Murde Sunte hain | Sima-e-Mota | Risala Hayatul Mawat by AalaHazrat

 

رسالہ

حیاۃ الموات فی بیان سماع الاموات(۱۳۰۵ھ)

(بے جان کی زندگی، مُردوں کی سماعت کے بیان میں)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد ﷲ الذی خلق الانسان÷ علمہ البیان÷ واعطاہ سمعا وبصرا وعلمافزان÷ وجعلہ مظھر الصفات الرحمن÷ ولم یجعلہ معدوما بفناء الابدان÷ والصلٰوۃ والسلام الاتمان الاکملان÷ علی السمیع البصیر العلیم الخبیر الملک المستعان÷ المولی الکریم الرؤف الرحیم العظیم الشان÷ سیدنا ومولٰنا محمد النافذ حکمہ فیک عوالم الامکان÷ وعلٰی اٰلہ وصحبہ وابنہ الغوث الباھر السلطان÷ الحیّ المنعم فی القبر المکرم بفضل المنان÷ واشھدان لا الٰہ الاّ اﷲ وحدہ لاشریک لہ شھادۃ یحیی بھا وجہ الدیان÷ واشھد انّ محمدًا عبدہ، ورسولہ شھادۃ توردنا موارد الرضوان÷ فصلی اﷲ وسلم وبارک وانعم علی ھذ الحبیب القریب الملتجی، البعید المرتقی الرفیع المکان÷ وعلٰی اٰلہ وصحبہ وعیالہ وحزبہ اولی العلم والعرفان÷ وعلینا معھم وبھم ولھم یاجلیل الاحسان÷ وجمیل الامتنان÷ اٰمین الٰہ الحق اٰمین ط

 

 

 

تمام تعریفیں اللہ کے لیے جس نے انسان کو پیدا کیا۔ اسے بیان سکھایا۔ اسے سماعت، بصارت اور علم دے کر سنوارا۔ اسے رحمان کی صفات کا مظہر بنایا۔ اور بدنوں کے فناہونے سے اس کو معدوم نہ فرمایا، اورزیادہ تام وکامل تر درود وسلام ہو ان پر جو سننے، دیکھنے، جاننے، خبردینے والے سُلطان ہیں جن سے مدد مانگی جاتی ہے۔ جو کریم آقا، بڑے مہربان، رحم کرنے والے، بڑی شان والے ہیں، ہمارے سردار اور ہمارے آقا حضرت محمد جن کا حکم امکان کے جہانوں میں نافذ ہے اور ان کی آل واصحاب اور ان کے فرزند روشن دلیل والے غوث والے پر جو بہت احسان فرمانے والے رب کے فضل سے قبر مکرم میں زندہ انعام یافتہ ہیں، اور میں شہادت دیتاہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ یکتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں ایسی شہادت جس سے جزا دینے والے رب کو تحیت پیش کی جائے۔ اور میں شہادت دیتاہوں کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ایسی شہادت جو ہمیں رضوان کے مقامات میں اتارے۔ توخدا کا درود وسلام اور برکت وانعام ہو اس محبوب پر جو التجا کے لیے قریب، منزل ارتقا میں بلند مرتبے والے ہیں، اور ان کی آل و اصحاب وعیال اور علم وعرفان والی جماعت پر، اور ان کے ساتھ، ان کے طفیل، ان کے سبب ہم پر بھی، اے بزرگ احسان، جمیل امتنان والے، قبول فرما، قبول فرما، اے معبود برحق قبول فرما! (ت)

 

امابعد! یہ معدود سطریں ہیں یا منضود سلکین، تنقیح مسئلہ علم وسماع موتٰی، وطلب دعا بمشاہد اولیاء ہیں، جنھیں افقرالفقراء احقر الورٰی عبد المصطفی احمد رضا محمدی، سُنی، حنفی، قادری، برکاتی، بریلوی، اصلح اللہ عملہ وحقق املہ، نے وائل ماہ رجب ۱۳۰۵ ہجری کی چند تاریخوں میں رنگ تحریر دیا، اور بلحاظ تاریخ حیاۃ الموات فی بیان سماع الوصال (۱۳۰۵ھ) سے مسمٰی کیا، اس سے پہلے کہ فقیر غفرلہ، نے چند کلمے مسمّی بہ الاھلال بفیض الاولیاء بعد الوصال (۱۳۰۳ھ) جمع کئے تھے، ان کے اکثر مطالب ومضامین بھی اس رسالہ کے بعض انواع وفصول میں مندرج ہوئے۔ اب یہ عجالہ نہ صرف علم وسماع موتٰی کا ثبوت دے گا بلکہ  بحول اللہ تعالٰی خوب واضح کرے گا کہ حضرات اولیاء بعد الوصال زندہ اور ان کے تصرف وکرامات پایندہ اور ان کے فیض بدستور جاری اور ہم غلاموں خادموں محبوں معتقدوں کے ساتھ وہی امداد واعانت ویاری، والحمد للہ القدیر الباری۔

 

یہ رسالہ حق سے متصل، باطل سے منفصل مقدمہ وسہ مقصد وخاتمہ پر مشتمل وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل ھو مولٰنا وعلیہ التعویل۔

 

مقدمہ باعث تالیف میں سلخ جمادی الآخرہ ۱۳۰۵ھ کو ایک مسئلہ بغرض تصدیق واظہارا دعائے طلب تحقیق فقیر کے پاس آیا، صورت سوال یہ تھی:

 

مسئلہ ۲۷۲: بسم اللہ الرحمن الرحیم چہ می فرمایند علماء دین ومفتیان شرع متین دریں باب  ( کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں۔ ت)کہ ایک بزرگ کے مزار شریف پر واسطے زیارت کے گیا اس وقت یہ کلمہ زبان سے نکلا کہ اے بزرگ برگزیدہ درگاہ کبریائی! آپ اللہ پاک سے میرے واسطے دعا کیجئے کہ حاجت میر ی فلانی بر آوے کیونکہ آپ بزرگ ہیں، بطفیل رسول عہ۱ مقبول،واسطے اللہ کے حاجت برآوے، بعد کو کچھ فاتحہ ودرود شریف پڑھا اور پیشتر میں پڑھا، یوں مزار گاہ میں جانا اور دعا مانگنا اور زیارت کرنا جائز ہے یانہیں؟ زیادہ والسلام، فقط انتہی بلفظہ ۔

 

عہ۱: صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

 

اس پر بعض اجلہ مخادیم کا جواب مزیّن بمہر ودستخط جناب تھا۔ جس میں صاف صاف صورت مذکورہ کو شرک اور ادنٰی، درجہ شائبہ شرک قرار دیا، اور دلیل میں ایک نئے طور پر اصحاب قبور کے انکار سماع بلکہ استحالہ و امتناع سے کام لیا، تحریر شریف یہ ہے : بسم اللہ الرحمن الرحیم اس میں شک نہیں کہ زیارت قبور مومنین خاصہ بزرگان دین، اور پڑھنا درود شریف اور سورہ فاتحہ وغیرہ کا اور ثواب خیرات، اموات کو بخشنا مندوب ومسنون ہے۔ جس پر حدیث شریف جناب سید الثقلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم: کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزورھا ۱؎۔ میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا تو اب تم ان کی زیارت کرو۔ (ت)

 

 (۱؎ سنن ابن ماجہ      باب ماجاء فی زیارۃ القبور        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۱۳)

(مشکوٰۃ المصابیح    باب زیارۃ القبور    فصل اول        مطبع مجتبائی دہلی    ص۱۵۴)

 

نص صریح ناطق،لیکن بزرگانِ اہل قبور کو خطاب طلب دعائے حاجت روائی خود کرنا خالی از شائبہ وشبہہ شرک نہیں۔ کیونکہ جب درمیان زائر اور مقبور کے حجب عدیدہ سمع وبصر حائل تو سماع اصوات اور بصارت صورمحال، اگر چہ بعض اموات کو بوجہ عہ۲ قطع تعلق ازمادہ، زیادت عہ۳ ادراک بھی حاصل ہو،

 

عہ۲ : عجیب لطیفہ غیبی اقول باﷲ التوفیق، ذی علم اگر چہ لغزش کریں پھر بھی سخن  حق ان کے کلام میں اپنی جھلک دکھا ہی جاتا ہے، یہ بوجہ مولوی صاحب نے ایسے فرمائے جس نے مذہب حق کی وجہ موجہ ظاہر کردی۔ میں عرض کروں جب زیارت ادراک کی وجہ علائق مادی کا انقطاع ہے تو وہ عموماً ہر میّت کو حاصل کہ موت خود اسی قطعِ تعلق مادی کا نام ہے، تو بعض اموات کی تخصیص محض بے وجہ، بلکہ تمام اموات کو حاصل ہونا چاہئے، اور بیشک ایسا ہے۔ اسی لیے اکابر محققین تصریح فرماتے ہیں کہ موت کے بعد کا ادراک بہ نسبت ادراک حیات کے صاف تراور روشن تر ہے۔ مقصد اخیر میں اس کی بعض تصریحیں آئیں گی، زیادہ نہیں تو نوع دوم مقصد سوم مقال چہارم میں شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کا قول ملاحظہ ہوجائے۔ منہ

عہ۳ :مولوی صاحب اس کلام سے شاہ عبدالعزیز صاحب کے اس قول کی طرف مشیر ہیں، جس کاایک پارہ نوع ۲ مقصد ۳ مقال ۱۶میں مذکور ہوگا۔ اور تتمہ جس نے آدھی وہابیت کا کام تمام کردیا عنقریب سوال ۱۵ میں آتا ہے ان شاء اللہ تعالٰی، اس میں شاہ عبدالعزیز صاحب نے شائبہ شبہہ ثابت ماناہے کہ اللہ تعالٰی بعض اولیائے کرام کے مدارک کو ایسی وسعت دیتاہے، مولوی صاحب کے لفظ یہاں ایسے واقع ہوئے جو اقرار وانکار دونوں کا پہلو دیں، خیر اگر شاہ صاحب کوا س قول میں خاطی پائیں اور اپنی اگر چہ کو اساغت یا فرض  ہی پر محمول رکھیں تاہم ہمیں مضر نہیں، نہ آپ کے کلام کی اصلاح کرسکتاہے، کما ستری، ان شاء اللہ تعالٰی۔ منہ

 

لیکن یہ مستلزم اس کو نہیں بلاتوجہ خاص جس کا انکشافِ حال خارج ازعلم زائر اور بحیز اختیار پرورد گار عالم ہے۔ بروقت دعا زائر کے وہ بزرگ اس کی دعا کو سن لیں، جب زائر بلا حصول علم مرتکب سوال کا ہے تو گویا سائل نے اہل قبرکو سمیع وبصیر علی الاطلاق قررادیا ہے ، اور نہیں ہے یہ اعتقاد مگر شرک، اور ادنٰی درجہ کا شائبہ وشبہہ شرک تو ضرور ہوا، جس سے احتراز واجتناب لازم  و واجب، فرقانِ حمید میں بمقاماتِ متعددہ اس کا بیان بتصریح تام وموجودہ ازانجملہ ہے۔ سورہ یوسف میں ہے : وما یومن اکثر ھم باﷲ الا وھم مشرکون ۱؎ ۔ اورا ن میں اکثر خدا کو نہیں مانتے مگر شرک کرتے ہوئے۔ (ت)

 

(۱؎ القرآن       ۱۲ /۱۰۶)

 

اور حدیث شریف میں ہے: من حلف بغیر اﷲ فقد اشرک ۲؎۔ جس نے غیر خدا کی قسم کھائی اس نے شرک کا کام کیا۔ (ت)

 

 (۲؎ مسند احمد بن حنبل    مروی از عبداللہ بن عمر   دارالمعرفہ بیروت    ۲ /۸۷)

 

اور اس حرمت کا سبب سوائے اس کے نہیں کہ حالف کی اس قسم غیر خدا سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ اپنے عقیدے میں غیر خدا کو بھی ضرر  رسان جانتا ہے جو معنًی شرک ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

                                               

 

اس جواب کو دیکھ کر زیادہ تر حیرت یہ ہوئی کہ مولوی صاحب کی کوئی تحریر ان خلاف محدثہ میں آج تک نظر سےنہ گزری تھی۔ گمان یوں تھا کہ قصداً احتراز فرماتے ہیں بلکہ غلو منکرین کو خود بھی لائق انکار ٹھہراتے ہیں۔ طرفہ تر یہ کہ پہلی بسم اللہ قلم کو اذن رقم ملا تو یوں کہ طرز ارشاد فریقین کے مضاد، پھر سراپا ناتمامی تقریب وناکامی مدعاء ۔ واجنبیت دلیل و بےتعلقی دعوٰی اگرچہ حضراتِ نجدیہ کا قدیمی دستور، مگر فضلیت سے بغایت دور، فقیر کوبعض وجوہ سے مولوی صاحب کی رعایت ایک حد تک منظور، ولہذا ان سطورمیں نام نامی مستور  و نامسطور، مگر اظہار حق بنص قرآن ضرور، اور حدیث صحیح میں الدین النصح لکل مسلم ۱؎  ( دین ہر مسلم کی خیر خواہی ہے۔ ت) ماثور، میرامقصد تھا کہ اس مسئلہ میں تحقیق بالغ وتنقیح بازغ سے کام لوں، اس تفصیل جامع وتحریر لامع سے اختتام دوں کہ براہین اثبات کا حصر وافی ہو، از ہاق شبہات کا احاطہ کافی ہو، مگر جب دیکھا کہ خود جواب جناب مذہب منکرین سے منزلوں دور، اور اکثر اوہام جو ادھر سے پیش ہوتے ہیں آپ ہی کی تحریر سے ہباءً منثور، تو مجھے بہت کفایتِ مؤنت وکمی مشقت ہوئی، اور آخر رائے اس پر ٹھہری کہ بالفعل جناب کی تقریر خاص پر جواعتراضات میرے ذہن میں ہیں گزارش کرکے  چند آثار واحادیث واقوال علمائے قدیم وحدیث ونبذ بحث اصل مدعا، یعنی ارواح طیبہ سے طلب دعا، اور بعد وصال ان کا فیض ونوال لکھ کر ختم کلام کروں اور بقیہ تحقیقات باہرہ وتدقیقات قاہرہ جو بحمد اللہ حاضر خاطر بندہ قاصر ہیں، انھیں بشرط جواب مولوی صاحب دور آئندہ پر محول رکھوں، بااینہمہ یہ مختصر رسالہ ان شاء اللہ تعالٰی ثابت کردے گا کہ مولوی صاحب کی یہ چند سطری تحریر اور اس پر مع ان کے اصل مذہب عہ  چار سو وجہ سے دار وگیر۔ واﷲ المعین وبہ استعین۔

 

عہ  اصل مذہب سے کبرائے مـذہب مولوی صاحب کی تصریح مراد ہے کہ میّت جماد ہے ۱۲ منہ سلّمہ ربہ

 

المقصد الاوّل فی الاعتراضات وازاحۃ الشبھات

( پہلا مقصد اعتراضات اور ازالۂ شُبہات میں)

 

اور اس میں دو نوع ہیں:

نوع اوّل اعتراضات مقصودہ میں___ شاید مولوی صاحب نام اعتراضات سے ناراض ہوں، لہٰذا مناسب کہ پیرایہ سوال میں اعتراض ہوں۔ فاقول وبہ التوفیق وبہ الوصول الٰی ذری التحقیق  (تو میں کہتا ہوں،ا ور خداہی سے توفیق ، اور اسی کی مدد سے بلندئ تحقیق تک رسانی ہے ۔ت)

 

 (۱؎ الصحیح البخاری        باب الدین النصیحۃ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۳)

 

سوال (۱): جناب نے قبر کی مٹی حائل دیکھ کر آواز سننی، صورت دیکھنی محال ٹھہرائی، اس سے مراد محال عقلی یا شرعی یا عادی، بر تقدیر اول کا ش کوئی برہان قاطع ا س کے استحالہ پر قائم فرمائی ہوتی۔ میں پوچھتا ہوں کہ اللہ تعالٰی قادر ہے کہ یہ حائل مانع احساس نہ ہو، اگر کہیے نہ، تو ان اﷲ علٰی کل شیئ قدیر ۱؎  (بیشک اللہ تعالٰی ہر شے پر قادر ہے۔ ت) کا کیا جواب؟____ اورفرمائیے ہاں تو استحالہ کہاں؟ ____ بر تقدیر ثانی آیات قرآنیہ و احادیث صحیحہ سے ثابت کیجئے کہ جب تک یہ حجاب حائل رہیں گے ابصار وسماع نہ ہوسکیں گے، الفاظ شریفہ ملحوظ خاطر رہیں___ بر تقدیر ثالث عادتِ اہل دنیا مراد یا عادت اہل برزخ۔ در صورت اول کیا دلیل ہے کہ مانع دنیوی حائل برزخ بھی ہے۔ کیا جناب کے نزدیک برزخ  دنیا کا ایک رنگ ہے؟ اہل دنیا ملائکہ کو نہیں دیکھتے مگر بطور خرق عادت اور برزخ والے عموما دیکھتے ہیں، حتی کہ کفار بھی۔ احادیث نکیرین چھپنے کی چیز نہیں، درصورت دوم جناب نے یہ عادت اہل برزخ کیونکر جانی، اموات نے تو آکر بیان ہی نہ کیا، اور طریقے سے علم ہو ا توا رشاد ہو، اور مامول کہ دعوٰی بتمامہا زیر لحاظ رہے۔

 

سوال (۲):اسی تشقیق سے احد الشقین الاولین مراد تو آپ ہی کا آخر کلام اس کا اول رادکہ محال عقلی ، صالح تعلق اذن نہیں، اور محال شرعی سے ہر گز اذن متعلق نہ ہوگا، وبر شقِ ثالث ا سکا اعتقاد ممکن کا اعتقاد کہ ہر محال عادی، ممکن عقلی ہے اور شرک اعظم محالات عقلیہ کا اعتقاد، تو اعتقاد ممکن عقلی کا شرک ہونا محال عقلی بین الفساد وبعبارۃ اخری اوضح واجلی (اور بعبارات دیگر زیادہ واضح وروشن ۔ ت) جناب کی پچھلی عبارت صاف گواہ کہ بعض اموات کوا یسی زیادتِ ادراک عطا ہوتی ہے کہ وہ تو جہ خاص کریں تو باذن اللہ دعائے زائرین سن سکتے ہیں___ میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالٰی قادر ہے یا نہیں کہ یہ قوت انھیں ہروقت کے لیے بخشے____ برتقدیر انکار سخت مشکل، افعیینا بالخلق الاول ۲؎  (توکیا  ہم پہلی تخلیق سے تھک گئے۔ ت) در صورت اقرار میّت یہ وصف ملنے سے خدا کا شریک ہوگیا یا نہیں؟ میں جانتاہوں ہاں نہ کہئے گا، اور جب نہ کہ ٹھہری تو میں عرض کروں، وہ وصف جس کے ثبوت سے خد اکی شرکت لا زم نہ آئی، اس کے اثبات سے خدا کا شریک ہو نا کیونکر قرار پایا؟ او رجس کی حقیقت شرک نہیں اس کا گویا شائبہ کیونکر ہوا؟

 

سوال (۳) :کیا آدمی اسی کام کو حلال جانے جس کے بکار آمد ہونے پر یقین رکھتاہو، باقی کو حرام سمجھے یاصرف امید کافی اگر چہ علم نہ ہو، درصورت اولٰی واجب کہ نماز روزہ اور تمام اعمال حسنہ کوحرام جانیں کہ وہ بے قبول وبکار آمد نہیں اورہم میں کوئی نہیں کہ سکتا کہ اس کے اعمال قطعا مقبول____

 

 (۱؎ القرآن        ۲ /۱۰۹)(۲؎ القرآن       ۵۰ /۱۵)

 

  در صورت ثانیہ جب آپ کے نزدیک بھی بعض اکابر کا ایسا قوی الادراک عہ۱ ہونا مسلم کہ بتوجہ خاص باذن اﷲ تعالٰی دعائے زائر سن لیں تو وہاں کرم الہٰی سے ہر وقت امید و توقع موجود کہ سننے کا علم نہیں، تو نہ سننے پر بھی جزم نہیں، پھر کلام کیوں کر، ناروا ہوسکتا ہے۔ جناب کو اپنا اطلاق حکم ملحوظ خاطر عاطر رہے۔

 

عہ ۱: اگر تسلیم تحقیقی ہے توا مرظاہر اور بطور تجویزو تقدیر ہے۔تویہی عرض کیا جاتا ہے کہ یہ صورت مان کرپھر اس کلام کی کیا گنجائش ہے۔ یہ نکتہ محفوظ رہنا چاہئے، ۱۲ منہ

 

سوال (۴): یہ تو ظاہر کہ سائل جن کے دروازوں پر سوال کرتے ہیں وہ ہر وقت فراخ دست نہیں ہوتے، اب ان سائلوں کو حضرت کے اعتقاد میں ہر شخص کے حالِ خانہ پر اطلاع و وقوف ہے یا نہیں، اگر کہے ہاں توجس طرح جناب کے نزدیک زا ئر بیچاروں نے حضرت اولیاء کو سمیع وبصیر علی الاطلاق مانا، یونہی عہ۲ آپ نے ان بھیک مانگنے والوں، جوگیوں، سادھووں کو علیم وخبیر علی الاطلاق جانا۔ والعیاذ باﷲ سبحٰنہ وتعالٰی، عہ۲: تشبیہ مقصود بالذات ہے کہ یہ سوال نقض اجمالی ہے ورنہ ہمارے نزدیک نہ صرف اتنا علم وخبر مطلق نہ فقط اتنا سمع وبصرمطلق۔ ۱۲ منہ

 

اور اگر فرمائیے نہ، توجبکہ سائل بلاحصول علم مرتکب سوال ہوتے ہیں، آپ کے طور پر گویا اہل بیوت کو معطی وقدیر علی الاطلاق قرار دیتے ہیں یا نہیں____ بر تقدیر اول واجب ہوا کہ سوال شرک نہ ہو تو ادنٰی درجہ شائبہ وشبہہ شرک ضرور ہو حالانکہ  بہت اکابر علماء اولیاء نے  وقت حاجت اس پر اقدام فرمایا ہے، حضرت ابوسعید خراز قدس سرہ،العزیز جن کی عظمت عرفان وجلالت شان آفتاب نیمروز سے اظہر، ہنگامہ فاقہ ہاتھ پھیلاتے  اور شیأ للہ فرماتے  ___ یو نہی سیدالطائفہ جنید بغدادی کے استاد حضرت ابوحفص حداد وحضرت ابراہیم ادھم وامام سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سے وقت ضرورت شرعیہ سوال منقول ۱؎ نقل کل ذلک العلامۃ المناوی فی التیسیر عہ۳ ( یہ سب علامہ مناوی نے تیسیر میں نقل کیا ہے۔ ت)

 

عہ۳: تحت قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من سأل من غیر فقر فکا نمایا کل الجمر ۱۲ منہ زیر ارشاد رسول اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم: جس نے بغیر احتیاج کے سوال کیا گویا وہ اپنے پیٹ میں انگارے بھرتاہے  ۱۲منہ (ت)

 

 (۱؎ التیسیر شرح جامع الصغیر    تحت حدیث من سأل    مکتبۃ الامام الشافعی ریاض سعودیہ    ۲ /۴۲۱)

 

کتب فقہیہ شاہد عادل کہ بعض صور میں علمائے کرام نے سوال فرض بتایا ہے۔ معاذاﷲ ! یہ آپ کے طور پر شرک یا شائبہ  شرک  فرض ہونا ہوگا۔ برتقدیر ثانی زائر بیچارہ بلا حصول علم سوال کرنے پر کیوں ان الفاظ کا مصداق ہوا۔

سوال (۵): جو شخص ایک جگہ خاص پر ہو کہ وہاں جاکر جس وقت بات کیجئے سن لے۔ اس قدر سے اسے سمیع علی الاطلاق کہا جائے گایا نہیں۔  اور اگر  کہیے ہاں، تو اپنے نفس نفیس کو سمیع علی الاطلاق مانیے، ہم نے تو ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ دولت خانہ پر جا کر جب کسی نے بات کی ہے آپ کے کا ن تک پہنچی ہے۔ اور فرمائیے نہ۔ تو مزار پر جاکر سمیع علی الاطلاق جانا کیونکر سمجھا گیا!

سوال (۶): زمانہ وجود مخاطب کے استغراق ازمنہ باوصف خصوص مکان کو جناب نے مثبت سمع علی الاطلاق ٹھہرا یا تواستغراق ازمنۂ وجود و امکنۂ دنیا بدرجہ اولٰی موجب ہوگا۔ اب کیا جواب ہے اس حدیث سے کہ امام بخاری نے تاریخ میں اور طبرانی وعقیلی اور ابن النجار و ابنِ عساکر و ابوالقاسم اصبہانی نے عمار بن یا سر رضی اﷲ تعالٰی عنہماسے روایت کی۔ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سُنا :

 

ان ﷲ تعالٰی ملکا اعطاہ اسماع الخلائق (زاد الطبرانی کلھا) قائم علے قبری (زاد الٰی یوم القٰیمۃ) فما من احد یصلّی صلٰوۃ الاّ ابلغنیھا۱؎ ۔ بیشک اللہ تعالٰی کا ایک فرشتہ ہے جسے خدا نے تمام جہاں کی بات سن لینی عطاکی ہے۔ وہ قیامت تک میری قبر پر حاضر ہے۔ جو مجھ پر درود بھیجتا ہے جو مجھ سے عرض کرتاہے۔ (ت)

 

 (۱؎ الترغیب بحوالہ المعجم الکبیر    الترغیب فی اکثار الصلٰوۃ علی النبی    مصطفی البابی مصر    ۲ /۴۹۹ ۔۵۰۰)

 

علامہ زرقانی شرح مواہب اور علامہ عبدالرؤف شرح جامع صغیر میں اعطاہ اسماع الخلائق کی شرح میں یوں فرماتے ہیں: ای قوۃ یقتد ربھا علٰی سماع ماینطق بہ کل مخلوق من انس وجن وغیرھما (زاد ا لمناوی فی ای موضع کان ۲؎ ۔ یعنی اللہ تعالٰی نے اس فرشتے کو ایسی قوت دی ہے کہ انسان جن وغیر ہما تمام مخلوقِ الہٰی کی زبان سے جو کچھ نکلے اسے سب کے سننے کی طاقت ہے چاہے کہیں کی آواز ہو (ت)

 

 (۲؂ التیسیر شرح جامع الصغیر    تحت ان اللہ ملکا الخ        مکتبۃ الامام الشافعی ریاض    ۲/۳۳۰)

 

اور دیلمی نے مسند الفردوس میں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کی، حضور پر نور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اکثر واالصلٰوۃ علی فان اﷲ تعالٰی وکل لی ملکا عند قبری فاذا صلی علی رجل من امتی قال لی ذلک الملک یامحمد ان فلان بن فلان یصلی علیک الساعۃ ۱؎۔ مجھ پر درودبہت بھیجو کہ اللہ تعالٰی نے میرے مزار پر ایک فرشتہ متعین فرمایا ہے جب کوئی امتی میرا مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ مجھ سے عرض کرتا ہے: یارسول اللہ! فلاں بن فلاں نے ابھی ابھی حضور پر درود بھیجی ہے (ت)

 

 (۱؎ کنز العمال بحوالہ مسند الفردوس    حدیث ۲۱۸۱    موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱ /۴۹۴)

 

اللھم صلی وبارک علٰی ھذا الحبیب المجتبی والشفیع المرتجی وعلٰی الہ واصحابہ واولیاء امّتہ وعلماء ملتہ اجمعین صلٰوۃ تدوم بدوامک وتبقی ببقائک کما ھو اھل لہ وکما انت اھل لہ اٰمین اٰمین الٰہ الحق اٰمین۔ اے اﷲ! درود اور برکت نازل فرما اس حبیب پر جو برگزیدہ ہیں اور اس شفیع پر جن سے کرم کی امید ہے او ر ان کی آل  ، اصحاب ، ان کی امت کے اولیاء ان کی ملت کے علماء سب پر ایسا درود جسے تیرے دوام کے ساتھ دوام اور تیری بقا کے ساتھ بقا ہو، ایساد رود جس کے وہ اہل ہیں اور جو تیری شان کے لائق ہو، قبول فرما، قبول فرما اے معبود  برحق قبول فر ما! (ت)

 

؎ جاں می دہم درآرزو اے قاصد آخر بازگو

درمجلس آں نازنین حرفے گر از مامے رود  (اے قاصد! اس آرزو میں جان دے رہاہوں کہ اس محبوب کی مجلس میں پھر ایک بات پہنچادو اگر پہنچ سکے۔ ت)

بھلا ارشاد ہو۔ اولیاء کرام تو خاص حاضرانِ مزار کی بات سننے پر سمیع علی الاطلاق ہوئے جاتے ہیں، یہ بندہ خدا کہ بارگاہ عرش جاہ سلطانی صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے جدا نہیں ہوتا اور وہیں کھڑے کھڑے ایک وقت میں شرقاً غرباً جنوباً شمالاً تمام دنیا کی آوازیں سنتاہے اسے کیا قرار دیا جائے گا۔ آپ کوتو کیا کہوں مگر ان نجدی شرک فروشوں نے نہ خدا کی قدرت دیکھی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو  کیا کیا عطا فرماسکتاہے۔نہ اس کی عظمت صفات سمجھی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر شر ک کا ماتھا ٹھنکتا ہے۔ ماقدرو ا اﷲ حق قدرہ ۲؎  ( انھوں نے خداکی قدرت نہ جانی جیسا کہ ا س کی قدر کا حق تھا۔ ت)

 

 (۲؎القرآن      ۲۲ /۷۴)

 

سوال(۷): کیابات سننے کے لیے صورت دیکھنی بھی ضرور، جب تو واجب کہ تمام اندھے بہرے ہوں اور فرشتہ مذکور، آپ کے طور پر بصیر علے الاطلاق بلکہ اس سے بھی کچھ زائد، ورنہ فقط خطاب کرنے سے بصیر ماننا کیونکر مفہوم ہوا ، عموم واطلاق توبالائے طاق۔

 

سوال (۸) :بغرض لزوم سماع کلام کو مطلق بصر درکار۔ جو رویتِ مخاطب سے حاصل، یابصرعلے الاول ملازمت باطل، وعلی الثانی لازم کہ تمام مخلوق الہٰی بہری اور کسی بات کا سننا کسی غیر خدا کے لیے ماننا مطلقا مستلزم شرک ہو، تو سب مشرک ہیں، یا ہر ذی سمع، بصیر علے الاطلاق تو آفت اشد ہے۔ والعیاذ باﷲ۔

 

سوال (۹): ان اولیاء کی زیاررت ادراک اگر اسے مستلزم نہیں کہ ہر کلام زائر  سن لیں تو اسے بھی نہیں کہ سب کو نہ سنیں آپ خود عدم استلزام فرماتے ہیں، نہ استلزام عدم، تو دونوں صورت میں محتمل رہیں، پھر ایک امر محتمل پر جزم شرک کیونکر ہوسکتا ہے، غایت یہ کہ بے دلیل ہو تو غلط سہی، کیا ہر غلط بات شرک ہوتی ہے!

سوال (۱۰): مجھے نہیں معلوم کہ قرآن عظیم میں ایک جگہ بھی بیان فرمایا ہو کہ مزارات پر جاکر کلام وخطاب کرنا شرک یاحرام ہے۔ یا اتناہی ارشادہو اہو۔ جو ایسا کرتا ہے گویا اصحاب قبور کو سمیع یا بـصیر علے الاطلاق مانتاہے۔ اور حضرات کی صحتِ استدلال انھیں امور پر مبنی، آپ فرماتے ہیں فرقان حمید میں، بمقامات متعددہ  اس کا بیان بتصریح تام موجود، میں مقاماتِ متعدد ہ کی تکلیف نہیں دیتا۔ ایک ہی آیت فرما دیجئے جس میں صاف صاف مضمون مذکور مزبور ہو۔ بینوا توجروا

 

سوال (۱۱): سورہ یوسف کی آیۂ کریمہ کہ تلاوت فرمائی اس کا ترجمہ ومطلب میں کیوں عرض کروں مولوی اسمٰعیل سے سنئے ۔ تقویۃ الایمان میں لکھا ہے :

''نہیں مسلمان ہیں اکثر لوگ مگر کہ شرک کرتے ہیں ۱؎ یعنی اکثر لوگ جو دعوٰی ایمان کا رکھتے ہیں سو وہ شرک میں گرفتار ہیں''ا نتہی

 

 (۱؎ تقویۃ الایمان    پہلا باب توحید وشرک کے بیان میں    مطبع علیمی اندرون لوہاری گیٹ لاہور    ص۴۴)

 

خدارا س میں مزارات اولیاء پر جانے یا ان سے کلام و خطاب کرنے کا کون سا حرف ہے۔ استغفراللہ! نام کو بو بھی نہیں، تصریح تام تو بڑی چیز ہے۔ پھر اُس آیت نے جناب کا کون سا دعوٰی ثابت کیا یا حضار مزار کو کیا الزام دیا۔ اگر ایسے ہی بے علاقہ استناد کا نام صریح تام ، تو ہر شخص اپنے دعوے پر قرآن عظیم کی آیت پیش کر سکتا ہے، مثلاً فلسفی کہے: توسیط عقول حق ہے ورنہ لازم آئے کہ تمام اشیاء متکثرہ اس واحد حقیقی سے بالذات صادر ہوئی ہوں، اور یہ خدائے عزوجل پر افتراء۔ فان الواحد لایصدر عنہ الا الواحد  (کیونکہ واحد سے واحد ہی صادر ہوسکتا ہے۔ ت) اور اللہ تعالٰی پر افتراء حرام قطعی۔ قرآن حمید میں بمقامات متعددہ اس کا بیان بتصریح تام موجود ، ازانجملہ ہے سورہ انعام میں : ان الذین یفترون علی اﷲ الکذب لا یفلحون ۲؎  (جو لوگ اللہ پر جھوٹا افتراء کرتے ہیں وہ مرادکو پہنچنے والے نہیں ۔ت)

 

(۲؎القرآن     ۱۶ /۱۱۶)

 

یا نصرانی کہے انکار تثلیث گناہ عظیم ہے کہ تثلیث ایت انجیل محرف سے ثابت ،ا ور آیت الٰہیہ کی تکذیب موجب عذاب شدید، فرقان حمید میں بمقامات متعدد ہ اس کا بیان بتصریح تام موجود از ا نجملہ ہے سورۂ عنکبوت میں: وما یجحد باٰیتنا الاّالظٰلمون ۱؎  (ہماری آیتوں  کا انکار نہیں کرتے مگر وہی جو ظالم ہیں۔ ت)

 

(۱؎ القرآن      ۲۹ /۴۹)

 

ارشادفرمائیے کیا ان تقریروں سے ان کی استدلال تام ہوگئی ، اور ان کے جھوٹے دعوے معاذاﷲ قرآن عظیم نے ثابت کردئے؟ حاش ﷲ، واستغفر اﷲ ولاحول ولاقوۃ الاّباﷲ____ میں نہیں چاہتاکہ عیاذاً باﷲ فلا ں وہماں کی طرح آیات الٰہیہ کو ان کے موقع ومحل سے بیگانہ کرکے بزور زبان دوسری طرف پھیرا جائے، ورنہ حضرات منکرین کے مقابل آیہ کریمہ کمایئس الکفار من اصحاب القبور ۲؎ (جیسے کفار اہل قبور سے ناامید ہو بیٹھے۔ ت)

 

 (۲؎ القرآن    ۶۰ /۱۳)

 

بہت اچھی طرح پیش ہوسکتی ہے۔ اور وہ آیت کی نسبت جو آپ نے تلاوت کی ہزار درجہ زیادہ محل وموقع سے تعلق رکھتی ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے: اہل قبور سے کافر لوگ نا امید ہو بیٹھے۔ اب غور کر لیا جائے کہ کون لوگ اہل قبور سے امید رکھتے ہیں ا ور کون یاس کے ہاتھوں آس توڑے بیٹھے ہیں، انّا ﷲ وانّا الیہ راجعون۔

 

صنف اٰخر من ھٰذ ا النوع

(اسی نوع کی ایک اور قسم)

 

یہاں ان اکابر خاندان عزیزی کے بعض اقوال رنگ تحریر فرمائیں گے جنھوں نے بے حصول علم ارتکاب سوال جائز رکھا اور مولوی صاحب کے طور پر شرک خالص یا ہارے درجے شائبہ شرک میں گرفتار ہوئے۔

سوال (۱۲): شاہ ولی اﷲ ہمعات میں حدیث نفس کا علاج بتاتے ہیں: بارواحِ طیبہ مشائخ متوجہ شود وبرائے ایشاں فاتحہ خواند یا بزیارت قبر ایشاں رود ازانجا انجذاب دریوزہ کند ۳؎ ۔ مشائخ  کی پاک روحوں کی جانب متوجہ ہو اور ان کے لیے فاتحہ پڑھے یا ان کے مزارات کو جائے اور وہاں سے بھیک مانگے۔ (ت)

 

 ۳ہمعات    ہمعہ ۸    اکادیمیۃ الشاہ ولی اللہ حیدر آباد    ص۳۴)

 

اقول اولاً جناب کے نزدیک مزار تِ اولیاء سے بھیک مانگنے کا کیا حکم ہے۔ وہاں تو ان سے دُعامنگوانا شرک ہوا جاتا تھا یہاں خود ان سے بھیک مانگی جاتی ہے۔

ثانیاً کسی سے بھیک مانگنی یونہی معقول کہ وہ اس کی عرض  سنے اور اس کی طرف توجہ کرے، ورنہ دیواروں پتھروں سے کیا بھیک مانگنا۔ مگر آپ فرماچکے کہ ''توجہ خاص کا انکشاف حال خارج از علم زائر بحیز اختیار پرودگار عالم ہے۔'' اب یہ جو بھیک مانگنے والا شاہ صاحب کے حکم سے بیحصول علم مرتکب سوا ل کا ہے اس نے گویا اہل قبر کوسمیع وبصیر علی الاطلاق قرار دیا یا نہیں؟ اور شاہ صاحب نے یہ شرک خالص یاشائبہ شرک تعلیم کیایانہیں؟ اور ایسی چیز کا سکھانے والا کافر یامشرک یا بدعتی بد مذہب ہو ایانہیں؟ بینوا توجروا

ثالثاً انھوں نے مزارپر جاکر گدائی تو پیچھے بتائی، پہلے گھر ہی بیٹھے ارواح طیبہ کی طرف توجہ کرا رہے ہیں اب تو اطلاق کا پانی سر سے اونچا ہوگیا۔

 

سوال (۱۳): انھی شاہ صاحب نے ایک رباعی لکھی: ؎ آنا نکہ زادناس بہیمی جستند    بالجۂ انوار قدم پیوستند

فیض قدس از ہمت ایشاں می جو    دروازۂ فیض قدس ایشاں ہستند ۱؎  (جو لوگ نفس حیوانی کی آلودگیوں سے باہر ہوگئے وہ ذات قدیم کے انوار کی گہرائیوں سے جاملے: فیض قدس ان کی ہمت سے طلب کرو، فیض قدس کا دروازہ یہی لوگ ہیں۔ ت)

 

 (۱؎ ،مکتوبات ولی اللہ از کلمات طیبات    مکتوب بست ودوم درشرح بعض اشعار    مطبع مجتبائی دہلی    ص۱۹۴)

 

اور مکتوب شرع رباعیات میں خود اس کی شرح یوں کی: یعنی توجہ بارواحِ طیبہ مشائخ درتہذیب روح وسر نفع بلیغ دارد۲؎ ۔ یعنی مشائخ کی ارواح طیبہ کی جانب توجہ روح اور باطن کو سنوارنے میں نفع بلیغ رکھتی ہے (ت)اقول (میں کہتا ہوں ۔ ت) کیا اچھا نفع بلیغ ہے کہ بلاحصول علم ان کی ہمت سے فیض چاہ کر مشرک ہوگئے۔

 

 (۲؎ ،مکتوبات ولی اللہ از کلمات طیبات    مکتوب بست ودوم درشرح بعض اشعار    مطبع مجتبائی دہلی    ص۱۹۴)

 

سوال (۱۴): یہی شاہ صاحب '' قول الجمیل'' میں لکھتے ہیں۔، ان کی عبارت عربی لاکر ترجمہ کروں، اس سے یہی بہتر ہے کہ مولوی خرم علی صاحب بلہوری مصنفِ نصیحۃ المسلمین کا ترجمہ نقل کروں۔ یہ صاحب بھی عمائد و کبرائے منکرین سے ہیں، شفاء العلیل میں کہتے ہیں:

''مشائخ چشتیہ نے فرمایا: قبرستان میں میّت کے سامنے کعبہ معظمہ کو پشت دے کر بیٹھے ، گیارہ بار سورہ فاتحہ پڑھے پر میّت سے قریب ہو پھر کہے یا رُوح اور یا روح الرّوح کی دل میں ضرب کرے،

یہاں تک کہ کشائش ونور پائے، پھر منتظر رہے اس کا جس کا فیضان صاحب قبر سے ہو اس کے دل پر ۱؎اھ ملخصا

 

 (۱؎ شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل        پانچویں فصل        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی      ص۷۲)

 

اقول اوّلاً اس ندائے یا رُوح کا حکم ارشاد ہو۔

ثانیاً یہ سائلان فیض جو تقریر وتسلیم واشاعت و تعلیم شاہ صاحب ومترجم صاحب جب چاہا بلاحصول علم قبور کے سامنے یارُوح یا رُروح کرنے اور فیض مانگنے بیٹھ گئے۔ آپ کے طور پر اہل قبور کو سمیع وبصیر ومعطی ومفیض علی الاطلاق مان کر اورماتن ومترجم بتا جتاکر مشرک ہوئے یا نہیں؟

سوال (۱۵): شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر فتح العزیز میں، وہیں جہاں انھوں نے بعض خواص اولیاء کو ایسی زیادت ادراک ملنی لکھی ہے۔ یہ بھی فرماتے ہیں کہ: ''اویسیان تحصیل مطلب کمالات باطنی ازانہا مے نمایند واربابِ حاجات ومطالب حل مشکلات خود ازانہامی طلبند ومے یابند۔''۲؎ اُویسی لوگ اپنے کمالات باطنی کا مقصد ان سے حاصل کرتے ہیں، اور اہل حاجات ومقاصد اپنی مشکلوں کا حل ان سے مانگتے اور پاتے ہیں (ت)

 

 (۲؎ تفسیر فتح العزیز    پارہ عم    بیان صدقات وفاتحہ الخ   مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی     ۲۰۶)

 

کہئے زیادت ادراک مسلم ، مگر توجہ خاص کا انکشاف حال تو خارج از علم بحیز اختیار پروردگار ہے۔ پھر اویسی لوگ جوبلا حـصول علم مرتکب استفادہ ہوتے ہیں کیونکر مصداق ان لفظوں کے نہ ہوئے اور ایسی نسبت کہ معاذاﷲ بذریعہ شرک ملتی ہے۔ کیونکر صحیح ومقبول ٹھہری، یہی شاہ صاحب اپنے والد شاہ ولی اﷲ صاحب سے ناقل اویسیت  کی نسبت قوی اور صحیح ہے۔ شیخ ابوعلی فارمدی کو ابوالحسن خرقانی سے روحی فیض ہے اور ان کو بایزید بسطامی کی روحانیت سے، اور ان کو امام جعفر صادق کی روحانیت سے تربیت ہے ۳؎ اھ نقلہ البلھوری فی شفاء العلیل  (اسے مولوی خرم علی لاہوری نے شفاء العلیل میں نقل کیا۔ ت)

 

(۳؎شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل    گیارھویں فصل     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی  ص ۱۷۸)

 

ثانیاً ذرا شاہ صاحب کے پچھلے لفظ کہ ''اہل حاجت اپنی مشکلوں کا حل ان سے مانگتے اور پاتے ہیں'' ملحوظ خاطر رہیں، کس دھوم دھام سے ارواح اولیاء کو حاجت روا مشکل کشا بتایا ہے۔ واﷲ! کہا سچ ، اگر چہ بُرامانیں ناواقف ؂ الناس اعداء لما جھلوا (لوگ جس چیز کو نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں۔ ت)

 

؎ غوثِ اعظم بمن بے سر وساماں مددے

قبلہ دیں مددے کعبہ ایماں مددے (غوث اعظم! مجھ بے سروسامان کی مدد فرمائیں، قبلہ دیں! مدد فرمائیں، کعبہ ایمان ! مدد فرمائیں)

 

سوال (۱۶): اُسی تفسیر عزیزی میں دفن کو نعمت الہٰی ٹھہرا کر اس کے منافع وفوائد میں لکھتے ہیں: ازاولیائے مدفونین انتفاع واستفادہ جاریست ۱؎۔ مدفون اولیاء سے نفع پانا اور فائدہ طلب کرنا جاری ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ تفسیر فتح العزیز    پارہ عم      استفادہ ازاولیاء مدفونین  مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی  ص۱۴۳)

 

اقول اولاً انتفاع تک خیر تھی کہ بے مقصد منتفع بھی ممکن، استفادہ نے غضب کردیا کہ وہ نہیں مگر طلب فائدہ، پھر کیا اچھا نفع دفن میں نکالا کہ بند گانِ خدا بے حصول علم مرتکب سوال ہو کر معاذاﷲ مشرک ہوتے ہیں ۔

ثانیاً لفظ ''جاری ست'' پر لحاظ رہے کہ اس سے مراد نہیں مگر مسلمانوں میں جاری ہونا، اور جو مسلمانوں میں جاری ہر گز شرک نہیں کہ جن میں شرک جاری ہر گز مسلمان نہیں۔

 

سوال (۱۷): مرزا مظہر جانجاناں صاحب جنھیں شاہ ولی اﷲ صاحب اپنے مکاتیب میں قیم طریقہ احمدیہ و داعی سنت نبویہ لکھتے ہیں، اور حاشیہ مکتوبات ولویہ پر انھیں شاہ صاحب سے ان کی نسبت منقول ہند و عرب وولایت میں ایسا متبع کتاب وسنت نہیں سلف میں بھی کم ہوئے اھ ملخصا مترجماً، یہ مرزا صاحب اپنے ملفوظات میں تحریر فرماتے ہیں: نسبت مابجناب امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ می رسد، وفقیر رانیازی خاص بآنجناب ثابت است۔ دروقت عروض عارضہ جسمانی توجہ بآنحضرت واقع می شود وسبب حصول شفامی گردد ۲؎۔ امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بارگاہ تک نسبت پہنچتی ہے اور فقیر کو اس جناب سے خاص نیاز حاصل ہے، جب کوئی جسمانی عارضہ لاحق ہوتا ہے تو آنحضور کی جانب میری توجہ ہوتی ہے اور شفایابی کا سبب بنتی ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ مکاتیب مرزامظہر   از کلمات طیبات    ملفوظات مرزا صاحب    مطبع مجتبائی دہلی    ص۷۸)

 

سوال (۱۸): آگے فرماتے ہیں: یکبار قصیدہ کہ مطلعش اینست ؎فروغ چشمِ اگاہی امیرالمومنین حیدر

زانگشت ید اللّہی امیرالمومنین حیدر

بجناب ایشاں عرض نمودم نواز شہا فرمود ند اھ۱؎۔ ایک بار وہ قصیدہ جس کا مطلع یہ ہے: ؎چشم معرفت کو روشنی عطا ہو اے امیر المومنین حیدر

خدائی ہاتھ والی انگشت سے اے امیرالمومنین حیدر

حضرت کی بارگاہ میں عرض کیا تو بڑی نوازشیں فرمائیں اھ (ت)

 

 (۱؎ مکاتیب مرزا مظہر جانجاناں از کلمات طیبات ملفوظات مرزا صاحب مطبع مجتبائی د ہلی ص۷۸)

 

اقول اولاً جب جناب مرزا صاحب امراض میں بارگاہ مشکل کشائی کی طرف توجہ کرتے تھے انھیں کیاخبر تھی کہ حضرت مولا علی کرم اللہ وجہ الاسنی ا س وقت میری طرف متوجہ ہیں یا میری طرف سے التفات فرمائیں گے۔

ثانیاً یو نہی جب قصیدہ عرض کرنے بیٹھے، کیا جانتے تھے کہ حضرت والا اس وقت سن لیں گے، تو ان سب اوقات میں بے حصول علم، مرتکب عرض وتوجہ ہو کر انھوں نے جناب اسد اللّٰہی کو سمیع وبصیر علی الاطلاق ٹھہرایا، اور حضرت کے طورپر وہ برا لقب پایا یا نہیں۔

ثالثاً مزار پر جا کر کلام وخطاب تو وہ آفت تھا، مرزا صاحب جو بے حضور مزار ہی توجہیں کرتے قصیدے سناتے ا ن کے لیے حکم کچھ زیادہ سخت ہوگا یا نہیں۔

رابعاً اس نیازی خاص پر بھی نظر رہے کہ یہ معالجہ کرے گا ان جُہال کے وہم کا جو "نیاز" کے لفظ کو خاص بجناب بے نیاز مانتے ، اور اسی بنا پر فاتحہ فائحہ حضرات اولیاء کو نیاز کہنا شرک وحرام جانتے ہیں،

خامساً یہ بڑی گزارش تو باقی ہی رہ گئی کہ دفع امراض کے لئے ارواح طیبہ کی طرف توجہ استمدادبالغیر تو نہیں۔ اور جناب کے نزدیک بھلا ایسا شخص اتباعِ شریعت میں یکتا وبے نظیر جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے کہا تھا، بالائے طاق، سرے سے متبع سنت بلکہ ازروئے ایمان، تقویۃ الایمان، راساً مسلم وموحد کہاجائے گا یانہیں

 

سوال (۱۹): شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبد الرحیم صاحب کی نسبت کیا حکم ہے؟ وہ بھی ا س شرک عالمگیر سے محفوظ نہ رہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب قول الجمیل میں لکھتے ہیں: وایضا تادب شیخنا عبدالرحیم علی روح جدہ لامہ الشیخ رفیع الدین محمد ۲؎ ۔ شفاء العلیل میں اس کا ترجمہ یوں کیا: ''اور بھی ہمارے مرشد شاہ عبدالرحیم ادب آموز ہوئے اپنے نانا شیخ رفیع الدین کی روح سے۔''

اور حاشا یہ فیض یوں نہ تھا کہ ادھر سے بے طلب آیا ہو، بلکہ یہی جاکر قبر پر متوجہ ہوا کرتے۔ خود شاہ ولی اللہ اپنے والد ماجد سے انفاس العارفین میں ناقل: می فرمودند مرادر مبد ءحال بمزار شیخ رفیع الدین الفتے پیداشد۔ آں جاہی رفتم وبقبر شاں متوجہ می شدم۱؎الخ فرماتے تھے مجھے ابتدائے حال میں شیخ رفیع الدین کے مزار سے ایک الفت پیدا ہوگئی۔ وہاں جاتا اور ان کی قبر کی طرف متوجہ ہوتا تھا الخ (ت)

 

 (۲؎ القول الجمیل    مع شفاء العلیل    گیارھویں فصل    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۷۹۔۸۰)

 (۱؎ انفاس العارفین (اردو ترجمہ)    زندہ جاوید        المعارف گنج بخش روڈ۔ لاہور    ص۳۶)

 

یارب! جب مولوی اسمٰعیل کے اساتذہ ومشائخ سب گرفتار شرک ہوئے یہ انھیں کے خوشہ چین، انھیں کے نام لیوا، ان کے مداح، ان کے مقلد کیونکر مومن موحد رہے ؎ وحسن نبات الارض من کرم البذر (زمین کا پودہ عمدہ جب ہی ہوتا ہے کہ بیج اچھاہو۔ ت)

 

صنف اٰخر من ھٰذا لنوع

(اسی نوع کی ایک اور قسم)

 

اس میں وہ سوالات مذکور ہوں گے جو مولوی صاحب کے استدلال دوم یعنی تمسک بحدیث من حلف الخ سے متعلق ہیں: سوال (۲۰): حدیث من حلف بغیر اﷲ فقد اشرک ۲؎ کی جو عمدہ شرح افادہ فرمائی، ذرا کتب ائمہ حدیث و فقہ پر نظر کرکے ارشاد ہوجائے کہ کلمات عُلماء سے کہاں تک موافق ہے، فقیر بہت ممنون احسان ہوگا اگرایک عالم معتمد کی تحریر سے بھی آپ نے اپنا بیان مطابق کر دکھایا۔ الفاظ شریفہ پیش نظر رہیں کہ '' اس حرمت کا سبب سوا اس کے نہیں'' الخ

 

 (۲؎مسند احمد بن حنبل        مروی از عبداﷲابن عمر    دارالفکر بیروت        ۲ /۸۷)

 

سوال (۲۱): اعتقاد نفع وضر ر پر قسم کی دلالت، کسی قسم کی دلالت، آیا لغۃً اس کے معنی سے یہ امر مفہوم، یا عقلاً خواہ عرفاً لازم وملزوم، کہ آدمی اسی کی قسم کھائے جس سے نفع وضرر کی امید رکھے۔

صدر اسلام میں جو صحابہ کرام کعبہ معظمہ کی قسم کھاتے؂۳ کما رواہ النسائی وغیرہ (جیساکہ نسائی وغیرہ نے روایت کیا۔ ت)اس وقت کعبہ کی نسبت کیا اعتقاد(عہ)  رکھتے تھے؟ بینو اتوجروا

 

 (۳؎ سُنن نسائی    الحلف بالکعبۃ    نور محمد کار خانہ تجارت کتب کراچی   ۲ /۱۴۳)

 

عہ : ذکر نسخ نافع نہ ہوگا۔ کیا شرک و توحید میں بھی نسخ جاری ہے ۱۲ منہ (م)

 

سوال (۲۲): غیر خدا کو کسی طرح نافع یا ضارجاننا مطلقاً شرک ہے یا خاص اسں صورت میں کہ اسے نفع وضرر میں مستقل بالذات مانے۔ برتقدیر اول یہ وہ شرک ہے جس سے عالم میں کوئی محفوظ نہیں۔ جہان شہد کو نافع اور زہر کو مضر جانتا ہے۔ سچے دوست سے نفع کی امید، پکے دشمن سے ضرر کا خوف رکھتا ہے۔ عالم کی خدمت حاکم کی اطاعت اسی لیے کرتے ہیں کہ دینی یا دنیاوی نفع کی توقع ہے۔ مخالف مذہب سے احتیاط، سانپ سے احتراز اسی لیے رکھتے ہیں کہ روحانی یا جسمانی ضرر کا اندیشہ ہے۔ خود قرآن عظیم ارشاد فرماتا ہے : آٰباؤکم وابناؤکم لاتدرون ایھم اقرب لکم نفعا ۱؎۔ تمھارے باپ اوت تمھارے بیٹے تم نہیں جانتے ان میں کون تمھیں نفع دینے میں زیادہ نزدیک ہے۔

 

 (۱؎ القرآن        ۴ /۱۱)

 

اور فرماتا ہے: وماھم بضارین بہ من احد الاّباذن اﷲ ۲؎۔ اور وہ  اس سے کسی کو ضرر نہ پہنچائیں گے بے حکم خدا کے۔

 

(۲؎ القرآن        ۲/۱۰۲)

 

صحیح مسلم شریف میں جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی : حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : من استطاع منکم ان ینع اخاہ فلینفعہ ۳؎۔ تم میں جو اپنے بھائی مسلمان کو نفع دے سکے نفع دے۔

 

 (۳؎ صحیح مسلم    باب استحباب الرقیہ من العین الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی        ۲ /۲۲۴)

 

امام احمد و ابوداؤد وترمذی ونسائی و ابن ماجہ بسند حسن مالک بن قیس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، حضور پرنور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : من ضارّ ضار اﷲ بہ ومن شاق شق اﷲ علیہ ۴؎۔ جو کسی کو ضرر دے گا اللہ تعالٰی اسے نقصان پہنچائے گا اور جو کسی پر سختی کرے گا اللہ تعالٰی اسے مشقت میں ڈال دے گا۔

 

 (۴؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی الخیانۃ        نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی   ۱/۲۸۷)

 

حاکم کی حدیث میں ہے مولا علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم نے امیر المومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے حجرِ اسود کی نسبت فرمایا: بلٰی یا امیرالمومنین یضروینفع ۱؎۔ کیوں نہیں اے امیرا لمومنین! یہ پتھر نقصان دے گا اور نفع پہنچائے گا۔ (الحدیث)

 

 (۱؎المستدرک للحاکم    الحجر الاسود یمین اللہ    دارالفکر بیروت    ۱ /۴۵۷)

 

بر تقدیر ثانی واقع ونفس الامر اس گمان کے خلاف پر شاہد عادل، لاکھوں آدمی اپنے یا اپنے محبوب کے سر یا آنکھوں یا جان کی قسم کھاتے ہیں، اور ہر گز ان کے خواب میں بھی یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ چیزیں بالاستقلال ہمارے نفع وضرر کی مالک ہیں۔نہ ہرگز سامع کا ذہن اس طرف جاتا ہے۔ بھلا حضرت نابغۂ جعدی رضی اللہ عنہ کے اس قول کے کیا معنی ہیں: ؂لعمری وما عمری علٰی بھین

لقد نطقت بطلا علیّ الاقارع  (میری زندگی کی قسم، اور میری زندگی کوئی معمولی چیز نہیں__ بلاشبہہ اژدہوں (دشمنوں) نے مجھ پر جھوٹ باندھا ہے۔ ت)

اور جناب کے نزدیک اس سے کیا اعتقاد ظاہر ہوتا ہے__ اسی طرح حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا وغیرھما پیشوایانِ دین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے اپنے باپ اور اپنی جان کی قسم کھانی کہ خادم حدیث پر مخفی نہیں۔

 

سوال (۲۳): خیر قسم غیرسے توآپ کے نزدیک یہ صرف ظاہر ہی ہوتا تھا کہ وہ اپنے عقیدے میں غیر خدا کو بھی نفع وضرر رسان جانتا ہے۔ بگمان جناب اتنی ہی بات پر شرع مطہر میں بنائے تحریم ہوئی حالانکہ اس کے دل کا حال خدا جانے۔ اب ان کی نسبت حکم ارشاد ہو۔ جو صاف صاف بالتصریح غیر خدا کو نہ فقط نفع وضرر رسان بلکہ مالک نفع وضرر بتائیں، اور وہ بھی کسے۔ اس شقی کو جو مدعی الوہیت رہا ہو۔ اور برسوں خرانِ بے عقل نے اسے پوجا ہو۔ وہ کون، فرعون بے عون۔ نسأل اﷲ عن حالہ الصون  (خدا سے دعا ہے کہ ہمیں اس کی حالت سے بچائے۔ ت) شاہ عبد العزیز صاحب اس امر کے ثبوت میں کہ سامری والوں کی گوسالہ پرستی قبطیوں کی فرعون پرستی سے بدتر تھی، تفسیر عزیزی میں فرماتے ہیں:

 

تعظم بادشاہ صاحبِ اقتدار کہ مالک نفع وضرر باشد فی الجملہ وجہ معقولیت دارد۔ گوسالہ لایعقل کہ دربلادت وحمق ضرب المثل است ہیچ وجہ شایان تعظیم نیست۔۱؎ ایسے صاحب اقتداربادشاہ کی تعظیم جو نفع وضرر کامالک ہو فی الجملہ ایک وجہ معقولیت رکھتی ہے مگر بے عقلی گائے کا بچھڑا جو بلادت اور بیوقوفی میں ضرب المثل ہے کسی طرح قابل تعظیم نہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ تفسیر عزیزی  سورۃ البقرۃ  بیان رفتن موسٰی علیہ السلام برائے آورد ن کتاب الخ افغانی دارالکتب لال کنواں دہلی۲۳۸)

 

سوال (۲۴): یہ تو آیندہ عرض کروں گاکہ طلب دعا کو اعتقاد نفع وضرر سے کتنا تعقل۔ بالفعل اسے یونہی فرض کرکے گزارش کرلوں کہ دعا منگوانے میں تووہ اعتقاد نفع وضرر نکلا، جو معنًی شرک۔ حالانکہ وہ خود ان سے کسی حاجت کی خواستگار ی نہیں۔ پھر:

(۱) ان کے مزارات عظیمہ البرکات پر حاضر ہوکر خود ان سے بھیک مانگنا۔

(۲) یا رُوح یا رُوح پکار کر ان کے فیض کا منتظر رہنا۔

(۳) اپنی مشکلوں کا ان سے حل چاہنا۔

(۴) بیمار پڑیں تو شفاء ملنے کوان کی طرف توجہ کرنا کہ ابھی صنفِ سابق میں منقول ہوئے ان میں کتنا اعتقاد نفع و ضرر ثابت ہوتاہے ۔اور

(۵)لفظ انتفاع واستمداد خود بمعنے نفع یافتن وفائدہ خواستن، اس کا قصد بے اعتقاد نفع ، کس عاقل سے معقول، ہاں ہاں، انصا ف کیجئے تودعا طلبی سے دریوزہ گری وحاجت خواہی کہیں زیادہ ہے، اس میں صرف نیت سائل پر مدار تفرقہ ہے۔ اگر سبب ظاہری ومظہر عون باری جا نا تو خالص حق، اور معاذاﷲ مستقل مانا تونرا شرک، بخلاف طلب دعا کہ وہاں نفس کلام مطلوب منہ کی غلامی وبندگی اور حضرت غنی جل جلالہ، کی طرف محتاجی پر دلیل واضح ۔ یہاں تک کہ توہّم استقلال سے اس کا اجتماع محال کما لا یخفٰی علی اولی النہٰی  (جیسا کہ اہل عقل پر مخفی نہیں۔ ت) بااینہمہ اگر یہ شرک ہے تو اس کے لیے تو کوئی لفظ مجھے شرک سے بدتر ملتا بھی نہیں جس کا مصداق ٹھہراؤں ع؎ ضاق عن وصفکم نطاق البیان  (آپ کے وصف سے بیان کا دائرہ تنگ ہے۔ ت)

 

سوال (۲۵): اگر مان بھی لیں کہ غیر خدا کی قسم اس لیے حرام ہوئی تو اس کو مسئلہ دائرہ سے کیا علاقہ۔ کیا کسی سے دعا کے لیے کہنے میں بھی اسی طرح کے نفع وضرر کا اعتقاد ظاہر ہوتا ہے جو معناً شرک ہے۔

(۱) خود مصطفٰی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے دعا چاہی جب وہ مکہ معظمہ جاتے تھے۔ ارشاد فرمایا: لاتنسنا یا اخی من دعانک ۱؎۔ رواہ ابوداؤد عنہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ اے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں نہ بھول جانا ( اسے ابوداؤد نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ (ت)

 

 (۱؎ سنن ابی داؤد    باب الدّعا        آفتاب عالم پریس لاہور    ۱ /۲۱۰)

 

احمد وابن ماجہ کی روایت میں ہے۔ فرمایا : اشرکنا یا اخی فی صالح دعائک ولاتنسنا ۲؎۔ بھائی! اپنی نیک دعا میں ہمیں بھی شریک کرلینا اور بھول نہ جانا۔

 

 (۲؎ سنن ابن ماجہ    باب فضل دعاء الحاج    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۲۱۳)

