاروق ہیں رضی اللہ تعالی عنہما ۔ (طبرانی نے کبیر میں اور ابن مردویۃ اور خطیب نے ا بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے اس کو روایت کیا ۔ت )

 

(۵؂المعجم الکبیر حدیث ۱۰۴۷۷ المکتب الفیصلیۃ بیروت   ۱۰ /۲۵۳)

(الدر المنثور بحوالہ ابن مردویہ وابی نعیم تحت الایۃ  ۶۶ / ۴ داراحیاء التراث العربی بیروت  ۸/ ۲۰۸)

 

بلکہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی قرا ء ت میں یوں ہی تھا  :   وصالح المومنین ابوبکر وعمر والملائکۃ بعد ذلک ظہیر ۱؂۔ نیک مسلمان ابوبکروعمر اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔(ت) یہاں اللہ عزوجل اپنے نام مبارک کے ساتھ اپنے محبوبوں کو فرماتاہے اللہ اورجبرائیل اور ابوبکروعمر مدگارہیں

 

آیت ۳۷: انی وجدت امرأۃً تملکہم واوتیت من کل شیئ ولھا عرش عظیم ۲؂۔ ہدہد نے ملک سبا سے آکر سیدنا سلیمن علیہ الصلواۃ والسلام سے عرض کی میں نے ایک عورت پائی کہ وہ ان کی مالک ہے اور اسے سب کچھ دیا گیا ہے اور اس کا بڑا تخت ہے ۔

 

 (۲؂القران الکریم   ۲۷ /۲۳)

 

یہاں بادشاہ کو رعایا کا مالک فرمایا تو رعایا کہ آزاد وغلام سب اس کے مملوک ہوئے مگر کوئی اگر محبوبان خدا کو اپنا مالک اور اپنے آپ کو ان کا بندہ مملوک کہے وہابیہ کے دین میں شرک ٹھہرے ۔

 

آیت ۳۸: ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا ۳؂۔ جس نے ایک جان کو زندہ کیا اس نے گویا سب آدمیوں کو جلا لیا ۔

 

 (۳؂القران االکریم  ۵ /۳۲)

 

یہ آیت اس کے بارے میں ہے جس نے کسی کے قتل ناحق سے احتراز کیا یا قاتل سے قصاص نہ لیا چھوڑدیا اسے فرماتا ہے کہ اس نے اس شخص کو زندہ کیا اور ایک اسی کو کیا گویا تمام آدمیوں کو جلا لیا ۔

 

معالم شریف میں ہے : ومن احیاھا وتورع عن قتلھا۴؂۔ اور جس نے ایک جان کو زندہ کیا اور اس کے قتل سے اجتناب کیا ۔(ت)

 

(۴؂معالم التنزیل (تفسیر بغوی )تحت الایۃ ۵/۳۲ دارالکتب العلمیہ بیروت   ۲ /۲۵)

 

اس میں ہے : ومن احیاھا ای عفا عمن وجب علیہ القصاص لہ فلم یقتلہ۱؂۔ اور جس نے اسے زندہ کیا یعنی جوقصاص اس پر واجب ہو چکا تھاوہ معاف کردیا اور قصاص میں اس نے قتل نہیں کیا ۔ ت)

 

(۱؂معالم التنزیل (تفسیر البغوی ) تحت الایۃ دارالکتب العلمیہ بیروت  ۲ /۲۵)

 

وہابی صاحب بتائیں کہ دفع بلا زیادہ ہے یازندہ کرنا ،جلا لینا ،حیات دینا ۔

 

آیت ۳۹: الا ترون انی اوف الکیل وانا خیر المنزلین ۲؂۔ یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بھائیو ں سے فرمایا کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں پورا پیمانہ عطا فرماتا ہوں اور میں سب سے بہتر اتارنے والا ہوں کہ جو میرے سایہ رحمت میں اترتاہے اسے وہ راحت بخشتا ہوں کہ کہیں نہیں ملتی ۔

 

 (۲؂القران الکریم ۱۲ /۵۹)

 

یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ فرمایا ،اور رب عزوجل نوح علیہ الصلاۃ والسلام سے فرماتا ہے  : قل رب انزلنی منزلامبارکا وانت خیرالمنزلین ۳؂۔ اے نوح جب تو اور تیرے ساتھ والے کشتی پر ٹھیک بیٹھ لیں تو میری حمد بجا لانا اور یوں عرض کرنا کہ اے رب میرے مجھے برکت والا اتارنا اتار اور تو سب سے بہتر اتارنے والاہے ۔

 

 (۳؂القران الکریم  ۲۳ /۲۹)

 

یہ اللہ عزوجل کی خاص صفت نبی صدیق علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے لئے کیسی ثابت فرمائی اور جب نبی صدیق صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سب سے بہتر اتارنے والے راحت ونعمت بخشنے والے ہوئے تو دافع البلاء سے بھی بڑھ کر ہوئے کما لا یخفی  (جیسا کہ پوشیدہ نہیں ۔ت)

 

آیت ۴۰: انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین اٰمنوا الذین یقیمون الصلٰوۃ وؤتون الزکوٰۃ وھم راکعون ۱؂۔ یعنی اے مسلمانو! تمہارا مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اوروہ ایمان  والے جو نماز قائم رکھتے اورزکوٰۃ دیتے اور وہ رکوع کرنے والے ہیں ۔

 

 (۱؂القرآن الکریم    ۵ /۵۵)

 

اقول:(میں کہتاہوں ۔ت) یہاں اللہ ورسول اورنیک بندوں میں مدد کو منحصر فرمادیا کہ بس یہی مددگار ہیں تو ضرور یہ مدد خاص ہے جس پر نیک بندوں کے سوا اورلوگ قادر نہیں عام مددگاری کا علاقہ تو ہرمسلمان کے ساتھ ہے ۔ قال تعالٰی :  والمؤمنون والمؤمنٰت بعضھم اولیاء بعض ۲؂۔ مسلمان مرد اورمسلمان عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں ۔

 

 (۲؂ القرآن الکریم       ۹ /۷۱ )

 

حالانکہ خود ہی دوسری جگہ فرماتاہے : مالھم من دونہٖ ولیٍ ۳؂۔ اللہ کے سوا کسی کا کوئی مددگار نہیں ۔

 

 (۳؂ القرآن الکریم        ۱۸ /۲۶)

 

معالم میں ہے :  (مالھم) ای ما لاھل السمٰوٰت والارض (من دونہٖ) ای من دون اللہ (من ولیٍّ) ناصر۴؂۔

 

نہیں ہے ان کے لیے یعنی آسمان اورزمین والوں کیلئے اس کے ، یعنی سوا اللہ تعالٰی کے کوئی ولی یعنی مددگار ۔(ت)

 

 (۴؂معالم التنزیل (تفسیر البغوی )   تحت الآیۃ ۱۸ /۲۶   دارالکتب العلمیۃ بیروت    ۳ /۱۳۲)

 

وہابی صاحبو! تمہارے طور پر معاذاللہ کیسا کھلا شرک ہوا کہ قرآن نے خدا کی خاص صفت امداد کو رسول وصلحاء کے لیے ثابت کیا جسے قرآن ہی جابجا فرماچکا تھا کہ یہ اللہ کے سوا دوسرے کی صفت نہیں ، مگر بحمداللہ اہل سنت دونوں آیتوں پر ایمان لاتے اورذاتی اور عطائی کا فرق سمجھتے ہیں ، اللہ تعالٰی بالذات مددگار ہے ، یہ صفت دوسرے کی نہیں ،اوررسول واولیاء اللہ کے قدرت دینے سے مددگار ہیں، وللہ الحمد ، اب اتنا اورسمجھ لیجئے مددکاہے کے لیے ہوتی ہے ؟ دفع بلاء کے واسطے ۔تو جب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اوراللہ کے مقبول بندے بنص قرآن مسلمانوں کے مددگار ہیں تو قطعاًدافع البلاء بھی ہیں ، اورفرق وہی ہے کہ اللہ سبحانہ بالذات دافع البلاء ہے اورانبیاء واولیاء علیہم الصلٰوۃ والثناء بعطائے خدا۔ والحمدللہ العلی الاعلی۔

 

پنج آیت از تورات وانجیل وزبور مقدسہ

 

آیت ۴۱، تورات شریف : امام بخاری حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما اوردارمی وطبرانی ویعقوب بن سفیٰن حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ تورات مقدس میں حضور پرنور دافع البلاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی صفت یوں ہے : یٰایھاالنبی انا ارسلنٰک شاھدًاومبشراً ونذیرا حرزاً للامیین (الٰی قولہٖ تعالٰی)یعفوویغفر۱؂۔

 

اے نبی ! ہم نے تجھے بھیجا گواہ اورخوشخبری دینے والا اور ڈرسنانے والا اوربے پڑھوں کے لیے پناہ (الی قولہ تعالٰی) معاف کرتاہے اورمغفرت فرماتاہے ۔

 

(۱؂سنن الدارمی باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الکتب قبل مبعثہ دارالمحاسن للطباعۃ قاہرۃ ۱ /۱۴)

(دلائل النبوۃ للبیہقی باب صفۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی التورات والانجیل دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۲۷۶)

(صحیح البخاری کتاب البیوع ۱ /۲۸۵  و کتاب التفسیر سورۃ الفتح   ۲ /۷۱۷       قدیمی کتب خانہ کراچی )

( الخصائص الکبرٰی باب ذکرہ فی التوراۃ والانجیل الخ مرکز اہلسنت گجرات الہند ۱ /۱۰)

(الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر صفۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی التوراۃ والانجیل دارصادر بیروت ۱ /۳۶۰و۳۶۲)

 

حرز بھی رب العزت جل وعلاکی صفات سے ہے ۔ حدیث میں ہے : یا حرز الضعفاء یاکنزالفقراء ۲؂۔ اے ضعیفوں کی پناہ ! اے غریبوں کے خزانے !

 

علامہ زرقانی شرح مواہب شریف میں فرماتے ہیں : جعلہ نفسہ حرزًا مبالغۃ لحفظہ لھم فی الدارین۳؂۔ یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پناہ دینے والے ہیں مگر رب تبارک وتعالٰی نے حضور کو بطور مبالغہ خودپناہ کہا (جیسے عادل کو عدل یا علم کو علم کہتے اوراس وصف کی وجہ یہ ہے کہ ) حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دنیا وآخرت میں اپنی امت کے محافظ ونگہبان ہیں۔ والحمدللہ رب العٰلمین۔

 

 (۳؂شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ)

 

آیت ۴۲،از تورات :  ہاں ہاں خبردار وہوشیار، اے نجدیان نابکار،ذراکم سن نو پیدا عیارہ خام پارہ وہابیت نکارہ کے ننھے سے کلیجے پر ہاتھ دھر لینا تورات وزبور کی دو آیتیں تلاوت کی جائیں گے نو خیز وہابیت کی نادان جان پر قہر الہٰی کی بجلیاں گرائیں گے افسوس تمہیں تورات وزبور کی تکذیب کرتے کیا لگتا تھا جب تم قرآن کی نہ سنو اللہ کا کذب تم ممکن گنو مگر جان کی آفت گلے کی غل تویہ ہے کہ آیات جناب شاہ عبدالعزیزصاحب نے نقل فرمائیں کلام الہٰی بتائیں ، یہ امام الطائفہ کے نسب کے چچا، شریعت کے باپ، طریق کے دادا ۔ اب انہیں نہ مشرک کہے بنتی ہے نہ کلام الہٰی پر ایمان لانے کو روٹھی وہابیت ملتی ہے ، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن (نہ رہنے کا یارا ، نہ چلنے کی تاب۔ ت) ؎ دوگونہ رنج وعذاب است جان لیلی را                                                

بلائے صحبت مجنوں وفرقت مجنوں (۱)

 

 (لیلی کی جان کو دوقسم کا دکھ اورعذاب ہے ،مجنوں کی صحبت اوراس کی جدائی کی مصیبت ۔ت)

 

ہاں اب ذراگھبرا ئے دلوں ، شرمائی چتونوں سے لجائی انکھڑیاں اوپر اٹھائیے اوربحمد اللہ وہ سنئے کہ ایمان نصیب ہوتوسنی ہوجائیے ، جناب شاہ صاحب تحفہ اثنا عشریہ میں لکھتے یں تورات کے سفر چہارم میں ہے : قال اللہ تعالٰی لابراھیم ان ھاجرۃ تلد ویکون من ولدھا من یدہ فوق الجمیع وید الجمیع مبسوطۃ الیہ بالخشوع۲؂۔  (۲؂تحفہ اثنا عشریہ باب ششم دربحث نبوت وایمان انبیاء علیہم الصلٰوت والسلام سہیل اکیڈمی لاہور ص۱۶۹)

 

اللہ تعالٰی نے ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم سے فرمایا بیشک ہاجرہ کے اولاد ہوگی اوراس کے بچوں میں وہ ہوگا جس کا ہاتھ سب پر بالا ہے اورسب کے ہاتھ اس کی طرف پھیلے ہیں عاجزی اورگڑگڑانے میں ۔

وہ کون ؟محمد رسول اللہ سید الکون معطی العون صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔ قربان تیرے اے بلند ہاتھ والے ، اے دوجہان کے اجالے ۔ حمد اس کے وجہ کریم کو جس نے ہماری عاجزی ومحتاجی کے ہاتھ ہرلئیم بے قدرت سے بچائے اورتجھ جیسے کریم رؤف ورحیم کے سامنے پھیلائے ، والحمدللہ ر ب العٰلمین۔ ؎

اسے حمد جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا

ہمیں بھیک مانگنے کو ترا  آستاں  بتایا  ۱؂

 

 ( ۱؂حدائق بخشش مکتبہ رضویہ کراچی حصہ دوم ص۵۳)

 

آیت ۴۳،از زبور مقدس : نیزتحفہ میں زبور شریف سے منقول : یا احمد فاضت الرحمۃ علی شفتیک من اجل ذٰلک ابارک علیک فتقلد السیف فان بھائک وحمدک الغالب (الٰی قولہٖ) والامم یخرون تحتک کتاب حق جاء اللہ بہ من الیمن والتقدیس من جبل فاران وامتلاء ت الارض من تحمید احمد وتقدیسہ وملک الارض ورقاب الامم ۲؂۔ اے احمد ! رحمت نے جوش مارا تیرے لبوں پر ، میں اس لئے تجھے برکت دیتاہوں ، تو اپنی تلوار حمائل کر کہ تیری چمک اورتیری تعریف غالب ہے ، سب امتیں تیرے قدموں میں گریں گی ، سچی کتاب لایا اللہ برکت وپاکی کے ساتھ مکہ کے پہاڑسے بھرگئی زمین احمد کی حمد اوراس کی پاکی بولنے سے ، احمد مالک ہوا ساری زمین اورتمام امتوں کی گردنوں کا ۔صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

 (۲؂تحفہ اثنا عشریہ باب ششم دربحث نبوت وایمان انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام سہیل اکیڈمی لاہور ص۱۶۹)

 

اے احمد پیارے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مملوکو خوشی وشادمانی ہے ، تمہارے لئے تمہارا مالک پیارا سراپاکرم سراپارحمت ہے ، والحمدللہ رب العالمین ؎

عہد مابالب شیریں دہناں بست خدائے

ماہمہ بندہ وایں قوم خداوندا نند۳؂  (ہمارا عہد وپیمان اللہ تعالٰی نے میٹھے منہ والوں کے لبوں کے ساتھ باندھ دیا ہے ۔ ہم سب غلام ہیں اوریہ قوم مالکوں کی ہے ۔ت )

 

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب     

 یعنی محبوب ومحب میں نہیں میرا تیرا۴؂۔

 

 (۴؂حدائق بخشش مکتبہ رضویہ آرام باغ کراچی ص۲)

 

ولہذا حضرت امام اجل عارف باللہ سید ی سہل بن عبداللہ تستری رضی اللہ تعالٰی عنہ ، پھر امام اجل قاضی عیاض شفاء شریف ، پھر امام احمد قسطلانی مواہب لدنیہ شریف میں نقلاً وتذکیرًا، پھر علامہ شہاب الدین خفاجی مصری نسیم الریاض ، پھر علامہ محمد عبدالباقی زرقانی شرح مواہب میں شرحاً وتفسیراً فرماتے ہیں : من لم یرولایۃ الرسول علیہ فی جمیع احوالہ ویرنفسہ فی ملکہ لایذوق حلاوۃ سنتہ ۱؂۔

 

 (۱؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ الباب الثانی لزوم مجتہ صلی اللہ علیہ وسلم المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۲ /۱۶)

( نسیم الریاض فی شرح القاضی عیاض الباب الثانی لزوم مجتہ صلی اللہ علیہ وسلم مرکز اہلسنت گجرات ہند ۳/۳۴۶و۳۴۷)

(المواہب اللدنیۃ المقصد السابع المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۲۹۹و۳۰۰)

(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ الفصل الاول دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۳۱۳)

 

جوہر حال میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنا ولی اور اپنے آپ کو حضو رکی ملک نہ جانے وہ سنت نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حلاوت سے اصلاً خبردار نہ ہوگا۔

 

والعیاذباللہ رب العٰلمین۔

 

فائدہ عظیمہ :

 

الحمدللہ سنیوں کی اقبالی ڈگری۔ ان آیات تورات وزبور پر فقیر غفراللہ تعالی لہ کو دو آیت تورات وانجیل مبارک مع چند احادیث کے یا دآئیں مگران کے ذکر سے پہلے امام الطائفہ کے ایک انجان پنے کا اقرار سن لیجئے ۔ تقویۃ الایمان فصل ثانی اشراک فی العلم کے شروع میں لکھا ہے :

''جس کے ہاتھ میں کنجی ہوتی ہے قفل اسی کے اختیار میں ہوتا ہے جب چاہے تو کھولے جب چاہے نہ کھولے ۔ ''انتہیٰ۲؂۔

 

 (۲؂تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۱۴)

 

بھولا  نا دان لکھتے تو لکھ گیا مگر ؎

کیا خبر تھی انقلاب آسماں ہوجائیگا

دین نجدی پائمال سنیاں ہوجائیگا۔

غریب مسکین کیا جانتا تھا کہ وہ تو چند ورق بعدیہ کہنے کو ہے کہ ''جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں''۳؂۔

 

 (۳؂تقویۃ الایمان الفصل الرابع مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۲۸)

 

یہاں اس کے قول سے تمام عالم پر محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اختیار تام ثابت ہوجائیگا بیچارے مسکین عزیز کے دھیان میں اس وقت یہی لوہے پیتل کی کنجیاں تھیں جو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بساطی(ف) پیسے پیسے بیچتے اس کی خواب میں بھی خیال نہ تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے رب جل وعلا نے اس بادشاہ جبار جلیل الاقتدار عظیم الاختیار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کیا کیا کنجیاں عطافرمائی ہیں ہاں ہم سے سن اوروہ سن کہ سن ہوجا۔

 

ف: بساطی : خردہ فروش ۔ضرورت کی چھوٹی موٹی چیزیں بیچنے والا۔

 

آیات واحادیث عطائے مفاتیح عالم بحضور پر نور مولائے اعظم صلی اللہ علیہ وسلم

 

آیت ۴۴،از تورات شریف : بیہقی وابو نعیم دلائل النبوۃ میں حضرت ام الدرداء سے راوی میں نے کعب احبار سے پوچھا : تم تورات میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نعت کیا پاتے ہو؟کہا : حضو رکا وصف تورات مقدس میں یوں ہے : محمدرسول اللہ اسمہ المتوکل لیس بفظٍ ولا غلیظ ولا سخاب فی الاسواق واعطی المفاتیح لیبصراللہ بہ اعینا عوراً ویسمع بہ اٰذاناً صما ویقیم بہ السنۃ معوجۃ حتی یشھدوا ان لا الٰہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ یعین المظلوم ویمنعہ من ان یستضعف۱؂۔ محمد اللہ کے رسول ہیں ان کا نام متوکل ہے ، نہ درشت خوہیں نہ سخت گو، نہ بازاروں میں چلّانے والے ، وہ کنجیاں دئے گئے ہیں تاکہ اللہ تعالٰی ان کے ذریعہ سے پھوٹی آنکھیں بینا اوربہرے کان شنو ااورٹیڑھی زبانیں سیدھی کردے یہاں تک کہ لوگ گواہی دیں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اس کا ساجھی نہیں وہ نبی کریم ہر مظلوم کی مدد فرمائیں گے اوراسے کمزور سمجھے جانے سے بچائیں گے۔

 

(۱؂الخصائص الکبرٰی باب ذکرہ فی التوراۃ والانجیل مرکز اہلسنت گجرات الہند   ۱ /۱۱)

(دلائل النبوۃ للبیہقی باب صفۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی التوراۃ والانجیل دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۳۷۷)

 

آیت ۴۵،از انجیل جلیل : حاکم بافادہ تصحیح اورابن سعد وبیہقی وابو نعیم روایت کرتے ہیں ام المومنین ومحبوبہ محبوب رب العالمین حضرت عائشہ صدیقہ صلی اللہ تعالٰی علیہ بعلہا وابیہا وعلیہا وسلم فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علہ وسلم کی صفت وثنا انجیل پاک میں مکتوب ہے : لافظ ولا غلیظ ولا سخاب فی الاسواق واعطی المفاتیح ۱؂الخ مثل ما مرّسواءً بسواء ۔ نہ سخت دل ہیں نہ درشت خُو، نہ بازاروں میں شور کرتے ، انہیں کنجیاں عطاہوئی ہیں۔ باقی عبارت مثل تورات مبارک ہے

 

 (۱؂ الخصائص الکبرٰی باب ذکرہ فی ا لتوراۃ والانجیل الخ مرکز اہلسنت گجرات الہند ۱ /۱۱)

(المستدرک للحاکم کتاب التاریخ کان اجود الناس بالخیر دارالفکر بیروت ۲ /۶۱۴)

(الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر صفۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی التوراۃ والانجیل دارصادر بیروت ۱ /۳۶۳)

 

حدیث ۶۱: بخاری ومسلم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ، حضور مالک المفاتیح صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :  بینا انا نائم اتیت بمفاتیح خزائن الارض فوضعت فی یدی۲؂ ۔ میں سور رہا تھا کہ تمام خزائن زمین کی کنجیاں لائی گئیں اورمیرے دونوں ہاتھوں میں رکھ دی گئیں ۔

 

(۲؂صحیح البخاری کتاب الاعتصام باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعثت بجوامع الکلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۰۸۰)

(صحیح مسلم کتاب المساجد وموضع الصلٰوۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۹۹)

 

حدیث ۶۲: امام احمد وابوبکر بن ابی شیبہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے راوی حضور مالک ومختارصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :   اعطیت مالم یعط احدمن الانبیاء قبلی نصرت بالرعب واعطیت مفاتیح الارض الحدیث۳؂۔ مجھے وہ عطاہوا جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملا ، رعب سے میری مدد فرمائی گئی (کہ مہینہ بھر کی راہ پر دشمن میرا نام پاک سن کر کانپے ) اورمجھے ساری زمین کی کنجیاں عطاہوئیں ، الحدیث ۔

 

 (۳؂مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۹۸)

( المصنف لابن ابی شیبۃ کتاب المناقب حدیث ۳۱۶۳۸دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۳۰۸)

(الخصائص الکبری باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم بالنصر بالرعب مرکز اہل سنت گجرات الہند ۲ /۱۹۳)

 

امام جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کی تصحیح کی ۔

 

حدیث ۶۳: امام احمد اپنی مسند اور ابن حبان اپنی صحیح اورضیاء مقدسی صحیح مختارہ ، ابو نعیم دلائل النبوۃ میں بسند صحیح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور مالک تمام دنیا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اتیت بمقالید الدنیا علی فرس ابلق جاء نی بہ جبریل علیہ قطیفۃ من سندس ۱؂۔ دنیا کی کنجیاں ابلق گھوڑے پر رکھ کر میری خدمت میں حاضر کی گئیں جبریل لے کر آئے اس پر نازک ریشم کازین پوش بانقش ونگار پڑا تھا۔

 

 (۱؂مسند احمد بن حنبل ، عن جابر رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۳۲۸)

(الخصائص الکبرٰی بحوالہ احمد وابن حبان وابی نعیم باب اختصاصہ بالنصر مرکز اہلسنت گجرات الہند ۲ /۱۹۵)

 

حدیث ۶۴: امام احمد مسند اورطبرانی معجم کبیر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور پرنور ابوالقاسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اوتیت مفاتیح کل شیئ الا الخمس ۲؂۔ مجھے ہر چیز کی کنجیاں عطاہوئیں سوا ان پانچ کے ۔یعنی غیوب خمسہ۔

 

(۲؂مسند احمد بن حنبل عن ابن عمر رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۸۵)

(المعجم الکبیر عن ابن عمر رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیرو ت ۱۲ /۳۶۱)

 

علامہ حفنی حاشیہ جامع صغیر میں فرماتے ہیں :  ثم اعلم بھا بعد ذٰلک ۳؂۔ پھر یہ پانچ بھی عطاہوئیں ان کا علم بھی دے دیاگیا۔

 

  (۳؂حواشی الحفنی علی الجامع الصغیر علی ہامش السراج المنیر الحدیث اوتیت مفاتیح الخ المطبعۃ الازہریۃ المصریہ مصر۲ /۷۳)

 

اسی طرح علامہ سیوطی نے بھی خصائص کبرٰی ۴؂میں نقل فرمایا : علامہ مدابغی شرح فتح المبین امام ابن حجر مکی میں فرماتے ہیں یہی حق ہے ۔ وللہ الحمد۔

 

 (۴؂الخصائص الکبرٰی باب اختصاصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بالنصر بالرعب مرکز اہل سنت گجرات الہند ۲ /۱۹۵)

 

حدیث ۶۵: بعینہٖ یہی مضمون احمدوابو یعلٰی ۵؂نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔

 

 (۵؂مسند احمد بن حنبل عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۳۸۶)

 

