Qiyame Tazeemi Aitraz ke Jawabat by AalaHazrat

محافل ومجالس

(میلادوگیارہویں شریف وغیرہ)

رسالہ

اقامۃ القیامۃ علٰی طاعن القیام لنبی تہامۃ(۱۲۹۹ھ)

(نبی تہامہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے قیام تعظیمی پراعتراض کرنے والے پرقیامت قائم کرنا)

 

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

 

مسئلہ ۲۶۵:  ازریاست مصطفی آباد عرف رامپور بضمن سوالات کثیرہ ۱۲۹۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مجلس میلاد میں قیام وقت ذکر ولادت حضورخیرالانام علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام کیاہے، بعض لوگ اس قیام سے انکار بحث رکھتے اوراسے بدیں وجہ کہ قرون ثلٰثہ میں نہ تھا بدعت سیئہ وحرام سمجھتے اور کہتے ہیں ہمیں صحابہ وتعابعین کی سندچاہئے ورنہ ہم نہیں مانتے۔ ان کے اقوال کاحل کیاہے؟ بیّنواتوجروا(بیان کیجئے اجردئیے جاؤگے۔ت)

 

الجواب : الحمدﷲ الذی باذنہ تقوم السماء والصّلٰوۃ والسلام علٰی من قامت بہ ارکان الشریعۃ الغرّاء سیّدنا ومولانا محمد الذی قامت فی مولدہ ملٰئکۃ العلیا وعلٰی اٰلہ وصحبہ القائمین بآداب تعظیمہ فی الصبح والمساء واشھد ان لاالٰہ الا اﷲ وحدہ، لاشریک لہ وان محمدا عبدہ، ورسولہ، قیم الانبیاء صلوات اﷲ وسلامہ علیہ وعلیھم ماقامت تسبیح القیام اشجار الغبراء وسجدت للحی القیوم نجوم الخضراء اٰمین! قال القائم ببعض الضراعۃ الٰی صاحب المقام المحمود والشفاعۃ عبدالمصطفٰی احمدرضا المحمدی السنی الحنفی القادری البرکاتی البریلوی غفراﷲ لہ واقامہ مقام السلف الکرام البررۃ الکلمۃ اٰمین۔

اللھم ھدایۃ الحق والصواب

 

تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لئے ہیں جس کے حکم سے آسمان قائم ہے۔ درودوسلام ہو اس ذات پر جس کے ذریعے روشن شریعت کے ارکان قائم ہیں وہ ہمارے آقا محمدمصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہیں جن کے میلاد کے وقت عالی مرتبت ملائکہ نے قیام کیا، اور آپ کی آل واصحاب پر جوصبح وشام آپ کے لئے آداب تعظیم کی بجاآوری میں قائم رہے، میں گواہی دیتاہوں کہ اﷲ تعالٰی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں، اورمحمدصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اﷲ کے بندے اوررسول ہیں، وہ انبیاء کرام کے متولی ونگران ہیں، آپ پراورتمام انبیاء پردرودوسلام ہو جب تک غبار آلود درخت تسبیح کے ساتھ قائم رہیں اورجب تک آسمان کے ستارے بارگاہ حی وقیوم میں سجدے کرتے رہیں، آمین! مقام محمود اورشفاعت کے مالک صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ میں عاجزانہ قیام کرتے ہوئے کہتاہے عبدالمصطفٰی احمدرضا محمدی سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی، اﷲ تعالٰی اس کی مغفرت فرمائے اوراسے سلف صالحین کاقائم مقام بنائے۔آمین۔(ت)

(اے اﷲ! حق اوردرستگی کی ہدایت فرما۔ت)

 

یہاں دومقام واجب الاعلام ہیں:

اوّلاً اس مقام مبارک پر اپنے طورپر کتب وفتاوائے علماء قدست اسرارھم سے حکم بیان کرنا جس سے بعونہٖ موافقین کے لئے ایضاح حق واضاحت باطل ہو، اورمنصب فتوٰی اپنے حق کو واصل ہو۔

 

ثانیاً اس مغالطہ کاجواب دینا جو بالفاظ متقاربہ تمام اکابرواصاغرمانعین میں رائج کہ یہ فعل قرون ثلٰثہ میں نہ تھا توبدعت وضلالت ہوا۔ اس میں کچھ خوبی ہوتی تو وہ وہی کرتے اس فعل اوراس کے مثال امورنزاعیہ میں حضرات منکرین کی غایت سعی اسی قدرہے جس کی بناپراہلسنت وسواداعظم ملت وہزاران ائمہ شریعت وطریقت کومعاذاﷲ بدعتی گمراہ ٹھہراتے ہیں اورمطلقاً خوف خدا وترس روزجزادل میں نہیں لاتے۔ مقام افتاء اگرچہ استیعاب مناظرہ کی جانہیں مگرایسی جگہ ترک کلی بھی چنداں زیبانہیں، لہٰذافقیر مقام دوم میں چنداجمالی جملے حاضرکرے گا جن کے مبانی دیکھئے حرفے چند اورمعانی سمجھئے توبس جامع وبلند۔ وباﷲ التوفیق فی کل حین وعلیہ التوکل وبہ نستعین والحمد ﷲ رب العٰلمین۔

 

مقام اوّل: اﷲ عزوجل نے شریعت غرا، بیضا، زہرا، عامہ، تامہ، کاملہ، شاملہ اتاردی اوربحمدہٖ تعالٰی ہمارے لئے ہمارادین کامل فرمادیا اور اس کے کرم نے اپنے حبیب اکرم حضورپرنورسیدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے صدقہ میں اپنی نعمت ہم پرتمام فرمادی۔ قال اﷲ تعالٰی: الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔۱؎ آج میں نے تمہارے لئے تمہارادین کامل کردیا اورتم پراپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسندفرمایا۔(ت)

 

 (۱؎ القرآن الکریم    ۵/ ۳)

 

والحمدﷲ ربّ العٰلمین وصلی اﷲ تعالٰی علٰی من بہ انعم علینا فی الدنیا والدین وبہ ینعم ان شاء اﷲ تعالٰی فی الاٰخرۃ الٰی ابد الاٰبدین۔ تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لئے ہیں جوتمام جہانوں کاپروردگار ہے اوردرودنازل ہو اس ذات پر جس کے صدقے اﷲتعالٰی نے دین ودنیا کی نعمتیں ہمیں عطافرمائیں۔ اوران کے طفیل ان شاء اﷲ ابدالآباد تک آخرت کی نعمتیں   بھی ہمیں  عطاہوں گی۔(ت)

 

الحمدﷲ ہماری شریعت مطہرہ کاکوئی حکم قرآن عظیم سے باہرنہیں، امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: حسبنا کتاب اﷲ۱؎۔  (ہمیں قرآن عظیم بس ہے)

 

 (۱؎ صحیح البخاری    کتاب العلم     باب کتابۃ العلم    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۲۲)

 

مگرقرآن (عہ) عظیم کاپوراسمجھنا اورہرجزئیہ کاصریح اس سے نکال لیناعام کونامقدور ہے اس لئے قرآن کریم نے دومبارک قانون ہمیں عطافرمائے: اوّل: مااٰتٰکم الرسول فخذوہ ومانھٰکم عنہ فانتھوا۲؎۔ جوکچھ رسول تمہیں دیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں بازرہو۔

 

 (۲؎ القرآن الکریم    ۵۹/ ۷ )

 

عہ: قرآن امام حدیث ہے، حدیث امام مجتہدین، مجتہدین امام علما، علماء امام عوام الناس۔ اس سلسلہ کاتوڑنا گمراہ کاکام۔

 

اقول: (میں کہتاہوں۔ت) لوصیغہ امرکاہے اورامروجوب کے لئے ہے توپہلی قسم واجبات شرعیہ ہوئی اورباز رہو نہی ہے اورنہی منع فرمانا ہے یہ دوسری قسم ممنوعات شرعیہ ہوئی۔ حاصل یہ کہ اگرچہ قرآن مجید میں سب کچھ ہے: ونزلناعلیک الکتٰب تبیاناً لکل شیئ۔۳؎ اے محبوب ہم نے تم پریہ کتاب اتاری جس میں ہرشیئ ہرچیزہرموجود کاروشن بیان ہے۔

 

مگرامت اسے بے نبی کے سمجھائے نہیں سمجھ سکتی ولہٰذا فرمایا: وانزلنا الیک الذکر لتبیّن للناس مانُزِّل الیھم۴۔ اے محبوب ہم نے تم پریہ قرآن مجید اتاراکہ تم لوگوں کے لئے بیان فرمادو جوکچھ ان کی طرف اُتراہے۔

 

 (۳؎ القرآن الکریم    ۱۶/ ۸۹)    (۴؎ القرآن الکریم    ۱۶/ ۴۴)

 

یعنی اے محبوب! تم پرتو قرآن حمید نے ہرچیزروشن فرمادی اس میں جس قدر امت کے بتانے کو ہے وہ تم ان پر روشن فرمادو، لہٰذا آیۃ کریمہ اولٰی میں نزلنا علیک فرمایا جوخاص حضور کی نسبت ہے اور آیۃ کریمہ ثانیہ میں مانزّل الیھم فرمایا جو نسبت بہ امت ہے۔

 

دوم: فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون ۱ ؎(عہ)۔ علم والوں سے پوچھو جوتمہیں نہ معلوم ہو۔

 

عہ: اس آیہ کریمہ کے متصل ہی کریمہ ثانیہ ہے: بالبیّنٰت والزبر وانزلنا الیک الذکر۲؎ الاٰیۃ۔ روشن دلیلیں اورکتابیں لے کر اوراے محبوب ہم نے تمہاری طرف یہ یادگار اتاری۔(ت)

 

مصنف نے یہاں معالم التنزیل کے حاشیہ پرتحریرفرمایا: اقول:  ھذا من محاسن نظم القراٰن العظیم امرالناس ان یسئلوا اھل العلم بالقراٰن العظیم وارشد العلماء ان لایعتمدواعلی اذھانھم فی فھم القراٰن بل یرجعوا الی مابیّن لھم النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فردالناس الی العلماء والعلماء الی الحدیث والحدیث الی القراٰن وان الی ربک المنتھٰی فکما ان المجتھدین لوترکوا الحدیث ورجعوا الی القراٰن فضلواکذٰلک العامۃ لوترکواالمجتھدین ورجعوا الی الحدیث فضلوا ولھذا قال الامام سفٰین بن عیینۃ احد ائمۃ الحدیث قریب زمن الامام الاعظم والامام المالک رضی اﷲ تعالٰی عنھم الحدیث مضلۃ الاالفقھاء نقلہ عنھم الامام ابن الحاج مکی فی مدخل۔۳؎ میں کہتاہوں کہ یہ عبارت قرآن عظیم کی خوبیوں سے ہے لوگوں کوحکم دیا کہ علماء سے پوچھو جوقرآن مجید کا علم رکھتے اورعلماء کوہدایت فرمائی کہ قرآن کے سمجھنے میں اپنے ذہن پراعتماد نہ کریں بلکہ جوکچھ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے بیان فرمایااس کی طرف رجوع لائیں تولوگوں کوعلماء کی طرف پھیرا اور علماء کوحدیث کی طرف اورحدیث کو قرآن کی طرف اوربیشک تیرے رب ہی کی طرف انتہاء ہے توجس طرح مجتہدین اگرحدیث چھوڑدیتے اورقرآن کی طرف رجوع کرتے بہک جاتے یونہی غیرمجتہد اگرمجتہدین کوچھوڑکر حدیث کی طرف رجوع لائیں توضرور گمراہ ہوجائیں، اسی لئے امام سفیان بن عیینہ نے کہاکہ امام اعظم وامام مالک کے زمانہ کے قریب حدیث کے اماموں سے تھے فرمایا کہ حدیث بہت گمراہ کردینے والی ہے مگر فقہاء کو، اسے امام ابن حاج مکی نے مدخل میں نقل فرمایا ۱۲مصحح غفرلہ (ت)

 

 (۱؎ القرآن الکریم    ۱۶/ ۴۳)       ( ۲؎ القرآن الکریم    ۱۶/ ۴۴)

(۳؎ تعلیقات المصنف علٰی معالم التنزیل     تحت الآیۃ     ۱۶/ ۴۳،۴۴)

 

حوادث غیرمتناہی ہیں احادیث میں ہرجزئیہ کے لئے نام بنام تصریح احکام اگر فرمائی بھی جاتی ان کا حفظ وضبط نامقدور ہوتاپھرمدارج عالیہ مجتہدان امت کے لئے ان کے اجتہاد پررکھے گئے وہ نہ ملتے نیز اختلافات ائمہ کی رحمت ووسعت نصیب نہ ہوتی۔ لہٰذا حدیث نے بھی جزئیات معدودہ سے کلیات حاویہ مسائل نامحدودہ کی طرف استعارہ فرمایا اس کی تفصیل وتفریع وتاصیل مجتہدین کرام نے فرمائی اور احاطہ (ف)  تصریح نامتناہی کے تعذرنے یہاں بھی حاجت ایضاح مشکل وتفصیل مجمل وتقیید مرسل باقی رکھی جو قرناً فقرناً طبقۃً فطبقۃً مشائخ کرام وعلمائے اعلام کرتے چلے آئے ہرزمانہ کے حوادث تازہ احکام اس زمانے کے علماء کرام ،حاملان فقہ و حامیان اسلام نے بیان فرمائے اوریہ سب اپنی اصل ہی کی طرف راجع ہوئے اورہوتے رہیں گے حتی یاتی امراﷲ وھم علٰی ذٰلک  (یہاں تک کہ اﷲ تعالٰی اپناامرلے آئے اور وہ لوگ اسی حال پرہوں۔ت)

 

ف: حوادث کاپیداہوتے رہنا اوران کے احکام کا۔ اورایک یہ کہ جوہربات پرکہے صحابہ تابعین کی سندلاؤ۔ یاامام ابوحنیفہ کا قول دکھاؤ، وہ مجنون ہے یاگمراہ۔

 

درمختارمیں ہے: ولایخلوا الوجود عمن یمیز ھذا حقیقۃ لاظنا وعلٰی من لم یمیزان یرجع لمن یمیز لبرائۃ ذمتہ۱؎۔ زمانہ ان لوگوں سے خالی نہ ہوگا جویقینی طورپرنہ محض گمان سے اس کی تمیزرکھیں اورجسے اس کی تمیزنہ ہو اس پرواجب ہے کہ تمیز والے کی طرف رجوع کرے کہ بری الذمہ ہو۔(ت)

 

 (۱؎ الدرالمختار    مقدمۃ الکتاب    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۱۵)

 

ردالمحتارمیں ہے: جزم بذٰلک اخذ امما رواہ البخاری من قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاتزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق حتی یاتی امراﷲ قولہ وعلٰی من لم یمیز عبر بعلی المفیدۃ للوجوب للامربہ فی قولہ تعالٰی فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون۔۱؎

 

شارح علامہ نے اس پرجز فرمایا اس حدیث سے لےکرجوصحیح بخاری میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ غلبہ کے ساتھ حق پررہے گا یہاں تک کہ حکم الٰہی آئے، اورجسے اس کی تمیز نہ ہو اس پرعلماء کی طرف رجوع لانے کو اس لئے واجب کہا کہ قرآن عظیم میں اس کا حکم فرمایا ہے کہ علماء سے پوچھو اگرتمہیں نہ معلوم ہو۔

 

  (۱؎ ردالمحتار     مقدمۃ الکتاب     داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱/ ۵۳)

 

امام عارف باﷲ سیدی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتاب مستطاب میزان الشریعۃ الکبرٰی میں فرماتے ہیں: مافصّل عالم مااجمل فی کلام من قبلہ من الادوار الاللنور المتصل من الشارع صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فالمنۃ فی ذٰلک حقیقۃ لرسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الذی ھو صاحب الشرع لانہ ھوالذی اعطی العلماء تلک المادۃ التی فصلوا بھاما اجمل فی کلامہ کما ان المنۃ بعدہ لکل دورعلٰی من تحتہ فلوقدر ان اھل دورتعدوا من فوقھم الی الدورالذی قبلہ لانقطعت وصلتھم بالشارع ولم یھتدوا لایضاح مشکل ولاتفصیل مجمل، وتامل یااخی لولاان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فصل بشریعتہ مااجمل فی القراٰن لبقی القراٰن علٰی اجمالہ کما ان الائمۃ المجتھدین لولم یفصلوا ما اجمل فی السنۃ لبقیت السنۃ علٰی اجمالھا وھکذا الٰی عصرناھذا، فلولاان حقیقۃ الاجمال ساریۃ فی العالم کلّہ ماشرحت الکتب ولاترجمت من لسان الٰی لسان ولاوضع العلماء علٰی الشروح حواشی کالشروح للشروح۔۱؎

 