 

 (۲) حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی عادت کریمہ تھی جب دفنِ میّت سے فارغ ہوتے تو قبر پر ٹھہر کر صحابہ کرام سے ارشاد فرماتے : استغفر والاخیکم واسئلو الہ التثبیت فانہ الاٰن یسأل ۳؎۔ رواہ ابوداؤد والحاکم والبیھقی بسند حسن عن عثمان الغنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے ثابت رہنے کی دعا مانگو کہ اب اس سے سوال ہوگا (اسے ابوداؤد، حاکم اور بہیقی نے بسند حسن حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ (ت)

 

 (۳؎ سنن ابی داؤد    باب الاستغفار    آفتاب علم پریس لاہور    ۲ /۱۰۳)

 

(۳) امام احمد عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہماسے راوی سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا :۔ اذالقیت الحاج فسلم علیہ وصافحہ ومرہ ان یستغفرلک قبل ان یدخل بیتہ فانہ مغفورلہ ؂۴۔ جب تو حاجی سے ملے سلام ومصافحہ کراورقبل اس کے کہ وہ اپنے گھرمیں جائے اپنی مغفرت کی دعااس سے منگواکہ وہ بخشاہواہے ۔

 

 (۴؎ مسند احمد بن حنبل    مروی از عبداللہ ابن عمر دارالفکر بیروت        ۲ /۶۹)

 

 (۴) حضورنے اویس قرنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ذکر کرکے صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم کو حکم دیا: فمن لقیہ منکم فلیامرہ فلیستغفرلہ ۵؎۔ ۤاخرجہ مسلم والبیھقی عن عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ تم میں جو اسے پائے اپنے لیے اس سے دعائے بخشش کرائے۔ اسے مسلم اور بیھقی نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہ سے رروایت کیا ۔ (ت)

 

 (۵؎ صحیح مسلم        فضائل اویس قرنی    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۳۱۱)

 

ایک روایت میں ہے حضرت فاروق کو بالتخصیص بھی حکم ہوا ان سے دعا کرانا کہ وہ اللہ کے حضور عزت والے ہیں، ا خرجہ الخطیب وابن عساکر ۱؎  (اسے خطیب اور ابن عساکر نے روایت کیا۔ ت)

 

 (۱؎ مختصر تاریخ ابن عساکر    فی ترجمہ اویس قرنی        دارالفکر بیروت    ۵ /۸۲)

 

 (۵) حسب الحکم امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے ان سے دعا چاہی ۲؎ ۔ اخرجہ ابن سعد والحاکم وابو عوانہ و الرویانی والبیھقی فی الدلائل وابو نعیم فی الحلیۃ کلھم من طریق اسیربن جابر عن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ اسے بطریق اسیربن جابر حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ابن سعد، حاکم، ابوعوانہ، رویائی، دلائل میں بیھقی ، اور حلیہ میں ابونعیم نے روایت کیا۔ (ت)

 

 (۲؎المستدرک للحاکم    ذکر لقاء اویس قرنی    دارالفکر بیروت    ۳ /۴۰۳)

 

(۶) ایک روایت میں ہے امیر المومنین فاروق وامیر المومنین مرتضٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہما دونوں کو حضرت اویس سے طلب دعا کا حکم تھا۔ دونوں صاحبوں نے اپنے لیے دعاکرائی ۳؎۔ اخرجہ ابن عساکر  (اسے ابن عساکر نے روایت کیا ۔ ت)

 

 (۳؎ مختصر تاریخ ابن عساکر    فی ترجمہ اویس قرنی       دارالفکر بیروت     ۵ /۸۳ و ۸۴)

 

 (۷)امام ابوبکر بن ابی شیبہ استاذ امام بخاری ومسلم اپنے مصنف اور امام بیھقی دلائل النبوۃ کی مجلد یازدہم میں بسند صحیح (عہ۱) بطریق ابومعٰویۃ عن الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار رضی اﷲ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں: قال اصاب الناس قحط فی زمن عمر بن الخطاب فجاء  رجل (عہ۲) الٰی قبر النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقال یا رسول اﷲ استسق اﷲ لا متک فانھم قدھلکوا فاتاہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی المنام فقیل لہ ائت عمر فاقرأہ السلام واخبرہ انکم مستقیون ۱؎ الحدیث ۔ یعنی عہد معدلت مہد فاروقی میں ایک بار قحط پڑا۔ ایک صاحب یعنی حضرت بلال بن حارث مزنی صحابی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے مزار اقدس حضور ملجاء بیکساں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پر حاضر ہو کر عرض کی: یارسول اﷲ! اپنی امت کے لیے اللہ تعالٰی سے پانی مانگئے کہ وہ ہلاک ہوئے جاتے ہیں۔ رحمت عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان صحابی کے خواب میں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا عمر (رضی اللہ عنہ) کے پاس جا کر اسے سلام پہنچا اور لوگوں کو خبر دے کہ پانی آیا چاہتا ہے۔ الحدیث (ت)

 

عہ۱: نص علی صحتہ الاما م القسطلانی فی المواھب ۱۲ منہ (م) امام قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں اس کے صحیح ہونے کی تصریح فرمائی۔ (ت)

 

عہ۲ :ھو بلال بن الحارث المزنی الصحابی کما عند سیف فی کتاب الفتوح۱۲ زرقانی شرح مواہب (م) وہ بلال بن حارث مزنی صحابی ہیں ، جیسا کہ سیف کی کتاب الفتوح میں ہے۱۲ زرقانی شرح مواہب (ت)

 

 (۱؎ مصنف ابن ابی شیبہ    فضائل عمر    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۱۲ /۳۲)

 

شاہ ولی اللہ قرۃ العینین میں یہ حدیث نقل کرکے کہتے ہیں: رواہ ابو عمر فی الاستیعاب ۲؎  (اسے ابو عمر بن عبدالبر نے استیعاب میں روایت کیا۔ ت)

 

(۲؎ قرۃ العینین   نوع چہلم    المکتبۃالسلفیہ، لاہور     ص۱۹ )

 

تنبیہ نبیہ: یہ چند حدیثیں ہیں احیائے حقیقی سے طلب دعا میں۔ اور اموات سے طلب کی قدر ے بحث کہ اصل مسئلہ مسئولہ سائل ہے، ان شاء اللہ تعالٰی مقصدسوم میں مذکور ہوگی۔ یہاں ایک نکتہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو بات شرک ہے اس کے حکم میں احیاء واموات وانس وجن وملائک وغیر ہم تمام مخلوق الٰہی یکساں ہیں کہ غیر خدا کوئی ہو خدا کا شریک نہیں ہوسکتا تو امور شرک میں حیات وموت تفرقہ، جیسا کہ اس طائفہ جدیدہ کا شیوہ قدیمہ ہے۔ دائرہ عقل وشرع دونوں سے خروج، کیا زندے خدا کے شریک ہوسکتے ہیں،صرف شراکت اموات ہی ممنوع ہے۔ مولوی صاحب اپنی مقیس علیہ یعنی قسم غیر کو ملاحظہ کریں کہ حلال نہیں تو مردے زندے کسی کے لیے حلال نہیں، یو نہی اگر طلب دعامیں شرک ہوتو ہرگز یہ حکم فقط اموات سے خاص نہ ہوگابلکہ یقینا احیاء سے دعا کرانی بھی حرام ٹھہرے گی کہ خدا کا شریک نہ ہوسکنے میں زندے مُردے سب ایک سے۔ ولہٰذا شیخ الشیوخ علمائے ہند مولٰنا وبرکتنا سیدی شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی قدس اللہ سرّہ العزیز نے شرح مشکوٰۃ شریف میں فرمایا:

 

اگر ایں معنی کہ درامداد و استمداد ذکر کر دیم موجب شرک و توجہ بماسوائے حق باشد چنانکہ منکر زعم می کہ کند پس باید کہ منع کردہ شود، توسل وطلب دعا ازصالحان و دوستان خدا درحالت حیات نیز وایں ممنوع نیست بلکہ مستحب ومستحسن است باتفاق وشائع است دردین ؂۱۔ یہ معنٰی جو ہم نے امداد اور مدد طلبی میں بیان کیا اگر شرک کا موجب اور غیر کی طرف توجہ قرار پائے ، جیسا کہ منکر خیال رکھتا ہے تو چاہئے کہ صالحین اور اولیاء اللہ سے زندگی میں بھی توسل اور دعا طلبی سے منع کیا جائے حالانکہ یہ ممنوع نہیں بلکہ بالاتفاق مستحب و مستحسن اور دین میں عام ہے۔ (ت)

 

(۱؎ اشعۃ اللمعات    باب حکم الاسراء    فصل اول     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۳ /۴۰۱)

 

عزیز! یہ نکتہ بہت کار آمد ہے، اور اکثر اوہام وشبہات کا رَد۔ فاحفظ تحفظ وتحظی من الرشد با وفی حظ (اسے یاد رکھو گے تومحفوظ رہوگے اور ہدایت سے بھر پور حصہ پاؤگے۔ ت)

 

نوع دوم: مخالفات مولوی صاحب وہم مذہبانِ مولوی صاحب میں۔ یہان اس امرکا ثبوت ہوگا کہ مولوی صاحب کی تحریر مذہب منکرین سے بھی موافق نہیں۔ بوجوہ عدیدہ واصول وفروع طائفہ جدیدہ سے صریح مخالفت اور مذہب مہذب اہل حق سے بعض باتوں میں گونہ موافقت فرمائی ہے۔ پھر یہی نہیں کہ صرف ہم مذہبوں ہی سے خلاف ہوں اور خود مولوی صاحب ان مخالفات کا بخوشی التزام فرمالیں۔ نہیں، نہیں، بلکہ بہت وہ بھی ہیں جونا دانستہ سرزد ہوگئیں کہ ظاہر ہوئے پر خود بھی آپ کو گوارا نہ ہوں۔ اور اگر تسلیم فرمالیں توا س سے کیا بہتر۔ دیکھئے تو،یہیں کتنے مسائل نزاعیہ طے ہوئے جاتے ہیں۔

 

مخالفت (۱): مولوی صاحب فرماتے ہیں: زیارتِ قبور مومنین خاصۃً بزرگان دین مندوب ومسنون ہے۔ یہ خصوصیت ہمارے طور پر بیشک حق، مگر صاحب مائۃ مسائل کے بالکل خلاف۔ انھوں نے جو قسم زیارت شرعاً بلا کراہت جائز مانی اس میں مزاراتِ عالیہ حضرات اولیا اور ہر شرابی زنا کار کی قبر یکساں جانی۔ حیث قال (ان کے الفاظ یہ ہیں): دریں قسم زیارت کر دن قبر ولی وغیر ولی وشہید و غیر شہید وصالح وفاسق وغنی وفقیر برابراسست ۲؎۔ اس قسم میں ولی، غیرو لی، شہید،غیر شہید، صالح، فاسق، غنی اور فقیر سب کی قبر کی زیارت یکساں ہے۔ (ت)

 

(۲؎ مائۃ مسائل   سوال سیزدہم    مکتبہ توحید وسنۃ پشاور    ص۲۴۔ ۲۳)

 

پھر اس برابری پر بھی صبر نہ آیا۔ آگے الٹی ترقی معکوس کرکے فرمایا: بلکہ زیارت قبور اغنیاء وملوک زیادہ ترعبرت حاصل می گردد۔ ۳؎ بلکہ مالداروں اور بادشاہوں کی قبر وں کی زیارت سے زیادہ عبرت حاصل ہوتی ہے۔ (ت)

 

(۳؎ مائۃ مسائل    سوال سیزدہم      مکتبہ توحید وسنۃ پشاور    ص۲۳۔۲۴)

 

مطلب یہ کہ جس (عہ)فائدہ کے لیے شرع نے زیارت قبور جائز کی ہے وہ مزارات اولیاء میں ہر گز ایسا نہیں جیسا روپے والوں کی قبروں میں ہے۔ تو آدمی کو چاہئے کہ وہیں جائے جہاں دو آنے زیادہ پائے، اناّ اﷲ وانا الیہ راجعون

 

عہ:  اقول وباللہ التوفیق ان مرد عاقل محرر مائۃ مسائل سے پوچھنا چاہئے کہ اگر تمھا رابیان حق ہے تو واجب تھا کہ حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اگر قبور اُحد و بقیع پر سوباررونق افروز ہوئے تو باد شاہوں جباروں کے مقابر پر دو سو بار تشریف لے گئے ہوتے تا کہ امت کو اختیار نفع وافضل کی طرف ارشاد فرمائے یا نہ سہی۔برابرہی سہی ، کم ہی سہی، کبھی ہی سہی، ایک ہی بار ثابت کردو کہ حضور اقدس صلی ﷲ تعلی علیہ وسلم کسی بادشاہ کی خاک پر تشریف فرما ہوئے ہوں یا قبرغنی کی بوجہ غناء تخصیص فرمائی ہوپھرسخت عجب ہے کہ جس خاص امرکے لیے حضورنے زیارت قبورجائز فرمائی اس کا حصول جہاں بیشتر اور منفعت شرعیہ اتم واوفر اُسی کو دائماً ترک فرمائیں نہ وہ صحابہ کرام میں ہر گز رواج پائے۔ پھر ہرقرن وطبقہ کے اہل اسلام ہمیشہ زیارت مزارات صلحاء کا اہتمام واعتنا رکھیں ، نہ یہ کہ فلاں بادشاہ یاسیٹھ کی گور پر چلو وہاں نفع زائد ملے گا۔ حق یہ ہے کہ مزارات عالیہ حضرات اولیاء کرام قدست اسرارہم پر امر عبرت میں بھی ترجیح، ممنوع او رمشروعیت زیارت کی غرض اس میں منحصر ہونا قطعاً باطل و مدفوع، خود انھیں حضرت کی مظاہر الحق ترجمہ مشکوٰۃ کی بعض عبارات مقصد سوم میں ملیں گے۔ جوظاہر کردیں گی کہ صاحب مائۃ مسائل نسی ماقدمت یداہ  ( پہلے جو کچھ لکھ چکے اسے بھول گئے۔ ت) واﷲ سبحانہ وتعالٰی علم ۱۲ منہ سلمہ اللہ تعالٰی (م)

 

مخالفت (۲): مولوی صاحب وقت زیارت قبور درود و فاتحہ پڑھ کر اموات کو ثواب بخشنا مند وب ومسنون فرماتے ہیں۔ بہت اچھا، قرآن وحدیث سے درود فاتحہ کی خصوصیت ثابت کردکھائیں، یا قرون ثلاثہ میں اس  تخصیص کا رواج بتائیں، ورنہ ندب واستنان درکنار اصول طائفہ پر کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ فی النار۱؂ میں داخل ٹھہرائیں۔

 

( ۱؎ الدرالمنثور    بحوالہ مسلم وغیرہ    تحت آیت من یھدی اللہ    منشورات مکتبہ آیُۃ اللہ العظمی ایران    ۳ /۱۴۷)

 

مخالفت (۳): سوال سائل میں درود وفاتحہ دونوں کامعاً پڑھنا مذکورتھااور اسی پرحضرت کا جواب وراد۔ بالفرض اگر فرد اً فرداً ان کا پڑھنا ثابت بھی فرمالیں تواصول طائفہ پرہیأت اجتماعیہ محل میں کلام رہیں گے۔ اس بناپر آپ کو حکم بدعت دینا تھا۔ یا تسلیم فرمائیے کہ بعد حسن احادحسن مجموعہ میں کلام نہیں جب تک خصوصی اجتماع میں کوئی مفسدہ نہ ہو۔

مخالفت (۴): متکلمین طائفہ کی تقریریں گواہ کہ جو فعل فی نفسہٖ حسن ہو مگر عوام میں ان کے زعم پر خلط مفاسد کے ساتھ جاری۔ وہ اصل کو ممنوع ٹھہراتے ہیں، نہ کہ مفاسد سے منع۔ او راصل کی تجویز کریں، جب آپ کے نزدیک زیارت مزارات متبرکہ بطور شرک رائج کہ استمداد مذکورشائع وشہور۔ تو اصول طائفہ پراصل زیارت کو حرام کہنا تھا۔ نہ مندوب ومسنون۔

 

مخالفت (۵): مولوی اسحاق مائۃ مسائل میں لکھتے ہیں: اذان دادن بعد از دفن بدعت ومکروہ است زیر اکہ معہود از سنت نیست وانچہ معہود از سنت نیست بموجب روایات کتب فقہ مکروہ می باشد۔ وعبارۃ الکتب ھذا یکرہ عند القبر مالم یعھد من السنۃ والمعھود منھا لیس الازیارتہ والدعاء عندہ قائما کما فی فتح القدیر والبحر الرائق والنھر الفائق والفتاوی العالمگیری۱؎۔ دفن کے بعد اذان دینا بدعت اور مکروہ ہے اس لےے کہ سنت سے معہود نہیں۔ اور جو کچھ سنت سے معہود نہ ہو کُتب فقہ کی روایات کے مطابق مکروہ ہوتا ہے اور کتابوں کی عبارت یہ ہے قبر کے پاس جو سنت سے معہود نہیں مکروہ ہے۔ا ور سنت سے معہود صرف یہ ہے کہ زیارت اور وہاں کھڑے ہو کر دعا ہو جیساکہ فتح القدیر، البحرالرائق، النہر الفائق اور فتاوٰی عالمگیری میں ہے (ت)

 

(۱؎ مائۃ مسائل    سوال بست وہشتم    مکتبہ توحید وسنت پشاور    ص۶۹)

 

اگر چہ ان عبارات کا مطلب جو صاحبِ مائۃ مسائل نے ٹھہرایا انھیں کتابوں کی بہت عبارتوں سے مردود۔ مگر عجب ہے کہ جناب نے اس کلیہ پر عمل فرما کر وقتِ زیارت درود وفاتحہ پڑھ کر ثواب بخشنے کو کیوں نہ مکروہ فرمایا:

مخالفت (۶):جناب نے امتناع رویت وسماع کوان حجب عدیدہ کی حیلولت پر مبنی فرمایا یہ ابتنٰی باعلی ندامنادی کہ اموات کو فی انفسہم قوت سمع وابصار حاصل ہے مگر ان حائلوں کے سبب باہر کی صوت وصورت کا ادراک نہیں ہوتا ورنہ اگر خود ان میں راساً یہ قوتیں نہ ہوتیں تو بنائے کار حیلولت پر رکھنی محض بے معنی، دیوار بیت کی نسبت کوئی نہ کہے گا کہ باہرکی چیزیں اس وجہ سے نہیں دیکھتے کہ بیچ میں آڑ ہے۔ اب متکلمین طائفہ سے استفسار ہوجائے کہ وہ اس تخصیص کے مقرہوں گے یا راساً منکر۔ معلم ثانی منکرین ہند یعنی مولوی اسحاق دہلوی سے سوال ہوا: سماعت موتٰی سوائے سلام جائزاست  (سوائے سلام کے مردے کا سننا جائز ہے؟۔ ت) جواب دیا ثا بت نیست ۲؎  ( ثابت نہیں۔ ت) کیا آدمی اسی وقت میّت ہوتا ہے جب قبر میں رکھ کر مٹی دے دیں

 

(۲؎ مائۃ مسائل    سوال بست وششم    مکتبہ توحید وسنت پشاور    ص۵۰،۵۱ )

 

مخالفت (۷): جب آپ کے نزدیک مانع ادراک حیلولت خاک۔ تو جب تک مٹی نہ دی ہو یا جہاں دفن ہے اس طرح کرتے ہوں کہ باہرکی آواز اندر جانے سے روک نہ ہو، جیسے علامہ ابن الحاج مدخل میں اہل مصر کا رواج بتاتے ہیں کہ اموات کی قبریں نہیں بناتے بلکہ تہ خانوں میں رکھ کر آتے ہیں اور ان کے لیے دروازوے ہوتے ہیں جب چاہو اندر جاؤ باہر آؤ۔ وہاں کے لیے حکم الٰہی ارشاد ہو۔ اگر ایسی جگہ کوئی یوں پکارے اور اموات سے دعا کرنے کو کہے تو قطعاً مشرک یا شائبہ وشبہہ شرک میں گرفتار ہوگا یا نہیں، متکلمین طائفہ تو ہر گز نہ مانیں گے آپ اپنے کلام کا لحاظ فرمائیں۔

 

مخالفت (۸): الحمد اللہ کہ جناب کا طرز کلام اول سے آخرتک شاہد عدل کہ آیت کریمہ انک لاتسمع الموتٰی ۱؎ کو نفی سماع سے کچھ علاقہ نہیں، نہ ہر گز اس سے یہ مفہوم۔ ورنہ کلام جناب کلام اللہ کے صریح خلاف ہوگا۔

 

(۱ ؎ القرآن            ۲۷ /۸۰ )

 

اوّلاً آیہ کریمہ یقینا عام، پس اگر اس سے نفی سماع مستفاد ہو توقطعاً سلب کلی پردلالت کرے گی ۔ پھر آپ ارشاد ربّانی کے خلاف بعض اموات کے لیے ایجاب کیونکر کہہ سکتے ہیں۔

ثانیاً اس تقدیر پر مفاد آیت یہ ہو گاکہ نفس موت منافی سماع ہے۔ نہ یہ کہ موتٰی کو اصل قوت حاصل اور عدم ادراک بوجہ حائل۔ پھر آپ کیونکر برخلاف قرآن حیلولت حجب پر بنائے کار رکھتے ہیں۔

 

لا جرم واضح ہوا کہ آیہ کریمہ کے صحیح معنی ذہن سامی میں ہیں اور آپ خوب سمجھ چکے ہیں کہ اس میں نفی سماع کا اصلاً ذکر نہیں کما ھوا الحق الناصع  (جیسا کہ یہی حق خالص ہے۔ ت) اور عجب نہیں کہ اسی لیے آپ نے آیہ کریمہ کا ذکر نہ فرمایا، ورنہ اسی کے ہوتے بیگانہ باتوں کی کیا حاجت ہوتی۔ لہٰذا فقیر نے بھی اس بحث کو بشرطیکہ مولوی صاحب جواب میں اس کی طرف رجعت فرمائیں جو اب الجواب پرمحمول رکھا۔

 

واﷲ الموفق۔

 

مگر از انجا کہ مقام خالی نہ رہے بتو فیقہ تعالٰی بعض جوابوں کی طرف اشارہ کروں۔ فاقول وباﷲ استعین  (میں تو کہتا ہوں اور خدا ہی سے مدد کا طالب ہوں۔ ت)

 

جواب اوّل: آیت کا صریح منطوق نفیِ اسماع ہے۔ نہ نفی سماع، پھرا سے محل نزاع سے کیا علاقہ۔ نظیر اس کی آیہ کریمہ انک لا تھدی من احببت ۲؎ ہے۔

 

(۲ ؎ القرآن       ۲۸ /۵۶)

 

اسی لیے جس طرح وہاں فرمایا ولکن اﷲ یھدی من یشاء ۳؎ یعنی لوگوں کا ہدایت پانانبی کی طرف سے نہیں خدا کی طرف سے ہے۔

 

(۳ ؎ القرآن    ۲ /۲۷۲)

 

یو نہی یہاں بھی ارشاد ہوا: ان ا ﷲ یسمع من یشاء ۱؎  (بیشک اللہ جسے چاہتاہے سناتا ہے۔ ت) وہی حاصل ہو ا کہ اہل قبور کا سُننا تمھاری طرف سے نہیں اللہ عز وجل کی طرف سے ہے۔

 

( ۱؎ القرآن       ۳۵ /۲۲)

 

مرقاہ شرح مشکوٰۃ میں ہے: الاٰیۃ من قبیل انک لا تھدی من احببت ولکن اﷲ یھدی من یشاء ۲؎۔ یہ آیت اس آیت کی قبیل سے ہے۔ بیشک تم ہدایت نہیں دیتے مگر خدا دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ مرقاۃ المصا بیح    باب حکم الاسراء  مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ    ۷ /۵۱۹)

 

جواب دوم: نفی سماع ہی مانو تو یہاں سے سماع قطعاً بمعنی سمعِ قبول وانتفاع ہے۔ باپ اپنے عاق بیٹے کو ہزار بار کہتا ہے ، وہ میری نہیں سنتا۔ کسی عاقل کے نزدیک اس کے یہ معنی نہیں کہ حقیقۃً کان تک آواز نہیں جاتی۔ بلکہ صاف یہی کہ سنتا توہے، مانتا نہیں، اور سننے سے اسے نفع نہیں ہوتا، آیہ کریمہ میں اسی معنے کے ارادہ پر ہدایت شاہدکہ کفار سے انتفاع ہی کا انتفا ہے نہ کہ اصل سماع کا ۔ خود اسی آیہ کریمہ انک لا تسمع الموتٰی کے تتمہ میں ارشاد فرماتا ہے عزو جل : ان تسمع الامن یومن باٰیٰتنا فہم مسلمون ۳؎۔ تم نہیں سناتے مگر انھیں جو ہماری آیتوں پر یقین رکھتے ہیں تو وہ فرمانبردار ہیں۔

 

(۳؎ القرآن        ۲۷ /۸۱)

 

اورپُر ظاہر کہ پندو نصیحت سے نفع حاصل کا وقت یہی زندگی دنیا ہے۔ مرنے کے بعد نہ کچھ ماننے سے فائدہ نہ سننے سے حاصل قیامت کے دن سہی کافر ایمان لے آئیں گے ، پھر اس سے کیا کام الاٰن وقد عصیت قبل ۴؎  (کیااب جبکہ اس سے پہلے نافرمان ہے۔ ت)

 

 (۴؎القرآن      ۱۰ /۹۱)

 

توحاصل یہ ہو کہ جس طرح اموات کو وعظ سے انتفاع نہیں، یہی حال کافروں کا ہے کہ لاکھ سمجھائیے نہیں مانتے۔ علاّمہ حلبی نے سیرت انسان العیون میں فرمایا: السماع المنفی فی الایت بمعنی السماع النافع وقد اشار الٰی ذلک الحافظ الجلال السیوطی بقولہ ؎ آیت میں جس سننے کی نفی کی گئی ہے وہ سماع نافع کے معنی میںہے،اور اس کی طرف حافظ جلال الدین السیوطی نے اپنے اس کلام سے اشارہ فرمایا ہے: ؎ سماع موتی کلام الخلق قاطبۃ                                                                                    قد جاءت بہ عندنا الا ثار فی الکتب

واٰیت النفی معناھا سماع ھدی        لایقبلون ولایصغو ن للادب ۱؎۔ مردوں کاکلام مخلوق سننا حق ہے، اس سے متعلق ہمارے پاس کتابوں میں آثار وارد ہیں۔

اور آیت نفی کامعنی سماع ہدایت ہے یعنی وہ قبول نہیں کرتے اور ادب کی بات پر کان نہیں دھرتے۔ (ت)

 

 (۱؎ السیرۃ الحلبیۃ    باب غزوۃ الکبرٰی        المکتبۃ الاسلامیۃ بیروت    ۲ /۱۸۲)

 

امام ابوالبرکات نسفی نے تفسیر مدارک التنزیل میں زیر آیہ سورہ فاطر میں فرمایا: شبہ الکفار بالموتی حیث لا ینتفعون بمسموعھم ۲؎۔ کفار کو مُردوں سے تشبیہ دی اس لحاظ سے کہ وہ جو سنتے ہیں اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ (ت)

 

 (۲؎تفسیر مدارک التنزیل    تحت سورہ ۳۵ آیت ۲۲    دارالکتاب العربیۃ بیروت    ۳ /۳۳۹)

 

مولانا علی قاری نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا: النفی منصب علی نفی النفع لاعلی مطلق السمع ۳؎۔ مطلق سننے کی نفی نہیں بلکہ معنٰی یہ ہے کہ ان کاسننا نفع بخش نہیں ہوتا۔ (ت)

 

 (۳؎ مرقاۃ المصابیح    باب حکم الاسراء        مکتبۃ حبیبیہ کوئٹہ        ۷ /۵۱۹)

 

حدیث (۱): امام اجل عبدا للہ بن مبارک وا بوبکر بن ابی شیبہ عبداللہ عہ  بن عمر وبن عاص رضی اﷲ تعالٰی عنہما

عہ  صحابی ابن صحابی رضی اﷲ تعالٰی عنہما ۱۲ منہ (م)

سے موقوف اور امام اجل احمد بن حنبل اپنی مسند اور طبرانی معجم الکبیر اور حاکم صحیح مستدرک اور ابو نعیم حلیہ میں بسند صحیح حضور پر نور سید عالم صلی ا ﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے مرفوعاً راوی: والموقوف ابسط لفظا واتم معنی وانت تعلم انہ فی الباب کمثل المرفوع وھذا لفظ امام ابن المبارک قال ان الدنیا جنۃ الکافر وسجن المؤمن وانما مثل المؤمن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی سجن فاخرج منہ فجعل یتقلب فی الارض ویتفسح فیھا۱؎۔

 

 (اور حدیث موقوف لفظاً زیادۃ مبسوط اور معناً زیادہ تام ہے۔ اور معلوم ہے کہ اس باب میں موقوف بھی مرفوع کا حکم رکھتی ہے۔ اور یہ روایت امام ابن مبارک کے الفاظ ہیں۔ ت) بیشک دنیا کافر کی جنت اور مسلمان کی زندان ہے، اور ایمان والے کی جب جان نکلتی ہے توا س کی کہاوت ایسی ہے جیسے کوئی قید خانہ میں تھا اب اس سے نکال دیا گیا کہ زمین میں گشت کرتاا ور بافراغت چلتا پھرتا ہے۔

 

 (۱؎ کتاب الزہد لابن مبارک    حدیث ۵۹۷     دارالکتب العلمیۃ بیروت    ص۲۱۱)

 

ولفظ ابی بکر ھکذا الدنیا سجن المومن وجنۃ الکافر فاذا مات المومن یخلی سربہ یسرح حیث شاء ۲؎۔  (اور روایت ابوبکر کے الفاظ یہ ہیں۔ ت) دنیا مسلمان کا قید خانہ او رکافر کی بہشت ہے۔ جب مسلمان مرتاہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے سیر کرے۔

 

  (۲؎ المصنف لا بن ابی شیبۃ    حدیث ۱۶۵۷۱   ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی۱۳ /۳۵۵)

 

حدیث (۲): سیدی محمد علی ترمذی انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ماشبھت خروج المومن من الدنیا الامثل خروج الصبی من بطن امہ من ذٰلک الغم والظلمۃ الٰی روح الدنیا ۳؎۔ یعنی دنیا سے مسلمان کا جانا(عہ)  ایسا ہے جیسے بچے کا ماں کے پیٹ سے نکلنا اس دم گٹھنے اور اندھیری کی جگہ سے اس فضائے وسیع دنیا میں آنا۔

 

 (۳؎ نوادر الاصول    الاصل الثالث والخمسون فی ان الکبائر لاتجامع    دارصادر بیروت    ص۷۵)

 

عہ فائدہ: اسی کے موید دو ۲ حدیثین اور ہیں مرسل سلیم بن عامر و بن دینار سے اخرجھا ابن ابی الدنیا  (ابن ابی الدنیا نے ان دونوں کو روایت کیا ہے۔ ت) (م)

 

اسی لیے علماء فرماتے ہیں دنیا کو برزخ سے وہی نسبت ہے جو رحمِ مادر کو دنیا سے۔ پھر برزخ کو آخرت سے یہی نسبت ہے جو دنیا کو برزخ سے ۔ اب اس سے برزخ ودنیا کے علوم و ادراک میں فرق سمجھ لیجئے، وہی نسبت چاہئے جو علم جنین کو علکم اہل دنیا سے، واقعی روح طائر ہے اور بدن قفس،ا ور علم پرواز، پنجرے میں پرند کی پَر فشانی، کتنی؟ ہاں، جب کھڑکی سے باہر آیا اس وقت اس کی جو لاناں قابل دید ہیں،

 

حدیث (۳): صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ابو سعید خُدری رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا وصف الجنازہ واحتملھا الرجال علٰی اعناقھم، فان کانت صالحۃ قالت قد مونی وانکانت غیر صالحۃ قالت لاھلہا یا ویلھا ان تذھبو بھا بسمع صوتھا کل شیئ الا الانسان ولو سمع الانسان لصعق۱؎۔ جب جنازہ رکھا جاتا ہے اور مرد اسے اپنی گردنوں پر اٹھا تے ہیں، اگر نیک ہوتا ہے کہتا ہے مجھے آگے بڑھاؤ، اور اگر بد ہوتاہے کہتا ہے ہائے خرابی اس کی کہاں لیے جاتے ہو، ہرشے اس کی آواز سنتی ہے مگر آدمی کہ وہ آدمی وہ سُنے تو بیہوش ہوجائے۔ (ت)

 

(۱؎صحیح البخاری        باب قول المیّت وھو علی الجنازۃ         قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۷۶)

 

اقول اگر چہ اہلسنت کا مسلک ہے کہ نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول ہوں گے۔ جب تک کہ اس میں محذور نہ ہو۔ لہذا ہم اس کلامِ جنازہ کو یوں بھی کلام حقیقی پر محمول کرتے ہیں، مگر بحمد اﷲ مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ان پچھلے لفظوں سے نص کر مفسر فرمادیا کہ ہر شے اس کی آواز سنتی ہے اب کسی طرح مجال تاویل وتشکیک باقی نہ رہی، وﷲ الحمد!

 

حدیث (۴): ابو داؤد طیالسی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲتعالٰی عنہ سے مرفوعاً روایت کیا: اذا وضع المیّت علٰی سریرہ   ۲؎۔ الحدیث مانند حدیث ابوسعید رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 

 (۲؎ مسند ابی داؤد الطیالسی    حدیث ۲۳۳۶            دارالفکر بیروت    ص۳۰۷)

 

حدیث (۵): امام احمد وابن ابی الدنیا وطبرانی ومروزی وابن مندہ ابو سعید خدری رضی ا ﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ان المیّت یعرف من یغسلہ ویحملہ ومن یکفنہ ومن یدلیہ فی حفرتہ ۳؎ ۔ بیشک مُردہ پہچانتا ہے اسے کو غسل دے اور جو اٹھائے اور جو کفن پہنائے او رجو قبر میں اتارے۔ (ت)

 

 (۳ ؂ مسند احمد بن حنبل    مروی از ابو سعید خدری    دارالفکر بیروت        ۳/۳)

 

حدیث (۶): ابوالحسن بن البراء کتاب الروضہ میں بسند خود عبدا للہ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، سرور عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: مامن میّت یموت الاوھو یعرف غاسلہ وینا شد حاملہ ان کان بُشّر بروح وریحان وجنۃ نعیم ان یجعلہ وان کان بشر بنزل من حمیم وتصلیۃ جحیم، ان یحبسہ ۱؎۔ ہر مردہ اپنے نہلانے والے کو پہچانتاا ور اٹھانے والے کو قسمیں دیتا ہے اگر اسے آسائش اور پھولوں اور ارام کے باغ کا مژدہ ملا، تو قسم دیتا ہے مجھے جلد لے چل، اور اگر آبِ گرم کی مہمانی اور بھڑکتی آگ میں جانے کی خبر ملتی ہے قسم دیتا ہے مجھے روک رکھ۔

 

 (۱؎ شرح الصدور    بحوالہ کتاب الروضۃ        باب معرفۃ المیّت من یغسلہ    خلافت اکیڈمی سوات    ص۳۹)

 

حدیث (۷): ابن ابی الدنیا کتاب القبور میں حضرت امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی ، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: مامن میّت یوضع عیل سریرہ فیخطی بہ ثلٰچ خطوات الاتکلم بکلام یسمع من شاء اﷲ الاّ الثقلین الجن والانس یقول یا اخوتاہ ویاحملۃ نعشاہ لاتغر نکم الدنیا کما غرتنی ولا یلعبن بکم الزمان کما لعب بی خلفت ما ترکت لورثتی والدیان یوم القٰیمۃ یخاصمنی ویحاسبنی وانتم تشیعونی وتدعونی ۲؎۔ جب مردے کو جنازہ پر رکھ کرتین قدم لے چلتے ہیں ایک کلام کرتاہے جسے سب سنتے ہیں، جنھیں خدا چاہے سوا جن وانس کے، کہتا ہے اے بھائیو! اے نعش اٹھانے والو! تمھیں دنیا وفریب نہ دے جیسا مجھے دیا اور تم سے نہ کھیلے جیسا مجھ سے کھیلی، اپنا تر کہ تو میں وارثوں کے لیے چھوڑ چلا اور بدلہ دینے ولاقیامت میں مجھ سے جھگڑے گا اور حساب لے گا۔ تم میرے ساتھ چل رہے اور اکیلا چھوڑ آؤ گے۔

 

 (۲؎ شرح الصدور        کتاب القبور لا بن ابی الدنیا    باب معرفۃ المیّت من یغسلہ    خلافت اکیڈمی سوات ص۴۰)

 

حدیث (۸): ابن مندہ راوی، حِبّان بن ابی جبلہ (عہ)نے فرمایا: بلغنی ان رسول اﷲ صـلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال ان الشھید اذا استشھد انزل اﷲ تعالٰی جسد اکاحسن جسد ثم یقال لروحہ ادخلی فیہ فینظر الٰی جسدہ الا ول مایفعل بہ ویتکلم فیظن انھم یسمعون کلامہ وینظر الیھم فیظن انھم یرونہ حتی یاتیہ ارواجہ یعنی من الحور العین فیذھبن بہ ۱؎۔ مجھے حدیث پہنچی کہ سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: شہید کے لیے جسم نہایت خوبصورت  یعنی اجسامِ مثالیہ سے اتر تاہے اور اس کی روح کو کہتے ہیں اس میں داخل ہو، پس وہ اپنے بدن کو دیکھتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں اور کلام کرتا ہے اور اپنے ذہن میں سمجھتاہے کہ لوگ اس کی باتیں سن رہے ہیں، اور آپ جو انھیں دیکھتا ہے تو یہ گمان کرتا ہے کہ لوگ بھی اسے دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ حور عین میں سے اس کی بیبیاں آکر اسے لے جاتی ہیں (ت)

 

عہ: یہ تابعی ثقہ ہیں رجال بخاری سے، کتاب الادب المفرد میں ۱۲ منہ (م)

 

(۱؎ شرح الصدور     بحوالہ ابن مندہ باب مقرالارواح    خلافت اکیڈمی سوات    ص۱۰۳)

 

حدیث (۹): ابن ابی الدنیا وبہیقی سعید بن مسیب سے راوی: ان سلمان الفارسی وعبداﷲ بن سلام التقیا فقال احدھما لصاحبہ ان لقیت ربک قبلی فاخبرنی فی ماذا لقیت، فقال اوتلقی الاحیاء الاموات، قال نعم اماالمومنون فان رواحہ فی الجنۃ وھی تذھب حیث شاءت ۲؎ ۔ سلمان فارسی وعبداﷲ بن سلام رضی اﷲ تعالٰی عنہما ملے، ایک صاحب نے دوسرے سے فرمایا: اگر آپ مجھ سے پہلے انتقال کریں تو مجھے خبر دیں کہ وہاں کیا پیش آیا، دوسرے صاحب نے پوچھا کہ کیا زندے اور مردے بھی آپس میں ملتے ہیں؟ فرمایا: ہاں مسلمانوں کی روحیں توجنت میں ہوتی ہیں اور انھیں اختیار ہوتا ہیے جہاں چاہے جائیں۔

 

 (۲؎ شعب الایمان    حدیث ۱۳۵۵         دارالکتب العلمیہ بیروت    ۲ /۱۲۱)

 

مغیرہ بن عبدالرحمان کی روایت میں تصریح آئی کہ یہ ارشاد فرمانے والے حضرت سلمان عہ فارسی تھے رضی اﷲ تعالٰی عنہ ۔ سعید بن منصور اپنے سُنن اور ابن جریرطبری کتاب الادب میں ان سے راوی:

 

عہ  صحابی ،عظیم الشان الجلیل القدر صحابی ان چاروں میں سے جن کی طرف  جنت مشتاق ہے ۱۲ منہ سلمہ (م)

 

قال لقی سلمان الفارسی عبداﷲ بن سلام فقال لہ ان مت قبلی فاخبرنی بما تلقی، وان مت قبلک اخبرتک الحدیث ۳؎۔ یعنی سلمان فارسی نے عبداﷲبن سلام سے فرمایا: اگر تم مجھ سے پہلے مرو تو مجھ خبردینا کہ وہاں کیا پیش آیاا ور اگر میں تم سے پہلے مروں گا تومیں تمھیں خبردونگا۔

 

(۳؎ شرح الصدو ر    بحوالہ کتاب الادب لابن جریر    خلافت اکیڈمی سوات    ص۹۸)

 

حدیث (۱۰): ابن ابی شیبہ استادِ بخاری ومسلم اپنے مصنف میں سیدنا ابوہرہ عہ ۱  رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی کہ انھوں نے فرمایا: لا یقبض المومن حتٰی یری البشرٰی فاذا قبض نادی فلیس فی الدار دابۃ صغیرۃ ولاکبیرۃ الاﷲ وھی تسمع صوتہ الاّ الثقلین الجن والانس، تعجلو ابی الٰی ارحم الراحمین فاذا وضع علٰی سریرہ قال ما ا بطاء ماتمشون ۱؎۔الحدیث مسلمانوں کی روح نہیں نکلتی جب تک بشارت نہ دیکھ لے۔ پھر جب نکل چکتی ہے تو ایسی آواز میں جسے انس وجن کے سوا گھر کا ہر چھوٹا بڑا جانور سنتا ہے۔ ندا کرتی ہے مجھے لے چلو ارحم الراحمین کی طرف، پھر جب جنازے پر رکھتے ہیں کہتی ہے کتنی دیر لگارہے ہو چلنے میں۔ الحدیث۔

 

عہ ۱: صحابی، جلیل القدرر فیع الذکر ہیں جن کی عام شہرت ان کی تعریف سے مغنی ۱۲ منہ (م)

 

 (۱؎ مصنف ابن ابی شیبہ    کتاب الذہد کلام ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۳ ۱ /۳۴۸)

 

حدیث (۱۱): امام احمد کتاب الزہد میں ام الدرداء( عہ۲) رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی کہ فرماتیں:

 

عہ ۲: یہ دو خاتونو ں کی کنیت ہے دونوں حضرت ابودرداء صحابی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی بیبیاں ہیں، پہلی کبرٰی کہ صحابیہ ہیں خیرہ نام،دوسری صغرٰی تابعیہ ثقہ فقیہ مجتہدہ رواۃ صیاح ستہ سے ہجمیہ نام رضی اﷲ تعالٰی عنہا ۱۲ منہ (م)

 

ان المیّت اذا وضع عی سریرہ فانہ ینادی یااھلاہ ویاجیراناہ ویا حملۃ سریراہ لاتغرنکم الدنیا کما غرتنی ۲؎الحدیث۔ بیشک مردہ جب چا رپائی پر رکھا جاتاہے  پکارتا ہے اے گھروالو، اے ہمسایوں، اے جنازہ اٹھانے والو! دیکھو دنیا تمھیں دھوکا نہ دے جیسا مجھے دیا۔

 

(۲؎ شرح الصدو ر    بحوالہ کتاب الزہد لاحمد    باب معرفۃ المیّت    خلافت اکیڈمی سوات   ص۴۰)

 

حدیث (۱۲): ابن ابی الدنیا امام مجاہد( عہ۳) رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ سے راوی:

 

عہ ۳: تابعی جلیل الشان امام مجتہد مفسر ثقہ علماء مکہ معظمہ واجلہ تلامذہ عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے سب صحاح میں ان سے روایت ہے ۱۲ منہ (م)

 

اذامات المیّت فملک قابض نفسہ فما من شیئ الا وھویراہ عند غسلہ وعند حملہ حتی یوصلہ الٰی قبرہ ۳؎۔ جب مردہ مرتا ہے ایک فرشتہ اس کی روح ہاتھ میں لیے رہتا ہے، نہلاتے اٹھاتے وقت جو کچھ ہوتا ہے وہ سب دیکھتا جاتاہے یہاں تک کہ فرشتہ اسے قبر تک پہنچا دیتا ہے۔

 

 (۳؎ شرح الصدور بحوالہ ابن ابی الدنیا     باب معرفۃ المیّت      خلافت اکیڈمی سوات        ص ۳۹)

 

حدیث (۱۳): وہی عمر وبن دینار عہ ۱ رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ سے راوی:

 

عہ۱:  یہ بھی تابعی جلیل ثقہ ثبت ہیں علماء مکہ معظمہ ورجال صحاح ستہ سے ۱۲ منہ (م)

 

مامن المیّت یموت الاّ وھو یعلم مایکون فی اھلہ بعدہ وانھم یغسلونہ ویکفونہ وانہ لینظر الیھم ۱؎۔ ہر مردہ جانتا ہے کہ اس کے بعد اس کے گھر والوں میں کیا ہورہا ہے لوگ اسے نہلاتے ہیں کفناتے ہیں اور وہ انھیں دیکھتا جاتا ہے۔

 

 (۱؎شرح الصدو ر    بحوالہ عمر و بن دینار    باب معرفۃ المیّت    خلافت اکیڈمی سوات        ص۳۹)

 

حدیث (۱۴): ابو نعیم انہیں  سے راوی: مامن  میّت یموت الاروحہ فی ید ملک ینظر الی جسدہ کیف یغسل وکیف یکفن وکیف یمشی بہ ویقال لہ وھو علٰی سریرہ اسمع ثناء الناس علیک ۲؎۔ ہر مردے کی روح ایک فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ اپنے بدن کو دیکھتی جاتی ہے کیونکرغسل دیتے ہیں، کس طرح کفن پہناتے ہیں، کیسے لے کر چلتے ہیں اور وہ جنازے پر ہوتا ہے کہ فرشتہ اس سے کہتا ہے سن تیرے حق میں بھلا یا بُرا کیا کہتے ہیں۔

 

 (۲؂حلیۃ الاولیاء    مترجم نمبر ۲۴۶       دارالکتاب العربی بیروت    ۳ /۳۴۹)

 

حدیث (۱۵): امام ابوبکر عبداﷲ بن محمد بن عبید ابن ابی الدنیا کہ امام ابن ماجہ صاحب سنن کے استاد ہیں امام اجل بکرعہ ۲ بن عبداﷲ مزنی  رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ سے راوی کہ انھوں نے فرمایا:

 

عہ ۲: تابعی جلیل ثقہ ثبت ہیں رواۃ صحاح ستہ سے ۱۲ منہ سلمہ ربہ (م)

 

بلغنی انہ مامن میّت یموت الاوروح فی ید ملک الموت فھم یغسلونہ ویکفنونہ وھو یرٰی مایصنع اھلہ فلم یقدر علی الکلام لینھا ھم عن الرنۃ والعویل ۳؎ ۔ مجھے حدیث پہنچی کہ جو شخص مرتا ہے اس کی روح ملک الموت کے ہاتھ میں ہوتی ہے، لوگ اسے غسل وکفن دیتے ہیں اور وہ دکھتا ہے کہ اس کے گھر والے کیا کرتے ہیں، وہ ان سے بول نہیں سکتا کہ انھیں شور وفریاد سے منع کرے۔

اقول اس نہ بولنے کی تحقیق زیر حدیث ۳۵ مذکور ہوگی، ان شاء اللہ تعالٰی۔

 

 (۳؎ شرح الصدو ر    بحوالہ ابن ابی الدنیا    باب معرفۃ المیّت    خلافت اکیڈمی سوات     ص۴۰۔ ۳۹)

 

حدیث (۱۶): یہی امام سفیان ( عہ۱) علیہ رحمۃ المنان سے راوی :

 

عہ۱ : تبع تابعین ومجتہدان کو فہ ورجال ستہ سے ہیں، امام ثقہ حجت محدّث مجتہد عارف باللہ ۱۲ منہ (م)

 

ان المیّت لیعرف کل شی حتی انہ لینا شد غاسلہ باﷲ الاخففت علی قال ویقال لہ وھو علٰی سریرہ اسمع ثناء الناس علیک ۱؎۔ بیشک مردہ ہر چیز کو پہچانتا ہے یہاں تک کہ اپنے نہلانے والے کو خدا کی قسم دیتا ہے کہ آسانی سے نہلانا، اور یہ بھی فرمایا کہ اس سے جنازے پر کہا جاتا ہے کہ سن لوگ تیرے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

 

 (۱؎ شرح الصدو ر    عن سفیان        باب معرفۃ المیّت    خلافت اکیڈ می سوات    ص۴۰)

 

حدیث (۱۷): یہی عبدالرحمن بن ابی لیلٰی ( عہ۲) علیہ رحمۃ اللہ وسبحانہ وتعالٰی سے راوی:

 

عہ۲ : یہ تابعی عظم القدر جلیل الشان میں رجال صحاح ستہ سے ۱۲ منہ (م)

 

الروح بید ملک بمشی بہ مع الجنازۃ یقول لہ اسمع ما یقال لک ۲؎الحدیث ۔ روح ایک فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ اسے جنازہ کے ساتھ لے کر چلتااور اس سے کہتا ہے سن تیرے حق میں کیا کہا جاتا ہے۔

 

 (۲؎ شرح الصدو ر       بحوالہ ابن ابی الدنیا    باب معرفۃ المیّت  خلافت اکیڈ می سوات ص۴۰)

 

حدیث (۱۸): یہی ابن ابی نجیح ( عہ۳) سے راوی :

 

عہ۳ : تبع تابعین وعلمائے مکہ ورواۃِ صحاح ستہ سے ۱۲ منہ (م)

 

مامن میّت یموت الاروحہ فی یدر ملک ینظر الٰ جسد ہ کیف یغسل وکیف یکفن وکیف یمشی بہ الٰی قبرہ ۳؎ الحدیث۔ جو مردہ مرتا ہے اس کی روح ایک فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ اپنے بدن کو دیکھتی ہے کیونکر نہلایا جاتا ہے، کیونکر کفن پنایا جاتا ہے،کیونکر قبر کی طرف لے کر چلتے ہیں۔

 

 (۳؎ شرح الصدو ر    عن ابن نجیح    باب معرفۃ المیّت    خلافت اکیڈ می سوات    ص۴۰)

 

حدیث (۱۹): یہی ا بو عبداللہ بکر مزنی( عہ۴) رحمۃ اللہ علیہ سے راوی:

 

عہ۴:  تابعی جلیل القدر کمامر ۱۲ منہ (م)

 

حدثت ان المیّت لیستبشر بتعجیلہ الی المقابر ۱؎۔ مجھ سے حدیث بیان کی گئی ہے کہ دفن میں جلدی کرنے سے مردہ خوش ہوتا ہے۔

 

 (۱؎ شرح الصدور    عن بکر المزنی     باب معرفۃ المیّت    خلافت اکیڈمی سوات    ص۴۰)

 

جعلنا اﷲ بمنہ وکرمہ من السرورین المستبشرین برحمۃ المسریحین بالموت بجودہ وسابغ نعمتہ اٰمین بجاہ النبی الکریم الرؤف الرحیم واٰلہ وصحبہ واولیاء امۃ افضل الصلوۃ والتسلیم ( عہ) ۔

 

عہ : اس نوع کی بعض احادیث بوجہ مناسبت نوع دوم میں مذکور ہوئیں، واللہ تعالٰی اعلم ۲ ۱منہ (م)

 

اللہ اپنے فضل وکرم سے ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو اس کی رحمت سے شاداں وفرحاں ہوتے، اس کے وجود وانعام کا مل کے سبب موت سے راحت پاتے ہیں، الٰہی! قبول فرما نبی کریم رؤف ورحم کی وجاہت کے صدقے، ان پر ان کی آل واصحاب اور ان کی میّت کے اولیاء پر بہترین درود وسلام ہو۔

 

نوع دوم: احادیث سمع وادراک اہل قبور میں، اور اس میں چند فصلیں ہیں :

فصل اول اصحاب قبور سے حیاکرنے میں:

 

حدیث (۲۰): اُم المومنین صدیقہ بنت الصدیق رضی ا ﷲ تعالٰی عنہما کا ارشاد جو مشکوٰۃ شریف میں بروایت امام احمد منقول اور اسے حاکم نے بھی صحیح مستدرک میں روایت کیا اور بشرط بخاری ومسلم صحیح کہا کہ فرماتیں: کنت ادخل بیت الذی فیہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وانی واضع ثوبی واقول انما ھو زوجی وابی فلما دفن عمر معھما فواﷲ مادخلتہ الا وانا مشدودۃ علی ثیابی حیاء من عمر ۲؎۔ میں اس مکان جنت آستان میں جہان حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا مزار پاک ہے یونہی بے لحاظ ستر وحجاب چلی جاتی اور جی میں کہتی وہاں کون ہے۔ یہی میرے شوہر یامیرے باپ صلی اﷲ تعالٰی علے زوجہاثم ابیہا ثم علیہا وبارک وسلم۔ جب سے عمر دفن ہوئے خداکی قسم میں بغیر سراپا بدن چھپائے نہ گئی عمر سے شرم کے باعث رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔

 

 (۲؎ مشکوۃ المصابیح    زیارۃ القبور        فصل ثالث     مطبع مجتبائی دہلی    ص۱۵۴

مستدرک للحاکم    کتاب معرفۃ الصحابہ     دارالفکر بیروت    ۴ /۷)

 

فرمائیے اگر اربابِ مزارات کو کچھ نظر نہیں آتا اس شرم کے کیامعنی تھے؟ اور دفن فاروق سے پہلے ا س لفظ کا کیا منشاء تھا کہ مکان میں میرے شوہر صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے سوا میرے باپ ہی تو ہیں غیر کون ہے!

حدیث (۲۱): ابن ابی شیبہ وحاکم حضرت عقبہ بن عامر صحابی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی: ماابالی فی القبور قضیت حاجتی اما فی السوق والناس تنظرون ۱؎۔ یعنی میں ایک سا جانتاہوں کہ قبرستان میں قضائے حاجت کو بیٹھوں یا بیچ بازار میں کہ لوگ دیکھتے جائیں۔

مقصد ثالث میں اس کے مناسب سلیم بن عمیر سے مذکور ہوگا کہ شرمِ اموات کے باعث مقابر میں پشاب نہ کیا حالانکہ سخت حاجت تھی۔

 

 (۱؎ مصنف ابن ابی شیبہ    کتاب الجنائز            ادارۃ القرآن کراچی    ۳ /۳۳۹)

 

فصل دوم: احیاء کے آنے، پاس بٹھنے، بات کرنے سے مردون کے جی بہلنے میں ____ ظاہر ہیں کہ اگر دیکھتے، سنتے، سمجھتے نہیں تو ان امور سے جی بہلنا کیسا!