حدیث آخر ابو نعیم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور مالک غیور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی تھیں : لما خرج من بطنی فنظرت الیہ فاذا انابہ ساجد ثم رایت سحابۃ بیضاء قد اقبلت من السماء حتی غشیتہ فغیب عن وجھی ، ثم تجلت فاذا انابہ مدرج فی ثوب صوف ابیض وتحتہ حریرۃ خضراء وقد قبض علی ثلٰثۃ مفاتیح من اللؤلوء الرطب واذا قائل یقول قبض محمد علی مفاتیح النصرۃ ومفاتیح الربح ومفاتیح النبوۃ ثم اقبلت سحابۃ اخرٰی حتی غشیتہ فغیب عن عینی ثم تجلت فاذا انابہ قد قبض علی حریرۃ خضراء مطویۃ واذقائل یقول بخٍ بخٍ قبض محمد علی الدنیا کلھا لم یبق خلق من اھلھا الادخل فی قبضتہ۱؂ ۔ھذا مختصر۔والحمدللہ رب العالمین جب حضور میرے شکم سے پیداہوئے میں نے دیکھا سجدے میں پڑے ہیں ،پھر ایک سفید ابر نے آسمان سے آکر حضور کو ڈھانپ لیا کہ میرے سامنے سے غائب ہوگئے ، پھر وہ پردہ ہٹا تو میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضورایک اونی سفید کپڑے میں لپٹے ہیں اورسبز ریشمیں بچھونا بچھا ہے اورگوہر شاداب کی تین کنجیاں حضور کی مٹھی میں ہیں اورایک کہنے والا کہہ رہا ہے کہ نصرت کی کنجیاں ، نفع کی کنجیاں، نبوت کی کنجیاں، سب پر محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبضہ فرمایا ۔ پھر اور ابر نے آکر حضور کو ڈھانپا کہ میری نظر سے چھپ گئے ۔ پھر روشن ہوا تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک سبز ریشم کا لپٹا ہوا کپڑا حضور کی مٹھی میں ہے اورکوئی منادی پکار رہا ہے واہ واہ ساری دنیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مٹھی میں آئی زمین وآسمان میں کوئی مخلوق ایسی نہ رہی جو ان کے قبضہ میں نہ آئی ۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

(۱؂الخصائص الکبرٰی بحوالہ ابو نعیم عن ابن عباس باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ مرکز اہلسنت گجرات الہند ۱ /۴۸)

 

حدیث ۶۶: حافظ ابو زکریا یحییٰ بن عائذ اپنی مولد میں بروایت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما حضرت آمنہ زہریہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی ، رضوان خازن جنت علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بعد ولادت حضور سید الکونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنے پروں کے اندر لے کر گوش اقدس میں عرض کی : معک مفاتیح النصرۃ قد البست الخوف والرعب لایسمع احد بذکرک الا وجل فؤادہ وخاف قلبہ وان لم یرک یا خلیفۃاللہ  ۱؂۔ حضور کے ساتھ نصرت کی کنیاں ہیں رعب ودبدبہ کا جامہ حضو ر کو پہنایا گیا ہے جو حضور کا چرچا سنے گا اس کا دل ڈر جائے گا اورجگر کانپ اٹھے گا اگرچہ حضو ر کو نہ دیکھا ہو اے اللہ کے نائب !صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

(۱؂الخصائص الکبرٰی باب ما ظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مرکز اہلسنت گجرات الہند ۱ /۴۹)

 

ایمان کی آنکھ میں نور ہوتو ایک اللہ کا نائب ہی کہنے میں سب کچھ آگیا، اللہ کا نائب ایسا ہی تو چاہئے کہ جس کا نام محمد ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں ۔ ایک دنیا کے کتے کا نائب کہیں کا صوبہ اسکی طرف سے وہاں کے سیاہ وسپید کا مختار ہوتاہے مگر اللہ کا نائب کسی پتھر کا نائب ہے وما قدروا اللہ حق قدرہ ۲؂۔  (اللہ کی قدر نہ جانی جیسی چاہئے تھی ۔ت)

 

(۲؂القرآن الکریم ۶ /۹۱ و  ۳۹/ ۶۷۰)

 

بے دولتوں نے اللہ ہی کی قدرت نہ جانی لاواللہ اللہ کا نائب اللہ کی طرف سے اللہ کے ملک میں تصرف تام کا اختیار رکھتاہے جب تو اللہ کا نائب کہلایا صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

حدیث ۶۷: امام دارمی اپنی سنن میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ، حضور مالک جنت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : انا اول الناس خروجا اذا بعثوا وانا قائدھم اذا وفدوا وانا خطیبھم اذا انصتواو انا شفیعھم اذا حبسوا وانا مبشرھم اذا یئسوا الکرامۃ والمفاتیح یومئذ بیدی ولو اء الحمد یومئذ بیدی ۳؂۔الحدیث میں سب سے پہلے قبر سے باہر آؤں گا جب لوگ اٹھائے جائیں گے ، اورمیں ان کا پیشوا ہوں جب وہ حاضر بارگاہ ہوں گے ، اورمیں ان کا خطیب ہوں جب وہ دم بخود ہوں گے ، اورمیں ان کا شفیع ہوں جب وہ محبوس ہوں گے ، اورمیں خوشخبری دینے والاہوں جب وہ ناامید ہوں گے ، عزت اورکنجیاں اس دن میرے ہاتھ ہوں گی اور لواء الحمد اس دن میرے ہاتھ ہوگا۔

 

(۳؂مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ الترمذی والدارمی باب فضائل سیدالمرسلین قدیمی کتب خانہ کراچی ص۵۱۴)

(سنن الدارمی باب ما اعطی النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الفضل حدیث ۴۹دارالمحاسن للطباعۃ القاہر ۃ ص ۳۰)

(الخصائص الکبرٰی باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم بانہ اول من تنشق الارض منہ مرکز اہلسنت گجرات الہند ۲ /۲۱۸)

 

والحمدللہ رب العالمین، شکر اس کریم کا جس نے عزت دینا اس دن کے کاموں کا اختیار پیارے رؤف ورحیم کے ہاتھ میں رکھا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ اس لئے شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدارج شریف میں فرماتے ہیں :   دراں روز ظاہر گرددکہ وے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نائب مٰلک یوم الدین ست روز روز اوست وحکم حکمِ اوبحکم رب العالمین ۱؂۔ اس دن ظاہر ہوجائے گا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ماک یوم دین کے نائب ہیں۔ وہ دن آپ کا ہوگا اوراس میں رب العالمین کے حکم سے آپ کا حکم چلے گا۔ (ت)

 

(۱؂مدارج النبوۃ )

 

حدیث ۶۸: ابن عبد ربہ کتاب بہجۃ المجالس میں راوی کہ حضور پر نور افضل صلوات اللہ تسلیماتہ علیہ فرماتے ہیں : ینصب الی یوم القیٰمۃ منبر علی الصراط وذکر الحدیث (الٰی ان قال ) ثم یأتی ملک فیقف علی اول مرقاۃٍمن منبری فینادی معاشرالمسلمین من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا مٰلک خازن النار ان اللہ امرنی ان ادفع مفاتیح جہنم الی محمد وان محمداًامرنی ان ادفع الی ابی بکرٍھاہ۔ اشھدواھاہ اشھدوا ثم یقف ملک اٰخر علی ثانی مرقاۃٍ من منبری فینادی معاشرالمسلمین من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا رضوان خازن الجنان ان اللہ امرنی ان ادفع مفاتیح الجنۃ الی محمد وان محمدا امرنی ان ادفعہا الی ابی بکرٍھا ہ اشھدوا ھاہ اشھدوا الحدیث۔ (اوردہ العلامۃ ابراہیم بن عبداللہ المدنی الشافعی فی الباب السابع من کتاب التحقیق فی فضل الصدیق من کتابہ الاکتفاء فی فضل الاربعۃ الخلفاء ۱؂۔ روز قیامت صراط کے پاس ایک منبر بچھایا جائیگا پھر ایک فرشتہ آکر اس کے پہلے زینہ پر کھڑا ہوگا اورنداکرے گا اے گروہ مسلمانان !جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اورجس نے نہ پہچانا میں مالک داروغہ دوزخ ہوں اللہ تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ جہنم کی کنجیاں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دے دوں اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حکم ہے کہ ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ )کے سپرد کردوں ، ہاں ہاں گواہ ہوجاؤ ہاں ہاں گواہ ہوجاؤ۔ پھر ایک اورفرشتہ دوسرے زینہ پرکھڑا ہوکر پکارے گا: اے گروہ مسلمین ! جس نے مجھے جانااس نے جانا اورجس نے نہ جانا تو میں رضوان داروغہ جنت ہوں مجھے اللہ تعالٰی نے حکم فرمایا ہے کہ جنت کی کنجیاں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دے دوں اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حکم ہے کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ )کے سپرد کردوں ۔ ہاں ہاں گواہ ہوجاؤ ہاں ہاں گواہ ہوجاؤ۔ (علامہ ابراہیم بن عبداللہ المدنی الشافعی نے اپنی تحقیقی کتاب الاکتفاء فی فضل الاربعۃ الخلفاء کے ساتویں باب میں فضائل صدیق میں بیان کیاہے ۔ت)

 

حدیث ۶۹: حافظ ابو سعید عبدالملک بن عثمان کتاب شرف النبوۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :

 

اذا کان یوم القیٰمۃ وجمع اللہ الاولین والاٰخرین یؤتی بمنبرین من نور فینصب احدھما عن یمین العرش والاٰخر عن یسارہٖ ویعلوھما شخصان فینادی الذی عن یمین العرش معاشر الخلائق من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا رضوان خازن الجنۃ ان اللہ امرنی ان اسلم مفاتیح الجنۃ الی محمد وان محمدا امرنی ان اسلّمھا الی ابی بکر وعمر لیدخلا محبیھما الجنۃ الا فاشھدوا ثم ینادی الذی عن یسار العرش معشر الخلائق من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا مالک خازن النار ان اللہ امرنی ان اسلم مفاتیح النار الی محمد ومحمد امرنی ان اسلمھا الی ابی بکر وعمرلیدخلا مبغضیھما النار الا فاشھدوا۱؂۔او ردہ ایضاً فی الباب السابع من کتاب الاحادیث الغررفی فضل الشیخین ابی بکرٍوعمر من کتاب الاکتفاء ۔ روز قیامت اللہ تعالٰی سب اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا دو منبر نور کے لاکر عرش کے داہنے بائیں بچھائے جائیں گے ان پر دو شخص چڑھیں گے ، داہنے والا پکارے گا : اے جماعات مخلوق! جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اورجس نے نہ پہچانا تو میں رضوان داروغہ بہشت ہوں مجھے اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ جنت کی کنجیاں محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سپردکروں اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر وعمر (رضی اللہ تعالٰی عنہما)کو دوں کہ وہ اپنے دوستوں کو جنت میں داخل کریں۔ سنتے ہوگواہ ہوجاؤ۔ پھر بائیں والا پکارے گا : اے جماعات مخلوق! جس نے مجھے پہچانااس نے پہچانا اورجس نے نہ پہچانا تو میں مالک داروغہ دوزخ ہوں مجھے اللہ عزوجل نے حکم دیا کہ دوزخ کی کنجیاں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سپرد کروں اور محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر وعمر (رضی اللہ تعالٰی عنہما)کو دوں کہ وہ اپنے دشمنوں کو جہنم میں داخل کریں ، سنتے ہو گواہ ہوجاؤ ۔ (اس کو بھی کتاب الاکتفاء میں کتاب الاحادیث الغررفی فضل الشیخین ابی بکر وعمر میں باب ہفتم میں بیان کیا۔ ت)

 

(۱؂مناحل الشفاء ومناھل الصفاء بتحقیق شرف المصطفی حدیث ۲۳۸۸دارالبشائر الاسلامیہ بیروت ۵ /۴۱۹و۴۲۰)

 

یہی معنی ہیں اس حدیث کے کہ ابو بکر شافعی نے غیلانیات میں روایت کی : ینادٰی یوم القیٰمۃ این اصحاب محمدٍ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ،فیؤتیٰ بالخلفاء رضی اللہ تعالٰی عنہم فیقول اللہ لھم ادخلوا من شئتم الجنۃ ودعوا من شئتم اوماھو بمعناہ ذکرہ العلامۃ الشھاب الخفّاجی فی نسیم الریاض ۲؂شرح شفاء الامام القاضی عیاض فی فصل ما اطلع علیہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من الغیوب ، وقال اوماھو بمعناہ ۔ روز قیامت ندا کی جائے گی کہاں ہیں اصحاب محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ پس خلفاء رضی اللہ تعالٰی عنہم لائے جائیں گے اللہ عزوجل ان سے فرمائے گا تم جسے چاہو جنت میں داخل کرو اورجسے چاہو چھوڑدو ۔ (علامہ شہاب خفاجی نے نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض میں فصل ''نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کن کن غیوب پر مطلع کیا گیا''میں اس کا ذکر کیا اورفرمایا یا جو اس کے ہم معنیٰ ہے ۔ (ت)

 

(۲؂نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض بحوالہ الغیلانیات فصل ومن ذٰلک ما اطلع علیہ من الغیوب مرکز اہلسنت گجرات الہند ۳ /۱۶۴)

 

حدیث ۷۰: ولہذا سیدنا مولاعلی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم نے فرمایا : انا قسیم النار میں قسیم دوزخ ہوں ۔

 

یعنی وہ اپنے دوستوں کو جنت اور اعداء کو دوزخ میں داخل فرمائیں گے ۔ رواہ شاذان ۱؂ الفضیلی عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فی جزء ردّالشمس جعلنا اللہ ممن والاہ کما یحبّہ ویرضاہ بجاہ جمال محبّاہ اٰمین۔ اس کو شاذان نے جزء ردالشمس میں روایت کیا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہمیں اس کے محبوں میں رکھے جیسا کہ وہ خود اس سے محبت فرماتاہے اوراس پر راضی ہے اس کے محبوں کے جمال کے صدقے ۔ آمین۔(ت)

 

 (۱؂کنزالعمال بحوالہ شاذان الفضیلی فی ردالشمس حدیث ۳۶۴۷۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت  ۱۳ /۱۵۲)

 

بلکہ قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی ٰ نے اسے احادیث حضور والا صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ میں داخل کیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت مولٰی علی (کرم اللہ وجہہ الکریم )کو قسیم النار فرمایا۔

 

شفاء شریف میں فرماتے ہیں :  قدخرج اھل الصحیح ولاائمۃ ما اعلم بہٖ اصحابہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مما وعدھم بہ من الظھور علی اعدائہ (الٰی قولہ ) وقتل علیٍ وان اشقاھا الذی یخضب ھٰذہ من ھٰذہٖ ای لحیتہ من رّاسہ وانہ قسیم النار یدخل اولیاء ہ الجنۃ واعداء ہ النار۲؂۔رضی اللہ تعالٰی عنہ وعنابہ اٰمین ! بیشک اصحاب صحاح  وائمہ حدیث نے وہ حدیثیں روایت کیں جن میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو غیب کی خبریں دیں مثلاً یہ وعدہ کہ وہ دشمنوں پر غالب آئیں گے اور مولٰی علی (کرم اللہ وجہہ الکریم ) کی شہادت اوریہ کہ بدبخت ترین امت ان کے سر مبارک کے خون سے ریش مطہر کو رنگے گا ، اوریہ کہ مولا علی (رضی اللہ تعالٰی عنہ )قسیم دوزخ ہیں اپنے دوستوں کو بہشت میں اوراپنے دشمنوں کو دوزخ میں داخل فرمائیں گے ۔ اللہ تعالٰی اس سے راضی ہو اوراس کے صدقے ہم سے راضی ہو۔ آمین۔(ت)

 

(۲؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ فصل ومن ذالک مااطلع علیہ من الغیوب المکتبۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۲۸۳و۲۸۴)

 

نسیم میں عبارت نہایہ : ان علیّاًرضی اللہ تعالٰی عنہ قال انا قسیم النار۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : میں قسیم دوزخ ہوں ۔(ت)

 

ذکر کر کے فرمایا :  ابن الاثیر ثقۃ وما ذکرہ علی لایقال من قبل الرای فھو فی حکم المرفوع اذ لا مجال فیہ للاجتھاد ۱؂اھ اقول: کلام النسیم انہ لم یرہ مرویّا عن علی فاحال علی وثاقۃ ابن الاثیر وقد ذکرنا تخریجہ وللہ الحمد۔ ابن اثیر ثقہ ہے اورجو کچھ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ذکر فرمایا وہ اپنے رائے سے نہیں کہا جاسکتا ہے ، لہذا وہ مرفوع کے حکم میں ہوگا کیونکہ اس میں اجتہاد کی مجال نہیں اھ ۔ میں کہتا ہوں نسیم کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو حضرت علی سے مروی نہیں جانتے چنانچہ انہوں نے اسے ابن اثیر کے ثقہ ہونے کی طرف پھیر دیا ہے اورہم نے اس کی تخریج کردی ہے ۔ وللہ الحمد۔(ت)

 

(۱؂نسیم الریاض فصل ومن ذالک ما اطلع علیہ من الغیوب مرکز اہلسنت گجرات الہند ۳ /۱۶۳)

 

مدارج شریف میں ہے :  آمدہ است کہ ایستادہ میکنداو را پروردگار وے یمین عرش ودر روایتے برعرش ودرروایتے برکرسی ومے سپاردبوے کلید جنت۲؂ ۔ مروی ہے کہ اللہ تعالٰی آپ کو عرش کی دائیں جانب کھڑا کرے گا۔ایک روایت میں ہے کہ عرش کے اوپر، اورایک روایت میں ہے کہ کرسی پر کھڑا کریگا اورجنت کی چابی آپ کے سپرد فرمائے گا ۔ (ت)

 

 (۲؂مدارج النبوۃ باب ہشتم مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر   ۱ /۲۷۴)

 

ملاجی !ذرا انصاف کی کنجی سے دیدہ عقل کے کواڑ کھول کر یہ کنجیاں دیکھئے جو مالک الملک شہنشاہ قدیر جل جلالہ نے اپنے نائب اکبر خلیفہ اعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو عطافرمائی ہیں خزانوں کی کنجیاں ، زمین کی کنجیاں ، دنیا کی کنجیاں ، جنت کی کنجیاں ، نار کی کنجیاں۔ اور اب اپنا وہ بلائے جان اقرار یاد کیجئے ''جس کے ہاتھ کنجی ہوتی ہے قفل اسی کے اختیار میں ہوتا ہے جب چاہے کھولے جب چاہے نہ کھولے ''۳؂۔

 

 (۳؂تقویۃ الایمان الفصل الثانی مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۱۴)

 

دیکھ حجت الہٰی یوں قائم ہوتی ہے ۔ والحمدللہ رب العالمین۔

 

فصل دوم احادیث منیفہ میں

 

تین وصل پر مشتمل :

 

وصل اول :

 

اعظم واجل محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف جانفزا اسناد میں جن سے ایمان کی جان میں جان آئے ایمان کی آنکھ نور و ایقان پائے ، وباللہ التوفیق ۔

 

حدیث ۷۱: بخاری شریف میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے جب ابن جمیل نے زکوٰۃ دینے میں کمی کی سید عالم مغنی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :  ماینقم ابن جمیلٍ الا انّہ کان فقیراً فاغناہ اللہ ورسولہ ۱؂۔ ابن جمیل کو کیا بُرا لگا یہی نا کہ وہ محتاج تھا اللہ ورسول نے اسے غنی کردیا ، جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ باب قول اللہ تعالٰی وفی الرقاب والغارمین قدیمی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۹۸)

 

حدیث ۷۲: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اللہ ورسولہ مولٰی من لا مولی لہ۔ الترمذی وحسنہ وابن ماجۃ عن امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ۲؂۔ جس کا کوئی نگہبان نہ ہو اللہ ورسو ل اس کے نگہبان ہیں (اسے ترمذی نے روایت کیا اوراسے حسن کہا، اورابن ماجہ نے امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ت)

 

(۲؂سنن الترمذی باب ماجاء فی میراث الخال حدیث ۲۱۱۰دارالفکر بیروت ۴ /۳۳)

(سنن ابن ماجۃ ابواب الزکوٰۃ باب ذوی الارحام ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۰۱)

 

علامہ مناوی تیسیر میں اس کی شرح میں فرماتے ہیں : ای حافظ من لاحافظ لہ۳؂۔ یعنی ارشاد حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس کا کوئی حافظ نہیں اللہ ورسول اس کے حافظ ہیں۔

 

 (۳؂التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث اللہ ورسولہ مولٰی من لا مولی لہ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱ /۲۰۶)

 

حدیث ۷۳: کہ جب سیدنا حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت ہوئی حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انکے یہاں تشریف لے گئے اوران کے یتیم بچوں کو خدمت اقدس میں یاد فرمایا وہ حاضر ہوئے حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ تعالٰی عنہما اسے بیان کر کے فرماتے ہیں : فجاء ت امنا فذکر ت یتیمنا فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم العیلۃ تخافین علیھم وانا ولیھم فی الدنیا والاٰخرۃ۔ احمد والطبرانی  ۱؂ وابن عساکرٍرضی اللہ تعالٰی عنہ۔ میری ماں نے حاضر ہوکر حضور پناہ بیکساں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ہماری یتیمی کی شکایت عرض کی ، حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کیا ان پر محتاجی کا اندیشہ کرتی ہے حالانکہ میں ان کاولی وکارساز ہوں دنیا وآخرت میں ۔ (امام احمد اورطبرانی اورابن عساکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روایت کیا۔ت)

 

؎ غم نخورد آنکہ حفیظش توئی

والی ومولٰی و ولیش  توئی

 

 (وہ غم نہیں کھاتا جس کا محافظ ، والی ، آقا اور ولی تو ہے ۔ت)

 

(۱؂مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن جعفرالمکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۰۴و۲۰۵)

(تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۳۳۰۳عبداللہ بن جعفر داراحیاء التراث العربی بیروت ۲۹ /۱۷۳و۱۷۴)

 

حدیث ۷۴: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : حب ابی بکرٍوعمرمن الایمان وبغضہما کفر وحب الانصار من الایمان وبغضھم کفر وحب العرب من الایمان وبغضھم کفر، ومن سب اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ ، ومن حفظنی فیھم فانا احفظہ یوم القیٰمۃ ۔ ابن عساکر ۲؂عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔وللہ الحمد محبت ابوبکر وعمر کی ایمان سے ہے اوران کا بغض کُفر ، اورمحبت انصار کی ایمان سے ہے اوران کا بغض کفر، اورمحبت عرب کی ایمان سے ہے اوران کا بُغض کفر ، اورمیرے اصحاب کو جو براکہے اس پر اللہ کی لعنت ، اورجو ان کے معاملہ میں میرا لحاظ رکھے میں روز قیامت اس کا حافظ ونگہبان ہوں گا(ابن عساکر نے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ۔ ت)

 

(۲؂تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۵۳۰۲ عمر بن الخطاب داراحیاء التراث العربی بیروت ۴۷ /۱۸۱)

 

حدیث ۷۵و۷۶: دنیا کی ظاہر ی زینت وحلاوت اورمال حلال کما کر اچھی جگہ خرچ کرنے کی خوبی اورحرام کما کر بری جگہ اٹھانے کی برائی بیان فرما کر ارشاد فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  : ورب متخوضٍ فیما شا ءت نفسہ من مال اللہ ورسولہٖ لیس لہ  یوم القیٰمۃ الا النار۔ احمد ۱؂والترمذی وقال حسن صحیح عن خولۃ بنت قیس والبیھقی فی الشعب عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ اوربہت اللہ اوررسول کے مال سے اپنے نفس کی خواہشوں میں ڈوبنے والے ہیں جن کے لیے قیامت میں نہیں مگر آگ۔(احمد اورترمذی نے خولہ بنت قیس سے روایت کیا اوراس کو حسن صحیح کہا اوربیہقی نے شعب میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ۔ ت)

 

(۱؂مسند احمد بن حنبل عن خولہ بنت قیس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت   ۶ /۳۷۸)

 (سنن الترمذی کتاب الزہد باب ماجاء فی اخذ المال حدیث ۲۳۸۱دارالفکر بیروت۴ /۱۶۶)

(شعب الایمان حدیث ۵۵۲۷دارالکتب العلمیۃ بیروت ۵ /۳۹۶و۳۹۷)

 

حدیث ۷۷: جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : مانفعنی مال قطّ مانفعنی مال ابی بکر مجھے کسی مال نے وہ نفع نہ دیا جو ابو بکر کے مال نے دیا۔ صدیق اکبر روئے اورعرض کی : ھل انا ومالی الالک یا رسول اللہ میری جان ومال کا مالک حضور کے سواکون ہے یارسول اللہ۔ احمد۲؂فی مسندہ بسند صحیح عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ احمد نے اپنی مسند میں بسند صحیح ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ (ت)

 

 (۲؂مسند احمد بن حنبل عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۵۳)

 

حدیث ۷۸: آیہ کریمہ : قل لااسئلکم علیہ اجر ا الا المودۃ فی القربٰی ۳؂۔ (۳؂القرآن الکریم ۴۲ /۲۳)

 

تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔(ت) کے اسباب نزول میں مروی انصار کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حضور عاجزی کرتے ہوئے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوئے اورعرض کی : اموالنا وما فی ایدینا للہ ورسولہ۔ ابناء جریر ۱؂ و ابی حاتم ومردویۃ عن مقسم عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ ہمارے مال اورہمارے ہاتھوں میں جو کچھ ہے سب اللہ ورسول کا ہے ۔ (جریر کے بیٹوں اور ابی حاتم اورمردویہ نے مقسم سے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت )

 

( ۱؂  جامع البیان (تفسیر طبری )تحت الآیۃ ۴۲ /۲۳  داراحیاء التراث العربی بیروت ۲۵ /۳۲)

(تفسیر ابن ابی حاتم تحت الآیۃ ۴۲/ ۲۳  مکتبہ نزار مصطفی البازمکۃ المکرمۃ ۱۰ /۳۲۷۶)

(الدرالمنثور بحوالہ ابن جریروابن ابی حاتم وابن مردویہ ۴۲ /۲۳  داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۲۹۹)

 

حدیث ۷۹: کہ جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے روز حنین زنان وصبیان بنی ہوازن کو اسیر فرمایا اوراموال وغلام وکنیز مجاہدین پر تقسیم فرمادئے اب سرداران قبیلہ اپنے اہل وعیال واموال حضور( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) سے مانگنے کو حاضر ہوئے زُہیر بن صرد جشمی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی :

(۱) امنن علینا رسول اللہ فی کرم

فانک المرء نرجوہ ونذخر

(۲) امنن علٰی بیضۃٍ قد عاقھا قدر

فشتت شملھا فی دھرھا غیر

(۳) ابقت لنا الدھرھنا فاعلی حزَنٍ

علی قلوبھم الغماء والغمر

(۴) ان لم تدارکھم نعماء تنشرھاً          

یا ارجح الناس حلماً حین یختبر  (۱) یارسول اللہ ! ہم پر احسان فرمائیے اپنے کرم سے ، حضور ہی وہ مرد کامل وجامع فواضل ومحاسن وشمائل ہیں جس سے ہم امید کریں اورجسے وقت مصیبت کےلئے ذخیرہ بنائیں۔