جس کسی عالم نے اپنے سے پہلے زمانے کے کسی کلام کے اجمال کی تفصیل کی ہے وہ اسی نور سے ہے جوصاحب شریعت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے اسےملا تو حقیقت میں رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہی کاتمام امت پراحسان ہے انہوں نے علماء کویہ استعداد عطافرمائی جس سے انہوں نے مجمل کلام کی تفصیل کی۔ یونہی ہرطبقہ ائمہ کااپنے بعد والوں پراحسان ہے اگرفرض کیاجائے کہ کوئی طبقہ اپنے اگلے پیشواؤں کوچھوڑکر ان سے اوپر والوں کی طرف تجاوز کرجائے توشارع علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جوسلسلہ ان تک ملاہواہے وہ کٹ جائے گا اوریہ کسی مشکل کی توضیح مجمل کی تفسیرپرقادرنہ ہوں گے۔ برادرم! غورکر، اگررسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اپنی شریعت سے مجملات قرآن عظیم کی تفصیل نہ فرماتے قرآن عظیم یونہی مجمل رہ جاتا۔ اسی طرح ائمہ مجتہدین اگرمجملات حدیث کی تفصیل نہ فرماتے حدیث یونہی مجمل رہ جاتی، اسی طرح ہمارے زمانے تک، تواگریہ نہیں کہ حقیقت اجمال سب میں سرایت کئے ہوئے ہے تونہ متون کی شرح لکھی جاتی نہ ترجمے ہوتے نہ علماء شرحوں کی شرح (حواشی) لکھتے۔

 

 (۱؎ میزان الشریعۃ الکبرٰی    فصل وممایدلک علی صحۃ ارتباط جمیع اقوام علماء الشریعۃ الخ     مصطفی البابی مصر ۱/ ۳۷)

 

اب یہیں دیکھئے کہ کتب ظاہرالروایۃ ونوادرائمہ تھیں پھرکتب نوازل وواقعات تصنیف فرمائی گئیں پھرمتون وشروح وحواشی وفتاوٰی وقتاً فوقتاً تصنیف ہوتے رہے اورہرآئندہ طبقہ نے گزشتہ پراضافہ کئے اورمقبول ہوتے رہے کہ سب اسی اجمال قرآن وسنت کی تفصیل ہے ۔

 

نصاب الاحتساب وفتاوٰی عالمگیری زمانہ سلطان عالمگیراناراﷲ تعالٰی برہانہ کی تصنیف ہیں ان میں بہت ان جزئیات کی تصریح ملے گی جو کتب سابقہ میں نہیں کہ وہ جب تک واقع ہی نہ ہوئے تھے، اورکتب نوازل وواقعات کاتوموضوع ہی حوادث جدیدہ کے احکام بیان فرماناہے اگرکوئی شخص ان کی نسبت کہے کہ صحابہ تابعین سے اس کی تصریح دکھاؤ یاخاص امام اعظم وصاحبین کانص لاؤ تو وہ احمق مجنون یاگمراہ مفتون، پھرعالمگیری کے بھی بہت بعد اب قریب زمانہ کی کتابیں فتاوٰی اسعدیہ وفتاوٰی حامدیہ وطحطاوی علی مراقی الفلاح وعقودالدریہ وردالمحتار ورسائل شامی وغیرہا کتب معتمدہ ہیں کہ تمام حنفی دنیامیں ان پراعتماد ہورہاہے دواول کے سوایہ سب تیرہویں صدی کی تصنیف ہیں مانعین بھی ان سے سندیں لاتے ہیں ان میں صدہاوہ بیان ملیں گے جوپہلے نہ تھے اورمانعین کے یہاں توفتاوٰی شاہ عبدالعزیز صاحب بلکہ مائۃ مسائل واربعین تک پراعتماد ہورہاہے کیامائۃ مسائل واربعین کے سب جزئیات کی تصریح صحابہ وتابعین وائمہ تو بہت بالاہیں عالمگیری وردالمحتار تک کہیں دکھاسکتے ہیں اب ان کے بعد بھی ریل، تار، برقی، نوٹ، منی آرڈر، فوٹوگراف وغیرہ وغیرہ ایجادہوئے اگرکوئی شخص کہے کہ صحابہ تابعین یاامام ابوحنیفہ یایہ نہ سہی ہدایہ یادرمختاریایہ بھی نہ سہی عالمگیری وطحطاوی وردالمحتار یایہ سب جانے دوشاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے فتاوے میں دکھاؤ، تواسے مجنون سے بہتر اورکیالفظ کہاجاسکتاہے، ہاں اس ہٹ دھرمی کی بات جداہے کہ اپنے آپ توتیرہویں صدی کی اربعین تک معتبرجانیں اوردوسروں سے ہرجزئیہ پرخاص صحابہ وتابعین کی سندمانگیں۔ خطبہ(عہ) میں ذکرعمین شریفین حادث ہے مگرجب سے حادث ہے علماء نے اس کے مندوب ہونے کی تصریح فرمائی،

 

عہ:  ان کابیان کہ حادث ہوکرمستحب ٹھہریں۔

 

درمختارمیں ہے: یندب ذکر الخلفاء الراشدین و العمّین۔۱؎ خطبہ میں چاروں خلفاء کرام اوردونوں عم کریم سیدالانام علیہ الصلوٰۃ والسلام کاذکرفرمانا مستحب ہے۔

 

 (۱؎ درمختار    کتاب الصلوٰۃ    باب الجمعہ مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۱۱۱)

 

اورحضرت شیخ مجددالف ثانی صاحب نے توایک خطیب پراپنے مکتوبات میں اس لئے کہ اس نے ایک خطبہ میں خلفاء کرام کاذکرنہ کیاتھا سخت نکیرفرمائی اور اسے خبیث تک لکھا۔ اذان کے بعد حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پرصلاۃ وسلام عرض کرنا جس طرح حرمین طیبین میں رائج ہے ۔

 

درمختارمیں فرمایا: التسلیم بعدالاذان حدث فی ربیع الاٰخر سنۃ سبع مائۃ واحدی وثمانین فی عشاء لیلۃ الاثنین ثم یوم الجمعۃ ثم بعد عشر سنین حدث فی الکل الاالمغرب ثم فیھا مرتین وھو بدعۃ حسنۃ۔۲؎ اذان کے بعد صلوٰۃ بھیجنا ربیع الآخر ۷۸۱ھ؁ کی عشاء شب دوشنبہ میں حادث ہواپھر اذان جمعہ کے بعد بھی صلوٰۃ کہی گئی پھر دس برس بعد مغرب کے سواسب اذانوں کے بعدپھرمغرب میں بھی دوبارکہنی شروع ہوئی اوریہ ان نوپیدا باتوں سے ہے جوشرعاً مستحب ہیں۔

 

 (۲؎درمختار    کتاب الصلوٰۃ    باب الجمعہ        مطبع مجتبائی دہلی      ۱/ ۶۴)

 

کتب میں اس کے صدہا نظائرملیں گے اسی وقت کے علماء معتمدین سے ان کے جزئیہ کی تصریح مل سکتی ہے مجلس میلاد مبارک وقیام کوجاری ہوئے بھی صدہاسال ہوئے مگر صحابہ وتابعین وائمہ مجتہدین کے کلام میں ان کے نام کی تصریح مانگنی اسی جنون پرمبنی ہوگئی ان پرانہیں علماء کرام کی تصریحات سے استناد ہوگا جن کے زمانہ میں ان کاوجودتھا جیسے مجلس مبارک کے لئے امام حافظ الشان ابن حجر عسقلانی وامام خاتم الحفّاظ جلال الدین سیوطی وامام خطیب احمدقسطلانی وغیرہم اکابررحمہم اﷲ تعالٰی جن کے نام وکلام کی تصریح باربارکردی گئی۔ یونہی مسئلہ قیام میں ان علماء کرام کی سندلی جائے جن کاذکرشریف آیا ہے وباﷲ التوفیق بحمداﷲ تعالٰی موافقین اہل حق وانصاف ودین کے لئے یہ کافی ہوگا۔ رہامخالفین کا نہ ماننا ان کی پروا کیا۔ وہ اورہی کسے مانتے ہیں کہ ان علماء کرام کومانیں ان کے غیرمقلدین توعلانیہ امام اعظم وجملہ ائمہ دین پرمنہ آتے اوراپنے مہمل افہام واوہام کے آگے ان کے اجتہادات عالیہ کو باطل بتاتے اوران کے ماننے والوں کومعاذاﷲ مشرگ گمراہ بتاتے ہیں، جو ان میں بظاہر نام تقلید لیتے ہیں وہ بھی غیرمقلدین کی طرح اپنے اہوائے باطلہ کے سامنے قرآن وحدیث کی توسنتے نہیں پھرائمہ کی کیاگنتی ان کے منہ سے تقلیدامام اوران سب کے منہ سے قرآن وحدیث کانام محض برائے تسکین عوام ہے کہ کھلامنکرنہ جانیں ورنہ حالت وہ ہے جوان کے مذہبی قرآن تفویۃ الایمان سے ظاہر جوکہے ''اﷲ ورسول نے غنی کردیا'' وہ مشرک۱؎، حالانکہ خود قرآن عظیم فرماتاہے: اغنٰھم اﷲ ورسولہ من فضلہ۲؎۔ اﷲ ورسول نے انہیں دولتمندکردیااپنے فضل سے۔

 

 (۱؎ تقویۃ الایمان)                      (۲؎ القرآن الکریم     ۹/ ۷۴ )

 

محمدبخش، احمدبخش نام رکھنا شرک حالانکہ خود قرآن حمیدفرماتاہے کہ جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم جب حضرت سیدتنا مریم کے پاس آئے کیاکہا یہ کہ: انّما انا رسول ربّک لاھب لک غلٰماً زکیّا۔۳؎ میں تمہارے رب کارسول ہوں اس لئے کہ میں تم کو ستھرابیٹادوں۔

 

 ( ۳؎ القرآن الکریم     ۱۹/ ۱۹)

 

صرف محمدبخش نام شرک ہوا حالانکہ وہ معنی عطامیں متعین بھی نہیں، بخش بہروحصہ کو کہتے ہیں توجبریل کہ صریح لفظوں میں اپنابیٹا دیناکہہ رہے ہیں دین اسمٰعیلی میں کیسے مشرک نہ ہوں گے اورقرآن عظیم کہ اس شرک وہابیت کوذکرفرماکرمقرررکھتاہے کیوں نہ اسے شرک پسند کتاب ٹھہرائیں گے۔ اس کی مثالیں بہت ہیں کہ وہابیہ کے شرک سے نہ ائمہ محفوظ نہ صحابہ نہ انبیاء نہ جبریل نہ خودرب العٰلمین جل وعلاوصلی اﷲ تعالٰی علٰی الحبیب وعلیہم وسلم۔ یہ بحث فقیرکے اور رسائل (عہ) میں مفصل ملے گی، یہاں تواتناکہناکافی ہے کہ مخالفین کی نہ ماننے کی پروا کیاہے انہوں نے اورکسے ماناہے کہ علماء ہی کومانیں گے لہٰذا اس مقام اول میں روئے سخن موافقین اہل حق ویقین کی طرف کریں واﷲالموفق والمعین وبہ نستعین وصلی اﷲ تعالٰی علٰی سیدنا محمدوآلہٖ وصحبہ وابنہ وحزبہ اجمعین آمین۔ مولٰی عزوجل توفیق دے تویہاں منصف غیرمتعصب کے لئے اسی قدرکافی کہ یہ فعل مبارک اعنی قیام وقت ذکرولادت حضورخیرالانام علیہ وعلٰی آلہٖ افضل الصلوٰۃ والسلام صدہاسال سے بلاددارالاسلام میں رائج ومعمول، اوراکابر ائمہ وعلماء میں مقررومقبول، شرع میں اس سے منع مفقود اوربے منع شرع منع مردود۔

 

عہ: خصوصاً کتاب مستطاب ''اکمال الطامہ علٰی شرک سوی بالامورالعامہ'' مصحح ۱۲۔

 

ان الحکم الاﷲ۱؎، وانما الحرام ماحرم اﷲ فی کتابہ وماسکت عنہ فھو مما عفاعنہ۲؎۔ حکم نہیں ہے مگراﷲ تعالٰی کے لئے۔اورحرام وہ ہے جس کو اﷲ تعالٰی نے حرام کیا، اور جس پرسکوت فرمایا وہ معاف شدہ چیزوں میں سے ہے(ت)

 

 (۱؎ القرآن الکریم     ۱۲/ ۴۰)

(۲؎ جامع الترمذی     ابواب اللباس    باب ماجاء فی لبس الفراء     امین کمپنی دہلی         ۱/ ۲۰۶)

(سنن ابن ماجہ         ابواب الاطعمہ     باب اکل الجبن والسمن     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی     ص۲۴۹)

(المستدرک للحاکم     کتاب الاطعمہ     دارالفکر بیروت    ۴/ ۱۱۵)

 

علی الخصوص حرمین طیبین مکہ معظمہ ومدینہ منورہ صلی اﷲ تعالٰی علٰی منورھما وبارک وسلم کہ مبدء ومرجع دین وایمان ہیں وہاں کے اکابرعلماء ومفتیان مذاہب اربعہ مدتہا مدت سے اس فعل کے فاعل وعامل وقائل وقابل ہیں ائمہ معتمدین نے اسے حرام نہ فرمایا بلکہ بلاشبہہ مستحب ومستحسن ٹھہرایا۔

 

عہ: کتب علماء سے قیام کاثبوت۔

 

علامہ جلیل الشان علی بن برہان الدین حلبی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے سیرت مبارکہ انسان العیون میں تصریح فرمائی کہ یہ قیام بدعت حسنہ ہے۔اورارشاد فرماتے ہیں: قد وجدالقیام عند ذکر اسمہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من عالم الامۃ ومقتدی دینًا وورعاً تقی الدین سبکی رحمۃ اﷲ تعالٰی وتابعہ علٰی ذٰلک مشائخ الاسلام فی عصرہ فقد حکی بعضھم ان الامام السبکی اجتمع عندہ جمع کثیر من علماء عصرہ فانشد فیہ قول الصرصری فی مدحہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ؎

قلیل لمدح المصطفی الخط بالذھب                علٰی ورق من خط احسن من کتب

وان تنھض الاشراف عند سماعہ                    قیاماً صفوفا اوجثیاً علی الرکب

فعند ذٰلک قام الامام السبکی                           وجمیع من فی المجلس فحصل

انس کبیر بذٰلک المجلس ویکفی مثل ذٰلک فی الاقتداء۔۱؎

 

بیشک وقت ذکرنام پاک سیدالانام علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام قیام کرنا امام تقی الملۃ والدین سبکی رحمہ اﷲ تعالٰی سے پایاگیا جوامت مرحومہ کے عالم اوردین وتقوٰی میں اماموں کے امام ہیں اور اس قیام پران کے معاصرین ائمہ کرام مشائخ الاسلام نے ان کی متابعت کی بعض علماء یعنی انہیں امام اجل کے صاحبزادے امام شیخ الاسلام ابونصرعبدالوہاب ابن ابی الحسن تقی الملۃ والدین سبکی نے طبقات کبرٰی میں نقل فرمایا کہ امام سبکی کے حضورایک جماعت کثیر اس زمانہ کے علماء کی مجتمع ہوئی۔ اس مجلس میں کسی نے امام صرصری کے یہ اشعار نعت حضور سیدالابرار صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں پڑھے جن کاخلاصہ یہ ہے کہ مدح مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے یہ بھی تھوڑاہے کہ سب سے اچھا خوشنویس ہواس کے ہاتھ سے چاندی کے پتّرپرسونے کے پانی سے لکھی جائے اورجولوگ شرف دینی رکھتے ہیں، وہ ان کی نعت سن کر صف باندھ کرسروقدیاگھٹنوں کے بل کھڑے ہوجائیں ان اشعار کے سنتے ہی حضرت امام سبکی وجملہ علمائے کرام حاضرین مجلس مبارک نے قیام فرمایا اوراس کی وجہ سے اس مجلس میں نہایت انس حاصل ہوا۔ علامہ جلیل حلبی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں اس قدر پیروی کے لئے کفایت کرتاہے انتہی(ت)

 

(۱؎ انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون  باب تسمیتہ صلی اﷲ علیہ وسلم محمداواحمد داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۸۴)

 

اقول: یہ امام صرصری صاحب قصیدہ نعتیہ وہ ہیں جنہیں علامہ محمدبن علی شامی مستند مانعین نے سبیل الہدٰی والرشاد میں اپنے زمانے کاحسان اورنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کامحب صادق فرمایا اور امام اجل حضرت امام الائمہ تقی الملۃ والدین سبکی قدس سرہ الشریف کی جلالت شان ورفعت مکان تو آفتاب نیمروز سے زیادہ روشن ہے یہاں تک کہ مانعین کے پیشوا مولوی نذیرحسین دہلوی اپنے ایک مہری فتوے میں ان کابالاجماع امام جلیل ومجتہد کبیرہونا تسلیم کرتے ہیں، اور اس زمانے کے اعیان علماء ومشائخ اسلام کاان کے ساتھ اس پرموافقت فرمانا بحمداﷲ تعالٰی متبعین سلف صالحین کے لئے ایک کافی سندہے آخرنہ دیکھاکہ علامہ حلبی نے ارشاد فرمایا اسی قدراقتداء کے لئے بس ہے، عالم کامل عارف باﷲ سیدسند مولٰینا سیدجعفربرزنجی قدس سرہ العزیز جن کارسالہ عقدالجوہر فی مولدالنبی الازہر صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حرمین محترمین ودیگر بلاددارالاسلام میں رائج ہے اورمستندمانعین مولانا رفیع الدین نے تاریخ الحرمین میں اس رسالے اوران مصنف جلیل القدر کی نہایت مدح وثنا لکھی ہے اپنے اسی رسالے مبارکہ میں فرماتے ہیں:

 