حدیث (۲۲): شفاء السقام امام سبکی واربعین طائیہ پھرشرح الصدور میں ہے سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے مروی: اٰنس مایکون المیّت فی قبرہ اذازارہ من کان یحبہ فی دارلدنیا ۲؎۔ قبر میں مردے کا زیادہ جی بہلنے کا وقت وہ ہوتاہے جب اس کا کوئی پیارا زیارت کوآتاہے۔

 

 (۲؎ شرح الصدور     بحوالہ اربعین طائیہ    باب زیارۃ القبور    خلافت اکیڈمی سوات    ص۸۵)

 

حدیث (۲۳): ابن ابی الدنیا کتاب القبور میں اور امام عبدالحق کتاب العاقبہ میں اُم المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، حضور پُر نور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: مامن رجل یزور قبر اخیہ ویجلس عندہ الاّاستأنس وردعلیہ حتی یقوم۳؎۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی زیارت قبر کو جاتا ہے اور وہاں بیٹھتا ہے میّت کا دل اس سے بہلتا ہے اور جب تک وہاں سے اٹھے مردہ اس کا جواب دیتا ہے۔

 

 (۳؎ شرح الصدور   بحوالہ کتاب القبور    ابن ابی الدنیا      باب زیارۃ القبور خلافت اکیڈمی سوات    ص۸۴)

 

حدیث (۲۴): صحیح مسلم شریف میں ہے عمر وبن العاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنے صاحبزادے عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے کہ وہ بھی صحابی ہیں نزع میں فرمایا: اذا دفنتمونی فشنوا علی التراب شنا ثم اقیموا حول قبری قدرما تنحر جزور ویقسم لحمھا حتی استانس بکم وانظر ماذا ا راجع بہ رسل ربی ۱؎۔ جب مجھے دفن کر چکو مجھ پر تھم تھم کر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا پھر میر قبر کے گرد اتنی دیر ٹھہرے رہنا کہ ایک اونٹ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت تقسیم ہویہاں تک کہ میں تم سے انس حاصل کروں اور جان لوں کہ اپنے رب کے رسول کوکیا جواب دیتاہوں ۔

 

 (۱؎ صحیح مسلم     باب کون الاسلام یہدم ماقبلہ الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۷۶)

 

فصل سوم: احیاء کی بے اعتدالی سے اموات کے ایذا پانے میں____ ظاہر ہے کہ افعال واحوال احیاء پر انھیں اطلاع نہیں تو ایذا پانی محض بے معنی۔

حدیث (۲۵): امام احمد بسند حسن عمارہ  بن جزم رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے ایک قبر سے تکیہ لگائے دیکھا، فرمایا: لا تؤذ صاحب ھذا القبر یعنی اس قبر والے کو ایذا نہ دے۔ یا فرمایا: لاتؤذہ۲؎ اسے تکلیف نہ پہنچا۔

 

 (۲؎ مشکوٰۃالمصابیح بحوالہ احمد    کتاب الجنائز باب دفن المیّت     مطبع مجتبائی دہلی        ص۱۴۹)

 

حاکم وطبرانی کی روایت میں ہے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھے ایک قبر پر بیٹھے دیکھا۔ فرمایا: یاصاحب القبر انزل من علی القبر لا تؤذی صاحب القبر ولایؤذیک ۳؎ ( اوقبر والے! قبر سے اترآ، نہ تو صاحب قبرکو ایذا دے نہ ہو تجھے)

 

 (۳؎ مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی الکبیر        باب البناء علی القبور الخ    دارالکتاب بیروت       ۳ / ۶۱)

 

مقصد سوم: میں اس حدیث کی شرح امام اجل حکیم ترمذی سے منقول ہوگی۔

 

روایت مناسبہ:

 

ابن ابی الدنیا ابو قلابہ بصری (عہ ۱) سے راوی:

 

عہ ۱ : تابعی، ثقہ، فاضل، رجال صحاح ستہ سے ۱۲منہ (م)

 

میں ملک شام سے بصرہ کو جاتا تھا، رات کو خندق میں اترا وضو کیا، دور کعت نماز پڑھی، پھر ایک قبر پر سر رکھ کر سوگیا، جب جاگا تو صاحب قبر کو دیکھا کہ مجھ سے گلہ کرتا ہے اور کہتا ہے : لقد اٰذیتنی منذ اللیلۃ اے شخص تونے مجھے رات بھر ایذا دی۔

 

روایت دوم:

 

امام بیہقی دلائل النبوۃ میں اورا بن ابی الدنیا حضرت ابو عثمان (عہ ۲)نہدی سے وہ ابن مینا تابعی سے راوی:

میں مقبرے میں گیا، دو رکعت پڑھ کر لیٹ رہا، خدا کی قسم میں خوب جاگ رہاتھا کہ سنا کہ کوئی شخص قبر میں سے کہتا ہے: قم فقد اٰذیتنی اُٹھ کہ تونے مجھے اذیت دی۔ پھر کہا کہ تم عمل کرتے ہو اور ہم نہیں کرتےخدا کی قسم اگر تیری طرح دو رکعتیں میں بھی پڑھ سکتا مجھے تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہوتا ۱؎۔

 

عہ۲ : اجلہ اکابر تابعین سے ہیں، زمانہ رسالت پائے ہوئے ثقہ ثبت عمائد رجال صحاح ستہ سے ۱۲ منہ (م)

 

 (۱؂ شرح الصدو ر    بحوالہ بیہقی فی دلائل النبوۃ    باب زیارۃ القبور    خلافت اکیڈمی سوات   ص۸۹)

 

روایت سوم:

 

حافظ بن مندہ امام قاسم (عہ ) بن مخیمرہ رحمہ اللہ تعالٰی سے راوی :

 اگرمیں تپائی ہوئی بھال پر پاؤں رکھوں کہ میرے قدم سے پار ہوجائے تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے ا س سے کہ کسی قبر پر پاؤں رکھوں، پھر فرمایاـ : ایک شخص نے قبر پر پاؤں رکھا جاگتے میں سُنا الیک عنی یا رجل ولاتؤذنی۲؎ اسے شخص! الگ ہٹ مجھے ایذا نہ دے۔

 

عہ: تابعی، ثقہ فاضل رواۃ صحاح ستہ سے غیرانہ عندخ فی التعلیقات (البتہ امام بخاری نے تعلیقات میں اس کا ذکر کیا ہے۔ ت) ۱۲ منہ (م)

 

 (۲؎ شرح الصدو ر  بحوال ابن مندہ   باب تأذیہ بسائر وجوہ الاذٰی  خلافت اکیڈمی سوات ص۱۲۶)

 

حدیث (۲۶): امام مالک واحمد وابوداؤد وابن ماجہ وعبدالرزاق وسعید بن منصور وابن حبان ودارقطنی اُم المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے راوی، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: واللفظ لا حمد کسر عظم المیّت واذاہ ککسرہ حیا ۳؎ مردے کی ہڈی توڑنی اور اسے ایذا دینی ایسی ہے جیسی زندہ کی ہڈی توڑنی۔

بعض روایات دارقطنی میں لفظ فی الالم ۴؎ اور زائد درد پہنچنے میں زندہ ومردہ برابر ہیں، ذکرہ فی مقا صد الحسنۃ (اسے مقاصد حسنہ میں ذکر کیا گیا۔ ت) ____ مقصد سوم میں ا س کے متعلق امام ابوعمر کا قول آئے گا۔

 

 (۳؎ مسند احمد بن حنبل    مرویات حضرت عائشہ      دارالفکر بیروت    ۶ /۱۰۵)

(۴؎ المقاصد الحسنہ    حدیث ۸۰۱     دارالکتب العلمیۃ بیروت    ص۲۱۶)

 

حدیث (۲۷): دیلمی و ا بن مندہ ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے راوی، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: احسنوا الکفن ولاتؤذو اموتاکم بعویل ولا بتاخیر وصیۃ ولا بقطعیۃ وعجلوا قضاء دینہ، واعدلو عن جیران السوء ۵؎ ۔ کفن اچھادو اور اپنی میّت کو چلا کر رونے یا اس کی وصیت میں دیر لگانے یا قطع رحم کرنے سے ایذا نہ پہنچا اور اس کا قرض جلد ادا کرو اور برے ہمسایہ سے الگ رکھو،یعنی قبور کفار واہل بدعت وفسق کے پاس فن نہ کرو۔

 

 (۵؎ الفردوس بماثور الخطاب    حدیث ۸۰۱        دارالکتب العلمیۃ بیروت     ۱/۹۸)

 

حدیث (۲۸): امام احمد ابوالربیع سے راوی: کنت مع ابن عمر فی جنازۃ فسمع صوت انسان یصیح فبعث الیہ فاسکتہ فقلت لم اسکتہ یا ابا عبدالرحمن قال انہ یتاذی بہ المیّت حتی یدخل فی قبرہ ۱؎۔ میں عبداﷲا بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما کے ساتھ ایک جنازہ میں تھا کسی کے چلانے کی آواز سنی، آد می بھیج کر اسے خاموش کرادیا، میں نے عرض کی: اے ابوعبدالرحمن! آپ نے اسے کیوں چپایا، فرمایا: اس سے مردے کو ایذا ہوتی ہے یہاں تک کہ قبر میں جائے۔

 

 (۱؎ مسند احمد بن حنبل    مرویات عبداللہ بن عبدالرحمان    دارالفکر بیروت    ۲ /۱۳۵)

 

حدیث (۲۹): امام سعید بن منصور اپنے سنن میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی: انہ رأی نسوۃ فی جنازۃ فقال ارجعن مازورات غیر مأجورات ان کن لتفتن الاحیاء وتؤذین الاموات ۲؎۔ یعنی انھوں نے ایک جنازے میں کچھ عورتیں دیکھیں اورا رشاد فرمایا پلٹ جاؤ گناہ سے بوجھل ثواب سے اوجھل۔ تم زندوں کو فتننے میں ڈالتی اور مردوں کو اذیت دیتی ہو۔

 

 (۲؎ سنن سعید بن منصور)

 

تنبیہ: سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے جو حدیث صحیح مشہور میں فرمایا: المیّت یعذب ببکاء الحی علیہ۳؎ زندوں کے رونے سے مردے پر عذاب ہوتا ہے ۔ جسے امام احمد وشیخین نے عمر فاورق وعبداللہ بن عمر و مغیرہ بن شعبہ، اور ابو یعلٰی نے ابوبکر صدیق و ابوہریرہ، اور ابن حبان نے انس بن مالک وعمران  بن حصین اور طبرانی نے سمرہ بن جندب سے روایت کیا۔ رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین، ایک جماعت ائمہ کے نزدیک اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ زندوں کے چلانے سے مردوں کو صدمہ ہوتا ہے۔ امام اجل سیوطی نے شرح الصدور میں اس معنٰی کو ایک حدیث مرفوع سے مؤید کرکے فرمایا امام ابن جریر کا یہی قول ہے، اور اسی کوایک گروہِ ائمہ نے اختیار فرمایا ، پھر اس کی تائید میں یہ دو حدیثیں ابن مسعود وابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہم کی کہ ہم نے بیان کیں۔ ذکرفر مائیں، اس تقدیر پر اراشاد اقدس المیّت یعذب، الحدیث کی آٹھوں روایتیں بھی یہاں شمار کے قابل تھیں مگر ازانجا کہ علماء کو اس کے معنی میں بہت اختلاف ہے۔ نہ ہمارا قصد وحصر واستیعاب۔ لہٰذا انہیں معد ود نہ کیا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

 

 (۳؎ صحیح مسلم    کتاب الجنائز        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۳۰۲)

 

حدیث (۳۰): ابن ابی شیبہ اپنے مصنف میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی : اذی المؤمن فی موتہ کاذاہ فی حیاتہ ۱؎۔ مسلمان کو بعد موت ایذ دینی ایسی ہے جیسے زندگی میں اسے تکلیف پہنچائی۔

 

 (۱؎ المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الجنائز      ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی     ۳ /۳۶۷)

 

حدیث (۳۱): سعید بن منصور اپنے سنن میں راوی، کسی نے اس جناب سے قبر پر پاؤں رکھنے کا مسئلہ پوچھا ، فرمایا: کما اکرہ اذی المومن فی حیاتہ فانی اکرہ اذاہ بعد موتہ ۲؎۔ مجھے جس طرح مسلمان زندہ کی ایذا ناپسند ہے یونہی مُردہ کی۔

 

 (۲؎ شرح الصدو ر    بحوالہ سنن سعید بن منصور    باب تاذی المیّت   خلافت اکیڈمی سوات        ص۱۲۶)

 

حدیث (۳۲ ): طبرانی عبدالرحمن بن علابن لجلاج سے ان کے والد علا(عہ) ر حمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان سے فرمایا: یابنی اذا وضعتنی فی لحدی فقل بسم اﷲ وعلی ملۃ رسول ثم شن لی التراب شناثم اقرأعند راسی بفاتحہ القبرۃ وخاتمہا فانی سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یقول ذلک۔۳؎ اے میرے بیٹے!ٍجب مجھے لحدمیں رکھے بسم اللہ وعلی ملتہ رسول اللہ کہنا۔ پھر مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا، پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کا شروع یعنی مفلحون تک اور خاتمہ یعنی اٰمن الرسول  سے پڑھنا کہ میں نے سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا۔

 

عہ : تابعی ثقہ ہیں اور ان کے بیٹے عبدالرحمان تبع تابعین مقبول الروایۃ سے دونوں صاحب رجال جامع الترمذی میں ہیں ۱۲ ۱۲منہ (م)

 

 (۳؎ مجمع الزوائد    بحوالہ طبرانی     باب مایقول عند ادخال المیّت قبر   دارالکتب العربی بیروت  ۳ /۴۴)

 

اور حضرت عمر وبن عاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ارشاد صحیح مسلم سے ابھی گزرا کہ مجھ پر مٹی تھم تھم کر بہ نرمی ڈالنا، شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ وترجمہ مشکوٰۃ میں ا س حدیث کے نیچے لکھتے ہیں: چہ می دفن کنید مراپس بنرمی وبسہولت بیندا زید برمن خاک رایعنی اندک اندک زید واین اشارت است بآں کہ میّت احساس می کند ودروناک می شود بانچہ دردناک مے شود بآن زندہ ۴؎۔ جب مجھے دفن کرنا مجھ پر مٹی نرمی وسہولت سے یعنی ذرا ذرا کرکے ڈالنا، یہ اشارہ ہے اس بات کا کہ مردے کو احساس ہوتاہے اور جس چیز سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے ا سے بھی ہوتی ہے۔

 

 (۴؎ اشعۃ اللمعات     کتاب الجنائز     باب دفن المیّت    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۶۹۷)

 

فصل چہارم: میں وہ احادیث جن میں صراحۃً وارد کہ مُردے اپنے ائرین کو پہچانتے اور ان کا سلام سنتے اور انھیں جواب دیتے ہیں۔

حدیث (۳۳): امام ابو عمر ابن عبدالبرکتاب الاستذکار والتمہید میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی ا ﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، حضور پر نور سید عالم صـلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: مامن احدیمر بقبرا خیہ المؤمن کان یعرفہ فی الدنیا فیسلم علیہ الاعرفہ ورد علیہ السلام ۱؎ ۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی قبر پر گزرتا اور ا سے سلام کرتا ہے اگر وہ اسے دنیا میں پہچانتا تھا اب بھی پہچانتا اور جواب سلام دیتا ہے۔

 

 (۱؎ شرح الصدور     بحوالہ التمہید لابن عبدالبر    باب زیارت القبور    خلافت اکیڈمی سوات        ص۸۴)

 

امام ابو محمد عبدالحق کہ اجلہ علمائے حدیث سے ہیں ا س حدیث کی تصحیح کرتے ہیں ۲؎ ، ذکرہ الامام السیوطی فی شرح الصدور والفاضل الزرقانی فی شرح المواھب (اسے امام سیوطی نے شرح الصدور میں اور علامہ زرقا نی نے شرح مواہب میں ذکر کیا۔ ت) اسی طرح امام ابوعمر سید علامہ سمہودی نے ا س کی تصحیح فرمائی، ذکرہ الشیخ المحقق فی جامع البرکات وجذب القلوب (اسے شیخ محقق نے جامع البرکات اور جذب القلوب میں ذکر فرمایا ہے۔ ت)

 

 (۲؎ شرح الصدور     بحوالہ التمہید لابن عبدالبر    باب زیارت القبور    خلافت اکیڈمی سوات        ص۸۴)

 

امام سبکی شفاء السقام میں یہ  حدیث لکھ کر فر ماتے ہیں: ذکرہ جماعۃ وقال القرطبی فی التذکرۃ ان عبد الحق صححہ ورویناہ فی الخلعیات من حدیث ابی ھریرۃ ایضا۳؂ انتہی   اسے ایک جماعت نے ذکر کیا اور اما م قرطبی نے تذکرہ میں لکھا ہےکہ امام عبد الحق نے اسے صحیح کہا اور خلعیات میں اسے ہم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بھی بیان کیا ہے انتہی (ت) قلت وستسمع ذلک  (میں نے کہا: وہ حدیث آگے سنو گے)

 

 (۳؎ شفاء السقام    الباب الخامس    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ص۸۸)

 

حدیث (۳۴): ابن ابی الدنیا وبیہقی وصابونی وابن عساکر وخطیب بغدادی وغیرہم محدثین ا بوہریرہ رضی ا ﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اذا مر  الرجل بقبر یعرفہ فسلم علیہ رد علیہ السلام وعرفہ واذا مربقبر لا یعرفہ فسلم علیہ ردعلیہ السّلام ۱؎۔ جب آدمی ایسی قبر پر گزرتاہے جس سے دنیا میں شناسائی تھی اور اسے سلام کرتا ہے میّت جوابِ سلام دیتااور اسے پہچانتا ہے، اورجب ایسی قبر پر گزرتا جس سے جان پہچان نہ تھی اور سلام کرتاہے میّت اسے جواب سلام دیتا ہے (عہ)۔علامہ سمہودی فرماتے ہیں اس معنی میں احادیث بہت ہیں اور یہ معنی ہونا خود ہی ثابت ہے افراد اُمت اورعام مومنین میں متحقق ہے۔ (ت)

 

عہ: سمہودی گوید کہ احادیث درینمعنی بسیار است وایں معنی درآحادست وعموم مومنین متحقق ۱۲ منہ (م) علامہ سمہودی فرماتے ہیں اس معنی میں احادیث بہت ہیں اور یہ معنی ہونا خود ہی ثابت ہے افراد اُمت اورعام مومنین میں متحقق ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ شعب الایمان    حدیث ۹۲۹۶    دارالکتب العلمیۃ بیروت    ۷ /۱۷)

 

حدیث (۳۵): امام عقیلی ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی: قال قال ابوزرین یا رسول اﷲ ان طریقی علی الموتٰی فھل من کلام اتکلم بہ اذا مررت علیھم؟ قال قل السلام علیکم یا اھل القبور من المسلمین والمؤمنین انتم لنا سلفا ونحن لکم تبع تبعا وانا ان شاء اﷲ بکم لاحقون قال ابوزرین یا رسول اﷲ یسمعون قال یسمعون ولکن لایستطیعون ان یجیبوا ۲؎۔ یعنی ابو زرین رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ! میرا راستہ مقابر پر ہے۔ کوئی کلام ایسا ہے کہ جب ان پر گزروں کہا کروں، فرمایا: یوں کہہ سلام تم پر اے قبر والو! اہل اسلام اور اہل ایمان سے تم پر ہمارے آگے ہو ااورہم تمھارے پیچھے ، اورہم ان شاء اللہ تعالٰی تم سے ملنے والے ہیں، ابوزرین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی یارسول اللہ! کیا مردے سنتے ہیں؟ فرمایا سنتے ہیں مگر جواب نہیں دے سکتے۔

 

 (۲؂ کتاب الضعفاء الکبیر     مترجم ۱۵۷۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۴ /۱۹)

 

تنبیہ نبیہ: امام جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں : ای جواباً یسمعہ الحی والا فھم یردون حیث لایسمع ۳؎۔ یعنی حدیث کی یہ مراد ہے کہ مردے ایسا جواب نہیں دیتے جو زندے سن لیں ورنہ وہ ایسا جواب تو دیتے ہیں جو ہمارے سننے میں نہیں آتا۔

 

 (۳ ؂شرح الصدور    باب زیارۃ القبور    خلافت اکیڈمی سوات        ص۸۴)

 

اقول یہ معنی خود اسی فصل کی دو حدیث سابق سے واضح کہ ان میں تصریحاً فرمایا مُردے جواب سلام دیتے ہیں، اور اس کی نظیر وہ ہے جو حدیث ۱۵میں بکر بن عبداللہ مزنی سے گزرا کہ روح سب کچھ دیکھتی ہے مگربول نہیں سکتی کہ شور وفریاد سے منع کرے۔ اس کے معنٰی بھی وہی ہیں کہ اپنی بات احیاء کو سنا نہیں سکتے، ورنہ صحیح حدیثوں میں اس کا کلام کرنا وارد۔ جیسا کہ حدیث ۳ وغیرہ میں گزرا۔

تنبیہ دوم: فقیر کہتا ہے پھر یہ ہمارا نہ سُننا بھی دائمی نہیں، صدہا بندگانِ خدا نے اموات کا کلام و سلام سنا ہے۔ جن کی بکثرت روایات خود شرح الصدور وغیرہ میں مذکور ۔ اور بعض اسی مقصد میں فقیر نے بھی نقل کیں ا ور عجب نہیں کہ ان شاء اللہ تعالٰی اپنے محل پر اور بھی مذکور ہوں۔

 

تنبیہ سوم: بس نافع ومہم۔

 

اقول وباﷲ التوفیق طُرفہ یہ ہے کہ جواب سوال نوز دہم میں صاحب مائۃ مسائل نے بھی اس حدیث کو عن القاری عن السیوطی عن العقیلی نقل کیا اور اموات کے لیے سلام احیاء کاسننا مسلّم رکھا ۱؎۔ اسی قدرے اپنی وہ سب جولانیاں جو زیر سوال ۲۶ کے ہیں باطل مان لیں کہ وہاں جن پانچ عبارتوں سے استناد کیا ان سب میں نفی مطلق ہے۔

 

 (۱؎ مائۃ مسائل    مسئلہ ۱۹ سماعتِ موتٰی    مکتبہ توحید وسنت پشاور    ص۴۰)

 

اسی طرح آیہ کریمہ بفرض غلط نافی سماع ہو تووہاں بھی سلام وکلام کچھ تخصیص نہیں، اور عبارت دوم میں تو صاف منافات موت وافہام مذکور کیا بعض جگہ متنا فیین بھی جمع ہوجاتے ہیں، اور عبارت پنجم میں صریحاً لفظ جمادات موجود، پھر پتھروں کے آگے سلام کلام سب ایک سا۔غرض اگر آیت اور ان عبارات کا وہی مطلب تو سماع سلام کی تسلیم میں ان سب استنادوں کو دفعتاً سلام ہواجاتا ہے۔ پھر ناحق اپنے یہاں حدیث عقیلی سے استناد اور کلمات قاری وسیوطی کی سنئے گا تو بہت کچھ ماننا پڑے گا۔ ان کی تحقیقاتِ قاہرہ وتصریحات باہرہ عنقریب ان شاء اللہ تعالٰی مقصد ثالث میں جگر شگاف مکابرہ واعتسفاف ہوتے ہیں، ادھر مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی حدیثوں پر کان رکھا اور ارواح گزشتگان کو جماد وسنگ ماننے کا دھرم گیا۔ ذرا خدا لگتی کہنا ایک عقیلی کی حدیث سے آپ نے سماع سلام تو تسلیم کیا، بخاری ومسلم وغیرہ کی احادیث صحیحہ سے جو توں کی پہچل اور ہاتھ جھاڑنے کی اواز اورسلام کے سوا اور انواع کلام بھی سننا اورا ن پتھروں کا اپنے زائروں کوپہچاننا ، ان کا جواب سلام دینا اور ان سے اُنس حاصل کرنا، اور ان کے سوا صدہا امور جو ثابت ومذکورہ وہ کس جی سے مانئے گا، یا وہاں پھر فالف بعض الحدیث وکان ببعض  (کسی حدیث کا الف اور کسی حدیث کا کاف لیجئے گا۔ ت) کی ٹھہرے گی، علاوہ بریں خود یہ حدیث عقیلی اس تخصیص سلام کے رَد کو کیا تھوڑی ہے۔ یہاں بھی اموات سے فقط السلام علیکم نہ کہا گیا ۔ ذرا آنکھیں مل کر ملاحظہ ہو آگے ان پتھروں سے کچھ کلام وخطاب بھی نظر آتے ہیں کہ تم ہمارے سلف ، ہم تمھارے خلف، ہم ان شاء اللہ تعالٰی تم سےملیں گے۔ اس سارے کلام پر ابوزرین رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کیا وہ سنتے ہیں؟ فرمایا: ہاں سنتے ہیں۔ اور لطف یہ کہ اس حدیث کے بعد امام سیوطی کا وہ قول بھی نقل کر گئے کہ حدیث میں جواب نہ دینے سے یہ مراد ہے۔ ورنہ اموات واقع میں جواب دیتے ہیں سبحان اللہ سلام بھی سنیں، کلام بھی سنیں، جواب بھی دیں۔اور پھر  پتھر کے پتّھر، انا اﷲ واناّ الیہ راجعون۔

سچ فرمایا مولوی معنوی قدس سرہ، نے: ع ماسمیعیم وبصیریم وخوشیم        باشمانا محرماں ماخامشیم ؂۱  ( ہم سمیع وبصیر ہیں اور خوش ہیں مگر تم نامحرموں کے سامنے مہر بہ لب ہیں۔ ت)

 

(۱؎ مثنوی مولوی معنوی    دفتر سوم    حکایت مارگیری کہ اژدہائے افسردہ الخ    نورانی کتب خانہ پشاور ص۲۷)

 

حدیث (۳۶):طبرانی معجم اوسط میں عبداللہ بن عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مصعب بن عمیر اور ان کے ساتھیوں کے قبور پر ٹھہرے اور فرمایا: والذی نفسی بیدہ لایسلم علیہم احد الا ردوا الٰی یوم القیمۃ ۲؎۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت تک جو ان پرسلام کرے گا جواب دیں گے،

 

 (۲؎ شرح الصدور    بحوالہ المعجم الاوسط    باب زیارۃ القبو ر        خلافت اکیڈمی سوات    ص ۸۵)

 

حدیث (۳۸): بعینہ اسی طرح حاکم نےصحیح مستدرک میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کر کے تصحیح کی  حدیث (۳۸):حاکم مستدرک میں با فادہ تصحیح اور بیہقی دلائل النبوۃ میں بطریق عطاف بن خالد مخزومی عبد الاعلٰی بن عبد اللہ سے وہ اپنے والد ماجد عبداللہ بن ابی فروہ سے راوی، حضور سیدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم زیارت شہدائے احد کو تشریف لے گئے اور عرض کی: الھم ان عبدک ونبیک یشھد ان ھٰؤلاء شہداء وانہ من زارھم اوسلم علیھم الٰی یوم القٰیمۃ ردوا علیہ ۳؎۔ الٰہی! تیرا بندہ اورتیرا نبی گواہی دیتا ہے کہ یہ شہید ہیں اور قیامت تک جو ان کی زیارت کو آئے گا اور ان پر سلام کرے گا یہ جواب دیں گے۔

 

 (۳؎ المستدرک للحاکم    کتاب المغازی      دارالفکر بیروت    ۳ /۲۹)

 

تتمہ حدیث: عطاف کہتے ہیں میری خالہ مجھ سے بیان کرتی تھیں میں ایک بار زیارت قبور شہداء کوگئی میرے

ساتھ دولڑکو ں کے سوا کو ئی نہ تھا جو میری سواری کا جانور تھامے تھے۔ میں نے مزارات پر سلام کیا، جواب سنا، اور آواز آئی: واﷲ انا نعرفکم کمایعرف بعضنابعضا خدا کی قسم تم لوگوں کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے آپس میں ایک دوسرے کو میرے بدن پر بال کھڑے ہوگئے۔ سوار ہوئی اور واپس آئی۔۱؎

 

 (۱؎ المستدرک للحاکم    کتاب المغازی        دارالفکر بیروت    ۳ /۲۹)

 

روایت دوم مناسب او: امام بیہقی نے ہاشم بن محمد عمری سے روایت کی: مجھے میرے باپ مدینہ سے زیارت قبور اُحد کو لے گئے، جمعہ کا روز تھا، صبح ہوچکی تھی، آفتاب نہ نکلا تھا، میں اپنے باپ کے پیچھے تھا، جب مقابر کے پاس پہنچے انھوں نے بآواز کہا: سلامٌ علیکم بماصبر تم فنعم عقبی الدار۔ جو اب آیا: وعلیکم السلام یا ابا عبد اﷲ۔ باپ نے میری طرف مڑ کر دیکھا اور کہا کہ اے میرے بیٹے! تو نے جواب دیا؟ میں نے کہا: نہ۔ انھوں نے میر اہاتھ پکڑ کر اپنی داہنی طرف کرلیا اور کلام مذکور کا اعادہ کیا ، دوبارہ ویسا ہی جواب ملا، سہ بارہ کیا پھر وہی جواب ہوا۔ میرے باپ اللہ تعالٰی کے حضور سجدہ شکر میں گر پڑے۲؎۔

 

 (۲؎ دلائل النبوۃ    باب قول اللہ لاتحسین الذین    دارالکتب العربیہ بیروت ۳ /۳۰۹)

 

روایت سوم: ابن ابی الدنیا اور بیہقی دلائل میں انھیں عطاف مخزومی کی خالہ سے راوی: ایک دن میں نے قبر سیدنا حمزہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس نماز پڑھی، اس وقت جنگل بھر میں کسی آدمی کا نام ونشان نہ تھا۔ بعد نماز مزار مطہر پر سلام کیا۔ جواب آیا اور اس کے ساتھ یہ فرمایا: من یخرج من تحت القبر ا عرفہ کما اعرف ان اﷲ خلقنی وکما اعرف اللیل والنھار ۳؎۔ جو میری قبر کے نیچے سے گزرتا ہے میں اسے پہچانتا ہوں جیسا یہ پہچانتاہوں کہ اللہ تعالٰی نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس طرح رات اور دن کو پہچانتا ہوں۔

 

 (۳؎ دلائل النبوۃ    باب قول اللہ لاتحسین الذین    دارالکتب العربیہ بیروت    ۳ /۳۰۸)

 

حدیث (۳۹): ابن ابی الدنیا اور بیہقی شعب الایمان میں حضرت محمد بن واسع(عہ) سے راوی: قال بلغنی ان الموتٰی یعلمون بزوار ھم یوم الجمعۃ ویوما قبلہ ویوما بعدہ ۴؎۔ مجھے حدیث پہنچی ہے کہ مردے اپنے زائروں کو جانتے ہیں جمعہ کے دن اور ایک دن اس سے پہلے اور ایک دن اس سے بعد۔

 

عہ: یہ تابعی ہیں، ثقہ ، عابد، عارف باﷲ، کثیر المناقب، رجال صحاح ستہ سے، الاالطرفین ۱۲ منہ (م)

 

 (۴؎شعب الایمان    حدیث ۹۳۰۱  دارالکتب العربیہ بیروت   ۷ /۱۸)

 

تنبیہ: ا س حدیث کے یہ معنی کہ بوجہ برکتِ جمعہ ان تین د ن میں ان کے علم وادراک کو زیادہ وسعت دیتے ہیں، جو معرفت وشناسائی انھیں ان روزں  میں ہوتی ہے اور دنوں سے بیش وافزوں ہے نہ یہ کہ صرف یہی تین دن علم وادراک کے ہوں، ابھی سن چکے کہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی احادیث کثیرہ مطلق ہیں جن میں بلاتخصیص ایام ان کا علم وادراک ثابت فرمایا۔ تصریح اس معنی کی ان شاء اللہ مقصد سوم میں مذکور ہو گی۔

 

فصل پنجم: میں وہ جلیل حدیثیں جن سے ثابت کہ سماعِ اہل قبور سلام ہی پر مقصود نہیں بلکہ دیگر کلام و اصوات بھی سنتے ہیں:

حدیث (۴۰): بخاری ومسلم و ابوداؤد وترمذی ونسائی اپنے صحاح اور امام احمد مسند میں انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، حضور پر نور سید العالم  صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: واللفظ لمسلم ان المیّت اذا وضع فی قبرہ انہ یسمع خفق نعالھم اذا انصرفوا۔۱؎۔  (مسلم کے الفاظ یہ ہیں۔ ت) مردہ جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور لوگ دفن کرکے پلٹتے ہیں بیشک وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتاہے۔

 

 (۱؎ صحیح مسلم        باب عرض مقعد المیّت        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۳۸۶)

 

حدیث (۴۱): احمد و ابوداؤد بسند جید براء بن عازب رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی، سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : ان المیّت یسمع خفق نعالھم اذاولو امدبرین ۲؎۔ بیشک مردہ جوتیوں کی پہچل سنتا ہے جب لوگ اسے پیٹھ دے کر پھرتے ہیں۔

 

 (۲؎ مسندا حمد بن حنبل    مرویات البراء ابن عاذب    دارالفکر بیروت    ۴ /۲۹۶)

 

حدیث (۴۲): بیہقی وطبرانی عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی، سرورِ عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم  فرماتے ہیں : ان المیّت اذا دفن یسمع خفق نعالھم اذا ولّوا عنہ منصرفین ۳؎۔ بیشک جب مردہ دفن ہوتاہے اور لوگ واپس آتے ہیں وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے۔

 

 (۳؎ کنز ا لعمال بحوالہ طبرانی    حدیث ۴۲۳۷۹    مکتبۃ التراث الاسلامی مصر    ۱۵ /۶۰۰)

 

حدیث بیہقی کو امام سیوطی نے شرح الصدور میں فرمایا: باسناد حسن۴؎ (اس کی سند حسن ہے۔ ت)

 

 (۴؎ شرح الصدور    باب فتنۃ القبر    خلافت اکیڈمی سوات        ص۵۰)

 

اور سند طبرانی کو علامہ مناوی نے تیسیر میں کہا: رجالہ ثقات ۱؎ (اس کے رجال ثقہ ہیں۔ ت)

حدیث (۴۳): ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف اور ابنِ حبان نے صحیح مسمی بالتقاسیم والانواع اور حاکم نیشاپوری نے الصحیح المستدرک علی البخاری ومسلم اور بغوی نے شرح السنہ اور طبرانی نے معجم اوسط اور ہنادنے کتاب الزہد اور سعیدبن السکن نے اپنی سنن اور ابن جریر وابن منذر وابن مردویہ وبیہقی نے اپنی اپنی تصانیف میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، حضور سیدعالم ـ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: والذی نفسی بیدہ ان المیّت اذا وضع فی قبرہ انہ لیسمع خفق نعالھم حین یولون عنہ ۲؎۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب مردہ قبرمیں رکھا جاتا ہے کفش پائے مردم کی آوازسنتاہے جب اس کے پاس سے پلٹتے ہیں۔

 

 (۱؎ التیسیر بشرح الجامع الصغیر    تحت ان المیّت اذا دفن    مکتبۃ الامام الشافعی ریاض  ۱ /۳۰۳)

(۲؎ المستدرک للحاکم        المیّت یسمع خفق نعالہم    دارالفکر بیروت        ۱ /۳۸۰)

 

حدیث (۴۴): جویبر نے اپنی تفسیر میں عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ایک حدیث طویل روایت کی جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: فانہ یسمع خفق نعالھم ونقض ایدیکم اذا ولیتم عنہ مدبرین ۳؎۔ بیشک وہ یقینا تمھارے جوتوں کی پہچل اور ہاتھ جھاڑنے کی آواز سنتا ہے جب تم اس کی طرف سے پیٹھ پھیر کر چلتے ہو۔

 

 (۳؎ شرح الصدو ر   بحوالہ جویبر باب فتنۃ القبر    خلافت اکیڈمی سوات        ص۵۱)

 

حدیث (۴۵): طبرانی و ابن مردویہ ایک حدیث طویل میں ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے بسندحسن راوی: قال شھد نا جنازۃ مع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالی وسلم فلما فرغ من دفنھا وانصرف الناس قال انہ الان یسمع خفق نعالکم ۴؎۔ الحدیث فرمایا: ہم ایک جنازہ میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ہمراہ رکاب حاضر تھے۔ جب اس کے دفن سے فارغ ہوئے اور لوگ پلٹے حضور نے ارشاد فرمایا: اب وہ تمھاری جوتیوں کی آواز سن رہا ہے۔

 

 (۴؎ شرح الصدو ر        بحوالہ طبرانی اوسط باب فتنۃ القبر    خلافت اکیڈمی سوات   ص۵۴)

 

فائدہ جلیلہ: چالیس(۴۰) سے پینتالیس تک جو چھ حدیثیں مذکور ہوئیں پہلے ہی لاجواب ٹھہر چکی ہیں، آج تک کوئی جواب معقول ان سے نہ ملا نہ ملے۔ غایت سعی ان کی طرف سے یہ ہے کہ سماع مذکور کو اول وضع فی القبرسے تخصیص کریں یعنی جب قبرمیں  رکھ کر مٹی دیتے ہیں اس وقت میّت کو ایسی قوت سامعہ ملتی ہے کہ اب عنقریب سوال منکر نکیر ہونے والا ہے اس کے لیے پیشتر سے ایسے حواس عطا ہو جاتے ہیں ، پھربعد سوال یہ قوت نہیں رہتی ۔ حالانکہ عند الانصاف یہ ادعا محض بے دلیل ولاطائل ہے۔

اولاً یہ تخصیص ظاہر حدیث کے خلاف جس پر کوئی دلیل قائم نہیں۔ حدیثیں صاف صاف ارشاد فرمارہی ہیں کہ میّت کی قوت سامعہ قبر میں اس درجہ تیز اور قوی ہے کہاں سے جانا کہ یہ اسی وقت کے لیے ملتی ہے اور پھر جاتی رہتی ہے۔

ثانیاً مقدمہ سوال کے لیے پیشتر سے حواس مل جانا کیا معنٰی کیا فوراً وقتِ سوال نہ مل سکتی تھی یا عطائے الٰہی میں معاذاللہ کچھ دیر لگتی ہے کہ پہلے سے اہتمام ہو رہنا ضرور ہوا۔

 

یہ دونوں اعتراض شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے مدارج النبوۃ میں افادہ فرمائے: حیث قال ایں تخصیص خلاف ظاہر است ودلیلے نیست برآن وظاہر حدیث آنست کہ ایں حالت حاصل ست میّت دارد قبر  و زندہ گر دانیدن میت در وقت سوال است وپیش ازاں زندہ گردانیدن برائے مقدمہ سوال چہ معنی دارد۔۱؎ یہ تخصیص ظاہر کے خلاف ہے۔ اس پر کوئی دلیل بھی نہیں، ظاہر حدیث یہ ہے کہ قبر کے اندر میّت کی یہ حالت ہوتی ہے __ میّت کو زندہ کرنا سوال کے وقت ہے تو اس سے پہلے  مقدمہ سوال کے لیے زندہ کرنا کیا معنٰی رکھتا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ مدارج النبوۃ   اصل درسماعت    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۲ /۹۵)

 

وثالثاً کما اقول سلمنا  (جیسے کہ میں کہتاہوں ہم تسلیم ہم کرتے) کہ پہلے ہی سے ہوش وحواس مل جانا ضروری تھا مگر حاجت اسی قدر تھی جس میں وہ نکیرین کی بات سن سمجھ لیتا اس قدر قوت عظیمہ کی کیا ضرورت تھی کہ باوجود اتنے حائلوں کے ایسی ہلکی آوازیں بے تکلف سُنے۔ خود یہی حضرات مسئلہ یمین فی الضرب (مارنے کے بارے میں قسم) کی یہی توجیہ کرتے ہیں کہ ہمارے مارے سے مُردے کو تکلیف یا ایذا(عہ)  نہیں ہوتی اس کا ادراک عذاب الٰہی کے واسطے ہے ۔ یونہی چاہیے تھا  کہ ا س کا سماع سوال نکیرین کے لیے ہو، نہ اصواتِ خارجہ کے واسطے۔

 

عہ تنبیہ: یہ بات بھی خلاف تحقیق ہے کہ بیشک ایذا ہوتی ہے۔ دیکھو اس مقصد کی فصل سوم اور مقصد سوم کی پنجم ۱۲۱۲منہ سلمہ اللہ تعالٰی۔

 

ورابعاً کما اقول ایضاً اگر مسئلہ یمین فی الکلام عدمِ سماع پر مبنی ہو کما زعموا۔ اور اب آپ نے بھی بشوکت احادیث قاہرہ  اتنی دیر کے لیے سماع تسلیم کیا تو  واجب کہ اس میّت سے کلام کرنے ولا حانث ہو کہ وہ مبنٰی آپ کے اقرار سے یہاں منتفی، حالانکہ مسئلہ قطعاً مطلق ہے، لاجرم ماننا پڑے گا کہ ایمان عرف پر مبنی اور عرفاً اس قسم سے بعدموت کلام کرنا نہیں سمجھاجاتا ۔ لہذا حالتِ حیات سے مقیدرہا، ہم کہیں گے اب حق کی طرف رجوع ہوئے، واقعی اس مسئلہ کا یہی مبنٰی ہے اورا ب انکار سماع موتٰی سے اسے کچھ علاقہ نہ رہا کما لایخفی، اسی طرح حضرات نجدیہ سے کہا جائے کہ اگر آپ بھی احادیث صحیحہ مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پر ایمان لاکر سماعت میّت تسلیم کرتے ہیں۔ اگرا س وقت خاص ہی  میں سہی، تو اب حکم ارشاد ہو، اگر کوئی بندہ مسلمان کسی عبد صالح کے دفن ہوتے ہی فوراً اس سے استمداد وطلب دعا کرے تو بھی وہ بربنائے انکار  یعنی عدم سماع متحقق نہ ہو۔ ذرا جی کڑا کرکے اس وقت خاص ہی میں اجازت دے دیجئے۔

 

وخامساً کما اقول ایضاً موت کو تمام احواس وادراکات ودیگر اوصافِ حیات سے یکساں نسبت ہے۔ معاذ اﷲ اگر  پتھر ہونا ٹھہرا تو سننا، دیکھنا، سمجھنا، بولنا سب کا بطلان لازم ۔ اور یہ حضرات کرام خود فرما چکے کہ موت منافی فہم ہے۔ اب کیا جواب ہے ان حدیثوں سے جو فصل اول و دوم  و سوم میں گزریں، جن سے ثابت کہ اموات ہمیشہ اپنے زائروں کو پہچانتی ہے او ران سے انس حاصل کرتی اوران کے سلام کا جواب دیتی اور ان کی بے اعتدالیوں سے ایذا پاتی ہیں الٰی غیر ذلک من المامور المذکورۃ  (امور  مذکورہ جیسے دیگر امور۔ ت) _____ بھلا یہاں تو مقدمہ سوال کی تخصیص نکلی تھی ان مقدمات میں کونسی خصوصیت آئے گی۔

تنبیہ: میرا  یہ سب کلام حقیقتاً اُن حضراتِ منکرین سے ہے جو عبارات علماء کے یہ معنی سمجھے، ورنہ فقیر کے نزدیک ان کے ارشاد کا وہ محل ممکن جو عقیدہ اہل حق سے مخالف نہ ہو۔ مولوی صاحب اگر جواب فقیر میں ان عبارات کو یاد کریں گے اس وقت انشاء اللہ تعالٰی وہ تحقیق تدفیق انیق حاضر کروں گا۔ اور عجب نہیں کہ مقصد سوم میں اس کی بعض کی طرف عودہو۔ والعود احمد  ( اور عود کرنا اچھا ہے۔ ت) وبا ﷲ سبحٰنہ وتعالٰی التوفیق۔

 

حدیث (۴۶): صحیح بخاری شریف وغیرہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سےمروی: اطلع النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم علی اھل القلیب فقال وجدتم ما وعد ربکم حقافقیل لہ اتدعوا مواتا فقال ما انتم باسمع منہم ولکن لا یجیبون  ۱؎۔ یعنی نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم چاہ بدر  پر تشریف لے گئے۔ جس میں کفار کی لاشیں پڑیں تھیں۔۔ پھر فرمایا: تم نے پایا جو تمھارے رب نے تمھیں سچا وعدہ دیاتھا۔ یعنی عذاب ۔ کسی نے عرض کی: حضور مُردہ کو پکارتے ہیں، ارشادفر مایا: تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سننے والے  پر وہ جواب نہیں دیتے۔

 

 (۱؎ الصحیح للبخاری    باب ماجاء فی عذاب القبر        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۸۳)

 

حدیث (۴۷): صحیح مسلم شریف میں امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی : ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان یرینا مصارع اھل بدر و ساق الحدیث الٰی ان قال فانطلق رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حتی انتھٰی الیھم فقال یا فلان بن فلان  ویا فلان بن فلان ھل وجہتم ما وعدکم اﷲ ورسولہ حق فانی قد وحدت ماوعدنی اﷲ حقا قال عمر یا رسول اﷲ کیف تکلم اجسادا لا ارواح فیھا قال ما انتم باسمع لما اقول منھم غیر انھم لایستطیعون ان یردوا علی شیئا ۔۲؎۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہمیں کفار بدر کی قتل گاہیں دکھاتے تھے کہ یہا ں فلاں کافر قتل ہوگا اوریہاں فلاں، جہاں جہاں حضور نے بتایا تھا وہیں وہیں ان کی لاشیں گریں۔ پھر بحکم حضور  وہ جیفے ایک کنویں میں بھردئےگئے۔ سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور نام بنام ان کفار لیام کو  ان کا اور ان کے باپ کا نام لے کر  پکارا۔، اور فرمایا: تم نے بھی پایا جو سچا وعدہ خدا ا ور  رسول نے تمھیں دیا تھا کہ میں نے تو پالیا جو حق وعدہ اللہ تعالٰی نے مجھے دیاتھا۔ امیرالمومنین عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ! حضور نے ان جسموں سے کیونکر کلام کرتے ہیں جن میں روحیں نہیں۔ فرمایا: جو میں کہہ رہاہوں کسے کچھ تم ان سے زیادہ نہیں سنتے مگر انھیں یہ طاقت نہیں کہ مجھے لوٹ کر جواب دیں ۔

 

 (۲؎صحیح مسلم        باب ماجاء مقعد المیّت      قدیمی کتب خانہ کراچی      ۲ /۳۸۷)

 

حدیث (۴۸): یونہی صحیح مسلم وغیرہ میں انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی اور اس میں ہے کہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تین دن بعد اس کنویں  پر  تشریف لے گئے اور عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے جواب میں فرمایا: والذی نفسی بیدہ ما انتم باسمع لما اقول منھم ولکنھم لایقدرون ان یجیبوا۳ ؎۔ قسم اس کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے میں جو فرما رہاہوں اس کے سننے میں تم اور وہ برابر ہو مگر وہ جواب دینے کی طاقت ن ہیں رکھتے۔

 

 (۳؎ صحیح مسلم        باب ماجاء مقعد المیّت    قدیمی کتب خانہ کراچی        ۲ /۳۸۷)

 

حدیث (۴۹): یو ہی صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حدیث ابو طلحہ انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی  ۱؎: اما البخاری فساقہ بطالہ واما مسلم فاحالہ علی حدیث انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ ۔ امام بخاری نے تو اسے تفصیل سے ذکر کیا مگر امام مسلم نے تفـصیل حدیث انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے حوالہ سے کی۔ (ت)

 

 (۱؎ الصحیح للبخاری    باب ماجاء فی عذاب القبر        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۸۴۔ ۱۸۳)

 (صحیح مسلم    باب مقعدالمیّت     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲ /۳۸۷)

 

حدیث (۵۰): طبرانی نے بسند صحیح عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کی سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : یسمعون کما تسمعون ولکن لا یجیبون  ۲؎۔ جیسا تم سنتے ہو ویسا ہی وہ بھی سنتے ہیں مگر جواب نہیں دیتے۔

 

 (۲؎ فتح االباری     بحوالہ عبداللہ بن سیدان    باب قتل ابی جہل    دارالمعرفہ بیروت    ۸ /۲۵۹)

 

حدیث (۵۱): اسی طرح امام سیلمان بن احمد مذکور نے حدیث عبداللہ بن سیدان رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کی۔

تنبیہ نبیہ: ان چھ حدیثوں کے جواب میں جو کچھ کہا گیا تخصیص بے مخصص و دعوٰی بے دلیل سے زیادہ نہیں۔ مثلا یہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خاص اعجاز تھا۔ یا یہ امر صر ف ان  کفار کے لئے ان کی حسرت و ندامت بڑھانے کو واقع  ہو ا حالانکہ ان کی تخصیصوں  پر  اصلاً کوئی دلیل نہیں۔ ایسی گنجائش ملے تو ہرنص شرعی جیسے چاہیں مخصص ہوسکے۔ اور ان سے بڑھ کر  یہ رکیک تاویل ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ خطاب حقیقۃً اموات سے خطاب نہ تھا بلکہ زندوں کو عبرت و نصیحت تھا، حالانکہ نفسِ حدیث اس کے رد پر حجت کافیہ۔ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے امیر المومنین فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے جواب میں صاف ان کا سننا ارشاد فرمایا، نہ یہ کہ ہمارا  یہ کلام صرف تنبیہ احیاء کے لیے ہے۔ جیسے مر ثیہ سیدنا امام حسین (رضی اﷲ تعالٰی عنہ) میں کسی کا مصرع:

 

اے آب خاک شو کہ ترا آبرو نماند        ( اے آب! خاک ہو جا کہ تیری آبرو نہ رہی ۔ت)

 

باقی ا س کے متعلق ابحاث فتح البخاری و ارشاد الساری وعمدۃ القاری شروح صحیح بخاری و مرقاۃ و لمعات و اشعۃ اللمعات شروح مشکوۃ مدارج النبوہ وغیرہ صدہا تصانیف علماء میں طے ہوچکی ہیں ۔ جن کی تفصیل موجب ، تطویل ۔ مولوی صاحب اگر امور طے شدہ کی طرف پھر رجعت کریں تو ذرا کتب مذکورہ پر نظر کرکے تقریر وہ فرمائی جائے جس میں ان کی تنقیحات جلیلہ سے عہدہ برآئی سمجھ لیں ، اس کے بعد ان شاء اللہ فقیر بھی وہ شوارق ساطعہ و بوارق لامعہ حاضر کرے گا جو اس وقت میرے پیش نظر جولانیوں پر ہے ، اور شاید ان میں سے چند حروف مقصد سوم میں استطرادًا مسکور ہو ں وباللہ التوفیق ۔

 

حدیث (۵۲): ابو الشیخ عبید بن مرزوق سے راوی : کانت امرأۃ تقم المسجد فماتت ولم یعلم بھا النبی  صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فمر علی قبرھا فقال ما ھذا القبر قالوا  ام محجن ،  قال التی کانت تقم المسجد قالوا نعم فصف الناس  فصلی علیھا ثم قال ای العمل وجدت افضل  قالوا یارسو ل اللہ اتسمع قال ما انتم باسمع منھا فذکر انھا اجابتہ ان اقم المسجد  ۱؂ ۔ یعنی ایک بی بی مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی ان کا انتقال ہوگیا۔ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کو کسی نے خبر دی  حضور ان کی قبر  پر گذرے ۔ دریافت فرمایا یہ قبر کیسی ہے ؟ لوگوں نے عرض کی : ام محجن کی ۔ فرمایا وہ ہی جو مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی عرض کی ہاں ۔ حضور نے صف باندھ کر نماز پڑھائی پھر ان بی بی کی طرف خطاب کرکے فرمایا توں نے کون سا عمل افضل پایا صحابہ نے عرض کیا یار سول اللہ ! کیا وہ سنتی ہے ؟ فرمایا کچھ تم اس سے زیادہ نہیں سنتے پھر فرمایا اس نے جواب دیا کہ مسجد میں جھاڑو دینی ۔

 

(۱؂ شرح الصدور بحوالہ ابو شیخ باب معرفۃ المیت من یغسلہ        خلافت اکیڈمی سوات      ص ۴۰ )

 

حدیث ( ۵۳): طبرانی معجم کبیر و کتاب الدعاء  میں اور ابن مندہ اور امام ضیائی مقدسی کتاب الاحکام اور ابراہیم حربی کتاب اتباع  الاموات اور ابوبکر علماء  الخلال کتاب الشافی اور ابن زہیرہ وصایا العلماء عند الموت اور ابن شاہین  کتاب ذکر الاموت ویگر علماء محدثین اپنی تصانیف حدیثیہ میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالے عنہ سے راوی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اذا مات احد من اخوانکم فسویتم التراب علی قبرہ فلیقم احدکم علی راس قبرہ ثم لیقل یافلان بن فلانۃ   فانہ یسمعہ  ولایجیب ثم یقول یا فلان بن فلانۃ فانہ یستوی قاعدا  ثم یقول یا فلان بن فلانۃ فانہ یقول ارشد نا رحمک اللہ ولکن لاتشعرون، فلیقل ذکر ماخرجت علیہ من الدنیا شھادۃ ان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ وانک رضیت باللہ ربّاوباالاسلام دینا وبمحمد نبیا وبالقران اماما فان منکرا و  نکیرا یاخذ کل و احد منھما بید صاحبہ ویقول ان انطلق بنا مانقعد عند من قدلقن حجتہ  ۱؂ ۔  الحدیث

 

جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی مرے اور اس کی قبر  پر مٹی برابر کر چکو تم میں سے کوئی اس کے سرہانے کھڑا ہو اور فلاں بن فلانہ (عہ)  کہہ کر پکارے بیشک وہ سنے گا اور جواب نہ دے گا دوبارہ پھر یوں ہی ندا کرے وہ سیدھا ہوبیھٹے گا سہ بارہ پھر اسی طرح آواز دے اب  وہ جواب دے گا کہ ہمیں ارشاد کہ اللہ تجھ پر رحم کرے مگر تمہیں اس کےجواب کی خبر نہیں ہوتی اس وقت کہے یاد کر وہ بات جس پر توں دنیا سے نکلا تھا  گواہی اس کی کہ اللہ کے سوا ء کوئی سچا معبود نہیں اور محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور یہ کہ توں نے پسند کیا اللہ تعالی کو پروردگار اور اسلام کو دین اور  محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو نبی اور قرآن کو پیشوا منکر و نکیر ہر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہے گے چلو ہم کیا بھیٹے اس کے پاس جسے لوگ اس کی حجت سکھا چکے ۔

 

عہ : یعنی اسے  اس کی ماں کی طرف نسبت کرکے مثلا اے زید بن ہندہ ، اور اگر ماں کانام نہ معلوم ہو تو بن حوا کہے کہ وہ سب کی ماں ہیں ۔ خود اسی حدیث میں نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے یہ معنی مروی ۱۲منہ

 

 (۱؂  المعجم الکبیر             حدیث ۷۹۷۹   مکتبہ فیصلیہ بیروت       ۸ /۹۹ ، ۲۹۸  )

 

فائدہ: امام ابن الصلاح وغیرہ محدثین اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں اعتضد بشواہد وبعمل اھل الشام  قدیما ؂۲ نقلہ العلامۃ ابن امیر الحاج فی الحلیۃ یعنی اس کو دو وجہ سے قوت ہے ایک تو حدیث اس کی موید ، دوسرے زمانہ صلف سے علماء شام اس پر عمل کرتے آئے ( علامہ ابن امیر الحاج نے اسے حلیہ میں نقل کیا ۔ ت)

 

 (۲؂  حاشیہ الطحطاوی   علی المراقی الفلاح     فصل فی حملہا و دفنہا      نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی  ص ۳۳۸)

 

اسی طرح امام نقاد الحدیث ضیائی مقدسی و امام خاتم الحفاظ حافظ الشان ، ابو الفضل احمد بن حجر عسقلانی نے اس کی تقویت اور امام شمس الدین سخاوی نے اس کی تقریر فرمائی اور اس باب میں خاص ایک رسالہ تالیف فرمایا ، اور امام احمد رضی اللہ عنہ نے اس پر عمل کرنا علماء شام سے نقل فرمایا ، اور امام ابوبکر ابن العربی نے اھل مدینہ اور بعض دیگر علماء میں اھل قرطبہ وغیرہ سے اس کا عمل نقل کیا میں کہتا ہوں یہ عمل زمانہ صحابہ وتابعین سے ہے حضرت ابو امامہ صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے خد اپنے لئے تلقین کی وصیت فرمائی  ؂۳ ۔

 

(۳؂  شرح  الصدور           باب مایقال عند الدفن و التلقین         خلاف اکیڈمی    سوات                   ص ۴۴ )

 

کما اخرجہ ابن مندہ من و جہ اٰ خر کما ذکرہ الامام السیوطی فی شرح الصدور قلت بل والطبرانی ایضاً علٰی ماساق لفظہ البدر المحمود فی البنایۃ شرح الھدایۃ ۔ جیسا کہ ابن مندہ نے دوسرے طریق سے ا س کی روایت کی، اسے امام سیوطی نے شرح الصدور میں ذکر کیا ہے۔ میں کہتا ہوں بلکہ طبرانی نے بھی اسے روایت کیا ہے، جیسا کہ علامہ بدر الدین محمود عینی نے بنایہ شرح ہدایہ میں اس کے الفاظ ذ کر کیے ہیں۔ (ت)

اور تین تابعیوں سے عنقریب منقول ہوگا کہ اسے مستحب کہا جاتا تھا۔ ظاہر ہے ان کی یہ نقل نہ ہوگی مگر صحابہ یا اکابر تابعین سے جو  ان سے  پہلے ہوئے۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔ علامہ ابن حجر مکی کی شرح مشکوٰۃ میں ہے : اعتضد بشواھد یرتقی بھا الٰی درجۃ الحسن   ۱؎  ( یہ حدیث بوجہ شواہد درجہ حسن تک ترقی کیے ہے) اسی طرح ذیل مجمع  بحار الانوار میں تصریح کی کہ اس نے شواہد سے قوت پائی۔ واﷲ تعالٰی اعلم

 

 (۱؎ مرقاۃ المفاتیح     شرح مشکوٰۃ    باب اثبات عذاب القبر    مکتبہ امدادیہ ملتان    ۱ /۲۰۹)

 

حدیث (۵۴تا ۵۶): امام سعید بن منصور شاگرد امام مالک واستاذ امام احمد اپنے سنن میں راشد(عہ۱) ۱ بن سعد   وضمرہ بن حبیب (عہ۲)  وحکیم بن عمیر (عہ۳)سے راوی، ان سب نے فرمایا : اذا سوی علی المیّت قبرہ  وانصرف الناس عنہ کان  یستحب ان یقال للمیّت عندہ قبرہ یافلان قل لا الٰہ الا اﷲ ثلث مرات یافلان قل ربی اﷲ ودینی الا سلام ونبی محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۲؎۔ جب میّت پر مٹی دے کر قبر درست کر چکیں اور لوگ واپس جائیں تو مستحب سمجھا جاتا تھا کہ مُردے سے اس کی قبر کے پاس کھڑے ہوکر کہا جائے : اے فلاں ! کہہ لا الٰہ الاّ اﷲ تین بار، اے فلاں! کہ میرا رب اللہ ہے اور میرا دین اسلام اور میرے نبی محمدصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۔

 

عہ ۱ :  تابعی ثقہ رجال سنن اربعہ سے ۱۲ منہ (م)

عہ۲ : تابعی ثقہ رجال صحاص ستہ سے ۱۲ منہ (م)

عہ۳ : تابعی صدوق رجال ابوداؤد و ابن ماجہ سے ۱۲منہ (م)

 

 (۲؎ شرح الصدور     بحوالہ سن سعید بن منصور    باب مایقال عند الدفن    خلافت اکیڈمی سوات    ص۴۴)

 

وصل اٰخر من ھذا الفصل:

 

فصل پنجم کی حدیثوں نے جس طرح بحمد اللہ سماع موتٰی کی تصریح فرمائی یونہی ان میں اکثر نے ثابت کردکھا یا کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم  اجمعین کا اہل قبور سے کلام صرف سلام پر مقتصر نہ تھا اور بدیہ ہے کہ جماد محض سے مخاطبہ وگفتگو معقول نہیں۔ لہٰذا ہم آخر فصل میں وہ بعض حدیثیں جن میں اجلہ صحابہ کا اہل قبور سے سوائے سلام دیگر انواع کلام فرمانا مذکور، نقل کرکے مقصد ثانی کو ختم اور مقصد ثالث کی طرف ان شاء اللہ تعالٰی تصمیمِ عزم کرتے ہیں، وباللہ ا لتوفیق،

 

حدیث (۵۷): ابن ماجہ بسند (عہ) حسن صحیح عبداللہ بن عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے راوی: قال جائز اعرابی الی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فذکرالحدیث الٰی ان قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حیثما مررت بقبر مشرک فبشرہ بالنار، قال فاسلم الاعرابی بعد وقال لقد کلفنی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تعبا مامررت بقبرکافر الا بشرتہ بالنار  ۱؎۔ یعنی نبی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے فرمایا: جہاں کسی مشرک کی قبر پرگزرے اسے آگ کا مژدہ دینا ___ اس کے بعد وہ اعرابی مسلمان ہوگیا تو وہ صحابی فرماتے ہیں مجھے مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اس ارشاد سے  ایک مشقت میں ڈالا، کسی کافر کی قبر  پر میراگذر  نہ ہوا مگر یہ کہ اسے آگ کا مژدہ دیا۔

ہر عاقل جانتا ہے کہ مژدہ دینا بے سماع محال، اور صحابی مخاطب نے ارشاد اقدس کو معنٰی حقیقی پر حمل کیا، ولہٰذا عمر بھر اس پر عمل فرمایا فتبصر ،

 

عہ فائدہ: یہ حدیثیں طبرانی نے معجم الکبیر میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کی ۱۲ منہ (م)

 

 (۱؎ سنن ابن ماجہ    باب ماجاء فی زیارۃ القبور المشرکین    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص ۱۱۴)

 

حدیث (۵۸): ابن ابی الدنیا کتاب القبور میں امیرالمؤمنین عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی : انہ مربالبقیع فقال السلام علیکم یا اھل القبور اخبار ما عندنا ان نساء کم قد تزوجن ودیارکم قد سکنت واموالکم قد فرقت فاجابہ ھا تف یاعمر ابن الخطاب اخبار ماعندنا ان ماقدمناہ فقد وجدناہ وما انفقنا فقد ربحناہ وما خلفناہ فقد خسرناہ ۱؎۔ یعنی ایک بار امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ بقیع  پر گزرے اہل قبور  پر سلام کرکے فرمایا: ہمارے پاس کی خبریں یہ ہیں کہ تمھاری عورتوں نے نکاح کرلیے اور تمھارے گھروں میں اور لوگ بسے، تمھارے مال تقسیم ہوگئے۔ اس پر کسی نے جواب دیا: اے عمر بن الخطاب! ہمارے پاس کی خبریں یہ ہیں کہ ہم نے جو اعمال کئے تھے یہاں پائے اور

جو  راہ خدا میں دیا تھا اس کا نفع اٹھایا اور جو  پیچھے چھوڑا وہ ٹوٹے میں گیا ۔

 

 (۱؎ شرح الصدور بحوالہ کتاب القبور لابن ابی الدنیا    باب زیارۃ القبور    خلافت اکیدمی سوات    ص۸۷)

 

حدیث (۵۹): امام احمد تاریخ نیشاپورا ور بہیقی اور ابن عساکر تاریخ دمشق میں سعید بن المسیّب سے راوی: قال دخلنا مقابر المدینۃ مع علی ابن ابی الطالب فنادٰی یا اھل القبور السلام علیکم ورحمۃ اﷲ تخبرونا باخبارکم تریدون ان نخبرکم قال فسمعت صوتا و علیک السلام ورحمہ اﷲ وبرکاتہ یا امیر المومنین اخبرنا عماکان بعدنا فقال علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ اما ازواجکم  فقد تزوجن واما اموالکم فقد اقتسمت و اولاد فقد حشر وا فی زمرۃ الیتامٰی والبناء الذی شیدتم فقد سکن اعداء کم فھذہ اخبار ما عندنا فما عندکم فاجابہ میّت فقد تخرفت الاکفان وانتثرت الشعور و تقطعت الجلود وسالت الاحداق علی الخدود وسالت مناخیر بالقیح والصدید وماقدمناہ ربحناہ وماخلفناہ خسرنا ونحن مرتھنون بالاعمال  ۲؎۔

 

یعنی ہم مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ہمرکاب مقابر مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے۔ حضرت مولا علی نے اہل قبر پر سلام کرکے فرمایا: تم ہمیں اپنی خبریں بتاؤ گے یا یہ چاہتے ہو کہ ہم تمھیں خبردیں؟ سعد بن مسیب فرماتے ہیں: میں نے آواز سنی کسی نے حضرت مولٰی کو جواب سلام دے کر عرض کی: امیرالمومنین! آپ بتائیے ہمارے بعد کیا گذری؟ امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: تمھاری عورتوں نے تو نکاح کرلیے، اور تمھارے مال سو وہ بٹ گئے، اورا ولاد یتیموں کے گروہ میں اٹھی، اور وہ تعمیر جس کا تم نے استحکام کیا تھا اس میں تمھارے دشمن بسے، ہمارے پاس کی خبریں تو یہ ہیں اب تمھارے پاس کیا خبر ہے؟ ایک مُردے نے عرض کی کہ کفن پھٹ گئے، بال جھڑ پڑے، کھالوں کے پرزے پُرزے ہوگئے، آنکھوں کے ڈھیلے بہہ کر گالوں تک آئے، نتھنوں سے پیپ اور گندا پانی جاری ہے اور جو آگے بھیجا تھا اس کا نفع ملا اور جو پیچھے چھوڑا ا سکا خسارہ ہوا اور اپنے اعمال میں محبوس ہیں،

 

 (۲؎ شرح الصدور بحوالہ کتاب القبور الابن ابی الدنیا تاریخ ابن عساکر    خلافت اکیدمی سوات ص ۸۷)

 

وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل ولاحول ولاقوۃ الاّ باﷲ العلی العظیم سبحٰن من تفرد بالبقاء وقھر عبادہ بالموت سبحان الحی الذی لایموت ابداوھو الغفور الرحیم ۔ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ کیاہی اچھا کارساز ہے، طاقت و قوت نہیں مگر عظمت وبلندی والے خدا ہی سے  پاک ہے وہ  جو اکیلا باقی رہنے والا ہے، اور اپنے بندوں کو موت کے تابع فرمان کردیا ہے۔ پاک ہے وہ حیات والا جسے کبھی موت نہیں، اور وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ (ت)

 

تنبیہ : جن صاحبوں نے جواب حدیث چہلم میں اس خطاب جناب ولایت مآب کرم اللہ وجہہ کو محض وعظ وتنبیہ احیاء کے لیے قرار دیا کما نقلہ فی مائۃ مسائل ۱؎  (جیسا کہ مائتہ مسائل میں اسے نقل کیا گیا۔ ت)

 

 (۱؎ ماتہ مسائل     مسئلہ بست وششم    مکتبہ توحید وسنت پشاور    ص۵۴)

 

غالباً انھوں نے پوری حدیث ملاحظہ نہ فرمائی ورنہ اس کے لفظ اول سے آخر تک پکار رہے ہیں کہ یہاں حقیقۃ اموات ہی سے خطاب مقصود تھا۔ اسی قدر  کو دیکھ لیجئے کہ جناب مولا نے ابتداءۡ یہ لفظ ارشاد نہ کئے بلکہ اول ان سے استفسار فرمایا کہ پہلے تم اپنی خبریں بتاؤ گے یاہم شروع کریں، کہئے بے ارادہ خطاب حقیقی اس دریافت کرنے اور اختیار دینے کے کیا معنٰی تھے، پھران کی درخواست پر حضرت نے اخبار دینا ارشاد فرما کر انھیں حکم دیا:ا ب تم اپنی خبریں بتاؤ۔ چنانچہ انھوں نے عرض کیں۔ پھر مخاطبہ حقیقی میں کیاشک ہے! واللہ الموفق۔

 

حدیث (۶۰): ابن عساکر نے ایک طویل حدیث روایت کی جس کا حاصل یہ ہے کہ عہد معدلت مہد فاروقی میں ایک جوان عابد تھا۔ امیرالمؤمنین اس سے بہت خوش تھے، دن بھر مسجد میں رہتا،بعد نماز عشاء باپ کے پاس جاتا ، راہ میں ایک عورت کا مکان تھا اس پر عاشق ہوگئی ، ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی، جوان نظر نہ فرماتا، ایک شب قدم نے لغزش کی، ساتھ ہولیا، دروازے تک گیا، جب اندر جانا چاہا خدا یاد آگیا اور بے ساختہ یہ آیہ کریمہ زبان سے نکلی: ان ۤالذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطٰن تذکروافاذاھم مبصرون ۲؎۔ ڈر والوں کو جب کوئی جھپٹ شیطان کی پہنچتی ہے خدا کو یاد کرتے ہیں اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔

 

 (۲؎القرآن       ۷ /۲۰۱)

 

آیت پڑھتے ہی غش کھا کر گرا، عورت نے اپنی کنیز کے ساتھ اٹھا کر اس کے دروازے پر ڈال۔ باپ منتظر تھا۔ آنے میں دیر ہوئی، دیکھنے نکلا، دورازے پر بیہوش پڑا پایا۔ گھر والوں کو بلا کر اندر اُٹھوایا، رات گئے ہوش آیا، باپ نے حال پوچھا،کہا خیر ہے، کہا بتادے، ناچار قصہ کہا۔ باپ  بولا جان پدر ! وہ آیت کو ن سی ہے؟ جوان نے پھر پڑھی، پڑھتے ہی غش آیا، جنبش دی، مُردہ پایا، رات ہی کو نہلا کفنا کر دفن کردیا، صبح کو امیر المؤمنین نے خبر پائی، باپ سے تعزیت اور خبر نہ دینے کی شکایت فرمائی، عرض کی: یا امیرالمومنین! رات تھی، پھر امیرالمؤمنین ہمراہیوں کو لے کر تشریف لے گئے  ____ آگے لفظ حدیث یوں ہیں : فقال عمر یافلان ولمن خاف مقام ربہ جنتٰن، فاجابہ الفتی من داخل القبر یا عمر قد اعطانیہا ربی فی الجنۃ مرتین ۱؎۔ یعنی امیر المومنین نے جوان کا نام لے کر فرمایا: اے فلان! جو اپنے رب کے پاس کھڑے ہونے کا ڈر کرے اس کے لیے دو باغ ہیں، جوان نے قبر میں سے آواز دی، اے عمر! مجھے میرے رب نے یہ دولت عظمی جنت میں دو بار عطا فرمائی۔

 

 (۱؂کنز العمال    بحوالہ  ک    حدیث ۴۶۳۴        موسستہ الرسالہ بیروت         ۲   /   ۱۷۔۵۱۶)

 

نسأل اﷲ الجنۃ لہ الفضل والمنۃ وصلی اﷲ تعالٰی علی نبی الانس والجنۃ واٰلہ وصحبہ واصحابہ السنۃ اٰمین اٰمین اٰمین! ہم  اللہ سے جنت کے خواستگار ہیں، اسی کے لیے فضل و احسان ہے۔ اور خدائے برتر کا درود سلام ہو انس و جِن کے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور ان کی آل واصحاب اور اہل سنت پر۔ الٰہی! قبول فرما، قبول فرما، قبول فرما! (ت)

 

المقصد الثالث فی اقوال العُلماء

(مقصد سوم علماء کے اقول میں)

 