(۲) احسان فرمائیے اس خاندان پر کہ تقدیر جس کے آڑے آئی اس کی جماعت تتّربتّرہوگئی اس کے وقت کی حالتیں بدل گئیں ۔

(۳) یہ بدحالیاں ہمیشہ کےلئے ہم میں غم کے وہ مرثیہ خواں باقی رکھیں گی جن کے دلوں پر رنج وغیظ مستولی ہوگا۔

(۴) اورحضور کی نعمتیں جنہیں حضور نے عام فرمادیا ہے ان کی مدد کو نہ پہنچیں تو ان کا کہیں ٹھکانہ نہیں اے تمام جہان سے زیادہ عقل والے !(صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ واصحابہ وسلم )

 

قال فلما سمع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھذا الشعر قال ماکان لی ولبنی عبدالمطلب فھو لکم وقالت قریش ماکان لنا فھوللہ ولرسولہ وقالت الانصار ماکان لنا فھو للہ ورسولہٖ۔الطبرانی فی ثلاثیات معجمہ الصغیر حدثنا عبید اللہ ابن رماحس القیسیّ برمادۃ الرمالۃ سنۃ اربع وسبعین ومائتین ثنا ابو عمرو زیاد بن طارق وکان قد اتت علیہ عشرون ومائۃ سنۃ قال سمعت ابا جَروَلٍ زھیر بن صردن الجشمی ۱؂ یقول فذکرہ ۔ یہ اشعار سن کر سید ارحم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میرے اوربنی عبدالمطلب کے حصے میں آیاوہ میں نے تمہیں بخش دیا ۔ قریش نے عرض کی جو کچھ ہمارا ہے وہ سب اللہ کا ہے اوراس کے رسول کا ہے ۔ انصار نے عرض کی جو کچھ ہمارا ہے وہ سب اللہ کا ہے اوراس کے رسول کا ہے جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ طبرانی نے معجم صغیر کی ثلاثیات میں کہا کہ ہمیں ۲۷۴ھ میں رمادہ رملہ پر عبید اللہ بن رماحس قیسی نے حدیث بیان کی ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی ابو عمرو زیاد بن طارق نے جن کی عمر ۱۲۰سال ہوئی انہوں نے کہا کہ میں نے ابو جرول زہیر بن صُرد جشمی کو کہتے ہوئے سنا ، پھر انہوں نے اس کو ذکر کیا۔ (ت)

 

( ۱؂  المعجم الکبیر عن زہیر بن صردالجشمی حدیث ۵۳۰۳المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت   ۵/ ۷۰  و ۲۶۹)

 (المعجم الصغیر من اسمہ عبید اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت     ۱/ ۳۷ ۔ ۲۳۶)

(المعجم الاوسط حدیث ۴۶۶۷ مکتبۃ المعارف ریاض ۵ /۱۹ ۔ ۳۱۸)

 

حدیث ۸۰: کہ اسود بن مسعود ثقفی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی : ؎

انت الرسول الذی ترجیٰ فواضلُہ

عندالقحوط اذا ما اخطاء المطرُ حضور وہ رسول ہیں کہ حضور کے فضل کی امید کی جاتی ہے قحط کے وقت جب مینہ خطاکرے ۔ عمر بن شیبۃ من طریق عامر ن الشعبی ذکرہ الحافظ فی الاصابۃ وقال ذکرہ ابن فتحون فی الذیل۲؂۔  (عمر بن شیبہ نے بطریق عامر  الشعبی سے روایت کیا ، حافظ نے الاصابہ میں اس کا ذکر کیا اورفرمایا اس کا ذکر ابن فتحون نے ذیل میں کیا۔ ت)

 

(۲؂الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ترجمہ ۱۶۸ اسود بن مسعود ثقفی دارالفکر بیروت ۱ /۷۵)

 

حدیث ۸۱: ایک اعرابی نے خدمت اقدس میں حاضرہوکرعرض کی :

 (۱) اتیناک والعذراء یدمی لبابھا

وقد شغلت اممٍ الصبی عن الطفل

(۲) والقت بکفیہا الفتیٰ لاستکانۃٍ

من الجوع ضعفالایمر ولا یحلی

(۳) ولیس لنا الا الیک فرارُنا

 واین قرار الخلق الا الی الرسل  (۱) ہم در دولت پر شدت قحط کی ایسی حالت میں حاضر ہوئے کہ جو کنواری لڑکیاں ہیں (جنہیں ان کے والدین بہت عزیز رکھتے ہیں ناداری کے باعث خادمہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے کام کاج کرتے کرتے ان کے سینے شق ہوگئے) ان کی چھاتیوں سے خون بہہ رہا ہے مائیں بچوں کو بھول گئی ہیں۔

(۲) جوان قوی کو اگرکوئی لڑکی دونوں ہاتھوں سے دھکا دے تو ضعف گرسنگی سے عاجزانہ زمین پر ایسا گرپڑتا ہے کہ منہ سے کڑوی میٹھی بات نہیں نکلتی ۔

(۳) اورہمارا حضور کے سوا کون ہے جس کے پاس مصیبت میں بھاگ کر جائیں ، اورخود مخلو ق کو جائے پناہ ہے ہی کہاں مگر رسولوں کی بارگاہ میں۔صلی اللہ تعالٰی علیھم وبارک وسلم۔

 

یہ فریاد سن کر حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بنہایت عجلت منبراطہر پر جلوہ فرما ہوئے اوردونوں دست مبارک بلند فرما کر اپنے رب عزوجل سے پانی مانگا ، ابھی وہ پاک مبارک ہاتھ جھک کر گلوئے پرنور تک نہ آئے تھے کہ آسمان اپنی بجلیوں کے ساتھ اُمڈا اوربیرون شہر کے لوگ فریاد کرتے آئے کہ یارسول اللہ ! ہم ڈوبے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : حوالینا لاعلینا ہمارے گردبرس ہم پرنہ برس۔ فوراً ابر مدینے پر سے کھل گیا ، آس پا س گھرا تھا اورمدینہ طیبہ سے کھلاہوا ۔ یہ ملاحظہ فرما کر حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خندہ دنداں نما کیا اورفرمایا : اللہ کے لیے ہے خوبی ابو طالب کی ، اس وقت وہ زندہ ہوتا تو اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں ، کون ہے جو ہمیں اس کے اشعار سنائے ۔ مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! شاید حضور یہ اشعار سننا چاہتے ہیں جو ابو طالب نے نعت اقدس میں عرض کئے تھے :

 (۱) وابیض یستسقی الغمام بوجھہ

ثمال الیتامی عصمۃ للارامل

(۲) تلوذبہ الھلاک من ال ھاشم

فھم عندہ فی نعمۃ وفواضل  (۱) وہ گورے رنگ والے کہ ان کے منہ کے صدقے میں ابر کا پانی مانگا جاتا ہے ۔یتیموں کے جائے پناہ ،بیواؤ ں کے نگہبان ۔

(۲) بنی ہاشم (جیسے غیور لوگ ) تباہی کے وقت ان کی پناہ میں آتے ہیں انکے پاس ان کی نعمت وفضل میں بسر کرتے ہیں ۔

 

حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : اجل ذلک اردتُّ ۔ ہاں یہی نظم ہمیں مقصود تھی ۔ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وسقانا بجاھہ عندہ الغیث النافع الاتم الاعم امین ! اللہ تعالی آپ پر درود وسلام نازل فرمائے اور ہمیں آپ کے طفیل باران رحمت عطا فرمائے جو نافع کامل ترین اور سب کو شامل ہو آمین (ت) البیھقی۱؂فی الدلائل بسند صالح کما افادہ حافظ الشان العسقلانی والدیلمی فی مسند الفردوس کلامھما عن انس رضی اللہ تعالی عنہ ۔ بیہقی نے دلائل میں بسند صالح روایت کیا جیسا کہ حافظ الشان عسقلانی نے اور دیلمی نے مسند الفردوس میں اس کا افادہ فرمایا ان دونوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ۔ت

 

 (۱؂دلائل النبوۃ للبیھقی باب استسقاء النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الخ دارالکتب العلمیہ بیروت۶ /۱۴۱)

(فتح الباری شرح صحیح البخاری باب سوال الناس الامام الاستسقاء ۳ /۴۲۹)

 

یہ حدیث نفیس بحمد اللہ تعالی اول تاآخر شفائے مومنین وشقائے منافقین ہے اور حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پسندیدہ فرمودہ اشعار میں یہ الفاظ خاص ہمارے مقصود رسالہ ہیں کہ حضور کے سواہمارا کوئی نہیں جس کے پاس مصیبت میں بھاگ کرجائیں۔خلق کیلئے جائے پناہ نہیں سو ا بارگاہ انبیاء علیہم الصلوۃ والثنا ء کے ، وہ گورے رنگ والا پیارا جس کے چاند سے منہ کے صدقے میں مینہ اترتا ہے ،وہ یتیموں کا حافظ ،وہ بیواؤں کا نگہبان ،وہ ملجاوماوا کہ بڑے بڑے تباہی کے وقت اسکی پناہ میں آکر اس کی نعمت اس کے فضل سے چین کرتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ والہ وبارک وسلم ۔

 

حدیث ۸۲: کہ جب جعرانہ کے اموال غنیمت حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسم نے قریش و دیگر اقوام عرب کوعطا فرمائے اور انصار کرام نے اس میں سے کوئی شے نہ پائی انھی (اس خیال سے کہ شاید حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ہم پر اب وہ نظر توجہ وکرم نہ رہی شاید اب اپنی قوم قریش کی طرف زیادہ التفات فرمائیں بمقتضائے سنت عشاق کہ دوسروں پر لطف محبوب زائد دیکھ کر رنجیدہ وکبیدہ ہوتے ہیں ) ملال گزرا یہاں تک بعض کی زبان پر بعض کلمات شکایت آمیز آئے حضور اقدس نے سنا ،خاطر انور پر ناگوار گزرا ،انھیں جمع کرکے ارشاد فرمایا : الم اجدکم ضلالا فھداکم اللہ الم اجدکم عالۃ فاغناکم اللہ۱؂۔ کیا میں نے تمھیں نہ پایا گمراہ پس اللہ عزوجل نے تمھیں راہ دکھائی ،کیا میں نے تمھیں نہ پایا محتاج پس اللہ عزوجل نے تمھیں تو نگری دی ۔

 

 (۱؂المصنف لابن ابی شیبہ کتاب المغازی غزوہ حنین الخ حدیث ۳۶۹۸۶دارالکتب العلمیہ بیروت ۷ /۴۱۹)

 

اور صحیح بخاری وصحیح مسلم ومسند امام احمد میں یوں ہے:  یا معشر الانصار الم اجد کم ضلا لا فھداکم اللہ بی ، وکنتم متفرقین فالفکم اللہ بی ،وکنتم عالۃ فاغناکم اللہ تعالی بی ۔ رواہ عن عبد اللہ بن زید بن عاصم۲؂و نحوہ لاحمد عن انس ۳؂ ولہ ولعبد بن حمید والضیاء عن ابی سعید ۴؂رضی اللہ تعالی عنہم ۔ اے گروہ انصار !کیا میں نے نہ پایاتمہیں گمراہ پس اللہ عزوجل نے تمہیں میرے ذریعے سے ہدایت کی ، اورتمہارے آپس میں پھوٹ تھی اللہ تعالٰی نے میرے وسیلے سے تم میں موافقت کردی، اورتم محتاج تھے اللہ عزوجل نے میرے واسطے سے تمہیں تونگری بخشی (عبداللہ بن زید بن عاصم سے اسے روایت کیا گیا اوراسی طرح احمد نے حضرت انس سے نیز احمد ، عبدبن حمید اورضیاء نے ابو سعید خدری سے روایت کیا رضی اللہ تعالٰی عنہم۔(ت)

 

(۲؂صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الطائف قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۶۰)

(صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ باب اعطاء الموئفۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۳۹)

(مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۴۲)

(۳؂مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴و۲۵۳)

(۴؂کنزالعمال بحوالہ حم وعبدبن حمید عن ابی سعید الخدری حدیث ۳۳۷۶۴مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۷)

 

انصار کرام ہر کلمے پر عرض کرتے جاتے تھے : نعوذ باللہ من غضب اللہ ومن غضب رسولہ ۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اللہ کے غضب اور رسول اللہ کے غضب سے جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔

حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : الاتجیبون جواب کیوں نہیں دیتے ؟

 

انصار نے عرض کی : اللہ ورسولہ امن وافضل ۔ اللہ ورسول کا احسان زائد ہے اور اللہ ورسول کا فضل بڑا ہے ۔

 

حضور نے فرمایا : تم چاہو تو جواب دے سکتے ہو ۔ انصار کرام  روئے اور باربار عرض کرنے لگے  : اللہ ورسولہ امن وافضل ۔ اللہ ورسول کا احسان زائد ہے اوراللہ ورسول کا فضل بڑاہے ۔

 

ابوبکر بن ابی شیبہ ۱؂فی مصنفہ عن ابی سعید ن الخدری رضی اللہ تعالی عنہ ۔ ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔(ت)

 

 (۱؂المصنف لابن ابی شیبۃ کتاب المغازی حدیث ۳۶۹۸۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۷ /۴۱۹)

 

حدیث ۸۳: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: موتان الارض للہ ورسولہ البیھقی ۲؂فی الشعب عن ا بن عباس رضی اللہ تعالی عنھما موصولاً ۔ جو زمین کسی کی ملک نہیں وہ اللہ اور اللہ کے رسول کی ہے بیہقی نے شعب میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مو صولا روایت کیا ۔(ت)

 

 (۲؂السنن الکبری للبیہقی کتاب احیاء الموات باب لایترک ذمی یحییہ الخ دارصادر بیروت ۶ /۱۴۳)

 

حدیث ۸۴: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: عادی الارض من اللہ ورسولہ ھو فیھا عن طاؤس ۱؂مرسلا ۔ قدیم زمینیں اللہ ورسول کی ملک ہیں ۔اسی میں طاؤس سے مرسلا مروی ہے ۔(ت )

 

 (۱؂السنن الکبری للبیہقی کتاب احیاء الموات باب لا یترک ذمی یحییہ الخ دار صادر بیروت ۶ /۱۴۳)

 

اقول: بن ،جنگل ،پہاڑوں اور شہرو ں کی ملک افتادہ زمینوں کی تخصیص اس لئے فرمائی کہ ان پر ظاہری ملک بھی کسی کی نہیں یہ ہر طرح خالص ملک خدا ورسول  ہیں جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔ورنہ محلوں ،احاطوں ،گھروں ،مکانوں کی زمینیں بھی سب اللہ ورسول کی ملک ہیں اگرچہ ظاہری نام من وتو کا لگا ہوا ہے ۔زبور شریف سے رب العزت کا نام سن ہی چکے کہ احمد مالک ہوا ساری زمین اور تمام امتوں کی گردنوں کا۲؂، صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔

 

 (۲؂تحفہ اثنا عشریہ باب ششم در بحث نبوت وایمان انبیاء سہیل اکیڈمی لاہور ص۱۶۹)

 

تو یہ تخصیص مکانی ایسی ہے جیسے آیہ کریمہ والامر یومئذ للہ ۳؂ میں تخصیص زمانی کہ حکم اس دن اللہ کے لئے ہے ،حالانکہ ہمیشہ اللہ ہی کا ہے ۔مگر وہ دن روز ظہور حقیقت وانقطاع ادعا ہے ۔

 

 (۳؂القران الکریم   ۸۲ /۱۹)

 

لا جرم صحیح بخاری شریف کی حدیث نے ساری زمین بلا تخصیص اللہ ورسول کی ملک بتائی وہ کہاں ؟ وہ اس حدیث آئندہ میں :

 

حدیث ۸۵ : فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : اعلمو ا ان الارض للہ ولرسولہ البخاری ۴؂فی الجہاد من الجامع الصحیح باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ ۔ یقین جان لو کہ زمین کے مالک اللہ ورسول ہیں جل وعلا وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔امام بخاری نے الجامع الصحیح میں کتاب الجہاد باب یہود کا جزیر ۃ العرب سے اخراج میں حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ۔(ت)

 

(۴؂صحیح البخاری کتاب الجہاد باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۴۹)

(صحیح مسلم باب اجلاء الیہود من جزیرۃ العرب قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۴)

 

حدیث ۸۶: اعشی مازنی رضی اللہ تعالی عنہ خدمت اقدس مں اپنے بعض اقارب کی ایک فریاد لے کر حاضر ہوئے اور اپنی منظوم عرضی مسامع قدسیہ پر عرض کی جس کی ابتدااس مصرع سے تھی ع

یامالک الناس ودیان العرب  (اے تمام آدمیوں کے مالک اور اے عرب کے جزا وسزا دینے والے )

 

حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان کی فریاد سن کر شکایت رفع فرما دی ۔ الامام احمد حدثنا محمد بن ابی بکر ن المقدمی ثنا ابو معشرن البّراء ثنی صدقۃ بن طیسلۃ ثنی معن بن ثعلبۃ المازنی والحی بعد ثنی الاعشی المازنی رضی اللہ تعالی عنہ قال اتیت النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فانشدتہ یا مالک الناس ودیان العرب الحدیث۱؂ورواہ الامام الاجل ابو جعفرن الطحاوی فی معانی الآثار حدثنا ابن ابی داود ثنا المقدمی ثنا ابو معشرالی اخرہ نحوہ سندا۲؂و متناً ورواہ ابن عبداللہ ابن الامام فی زوائد مسندہٖ من طریق عوف بن کھمس بن الحسن عن صدقۃ بن طیسلۃ حدثنی معن بن ثعلبۃ المازنی والحی بعدہ قالو ا ثنا الاعشیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ فذکرہ ۳؂ قلت والیہ اعنی عبداللہ عزاہ حافظ الشان فی الاصابۃ۴؂۔ انہ رواہ فی الزوائد والعبدالضعیف غفراللہ تعالٰی لہ قدرواہ فی المسند نفسہ ایضاکما سمعت وللہ الحمد ورواہ البغوی وابن السکن وابن ابی عاصم کلھم من طریق الجنبد بن امین بن عروۃ بن نضلۃ بن طریق بن بھصل الحرمازی عن ابیہ عن جدہٖ نضلۃ ولفط البغوی عنہ حدثنی ابی امین حدثنی ابی ذروۃ عن ابی نضلۃ عن رجل منھم یقال لہ الاعشی واسمہ عبداللہ بن الاعوررضی اللہ تعالٰی عنہ فذکر القصۃ وفیہ فخرج حتی اتی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فعادبہ وانشأیقول یا مالک الناس ودیان العرب الحدیث۵؂۔

 

(۱؂مسند احمد بن حنبل المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۰۱)

(مجمع الزوائد کتاب النکاح باب النشوز دارالکتاب بیروت ۴ /۲۳۱)

(۲؂شرح معانی الآثار کتاب الکراہیۃ باب روایۃ الشعر الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۴۱۰)

(۳؂ زوائد عبداللہ بن احمد کتاب الادب باب ماجاء فی الشعر حدیث۱۲۸ دارالبشائر الاسلامیۃ بیروت ص۳۲۳)

(۴؂الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ترجمہ ۴۵۳۳ عبداللہ بن الاعور دارالفکر بیروت ۳ /۱۵۲)

(۵؂الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ بحوالہ البغوی ترجمہ ۸۷۱۴ نضلۃ بن طریف دارالفکر بیروت ۵ /۳۳۷)

 

یہ حدیث جلیل اتنے ائمہ کبار نے باسانید متعددہ روایت کی اورطریق اخیر میں یہ لفظ ہیں کہ :

 

اعشی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پناہ لی اورعرض کی کہ : اے مالک آدمیاں ، واے جز اوسزا دہ عرب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وبارک وسلم۔

 

حدیث ۸۷: حارث بن عوف مزنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حاضر خدمت ہوکر عرض کی : ابعث معی من یدعو الی دینک فانالہ جار۔ میرے ساتھ کسی شخص کو حضور ارسال فرمائیں جو میری قوم کو حضور کے دین کی طرف دعوت کرے اوروہ میری پناہ میں ہوگا۔ حضو راقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ساتھ کر دیا حارث رضی ا للہ تعالٰی عنہ کے کنبے والوں نے عہد شکنی کر کے انہیں شہید کردیا ۔ حسان بن ثابت رضی ا للہ تعالٰی عنہ نے اس بارے میں اشعار کہے ازانجملہ یہ شعر ؎

 

 

یاحارث من یغدر بذمۃ جارہ

منکم فان محمداً لایغدر اے حارث ! جو کوئی تم میں اپنے پناہ دئے ہوئے کے عہد سے بے وفائی کرے تو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جسے پناہ دیتے ہیں وہ سچی پناہ ہوتی ہے۔ فجاء الحارث فاعتذر و ودی الانصاری وقال یا محمد انی عائذبک من لسان حسانٍ ۔الزبیر بن بکارٍ حدثنی عمی مصعب ان الحارث بن عوف اتی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱؂فذکرہ ۔ حارث رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حاضر ہوکر عذر کیا اور انصاری شہید کی دیت دی اورحضور سے عرض کی یارسول اللہ ! میں حضور کی پناہ مانگتاہوں حسان کی زبان سے ۔ زبیر بن بکار نے کہا مجھے میرے چچا مصعب نے حدیث بیان کی کہ حارث بن عوف رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوکر پھر پوری حدیث بیان کی۔(ت)

 

 (۱؂الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ بحوالہ الزبیر ترجمہ ۱۴۵۷ الحارث بن عوف دارالفکر بیروت ۱ /۴۳۰)

 

حدیث ۸۸: صحیح مسلم شریف میں حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے : انہ کان یضرب غلامہ فجعل یقول اعوذباللہ قال فجعل یضربہ فقال اعوذبرسول اللہ ، فترکہ  فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم واللہ اقدرعلیک منک علیہ قال فاعتقہ ۱؂۔ یعنی وہ اپنے غلام کو مار رہے تھے ، غلام نے کہنا شروع کیا، اللہ کی دہائی ، اللہ کی دُہائی ۔انہوں نے ہاتھ نہ روکا۔غلام نے کہا : رسول اللہ کی دہائی ۔ فوراً چھوڑدیا ۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : خدا کی قسم ! بے شک اللہ تجھ پر اس سے زیادہ قادرہے جتنا تو اس غلام پر۔ انہوں نے غلام کو آزاد کردیا۔

 

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الایمان باب صحۃ الممالیک قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۵۲)

 

الحمدللہ ! اس حدیث صحیح کے تیور دیکھئے ، حیا ہو تو وہابیت کو ڈوب مرنے کی بھی جگہ نہیں، یہ حدیث تو خدا جانے بیماردلوں پر کیا کیا قیامتیں توڑے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دُہائی دینا ہی ان کے دہائی مچانے کو بہت تھی نہ کہ وہ بھی یوں کہ سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ تعالٰی عنہ خود فرماتے ہیں وہ اللہ عزوجل کی دہائی دیتارہا میں نے نہ چھوڑا جب نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دہائی دی فوراً چھوڑ دیا۔

 

علماء فرماتے ہیں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دہائی سن کرحضور کی عظمت دل پرچھائی ہاتھ روک لیا۔

اقول: (میں کہتاہوں ۔ت)یعنی پہلی بات ایک معمول ہوجانے سے ایسی موثر نہ ہوئی ، انسان کا قاعدہ ہے کہ جس بات کا محاورہ کم ہوتاہے اس کا اثر زیادہ پڑتا ہے ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اللہ عزوجل کی عظمت سے ناشی ہے ۔ بحمداللہ حدیث کے یہ معنی ہیں اگرچہ وہابیہ کے طور پر تو اس کا درجہ شرک سے بھی کچھ آگے بڑھا ہواہے۔

 

حدیث ۸۹: یہی مضمون عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں امام حسن بصری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا: قال بینا رجل یضرب غلامالہ، وھو یقول اعوذباللہ اذبصربرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال اعوذبرسول اللہ فالقٰی ماکان فی یدہٖ وخلٰی عن العبد فقال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اما واللہ انہ احق ان یعاذ من استعاذبہ منی فقال الرجل یارسول اللہ فھو حر لوجہ اللہ۱؂ ۔ یعنی ایک صاحب اپنے غلام کو مار رہے تھے اوروہ کہہ رہا تھاکہ اللہ کی دُہائی ۔ اتنے میں غلام نے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تشریف لاتے دیکھا اب کہا رسول اللہ کی دہائی ۔ فوراً اس صاحب نے کوڑا ہاتھ سے ڈال دیا اورغلام کو چھوڑدیا۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : سنتا ہے خدا کی قسم بیشک اللہ عزوجل مجھ سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی دُہائی دینے والے کو پناہ دی جائے ۔ ان صاحب نے عرض کی: یا رسول الہ !تو وہ اللہ کے لیے آزاد ہے ۔

 

 

(۱؂الدرالمنثور بحوالہ عبدالرزاق عن الحسن تحت الآیۃ ۴ /۳۶ داراحیاء التراث العربی بیروت   ۲ /۵۰۲)

(کنز العمال بحوالہ عب عن الحسن حدیث ۲۵۶۷۳   مؤسسۃ الرسالہ بیروت  ۹ /۲۰۳)

 

اقول: الحمدللہ اس حدیث نے تو اوربھی پانی سر سے تیرکردیا،صاف تصریح فرمادی کہ حضو ر اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے غلام کی دونوں دُہائیاں بھی سنیں اورپہلی دہائی پر ان کا نہ رکنا اوردوسری پرفورا باز رہنا بھی ملاحظہ فرمایا مگر افسوس کہ وہابیت کی ذلت ومردودیت کو نہ تو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس غلام سے فرماتے یہں کہ تو مشرک ہوگیا اللہ کے سو امیری دہائی دیتاہے اوروہ بھی کس طرح کہ اللہ عزوجل کی دہائی چھوڑ کر نہ آقا سے ارشاد کرتے ہیں کہ یہ کیسا شرک اکبر ، خدا کی دہائی کی وہ بے پرواہی اورمیری دہائی پر یہ نظر ، ایک تو میری دہائی ماننی اور وہ بھی یوں کہ خدا کی دہائی نہ مان کر افسوس آقا وغلام کو مشرک بنانا درکنار خود جو اس پرنصیحت فرماتے ہیں وہ کس مزے کی بات ہے کہ اللہ مجھ سے زیادہ اس کا مستحق ہے ، دہائی تو اپنی بھی قائم رکھی اوراپنی دہائی دینے پرنہ دینی بھی ثابت رکھی ، صرف اتنا ارشاد ہوا کہ خدا کی دہائی زیادہ ماننے کے قابل تھی ۔ الحمدللہ کہ اللہ کے سچے رسول صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم نے دینوہابیہ کے جھوٹے قرآن تقویۃ الایمان کی کچھ قدر نہ فرمائی اسے سخت ذلت پہنچائی جس میں اس کا امام لکھتاہے : ''اول معنی شرک وتوحید کے سمجھنا چاہیے اکثر لوگ پیروں پیغمبروں کو مشکل کے وقت پکارتے ہیں، ان سےمادیں مانگتے ہیں ، کوئی اپنے بیٹے کا نام عبدالنبی رکھتاہے کوئی علی بخش کوئی غلا م محی الدین، کوئی مشکل کے وقت کسی کی دہائی دیتاہے ، غرض کہ جو کچھ ہندو اپنے بتوں سے کرتے ہیں وہ سب کچھ یہ جھوٹے مسلمان اولیاء و انبیاء سے کر گزرتے ہیں اوردعویٰ مسلمانی کا کئے جاتے ہیں۔سچ فرمایا اللہ صاحب نے کہ نہیں مسلمان ہیں اکثر لوگ مگر کہ شرک کرتے ہیں  ۱؂۔ ''اھ مختصراً