قد استحسن القیام عند ذکر مولدہ الشریف ائمۃ ذوروایۃ ودرایۃ فطوبٰی لمن کان تعظیمہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم غایۃ مرامہ ومرماہ۔۱؎ بیشک نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ذکرولادت کے وقت قیام کرنا ان اماموں نے مستحسن سمجھا ہے جوصاحب روایۃ ودرایۃ تھے توشادمانی اس کے لئے جس کی نہایت مرادومقصود نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم ہے۔

 

 (۱؎ عقدالجوہر فی مولدالنبی الازھر(مترجم بالاردویۃ)    جامعۃ الاسلامیہ لاہور    ص۲۵و۲۶)

 

فاضل اجل سیدی جعفر بن زین العابدین علوی مدنی نے اس کی شرح الکوکب الازہر علٰی عقد الجوہر میں اس مضمون پرتقریرفرمائی۔

فقیہ محدث مولانا بن حسن دمیاطی اپنے رسالہ اثبات قیام میں فرماتے ہیں: القیام عند ذکر ولادۃ سیدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم امر لاشک فی استحبابہ واستحسانہ وندبہ یحصل لفاعلہ من الثواب الاوفروالخیرالاکبر لانہ تعظیم ای تعظیم للنبی الکریم ذی الخلق العظیم الذی اخرجنا اﷲ بہ من ظلمات الکفر الی الایمان وخلصنا اللہ بہ من نار الجھل الی جنات المعارف والایقان فتعظیمہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فیہ مسارعۃ الٰی رضاء رب العٰلمین واظھار اقوی شعائرالدین ومن یعظم شعائراﷲ فانھا من تقوی القلوب ومن یعظم حرمات اﷲ فھو خیرلہ عند ربہ۔۲؎

 

قرأت مولد شریف میں ذکرولادت شریف سیدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے وقت حضورصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کوقیام کرنا بیشک مستحب ومستحسن ہے جس کے فاعل کوثواب کثیروفضل کبیر حاصل ہوگاکہ وہ تعظیم ہے اورکیسی ہے تعظیم ان نبی کریم صاحب خُلقِ عظیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی جن کی برکت سے اﷲ سبحانہ وتعالٰی ہمیں ظلمات کفرسے نورایمان کی طرف لایا اوران کے سبب ہمیں دوزخ جہل سے بچاکر بہشت معرفت ویقین میں داخل فرمایا توحضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم میں خوشنودی رب العالمین کی طرف دوڑنا ہے اورقوی ترین شعائردین کاآشکارہونااورجوتعظیم کرے شعائرخدا کی تووہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے اورجوتعظیم کرے خدا کی حرمتوں کی تو وہ اس کے لئے اس کے رب کے یہاں بہترہے۔

 

 (۲؎ اثبات القیام )

 

پھربعد نقل دلائل فرمایا: فاستفید من مجموع ماذکرنا استحباب القیام لہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عند ذکرولادتہ لما فی ذٰلک من التعظیم لہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لایقال القیام عندذکرولادتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بدعۃ لانا نقول لیس کل بدعۃ مذمومۃ کما اجاب بذٰلک الامام المحقق المولی ابوذرعۃ العراقی حین سئل عن فعل المولد أمستحب اومکروہ وھل ورد فیہ شیئ اوفعل بہ من یقتدی بہ فاجاب بقولہ الولیمۃ واطعام الطعام مستحب کل وقت فکیف اذا انضم الٰی ذلک السروربظھورنورالنبوۃ فی ھذالشھرالشریف ولانعلم ذٰلک عن السلف ولایلزم من کونہ بدعۃ مکروھۃ فکم من بدعۃ مستحبۃ بل واجبۃ اذا لم تنضم بذٰلک مفسد واﷲ الموفق۱؎۔

 

یعنی ان سب دلائل سے ثابت ہواکہ ذکر ولادت شریف کے وقت قیام مستحب ہے کہ اس میں نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم ہے کوئی یہ نہ کہے کہ قیام توبدعت ہے ا س لئے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہربدعت بری نہیں ہوتی، جیساکہ یہی جواب دیا امام محقق مولی ابوذرعہ عراقی نے، جب ان سے میلاد کوپوچھاتھا کہ مستحب ہے یامکروہ اوراس میں کچھ واردہواہے، یاکسی پیشوا نے کی ہے؟ توجواب میں فرمایا ولیمہ اورکھاناکھلانا ہروقت مستحب ہے پھر اس صورت میں کیاپوچھنا جب اس کے ساتھ اس ماہ مبارکہ میں ظہور نبوت کی خوشی مل جائے، اورہمیں یہ امرسلف سے معلوم نہیں، نہ بدعت ہونے سے کراہت لازم کہ بہتیری بدعتیں مستحب بلکہ واجب ہوتی ہیں جب ان کے ساتھ کوئی خرابی مضموم نہ ہو اوراﷲ تعالٰی توفیق دینے والاہے۔

 

 (۱؎ اثبات القیام )

 

پھرارشاد ہوا: قداجتمعت الامۃ المحمدیۃ من اھل السنۃ والجماعۃ علی استحسان القیام المذکور وقدقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاتجتمع امتی علی الضلالۃ۔۱؎

 

بیشک امت مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ سے اہلسنت وجماعت کااجماع واتفاق ہے کہ یہ قیام مستحسن ہے اوربیشک نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: میری امت گمراہی پرجمع نہیں ہوتی۔

 

 (۱؎ اثبات القیام )

 

امام علامہ مدالقی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: جرت عادۃ القوم بقیام الناس اذا انتھٰی المداح الٰی ذکرمولدہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وھی بدعۃ مستحبۃ لما فیہ من اظھار السرور التعظیم الخ نقلہ المولی الدمیاطی۔۲؎

 

یعنی عادت قوم کی جاری ہے کہ جب مدح خواں ذکرمیلاد حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تک پہنچتاہے تولوگ کھڑے ہوجاتے ہیں اور یہ بدعت مستحبہ ہے کہ اس میں نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی پیدائش پرخوشی اورحضور کی تعظیم کااظہارہے الخ (مولٰینا دمیاطی نے اس کو نقل فرمایا۔ت)

 

 (۲؎اثبات القیام )

 

علامہ ابوزید رسالہ میلادمیں لکھتے ہیں: استحسن القیام عند ذکر الولادۃ۔۳؎ ذکرولادت کے وقت قیام مستحسن ہے۔

 

 (۳؎ رسالۃ المیلاد للعلامہ ابی زید )

 

خاتمۃ المحدثین زین الحرم عن الکرم مولانا سیداحمد زین دحلان مکی قدس سرہ الملکی اپنی کتاب مستطاب الدررالسنیہ فی الرد علی الوہابیہ میں فرماتے ہیں: من تعظیمہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الفرح بلیلۃ ولادتہ وقرأۃ المولد والقیام عند ذکرولادتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واطعام الطعام وغیرذٰلک ممّا یعتاد الناس فعلہ من انواع البرفان ذٰلک کلہ من تعظیمہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وقد افردت مسئلۃ المولد ومایتعلق بھابالتالیف واعتنی بذٰلک کثیرمن العلماء فالفوافی ذٰلک مصنفات مشحونۃ بالادلّۃ والبراھین فلاحاجۃ لنا الی الاطالۃ بذٰلک۔۱؎ یعنی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم سے حضور کی شب ولادت کی خوشی کرنا اورمولدشریف پڑھنا اورذکرولادت اقدس کے وقت کھڑاہونااورمجلس شریف میں حاضرین کوکھانادینا اوران کے سوااورنیکی کی باتیں کہ مسلمانوں میں رائج ہیں کہ یہ سب نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم سے ہیں اوریہ مسئلہ مجلس میلاد اوراس کے متعلقات کاایساہے جس میں مستقل کتابیں تصنیف ہوئیں اوربکثرت علماء دین نے اس کا اہتمام فرمایا اوردلائل وبراہین سے بھری ہوئی کتابیں اس میں تالیف فرمائیں تو ہمیں اس مسئلہ میں تطویل کلام کی حاجت نہیں۔

 

 (۱؎ الدررالسنیہ فی الرد علی الوہابیہ     دارالشفقۃ استانبول ترکیا    ص۱۸)

 

شیخ مشائخنا خاتمۃ المحققین امام العلماء سیدالمدرسین مفتی الحنفیۃ بمکۃ المحمیہ سیدنا برکتنا علامہ جمال بن عبداﷲ بن عمرمکی اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں: القیام عندذکر مولدہ الاعطر صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم استحسنہ جمع من السلف فھو بدعۃ حسنۃ۔۲؎ ذکرمولد اعطرحضورپرنورصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے وقت قیام کو ایک جماعت سلف نے مستحسن کہاتو وہ بدعۃ حسنہ ہے۔

 

 (۲؎ فتاوٰی جمال بن عمر المکی )

 

پھرعلامہ انباری کی مواردالظمآن سے نقل فرماتے ہیں: قام الامام السبکی وجمیع من بالمجلس وکفی بمثل ذٰلک فی الاقتداء۳؎ اھ ملخصاً۔ امام سبکی اورتمام حاضرین مجلس نے قیام کیا اوراس  قدراقتداء کے لئے بس ہے۔

 

 (۳؎فتاوٰی جمال بن عمر المکی )

 

مولانا جمال عمرقدس سرہ کے اس فتوٰی پرموافقت فرمائی مولاناصدیق بن عبدالرحمن کمال مدرس مسجد حرام اورحضرت علامۃ الوری علم الہدٰی مولانا وشیخنا وبرکتنا السید السند احمدوزین دحلان شافعی اورمولٰینا محمدبن محمدکتبی مکی اورمولٰینا حسین بن ابراہیم مکی مالکی مفتی مالکیہ وغیرھم اکابرعلمانے نفعنا اﷲ تعالٰی بعلومہم آمین۔

 

یہی مولانا حسین دوسری جگہ فرماتے ہیں: استحسنہ کثیر من العلماء وھو حسن لما یجب علینا تعظیمہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۱؎۔ اسے بہت علماء نے مستحسن رکھا، اوروہ حسن ہے کہ ہم پرنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم واجب ہے۔

 

مولٰینا محمدبن یحیٰی حنبلی مفتی حنابلہ فرماتے ہیں: نعم یجب القیام عند ذکر ولادتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذ یحضرروحانیتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فعند ذٰلک یجب التعظیم والقیام۲؎۔ ہاں ذکرولادت حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے وقت قیام ضرور ہے کہ روح اقدس حضورمعلی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم جلوہ فرما ہوتی ہے تواس وقت تعظیم وقیام ضرورہوا۔

 

قولہ رحمہ اﷲ تعالٰی یجب القیام الخ اقول:  اراد التاکد فی محل الادب کقول القائل لحبیبہ حقک واجب علیّ وھو من المحاورات الشائعۃ بینھم کمالایخفی علٰی من تتبع کلماتھم واما حضور روحانیتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فعلی مافصل ونقح ابی ومولائی مقدام العلماء الکرام فی کتابہ اذاقۃ الاٰثام واﷲ تعالٰی اعلم۔ مولانا علیہ الرحمہ کاقول کہ قیام واجب ہے الخ میں کہتاہوں اس سے مولانا موصوف نے محل ادب میں تاکیدکاارادہ فرمایا ہے جیسے کوئی اپنے دوست کوکہے کہ تیراحق مجھ پرواجب ہے، یہ عربوں میں مشہورمحاورات میں سے ہے، جیساکہ ان کے کلام کے تتبع کرنے والے پرمخفی نہیں، رہاحضوراکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی روحانیت کاجلوہ گرہونا، تو اس کی تفصیل وتنقیح علماء کے پیشوا میرے آقا ووالدگرامی نے اپنی کتا ب اذاقۃ الآثام میں کردی ہے، واﷲ تعالٰی اعلم

 

مولٰینا عبداﷲ بن محمد مفتی حنفیہ فرماتے ہیں: استحسنہ کثیرون۳؎  (اسے بہت علماء نے مستحسن رکھاہے)

 

(١؎ )           (۲؎ )          (۳؎ )

 

شیخ مشائخنا مولانا الامام الاجل الفقیہ المحدث سراج العلماء عبداﷲ سراج مکی مفتی حنفیہ فرماتے ہیں: توارثہ الائمۃ الاعلام واقرہ الائمۃ والحکام من غیرنکیر منکرو ردّراد ولھذا کان حسنا ومن یستحق التعظیم غیرہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ویکفی اثرعبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنھما ماراٰہ المسلمون حسنا فھو عنداﷲ حسن۱؎۔ یہ قیام مشہوربرابراماموں میں متوارث چلاآتاہے اوراسے ائمہ وحکام نے برابررکھااورکسی نے رَدّوانکارنہ کیا لہٰذا یہ مستحب ٹھہرا اورنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے سوا اورکون مستحق تعظیم ہے اورسیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی حدیث کافی ہے کہ جس چیزکو اہل اسلام نیک سمجھیں وہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک بھی نیک ہے۔

اسی طرح مفتی عمربن ابی بکر شافعی نے اس کے استحباب واستحسان پرتصریح فرمائی۔

 

(۱؎ )

 

فتوائے علمائے حرمین محترمین جس پرمفتی مکہ معظمہ مولٰینا محمدبن حسین کتبی حنفی اور رئیس العلماء شیخ المدرسین مولاناجمال حنفی اورمفتی مالکیہ مولانا حسین بن ابراہیم مکی اورسیدالمحققین مولانا احمدبن زین شافعی اورمدرس مسجدنبوی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مولانا محمدبن محمد غرب شافعی اورمولاناعبدالکریم بن عبدالحکیم حنفی مدنی اورفقیہ جلیل مولانا عبدالجبار حنبلی بصری نزیل مدینہ منورہ اورمولانا ابراہیم بن محمدخیار حسینی شافعی مدنی کی مہریں ہیں اوراصل فتوٰی مزیّن بخطوط ومواہیر علماء ممدوحین فقیرنے بچشم خود دیکھا اور مدتوں فقیرکے پاس رہاجس میں اکثر مسائل متنازع فیہا پربحث فرمائی ہے اوردلائل باہرہ مذہب وہابیت کوسراسرباطل ومردودٹھہرایاہے، اس میں دربارہ قیام مذکورہے:

 

اس فتوٰی پرحضرت سیدالعلماء احمددحلان مفتی شافعیہ وجناب مستطاب شیخنا وبرکتنا سراج الفضلا مولانا عبدالرحمن سراج مفتی حنفیہ ومولانا حسن مفتی حنابلہ ومولانا محمدشرقی مفتی مالکیہ وغیرہم پینتالیس علماء کی مہریں ہیں اورفتوائے علماء جدہ( عہ: فتاوٰی ۱۰ازعلمائے جدہ) میں مجیب اول مولاناناصربن علی بن احمد مجلس میلاد اوراس میں قیام وتعیّن یوم وتزئین مکان واستعمال خوشبو وقرأت قرآن واظہار سرورواطعام طعام کی نسبت فرماتے ہیں: بھٰذہ الصورۃ المجموعۃ من الاشیاء المذکورۃ بدعۃ حسنۃ مستحبۃ شرعًا لاینکرھا الامن فی قلبہ شعبۃ من شعب النفاق والبغض لہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وکیف یسوغ لہ ذٰلک مع قولہ تعالٰی ومن یعظم شعائر اﷲ فانھا من تقوی القلوب۱؎۔

 

جس مجلس میں یہ سب باتیں کی جائیں وہ شرعاً بدعت حسنہ ہے جس کاانکارنہ کرے گا مگروہ جس کے دل میں نفاق کی شاخوں سے ایک شاخ اورنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عداوت ہے اوریہ انکار اسے کیونکر رواہوگا حالانکہ حق تعالٰی فرماتاہے جوخداکے شعائروں کی تعظیم کرے تو وہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہیں۔(عہ۱:)

 

عہ۱: فتوٰی ۹ علماء مکہ معظمہ ومفتیان مذاہب اربعہ ۔

 

 (۱؎ )

 

مولانا عباس بن جعفربن صدیق فرماتے ہیں: مااجاب بہ الشیخ العلامۃ فھو الصواب لایخالفہ الا اھل النفاق ومافی السوال فھو حسن کیف وقد قصد بذٰلک تعظیم المصطفٰی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاحرمنا اﷲ تعالٰی من زیارۃ فی الدنیا ولامن شفاعۃ فی الاخرٰی ومن انکر من ذٰلک فھو محروم منھما۔۲؎

 

شیخ علامہ ناصربن احمد بن علی نے جوجواب دیاوہی حق ہے اس کے خلاف نہ کریں گے مگرمنافقین، اور جوکچھ سوال میں مذکورہے سب حسن ہے، اورکیوں نہ حسن ہو کہ اس سے مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم ہوتی ہے، اﷲ تعالٰی ہمیں محروم نہ کرے ان کی زیارت سے دنیامیں اورنہ ان کی شفاعت سے آخرت میں، اورجو اس سے انکارکرے گا وہ ان دونوں سے محروم ہے۔(عہ۲)

 

عہ۲:  منکرزیارت وشفاعت سے محروم ہے۔

 

 (۲؎)

 

مولانا احمدفتاح لکھتے ہیں: اعلم ان ذکر ولادۃ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ماوقع من المعجزات والحضور لسماعہ سنۃ بلاشک وریب لکن من ھٰذہ الصورۃ المجموعۃ من الاشیاء المذکورۃ کما ھو المعمول فی الحرمین الشریفین وجمیع دیارالعرب بدعۃ حسنۃ مستحبۃ یثاب فاعلھا ویعاقب منکرومانعھا۱؂۔