قال الفقیر محرر السطور غفرلہ المولٰی الغفور اس مسئلہ میں ہمارے مذہب کی تصریح وتلویح وتنقیص وتلمیح و تائید وترجیح وتسلیم وتصحیح میں ارشادات متکاثرہ واقوال متوافرہ ہیں حضراتِ عالیہ صحابہ کرام وتابعین فخام و اتباع اعلام ومجتہدین اسلام وسلف وخلف علمائے عظام سے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین وحشرنا فی زمرتھم یو م الدین اٰمین  (اللہ تعالٰی ان سب سے راضی ہو ا ور  ہمیں روز قیامت ان کے زمرے میں اٹھائے۔ الہٰی قبول فرما۔ ت) فقیر غفرلہ، اللہ تعالٰی اگر بقدر قدرت  ان کے حصر واستغفار کا ارادہ کرے موجز عجالہ حد مجلد سے گزرے، لہٰذا اولاً صرف سو (۱۰۰) ائمہ دین وعلماء کاملین کے اسماء طیبہ شمار کرتاہوں جن کے اقوال اس وقت میرے پیش نظر اور اس رسالہ کے فصول ومقاصد میں جلوہ گر وفضل اﷲ سبحانہ او سمع و اکثر (اور اللہ  سبحانہ کا فضل او ر زیادہ وسیع افروز تر ہے۔ ت) پھر دس نا م ان عالموں کے بھی حاضر کروں گا جن پر اعتماد میں مخالف مضطر وھذا لدیھم ادھٰی وامرو الحمد اللہ العلی الاکبر ( اور  یہ ان کے نزدیک سخت اور تلخ ہے۔ اور سب خوبیاں بلندی وکبریائی والے خداہی کے لیے ہیں۔ ت)

 

فمن الصحابۃ رضوان اﷲ تعالٰی اجمعین علیھم اجمعین:

 

 (۱) امیر المؤمنین عمرفاروق اعظم                            (۲) امیر المؤمنین علی مرتضٰی

(۳) حضرت عبداللہ بن مسعوود                            (۴) حضرت سلیمان فارسی

(۵) عمروبن عاص                                      (۶) عبداللہ بن عمر

(۷) ابوھریرہ                                           (۸) عبداللہ بن عمرو

(۹) عقبہ بن عامر                                         (۱۰) ابوامامہ بابلی

(۱۱) صحابی اعرابی صاحب حدیث حیثما مررت وغیرہم رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔

اور میں ان کے سوا ان صحابہ کرام کے نام یہاں شمار نہیں کرتا جنھوں نے سماع وادراکِ موتٰی حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا یا حضور کی زبان پاک سے سُنا مثل عبداللہ بن عباس وانس بن مالک و ابوزرین وبراء بن عازب وابو طلحہ وعمارہ بن حزم  وابو سعید خدری و عبداللہ بن سیدان و ام سلمہ وقیلہ بنت مخرمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم،ا گر چہ معلوم کہ ارشاد والا حضور  اعلٰی  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سن کر ان کے خلاف پر اعتقاد حضرات صحابہ سے معقول نہیں، نہ مقام مقام احکام کہ احتمال خلاف بعلم ناسخ ہو، تاہم جب قصد استیعاب نہیں تو انھیں پر اقتصار جن کے خود اقوال و افعال دلیل مسئلہ ہیں، وباﷲ التوفیق۔

 

ومن التابعین رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم اجمعین:

 

(۱۲) مجاہد مکی (۱۳)عمرو بن دینار (۱۴) بکرمزنی (۱۵) ابن ابی لیلٰی (۱۶)قاسم بن مخیمرہ  (۱۷) راشد بن سعد(۱۸) ضمرہ بن حبیب  (۱۹) حکیم بن عمیر(۲۰)علاء بن لجلاج(۲۱)بلال بن سعد(۲۲)محمد بن واسع(۲۳) اُم الدرداء وغیرہم رحمہم اللہ تعالٰی۔

 

ومن تبع تابعین لطف اﷲ بھم یوم الدین:

 

(۲۴) عالم قریش سیدنا ابو محمد بن ادریس شافعی (۲۵) عالمِ کوفہ فقیہ مجتہد امام سفیان (۲۶) عبدالرحمن بن العلاء وغیرہم روح اللہ تعالٰی ارواحہم۔

 

ومن اعاظم السلف واکارم الخلف نور اﷲ تعالٰی مراقدھم:

 

(۲۷) عالم اہلبیتِ رسالت حضرت اما م علی بن موسٰی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی وبتول بنت رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلیھم وبارک  وسلم (۲۸) امام اجل عارف باللہ محمد بن علی حکیم ترمذی (۲۹) امام محدث جلیل کبیر اسمٰعیل (۳۰)امام فقیہ عابد وزاہد احمد بن عصمہ ابوالقاسم صفار حنفی بدو واسطہ شاگرد امام ابو یوسف وامام محمد رحمہم اللہ تعالٰی (۳۱) امام ابوبکر احمد بن حسین بہیقی شافعی (۳۲) امام ابو عمر یوسف بن عبدالبر مالکی (۳۳) امام ابوالفضل محمد بن احمد حاکم شہید حنفی صاحب کافی (۳۴) امام ابوالفضل قاضی عیاض یحصبی مالکی (۳۵) امام حجۃ السلام مرشد الانام ابو حامد محمد محمد محمد غزالی (۳۶) امام ابو عبداللہ محمد بن احمد بن فرح قر طبی صاحب تذکرہ (۳۷) امام شمس الائمہ حلوائی حنفی (۳۸) امام عارف باللہ فقیہ زاہد (۳۹) امام محدث محی الدین طبری شافعی (۴۰) امام ربانی سیدنا علاء الدین سمنانی (۴۱) امام ابوالمحاسن حسن بن علی ظہیر الدین کبیر مرغینانی حنفی استاذا مام قاضی خاں وصاحب خلاصہ (۴۲) بعض اساتذہ امام شیخ الاسلام علی بن ابی بکر برہان الدین فرغانی حنفی صحاب التجنیس والمزید (۴۳) اما فقیہ النفس قاضی حسن بن منصور فرغانی اوزجندی حنفی (۴۴) امام ابو ذکریا یحٰی بن شرف نووی شافعی صحیح مسلم (۴۵) امام فخرالدین محمدرازی شافعی (۴۶) امام سعد الدین تفتازائی مصنف وشارح مقاصد (۴۷) امام ابو سلیمٰن احمد بن ابراہیم خطابی (۴۸) امام ا بوالقاسم عبدالرحمن بن عبداللہ بن احمد سہیلی صاحب الروض (۴۹)امام عمر بن محمد بن عمر جلال الدین خبازی حنفی صاحب فتاوٰی خبازیہ (۵۰) صاح عیاب حنفی تلمیذ امامِ اجل قاضی خاں (۵۱) علامہ محمود بن محمد لولوی بخاری حنفی صاحب حقائق شرح منظومہ نسفیہ تلمیذ التلمیذ امام شمس الائمہ کردی (۵۲) سیدی یوسف بن عمر صوفی حنفی صاحب مضمرات (۵۳) امام عارف باﷲ صدرالدین قونوی (۵۴) امام شہاب الدین فضل اللہ بن حسین تورپشتی حنفی (۵۵) امام ملک العلماء عز الدین بن عبدالسلام شافعی (۵۶) امام محدث زین الدین مراغی (۵۷) امام ابو عبداللہ محمدبن احمد بن علی بن جابر اندلسی (۵۸) قاضی ناصر الدین بیضاوی شافعی صاحب تفسیر (۵۹) امام ابوعبداللہ بن النعمان صاحب سفینۃ النجاہ لاہل الالتجاء فی کرامات الشیخ ابی النجاء (۶۰) امام عارف باﷲ عبداللہ بن اسعد یافعی شافعی صاحب روض الریاحیں (۶۱) امام علامہ سید الحفاظ ابو علی ابوالفضل احمد بن علی ابن حجر عسقلانی شافعی صاحب فتح الباری شرح صحیح بخاری (۶۲) امام شمس الدین محمد بن یوسف کرمانی حنفی صاحب کواکب الدراری شرح صحیح بخاری(۶۳) امام علامہ شافعی صاحب شفاء السقام (۶۴) امام شمس الدین محمد بن عبدالرحمن سخاوی شافعی صاحب ارتیاح الاکباد بفقد الاولیاٰء (۶۵) امام خاتم الحفاظ مجدد المائۃ التاسعہ ابوالفضل جلال الدین بن عبدالرحمن سیوطی صاحب شرح الصدور و بدور سافرہ وانیس الغریب و زہرالربی شرح سنن نسائی وغیرہ (۶۶) امام علامہ محمد بن احمد خطیب قسطلانی شافعی صاحب مواھب لدنیہ و ارشاد الساری شرح صحیح بخاری (۶۷) امام شہاب الدین رملی انصاری شافعی (۶۸) سیدی ولی اللہ احمد زروق (۶۹) سید عارف باﷲا بوالعباس حضرمی (۷۰) امام احمد بن محمد بن حجر مکی شافعی شارح مشکوٰۃ (۷۱) محقق  علامہ محمد محمد محمد ابن امیر الحاج حنفی صاحب حلیہ شرح منیہ (۷۲) امام محمد عبدری مکی مالکی (۷۳) امام صدر کبیر حسام الدین شہید عمر بن عبدالعزیز صاحب فتاوٰی کبرٰی حنفی (۷۴)امام محمد بن محمد بن شہاب الدین بزازی حنفی صاحب بزازیہ (۷۵) علامہ نوالدین سمہودی شافعی صاحب خلاصتہ الوفاء فی اخبار دارالمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (۷۶) علامہ رحمۃ اللہ سندی حنفی صاحب مناسک ثلٰثہ (۷۷) علامہ نورالدین علی بن ابراہیم بن احمد حلبی شافعی صاحب سیرۃ انسان العیون (۷۸)امام عارف باﷲ عبدالوہاب شعرانی شافعی صاحب میزان الشریعۃ الکبرٰی (۷۹)علامہ محمد بن یوسف شامی صاحب سبل الہٰدی والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (۸۰) علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی صاحب شرح مواہب (۸۱) علامہ عبدالرؤف محمد مناوی صاحب تیسیر شرح جامع صغیر (۸۲) امام ابوبکر بن محمد بن علی حدادی حنفی صاحب جوہرہ نیرہ شرح قدوری (۸۳) علامہ ابراہیم بن محمد ابراہیم حلبی حنفی صاحب غنیہ شرح منیہ (۸۴)فاضل علی بن سلطان محمد قاری مکی حنفی صاحب مرقاۃ شرح مشکوٰۃ (۸۵) علامہ محمد بن احمد بن جموی حنفی استاد محقق شربنلالی (۸۶) علامہ ابوالاخلاص حسن بن عمارمصری شرنبلالی حنفی صاحب نورالایضاح و امداد الفتاح و مراقی الفلاح (۸۷) علامہ خیر الدین رملی حنفی صاحب فتاوٰی خیریہ، استاذ صاحب درمختار (۸۸)فاضل مدقق محمد بن علی دمشقی حصکفی شارح تنویر (۸۹) سیدی عارف باﷲ عبدالغنی بن اسمٰعیل بن عبدالغنی نابلسی حنفی صاحب حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ (۹۰) سید علامہ ابوالسعود محمد حنفی (۹۱)مولانا عارف باﷲ نورالدین جامی حنفی صاحب نفحات (۹۲) شیخ محقق برکۃ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی الہند مولانا عبدالحق بن سیف الدین محدث دہلوی حنفی صاحب لمعات واشعۃ اللمعات وجامع البرکات وجذب القلوب ومدارج النبوۃ (۹۳) فاضل محدث مولٰنا محمدطاہر فتنی احمد آبادی حنفی صاحب مجمع بحارالانوار  (۹۴) فاضل شیخ الاسلام دہلوی حنفی صاحب کشف الغطا (۹۵)مولٰنا شیخ جلیل نظام الدین وغیرہ جامعانِ فتاوٰی عالمگیری حنفیان (۹۶) بحرالعلوم ملک العلماء مولانا ابوالعیاش محمد بن عبدالعلی لکھنوی حنفی (۹۷) خاتمۃ المحققین علامہ غنیمی حنفی (۹۸) فاضل سید احمد مصری طحطاوی حنفی (۹۹) سیدی امین الدین محمد شامی حنفی محشیان شرح علائی (۱۰۰) سیدی جمال بن عبداللہ بن عمر مکی حنفی وغیرہم برداللہ تعالٰی مضاجعہم ۔

 

نوعِ اول : ا قوال علماء سلف وخلف میں، ایک تمہید اور پندرہ (۱۵) فصل پر مشتمل۔

(۱) ابن عساکر تاریخ دمشق میں امام محمد بن وضاح سے راوی، امام اجل سحنون بن سعید قدس سرہ، سے کہا گیا ایک شخص کہتا ہے بدن کے مرنے سے روح بھی مرجاتی ہے۔فرمایا: معاذاﷲ ھذا من قول اھل البدع ۱ ؎ خدا کی پناہ یہ بدعتیوں کا قول ہے۔

 

(شرح الصدور   بحوالہ ابن عساکر   خاتمۃ فی فوائد تتعلق بالروح     خلافت  اکیڈمی منگورہ سوات   ص۱۳۵ )

 

(۲) امام ابن امیرالحاج خاتمہ حلیہ میں دربارہَ فوائد غسلِ میّت فرماتے ہیں: اذا اعتنی المولی بتطھیر جسد یلقی فی التراب تنبہ العبد الی تطہیر ماھوا باق وھو النفس فانہ لایفنی عند اھل السنۃ والجماعۃ ؂۱ ۔ یعنی جب بندہ دیکھے گا کہ مولٰی تبارک وتعالٰی نے ہم  پر اس بدن کی تطہیر فرض کی جو خاک میں ڈالا جائیگا تو متنبہ ہو گا کہ اس کی تطہیر اور بھی ضرور  ہے جو باقی رہنے والا ہے یعنی روح کہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک فنا نہیں ہوتی۔

 

 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

 (۳) امام غزالدین بن عبدالسلام (عہ۱) فرماتے ہیں کہ: لا تموت ارواح الحیاۃ بل ترفع الی السماء حیۃ  ۲؎۔ روحیں مرتی نہیں بلکہ زندہ آسمان کی طرف اُٹھالی جاتی ہیں۔

 

عہ۱:  نقلہ فی شرح الصدور وعن امالیہ۱۲ منہ (م) اسے شرح الصدور میں ان کے امالی سے نقل کیا ۔ ت

 

 (۲؎ شرح الصدور     بحوالہ عزالدین بن عبدالسلام    خاتمہ فی فوائد تتعلق بالروح    خلافت اکیڈمی سوات    ص۱۳۴)

 

 (۴) امام جلال الحق والدین سیوطی شرح الصدور میں ناقل، باقیہ بعد خلقھا بالاجماع ۳ ؎ روحیں پیدائش کے بعد بالاجماع جاوداں رہتی ہیں۔

 

 (۳؎ شرح الصدور          بحوالہ کتاب ابن قیم        خاتمہ فی فوائد تتعلق بالروح    خلافت اکیڈمی سوات    ص ۱۳۵)

 

 (۵) خودا مام ممدوح اس امرکی تائید کہ شہداء کی زندگی صرف روحانی بلکہ روح وبدن دونوں سے ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں: لوکان المرادحیات الروح فقط لم یحصل لہ تمیز عن غیرہ لمشارکۃ سائرا لاموات لہ فی ذلک ولعلم المومنین باسرھم حیاۃ کل الارواح فلم یکن لقولہ تعالٰی ولکن لاتشعرون ۴؎۔ یعنی اگر آیت کریمہ میں حیات شہید سے صرف زندگی روح مراد ہوتی ہے تو اس میں اس کی کیا خصوصیت تھی، یہ بات تو  ہر مُردے کو حاصل ہے اور تمام مسلمان جانتے ہیں کہ سب کی روحیں بعد موت زندہ رہتی ہیں۔ حالانکہ حیات شہداء کی نسبت آیت میں فرمایا کہ تمھیں خبرنہیں یہاں سے اجماع صحابہ ثابت ہوا۔

 

 (۴؎ شرح الصدور    باب زیارۃ القبور        خاتمہ فی فوائد تتعلق بالروح    خلافت اکیڈمی سوات  ص۸۵)

 

فصل اوّل : موت صرف ایک مکان سے دوسرے مکان میں چلا جاتا ہے نہ کہ معاذ اﷲ جماد ہوجانا۔

قول (۱): ابو نعیم حلیہ میں بلال (عہ) بن سعد رحمۃ اﷲ تعالٰی سے راوی کہ اپنے وعظ میں فرماتے : یا اھل الخلوت یا اھل البقاء انکم لم تخلفوا للفناء وانما خلقتم للخلوت و الابداولکنکم تتقلون من دارٍ الٰی دار  ۱؎۔ اے ہمیشگی والو! اے بقا والو! تم فنا کو نہ بنے بلکہ دوام وہمیشگی کے لیے بنے ہو، ہاں ایک گھر سے دوسرے گھر میں چلے جاتے ہو ۔

 

عہ ۲: تابعی جلیل ،عابد، فاضل، ثقہ، رجال نسائی وغیرہ سے  ۱۲منہ (م) (۱؎ شرح الصدور     بحوالہ حلیہ    باب فضل الموت    خلافت اکیڈمی منگورہ سوات    ص۵)

 

قول (۲): شرح الصدور میں ہے : قال العلماء الموت لیس بعدم محض ولافناء صرف وانما ھو انقطاع تعلق الروح بالبدن ومفارقۃ وحیلولۃ بینھما وتبدل حال وانتقال من دارالی دار۲ ؎۔ علماء نے فرمایا موت کے یہ معنی نہیں کہ آدمی نیست ونابُود ہوجائے بلکہ وہ تویہی روح وبدن کے تعلق چھونے اور ان میں حجاب وجُدائی ہوجانے اور ایک طرح کی حالت بدلنے اور  ایک گھر سے دوسرے گھر چلے جانے کا نام ہے۔

 

 (۲؎ شرح الصدور     بحوالہ حلیہ    باب فضل الموت    خلافت اکیڈمی منگورہ سوات    ص۵)

 

تنبیہ :  تعلق چھوٹنے کے یہ معنی کہ وہ علاقہ معہودہ جو عالم حیات تھا، جاتا رہا۔اور اس طرح حجاب و جدائی ہوجانے سے یہ مراد کہ ویسا اتصال تام باقی نہیں، ورنہ مذہب اہلسنت میں روح کو بعدموت بھی بدن سے ایک تعلق واتصال رہتا ہے جیسا کہ فصولِ آئندہ کے اقوال کثیرہ میں آئے گا ان شاء اللہ تعالٰی۔

 

 (۳): جامع البرکات میں فرمایا : موت عدم محض میّت چنانکہ وہریاں وطبعیان گویند بلکہ انتقال  ست از حالے بحالے واز دارے بدارے ۳؎۔ موت نیست ونابود ہوجانے کا نام نہیں جیسا کہ دہریہ اور طبعیین کہتے ہیں بلکہ ایک حال سے دوسرے حال اور ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوجانے کا نام ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ جامع البرکات    )

 

قول (۴): اشعۃ المعات شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ: اولیائے خدا نقل کردہ شد ندازیں دارفانی بہ دار بقا و زندہ اند نزد پروردگار و مرزوق اند خوشحال اند ومردم را ازاں شعور نیست  ۴؎۔ اولیاء اس دارفانی سے دار بقاء میں منتقل کردئے جاتے ہیں، وہ اپنے پرورگار کے یہاں زندہ ہیں، انھیں رزق ملتا ہے اور خوشحال رہتے ہیں او رلوگوں کو اس کی خبر نہیں۔ (ت)

 

 (۴؎اشعۃ المعات    باب حکم الاسراء فصل    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر        ۳ /۴۰۲)

 

قول (۵): مرقاۃشرح مشکوٰۃ میں فرمایا: لافرق لھُم فی الحالین ولذا قیل اولیاء اﷲ لایموتون ولکن تنتقلون من دار الٰی دار  ۱؎۔ اولیاء کی دونوں حالت و ممات میں اصلاً فرق نہیں،ا سی لیے کہا گیا کہ وہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر تشریف لے جاتے ہیں ۔

 

 (۱؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ    کتاب الصلٰوۃ    باب الجمعہ         مکتبہ امدادیہ ملتان    ۳ /۲۴۱)

 

روایت مناسبہ (عہ): امام عارف باﷲ استاذ ابوالقاسم قشیری قدس سرہ، اپنے رسالہ میں بسند خود حضرت ولی مشہور سیدنا ابو سعید خراز قدس سرہ الممتاز سے راوی کہ میں مکہ معظمہ میں تھا بابِ بنی شیبہ پر ایک جوان مُردہ پڑا پایا۔ جب میں نے اس کی طرف نظر کی، مجھے دیکھ کر مسکرایا اور کہا: یا ابا سعید اماعلمت ان الاحباء احیاء و ان ماتوا وانما ینقلون من دار الٰی دار  ۲؎۔ اے ابو سعید! کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ کے پیارے زندہ ہیں اگر چہ مرجائیں، وہ تو یہی ایک گھر سے دوسرے گھر میں بلائے جاتے ہیں ۔

 

عہ : ھذہ والاربعۃ بعدھا کل ذلک فی شرح الصدور ۱۲ منہ (م) یہ روایت  اور اسکے بعد کی دوچاروں روایتیں سب شرح الصدور میں ہیں۔ (ت)

 

 (۲ ؎ الرسالۃ القشیریۃ     باب احوالھم عند الخروج من الدنیا    مصطفی البابی مصر    ص۱۴۰)

 

روایت دوم : وہی عالی جناب حضرت سیدی ابو علی قدس سرہ، سے راوی، میں نے ایک فقیر کو قبر میں اتارا، جب کفن کھولا اور ان کا سر خاک پر رکھ دیا کہ اللہ ان کی غربت پر رحم کرے، فقیر نے آنکھیں کھول دیں اور مجھ سے فرمایا: یا اباعلی أتذلنی بین یدی و من دللنی۳؎۔ اے ابو علی ! مجھے اس کے سامنے ذلیل کرتے ہو جو میرے ناز اٹھاتا ہے۔

 

 (۳؎ الرسالۃ القشیریۃ        باب احوالھم عند الخروج من الدنیا    مصطفی البابی مصر    ص۱۴۰)

 

میں نے عرض کی:ا ے سردار میرے! کیا موت کے بعد زندگی؟ فرمایا: بلٰی اناحی وکل محب اﷲ حی لا یضرنک بجاھی غدا یاروذباری ۴؎۔ میں زندہ ہوں اور خدا کا ہر پیارا زندہ ہے بیشک وہ جاہت وعزت جو روز قیامت میں ملے گی اس سے تجھے کوئی ضرر نہ پہنچے گا بلکہ میں تیری مدد کروں گا اے روذ باری۔

 

 (۴  ؎ الرسالۃ القشیریۃ    باب احوالھم عند الخروج من الدنیا    مصطفی البابی مصر    ص  ۱۴۰)

 

روایت سوم : وہی جناب مستطاب حضرت ابراہیم بن شیبان قدس سرہ، سے راوی، میرا ایک مرید جوان مرگیا، مجھے سخت صدمہ ہوا، نہلانے بیٹھا، گھبراہٹ میں بائیں طرف سے ابتداء کی، جوان نے وہ کروٹ ہٹا کر اپنی داہنی کروٹ میری طرف کی، میں نے کہا: جان پدر ! تو سچّا ہے مجھ سے غلطی ہوئی۔

روایت چہارم : وہی امام حضرت ابویعقوب سوسی نہر جوری قدس سرہ، سے راوی، میں نے ایک مرید کو نہلانے کے لیے تختے پر لٹایا اس نے میرانگوٹا پکڑلیا میں نے کہا: جان پدر ! میں جانتا ہوں کہ تو مُردہ نہیں یہ تو صرف مکان بدلنا ہے۔   لے میرا ہاتھ چھوڑ دے۔۱؎

 

 (۱؂الرسالۃ القشیریۃ    فصل فان قیل فما الغالب علی الولی فی حال الخ    مصطفی البابی مصر    ص۱۷۰)

 

روایت پنجم: جناب ممدوح انہی عارف موصوف سے راوی، مکہ معظمہ میں ایک مرید نے مجھ سے کہا پیر ومرشد! میں کل ظہر کے وقت مرجاؤں گا، حضرت! یہ اشرفیاں لیں اور آدھی میں میرا دفن آدھی میں میرا کفن کریں، جب دوسرا دن ہوا اور ظہر کاوقت آیا مرید مذکور نے آکر طواف کیا۔ پھر کعبہ سے ہٹ کر لیٹا تو روح نہ تھی، میں نے قبر میں اتارا، آنکھیں کھول دیں، میں نے کہا: موت کے بعد زندگی کہاں؟   اناحی وکل محب اﷲ حی۲؎ میں زندہ ہوں اوراللہ کا ہر دوست زندہ ہے۔

 

(۲؎الرسالۃ القشیریۃ       فصل فان قیل فما الغالب علی الولی فی حال الخ      مصطفی البابی مصر    ص  ۱۷۱)

 

اس قسم کی صدہا روایات کلماتِ ائمہ کرام میں مذکور ومن لم یجعل اﷲ لہ نورا فمالہ من نور ۳؎  (اور خدا جسے نور نہ  دے اس کے لیے کوئی نور نہیں۔ ت)

 

(۳؎ القرآن         ۲۴ /۴۰)

 

فصل دوم: موت سے روح میں اصلاً تغیر نہیں آتا اور اس کے علوم وافعال (عہ)بدستور رہتے ہیں بلکہ زیادہ ہوجاتے ہیں، پھر جمادیت کیسی اوراثبات تخصیص ادراک۔ ذمہ مخصص۔

 

عہ:  امام سیو طی شرح الصدور میں مذہب اہلسنت کتاب الروح سے یوں نقل فرماتے ہیں : ان  الروح ذات قائمہ بنفسھا تصعد وتنزل وتتصل وتنفصل وتذھب وتجیئ وتتحرک وتسکن وعلی ھذا اکثرمن مائۃ دلیل مقررۃ۴ ؎۔ یعنی روح ایک مستقل ذات ہے کہ چڑھتی اترتی ملتی جدا ہوتی آتی جاتی حرکت کرتی ساکن ہوتی ہے اور اس پر سو سے زیادہ دلائل ثابت ہوتے ہیں۔ (م)

 

 (۴؎شرح الصدور    خاتمہ فی فوائد تتعلق بالروح   خلافت اکیڈمی سوات    ص۱۳۶)

 

قول (۶): اما م سبکی شفاء السقام میں فرماتے ہیں : النفس باقیۃ بعد موت البدن عالمۃ باتفاق المسلمین بل غیرالمسلمین من الفلاسۃ وغیرھم ممن یقول ببقاء النفوس یقولون بالعلم بعد الموت ولم یخالف فی بقاء النفوس الا من لایعتد بہ ۱؎ اھ ملتقطا۔ یعنی مسلمان کا اجماع ہے کہ روح بعد مرگ باقی اور علم وادراک رکھتی ہے۔ بلکہ فلاسفہ وغیرہم کفار بھی علم مانتے ہیں اور بقائے روح میں کسی نے خلاف نہ کیا مگر ایسوں نے جو کسی گنتی شما ر میں نہیں اھ ملتقطا۔

 

 (۱؎ شفاء السقام   الفصل الثانی فی الشہداء     مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آ باد    ص۲۱۰)

 

قول (۷): تفسیر بیضاوی میں ہے : فیھا دلالۃ علی ان الارواح جواھر قائمۃ بانفسھا مغائرۃ لما یحس بہ من البدن تبقٰی بعد الموت دراکۃ وعلیہ جمہور الصحابۃ والتابعین وبہ نطقت الاٰیات والسنن  ۲؎۔ یہ آیۃکریمہ دلیل ہے کہ روحیں جوہر قائم بالذات میں یہ بدن جو نظر آتی ہے اس کے سوا اور چیز ہیں، موت کے بعد اپنے اسی جوش ادراک پر رہتی ہیں، جمہور صحابہ وتابعین کایہی مذہب ہے اور اس پر آیات و احادیث ناطق۔

 

 (۲؎تفسیر بیضاوی    تحت آیۃ بل احیاء ولکن لایشعرون      مطبع مجتبائی دہلی      ۱ /۱۱۷)

 

قول (۸): امام غزالی احیاء ف میں فرماتے ہیں : لاتظن ان العلم یفارقک بالموت فالموت لایھدم محل العلم اصلا  ولیس الموت عدما محضاً حتی تظن انک اذا عدمت عدمت صفتک۳؎۔ یہ گمان نہ کرنا کہ موت سے تیرا علم تجھ سے جدا ہوجائیگا کہ موت محلِ علم یعنی روح کا توکچھ نہیں بگاڑتی، نہ وہ نیست ونابود ہوجانے کا نام ہے کہ تو سمجھے جب تو نہ رہا تیرا وصف یعنی علم وادراک بھی نہ رہا۔

 

 (۳؎ التیسیر بحوالہ الغزالی    تحت حدیث من طلب العلم الخ        مکتبہ الامام الشافعی الریاض السعودیہ    ۲ /۴۲۹)

 

ف: سعی بسیار کے باوجود حوالہ احیاء العلوم سے دستیاب نہیں ہوسکا، تیسیر میں بحوالہ الغزالی بعینہٖ یہ عبارت موجود ہے اس لیے تیسیر سے یہ حوالہ نقل کیا ہے۔ نذیر احمد

 

قول (۹، ۱۰): امام نسفی عمدۃ الاعتقاد، پھر علامہ نابلسی حدیقہ ندیہ میں فرماتے ہیں: ا لروح لا یتغیر بالموت۴؎۔ مرنےسے روح میں کچھ نہیں آتا۔

 

 (۴؎ الحدیقۃ الندیۃ    الباب الثانی فی الامور الھمۃ    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد        ۱ /۲۹۰)

 

قول (۱۱): علاّمہ تورپشی فرماتے ہیں: الروح الانسانیۃ متمیرۃ مخصوصۃ بالادراکات بعد مفارقۃ البدن ۵؎۔ نقلہ المناوی فراق بدنِ کے بعد بھی روح انسانی متمیز ومخصوص بہ ادراکات ہے۔ (اسے علامہ مناوی نے نقل کیا ۔ ت)

 

 (۵؎التسیر شرح جامع صغیر بحوالہ التورپشی  تحت ان ارواح الشہداء الخ  مکتبہ الامام الشافعی الریاض السعودیہ ۱ /۳۱۰)

 

قول (۱۲): علامہ مناوی کی شرح جامع الصغیر میں ہے : الموت لیس بعدم محض والشعور باق حتی بعد الدفن ۱؎۔ موت بالکل عدم نہیں اور شعور باقی ہے یہاں تک کہ بعد دفن بھی۔

 

(۱؎ التیسیر شرح جامع صغیرتحت ان المیّت یعرف من یحملہ الخ    مکتبہ الامام الشافعی الریاض السعودیہ    ۱ /۳۰۳)

 

قول (۱۳): اسی میں ہے : ان الروح اذا انخلعت من ھذا الھیکل و انفکت من القبور بالموت تجول الی حیث شاءت ۲؎۔ بیشک روح جب اس قالب سے جدا اور موت کے باعث قیدوں سے رہاہوتی ہے جہاں چاہتی ہے جولان کرتی ہے۔

 

 (۲؎ التیسیر شرح جامع صغیر    تحت حدیث ان روحی المومنین   مکتبہ الامام الشافعی الریاض السعودیہ     ۱ /۳۲۰)

 

قول (۱۴): شرح الصدور میں منقول کہ دلائل قرآن وحدیث لکھ کر کہا : فصح ان الارواح اجسام حاملۃ لاعراضھا من التعارف والتناکر وانھا عارفۃ متمیزہ  ۳؎۔ ان سے ثابت ہوا کہ روحیں اجسام ہیں اپنے اوصاف شناخت وناشناخت وغیرہ کی حامل جو بذاتِ خودا دراک و تمیز رکھتی ہے۔

 

(۳؎ شرح الصدور    باب مقرالارواح      خلافت اکیڈمی سوات       ص۹۹)

 

یہاں وہ تقریر یاد کرنی چاہئے جو زیر حدیث دوم گزری۔

 

قول (۱۵): مقاصد وشرح مقاصد علامہ تفتازانی میں ہے : عند المعتزلۃ وغیرھم البدنیۃ المخصوصۃ شرط فی الادراک فعند ھم لایبقی ادراک الجزئیات عند فقد الاٰلات وعندنا یبقٰی و ھوالظاھر من قواعد الاسلام ۴؎۔ معتزلہ وغیرہم کے مذہب میں یہ بدن شرط ادراک ہے توان کے نزدیک جب اس کے آلات نہ رہے ادراک جزئیات بھی نہ رہا اور ہم اہل سنت وجماعت کے مذہب میں باقی رہتاہے اور یہی ظاھر ہے قواعد دین اسلام سے۔

 

 (۴؎ شرح المقاصد    المبحث الرابع مدر ک الجزئیات   دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۲ /۴۳)

 

قول (۱۶): لمعات شرح مشکوٰۃ میں ہے : سیبیہ الحواش للاحساس وللادراک عادیۃکما تقرر فی المذھب اما العلم فبالروح و ھو باق ۱؎ اھ ملتقطا۔ حواس کا سبب احساس وادراک ہونا اک امر عادی ہے جیساکہ مذہب اہل سنت میں ثابت ہوچکا اور علم توروح سے ہے وہ باقی ہے اھ مختصراً۔

 

 (۱؎ لمعات شرح مشکوٰۃ        کتاب ا لجہاد)

 

قول (۱۷): امام سیوطی فرماتے ہیں : ذھب اھل الملل من المسلمین وغیر ھم الی ان الروح تبقی بعد موت البدن و خالف فیہ الفلاسفۃ دلیلتا ماتقدم من الاٰیات والاحادیث فی بقائھا وتصرفہا ۲؎ الخ (ملخصاً) تمام اہل ملت مسلمین اور ان کے سوا سب کا یہی مذہب ہے کہ روحیں بعد موت بدن باقی رہتی ہیں فلاسفہ یعنی بعض مدعیان حکمت نے اس میں خلاف کیا ، ہماری دلیل۔ وہ آیتیں اور حدیثیں ہیں جن سے ثابت کہ روح بعد موت باقی رہتی اور تصرفات کرتی ہے۔ الخ

 

 (۲؎ شرح الصدور        خاتمہ فی فوائد تتعلق بالروح    خلافت اکیڈمی سوات        ص۱۳۵)

 

قول (۱۸): ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں ہے : قد انکرعذاب القبر بعض المعتزلۃ والروافض محتجین  بان المیّت جماد لاحیاۃ لہ ولاادراک ۳؎الخ۔ بعض معتزلہ اور روافض عذاب قبر سے منکر ہوئے یہ حجت لا کر کہ مُردہ جماد ہے نہ اس کے لیے حیات ہے نہ ادراک الخ۔

 

 (۳؎ ارشاد الساری شرح البخاری    باب قتل ابی جہل            دارالکتب العربی بیروت    ۶ /۲۵۵)

 

قول  (۱۹): کشف الغطاء مستند مولوی اسحٰق دہلوی میں ہے : مذہب اعتزال است کہ گویند میّت جماد محض است۴؎۔ میّت کو جماد محض بتانا معتزلہ کا مذہب ہے۔ (ت)

 

 (۴؎ کشف الغطاء          فصل در احکام دفن میت            مطبع احمدی دہلی             ص ۵۷ )

 

قول (۲۰): اسی میں ہے : فرقے نیست در ارواح کا ملان درحین حیات و بعدا ز ممات مگر بترقیہ کمال۵؎۔ اہل کمال کی روحوں میں حالتِ حیات  وموت میں کوئی فرق نہیں ہوتا سوا اس کے کہ بعد موت کمالات میں ترقی ہوجاتی ہے۔ (ت)

 

 (۵؎ کشف الغطاء        فصل در احکام دفن میت             مطبع احمدی دہلی             ص ۵۷ )

 

فصل سوم : ان تصریحوں میں کہ اموات کے علم وادراک دینا و اہل دینا کو بھی شامل۔

قول (۲۱): امام جلال الدین سیوطی رسالہ منظومہ انیس الغریب میں فر ماتے ہیں: ؎ یعرف من یغسلہ ویحمل    ویبلس الاکفان ومن ینزل۱؎

(مُردہ اپنے نہلانے والے، اٹھانے والے، کفن پہنانے والے، قبر میں اتارنے والے سب کو  پہچانتا ہے)

 

 (۱؎ انیس الغریب)

 

قول (۲۲تا ۲۴): امام ابن الحاج مدخل اور(۲۳) امام قسطلانی مواہب اور (۲۴)علامہ زرقانی شرح میں تقریراً فرماتے ہیں : واللفظ لاحمد من انتقل الٰی عالم البرزخ من المؤمنین یعلم احوال الاحیاء غالباً وقد وقع کثیر من ذلک کما ھو مسطور فی مظنۃ ذلک من الکتب۲؎۔ احمد کے الفاظ ہیں جو مسلمان برزخ میں ہیں اکثر احوال احیاء پر رکھتے ہیں اور یہ امر بکثرت واقع ہے جیسا کہ کتابوں میں اپنے محل پر مذکور ہے۔

 

 (۲؎ المواہب اللدنیہ    من آداب الزیارت    المکتب الاسلامی بیروت    ۴ /۵۸۱)

( زرقانی علی مواہب اللدنیہ    المقصد العاشر      المطبعۃ العامرہ مصر        ۸ /۳۴۹)

(المدخل   فصل فی الکلام علٰی زیارت سیدا لاولین    دارالکتب العربیہ بیروت    ۱ /۲۵۳)

 

قول (۲۵): اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں علم وادراکِ مَوتٰی کی تحقیق وتفصیل لکھ کر فرماتے ہیں : بالجملہ کتاب وسنت مملو ومشحون اند باخبار  و آثار کہ دلالت مے کند بر وجود علم موتٰی بدنیا واہل آں  پس منکر نہ شود آں  را مگر جاہل باخبار ومنکر دین ۳؎۔ الحاصل کتاب و سنت ایسے اخبار وآثار سے لبریز ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ مردوں کو دینا واہل دنیا کا علم ہوتا ہے تو اس کا انکار  وہی کرے گا جو اخبار و احادیث سے بے خبر اور دین منکر ہو۔ (ت)

 

 (۳؎ اشعۃ اللمعات     کتاب الجہاد    فصل اول       نوریہ رضویہ سکھر        ۳ /۴۰۱)

 

فصل چہارم: اموات سے حیا کرنے میں۔

قول (۲۶): ابن ابی الدنیا کتاب القبور میں سلیم بن عمیر سے راوی، وہ ایک مقبرہ پر گزرے، پیشاب کی حاجت سخت تھی، کسی نے کہا یہاں اتر کر قضائے حاجت کر لیجئے، فرمایا: سبحان اﷲ واﷲ انی لایستحیی من الاموات کما استحیی من الاحیاء ۴؎۔ سُبحان اللہ! خدا کی قسم میں مردوں سے ایسی ہی شرم رکھتا ہوں جیسی زندوں سے۔

 

 (۴؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ    بحوالہ ابن ابی الدنیا    زیارت القبور     مکتبہ امدادیہ ملتان    ۴ /۱۱۷)

 

قول (۲۷): جب سیدنا امام شافعی مزارِ فائض الانوار حضرت امام اعظم  پر تشریف لے گئے رضی اﷲ تعالٰی عنہما وعن اتباعہما، نماز صبح میں قنوت نہ پڑھی، لوگوں نے سبب پوچھا، فرمایا: کیف اقنت بحضرۃ الامام وھو لایقول بہ ۱؎۔ ذکرہ سیدی علی الخواص والامام الشعرانی فی المیزان و نحوہ العلامۃ ابن حجر مکی فی خیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان فی اولہا واعادہ فی اٰخرھا عن بعض شراح منہاج الامام النووی وعن غیرہ ونحوہ فی عقود الجمان فی مناقب النعمان عن شیخ شیوخہ الامام الزاھد الولی شہاب الدین شارح المنہاج

 

میں امام کے سامنے کیونکر قنوت پڑھوں حالانکہ وہ اس کے قائل نہیں (اسے سیدی علی خواص نے اور امام شعرانی نے میزان الشریعۃ الکبرٰی میں ذکر کیا اور اسی کے ہم معنی علامہ ابن حجر نے ''الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان'' کے شروح میں ذکر کیا او راس کے آخر میں دوبارہ منہاج امام نووی کے بعض شارحین وغیرہ کے حوالہ سے ذکر کیا۔ اسی طرح عقود الجمان فی مناقب النعمان میں اپنے شیخ الشیوخ امام، زاہد، ولی اللہ شہاب الدین شارح منہاج سے نقل کیا۔  (ت)

 

 (۱؎ المیزان الکبرٰی    فصل فیما نقل عن الامام الشافعی     مصطفی البابی مصر    ۱ /۶۱)

 

بعض روایات میں آیا بسم اللہ شریف بھی جہر سے نہ پڑھی نقلہ الفاضل الشامی فی ردالمحتار عن بعض العلماء وکذا الامام ابن حجر فی الخیرات الحسان ۔ اسے فاضل شامی نے ردالمحتار میں بعض علماء سے نقل کیا، ایسے ہی امام ابن حجر نے الخیراب الحسان میں ذکر کیا۔(ت)

 

بعض میں ہے تکبیرات انتقال میں رفع یدین نہ فرمایا، سبب دریافت ہوا، جواب دیا: ادبنا مع ھذا الامام اکثر من ان نظھرخلافہ بحضرتہ ۲؎۔  ذکرہ علی القاری فی المرقاۃ ۔ اس امام کے ساتھ ہمارا ادب اس سے زائد ہے کہ ان کے حضور ان کا خلاف ظاہر کریں، (اسے ملاّ علی قاری نے مرقاۃ میں ذکر کیا۔ ت)

 

 (۲؎ مرقاہ شرح مشکوٰۃ    تذکرہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی    مکتبہ امدادیہ ملتان    ۱ /۳۰)

 

شرح لباب میں خاص بلفظ استحیا نقل کیا کہ امام شافعی نے فرمایا: استحیی ان اخالف مذہب الامام فی حضورہ ۱ ؎۔ ذکرہ فی باب الزیارۃ النبویۃ نبوی، فصل المقام بالمدینۃ المنورۃ۔ مجھے شرم آتی ہے کہ امام کے سامنے ان کے مذہب کے خلاف کروں ، (اسے علامہ قاری نے شرح لباب، باب زیارت فصل اقامتِ مدینہ منورہ میں ذکر کیا۔ ت)

 

 (۱؎ منسک متوسط مع ارشاد الساری    فصل ولیغتنم ایام مقامہ بالمدینۃ الخ    دارالکتاب العربی بیروت   ص۳۴۲)

 

سبحان اللہ اگر اموات دیکھتے سنتے نہیں تو جہر واخفاء یارفع وترک ومکث قنوت وتعجیل سجود میں کیا فرق تھا ، ﷲ انصاف، اگر بنائے قبر حجاب مانع ہو توا مام ہمام کا سامنا کہاں تھا اور اس ادب ولحاظ کا کیا باعث تھا۔

قول (۲۸تا ۳۱): علامہ فضل اللہ بن غوری حنفی وغیرہ ایک جماعت علماء نے تصریح فرمائی کہ زیارت بقیع شریف میں قبہ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ابتدا کرے کہ پہلے وہی ملتا ہے ہے تو بے سلام کے وہاں سے گزر جانا بے ادبی ہے۔ اسی طرح اس بقعہ پاک میں جو مزار پہلے آتا جائے اس پر سلام کرتا جائے کہ جو ذرا بھی عزت و عظمت رکھتا ہے اس کے سامنے سے بے سلام چلے جانا مروّت و ادب سے بعید ہے۔ مولانا علی قاری نے شرح لباب میں اسے نقل فرما کر مسلم رکھا، شیخ محقق نے جذب القلوب میں، بعض دیگر علما سے اس کی تحسین نقل کی ہے کہ یہ ایک عمدہ مقصد ہے جس کے ساتھ افضل واشرف کی رعایت نہ کرنی کچھ مضائقہ نہیں، مسلک مقتسط میں ہے۔ ذکر العلامۃ فضل اﷲ بن الغوری من اصحابنا ان البدائۃ بقبۃ العباس والختم بصفیۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہما اولٰی لان مشہد العباس اول مایلقی الخارج من البلد عن یمینہ فمجاوزتہ من غیر سلام علیہ جفوۃ فاذاسلم علیہ وسلم علی من یمر بہ اولا فیختم بصفیۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا فی رجوعہ کما صرح بہ ایضا کثیر من مشائخنا۲؎ الخ۔ علامہ فضل اللہ بن غوری حنفی وغیرہ ایک جماعتِ علماء نے تصریح فرمائی کہ زیارت بقیع شریف میں قبہ حضرت عباس رضی ا للہ تعالٰی عنہ سے ابتداء کرے اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے مزار  پر ختم کرے یہ بہتر ہے کیونکہ باہر والا جب دائیں طرف سے شروع کرے تو پہلے وہی ملتا ہے تو ان کو سلام کئے بغیر گزرجانا بے ادبی ہے، جب ان پر گزرے اور جو مزار پہلے آتا جائے سلام کرتا جائے ، تو  واپسی مزار حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر ختم کرے جیساکہ بہت سے ہمارے مشائخ نے تصریح فرمائی الخ (ت)

 

 (۲؎ مسلک متقسط مع ارشاد الساری    فصل ولیغتنم ایام مقامہ بالمدینۃ الخ    دارالکتاب العربی بیروت    ص۳۴۵)

 

جذب القلوب میں ہے : متاخیرین علماء اختلاف کردہ اند کہ ابتداء بزیارت کہ کند طائفہ برآنند کہ ابتداء بہ زیارت حضرت عباس کند وہرکہ باوے دریک قبہ آسود انداز ائمہ اہل بیت رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین زیرا کہ اسہل و اقرب است و از پیش ایشاں در گزشتن وبزیارت دیگراں متوجہ شدن نوعے ازجفا وسوئے ادب باشد الخ  ۱؎۔ علمائے متاخرین نے اختلاف کیا ہے کہ زیارت میں ابتداء کسی سے کرے۔ ایک جماعت کے ہاں حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ساتھ قبہ میں جو اہلبیت ائمہ کرام رضوان علیہم آرام فرماہیں سے شروع کرے کیونکہ یہ آسان اورا قرب ہے اور ان کے آگے سے بغیر سلام گزرجانا اور دوسروں کی زیارت میں متوجہ ہوجانا ایک قسم کی لاپروائی اور بے ادبی ہے۔ الخ (ت)

 

 (۱؎ جذب القلوب    باب درفضائل مقبر بقیع    منشی نولکشور لکھنؤ        ص۱۸۷)

 

اسی میں ہے : محصل کلام بعضے از علماء آں است کہ ابتداء قبہ عباس کند رضی اﷲ تعالٰی عنہ وعمن معہ وبعد ازاں بہر کہ پیش آیا زیرا کہ ہر ابادنی جلالت شان بود بے سلام از پیش وے گزشتن وجائے دیگر رفتن از عالم مروت وحفظ طریقہ ادب بغایت دو راست قال بعضھم وھو مقصد صالح لا یضرمعہ عدم ریایۃ الافضل والاشرف ۲؎ الخ بعض علماء کے کلام کا ماحاصل یہ ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ اور قبہ میں ان کے ساتھ والوں سے ابتداء کرے اور اس کے بعدہر پہلے آنے والے کو سلام کرتا جائے کیونکہ کسی ادنٰی شان والے سے بے سلام گزرنا اور دوسری جگہ چلے جانا بھی مروت اور حفظِ ادب سے بعید ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ مقصد صالح ہے جس کی وجہ سے افضل واشرف کی عدم رعایت مضر نہیں ا لخ (ت)

 

 (۲؎ جذب القلوب        باب درفضائل مقبر بقیع    منشی نولکشور لکھنؤ        ص۱۸۷)

 

فصل پنجم افعال احیاء سے تاذی اموات میں :

قول (۳۲تا ۳۴): مراقی الفلاح میں فرمایا : اخبرنی شیخ العلامۃ محمد بن احمد الحموی رحمہم اﷲ تعالٰی بانھم یتاذون بخفق النعال ۳؎۔ مجھے میرے استاذ علامہ محمد بن احمد حنفی رضی اللہ تعالٰی نے خبر دی کہ جوتی کی پہچل سے مرُدے کو ایذا ہوتی ہے۔

 

 (۳؎ مراقی الفلاھ علی ھامش حاشیۃ الطحطاوی     فصل فی زیارۃ القبور    نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی  ص ۳۴)

 

 (۳۴)علامہ طحطاوی نے اس پر تقریر فرمائی ۔

قول (۳۵): حدیث میں جو تکیہ قبر  پر لگانے سے ممانعت فرمائی اور اسے  ایذائے میّت ارشاد ہوا جیسا کہ حدیث ۲میں گزرا، شیخ  محقق رحمہ اللہ ا س  پر شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں: شاید کہ مراد آنست کہ روحِ وے ناخوش می دارد و راضی نیست بہ تکیہ کردن بر قبرے از جہت تضمن وے اہانت واستخفاف رابوی ۱؎ واللہ اعلم ، ہوسکتا ہے کہ یہ مراد ہو کہ اس کی روح کو ناگوار ہوتا ہے اور وہ اپنی قبر پر تکیہ لگانے سے راضی نہیں ہوتی اس لیے کہ اس میں اس کی اہانت اور بے وقعتی پائی جاتی ہے، اور خدا خوب جاننے والا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ اشعتہ اللمعات    باب دفن المیّت فصل ۳    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۲۹۹)

 

قول (۳۶تا ۳۷): عارف باللہ حکیم ترمذی پھر علامہ نابلسی حدیقہ میں فرماتے ہیں : معناہ ان الارواح تعلم بترک اقامہ الحرمۃ والاستہانۃ فتاذی بذلک  ۲؎۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ روحیں جان لیتی ہیں کہ اس نے ہماری تعظیم میں قصور کیا لہذا ایذا پاتی ہیں۔

 

 (۲؎ نوادر الاصول    الاصل التاسع والمائتان    دارصادر بیروت    ص۲۴۴)

 

قول (۳۸ تا ۳۹): حاشیۃ طحطاوی و ردالمحتار وغیرہ میں ہے: مقابر میں پیشاب کرنے کو نہ بیٹھے لان المیّت یتاذی بما یتاذی بہ الحی ۳؎ اس لیے کہ جس سے زندو ں کو اذیت ہوتی ہے اس سے مرُدے کو بھی ایذا پاتے ہیں ۔

 

 (۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدر    باب صلٰوۃ الجنازۃ    دارالمعرفۃ بیروت    ۱ /۳۸۱)

 

اقول بلکہ دیلمی نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے اس کلیہ کی صراحتاً روایت کی کہ سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : المیّت یؤذیہ فی قبرہ مایؤذیہ بہ فی بیتہ ۴؎۔ میّت کو جس بات سے گھر میں ایذا ہوتی تھی قبر میں بھی اس سے اذیت پاتا ہے۔

 

 (۴؎ شرح الصدور بحوالہ دیلمی    باب تأذی المیّت الخ    خلافت اکیڈمی، سوات    ص۱۲۴)

 

قول (۴۰ تا ۴۱): حدیث ۲۶ کے نیچے اشعہ میں امام ابوعمر عبدالبر سے نقل کیا : از ینجا مستفاد می گردد کہ میّت متالم می گردد بجمیع  انچہ متالم می گردد بدان حی ولازم این ست کہ متلذذ گردد بتمام انچہ متلذذمے شود بداں زندہ ۱ ؎۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ میّت کو ان تمام چیزون سے تکلیف ہوتی ہے جس سے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس کو

لاز م یہ ہے کہ اسے ان تمام چیزوں سے لذت بھی حاصل ہو جن سے زندوں کو لذت ملتی ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ اشعۃ اللمعات    باب دفن المیّت    تیج کمار لکھنؤ        ۱ /۶۹۶)

 

تذئیل: مسئلہ ہے کہ دارالحرب کے جن جانوروں کو  اپنے ساتھ لانا دشوار ہو انھیں زندہ چھوڑیں کہ اس میں حربیوں کا نفع ہے، نہ کونچیں کاٹیں کہ اس میں جانوروں کی ایذا ہے بلکہ ذبح کرکے جلادیں تاکہ وہ ان کے گوشت سے بھی انتفاع نہ کرسکیں،

درمختار میں ہے : حرم عقردابۃ شق نقلھا الٰی دار نا فتذبح وتحرق بعدہ اذلا یعذب بالنار الا ربھا۔۲؎۔ جس جانور کو دارالاسلام تک لانا دشوار  ہو  اس کی کونچیں کاٹنا حرام ہے، پہلے ذبح کریں اس کے بعد جلادیں ا س لیے کہ زندہ آگ میں ڈالنے کا عذاب دینا ربِّ نار ہی کاکام ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ درمختار   با ب المغنم وقسمتہ    مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۳۴۲)

 

اس پر علامہ حلبی محشی درمختار نے شبہ کیا کہ یہاں سے لازم کہ مرُدے کے جسم کو صدمہ پہچائیں اس سے اسے تکلیف نہ ہو حالانکہ حدیث میں اس کا خلاف وارد ہے۔ علامہ طحطاوی و علامہ شامی نے جواب دیا کہ یہ بات بنی آدم کے ساتھ خاص ہے کہ وہ اپنی قبور میں ثواب وعذاب پاتے ہیں تو ان کی ارواح کی ابدان سے ایسا تعلق رہتا ہے جس کے سبب ادراک واحساس ہوتاہے ۔ جانوروں میں یہ بات نہیں ورنہ ان کی ہڈی وغیرہ سے انتفاع نہ کیا جاتا۔

ردالمحتار میں ہے : او رد المحشی علی جواز احراقھا بعد الذبح انہ یقتضی ان المیّت لا یتألم مع انہ ورد انہ یتألم بکسر عظمہ قلت قد یجاب بان ھذا خاص ببنی آدم لانھم یتنعمون ویعذبون فی قبورھم بخلاف غیرھم من الحیوانات والالزم ان لاینتفع بعظمھا ونحوہ ثم رأیت ط ذکر نحوہ ۳؎ انتہی۔ محشی نے جانوروں کو ذبح کرکے جلانے  پر یہ شبہ پیش کیا اس سے لازم آتا ہے کہ مرُدے کو اذیت نہیں ہوتی حالانکہ حدیث میں اس کا خلاف ہے کہ میّت کی ہڈی توڑنے سے اس کو اذیت ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ بات بنی آدم کے ساتھ ہے کیونکہ وہ اپنی قبروں میں خوشی اور تکلیف پاتے ہیں، جانوروں میں یہ بات نہیں ورنہ ان کی ہڈی وغیرہ سے انتفاع نہ کیا جاتا، پھر میں نے طحطاوی کو دیکھا تو انھوں نے ایسا ہی فرمایا، انتہی (ت)

 

 (۳؎ردالمحتار     با ب المغنم وقسمتہ        مصطفی البابی مصر       ۳ /۲۵۲)

 

اقول تخصیص بنی آدم باضافت حیوانات مراد ہے ورنہ جن بھی بعد موت ادراک رکھتے ہیں کما یاتی قول

۱۹۰ (جیسا کہ قول ۱۹۰ میں آئیگا۔ ت) اور خود عذاب و ثواب سے علامہ کی تعطیل اس  پر دلیل، واللہ تعالٰی اعلم

 

فصل ششم: ملاقات احیاء وذکر خدا سے اموات کا جی بہلتا ہے۔

قول (۴۲): امام سیوطی نے انیس الغریب میں فرمایا:  ؎ ویانسُونَ ان اتی المقابر     ۱؎ (جب  زائرین مقابر  پر آتے ہیں مرُدے ان سے انس حاصل کرتے ہیں۔ ت)

 

 (۱؎ انیس الغریب)

 

قول (۴۳): امام اجل نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اقسامِ زیارت میں فرمایا ایک قسم زیارت اس غرض سے ہے کہ مقابر پر جانے سے اموات کا دل بہلائیں کہ یہ بات حدیث سے ثابت ہے۔ وسیاتی نقلہ فی النوع الثانی ان شاء اللّٰہ تعالٰی  (یہ بات ان شاء اللہ تعالٰی نوعِ ثانی میں نقل ہوگا۔ ت)

 

قول (۴۴): جذب القلوب میں فرمایا: زیارت گاہی از جہت ادائے حق اہل قبور باشد درحدیث آمدہ مانوس ترین حالتیکہ میّت رابود در وقت کریکے از آشنایانِ او زیارتِ قبر اوکند وا حادیث دریں باب بسیار است۲؎۔ زیارت کبھی قبروالوں کے حق کی ادائیگی کے لیے ہوتی ہے حدیث میں آیا ہے کہ میّت کے لیے سب سے زیادہ اُنس کی حالت وہ ہوتی ہے جب اس کا کوئی  پیارا آشنا اس کی زیارت کے لیے آتاہے۔ اس باب میں احادیث بہت ہیں۔ (ت)

 

 (۲؎جذالقلوب        باب پانزدہم            منشی نولکشور لکھنؤ    ص۲۱۳)

 

قول (۴۵ تا۴۶): فتاوٰی قاضی خاں پھر فتاوٰی علمگیری میں ہے : ان قرأ  القران عند القبور نوی ذلک ان یونسہ صوت القراٰن فانہ یقرأ ۳؎۔ مقابر کے پاس قرآن پڑھنے سے اگر یہ نیت ہوکہ قرآن کی آواز سے مرُدے کا جی بہلائے تو بیشک پڑھے۔

 

 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ    الباب السادس عشر فی زیارۃ القبور    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۵۰)

 

قول (۴۷تا ۴۹): ردالمحتار میں غنیہ شرح منیہ سے اور طحطاوی حاشیہ مراقی الفلاح شرح نورالایضاح میں تلقینِ میّت کے مفید ہونے میں فرمایا : ان المیّت یستانس بالذکر علی ما ورد فی الاثار ۱؎۔ بیشک اللہ تعالٰی ذکر سے مرُدے کا جی بہلتا ہے جیسا کہ حدیثوں میں آیا ہے۔

 

 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علٰی مراقی الفلاح    باب احکام الجنائز    نور محمد کار خانہ تجارت کتب کراچی    ص۳۰۶)

 

قول (۵۰تا ۵۸): امام قاضی خاں فتاوٰی خانیہ (۵۱) شرنبلالی نورالایضاح ومراقی الفلاح وامداد الفتاح پھر (۵۲)علامہ ابوالسعود و(۵۳) فاضل طحطاوی حاشیہ مراقی میں استناداً وتقریراً، او ر(۵۴)شامی حاشیہ در میں استناداً، اور (۵۵)خزانۃ الروایات میں(۵۶) فتاوٰی کبرٰی سے، اور(۵۷) امام بزازی فتاوٰی بزازیہ اور(۵۸) شیخ الاسلام کشف الغطاء میں، اور ان کے سوا اور علماء فرماتے ہیں: واللفظ للخانیۃ یکرہ قطع الحطب والحشیش من المقبرۃ فان کان یابساً لا باس لانہ مادام رطباً یسبح فیونس المیّت ۲؎۔ چوب وگیاہ سبز کا مقبرہ سے کاٹنا مکروہ ہے اور خشک ہو تو مضائقہ نہیں کہ وہ جب تک تررہتی ہے تسبیح خدا کرتی ہے اور اس سے میّت کا جی بہلتا ہے۔

 

 (۲؎ فتاوٰی قاضی خاں     باب احکام الجنائز      نولکشور لکھنؤ        ۱ /۱۹۵)

 

علامہ شامی نے اسی حدیث سے مدلل کرکے فرمایا: اس بناء پر مطلقاً کراہت ہے اگر چہ خورد رَو  ہو کہ قطع میں حق میّت کا ضائع کرنا ہے۔

تنبیہ: فقیر کہتا ہے غفراللہ تعالٰی لہ، علماء کی ان عبارات اور نیز چار قل آئندہ ودیگر تصریحات رخشندہ سے دو جلیل فائدے حاصل:

 

اولاً نباتات وجمادات وتمام اجزائے عالم میں ہر ایک کے موافق ایک حیات ہے کہ اس کی بقا تک ہرشجر و حجر زبان قال سے اس رب ا کبر جل جلا لہ، کی پاکی بولتا ہے اور سبحان اللہ یا اس کے مثل اور کلمات تسبیح الٰہی کہتا ہے نہ کوئی ان میں صرف زبانِ حال ہے جیسا کہ ظاہر بینی کا مقال ہے کہ اس تقدیر  پر تر وخشک میں تفرقہ پر برہان قاطع کہ اس میں فرمایا: ولکن لا تفقھون تسبیحھم ۳؎ تم اس کی تسبیح نہیں سمجھتے،

 

(۳؎ القرآن      ۱۷ /۴۴)

 

ظاہر کہ تسبیح حالی تو ہر شخص عاقل سمجھتاہے یہاں تک کہ شعراء بھی کہہ گئے: ؃ؔ ہر گیاہے کہ از زمین روید

وحدہ، لاشریک لہ، گوید  (جو گھاس بھی زمین سے اُگتی ہے کہتی ہے وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ ت)

 

اور خود (عہ۱) مذہب اہلسنت مقرر ہوچکا کہ تمام ذراتِ عالم کے لیے ایک نوع علم وادراک وسمع وبصر حاصل ہے ۔

 

 عہ  ۱     مرقاۃ شرح مشکوٰۃ کے باب فضل الاذان میں ہے :  الصحیح ان للجمادات و النباتات والحیوانات علما وادارک وتسبیحا، قال البغوی وھذا مذھب اھل سنت وتدل علیہ الاحادیث و الآثار یشھد لہ مکاشفۃ اھل المشاھدۃ والاسرار التی ھی کالانوار، والمعتمد فی المعتقدان  شہادۃ الاعضاء بلسان القال، وما ورد عن الشارع یحمل علٰی ظاھرہ مالم یصرف عنہ صارف، ولاصارف ھنا کما لایخفی ۱؎ ملتقطا۱۲۔ (م) صحیح یہ ہے کہ جمادات، نباتات اور حیوانات کو بھی ایک قسم کاعلم وادراک اور عمل تسبیح حاصل ہے۔ امام بغوی نے فرمایا یہی اہلسنت کا مذہب ہے جس پر احادیث وآثار سے دلیلیں موجود ہیں۔ اہل مشاہدہ اور انوار جیسے اسرار والوں کا مکاشفہ بھی اس پر شاہد ہے اور عقیدہ میں معتمد یہ ہے کہ اعضاء کی گواہی زبان قال سے ہوگی، شارع سے جو بھی وارد  ہے وہ اپنے ظاہر پر محمول ہوگا جب تک ظاہر سے پھیرنے والی کوئی دلیل نہ ہو اور یہاں ایسا کچھ نہیں جیسا کہ واضح ہے۔ (ت)

 

(۱؎ مرقاۃ المفاتیح        باب فضل الاذان فصل نمبر۱        المکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ          ۲ /۴۹۔ ۳۴۸)

 

مولوی معنوی قدس سرہ، نے مثنوی شریف میں اس مضمون کو خوب مشرح ادا فرمایا، اور اس پر قرآن واحادیث کے صدہا نصوص (عہ۲)ناطق۔ جنھیں جمع کروں تو انشاء اللہ پانسو سے کم نہ ہوں گے۔ ان سب کو بلا وجہ ظاہر سے پھیر کر تاویل کرنا تو قانون  عقل ونقل سے خروج بلکہ صراحۃً سفاہات مبتدعین میں ولوج ہے خصوصاً وہ نصوص (عہ۳)جو صریح مفسر ہیں کہ تاویل کی گنجائش ہی نہیں رکھتے۔ مقام اجنبی نہ ہوتا تو میں اس مسئلے  کا قدرے ایضاح کرتا۔