 

 (۱؂تقویۃ الایمان   پہلا باب توحید وشرک کے بیان میں   مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص ۴)

 

ان دافع البلاء کے منکروں سے بھی اتنا پوچھ لیجئے کہ کسی کی پناہ یعنی اس کی دہائی دینی دفع بلا ہی کے لیے ہوتی ہے یا کچھ اور ۔ ولٰکن الوھابیۃ قوم یعتدون۔ (اورقوم وہابیہ حدسے بڑھنے والی ہے ۔ت)

 

حدیث ۹۰: ابن ماجہ حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :  قال کنا جلو سا عند رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذ اقبل بعیر تعدوا حتی وقف علی ھامۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایھا البیعر اسکن فان تک صادقاً فلک صدقک وان تک کاذباًفعلیک کذبک مع ان اللہ تعالٰی قد امن عائذنا ولیس بخائب لائذنا فقلنا یارسول اللہ مایقول ھذا البعیر، فقال ھذا بعیر ھم اھلہ بنحرہ واکل لحمہ فھرب منھم واستغاث بنیکم بینا نحن کذٰلک اذ ا قبل صاحبہ او قال اصحابہ یتعادون فلما نظر الیھم البعیرعاد الی ھامّۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلاذبھا فقالوا یا رسول اللہ ھذا بعیرناھرب منذثلاثۃ ایام فلم نلقہ الا بین یدیک، فقال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اما انہ یشکوا لی فبئست الشکایۃ۔ فقالو یارسول اللہ ما یقول ؟قال یقول انہ ربی فی امنکم احوالا وکنتم تحملون علیہ فی الصیف الی مواجع الکلاء فاذا کان الشتاء رحلتم الی موضع الدفاء فلما کبر استفخلتم فرزقکم اللہ ابلاًسائماًفلما ادرکتہ ھذہ السنۃ الخصبۃ ھممتم بذبحہ واکل لحمہٖ۔ فقالو ا واللہ کان ذٰلک یارسول اللہ۔ فقال صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم ماھذا جزاء المملوک الصالح من موالیہ ۔ فقالوا یارسول اللہ فانا لانبیعہ ولا ننحرہ۔ فقال صلی ا للہ تعالٰی علیہ وسلم کذبتم قد استغاث بکم فلم تغیثوہ وانا اولی بالرحمۃ منکم فان اللہ نزع الرحمۃ من قلوب المنافقین واسکنھا فی قلوب المؤمنین ۔ فاشتراہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم منھم بمائۃ درھم وقال یٰایھا البعیر!ا نطلق فانت حر لوجہ اللہ تعالٰی۔ فرغیٰ علی ھامۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اٰمین۔ ثم رغیٰ فقال اٰمین ۔ ثم رغٰی الرابعۃ فبکی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ فقلنا یارسول اللہ ما یقول ھذا البعیر؟قال قال جزاک اللہ ایھا النبی عن الاسلام والقراٰن خیراً۔، فقلت اٰمین ۔ثم قال سکن اللہ رعب امتک یوم القیٰمۃ کما سکنت رعبی فقلت اٰمین ۔ ثم قال حقن اللہ دماء امتک من اعدائھا کما حقنت دمی فقلت اٰمین۔ ثم قال لاجعل اللہ باس امتک بینھا فبکیت فان ھذہ الخصال سألت ربی فاعطانیھا ومنعنی ھذہٖ واخبرنی جبریل علیہ السلام عن اللہ عز وجل ان فناء امتی بالسیف جری القلم بما ھو کائن ۔ کذا اوردہ عازیا لہ الامام الحافظ ذکی الدین عبدالعظیم المنذر ی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فی کتاب الترغیب والترہیب ۱؂۔ یعنی ہم خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوئے ناگاہ ایک اونٹ دوڑتا آیا یہاں تک کہ حضور کے سر مبارک کے قریب آکر کھڑا ہوا، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : اے اونٹ !ٹھہراگر تو سچا ہے تو تیرے سچ کا پھل تیرے لیے ہے اورجھوٹا ہے تو تیرے جھوٹ کا وبال تجھ پر ہے ، اس کے ساتھ یہ بات بیشک کہ جو ہماری پناہ میں آئے اللہ تعالٰی نے اس کے لیے امان رکھی ہے اور جو ہمارے حضو رالتجا لائے وہ نامرادی سے بری ہے ۔ صحابہ نے عرض کی : یارسول اللہ!یہ اونٹ کیا عرض کرتاہے ؟فرمایا : اس کے مالکوں نے اسے حلا ل کر کے کھالینا چاہا تھا یہ ان کے پاس سے بھاگ آیا اور تمہارے نبی کے حضور فریاد لایا۔ ہم یوں ہی بیٹھے تھے کہ اتنے میں اس کا مالک یاکہا اس کے مالک دوڑتے آئے ، اونٹ نے جب انہیں دیکھا پھر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سرانور کے پاس آگیا اور حضور کی پناہ پکڑی ، اس کے مالکوں نے عرض کی : یا رسول اللہ!ہمارااونٹ تین دن سے بھاگا ہوا ہے آج حضور کے پاس ملا ہے ۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : سنتے ہو اس نے میرے حضور نالش کی ہے اوربہت ہی بری نالش ہے ۔ وہ بولے : یا رسول اللہ!یہ کیا کہتاہے ؟فرمایا : یہ کہتا ہے کہ وہ برسوں تمہاری امان میں پلا گرمی میں اس پر اسباب لادکر سبزہ ملنے کی جگہ تک جاتے اورجاڑے میں گرم مقام تک کوچ کرتے ، جب وہ بڑا ہوا تو تم نے اسے سانڈبنالیا اللہ تعالی نے اس کے نطفے سے تمہارے بہت اونٹ کردیے جو چرتے پھرتے ہیں، اب جو اسے یہ شاداب برس آیا تم نے اسے ذبح کرکے کھا لینا چاہا ۔وہ بولے :یا رسول اللہ !خداکی قسم !یونہی ہوا ۔حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا نیک مملوک کا بدلہ اس کے مالکوں کی طرف سے یہ نہیں ہے ۔وہ بولے:یا رسول اللہ !تو ہم اسے نہ بیچیں گے نہ ذبح کریں گے ۔فرمایا :غلط کہتے ہو اس نے تم سے فریاد کی تو تم اس کی فریاد کو نہ پہنچے اور میں تم سے زیادہ اس کا مستحق ولائق ہوں کہ فریادی پر رحم فرماؤں اللہ عزوجل نے منافقوں کے دلوں سے رحمت نکال لی اور ایمان والوں کے دلوں میں رکھی ہے ،پس حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے وہ اونٹ ان سے سو روپے کو خرید لیا اور اس سے ارشاد فرمایا :اے اونٹ ! چلا جا کہ تو اللہ عزوجل کے لئے آزاد ہے ۔یہ سن کر اس نے سر اقدس پر اپنی بولی میں کچھ آواز کی۔حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے آمین کہی ۔اس نے دوبارہ آواز کی حضور نے پھر آمین کہی ۔اس نے سہ بارہ عرض کی حضور نے پھر آمین کہی اس نے چوتھی بار کچھ آواز کی اس پر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے گریہ فرمایا ۔ صحابہ نے عرض کی :یا رسول اللہ !یہ کیا کہتا ہے ؟فرمایا :اس نے کہا اے نبی اللہ !اللہ عزوجل حضور کو اسلام و قران کی طرف سے بہتر جزا عطا فرمائے میں نے کہا آمین ،پھر اس نے کہا اللہ تعالی قیامت کے دن حضور کی امت سے خوف دور کرے جس طرح حضور نے میر خوف دور کیا میں نے کہا آمین ۔پھر اس نے کہا اللہ جل وعلا حضور کی امت کے خون ان کے دشمنوں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھے( کہ کفار کبھی انہیں استیصال نہ کر سکیں )جیسا حضور نے میرا خون بچایا ،میں نے کہا آمین پھر اس نے کہا اللہ سبحانہ امت والا کی سختی انکے آپس میں نہ رکھے (باہمی خونریزی سے دور رہیں )،اس پر میں نے گریہ فرمایا کہ یہ سب مرادیں میں اپنے رب عزوجل سے مانگ چکا اور اس نے مجھے عطا فرما دیں مگر یہ پچھلی منع فرمائی اور مجھے جبرائیل امین علیہ الصلوۃ والتسلیم نے اللہ عزوجل کی طرف سے خبر کر دی کہ میری امت کی فنا تلوار سے ہے ۔قلم چل چکا شدنی پر ۔یوں ہی کتاب الترغیب والترھیب میں امام حافظ ذکی الدین عبد العظیم مندزی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے وارد ہے ۔(ت)

 

(۱؂الترغیب والترھیب الترغیب فی الشفقۃ علی خلق اللہ تعالٰی مصطفی البابی مصر ۳ /۸۔۲۰۷)

 

فقیر نے اس رسالہ میں بنظر اختصار اکثر احادیث کا خلا صہ لکھا یا صرف محل استدلال پر اقتصار کیا ۔یہ حدیث نفیس کہ ایک اعلی اعلام نبوت ومعجزات جلیل حضرت رسالت علیہ وعلی الہ افضل الصلوۃ والتحیہ سے تھی بتمامہ ذکر کرنی مناسب سمجھی ،یہاں موضع استناد وہ پیاری پیاری اسناد ہے کہ جوہماری پناہ لے اللہ عزوجل اسے پناہ دیتاہے اور جوہم سے التجا کرے نامراد نہیں رہتا ۔الحمد للہ رب العالمین اور خدا جانے دافع البلا کس شے کا نام ہے ۔

 

حدیث ۹۱ : عبداللہ بن سلامہ بن عمیر اسلمی صحابی ابن صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں : تزوجت ابنۃ سراقۃ ابن حارثۃ النجاری وقتل ببدرفلم اصب شیاء من الدنیا کان احب الی من نکاحھا واصدقتھا مائتی درھم فلم اجد شیئ اسوقہ الیھا فقلت علی اللہ ورسولہ المعوّل فجئت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فاخبرتہ الحدیث۔ میں نے سراقہ بن حارثہ نجاری شہید غزوہ بدر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صاحبزادی سے نکاح کیا دنیا کی کوئی چیز میں نے ایسی نہ پائی جو انکے ساتھ شادی ہونے سے مجھے زیادہ پیاری ہو میں نے دو سو روپے ان کا مہر کیا تھا اور پاس کچھ نہ تھا جو انہیں بھیجوں ، میں نے کہا اللہ اوراللہ کے رسول ہی پر بھروسہ ہے ، پس میں خدمت انور حضور پر نورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوا اورحال عرض کیا۔

حضور نے ایک جہاد پر انہیں بھیجا اور فرمایا :  ارجوا ان یغنیک اللہ مھرز وجتک۔ میں امید کرتاہوں کہ اللہ عزوجل تمہیں اتنی غنیمت دلادے گا کہ اپنی بیوی کا مہر اداکردو۔

ایسا ہی ہوا ،  وللہ الحمد۔

 

الامام الثقۃ محمد بن عمرواقد ۲؂عن ابی حدردوھوابن سلامۃ المذکور رضی اللہ تعالٰی عنہما بسندہٖ الیہ وقد علی توثیقہ الامام المحقق علی الاطلاق فی الفتح وذکرنا فی منیر العین۔

 

 (۲؂کتاب المغازی سریۃ خضرۃ امیرھا ابو قتادۃ موسسۃ الاعلمی للمطبوعات بیروت ۲ /۷۸۔۷۷۷)

 

امام ثقہ محمد بن عمر واقدنے ابی حدردجوسلامہ مذکوررضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس پر انکی سند سے روایت کیا، اورامام محقق علی الاطلاق نے فتح میں اس کی توثیق فرمائی اورہم نے اسے (اپنے رسالے ) منیر العین میں بیان کیا۔(ت)

 

حدیث ۹۲و۹۳: غزوہ خیبر شریف میں خیبر کو جاتے وقت حضرت عامر بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حضور میں رجزپڑھتے چلے ؎

 (۱)                                        اللھم لولاانت مااھتدینا

ولا تصدقنا ولا صلینا

(۲)                                           فاغفرفداءً لک ماابقینا

والقین سکینۃ علینا

(۳)                                       وثبت الاقدام ان لاقینا

ونحن عن فضلک ما استغنینا

 

 (۱) خداگواہ ہے یا رسول اللہ!اگر حضور نہ ہوتے تو ہم ہدایت نہ پاتے ، نہ زکوٰۃ دیتے نہ نماز پڑھتے ۔

(۲) تو بخش دیجئے ہم حضور پر قربان جو گناہ ہمارے رہ گئے ہیں اورہم پرحضور سکینہ اتاریں۔

(۳) اورجب ہم دشمنوں سے مقابل ہوں تو حضور ہمیں ثابت قدم رکھیں ہم حضور کے فضل سے بے نیاز نہیں،صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

یہ حدیث صحیح بخار ی ۱؂ وصحیح مسلم وسنن ابی داودوسنن نسائی ومسند احمدوغیرہا میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بطرق عدیدہ ہے اورپچھلامصرعہ زیادات صحیح مسلم وامام احمد سے ہے۔

 

رواہ من طریق ایاس بن سلمۃ عن ابیہ سلمۃ بن الاکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ایاس بن سلمہ کے طریق پر ان کے والد سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۶۰۳)

(صحیح مسلم ، کتاب الجہاد والسیر باب غزوہ خیبر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۱۱)

(سنن النسائی کتاب الجہاد والسیر باب من قاتل فی سبیل اللہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲ /۶۰)

(مسند احمد بن حنبل عن سلمۃ بن الاکوع المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۵۰)

 

ہم حدیث صحیح بخاری مع شرح امام احمد قسطلانی مسمّٰی بہ ارشاد الساری کے الفاظ کریمہ مختصر ذکر کریں :  (عن یزید بن ابی عبید عن سلمۃ بن الاکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ قال خرجنا مع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الی خیبر فسرنا لیلاً فقال رجل من القوم) ھو اسید بن حضیر رضی ا للہ تعالٰی عنہ(لعامر یاعامر الاتسمعنا من ھنیہاتک ) وعند ابن اسحٰق من حدیث نصربن دھر ن الاسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ انہ سمع رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقول فی مسیرہٖ الی خیبر لعامر بن الاکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ انزل یاابن الاکوع فاحد لنا من ھنیھا تک ففیہ انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھو الذی امرہ بذٰلک وکان عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ رجلا شاعراً فنزل یحدوبالقوم یقول ؎

اللھم لو لا انت ماأھتدینا

ولاتصدقنا ولاصلینا

فاغفر فداء لک ، المخاطب بذٰلک النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ای اغفرلنا تقصیرنا فی حقک ونصرک اذ لایتصور ان یقال مثل ھٰذا الکلام للباری تعالٰی وقولہ اللھم لم یقصد بھا الدعاء وانما افتتح بھا الکلام (ماابقینا) ای ماخلّفنا  وراءنا من الاٰثام (والقین)ای او سل ربک ان یلقین (سکینۃ علینا٭وثبت الاقدام) ای وان یثبت الاقدام (ان لاقینا)العدو(فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ھذا السائق قالوا عامر بن الاکوع قال یرحمہ اللہ ) وعند احمد من روایۃ ایاس بن سلمۃ فقال غفرلک ربک قال وما استغفررسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لانسان یخصہ الا استشھد قال رجل من القوم ھو عمر بن الخطاب رضی ا للہ تعالٰی عنہ کما فی مسلم (وجبت)لہ الشھادۃ بدعائک لہ (یانبی اللہ لو لا امتعتنابہ) ابقیتہ لنا لنتمتع بہ۱؂ ۔ یعنی یزید بن ابو عبید اپنے مولٰی سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ہمراہ رکاب اقدس خیبر کوچلے ، رات کا سفر تھا ، حاضرین سے ایک صاحب حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ کے چچاحضرت عامر بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا: اے عامر !ہمیں کچھ اشعار اپنے نہیں سناتے ، اورابن اسحق نے نصر بن دہراسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے یوں روایت کیاکہ میں نے سفر خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو عامر بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرماتے سنا ''اے ابن اکوع !''اترکر کچھ اپنے اشعار ہمارے لئے شروع کرو۔اس روایت سے معلوم ہوا کہ خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں اس امر کا امر فرمایا۔ عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ شاعر تھے اترے اورقوم کے سامنے یوں حد ی خوانی کرتے چلے کہ :یارب !اگر حضور نہ ہوتے ہم راہ نہ پاتے نہ زکوٰۃ ونماز بجالاتے ۔

ہم حضور پر بلاگرداں (ف) ہوں ہمارے جو گناہ باقی رہے ہیں بخش دیجئے ۔ان اشعار میں مخاطب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں یعنی حضو ر کے حقوق حضور کی مدد میں جو قصور ہم سے ہوئے حضورمعاف فرمادیں ۔ حضور کےلئے خطاب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ عزوجل سے ایسا خطاب کرنا معقول نہیں (ائمہ فرماتے ہیں کہ کسی پر فداہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس پر اگرکوئی بلاء یا تکلیف آتی تو وہ اپنے اوپر لے لی جائے اس کی محافظت میں اپنی جان دے دی جائے تو اللہ عزوجل کو اس کلام کا مخاطب کیونکر بناسکتے ہیں) رہا یہ کہ ابتداء میں اللھم ہے اس سے مقصودحضرت عزت جل جلالہ کو پکارنا نہیں (کہ یہ اللہ عزوجل سے عرض قرارپائے ) بلکہ اس کے نام سے ابتدائے کلام ہے اورحضور ہم پرسکینہ اتاریں مقابلہ  دشمن کے وقت اورہمیں ثابت قدم رکھیں یعنی اپنے رب جل وعلاسے ان مراعات کی دعا فرمادیں ۔یہ اشعار سن کر حضو راقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون اونٹوں کو رواں کرتاہے ؟ صحابہ نے عرض کی : عامر بن اکوع۔ حضور نے فرمایا : اللہ اس پر رحمت کرے۔ اورمسنداحمد (وصحیح مسلم) میں بروایت ایاس بن سلمہ (اپنے والد ماجد سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالٰی عنہ سے) ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے (عامررضی اللہ تعالٰی عنہ سے ) فرمایا: تیرا ر ب تیری مغفرت فرمائے اورحضور (ایسی جگہ ) جب کسی خاص شخص کا نام لے کر دعائے مغفرت فرماتے تھے وہ شہید ہوجاتاتھا (لہذا )حاضرین میں سے ایک صاحب یعنی امیرالمومنین عمر رضی ا للہ تعالٰی عنہ جیساکہ صحیح مسلم میں تصریح ہے عرض کی : یارسول !حضور کی دعاسے عامر کےلئے شہادت واجب ہوگئی حضور نے ہمیں ان سے نفع کیوں نہ لینے دیا یعنی حضور انہیں ابھی زندہ رکھتے کہ ہم ان سے بہر ہ مند ہوتے ۔انتہٰی ۔

 

ف: قربان ہونے والا، دوسرے کی بلااپنے اوپر لینے والا)

 

 (۱؂ارشاد الساری شرح صحیح البخاری کتاب المغازی حدیث ۴۱۹۶دارالکتب العلمیۃ بیروت   ۹/ ۲۱۴تا۲۱۶)

 

یہ پچھلے لفظ بھی یاد رکھنے کے قابل ہیں کہ ''حضور انہیں زندہ رکھتے''۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔یہ حدیث ابن اسحٰق نے اس سند سے روایت کی : حدثنی محمد بن ابراھیم بن الحارث عن ابی الھیشم بن نصر بن دھرن الاسلمی ان اباہ حدثہ انہ  سمع رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقول فی مسیرہ الی خیبر لعامر بن الاکوع فذکرہ ۲؂۔ بیان کیا مجھ سے محمد بن ابراہیم بن الحارث نے انہوں نے ابی الہیشم بن نصر بن دہراسلمی سے کہ انکے والد نے سفر خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو عامر بن اکوع کو یہ فرماتے ہوئے سناتو اس کا ذکر کردیا۔(ت)

 

 (۲؂السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ذکر المسیرالٰی خیبر دارابن کثیر بیروت الجزئین الثالث والرابع ص ۳۲۸و۳۲۹)

 

اسی میں ہے :  فقال عمر بن الخطّاب رضی اللہ تعالٰی عنہ وجبت واللہ یارسول اللہ لوامتعتنا بہٖ، فقتل یوم خیبر شہیدًا۳؂۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی خدا کی قسم شہادت واجب ہوگئی ، یا رسول اللہ!کاش حضور ہمیں ان کی زندگی سے بہرہ یاب رکھتے ۔ وہ روز خیبر شہید ہوئے رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

 

 (۳؂السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ذکر المسیرالٰی خیبر دارابن کثیر بیروت الجزئین الثالث والرابع ص۳۲۹)

 

نیز امام ا حمد نے مسند میں بطریق ابن اسحٰق روایت فرمائی: حدثنا یعقوب ثنا ابی عن ابن اسحٰق ثنا محمد بن ابراہیم بن الحارث التیمی الحدیث ۴؂سنداً و متناً بید انہ اقتصرعلی الاشعار ولم یذکر دعاء النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولا قول عمررضی اللہ تعالٰی عنہ وفیہ فاحد لنا مکان قولہٖ فخذلنا ولعل ھذا ھو الاصوب واللہ تعالٰی اعلم۔ ہمیں حدیث بیان کی یعقوب نے کہ ہمیں میرے باپ نے بحوالہ ابن اسحاق حدیث بیان کی کہ ہمیں محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی نے سند ومتن مذکور کے ساتھ حدیث بیان کی سوائے اس کے کہ انہوں نے صرف اشعار پرا کتفاء کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دعا مبارک اورحضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول مبارک ذکر نہیں کیا۔ اور اس روایت میں ''فخذلنا''کی جگہ لفظ''فاحدلنا''ہے۔شاید یہی زیادہ درست ہے واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)

 

 (۴؂مسند احمد بن حنبل حدیث نصر بن دہر رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۴۳۱)

 

حدیث ۹۴: صحیحین میں ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے کہ انہوں نے ایک تصویر دار قالین خریدا ، حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باہر سے تشریف لائے دروازے پر رونق افروز رہے اندر قدم کرم نہ رکھا، ام المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہا نے چہرہ انور میں اثر ناراضی پایا(اللہ انہیں ناراض نہ کرے دونوں جہان میں) عرض کرنے لگیں: یا رسول اللہ اتوب الی اللہ والی رسولہٖ ماذا اذنبت۱؂۔ یارسول اللہ !میں اللہ اوراللہ کے رسول کی طرف توبہ کرتی ہوں مجھ سے کیا خطا ہوئی ۔

 

 (۱؂صحیح البخاری کتاب اللباس باب من کرہ القعود علی الصور قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۸۸۱)

(صحیح مسلم کتاب اللباس والزینۃ باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۰۱)

(مسند امام احمد عن عائشہ صدیقۃ رضی اللہ تعالٰی عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۲۴۶)

(مصنف عبدالرزاق باب التماثیل وماجاء فیہ حدیث ۱۹۴۸۴ المجلس العلمی بیروت ۱۰ /۳۹۸)

 

حدیث ۹۵: چالیس صحابہ کرام رضی ا للہ تعالٰی عنہم باہم بیٹھے مسئلہ قدر وجبر میں بحث کرنے لگے ان میں صدیق وفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہمابھی تھے روح امین جبریل علیہ السلام نے خدمت اقدس حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کی : یارسول اللہ !حضور اپنی امت کے پاس تشریف لے جائیں کہ انہوں نے نئی راہ نکالی۔ حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایسے وقت باہرتشریف لائے کہ وہ وقت حضور کی تشریف آوری کا نہ تھا صحابہ سمجھے کوئی نئی بات ہے ۔ آگے حدیث کے پیارے پیارے الفاظ دلکش ودلنواز   یُوں ہیں : وخرج علیھم ملتمعاً لونہ متوردۃ وجنتاہ کانما نفقأبحب الرمان الخامض فنھضوا الی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حاسرین اذرعھم ترعد اکفہم واذرعہم فقالواتبنا الی اللہ ورسولہٖ الحدیث ۔الطبرانی ۱؂ فی الکبیر عن ثوبان رضی ا للہ تعالٰی عنہ مولٰی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ یعنی حضور پرنورصلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ ان پر اس حالت میں برآمد ہوئے کہ رنگ چہرہ اقدس کا(شدت جلال سے ) دہک رہا ہے ، دونوں رخسارہ مبارک گلاب کی طرح سرخ ہیں گویا انار ترش کے دانے پھوٹ نکلے ہیں،صحابہ کرام یہ دیکھتے ہی حضور کی طرف (عاجزی کے ساتھ )کلائیاں کھولے ہاتھ تھرتھراتے کانپتے کھڑے ہوئے اورعرض کی کہ ہم اللہ ورسول کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ (طبرانی نے کبیر میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

(۱؂المعجم الکبیر عن ثوبان رضی اللہ عنہ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت   ۲ /۹۵و۹۶)

 

ان احادیث سے ثابت کہ صدیقہ وصدیق وفاروق وغیرہم اکتالیس صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے توبہ کرنے میں اللہ قابل التوب جل جلالہ کے نام پاک کے ساتھ اس کے نائب اکبر نبی التوبہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک بھی ملایا اورحضور پرنور خلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے قبول فرمایا حالانکہ توبہ بھی اصل حق حضرت عزت عزجلالہ کا ہے ۔ ولہذا حدیث میں ہے ایک قیدی گرفتار کر کے خدمت اقد س حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں لایاگیا وہ بولا : اللھم انی اتوب الیک ولا اتوب الی محمد۔ الہٰی ! میری توبہ تیری طرف ہے ، نہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف۔

حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : عرف الحق لاھلہٖ ۔احمد۲؂ والحاکم وصححہ وروٰی عن الاسود بن سریع رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ حق کو حق والے کےلئے پہچان لیا۔احمد وحاکم نے اسے روایت کیا اوراس کی تصحیح کی اوراس کو اسود بن سریع سے روایت کیا۔(ت)

 

 (۲؂مسند احمد بن حنبل حدیث اسود بن سریع رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۴۳۵)

(کنزالعمال حدیث ۸۷۲۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۳/ ۷۷۶)

(کنزالعمال حدیث ۱۱۶۱۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۴ /۵۴۶)

(کشف الخفاء حدیث ۱۷۲۵ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۵۵)

 

حدیث ۹۶: صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حضرت کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے جب ان کی توبہ قبول ہوئی انہوں نے مولا ئے دو جہاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی : یارسول اللہ ان من توبتی ان انخلع من مالی صدقۃ الی اللہ والی رسولہٖ ۱؂صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ یارسول اللہ میری توبہ کی تمامی یہ ہے کہ میں اپنے سارے مال سے نکل جاؤں اللہ اوراللہ کے رسول کے لیے صدقہ کر کے ۔ جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

(۱؂صحیح البخاری کتاب الزکوٰۃ ۱/ ۱۹۲   وکتاب الوصایا۱ /۳۸۶       وکتاب المغازی ۲ /۶۳۶)

(صحیح مسلم     کتاب التوبۃ     باب حدیث توبہ         قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۶۰)

(سنن ابی داود کتاب الایمان والنذرباب من نذران یتصدق بما لہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۲ /۱۱۴)

(سنن النسائی کتاب الایمان باب اذا ھدی مالہ علی وجہ النذر نور محمد کارخانہ کراچی     ۲ /۱۴۷)

(السنن الکبرٰی للبیہقی کتاب الزکوٰۃ ۴ /۱۸۱  وکتاب السیر ۹ /۳۵ وکتا ب الایمان ۱۰ /۶۸ دارصادر بیروت )

( مسند امام احمد حدیث کعب بن مالک رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۴۵۴،۴۵۶،۴۵۹)

(المصنف لابن ابی شیبۃ کتاب المغازی حدیث ۳۶۹۹۶دارالکتب العلمیۃ بیروت    ۷ /۴۲۵)

 

ارشادالساری شرح صحیح بخاری میں ہے : ای صدقۃ خالصۃ للہ ولرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فالٰی بمعنی اللام۲؂۔ یعنی اس حدیث میں اللہ ورسول کی طرف صدقہ کرنے کے معنی اللہ ورسول کے لیے تصدق ہیں، تو حاصل یہ کہ اپنا سارا مال خاص خدا اوررسول کے نام پر تصدق کردوں تبارک وتعالٰی وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔چنانچہ اس میں الی بمعنی لام ہے ۔(ت)

 

(۲؂ارشادالساری شرح صحیح البخاری کتاب المغازی دارالکتب العلمیۃ بیروت ۹ /۳۹۲ )

 

حدیث ۹۷: یمن کی ایک بی بی اوران کی بیٹی بارگاہ بیکس پناہ محبوب الہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضرہوئیں ، دختر کے ہاتھ میں بھاری بھاری کنگن سونے کے تھے ، مولی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : تعطین زکوٰۃ ھذا اس کی زکوٰۃ دے گی۔ عرض کی : نہ ۔فرمایا : ایسرک ان یسورک اللہ بھما یوم القیٰمۃ سوار ین من نار ٍ ۔کیا تجھے یہ بھاتا ہے کہ اللہ تعالٰی قیامت کے دن انکے بدلے تجھے آگ کے دو کنگن پہنائے ؟ان بی بی نے فوراً وہ کنگن اتار کر ڈال دئے اور عرض کی  :   ھما للہ ورسولہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔احمد ۱؂ وابوداؤد والنسائی عن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما بسند لامقالہ فیہ۔ یا رسول اللہ ! یہ دونوں اللہ اوراللہ کے رسول کے لیے ہیں جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔(احمد وابوداود ونسائی نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بسند''اس میں کلام نہیں ''روایت کیا ۔ت)

 

(۱؂ سنن ابی داود کتاب الزکوٰۃ باب الکنز ما ھو وزکوٰۃ الحلی آفتاب عالم پریس لاہور ۱ /۲۱۸)

(سنن النسائی کتاب الزکوٰۃ باب زکوٰۃ الحلی نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۳۴۳)

( مسند امام احمد عن عبداللہ بن عمرو  المکتب الاسلامی بیروت ۲/ ۱۷۸و ۲۰۴ و ۲۰۸)

( مسند امام احمد عن اسماء بنت یزید   المکتب الاسلامی بیروت ۶/۴۶۱)

 

حدیث ۹۸: کہ جب حضرت ابولبابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی توبہ قبول ہوئی انہوں نے خدمت اقدس حضورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کی : یارسول اللہ انی اھجردارقومی التی اصبت بھا الذنب وانخلع من مالی صدقۃ الی اللہ والی رسولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ یارسول اللہ! میں اپنی قوم کا محلہ جس میں مجھ سے خطا سرزد ہوئی چھوڑتاہوں اوراپنے مال سے اللہ ورسول کے نام پر تصدق کر کے باہر آتاہوں جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابولبابہ! تہائی مال کافی ہے ۔ انہوں نے ثلث مال اللہ ورسول کے لئے صدقہ کردیا عزجلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ الطبرانی فی الکبیر وابو نعیم عن ابن شہاب ن الزھری عن الحسین بن السائب بن ابی لبابۃ عن ابیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لما تاب اللہ علی جئت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقلت فذکرہ۱؂۔ طبرانی نے کبیر میں اورابو نعیم نےابن شہاب زہری سے انہوں نے حسین بن سائب بن ابولبابہ سے بحوالہ اپنے باپ کے روایت کیاوہ فرماتے ہیں جب اللہ تعالٰی نے میری توبہ قبو ل فرمائی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: پھر پوری حدیث ذکر کی۔ (ت)

 

 (۱؂المعجم الکبیر عن ابی لبابۃ حدیث ۴۵۰۹ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۵ /۳۳)

(کنزالعمال بحوالہ طب وابی نعیم عن الزہری حدیث ۱۷۰۳۳ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۵۹۱)

(کنزالعمال بحوالہ طب وابی نعیم عن الزہری حدیث۴۶۱۰۶ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۶ /۶۲۴)

 

یہ حدیثیں جان وہابیت پر صریح آفت ہیں کہ تصدق کر نے میں اللہ عزوجل کے ساتھ اللہ کے محبو ب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک ملایا جاتا اورحضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مقبو ل رکھتے ہیں، وللہ الحجۃ البالغۃ ۔

 

اسی قبیل سے ہے افضل الاولیاء المحمدیین سیدنا صدیق اکبرامام المشاہدین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عرض کہ حضرت مولانا العارف باللہ القوی ، مولوی قدس سرہ المعنوی نے مثنوی شریف میں نقل کی کہ جب حضرت صدیق عتیق سیدنا بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آزاد کر کے حاضر بارگاہ عالم پناہ ہوئے ؎

گفت مادو بندگان کوئے تو

کردمش آزاد ہم بررُوئے تو۲؂

 

 (۲؂مثنوی معنوی معاتبہ کردن حضرت رسول باصدیق الخ دفتر ششم نورانی کتب خانہ پشاور ص۲۹)

 

 (صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا ہم دونوں آپ کی بارگاہ کے غلام ہیں میں نے آپ کی خاطر اسکوآزاد کردیا  ہے۔)

اورپہلے مصرع میں جو کچھ حضرت صدیق اکبر اپنے مالک ومولٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کر رہے ہیں اس پر تو دیکھا چاہئے ،وہابیت کا جن کتنا مچلے، نجدیت کی آگ کہاں تک اچھلے ، مگر ہاں امیر المومنین غیظ المنافقین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا درہ سیاست دکھایا چاہئے کہ بھوت بھاگے ، اورشاہ ولی اللہ صاحب کے پانی کا چھینٹا دیجئے کہ آگ دبے ، وہ کہاں ؟ وہ اس حدیث آئندہ میں، وباللہ التوفیق ۔

 

حدیث ۹۹: شاہ صاحب ازالۃ الخفاء میں بحوالہ روایت ابو حذیفہ اسحٰق بن بشر وکتاب مستطاب الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ ناقل کہ امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے ایک خطبے میں برسر منبر فرمایا: کنت مع رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فکنت عبدہ وخادمہ۱؂۔ میں حضور پر نور آقا ومولائے عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ میں تھاپس میں حضور کا بندہ اورحضور کا خدمتی تھا۔

 

 (۱؂ کنزالعمال حدیث ۱۴۱۸۴مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۵ /۶۸۱)

(الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ الفصل التاسع دارالمعرفۃ بیروت ۲ /۲۷۱)

 

اقول: یہ حدیث ابوحذیفہ مذکور نے فتوح الشام اورحسن بن بشر ان نے اپنی فوائد میں ابن شہاب زہری وغیرہ ائمہ تابعین سے نیز ابن بشران نے امالی، ابو احمد دہقان نے حرز حدیثی ،ابن عساکر نے تاریخ ، لالکائی نے کتاب السنۃ میں افضل التابعین سیدنا سعید بن المسیب بن حزن رضی اللہ عنہم سے روایت کی جب امیرالمومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خلیفہ ہوئے لوگوں پر ان کے شدت جلال سے عجب ہیبت چھائی یہاں تک کہ لوگوں نے باہر بیٹھنا چھوڑدیا کہ جب تک امیر المومنین کا برتاؤ نہ معلوم ہومتفرق رہو ،لوگ بولے صدیق اکبر کی نرمی اس درجہ تھی کہ مسلمانوں کے بچے جب انہیں دیکھتے دوڑتے ہوئے باپ باپ کہتے انکے پاس جاتے وہ ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے ، اوران کی ہیبت کی یہ حالت ہے کہ مردوں نے اپنی مجالس چھوڑدیں۔جب امیر المومنین کو یہ خبر پہنچی حکم دیا کہ جماعت نماز کے لئے پکار دیں ۔لوگ حاضر ہوئے امیر المومنین منبر پر وہاں بیٹھے جہاں صدیق اکبر اپنے قدم رکھتے تھے اور فرمایا کہ مجھے کافی ہے صدیق کے قدموں کی جگہ بیٹھوں ،جب سب جمع ہولئے امیر المومنین نے منبر اطہر سید ازہر صلی اللہ تعالی علیہ پر کھڑے ہو کر خطبہ فرمایا حمد وثنا الہی ودرودرسالت پناہی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعدکہا : یا یھا الناس انی قد علمت انکم کنتم تؤنسون منی شدۃ وغلظۃ وذلک انی کنت مع رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وکنت عبدہ وخادمہ ۔ لوگو !میں جانتا ہوں کہ تم مجھ میں سختی ودرشتی پاتے تھے اور اس کا سبب یہ ہے کہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ تھا اور میں حضور کا بندہ اور خدمتگار تھا ۔

حضور کی نرمی ورحمت وہ ہے جس کی نظیر نہیں ،اللہ عزوجل نے خود اپنے اسمائے کریمہ سے دونام حضور کو عطا فرمائے رؤف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ،تو میں حضور کے سامنے شمشیر برہنہ تھا وہ چاہتے مجھے نیام میں فرماتے چاہتے چلنے دیتے ،میں اسی حال پر رہا یہاں تک کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مجھ سے راضی تشریف لے گئے ،اور خدا کا شکر ہے اور میر ی سعادت ،پھر صدیق مسلمانوں کے کام کے والی ہوئے ،ان کی نرمی ورحمت وکرم کی حالت تم سب پر روشن ہے فکنت خادمہ وعونہ میں ان کا خادم اور ان کا سپاہی تھا ۔اپنی شدت ان کی نرمی کے ساتھ لاتا ،ان کے سامنے تیغ عریاں تھا وہ چاہتے نیام میں کرتے خواہ رواں فرماتے ،میں اسی حال پر رہا یہاں تک کہ وہ مجھ سے راضی ہوگئے ،اور خدا کا شکر ہے اور میری سعادت ،اب کہ میں تمھارا والی ہوا ،جان لو کہ وہ شدت دونی ہو گئی درجوں بڑھ گئی ،مگر کس پر ہو گی ۔ان پر جو مسلمانوں پر ظلم وتعدی کریں ،اور دینداروں کے لئے تو میں خود ان کے آپس سے بھی زیادہ نرم ومہربان ہوں ،جسے ظلم وزیادتی کرتے پاؤں گا اسے نہ چھوڑوں گا اس کا ایک گال زمین پر رکھ کر دوسرے گال پر اپنا پاؤں رکھوں گا یہاں تک کہ حق کو قبول کرلے ۔

سعید بن مسیب وابو سلمہ بن عبد الرحمن نے فرمایا : فوفی عمر واللہ بما قال وکان ابا العیا ل۱؂۔ خدا کی قسم عمر نے جو فرمایا پورا کر دکھایا ،وہ رعیت کے لئے مہربان باپ تھے رضی اللہ تعالی عنہ ۔یہ مختصر ہے ۔ اور بعض کی حدیث بعض میں داخل ہوگئی ہے ۔(ت )

 

 (۱؂تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۵۳۰۲ عمر بن الخطاب دار احیا التراث العربی بیروت ۴۷/ ۲۱۰،۲۱۱)

(کنز العمال بحوالہ ابن بشیر ان وابی احمد دہقان واللالکائی حدیث ۱۴۱۸۴موسسۃ الرسالۃ بیروت ۵ /۶۸۱تا ۶۸۳)

 

دیکھو امیر المومنین فاروق اعظم کا سا اشد الناس فی امر اللہ برملا بر سر منبر اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا بندہ بتا رہا ہے اور مجمع عام صحابہ کرام سنتا اور برقرار کھتا ہے ۔ وللہ الحمد ولہ الحجۃ السامیۃ (تعریف اللہ تعالی کے لئے ہے اور اسی کی حجت بلند ہے ۔ت )امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو بجرم ترویج تراویح جسے اس جناب فاروقیت مآب نے بدعت مان کر اچھا بتا یا اور فرمایا : نعم البدعۃ ھذہ۲؂۔ یہ بدعت بہت خوب وحسن ہے ۔

 

 (۲؂صحیح البخاری کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۶۶۹)

 

وہابی بیڑے کے بعض احیوٹ بہادر مثل نواب بھوپالی قنوجی وغیرہ صراحۃ معاذ اللہ گمراہ بدعتی لکھ ہی چکے اب اپنے آپ کو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا بندہ ماننے پر شرک کا اطلاق کرتے انھیں کیا لگتا ہے ،

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اذا لم تستحی فاصنع ما شئت ۱؂۔ جب تو بیحا ہو جائے تو پھر جو چاہے کر ۔(ت )

 

                                     ع                             بیحیا باش ہر چہ خواہی کن

 

بیحیا ہو جاپھر  جو چاہے کر ۔(ت )

 

 (۱؂المعجم الکبیر حدیث ۶۵۳،۶۵۸،المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۱۷ /۲۳۶،۲۳۷)

 

مگر صاحبو ! ذرا سوچ کر کہ شاہ ولی اللہ صاحب کا دامن زیر سنگ خارادبا ہے ۔ ؎

یوں نظر دوڑے نہ ترچھی تان کر

اپنا بیگانہ ذرا پہچان کر

اے عبید الہوا،اے عبید الدراہم وعبید الدنیا !ا ب بھی عبد النبی ،عبد الرسول ۔عبد المصطفی کو شرک کہنا ۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔

 

حدیث۱۰۰: بحمد اللہ ایک سے ایک زائد سنتے جائیے : ایک دن امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ حضرت شہزادہ گلگوں قبا اما م حسین شہید کربلا رضی اللہ تعالی عنہ کو بر سر منبر گود میں لے کر فرمایا : ھل انبت الشعر علی رؤسنا الا ابوک۔ ہمارے سروں پر بال کس نے اگائے ہوئے ہیں ۔تمھارے ہی باپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اگائے ہوئے ہیں ۔

یعنی جو کچھ عزت ،نعمت ودولت ہے سب حضور ہی کی عطا ہے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔ ابن سعد فی الطبقات ۲؂ عن السید الحسین صلی اللہ تعالی علی جدہ وابیہ  وامہ واخیہ وعلیہ وبنیہ  وبارک وسلم ۔ ابن سعد نے طبقات میں سید امام حسین ،اللہ تعالی ان کے جد کریم ،ان کے والد ماجد ،ان کی والدہ ماجدہ ،ان کے بھائی اوران کے بیٹوں پربرکات و سلامتی نازل فرمائے ،سے روایت کیا ۔(ت)

 

(۲؂الطبقات الکبری لابن سعد )

 

حدیث ۱۰۱: کہ ایک بارامیر المومنین حسن مجتبی صلی اللہ تعالی علی جدہ الکریم وعلیہ وسلم نے کا شانہ خلافت فاروقی پر  اذن طلب کیا ابھی اجازت نہ آئی تھی کہ امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دروازے پر حاضر ہو کر اذن مانگا ،امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ نے اجازت نہ دی ، یہ حال دیکھ کر سیدنا امام مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ بھی واپس آگئے ، امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ نے انھیں بلا بھیجا ،انھوں نے آکر کہا :یا امیر المومنین ! میں نےخیا ل کیا کہ اپنے صاحبزادے کو تو اذن دیا نہیں مجھے کیوں دیں گے ،فرمایا :  انت احق بالاذن منہ وھل انبت الشعر فی الراس بعد اللہ الا انتم ۔رواہ الدار قطنی۱؂۔ آپ ان سے زیادہ مستحق اذن ہیں اور یہ بال سر پر اللہ عزوجل کے بعد کس نے اگائے ہیں سوا تمھارے (اس کو دار قطنی نے روایت کیا ۔ت)

 

(۱؂الدار قطنی )

 

حدیث۱۰۲: سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مجھ سے کہا : ای بنی لوجعلت تاتینا تغشانا۔ اے میرے بیٹے !میری تمنا ہے کہ آپ ہمارے پاس آیا کریں۔

ایک دن میں گیا تو معلوم ہوا کہ تنہائی میں معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے باتیں کر رہے ہیں اورعبداللہ بن عمر رضی ا للہ تعالٰی عنہمادروازے پر رکے ہیں عبداللہ پلٹے ان کے ساتھ میں بھی واپس آیا ، اس کے بعد امیر المومنین مجھے ملے ، فرمایا: لم اراک جب سے پھر میں نے آپ کو نہ دیکھا یعنی تشریف نہ لائے میں نے کہا: یا امیر المومنین ! میں آیا تھا آپ معاویہ کے ساتھ خلوت میں تھے آپ کے صاحبزادے کے ساتھ واپس چلا گیا۔

امیر المومنین نے فرمایا: انت احق من ابن عمر فانما انبت ماترٰی فی رء وسنا اللہ ثم انتم ۲؂۔ آپ ابن عمر سے مستحق ترہیں یہ جوآپ ہمارے سروں پردیکھتے ہیں یہ اللہ ہی نے تواگائے ہیں

 

 (۲؂کنز العمال بحوالہ ابن سعد وابن راویہ حدیث ۳۷۶۶۲مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۶۵۵)

(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ الباب الثانی دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۳۴۱)

 

پھرآپ سے ایک اورروایت میں ہے :   ھل انبت الشعر غیرکم ۔الخطیب من طریق یحیٰی بن سعید ن الانصاری عن عبید بن حنین ثنی الحسین ابن علی رضی اللہ تعالٰی عنہما وکذا ابنا سعد وراھو یہ والاخرٰی رواھا الحافظ محب الدین الطبری فی الریاض النضرۃ من طریق عبید بن حنین لاحد الریحانتین رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ کیا سرپر بال کسی اورنے اگائے ہیں سوائے تمہارے؟(خطیب نے یحیٰی بن سعید انصاری کے طریق سے عبید بن حنین سے روایت کی کہ مجھے حسین بن علی نے حدیث بیان کی ۔ یونہی سعد اورراہویہ کے بیٹوں نے روایت کی ۔ اورایک اورحدیث جس کو محب الدین طبری نے ریاض النضرہ میں بطریق عبید بن حنین دونوں شہزادوں یعنی حسنین کریمین میں سے ایک کے بارے میں روایت کیا رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ (ت)

 

حافظ الشان امام عسقلانی الاصابۃ فی تمییز الصحابہ میں اسے بروایت خطیب ذکر کر کے فرماتے ہیں : سندہ صحیح ۱؂۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

 

 (۱؂الاصابہ فی تمییز الصحابۃ   ترجمہ  ۱۷۲۰  حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنھما    دارالفکر بیروت  ۱/۴۹۸)

 

میں ڈرتا ہوں کہ امیر المومنین عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ان حدیثوں کا سنانا کہیں وہابی صاحبوں کورافضی بھی نہ کردے۔ قل موتوابغیظکم ان اللہ علیم بذات الصدور ۲؂۔ تم فرمادو کہ مرجاؤ اپنی گھٹن میں، اللہ خوب جانتاہے دلوں کی بات۔(ت)

 

(۲؂القرآن الکریم ۳ /۱۱۹)

 

شاہزادوں سے امیر المومنین کے اس فرمانے کا مطلب بھی وہی ہے جو لفظ اول میں تھا کہ یہ بال تمھارے مہربان باپ ہی نے اگائے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔جس طرح اراکین سلطنت اپنے آقازادوں سے کہتے ہیں کہ جو نعمت ہے تمہاری ہی دی ہوئی ہے یعنی تمہارے ہی گھرسے ملی ہے ۔

 

حدیث۱۰۳: کہ حضرت بتول زہراصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علٰی ابیہا وعلیہا وعلٰی بعلہا وابنیہا وبارک وسلم اپنے دونوں شاہزادوں کو لےکر خدمت انور سیداطہرصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں اورعرض کی :

یارسول اللہ انحلھما یا رسول اللہ !ان دونوں کو کچھ عطافرمائیے۔ قال نعم قاسم خزائن الہی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں منظور۔ اما الحسن فقد نحلتہ حلمی وھیبتی واما الحسین فقد نحلتہ نجدتی وجودی حسن کو تو میں نے اپنا حلم اورہیبت عطاکی اورحسین کو اپنی شجاعت اوراپنا کرم بخشا۔

 

ابن عساکر۱؂ عن محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع عن ابیہ وعمہ عن جدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ابن عساکر نے محمد بن عبید اللہ بن ابو رافع سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے اپنے دادا رضی ا للہ عنہ سے روایت کیا۔ (ت)

 

(۱؂تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۱۵۵۹حسین بن علی رضی اللہ عنہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۴ /۱۴۱)

 

حدیث ۱۰۴: کہ جب حضرت خاتون فردوس رضی اللہ تعالٰی عنہا نے عرض کی :   یانبی اللہ انحلھما یانبی اللہ ! ان دونوں کو کچھ عطاہو۔

فرمایا : نحلت ھذا الکبیر المھابۃ والحلم ونحلت ھذا الصغیر المحبۃ والرضا۔ العسکری ۲؂فی الامثال عن جابر بن سمرۃ عن ام ایمن برکۃ رضی اللہ عنہم۔ میں نے اس بڑے کو ہیبت وبردباری عطا کی اوراس چھوٹے کو محبت ورضا کی نعمت دی ۔ (عسکری نے امثال میں جابر بن سمرہ سے انہوں نے ام ایمن برکۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۲؂کنز العمال بحوالہ العسکری فی الامثال حدیث ۳۷۷۱۰مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۶۷۰)

 

حدیث ۱۰۵: کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جس مرض میں وصال مبارک ہوا ہے اس میں دو جہان کی شاہزادی اپنے دونوں شہزادوں کولئے اپنے پدرکریم علیہ وعلیہم الصلٰوۃ والتسلیم کے پاس حاضرہوئیں اورعرض کی  : یارسول اللہ ھذان ابنای فورثھما شئیا ۔ یارسول اللہ ! یہ میرے دونوں بیٹے ہیں انہیں اپنی میراث کریم سے کچھ عطافرمائیے۔

ارشاد ہوا : اما حسن فلہ ھیبتی وسؤددی واما حسین فلہ جرأتی وجودی۔ الطبرانی ۱؂فی الکیبر وابن مندہ وابن عساکر عن البتول الزھراء رضی اللہ عنہا۔ حسن کے لیے تو میری ہیبت اورسرداری ہے اورحسین کے لیے میری جرأت اورمیراکرم (طبرانی نے کبیر میں اورابن مندہ اورابن عساکر نے بتول الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؂تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۱۵۵۹حسین بن علی رضی اللہ عنہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۴ /۱۴۰)

(المعجم الکبیر حدیث ۱۰۴۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۲ /۴۲۳)

(کنزالعمال بحوالہ ابن مندہ کر حدیث ۱۸۸۳۰ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۷ /۲۶۸)

(کنزالعمال بحوالہ طب وابن مندہ کر حدیث ۳۴۲۷۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۲ /۱۱۷)

(کنز العمال بحوالہ ابن مندہ طب ، ابی نعیم ،کر حدیث ۳۷۷۰۹مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۳ /۶۷۰)

 

اقول: وباللہ التوفیق حلم ومحبت وجود وشجاعت ورضا ومحبت کچھ اشیائے محسوسہ واجسام ظاہرہ تو نہیں کہ ہاتھ میں اٹھا کر دے دیے جائیں اوربتول زہر ا کاسوال بصیغہ عرض ودرخواست تھا کہ حضور انھیں کچھ عطافرمائیں جسے عرف نحاۃ میں صیغہ امر کہتے ہیں اور وہ زمان استقبال کے لیے خاص کہ جب تک یہ صیغہ زبان سے اداہوگا زمانہ حال منقضی ہوجائے گا اس کے بعد قبول ووقوع  جو کچھ ہوگا زمانہ تکلم سے زمانہ مستقبل میں آئے گا اگرچہ بحالت فورواتصال اسے عرفاً زمانہ حال کہیں بہرحال درخواست وقبول کوزمانہ ماضی سے اصلاً تعلق نہیں ، اب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کیا فرمایا نعم ہاں دوں گا۔ لاجرم یہ قبول زمانہ استقبال کا وعدہ ہوا فان السؤال معاد فی الجواب ای نعم انحلھما اس کے متصل ہی حضور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ میں نے اپنے اس شاہزادے کو یہ نعمتیں دیں اوراس شہزادے کو یہ دولتیں بخشیں ۔ یہ صیغے بظاہر ماضی کے ہیں اوراس سے زمان وعدہ تھا اور زمان وعدہ عطا نہیں کہ وعدہ عطا پر مقدم ہوتاہے ۔ لاجرم یہ صیغے اخبار کے نہیں بلکہ انشا ہیں جس طرح بائع ومشتری کہتے ہیں بعت اشتریت میں نے بیچی میں نے خریدی ۔ یہ صیغے کسی گزشتہ خریدوفروخت کی خبر دینے کے نہیں ہوتے بلکہ انہیں سے بیع وشر ا پیداہوتی ہے انشاکی جاتی ہے یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس فرمانے ہی میں کہ میں نے اسے یہ دیا اسے یہ دیا حلم وہیبت وجود وشجاعت ورضا ومحبت کی دولتیں شاہزادوں کو بخش دیں یہ نعمتیں خاص خزائن ملک السمٰوات والارض جل جلالہ کی ہیں۔ ؎