 

جان توکہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ولایت ومعجزات کاذکراور اس کے سننے کوحاضرہونا بیشک سنت ہے مگریہ ہیئت مجموعی جس میں قیام وغیرہ اشیائے مذکورہ ہوتی ہیں جیساکہ حرمین شریفین اورتمام دیارعرب کامعمول ہے اوریہ بدعت حسنہ مستحبہ ہے جس کے کرنے والے کو ثواب اورمنکرومانع پرعذاب۔

 

 (۱؎ )

 

مولانا محمدبن سلیمان لکھتے ہیں: نعم اصل ذکرالمولد الشریف وسماعہ سنۃ وبھٰذہ الکیفیۃ المجموعۃ بدعۃ حسنۃ مستحبۃ وفضیلۃ عظیمۃ مقبولۃ عنداﷲ تعالٰی کما جاء فی اثر عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ ماراٰہ المسلمون حسناً فھو عنداﷲ حسن، والمسلمون من زمان السلف الی الاٰن من اھل العلم والعرفان کلھم رواہ حسنا بلانقصان فلاینکر ولایمنع من ذٰلک الامانع الخیروالاحسان وذٰلک عمل الشیطٰن۔۲؎

 

ہاں اصل ذکرمولدشریف اوراس کاسننا سنت ہے اوراس کیفیت مجموعی کے ساتھ جس میں قیام وغیرہ ہوتاہے بدعت حسنہ مستحبہ اوربڑی فضیلت پسندیدہ خداہے کہ حدیث عبداﷲ بن مسعود میں وارد''جسے مسلمان نیک سمجھیں وہ خداکے نزدیک نیک ہے'' اورمسلمان سلف سے آج تک علماء اولیاء سب اسے مستحسن بلانقصان سمجھتے آئے تو اس سے منع وانکارنہ کرے گا مگروہ کہ خیراوربھلائی سے روکنے والاہوگا اوریہ کام شیطان کاہے۔

 

 (۲؎ )

 

مولانا احمدجلیس لکھتے ہیں: الحمدﷲ وکفٰی والصلٰوۃ علی المصطفٰی نعم ذکرولادۃ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ومعجزۃ وحلیۃ والحضور لسماعہ وتزیین المکان ورش ماء الورد والبخور بالعود تعین الیوم والقیام عند ذکرولادتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واطعام الطعام وتقسیم التمروقرائۃ شیئ من القراٰن کلھا مستحبۃ بلاشک وریب واﷲ تعالٰی اعلم بالغیب۔۱؎ خداکوحمد ہے اوروہ کافی ہے مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پردرود۔ ہاں ولادت ومعجزات وحلیہ شریفہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کاذکرکرنا اور اس کے سننے کوحاضرہونا اورمکان سجانا اورگلاب چھڑکنا اوراگربتی سلگانا، اوردن مقررکرنااورذکرولادت نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے وقت قیام کرنا اورکھاناکھلانا اورخرمے بانٹنا اورقرآن مجید کی چندآیتیں پڑھنا بلاشک وشبہہ مستحب ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم بالغیب۔

 

 (۱؎ )

 

مولانا محمدصالح لکھتے ہیں: امّۃ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من العرب والمصروالشام والروم والاندلس وجمیع بلادالاسلام مجتمع علی استحبابہ واستحسانہ۲؎۔ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی امت عرب ومصروشام وروس وروم واندلس وتمام بلاداسلام اس کے استحباب واستحسان پراجماع واتفاق کئے ہوئے ہے۔

 

 (۲؎ )

 

اوراسی طرح احمدبن عثمان واحمد بن عجلان ومحمد صدقہ وعبدالرحیم بن محمد زبیدی نے لکھااورتصدیق کیاتھا، فتاوائے علمائے جدّہ میں مولانا یحیٰی بن اکرم فرماتے ہیں: الّف فی ذٰلک العلماء وحثوا علٰی فعلہ فقالوا لاینکرھا الامبتدع فعلٰی حاکم الشریعۃ ان یعزرہ۔۳؎ علماء نے اس بارے میں کتابیں تالیف فرمائیں اوراس کے فعل پررغبت دی اورفرمایا اس کاانکارنہ کرے گا مگربدعتی، توحاکم شرع پراس کی تعزیرلازم۔

 

 (۳؎ )

 

مولانا علی شامی فرماتے ہیں: لاینکرھذا الا من طبع اﷲ علٰی قلبہ وقد نص علماء السنۃ علٰی ان ھذا من المستحسن المثاب علیہ وردّ واردالحسن علٰی منکرہ۱؎ الخ۔ اس کاانکارنہ کرے گا مگروہ جس کے دل پر خدانے مہرکردی اوربیشک علمائے اہلسنت نے صریح فرمائی کہ یہ مستحسن و کارثواب ہے منکرکاخوب رَد فرمایا۔

 

 (۱؎ )

 

مولانا علی بن عبداﷲ لکھتے ہیں: لایشک فیہ الا مبتدع یلیق بہ التعزیر۲؎۔ اس میں شک وہی کرے گا جوبدعتی قابل سزاہوگا۔(عہ۱)

 

عہ۱:  منکرواجب التعزیرہے۔

 

( ۲؎ )

 

مولانا علی طحان لکھتے ہیں: قرائۃ المولد الشریف والقیام فیہ مستحب ومن انکر ذٰلک فھو جحودلایعرف مراتب الرسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔۳؎ مولدشریف پڑھنا اوراس میں قیام کرنا مستحب ہے اورمنکرہٹ دھرم ہے جسے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی قدرمعلوم نہیں۔(عہ۲)

 

عہ۲:  منکرکورسالت کی قدرنہیں۔

 

 (۳؎ )

 

مولانا محمدبن داؤد بن عبدالرحمن لکھتے ہیں: مستحب یثاب فاعلہ ولاینکرہ الا متبدع۔۴؎ مستحب کرنے والاثواب پائے گا اورمنکربدعتی ہوگا۔

 

 (۴؎ )

 

مولانا محمدبن عبداﷲ لکھتے ہیں: قرائۃ المولد الشریف والقیام عند ذکرولادۃ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وکل شیئ فی السوال حسن بتعظیم المصطفٰی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ومن یستحق التعظیم غیرہ۔۵؎

 

مولدشریف پڑھنا اورذکرولادت نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے وقت قیام کرنا اورجتنی باتیں سوال میں مذکورہیں یہ سب تعظیم مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے حسن ہیں اورحضورکے سواتعظیم کامستحق کون ہے۔

 

 (۵؎ )

 

مولانا احمدبن خلیل لکھتے ہیں: ھوالصواب اللائق بتعظیم المصطفٰی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فعلٰی حاکم الشریعۃ المطھرۃ زجر من انکر وتعزیرہ۱؎۔

 

یہی حق ہے اورتعظیم مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے مناسب۔ پس حاکم شریعۃ مطہرہ پرلازم کہ منکرکوجھڑکے اورسزادے۔(عہ۱)

 

عہ۱: منکرواجب التعزیرہے۔

 

 (۱؎)

 

مولانا عبدالرحمن بن علوی حضرمی لکھتے ہیں: استحسنو القیام تعظیمالہ اذاجاء ذکرمولدہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وماصار تعظیمالہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فوجب علینا اداؤہ والقیام بہ ولاینکر ماذکرنا الامبتدع مخالف عن طریق اھل السنۃ والجماعۃ لااستماع واصغاع لکلامہ وعلٰی حاکم الاسلام تعزیرہ۔۲؎ علماء نے فتوٰی وقت ذکرولادت نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حضورکی تعظیم کے لئے قیام مستحسن سمجھا اوجوچیز حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم ٹھہری تواس کااداکرنا اوربجالانا ہم پرواجب ہوگیا اوراس کاانکارنہ کرے گا مگربدعتی مخالف طریقہ اہلسنت وجماعت جس کی بات نہ سننے کے قابل نہ توجہ کے لائق، اورحاکم اسلام پر اس (عہ۲) کی تعزیرواجب ہے۔

 

عہ۲:  منکرواجب التعزیرہے۔

 

 ( ۲؎)

 

بالجملہ سردست اس قدرکتب فتاوٰی وافعال واقوال علماء ائمہ سے اس قیام مبارک کے استحسان واستحباب کی سند صریح حاضرہے جس میں سو سے زائدائمہ وعلماء کی تحقیق وتصدیق روشن وظاہر اوررسالہ غایۃ المرام میں علمائے ہند کے فتوے چھپے ہیں پچاس سے زیادہ مہرودستخط ہیں اب منصف انصاف کرے آیا اس قدرعلماء مکہ معظمہ ومدینہ منورہ وجدہ وحدیدہ وروم وشام ومصرودمیاط ویمن و زبیدوبصرہ وحضرموت وحلب وحبش وبرزنج وبرع وکرد وداغستان واندلس وہند کااتفاق قابل قبول ارباب عقول نہ ہوگا، یامعاذاﷲ یہ عمائد شریعت صدہاسال سے آج تک سب کے سب مبتدع وبدمذہب، اورایک بدعت ضلالت کے مستحب ومستحسن ماننے والے ٹھہریں گے، تعصب نہ کیجئے توہم ایک تدبیربتائیں ذرا اپنے دل کو خیالات اِیں وآں سے رہائی دیجئے اورآنکھیں بند کرکے گردن جھکاکریوں دل میں مراقبہ کیجئے کہ گویایہ سیکڑوں اکابرسب کے سب ایک وقت میں زندہ موجودہیں اوراپنے اپنے مراتب عالیہ کے ساتھ ایک مکان عالیشان میں جمع ہوئے ہیں اوران کے حضور مسئلہ قیام پیش ہوا ہے اوران سب عمائدنے ایک زبان ہوکربلندآوازسے فرمایاہے، بیشک مستحب ہے، وہ کون ہے جواسے براکہتاہے، ذراہمارے سامنے آئے، اس وقت ان کی شوکت وجبروت کوخیال کیجئے اورمشتے چندمانعین ہندوستان میں ایک ایک کامنہ چراغ لے کر دیکھئے کہ ان میں سے کوئی بھی اس عالی شان مجمع میں جاکر ان کے حضور اپنی زبان کھول سکتاہے اوریوں تو: ؎ چوں شیراں برفتند ازمرغزار        زندروبہ لنگ لاف شکار۱؎۔

 

 (جب جنگلات اورسبزہ زار سے شیر چلے جائیں تولنگڑی لومڑی بھی شکار کی ڈینگیں مارنے لگتی ہے۔ت)

 

 (۱؎ )

 

جسے چاہئے کہہ دیجئے کہ وہ کیاتھا ہم ان کی کب مانتے ہیں، ان کاقول کیاحجت ہوسکتاہے، یہ بھی نہ سہی، بالفرض اگران سب اکابر سے بیان مسئلہ میں غلطی وخطاہوجائے تونقل وروایت میں تو معاذاﷲ کذب وافتراء نہ کریں گے، اب اوپر کی عبارتیں دیکھئے کہ کتنے علمائے اہلسنت وجماعت وعلمائے بلاددارالاسلام کااس فعل کے استحباب واستحسان پراجماع نقل کیاہے، کیا اجماع اہلسنت بھی پایہ قبول سے ساقط، اورہنوزدلیل وسند کی حاجت باقی ہے، اچھایہ بھی جانے دو، اورچندہندیوں کاخلاف کہ وہ بھی جب یہاں کسی طرح کادینی بندوبست ونظام نہ رہا اورہرایک کو جومنہ پرآئے بک دینے کااختیار ملاوقت وموقع پاکربہک اٹھے ہیں، قادح اجماع جانو، تاہم ہماری طرف سواداعظم میں توشک نہیں، اورحضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اتبعوا السوادالاعظم فانہ من شذ شذ فی النار۔۲؎ بڑے گروہ کی پیروی کرو کہ جواکیلارہااکیلادوزخ میں گیا۔

 

 (۲؎ المستدرک للحاکم     کتاب العلم     دارالفکر بیروت    ۱/ ۱۶۔۱۱۵)

 

اورفرماتے ہیں: انما یاکل الذئب القاصیۃ۔۳؎ بھیڑیا اسی بکری کوکھاتاہے جوگلہ سے دورہوتی ہے۔

 

 (۳؎ السنن الکبرٰی     کتاب الصلوٰۃ     باب فرض الجماعۃ فی غیرالجمعہ علی الکفایۃ     دارصادربیروت    ۳/ ۵۴)

 

انصاف کیجئے توحضرت امام اجل محقق اعظم سیدنا تقی الملۃ والدین سبکی اوراس وقت کے اکابرعلماء واعیان قضاۃ ومشائخ اسلام کاقیام ہی مسلمانوں کے لئے حجت کافیہ تھا جس کے بعد اورسند کی احتیاج نہ تھی، جیساکہ علامہ جلیل علی بن برہان حلبی وعلامہ انباری وغیرہما علماء نے تصریح فرمائی نہ کہ ان ائمہ کے بعد یہ قیام تمام بلاددارالاسلام کے خواص وعوام میں صدہاسال سے شائع وذائع ہے اورہزارہاعلماء واولیاء اس پراتفاق واجماع فرمائیں جب بھی آپ صاحبوں کے نزدیک لائق تسلیم نہ ہو، صدحیف ہزارافسوس کہ قرنہاقرن سے علمائے امت محمدیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سب معاذاﷲ بدعتی وگمراہ وخطاکارٹھہریں اورسچے پکے سنی بنیں تویہ چندہندی جنہیں اس ملک میں احکام اسلام جاری نہ ہونے نے ڈھیلی باگ کردی انّا ﷲ وانّا الیہ راجعون۱؎  (ہم اﷲ کے مال ہیں اورہمیں اسی کی طرف پھرناہے۔ت)

 

 (۱؎ القرآن الکریم     ۲/ ۱۵۶)

 

 ۱) یہ مجمل تحقیق استحباب قیام پرصرف ایک دلیل کی، اس کے سوا دلائل متکاثرہ وحجج باہرہ وبراہین قاہرہ قرآن وحدیث واصول وقواعد شرع سے اس پرقائم ہیں جن کی تفصیل وتوضیح اورشبہات مانعین کی تذلیل وتفضیح پرطرزبدیع ونہج نجیح حضرت حجۃ الاسلام بقیۃ السلف تاج العلماء راس الکملاسیدی ومولائی خدمت والد ماجد حضرت مولانا محمدنقی علی خاں صاحب قادری برکاتی احمدی قدس اﷲ تعالٰی سرہ الزکی نے رسالہ مستطابہ اذاقۃ الاٰثام لمانعی عمل المولد والقیام میں بمالامزید علیہ بیان فرمائی، جسے تحقیق عدیل وتدقیق بے مثیل دیکھنے کی تمناہو اسے مژدہ دیجئے کہ اس پاک مبارک رسالہ کے مائدہ فائدہ سے زلہ رباہو، رہایہ کہ قیام ذکرولادت شریف کے وقت کیوں ہے، اس کی وجہ نہایت روشن، اولاً صدہاسال سے علماء کرام وبلاددارالاسلام میں یونہی معمول، ثانیاً ائمہ دین تصریح فرماتے ہیں کہ ذکرپاک صاحب لولاک صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم مثل ذات اقدس کے ہے اورصورتعظیم سے ایک صورت قیام بھی ہے اوریہ صورت وقت قدوم معظم بجالائی جاتی ہے اورذکرولادت شریف حضورسیدالعالمین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے عالم دنیامیں تشریف آوری کاذکر ہے تویہ تعظیم اسی ذکرکے ساتھ مناسب ہوئی، واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

ف۱: تحقیقی ذکرولادت شریفہ

 

لطیفہ نظیفہ: (ف۲) ہمارے فرقہ اہلسنت وجماعت پررحمت الٰہیہ کی تمامی سے ہے کہ اس مسئلہ میں بہت منکرین کواپنے گھربھی جائے دست وپا زدن باقی نہیں وہ بزورزبان قیام کو بدعت وناجائز کہے جاتے ہیں مگران کے امام تومولٰی ومرشد وآقامجتہد الطائفہ میاں نذیرحسین صاحب دہلوی کہ آج وہابیہ ہندوستان کے سروسرداراوران کے یہاں لقب شیخ الکل فی الکل کے سزاوار ہیں جن کی نسبت وہابیہ ہند کی ناک طائفہ بھرکے بڑے متکلم بیباک کشورتوہب کے افسرفوجی میاں بشیرالدین صاحب قنوجی نے اپنے رسالہ ممانعت مجلس وقیام مسمّٰی بہ غایۃ الکلام میں لکھا: زبدۃ المحققین وعمدۃ المحدثین ومولاناسیدنذیرحسین شاہجہاں آبادی ازاولیائے عصرواکابرعلمائے این زمان ست۱؎ الٰی آخرالہذیان۔ محققین میں افضل اورمحدثین کے معتمد مولاناسیدنذیرحسین شاہجہاں آبادی اس زمانے کے اولیاء واکابرعلماء میں سے ہیں۔ خرافات کے آخر تک۔(ت)

 

(۱؎ غایۃ الکلام         بشیرالدین القنوجی )

 

ف۲: ایک بڑے وہابی میاں نذرحسین دہلوی کاکلام اوراس سے ڈنکے کی چوٹ ثبوت قیام۔

 