 

عہ۲ : فقیر نے اپنے فتاوٰی میں ایک جملہ صالحہ ذکر کیا اور صدہا کا پتادیا وباللہ التوفیق۔ (م)

 عہ۳ : مثلاً وُہ حدیثیں جن میں صاف ارشاد ہوا کہ نہ کوئی جانور شکار کیاجائے، نہ کوئی پیڑ کاٹا جائے جب تک تسبیح الٰہی میں غفلت نہ کرے۔ سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ماصید صید ولا قطعت شجرہ الابتضییع التسبیح ۲؎۔ رواہ ابونعیم فی الحلیۃ بسند حسن عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔ نہ کوئی جانور شکار کیا جاتا ہے اور نہ کوئی درخت کاٹا جاتا ہے جب تک تسیبح الٰہی نہ ترک کرے۔ اسے ابونعیم نے حلیہ میں بسند حسن ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ (ت)

 

 (۲؎ کنز العمال بحوالہ ابی نعیم عن ابی ھریرہ    حدیث ۱۹۱۹        مؤسستہ الرسالۃ بیروت    ۱ /۴۴۵)

 

ابو الشیخ نے روایت کی: ما اخذ طائر ولاحوت الا بتضییع التسبیح ۲ ؎۔ کوئی پرندہ اور مچھلی نہیں پکڑی جائی مگر تسبیح الٰہی چھوڑدینے سے۔ (ت)

 

 (۲؎ درمنثور     بحوالہ ابی شیخ عن ابی الدرداء رضی اﷲ عنہ    وان من شیٌ الاّ یسبح بحمدہ کے تحت    مکتبہ آیۃ اللہ العظمی قم ایران    ۴ /۱۸۴)

 

ابن اسحٰق بن راہویہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، ان کے پاس ایک زاغ لایا گیا جس کے شہپر سالم وکالم تھے۔ دیکھ کر فرمایا میں نے سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے سنا: ماصید صید ولاعضدت عضباء ولاقطعت شجرۃ الابقلۃ التسبیح ۳ ؎۔ ۱۲منہ (م) نہ کوئی جانور شکار ہوا نہ کوئی ببول کٹی، نہ کسی پیڑ کی جڑیں چھانٹی گئیں مگر تسبیح کی کمی کرنے سے۔

 

 (۳؎ کنز العمال     بحوالہ ابن راہویہ عن ابی بکر    حدیث ۱۹۲۰        مؤسستہ الرسالۃ بیروت    ۱ /۴۴۵)

 

ثانیاً اقوال مذکورہ سے یہ بھی منصہ نبوت پر جلوہ گر ہوا کہ اہل قبور کی قوت سامعہ اس درجہ تیز و صاف وقوی تر ہے کہ بناتات کی تسبیح جسے اکثر احیاء نہیں سنتے وہ بلا تکلف سنتے اور اس سے اُنس حاصل کرتے ہیں۔ پھر انسان کا کلام تو واضح اور اظہر ہے واللہ تعالٰی الہادی۔

 

قول (۵۹تا ۶۲): مجمع البرکات میں مطالب المومنین سے، ا ور کنز العباد و فتاوٰی غرائب وغیرہا میں ہے : وضع الورد والریاحین علی القبور حسن لانہ مادام رطبا یسبح ویکون للمیّت انس بتسبیحہ  ۱؎ ۔ گلاب وغیرہ کے پھول قبروں پر ڈالنا خوب ہے کہ جب تک تازہ رہیں گے تسبیح الٰہی کریں گے۔ تسبیح سے میّت کو انس حاصل ہوگا۔

 

 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    الباب السادس عشر فی زیارۃ القبور     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۳۵۱)

 

فائدہ: مطالب المؤمنین و جامع البرکات دونوں کتب مستندہ مخالفین سے ہیں اس سے مولوی اسحٰق نے مائتہ مسائل میں اس سے متکلم قنوجی وغیرہ نے استناد کیا۔

فصل ہفتم : وہ اپنے زائرین کو دیکھتے پہچانتے اور ان کی زیارت پر مطلع ہوتے ہیں :

قول (۶۳و ۶۴): مولانا علی قاری علیہ رحمۃ الباری مسلک متقسط شرح منسک متوسط، پھر فاضل ابن عابدین حاشیہ شرح تنویر میں فرماتے ہیں : من اٰداب الزیارۃ ماقالوا من انہ لایاتی الزائر من قبل راسہ لانہ اتعب بصر المیّت بخلاف الاول لانہ یکون مقابل بصرہ ۱؎۔ زیارت قبور کے ادب سے ایک بات یہ ہے جو علماء نے فرمائی ہے کہ زیارت کو قبر کی پائنتی سے جائے نہ کہ سرہانے سے کہ اس میں میّت کی نگاہ کو مشقت ہوگی یعنی سراٹھا کر دیکھنا پڑھے گا، پائنتی سے جائے گا تو اس کی نظر کے خاص سامنے ہوگا۔

 

(۱؎ ردالمحتار حاشیہ در مختار    مطلب فی زیارۃ القبور        مصطفی البابی مصر    ۱ /۶۶۵)

 

قول (۶۵): مد خل میں فرمایا: کفی فی ھذا بیانا قولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام المومن ینظر بنور اﷲ انتھی ونوراللہ لایحجبہ شیئ ،ھذا فی حق الاحیاء من المومنین، فکیف من کان منھم فی الدار الاٰخرۃ  ۲؎۔ اس امر کے ثبوت میں کہ اہل قبورکو احوال احیاء پر علم وشعور ہے، سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ فرمانا بس ہے کہ مسلمان خدا کے نور سے دیکھتا ہے اور خدا کے نور کو کوئی چیز پردہ نہیں ہوتی، جب زندگی کایہ حال ہے تو ان کا کیا پوچھنا جو آخرت کے گھر یعنی برزخ میں ہیں:

 

 (۲؎ المدخل   فصل فی الکلام علی زیارۃ سید المرسلین الخ    دارالکتاب العربی بیروت    ۱ /۲۵۳)

 

قول (۶۶): شیخ محقق جذب القلو ب میں امام علامہ صدر الدین قونوی سے نقل فرماتے ہیں: درمیان قبور سائر مؤمنین وارواح ایشاں نسبت خاصی است مستمر کہ بدان زائرین رامی شناسند و ردسلام برایشاں می کنند بدلیل استحباب زیارت درجمیع اوقات۳؎۔ تمام مؤمنین کی قبروں اور روحوں کے درمیان ایک خاص نسبت ہوتی ہے جو ہمیشہ موجود رہتی ہے، اسی سے زیارت کے لیے آنے والوں کو پہچانتے ہیں اور ان کے سلام کا جواب دیتے ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ زیارت تمام اوقات میں مستحب ہے۔

 

(۳؎ جذب القلوب    باب چہارم دہم    منشی نولکشور لکھنؤ    ص۲۰۶)

 

قول (۶۷): انیس الغریب میں فرمایا: ؎ ویعرفون من اتاھم زائراً ۴؎  (جو زیارت کو آتا ہے مرُدے اسے پہچانتے ہیں۔ ت)

 

(۴؎ انیس الغریب)

 

قول (۶۸): تیسیر میں ہے : الشعور باق حتی بعدالدفن حتی انہ یعرف زائرہ ۱؎ ۔ شعور باقی ہے یہاں تک کہ بعد دفن بھی یہاں تک کہ اپنے زائر کو  پہچانتا ہے۔

 

 (ا ؎ا لتیسیر شرح جامع صغیر    تحت ان المیّت یعرف من یحملہ    مکتبۃ الامام الشافعی الریاض السعودیہ    ۱ /۳۰۳)

 

قول (۶۹): لمعات و اشعۃ اللمعات وجامع البرکات میں ہے : واللفظ للوسطی در روایات آمدہ است کہ دادہ می شود برائے میّت روز جمعہ علم وادراک پیشتر از انچہ داداہ می شوددر روز ہائے دیگر تاآنکہ می شناسد زائر رابیشتر از روز دیگر ۲؎۔ الفاظ اشعۃ اللمعات کے ہیں: روایات میں آیا ہے کہ میّت کو جمعہ کے دن دوسرے دنوں سے زیادہ علم وادراک دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ روز جمعہ زیارت کرنے والے کو دوسرے دن سے زیادہ پہچانتا ہے

 

 (۲؎اشعۃ اللمعات    باب زیارۃ القبور فصل ۱ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۷۱۶)

 

شرح سفر السعادۃ میں مفصل ومنقح تر فرمایا کہ: خاصیّت سی ام آنکہ روز جمعہ ارواح مومناں بقبور خویش نزدیک می شوند نزدیک شدن معنوی وتعلق و اتصال روحانی نظیر ومشابہ اتصال کہ ببدن دارد و زائران راکہ نزدیک قبر می آیند می شناسد وخود ہمیشہ می شناسند ولیکن دریں روز شناختن زیادت برشناخت سائر ایام ست ازجہت نزدیک شدن بقبور لابد شناخت از نزدیک پیشتر وقوی تر باشد از شناخت ودور دربعض روایات آمد کرایں شناخت دراول روز پیشتر است از آخر آں ولہذا ازیارت قبور درین وقت مستحب تراست وعادت درحرمین شریفین ہمیں است ۳؎۔

 

تیسویں ۳۰ خاصیت یہ ہے کہ جمعہ کے دن مومنین کی روحیں اپنی قبروں سے نزدیک ہوجاتی ہیں، یہ نزدیکی معنوی ہوتی ہے اور روحانی تعلق و اتصال ہوتاہے جیسے بدن سے قرب واتصال ہوتا ہے۔ اس دن جو زائرین قبر کے پاس آتے ہیں انھیں پہچانتی ہیں، اور یہ پہچاننا ہمیشہ ہوتا ہے مگر اس دن کی شناخت دیگر ایام کی شناخت سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے، ضروری بات ہے کہ نزدیک سے جو شناخت سے زائد ہوتی ہے وہ دور والی شناخت سے زائد قوی ہوتی ہے ____ اور بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ شناخت جمعہ کی شام کو بہ نسبت اور زیادہ ہوتی ہے اسی لیے وقت زیارتِ قبور کا استحباب زیادہ ہے، اور حرمین شریفین کا دستور بھی یہی ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ شرح سفر السعادۃ    فصل دربیان تعظیم جُمعہ        نوریہ رضویہ سکھر         ص۱۹۹)

 

اقول ولاعطر بعد العروس  (میں کہتا ہوں، دلہن کے بعد عطر نہیں ہے۔ ت)

 

قول (۷۰و۷۱) : شیخ  و شیخ الاسلام نے فرمایا : واللفظ للشیخ فی جامع البرکات (جامع البرکات میں شیخ کے الفاظ ہیں۔ ت) : تحقیق ثابت شدہ است بآیات واحادیث کہ روح باقی است واو راعلم وشعور بزائران و احوال ایشاں ثابت است وایں امریست مقرر در دین۱؎۔ آیات واحادیث سے بہ تحقیق ثابت ہوچکا ہے کہ روح باقی رہتی ہے اور اسے زائرین اور ان کے احوال کا علم وادراک ہوتا ہے۔ یہ دین میں ایک طے شدہ امر ہے۔ (ت)

 

(۱؎ جامع البرکات)

 

قول (۷۲): تیسیر میں زیر حدیث من زار قبر ابویہ  (جس نے اپنے باپ کی قبر کی زیارت کی۔ ت) نقل فرمایا: ھذا نص فی ان المیّت یشعر من یزورہ والا لما صح تستمیّتہ زائرا واذا لم یعلم المزور بزیارۃ من زارہ لم یصح ان یقال زارہ، ھذا ھوالمعقول عند جمیع الامم ۲؎۔ یہ حدیث نص ہے اس بات میں کہ مُردہ زائر پر مطلع ہوتا ہے ورنہ اسے زائر کہنا صحیح نہ ہوتا کہ جس کی ملاقات کو جائیے جب اسے خبر ہی نہ ہو تو یہ نہیں کہہ سکتے کہل اس سے ملاقات کی، تمام عالم اس لفظ سے یہی معنٰی سمجھتا ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ تیسیر شرح جامع صغیر    تحت من زار قبر ابویہ    مکتبۃ الامام الشافعی الریاض السعودیہ    ۲ /۴۲۰)

 

قول (۷۳و ۷۴): اشعۃ اللمعات آخر باب الجنائز شرح مشکوٰۃ امام ابن حجر مکی سے زیر حدیث ام ا لمومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کہ آغاز نوع دوم مقصد دوم میں گزری نقل فرمایا: دریں حدیث دلیلے واضح ست برحیات میّت وعلم وے آنکہ واجب است احترامِ میّت نزد زیارت وے خصوصاً صالحان ومراعات ادب بر قدر مراتب ایشاں چنانکہ درحالت حیات ایشاں  ۳؎۔ اس حدیث میں اس پر کھلی ہوئی دلیل موجو دہے کہ وفات یافتہ کو حیات و علم حاصل ہوتا ہے اور وقت زیارت اس کا احترام  واجب ہے خصوصاً صالحین کا احترام  اور ان کے مراتب کے لحاظ سے رعایت ادب حیات دنیوی کی طرح ضروری ہے۔ (ت)

 

(۳؎ اشعۃ اللمعات    باب زیارۃ القبور فصل ۳    تیج کمار لکھنؤ            ۱ /۷۲۰)

 

پھر کتاب الجہاد لمعات میں اسے ذکر کرکے لکھا ہے: و ھل ھذا  الا الاثبات  العلم والادراک ۱؎  (یہ اگرمیّت کے لیے علم وادراک ثابت کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔ ت)

 

(۱؎ لمعات     کتاب الجہاد)

 

فصل ہشتم: وہ اپنے زائروں سے کلام (عہ)کرتے اور ان کے سلام وکلام کا جواب دیتے ہیں۔

 

عہ:  تنبیہ: جواب سلام کا ایک قول فصل ہفتم میں علامہ قونوی سے گزرا ۱۲ منہ (م)

 

قول (۷۵ تا۷۸):

امام  یافعی  پھر ا مام سیوطی امام محب طبری شارح تنبیہ سے ناقل ہیں امام اسمٰعیل حضرمی کے ساتھ مقبرہ زبیدہ میں تھے فقال یامحب الدین اتؤمن بکلام الموتی قلت نعم فقال ان صاحب ھذا القبریقول لی انامن حشوالجنۃ۲؎ انھوں نے فرمایا: اے محب الدین! آپ اعتقاد رکھتے ہیں کہ مرُدے کلام کرتے ہیں؟ میں نے کہا، ہاں، کہاں اس قبر  والا مجھ سے کہہ رہاہے کہ میں جنت کی بھرتی سے ہوں ۔

 

 (۲؎ شرح الصدور    باب فی زیارۃ القبور الخ    خلافت اکیڈمی منگوہ سوات    ص۸۶)

 

تنبیہ: اس روایت کے لانے سے یہ غرض نہیں کہ اس میّت نے امام اسمٰعیل سے کلام کیا کہ ایسی روایات تو صدہا ہیں اور ہم  پہلے کہہ آئے کہ وقائع جزئیہ شمار نہ کریں گے بلکہ محل استدلال یہ ہے کہ وہ دونوں امام احیاء سے اموات کے کلام کرنے  پر اعتقاد رکھتے تھے، اور ان دونوں اماموں نےا سے استنادًا نقل فرمایا۔

تذییل: امام یافعی امام سیوطی انہی اسمٰعیل قدس سرہ الجلیل سے حاکی ہوئے بعض مقابر یمن پر ان کا گزر  ہوا بہ شدت روئے اور سخت مغموم ہوئے، پھر کھلکھلا کر  ہنسے اور نہایت شاد ہوئے، کسی نے سبب پوچھا، فرمایا: میں نے اس قبر  والوں کو عذاب قبر میں دیکھا، رویا اور جنا ب الٰہی سے گڑا گڑا کر عرض کی، حکم ہوا: فقد شفعناک فیھم ہم نے تیری شفاعت ان کے حق میں قبول فرمائی، اس پر یہ قبر والی مجھ سے بولی: وانا معھم یا فقیہ اسمٰعیل انا فلانۃ المغنیۃ مولانا اسمٰعیل! میں بھی انھیں میں سے ہوں میں فلانی گائن ہوں، میں نے کہا: وانت معھم تو بھی ان کے ساتھ ہے۔ اس پر مجھے ہنسی آئی ۳؎۔

 

 (۳؎ شرح الصدور    باب فی زیارۃ القبور الخ    خلافت اکیڈمی منگوہ سوات    ص۸۶)

 

اللّٰھم اجعلنا ممن رحمتہ باولیائک اٰمین (اے اللہ ہمیں بھی ان میں شامل فرما جن کو  اپنے اولیاء کے طفیل رحمت سے نوازا، الٰہی قبول فرما، ت)

 

قول (۷۹):  زہرالربٰی شرح سنن نسائی میں نقل فرمایا: ان للروح شانا اخرفتکون فی الرفیق الاعلی وھی متصلۃ بالبدن بحیث اذا سلم المسلم علی صاحبہ ردعلیہ السلام وھی فی مکانھا ھناک الٰی ان قال انما یاتی الغلط ھھنا من قیاس الغائب علی الشاھد فیعتقدون  ان الروح من جنس مایعھد من الاجسام التی اذا شغلت مکانا لم یمکن ان تکون فی غیرہ وھذا غلط محض ۱؎۔ محض روح کی شان جُدا ہے با آنکہ ملاء اعلٰی میں ہوتی ہے پھر بھی بدن سے ایسی متصل ہے کہ جب سلام کرنے والا سلام کرے جواب دیتی ہے۔ لوگوں کو دھوکا میں یوں ہوتا ہے کہ بے دیکھے چیز کو محسوسات پر قیاس کرکے روح کا حال جسم کا سا سمجھتے ہیں کہ جب ایک مکان میں ہو اسی وقت دوسرے میں نہیں ہوسکتی حالانکہ یہ محض غلط ہے۔

 

 (۱؎ زہرالربٰی حاشیہ علی النسائی    کتاب الجنائز    ارواح المومنین    نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱ /۲۹۲)

 

قول (۸۰): علا مہ زرقانی شرح مواہب میں نقل فرماتے ہیں : ردالسلام علی المسلم من الانبیاء حقیقی بالروح والجسد بجملتہ، ومن غیر الانبیاء والشھداء باتصال الروح بالجسد اتصالا یحصل بواسطتہ التمکن من الرد مع کون ارواحھم  لیست فی اجساد ھم وسواء الجمعۃ وغیرھا علی الاصح، لکن لامانع ان الاتصال فی الجمعۃ والیومین المکتنفین بہ اقوی من الاتصال فی غیرھا من الایام ۲؎ اھ ملخصا۔ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کا جواب سلام سے مشرف فرمانا تو حقیقی ہے کہ روح وبدن دونوں سے ہے اور انبیاء وشہداء کے سوا اور مومنین میں یوں ہے۔ کہ ان کی روحیں اگرچہ بدن میں نہیں تاہم بدن سے ایسا اتصال رکھتی ہیں جس  کے باعث جواب سلام پر انھیں قدرت ہے اور مذہب اصح یہ ہے کہ جمعہ وغیرہ سب دن برابر  ہیں، ہاں اس کا انکار نہیں کہ پنجشنبہ وجمعہ وشنبہ میں اور دونوں کی نسبت اتصال اقوی ہے۔ اھ ملخصاً

 

 (۲؎ الزرقانی شرح المواہب    المقصدا لعاشر فی اتمام نعمۃ        الطبعۃ العامرہ مصر        ۸ /۳۵۲)

 

قول (۸۱ و۸۲): شرح الصدور وطحطاوی حاشیہ مراقی میں نقل فرمایا: الاحادیث والاثار تدل علی ان الزائرمتی جاء علم بہ المزور وسمع سلام وانس بہ ورد علیہ وھذا عام فی حتی الشھداء وغیرھم وانہ لا توقیت فی ذلک ۱؎۔ احادیث و آثار دلیل ہیں کہ جب زائر آتا ہے مرُدے کو ا س پر علم ہوتا ہے کہ اس کا سلام سُنتاہے ا ور اس سے انس کرتا ہے اوراس کو جواب دیتا ہے اور یہ بات شہداء و غیر شہداء سب میں عام ہے نہ اس میں کچھ وقت کی خصوصیت (عہ) کہ بعض وقت ہو اور بعض وقت نہیں۔

 

عہ :  انھیں امام جلیل نے انیس الفریب میں فرمایا: وسلموا  ردا علی المسلم÷ فی ای یوم قالہ ابن القیم، مُردے سلام کے جواب میں سلام کرتے ہیں کوئی دن ہو جیسا کہ ابن قیم نے تصریح کی ۱۲ (م)

 

 (۱؂ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح     فصل فی زیارۃ القبور      دارالکتب العلمیۃ بیروت       ص۶۲۰ )

 

قول (۸۳): بنایہ حاشیہ ہدایہ میں دربارہ حدیث تلقین موتٰی فرمایا : عند اھل السنۃ ھذا علی الحقیقۃ لان اﷲ تعالٰی یجیب علی ماجاءت بہ الاٰثار ۲؎۔ اہل سنت کے نزدیک یہ اپنی حقیقت پر ہے اس لیے کہ مُردہ تلقین کا جواب دیتا ہے جیسا کہ حدیث میں ا ٓیا۔

 

 (۲؎ البنایۃ شرح الہدایۃ    باب الجنائز    مکتبہ امدادیہ مکۃ المکرمہ    ۱ /۱۰۷۳)

 

فصل نہم: اولیاء کی کرامتیں اولیاء کے تصرف بعد وصال بھی بدستور ہیں۔

قول (۸۴): امام نووی نے اقسام زیارت میں فرمایا: ایک زیارت بغرض حصول برکت ہوتی ہے، یہ مزارات(عہ)  اولیاء کے لیے سنت ہے اور ان کے لیے برزخ میں تصرفات وبرکات بے شمار ہیں وستقف علٰی ذلک اِن شاء اﷲ تعالٰی  (اِن شاء اللہ تعالٰی عنقریب اس سے اگاہی ہوگی۔ ت)

 

عہ :  زیارت گاہی از جہت انتفاع بہ اہل قبور بود  چنانکہ در زیارت قبور صالحین آثار آمدہ ۱۲ جذب القلوب کبھی زیارت اہل قبور سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہوتی ہے جیسا کہ قبور صالحین کی زیارت کے بارے میں ہیں احادیث آتی ہیں۔ (ت)

 

قول (۸۵ و ۸۶): اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں فرمایا: تفسیر کردہ است بیضاوی آیہ کریمہ والنازعات غرقاً الآیۃ رابصفات نفوس فاضلہ درحال مفارقت ازبدن کہ کشیدہ می شوند از ابدان  و نشاط میکنند بسوئے عالم ملکوت وسیاحت میکنند دران پس سبقت میکنند بحظائر قدس پس می گردند بشرف و قوت از  مد برات۳؎۔ قاضی بیضاوی نے آیۃ کریمہ والنازعات غرقاً الخ کی تفسیر میں بتایا ہے کہ یہاں بدن سے جدائی کے وقت ارواح طیبہ کی جو صفات ہوتی ہے ان کا بیان ہے کہ وہ بدنوں سے نکالی جاتی ہیں اور عالم ملکوت کی طرف تیزی سے جاتی اور وہاں سیر کرتی ہیں پھر مقامات مقدس کی طرف سبقت کرتی ہیں اور قوت وشرف کے باعث مدبرات امر یعنی نظام عالم کی تدبیر کرنیوالوں سے ہوجاتی ہیں۔ (ت)

 

 (۳؎ اشعۃ اللمعات    با ب حکم الاسراء    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۳ /۴۰۱)

 

قول (۸۷): علامہ نابلسی قدس سرہ، نے حدیقہ ندیہ میں فر مایا: کرامات الاولیاء باقیۃ بعد موتھم ایضا ومن زعم خلاف ذلک فھو جاھل متعصب ولنا رسالۃ فی خصوص اثبات الکرامۃ بعد موت الولی۱؎ اھ ملخصاً۔ اولیاء کی کرامتیں بعدا نتقال بھی باقی ہیں جو اس کے خلاف زعم کرے وہ جاہل ہٹ دھرم ہے  ہم نے ایک رسالہ خاص اسی امر کے ثبوت میں لکھا ہے اھ ملخصاً (ت)

 

 (۱؎ الحدیقۃ الندیہ    اولھم آدم ابوالبشر    نوریہ رضویہ فیصل آباد    ۱/۲۹۰)

 

قول  (۸۸ و  ۸۹): شیخ مشائخنا رئیس المدرسین بالبلد الامین مولٰنا جمال بن عبداللہ بن عمر مکی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ اپنے فتاوٰی میں فرماتے ہیں: قال العلامۃ الغنیمی وھو خاتمۃ محققی الحنفیۃ اذاکان مرجع الکرامات الٰی قدرۃ اﷲ تعالٰی کما تقرر فلا فرق بین حیاتھم ومماتھم (الٰی ان قال) قد اتفقت کلمات علماء الاسلام قاطبۃً علٰی ان معجزات نبینا صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لا تحصر لان منھا ما اجرہ اﷲ تعالٰی ویجریہ لاولیائہ من الکرامات احیاءً وامواتاً الٰی یوم القیٰمۃ  ۲؎۔

 

علاّمہ غنیمی رحمہ اللہ تعالٰی نے کہ محققین حنفیہ کے خاتم ہیں فرمایا جب ثابت ہوچکا کہ مرجع کرامات قدرت الٰہی کی طرف سے، تو اولیاء کی حیات و وفات میں کچھ فرق نہیں، تمام علماء اسلام ایک زبان فرماتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے معجزے محدود نہیں کہ حضور ہی کے معجزات سے ہیں وہ سب کرامتیں جو اولیائے زندہ و مرُدہ سے جاری کیں اور قیامت تک ان سے جاری فرمائے گا۔

 

  (۲؎ فتاوٰی جمال بن عمر مکی)

 

قول (۹۰): اس میں امام شیخ الاسلام شہاب رملی سے منقول ہوا : معجزات الانبیاء وکرامات الاولیاء لاتنقطع بموتھم ۳؎۔ ابنیاء کے معجزے اور اولیاء کی کرامتیں ان کے انتقال سے منقطع نہیں ہوتیں۔

 

 (۳؎ فتاوٰی جمال بن عمر مکی)

 

قول (۹۱و ۹۲): امام ابن الحاج مدخل میں ، امام ابو عبداللہ بن نعمان کی کتاب مستطاب سفینۃ النجاء لاہل الالتجاء فی کرامات الشیخ ابی النجاء سے ناقل: تحقق لذ وی البصائر والاعتباران زیارۃ قبور الصالحین محبوبۃ لاجل التبرک مع الاعتبار فان برکۃ الصالحین جاریۃ بعد مماتھم کما کانت فی حیاتھم  ۴؎۔ اہل بصیرت واعتبار کے نزدیک محقق ہوچکا ہے کہ قبور صالحین بغرض تحصیل برکت وعبرت محبوب ہے کہ ان کی برکتیں جیسے زندگی میں جاری تھیں بعد وصال بھی جاری ہیں۔

 

 (۴؎ المدخل         فصل فی زیارۃ القبور        دارالکتاب العربی بیروت    ۱ /۲۴۹)

 

قول (۹۳): جامع البرکات میں ارشاد فرمایا : اولیاء راکرامات وتصرفات دراکوان حاصل است وآن نیست مگر ا رواحِ ایشاں راچون ارواح باقی است بعد از ممات نیزیاشد۱؎۔ اولیاء کو کائنات میں کرامات وتصرفات کی قوت حاصل ہے اور یہ قوت ان کی روحوں کو ہی ملتی ہے تو روحیں جب بعد وفات بھی باقی رہتی ہیں تو یہ قوت بھی باقی رہتی ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ جامع البرکات    )

 

قول (۹۴): کشف الغطاء میں ہے: ارواح کمل کہ درحینِ حیات ایشاں بہ سبب قرب مکانت ومنزلت از رب العزت کرامات وتصرفات وامداد داشتند بعد از ممات چوں بہماں قرب باقیند نیز تصرفات دارند چنانچہ درحین تعلق بجسد داشتند یا بیشتر ازاں ۲؎۔ کا ملین کی روحیں ان کی زندگی میں رب العزت سے قرب مرتبت کے باعث کرامات وتصرفات اور حاجتمنددوں کی امداد فرمایا کرتی تھیں بعد وفات جب وہ ارواح شریفہ اسی قرب واعزاز کے ساتھ باقی ہیں تو اب بھی ان کے تصرفات ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے جسم سے دنیاوی تعلق کے تھے یا اس سے بھی زیادہ۔ (ت)

 

 (۲؎ کشف الغطاء    فصل دہم زیارت القبور    مطبع احمدی دہلی     ص۸۰)

 

قول (۹۵ و ۹۶): شرح مشکوٰۃ میں فرمایا: یکے از مشائخ عظام  (عہ ۱)گفتہ است دیدم چہار کس را  از مشائخ تصرف می کنند درقبور خود مانند تصرفہائے شاں درحیات خود یا بیشتر شیخ معروف و عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہما و دوکس (عہ ۲)دیگر راز اولیاء شمُردہ ومقصود حصر نیست آنچہ خود دیدہ ویافتہ است  ۱؎۔ ایک عظیم بزرگ فرماتے ہیں میں نے مشائخ میں سے چار حضرات کو دیکھا کہ اپنی قبروں میں رہ کر بھی ویسے ہی تصرف فرماتے ہیں جیسے حیات دنیا کے وقت فرماتے تھے یا اس سے بھی زیادہ (۱) شیخ معروف کرخی (۲) سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالٰی عنہما، اور دو اولیاء اور کو شمار کیا (شیخ عقیل منجبی بسہی  اور شیخ حیاۃ ابن قیس حرانی رحمہما اللہ تعالٰی  ان کا مقصد حصر نہیں بلکہ خود جو دیکھا او رمشاہدہ فرمایا وہ بیان کیا۔ ت)

 

عہ ۱ :یعنی سیدی علی قرشی قدس سرہ العزیز کما روی عنہ الامام نورالدین ابوالحسن علی فی بھجۃ الاسراء بسندہ ۱۲منہ(م) یعنی سیدی علی قرشی قدس سرہ،العزیز ، جیسا کہ بہجۃ الاسرار میں ان سے نورالدین ابوالحسن علی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے ۱۲ منہ (م)

 

عہ۲ : یعنی شیخ عقیل بسہی وحضرت شیخ حیاۃ ابن قیس الحرانی قدس اﷲ تعالٰی اسرارہما کما فی البہجۃ ۱۲منہ (م) یعنی شیخ عقیل منجبی بسہی اور شیخ حیات ابن قیس حرانی رحمہما اللہ تعالٰی ، جیسا کہ بہجۃ الاسرارمیں ہے ۱۲منہ (م)

 

 (۱؎ اشعۃ اللمعات    باب زیارۃ القبور    تیج کمار لکھنؤ        ۱ /۷۱۵)

 

فصل دہم: الحمد اللہ برزخ میں بھی ان کا فیض جاری اور غلاموں کے ساتھ وہی شان امداد ویاری ہے۔

قول (۹۷): امام اجل عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ، الربانی میزان الشریعۃ الکبرٰی میں ارشاد فرماتے ہیں: جمیع الائمۃ المجتہدین یشفعون فی اتباعھم ویلا حظونھم فی شدائھم فی الدنیا والبرزخ ویوم القیامۃ حتٰی یجاوز الصراط۲ ؎۔ تمام ائمہ مجتہدین اپنے پیرووں کی شفاعت کرتے ہیں اور دنیا و برزخ وقیامت ہر جگہ کی سختیوں میں ان  پر نگاہ رکھتے ہیں یہاں تک کہ صراط سے پار ہوجائیں۔

 

 (۲؎ المیزان الکبرٰی    مقدمۃ الکتاب    مصطفی البابی مصر    ۱ /۹)

 

اسی امام اجل نے اسی کتاب اجمل میں فرمایا : قد ذکرنا فی کتاب الاجوبۃ عن ائمۃ الفقھاء و الصوفیۃ کلھم یشفعون فی مقلدیھم و یلاحظون احدھم عند طلوع روحہ وعند سوال منکر و نکیر لہ وعند النشر والحشر والحساب والمیزان والصراط، والا یغفلون عنھم فی موقف من المواقف ولما مات شیخنا شیخ الاسلام الشیخ ناصرالدین اللقانی رآہ بعض الصالحین فی المنام فقال لہ مافعل اﷲ بک فقال لما اجلسنی الملکان فی القبر لیسئلافی اتاھم الامام مالک فقال مثل ھذا یحتاج الی سوال فی ایمانہ باﷲ ورسولہ تنحیاعنہ فتحیا عنی اھ  واذاکان مشائخ الصوفیۃ یلاحظون اتباعھم ومریدیھم فی جمیع الاھوال والشدائد فی الدنیا و الاٰخرۃ فکیف بائمۃ المذھب الذین ھم أوتادالارض وارکان الدین وأمناء الشارع صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم علی امتہ رضی اﷲ تعالٰی عنھم اجمعین۱؎۔

 

ہم نے کتاب الاجوبہ عن الفقہاء والصوفیہ میں ذکر کیا ہے کہ تمام ائمہ فقہاء وصوفیہ اپنے اپنے مقلدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور جب ان کے مقلد کی روح نکلتی ہے، جب منکر نکیر اس سے سوال کو آتے ہیں، جب اس کا حشر ہوتا ہے، جب نامہ اعمال کھلتے ہیں، جب حساب لیاجاتا ہے، جب عمل تُلتے ہیں، جب صراط پر چلتا ہے، غرض ہر حال میں اس کی نگہبانی فرماتے ہیں اور کسی جگہ اس سے غافل نہیں ہوتے، ہمارے استاد شیخ الاسلام امام ناصرالدین لقانی مالکی رحمہ اللہ تعالٰی کا جب انتقال ہوا بعض صالحوں نے انھیں خواب میں دیکھا، پوچھا اللہ تعالٰی نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ کہا جب منکر نکیر نے مجھے سوال کے لئے بٹھایا امام مالک تشریف لائے اور ان سے فرمایاایسا شخص بھی اس کی حاجت رکھتا ہے کہ اس سے خدا و رسول پر ایمان کے بارے میں سوال کیا جائے الگ ہو اس کے پاس سے، یہ فرماتے ہیں نکیرین مجھ سے الگ ہوگئے اور جب مشائخ کرام صوفیہ قدست اسرارہم ہول وسختی کے وقت دنیا وآخرت میں اپنے پیرووں اور مریدوں کا لحاظ رکھتے ہیں تو ا ن  پیشوایانِ عذاب کاکہنا ہی کیا جو زمین کی میخیں ہیں اور دین کے ستون، او ر شارع علیہ السلام کی اُمت پر اس کے امین رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔

 

(۱؎ المیزان الکبرٰی    فصل فی بیان جملۃ من الامثلۃ المحسوستہ    مصطفی البابی مصر    ۱ /۵۳)

 

ﷲا کبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد ؎

حسبی من الخیرات ما اعددتہ                                                                  یوم القیامۃ فی رضی الرحمٰن

دین النبی محمد خیرالورٰی                                                                                      ثم اعتقادی مذھب النعمٰن

وارادتی وعقیدتی ومحبتی                                                                                                للشیخ عبدالقادر الجیلانی  ( میرے لیے نیکیوں سے وہ کافی ہے جو روز قیامت خوشنودی الٰہی کی راہ میں، میں نے تیار کررکھا ہے۔ نبی اکرم ، مخلوق میں سب سے افضل حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا دین پاک، پھر مذہب نعمان امام اعظم ابوحنیفہ پر اعتقاد، اور سیدی شیخ عبدالقادر جیلانی سے ارادت اور عقیدت ومحبت۔ ت)  ؎ وی بخاک رضا شدم گفتم                                                                             کہ تو چونی کہ ماچناں شدہ ایم

ہمہ روز از غمت بفکر فضول                                                                       ہمہ شب درخیال بہیدہ ایم

خبری گو بماز تلخی مرگ                                                                                           سنیّت را گدائے میکدہ ایم

شیر  بودیم  و شہد افروزند                                                                              ما سراپا حلاوت آمدہ ایم  (ایک دن میں نے رضا خاکی خاک پر جاکرکہا تمھارا کیا حال ہے، ہمارا حال تو یہ ہے کہ دن رات تمھارے غم میں بیکار سوچتے اور فکر کرتے رہتے ہیں، بتاؤ کہ موت کی تلخی کا حال کیسا رہا؟ عرض کیا: یہ تلخ جام ہم نے تو کم ہی چکھا، قادریت ہمارا مشرب رہا اور سنیت ہمارا میکدہ۔  ہم دُودھ تھے ہی اس پر شہد کا اضافہ ہوا، ہم تو سراپا حلاوت نکلے۔ت)

تنبیہ نبیہ: ہاں مقلد ان ائمہ کو خوشی وشادمانی اور ان کے مخالفوں کو حسرت وپیشمانی، مگر حاش صرف فروع میں تقلید سے متبع نہیں ہوتا، پہلے مہم امر عقائد ہے جو اس میں ائمہ سلف کے خلاف ہو ، تو بہ، کہاں  وہ اور کہاں اتباع، یوں تو بہتیر حنفیت جتاتے ہیں، بعض زیدیہ روافض شافعی کہلاتے ہیں، بہت مجسمہ موجہ حنبلی کہے جاتے، پھر کیا ارواح طیبہ حضرات عالیہ امام اعظم و امام شافعی وامام احمد رضی اﷲ تعالی عنہم ان سے خوش ہوں گے،کلا واﷲ! ان گمراہوں کا انتساب ایساہے جیسے روافض اپنے آپ کو امامیہ کہتے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے بیزار  روح پاک ائمہ اطہار ہے رضوان اللہ تعالٰی علیہ اجمعین، یونہی نجد کے حنبلی، ہند کے حنفی جو مخترعانِ مذہب جدید ومتبعانِ قرنِ طرید ہوئے ہر گز حنبلی وحنفی نہیں بلکہ حَبَلی (عہ۱) و جنفی (عہ۲)ہیں،

 

عہ ۱: حَبَل بفتحتین بمعنی غضب ۱۲ منہ (م)

عہ ۲: جَنَف بفتحتین میل وجور ۱۲منہ (م)

 

فقیر غفراللہ تعالٰی لہ،نے اپنے قصیدہ اکسیر اعظم (۱۳۰۲ھ)کی شرح مجیر معظم (۱۳۰۳ھ) میں غلامان سرکار قادری کے فضائل اور ان کے لیے جو عظیم امیدیں لکھ کر گزارش کی : اماہوس کاراینکہ رنزد ایشاں اتباع ہوائے نفس کمالِ تصوف ورداحکام شرع تمغائے تعرف، مناہی وملاہی موصل الی اللہ وتباہی ودواہی ریاضت این راہ، روزہا دارنداما برگرد و نماز ہا گزار ند برمعنی ترک کردن  ونہ آنکہ ازینہابا کے دارند یاسرے خارند بلکہ فارغ زیند وحسابے ندارند و خود ازینہاچہ حکایت و ازبدعت چہ شکایت کہ متہوران ایشاں ضروریاتِ دین راخلاف کنند وبدعوی اسلام برعقائد اسلام خندہ زنند من وخدائے من کہ ایناں نہ قادری باشند  و نہ چشتی بلکہ غادری باشند وزشتی ؂ سایہ مادور باد از مادور الخ اھ ملخصا

 

مگر  وہ ہوس کار جن کے نزدیک ہوائے نفس کی پیروی کمال تصوف اور احکام شرع کو رَد کرنا تمغہ امتیاز، ممنوعات اور لہو کی چیزیں خدا رسی کا ذریعہ، تباہی اور مصیبت کی چیزیں اس راہ کی ریاضت، روزے رکھیں مگر ذمہ میں رہیں، نمازیں پڑھیں مگر نہ پـڑھنے کی طرح، اس پر بھی یہ نہیں کہ کچھ خوف یا فکر ہو بلکہ چین سے جیتے ہیں اور کوئی حساب نہیں رکھتے، ان کی کیا بات اور اس بد مذہبی کی کیا شکایت جبکہ ا ن کے بے باکوں کا حال یہ ہے کہ ضروریاتِ دین کا خلاف کریں اور اسلام کا دعوٰی کرکے عقائد السلام پر خندہ زن ہو، واﷲ یہ نہ قادری ہیں نہ چشتی بلکہ غادری ہیں اور زِ شتی، ان کا سایہ ہم سے دور ہو   دور الخ ملخصاً(ت)

 

معہذا بالفرض اگر ایک فریق منکرین باعتبار فروع مقلدین سہی تاہم جب ان کے نزدیک ارواح گزشتگان مثل جماد اور محال امداد اور شرک استمداد، تو وہ اس قابل کہاں کہ ارواح ائمہ ان پر نظر فرمائیں، سنت الٰہیہ ہے کہ منکرین کو محروم رکھتے ہیں، اللہ تعالٰی حدیث قدسی میں فرماتا ہے : انا عند ظن عبدی بی  ۱؎۔ رواہ البخاری۔ میں بندہ سے وہ کرتاہوں جو بندہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔ اسے بخاری نے روایت کیا۔

 

 (۱؎ الصحیح للبخاری        باب قول اللہ ویحذرکم اللہ نفسہ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۱۱۰۱)

 

جب ان کے گمان میں امداد محال تو ان کے حق میں ایسا ہی ہوگا۔ ؎ گر بہ تو حرام است حرامت بادا

 

سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حدیث متواتر میں فرماتے ہیں : شفاعتی یوم القیٰمۃ حق فمن لم یؤمن بھا لم یکن من اھلھا ۲ ؎۔ رواہ ابن منیع عن زید بن ارقم وبضعۃ عشر من الصحابۃ رضوان اﷲ تعالٰی اجمعین۔ میری شفاعت قیامت کے روز حق ہے جو اس پر ایمان نہ لائے گا اس کے اہل نہ ہوگا۔ (اسے ابن منیع نے حضرت زید بن ارقم اور تیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۲؎ جامع صغیری مع فیض القدیر    حدیث ۴۸۹۶        دارالمعرفۃ بیروت لبنان    ۴ /۱۶۳)

 

اللہ تعالٰی دنیا واٰخرت میں ان کی شفاعتوں سے بہرہ مند فرمائے اٰمین اللّٰھم اٰمین۔

 

فصل دہم: الحمد اللہ برزخ میں بھی ان کا فیض جاری اور غلاموں کے ساتھ وہی شان امداد ویاری ہے۔

قول (۹۷): امام اجل عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ، الربانی میزان الشریعۃ الکبرٰی میں ارشاد فرماتے ہیں: جمیع الائمۃ المجتہدین یشفعون فی اتباعھم ویلا حظونھم فی شدائھم فی الدنیا والبرزخ ویوم القیامۃ حتٰی یجاوز الصراط۲ ؎۔ تمام ائمہ مجتہدین اپنے پیرووں کی شفاعت کرتے ہیں اور دنیا و برزخ وقیامت ہر جگہ کی سختیوں میں ان  پر نگاہ رکھتے ہیں یہاں تک کہ صراط سے پار ہوجائیں۔

 

 (۲؎ المیزان الکبرٰی    مقدمۃ الکتاب    مصطفی البابی مصر    ۱ /۹)

 

اسی امام اجل نے اسی کتاب اجمل میں فرمایا : قد ذکرنا فی کتاب الاجوبۃ عن ائمۃ الفقھاء و الصوفیۃ کلھم یشفعون فی مقلدیھم و یلاحظون احدھم عند طلوع روحہ وعند سوال منکر و نکیر لہ وعند النشر والحشر والحساب والمیزان والصراط، والا یغفلون عنھم فی موقف من المواقف ولما مات شیخنا شیخ الاسلام الشیخ ناصرالدین اللقانی رآہ بعض الصالحین فی المنام فقال لہ مافعل اﷲ بک فقال لما اجلسنی الملکان فی القبر لیسئلافی اتاھم الامام مالک فقال مثل ھذا یحتاج الی سوال فی ایمانہ باﷲ ورسولہ تنحیاعنہ فتحیا عنی اھ  واذاکان مشائخ الصوفیۃ یلاحظون اتباعھم ومریدیھم فی جمیع الاھوال والشدائد فی الدنیا و الاٰخرۃ فکیف بائمۃ المذھب الذین ھم أوتادالارض وارکان الدین وأمناء الشارع صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم علی امتہ رضی اﷲ تعالٰی عنھم اجمعین۱؎۔

 

ہم نے کتاب الاجوبہ عن الفقہاء والصوفیہ میں ذکر کیا ہے کہ تمام ائمہ فقہاء وصوفیہ اپنے اپنے مقلدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور جب ان کے مقلد کی روح نکلتی ہے، جب منکر نکیر اس سے سوال کو آتے ہیں، جب اس کا حشر ہوتا ہے، جب نامہ اعمال کھلتے ہیں، جب حساب لیاجاتا ہے، جب عمل تُلتے ہیں، جب صراط پر چلتا ہے، غرض ہر حال میں اس کی نگہبانی فرماتے ہیں اور کسی جگہ اس سے غافل نہیں ہوتے، ہمارے استاد شیخ الاسلام امام ناصرالدین لقانی مالکی رحمہ اللہ تعالٰی کا جب انتقال ہوا بعض صالحوں نے انھیں خواب میں دیکھا، پوچھا اللہ تعالٰی نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ کہا جب منکر نکیر نے مجھے سوال کے لئے بٹھایا امام مالک تشریف لائے اور ان سے فرمایاایسا شخص بھی اس کی حاجت رکھتا ہے کہ اس سے خدا و رسول پر ایمان کے بارے میں سوال کیا جائے الگ ہو اس کے پاس سے، یہ فرماتے ہیں نکیرین مجھ سے الگ ہوگئے اور جب مشائخ کرام صوفیہ قدست اسرارہم ہول وسختی کے وقت دنیا وآخرت میں اپنے پیرووں اور مریدوں کا لحاظ رکھتے ہیں تو ا ن  پیشوایانِ عذاب کاکہنا ہی کیا جو زمین کی میخیں ہیں اور دین کے ستون، او ر شارع علیہ السلام کی اُمت پر اس کے امین رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین۔

 

(۱؎ المیزان الکبرٰی    فصل فی بیان جملۃ من الامثلۃ المحسوستہ    مصطفی البابی مصر    ۱ /۵۳)

 

ﷲا کبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد ؎

حسبی من الخیرات ما اعددتہ                                                                  یوم القیامۃ فی رضی الرحمٰن

دین النبی محمد خیرالورٰی                                                                                      ثم اعتقادی مذھب النعمٰن

وارادتی وعقیدتی ومحبتی                                                                                                للشیخ عبدالقادر الجیلانی  ( میرے لیے نیکیوں سے وہ کافی ہے جو روز قیامت خوشنودی الٰہی کی راہ میں، میں نے تیار کررکھا ہے۔ نبی اکرم ، مخلوق میں سب سے افضل حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا دین پاک، پھر مذہب نعمان امام اعظم ابوحنیفہ پر اعتقاد، اور سیدی شیخ عبدالقادر جیلانی سے ارادت اور عقیدت ومحبت۔ ت)  ؎ وی بخاک رضا شدم گفتم                                                                             کہ تو چونی کہ ماچناں شدہ ایم

ہمہ روز از غمت بفکر فضول                                                                       ہمہ شب درخیال بہیدہ ایم

خبری گو بماز تلخی مرگ                                                                                           سنیّت را گدائے میکدہ ایم

شیر  بودیم  و شہد افروزند                                                                              ما سراپا حلاوت آمدہ ایم  (ایک دن میں نے رضا خاکی خاک پر جاکرکہا تمھارا کیا حال ہے، ہمارا حال تو یہ ہے کہ دن رات تمھارے غم میں بیکار سوچتے اور فکر کرتے رہتے ہیں، بتاؤ کہ موت کی تلخی کا حال کیسا رہا؟ عرض کیا: یہ تلخ جام ہم نے تو کم ہی چکھا، قادریت ہمارا مشرب رہا اور سنیت ہمارا میکدہ۔  ہم دُودھ تھے ہی اس پر شہد کا اضافہ ہوا، ہم تو سراپا حلاوت نکلے۔ت)

تنبیہ نبیہ: ہاں مقلد ان ائمہ کو خوشی وشادمانی اور ان کے مخالفوں کو حسرت وپیشمانی، مگر حاش صرف فروع میں تقلید سے متبع نہیں ہوتا، پہلے مہم امر عقائد ہے جو اس میں ائمہ سلف کے خلاف ہو ، تو بہ، کہاں  وہ اور کہاں اتباع، یوں تو بہتیر حنفیت جتاتے ہیں، بعض زیدیہ روافض شافعی کہلاتے ہیں، بہت مجسمہ موجہ حنبلی کہے جاتے، پھر کیا ارواح طیبہ حضرات عالیہ امام اعظم و امام شافعی وامام احمد رضی اﷲ تعالی عنہم ان سے خوش ہوں گے،کلا واﷲ! ان گمراہوں کا انتساب ایساہے جیسے روافض اپنے آپ کو امامیہ کہتے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے بیزار  روح پاک ائمہ اطہار ہے رضوان اللہ تعالٰی علیہ اجمعین، یونہی نجد کے حنبلی، ہند کے حنفی جو مخترعانِ مذہب جدید ومتبعانِ قرنِ طرید ہوئے ہر گز حنبلی وحنفی نہیں بلکہ حَبَلی (عہ۱) و جنفی (عہ۲)ہیں،

 

عہ ۱: حَبَل بفتحتین بمعنی غضب ۱۲ منہ (م)

عہ ۲: جَنَف بفتحتین میل وجور ۱۲منہ (م)

 

فقیر غفراللہ تعالٰی لہ،نے اپنے قصیدہ اکسیر اعظم (۱۳۰۲ھ)کی شرح مجیر معظم (۱۳۰۳ھ) میں غلامان سرکار قادری کے فضائل اور ان کے لیے جو عظیم امیدیں لکھ کر گزارش کی : اماہوس کاراینکہ رنزد ایشاں اتباع ہوائے نفس کمالِ تصوف ورداحکام شرع تمغائے تعرف، مناہی وملاہی موصل الی اللہ وتباہی ودواہی ریاضت این راہ، روزہا دارنداما برگرد و نماز ہا گزار ند برمعنی ترک کردن  ونہ آنکہ ازینہابا کے دارند یاسرے خارند بلکہ فارغ زیند وحسابے ندارند و خود ازینہاچہ حکایت و ازبدعت چہ شکایت کہ متہوران ایشاں ضروریاتِ دین راخلاف کنند وبدعوی اسلام برعقائد اسلام خندہ زنند من وخدائے من کہ ایناں نہ قادری باشند  و نہ چشتی بلکہ غادری باشند وزشتی ؂ سایہ مادور باد از مادور الخ اھ ملخصا

 

مگر  وہ ہوس کار جن کے نزدیک ہوائے نفس کی پیروی کمال تصوف اور احکام شرع کو رَد کرنا تمغہ امتیاز، ممنوعات اور لہو کی چیزیں خدا رسی کا ذریعہ، تباہی اور مصیبت کی چیزیں اس راہ کی ریاضت، روزے رکھیں مگر ذمہ میں رہیں، نمازیں پڑھیں مگر نہ پـڑھنے کی طرح، اس پر بھی یہ نہیں کہ کچھ خوف یا فکر ہو بلکہ چین سے جیتے ہیں اور کوئی حساب نہیں رکھتے، ان کی کیا بات اور اس بد مذہبی کی کیا شکایت جبکہ ا ن کے بے باکوں کا حال یہ ہے کہ ضروریاتِ دین کا خلاف کریں اور اسلام کا دعوٰی کرکے عقائد السلام پر خندہ زن ہو، واﷲ یہ نہ قادری ہیں نہ چشتی بلکہ غادری ہیں اور زِ شتی، ان کا سایہ ہم سے دور ہو   دور الخ ملخصاً(ت)

 

معہذا بالفرض اگر ایک فریق منکرین باعتبار فروع مقلدین سہی تاہم جب ان کے نزدیک ارواح گزشتگان مثل جماد اور محال امداد اور شرک استمداد، تو وہ اس قابل کہاں کہ ارواح ائمہ ان پر نظر فرمائیں، سنت الٰہیہ ہے کہ منکرین کو محروم رکھتے ہیں، اللہ تعالٰی حدیث قدسی میں فرماتا ہے : انا عند ظن عبدی بی  ۱؎۔ رواہ البخاری۔ میں بندہ سے وہ کرتاہوں جو بندہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔ اسے بخاری نے روایت کیا۔

 

 (۱؎ الصحیح للبخاری        باب قول اللہ ویحذرکم اللہ نفسہ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۱۱۰۱)

 

جب ان کے گمان میں امداد محال تو ان کے حق میں ایسا ہی ہوگا۔ ؎ گر بہ تو حرام است حرامت بادا

 

سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حدیث متواتر میں فرماتے ہیں : شفاعتی یوم القیٰمۃ حق فمن لم یؤمن بھا لم یکن من اھلھا ۲ ؎۔ رواہ ابن منیع عن زید بن ارقم وبضعۃ عشر من الصحابۃ رضوان اﷲ تعالٰی اجمعین۔ میری شفاعت قیامت کے روز حق ہے جو اس پر ایمان نہ لائے گا اس کے اہل نہ ہوگا۔ (اسے ابن منیع نے حضرت زید بن ارقم اور تیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سے روایت کیا۔ ت)

 

 (۲؎ جامع صغیری مع فیض القدیر    حدیث ۴۸۹۶        دارالمعرفۃ بیروت لبنان    ۴ /۱۶۳)

 

اللہ تعالٰی دنیا واٰخرت میں ان کی شفاعتوں سے بہرہ مند فرمائے اٰمین اللّٰھم اٰمین۔

 

قول (۹۸ تا ۱۰۰): امام غزالی قدس سرہ العالی پھر شیخ محقق پھر شیخ الاسلام فرماتے ہیں: واللفظ لشرح المشکٰوۃ حجۃ الاسلام امام غزالی گفتہ ہر کہ استمداد کردہ مے شود بوی درحیات استمداد مے شود بوی بعدازوفات ۳؎۔ الفاظ شرح مشکوٰۃ کے ہیں: حجۃ الاسلام امام غزالی فرماتے ہیں جس سے زندگی میں مدد مانگی جائے اس سے بعد وفات بھی مدد مانگی جائے۔ (ت)

 

 (۳؎ اشعۃ اللمعات        باب زیارۃ القبور        مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۷۱۵)

 

قول (۱۰۱و ۱۰۲): امام ابن حجر مکی پھر شیخ نے شروح مشکوٰۃ میں فرمایا: صالحاں رامدد بلیغ است بہ زیارت کنند گانِ خود رابر اندازہ ادب ایشاں ۴؎۔ صالحین اپنے زائرین کے ادب کے مطابق ان کی بے پناہ مدد فرماتے ہیں۔ (ت)

 

 (۴؎ اشعۃ اللمعات        باب زیارۃ القبور        مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱ /۷۱۵)

 

قول (۱۰۳): امام علامہ تفتازانی نے شرح مقاصد میں اہلسنت کے نزدیک علم وادراک موتٰی کی تحقیق کرکے فرمایا: ولھذا ینتفح بزیارۃ قبور الابرار والاستعانۃ من نفوس الاخبار ۱ ؎۔ اسی لیے قبور اولیاء کی زیارت اور ارواح طیبہ سے استعانت نفع دیتی ہے۔

 

 (۱؎ شرح المقاصد     المبحث االرابع مدرک الجزئیات عندنا الخ    دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۲ /۴۳)

 

قول (۱۰۴ و ۱۰۵): ردالمحتار میں امام غزالی سے ہے : انھم متفاوتون فی القرب من اﷲ تعالٰی ونفع الزائرین بحسب معارفھم واسرارھم ۲؎۔ ارواح طیبہ اولیائے کرام کا حال یکساں نہیں بلکہ وہ متفاوت ہیں اللہ سے نزدیکی اور زائروںکو نفع دینے میں موافق اپنے معارف واسرار کے۔

 

 (۲؎ رداالمحتار        مطلب فی زیارۃ القبور        ادارۃ الطباعۃ العربیہ مصر    ۱ /۲۰۴)

 

قول (۱۰۶): امام ابن حجر مکی مدخل میں فرماتے ہیں : ان کانت المیّت المزار ممن ترجی برکتہ فیتوسل الی اﷲ تعالٰی بہ، یبدأ بالتوسل الی اﷲ تعالٰی بالنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذھو العمدۃ فی التوسل والاصل فی ھذا کلہ والمشروع لہ، ثم یتوسل باھل تلک المقابر اعنی بالصالحین منھم فی قضاء حوائجہ ومغفرۃ ذنوبہ ویکثر التوسل بھم الی اﷲ تعالٰی لانہ سبحانہ تعالٰی اجتباھم وشرّفھم وکرمھم فکما نفع بھم فی الدنیا ففی الاٰخرہ اکثر فمن ارادحاجۃ فلیذھب الیھم ویتوسل بھم فانھم الواسطۃ بین اﷲ تعالٰی وخلقہ وقد تقرر فی الشرع وعلم ماﷲ تعالٰی بھم من الاعتناء وذلک کثیرہ مشھور، ومازال الناس من العلماء والاکابر کابراً عن کابرمشرقا ومغربا یتبرکون بزیارۃ قبورھم ویجدون برکۃ ذلک حساً ومعنیً اھ   ۱؂ملخصا

 

یعنی اگر صاحب مزار ان لوگوں میں ہے جن سے امید برکت کی جاتی ہے تو اسے اللہ تعالٰی کی طرف وسیلہ کرے، پہلے حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے توسل کرے کہ حضور ہی توسل میں عمدہ اور ان سب باتوں میں اصل اور توسل کے مشروع فرمانے والے ہیں، صالحین اہل قبور سے اپنی حاجت روائی وبخشش گناہ میں توسل اور اس کی تکرار و کرامت بخشی تو جس طرح دنیا میں ان کی ذات سے نفع پینچایا یونہی بعد انتقال اس سے زیادہ پہنچائے گا، تو جسے کوئی حاجت منظور ہو انکے مزارات(عہ)  پر حاضر ہو اور ان سے توسل کرے کہ یہی واسطہ ہیں اللہ تعالٰی اورا س کی مخلوق میں، اور بیشک شرع میں مقرر ومعلوم ہوچکا کہ  اللہ تعالٰی کو ان  پر کیسی عنایت ہے اور یہ خود بکثرت وشہرت ہے اور ہمیشہ علمائے اکا بر خلف و سلف مشرق ومغرب میں ان کی زیارت قبور سے تبرک کرتے اور ظاہر وباطن میں اس کی برکتیں پاتے رہے ہیں اھ ملخصاً۔

 

عہ:  قصد زیارت مقریان آں درگاہ ومنتسبان آں جناب واستفاضہ خیرات وبرکات ازایشاں نماید۲؂ موجب مزید خیر وزیارت ثواب خواہد بود والسلام۱۲ منہ جذب القلوب (م) اُس بار گارہ کے قُرب یافتہ اوراس جناب سے تعلق رکھنے والوں کی زیارت کا قصد کرے اور ان سے درخواست کرے کہ اپنی برکات وخیرات کا فیض عطا کریں یہ مزیدخیر وخوبی اور ثواب میں زیادتی کا باعث ہوگا، والسلام ۱۲منہ جذب القلوب (ت)

 

 (۱؎ المدخل        فصل فی زیارۃ القبور    دارالکتاب العربی بیروت       ۱ /۴۹۔ ۲۴۸)

(۲؎ جذ ب القلوب    باب دہ از دہم    مکتبہ نعیمہ چوک دالگراں۔ لاہور        ص۱۳۸ )

 

قول (۱۰۷ تا ۱۰۹): اشعۃ میں فرمایا: سیدی احمد بن زروق کہ از عاظم فقہاء وعلماء ومشائخ دیار مغرب است گفت روزے شیخ ابوالعباس حضرم از من پرسید امدادِحی قوی ست یا امداد میّت قوی ست من گفتم قوی می گویند کہ امداد حی قوی تر است ومن می گویم کہ امداد میّت قوی تراست پس شیخ گفت نعم زیرا کہ وی دربساط است ودر حضرت اوست (قال) ونقل دریں معنی ازیں طائفہ بیشتر ازان ست کہ حصر و احصار کردہ شود یافتہ نمی شود درکتاب و سنت اقوالِ سلف صالح چیزے کہ منافی ومخالف ایں باشد و ردکندایں را ۱؂ الخ۔ سیدی احمد بن زروق جودیارِ مغرب کے عظیم ترین فقہاء اور علماء ومشائخ سے ہیں فرماتے ہیں کہ ایک دن شیخ ابوالعباس حضرمی نے مجھ سے پوچھا زندہ کی امداد قوی ہے یاوفات یافتہ کی؟ میں نے کہا کچھ لوگ زندہ کی امداد زیادہ قوی بتاتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ وفات یافتہ کی امداد زیادہ قوی ہے۔ اسی پر شیخ نے فرمایا: ہاں ! اس لیے کہ وہ حق کے دربار اور اس کی بارگارہ میں حاضر ہے (فرمایا) اس مضمون کا کلام ان بزرگوں سے اتنا زیادہ منقول ہے کہ حد وشمار سے باہر ہے اور کتاب وسنت اور سلف صالحین کے اقول میں ایسی کوئی بات موجود نہیں جو اس کے منافی ومخالف اور اسے رد کرنے والی ہو۔ الخ۔ (ت)

 

 (۱؎ اشعۃ اللمعات    باب زیارۃ القبور    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۷۱۶)

 

قول (۱۱۰): اسی میں ہے : بسیارے رافیوض وفتوح ازارواح رسیدہ وایں طائفہ را در اصطلاح ایشاں اویسی خوانند ۲؎۔ بہت سے لوگوں کو فیض وکشف ارواح سے حاصل ہوا ہے اور اس جماعت کوا ن کی اصطلاح میں اُوَیسی کہتے ہیں۔ (ت)

 

 (۲؎ اشعۃ اللمعات    باب زیارۃ القبور    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۱ /۷۱۶)

 

قول (۱۱۱و ۱۱۲): شیخ الاسلام امام فخرالدین رازی سے ناقل: چوں می آید زائر نزد قبر حاصل می شودا ورا تعلقے خاص بقبر چنانچہ نفس صاحب قبر  را وبسبب ایں در تعلق حاصل مے شود میان ہر دونفس ملاقات معنوی  وعلاقہ مخصوص پس اگر نفس مزوری قوی ترباشد نفس زائر مستفیض مے شود واگر برعکس بود برعکس شود ۳؎۔ جب زائر قبر کے  پاس آتا ہے توا سے قبر سے اور ا یسے ہی صاحب قبر کو اس سے ایک خاص تعلق حاصل ہوتا ہے اور ا ن دونوں تعلقات کی وجہ سے دونوں کے درمیان معنوی ملاقات اور ایک خاص ربط حاصل ہوجاتا ہے۔ اب اگر صاحب قبر زیادہ قوت والا ہے تو زائر مستفیض ہوتا ہے اور برعکس ہے تو برعکس ہوتا ہے۔ (ت)