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشدخدائے بخشندہ  ۱ ؎

 

 (یہ سعادت اپنی طاقت سے حاصل نہیں ہوتی جب تک عطا فرمانے والا اللہ تعالٰی عطانہ فرمائے ۔ت)

 

تو وہ جو زبان سے فرمادے کہ میں نے دیں اوراس فرمانے ہی سے وہ نعمتیں حاصل ہوجائیں قطعاً یقینا وہی کرسکتاہے جس کا ہاتھ اللہ وہاب رب الارباب جل جلالہ کے خزانوں پر پہنچتاہے جسے اس کے رب جل وعلا نے عطا ومنع کا اختیار دیا ہے ، ہاں وہ کون ، ہاں واللہ وہ محمد رسول اللہ ماذون ومختار حضرۃ اللہ قاسم ومتصر ف خزائن اللہ جل جلالہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، والحمد للہ رب العالمین ،

 

لاجرم امام اجل احمد بن حجر مکی رحمہ اللہ تعالٰی کتاب مستطاب جو ہر منظم میں فرماتے ہیں :   ھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خلیفۃ اللہ الاعظم الذی جعل خزائن کرمہ وموائد نعمہ طوع یدیہ وتحت ارادتہ یعطی من یشاء ۲؂۔ وہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ عزوجل کے وہ خلیفہ اعظم ہیں کہ حق جل وعلانے اپنے کرم کے خزانے ، اپنی نعمتوں کے خوان سب ان کے ہاتھوں کے مطیع انکے ارادے کے زیر فرمان کردئے جسے چاہتے ہیں عطافرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

 

 (۲؂الجوہر المنظم الفصل السادس المکتبۃ القادریۃ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ص۴۲)

 

ان مباحث قدسیہ کے جانفزا بیان فقیر کے رسالہ سلطنت المصطفٰی فی ملکوت کل الورٰی میں بکثرت ہیں وللہ الحمد۔

 

حدیث ۱۰۶: صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :   ان لی اسماء انا محمد وانا احمد وانا الماحی الذی یمحوا اللہ بی الکفر وانا الحاشر الذی یحشر علی قدمی ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) مالک واحمد وابو داود الطیالسی وابن سعد والبخاری ۱؂و مسلم والترمذی والنسائی والطبرانی والحاکم والبیہقی وابونعیم واٰخرون عن جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ بیشک میرے متعدد نام ہیں ، میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی یعنی کفروشرک کا مٹانے والا ہوں کہ اللہ تعالٰی میرے ذریعے سے کفر مٹاتاہے ، میں حاشر یعنی مخلوق کو حشر دینے والا ہوں کہ میرے قدموں پر تمام لوگوں کا حشرہوگا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔اس کو مالک ، احمد ، ابو داود طیالسی ، ابن سعد، بخاری، مسلم ، ترمذی، نسائی، طبرانی ، حاکم ، بیہقی ، ابونعیم اوردیگر محدثین نے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا۔(ت)

 

(۱؂صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ الصف قدیمی کتب خانہ رکراچی ۲ /۷۲۷ )

( صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی اسمائہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۶۱)

(الشمائل مع سنن الترمذی باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حدیث ۳۶۵دارالفکر بیروت ۵ /۵۷۲)

(مسند احمد بن حنبل عن جبیربن  مطعم المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۸۴)

( مؤطا لامام مالک ماجاء فی اسماء النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میر محمد کتب خانہ کراچی ص۷۳۷)

(الطبقات الکبری ذکر اسماء النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارصادر بیروت ۱ /۱۰۵)

(المستدرک للحاکم کتاب التاریخ ذکر اسماء النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالفکربیروت ۲ /۶۰۴)

(دلائل النبوۃ للبیہقی باب ذکر اسماء رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۱۵۲تا۱۵۵)

(مسند ابی داود طیالسی احادیث جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ الجزء الرابع ص۱۲۷)

 (دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الثالث ذکر فضیلتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باسمائہ عالم الکتب بیروت ۱ /۱۲ )

 

حدیث ۱۰۷تا۱۱۱: صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : انا محمد واحمد والمقفی والحاشر ونبی التوبۃ ونبی الرحمۃ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)۔ میں محمد ہوں اوراحمد اورسب انبیاء کے بعد آنے والا اورخلائق کو حشر دینے والااورتوبہ کا نبی اور رحمت کا نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ احمد ومسلم ۲؂والطبرانی فی الکبیر عن ابی موسٰی الاشعری ونحوہ احمد وابناسعدٍ وابی شیبۃ والبخاری فی التاریخ والترمذی فی الشمائل عن حذیفہ وابن مردویہ فی التفسیر وابو نعیم فی الدلائل وابن عدی فی الکامل وابن عساکر فی تاریخ دمشق والدیلمی فی مسند الفردوس عن ابی الطفیل وابن عدی عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم وابن سعد عن مجاھدٍ مرسلاً یزیدون وینقصون وکلھم علی الحاشر متفقون۔ اس کوروایت کیا احمد ، مسلم اورطبرانی نے کبیر میں ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ۔ اوراس کی مثل احمد ،ا بن مسعود، ابن ابی شیبہ اوربخاری نے تاریخ میں اورترمذی نے شمائل میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ۔ اور ابن مردویہ نے تفسیر میں ، ابو نعیم نے دلائل میں ، ابن عدی نے کامل میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں اوردیلمی نے مسند الفردوس میں حضر ت ابو الطفیل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ۔ اور ابن عدی نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ۔ اورابن سعد نے مجاہد سے مرسلاً روایت کیا۔ اس میں راوی کمی بیشی کرتے رہے مگر حاشر پر سب متفق ہیں۔(ت)

 

(۲؂صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فی اسمائہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۶۱)

(مسند احمد بن حنبل عن ابی موسٰی الاشعری المکتب الاسلامی بیروت        ۴ /۳۹۵)

(شمائل الترمذی مع سنن الترمذی باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالفکر بیروت     ۵ /۵۷۲)

(الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر اسماء الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم داراصادر بیروت          ۱ /۱۰۴)

(المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الفضائل حدیث ۳۱۶۸۳دارالکتب العلمیہ بیروت          ۶ /۳۵۱)

(دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الثالث ذکر فضیلتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عالم الکتب العلمیہ بیروت       ۱ /۱۲)

(کنز العمال بحوالہ عد، وابن عساکر عن ابی الطفیل حدیث ۳۳۱۶۹مؤسسۃ الرسالہ بیروت      ۱۱ /۴۶۲و۴۶۳)

(الفردوس بماثور الخطاب حدیث ۹۷ دارالکتب العلمیۃ بیروت        ۱ /۴۲)

( الطبقات الکبرٰی ذکر اسماء رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارصادر بیروت     ۱ /۱۰۵)

 

حدیث ۱۱۲: حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک کنیسہ یہود میں تشریف لے جاکر دعوت اسلام فرمائی ، کسی نے جواب نہ دیا ، دوبارہ فرمائی ، کوئی نہ بولا ۔ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : ابیتم فواللہ انا الحاشر وانا العاقب وانا النبی المصطفٰی اٰمنتم اوکذبتم ۔الحاکم ۱؂ وصححہ عن عوف بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ تم نے نہ مانا توسن لوخدا کی قسم میں ہی حشردینے والا ہوں، میں ہی خاتم الانبیاء ہوں، میں ہی نبی مصطفی ہوں ، چاہے تم مانو یا نہ مانو (حاکم نے عوف بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیان کیااور اس کی تصحیح کی۔ ت)

 

 (۱؂المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ قصہ ذکر رؤیا عبداللہ بن سلام دارالفکر بیروت ۳ /۴۱۵)

 

حدیث ۱۱۳: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : انا احمد وانا محمد وانا الحاشر الذی احشر الناس علی قدمی وانا الماحی الذی یمحوا اللہ لی الکفر۲؂۔ میں احمد ہوں، میں محمد ہوں، میں حاشر ہوں کہ لوگوں کو اپنے قدموں پر حشردوں گا ، میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالٰی میرے ذریعے سے کفر کی بلا محو فرماتاہے ، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

 (۲؂المعجم الکبیر عن جابر رضی اللہ عنہ حدیث ۱۷۵  المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲ /۱۸۴)

(الکامل لابن عدی وہب بن وہب الخ دارالفکر بیروت ۷ /۲۵۲۷)

 

یہ اسم ماحی بھی ہمارے مقصود رسالہ سے ہے نیز بجہت اسناد اورنیز یوں کہ معاذاللہ کفر سے بدتر اورکیا بلا ہے ، توجو پیارا ماحی کفر ہے اس سے بڑھ کرکون  دافع البلاء ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔مگر اس نام پاک حاشر کی اسناد کو وہابی صاحب بتائیں سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یہ کیا فرمارہے ہیں کہ میں حشر دینے والا ہوں میں اپنے قدموں پر خلائق کو حشر دوں گا۔ تم نے تو قرآن مجید سےیہ سنا ہوگا کہ نشر کرنا حشر دینا خدا کی شان ہے ، یہاں بھی تمہارا امام الطائفہ یہی کہے گاکہ نبی نے اپنے آپ کو خدا کی شان میں ملادیا، خدا کی شان تم مدعیان علم وایمان ابھی خدا کی شان ہی کے معنی نہ سمجھے، نبی کی سب شانیں خدا کی شان ہیں ، تو خدا کی بعض شانیں ضرور نبی کی شان ہیں کہ موجبہ کلیہ کو اس کا عکس موجبہ جزئیہ لازم ہے ، ہاں وہ شان جس سے خدائی لازم آئے نبی کے لیے نہیں ہوسکتی ، دفع بلا یا سماع ندا یا فریاد کو پہنچنا یا مراد کا دینا وغیرہ امور نزاعیہ کہ بعطائے رحمانی ووساطت فیض ربانی سےمانے جاتے ہیں لزوم الوہیت سے کیا تعلق رکھتے ہیں ولٰکن من لم یجعل اللہ لہ نورًا فمالہ من نور  (لیکن جسے اللہ تعالٰی نور عطانہ فرمائے اس کے لیے کوئی نور نہیں۔ ت)

 

حدیث ۱۱۴: کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : میرا نام قرآن میں محمد اورانجیل میں احمد اورتورات میں احید ہے وانما سمیت احید لانی احید عن امتی نارجھنم  اورمیرا نام احید اس لئے ہواکہ میں اپنی امت سے آتش دوزخ کودفع فرماتاہوں۔ فلوجہ ربک الحمد وعلیک الصلٰوۃ والسلام یا احید یا نبی الحمد ۔ ابنا عدی وعساکر۱؂ عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ آپ کے رب کے لیے حمد اورآپ پر درود وسلام ہواے احید ، اے نبی حمد ۔ اس کو ابن عدی اور ابن عساکر نے سید نا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیاہے ۔(ت)

 

 (۱؂ تاریخ دمشق الکبیر باب معرفۃ اسمائہٖ الخ داراحیاء التراث العربی ۳ /۲۱)

(الکامل لابن عدی ترجمہ اسحٰق بن بشر دارالفکر بیروت ۱ /۳۳۱)

 

وہابی صاحبو! تمہارے نزدیک احید پیارا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دافع البلاء تو ہے ہی نہیں، کہہ دو کہ وہ تم سےنارجہنم بھی دفع نہ فرمائیں اوربظاہر امید تو ایسی ہی ہے کہ جو جس نعمت الہٰی کا منکر ہوتاہے اس نعمت سے محروم رہتاہے ۔

اللہ عزوجل فرماتاہے : انا عند ظن عبدی بی ۲؂۔ میں اپنے بندے سے اس کے گمان کے موافق معاملہ فرماتاہوں۔

 

 (۲؂مسند احمد بن حنبل المکتب الاسلامی بیروت      ۲ /۳۱۵)

(الترغیب والترہیب الترغیب فی الاکثار من ذکراللہ حدیث ۱ مصطفی البابی مصر    ۲ /۳۹۳)

 

جب تمہارا گمان یہ ہے کہ محمدمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دافع بلا نہیں تو تم اسی کے مستحق ہو کہ وہ تمہارے لئے دافع البلاء نہ ہوں ۔ ایک بار فقیر کے یہاں اس مسئلہ کا ذکر تھا کہ رافضی دیدار الہی کے منکر ہیں اوروہابی شفاعت نبوی کے ۔ فقیر نے کہا ایک یہی مسئلہ نزاعیہ ہےجس میں ہم اوروہ دونوں راست گو ہیں ہم کہتے ہیں دیدار الہٰی ہوگا اورہم حق کہتے ہیں ان شاء اللہ الغفار ہمیں ہوگا ، رافضی کہتے ہیں نہ ہوگا وہ سچ کہتے ہیں ان شاء اللہ القہار انہیں نہ ہوگا ، ہم کہتے ہیں شفاعت مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حق ہے اورہم قطعاحق پرہیں ان کے کرم سے ہمارے لئے ہوگی ، وہابی کہتے ہیں کہ شفاعت محال مطلق ہے ، اوروہ ٹھیک کہتے ہیں امید ہے کہ انکے لئے نہ ہوگی ۔

ع    گر بر تو حرام  ست   حرامت  بادا  (اگر تجھ پر حرام ہے تو حرام رہے ۔ ت)

 

حاضران گفتند کاے صدر الورٰی

راست گو گفتی دو ضد گوراجرا

گفت من آئینہ ام مصقول دوست

ترک وہندودرمن آں بیند کہ اوست۱ ؎  (حاضرین نے عرض کی کہ اے سرورکائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ! آپ نے دو متضاد بات کرنے والوں کو کیسے درست قرار دیا ۔آپ نے ارشادفرمایا کہ میں دوست کا قلعی کیا ہوا آئینہ ہوں ، ترک اورہندو مجھ میں وہی دیکھتاہے جیسا وہ خود ہے ۔ت)

حضور پرنورشافع یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: شفاعتی یوم القیٰمۃ حق فمن لم یؤمن بھا لم یکن من اھلھا ۔ ابن منیع فی معجمہ ۲؂عن زید بن ارقم وبضعۃ عشر من الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔ روز قیامت میری شفاعت حق ہے تو جو اس پر یقین نہ لائے وہ اس کے لائق نہیں (ابن منیع نے اپنی معجم میں زید بن ارقم اوردس سے چند زائد صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا۔ت)

 

 (۲؂ کنز العمال بحوالہ ابن منیع حدیث ۳۹۰۵۹مؤ سسۃ الرسالہ بیروت ۱۴ /۳۹۹)

 

علامہ مناوی تیسیر میں لکھتے ہیں : اطلق علیہ التواتر۳؂ ۔ اس حدیث کو متواترکہاگیا۔

 

 (۳؂التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث شفاعتی یوم القیٰمۃ حق مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۷۸)

 

بالجملہ وہ تمہارے لئے دافع البلاء نہ سہی مگر لا واللہ ہماراٹھکانا تو ان کی بارگاہ بیکس پناہ کے سوا نہیں ؎

منکر اپنا اورحامی ڈھونڈلیں

آپ ہی ہم پر تورحمت کیجئے

بلکہ لاواللہ اگر بفرض غلط بفرض باطل عالم میں ان سے جدا کوئی دوسر احامی بن کر آئے بھی توہمیں اس کا احسان لینا منظور نہیں وہ اپنی حمایت اٹھا کر رکھے ہمیں ہمارے مولائے کریم جل جلالہ  نے بے ہمارے استحقاق بے ہماری لیاقت کے اپنے محبوب کا کر لیا اور اسی کی وجہ کریم کو حمد قدیم ہے اب ہم دوسرے کابننا نہیں چاہتے جس کا کھائیے اسی کا گائیے۔ ؎

چودل بادلبر ے آرام گیرد

زوصل دیگر ے کے کام گیرد  (جب ایک محبوب سے دل آرام پاتا ہے تو دوسرے کے وصل سے اسے کیا کام ۔ت)

یا تو یوں ہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں

منت غیر کوئی اٹھائی کوئی ترس جتائے کیوں

 

رباعی:  اے واہ دہ حبیب راکلید ہمہ کار

باران درود بررُخ پاکش بار

دستے کہ بدامان کریمش زدہ ایم

زنہار بدست دیگر انش مسپار  (اے اللہ ! اس حبیب کو ہرمعاملے کی چابی عطافرما اس کے رخ زیبا پر درود کی بارش برسا، جس ہاتھ سے ہم نے اس کا دامن کرم تھا ما ہے ہرگز ہم کو دوسروں کا دست نگر نہ بنا ۔ ت) ؎

تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال

جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑکے صدقہ تیرا

 

صلی اللہ تعالی علیک وسلم وعلٰی اٰلک وصحبک وبارک وکرم ۔ والحمدللہ رب العالمین۔

 

خیر ، ان اہل شر کے منہ کیا لگئے ، مسلمان نظر فرمالیں کہ عیاذاً باللہ نارجہنم سے سخت ترکون سی بلا ہوگی مگر اس کادافع دافع البلا نہیں ہے یہ کہ وہابیہ کے پا س نہ عقل ہے نہ دین، ولا حول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم۔

 

حدیث ۱۱۵: صحیح بخاری وصحیح مسلم ومسند امام احمد میں سیدنا عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے انہوں نے حضور اقدس رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضور نے اپنے چچا ابو طالب کو کیا نفع دیا خدا کی قسم وہ حضور کی حمایت کرتا حضور کیلئے لوگوں سے لڑتا جھگڑتا تھا، فرمایا : وجدتہ فی غمرات من النار فاخرجتہ الی ضحضاحٍ۱؂۔ میں نے اسے سراپا آگ میں ڈوبا پایا تواسے میں نے کھینچ کر پاؤں تک کی آگ میں کردیا ۔

 

صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم۔

 

 (۱؂صحیح البخاری باب بنیان الکعبہ قصہ ابی طالب ۱/۵۴۸  وکتاب الادب     المشرک ۲ /۹۱۷)

( صحیح مسلم کتاب الایمان باب شفاعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۱۵)

( مسنداحمد بن حنبل عن عباس رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت    ۱ /۲۰۶و۲۰۷)

 

حدیث ۱۱۶: کہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی گئی : ھل نفعت اباطالبٍ ۔ حضور نے ابوطالب کو کچھ نفع دیا؟  فرمایا : اخرجتہ من غمرۃ جھنم الی ضحضاح منھا۔ البزار ۱؂ وابویعلی وابن عدی وتمام عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ میں اسے دوزخ کے غرق سے پاؤں تک کی آگ میں نکال لایا۔ (اس کو بزار ، ابویعلٰی ، ابن عدی اورتمام نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؂ مسند ابی یعلی عن جابر رضی اللہ عنہ حدیث ۲۰۴۳ مؤسسۃعلوم القرآن بیروت  ۲ /۳۹۹)

(الکامل لابن عدی ترجمہ اسمٰعیل بن مجاہد دارالفکر بیروت      ۱ /۳۱۳)

(مجمع الزوائدکتاب صفۃ النار تفاوت اہل فی العذاب دارالکتاب العربی بیروت   ۱۰ /۳۹۵)

 

وہابی صاحبو! مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تو ایک کافر کے باب میں فرما رہے ہیں کہ اسے میں نے غرق آتش سے کھینچ لیا اسے میں نکال لایا ۔ اورتم حضور کو مسلمانوں کے لیے بھی دافع البلاء نہیں مانتے ، یہ تمہارا ایمان  ہے ۔ مسلمان اپنے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تصرف ، قدرتیں ، اختیار دیکھیں، دنیا کیا بلاہے آخرت کے کارخانوں کی باگیں انکے ہاتھ میں سپرد ہوئی ہیں ورنہ بغیر اللہ عزوجل کے ماذون ومختار کئے کس کی مجال ہے کہ اللہ کے قیدی کی سزا بدل دے جس عذاب میں اسے رکھاہو وہاں سے اسے نکال لے یہ وہی پیارا ہے جس کی عزت وجاہت جس کی محبوبیت نےدوجہاں کے اختیارات اسے دلا دئے ۔ آخر حدیث سن چکے : الکرامۃ والمفاتیح یومئذٍ بیدی۲؂۔ عزت دینا اورتما م کاروبار کی کنجیاں اس دن میرے ہاتھ ہوں گی۔

 

 (۲؂سنن الدارمی باب ما اعطی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من الفضل حدیث ۴۹ دارالمحاسن للطباعۃ القاہرہ    ۱ /۳۰)

( مشکوٰۃ المصابیح باب فضائل سید المرسلین قدیمی کتب خانہ کراچی ص۵۱۴)

(الخصائص الکبرٰی باب اختصاصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بانہ اول من تنشق عنہ الارض مرکز اہلسنت گجرات الہند ۲ /۲۱۸)

 

تورات شریف کا ارشاد سن چکے : یدہ فوق الجمیع وید الجمیع مبسوطۃ الیہ بالخشوع۱؂۔ اس کا ہاتھ سب ہاتھوں پر بلند ہے سب کے ہاتھ اس کی طرف پھیلے ہیں عاجزی اورگڑگڑانے میں، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

 (۱؂ تحفہ اثناعشریہ باب شش دربحث نبوت وایمان سہیل اکیڈیمی لاہور ص۱۶۹)

 

حدیث ۱۱۷: صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ان ھذہ القبور مملوۃ علی اھلھا ظلمۃ وانی انوّرھا بصلاتی علیھم ۔ بیشک یہ قبریں ان کے ساکنوں پر اندھیرے سے بھری ہیں اوربے شک میں اپنی نماز سے انہیں روشن کردیتاہوں ۔ صلی ا للہ تعالٰی وبارک وسلم قدرنورہ وجمالہ وجُودہٖ ونوالہٖ علیہ وعلٰی اٰلہٖ اٰمین۔ ھو وابن حبان۲؂  عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ اللہ تعالٰی آپ پر اور آپ کی آل پر آپ کے نور وجمال اورجود وعطاء کے مطابق درود وسلام اوربرکت نازل فرمائے ۔ اس نے اورابن حبان نے بحوالہ ابوہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کو روایت کیاہے ۔(ت)

 

 (۲؂صحیح مسلم کتاب الجنائز فصل فی الصلٰوۃ علی القبر قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱ /۳۱۰)

(السنن الکبرٰی کتاب الجنائز باب الصلٰوۃ علی القبر الخ دار صادر بیروت        ۴ /۴۷ )

 

حدیث ۱۱۸: ام المومنین سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کہ پہلے حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نکاح میں تھیں جب انکی وفات ہوئی اورانکی عدت گزری سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں پیام نکاح دیا، انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! مجھ میں تین باتیں ہیں : انا امرأۃ کبیرۃ۔  میری عمر زائدہے ۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : انا اکبر منک میں تم سے بڑاہوں۔ عرض کی : وانا امرأۃ غیّور میں رشکناک عورت ہوں ۔(یعنی ازواج مطہرات کے ساتھ شکر رنجی کا اندیشہ ہے ۔)فرمایا : ادعو االلہ عزوجل فیذھب عنک غیرتک میں اللہ عزوجل سے دعا کروں گا وہ تمہارا رشک دور فرمائے گا۔ عرض کی : یارسول اللہ ! وانا امرّۃ مصیبۃ یارسول اللہ اورمیرے بچے ہیں (یعنی ان کی پرورش کا خیال ہے۔) فرمایا: ھم الی اللہ والی رسولہٖ ۔ بچے اللہ اوراس کے رسول کے سپردہیں۔

 

احمد فی المسند۳؂حدثنا وکیع ثنا اسمٰعیل بن عبدالملک بن ابی الصغیراء ثنی عبدالعزیز ابن بنت ام سلمۃ عن ام سلمۃ رضی اللہ تعالٰی عنہما والحدیث فی السنن النسائی ۱؂وغیرہٖ۔ احمد نے مسند میں کہا ہمیں حدیث بیان کی وکیع نے ہمیں حدیث بیان کی اسمٰعیل بن عبدالملک بن ابوالصغیراء نے ، مجھے حدیث بیان کی عبدالعزیز بن بنت ام سلمہ نے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ۔ اور یہ حدیث سنن نسائی وغیرہ میں مذکور ہے ۔(ت)

 

 (۳؂مسند احمد بن حنبل عن ام سلمہ رضی اللہ عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۳۲۱)

( المعجم الکبیر عن ام سلمہ حدیث ۴۹۹و۵۸۵و۹۷۴  المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۳ /۲۴۸و۲۷۳و۴۰۶)

 (۱؂الاصابۃ بحوالہ النسائی ترجمہ ۱۲۰۵  ام سلمہ بنت ابی امیہ دارالفکر بیروت     ۷ /۳۲۶،۳۲۷)

 

حدیث ۱۱۹: کہ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ذکر مسیح کذاب میں فرمایا:  ابشروافان یخرج وانا بین اظھرکم فاللہ کافیکم ورسولہ۔ خوش ہوکہ اگر وہ نکلا اورمیں تم میں تشریف فرما ہوا تو اللہ تمہیں کافی ہے اوراللہ کا رسول ، جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

الطبرانی فی الکبیر ۲؂عن اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ طبرانی نے کبیر میں اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔(ت)

 

(۲؂المعجم الکبیر حدیث ۴۳۰ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت   ۲۴ /۱۷۰)

 

یہاں سخت ترین اعداء کے مقابلے میں اللہ ورسول کو کفایت فرمانے والا بتایا کہ خوش ہو بے خوف رہو اللہ ورسول کے ہوتے تمہیں کچھ اندیشہ نہیں۔ اللہ اللہ ایسی جلیل حاجت روائیوں مشکلشائیوں میںاللہ عزوجل کے نام اقدس کے ساتھ حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک ملنا وہابیہ کے زخمی کلیجوں پر خدا جانے کہاں تک نمک چھڑکے گا۔ وللہ الحمد۔