یہ حضرت من حیث لایشعر جوازواستحباب قیام تسلیم فرماچکے، امام اجل عالم الامہ کاشف الغمہ سیدنا تقی الملۃ والدین سبکی اوران کے حضارمجلس کانعت وذکر حضور اصطفاعلیہ افضل التحیۃ والثناء سن کرقیام فرمانا توہم اوپرثابت کرآئے اور اس سے ملامجتہد دہلوی بھی انکارنہیں کرسکتے کہ خود اسی مسئلہ میں ان کے مستند علامہ شامی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے بھی سبل الہدٰی والرشاد میں یہ حکایت نقل فرمائی اب سنئے کہ مجتہد بہادر اپنے ایک دستخطی مہری مصدقہ فتوٰی میں کہ فقیر کے پاس اصلی موجودہے کیاکچھ تسلیم فرماتے ہیں ان امام ہمام کی نسبت لکھاہے: تقی الدین سبکی کے اجتہادپرعلماء کااجماع ہے۔

 

امام علامہ مجتہد ابن حجرمکی ان کی تعریف میں لکھتے ہیں: الامام المجمع علی جلالتہ واجتہادہ۲؎۔ وہ امام جن کی جلالت واجتہاد پراجماع ہے۔(ت)

 

(۲؎ فتاوٰی حدیثیہ  مطلب فیماجری من ابن تیمیہ الخ  مطبع جمالیہ مصر ص۸۵)

 

یہاں سے صاف ثابت ہواکہ امام تقی الدین کامجتہدہونا ان تیرہ صدی کے مجتہد کومقبول ہے اور اسی فتوے میں ہے جب ایک امام صحیح الاجتہاد نے ایک کام توکیاضرور ہے کہ اس کااجتہاد اس کی طرف مؤدی ہواوراجتہاد بیشک حجت شرعیہ ہے۔ اب کیاکلام رہاکہ اس قیام کے جواز پرحجت شرعیہ قائم، اورسنئے اسی فتوٰی میں ہے جیسے ائمہ اربعہ کاقول ضلالت نہیں ہوسکتا ایسے ہی کسی مجتہد کامذہب بدعت نہیں ٹھہرسکتا، جوایساکہے وہ خبیث خودبدعتی احبارورہبان پرست ہے کہ مجتہدچاہے اگلاہو یاپچھلاوہ  تومظہرحکم خداہے، نہ مثبت۔ اب تومانناپڑے گا کہ جوشخص قیام کوبدعت وضلالت کہے وہ خود خبیث بدعتی احبارورہبان پرست ہے۔ اورسنئے تمام لطائف جوایسی جگہ اس خبط پرناز کرتاتھا کہ یہ قیام حادث ہے اورحدیث میں محدثات کی مذمت وارد۔ مجتہد صاحب نے یہ دروازہ بھی بندکردیا کہ اسی فتوے میں ہے خدانے مجتہدوں کواس لئے بنایاہے کہ جوواقعہ تازہ پیداہو اس کاحکم بیان کریں تواس کااماموں پرطعنہ بعینہٖ قرآن وحدیث پرطعن ہے اورایسی جگہ حدیث من احدث الخ پڑھنااول توجھوٹ دوسرے کتنابے محل الخ اس مقام کازیادہ احقاق وکمال اوردلائل مانعین کا ازہاق وابطال فقیرغفراﷲ تعالٰی لہ کے رسالہ الصارم الالٰھی علٰی عمائد المشرب الواھی پر محمول کہ رَ دفتوائے مولوی نذیرحسین دہلوی میں زیر قصدتالیف ہے وہاں ان شاء اﷲ العزیز فیض الٰہی نئے طور سے بندہ اذل ارذل کے لئے کارفرمائے عنایت ہوگا جوکچھ لکھاجائے گا محض اقرار واعتراف عمائد فرقہ سے مثبت ہوگا، واﷲ الموفق والمعین ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم  (اﷲ تعالٰی ہی توفیق دینے والااورمدد کرنے والاہے۔ بلندی وعظمت والے معبود کی توفیق کے بغیرنہ توگناہ سے بچنے کی طاقت ہے اورنہ ہی نیکی کرنے کی۔ت)

 

مقام دوم: اس مقام کی شرح وتفصیل مفضی نہایت اطناب وتطویل کہ اگراس کاایک حصہ بیان میں آئے تو کتاب مستقل ہوجائے معہذا ہمارے علمائے عرب وعجم بحمداﷲ اس سے فارغ ہوچکے کوئی دقیقہ احقاق حق وابطال کا اٹھانہ رکھاعلی الخصوص حضرت حامی سنن وماحی الفتن حجۃ اﷲ فی الارضین معجزۃ سیدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حضرت سیدی خدمت والدم روّح اﷲ روحہ و نوّر ضریحہ نے کتاب مستطاب اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد میں وہ تحقیقات بدیعہ وتدقیقات منیعہ ارشاد فرمائیں جن کے بعد ان شاء اﷲ تعالی حق کے لیے نہیں مگر غایت انجلاء بیان باطل کو نصیب نہیں مگر بے موت بے امان ، والحمد للہ رب العالمین، لہٰذا فقیریہاں چنداجمالی نکتوں پربرسبیل اشارہ وایماء اکتفاکرتا ہے اگر اسی قدرچشم انصاف میں پسندآیا فبہاورنہ ان شاء اﷲ تعالٰی فقیر تفصیل وتکمیل کے لئے حاضر ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم  (اورنہیں ہے طاقت گناہ سے بچنے کی، اورنہ ہی نیکی کرنے کی مگربلندی، عظمت اور قدرت والے معبود کی توفیق سے۔ت)

 

نکتہ ۱(ف): اصل اشیاء میں اباحت ہے یعنی جس چیزکی ممانعت شرع مطہرہ سے ثابت اور اس کی برائی پردلیل شرعی ناطق، صرف وہی ممنوع ومذموم ہے،باقی سب چیزیں جائزومباح رہیں گی،خاص ان کاذکر جوازقرآن وحدیث میں منصوص ہویا ان کاکچھ ذکرنہ آیا ہوتو جو شخص جس فعل کوناجائزوحرام یامکروہ کہے اس پرواجب کہ اپنے دعوے پردلیل قائم کرے اورجائزومباح کہنے والوں کوہرگزدلیل کی حاجت نہیں کہ ممانعت پرکوئی دلیل شرعی نہ ہونایہی جواز کی دلیل کافی ہے۔

 

ف: نکتہ۱: اصل اشیاء میں اباحت ہے ۔

 

جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ ومستدرک حاکم میں سلمان فارسی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی حضورسیدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: الحلال مااحل اﷲ فی کتابہ والحرام ماحرّم اﷲ فی کتابہ وماسکت عنہ فھو مما عفاعنہ۔۱؎ حلال وہ ہے جوخدانے اپنی کتاب میں حلال کیا اورحرام وہ ہے جوخدانے اپنی کتاب میں حرام فرمادیااور جس کاکچھ ذکرنہ فرمایا وہ اﷲ کی طرف سے معاف ہے یعنی اس کے فعل پر کچھ مواخذہ نہیں۔

 

 (۱؎ جامع الترمذی     ابواب اللباس     باب ماجاء فی لبس الفراء     امین کمپنی دہلی         ۱/ ۲۰۶)

(سنن ابن ماجہ         ابواب الاطعمہ     باب اکل الجبن والسمن     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی     ص۲۴۹)

(المستدرک للحاکم     کتاب الاطعمہ     دارالفکربیروت    ۴/ ۱۱۵)

 

مرقاۃ میں فرماتے ہیں: فیہ ان الاصل فی الاشیاء الاباحۃ۔۲؎ اس حدیث سے ثابت ہواکہ اصل سب چیزوں میں مباح ہوناہے۔

 

 (۲؎ مرقاۃ المفاتیح    کتاب الاطعمہ        تحت حدیث ۴۲۲۸    المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ    ۸/ ۵۷)

 

شیخ شرح میں فرماتے ہیں: وایں دلیل ست برآنکہ اصل دراشیاء اباحت است۔۳؎ یہ دلیل ہے اس بات پرکہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔(ت)

 

 (۳؎ اشعۃ اللمعات     کتاب الاطعمہ الفصل الثانی   تحت حدیث ۴۲۲۸  نوریہ رضویہ سکھر ۳/ ۵۰۶)

 

نصرکتاب الحجۃ میں امیرالمومنین عمرفاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی: قال اﷲ عزوجل خلقکم وھو اعلم بضعفکم فبعث الیکم رسولا من انفسکم وانزل علیکم کتابا وحدلکم فیہ حدودا امرکم ان لاتعتدوھا وفرض فرائض امرکم ان تتبعوھا وحرم حرمات نھاکم ان تنتھوھا وترک اشیاء لم یدعھا نسیئًا فلاتکلفوھا وانما ترکھا رحمۃ لکم۔۱؎ بیشک اﷲ عزوجل نے تمہیں پیداکیا اور وہ تمہاری ناتوانی جانتاتھا توتم میں تمہیں میں سے ایک رسول بھیجا، اورتم پرایک کتاب اتاری اور اس میں تمہارے لئے کچھ حدیں باندھیں اورتمہیں حکم دیا کہ ان سے آگے نہ بڑھو اورکچھ فرض کئے اورتمہیں حکم کیاکہ ان کی پیروی کرواورکچھ چیزیں حرام فرمائیں اورتمہیں ان کی بے حرمتی سے منع فرمایا اورکچھ چیزیں اس نے چھوڑدیں کہ بھول کر نہ چھوڑیں ان میں تکلف نہ کرو اور اس نے تم پر رحمت ہی کے لئے انہیں چھوڑاہے۔

 

 (۱؎ کتاب الحجۃ)

 

امام عارف باﷲ سیدی عبدالغنی نابلسی فرماتے ہیں: لیس الاحتیاط فی الافتراء علی اﷲ باثبات الحرمۃ والکراھۃ الذین لابدلھما من دلیل بل فی القول بالاباحۃ التی ھی الاصل۔۲؎ یہ کچھ احتیاط نہیں ہے کہ کسی چیزکوحرام یا مکروہ کہہ کرخدا پرافتراء کردوکہ حرمت وکراہت کے لئے دلیل درکارہے بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ اباحت مانی جائے کہ اصل وہی ہے۔

 

 (۲؎ ردالمحتار     بحوالہ الصلح بین الاخوان     کتاب الاشربہ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۲۹۶)

 

مولاناعلی قاری رسالہ اقتداء بالمخالف میں فرماتے ہیں: من المعلوم ان الاصل فی کل مسئلۃ ھوالصحۃ واما القول بالفساد اوالکراھۃ فیحتاج الٰی حجۃ من الکتاب والسّنّۃ اواجماع الامۃ۔۳؎ یقینی بات ہے کہ اصل ہرمسئلہ میں صحت ہے اورفساد یاکراہت ماننایہ محتاج اس کاہے کہ قرآن یاحدیث یااجماع امت سے اس پردلیل قائم کی جائے۔

 

 (۳؎ رسالہ الاقتداء بالمخالف )

 

اوراس کے لئے بہت آیات وحدیث سے یہ مطلب ثابت اوراکابر ائمہ سلف وخلف کے کلام میں اس کی تصریح موجود، یہاں تک کہ میاں نذیرحسین دہلوی کے فتوائے مصدقہ مہری دستخطی میں ہے ''اومدہوش بے عقل، خدااوررسول کاجائزنہ کہنااوربات ہے اورناجائز کہنااوربات۔ یہ بتاؤ کہ تم جوناجائز کہتے ہو خدااوررسول نے ناجائز کہاں کہاہے۔۴؎'' الخ  اھ ملخصًا۔  (۴؎ فتاوٰی نذیرحسین دہلوی )

 

پس مجلس میلادوقیام وغیرہا بہت امورمتنازع فیہا کے جوازپر ہمیں کوئی دلیل قائم کرنے کی حاجت نہیں، شرع سے ممانعت نہ ثابت ہوناہی ہمارے لئے دلیل ہے توہم سے سندمانگنا سخت نادانی اوربحکم مجتہد بہادرعقل وہوش سے جدائی ہے، ہاں تم جوناجائزوممنوع کہتے ہوتم ثبوت دوکہ خداورسول نے ان چیزوں کوکہاں ناجائزکہاہے اورثبوت نہ دوان شاء اﷲ تعالٰی ہرگزنہ دے سکوگے تواقرارکروکہ تم نے شرع مطہر پرافتراء کیا، ان الذین یفترون علی اﷲ الکذب لایفلحون۱؎o بیشک جولوگ اﷲ تعالٰی پرجھوٹ باندھتے ہیں ان کابھلانہ ہوگا۔(ت)سبحان اﷲ الٹا سندکامطالبہ ہم سے۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم     ۱۶/ ۱۱۶)

 

نکتہ۲(ف): عموم واطلاق سے استدلال زمانہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے آج تک علماء میں شائع وذائع یعنی جب ایک بات کوشرع نے محمود فرمایا توجہاں اورجس وقت اور جس طرح وہ بات واقع ہوگی ہمیشہ محمودرہے گی تاوقتیکہ کسی صورت خاصہ کی ممانعت خاص شرع سے نہ آجائے، مثلاً مطلق ذکرالٰہی کی خوبی قرآن وحدیث سے ثابت توجب کبھی کہیں کسی طورپرخدا کی یاد کی جائے گی بہترہی ہوگی، ہرہرخصوصیت کاثبوت شرع سے ضرورنہیں مگرپاخانہ میں بیٹھ کرزبان سے یادالٰہی کرناممنوع کہ اس خاص صورت کی برائی شرع سے ثابت، غرض جس مطلق کی خوبی معلوم اس کی خاص خاص صورتوں کی جداجداخوبی ثابت کرنا ضرورنہیں کہ آخروہ صورتیں اسی مطلق کی توہیں جس کی بھلائی ثابت ہوچکی بلکہ کسی خصوصیت کی برائی ماننایہ محتاج دلیل ہے۔

 

ف: نکتہ۲: مطلق حکم اس کی تمام خصوصیتوں میں جاری رہتاہے۔

 

مسلم الثبوت میں ہے: شاع وذاع احتجاجھم سلفاً وخلفاً بالعمومات من غیرنکیر۔۲؎ متقدمین ومتاخرین کاعمومات سے استدلال کرنا بغیرکسی انکار کے معروف اوررائج ہے(ت)

 

 (۲؎ مسلم الثبوت     الفصل الخامس     مسئلۃ للعموم صیغ     مطبع انصاری دہلی     ص۷۳)

 

اسی میں ہے: العمل بالمطلق یقتضی الاطلاق۔۳؎ مطلق پرعمل کرنا اطلاق کاتقاضاکرتاہے (ت)

 

 (۳؎مسلم الثبوت    فصل المطلق مادل علی فرد منتشر        مطبع انصاری دہلی    ۱۱۹)

 

تحریرالاصول علامہ ابن الہمام اوراس کی شرح میں ہے: العمل بہ ان یجری فی کل ماصدق علیہ المطلق۔۱؎ اس پرعمل کرنایہ ہے کہ وہ ہر اس چیزمیں جاری ہو جس پر مطلق صادق آتاہے(ت)

 

 (۱؎)

 

یہاں تک کہ خود فتوائے مصدقہ نذیریہ میں ہے: ''جب عام ومطلق چھوڑا تویقینا اپنے عموم واطلاق پررہے گا عموم واطلاق سے استدلال برابرزمانہ صحابہ کرام سے آج تک بلانکیر رائج ہے۔''۲؎

 

 (۲؎ فتاوٰی نذیرحسین دہلوی )

 

اب سنئے ذکرالٰہی کی خوبی شرع سے مطلقاً ثابت، قال اﷲ تعالٰی اذکروااﷲ ذکراً کثیرا۳؎o  (اﷲ تعالٰی نے فرمایا:) خداکویادکرو بہت یاد کرنا۔

 

 (۳؎ القرآن الکریم     ۳۳/ ۴۱ )

 

اورنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بلکہ تمام انبیاء (ف) واولیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی یادمیں خداکی یادہے کہ ان کی یادہے تواسی لئے کہ وہ اﷲ کے نبی ہیں، یہ اﷲ کے ولی ہیں،

 

ف: نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کاذکربعینہٖ اﷲ تعالٰی کاذکرہے۔

 

معہذا نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی یادمجالس ومحافل میں یونہی ہوتی ہے کہ حضرت حق تبارک وتعالٰی نے انہیں یہ مراتب بخشے یہ کمال عطافرمائے، اب چاہے اسے نعت سمجھ لویعنی ہمارے آقا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ایسے جنہیں حق سبحانہ وتعالٰی نے ایسے درجے دئیے اس وقت یہ کلام کریمہ ورفع بعضھم درجات۴؎  (اورکوئی وہ ہے جس کو سب پردرجوں بلند کیا۔ت)کی قبیل سے ہوگا، چاہے حمدسمجھ لویعنی ہمارامالک ایساہے جس نے اپنے محبوب کویہ رتبے بخشے اس وقت یہ کلام کریمہ سبحٰن الذی اسرٰی بعبدہ۵؎  (پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کوراتوں رات لے گیا۔ت) وآیۃ کریمہ ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی۶؎  ( وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کوہدایت کے ساتھ بھیجا۔ت) کے طورپر ہوجائے گا۔

 

 ( ۴؎ القرآن الکریم     ۲/ ۲۵۳)(۵؎القرآن الکریم   ۱۷/ ۱ )( ۶؎ القرآن الکریم   ۹/ ۳۳)