 

 (۳۳؎ کشف الغطاء    فصل دہم زیارت قبور    مطبع احمدی دہلی    ص۷۰)

 

قول (۱۱۳و ۱۱۴): مولٰنا جامی قدس سرہ، السامی حضرت سیدی امام اجل علاء الدولہ سمنانی رحمۃ اﷲ تعالٰی سے ناقل: درویشے از شیخ سوال کرد کہ چوں  بدن  را درخاک ادراک نیست و در عالم ارواح حجاب نیست چہ احتیاج است بسر خاک رفتن۔ چہ دہر مقامیکہ توجہ کند بروح بزرگے ہماں باشد کہ بسر خاک شیخ فرمود فائدہ بسیار داردیکے آنکہ چون بزیارت کسے مے رود چند انکہ می رود توجہ اوزیادہ می شود چوں بہ سرخاک رسد بحس مشاہدہ کند خاک اور احس اونیز مشغول اومی شود بکلی متوجہ گر دوفائدہ بیشتر باشد ودیگر آنکہ ہرچند ارواح راحجاب نیست وہمہ جہاں اورا یکے است اما بآں است امابآں موضع تعلق بیشتر بود۱؎ اھ ملخصا

 

ایک درویش نے شیخ سے سوال کیا کہ جب قبر کے اندر ادراک بدن کو نہیں بلکہ روح کو ہے اور عالم ارواح میں کوئی حجاب نہیں ہے تو قبر کے پاس جانے کی کیا ضرورت، جہاں سے بھی توجہ کرے بزرگ کی روح سے وہی فائدہ ہوگا جو قبر کے پاس ہوگا۔ شیخ نے فرمایا: اس میں بہت فوائد ہیں ایک یہ کہ جب آدمی کسی کی زیارت کو جاتا ہے تو جس قدر آگے بڑھتا ہے اس کی توجہ بڑھتی جاتی ہے، جب قبر کے پاس پہنچتا ہے تو حواس سے اس قبر کا ادراک اور مشاہدہ کرتاہے ا ب اس کے حواس بھی اس کے ساتھ مشغول ہوجاتے ہیں اور  وہ  پورے ظاہر وباطن کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے جس کا فائدہ فزوں ترہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر چہ ارواح کے لیے حجاب نہیں ہے اورسارا جہان ان کے لیے ایک ہے مگر اس مقام سے تعلق زیادہ ہوتا ہے۔ اھ بہ تلخیص (ت)

 

 (۱؎ نفحات الانس    ترجمہ ابوالمکارم رکن الدین علاء الدین السمنانی    مہدی توحیدی پور طہران     ص۴۴۰)

 

قول (۱۱۵ تا ۱۱۶): سید جمال مکّی کے فتاوٰی میں امام شہاب الدین رملی سے منقول: للانبیاء والرسل والاولیاء والصالحین اغاثہ بعدموتھم ۲ ؎۔ انبیاء ورسل واولیاء وصالحین بعد رحلت بھی فریاد رسی کرتے ہیں۔

 

(۲؎ فتاوٰی جمال بن عمر مکی)

 

فصل یازدہم: تصریحات علماء میں کہ سلام قبور دلیل قطع سماع وفہم وعلم وشعور ہے۔

قول (۱۱۷): امام عزالدین بن عبدالسلام اپنی امالی میں فرماتے ہیں : لانا امرنا بالسلام علی القبور ولولاان الارواح تدرک کان فیہ فائدۃ  ۳؎۔ ہمیں حکم ہوا کہ قبور  پر سلام کریں اگر  روحیں سمجھتی نہ ہوتیں تو بیشک ا س میں کچھ فائدہ نہ ہوتا۔

 

 (۳؎ شرح الصدور     بحوالہ عزالدین ا بن عبدالسلام    باب مقرالارواح    خلافت اکیڈمی سوات        ص۱۰۳)

 

قول (۱۱۸): امام  ابو عمر ابن عبدالبر نے فر مایا: احادیث زیارۃ القبور والسلام علیھا وخطابھم مخاطبۃ الحاضر العاقل دالۃ علی ذلک۴؎ اھ ملخصا۔ زیارت قبور اور ان  پر سلام اور ان سے حاضر عاقل کی طرح خطاب کی حدیثیں اس پر دلیل ہیں اھ ملخصا

 

 (۴؎ شرح الصدور   حوالہ ابن عبدالبر   باب مقرالارواح    خلافت اکیڈمی سوات        ص۱۰ )

 

قول (۱۱۹): شرح الصدور میں مثل قولین سا بقین منقول: قد شرح صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لامتہ ان یسلموا علی اھل القبور سلام من یخاطبونہ من یسمع ویعقل ۱؎۔ بیشک نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے اہل قبور پر ایسا مشروع فرمایا ہے جیسے سننے

سمجھنے والوں سے خطاب کرتے ہیں۔

 

(۱؎ شرح الصدور        باب زیارۃ القبور       خلافت اکیڈمی منگورہ سوات    ص۹۴)

 

قول (۱۲۰): امام علامہ نووی منہاج میں امام قاضی عیاض کا قول دربارہئ وسماع موتٰی نقل کرکے فرماتے ہیں: ھوالظاھر المختار الذی یقتضیہ احادیث السلام علی القبور ۲؎۔ یہی ظاہر ومختار ہے جسے سلام قبور کی حدیثیں اقتضاء کرتی ہے۔

 

 (۲؎ منہاج للنووی شرح صحیح مسلم مع مسلم    باب عرض مقعد المیّت من الجنۃ والنار الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲ /۳۸۷)

 

قول (۱۲۱): علامہ مناوی نے اسی امر پر دلیل یوں نقل فرمائی ہے: فان السلام علی من لایشعر محال ۳؎ کہ جو نہ سمجھے اس پر سلام اصلاً معقول نہیں۔

 

 (۳؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر    تھت من زار قبرابویہ الخ     مکتبۃ الامام شافعی الریاض السعودیہ ۲ /۴۲۰)

 

قول (۱۲۲): شیخ محقق مدارج النبوۃ میں سلام اموات کو حدیث سے نقل کرکے فرماتے ہیں : خطاب باکسیکہ نہ شنود  ونہ فہمد معقول نیست، ونزدیک ست کہ شمار کردہ شود از قبیلہ عبث چنانچہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ گفت ۴؎۔ جو نہ سنے نہ سمجھے اس سے خطاب معقول نہیں اور قریب ہے کہ عبث کے دائرے میں شمار ہو جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا۔ (ت)

 

 (۴؎ مدارج النبوۃ     فصل درسماعت میّت       نوریہ رضوریہ سکھر        ۲ /۹۵)

 

قول (۱۲۳) مولانا علی قاری شرح اللباب میں دربارہ سلام زیارت میں فرماتے  ہیں: من غیر  رفع صوت ولا اخفاء بالمرۃ لفوت الاسماع الذی ھو السنۃ  ۵؎۔ نہ بلند آواز سے ہو نہ بالکل آہستہ جس میں سنانا کہ سنت ہے فوت ہوجائے۔

 

 (۵؎ مسلک متقسط مع ارشاد الساری    باب زیارۃ سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم        دارالکتاب العربی بیروت     ص۳۳۸)

 

فصل دو از دہم: اہل قبور سے سوائے سلام اور انواع خطاب وکلام میں،

قول (۱۲۴ تا ۱۲۷): منسک متوسط و مسلک متقسط واختیار شرح مختار  و فتاوٰی عالمگیری میں ہے : واللفظ للاخیرین فانہ ابسط (الفاظ اخیرین کے ہیں اس لیے کہ یہ زیادہ مبسوط ہیں۔ ت) کہ بعد زیارت سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہاتھ بھر ہٹ کر  سرِ اقدس صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مقابل ہو  اور  بعد سلام عرض کرے: جزاک اﷲ عنا افضل ماجزی اماما عن امۃ نبیہ ولقد خلقتہ باحسن خلف وسلک طریقۃ ومنہاجہ خیرمسلک وقالت اھل الردۃ والبدع ومھدت الاسلام و وصلت الارحام ولم تزل قائلا للحق ناصرا لاھلہ حتی اتاک الیقین ۱ ؎۔ آپ کو اللہ تعالٰی ہم سے جزا وعوض نیک دے بہتر اس عوض کا جو کسی کو اس کے نبی کی امت سے عطا فرمایا ہو بیشک آپ نے بہترین خلافت سے نبی ْ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی نیاحت کی اور بہترین روش سے حضور کی راہ وطریقہ پر چلے، آپ نے اہل ارتداد وبدعت سے قتال کیا، آپ نے اسلام کو اراستگی دی، آپ نے صلہ رحم فرمایا، آپ ہمیشہ حق گو اور اہل حق کے ناصر رہے یہاں تک کہ آپ کو موت آئی۔

 

 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    مطلب زیارہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم             نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۲۶۶)

 

پھر ہٹ کر قبر مبارک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے محاذی ہو اور بعد سلام عرض کرے۔ جزاک اﷲ عنا افضل الجزاء ورضی عمن استخلفک فقد نصرت للاسلام والمسلمین حیاً ومیّتاً فکفلت الایتام و وصلت الارحام وقوی بک الاسلام و کنت للمسلمین اماما مرضیا وھادیا مھدیا جمعت شملھم واغنیت فقیرھم وجبرت کسیرھم۲؎۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو بہتر بدلہ دے اور ان سے راضی ہو جنھوں نے آپ کو خلیفہ کیا یعنی صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ آپ نے اپنی زندگی اور موت دونوں حال میں اسلام ومسلمین کی مدد فرمائی، آپ نے یتیموں کی کفالت اور  رحم کا صلہ کیا۔ اسلام نے آپ سے قوت پائی، آپ مسلمانوں کے پسندیدہ پیشوا اور رہنما راہ یاب ہوئے آپ نے ان کا جتھا باندھا اور  ان کے محتاجوں کو غنی کردیا اور ان کی شکستہ دلی دُورفرمائی۔

 

(۲؎ فتاوٰی ہندیہ    مطلب زیارہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم      نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۲۶۶)

 

اسی طرح کتب مناسک میں بہت تصریحیں اس کی ملیں گی۔

قول (۱۲۸ تا۰ ۱۳): امام خطابی نے دربارہ تلقین فرمایا : لاباس بہ اذلیس فیہ الاذکر اﷲ تعالٰی و عرض الاعتقاد علی المیّت (الی قولہ) وکل ذٰلک حسن، نقلہ القاری فی المرقاۃ ۳؎۔ اس میں کچھ حرج نہیں کہ وہ ہے کیا مگر اللہ تعالٰی کی یاد اور میّت پرعرض اعتقاد۔ یہ سب خوب ہیں (اسے ملا علی قاری نے مرقاۃ میں نقل کیا۔ ت)

 

 (۳؎ مرقاۃ المفاتیح     بحوالہ الخطابی    باب اثبات عذاب القبر حدیث ۱۳۳    المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ    ۱ /۳۵۶)

 

بعینہٖ اسی طرح ذیل مجمع البحار میں مذکور۔

 

 (۴؎ تکملہ مجمع البحار    تحت لفظ ثبت      منشی نولکشور لکھنؤ    ص۲۵)

 

وحسبنا اﷲ العزیز الغفور وصلی اﷲ تعالٰی علٰی سیدنا ومولانا محمد واٰلہ وصحبہ الٰی یوم النشور۔ ہمیں عزت ومغفرت والاخدا کافی ہے اور اللہ تعالٰی ہمارے آقا ومولا حضرت محمد اورا ن کی آل واصحاب پر تا حشر درود و حمت بھیجے۔ (ت)

 

فصل سیز دہم: بعد دفن میّت کو تلقین اورا سے عقائد اسلام یاد دلانے میں، یہ فصل فصل دواز دہم کی ایک صنف ہے کہ اس میں بھی میّت سے سوائے سلام اور قسم کا خطاب وکلام ہے کما لا یخفی (جیسا کہ مخفی نہیں ہے۔ ت) میں یہاں صرف علمائے حنفیہ کے اقوال شمار کروں گا کہ شافعیہ تو قاطبتہً قائل تلقین ہیں الا من شاء اللہ۔

قول (۱۳۱تا ۱۳۳): امام زاہد صفار نے کتاب مستطاب تلخیص الادلہ میں تصریح فرمائی کہ تلقین موتٰی مسلک اہلسنت ہے اور منع تلقین مذہب معتزلہ پر مبنی کہ وہ میّت کو جماد مانتے ہیں، امام حاکم شہید نے کافی اور امام خبازی نے خبازیہ میں ان سے نقل فرمایا :

 

ان ھذا (ای منع التلقین) علٰی مذھب المعتزلۃ لان الاحیاء بعد الموت عندھم مستحیل، اما عنداھل السنہ فالحدیث ای لقنوا واتاکم لا الٰہ الا اﷲ محمد علی حقیقۃ۔ لان اﷲ تعالٰی یحییہ علی ماجائت بہ الاثارت وقدروی عنہ علیہ الصلوۃوالسلام انہ امر بالتلقین بعدا لدفن ۱؎ الخ ذکرہ فی ردالمحتار عن معراج الداریۃ۔ تلقین سے ممانعت معتزلہ کامذہب ہے اس لیے کہ موت کے بعد زندہ کرنا ان کے نزدیک محال ہے لیکن اہلسنت کے نزدیک حدیث تلقین (اپنے مردوں کو لا الہ الا اللہ سکھاؤ) اپنے حقیقی معنی پر محمول ہے اس لیے کہ اللہ تعالٰی مُردے کو زندہ فرمادیتا ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے اور حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ سرکار نے دفن کے بعد تلقین کا حکم دیا الخ۔ اسے ردالمحتار میں معراج الدرایہ کے حوالے سے ذکر کیا۔ (ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار     بحوالہ الخبازیۃ    مطلب فی تلقین بعدالموت    ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر    ۱ /۵۷۱)

 

قول (۱۳۴ تا ۱۳۵): درمختار میں جوہرہ نیرہ سے ہے: انہ مشروع عند اھل السنۃ ۲؎ بیشک تلقین اہل سنت کے نزدیک مشروع ہے۔

 

(۲؎ درمختار      باب صلٰوۃ الجنازۃ        مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۱۱۹)

 

قول (۱۳۶): نہایہ شرح ہدایہ میں ہے : کیف لایفعل وقدروی عنہ علیہ الصلٰوۃ والسلام انہ امر بالتلقین بعد دفن  ۱؎۔ تلقین کیونکر نہ کی جائےگی حالانکہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے مروی ہوا، حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے بعد دفن تلقین کاحکم دیا۔اور ان کا قول فصل ہشتم میں گزرا کہ اہلسنت کے نزدیک تلقین اپنی حقیقت  پر ہے۔

 

 (۱؎البدایہ فی شرح الہدایہ    باب الجنائز    المکتبہ الامدادیۃ فیصل آباد    جلد اول جز ثانی    ص۱۰۷۳)

 

قول (۱۳۷ و ۱۳۸): امام اجل شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا : لایومربہ ولاینھی عنہ  ۲؎۔ نقلہ فی النھایۃ وغیرہا۔ تلقین کا حکم نہ دیں نہ اس سے منع کریں، اسے نہایہ وغیرہ میں نقل کیا۔ ت)

 

 (۲؎ البدایہ فی شرح الہدایہ        بحوالہ الحلوانی المکتبہ الامدادیۃ فیصل آباد    جلد اول جز ثانی   ص۱۰۷۳)

 

حلیہ میں اسے نقل کرکے فر مایا: ظاھرہ انہ یباح ۳؎ اس قول سے ظاہر  اباحت ہے۔

 

 (۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

قول (۱۳۹): امام فقیہ النفس قاضی خاں نے فرمایا: ان کان التلقین لاینفع لایضر ایضا فیجوز ۴؎۔ اثرہ المذکوران۔ تلقین میں اگر کوئی نفع نہ ہو تو ضرر بھی نہیں پس جائز ہوگی، (اسے دونوں مذکور حضرات نے ذکر کیا ہے)

 

 (۴؎ البدایۃ فی شرح الہدایۃ     بحوالہ قاضی خاں    المکتبۃ الامدادیہ فیصل آباد      جلد اول جزء ثانی    ص۱۰۷۳)

 

اورظاہر ہے کہ نفی نفع برسبیل تنزل ہے۔

قول (۱۴۰تا ۱۴۳): صاحب غیاث فر ماتے ہیں : انی سمعت استاذی قاضی خان انہ یحکی عن الامام ظہیر الدین انہ لقن بعض الائمۃ و اوصانی بتلقینہ فلقنتہ فیجوز  ۵؎۔ نقلہ فی شرح النقایۃ۔ میں نے اپنے استاذ قاضی خاں کو سنا کہ اما اجل ظہیر الدین مرغینانی سے حکایت فرماتے تھے بعض ائمہ نے تلقین فرمائی اور مجھے اپنی تلقین کرنے کی وصیت کی تو میں نے انھیں تلقین کی، پس جواز ثابت ہوا۔ (اسے شرح نقایہ میں نقل کیا۔ ت)

 

(۵؎ جامع الرموز        فصل فی الجنائز    مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران            ۱ /۲۷۸)

 

اسی طرح صاحب حقائق نے بتصریح (عہ)اس کے کہ یہ تلقین بعد دفن تھی، صاحب غیاث سے نقل کیا کما فی الحلیۃ  (جیسا کہ حلیہ میں ہے۔ ت)

 

عہ :  یہ معنی خود لفظ اوصانی سے مستفاد مگر اس میں صریح تر ہے کہ لقن بعض الائمۃ بعد دفنہ واوصانی بتلقینہ فلقنتہ بعد مادفن ۶؂ ۱۲منہ  (بعض ائمہ نے بعد دفن میّت کو تلقین فرمائی اور مجھے میّت کو تلقین کرنے کی وصیت کی تو میں نے بعد از دفن میّت کو تلقین کی۱۲ منہ (ت)

 

 ( ۶؂ حاشیۃ الشبلی علی التبیین   بحوالہ الحقائق    با ب الجنائز    مطبعہ کبرٰی بولاق مصر        ۱ /۲۳۴)

 

امام ابن امیر الحاج  عبارت حقائق لکھ کر فرماتے ہیں: یفیدون  فعلہ راجح علٰی ترکہ  ۱؎ ۔ یہ کلام استحباب تلقین کا مفید ہے۔ پھر اس پر حدیث سے دلیل ذکر کر کے ائمہ محدیثین امام ابو عمرو بن الصلاح وغیرہ سے ا س کا بوجہ شواہد و عمل قدیم علمائے شام قوت پانا نقل کرتے ہیں کما فی المقصد الثانی  ( جیسا کہ ہم نے اسے مقصد دوم میں پیش کیا۔ ت)

 

(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

قول (۱۴۴ و ۱۴۵): مضمرات میں ہے: نحن نعمل بھما عندالموت وعند الدفن  ۲؎۔ نقلہ فی الھندیۃ ۔ ہم دونوں تلقینوں  پر عمل کرتے ہیں وقت نزع بھی اور وقت دفن بھی، اسے ہندیہ میں نقل کیا گیا۔ ت)

 

 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ     بحوالہ المضمرات الباب الحادی والعشرون فی الجنائز    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۱۵۷)

 

قول (۱۴۶): ذیل مجمع البحار میں ہے : اتفق کثیر علی التلقین ۳ ؎ بہت علماء کا تلقین  پر اتفاق ہے۔

 

 (۳؎ تکملہ مجمع بحارالانوار        تحت لفظ ثبت       نولکشور لکھنؤ        ص ۲۵)

 

قول (۱۴۷): نورالایضاح میں ہے: تلقینہ فی القبر مشروع ۴؎ مُردے کو تلقین کرنا مشروع ہے۔

 

 (۴؎ نورالایضاح        باب احکام الجنائز            مطبع علیمی لاہور        ص۵۴)

 

قول(۱۴۸و۱۴۹): علامہ طحطاوی حاشیہ درمختار میں کتاب التجنیس والمزید سے ناقل: ا لتلقین بعد الموت فعلہ مشائخنا ۵؎ ہمارے بعض مشائخ نے موت کے بعد تلقین فرمائی ہے۔

 

 (۵؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    باب صلٰوۃ الجنائز            دارالمعرفۃ بیروت        ۱ /۳۲۴)

 

قول ( ۱۵۰و ۱۵۲): جامع الرموز میں جواہر سے منقول : سئل القاضی مجدا لدین الکرمانی عنہ قال ما راہ المسلمون حسنا فھو عند اﷲ حسن و روی فی ذلک الحدیثن  ۶؎۔ قاضی مجدالدین کرمانی سے دربارہئ تلقین سوال ہوا، فرمایا جوبات مسلمان اچھی سمجھیں خدا کے نزدیک اچھی ہے۔ اور اس بارے میں دو حدیثیں روایت کیں ۔

 

 (۶؎ جامع الرموز        فصل فی الجنائز            مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۱ /۲۷۹)

 

قول (۱۵۳): طحطاوی حاشیہ مراقی میں علامہ حلبی سے منقول: کیف لایفعل مع انہ لاضرر فیہ بل فیہ نفع للمیّت ۱؎۔ تلقین کیونکر نہ کی جائے گی حالانکہ اس میں کوئی نقصان نہیں بلکہ میّت کا فائدہ ہے۔

 

 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح    باب احکام الجنائز    نور محمد کار خانہ تجارت کتب کراچی    ص۳۰۶)

 

قول (۱۵۴): کشف الغطاء میں ہے : بالجملہ بمقتضائے مذہب اہل سنت وجماعت تلقین مناسب پھر امام صفار کا ارشاد کہ : سزا وار آن ست کہ تلقین کردہ شود میّت برمذہب امام اعظم وہرکہ تلقین نمی کند ونمے گوید بآن پس اوبر مذہب اعتزال ست کہ گویند میّت جماد محض است و روح در قبر معاد نمی شود۔ مذہب امام اعظم میں میّت کو تلقین مناسب ہے اورجو تلقین کا تارک اور منکر ہے وہ معتزلہ کا مذہب رکھتا ہے جو میّت کو جماد محض کہتے ہیں، اور قبر میں پھر روح کا اعادہ نہیں مانتے۔ (ت)

نقل کرکے فرمایا: وانچہ درکافی گفت کہ اگر مسلمان مُردہ است، محتاج نیست بہ سوئے تلقین وے بعد از موت وگرنہ فائدہ نمی کند ناتمام است چہ باوجود اسلام احتیاج بسوئے تلقین برائے ثابت داشتن دل باقی ست چنانچہ درحدیث آمدہ کہ آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بعد از دفن فرمودی استغفار کنید برا درخود را و سوال کنید برائے وے تثبت رابدر ستیکہ الآن سوال کردہ مے شود ازوے  ۲؂ الٰی اخرہ۔ وہ جو کافی ہیں کہا کہ ''اگر بحالت اسلام مرا ہے تو  وہ موت کے بعد تلقین کا محتاج نہیں، اور اگر ایسا نہیں تو تلقین بے سود ہے'' ناتمام ہے اس لیے کہ اسلام کے باوجود،دل کوثابت رکھنے کے لیے تلقین کی حاجت ثابت ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم دفن کے بعد فرماتے اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو کہ اس وقت اس سے سوال ہورہا ہے۔ الخ (ت)

 

 (۲؎ کشف الغطاء)

 

قول (۱۵۵و ۱۵۶): علامہ زیلعی نے تبیین الحقائق میں دربارہ تلقین پہلے استحباب پھر جواز  پھر منع تینوں قول نقل کرکے استحباب پر دلیل قائم کی اور بے شک تعلیل، دلیل اختیار و تعویل ہے،علامہ حامد آفندی نے مغنی المستفتی عن سوال المفتی میں فرمایا: ھو المرجح اذا ھو المحلی بالتعلیل۳؎  ( اس کی علت بیان کی گئی ہے لہذا اسی کو  ترجیح  ہے۔ ت)

 

  (۳؎ مغنی المستفتی عن سوال المفتی)

 

ولہٰذا علامہ شامی آفندی تبیین کا یہ کلام نقل کرکے فرماتے ہیں: ظاھر استدلا لہ للاول اختیارہ ۱ ؎ یعنی قول استحباب پر دلیل قائم کرنے سے ظاہر یہی ہے کہ امام زیلعی اسی کو مذہب مختار جانتے ہیں ا ور خود علامہ شامی کا کلام اختیار جواز و استحباب پر دلیل ہے کہ معراج الدرایہ سے عدم تلقین کا ظاہر الروایۃ ہونا نقل کرکے  پھر  اسی معراج سے بحوالہ کافی و خبازیہ امام صفار کا وہ ارشاد نقل کیا پھر فتح کا حوالہ دیا کہ انھوں نے حدیث تلقین کو اپنی حقیقت پرمحمول کرنے کی بہت تائید فرمائی، پھر غنیہ سے تائید لائے کہ حدیث میں تجوز ہے مگر تلقین سے منع نہ کریں گے کہ میّت کو مفید ہے، پھر زیلعی کے کلام سے یوں استظہار کیا اور شارح نے جو مشروعیتِ تلقین کو قول اہلسنت کہا اسے مقرر و مسلم رکھا، واﷲ تعالٰی اعلم

 

 (۱؎ ردالمحتار    مطلب فی التلقین بعد الموت    ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر    ۱ /۵۷۱)

 

نکتہ جلیلہ تتمیمِ کلام و ازالہ اوہام میں ۔

 

اقول وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الٰی ذری التحقیق، طائفہ جدیدہ ان اقول کے مقابل براہ تلبیس و مغالطہ منع تلقین کے اقوال پیش کردیتے ہیں، حالانکہ یہ محض جہالت بے مزہ ہے، ہم یہاں نفس مسئلہ تلقین کی بحث میں نہیں ہیں بلکہ غرض یہ ہے کہ ان علمائے مجوزین نے ادراک وسمع موتٰی مانا، اور یہ امر اقوال مذکورہ سے یقینا ثابت، ذرا آنکھیں مل کر دیکھیں کہ ائمہ نے کیا چیز جائز مانی، تلقین میّت۔ پھر یہ سیکھیں کہ تلقین کے معنی کیا ہیں، تفہیم و تذکیر یعنی سمجھانا اور یاد دلانا کما فی حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی (جیساکہ حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی الفلاح میں ہے ۔ ت) پھر کسی ذی عقل سے  پوچھیں کہ تفہیم وتذکیر جماد و دیوار کو ہوتی ہے یا سامع فہیم وہوشیارکو؟ حاشا وکلاّ ہر سمجھ والابچہ جانتا ہے کہ سمجھانا اور یاد دلانا ہر گز متصور نہیں جب تک مخاطب سنتا سمجھتا نہ ہو اور جس کے اعتقاد میں ہو کہ مخاطب نہ عقل وفہم رکھتا ہے نہ میرا کہا سنے، پھر اس کے آگے بقصد تفہیم وتذکیر بات کرے وہ قطعاً مجنون ودیوانہ ہوگا لہذا یقینا واجب کہ جو ائمہ وعلماء استحباب ، خواہ جواز تلقین کے قائل ہوئے انھوں نے بلاشبہ اموات کو بعد دفن بھی کلام احیاء سننے والا مانا اور اسی قدر مقصود تھا بخلاف اقوال منع کہ وہ نہار نہ مخالف کو مفید نہ ہمیں مضر کہ ترک تلقین کی علت کچھ انکار فہم وسماع ہی میں منحصر نہیں جس سے خواہی نخواہی سمجھا جائے کہ جو تلقین نہیں مانتا وہ میّت کو سمیع و فہیم بھی نہیں جانتا، کیا ممکن نہیں کہ اس کی وجہ بعض کے نزدیک عدم ثبوت ہو، جیسا کہ حلیہ میں ہے : نص الشیخ عزالدین بن عبدالسلام علٰی انہ بدعۃ ۱ ؎۔ شیخ عزالدین بن عبدالسلام نے اس کے بدعت ہونے پر نص کی ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)

 

دیکھو امام عزالدین شافعی اس وجہ سے قائل تلقین نہ ہوئے کہ ان کے نزدیک بدعت تھی ، حالانکہ یہ وہی امام عزالدین ہیں جن کا ارشاد قول ۱۱۷میں گزرا کہ مُردے ہمارا کلام نہ سمجھتے ہوتے تو سلام قبور محض لغو تھا۔ یوں ہی کیا ممکن نہیں کہ وجہ ان کی رائے میں عدم فائدہ ہوں بایں معنی کہ مُردہ باایمان گیا، تو خود رحمت الٰہی اسے بس ہے۔ وہ بتوفیق ربانی آپ ہی صحیح جواب دے گا۔ قال اﷲ تعالٰی یثبت اﷲ الذین اٰمنوا بالقول الثابت فی الحیٰوۃ الدنیا والاٰخرۃ ۲؎۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: اللہ ثابت رکھتا ہے ایمان والوں کو حق بات پر دنیا کی زندگی میں اور اخرت میں (ت)

 

 (۲؂القرآن        ۱۴ /۲۷)

 

اور  جو عیاذ باﷲ نوع دیگر  ہے اسے لاکھ تلقین کیجئے کیا فائدہ ! دیکھو امام حافظ الدین نسفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے کافی شرح وافی میں انکار تلقین اسی پر مبنٰی کیا۔ حیث قال ولقن الشہادۃ لقولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام لقنوا موتاکم شہادۃ ان لا الہ الا اﷲ وارید بہ من قرب من الموت وقیل ھو مجریً علٰی حقیقتہ وھو قول الشافعی لانہ تعالٰی یحییہ وقد روی انہ علیہ السلام امر بتلقین المیّت بعد دفنہ و زعموا  انہ مذہب اھل السنۃ والاول مذھب المعتزلہ الا ان نقول لافائدۃ بالتلقین بعد الموت لانہ مات مومنا فلاحاجۃ الیہ وان  مات کافرا فلا یقید التلقین ۳؎ اھ  ببعض تلخیص۔ ان کی عبارت یہ ہے : وقت نزع شہادت یاد دلائے اس لیے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے اپنے مردوں کو کلمہ شہادت کی تلقین کرو۔ اس سے مراد وہ ہیں جو قریب الموت ہوں، اور کہا گیا کہ یہ اپنے حقیقی معنٰی میں ہے۔ یہی امام شافعی کا قول ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالٰی اسے زندہ کردے گا، اور مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دفن کے بعد تلقین کا حکم دیا، لوگ کہتے ہیں کہ یہ مذہب اہلسنت ہے اور اول معتزلہ کا مذہب ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ موت کے بعد تلقین کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے کہ اگر بحالتِ ایمان مرا ہے تو تلقین کی کوئی ضروت نہیں اور ا گر کافر مرا ہے تو تلقین کارگر نہ ہوگی، اھ (ختم قدرے تلخیص کے ساتھ) ۔ (ت)

 

 (۳؎ کافی شرح وافی)

 

اگر چہ علماء نے اس شبہہ کا جواب کافی دے دیا کہ ہم  شق اول یعنی موت علی ایمان اختیار کرتے ہیں، اور  یہ کہناکہ اب حاجت نہیں غیر مسلم کہ وہ و قت ہول  و دہشت کا ہے ہماری تذکیر اور خدا کے ذکر سے دل میّت کا قوی ہوگا، ڈھارس بندھے گی، وحشت گھٹے گی، قال اﷲ تعالٰی الابذکر اﷲ تطمئن القلوب ۱؎ ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: سن لو خدا کی یاد سے ٹھہر جاتے ہیں دل ۔

 

 (۱؎ القرآن        ۱۳ /۲۸)

 

اسی لیے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بعد دفن حکم دیتے میّت کے لیے خدا سے تثبت مانگو کہ اب اس سے سوال ہوگا۔

 

(۲؎ مشکوٰۃ المـصابیح بحوالہ ابی داؤد    باب اثبات عذاب القبر    مطبع مجتبائی دہلی        ص ۲۶)

 

کما مرفی المقصد الاول (جیسا کہ مقصد اول میں گزرا۔ ت) شیخ الاسلام کا کلام قول ۱۵۴میں سن چکے اور علامہ شربنلالی مراقی الفلاح میں فرماتے ہیں :  (نفی صاحب الکافی فائدۃ مطلقا ممنوع ) بان فیہ فائدۃ التثبیت للجنان) نعم الفائدۃ الاصلیۃ (و ھی تحصیل الایمان فی ھذا الوقت) منتفیۃ ویحتاج الیہ لتثبیت الجنان للسوال فی القبر۳؎ اھ موضحاً بحاشیۃ الطحطاوی ۔ صاحب کافی کا مطلقاً فائدے سے انکار ہمیں تسلیم نہیں (کیونکہ اس میں دل کو ٹھہرانے اور ثبات دینے کا فائدہ ہے) ہاں فائدہ اصلیہ (اس وقت اُسے ایمان بخشنا) نہیں اور تلقین کی ضروت قبر میں سوال کے وقت دل کی تقویت اور ثبات کے لیے ہے اھ (عبارت مراقی ختم حاشیہ الطحطاوی سے توضیح کے ساتھ) (ت)

 

 (۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح    باب احکام الجنائز    نور محمد اصح کارخانہ کتب کراچی    ص ۳۰۷ )

 

علامہ ابراہیم حلبی کا جواب اسی مقصد  میں گزرا کہ تلقین میں میّت کا فائدہ ہے کہ ذکر خدا  سے اس کا جی بہلے گا، فقیر کہتا ہے غفراللہ تعالٰی اگر عدم فائدہ میں ایسی ہی تقریر کریں تو دعاء و دوا تمام کا رخانہ اسباب سب مہمل و معطل رہ جائے کہ تقدیر الہٰی میں حصول مراد ہے تو آپ ہی ملے گی ورنہ کیا حاصل، غرض جب واضح و بین کہ تلقین بے فہم وسماع میّت کے محال اور اس کا انکار کچھ نفی سماع میں منحصر نہیں تو یقینا ثابت کہ اقوال جواز ہمارے مذہب پر دلائل ساطع اور اقوال ترک ومنع اصلاً مضر نہیں پھر ان کے مقابل ان کا پیش کرنا کیا کہا جائے کہ کس درجہ کی سفاہت ہے اور یہ قدیم چالاکی ان حضرات کی ہے جہاں کسی امر کے اثبات کو بعض علماء کے وہ اقوال جن کا مبنٰی اس امر کا ماننا ہو پیش کیئجے اور وہ مسئلہ مختلف فیہا ہو تو فوراً دوسری طرف کے قول نقل کر لائیں گے، یہ نہیں دیکھتے کہ

محل نزاع کیا تھا اورموضع استدلال کون سا مقدمہ ہے، کہا تو یہ تھا کہ امر  ثابت ہے ولہذا فلاں فلاں ائمہ نے اس بات پر فلاں بات مبنی کی، اس کا یہ کیا جواب ہوگا کہ فلاں فلاں نے وہ بنا نہ مانی کیا انکار بنا انکار مبنی کو مستلزم ہوتا ہے، واقعی سلامت عقل عجب دولت ہے جسے خدا دے وباﷲ التوفیق، یہ نکتہ واجب الحفظ ہے کہ اس سے مخالفین کی بہت چالاکیوں کا حال کُھلتا ہے ۔  واﷲ الھادی ۔

 

فائدہ جمیلہ تنقیح مسئلہ تلقین میں ۔

 

اقول وباﷲاستعین۔ نفس مبحث تلقین کی نسبت استطراداً اتنی بات سمجھ لیجئے کہ ظاہر الروایۃ میں اگر لایلقن یا غیر مشروع آیا بھی ہو تو وہ ممانعت وعدم جواز کے لیے متعین نہیں۔آخر نہ سنا کہ امام مجتہدین برہان الدین محمود نے ذخیرہ میں بروایت امام محررالمذہب حضرت محمد بن الحسن امام الائمہ مالک الازمہ حضرت اما م اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہم سے نقل کیا کہ سجدہ شکر مشروع نہیں۔ اور علماء نے اس کے معنٰی عدم  وجوب لیے، اشباہ میں ہے :

 

سجدۃ الشکر جائزۃ عند ابی حنیفۃ رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ لاواجبۃ وھو معنی ماروی عنہ انھا لیست مشروعۃ ای وجوباً  ۱؎ اھواقرہ علیہ العلامۃ السید الحموی فی غمز العیون والسیدان الفاضلان احمد الطحطاوی و محمد الشامی فی حواشی الدر۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کے نزدیک سجدہ شکر جائز ہے واجب نہیں، یہی اس کا معنٰی ہے جو امام صاحب سے مروی ہے کہ سجدہ شکر مشروع نہیں یعنی وجوباً مشروع نہیں اھ۔ اسے علامہ سیدی حموی نے غمز العیون میں اور علامہ سیداحمد طحطاوی وعلامہ سید محمد شامی نے حواشی درمختار میں برقرار  رکھا۔ (ت)

 

 (۱؎ الاشباہ والنظائر    ماافترق فیہ سجود التلاوۃ    ادارۃ القرآن کراچی    ۲ /۶۴۷)

 

فتاوٰی حجہ میں فرمایا : عندی انی قول الامام محمول علی الایجاب، وقول محمد علی الجواز والاستحباب، فیعمل بھما لا یجب بکل نعمۃ سجدۃ شکراً کما قال ابوحنیفہ ولکن یجوزان یسجد سجدۃ الشکر فی وقت سربنعمۃ او ذکر نعمۃ فشکرھا بالسجدۃ وانہ غیر خارج عن حد الاستحباب ۱؎ اھ نقلہ فی حاشیۃ المراقی و قبلہ الحلبی فی الغنیۃ ۔ میرے نزدیک یہ ہے کہ امام اعظم کا قول ایجاب پر اور امام محمد کا قول جواز پر واستحباب پر محمول ہے تودونوں قولوں پر عمل کیا جائیگا ہر نعمت پر سجدہ شکر واجب نہیں جیسا کہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے لیکن جب کسی نعمت سے مسرت ہو تو سجدہ شکر کرنا جائز ہے، اسی طرح جب کسی نعمت کی یاد ہو تو اس کے شکر یہ میں سجدہ کرلینا یہ دائرہ استحباب سے باہر نہیں اھ اسے حاشیۃ مراقی میں اور اس سے پہلے حلبی نے غنیہ میں نقل کیا۔ (ت)

 

 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح    باب سجدۃ الشکر مکروھۃ    نور محمد کار خانہ تجارت کتب کراچی    ص۲۷۲)

 

اسی ذخیرہ میں فرمایا: لایتعوذ التلمیذ اذا قرأ علٰی استاذہ ۲ ؎۔ شاگرد استاد کے پاس درس کے وقت تعوذ نہ پڑھے۔ (ت)

 

 (۲؎ الدرالمختار    باب صفۃ الصلٰوۃ     مطبع مجتبائی دہلی   ۱ /۷۵)

 

درمختار میں اسے نقل کرکے کہا: ای لا یسن  ۳؎  ( یعنی یہ مسنون نہیں ۔ ت)

 

فۃ الصلٰوۃ     مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۷۵)

 

نہر میں کہا : لیس مافی الذخیرۃ فی المشرو عیۃ وعدمھا بل فی الاستنان وعدمہ ۴؎۔ ذخیرہ کی عبارت مشروعیت اور عدم مشروعیت سے متعلق نہیں بلکہ سنیت اور عدم سنیت سے متعلق ہے۔ (ت)

 

 (۴؎ ردالمحتار بحوالہ نہر الفائق     باب صفۃ الصلٰوۃ    ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر    ۱ /۳۲۹)

 

یوں ہی ہمارے ائمہ سے دربارہ عقیقہ لایعق عن الغلام (لڑکے کی طرف سے عقیقہ نہ کرے۔ ت)

 منقول ، علمائے کرام فرماتے ہیں اس کے معنی نفی وجوب واستنان ہیں اور اباحت ثابت ہے۔ فتاوٰی خلاصہ میں ہے: لا یعق عن الغلام وعن الجاریۃ یرید انہ لیس بواجب ولاسنہ لکنہ مباح  ۵؎۔ لڑکے اور لڑکی کی طرف سے عقیقہ نہ کرے، اس سے مراد یہ ہے کہ یہ واجب وسنت نہیں۔ لیکن مباح ہے۔ (ت)

 

 (۵؎خلاصۃ الفتاوٰی    کتاب الکراھیۃالفصل التاسع فی المتفرقات    مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ        ۴ /۳۷۷)

 

اسی طرح عامہ کتب میں مثلاً ہدایہ وقایہ ونقایہ و بدائع و  منیہ و ملتقی و تنویر و جوہرہ وغیرہ  فاتحہ وسورت کے درمیان بسم اللہ  پڑھنے کے  بارے میں امام اعظم و امام ابویوسف رحمہ ا ﷲ تعالٰی علیہما کا قول  بلفظ  لایاتی و لایسمی ۶؎ (تسمیہ نہ لائے۔ بسم اللہ نہ پڑھے۔ ت) ذکر کیا۔

 

 (۶؎ الدرالمختار    باب صفۃ الصلٰوۃ     مطبع مجتبائی دہلی  ۱ /۷۵)

 

پھرمحققین نے تصریح فرمائی کہ اس سے مراد نفی سنیت  ہے بخلاف امام محمد کہ قائل استنان ہیں، رہی کراہت وممانعت، وہ کسی کا مذہب نہیں، کہ پڑھنا بالاجماع بہتر  ہے جیسا کہ ذخیرہ و مجتبٰی و بحر و نہر و حاشیہ درر للعلامۃ الشرنبلالی و شرح علائی و حواشی شامی و طحطاوی وغیرہا سے واضح۔ علامہ غزی تمرتاشی نے فرمایا: لابین الفاتحۃ والسورۃ (فاتحہ وسورت کے درمیان نہیں۔ ت) محقق علائی نے لا کے بعد لفظ تسن بڑھادیا (یعنی مسنون نہیں۔ ت) پھر فرمایا ولاتکرہ اتفاقا  ۱؎  (مکروہ تو بالاتفاق نہیں۔ ت)

 

 (۱؎ الدرالمحتار   باب صفۃ الصلٰوۃ    مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۷۵)

 

طحطاوی نے فرمایا: بل لاخلاف فی انہ لوسمی لکان حسنا، نھر ۲؎  (بلکہ اس میں بھی کوئی خلاف نہیں کہ اگر بسم اللہ پڑھاتو اچھا ہے۔ نہر۔ ت)

 

 (۲؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار    باب صفۃ الصلٰوۃ    دارالمعرفۃ بیروت        ۱ /۲۱۹)

 

بحرالرائق میں ہے : الخلاف فی الاستنان اماعدم الکراہۃ فمتفق علیہ، ولہذا صرح فی الذخیرۃ والمجتبٰی بانہ ای سمی بین الفاتحہ والسورۃ کان حسنا عند ابی حنیفۃ۳؎۔ الخ اختلاف مسنون ہونے میں ہے اور مکروہ نہ ہونے پر تو اتفاق ہے۔ اسی لیے ذخیرہ اور مجتبٰی میں تصریح ہے کہ اگر فاتحہ اور سورہ کے درمیان بسم اللہ پڑھا تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اچھا ہے۔ الخ (ت)

 

 (۳؎ البحرالرائق     فصل واذا اراد الدخول    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۳۱۲)

 

پھرا مام صفار کا ارشاد سن چکے کہ مذہب اما م میں تلقین مناسب ہے، یہ امام علام صرف دو  واسطہ سے شاگرد صاحبین ہیں، امام نصیر بن یحیٰی سے اخذ علم کیا وھو عن ابن سماعہ عن ابی یوسف ح وعن ابی سلیمان الجوز جانی عن محمد  (انھوں نے ابن سماعہ سے انھوں نے امام ابویوسف سے اور امام نصیر نے ابوسلیمان جوزجانی سے اخذ کیا انھوں نے امام محمد سے۔ ت) یہ بالیقین اعرف بمذہب امام  ومعنی ظاہرالروایۃ پھر اس سے ہزار درجہ زائد اس جناب کا وہ ارشاد ہے کہ تلقین مذہب اہلسنت اور اس کا معنی مشرب معتزلہ ہے۔اور وہ واقعی مشائخ مذہب میں اس فرقہ ضالہ کا اختلاط اور نقول مذہب میں اس کے اقوال و تخاریج کا اندراج بعض جگہ سخت لغزشوں کا باعث ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ کبھی حقیقت کا رماہروں  پر ملتبس ہو جاتی ہے۔ وباﷲ العصمۃ جیسے بشر مَریسی معتزلی کا قول والرحمن الاافعل کذا ۴؎  (رحمن کی قسم میں ایسا نہیں کروں گا۔ ت)

 

 (۴؎ ردالمحتار    کتاب الایمان    مصطفی البابی مصر        ۳ /۵۵)

 

اگر سورۃ رحمن مرادلی یمین نہ ہوگی، صاحب ولو الجیہ وخـلاصہ وغیرہما نے یوں نقل کردیا کہ گویا یہی مذہب ہے، حالانکہ وہ اس معتزلی کا قول ہے۔ اور مذہب مہذب ائمہ کرام کے بالکل خلاف کما حققہ فی البحرالرائق  (جیسا کہ البحرالرائق میں اس کی تحقیق کی ہے۔ ت) ردالمحتار میں کہا: ھـذا التفصیل فی الرحمن قول بشر المریسی ۵؎  (الرحمن میں بہ تفریق، بشر مریسی کا قول ہے۔ ت)

 

 (۵؎ ردالمحتار     کتاب الایمان    مصطفی البابی مصر    ۳ /۵۵)

 

ایسا ہی اشتباہ علامہ زین بن نجیم مصری کو مسئلہ ذبیحہ میں واقع ہوا جس پر علامہ سیداحمد حموی نے فرمایا: مبناھا علی الاعتزال الصریح والعجب ان المصنف لم یتفطن لہ مع ظہورہ من القنیۃ ۱؎۔ اس کا مبنٰی اعتذال پر ہے اور عجب نہ ہوا  کہ مصنف کوا س پر تنبیہ نہ ہوا باآنکہ صاحب قنیہ کا معتزلی ہونا کھلا ہواہے۔

 

 (۱؎  غمز عیون الابصار شرح الاشباہ والنظائر    کتاب الصید والذبائح    ادارہ القرآن کراچی    ۲ /۱۰۶)

 

بالجملہ روایت کا تویہ حال ہے۔ رہی روایت، مقصد دوم میں دیکھ چکے کہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس حدیث میں وارد جسے امام ابن الصلاح وامام ضیا ء وامام امیرا الحاج وصاحب مجمع وغیرہم، نے بوجہ شواہد وعواضدحسن وقوی کہا، پھر سیدنا ابوامامہ باہلی صحابی اور راشد وضمرہ وحکیم وغیرہم تابعین کے اقوال اس میں مروی، پھر اورصحابہ سے اس کا غلاف ہر گز ثابت نہیں، باایں ہمہ قول صحابی قبول نہ کرنا اصول حنفیہ پر کیونکر مستقیم ہوا، تقلید (عہ) صحابی ہمارے امام کا مذہب معلوم ہے۔ عہ: مولانا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ کتاب الصلٰوۃ باب الخطبہ میں فرماتے ہیں: قول الصحابی حجۃ فیجب تقلیدعندنا اذا لم ینفہ شیئ اٰخر من السنۃ ۲؎ انتھی اقول وھذا لایختص بقول الصحابی فان کل دلیل یترک لدلیل اقوی من ۱۲ منہ (م) صحابی کا قول حجت ہے تو اسکی تقلید ہمارے یہاں واجب ہے جبکہ کوئی حدیث اس کی نفی نہ کرتی ہو  انتہٰی اقول یہ قول صحابی سے ہی خاص نہیں اس لیے کہ ہر دلیل اپنے سے قوی تر دلیل کے باعث متروک ہوگی، ۱۲منہ (ت)

 

 (۲ ؂ مرقاۃا لمفاتیح         باب الخطبہ        تحت حدیث ۴۱۱   مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ   ۳ /۵۰۵)

 

میزان الشیریعۃ الکبرٰی میں امام ابو مطیع بلخی سے منقول: قلت للامام ابی حنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ارأیت لو رأیت رأیاو رأی ابوبکر  رأیا اکنت تدع رأیک لرأیہ؟ فقال نعم فقلت لہ ارأیت لو رأیت رأیا و رأی عمر رأیا  اکنت تدع رأیک لرأیہ؟ فقال نعم وکذلک کنت ادع رائی لرأی عثمان  وعلی وسائر الصحابۃما عدا ابا ھریرۃ و انس بن مالک و سمرۃ بن جندب  ۱؂۔ میں نے امام ابو حنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے عرض کی: بھلا ارشاد فرمائے اگر آپ کی ایک رائے ہو اور صدیق اکبر کی رائے اس کے خلاف ہو کیا آپ اپنی رائے ان کی رائے کے آگے چھوڑدیں گے ؟ فرمایا: ہاں ، میں نے عمر فاروق کی نسبت پوچھا، فرمایا: ہاں، اور یونہی میں اپنی رائے عثمان غنی و علی المرتضی  باقی تمام صحابہ کی رائے کے آگے ترک کردوں گا سوا ابوہریرہ و انس بن مالک و سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہم کے  اھ ۔

 

(۱؎ المیزان الکبرٰی    فصل فی بیان ضعف قول من نسب الامام اباحنیفہ الخ    مصطفی البابی مصر    ۱ /۶۵)

 

بلکہ علامہ ابن امیر الحاج تو حلیہ میں فرماتے ہیں: جب کسی مسئلہ میں ایک صحابی کا قول مروی ہو اور دیگر صحابہ سے اس کا خلاف نہ آئے وہ مسئلہ اجماعی ٹھہرئے گا۔ حیث قال الصحیح قولنا لما روی عن علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ انہ قال فی مسافر جنب یتأخر الٰی اخرالوقت ولم یر و عن غیرہ من الصحابۃ خلافہ فیکون اجماعاً ۲ ؎۔ ان کی عبارت یہ ہے: صحیح ہمارا قول ہے اس لیے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے جنابت والے مسافر کے بارے میں مروی ہے کہ وہ آخر وقت تک پانی کا اتنظار کرے، اس کے خلاف کسی اور صحابی سے مروی نہیں تو یہ ان کا اجماع مسئلہ قرار  پائےگا (ت)

 

 (۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیہ المصلی)

 

بہر حال انکار اگر عدم ثبوت پر مبنی ،تو ثبوت حاضر، اور نفی نفع پر مبنی، تو نفع ظاہر، ہاں یہ رہ گیا کہ فہم و سماع موتٰی کا انکار کیجئے یہ بیشک اصولِ معتزلہ ہی پر درست ہوگا، ولہٰذا بحرالعلوم نے فرمایا اس بنا پر کہ مُردہ نہیں سنتا تلقین نہ ماننا مذہب باطل ہے

 

کما سیأتی نقلہ ان شاء اﷲ تعالٰی (آگے ان کی عبارت ان شاء اللہ تعالٰی نقل ہوگی۔ ت) لاجرم عمائد حنفیہ سے یہ علمائے دین وائمہ ناقدین جن میں امام صفار وحاکم شہید وشمس الائمہ وظہیر کبیر و فقیہ النفس وغیرہم  ائمہ مجتہدین ہیں رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین جواز واستحباب تلقین کے قائل ہوئے اور بالیقین وہ ہم سے زیادہ روایات ودرایاتِ مذہب پر آگاہ تھے، اور قطعاً اس کے خلاف پر اصلاً کوئی دلیل نہیں اور بیشک اس میں احیاء و اموات مسلمین کا نفع ہے۔ ذکر خدا ہے، رغم اعدا ہے۔ پھر وجہ انکار کیا ہے۔ تنزلی درجہ اتنا سہی کہ لایؤمربہ و لاینھٰی عنہ  ( جائز ومباح ہو، نہ حکم ہو نہ ممانعت۔ ت) باقی عدمِ جواز  یا ممانعت حاش اللہ محض بے حجت، ومن ادعٰی فعلیہ البیان ھذا ماعندی والعلم بالحق عند ربی واﷲ تعالٰی اعلم و علمہ جل مجدہ اتم واحکم۔

 

جو اس کا مدعی ہو بیان اس کا ذمہ۔ یہ وہ ہے جو میرے علم میں ہے اورحق کا علم میرے رب کے یہاں ہے۔اور خدائے برتر خوب جاننے والا ہے اور اس کا علم زیادہ کامل ومحکم ہے۔ اسد کا مجد جلیل ہے۔ (ت)

فصل چہاردہم: اصل مسئلہ مسئولہ سائل میں، یعنی ارواح کرام کو ندا اور ان سے توسل وطلب دُعا۔ یہ فصل بھی فصلِ دوازدہم کا ایک حصہ ہے کہ یہاں بھی کلام سلام کے سوا ہے مگر مثل فصل تلقین بوجہ مہتم بالشان ہونے کے فصل جدا گانہ قرار پائی واللہ التوفیق ۔ قول (۱۵۷تا ۱۵۹): سیدی خواجہ حافظی فصل الخطاب پھر(۱۵۸) شیخ محقق جذ ب القلوب میں ناقل: قیل لموسٰی الرضا (۱۵۹) رضی اﷲ تعالٰی عنہ علمنی کلاما اذا زرت واحدا منکم فقال ادن من القبر وکبراﷲ اربعین مرّۃ ثم قل السلام علیکم یا اھل بیت الرسالۃ انی مستشفع بکم ومقدمکم امام طلبی وارادتی ومسأتی وحاجتی واشہد اﷲ انی مومن بسرکم وعلانیتکم وانی ابرأ الی اﷲ من عدم محمد واٰل محمد من الجن ولانس ۱؎ (ملخصا) یعنی امام ابن الامام الٰی ستۃ آباء کرام علی موسٰی رضا رضی اﷲ تعالٰی عنہ وعنہم جمیعا سے عرض کی گئی مجھے ایک کلام تعلیم فرمائے کہ اہل بیت کرام کی زیارت میں عرض کروں؟ فرمایا: قبر سے نزدیک ہو کر چالیس بارتکبیر کہہ پھر عرض کر سلام آپ پر اے اہلبیت رسالت! میں آپ سے شفاعت چاہتاہوں اور آپ کو اپنی طلب وخواہش وسوال وحاجت کے آگے کرتا ہوں، خدا گواہ ہے مجھے آپ کے باطن کریم و ظاہر طاہر پر سچے دل سے اعتقاد ہے اور میں اللہ کی طرف بری ہوتا ہوں ان سب جن وانس سے جو محمد وآل محمد کے دشمن ہوں صلی اﷲ تعالٰی علی محمد وآلِ محمد وبارک وسلم آمین !