 

حدیث۱۲۰ : امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں ایک دن حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ دینے کا حکم فرمایا، اتفاق سے ان دنوں میں کافی مالدار تھا میں نے اپنے جی میں کہا اگر کبھی میں ابوبکر سے سبقت لے جاؤں گا تو وہ دن آج ہی ہے ، میں اپنا آدھا مال حاضر لایا ، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : ما ابقیت لاھلک تم نے اپنے گھروالوں کےلئے کیا باقی رکھا ؟میں نے عرض کیا: ابقیت لھم ان کےلئے بھی باقی چھوڑآیاہوں۔فرمایا: ماابقیت لھم آخر ان کے لیے کتنا چھوڑآئے ہو؟عرض کی : مثلہ، اتنایہی۔ اورصدیق اکبر اپنا سارامال تمام وکمال لےکر حاضرہوئے۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: یا ابابکرما ابقیت لاھلک ۔ اے ابو بکر !گھر والوں کے لئے کیا باقی رکھا ؟عرض کی : ابقیت لھم اللہ ورسولہ ۔ میں نے گھروالوں کےلئے اللہ ورسول کو باقی رکھا ہے جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ میں نے کہا :  میں ابو بکرسے کبھی سبقت نہ لے جاؤں گا۔ الدارمی ۱؂ وابوداود والترمذی وقال حسن صحیح والشاشی وابن ابی عاصم وابن شاھین فی السنۃ والحاکم فی المستدرک  وابو نعیم فی الحلیۃ والبیھقی فی السنن والضیاء فی المختارۃ کلھم عن امیر المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ دارمی ، ابوداود ، ترمذی ، شاشی ، ابن ابی عاصم اورابن شاہین نے سنۃ میں اورحاکم نے مستدرک میں اورابو نعیم نے حلیۃ میں اوربیہقی نے سنن میں اورضیاء نے مختار ہ میں سب نے امیر المومنین (عمر فاروق ) رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ دارمی ، ابو داوداورترمذی نے اسے حسن صحیح کہا۔ (ت)

 

(۱؂سنن الترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب ابی بکر وعمر رضی اللہ عنہما دارالفکر بیروت  ۵ /۳۸۰)

(سنن ابی داود کتاب الزکوٰۃ باب الرخصۃ فی ذالک آفتاب عالم پریس لاہور  ۱ /۲۳۶)

 ( سنن الدارمی باب الرجل یتصدق بجمیع ما عندہ حدیث ۱۶۶۷ دارالمحاسن للطباعۃ القاہرۃ  ۱ /۳۲۹)

(کنز العمال حدیث ۳۵۶۱۱ مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۲/۴۹۱)

 

حدیث ۱۲۱: کہ حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سیدنا وابن سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہما کے حق میں فرمایا :  احب اھلی من قد انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ۔الترمذی عنہ ۲؂رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ مجھے اپنے گھروالوں میں سب سے پیاراوہ ہے جسے اللہ عزوجل نے نعمت دی اورمیں نے نعمت دی ۔ (ترمذی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

(۲؂ سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب اسامہ بن زید حدیث ۳۸۴۵دارالفکر بیروت     ۵ /۴۴۷)

 

مولانا علی قاری علیہ رحمۃ الباری مرقاۃ میں فرماتے ہیں :  لم یکن احد من الصحابۃ الا وقد انعم اللہ علیہ و رسولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا ان المراد المنصوص علیہ فی الکتاب وھو قولہ تعالٰی واذتقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ وھو زید لاخلاف فی ذٰلک ولا شک ۱؂ الخ ۔ یعنی سب صحابہ ایسے ہی تھے جنہیں اللہ نے نعمت بخشی اوراللہ کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نعمت بخشی ، مگر یہاں مراد وہ ہے کہ جس کی تصریح قرآن عظیم میں ارشاد ہوئی ہے کہ جب فرماتاتھا تو اس سے جسے اللہ تعالٰی نے نعمت دی اور اے نبی! تو نے اسے نعمت دی ، اور وہ زید بن حارثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ، اس میں کسی کا خلاف نہ اصلاً شک ، اورآیت اگرچہ زید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حق میں اتری مگر سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کا مصداق اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہما کو ٹھہرایا کہ پسر تابع پدرہے ، افادہ فی المرقاۃ۔

 

 (۱؂مرقاۃ المفاتیح کتاب المناقب والفضائل باب اہل بیت النبی تحت الحدیث ۶۱۷۷ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ   ۱۰ /۵۴۶)

 

اقول : نہ صرف صحابہ بلکہ تمام اہل اسلام اولین وآخرین سب ایسے ہی ہیں جنہیں اللہ عزوجل نے نعمت دی اوررسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نعمت دی ۔ پاک کردینے سے بڑھ کر اورکیا نعمت ہوگی جس کا ذکر آیات کریمہ میں سن چکے کہ یزکیھم ۲؂۔ یہ نبی پاک اور ستھراکردیتا ہے بلکہ لاواللہ تمام جہان میں کوئی شے ایسی نہیں جس پراللہ کا احسان نہ ہو اللہ کے رسول کا احسان نہ ہو۔

 

 (۲؂ القرآن الکریم ۲ /۱۲۹)

 

فرماتاہے: وما ارسلنٰک الا رحمۃً للعالمین۳؂۔ ہم نے نہ بھیجا تمہیں مگر رحمت سارے جہان کیلئے ۔

 

 (۳؂القرآن الکریم  ۲۱ /۱۰۷)

 

جب وہ تمام عالم کے لئے رحمت ہیں تو قطعاً سارے جہان پر ان کی نعمت ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ اہل کفر واہل کفران اگر نہ مانیں تو کیا نقصان ؎

راست خواہی ہزار چشم چناں  

کوربہر کہ آفتاب سیاہ  (اگر سچ چاہے تو ایسی ہزار آنکھوں کا اندھا ہونا بہترہے نہ کہ آفتاب کا سیاہ ہونا۔ت)

 

حدیث ۱۲۲: فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  : من استعملناہ علی عمل فرزقناہ رزقاً الحدیث۔  ابو داود  والحاکم ۱؂ بسند صحیح عن بریدۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ جسے ہم نے کسی کام پر مقرر کیا پس ہم نے اسے رزق دیا۔(ابوداوداورحاکم نے بسند صحیح بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

(۱؂ سنن ابی داود کتاب الخراج والفئی باب فی ارزاق العمال آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۵۲)

(المستدرک للحاکم کتاب الزکوٰۃ دارالفکر بیروت ۱ /۴۰۶)

(کنزالعمال حدیث ۱۱۰۸۴ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۴ /۳۹۴)

 

پہلی حدیث میں حضور نے فرمایا تھا:''ہم نے غنی کردیا۔''احادیث عطیہ حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہما میں تھا کہ فرمایا: ''حسن کو مہابت ہم نے دی ، علم ہم نے دیا۔ حسین کو شجاعت ہم نے دی، کرم ہم نے دیا، محبت کا مرتبہ ، رضا کا مقام ہم نے عطا کیا۔''حدیث اسامہ میں تھا: ''اسے نعمت ہم نے بخشی ۔''یہاں ارشادہوتا ہے : ''رزق ہم نے دیا۔'' صلی اللہ تعالٰی علیک وعلٰی اٰلک قدرجودک ونوالک وبارک وسلم۔

 

حدیث ۱۲۳: فرماتےہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  : لقد جاء کم رسول الیکم لیس بوھن ولاکسل لیحی قلوباً غلفاً ویفتح اعیناً عمیاً ویسمع اٰذاناً صماً ویقیم السنۃ عوجاً حتی یقال لاالہ الا اللہ وحدہ ۔ الدارمی ۲؂فی سننہٖ عن جبیر بن نفیر رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ بیشک تشریف لایا تمہارے پا س وہ رسول تمہاری طرف بھیجا ہوا جو ضعف وکاہلی سے پاک ہے تاکہ وہ رسول زندہ فرما دے غلاف چڑھے دل ، اور وہ رسول کھول دے اندھی آنکھیں ، اوروہ رسول شنواکردے بہرے کانوں کو ، اوروہ رسول سیدھی کردے ٹیڑھی زبانوں کو ، یہاں تک کہ لوگ کہہ دیں کہ ایک اللہ کے سواکسی کی پرستش نہیں۔ (دارمی نے اپنی سنن میں جبیر بن نفیر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ ت )

 

(۲؂سنن الدارمی باب ماکان علیہ الناس قبل مبعث النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حدیث ۹ دارالمحاسن للطباعۃ القاہرۃ ۱ /۱۵)

 

اقول: صحیح اذ قال اخبرنا حیوۃ بن شریح ثقۃ شیخ البخاری فی صحیحہ وابو داود والترمذی بل واحمد وابن معین وھما من اقرانہ ثنابقیۃ بن الولید ثقۃ من الاعلام من رجال مسلم وقد زال مایخشی من لیسہٖ بقولہٖ ثنا بحیربن سعد ثقۃ ثبت عن خالد بن معدان ثقۃ عابد من رجال الستۃ عن جبیر بن نفیر ن الحضرمی رضی اللہ تعالٰی عنہما ثقۃ جلیل مخضرم من الثانیۃ وقدروی ابن السکن والباوردی وابن شاھین مطولا عن عبدالرحمن عن جبیر بن نفیر عن ابیہ قال ادرکت الجاھلیۃ واتانا رسول رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بالیمن فاسلمنا فمرسلہ کمراسیل سعید بن المسیب اوفوق علا ان المرسل حجۃ عندنا وعند الجمھور والحدیث مسلسل بالحمصیین حیوۃ الی جبیر کلھم اھل حمص۔

 

حدیث ۱۲۴: کہ دو اونٹ مست ہوکر بگڑ گئے تھے ، کسی کوپاس نہ آنے دیتے ، مالکوں نے باغ میں بند کردئے تھے، باغ اجاڑتے تھے ، سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حضور شکایت آئی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تشریف فرماہوئے، دروازہ کھولنے کاحکم دیا، مامورنے اندیشہ کیا مبادا حضور کو ایذادیں۔ فرمایاخوف نہ کر، کھول دے۔ کھول دیا ۔ ایک دروازے ہی کے پاس کھڑا تھا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھتے ہی سجدے میں گرپڑا۔حضور نے مہارڈال کر حوالے کیا۔ دوسرا منتہائے باغ پر تھا، جب وہاں تشریف لے گئے اس نے بھی حضور کو دیکھتے ہی سجدہ کیا، حضور نے اسے بھی باندھ کر سپرد فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے یہ حال دیکھ کر عرض کی : یا نبی اللہ تسجد لک البھائم فما للہ عندنا بک احسن من ھذا اجرتنا من الضلالۃ واستنقذتنا من الھلکۃ افلا تأذن لنا بالسجود ۔ ابن قانع وابو نعیم ۱؂عن غیلان بن اسامۃ الثقفی رضی اللہ تعالٰی عنہ ولہ طرق وقد دخل بعضھا فی بعض۔ یارسول اللہ ! چوپائے تک حضور کو سجدہ کرتے ہیں تواللہ کے لیے حضور کے ذریعے سے ہمارے پا س جو کچھ ہے تو تو اس سے بہت بہتر ہے ، حضور نے ہمیں گمراہی سے پناہ دی ، حضور نے ہمیں ہلاکت سے نجات بخشی تو کیا حضور ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم حضور کوسجدہ کریں۔ (ابن قانع وابو نعیم نے غیلان بن اسامۃ الثقفی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ اس کے متعدد طرق ہیں جوکہ بعض بعض میں داخل ہیں۔ ت)

 

(۱؂دلائل النبوۃ لابی نعیم الفصل الثانی والعشرون ذکر سجود البہائم عالم الکتب بیروت الجزء الثانی ص۳۷۔۱۳۶)

 

وہابیہ کہ گمراہی پسند وہلاکت دوست ہیں ،ان سخت ترین بلیات کو بلا کیوں سمجھیں گے کہ ان سے پناہ دینے والے نجات بخشنے والے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دافع البلاء جانیں۔

 

حدیث۱۲۵: جب وفد ہوازن خدمت اقد س حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوا اوراپنے اموال واہل وعیال کہ مسلمان غنیمت میں لائے تھے حضور سے مانگے اورطالب احسان والا ہوئے ، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اذا صلیتم الظھر فقولوا انا نستعین برسول اللہ علی المؤمنین اوالمسلمین فی نسائنا وابنائنا۔ النسائی۱؂ عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہما۔ جب ظہر کی نماز پڑھ چکو تو کھڑ ے ہونا اوریوں کہنا ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے استعانت کرتے ہیں مومنین پراپنی عورتوں اوربچوں کے باب میں (نسائی نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن عمر ورضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)

 

 (۱؂سنن النسائی کتاب الھبۃ ھبۃ المشاع نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۲ /۱۳۶)

 

حدیث فرماتی ہے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بنفس نفیس تعلیم فرمائی کہ ہم سے مدد چاہنا نماز کے بعد یوں کہنا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے استعانت کرتے ہیں ۔

 

وہابی صاحبو ! ایاک نعبدوایاک نستعین۲؂۔ کے معنی کہئے استعانت توخدا ہی کے ساتھ خاص تھی ، یہ ارشاد کیسا ہے کہ ہم سے استعانت کرنا ۔

 

 (۲؂القرآن الکریم ۱/۴)

 

اور زمان حیات دنیاوی اوراس کے بعد کا تفرقہ وہابیہ کی جہالت ہی نہیں بلکہ سراسر ضلالت ہے قطع نظر اس بات سے کہ انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام سب بحیات حقیقی دنیاوی جسمانی زندہ ہیں ، جو بات خدا کے لیے خاص ہوچکی غیر خدا کے ساتھ شرک ٹھہر چکی ، اس میں حیات وموت ، قرب وبعد ، ملکیت وبشریت خواہ کسی وجہ کاتفرقہ کیسا کیا بعد موت ہی شرکت خد اکی صلاحیت نہیں رہتی بحال حیات شریک ہوسکتے ہیں یہ جنو ن وہابیہ کو ہر جگہ جاگاہے جس نے انہیں حمایت توحید کے زعم میں الٹا مشرک بنا دیا ہے ایک بات کو کہیں گے شرک ہے پھر کبھی موت حیات کا فرق کرینگے کبھی قرب وبُعد کا کبھی کسی اوروجہ کا ، جس کا صاف حاصل یہ نکلے گا کہ یہ انوکھے موحد بعض قسم مخلوق خدا کا شریک جانتے ہیں جب تو و ہ بات کہ غیر کے لیے اس کا اثبات شرک تھا ان کےلئے ثابت مانتے ہیں ۔ اب کھلا کہ انکے امام نے تقویۃ الایمان میں ان وہابی صاحبوں ہی کی نسبت کہا تھا کہ :

''اکثر لوگ شرک میں گرفتار ہیں اوردعوٰ ی مسلمانی کا کئے جاتے ہیں ، سبحان اللہ یہ منہ اوریہ دعوٰی ، سچ فرمایا اللہ صاحب نے کہ نہیں مسلمان ہیں اکثر لوگ ، مگر شرک کرتے ہیں''۱؂۔

 

 (۱؂تقویۃ الایمان پہلا باب توحید وشرک کے بیان میں مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص۴)

 

یہ نکتہ یادرکھنے کا ہے کہ انکی بہت فاحشہ جہالتوں کی پردہ دری کرتاہے وباللہ التوفیق ۔

 

حدیث ۱۲۶: طبرانی معجم اوسط میں بسند حسن سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی : ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امر الشمس فتاخّرت ساعۃ من نھار۲؂۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے آفتاب کو حکم دیا کہ کچھ دیر چلنے سے باز رہ ۔ وہ فوراً ٹھہر گیا۔

 

 (۲؂المعجم الاوسط حدیث ۴۰۵۱ مکتبۃ المعارف ریاض ۵ /۳۳)

(مجمع الزوائد کتاب علامات نبوت باب حبس الشمس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالکتاب بیروت ۸ /۲۹۶)

 

اقول: اس حدیث حسن کا واقعہ اس حدیث صحیح کے واقعہ عظیمہ سے جدا ہے جس میں ڈوبا ہوا سورج حضور( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )کے لیے پلٹاہے یہاں تک کہ مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم نے نماز عصر کی خدمت گزاری محبوب باری صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں قضا ہوئی تھی ادا فرمائی ۔ امام اجل طحاوی وغیرہ اکابر نے اس حدیث کی تصحیح کی ۔ الحمدللہ اسے خلافت رب العزت کہتے ہیں کہ ملکوت السمٰوٰت والارض میں ان کا حکم جاری ہے تمام مخلوق الہٰی کوان کےلئے حکم اطاعت وفرمانبرداری ہے ۔ وہ خدا کے ہیں اورجو کچھ خدا کا ہے سب ان کا ہے ، وہ محبوب اجل واکرم وخلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب دودھ پیتے تھے گہوارہ میں چاند ان کی غلامی بجالاتا ، جدھر اشارہ فرماتے اسی طرف جھک جاتا۔ حدیث میں ہے سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہما عم مکرم سید اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضور سے عرض کی : مجھے اسلام پر باعث حضور کےایک معجزے کا دیکھنا ہوا، رایتک فی المھد تناغی القمر والیہ باصبعک فحیث اشرت الیہ مال۔ میں نے حضو ر کو دیکھا کہ حضور گہوارے میں چاند سے باتیں فرماتے جس طرح انگشت مبارک سے اشارہ کرتے چاند اسی طرف جھک جاتا۔

 

سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: انی کنت احدثہ ویحدثنی ویلھینی عن البکاء واسمع وجبتہ حین یسجد تحت العرش۔ ہاں میں اس سے باتیں کرتا تھا وہ مجھ سے باتیں کرتا اور مجھے رونے سے بہلاتا، میں اس کے گرنے کا دھماکہ سنتاتھا جب وہ زیر عرش سجدے میں گرتا۔ البیھقی فی الدلائل ۱؂والامام شیخ الاسلام ابوعثمٰن اسمٰعیل بن عبدالرحمن الصابونی فی المائتین والخطیب وابن عساکر فی تاریخ بغداد ودمشق رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ بیہقی نے دلائل میں اورامام شیخ الاسلام ابوعثمٰن اسمٰعیل بن عبدالرحمن صابونی نے مائتین میں اورخطیب وابن عساکر نے تاریخ بغداد ودمشق میں بیان کیا رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔(ت)

 

 (۱؂الخصائص الکبرٰی بحوالۃ البیہقی والصابونی وغیرہ باب مناغاۃ للقمر الخ مرکز اہلسنت گجرات الہند ۱ /۵۳)

( کنز العمال بحوالہ ھق فی الدلائل وغیرہ حدیث ۳۱۸۲۸ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱ /۸۳)

 

امام شیخ الاسلام صابونی فرماتے ہیں :فی المعجزات حسن یہ حدیث معجزات میں حسن ہے ۔

جب دودھ پیتوں کی یہ حکومت قاہرہ ہے تو اب کہ خلافۃ الکبرٰی کا ظہور عین شباب پرہے آفتاب کی کیا جان کہ ان کے حکم سے سرتابی کرے آفتاب وماہتا ب درکنار، واللہ العظیم ، ملٰئکہ مدبرات الامر کہ تمام نظم ونسق عالم جن کے ہاتھوں پر ہے محمد رسول اللہ خلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دائرہ حکم سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ارسلت الی الخلق کافۃ ۔ رواہ مسلم ۱؂عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ میں تمام مخلوق الہٰی کی طرف رسول بھیجا گیا ۔ (اس کو مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

(۱؂صحیح مسلم کتاب المساجد وموضع الصلٰوۃ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۹۹)

 

قرآن فرماتاہے : تبٰرک الذی نزل الفرقان علٰی عبدہٖ لیکون للعٰلمین نذیرا ۲؂۔ برکت والا ہے وہ جس نے اتارا قرآن اپنے بندے پر کہ تمام اہل عالم کو ڈر سنانے والا ہو۔

 

 (۲؂القرآن الکریم      ۲۵ /۱)

 

اہل عالم میں جمیع ملائکہ بھی داخل ہیں علیہم الصلٰوۃ والسلام ۔

سیدنا سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کی نماز عصر گھوڑوں کے ملاحظہ میں قضا ہوئی حتی توارت بالحجاب۳؂۔ یہاں تک کہ سورج پردے میں جا چھپا۔ فرمایا : ردوھا علی۴؂ ۔ پلٹا لاؤ میری طرف ۔

 

(۳؂القرآن الکریم     ۳۸ /۳۲)

(۴؂القرآن الکریم    ۳۸/ ۳۳)

 

امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مروی کہ سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قول میں ضمیر آفتاب کی طرف ہے اور خطاب ان ملائکہ سے ہے جو آفتاب پر متعین ہیں یعنی نبی اللہ سلیمان نے ان فرشتوں کو حکم دیا کہ ڈوبے ہوئے آفتاب کو واپس لے آؤ، وہ حسب الحکم واپس لائے یہاں تک کہ مغرب ہوکر پھر عصر کا وقت ہوگیا اورسیدنا سلیمٰن علیہ الصلٰوۃ والسلام نے نماز ادافرمائی ۔

 

معالم التنزیل شریف میں ہے : حکی عن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ انہ قال معنٰی قولہ ردوھا علی یقول سلیمٰن علیہ الصلٰوۃ والسلام بامر اللہ عزوجل للملٰئکۃ المؤکلین بالشمس ردوھا علی یعنی الشمس فردوھا علیہ حتی صلی العصر فی وقتھا۵؂۔ سیدنا سلیمٰن علیہ الصلٰوۃ والسلام نوابان بارگاہ رسالت علیہ افضل الصلٰوۃ والتحیۃ سے ایک جلیل القدر نائب ہیں پھر حضور کا حکم توحضور کا حکم ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

 (۵؂معالم التنزیل (تفسیر البغوی )تحت الآیۃ ۳۸/۳۳دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴ /۵۲)

 

اللہ سبحٰنہ وتعالٰی کی بے شمار رحمتیں امام ربانی احمد بن محمد خطیب قسطلانی پر کہ مواہب لدنیہ ومنح محمدیہ میں فرماتے ہیں : ھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خزانۃ السر وموضع نفوذ الامر فلاینفذ امر الامنہ ولا ینقل خیر الا عنہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ؎ یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خزانہ راز الہٰی و جائے نفاذ امر ہیں ، کوئی حکم نافذ نہیں ہوتا مگر حضور کے دربار سے ، اورکوئی نعمت کسی کو نہیں ملتی مگر حضور کی سرکارسے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔

الابابی من کان ملکا وسیداً

واٰدم بین الماء والطین واقف

اذا رام امرًا لایکون خلافہ

ولیس لذاک الامر فی الکون صارف۱؂ یعنی خبردار ہو میرے ماں باپ قربان ان پر جو بادشاہ وسردار ہیں اس وقت سے کہ آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام ابھی آب وگِل کے اندر ٹھہرے ہوئے تھے وہ جس بات کا ارادہ فرمائیں اس کا خلاف نہیں ہوتا ،تمام جہان میں کوئی ان کا حکم پھیرنے والا نہیں ۔

 

 (۱؂المواہب اللدنیۃ المقصد الاول توطئۃ المکتب الاسلامی بیروت   ۱ /۵۶)

 

اقول: اور ہاں کیونکر کوئی ان کا حکم پھیر سکے کہ حکم الہٰی کسی کے پھیرے نہیں پھرتا۔ لاراد لقضائہٖ ولا معقب لحکمہٖ ۔ اس کی قضاء کو رد کرنے والا اور اس کے حکم کو پھیرنے والا کوئی نہیں۔ (ت)

 

یہ جو کچھ چاہتے ہیں خد اوہی چاہتاہے کہ یہ وہی چاہتے ہیں جوخدا چاہتاہے ۔صحیحین بخاری ومسلم ونسائی وغیرہا میں حدیث صحیح جلیل ہے کہ ام المومنین صدیقہ اپنے پیارے محبو ب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کرتی ہیں : ما ارٰی ربک الا یسارع ھواک ۲؂۔ یارسول اللہ ! میں حضور کے رب کو نہیں دیکھتی مگر حضورکی خواہش میں جلدی وشتابی کرتاہوا۔

 

 (۲؂صحیح البخاری کتاب التفسیر باب قولہ ترجی من تشاء الخ قدیمی کتب خانہ کراچی   ۲ /۷۰۲)

(صحیح البخاری کتاب النکاح باب الشغار قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۷۶۶)

( صحیح مسلم کتاب الرضاع باب جواز ھبتہا نوبتھا لضرتہا قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱ /۴۷۳)

(سنن النسائی ذکر امر رسول اللہ فی النکاح نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی   ۲ /۶۷)

(مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ عنہا المکتب الاسلامی بیروت   ۶ /۱۳۴)

 

                مسلمانو! ذرادیکھنا کوئی وہابی ناپاک ادھر ادھر ہوتو اسے باہر کردو اورکوئی جھوٹا متصوف نصارٰی کی طرح غلو وافراط والا دبا چھپا ہوتو اسے بھی دورکردو اورتم عبدہ ورسولہ کی سچی معیار پرکانٹے کی تول مستقیم ہوکر یہ حدیث سنو کہ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : مرض ابوطالب فعادہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال یا ابن اخی ادع ربک والذی بعثک یعافینی فقال اللھم اشف عمی فقام کانما نشط من عقال فقال یا بن اخی ان ربک الذی تعبدہ لیطیعک فقال وانت یاعماہ لو اطعتہ، لیطیعنک ۔ ابن عدی ۱؂من طریق الھیثم البکاء عن ثابت ن البنانی عن انس ابن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ یعنی ابو طالب بیمار پڑے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عیادت کو تشریف لے گئے ابو طالب نے عرض کی : اے بھتیجے میرے ! اپنے رب سے جس نے حضور کو بھیجا ہے میری تندرستی کی دعاکیجئے ۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دعا کی : الٰہی !میرے چچا کوشفا دے ۔ یہ دعا فرماتے ہی ابو طالب اٹھ کھڑے ہوئے جیسے کسی نے بند ش کھول دی، حضور سے عرض کی : اے میرے بھتیجے !بیشک حضور کا رب جس کی تم عبادت کرتے ہو حضور کی اطاعت (عہ)کرتاہے ۔ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے (اس کلمہ پر انکار نہ فرمایابلکہ اورتاکیدًا وتائیداً) ارشاد کیا کہ اے چچا !اگر تو اس کی اطاعت کرے تو وہ تیرے ساتھ بھی یونہی معاملہ فرمائے گا۔ (ابن عدی نے بطریق ہیثم البکاء انہوں نے ثابت بنانی سے انہوں نے انس ابن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