 

حق سبحانہ وتعالٰی اپنے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے فرماتاہے: ورفعنا لک ذکرک۱؎  (اوربلندکیا ہم نے تمہارے لئے تمہاراذکر۔) امام علامہ قاضی عیاض رحمہ اﷲ تعالٰی شفاشریف میں اس آیۃ کریمہ کی تفسیر سیدی ابن عطاقدس سرہ العزیز سے یوں نقل فرمایا: جعلتک ذکرامن ذکری فمن ذکرک ذکرنی۔۲؎ یعنی حق تعالٰی اپنے حبیب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے فرماتاہے میں نے تمہیں اپنی یاد میں سے ایک یادکیاتوجوتمہارا ذکرکرے اس نے میراذکرکیا۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم     ۹۴/ ۴)

(۲؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی     الباب الاول    الفصل الاول         المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ     ۱/ ۱۵)

 

بالجملہ کوئی مسلمان اس میں شک نہیں کرسکتاکہ مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی یادبعینہ خدا کی یادہے پس بحکم اطلاق جس جس طریقہ سے ان کی یاد کی جائے گی حسن ومحمود ہی رہے گی اورمجلس میلاد وصلوٰۃ بعداذان وغیرہما کسی خاص طریقے کے لئے ثبوت مطلق کے سوا کسی نئے ثبوت کی ہرگزحاجت نہ ہوگی ہاں جوکوئی ان طرق کوممنوع کہے وہ ان کی خاص ممانعت ثابت کرے، اسی طرح نعمت الٰہی کے بیان واظہارکاہمیں مطلقاً حکم دیاگیا، قال اﷲ تعالٰی وامّا بنعمۃ ربک فحدّث۳؎  (اﷲ تعالٰی نے فرمایا:) اپنے رب کی نعمت خوب بیان کرو۔

 

 (۳؎ القرآن الکریم     ۹۳/ ۱۱)

 

اورولادت اقدس حضورصاحب لولاک صلی اﷲ تعالٰی تعالٰی علیہ وسلم تمام نعمتوں کی اصل ہے تو اس کے خوب بیان واظہار کانص قطعی قرآن سے ہمیں حکم ہو اوربیان واظہارمجمع میں بخوبی ہوگا توضرورچاہئے کہ جس قدرہوسکے لوگ جمع کئے جائیں اورانہیں ذکرولادت باسعادت سنایاجائے اسی کانام مجلس میلادہے، علٰی ہذالقیاس نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم وتوقیر مسلمان کاایمان ہے اور اس کی خوبی قرآن عظیم سے مطلقاً ثابت، قال اﷲ تعالٰی: انّا ارسلنٰک شاھدًاومبشّرًا ونذیراo لتؤمنواباﷲ ورسولہ وتعزّروہ وتوقّروہ۔۴؎ اے نبی! ہم نے تمہیں بھیجاگواہ اورخوشخبری دینے والا اورڈرسنانے والاتاکہ اے لوگو! تم خدااوررسول پر ایمان لاؤ اوررسول کی تعظیم کرو۔

 

 (۴؎ القرآن الکریم     ۴۸/ ۸و۹)

 

وقال تعالٰی ومن یعظم شعائراﷲ فانھا من تقوی القلوب۱؎۔ قال ومن یعظم حرمٰت اﷲ فذٰلک خیر عند ربہ۔۲؎  (اﷲتعالٰی نے فرمایا) جوخدا کے شعاروں کی تعظیم کرے تو وہ بیشک دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔

(اﷲ تعالٰی نے فرمایا) جوتعظیم کرے خدا کی حرمتوں کی تویہ بہترہے اس کے لئے اس کے رب کے یہاں۔

 

 (۱؎ القرآن الکریم     ۲۲/ ۳۲ )      ( ۲؎ القرآن الکریم     ۲۲/ ۳۰)

 

پس بوجہ اطلاق آیات حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم جس طریقے سے کی جائے گی حسن ومحمود رہے گی اورخاص خاص طریقوں کے لئے ثبوت جداگانہ درکارنہ ہوگا۔ ہاں اگر کسی خاص طریقہ کی برائی بالتخصیص شرع سے ثابت ہوجائے گی تو وہ بیشک ممنوع ہوگا جیسے حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کوسجدہ کرنا یاجانوروں کوذبح کرتے وقت بجائے تکبیر حضورکانام لینا، اسی لئے علامہ ابن حجرمکی جوہرمنظم میں فرماتے ہیں: تعظیم النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بجمیع انواع التعظیم التی لیس فیہا مشارکۃ اﷲ تعالٰی فی الالوھیۃ امر مستحسن عند من نوراﷲ ابصارھم۳؎۔ یعنی نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم تمام اقسام تعظیم کے ساتھ جن میں اﷲ تعالٰی کے ساتھ الوہیت میں شریک کرنانہ ہو ہرطرح امرمستحسن ہے ان کے نزدیک جن کی آنکھوں کواﷲ نے نوربخشاہے۔

 

 (۳؎ الجوہرالمنظم     مقدمہ فی آداب السفر    الفصل الاول         المکتبۃ القادریۃ فی الجامعۃ النظامیہ لاہور    ص۱۲)

 

پس یہ قیام (ف۱ ) کہ وقت ذکرولادت شریفہ اہل اسلام محض بنظرتعظیم واکرام حضورسیدالانام علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام بجالاتے ہیں بیشک حسن ومحمود ٹھہرے گا تاوقتیکہ مانعین خاص اس صورت کی برائی کاقرآن وحدیث سے ثبوت نہ دیں وانّٰی لھم ذٰلک  (اوریہ ان کے لئے کہاں سے ہوگا۔ت)

 

ف۱: نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کانفیس طریقہ۔

 

تنبیہ: یہاں سے ثابت ہواکہ تابعین وتبع تابعین تودرکنار خودقرآن عظیم سے مجلس وقیام کی خوبی ثابت ہے۔ الحمدﷲ رب العٰلمین۔

 

نکتہ ۳۲): ہم پوچھتے ہیں تمہارے نزدیک کسی فعل کے لئے رخصت یاممانعت ماننا اس پرموقوف کہ قرآن وحدیث میں اس کانام لے کر جائزکہایامنع کیا ہو یااس کی کچھ حاجت نہیں بلکہ کسی عام یامطلق مامور بہ یاعام یامطلق منہی عنہ کے تحت میں داخل ہوناکفایت کرتاہے برتقدیراول تم پرفرض ہواکہ بالخصوص مجلس وقیام مجلس کے نام کے ساتھ قرآن وحدیث سے حکم ممانعت دکھاؤبرتقدیر ثانی کیاوجہ کہ ہم سے خصوصیت کاثبوت مانگتے ہو اوربآنکہ یہ افعال اطلاقات ذکروتحدیث وتعظیم وتوقیر کے تحت میں داخل ہیں جائزنہیں مانتے۔

 

ف۲: نکتہ۳: منکروں کی عجیب ہٹ دھرمی۔

 

نکتہ۴(ف): حضرات مانعین کاتمام طائفہ اس مرض میں گرفتارکہ قرون وزمان کوحاکم شرعی بنایاہے جونئی بات کہ قرآن وحدیث میں بایں ہیئت کذائی کہیں اس کاذکرنہیں جب فلاں زمانے میں ہوتو کچھ بری نہیں اورفلاں زمانے میں ہوتو ضلالت وگمراہی، حالانکہ شرعاً وعقلاً کسی طرح زمانہ کواحکام شرع یاکسی فعل کی تحسین وتقبیح پرقابونہیں، نیک بات کسی وقت میں ہونیک ہے اوربراکام کسی زمانے میں ہوبراہے، آخربلوائے مصروواقعہ کربلا وحادثہ حرہ وبدعات خوارج وشناعات روافض وخباثات نواصب وخرافات معتزلہ وغیرہاامورشنیعہ زمانہ صحابہ وتابعین میں حادث ہوئے مگرمعاذاﷲ اس وجہ سے وہ نیک نہیں ٹھہرسکتے اوربنائے مدارس وتصنیف کتب وتدوین علوم ورَد مبتدعین وتعلیم نحووصرف وطریق اذکار وصوراشغال اولیائے سلاسل قدست اسرارہم وغیرہا امورحسنہ ان کے بعد شائع ہوئے مگرعیاذاً باﷲ اس وجہ سے بدعت نہیں قرارپاسکتے، اس کامدار نفس فعل کے حسن وقبح پرہے، جس کام کی خوبی صراحۃً یااشارۃً قرآن وحدیث سے ثابت وہ بیشک حسن ہوگاچاہے کہیں و اقع ہو اورجس کام کی برائی تصریحاً یاتلویحاً واردوہ بیشک قبیح ٹھہرے گا خواہ کسی وقت میں حادث ہو جمہورمحققین ائمہ وعلمانے اس قاعدے کی تصریح فرمائی اگرچہ منکرین براہ سینہ زوری نہ مانیں۔ امام ولی الدین ابوذرعہ عراقی کاقول پہلے گزراکہ ''کسی چیزکانوپیداہوناموجب کراہت نہیں کہ بہتیری بدعتیں مستحب بلکہ واجب ہوتی ہیں جبکہ ان کے ساتھ کوئی مفسدہ شرعیہ نہ ہو۱؎''۔ اسی طرح امام علامہ مرشد ملت حکیم امت سیدنا ومولانا حجۃ الحق والاسلام محمدغزالی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کاارشاد بھی اوپرمذکور کہ ''صحابہ سے منقول نہ ہونا باعث ممانعت نہیں، بری تو وہ بدعت ہے جوکسی سنت ماموربہاکارَد کرے۲؎''

 

ف: نکتہ۴: منکرین کی حماقت کہ انہوں نے زمانہ کو حکم بنایاہے۔

 

 (۱؎ اثبات القیام )

(۲؎ احیاء العلوم     کتاب السماع والوجد    الباب الثانی     المقام الثالث     مطبع المشہد الحسینی قاہرہ     ۲/ ۳۰۵)

 

اورکیمیائے سعادت میں ارشادفرماتے ہیں: ایں ہمہ گرچہ بدعت ست وازصحابہ وتابعین نقل نہ کردہ اندلیکن نہ ہرچہ بدعت بودنہ شاید کہ بسیاری بدعت نیکوباشد پس بدعت مذموم آں بود کہ برمخالفت سنّت بود۱؎۔

 

یہ سب اموراگرچہ نوپیدہیں اورصحابہ وتابعین رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے منقول نہیں ہیں مگرایسابھی نہیں، ہرنئی بات ناجائزہوکیونکہ بہت ساری نئی باتیں اچھی ہیں، چنانچہ مذموم بدعت وہ ہوگی جوسنت رسول کے مخالف ہو۔(ت)

 

 (۱؎ کیمیائے سعادت     رکن دوم     اصل ہشتم     باب دوم     انتشارات گنجینہ ایران     ص۸۹۔۳۸۸)

 

امام بیہقی وغیرہ علماء حضرت امام شافعی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں: المحدثات من الامور ضربان احدھما احدث مما یخالف کتاباً اوسنّۃً اواثراً اواجماعاً فھٰذہ البدعۃ ضالۃ والثانی ما احدث من الخیر ولاخلاف فیہ لواحد من ھٰذہ وھی غیر مذمومۃ۔۲؎

 

نوپیداباتیں دوقسم کی ہیں، ایک وہ ہیں کہ قرآن یااحادیث یاآثار اجماع کے خلاف نکالی جائیں یہ توبدعت وگمراہی ہے، دوسرے وہ اچھی بات کہ احداث کی جائے اوراس میں ان چیزوں کاخلاف نہ ہو تووہ بری نہیں۔

 

 (۲؎ القول المفید للشوکانی     باب ابطال التقلید    ۱/ ۷۸)

 

امام علامہ ابن حجرعسقلانی فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں: والبدعۃ ان کانت مماتندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی مستقبحۃ الافھی من قسم المباح۔۳؎

 

بدعت اگرکسی ایسی چیزکے نیچے داخل ہو جس کی خوبی شرع سے ثابت ہے تو وہ اچھی بات ہے اوراگرکسی ایسی چیزکے نیچے داخل ہو جس کی برائی شرع سے ثابت ہے تووہ بری ہے اور جودونوں میں سے کسی کے نیچے داخل نہ ہو تووہ قسم مباح سے ہے۔

 

 (۳؎ فتح الباری        کتاب التراویح    باب فضل من قام رمضان     مصطفی البابی مصر    ۵/ ۵۷۔۱۵۶)

 

اسی طرح صدہااکابرنے تصریح فرمائی۔ اب مجلس وقیام وغیرہما امورمتنازع فیہا کی نسبت تمہارایہ کہناکہ زمانہ صحابہ وتابعین میں نہ تھے لہٰذاممنوع ہیں محض باطل ہوگیا، ہاں اس وقت ممنوع ہوسکتے ہیں جب تم کافی ثبوت دوکہ خاص ان افعال میں شرعاً کوئی برائی ہے ورنہ اگر کسی مستحسن کے نیچے داخل ہیں تو محمود، اوربالفرض کسی کے نیچے داخل نہ ہوئے تومباح ہوکرمحمودٹھہریں گے کہ جو مباح بہ نیت نیک کیاجائے شرعاً محمودہوتاہے کما فی البحرالرائق وغیرہ  (جیساکہ بحرالرائق وغیرہ میں ہے۔ت) کیوں کیسے کھلے طورپر ثابت ہواکہ ان افعال کی سند زمانہ صحابہ وتابعین وتبع تابعین سے مانگنا کس قدرنادانی وجہالت تھا والحمدﷲ  (اورسب تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لئے ہیں۔ت)

 

نکتہ ۵(ف): بڑی مستند ان حضرات کی حدیث: خیرالقرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم۱؎۔ سب سے بہترمیرازمانہ ہے پھراس کے بعد والوں کاپھران کے بعد والوں کا۔(ت)ہے۔

 

ف: نکتہ۵: حدیث خیرالقرون قرنی کامطلب

 

 (۱؎ جامع الترمذی    ابواب الشہادات     امین کمپنی دہلی         ۲/ ۵۴)

 

اس میں بحمداﷲ ان کے مطلب کی بوبھی نہیں، حدیث میں توصرف اس قدرارشادہواکہ میرازمانہ سب سے بہتر ہے پھردوسراپھرتیسرا، اس کے بعدجھوٹ اورخیانت اورتن پروری اور خواہی نخواہی گواہی دینے کاشوق لوگوں میں شائع ہوجائے گا، اس سے یہ کب ثابت ہواکہ ان زمانوں کے بعد جوکچھ حادث ہوگا اگرچہ کسی اصل شرعی یاعام مطلق ماموربہ کے تحت میں داخل ہو شنیع ومذموم ٹھہرے گا، جو اس کے ثبوت کادعوی رکھتاہو بیان کرے کہ حدیث کے کون سے لفظ کایہ مطلب ہے۔ اے عزیز! یہ توبالبداہۃ باطل کہ زمانہ صحابہ وتابعین میں شرمطلقاً نہ تھانہ ان کے بعد خیرمطلقاً رہی، ہاں اس قدرمیں شک نہیں کہ سلف میں اکثرلوگ خداترس متقی پرہیزگار تھے بعد کو فتنے فسادپھیلتے گئے، پھریہ کن میں، یہ انہیں لوگوں میں جو علم ومحبت اکابرسے بہرہ نہیں رکھتے، ورنہ علمائے دین ہرطبقہ اورہرزمانہ میں منبع ومجمع خیررہے ہیں مگر ہوایہ کہ ان زمانوں میں علم بکثرت تھاکم لوگ جاہل رہتے تھے اورجوجاہل تھے وہ علماء کے فرمانبردار، اس لئے شروفساد کوکم دخل ملتاکہ دین متین دامن علم سے وابستہ ہے اس کے بعد علم کم ہوتاگیا، جہل نے فروغ پایا، جاہلوں نے سرکشی وخودسری اختیارکی، لاجرم فتنوں نے سراٹھایا، اب یہ یہیں نہ دیکھ لیجئے کہ صدہاسال سے علمائے دین مجلس وقیام کو مستحب ومستحسن کہتے چلے آتے ہیں تم لوگ ان کاحکم نہیں مانتے، انہیں سرتابیوں نے اس زمانے کوزمانہ شربنادیا۔ تویہ جس قدر مذمتیں ہیں اس زمانہ مابعدکے جہّال کی طرف راجع ہیں ان سے کون استدلال کرتاہے، نہ ہماراعقیدہ کہ جس زمانہ کے جاہل جوبات چاہیں اپنی طرف سے نکال لیں وہ مطلقاً محمودہوجائے گی۔ کلام علماء میں ہے کہ جس امرکویہ اکابرامت مستحب ومستحسن جانیں وہ بے شک مستحب ومستحسن ہے چاہے کبھی واقع ہوکہ علمائے دین کسی وقت میں مصدر ومظہرشرنہیں ہوتے، والحمدﷲ ربّ العٰلمین  (اورسب تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کاپروردگار ہے۔ت)

 

نکتہ ۶( ف): اگرکسی زمانے کی تعریف اوراس کے مابعد کانقصان احادیث میں مذکورہونا اسی کومستلزم ہوکہ اس زمانہ کے محدثات خیرٹھہریں اورمابعد کے شرتو اکثرصحابہ وتابعین سے بھی ہاتھ اٹھارکھئے۔