 

 (۱؎ جذب القلوب    باب دوازدہم درذکر مقبرہ شریفہ بقیع    مکتبہ نعمیہ چوک دالگراں لاہور    ص۱۳۸)

 

قول (۱۶۰تا ۱۶۱): سیدی جمال مکی قدس سرہ کے فتاوٰی میں ہے : سئلت عمن یقول فی حال الشدائد یارسول اﷲ اویا علی اویاشیخ عبدالقادر مثلاً ھل ھو جائز شرعاً ام لا فاجیت نعم الاستغاثۃ بالاولیاء ونداؤھم والتوسل بھم امرمشروع ومرغوب لاینکرہ الامکابر اومعاند وقد حرم برکۃ الاولیاء الکرام، و سئل شیخ الاسلام الشہاب الرملی الانصاری الشافعی عما یقع من العامۃ من قولھم عند الشدائد یا شیخ فلاں ونحو ذلک من الاستغاثۃ بالانبیاء والمرسلین والصالحیں فاجاب بما نصہ الاستغاثہ بالانبیاء والمرسلین والاولیاء الصالحیں جائزۃ بعد موتھم ۱ ؎ الخ اھ ملخصا

 

مجھ سے سوال ہو ا اس شخص کے بارے میں جو سختیوں کے وقت کہتا ہے یا رسول اللہ ، یا علی، یا شیخ عبدالقادر مثلاً آیا یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ میں پکارنا اور ان کے ساتھ توسل کرنا امر مشروع وشیئ مرغوب ہے جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹ دھرم دشمن انصاف،ا وربیشک وہ برکت اولیائے کرام سے محروم ہے۔ شیخ الاسلام شہاب رملی انصاری شافعی سے استفتاء ہو اکہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت مثلاً یا شیخ فلاں کہہ کر پکارتے ہیں اور انبیاء واولیاء سے فریاد کرتے ہیں اس کاشرح میں کیا حکم ہے؟ امام ممدوح نے فتوٰی دیا کہ انبیاء ومرسلین واولیاء علماء صالحین سے ان کے وصال شریف کے بعد بھی استعانت واستمداد جائز ہے۔

 

(۱؎ فتاوٰی جمال بن عمر مکی)

 

قول (۱۶۲): علامہ خیرالدین رملی حنفی استاذ صاحب درمختار رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما فتاوٰی خیریہ میں فرماتے ہیں: قولھم یا شیخ عبدالقادر نداء فی الموجب لحرمتہ ۲؎ اھ ملخصا۔ لوگوں کا کہنا یا شیخ عبدالقادر یہ ایک نداء ہے پھر اس کی حرمت کا سبب کیا ہے۔

 

 (۲؎ فتاوٰی خیریۃ        کتاب الکراھیۃ والاستحسان     دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۱۸۲)

 

قول (۱۶۳): سید احمد زروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ اکابر علماء و اولیائے دیار مغرب سے ہیں اپنے قصیدہ میں ارشاد فرماتے ہیں : ؎ انا لمریدی جامع لشتاتہ                                                  اذا ماسطا جورالزمان بنکبتہ

وان کنت فی ضیق وکرب و وحشۃ                                         فناد بیازروق اٰت بسرعتہ ۳؎۔ میں اپنے مرید کی پریشانیوں میں جمیعت بخشنے والاہوں جب ستم زمانہ اپنی نحوست سے اس پر تعدی کرے اور اگر تو تنگی وتکلیف ووحشت میں ہو تو یوں نداء کر: یازروق، میں فوراً  آموجود ہوں گا۔

 

 (۳؎ بستان المحدثین    بحوالہ زروق         حاشیہ بخاری زروق    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۳۲۲)

 

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی صاحب اس شیر الٰہی کا حال اپنی کتاب بستان المحدثین میں یوں لکھتے ہیں : شیخ اوسیدی زیتون رحمہ اللہ تعالٰی علیہ درحق اُو بشارت دادہ کہ اُواز  ابدال سبعہ است وباوصف علوحال باطن تصانیف او در علوم ظاہرہ نیز نافع شدہ ومفید وکثیرہ افتادہ ۱؎۔ ان کے شیخ سیدی زیتون رحمہ اللہ تعالٰی علیہ نے ان کے حق میں بشارت دی کہ وہ ساتوں ابدال میں سے ایک ہیں، علم باطن میں بلند رتبہ کے ساتھ ظاہری علوم میں بھی ان کی کثیر تصانیف موجود ہیں جو نافع ومفید ہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ بستان المحدثین مع اردو ترجمہ    حاشیہ بخاری سید زروق    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص ۳۲۰)

 

پھر شمار تصانیف کے بعد لکھا : بالجملہ مُردے جلیل القدر یست کہ مرتبہ کمال اوفوق الذکر است واواز آخر محققان صوفیہ است کہ بین الحقیقۃ والشریعت جامع بودہ اند وبشاگردی اواجلہ علماء مفتخر ومباہی بودہ اند مثل شہاب الدین قسطلانی کہ سابق حال او مذکور شدہ وشمس الدین لقانی ۲؎ الخ۔ مختصر یہ کہ وہ ایک جلیل القدر شخصیت ہیں جن کا رتبہ کمال بیان سے بالاتر ہے، وہ ان آخر صوفیہ محققین سے ہیں جو حقیقت وشریعت کے جامع ہوئے، ان کی شاگردی پر اجلہ علماء فخر ومباہات کرتے ہیں جیسے علامہ شہاب الدین قسطلانی جن کا حال پہلے ذکر ہوا اور شمس الدین لقانی الخ۔ (ت)

 

 (۲؎ بستان المحدثین مع اردو ترجمہ    حاشیہ بخاری سید زروق    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی  ص۳۲۱)

 

پھر کہا : واو را قصیدہ ایست برطور قصیدہ جیلانیہ کہ بعضے ابیات او این ست ۳ ؂ قصیدہ غوثیہ کے طرز پر ان کا ایک قصیدہ بھی ہے جس کے بعض اشعار یہ ہیں۔ (ت)

 

 (۳؎ بستان المحدثین مع اردو ترجمہ    حاشیہ بخاری سید زروق    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۲۱)

 

اور وہی دو بیت مذکور نقل کیے ۔

قول (۱۶۴ تا ۱۶۵): امام ابن الحاج امام ابن النعمان کی سفینۃ النجاء سے ناقل: الدعاء عند القبور الصالحین والتشفع بھم معمول بہ عند علمائنا المحققین من ائمۃ الدین ۴؎۔ قبور صالحین کے پاس دعا اور ان سے شفاعت چاہنا ہمارے علمائے محققین ائمہ دین کا معمول ہے۔

 

 (۴؎المدخل      فصل فی زیارۃ القبور        دارالکتاب العربی بیروت    ۱ /۲۴۹)

 

قول  (۱۶۶ تا ۱۷۰): لباب و شرح لباب و اختیار و فتاوٰی ہندیہ میں ہے: واللفظ للاولین فانہ اتم  (الفاظ پہلی دونوں کتابوں کے ہیں کیونکہ وہ زیادہ کامل ہیں۔ ت) بعد زیارت فاروقی بقدر ایک بالشت کے سرہانے کی طرف  پلٹے اور  وزیرین جلیلین رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان کھڑا ہو کر بعد سلام اعادہ سلام و ذکر مآثار السلام عرض کرے :

 

جزا کم اﷲ عن ذٰلک مرافقتہ فی جنتہ وایانا معکما برحمۃ انہ ارحم الراحمین وجزا کم اﷲ عن الاسلام واھلہ خیر الجزاء، جئنا یا صاحبی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم زائرین لنبینا وصدیقنا وفاروقنا ونحن نتوسل بکما الٰی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لیشفع لنا الٰی ربنا ۱؎۔

 

اللہ تعالٰی آپ دونوں صاحبوں کو  ان خوبیوں کے عوض اپنی جنت میں اپنے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  کی رفاقت عطا فرمائے اور  آپ کے ساتھ ہمیں بھی، بیشک وہ ہر مہر  والے سے زیادہ مہر  والا ہے۔ اللہ آپ دونوں کو اسلام واہل اسلام کی طرف سے بہتر بدلہ کرامت فرمائے، اے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دونوں یارو! ہم اپنے نبی اور اپنے صدیق اور اپنے فاروق کی زیارت کو حاضر ہوئے اور ہم  نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف آپ دونوں سے توسل کرتے ہیں تاکہ حضور ہمارے رب کے پاس ہماری شفاعت فرمائیں۔

 

 (۱؂المسلک المتقسط مع ارشاد الساری    باب زیارۃ سیدالمرسلین        دارالکتاب العربی بیروت      ص۳۴۰)

 

اسی طرح مدخل میں ہے : یتو سل بھما الی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ویقد مھما بین یدیہ شفیعین فی حوائجہ ۲؂۔ یعنی حضرات شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما سے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف توسل کرے اور انھیں اپنی حاجتوں میں شفیع بناکر حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے آگے کرے ۔

 

(۲؂ المدخل      فصل فی احکام علٰی زیارت سید الاولین الخ      دارالکتاب العربی بیروت    ۱ /۲۵۸)

 

قول  (۱۷۱) :اشعۃ اللمعات میں فرمایا: لیت شعری چہ می خواہند ایشاں باستمداد وامداد کہ این فرقہ منکر ند آں  را آنچہ مامی فہمیم ازاں این ست کہ داعی دعاکنند خدا وتوسل کند بروحانیت این بندہ مقرب را کہ اے بندہ خدا و ولی وے شفاعت کن مراد بخواہ  از خدا کہ بدہد مسئول ومطلوب مرا اگر ایں معنی موجب شرک باشد چنانکہ منکر زعم کند باید کہ منع کردہ شود توسل وطلب دعا از دوستانِ خدا درحالت حیات  نیز واین مستحب است باتفاق وشائع است در دین و آنچہ مروی و محکی است از مشائخ اہل کشف دراستمداد از  ارواح کمل واستفادہ ازاں، خارج از حصراست ومذکور ست درکتب و رسائل ایشاں ومشہور ست میاں ایشاں حاجت نیست کہ آنرا ذکرکنیم وشاید کہ منکر متعصب سود نہ کند اور اکلماتِ ایشاں عافانا اللہ من ذٰلک کلام دریں مقام بحد اطناب کشید بر غم منکراں کہ درقرب ایں زماں فرقہ پیدا شدۃ اند کہ منکر استمداد واستعانت را از اولیائے خدا ومتوجہاں بجناب ایشاں  را مشرک بخدا عبدۃ اصنام می دانند  و می گویند آنچہ می گویند ۱؎ اھ ملتقطا۔ نہ معلوم وہ استمداد وامداد سے کیاچاہتے ہیں کہ یہ فرقہ اس کامنکر ہے۔ ہم جہاں تک سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا خدا سے دعا کرتا ہے او ر اس بندہ مقرب کی روحانیت کو  وسیلہ بناتا ہے  یا اس بندہ مقرب سے عرض کرتا ہے کہ اے خدا کے بندے اور اس کے دوست ! میری شفاعت کیجئے اور خدا سے دعا کیجئے کہ میرا مطلوب مجھے عطا فرمادے ____ اگر یہ معنی شرک کا باعث ہو جیسا کہ منکرکا خیال باطل ہے تو چاہئے کہ اولیاء اللہ کو ا ن کی حیات دنیا میں بھی وسیلہ بنانا اور ان سے دعا کر انا ممنوع ہو حالانکہ یہ بالاتفاق مستحب ومستحسن اور دین معروف ومشہور ہے۔ ارواح کاملین سے استمداد اور استغفار کے بارے میں مشائخ اہل کشف سے جو  روایات و واقعات وارد ہیں وہ حصر و شمار سے باہر ہیں اور ان حضرات کے رسائل وکتب میں مذکور اور ان کے درمیان مشہور ہیں، ہمیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں اور شائد ہٹ دھرم منکر کے لیے ان کے کلمات سود مند بھی نہ ہو ____ خدا ہمیں عافیت میں رکھے ___ اس مقام میں کلام طویل ہوا اور منکرین کی تردید وتذلیل کے  پیش نظر جو ایک فرقہ کے روپ میں آج کل نکل آئے ہیں اور اولیاء اللہ سے استمداد واستعانت کا انکار کرتے ہیں اور ان حضرات کی بارگاہ میں توجہ کرنے والوں کو مشرک و بت پرست سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں جو کہتے ہیں اھ (ت)

 

 (۱؎ اشعۃ اللمعات    باب حکم الاسراء    فصل ۱     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۳ /۴۰۱)

 

اور شرح عربی میں اس مضمون اخیر کو یوں ادا فرمایا : انما اطلنا الکلام فی ھذا المقام رغما الانف لمنکرین فانہ قد حدث فی زماننا شرذمۃ ینکرون الاستمداد من الاولیاء ویقولون مایقولون ومالھم علٰی ذلک من علم ان ھم الایخرصون ۲؎۔ ہم نے اسد مقام میں کلام طویل کیا منکروں کی ناک خاک پر رگڑنے کو کہ ہمارے زمانے میں معدودے چند ایسے  پیدا ہوئے ہیں کہ حضرات اولیاء سے مدد مانگنے کے منکر ہیں اور کہتے ہیں جو کہتے ہیں اور انھیں اس پر کچھ علم نہیں یونہی اپنے سے اٹکلیں لڑاتے ہیں۔

 

 (۲؎ لمعات التنقیح باب حکم الاسراء    فصل ۱     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۳ /۴۰۱)

 

اسی طرح جذ ب القلوب شریف میں معنی تو سل واستمداد بروجہ مذکور بیان کرکے فرمایا: و ورود نص قطعی دروے حاجت نیست بلکہ عدم نص برمنع آں کافی ست  ۱ ؎۔ اس بارے میں نص قطعی کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی ممانت پر نص نہ ہونا ہی کافی ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ جذب القلوب    باب پانزدھم دربیان حکم زیارت قبر مکرم الخ        منشی نولکشور لکھنوٌ     ص۲۲۴)

 

قول (۱۷۲): شیخ الاسلام جنھیں مائتہ مسائل میں علمائے محدیثین سے شمار کیا اورا ن کی کتاب کشف الغطاء  پر جابجا اعتماد واعتبار کیا اسی کشف الغطاء میں فرماتے ہیں: انکار استمداد درا  وجہے صحیح نمی نماید مگر انکہ از اول امر منکر شوند تعلق روح وبدن را بالکلیہ وآں خلاف منصوص است وبرین تقدیر زیارت درفتن بقبور ہمہ لغو وبے معنی گردد و ایں امرے دیگر  است کہ تمام اخبار وآثار دال برخلاف آنست ونیست صورت استمداد مگر ہمیں کہ محتاج طلب کند حاجت خود را از جناب عزت الٰہی بتوسل روحانیت بندہ مقرب یا ندا کند  آں بندہ راکہ اے بندہ خدا و ولی وے شفاعت کن مراد بخواہ از خدائے تعالٰی مطلوب مرا و دروے ہیچ  شائبہ شرک نیست چنانچہ منکر وہم کردہ ۲؎اھ بالالتقاط۔ استمداد سے انکار کی کوئی صحیح  وجہ نظر نہیں آتی، مگریہ کہ سرے سے روح وبدن کے تعلق کاہی بالکل انکار کردیں اور  ___ یہ نص کے خلاف ہے___ اس تقدیر  پر تو قبروں کے پاس جانا اور زیارت کرنا سب لغو اور بے معنٰی ہواجاتا ہے، اور یہ ایک دوسری بات ہے جس کے خلاف تمام آثار واحادیث دلیل ہیں، اور استمداد کی صورت کیا ہے؟ یہی کہ حاجت مند اپنی حاجت خدائے عزوجل سے بندہ مقرب کی روحانیت کو  وسیلہ کرکے طلب کرتا ہے۔ یا ا س بندے کو ندا کرتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ اے خدا کے بندے اور اس کے دوست! میری شفاعت کیجئے اور میرے مطلوب کے لیے خدا سے دعا کیجئے، اس میں تو شرک کاکوئی شائبہ بھی نہیں جیسا کہ منکر کا وہم وخیال ہے اھ ملتقطاً (ت)

 

 (۲؎ کشف الغطاء فصل دہم زیارت قبور         مکتبۃ احمد دہلی             ص  ۸۱  ۔  ۸۰  )

 

قول (۱۷۳): سیدی محمد عبدری مدخل میں دربارہ زیارت قبور انبیاء سابقین علیہم الصلٰوۃ والتسلیم فرماتے ہیں: یاتی الیھم الزوائر ویتعین علیہ قصد ھم من الاماکن البعیدۃ، فاذا جاء الیھم فلیتصف بالذکر والانکسار والمسکنۃ والفقر والفاقۃ والحاجۃ والاضطر و الخضوع، ویستغیث بھم ویطلب حوائجہ منھم  ویجزم  الحاجۃ ببرکتہم ، فانھم باب اﷲ المفتوح و جرت سنۃ سبحانہ وتعالٰی فی قضاء الحوائج علٰی ایدیھم وبسببھم  ۱؎ (ملخصاً) زائر ان کے آگے حاضر ہو اور اس پر متعین ہے کہ  دور دراز مقاموں سے ان کی زیارت کا قصد کرے  پھر جب حاضری سے مشرف یاب ہو تو لازم ہے کہ ذلت و انکسار ومحتاجی وفقر وفاقہ وحاجت وبے چارگی و فروتنی کو شعار بنائے اور ان کی سرکار میں فریاد کرے اور ان سے اپنی حاجتیں مانگے اور یقین کرے کہ ان کی برکت سے اجابت ہوگی کہ وہ اللہ تعالٰی کے درکشادہ ہیں اور سنت الٰہی جاری ہے کہ ان کے ہاتھ پر ان کے سبب سے حاجت روائی ہوتی ہے۔ والحمد للہ رب العٰلمین۔

 

 (۱؎ المدخل       فصل فی زیارۃ القبور        دارالکتاب العربیۃ بیروت    ۱ /۲۵۲)

 

فصل پانزدہم: بقیہ تصریحات سماع اموات میں ۔

قول (۱۷۴ تا ۱۷۸): امام خاتمۃ المجتہدین تقی الملۃ والدین سبکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے شفاء السقام کے باب تاسع فی حیاۃ الابنیاء میں ایک فصل ''ماور فی حیاۃ الانبیاء'' دوسری فصل حیات شہداء میں وضع کرکے فصل ثالث تمام اموات کے سماع وکلام وادراک وحیات میں وضع کی اور اس میں احادیث صحیحہ بخاری و مسلم وغیرہما سے علم وسماع موتٰی ثابت کرکے فرمایا: وعلی الجملۃ ھذہ الامور ممکنۃ فی قدرۃ اﷲ تعالٰی وقدوردت بھا الاٰخبار والصحیحۃ فیجیب التصدیق بھا ۲ ؎۔ بالجملہ یہ سب امور قدرت الٰہی میں ممکن ہیں اور بے شک ان کے ثبوت میں یہ حدیثیں وارد ہوئیں تو ان کی تصدیق واجب ہے۔

 

 (۲؎ شفاء السقام    الفصل الثالث فی سائر الموتٰی    نوریہ رضویہ فیصل آباد    ص۲۰۳)

 

فصل اول میں انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کی حیات تحقیق کرکے آخر میں فرمایا: اما الادراکات کالعلم والسماع فلا شک ان ذلک ثابت لسائر الموتٰی فکیف بالانبیاء ۳؎۔ رہے اور اکات جیسے علم وسماع، یہ تو یقینا تمام اموات کے لیے ثابت ہیں پھر انبیاء تو انبیاء ہیں علیہم الصلٰوۃ والسلام۔

 

 (۳؎ شفاء السقام     الفصل الاول        نوریہ رضویہ فیصل آباد  الباب التاسع       ص۱۹۲۔ ۱۹۱)

 

امام جلال الدین سیوطی نے شرح الصدور میں اس جناب کا یہ قول نقل کرکے تقیر فرمائی، امام زین الدین مراغی جنھیں شرح مواہب میں المحدث العالم النحریر کہا ا جناب کی یہ تحقیق انیق نقل کرکے فرماتے ہیں: انہ مما یعز وجودہ فی مثلہ فلینا فس المتنافسون ۱؎۔ یہ نایاب تحقیق ہے اور چاہئے کہ ایسی ہی چیزیں نہایت رغبت کریں رغبت کرنے والے۔

 

 (۱؎ المواہب اللدینہ    بحوالہ زین الدین المراغی            المکتب الاسلامی بیروت    ۲ /۶۹۶)

 

امام احمد قسطلانی نے مواہب شریف میں امام سبکی کا وہ ارشاد مبین اورا مام زین الدین کی جلیل تحسین استناداً نقل کی، پھر علامہ عبدالباقی زرقانی نے شرح مواہب میں اس کی تقریر وتائید میں حدیثیں نقل کیں(عہ) ۔

 

عہ :   یونہی شیخ محقق نے مدارج میںیہ قول علماء سے نقل فرمایا ۱۲منہ (م)

 

قول  (۱۷۹): امام ممدوح نے باب مذکور کی فصل خامس میں فرمایا: کان المقصود بھذا کلہ تحقیق السماع و نحوہ من الاعراض بعد الموت، فانہ قد یقال ان ھذہ الاعراض مشروطۃ بالحیاۃ، فکیف تحصل بعد الموت وھذا خیال ضعیف لان لا ندعی ان الموصوف بالموت موصوف بالسماع وانما ندعی ان السماع بعد الموت حاصل لحی، وھو  اما الروح وحدھا حالۃ کون الجسد میّتا او متصلۃ بالبدن حالۃ عود الحیاۃ الیہ۲؎۔ اس سبب سے مقصود موت کے بعد سماع وغیرہ صفات کی تحقیق تھی کہ بعض لو گ کہنے لگتے ہیں ان اوصاف کے لیے زندگی شرط ہے تو  بعد موت کیونکر حاصل ہوں گے ، حالانکہ یہ پوچ خیال ہے ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جو چیز مُردہ ہے وہ سنتی ہے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ بعد مرگ سماع اس کے لیے ثابت ہے جو  زندہ ہے یعنی روح، یا تو تنہا وہی جب بدن مُردہ ہو  یا جسم سے متصل ہوکرجب حیات بدن کی طرف عود کرے۔

 

 (۲؎ شفاء السقام    الباب التاسع         الفصل الخامس    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد    ص ۲۰۹ )

 

قول (۱۸۰) :علامہ قونوی سے جذب القلوب میں ہے کہ انھوں نے بہت احادیث ذکر کرکے فرمایا: جمیع ایں احادیث دلالت دارد برآنکہ اموات را ادراک وسماع حاصل ست وشک نیست کہ سمع از اعراضی است کہ مشروط است بحیات پس ہمہ حی اند ، ولیکن حیاتِ ایشاں در مرتبہ کمتر از حیات شہداست وحیاتِ انبیاء صلوات اللہ تعالٰی علیہم کامل ترازحیات شہداست ۱؎۔ ان  تمام احادیث میں اس بات  پر دلیل موجود ہیں کہ مردوں کو ادراک وسماع حاصل ہے اور بلاشبہ سماعت ایسا وصف ہے جس کے لیے زندگی شرط ہے تو سب زندہ ہیں، لیکن ان کی زندگی حیاتِ شہداء سے کم درجہ کی ہے اور حیات انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام حیاتِ شھداء سے زیادہ کامل ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ جذب القلوب    باب چہار دہم        منشی نولکشور لکھنؤ    ص ۷ ۲۰ ۔ ۲۰۶)

 

قول (۱۸۱ و ۱۸۲): امام قرطبی  پھر امام سیوطی قبر کے پاس قرآن مجید پڑھنے کے مسئلہ میں فرماتے ہیں : وقد قیل ان ثواب القرائۃ للقاری وللمیّت ثواب الاستماع ولذلک تلحقہ الرحمۃ، قال اﷲ تعالٰی واذاقرئ القراٰن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون ولایبعد من کرم اﷲ تعالٰی ان یلحقہ ثواب القرأۃ والاستماع ۲؎معاً۔ بہ تحقیق کہا گیا کہ پڑھنے کا ثواب قاری کو ہے او رمیّت کے لیے اس کا اجر ہے کہ اس نے کان لگا کر قرآن سنا اور اس لیے ا س پر رحمت ہوتی ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے جب قرآن  پڑھاجائے تو کان لگا کر سنو اور چُپ رہو شاید تم  پر مہر ہو اور کچھ یہ بھی خدا کے کرم سے دور نہیں کہ مُردے کو قرآن  و استماع دونوں کا ثواب پہنچائے۔

 

 (۲؎ شرح الصدور    باب فی قرأۃ القرآن للمیّت الخ    خلافت اکیڈمی سوات    ص۱۳۰)

 

اقول ثواب قرأت پہنچنے  پر جزم نہ کرنے کا باعث یہ کہ وہ شافعی المذہب ہیں اور سید نا امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک عبادات بدنیہ کا ثواب نہیں  پہنچتا مگر جمہور اہلسنت قائل اطلاق و عموم ہیں، اور یہی مذہب ہمارے امام رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا ہے یہاں تک کہ خود محققین شافعیہ نے اس کی ترجیح وتصحیح کی منھم السیوطی فی انیس الغریب  (ان میں سے ایک امام سیوطی نے انیس الغریب میں اسکی وضاحت کی ہے) تو ہمارے نزدیک شک نہیں کہ میّت کو تلاوت کابھی ثواب پہنچتا ہے۔

 

قول (۱۸۳): مرقاۃ میں انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کے علم وسماع کا ذکر کرکے فرماتے ہیں: سائر الاموات ایضا یسمعون السلام والکلام  ۳؎ سب مُردے سلام وکلام ستنے ہیں، پھر فرمایا: یہ سب مسائل احادیث صحیحہ و آثار صریحہ سے ثابت ہیں۔

 

(۳؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ    باب الجمعہ فصل ۲        مکتبہ امدادیہ ملتان    ۳ /۲۳۸)

 

قول (۱۸۴): علامہ حلبی سیرۃ انسان العیون میں امام ابوالفضل خاتم الحقائق سے ناقل: ؎ سماع موتٰی کلام الخلق حق قد جائت بہ عند نا الاثار فی الکتب ۴؎۔ اموات کا کلام مخلوق کو سننا حق ہے بیشک اس باب میں ہمارے پا س کتابوں میں حدیثیں آئیں۔

 

 (۴؎ انسان العیون    باب بدءِ الاذان     مصطفی البابی مصر    ۲ /۴۳۵)

 

قول (۱۸۵): ملک العلماء بحرالعلوم مولٰنا عبدالعلی لکھنوی مرحوم ارکان اربعہ میں فرماتے ہیں: وما قیل ان التلقین لغو لان المیّت لایسمع فھذا باطل ۱؎۔ اس بناء پر کہ بعض نے کہا مُردہ نہیں سنتا تلقین سے انکار مذہب باطل ہے۔

 

 (۱؎ رسائل الارکان        فصل حکم الجنازۃ        مکتب اسلامیہ کوئٹہ            ص۱۵۰)

 

قول (۱۸۶): زہرالربی شرح سنن نسائی میں بعد تحقیق  وتفصیل نقل فرمایا: فثبت بھذا انہ لامنا فات بین کون الروح فی علیین او الجنۃ اوالسماء وان لھا بالبدن اتصالاً بحیث تدرک وتسمع وتصلی وتقرء وانما یستغرب ھذا لکون الشاھد الدینوی لیس فیہ مایشاھد بہ ھذا و امور البرزخ والاٰخرۃٰ علی نمط غیرالمالوف فی الدنیا۲؎۔ تو ثابت ہو ا کہ کچھ منافات نہیں اس میں کہ روح علیین یا جنت یا آسمانوں میں ہوتی ہو ا ور اس کے ساتھ بدن سے ایسا اتصال رکھے کہ سمجھے ، سنے، نماز پڑھے، قرآن مجید کی تلاوت کرے، اس سے تعجب یو ں ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی بات اس کے مشابہ نہیں پاتے، حالانکہ برزخ و آخرت کے کام اس روش پر نہیں جو دنیا میں دیکھی بھالی ہے۔  (۲؎ زہرالربٰی حاشیہ علی سنن النسائی    کتاب الجنائز        نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی        ۱ /۲۹۳)

 

قول (۱۸۷تا۱۸۹): علامہ عبدالروف تیسیر میں قائل اور مولانہ علی قاری مرقاۃ میں قاضی سے ناقل: واللفظ للمناوی ، النفوس القدسیۃ اذا تجردت عن العلائق البدنیۃ اتصلت بالملاء الاعلی ولم یبق لہا حجاب فتری وتسمع الکل کالمشاھد ۳؎۔  (اور الفاظ مناوی کے ہیں۔ ت) پاک جانیں جب بدن کے علاقوں سے جدا ہوتی ہیں ملاء اعلٰی سے مل جاتی ہیں اور ا ن کے لیے کوئی پر دہ نہیں رہتا سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے سامنے حاضر  ہے۔

 

 (۳؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر    تحت حدیث حیث ما کنتم فصلوا علی    مکتبۃ الامام الشافعی الریاض السعودیہ    ۱ /۵۰۲)

 

قول (۱۹۰): مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں زیر حدیث: لایسمع مدی صوت المؤذن جن ولاانس ولاشی الاشہدا لہ یوم القیٰمۃ، محدث علامہ ابن ملک سے منقول تنکیر ھما فی سیاق النفی لتعمیم الاحیاء والاموات۴؎ یعنی حدیث شریف کا یہ مطلب ہے کہ زندہ جن اور زندہ آدمی اور مُردہ جن اور مُردہ آدمی جنتے لوگوں کو مؤذن کی آواز پہنچتی ہے اور  وہ اس کی اذان ستنتے ہیں سب روز قیامت اس کے لیے گواہی دیں گے۔

 

 (۴؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ        باب فصل الاذان فصل ۱    مکتبہ امدادیہ ملتان            ۲ /۱۶۰)

 

یہاں تصریح ہوئی کہ بعد موت علم وسماع کا باقی رہنا کچھ بنی آدم سے خاص نہیں جن کے لیے بھی حاصل ہے اور واقعی ایسا ہی ہونا چاہئے لانعدام المخصص (کیونکہ کوئی دلیل تخصیص نہیں۔ ت) قول (۱۹۱تا ۱۹۸): امام اسمٰعیل پھر امام بیہقی پھرا مام سہیلی پھرامام قسطلانی پھر امام علامہ شامی پھر علامہ زرقانی نے سماع موتٰی کا اثبات کیا اور دلیل انکار سے جواب دئے کما یظھر بالمراجعۃ الی الارشاد والمواھب وشرحہا وغیر ذلک من اسفار لعلماء  (جیسا کہ ارشاد الساری شرح بخاری و مواہب لدینہ شرح مواہب لدینہ اور ان کے علاوہ کتب علماء کے مطالعہ سے معلوم ہوگا۔ ت) مواہب میں امام ابن جابر سے بھی اثبات سماع نقل کیا، امام کرمانی، امام عسقلانی، امام عینی، امام قسطلانی نے شروح صحیح بخاری اور امام سخاوی، امام سیوطی، علامہ حلبی، علی قاری، شیخ محقق وغیرہم نے اس کی تخصیص فرمائی، از انجا کہ یہ اقوال ان مباحث سے متعلق جنھیں اس رسالہ میں دور آئندہ پر محمول رکھا ہے لہذا ان کی نقل عبارات ملتوی رہی واللہ الموفق۔

 

قول (۱۹۹): جذب القلوب شریف میں ہے : تمام اہل سنت وجماعت اعتقاد دارند بہ ثبوت ادراکات مثل علم وسماع مرسائر اموات را۔۱ ؎ تمام  اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ علم اور  سماعت جیسے ادراکات تمام مردوں کے لے ثابت ہیں (ت)

 

 (۱؎ جذب القلوب    باب چہاردہم درفضائل زیارت سید المرسلین     منشی نولکشور لکھنؤ     ص ۲۔۲۰۱)

 

قول (۲۰۰): جامع البرکات میں ہے : سمہودی می گوید کہ تمام اہل سنت وجماعت اعتقاد دارند بہ ثبوت ادراک مثل علم وسمع وبصر مرسائر اموات راز آحاد بشر انتہی ۲ ؎۔ والحمد اللہ رب العٰلمین۔ امام سمہودی فرماتے ہیں کہ تمام اہل سنت وجماعت کاعقیدہ ہے کہ عام افراد بشر میں سے تمام مرُدوں کے لیے ادراک جیسے علم اور سننا دیکھنا ثابت ہے۔ انتہی۔ والحمدا اللہ رب العالمین (ت)

 

 (۲؎ جامع البرکات)

 

فقیر غفراللہ تعالٰی نے جن سو(۱۰۰) ائمہ وعلماء کے اسماء طیبہ گنائے تھے بحمداللہ ان کے اور ان کے علاوہ اوروں کے بھی اقوال عالیہ دو سو(۲۰۰) شمار کردئے اور ایفائے وعدہ سے سبک دوش ہوا۔

تنبیہ: ناظرین گمان نہ کرے کہ ہمارے تمام دلائل بس اسی قدر بلکہ جو نقل نہ کیا، وہ بیشتر واکثر، پھر فقیر غفراللہ المولے القدیر نے اس رسالہ میں یہ التزام بھی رکھا کہ جو آثار واحادیث اقوال علمائے قدیم وحدیث خاص حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حی باقی روح مجسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی حیاتِ عالی و علم عظیم وسمع جلیل وبصر کریم میں وارد انھیں ذکر نہ کرے تین وجہ سے :

 

اولاً مسلمانوں  پر نیک گمان کر خاص حضو راقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو کوئی کلمہ گو مثل سائر اموات نہ جانے گا، ارباب طائفہ کہ ارواح موتٰی کو جماد سمجھتے ہیں شاید یہاں اس کلمہ مغضوبہ مبغوضہ سے انھیں بھی احتراز ہو، اور معاذاللہ جسے نہ ہو تو استغفراللہ ایساشقی لئیم قابل کلام و خطاب نہیں بلکہ اس کا جواب اللہ کا عذاب ، والعیاذ باﷲ رب العالمین۔

 

ثانیاً واللہ فقیر کو حیا آتی ہے کہ حضور  پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام پاک ایسی بحث ''لا'' ''ونعم'' میں بطور خود شامل کرے، ہاں دوسرے کی طرف سے ا بتداء ہو تواظہار حق میں مجبوری ہے۔

ثالثاً وہاں دلائل کی وہ کثرت کہ نطاق نطق بیان سے عاجز پھر انھیں اقوال پرقناعت بس کہ جس سرکار کے غلام ایسے ''العظمۃللہ'' اس کا پوچھنا ہی کیا، آخر انھیں یہ مدارج ومعارج کس نے عطا کئے، اسی سرکار ابد قرار نے، صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وعلٰی آلہٖ وصحبہ وابنہ الاکرم سیدی ومولائی الغوث العظم، والحمد اللہ رب العٰلمین ۔

 

نوع دوم: اقوال اکبر وعمائد خاندان عزیزی میں، یہاں اقوال مختلط مذکور ہوں گے ناظر ان کے مطالب کو فصول نوع اول  پر تقسیم کرلے، سردست سو(۱۰۰) مقال ان کے بھی حاضر کرتا ہوں وباللہ التوفیق۔

وصل اول ____ مقال (۱): شاہ ولی اللہ فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں: اذا  انتقلوا الی البرزخ کانت تلک الاوضاع والعادات والعلوم معھم لاتفارقھم  ۱؎۔

 

جب برزخ کی طرف انقال کرتے ہیں یہ وضعیں اور عادتیں اور علم سب ان کے ساتھ ہوتے ہیں جدا نہیں ہوتے۔

 

 (۱؎ فیوض الحرمین معہ ترجمہ اردو         مشہد عظیم الخ         محمد سعید اینڈ سنز قرآن محل کراچی    ص۴۲)

 

مقال (۲): اسی میں ہے : اذا مات ھذا البارع لایفقد ھوولا براعتہ بل کل ذلک بحالہ  ۲؎۔ جب یہ بندہ کامل اتنقال فرماتا ہے نہ وہ گمتا ہے نہ اس کا کمال، بلکہ بدستور  اسی حال  پر رہتے ہیں ۔

 

 (۲؎ فیوض الحرمین معہ ترجمہ اردو         تحقیق شریف    محمد سعید اینڈ سنز قرآن محل کراچی      ص۱۱۳)

 

مقال (۳): اسی میں ہے: کل من مات من الکمل یخیل الی العامۃ انہ فقد من العالم ولا واﷲ مافقد بل تجوھر وقوی ۱؎۔ جس کامل کا انتقال ہوتا ہے عوام کے خیال میں گزرتا ہے کہ وہ عالم سے گم گیا، حالانکہ خدا کی قسم وُہ گُما نہیں بلکہ اور جوہر دار قوی ہوگیا۔

 

 (۱؎ فیوض الحرمین    تحقیق شریف الخ    محمد سعید تاجران کتب کراچی    ص۱۱۱)

 

مقال (۴): شاہ عبدالعیزیز صاحب تفسیر عزیز ی میں فرماتے ہیں: چوں آدمی میرد روح راصلا تغیر نمی شود چنانچہ حاطل قوی بود حالا ہم ست شعور  و ادراک کے کہ داشت حالاہم دارد بلکہ صاف تر و روشن تر ۲؎ اھ ملخصاً۔ جب آۤدمی مرتا ہے روح میں بالکل کوئی تغیر نہیں ہوتا جس طرح پہلے حامل قوی تھی اب بھی ہے اور جو شعور وادراک اسے پہلے تھا اب بھی ہے بلکہ اب زیادہ صاف اور روشن ہے۔ اھ ملخصاً (ت)

 

 (۲؎ تفسیر عزیزی    آیت ولاتقولو المن یقتل الخ    اخفانی دارالکتب لال کنواں دہلی    ۱ /۵۵۹)

 

مقال (۵): تحفہ اثنا عشریہ میں فرماتے ہیں : چون روح از بدن جدا شد قوائے بناتی از وجدا می شوند نہ قوائے نفسانی وحیوانی واگر وجود قوائے نفسانی وحیوانی فیضاناً یا بقاً مشروط باشد بوجود قوائے نباتی ومزاج الزم آید کہ ملائکہ را شعور  و ادراک وحسے  وحرکتے  و غضب ودفع منافر نباشد پس حال ارواح درعالم قبر مثل حال ملائکہ است کہ بتوسط شکلے وبدنے کارمی کنند و مصدر رافعال حیوانی ونفسانی می گر دند بے آنکہ نفس نباتی ہمراہ داشتہ باشند  ۳؎۔ جب روح بدن سے جدا ہوتی ہے قوائے نباتی اس سے جدا ہوجاتے ہیں مگر قوائے نفسانی و حیوانی باقی رہتے ہیں اوراگر قوائے نفسانی وحیوانی کے فیضان یا بقا کے لیے قوائے نباتی اور مزاج کا وجود شرط ہو تو لازم ہے آئے گا کہ ملائکہ میں شعور وادراک ، حس و حرکت غضب ودفع نا موافق کچھ بھی نہ ہو، تو عالمِ برزخ میں روحوں کاحال یسا ہی ہے جیسے ملائکہ کا حال ہے کہ کسی شکل اور بدن کی وساطت سے کام کرتے ہیں اور شکل اور نفس نباتی کے بغیر ان سے حیوانی ونفسانی افعال وصادر ہوتے ہیں۔ (ت)

 

 (۳؎ تحفہ اثناعشریہ    باب ہشتم درمعاد الخ     سہیل اکیڈمی لاہور    ص۴۰۔ ۳۳۹)

 

مقال (۶): قاضی ثناء اللہ پانی پتی جن سے مولوی اسحاق نے مائتہ مسائل واربعین میں استناد کیا اور جناب مرزا صاحب ان کے  پیر و مرشد وممدوح عظیم شاہ ولی اللہ صاحب نے مکتوب ۷میں انھیں فضیلت ولایت مآب، مروج شریف ومنور طریقت و نور مجسم وعزیز ترین ومجودات ومصدر انوار فیوض وبرکات لکھا اور منقول کہ شاہ عبدالعزیز صاحب انھیں بہیقی وقت کہتے ، رسالۃ تذکیرۃ الموتٰی میں لکھتے ہیں : اولیاء گفتہ اند ار واحنا اجساد نا یعنی ارواح ایشاں کا اجساد می کند وگاہی اجساد از غایت لطافت برنگ ارواح می بر آید، می گوید کہ رسول خدا را سایہ نبود صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارواح ایشاں از  زمین وآسمان  و بہشت ہر جاکہ خواہدن می روند و بہ سبب ہمیں حیات اجساد آنہارا ور قبر خاک نمی خورد بلکہ کفن ہم میماند، ابن ابی الدنیا از ملک روایت نمود، ارواحِ مومنین ہر جاکہ خواہند سیر کنند مراد از مومنین کاملین اند حق تعالٰی اجساد ایشاں راقوت ارواح مے دہد درقبور نماز مے خوانند و ذکر می کنند وقرآن مے خوانند ۱ ؎ اھ ملخصاً۔ اولیاء فرماتے ہیں، ہماری روح ہمارا جسم ہے۔ یعنی ان کی روحیں جسموں کا کام کرتی ہیں اور کبھی اجسام انتہائی لطافت کی وجہ سے روحوں کے رنگ میں جلوہ نما ہوتے ہیں___ اولیاء بتاتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا___ ان کی روحیں زمین، آسمان اور جنت میں جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں____ اور اسی وجہ سے قبر میں ان کے جسم کو مٹی نہیں کھاتی، بلکہ کفن بھی سلامت رہتا ہے، ابن ابی الدنیا امام مالک سے راوی ہے کہ ''مومنوں کی روحیں جہاں چاہتی ہے سیر کرتی ہیں۔'' مومنین سے مراد کاملین ہیں، حق تعالٰی انکے اجسام کو  روحوں کی قوت عطا فرماتا ہے، وہ قبر وں میں نماز ادا کرتے ہیں، ذکر کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں۔ (ختم بتلخیص)۔ (ت)  (۱؎ تذکرۃ الموتٰی والقبور    اردو ترجمہہ مصباح النور باب روحوں کے ٹھہرنے کی جگہ کے بیان میں نور ی کتب خانہ لاہور ص ۷۵ ۔ ۷۶)

 

مقال (۷): تفسیر عزیزی میں ارواح انبیاء واولیاء عام وصلحا علی سید ہم وعلیہم الصلٰوۃ والسلام کا ذکر کرکے کہ بعض علیّین اور بعض آسمان اور بعض درمیان آسمان  و زمین اور بعض چاہ زمزم میں، لکھتے ہیں: تعلقے بقبر نیز ایں ارواح رامے باشد کہ بحضور زیارت کنند گان واقارب ودیگر دوستاں بر قبر مطلع ومستانس مے گردند وزیراں کہ روح راقرب و بعدمکانی مانع ایں دریافت نمی شود ومثال آں در وجود انسان روحِ بصری ست  کہ ستارہائے ہفت آسمان رادر دنِ چاہ مے تواند دید۔ ۲؎ ان روحوں کو قبر سے بھی ایک تعلق رہتا ہے جس کے سبب زائرین اور عزیزوں ، دوستوں کی آمد کا انھیں علم ہوتا ہے اور ان سے  انہیں اُنس حاصل ہو تا ہے اس لیے کہ مکان کی دوری ونزدیکی روح کے لیے اس ادراک سے مانع نہیں ہوتی، انسان کے وجود میں اس کی مثال رو ح بصر ہے جو ہفت آسمان کے ستارے کُنویں کے اندر سے دیکھ سکتی ہے۔ (ت)

 

       (۲؎ تفسیر عزیزی         پارہ عم         تحت ان کتاب الابرار لفی علیین    مسلم بک ڈپو لال کنوان دہلی    ص۱۹۳)

 

یہ پچھلا جملہ زیادہ قابل لحاظ ہے۔

مقال (۸): مظاہر حق ترجمہ مشکوٰۃ میں ہے: ''پانچویں قسم مہربانی اور اُنس کے لیے ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو کوئی گزرے اوپر قبر مومن بھائی اپنے کے اور سلام کرے تو پہچانتا ہے وہ اس کو اور جواب سلام کا دیتا ہے  ۱؎۔ ''وعزاہ للامام النووی (اس پر امام نووی کا حوالہ دیا ہے۔ ت)

 

 (۱؎ مظاہر حق ترجمہ مشکوٰۃ المصابیح    باب زیارہ القبور فصل ۱    ملک دین محمد اینڈ سنز لاہور    ۱ /۱۷۔ ۷۱۶)

 

مقال (۹): مولوی اسحاق صاحب نے اربعین میں عورتوں ک لیے زیارت قبر مطلقاً ممنوع ٹھہرانے کو نصاب الاحتساب سے نقل کیا کہ ''جب وہ نکلنے کا ارادہ کرتی ہے ملعونہ ہوتی ہے جب نکلتی ہے چار طرف سے شیاطین اسے گھیر لیتے ہیں واذا اتت القبر یلعنھا روح المیّت ۲؎ اور جب قبر پر آتی ہے میّت کی روح اسے لعنت کرتی ہے۔'' اپنا ادعائے اطلاق ثابت کرنے کونقل توگئے مگر نہ دیکھا کہ اس نے حمایت موتی کا خاتما کردیا۔ کلام مذکور صاف دلیل واضح ہے کہ میّت حضور زائرپر مطلع ہوتا ہے اور یہ بھی پہچانتا ہے کہ یہ مرد ہے  یا عورت، اور اس کے لیے  بے جا فعل سے  پریشان بھی ہوتا ہے یہاں تک کہ زن زائرہ پر لعنت کرتا ہے۔

 

 (۲؎ مسائل اربعین معہ اردو ترجمہ    مسئلہ ۳۹      ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۹۶)

 

مقال (۱۰): مرزا مظہر جانجاناں اپنے ملفوظات میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت کہتے ہیں: یک بار قصیدہ درمدح ایشاں گفتہ بودم، عنایت بیسار بحال فقیر نمودہ، ازروئے تواضع فرموند مالائق اینہمہ ستائش نیستم  ۳؎۔ ایک بار ان کی مدح میں ایک قصیدہ عرض کیا تھا۔ اس فقیر کے حال پر بہت عنایت فرمائی اور تواضعاً فرمایا کہ ہم اس ساری ستائش کے لائق نہیں۔ (ت)

 

(۳؎ ملفوظات مرزا مظہر جان جاناں    از کلمات طیبات    مطبع مجتبائی دہلی    ص۷۸)

 

مقال (۱۱): اسی میں حضرت مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نسبت کہا: یک بار قصدہ بجناب ایشا ں عرض نمودم ۴؎ا لخ۔ ایک بار ان کی بارگاہ میں ایک قصیدہ عرض کیا۔ الخ (ت)

 

 (۴؎ ملفوظات مرزا مظہر جان جاناں    از کلمات طیبات    مطبع مجتبائی دہلی    ص۷۸)

 

مقال (۱۲): شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں : اذا مات الانسان کان للنسمۃ نشأۃ اخری فینشی فیض الروح الالھی فیھا قوۃ فیما بقی من الحس المشترک تکفی کفایۃ السمع والبصر والکلام  ۵؎۔ جب آدمی مرتا ہے روح حیوانی کے لیے ایک اور اٹھان ہوتی ہے تو روح الٰہی کا فیض اس کے بقیہ حس مشترک میں ایک وقت ایجاد کرتا ہے جو سننے اور دیکھنے اور کلام کرنے کا کام دیتی ہے۔

 

 (۵؎ حجۃاللہ البالغہ        باب حقیقۃ الروح        الکمتبہ اسلفیہ لاہور    ص ۱۹)

 

مقال (۱۳): مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ موضح القرآن میں زیر کریمہ وما انت بسمع من فی القبور فرماتے ہیں ''حدیث میں آیا ہے کہ مردوں سے سلام علیک کرو وہ سنتے ہیں۔ اور بہت جگہ مردوں کو خطاب کیا ہے۔ ا س کی حقیقت یہ ہے کہ مردے کی روح سنتی ہے اور قبر میں پڑا ہے دھڑ وہ نہیں سن سکتا ہے۱؎۔''

 

 (۱؎ موضح القرآن     وامانت بمسمع من فی القبور کے تحت    ممتاز کمپنی کشمیری بازار لاہور    ص۴۸۰)

 

وصل دوم: بقائے تصرفات وکرامات اولیاء بعد الوصال میں۔

مقال (۱۴): شاہ ولی اللہ ہمعات میں لکھتے ہیں : در اولیائے امت واصحاب طریق اقوی کسیکہ بعدہ تمام  راہِ جذب باکد وجوہ باصل ایں نسبت میل کردہ ودر آنجا بوجہ اتم قدم است حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی اند ولہذا گفتہ اندکہ ایشاں درقبور خود مثل احیاء تصرف مے کند۔۲؎ اولیائے امت واصحاب طریقت میں سب سے زیادہ قوی شخصیت ___ جس کے بعد تمام راہ عشق مؤکد ترین طور پر اسی نسبت کی اصل کی طرف مائل اور کامل ترین طور  پر اسی مقام  پر قائم ہوچکی ہے، حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ہیں، اسی لیے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ یہ اپنی قبروں میں رہ کر  زندوں کی طرح تصرف کرتے ہیں۔ (ت)

 

 (۲؎ ہمعات         ہمعہ  ۱۱       اکادیمی شاہ ولی اللہ حیدر آباد    ص۶۱)

 

مقال (۱۵): حجۃ اللہ البالغہ میں اہل برزخ کو چار قسم کرکے لکھا :  اذا مات انقطعت العلاقات فلحق بالملٰئکۃ وصارمنھم، والھم کالھامھم وسعی فیما یسعون فیہ و ربما اشتغل ھٰؤلاء باعلام کلمۃ اﷲ ونصر حزب اﷲ و ربما کان لھم لمۃ خیربابن آدم۳؎۔ ملخصاً۔ جب مرتے ہیں علائق بدنی منقطع ہو کہ ملائکہ سے ملتے اور انھیں میں سے ہوجاتے ہیں جس طرح فرشتے آدمیوں کے دل میں نیک بات کا القاء کرتے ہیں یہ بھی کرتے ہیں اور جن کاموں میں ملائکہ سعی کرتے ہیں یہ بھی کرتے ہیں اور کبھی یہ پاک روحیں خدا کا بول بالا کرنے اور اس کے لشکر کو مدد دینے یعنی جہاد وقتل کفار و امداد مسلمین میں مشغول ہوتی ہیں اور کبھی بنی آدم سے نزدیک وقریب ہوتی ہیں کہ ان پر افاضہ خیر فرمائیں۔

 

 (۳؎ حجۃ اللہ البالغۃ    باب اختلاف احوال الناس فی البرزخ    المکتبۃ  السلفیہ لاہور     ص۳۵)

 

مقال (۱۶): تفسیر عزیزی میں ہے : بعض خواص اولیاء راکہ جارجہ تکمیل و ارشاد بنی نوع خودگرد انند دریں حالت (یعنی بحالت عالم برزخ) دادہ واستغراق آنہا بجہت کمال وسعت مدارک آنہا مانع تو جہ بایں سمت نمی گردد ۱؎۔ بعض خواص اولیاء جنھیں اپنے دوسرے بنی نوع کی تکمیل وارشاد کا ذریعہ بنایا ہے ان کو اس حالت میں تصرف در دنیا  (یعنی عالم برزخ کی حالت میں) دنیا کے اندرتصرف بخشا ہے اور مشاہدہ الٰہی میں ان کا استغراق اس جانب توجہ سے مانع نہیں ہوتا اس لیے کہ ان کے مدارک بہت زیادہ وسعت رکھتے ہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ تفسیر عزیزی     تحت والقمر  اذا اتسق        سلیم بک ڈپو لال کنواں دہلی    ص۲۰۶)

 

یہی وہ عبارت ہے جس کے سبب مولوی منکر صاحب نے بھی بعض اموات کے لیے زیارت وادراک گوارا کی تھی۔

مقال (۱۷): مرزا مظہر صاحب اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں: بعض ارواح کاملاں رابعد ترک تعلق اجساد آنہا دریں نشاۃ  تصرفے باقی است ۲؎ الخ جسموں سے ترک تعلق کے بعد بھی بعض ارواح کاملین کا تصرف اس دنیا میں باقی ہے الخ (ت)

 

 (۲؎ مکتوبات مرزا مظہر جانجاناں     مع کلمات طیبات مکتوب ۱۴   مطبع مجتبائی دہلی    ص۲۷)

 

مقال (۱۸): میاں اسمٰعیل دہلوی صراط مستقیم میں حضرت جناب مولٰی مشکل کشا کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کی نسبت خدا جانے کس دل سے یوں ایمان لاتے ہیں : درسلطنت سلاطین وامارات امراء ہمتِ ایشاں را دخلے ہست کہ برسیا حان ، عالم ملکوت مخفی نیست ۳؎۔ سلاطین کی سلطنت اور حکام کی حکومت میں حضرت علی (کر م اللہ تعالٰی وجہہ الکریم) کی ہمت کو ایسا دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیاحت کرنیوالوں  پر مخفی نہیں۔ (ت)

 

 (۳؎ صراط مستقیم      ہدایہ ثانیہ درذکر بدعاتیکہ الخ    المکتبۃ السلفیہ لاہور    ص۵۸)

 

مقال (۱۹): اسی میں شوکت وعظمت جناب مرتضوی لکھ کرکہا: شان جناب شیخین بس بلند بہ نسبت ابہت وجلال مذکور ست تمثیلیش بظاہر مرتبہ امیر کبیر ست کہ فارغ از امورسیاست گردیدہ ملازم بادشاہ گشتہ بہ نسبت کیسکہ قائم برخدمات ومشغول بکار پردازی است اگر چہ شوکت ظاہر یہ وکثرت اتباع درحق ایں مصاحب بہ نسبت آں میراعظم قائم بخدمات، اقل قیل است لیکن درعزت ووجاہت فوق است چہ فی الحقیقۃ آں امیر باہمگی شوکت وحشمت واتباع خوہ گویا از اتباع آں مصاحب ست زیرا کہ مشورت وتدبیرش درہمہ اتباع بادشاہی جاری وساری است۱؎ اھ ملخصا مذکور شوکت وجلال کی نسبت حضرات شیخین کی شان بلند ہے، عالمِ ظاہر میں اس کی مثال اس امیر کبیر کا مرتبہ ہے جو امیر سیاست سے فارغ ہو کہ بادشاہ کی خدمت میں رہتا ہے، بہ نسبت دوسرے امیر کے جو امور مملکت سے وابستہ اور کارپردازی میں مشغول ہے اگر چہ ظاہری شوکت اور تابعداروں کی کثرت، امور مملکت سے وابستہ اس امیر اعظم کی

بہ نسبت ا س مصاحب کے حق میں کم سے کم تر ہے لیکن عزت و وجاہت میں یہ اس سے بالاتر ہے۔ اس لیے کہ وہ امیر اپنی تمام تر شوکت وحشمت اور تابعداروں کے باوجود گویا اس مصاحب کا ایک تابعدار ہے اس لیے کہ اس کا مشورہ اور اس کی تدبیر بادشاہ کے تمام تابعداروں میں جاری وساری ہے۔ (ختم بتلخیص)۔ (ت)

 

(۱؎ صراط مستقیم       ہدایت ثانیہ        المکتبۃ اسلفیہ لاہور        ص ۵۹۔ ۵۸)

 

مقال (۲۰): مظاہر الحق میں ہے: تیسری قسم زیارت کی برکت حاصل کرنے کے لیے، وہ زیارت اچھے لوگوں کی قبروں کی ہے اس لیے کہ ان کے لیے برزخ میں تصرفات وبرکات بے شمار ہیں ۲؎ وعزاہ للامام النووی  (اسے امام نووی کے حوالے سے لکھا ہے۔ ت)

 

(۲؎ مظاہر حق        باب زیارت القبور        دین محمد اینڈ سنز لاہور        ۱ /۷۱۶)

 

وصل سوم: بعد وصال اولیاء کے فیض وامداد میں۔

مقال (۲۱تا ۳۱): شاہ ولی اللہ و مولوی خرم علی نے کہا: منتظر رہے اس کا جس کا فیضان صاحب قبر سے ہو  ۳؎۔

 

(۳؎ شفاء العلیل     ترجمہ القول الجمیل     کشف قبور واستفاضہ بداں    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۷۲)

 

عزیزی میں فرمایا: ارباب حاجات حل مشکلات خود از انہامی یابند  ۴؎۔ اہل حاجات اپنی مشکلوں کا حل ان سے پاتے ہیں (ت)

 

 (۴؎ تفسیر عزیزی     پارہ عم      تحت والقمر  اذا اتسق    مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی        ص۲۰۶)

 

دونوں شاہ صاحبوں  پھر مولوی خرم علی نے کہا:اویسیت کی نسبت وقوی وصحیح ہے روحی فیض ہے اور  وہ روحانیت سے تربیت ہے ۵؎ ملخصاً۔

 

 (۵؎ شفاء العلیل    ترجمہ القول الجمیل فصل ۱۱   سلسلہ طریقت مصنف    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۷۸)

 

عزیزی میں لکھا ہے : ازاولیائے مدفونین انتفاع جاری است ۶؎۔  (دفن شدہ اولیاء سے نفع یابی جاری ہے۔ ت)

 

 (۶؎تفسیر عزیزی     پارہ عم        استفادہ از اولیائے مدفونین    مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی    ص۱۴۳)

مرزا مظہر صاحب مولٰی علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت مظہر : قصیدہ عرض نمودم نوازشہا فرمودند ۷؎ ( میں نے ایک قصیدہ عرض کیا بڑی نوازشیں فرمائیں۔ ت)

 

 (۷؎ ملفوظات مرزا مظہر جانجاناں    از کلمات طیبات ملفوظات حضرات ایشاں     مطبع مجتبائی دہلی        ص۷۸)

 

شاہ ولی اللہ ومولوی خرم علی نے کہا:شاہ عبدالرحیم ادب آموز ہوئے اپنے ناناکی روح سے ۱ ؎، کہ یہ سب اقوال مقصد اول کو نوع اول میں گزرے۔

 

 (۱؎ شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل        فصل ۱۱ سلسلہ طریقت حضرت مصنف    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۷۹)

 

مقال (۳۲): مرزا صاحب موصوف نے اپنے ملفوظات میں فرمایا: از فرط محبت کہ فقیر رابجناب امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ ثابت است و سرمنشا نسبت علیہ نقشبندیہ ایشان اند بمقتضائے بشریت غشاوہ برنسبت باطنی عارض مے شود خود بخود رجوع بآنجناب پیدا گشتہ بالتفات ایشاں رفع کدورت مے شود  ۲؎۔ اس فرط محبت کے سبب جو فقر کے لیے امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں ثابت رکھا۔ اور بلند نسبت نقشبندیہ کا سرمنشا وہی ہیں، یہ تقاضائے بشری نسبت باطنی پر ایک پردہ سا عارض ہوجاتا ہے خود بخود اس بارگاہ کی طرف رجوع پیدا ہوتا ہے اور ان کیوجہ سے کدورت دور ہوجاتی ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ ملفوظات مرزا مظہر جانجاناں از کلمات طیبات    ملفوظات حضرت ایشاں    مطبع مجتبائی دہلی    ص۷۸)

 

مقال (۳۳تا ۳۶): اسی میں ہے : التفات غوث الثقلین بحال متوسلان طریقہ عُلیہ ایشاں بسیار معلوم شدہ باہیج کس از ایں طریقہ ملاقات نشد کہ توجہ مبارک آنحضرت بحالش مبذول نیست  ۳؎۔ اپنے عالیہ کے متوسلین پر حضرت غوث الثقلین کا التفات زیادہ معلوم ہو ا اس طریقہ والوں میں سے ایک شخص بھی ایسا نہ ملا جس کے حال پر حضرت کی توجہ مبارک مبذول نہ ہو۔ (ت)

 

 (۳؎ ملفوظات مرزا مظہر جانجاناں از کلمات طیبات    ملفوظات حضرت ایشاں    مطبع مجتبائی دہلی    ص۸۳)

 

پھر کہا: عنایت حضرت خواجہ نقشبندیہ بحال معتقدان خود مصروف است مغلان درصحرا یا وقت خوب اسباب واسپان خود بحمایت حضرت خواجہ مے سپارند وتائیدات از غیب ہمراہ ایشاں می شود دریں  باب حکایات بسیار است تحریر آں باطالت می رساند ۴؎۔ اپنے معتقدین کے حال پر حضرت خواجہ نقشبندیہ کی عنایت کا ر فرما ہے۔ مغل لوگ صحراؤں میں سونے کے وقت اپنے سامان اور گھوڑوں کو حضرت کی حفاظت کے سپرد کرتے ہیں اور غیبی تائیدات ان کے ہمراہ ہوتی ہیں اس باب میں واقعات بہت ہیں جنھیں لکھنے میں طول ہوگا۔ (ت)

 

 (۴ ؂ ملفوظات مرزا مظہر جانجاناں از کلمات طیبات    ملفوظات حضرت ایشاں    مطبع مجتبائی دہلی    ص۸۳)

 

پھر کہا: سلطان المشائخ نظا الدین اولیاء اللہ علیہ بحال زائران مزار خود عنایت بسیارمی فرمایند۔ ۱ ؎ سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے مزار کی زیاترت کرنے والوں کے حال پر بڑی عنایت فرماتے ہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ ملفوظات مرزا مظہر جانجاناں مع کلمات طیبات    ملفوظات حضرت ایشاں   مطبع مجتبائی دہلی  ص۸۳)

 

پھر کہا: ہمچنیں شیخ جلال پانی پتی التفا ت ہامے نمایند ۲؎۔ اس طرح شیخ جلال پانی پتی بھی بہت التفات فرماتے ہیں۔ (ت)

 

 (۲؎ ملفوظات مرزا مظہر جانجاناں مع کلمات طیبات    ملفوظات حضرت ایشاں      مطبع مجتبائی دہلی    ص۸۳)

 

مقال (۳۷): قاضی ثناء اللہ پانی پتی جن کی مدح مقال ۶ میں گزری تذکرۃ الموتٰی میں لکھتے ہیں: اولیاء اللہ دوستان ومعتقدان را دردنیا وآخرت مددگاری می فرمایند ودشمناں راہلاک می نمایند واز ارواح بطریق اویسیت فیض باطنی می رسد ۳؎۔ اولیاء اللہ اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کی دنیا وآخرت میں مدد فرماتے ہیں ا ور دوشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں___ اور روحوں سے اویسیت کے طریقے پر باطنی فیض پہنچاتے ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ تذکرۃ الموتٰی والقبور    اردو ترجمہ مصباح القبور    باب روحوں کے ٹھہرنے کی جگہ کیے بیان میں    نوری کتب خانہ لاہور    ص۷۶)

 

مقال (۳۸ تا ۴۵): یہی قاضی صاحب سیف المسلول میں مرتبہ قطبیت ارشاد کو یوں بیان کرکے کہ : فیوض وبرکات کا رخانہ ولایت کہ از جناب الٰہی براولیاء اللہ نازل مے شود اول بریک شخص نازل مے شود وازاں شخص قسمت شہد بہریک ازاوالیائے عصر موافق مرتبہ وبحسب استعداد می رسد وبہ ہیچ کس از اولیاء اللہ بے توسط اوفیضی نمی رسد وکسے از مردانِ خدا بے وسیلہ اور درجہ ولایت نمی یابد اقطاب جزئی و اوتاد وابدال و نجیاء ونقباء وجمیع اقسام ازاولیائے خدا بوے محتاج می باشند صاحب این منصب عالی راامام و  قطب الارشاد بالاصالۃ نیز خوانند وایں منصب عالی از وقت ظہور آدم علیہ السلام بروحِ پاک علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ مقرر بود ۱؎۔ کارخانہ ولایت کے فیوض وبرکات جو خدا کی بارگاہ سے اولیاء اللہ پر نازل ہوتے ہیں پہلے ایک شخص پر اترتے ہیں اور اس شخص سے تقسیم ہو کر اولیائے وقت میں سے ہر ایک کو اس کے مرتبہ واستعداد کے مطابق پہنچتے ہیں اور کسی ولی کو بھی اس کی وساطت کے بغیر کوئی فیض نہیں پہنچتا۔ْ اور اہل اللہ میں سے کوئی بھی اس کے وسیلہ کے بغیر درجہ ولایت نہیں پاتا۔ جزئی اقطاب اوتادہ ابدال، نجبا، نقباا ور تمام اقسام کے اولیاء اللہ اس کے محتاج ہوتے ہیں، اس منصب بلند والے کو امام اور قطب الارشاد بالاصالۃ بھی کہتے ہیں__ اور یہ منصب عالی ظہور آدم علیہ السلام کے زمانے سے حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ کی روح پاک کے لیے مقرر تھا۔ (ت)

 

 (۱؎ سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۵۲۷ تا ۵۲۹)

 

پھر ائمہ اطہار رضوان اللہ تعالٰی علیہم کو بترتیب اس منصب عظیم کا عطا ہونا لکھ کر کہتے ہیں: بعد وفات عسکری علیہ السلام تاوقت ظہور سید الشرفا غوث الثقلین محی الدین عبدالقادرالجیلی ایں منصب بروح حسن عسکری علیہ السلام متعلق بود  ۲؎۔ حضرت عسکری کی وفات کے بعد سید الشرفا غوث الثقلین محی الدین عبدالقادر جیلانی کے زمانہ ظہور تک یہ منصب حضرت حسن عسکری کی روح سے متعلق رہے گا۔ (ت)

 

 (۲؎ سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۵۲۷ تا ۵۲۹)

 

پھر کہا: چوں حضرت غوث الثقلین پیدا شد ایں منصب مبارک بوے متعلق شدوتا ظہور محمد مہدی این منصب بروح مبارک غوث الثقلین متعلق باشد ۳؎۔ جب حضرت غوث الثقلین پیدا ہوئے یہ منصب مبارک ان سے متعلق ہوا اور امام محمد مہدی کے ظہو رتک یہ منصب حضرت غوث الثقلین کی روح سے متعلق رہے گا۔ (ت)

 

 (۳؎ سیف المسلول     مترجم اردو خاتمہ کتاب    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۵۲۷ تا ۵۲۹)

 

پھر کہا : چوں امام محمد مہدی ظاہر شود ایں منصب عالی تاانقراض زمان بوے مفوض باشد ۴؎۔ جب امام مہدی ظاہر ہو ں گے یہ منصب بلند اختتام زمانہ تک ان کے سپر د رہے گا۔ (ت)

 

 (۴؎ سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب  فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۵۲۷ تا ۵۲۹)

 

اخیر میں کہا : استنباط ایں مدعا ا ز کتاب اللہ واز حدیث می توانیم کرد۔  ۵؎ اھ ملخصا۔ ہم اس مدعاکا استنباط کتاب اللہ اور حدیث پاک سے کرسکتے ہیں اھ ملخصاً (ت)

 

 (۵؎ سیف المسلول مترجم اردو خاتمہ کتاب    فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۵۲۷ تا ۵۲۹)

 

اصل ان سب اقوال ثلٰثہ کی جناب شیخ مجد الف ثانی سے ہے، جیسا کہ جلد سوم مکتوب نمبر ۴۳ صفحہ۱۲۳ میں مفصلاً مذکور، ان کے کلام میں اس قدر امرا اور  زائد ہے کہ: بعدا ز ایشان (یعنی حضرت مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الاسنی) بہریکے از ائمہ اثنا عشر علے الترتیب والتفصیل قرار گوفت ودراعصا رایں بزرگواران و ہمچنیں بعداز ارتحال ایشاں ہر کس را فیض وہدایت می رسد بتوسط این بزرگوار ان بودہ ملاذ ملجائے ہمہ ایشاں بودہی اند تا آنکہ نوبت بحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رسید قدس سرہ، ط۱؎ الخ اھ ملخصاً حضرت مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی  وجہہ کے بعد بارہ اماموں میں سے ہر ایک کے لیے ترتیب وتفصیل کے ساتھ قرارپذیر ہوا۔ ان بزگوں کے زمانے میں اسی طرح ان کی رحلت کے بعد جسے بھی فیض وہدایت پہنچتی انہی بزرگوں کے توسط سے تھی اور سب کا ملجا یہی حضرات تھے یہاں تک کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ، تک نوبت  پہنچی الخ(ت)

 

 (۱؎سیف المسلول مترجم اردو     فاروقی کتب خانہ ملتان    ص۵۶۹)

 

اور انھوں نے جلد ثانی میں خود اپنے لیے بھی اس منصب کاحصول مانا اور اس اعتراض سے کہ پھر اس دورے میں منصب مذکور کا حضور پر نور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اختصاص کب رہا۔ جلد ثالث میں یوں جواب دیا کہ: مجدد الف ثانی دریں مقام نائب مناب حضرت شیخ است وبنیا بت حضرت شیخ ایں معاملہ باو مربوط است چنانکہ گفتہ اند نور القمر مستفاد من نور الشمس فلا محذور ۲ ؎۔ مجدد الف ثانی اس مقام میں حضرت شیخ کا قائم مقام ہے اور حضرت شیخ کی نیابت سے یہ معاملہ ا س سے وابستہ ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ ماہتاب کا نور آفتاب کے نور سے مستفاد ہے ۔ تو اگر کوئی اعتراض نہ رہا۔ (ت)

 

 (۲؂مکتوبات امام ربانی    مکتوب ووصدو بست وسوم    مطبع نولکشور لکھنؤ   ۳ / ۴۸ ۔ ۳۴۷)

 

مقال (۴۶تا ۵۸): شاہ ولی اللہ اتنباہ میں اور ا ن کے بارہ اساتذہ و مشائخ کہ عرب و ہند وغیرہما بلاد کے علماء واولیاء میں حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ کو وقت مصیبت مدد گار مانتے ہیں اور  ع؂ تجدہ عونا لک فی النوائب  ( انھیں مصائب میں اپنا مددگارہ پاؤ گے۔ ت)کو حق جانتے ، وسیاتی نقلہ فی الوصل الاتی ان شاء اﷲ تعالٰی  (وصل آئیندہ میں یہ کلام نقل ہوگا اگر خدا نے چاہا۔ ت)

 

مقال (۵۹): شاہ ولی اللہ نے ہمعات میں لکھا : از جملہ نسبت ہائے معتبرہ نزدیک قوم نسبت اویسیہ است خواہ ایں مناسبت بہ نسبت ارواح انیباء باشد یا اولیائے امت یا ملائکہ وبساست کہ مناسبت بروحی حاصل شود بجہت آنکہ فضائل وے استماع کردہ مجتبی خاص بہم رسانید وآں محبت سبب کشادہ شدن راہے گرد دمیان روح وایں کس یا بجہت آنکہ روح مرشد روے یا جد وے باشد دروے ہمت ارشاد منتسبیان خو متکمن شدہ ۱ ؎ الخ انتہی ملتقطا۔ اہل طریقت کے نزدیک معتبر نسبتوں میں سے ایک نسبت اویسی بھی ہے خواہ یہ مناسب ارواح انبیاء کی نسبت سے ہو یا اولیائے امت یا ملائکہ کی نسبت سے ہو  اور ایسابھی بہت ہوتا ہے کہ کسی روح سے مناسب پیدا ہوگئی اس لیے کہ اس کے فضائل سن کر ایک خاص محبت بہم پہنچائی ___ وہ محبت اس روح اور اس شخص کے درمیان ایک راہ کھلنے کا سبب ہوجاتی ہے ____ یا اس وجہ سے کہ وہ اس کے مرشد یا مرشد کے مرشد کی روح ہے اس کے اندر اپنے منتسبین کی رہنمائی کی ہمت خود قرار پذیر ہے۔ الخ (ختم التقاط کے ساتھ)۔ (ت)

 

 (۱؎ ہمعات    ہمعہ ۱۱    اکادیمۃ الشاہ ولی اللہ حیدر آباد باکستان    ص۵۷۔ ۵۶)

 

مقال (۶۰): اسی میں ہے : از ثمرات ایں نسبت (یعنی اویسیہ) رویت آں جماعت است درمنام وفائدہ از ایشاں یافتن ودر مہالک ومضائق صورت آں جماعت پدیر آمدن وحل المشکلات وے بآں صورت منسوب شدن ۲؎۔ اس نسبت اویسی کے ثمرات سے ہے خواب میں اس جماعت کا دیدار ہونا، ان سے نفع پانا، ہلاکت و مصیبت کی جگہوں میں اس جماعت کی صورت کا نمودار ہونا اور مشکلات کا حل اس صورت سے منسوب ہونا (ت)