عہ : یہاں اطاعت کے معنی ہر مراد محبوب حسب مراد محبوب فوراً موجود فرمادے ۱۲منہ۔

 

 (۱؂الکامل لابن عدی ترجمہ الہیثم بن جماز دارالفکر بیروت  ۷ /۲۵۶۱)

 

اورحدیث سنئے کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں بیشک بالیقین میں روز قیامت تمام جہان کا سید ہوں ، میرے ہاتھ میں لواء الحمد ہوگا ، کوئی شخص ایسا نہ ہوگا جو میرے نشان کے نیچے نہ ہوکشائش کا انتظارکرتا ہوا۔ میں چلوں گا اورلوگ میرے ساتھ ہوں گے یہاں تک کہ دروازہ جنت پر تشریف فرماہوکر دروازہ کھلواؤں گا سوال ہوگا کون ہیں؟ میں فرماؤں گا محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )۔ کہا جائے گا مرحبا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو۔ پھر جب میں اپنے رب عزوجل کو دیکھوں گا اس کے لئے سجدہ  شکر میں گروں گا اس پر کہا جائے گا: ارفع راسک وقل تطاع واشفع تشفع۔ اپنا سراٹھاؤ اورجو کہنا ہو کہو تمہاری اطاعت کی جائے گی اورشفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہوگی۔

پس جو لوگ جل چکے تھے وہ اللہ کی رحمت اورمیری شفاعت سے دوزخ سے نکال لئے جائیں گے ۔

 

الحاکم فی المستدرک ۱؂وابن عساکر عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ حاکم نے مستدرک میں اورابن عساکر نے عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کو روایت کیا۔ (ت)

 

 (۱؂اتحاف السادۃ المتقین بحوالہ الحاکم وابن عساکر صفۃ الشفاعۃ دارالفکر بیروت ۱ /۳۰)

( کنز العمال بحوالہ ک وابن عساکر حدیث۳۲۰۳۸مؤسسۃ الرسالہ بیروت   ۱ /۴۳۴)

 

اسی باب سے ہے حدیث کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  : ان ربی استشارنی فی امتی ماذا افعل بھم بیشک میرے رب نے میری امت کے باب میں مجھ سے مشورہ طلب فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں ۔ فقلت ماشئت یارب ھم خلقک وعبادک میں نے عرض کیا کہ اے رب میرے !جو تو چاہے کہ وہ تیری مخلوق اورتیرے بندے ہیں۔ فاستشارنی الثانیۃ اس نے دوبارہ مجھ سے مشورہ پوچھا ۔ فقلت لہ کذٰلک میں نے اب بھی وہی عرض کی ۔ فاستشار نی الثالثۃ اس نے سہ بارہ مجھ سے مشورہ لیا۔ فقلت لہ کذٰلک میں نے پھر وہی عرض کی۔ فقال تعالٰی انی لن اخزیک فی امتک یا احمد تو رب عزوجل نے فرمایا : اے احمد ! بیشک میں ہرگز تجھے تیری امت کے معاملہ میں رسوا نہ کروں گا ۔ وبشرنی ان اول من یدخل الجنۃ معی من امتی سبعون الفاً مع کل الفٍ سبعون الفاًلیس علیھم حساب اورمجھے بشارت دی کہ میرے ستر ہزار امتی سب سے پہلے میرے ساتھ داخل بہشت ہونگے ان میں ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہونگے جن سے حساب تک نہ لیا جائیگا۔

آگے حدیث اورطویل وجلیل ہے جس میں اپنے اوراپنی امت مرحومہ کے فضائل جلیل ارشاد فرمائے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم وبارک وسلم آمین ! الامام احمد ۱؂ وابن عساکر عن حذیفۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ امام احمد اورابن عساکر نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔(ت)

 

 (۱؂مسنداحمد بن حنبل عن حذیفہ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۳۹۳)

(کنزالعمال بحوالہ حم وابن عساکر حدیث ۳۲۱۰۹مؤسسۃ الرسالہ بیروت   ۱۱ /۴۴۸)

(الخصائص الکبرٰی باب اختصاصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بان امتہ وضع عنہم الامر مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲ /۲۱۰)

 

بحمداللہ یہی معنی ہیں اس حدیث کے کہ رب العزۃ روز قیامت حضرت رسالت علیہ افضل الصلٰوۃ والتحیۃ سے مجمع اولین وآخرین میں فرمائے گا : کلھم یطلبون رضا ئی وانا اطلب رضاک یا محمد۲؂۔ یہ سب میری رضا چاہتے ہیں اورمیری تیری رضا چاہتاہوں اے محمد ! ۔

 

 (۲؂مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)تحت الآیۃ ۲/۱۴۲دارالکتب العلمیۃ بیروت  ۴ /۸۷)

 

میں نے اپنا ملک عرش سے فرش تک تجھ پر قربان کردیاصلی اللہ علیک وعلٰی اٰلک وبارک وسلم ۔

اے مسلمانو،اسے سنی بھائی ، اے مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان ارفع کے فدائی ! آفتاب وماہتاب پر ان کا حکم جاری ہونا کیا بات ہے آفتاب طلوع نہیں کرتا جب تک ان کے نائب ان کے وارث ، ان کے فرزند ، انکے دلبند ، غوث الثقلین ، غوث الکونین ،حضور پرنور سید نا ومولانا امام ابو محمد شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر سلام عرض نہ کرلے۔

امام اجل سید ی نور الدین ابوالحسن علی شطنوفی قد س سرہ الروفی (جنہیں امام جلیل عارف باللہ سیدی عبداللہ بن اسعد مکی یافعی شافعی رحمہ اللہ تعالٰی نے مرآۃ الجنان میں الشیخ الامام الفقیہ المقرادی ۱؂) سے وصف کیا ۔

 

 (۱؂مرآۃ الجنان)

 

کتاب مستطاب بہجۃ الاسرار شریف میں خود روایت فرماتے ہیں: اخبرنا ابو محمد عبدالسلام بن ابی عبداللہ محمد بن عبدالسلام بن ابراہیم بن عبدالسلام البصری الاصل البغدادی المؤلد والداربالقاھرۃ سنۃ احدٰی وسبعین وستمائۃ قال اخبرنا الشیخ ابوالحسن علی بن سلیمان البغدادی الخباز ببغداد سنۃ ثلٰث وثلٰثین وستّمائۃ قال اخبرنا الشیخان الشیخ ابو حفص عمر الکمیماتی ببغداد وسنۃ احدٰی وتسعین وخمسمائۃ قالا کان شیخنا الشیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ یمشی فی الھواء علی رؤوس الاشھاد فی مجلسہ ویقول ماتطلع الشمس حتی تسلم علی وتجئی السنۃ الی وتسلم علی وتخبرنی ما یجری فیھا ویجیء الشھر ویسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ، ویجیئ الاسبوع ویسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ ویجیئ الیوم ویسلم علی ویخبرنی بما یجری فیہ وعزۃ ربی ان السعداء والاشقیاء لیعرضون علی عینی فی اللوح المحفوظ انا غائص فی بحار علم اللہ ومشاھد تہ انا حجۃ اللہ علیکم جمیعکم انا نائب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ووارثہ فی الارض ۱؂۔ صدقت یا سید ی واللہ فانما انت کلمت عن یقین لاشک فیہ  ولاوھم یعتریہ انما تنطق فتنطق وتعطی فتفرق وتؤمر فتفعل والحمدللہ رب العالمین۔ یعنی امام اجل حضرت ابوالقاسم عمر بن مسعود وبزاراورحضرت ابو حفص عمرکمیماتی رحمہم اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ہمارے شیخ حضور سیدنا عبدالقادر رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی مجلس میں برملا زمین سےبلند کرہ ہوا پر مشی فرماتے اور ارشاد کرتے آفتاب طلوع نہیں کرتا یہاں تک کہ مجھ پر سلام کرلے نیا سال جب آتا ہے مجھ پرسلام کرتا اورمجھے خبر دیتاہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے نیا ہفتہ جب آتاہے مجھ پرسلام کرتا اورمجھے خبر دیتا ہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے ، نیا دن جوآتا ہے مجھ پر سلام کرتا ہے اورمجھے خبر دیتاہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے ، مجھے اپنے رب کی عزت کی قسم !کہ تمام سعید وشقی مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں میری آنکھ لوح محفوظ پرلگی ہے یعنی لوح محفوظ میرے پیش نظر ہے ، میں اللہ عزوجل کے علم ومشاہدہ کے دریاؤں میں غوطہ زن ہوں ،میں تم سب پرحجت الہٰی ہوں ، میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نائب اورزمین میں حضور( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )کا وارث ہوں ۔ سچ فرمایا ہے آپ نے اے میرے آقا ، بخدا آپ یقین پر مبنی کلام فرماتے ہیں جس میں کوئی شک اوروہم راہ نہیں پاتا۔ بے شک آپ سے کوئی با ت کہی جاتی ہے تو آپ کہتے ہیں اورآپ کو عطا ہوتاہے توآپ تقسیم فرماتے ہیں ۔ آپ کوامر کیا جاتاہے تو آ پ عمل کرتے ہیں ۔ اورسب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ۔(ت)

 

(۱؂ بہجہ الاسرار ذکر کلما اخبربہا عن نفسہ الخ دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۵۰)

 

اس حدیث کے متعلق کلام نے قدرے طو ل پایا مگر الحمدللہ کہ مقصود رسالہ سے باہر نہ آیاوباللہ التوفیق۔

 

حدیث ۱۲۷: صحیح مسلم شریف وسنن ابی داود وسنن ابن ماجہ ومعجم کبیر طبرانی میں سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے :   قال کنت ابیت مع رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فاتیتہ بوضوئہ وحاجتہ فقال لی سل (ولفظ الطبرانی فقال یوماً یا ربیعۃ سلنی فاعطیک رجعنا الی لفظ مسلم) قال فقلت اسألک مرافقتک فی الجنۃ فقال اوغیر ذٰلک قلت ھو ذاک قال فاعنی علی نفسک بکثرۃ السجود۱؂۔ میں حضور پرنور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس رات کو حاضر رہتا ایک شب حضور کے لیے آب وضو وغیرہ ضروریات لایا(رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بحر رحمت جو ش میں آیا) ارشاد فرمایا : مانگ کیا مانگتا ہے کہ ہم تجھے عطا فرمائیں ۔ میں نے عرض کی : میں حضور سے سوال کرتاہوں کہ جنت میں اپنی رفاقت عطافرمائیں۔ فرمایا : کچھ اور؟میں نے عرض کی : میری مراد تو صرف یہی ہے ۔ فرمایا : تو میری اعانت کر اپنے نفس پر کثرت سجودسے ۔

ع کہ حیف باشداز وغیر اوتمنائے  (حیف ہے اس سے اس کے غیر کی تمنا کرنا۔ت)

سائل ہوں تر امانگتاہوں تجھ سے تجھی کو

معلوم ہے اقرار کی عادت تری مجھ کو

 

 (۱؂صحیح مسلم کتاب الصلٰوۃ باب فضل السجود والحث علیہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۹۳)

(سنن ابی داود کتاب الصلٰوۃ باب وقت قیام النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من اللیل آفتاب عالم پریس لاہور   ۱ /۱۸۷)

(کنز العمال حدیث ۱۹۰۰۶ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۷ /۳۰۶)

(المعجم الکبیر عن ربیعہ حدیث ۴۵۷۶ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت      ۵ /۵۷و۵۸)

 

سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ''تو میری اعانت کر اپنے نفس پرکثرت سجود سے ۔''

 

الحمدللہ یہ جلیل ونفیس حدیث صحیح اپنے ہر ہرجملے سےوہابیت کش ہے ۔ حضور اقدس خلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مطلقاً بلا قید وبلا تخصیص ارشاد فرمانا سل مانگ کیا مانگتا ہے ، جان وہابیت پرکیسا پہاڑ ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور ہر قسم کی حاجت روا فرماسکتے ہیں دنیا وآخرت کی سب مرادیں حضور کے اختیار میں ہیں جب تو بلا تقیید ارشادہوا : مانگ کیا مانگتاہے یعنی جو جی میں آئے مانگو کہ ہماری سرکار میں سب کچھ ہے ؎

گر خیریت دنیا وعقبٰی آرزو داری

بدرگاہش بیاوہرچہ میخواہی تمنا کن  (اگر تو دنیا وآخر ت کی بھلائی چاہتاہے تو اس کی بارگاہ میں آاور جو چاہتاہے مانگ لے ۔ت)

 

شیخ شیوخ علماء الہند عارف باللہ عاشق رسول اللہ برکۃ المصطفٰی فی ھذہ الدیار سیدی شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ القوی شرح مشکوٰۃ شریف میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں : از اطلاق سوال کہ فرمودش بخواہ تخصیص نکرد بمطلوبے خاص معلوم میشود کہ کار ہمہ بدست ہمت وکرامت اوست صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر چہ خواہد وکراخواہد باذن پروردگار خود دہد۱؂ ۔ مطلق سوال سے کہ آپ نے فرمایا (اے ربیعہ ) مانگ ۔ اورکسی خاص شے کو مانگنے کی تخصیص نہیں فرمائی ۔ معلوم ہوتاہے کہ تمام معاملہ آپ کے دست اقدس میں ہے ، جوچاہیں جسے چاہیں اللہ تعالٰی کے اذن سے عطافرمادیں۔ (ت)

 

(۱؂اشعۃ اللمعات کتاب الصلٰوۃ باب السجود وفضلہ الفصل الاول مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۹۶ )

 

فان من جودک الدنیا وضرتھا

ومن علومک علم اللوح والقلم۲؂ یہ شعر قصیدہ بردہ شریف کا ہے جس میں سیدی امام اجل محمد بوصیری قدس سرہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کرتے ہیں : ''یا رسول اللہ !دنیا وآخرت دونوں حضور کے خوان جودوکرم سے ایک حصہ ہیں اورلوح وقلم کے تمام علوم جن میں ماکان ومایکون جو کچھ ہوا اورجو کچھ قیام قیامت تک ہونے والا ہے ذرہ ذرہ بالتفصیل مندرج ہے حضور کے علوم سے ایک پارہ ہیں۔''

 

(۲؂الکواکب الدریۃ فی مدح خیر البریۃ (قصیدہ بردہ) الفصل العاشر مرکز اہلسنت گجرا ت الہند ص۵۹)

 

اورپہلا شعر کہ ''اگرخیریت دنیا وعقبٰی الخ '' حضرت شیخ محقق رحمہ اللہ تعالٰی کا ہے کہ قصیدہ  نعتیہ حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں عرض کیا ہے  :  الحمدللہ یہ عقیدے ہیں ائمہ دین کے محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جناب عالم تاب میں، برخلاف اس سرکش طاغی شیطان لعین کے بندہ داغی جو کہ ایمان کی آنکھ پر کفران کی ٹھیکری رکھ کر کہتاہے : ''جس کا نام محمد ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں''۳؂۔

 

 (۳؂تقویۃ الایمان الفصل الرابع فی ذکر ردالاشراک فی العبادۃ مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہورص۲۸)

 

الا صلّٰی رب محمد علی محمدواٰلہ وسلم واخری منتقصیہ واعاذنا من حالھم وشرھم وسلم اٰمین ۔ درود وسلام نازل فرمائے رب محمد محمد مصطفی پر اورآپ کی آل پر، اوردوسرا گروہ آپ کی شان میں تنقیص کرنے والاہے ، اللہ تعالٰی ہمیں انکے حال اوران کے شر سے بچائے اورسلامت رکھے، آمین (ت)

 

علامہ علی قاری علیہ رحمۃ الباری مرقاہ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں : یؤخذ من اطلاقہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الامر بسؤال ان اللہ تعالٰی مکنہ من اعطاء کل ما ارادمن خزائن الحق۱؂۔ یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مانگنے کا حکم مطلق دیا اس سے مستفاد ہوتاہے کہ اللہ  عزوجل نے حضور کو عام قدرت بخشی ہے کہ خدا کے خزانوں سے جو چاہیں عطافرمادیں۔

 

 (۱؂مرقاۃ المفاتیح کتب الصلٰوۃ  باب السجود وفضلہ الفصل الاول تحت حدیث ۸۹۶ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ   ۲ /۶۱۵)

 

والحمدللہ رب العالمین ؎ مالک کونین ہیں گوپاس کچھ رکھتے نہیں

دوجہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں (۲)

پھراس حدیث جلیل میں سب سے بڑھ کر جان وہابیت پر یہ کیسی آفت کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد پر حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالٰی عنہ خود حضورسے جنت مانگتے ہیں کہ اسئلک مرافقتک فی الجنۃ یارسول اللہ! میں حضور سے سوال کرتاہوں کہ جنت میں رفاقت والا عطاہو۔

وہابی صاحبو! یہ کیسا کھلا شرک وہابیت ہے جسے حضور مالک جنت علیہ افضل الصلٰوۃ والتحیۃ قبول فرما رہے ہیں ، وللہ الحجۃ السامیۃ۔

 

حدیث ۱۲۸ : حدیث صحیح وجلیل وعظیم سخت وہابیت کش جسے نسائی وترمذی وابن ماجہ وابن خزیمہ وطبرانی وحاکم وبیہقی نے سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا اورامام ترمذی نے حسن غریب صحیح اورطبرانی وبیہقی نے صحیح اورحاکم نے برشرط بخاری ومسلم صحیح کہا اوراما م حافظ الحدیث زکی الدین عبدالعظیم منذری وغیرہ ائمہ نقد وتنقیح نے اس کی تصحیح کو مسلم وبرقرار رکھا جس میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نابینا کو دعاتعلیم فرمائی کہ بعد نماز کہئے : اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لیقضٰی لی اللھم فشفعہ فی ۱؂۔ الہٰی ! میں تجھ سے مدد مانگتا اور تیری طرف توجہ کرتاہوں تیرے نبی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے وسیلے سے جو مہربانی کے نبی ہیں، یارسول اللہ! میں حضور کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کرتاہوں تاکہ میری حاجت روائی ہو، الہٰی! انہیں میرا شفیع کر ان کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔

 

 (۱؂سنن الترمذی کتاب الدعوات حدیث ۳۵۸۹دارالفکر بیروت   ۵ /۳۳۶)

( سنن ابن ماجۃ ابواب اقامۃ الصلوۃ باب ماجاء فی صلوٰۃ الحاجۃ ایچم ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۰۰)

(صحیح ابن خزیمۃ باب صلوٰۃ الترغیب والترہیب حدیث ۱۲۱۹ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۶)

(المعجم الکبیر عثمان بن حنیف حدیث ۸۳۱۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۹ /۱۸)

(المستدرک للحاکم کتاب صلوٰۃ التطوع دعاء ردالبصر دارالفکر بیروت ۱ /۳۱۳)

(دلائل النبوۃ للبیہقی باب فی تعلیمہ الضریر ماکان فیہ شفاء الخ دارالکتب العلمیۃ بیروت  ۶ /۱۶۶تا۱۶۸)

(عمل الیوم واللیلۃ للنسائی حدیث ۶۵۷ دارابن حزم بیروت ص۱۵۹و۱۶۰)

(الترغیب والترہیب الترغیب فی صلوٰۃ الحاجۃ مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۷۳تا۴۷۵)

 

یہ حدیث خود ہی بیماردلوں پر زخم کاری تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حاجت کے وقت ندا بھی ہے اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے استعانت والتجا بھی ، مگر حصن حصین شریف کی بعض روایات نے سر سے پانی تیری دیا۔ اس میں لتقضی لی ۲؂ بصیغہ معروف ہے یعنی یارسول اللہ ! حضور میری حاجت روافرمادیں۔

 

 (۲؂الحصن الحصین منزل یوم الاثنین صلوٰۃ الحاجۃ افضل المطابع ص۱۲۵)

 

مولانا فاضل علی قاری علیہ رحمۃ الباری حرز ثمین شرح حصن حصین میں فرماتے ہیں : وفی نسخۃٍ بصیغۃ الفاعل ای لتقضی الحاجۃ لی المعنی تکون سبباً لحصول حاجتی ووصول مرادی فالاسناد مجازی ۳؂۔ اورایک نسخہ میں بصیغہ فاعل (فعل معروف) ہے ، یعنی آپ میری حاجت روائی فرمائیں ۔ مطلب یہ ہے کہ آپ میری حاجت روائی ومقصد برآری میں سبب ووسیلہ بن جائیں ۔ چنانچہ اسناد مجازی ہوگا۔ (ت)

 

 (۳؂حرزثمین شرح الحصن الحصین مع الحصن الحصین منزل یوم الاثنین صلوٰۃ الحاجۃ افضل المطابع ص۱۲۵)

 

اب دافع البلاء کو شرک ماننے کا مول تول کہئے ۔

 

ثم اقول: (پھر میں کہتاہوں۔ت) سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے زمانہ اقدس میں نابینا کو دعاتعلیم فرمائی کہ بعد نماز یوں عرض کرو ہمارا نام پاک لے کر ندا کرو ہم سے استمداد والتجا کرو ، شرک وہابیت کو قعرجہنم میں پہنچانے کو بس یہی تھا کہ :

اولاً جو شرک ہے اس میں تفرقہ زمانہ حیات وبعد وفات یاتفرقہ قرب وبُعد یا غیبت وحضور سب مردود ومقہور ، جس کا بیان اوپر مذکور ۔

ثانیاً حاصل تعلیم یہ نہ تھا کہ دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کا بالائی ٹکڑا تو اللہ عزوجل سے عرض کرنا پھر ہمارے پاس حاضر ہوکر یا محمد سے اخیر تک عرض کرنا ، اور دعا میں سنت اخفاہے اورآہستہ کہنے میں وہابیت کی عقل ناقص پر غیبت وحضور یکساں ہے ، عادی طورپر دونوں ندا بالغیب ہوں گی ، مگر قیامت تو سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوری کردی کہ زمانہ خلافت امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ میں یہی دعا ایک صاحب حاجتمند کو تعلیم فرمائی اورندا بعدالوصال سے جان وہابیت پرآفت عظمٰی ڈھائی ۔ معجم کبیر امام طبرانی میں یہ حدیث یوں ہے کہ ایک شخص امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں اپنی کسی حاجت کے لیے حاضر ہوا کرتے امیر المومنین ان کی طرف التفات نہ فرماتے نہ ان کی حاجت پر غور کرتے ، ایک دن عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ ان سے ملے ان سے شکایت کی ، عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا  : ائت المیضاۃ فتوضا ثم اٰت المسجد فصل فیہ رکعتین ثم قل اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنینا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نبی الرحمۃ یا محمد انی اتوجہ بک الی ربی فیقضی حاجتی وتذکر حاجتک و رح الی حتی اروح معک ۔ وضو کی جگہ جاکر وضو کروپھر مسجد میں جاکر دورکعت نماز پڑھو پھر یوں دعاکرو کہ الہٰی !میں تجھ سے سوال کرتا اور تیری طرف ہمارے نبی محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نبی رحمت کے ذریعے سے متوجہ ہوتا ہوں ،یارسول اللہ ! میں حضور کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف توجہ کرتاہوں کہ میری حاجت روا فرما ئیے ۔ اوراپنی حاجت کا ذکر کرو ، شام کو پھر میرے پا س آنا کہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں۔

صاحب حاجت نے جاکر ایسا ہی کیا، پھر امیر المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دروازے پر حاضر ہوئے ، دربان آیا ہاتھ پکڑ کر امیر المومنین کے حضور لے گیا، امیر المومنین (عثمان غنی )نے اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا اورفرمایا کیسے آئے ہو؟ انہوں نے اپنی حاجت عرض کی ، امیر المومنین نے فوراً روافرمائی ، پھر ارشادکیا؛ اتنے دنوں میں تم نے اس وقت اپنی حاجت کہی ۔ اورفرمایا : جب کبھی تمہیں کوئی حاجت پیش آئے ہمارے پاس آنا ۔ اب یہ صاحب امیر المومنین کے پاس سے نکل کر حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملے ان سے کہا : اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے امیر المومنین نہ میری حاجت میں غور فرماتے تھے نہ میری طرف التفات لاتے ، یہاں تک کہ آپ نے میری سفارش ان سے کی ۔

عثمان بن حنیف نے فرمایا : واللہ ماکلمتہ ولٰکن شہدت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم واتاہ رجل ضریر تشکی الیہ ذھاب بصرہ فقال لہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وسلم ایت المیضاۃ فتوضا ثم صل رکعتین ثم ادع بھٰذہ الدعوات فقال عثمان بن حنیف فواللہ ماتفرقنا وطال بنا الحدیث ۱؂حتی دخل علینا الرجل کانہ لم یکن بہ ضر قط۔ خدا کی قسم !میں نے تو تمہارے بارے میں امیر المومنین سے کچھ بھی نہ کہا مگر ہے یہ کہ میں نے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا حضور کی خدمت اقدس میں ایک نابینا حاضرہوا اوراپنی نابینائی کی شکایت حضور سے عرض کی ، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : موضع وضو پر جاکر وضو کر کے دورکعت نماز پڑھ پھر یہ دعائیں پڑھ۔ عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم ! ہم اٹھنے بھی نہ پائے تھے باتیں ہی کر رہے تھے کہ وہ نابینا ہمارے پاس انکھیارے ہوکر آئے گویا کبھی انکی آنکھوں میں کچھ نقصان نہ تھا۔

 

 (۱؂المعجم الکبیرعن عثمان بن حنیف حدیث ۸۳۸ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت  ۹ /۱۸)

 

امام طبرانی اس حدیث کی متعدد اسنادیں ذکر کر کے فرماتے ہیں: والحدیث صحیح۲؂۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔ والحمدللہ رب العالمین۔

 

  (۲؂الترغیب والترہیب بحوالۃ الطبرانی الترغیب فی صلٰوۃ الحاجۃ مصطفی البابی مصر       ۱ /۴۷۶)

 

حدیث ۱۲۹: کہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اہل مدینہ طیبہ سے ارشاد فرمایا : اصبروا وابشروا فانی قد بارکت علی صاعکم ومدکم ۔ البزار فی مسندہٖ ۱؂عن امیرالمومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ صبرکرو اور شاد ہوکہ بیشک میں نے تمہارے رزق کی پیمانوں پر برکت کردی ہے ۔ (بزار نے اپنی مسند میں امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

 

 (۱؂کنزالعمال بحوالۃ البزار حدیث ۳۸۱۲۳ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۴ /۱۲۵)

 

اس حدیث نے بتایا کہ اہل مدینہ کے رزق میں برکت رکھنے کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی طرف نسبت فرمایا۔

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post