 

ف: نکتہ ۶: حدیث خیرالقرون کی دوسری طرح سے بحث۔

 

اخرج الحاکم وصححہ عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال بعثنی بنو المصطلق  الٰی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقالوا سل لنا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الی من ندفع صدقاتنا بعدک، فقال الٰی ابی بکرقال فان حدث بابی بکر حدث فالی من، فقال الٰی عمر قالوا فان حدث بعمر حدث، فقال الٰی عثمان قالوا فان حدث بعثمٰن حدث فقال ان حدث بعثمان حدث فتبالکم الدھر تبا۱؎ اھ ملخصًا۔

 

امام حاکم نے تخریج وتصحیح فرمائی کہ حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مجھے بنی مصطلق نے حضورسرور دوعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بھیجا کہ حضورسے پوچھوں حضورکے بعد ہم اپنے اموال کی زکوٰۃ کسے دیں، فرمایا ابوبکرکو، عرض کی اگرابوبکر کوکوئی حادثہ پیش آئے، فرمایا عمر کو۔ عرض کی اگرعمر کوکوئی حادثہ پیش آئے،فرمایا عثمان کو۔ عرض کی اگرعثمان کوکوئی حادثہ منہ دکھائے فرمایااگر عثمان کابھی واقعہ ہوتو، فرمایاخرابی ہوتمہارے لئے ہمیشہ پھر خرابی ہے اھ ملخصًا۔

 

 (۱؎ المستدرک للحاکم     کتاب معرفۃ الصحابۃ امرالنبی صلی اﷲ علیہ وسلم لابی بکربامامۃ الناس فی الصلوٰۃ     دارالفکربیروت    ۳/ ۷۷)

 

واخرج ابونعیم فی الحلیۃ والطبرانی عن سھل بن ابی حثمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ فی حدیث طویل قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذا اتی علی ابی بکر اجلہ وعمراجلہ وعثمٰن اجلہ فان استطعت ان تموت فمت۱؎۔

 

 (ابونعیم نے حلیہ میں اورطبرانی نے سہل بن ابی حثمہ رضی اﷲتعالٰی عنہ سے ایک طویل حدیث میں تخریج فرمائی۔ت) حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب انتقال کریں ابوبکروعمروعثمان تواگرتجھ سے ہوسکے کہ مرجائے تومرجانا۔

 

 (۱؎ ازالۃ الخفا   بحوالہ سہل بن ابی حثمہ   فصل پنجم  مقصداول  سہیل اکیڈمی لاہور ۱/ ۱۲۴)

 

اخرج الطبرانی فی الکبیر عن عصمۃ بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ویحک اذامات عمر فان استطعت ان تموت فمت۲؎۔ حسنہ الامام جلال الدین وفی الحدیث قصۃً۔

 

 (طبرانی نے کبیرمیں عصمہ بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے تخریج فرمائی، فرمایا:) رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پرافسوس جب عمرمرجائیں تواگرمرسکے تومرجانا۔ (امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے اس کو حسن قراردیا، اوراس حدیث میں ایک قصہ ہے۔ت)

 

(۲؎ المعجم الکبیر        حدیث ۴۷۸        المکتبۃ الفیصلیہ بیروت    ۱۷/ ۱۸۱)

 

اب تمہارے طورپرچاہئے کہ زمانہ پاک حضرات خلفائے ثلٰثہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم بلکہ صرف زمانہ شیخین رضی اﷲ تعالٰی عنہما تک خیررہے، پھر جوکچھ حادث ہو اگرچہ عین خلافت حقہ  راشدہ سیدنا ومولٰینا امیرالمومنین علی المرتضٰی کرم اﷲ وجہہ میں وہ معاذاﷲ سب شروقبیح ومذموم وبدعت ضلالت قرارپائے، خداایسی بری سمجھ سے اپنی پناہ میں رکھے، اورمزہ یہ ہے کہ ان احادیث کے مقابل حدیث خیرالقرون بھی نہیں لاسکتے کہ تمہارے امام اکبر مولوی اسمٰعیل دہلوی صاحب کے دادا اور دادا استاد اورپردادا پیرشاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی انہیں احادیث اوران کے امثال پرنظر کرکے حدیث خیرالقرون کے معنی ہی کچھ اوربتاگئے ہیں، دیکھئے ازالۃ الخفامیں کیاکچھ فرمایاہے،

 

حدیث خیرالقرون ذکرکرکے لکھتے ہیں: بنائے ایں استدلال برتوجیہ صحیحی ست کہ اکثراحادیث شاہدآنست کہ قرن اول اززمانہ ہجرت آنحضرت ست صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تازمانہ وفات وی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وقرن ثانی از ابتدائے خلافت حضرت صدیق تاوفات حضرت فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہما وقرن ثالث قرن حضرت عثمان رضی اﷲ تعالٰی عنہ و ہرقرنے قریب بہ دوازدہ سال بودہ است قرن درلغت قوم متقارنین فی السن بعد ازاں قومے راکہ درریاست وخلافت مقترن باشد قرن گفتہ شد چوں خلیفہ دیگر باشند ووزرائے حضوردیگر وامرائے امصار دیگر ورؤسائے جیوش دیگر وسپاہان دیگر وحربیان دیگروذمیان دیگرتفاوت قرون بہم می رسد۱؎۔

 

اس استدلال کی بنیاد ایک صحیح توجیہ پرہے جس پراکثراحادیث شاہدہیں وہ یہ ہے کہ قرن اول حضوراکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ہجرت کے زمانے سے آپ کی وفات کے زمانے تک ہے، اورقرن ثانی حضرت صدیق اکبررضی اﷲ تعالٰی عنہ کی ابتدائے خلافت سے وفات فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ تک ہے، اورقرن ثالث سیّدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کازمانہ خلافت ہے اورہرقرن تقریباً بارہ سال کاہے۔ قرن لغت میں اس قوم کوکہتے ہیں جوعمر میں قریب قریب ہوں، پھر اس کااطلاق اس قوم پرہونے لگاجو ریاست وخلافت میں مقترن ہو۔ جب خلیفہ دوسرا ہو، اس کے وزراء وامراء، سپہ سالار، فوج، حربی اورذمی دوسرے ہوں توقرن بدل جاتاہے۔(ت)

 

 (۱؎ ازالۃ الخفاء         فصل چہارم         سہیل اکیڈمی لاہور    ۱/ ۷۵)

 

دوسری جگہ لکھتے ہیں: قرن اول زمان آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بودازہجرت تاوفات وقرن ثانی زمان شیخین وقرن ثالث زمان ذی النورین بعدازاں اختلافہا پدیدآمد وفتنہا ظاہرگردیدند۲؎۔

 

قرن اول سرکاردوعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ہجرت سے وصال تک کا زمانہ ہے اور قرن ثانی شیخین یعنی صدیق وعمررضی اﷲ تعالٰی عنہما کازمانہ ہے اورقرن ثالث سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اﷲ تعالٰی عنہ کازمانہ ہے اس کے بعد اختلافات نمودارہوئے اورفتنے ظاہرہوئے۔(ت)

 

 (۲؎ازالۃ الخفاء    فصل چہارم    سہیل اکیڈمی لاہور    ۱/ ۱۲۱)

 

بالجملہ اس قدرمیں توشک نہیں کہ یہ معنی بھی حدیث میں صاف محتمل اوربعداحتمال کے تمہارا استدلال یقینا ساقط۔ والحمدﷲ رب العالمین۔

 

نکتہ ۷( ف): اگرکسی زمانہ کی تعریف حدیث میں آنااسی کاموجب ہوکہ اس کے محدثات خیرقرار پائیں توبسم اﷲ وہ حدیث ملاحظہ ہوکہ امام ترمذی نے بسندحسن حضرت انس اور امام احمدنے حضرت عماربن یاسراورابن حبان نے اپنی صحیح میں عماربن یاسر وسلمان فارسی رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے روایت کی اورمحقق دہلوی نے اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں بنظرکثرت طرق اس کی صحت پرحکم دیاکہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: مثل امتی مثل المطرلایدری اولہ خیر ام اٰخرہ۔۱؎ میری امت کی کہاوت ایسی ہے جیسے مینہ کہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کااگلا بہترہے یاپچھلا۔

 

ف: نکتہ۷: حدیث قرن کاتیسراجواب۔

 

 (۱؎ جامع الترمذی    ابواب الامثال    ۲/ ۱۱۰    ومسنداحمدبن حنبل عن انس بیروت    ۳/ ۱۴۳)

 

شیخ محقق شرح میں لکھتے ہیں: کنایہ است ازبودن ہمہ اُمت خیرچنانکہ مطرہمہ خیرونافع ست۔۲؎ یہ تمام امت کے خیرہونے کی طرف اشارہ جیساکہ بارش تمام کی تمام خیراورفائدہ مند ہوتی ہے۔(ت)

 

 (۲؎ اشعۃ اللمعات    کتاب المناقب والفضائل     باب ثواب ھذہ الامۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۴/ ۷۵۳)

 

امام مسلم اپنی صحیح میں حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے راوی: لاتزال طائفۃ من امتی قائمۃ بامراﷲ لایضرھم من خذلھم اوخالفھم حتی یاتی امراﷲ وھم ظاھرون علی الناس۔۳؎ میری امت کاایک گروہ ہمیشہ خداکے حکم پر قائم رہے گا انہیں نقصان نہ پہنچائے گا جو انہیں چھوڑے گا یاان کاخلاف کرے گا یہاں تک کہ خداکاوعدہ آئے گا اس حال میں کہ وہ لوگوں پر غالب ہوں گے۔

 

 (۳؎ صحیح مسلم کتاب الامارۃ     باب قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاتزال طائفۃ من امتی الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲ /۱۴۳)

 

شاہ ولی اﷲ ازالۃ الخفاء میں لکھتے ہیں: گماں مبرکہ درزمان شرورہمہ کس شریربوندہ اند وعنایت ہائے الٰہی درتہذیب نفوس بیکارافتاد بلکہ اینجا اسرار عجیب ست ع

عیب مے جملہ بگفتی ہنرش نیزبگو      نفی حکمت مکن ازبہردل عامی چند

درہرزمانہ طائفہ رامہبط انواروبرکات ساختہ اند۔۴؎

 

یہ گمان مت کرکہ برے زمانے کے سب لوگ برے ہوتے ہیں اورعنایات الٰہی ان کی تہذیب نفوس میں بیکار ثابت ہوتی ہے بلکہ اس جگہ عجیب رازہیں۔

شراب کے تمام عیوب توتم نے بیان کردئیے کچھ اس کی خوبی بھی بیان کرو۔

عامی کادل رکھنے کے لئے حکمت کابالکل انکارنہ کرو۔

قدرت ہرزمانے میں بندگان خداکے ایک گروہ کو انواروبرکات کامرکز بناتی ہے۔(ت)

 

 (۴؎ ازالۃ الخفاء     فصل پنجم     تنبیہات تتمہ مقصد بالا     سہیل اکیڈمی لاہور     ۱/ ۱۴۵)

 

کہئے اب کدھر گئی ان قرون کی تخصیص، اورکیوں نہ خیرٹھہریں گے وہ امورجوعلماء وعرفائے مابعد میں بلحاظ اصول عموم واطلاق شائع ہوئے، والحمدﷲ۔

 

نکتہ ۸( ف): صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین کے محاورات ومکالمات دیکھئے تو وہ خود صاف صاف ارشادفرمارہے ہیں کہ کچھ ہمارے زمانے میں ہونے پرمدارخیریت نہیں، دیکھئے بہت نئی باتیں کہ زمانہ پاک حضورسرورعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں نہ تھیں ان کے زمانہ میں پیداہوئیں اور وہ انہیں براکہتے اورنہایت تشددوانکارفرماتے اوربہت تازہ باتیں حادث ہوئیں کہ ان کو بدعت ومحدثات مان کرخود کرتے اورلوگوں کواجازت دیتے اورخیروحسن بتاتے۔

 

ف: نکتہ۸: حدیث قرن کاچوتھا جواب۔

 

امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ تراویح کی نسبت ارشادفرماتے ہیں: نعمت البدعۃ ھذہٖ۔۱؎ کیااچھی بدعت ہے یہ۔

 

 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب الصوم     فصل من قام رمضان     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱/ ۲۶۹)

 

سیدنا عبداﷲ بن عمررضی اﷲ تعالٰی عنہما نمازچاشت کی نسبت فرماتے ہیں: انھما بدعۃ ونعمت البدعۃ وانھا لمن احسن مااحدث الناس۲؎۔ بے شک وہ بدعت ہے اورکیاہی عمدہ بدعت ہے اوربیشک وہ ان بہترچیزوں میں سے ہے جولوگوں نے نئی نکالیں۔

 

 (۲؎ المعجم الکبیر        حدیث ۱۳۵۶۳    المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۲/ ۴۲۴)

 

سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: احدثتم قیام رمضان فدومواعلیہ ولاتترکوہ۔۳؎ تم لوگوں نے قیام رمضان نیانکالاتواب جونکالاہے توہمیشہ کئے جاؤ اوراسے کبھی نہ چھوڑنا۔

 

 (۳؎ المعجم الاوسط حدیث ۷۴۴۶  ۸/۲۱۸    و    الدرالمنثور    تحت الآیۃ ۵۷/ ۲۷    ۸/ ۶۴)

 

دیکھو یہاں توصحابہ نے ان افعال کوبدعت کہہ کر حسن کہا، اورانہیں عبداﷲ بن عمررضی اﷲ تعالٰی عنہما نے مسجدمیں ایک شخص کو تثویب کہتے سن کر اپنے غلام سے فرمایا: اخرج بنا من عند ھذاالمبتدع۔۴؎ نکل چل ہمارے ساتھ اس بدعتی کے پاس سے۔

 

 (۴؎ المصنف لعبدالرزاق    باب التثویب فی الاذان والاقامۃ    المکتب الاسلامی بیروت    ۱/ ۴۷۵)

 

سیدناعبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنے صاحبزادے کونمازمیں بسم اﷲ بآوازپڑھتے سنا، فرمایا: ای بنی محدث ایاک والحدث۔۱؎ اے میرے بیٹے! یہ نوپیدابات ہے، بچ نئی باتوں سے۔

 

 (۱؎ جامع الترمذی     ابواب الصلوٰۃ     باب ماجاء فی ترک الجہر    امین کمپنی دہلی     ۱/ ۳۳)

 

یہ فعل بھی اس زمانہ میں واقع ہوئے تھے انہیں بدعت سیئہ مذمومہ ٹھہرایاتو معلوم ہواکہ ان کے نزدیک بھی اپنے زمانہ میں ہونے نہ ہونے پرمدارنہ تھا بلکہ نفس فعل کودیکھتے اگر اس میں کوئی محذورشرعی نہ ہوتا اجازت دیتے ورنہ منع فرماتے اوریہی طریقہ بعینہ زمانہ تابعین وتبع تابعین میں رائج رہاہے۔ اپنے زمانہ کی بعض نوپیداچیزوں کومنع کرتے بعض کوجائزرکھتے اوراس منع واجازت کے لئے آخر کوئی معیارتھااوروہ نہ تھامگرنفس فعل کی بھلائی برائی، توباتفاق صحابہ وتابعین وتبع تابعین قاعدہ شرعیہ وہ قرارپایا کہ حسن حسن ہے اگرچہ نیاہو اورقبیح قبیح ہے اگرچہ پراناہو، پھران کے بعد یہ اصل کیوں کربدل سکتی ہے، ہماری شرع بحمداﷲ ابدی ہے، جوقاعدے اس کے پہلے تھے قیامت تک رہیں گے، معاذاﷲ زیدوعمروکاقانون توہے ہی نہیں کہ تیسرے سال بدل جائے۔

 

نکتہ۹(ف): یہ اعتراض کہ پیشوائے دین نے تویہ فعل کیاہی نہیں ہم کیونکر کریں زمانہ صحابہ میں پیش ہوکر رَد ہوچکا اوربفرمان جلیل حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اﷲ تعالٰی عنہ وسیدنا فاروق اعظم وغیرہما صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم قرارپاچکاکہ بات فی نفسہٖ اچھی ہوناچاہئے اگرچہ پیشوائے دین نے نہ کی ہو۔

 

ف: نکتہ ۹: حدیث قرون کاپانچواں جواب اور اس کارَد کہ پیشواؤں نے نہ کیا تم کیسے کرتے ہو اورزمانہ صدیق میں وہابیت پرصحابہ کبارکااتفاق۔

 

صحیح بخاری شریف میں ہے: عن زیدبن ثابت رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال ارسل الٰی ابوبکر مقتل اھل الیمامۃ فاذا عمرابن الخطاب عندہ، قال ابوبکر ان عمر اتانی فقال ان القتل قداستحر یوم الیمامۃ بقراء القراٰن وانی اخشی ان استحر القتل بالقرّاء بالمواطن فیذھب کثیر من القراٰن وانی ارٰی ان تامر بجمع القراٰن قلت لعمر کیف تفعل شیئا لم یفعلہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال عمرھذا واﷲ خیرفلم یزل عمریراجعنی حتی شرح اﷲ صدری لذٰلک ورأیت فی ذٰلک الذی رأی عمر قال زید قال ابوبکر انک رجل شاب عاقل لانتھمک وقد کنت تکتب الوحی لرسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فتتبع القراٰن واجمعہ فواﷲ لوکلفونی نقل جبل من الجبال ماکان اثقل علیّ مما امرنی بہ من جمع القراٰن قال قلت لابی بکرکیف تفعلون شیئًا لم یفعلہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال ھو واﷲ خیر فلم یزل ابوبکر یراجعنی حتی شرح اﷲ صدری للذی شرح لہ صدرابی بکر وعمر فتبعت القراٰن و اجمعہ۱؎ الحدیث۔

 

حضرت زیدبن ثابت رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جنگ یمامہ میں بہت صحابہ حاملان قرآن شہیدہوئے توصدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے مجھے بلوایا، میں حاضرہوا توفرمایا حضرت عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ میرے پاس آئے ہیں اورانہوں نے کہاہے کہ یمامہ میں بہت حفاظ قرآن شہیدہوئے اورمیں ڈرتاہوں کہ اگرحاملان قرآن تیزی سے شہیدہوتے گئے توقرآن کاایک بڑا حصہ ختم ہوجائے گا میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کے جمع کرنے اورایک جگہ لکھنے کاحکم دیں، صدیق اکبر نے فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے تو یہ کام کیاہی نہیں تم کیونکر کروگے۔ فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایااگرچہ حضوراقدس سرورعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے نہ کیامگرخداکی قسم کام توخیرہے۔ صدیق اکبررضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں پھر عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ مجھ سے اس معاملہ میں بحث کرتے رہے یہاں تک کہ خداتعالٰی نے میراسینہ اس امرکے لئے کھول دیا اورمیری رائے عمررضی اﷲ تعالٰی عنہ کی رائے سے موافق ہوگئی۔ زیدبن ثابت نے کہاابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا نوجوان مردعاقل ہو ہم تمہیں متہم بھی نہیں کرتے ہیں کیونکہ تم جناب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی وحی لکھاکرتے تھے پس قرآن تلاش کرو اور اس کوجمع کرو، اﷲ کی قسم! اگرمجھے کسی پہاڑ کواٹھانے کی تکلیف دیتے توقرآن جمع کرنے سے جس کاانہوں نے مجھے حکم دیاتھا زیادہ بھاری نہ ہوتا، میں نے کہاوہ کام تم کیسے کرو گے جو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا اﷲ کی قسم یہ اچھاکام ہے، ابوبکرصدیق میرے ساتھ بحث کرتے رہے حتی کہ اﷲ نے اس کے لئے میراسینہ کھول دیا جس کے لئے ابوبکرصدیق اورعمرفاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہما کاسینہ کھولاتھا پھرمیں نے قرآن تلاش کرنا اورجمع کرناشروع کیا۔ الحدیث۔

 

 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب فضائل القرآن     باب جمع القرآن    قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲/ ۷۴۵)

 

دیکھو زیدبن ثابت نے صدیق اکبراورصدیق اکبر نے فاروق اعظم پراعتراض کیاتوان حضرات نے یہ جواب نہ دیاکہ یہ نئی بات نکالنے کی اجازت نہ ہونا توپچھلے زمانہ میں ہوگا ہم صحابہ ہیں ہمارازمانہ خیرالقرون سے ہے، بلکہ یہی جواب دیاکہ اگرحضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کام نہ کیا پروہ کام تواپنی ذات میں بھلائی کاہے پس کیونکر ممنوع ہوسکتاہے۔ اور اسی پرصحابہ کرام کی رائے متفق ہوئی اور قرآن عظیم باتفاق حضرات صحابہ جمع ہوا۔ اب غضب کی بات ہے ان حضرات کو سودااچھلے اورجوبات کہ صحابہ کرام میں طے ہوچکی پھراکھیڑیں۔

 

نکتہ ۱۰( ف): جواعتراض ہم پرکرتے ہیں کہ تم کیاصحابہ  تابعین اورتبع تابعین سے محبت وتعظیم میں زیادہ ہوکہ جوکچھ انہوں نے نہ کیا تم کرتے ہوئے، لطف یہ ہے کہ بعینہٖ وہی اعتراض اگرقابل تقسیم ہوتوتبع تابعین پرباعتبار تابعین اورتابعین پرباعتبارصحابہ اورصحابہ پرباعتباررسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واردمثلاً جس فعل کوحضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ وتابعین کسی نے نہ کیااورتبع تابعین کے زمانہ میں پیداہوا توتم اسے بدعت نہیں کہتے، ہم کہتے ہیں اس کام میں بھلائی ہوتی تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ وتابعین ہی کرتے تبع تابعین کیااس سے زیادہ دین کااہتمام رکھتے ہیں جوانہوں نے نہ کیایہ کریں گے اسی طرح تابعین کے زمانہ میں جوکچھ پیداہو اس پروارد ہوگا کہ بہترہوتاتورسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کیوں نہ کرتے تابعین کچھ ان سے بڑھ کرٹھہرے علٰی ہذالقیاس جونئی باتیں صحابہ نے کیں انہیں بھی تمہاری طرح کہاجائے گا ؎

 

بزہد وورع کوش وصدق وصفا    ولیکن میفزائے برمصطفی

 

 (زہد، تقوٰی، سچائی اورصفائی میں کوشش کرلیکن مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پرمت بڑھا۔ت)

 

ف: نکتہ ۱۰: اس کارَد کہ تم کیا اگلوں سے محبت وغیرہ میں زیادہ ہو۔

 

کیارسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کومعاذاﷲ ان کی خوبی نہ معلوم ہوئی یاصحابہ کو افعال خیر کی طرف زیادہ توجہ تھی۔ غرض یہ بات ان مدہوشوں نے ایسی کہی جس کی بناء پر عیاذاً اﷲ عیاذاً باﷲ تمام صحابہ وتابعین بھی بدعتی ٹھہرے جاتے ہیں مگر اصل وہی ہے کہ نہ کرنا اوربات ہے اورمنع کرنااورچیز۔ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اگرایک کام نہ کیا اوراس کومنع بھی نہ فرمایا تو صحابہ کوکون مانع ہے کہ اسے نہ کریں اورصحابہ نہ کریں توتابعین کوکون عائق، وہ نہ کریں توتبع پرالزام نہیں، وہ نہ کریں توہم پرمضائقہ نہیں۔ بس اتنا ہوناچاہئے کہ شرع کے نزدیک وہ کام برانہ ہو۔ عجب لطف ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اورصحابہ وتابعین کاقطعاً نہ کرناتوحجت نہ ہوااورتبع کو باوجود ان سب کے نہ کرنے کے اجازت ملی مگر تبع میں وہ خوبی ہے کہ جب وہ بھی نہ کریں توا ب پچھلوں کے لئے راستہ بندہوگیا اس بے عقلی کی کچھ بھی حد ہے اس سے تواپنے یہاں کے ایک بڑے امام نواب صدیق حسن خاں شوہر ریاست بھوپال ہی کامذہب اختیار کرلو توبہت اعتراضوں سے بچو کہ انہوں نے بے دھڑک فرمایا ''جوکچھ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے نہ کیا سب بدعت وگمراہی ہے''۔ اب چاہے صحابہ کریں خواہ تابعین کوئی ہوبدعتی ہے یہاں تک کہ بوجہ ترویج تراویح امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کومعاذاﷲ گمراہ ٹھہرایا اوراعدائے دین کے پیرومرشدعبداﷲ بن سبا کی روح مقبوح کوبہت خوش کیا، انّا ﷲ وانّا الیہ راجعون  (بے شک ہم اﷲ تعالٰی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ت)

مجلس وقیام کاانکارکرتے کرتے کہاں تک نوبت پہنچی اﷲ تعالٰی اپنے غضب سے محفوظ رکھے۔آمین!

 

 خیربات بڑھتی ہے مطلب پرآئیے۔ ہاں تواگر میں ان امور کااستیعاب کروں جو دربارہ آداب وتعظیم حادث ہوتے گئے اور اس احداث کوعلماء نے موجد کے مدائح سے گناتوایک دفترطویل ہوتاہے، لہٰذاچونکہ مثالوں پراقتصار کررہاہوں:

 

مثال۱: سیدنا امام مالک صاحب المذہب عالم المدینہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ بآنکہ مثل سیدنا عبداﷲ بن عمرو وعبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ تعالٰی عنہ اتباع سلف وصحابہ کرام کااحداث میں نہایت ہی اہتمام رکھتے تھے۔ اس پران کے ایمان ومحبت کاتقاضا ہواکہ ادب وحدیث خوانی میں وہ باتیں علماء کے نزدیک امام مالک کے فضائل جلیلہ سے ٹھہرا اوران کی غایت ادب ومحبت پردلیل قرارپایا۔ امام علامہ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ شفاء شریف میں لکھتے ہیں: قال مطرف کان اذا اتی الناس مالکا خرجت الیھم الجاریۃ فتقول لھم یقول لکم الشیخ تریدون الحدیث اوالمسائل فان قالوا المسائل خرج الیھم، وان قالوا الحدیث دخل مغتسلہ واغتسل وتطیب ولبس ثیابا جُددا ولبس ساجہ وتعمم وضع علی رأسہ ردائہ وتلقی لہ منصّۃ فیخرج ویجلس علیھا وعلیہ الخشوع لایزال یبخربالعود حتی یفرغ من حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال غیرہ ولم یکن یجلس علٰی تلک المنصّۃ الا اذا حدث عن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال ابن اویس فقیل المٰلک فی ذٰلک فقال احب وان اعظم حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ولااحدث بہ الا علٰی طھارۃ متمکنا۱؎۔

 

مطرف نے کہا جب لوگ مالک بن انس کے پاس علم حاصل کرنے آتے ایک کنیزآکرپوچھتی شیخ تم سے فرماتے ہیں تم حدیث سیکھنے آئے ہویافقہ ومسائل؟ اگرانہوں نے جواب دیافقہ ومسائل، جب توآپ تشریف لاتے اوراگرکہا کہ حدیث، توپہلے غسل فرماتے خوشبولگاتے نئے کپڑے پہنتے طیلسان اوڑھتے اورعمامہ باندھتے چادرسرمبارک پررکھتے ان کے لئے ایک تخت مثل تخت عروس بچھایاجاتا اس وقت باہرتشریف لاتے اوربنہایت خشوع اس پرجلوس فرماتے اور جب تک حدیث بیان کرتے تھے اگربتی سلگاتے اوراس تخت پراسی وقت بیٹھتے تھے جب نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیث بیان کرنا ہوتی۔ حضرت سے اس کاسبب پوچھا، فرمایا میں دوست رکھتاہوں کہ حدیث رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کروں اورمیں حدیث بیان نہیں کرتا جب تک وضوکرکے خوب سکون ووقار کے ساتھ نہ بیٹھوں ۔

 

 (۱؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی    القسم الثانی     الباب الثالث    المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ    ۲/ ۳۸،۳۹)

 

مثال۲: اسی میں ہے: کان مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ لایرکب بالمدینۃ دابۃ وکان یقول استحی من اﷲ تعالٰی ان اطأتربۃ فیھا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بحافردابۃ۱؎۔

 

امام مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ مدینہ طیبہ میں سواری پرسوارنہ ہوتے اورفرماتے تھے مجھے شرم آتی ہے خدائے تعالٰی سے کہ جس زمین میں حضور سرورعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم جلوہ فرماہوں اسے جانور کے سُم سے روندوں۔

 

 (۱؎ الشفاء    القسم الثانی     الباب الثالث     فصل ومن توقیرہ الخ     المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ     ۲/ ۴۸)

 

مثال ۳: اسی میں ہے: قد حکی ابوعبدالرحمٰن السلمی عن احمد بن فضلویۃ الزاھد وکان من الغزاۃ الرماۃ ان عقال مامسست القوس بیدی الاعلٰی طھارۃ منذ بلغنی ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اخذ القوس بیدہ۔۲؎ امام ابوعبدالرحمن سلمی احمدبن فضلویہ زاہدغازی تیراندازسے نقل کرتے ہیں کہ میں نے کبھی کمان بے وضو ہاتھ سے نہ چھوئی جب سے سناکہ حضورصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کمان دست اقدس میں لی ہے۔

 

 (۲؎الشفاء    القسم الثانی     الباب الثالث     فصل ومن توقیرہ الخ     المطبعۃ الشرکۃ الصحافیہ     ۲/ ۴۸)

 

مثال۴: امام ابن حاج مالکی کہ مستندین مانعین سے ہیں اوراحداث کی ممانعت میں نہایت تصلب رکھتے ہیں مدخل میں فرماتے ہیں: وتقدمت حکایۃ بعضھم انہ جاوربمکۃ اربعین سنۃ ولم یبل فی الحرم ولم یضطجع فمثل ھذا تستحب لہ المجاورۃ اویؤمر بھا۔۳؎

 

بعض صالحین چالیس برس مکہ معظمہ کے مجاور رہے اورکبھی حرم میں پیشاب نہ کیا اور نہ لیٹے۔ ابن الحاج کہتے ہیں ایسے شخص کومجاورت مستحب یایوں کہئے کہ اسے مجاورت کاحکم دیاجائے گا۔

 

 (۳؎ المدخل     فصل فی ذکر بعض مایعتورالحاج فی حجہ الخ             دارالکتب العربی بیروت    ۴/ ۲۵۳)

 

مثال ۵: اسی میں ہے: وقدجاء بعضھم الٰی زیارتہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فلم یدخل المدینۃ بل زار من خارجہا ادبا منہ رحمہ اﷲ تعالٰی مع نبیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقیل لہ الاتدخل؟ فقال امثلی یدخل بلاد سید الکونین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لااجد نفسی تقدر علٰی ذٰلک اوکماقال۱؎۔

 

یعنی بعض صالحین زیارت نبی اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے حاضرہوئے توشہرمیں نہ گئے بلکہ باہرسے زیارت کرلی، اوریہ ادب تھا اس مرحوم کا اپنے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ، اس پرکسی نے کہا اندرنہیں چلتے، کہاکیامجھ ساداخل ہوسیدالکونین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے شہرمیں، میں اپنے میں اتنی قدرت نہیں پاتا ہوں۔

 

 (۱؎ المدخل    فصل فی الکلام علٰی زیارۃ سیدالاولین والآخرین     دارالکتاب العربی بیروت    ۱/ ۲۵۴)

 

مثال۶: اسی میں ہے : قال لی سید ابومحمد رحمہ اﷲ تعالٰی لما ان دخل مسجدالمدینۃ ماجلست فی المسجد الالجلوس فی الصلٰوۃ وکلاماً ھذامعناہ ومازلت واقفا ھناک حتی دخل الرکب۔۲؎

 

یعنی مجھ سے میرے سردارابومحمد رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے فرمایا میں جب مسجد مدینہ طیبہ میں داخل ہوا جب تک رہا مسجد شریف میں قعدہ نمازکے سوانہ بیٹھا اوربرابر حضورمیں کھڑارہاجب تک قافلہ نے کوچ کیا۔

 

 (۲؎المدخل    فصل فی الکلام علٰی زیارۃ سیدالاولین والآخرین     دارالکتاب العربی بیروت  ۱/ ۲۵۹)

 

مثال۷: اس کے متصل انہیں امام سے نقل کرتے ہیں: ولم اخرج الٰی بقیع ولاغیرہ ولم ازر غیرہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وکان قدخطر لی ان اخرج الٰی بقیع الغرقد فقلت الٰی این اذھب، ھذاباب اﷲ تعالٰی المفتوح للسائلین والطالبین والمنکسرین والمضطرین والفقراء والمساکین و لیس ثم من یقصد مثلہ فمن عمل علٰی ھذا ظفر ونجح بالمامول والمطلوب اوکماقال۱؎۔ میں حضوری چھوڑکر نہ بقیع کوگیانہ کہیں اورگیا نہ حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے سواکسی کی زیارت کی، اورایک دفعہ میرے دل میں آیا تھاکہ زیارت بقیع کوجاؤں پھرمیں نے کہاکہاں جاؤں گایہ ہے اﷲ کادروازہ کھلاہواسائلوں اورمانگنے والوں اوردل شکستہ اوربے چاروں اورمسکینوں کے لئے اور وہاں حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علی وسلم کے سواکون ہے جس کاقصدکیاجائے، فرماتے ہیں پس جوکوئی اس پرعمل کرے گا ظفرپائے گا اورمرادومطلب ہاتھ آئے گا۔

 

 (۱؎ المدخل  فصل فی الکلام علٰی زیارۃ سیدالاولین والآخرین دارالکتاب العربی بیروت ۱/ ۲۵۹)

 

اب فقیر سرکارقادریہ غفراﷲ تعالٰی لہ بھی اس فتوے کوانہیں مبارک لفظوں پرختم کرتاہے کہ جوکوئی اس پرعمل کرے گاظفرپائے گا اورمراد ومطلب ہاتھ آئے گا ان شاء اﷲ تعالٰی۔ اوراپنے رب کریم تباک وتعالٰی کے فضل سے امیدرکھتاہے کہ یہ فتوٰی نہ صرف قیام ہی میں بیان کافی وبرہان شافی ہو بلکہ بحول اﷲ تعالٰی اکثرمسائل نزاعیہ میں قول فیصل پر مشعل ہدایت ہوجائے، ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم وصلی اﷲ تعالٰی علٰی خیرخلقہ وسراج افقہ سیدنا ومولانا محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین، اٰمین، اٰمین، اٰمین!

 

               

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post