 

 (۲؎ ہمعات    ہمعہ  ۱۱    اکادیمۃ الشاہ ولی اللہ حیدر آباد باکستان     ص۵۹)

 

مقال (۶۱): اسی میں ہے : امروز  اگر کسے رامناسبت بروح خاص پیدا شود واز نجا فیض برادر وغالباً بیرون نیست از آنکہ ایں معنی بہ نسبت پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باشد یا بہ نسبت  حضرت امیرالمومنین علی کرم اللہ  تعالی ٰ وجہہ، یا بہ نسبت حضرت غوث اعظم جیلانی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ وآنکہ مناسبت بہ سائر ارواح دارند باعث خصوص آں اسباب طاریہ شدہ اند مثل آنکہ وے حجت آں بزرگ بسیار دارد، وبر قبروے بسیار می رود، واین معنی سلسلہ جنبان از جہت۔ قابل گشتہ است، وآں بزرگ راہمتِ قویہ بودہ است درتربیت منتسبا خود واں ہمت ہنوز در روح وے باقی است وایں معنی سلسلہ جنبان از جہت فاعل است۔۱ ؎ آج اگر کسی کو کسی خاص روح سے مناسبت پیدا ہو اور وہاں سے فیض یاب ہو غالباً اس سے باہر نہ ہوگا یہ معنی حضرت رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت سے ہو  یا حضرت امیر المومنین علی مرتضٰی کرم اللہ وجہ کی نسبت سے یا حضرت غوث اعظم جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت سے ہو اور جو لوگ تمام ارواح سے مناسبت رکھتے ہیں ان کی خصوصیت کا باعث عارضی اسباب ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ وہ اس بزرگ سے زیادہ محبت رکھتا ہے اور اس کی قبر پر زیادہ جاتا ہے۔ یہ معنی قابل کی جانب سے محرک بنا ___ اور اپنے منتسبین کی تربیت میں اس بزرگ کی ہمت قوی تھی اور وہ ہمت روح میں اب بھی باقی ہے  ___ یہ معنی فاعل کی جانب سے محرک ہو (ت)

 

 (۱؎ ہمعات         ہمعہ ۱۱    اکادیمۃ الشاہ ولی اللہ حیدرآباد پاکستان    ص۶۳۔ ۶۲)

 

مقال (۶۲): حجۃ اللہ البالغہ میں ہے : قدا ستفاض من الشرع ان اﷲ تعالٰی عباداھم افاضل الملئکۃ وانھم یکونون سفراء بین اﷲ وبین عبادۃ انھم یلھمون فی قلوب بنی اٰدم خیرا، وان لھم اجتماعات کیف شاء اﷲ وحیث شاء اﷲ یعبر عنھم باعتبار ذلک بالملاء الاعلٰی وان ارواح افاضل الاٰدمین دخول فیھم ولحوقا بھم کما قال اﷲ تعالٰی یایتھا النفس المطئنۃ ارجعی الٰی ر بک راضیہ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی فی جنتی، والملاء الاعلی ثلٰثۃ اقسام، قسم ھم نفوس انسانیہ مازالت تعمل اعمالا منجیہ تفید اللحوق بھم حتی طرحت عنھا جلابیب ابدانھا فانسلکت فی سلکھم وعدت منھم  ۲؎ اھ ملخصاً۔ یعنی بے شک شرع سے بدرجہ شہرت ثبوت کو  پہنچا کہ مقرب فرشتے خدا اور اس کے بندوں میں واسطہ ہوتے اور آدمیوں کے دلوں میں نیک بات کا القاء کرتے ہیں ا ور ان کے لیے اجتماع ہیں جس طرح خدا چاہے اور جہاں چاہے، اسی لحاظ سے انھیں ملاء اعلٰی کہتے ہیں اور یہ بھی اسی طرح شرع سے بشہر ت ثابت کہ بزرگان دین کی روحیں بھی ان میں داخل ہوتی اور ان سے ملتی ہیںجیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا: ''اے اطمینان والی جان! چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے خوش، پس داخل ہو میرے بندوں میں اور آ میری جنت میں ۔'' اور ملاء اعلٰی کی ایک اور قسم وہ ارواح انسانی ہیں کہ ہمیشہ رستگاری کے کام کرتے رہے جن کے باعث ان ملائکہ سے ملے یہاں تک کہ جب بدن کی نقابیں پھینکیں ملاء اعلٰی میں داخل ہوئے اور انھیں سے شمار کئے گئے۔

 

 (۲؂ حجۃ اللہ البالغہ        باب ذکر الملاء الاعلٰی     المکتبۃ السلفیہ لاہور        ۱ /۱۶۔ ۱۵)

 

مقال ( ۶۳): عزیزی میں فرمایا : دردفن کردن چوں اجزائے بدن بتمامہ یکجامی باشند علاقہ روح یا بابدن زراہِ نظر عنایت بحال می ماند و توجہ روح بزائرین ومستانسین ومستفیدین بہ سہولت مے شود۔۱ ؎ دفن کرنے میںبدن کے تمام اجزاء ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں اور نظر عنایت سے روح کا تعلق بدن سے ہوجاتا ہے اور زائرین اور انس اور استفادہ کرنے والوں کی طرف توجہ آسان ہوجاتی ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ تفسیر عزیزی پارہ عم    استفادہ از اولیائے مدفونین        مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی    ص۱۴۳)

 

مقال (۶۴): میاں اسمٰعیل صراط مسقیم میں لکھ گئے: حضرت مرتضوی راک نور تفضیل برحضرات شیخین ہم ثابت وآں تفضیل بجہت کثرت اتباع ایشاں و وساطت مقامات ولایت بل سائر خدمات است مثل قطبیت وغوثیت وابدالیت وغیرہما از عہد کرامت مہد حضرت مرتضٰی تا انقراض دینا ہمہ بواسطہ ایشاں است۔ ۲؎ حضرت مرتضٰی کویک گونہ فضیلت حضرات شیخین پر بھی ثابت ہے اور وہ فضیلت متبعین کی کثرت اور مقامات ولایت بلکہ تمام خدمات__جیسے قطبیت، غوثیت، ابدالیت وغیرہا___ میں وساطت کے لحاظ سے ہے۔سب حضرت مرتضٰی کے عہدکریم سے اختتام دینا تک ان ہی کے واسطے سے ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ صراط مسقیم        ہدایت ثانیہ در ذکر بدعاتیکہ الخ    المکتبۃ السلفیہ لاہور        ص۵۸)

 

مقال (۶۵): اسی میں ہے : حق جل وعلا بذاتِ پاک خود یا بواسطہ ملائکہ عظام یا ارواح مقدسہ بسبب برکت توسل قرآن محافطت طالب خواہد نمود ۳؎۔ حق جل وعلا بذاتِ خود یا ملائکہ عظام یا ارواح مقدسہ کے واسطہ سے، قرآن سے توسل کی برکت کے سبب طالب کی حفاظت فرمائے گا۔ (ت)

 

 (۳؎ صراط مسقیم   باب چہارم دربیان طریق سلوک راہ نبوت الخ    المکتبۃ السلفیہ لاہور         ص۱۴۸)

 

مقال(۶۶): مولوی اسحاق کی مائۃ مسائل میں ہے : سوال: شخصیکہ منکریاشد فیض روح مبارک محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم را در عالم برزخ وشخصے کہ منکر باشد از فیض ارواح مقدسہ انبیاء دیگر علیہم الصلٰوۃ ولسلام و شخصے کہ منکران باشد از فیض ارواحِ اولیاء اللہ درعالم برزخ حکمِ او چیست ؟ جو شخص عالم برزخ میں محمد رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی روح مبارک کے فیض کا اور جو دیگر انبیاء علیہم الصلٰوۃو السلام کی ارواح مقدسہ کے فیض کا اور عالم برزخ میں جوا ولیاء اللہ کی ارواح کے فیض کا منکر ہو اس کا حکم کیا ہے ؟

 

جواب: ہر فیض شرع کو ثبوت باخبار متواترہ باشد منکر آں کافر است و ہر فیضیکہ ثبوت باخبار مشہور ہی باشد منکراں ضال است ہر فیضے کہ .ثبوت اں بخیر واحد باشد منکراں بہ سبب ترک قبول گنہ گار خواہد شد بشرطیکہ ثبوت آں صحیح یا بطریق حسن خواہد شد ۱؎اھ ملخصاً جس فیض شرع کا ثبوت احادیث میں متواترہ سے ہو اس کا منکر کافر ہے اور جس فیض کا ثبوت احادیث مشہورہ سے ہو اس کا منکر گمراہ ہے اور جس فیض کا ثبوت خبر واحد سے ہو اس کا منکر ترک قبول کی وجہ سے گنہ گار ہوگا بشرطیکہ اس کا ثبوت بطریق صحیح یا بطریق حسن ہو۔ (ت)

 

 (۱؎ مائۃ مسائل        سوال ششم تا ہشتم        مکتبہ توحید وسنت پشاور    ص۱۷۔ ۱۶)

 

ہر چند یہ جواب سراپا عیاری  پر مبنی ہے مگر سب نے دیکھا کہ سوال فیض برزخ سے تھا، واجب کہ جواب اسے بھی شام ہو اوس قدر امر نفی جنون کے لے ضروری یاان کی دیانت وللّٰہیت سے انکار اور اخفائے حق تلبیس بالباطل کا اقرار کیا جائے۔

مقال (۶۷): جناب شیخ مجدد الف ثانی اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں : بعدا ز رحلت ارشاد پناہی قبلہ گاہی (یعنی خواجہ باقی  باللہ علیہ رحمۃ اللہ) بتقریب زیارت مزار شریف بہ بلدہ محروسہ دہلی اتفاق عبود افتاد روز عید بزیارت مزار شریف ایشاں رفتہ بود درا ثنائے توجہ بہ مزار متبرک التفاتے تمام از روحانیت مقدسہ ایشاں ظاہر گشت وازکمال غریب نوازی نسبت خاصہ خود را کہ بحضرت خواجہ احرار منسوب بود مرحمرت فرموند۲؎۔ حضرت ارشاد پناہی قبلہ گاہی (خواجہ باقی باللہ علیہ رحمۃ اللہ) کی رحلت کے بعد مزار شریف کی زیارت کی تقریب سے شہر دہلی میں گزرنے کا اتفاق ہوا، عید کے دن حضرت کے مزار پاک کی زیارت کے لے گیا، مزار پاک کی جانب توجہ کے دوران  حضرت کی مقدسی روحانیت سے کام التفات رونما ہوا، اور کمال غریب نوازی سے اپنی خاص نسبت جو حضرت خواجہ احرار کی جانب تھی مجھے مرحمت فر مائی۔ (ت)

 

 (۲؎ مکتوبات اما ربانی    مکتوب ۶۹۷     منشی نولکشور لکھنؤ    ۱ /۴۱۳)

 

تنبیہ: لفظ ''بتقریب زیارت مزار شریف الخ''ملحوظ رہے ار یونہی ''غریب نواز'' بھی کہ حضرت خواجہ اجمیری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت کہے جس سے متعصبان طائفہ چڑتے ہیں۔

 

مقال (۶۸): شاہ ولی اللہ انفاس العارفین میں اپنے استاذ محدث ابراہیم کردی  علیہ الرحمۃ  کا حال لکھتے ہیں: دوسال کم و بیش دربغداد ساکن بوہ برقہر سید عبدالقادر قدس سرہ، متوجہ مے شد و ذوق ایں را ازآنجا پیدا کرد۔ ۱؎ کم وبیش دو سال تک آپ بغداد میں مقیم رہے اس دوران آپ اکثرسید عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مزار مبارک کو مرکز  توجہ بنایا کرتے تھے اور یہیں سے آپ کو راہ معرفت کا ذوق پیدا ہوا (ت)

 

 (۱؎ انفاس العارفین     مترجم اردو    شیخ ابراہیم کردی    اسلامک بک فاؤنڈیشن لاہور    ص۳۸۶)

 

مقال (۶۹): اسی میں حضرت میر ابو العلی قدس سرہ، کے ذکر مبارک میں لکھا : بمزار فیض الانوار حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہ، متوجہ بودند واز آنجناب دل ربائہا یا فتند و فیضاں گرفتند۔۲ ؎۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہ کے مزار فائض الانوار کی طرف متوجہ ہوئے اس بارگاہ سے خاص لطف و کرم پایا اور فیوض حاصل کئے۔ (ت)

 

 (۲؎ انفاس العارفین     میرابوالعلی      شیخ ابراہیم کردی    اسلامک بک فاؤنڈیشن لاہور    ص۶۹)

 

مقال (۷۰ و ۷۱ ): اسی میں اپنے نانا ابو الرضا محمد سے نقل کیا : می فرمودند یک بارحضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ را دریقظہ ویدوم اسرار عظیم دراں محل تعلیم فرمودند۳؎۔ فرماتئے تھے ایک بار حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بیداری میں دیکھا اس مقام میں عظیم اسرار تعلیم فرمائے۔ (ت)

 

(۳؎ انفاس العارفین  حصہ دوم    شیخ ابوالرضا محمد     اسلامک بک فاؤنڈیشن لاہور       ص   ۱۹۴)

 

مقال(۷۲): اسی میں شیخ مذکور کے حالات میں لکھا : عجوزہ راز مخلصان بعد وفات ایشاں تپ لرزہ گرفت بغایت نزارگشت شبے بنو شیدن آب وپوشیدن لحاف محتاج شد وطاقت آں نداشت وکسے حاضر نبود ایشاں متمثل شدند وآب دادند ولحاف پوشانیدند آں گاہ غائب شدند۔۴؎ مخلصین میں سے ایک بڑھیا حضرت کی وفات کے بعد تب لرزہ میں گرفتار ہوئی، انتہائی لاغر ہوگئی، ایک رات اسے پانی پینے اور لحاف اوڑھتے کی ضرورت تھی، اس کے اندر طاقت نہ تھی، اور دوسرا کوئی موجو د نہیں تھا، حضرت متمثل ہوئے پانی دیا، لحاف اڑھایا، پھر اچانک غائب ہوگئے۔ (ت)

 

 (۴؎ انفاس العارفین     امداد اولیاء    اسلامک بک فاؤنڈیشن لاہور      ص          ۳۶۹)

 

مقال(۷۳تا۷۵) :القول الجمیل میں ہے : تادب شیخنا عبدالرحیم من روح الائمۃ الشیخ عبدالقادر الجیلانی والخواجہ بھاء الدین محمد نقشبند والخواجہ معین الدین بن الحسن الچشتی وانہ راٰھم واخذ منھم الاجازۃ وعرف لسبۃ کل واحد منھم علی حدتھا ممافاض منھم علی قلبہ وکان یحکی لنا حکایتھا رضی اﷲ تعالٰی عنہ وعنھم اجمعین ۱؎۔ یعنی ہمارے مرشد شیخ عبدالرحیم نے ائمہ کرام حضور غوث اعظم وخواجہ نقشبند وخواجہ غریب نواز  رضی اللہ تعالٰی

عنہم کی ارواح طیبہ سے آداب طریقت سیکھے اور ان سے اجازتیں لیں اور  ہر  ایک کی نسبت جو ان سرکاروں سے ان کے دل پر فائز ہوئی جدا جدا پہچانی اور ہم سے اس کی حکایت بیان کرتے تھے اللہ تعالٰی ان سب حضرات اور ان سے راضی ہوا۔

 

 (۱؎القول الجمیل معہ شرح شفاء العلیل    فصل ۱۱    سند سلسلہ قادریہ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۸۲)

 

مولوی خرم علی صاحب نے اگر چہ راٰھم کے ترجمہ میں لفظ ''خواب میں دیکھا'' ۲؂ اپنی طرف سے بڑھا دیا جس پر کلام شاہ ولی اللہ میں اصلاً دال نہیں، مگر ارواح عالیہ کا فیض بخشنا، اجازتیں دینا نسبتیں عطا فرمانا مجبورانہ مسلم رکھا۔

 

 (۲؎ شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل    فصل ۱۱  سند سلسلہ قادریہ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۸۲)

 

مقال (۷۶ و ۷۷): مرزا جانجاناں صاحب فرماتے ہیں : از حضرت شیخ عبدالاحد رحمۃ اللہ علیہ دوکس طریقہ گرفتہ یکے طریقہ قادری اخذ کرد ودیگرے طریقہ نقشبندیہ اختیار نمودا یشاں فرمودند کہ روح مبارک حضرت غوث اعظم تشریف آوردوہ صورت مثالی مرید خاندانِ خود راہمراہ روند حضرت خواجہ نقشبند تشریف فرماشدہ صورت مثالی متعقد خود راباخود بروند رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم ۳؎۔ حضرت شیخ عبدالاحد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دو آدمیوں نے طریقت حاصل کی، ایک نے طریقہ قادری لیا دوسرے نے طریقہ نقشبندیہ اختیار کیا، حضرت فرماتے ہیں کہ حضرت غوث اعظم کی روح مبارک تشریف لائی اور اپنے خاندان کے مرید کی صورت مثالی کو ساتھ لے گئی اور حضرت خواجہ نقشبند تشریف فرما ہوکر اپنے عقیدت مند کی صورت مثالی کو اپنے ساتھ لے گئے، رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین۔ (ت)

 

 (۳؎ ملفوظات مرزا مظہر از کلمات طیبات        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ص۸۳)

 

مقال (۷۸): اسمٰعیل نے صراط مستقیم میں اپنے  پیر کا حال لکھا: روح مقدس جناب حضرت غوث الثقلین وجناب حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند متوجہ حال حضرت ایشاں گردیدہ تا قریب یک ماہ فی الجملہ تنازع در مابین روحیں مقدسین درحق حضرت ایشاں ماندہ زیرا کہ ہرد و احد ازیں دو امام تقاضائے جذب حضرت ایشاں بتمامہ بسوئے خود مے فرمودتا ازینکہ بعد انقراض زمانہ تنازع ووقوع مصالحت برشرکت روزے ہر دو روح مقدس بر حضرت ایشاں جلوہ گر شد ند تاقریب پک پاس ہر دوامام برنفس نفیس حضرت ایشاں توجہ قوی وتاثیرز ور آور مے فرمودند تا انیکہ درہمان  پک پاس حصولِ نسبت ہر دو طریقہ نصیبہ حضرت ایشاں گردید۱؎۔

 

حضرت غوث الثقلین اور حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند کی روحیں حضرت کے حال پر متوجہ ہوئیں اور قریب ایک ماہ تک دونوں مقدس روحوں کے درمیان حضرت کے حق میں تنازع رہا اس لیے دونوں ماموں میں سے  ہر ایک حضرت کو پورے طور سے اپنی طرف کھینچنے کا تقاضا کر رہے تھے یہاں تک کہ زمانہ تنازع کے ختم ہونے اور شرک پر مصالحت واقع ہوجانے کے بعد ایک دن دونوں مقدس روحیں حضرت پر جلوہ گر ہوئیں ایک پہر کے قریب دونوں امام حضرت کے نفس نفیس پر قوی توجہ اور پر زور تاثیر ڈالتے رہے یاں تک کہ اسی ایک پہر کے اندر دونوں طریقتوں کی نسبت حضرت کو نصیب ہوگئی۔ (ت)

 

 (۱؎ صراط مستقیم    باب چہارم دربیان سلوک راہِ ثبوت الخ    المکتبۃ السلفیہ لاہور    ص۱۶۶)

 

مقال ( ۷۹): اسی میں ہے : روزے حضر ت ایشاں بسوئے مرقد منور حضرت خواجہ خواجگان خواجہ قطب الاقطاب بختیار کا کی قدس سرہ العزیز تشریف فرما شد ند برمرقد مبارک ایشاں مراقب نشستند دریں اثناء بروح  پر فتور ایشاں توجہی جس قوی فرمودند کہ بسبب آں توجہ ابتدائے حصول نسبت چشتیہ متحقق شد ۲؎۔

 

ایک دن حضرت خواجہ خواجگان خواجہ قطب الاقطاب بختیار کاکی قدس سرہ، العزیز کے مرقد انور کی طرف حضرت تشریف لے گئے ان کے مرقد مبارک پر مراقبہ میں بیٹھے اس دوران حضرت کی روح  پر فتوح پر علامات تحقیق ہوئیں، ا ور آں حضور نے حضرت پر بہت قوی توجہ فرمائی جس کے سبب نسبت چشتیہ کے حصول کی ابتداء متحقق ہوئی۔ (ت)

 

 (۲؎صراط مستقیم    باب چہارم دربیان سلوک راہِ ثبوت الخ    المکتبۃ السلفیہ لاہور    ص ۱۶۶)

 

وصل چہارم ___ اصل مسئلہ مسئولہ مسائل یعنی اولیائے کرام سے استمداد والتجا اور اپنے مطالب میں طلب دعا اور حاجت کے وقت ان کی ندا میں ۔

 

مقال( ۸۰ تا ۸۸): شاہ ولی اللہ نے  ہمعات میں کہا: بزیارت قبر ایشان رو دو از آں جا انجذاب دریوزہ کند ۳؎۔ ان کی قبروں کی زیارت کو جائے اور وہاں بھیک مانگے۔ (ت)

 

 (۳؎ ہمعات     ہمعہ  ۸      اکادیمیہ شاہ ولی اللہ حیدر آباد        ص۳۴)

 

رباعی میں کہا: ع فیض قدس از ہمت ایشاں میجو  ۱؂  ( ان کے ہمت سے فیض قدس کے خواستگار رہو۔ ت)

 

(۱؎ ہمعات     مکتوبات شاہ ولی اللہ مع کلمات طیبات     مکتوب بست ودوم  دشرح رباعیات    مطبع مجتبائی دہلی    ص۱۹۴)

 

وہ پھر مولوی خرم علی کہتے ہیں: میّت سے قریب ہو پھر کہے یاروح ۲؎۔  (۲؎ شفاء العلیل ترجمہ القول الجمیل     کشف قبور واستفاضہ بدان    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۷۲)

 

عزیزی میں فرمایا : اویسیان تحصیل مطلب کمالات باطنی از آنہا می نمایند ۳؎۔ اویسی لوگ باطنی کمالات کا مقصد ان سے حاصل کرتے ہیں۔ (ت)

 

 (۳؎ تفسیر عزیزی      زیرآیہ والقمر اذاا تسق     مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی    ص۱۴۳)

 

اور فرمایا: ارباب حاجات حل مشکلات خود ازآنہامے طلبند ۴؎۔ اہل حیات اپنی مشکلوں کا حل ان سے طلب کرتے ہیں (ت)

 

 (۴؂ تفسیر عزیزی      استفادہ ازاولیائے مدفونین   مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی    ۵/  ۱۴۳)

 

اسی میں ہے : از اولیائے مدفونین استفادہ جاری است  ۵؎  (مدفون اولیاء سے استفادہ جاری ہے۔ ت)

 

 (۵؎ تفسیر عزیزی      استفادہ ازاولیائے مدفونین   مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی    ۵/  ۱۴۳)

 

مرزا صاحب نے مولٰی علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت کہا: درعارضہ جسمانی توجہ بآنحضرت واقع می شود  ۶؂  (عارضہ جسمانی میں آں حضرت کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ ت) کہ یہ سب اقوال مقصد اول میں گزرے۔

 

شاہ عبدالعزیز نے سید احمد زروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت کہا: مردے جلیل القد ریست کہ مرتبہ کمال اوفوق الذکراست ۷؎  ( ایک جلیل القدر شخصیت ہیں جن کا رتبہ کمال ذکر سے بالا تر ہے۔ ت) پھر ان سے نقل کیا: ''مصیبت میں یا زروق کہہ کر  پکار  میں فوراً مدد کو آؤں گا"۔ ۸؂ یہ اُسی مقصد میں گزرا۔

 

 (۶؎ ملفوظات مرزا مظہر جانجاناں     از کلمات طیبات      مطبع مجتبائی دہلی        ص ۷۸)

(۷؎بستان المحدثین     حاشیۃالبخاری للزروق        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص ۳۲۱)

(۸؎ بستان المحدثین     حاشیۃالبخاری للزروق     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۳۲۱)

 

خاتمہ رسالہ میں دربارہ سماع موتٰی علمائے عرب کا فتوٰی

 

اس رسالہ کے زمانہ تالید میں فقیر کو معتبر طور  پر خبر  پہنچی کہ مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اگروہ ہمارے مسئلہ کا رد لکھے گا ہم دونوں تحریریں مولویان بھوپال کو بھیج دیں گے کہ وہ حکم ہوجائیں۔

اقول تحکیم بے قبول طرفین معقول نہیں ۔ مولوی صاحب ماشاء اللہ فاضل ہیں، یہیں کیوں نہ تصفیہ ہوجائے، طالبان تحقیق کو اظہار حق سے کیوں باک آئے، رسالہ فقیر کو ملاحظہ فرمائیں ، اگر حق واضح ہوجائے تسلیم واجب، ورنہ جواب مناسب، ہاں تحریر جواب میں استعداد و استعانت کا اختیار ہے بھوپالیوں سے ہو  یا بنگالیوں سے، اور اگر  اوروں  ہی پر رکھنا صلاح وقت ہے تو اہل ہند میں جسے دیکھئے گا بلا مرجح خود احدالفریقین ہے۔ بھوپالیوں کو مثلاً مصطفی آبادیوں پر کیا وجہ ترجیح ہے۔ لہذا سب سے قطع نظر کرکے علمائے عرب کو حکم کیجئے کہ دین وہیں سے نکلا  اور  وہیں کو  پلٹ جائےگا اور وہاں کے جمہور علماء  پر ان شاء اللہ تعالٰی شیطان ہر گز قابو نہ پائے گا۔ جناب مولٰنا اگر اس رائے کو پسند فرمائیں توا ن اکا برکرام کا مہری دستخطی فتوٰی بالفعل فقیر کے  پاس اصل موجود، جس میں اکثر مسائل وہابیت کا رد واضح فرمایا اور طائفہ جدیدہ کو ضال مضل، مبتدع، مبطل ٹھہرایا، فقیر غفراللہ تعالٰی لہ اس میں سے چند سطریں متعلق مسئلہ سماع مع شرح ودستخط علماء بتلخیص والتقاط حاضر کرتا ہے، واللہ الہادی اس سوال کے جواب میں کہ وہابیہ عدمِ علم وعدمِ سماع موتٰی کا ادعا واعتقاد رکھتے ہیں، فرمایا :

 

ھذا  الادعاء افتراء قبیح وھذا الاعتقاد اعتداء صریح فان العلماء المحققین من الحنفیۃ والشافعیۃ وغیرہم قد اثبتوا اطلاع الانسان فی البرزخ وسماعہ لسلام الزائر وکلامہ ومعرفتہ والانس بہ بالاحادیث الصحیحۃ والاٰثار الصریحۃ و تلک المسئلۃ مع دلائلھا مصرحۃ فی المرقاۃ شرح مشکٰوۃ لعلی القاری الحنفی وشرح الصدور للحافظ السیوطی وشفاء السقام للامام سبکی وغیرھا من الکتب المشہورۃ لجمہور محققین حتی اشاروا  الیہ فی کتب العقائد المشہورۃ فقد صرح فی المقاصد وشرحہ انہ عندالمعتزلۃ وغیرھم البدنیۃ المخصوصۃ شرط فی الاادراک فعند ھم لایبقی ادراک الجزئیات عند فقد الاٰلات عند نا یبقی وھو ظاھر من قواعد الاسلام، ولہذا ینتفع بزیار القبور الابرار والاستعانۃ من نفوس الاخیار  ۱؂الخ وبالجملۃ فالنفس الانسانیۃ تبقی لھا الادراکات ولالھاتعلقات کثیرۃ بموضع دفن جسد ھا و الاحادیث والاٰثار شاھد ۃ لذلک لاینکرھا بعد العلم بھا  الا مکابر معاند  الخ۔

 

یعنی  وہابیہ کا یہ ادعاء افترائے قبیح اور یہ اعتقاد ظلم صریح ہے۔ حنفیہ وشافعیہ وغیرہم کے علمائے محققین نے صحیح حدیثوں اور صریح خبروں سے ثابت کیا ہے کہ آدمی برزخ میں علم رکھتا اور زائر کا سلام وکلام سنتا ہے اور اسے پہچانتا ہے اور اس سے انس حاصل کرتا ہے۔ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ علی قاری حنفی وشرح الصدور حافظ سیوطی شافعی وشفار امام سبکی وغیرہا جمہور محققین کی کتب مشہورہ میں اس مسئلہ اور اس کے دلائل کی تصریح ہے یہاں تک کہ علماء نے عقائد کی مشہور کتابوں میں اس کی طرف اشارہ کیا، مقاصد وشرح مقاصد میں تصریح فرمائی کہ معتزلہ وغیرہم کے نزدیک یہ بدن شرط ادراک ہے تو ا ن کے مذہب میں جب آلات بدنی نہ رہے ادراک جزئیات بھی نہ رہا اور ہم اہل سنت کے نزدیک ادراک باقی رہنا ہے، قواعد اسلام اسی کی تائید کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قبور  ابرار کی زیارت اور ارواح اولیاء سے استعانت نفع دیتی ہے۔ غرض روح انسانی کے ادراک باقی اور اسے موضع دفن سے بہت تعلقات ہیں، احادیث و آثار اس پر گواہ ہیں جنھیں جان بوجھ کر انکار نہ کریگا مگر باطل کوش دشمن حق۔ (ت)اس کے بعد شبہات منکرین کا نصوصِ علماء سے ردکیا اور عمائد علماء  حرمین طیبین نے اس  پر مہر و دستخط ثبت فرمائے۔

 

 (۱؎ شرح المقاصد    المبحث الرابع مدرک الجزئیات عندنا النفس        درالمعارف النعمانیہ کریم پارک لاہور   ۲ /۴۳)

 

شرح دستخط حضرت مولٰنا محمد بن حسین کتبی حنفی مفتی مکہ

 

لاکلا فیہ ولا شک یعتریہ اس میں نہ کلام کی گنجائش نہ شک کی خلش ۔

 

امر برقمہ محمد بن حسین الکتبی الحنفی مفتی مکۃ المکرمۃ عفی عنہ بمنہ امین۔

 

                                               

 

شرح دستخط حضرت مولٰنا وشیخ مشائخنا رئیس المدرسین  بالمسجد الحرام مولٰنا جمال ابن عبداللہ بن عمر مکی حنفی رحمۃ اللہ علیہ

 

لا یلتفت المفید الا الیہ ولایعول المستفید الا علیہ مفید التفات نہ کرے مگر

اسی طرف، اور مستفید اعتماد نہ کرے مگر اسی پر، امربرقمہ رئیس المدرسین الکرام بالمسجد المکی الحرام الراجی لطف ربہ الخفی جمال بن عبداﷲ شیخ عمر الحنفی لطف اﷲ تعالٰی بھما۔

 

                                               

 

شرح دستخط مولٰنا حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ مبارکہ

 

لاریب فیہ ولاشک یعتریہ المالکیۃ بمکۃ  کتبہ  الفقیر حسین بن ابراہیم مفتی المشرقیۃ المحمیۃ

 

                                               

 

شرح دستخط حضرت مولٰنا وشیخنا وبرکتنا زین الحرم عین الکرم مولٰنا احمد زین دحلان شافعی مفتی مکہ مکرمہ قدس سرہ العزیز

 

رأیت ھذاالمؤلف الشریف الھاوی کل برھان لطیف فرأیتہ قد نص علی عقائد اھل الحق المؤیدین وابطل عقاید اھل الضلال  المبطلین  میں نے یہ شریف تالیف جامع ہر دلیل لطیف دیکھی تو میں نے اسے پایا کہ اہل حق وار باب تائید کے عقیدے صاف واضح لکھے ہیں اور باطل پر ست گمراہوں کے مذہب باطل کیے ہیں رقمہ بقلمہ المرتجی من

ربہ الغفران احمد بن زین دحلان ۔

 

                                               

 

شرح دستخط حضرت مولٰنا محمد بن غرب شافعی مدنی مدرس مسجد مدینہ طیبہ

 

تاملت فی ھذا المؤلف فرأیت مؤلف قد اجاد و  ولکل نص سنی صریح افاد  میں نے یہ رسلہ بغور دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کے مصنف نے جید کلام لکھا اور ہر نص روشن کا افادہ کیا۔ کتبہ الفقیر الی اﷲ تعالٰی محمد بن محمد الغریب الشافعی خادم العلم بالمسجد النبوی۔

 

 

 

شرح دستخط مولٰنا عبدالکریم حنفی از علمائے مدینہ منورہ

 

لما تاملت فی ھذا الرسالۃ وجدتھا کالسیف الصارم للمعاند الضلال لا یطعن فیھا الامن اختل عقلہ وقبحت سیرتہ فی جمیع الاٰجال جب میں نے یہ رسالہ غور سے دیکھا اسے معاند اگمراہ کے حق میں مثل تیغ برآں پایا۔ نہ طعنہ کرے گا مگر وہ جس کی مت کٹی اور عادت بد ہوئی ہر زمانہ میں۔  من خدام طلبۃ العلم ''المتوکل علی اﷲ العظیم عبدالکریم بن عبدالحکیم'' بالمسجد نبوی۔

 

                                               

 

شرح دستخط مولٰنا عبدالجبار حنبلی بصری نزیل مدینہ سکینہ

 

وقفت علی ھذا المجموع فالفیتہ مھندا سل علی من شق عصاالجماعۃ معزا لا عن السنۃ میں اس تالیف پر واقف ہوا تو اسے ایک تیغ ہندی پایا، کھینچی گئی اس پر جس نے جماعت کا خلاف کیا اور سنت سے کنارہ کش ہوا۔  اشار برقمہ الی الشیخ الاجل الورع الفقیہ الزاھد مولٰنا عبدالجبار الحنبلی البصری نزیل المدینۃ المنورۃ متع اﷲ المسلمین ببقائہ اٰمین۔

 

                                               

 

شرح دستخط حضرت مولٰنا السید ابراہیم بن الخیار شافعی مفتی مدینہ امینہ

 

 

کم طالعت بعد ما اطلعت ردوالعلماء الاجلۃ علی الفرقۃ الضالۃ المضلۃ فما رأیت مثل ھذا الرسالۃ، میں نے جب سے اطلاع پائی اس فرقہ گمراہ پر علمائے جلیل کے بہت رَد دیکھے مگر اس رسالہ کا مثل نظر سے نہ گزرا۔  قال بفمہ ورقمہ بقلمہ خادم العلم بالحرم النبوی الشافعی ابراھیم ابن المرحوم محمد خیار الحسنی الحرمی۔

 

الحمدُ اﷲ علٰی حصول المسئول وبلوغ نھایۃ المامول فقیر عبدالمصطفی احمد رضا سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی نے اس رسالہ کا مسوّدہ اوائل رجب ۱۱۳۰۵ھ میں کیا پھر بوجہ عروض بعض اعراض و اہتمام دیگر اغراض مثل تحریر مسائل وتصنیف بعض دیگر  رسائل جن کی ضرورت اہم نظر آئی اس کی تبییض نے تاخیر پائی، اب بحمد اﷲ بعنایت الٰہی واعانت حضرت رسالت پناہی علیہ افضل الصلٰوۃ والسلام وعلٰی آلہٖ وصحبہ الکرام سلخ شعبان سند مذکورہ کو وقت عصریہ مسودہ مبیضہ ہوا اور اثنائے تبییض میں سرکار مفیض سے فیوض تازہ کا افاضہ ہوا۔ والحمد اولا واٰخرا وباطنا وظاھرا وصلی اﷲ تعالٰی سیدنا مولٰنا محمد واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ وعلینا بھم وبارک وسلم تسلیما کثیرا نسأل اﷲ تعالٰی ان یتقبل سعینا ویغفرلنا ذنوبنا ویرحم فاقتتنا ویحیینا مسلمین ویمیتنا مومنین ویحشونا فی زمرۃ الصالحین وان ینفع بھذا التالیف وسائر تصانیفی جمیع اخوانی فی الدین۔ انہ سمیع قریب قدیر مجیب والحمد ﷲ رب العٰلمین۔ اور اول و آخر، باطن وظاہر میں خدا ہی کے لیے حمد ہے۔ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد، ان کی آل واصحاب، ان کے فرزند، ان کی جماعت پر، اور ان کے طفیل ہم  پر بھی خدا کا درود، برکت اور بکثرت سلام ہو، اللہ تعالٰی سے ہماری دعا ہے کہ ہماری کوشش قبول فرمائے، ہمارے گناہ بخشے۔ ہماری محتاجی پر رحم فرمائے۔ ہمیں اسلام کے ساتھ زندگی اور ایمان کے ساتھ موت نصیب کرے، صالحین کی جماعت میں ہمارا حشر فرمائے اور اس تالیف سے اور میں دوسری تصانیف سے میرے تمام دینی بھائیوں کو فائدہ پہنچائے۔ بیشک وہ سننے والا قریب، قدرت والا مجیب ہے، اور سب خوبیاں خدا کے لیے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ (ت) تمت وبالخیر عمّت  (رسالہ تمام ہوا اور خیرکے ساتھ عام ہوا۔ ت)

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

تکمیل جمیل وتسجیل جلیل چند فوائد عالیہ کی یاددہانی میں

 

حامدا ومصلیا ومسلما ہر چند یہ فوائد وہی ہیں جن کا ثبوت مباحث رسالہ میں گزرا مگر کتاب میں ان کے لیے کوئی فصل معین نہ تھی متفرق مواقع پر واقع ہوئے لہذا ان کے مہتم بالشان ہونے نے چاہا کہ یہاں ان کے مواضع پر مطلع کردیا جائے۔

فائدہ اولٰی: اس مسئلہ میں خلاف کرنے والے بدعتی گمراہ ہیں، دیکھو (قول ۱۵/۱) کہ ادراکاتِ موتٰی کا انکار مذہب معتزلہ ہے، (قول۱۸/ ۲) کہ بعض معتزلہ رافضی جمادیت موتٰی سے سند لائے، (قول۱۹/۳ ) کہ میّت کا جماد ہونا مذہب اعتزال ہے (قول۲۵/۴) کہ علم موتٰی کا منکر نہ ہوگا مگر حدیثوں سے جاہل ہے اور دین سے منکر، (قول ۱۹۹/۵ و ۲۰۰/۶) کہ علم وسمع وبصر موتٰی پر تمام اہل سنت وجماعت کا اجماع ہے۔ پرظاہر کہ ان کے اجماع کا مخاطب نہ ہوگا بد مذہب گمراہ۔

 

فائدہ ثانیہ:اہل قبور کے زائروں کو دیکھتے پہچانتے، ان کا کلام سنتے، سلام لیتے، جواب دیتے ہیں، یہ بات ہمیشہ ہے اس میں کسی دن کی تخصیص نہیں، جمعہ وغیر جمعہ سب یکساں، نہ کسی وقت کی خصوصیت ،ہاں جمعہ کے دن خصوصاً صبح کو معرفت ترقی پر ہوتی ہے۔ دیکھو (قول ۶۶/۱  و  ۶۹/۲  و ۸۰ /۳  و  ۸۱/۴  و  ۸۲/۵  و حاشہ قول ۸۱/۶) اور خود وہ تمام احادیث اور صدہا اقوال کہ فصول مقاصد دوم سوم میں اس مطلب پر منقول ہوئے کہ اپنے اطلاق وارسال سے اس عموم واطلاق کی دلیل کافی ہیں کما مرت الاشارۃ الیہ فی الکتاب  (جیسا کہ کتاب میں اس کی طرف اشارہ گزرا۔ ت)

 

فائدہ ثالثہ: ارواح مومنین کو اختیار ہوتا ہے کہ زمین وآسمان میں جہاں چاہیں جائیں، سیر کرتی، جولان فرمائیں، دیکھو (حدیث ۱/۱  و  ۹/ ۲ و قول ۱۳/۳  و  مقال ۶/۴) یہاں تک کہ بیداری میں اپنے مخلصین سے ملتے فیض بخشتے ہیں (مقال۷۰/۵  و  ۷۱/۶) ناتواں بیماروں کو پانی پلاتے ، کپڑا اُڑھاتے ہیں (مقال۷۲/۷) جہادوں میں شرکت فرماتے ہیں (مقال۱۵/۵) دوستوں کی مدد، دشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں (مقال۳۷/۹) یہاں تک کہ شرح سنن نسائی شریف میں تصریح فرمائی کہ روح کا جسم کا سا نہیں وہ ایک وقت میں چند جگہ ہو سکتی ہے (قول۷۹) میں کہتا ہوں اولیائے احیاء کی حکایات منقول کہ ایک وقت میں ستر جگہ تشریف فرما ہوتے تھے پھر بعد وصال کہ روح اپنی آزادی و ترقی کامل پر ہوتی ہے اس وقت کے افعال کا کہنا ہی کیا ہے۔ زہر الربی میں ہمیں یہ بھی نقل فرمایا کہ ایمان والوں کے دل اسے بے تکلف قبول کرسکتے ہیں کہ جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والسلام جب خدمت حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوتے سدرۃ المنتہٰی سے جدا نہ ہوتے ہوں بلکہ اسی آن میں یہاں بھی ہوں اور وہاں بھی العبارۃ  (عہ) علی الحاشیۃ  (عبارت حاشیہ میں ہے۔ ت)

 

عہ:  ھذا جبریل علیہ السلام راٰہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ولہ ست مائۃ جناح، منہا جناحان سدا الافق وکان یدنو  من النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، حتی یضع رکبتیہ علٰی رکبتیہ ویدیہ علی فخذیہ وقلوب المخلصین تتسع للایمان بانہ من الممکن انہ کان ھذا الدنو  و ھو فی مستقرہ من السمٰوٰت وفی الحدیث فی رؤیۃ جبریل فرفعت راسی فاذا جبریل صاف قدمیہ بین السماء والارض یقول یا محمد انت رسول اﷲ وانا جبریل فجعلت لا اصرف بصری الٰی ناحیۃ الا رأیتہ کذالک ۱؎۱۲ (م) یہ جبریل علیہ السلام ہیں جنھیں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس حالت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو(۶۰۰) پر ہیں جن میں سے دو(۲) پروں نے سارا افق بھر دیا ہے، اور وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قریب آتے یہاں تک کہ اپنے زانوں حضور کے زانوؤں سے ملا کر اور اپنے ہاتھ حضور کی رانوں پر رکھتے ۔ اور مخلصین کے دل اس بات پر ایمان کی وسعت رکھتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ قرب اسی حال میں ہو جب وہ آسمان کے اندر اپنے مستقر میں موجود ہوں، اور حدیث میں حضرت جبریل کو دیکھنے کے بارے میں ہے : میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ جبریل آسمان وزمین کے درمیان اپنے قدموں پر صف بستہ کہہ رہے ہیں اے محمد! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبریل ہوں، پھر جس طرف بھی نگاہ پھیرتا انھیں اسی کیفیت میں دیکھتا۔ (ت)

 

 (۱؎ زہر الربی علٰی سنن النسائی    کتاب الجنائز ارواح المؤمنین    نور محمد کار خانہ تجارت کتب کراچی    ۱/۲۹۲)

 

پھر سفہائے غافلین کا خود حضور پر نور روح القسط روح القدس روح الارواح صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت یہ جاہلانہ وسوسہ کہ اگر وہ کسی مجلس میں تشریف لائیں تو پیش ازقیامت مرقد اطہر سے خروج لازم ہو،ا ور چاہئے کہ اس وقت روضہ انور خالی رہ جائے، محض حماقت ہے۔

اولاً :وہ روح کا جسم پر قیاس اور زندان وہم میں سلطان عقل کا احتباس۔

ثانیاً: ہوشمندوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ روحیں تو عوام مومنین کی بھی قبور میں محبوس نہیں رہتیں بلکہ اپنے اپنے مراتب کے لائق علیین یا جنت یا آسمان یا چاہ زمزم وغیرہ میں ہوتی ہیں، جسے علمائے کرام یہاں تک کہ شاہ عبدالعزیز صاحب نے بھی تفسیر عزیزی (عہ) میں مفصلاً ذکر کیا:

 

عہ:  مقام علیین بلائے ہفت آسمان است و پائیں آن متصل بہ سدرۃ المنتہٰی وبالائے آن متصل بپایہ راست عرش مجید است و  ارواح نیکاں بعد از قبض در آن جا می رسند ومقربان یعنی انبیاء واولیاء درآن مستقرمی مانند و عوام  صلحا را بعد از نویسا نیدن نام و رسانیدنامہائے اعمال بر حسب مراتب در آسمان دنیا یا درمیان آسمان و زمین یا در چاہ زمزم قرار می دہند و تعلقے بقبر نیز  اٰن ارواح رامی باشند ۱؎۔ آخر عبارتک کہ مقال ۷ میں گزری ۱۲ از تفسیر عزیزی (م) علیین ساتوں آسمان کے اوپر ہے اس کا زیریں حصہ سدرۃ المنتہٰی سے متصل ہے اور بالائی حصہ عرش مجید کے دائیں پائے سے متصل ہے، نیکوں کی روحیں قبض ہونے کے بعد وہاں پہنچتی ہیں اور مقربین یعنی انبیاء واولیاء اس مستقر میں رہتے ہیں، اور عام صالحین کو درج کرانے اور اعمال نامے  پہنچ جانے کے بعد حسبِ مراتب آسمان دنیا، یا درمیان آسمان و زمین یا چاہ زمزم میں جگہ دیتے ہیں اور ان کو قبر سے بھی ایک تعلق رہتا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ تفسیرعزیزی     پارہ عم     زیر آیۃ ان کتاب الابرار لفی علیین    مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی    ص۱۹۳)

 

ثالثاً یہ اعتراض بعینہٖ ان احادیث کثیرہ پر بھی وارد جن میں صریح تصریح کہ ارواح مومنین بعد انتقال جہاں چاہیں سیر کرتی ہیں، لازم کہ جب وہ سیر کو جائیں قبریں خالی رہ جائیں اور قیامت سے پہلے حشر  ہوجائے مگر جہل و تعصب  جو نہ کرائیں وہ غنیمت ہے، چند سال ہوئے فقیر کے پاس ایک سوال آیا زید کہتا ہے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روضہ انور سے جہاں چاہتے ہیں تشریف لے جاتے ہیں، عمرو  منکر ہے انا ﷲ ونا الیہ راجعون، فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے اس کے جواب میں مفصل فتوٰی لکھا اور وہاں اس سیر  و اختیار کو شہداء وغیر شہداء عام مومنین کی ارواح کے لیے بہت حدیثوں سے ثابت کیا اور کلمات علمائے دین سے اس کے وقائع کئے۔ یہ فتوٰی فقیر کی مجلد ششم فتاوٰی مسمی بہ العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویۃ میں منسلک ۔ والحمد للہ رب العلمین

 

فائدہ رابعہ بغایت نافعہ:ارواح طیبہ کے نزدیک دیکھنے سننے میں دور و نزدیک سب یکساں ہے یہ ایک مطلب نفیس وجلیل وعظیم الفائدہ ہے جس کی طرف توجہ خاص لازم۔ دیکھو (قول۶۵/۱) کہ اولیاء احیاء نور خدا سے دیکھتے ہیں، اور نور خدا کو کوئی چیز حاجب نہیں، پھر اموات کا کیا کہنا (قول۶۹/۲) کہ قبر سے نزدیکی تو جمعہ کو ہوتی ہے اور ادراک وشناخت دائمی (قول۷۸/۳ و ۸۶/۴) کہ روح جنت یا آسمان یا علیین میں رفیق اعلٰی میں ہوتی ہے اور وہیں سے زائر کی آواز سنتی ہے جواب دیتی، ادراک کرتی، اپنے بدن سے کام لیتی ہے۔ پھر کون بتا سکتا ہے کہ زمین سے جنت تک کَے لاکھ کَے کروڑ منزل کا فاصلہ ہے نہ کہ بریلی سے بغداد یا ہند سے مدینہ صلی اللہ تعالٰی علٰی مالکہا وآلہٖ وبارک وسلم، (قول۱۱۳/۵ و ۱۱۴/۶) ارواح کے آگے کچھ پردہ نہیں اور انھیں سارا جہاں یکساں ہے (قول۱۸۷/۷ و ۱۸۸/۸ و۱۸۹ /۹) کہ ارواح قدسیہ سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے سامنے حاضر ہے (مقال۷/۱۰) شاہ عبدالعزیز صاحب کا قول کہ ر وح کو قرب وبُعد مکانی اس دریافت کا حاجب نہیں اس کا حال نگاہ کے سامنے کہ کنویں کے اندر سے ساتوں آسمان کے ستارے دیکھ سکتی ہے۔ یہی معنی ہیں ارشاد عالی دو امام اہلبیت طہارت، دو فرزند ریحانین، رسالت حضرت امام اجل زین العابدین علی بن حسین شہید کرب وبلاو حضرت امام حسن مثنٰی ابن امام اکبر سیدنا حسن مجتبٰی صلوات اللہ وسلامہ علٰی ابیہم الکریم وعلیہم کے کہ زائرین مزار اقدس سے فرمایا :

 

انتم ومن فی الاندلس سواء۔ حکاہ فی جذب القلوب وغیرہ۔ تم اور جو اندلس میں بیٹھے ہیں برابر ہیں (اسے جذب القلوب وغیرہ میں بیان کیاگیا ہے۔ ت)

سوال ۶میں حدیث گزری کہ اللہ تعالٰی کا ایک فرشتہ ہے جو روضہ اقدس پر کھڑا تمام جہانوں کی آوازیں سنتا ہے معلوم ہوا کہ یہ خاصہ ملزومہ الوہیت نہیں بلکہ بندے کو اس کا حصول ممکن اور زیر قدرت الٰہی داخل پھر کسی کے لیے اس کا اثبات شرک ہونا عجب تماشا ہے۔ فقیر غفراللہ تعالٰی لہ نے اس کی تحقیق تام اپنے رسالہ سلطنۃ المصطفی فی ملکوت کل الورٰی میں ذکر کی وباللہ التوفیق۔

 

فائدہ خامسہ: ولہذا ان کی امداد ہر جگہ جاری، کچھ نزدیکوں پر منحصر نہیں ، اور اسی لیے ان سے استمداد اور ان کی ندا میں بھی حضور مزار غیر مشروط بلکہ جہاں سے چاہو صحیح و درست ہے اگر چہ حضور مزارات میں نفع اتم و زائد ہے دیکھو (قول۱۳/۱ و ۱۱۴/۲) غور کرو ائمہ مجتہدین کے  پیر و تمام ملک خدا میں کہاں سے کہاں تک پھیلے ہیں پھر وہ کیونکر ہر شخص کی ہر مشکل وآفت میں مدد فرماتے اور دائماً خبر گیراں رہتے ہیں، اس طرح حضرات اولیائے کرام

اپنے مریدان سلاسل کے ساتھ ، دیکھو (قول۹۷/۳) خود سیدی احمد زروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: جب کوئی مصیبت آئے یا زروق (عہ)کہہ کر پکار میں فوراً مدد کو  آؤں گا دیکھو  (قول۱۶۳/۴) اورشاہ عبدالعزیز صاحب کا قول ،

 

عہ :  فائدہ جلیلہ: علامہ زیادی پھر علامہ اجہوری پھرعلامہ داؤدی پھر علامہ شامی فرماتے ہیں: جس کی کوئی چیز گم جائے مکان بلند پر رو بقبلہ کھڑ ے ہوکر فاتحہ پڑھے اور اس کا ثواب حضور اقدس سید عالم  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نذر کرے پھر اس کا ثواب سیدی احمد بن علوان یمنی قدس سرہ العزیز کی خدمت میں ہدیہ کرے ا سکے بعد یوں عرض سا ہو کہ : یا سیدی احمد یا ابن علوان! میری گمی ہوئی چیز مجھے مل جائے الخ۔ ردالمحتار حاشیہ درمختار کے منہیہ میں ہے : قررالزیادی ان الانسان اذا اضاع لہ شیئ و ارادان یرد اﷲ سبحانہ علیہ فلیقف علی مکان عال مستقبل القبلۃ ویقرء الفاتحۃ ویہدی ثوابھا للنبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ثم یھدی ثواب ذلک لسیدی احمد بن علوان ویقول یا سیدی احمد یا ابن علوان ان لم ترد علی ضالتی و الا نزعتک من دیوان الاولیاء فان اﷲ تعالٰی یرد علی من قال ذلک ضالہ ببرکتہ اجہوری مع زیادۃ کذا فی حاشیۃ شرح المنھج للداؤدی رحمہ اﷲ تعالٰی انتھی  ۱۲ (م) زیادی نے بیان کیا ہے کہ جب کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے تو کسی اونچی جگہ پر قبلہ رو کھڑا ہوجائے ، فاتحہ پڑھے اور اس کا ثواب نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ہدیہ کرے پھر اس کاثواب سیدی احمد بن علوان کو ہدیہ کرے اور عرض گزار ہو کہ سیدی احمد، یاابن علوان ! اگر آپ نے میری گم شدہ چیز واپس نہ کرائی تو دفتر اولیاء سے آپ کا نام نکلوا دوں گا، اللہ تعالٰی یہ کہنے والے کو اس کی گم شدہ چیز  ان کی برکت سے واپس دلادے گا ____ اجہوری باضافہ اس طرح داؤدی رحمۃ اللہ تعالٰی کی شرح منہج  میں ہے ۱۲(ت)

 

 (۱؂ ردالمحتار                کتاب اللقطۃ دار احیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۲۴)

 

دیکھو (مقال۸۸/۵) شاہ ولی اللہ کہتے ہیں گھر بیٹھے ارواح طیبہ کی طرف توجہ کرو، دیکھو (سوال۱۲/۶) مزرا مظہر صاحب عارضہ جسمانی میں حضرت مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ کی طرف اور مشکل باطنی میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جانب توجہیں کرتے ادھر سے امداد فرمائی جاتی دیکھو (سوال۱۷/۷ و مقال۳۲ /۸) گھر بیٹھے قصائد سناتے ارواح عالیہ سے نوازشیں پاتے دیکھو (سوال۱۸/۹ و مقال۱۰/۱۰) حضور  پر نور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت کہا حضور کے جس متوسل سے ملاقات ہوئی توجہ والا اس کے حال پر مبذول پائی دیکھو (مقال۳۳/۱۱) مغلوں کا بیان کہ جنگل میں سوتے وقت اپنا مال حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ العزیز کی حمایت میں سونپتے ہیں اس پر غیب سے مدد پاتے ہیں دیکھو (مقال۳۴/۱۲ ) ہر شہر میں بندگانِ خدا ولایت قطبیت کے مراتب پاتے ہیں پھر کیونکر ان سب کو  وہ فیض حضرت ائمہ اطہار و حضور غوث الثقلین رضی اللہ تعالٰی عنہم عطافرماتے ہیں۔ دیکھو (مقال۳۸/۱۳  و ۳۹ /۱۴  و  ۴۰/۱۵  و ۴۱ /۱۶  و ۴۲ /۱۷  و  ۴۳/۱۸  و ۴۴ /۱۹  و ۴۵ /۲۰  و  ۶۴/۱۱ ) سلطنتیں اور امانتیں کسی ملک میں و شہرمیں نہیں ہوتیں پھر ان سب میں حضرت مولٰی مشکل کشا کا توسط کیونکر ہوتا ہے دیکھو (مقال۱۸/۲۲) حضور غوث اعظم رضی للہ تعالٰی نے شیخ ابوالرضا کوا سرار تعلیم فرمائے دیکھو (مقال۷۰/۲۳  و  ۷۱/۲۴) یہ  ایک عجوزہ کو پانی پلا کر لحاف اڑھا کر غائب ہوگئے، دیکھو (مقال۷۲/۲۵) حضور غوث اعظم و حضرت نقشبند رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اپنے مریدان سلسلہ کی تربیت فرمائی، دیکھو (مقال۷۶/۲۲  و  ۷۷/۲۷) اسمٰعیل دہلوی مدعی کہ دونوں ارواح طیبہ نے ان کے  پیر پر جلوہ فرمایا اور پِہِر بھر تک توجہ بخشی، دیکھو (مقال۷۸/۲۸) ولہٰذا یا رسول اللہ، یا علی، یا شیخ عبدالقادر جیلانی کہنا بے تخصیص مکان وقید زمان جائز ہوا اور شاہ ولی اللہ اور ان کے اکابر نے یا علی یا علی کا وظیفہ کیا، دیکھو ۱۶۰/۲۹ و ۱۶۱/۳۰ و ۱۶۲/۳۱  و مقال ۹۰/۳۲  و  ۹۱/۳۳  و  ۹۲/۳۴  و ۹۳/۳۵  و ۹۴/۳۶ و ۹۵/۳۷  و  ۹۶/۳۸  و  ۹۷/۳۹  و  ۹۸/۴۰  و  ۹۹/۴۱ و ۱۰۰/۴۲  و  ۱۰۱/۴۳  و  ۱۰۲/۴۴  و  ۱۰۳/۴۵  و ۱۰۴/۴۶۔ مسلمان ان فوائد سے غفلت نہ کرے کہ بہت نافع ہیں اور ضلالت سے مانع، واﷲ الھادی الٰی صراط مستقیم (خدا ہی سیدھے راستے کی ہدایت دینے والا ہے۔ ت)

 

تنبیہ: یہ مواضع بعیدہ سے استمداد کا مسئلہ بجائے خود ایک مستقل تالیف کے قابل ہے جس کی تائید میں خود حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بہت احادیث اور خاص تصریح میں حضرت عبداللہ بن عباس و عبداللہ بن عمر و عثمان بن حنیف وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم کے آثار اور علاوہ ان چھیالیس(۴۶) مصرحوں، تیرہ(۱۳) مویدوں کے جن کی طرف فائدہ خامسہ و رابعہ میں ایما ہوا بہت ائمہ دین وعلمائے معتمدین و کبرائے خاندان عزیزی کے اقوال اس وقت میرے پیش نْظر جلوہ گر رہے ہیں عجب نہیں کہ حضرت جل وعلا کا ارادہ ہو تو فقیر اپنے رسائل کثیرہ کی تتمیم وتبییض سے فارغ ہو کر خاص اسباب میں ایک جامع رسالہ ترتیب دے اور ان سب احادیث و اقوال ماضیہ وآیۃ کو فراہم کرکے تحقیقات سلطنۃ المصطفی وغیرہا میں اقامت تازہ کا اضافہ کرے واﷲ الموفق وبہ نستعین والحمد ﷲ رب العٰلمین  (اور خدا ہی توفیق دینے والا ہے۔ اور اسی سے ہم مدد مانگتے ہیں اور تمام تعریف اللہ کے لیے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ ت)

 

تذییل

 

نواب صدیق حسن خان بہادر شوہر ریاست بھوپال رسالہ تقصار جیود الاحرار میں تصریح کرتے ہیں کہ غوث الثقلین وغوث اعظم وقطب الاقطاب کہنا شرک سے خالی نہیں، میں کہتا ہوں نواب بہادر نے یہاں خدا جانے کس خیال سے ایسا گرا ہوا لفظ لکھا ورنہ بیشک تمام وہابیہ پر فرض قطعی کہ صرف لفظ غوث کہنے پر خالص شرک جلی کاحکم لگائیں، غوث اعظم و غوث الثقلین تو بہت اجل و اعظم ہے، آخر غوث کے کیا معنی فریاد کو  پہنچنے والا، جب ان کے نزدیک استمداد فریاد شرک، تو فریاد رس ، کہنا کیونکر شرک صریح نہ ہوگا، اب دیکھئے کہ ان حضرات کے طور  پر کون کون مشرک ہوگیا، قاضی ثناء اللہ پانی پتی ومیاں اسمٰعیل دہلوی نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو غوث الثقلین لکھا، دیکھو (مقال۳۸و  ۷۸) شاہ ولی اللہ امام معتمد اور شیخ ابوالرضاء ان کے جدّ امجد اور مرزا جانجاناں انکے ممدوح اوحد، اورا ن کے پیر سلسلہ شیخ عبدالاحد نے غیاث الدارین حضور غوث الثقلین کو غوث اعظم کہا، دیکھو (مقال۶۱، ۷۰، ۷۱، ۷۶،۷۷) شاہ عبدالعزیز صاحب نے تفسیر عزیز ی میں فرمایا : برخے از اولیاء مسجود خلائق ومحبوب دلہا گشتہ اند مثل حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ وسلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء قدس اللہ تعالٰی سرہما۔۱؎ کچھ اولیاء خلائق کے مسجود اور دلوں کے محبوب ہوگئے ہیں جیسے حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اور سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء قدس اللہ تعالٰی سرّھما (ت)

 

 (۱؎ تفسیری عزیزی     پارہ عم       سورۃ الم نشرح      مسلم بک ڈپو لال کنواں دہلی    ص۳۲۲ )

 

تنبیہ: ذرا  یہ ''مسجود خلائق'' کا لفظ بھی پیش نظر رہے جس نے شرک کا پانی سر سے گزاردیا، میاں اسمٰعیل نے صراط مستقیم  میں کہا : طالبان نافہم میدانندکہ مانیزہم پائیہ حضرت غوث الاعظم شدیم ۲؎ ۔ نافہم طالب یہ سجھتے ہیں کہ ہم بھی غوث الاعظم کے ہم پایہ ہوگئے۔ (ت)

 (۲؎ صراط مستقیم   تکملہ  دربیان  سلوک ثانی راہ ولایت    مکتبہ سلفیہ لاہور     ص۱۳۲)

 

انھیں بزرگوار نے حضرت خواجہ قطب الحق والدین بختیار کاکی قدس سرہ العزیز کو قطب الاقطاب لکھا، دیکھو (مقال۷۹) اور ہاں مولوی اسحق صاحب تو  رہے ہی جاتے ہیں جنھوں نے مائۃ مسائل کے جواب سوال دہم کہا: ''ولایت وکرامت حضرت غوث الاعظم قدس سرہ ۳؎'' غرض مذہب کوطائفہ عجب مذہب ہے جس کی بناء پر تمام ائمہ وعمائد طائفہ بھی سو سو طرح مشرک کافربنتے ہیں، لا حول ولا قوۃ الاّ باﷲ العلی العظیم ۔

 (۳؎ مائۃ  مسائل    جواب سوال دہم    مسئلہ۹    مکتبہ توحید وسنت پشاور        ص۲۰ و ۲۱)

 

تنبیہ مہم واجب الملا حظہ ہر مسلم

 

الحمد ﷲ کلام نے ذروہ منتہٰی لیا اور بیان نے مسئلے کو  اس کا حق دیا ذلک من فضل اﷲ وعلی الناس ولکن اکثر الناس لا یشکرون  (یہ ہم پر اور لوگوں پر خدا کا ایک فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ ت)

اب  حضرات وہابیہ سے اتنا پوچھ لینا چاہیئے کہ اس مختصر رسالہ کے مقصد سوم نے علماء کے تین سو پانچ (۳۰۵) قول آپ کے گوش گزار کئے جن میں ایک سو انچاس(۱۴۹) علم و سمع وبصر موتٰی کے متعلق خاص، اور پانچ(۵) میں یہ کہ اولیاء کی کرامتیں بعد وصال بھی باقی ہیں ان ایک سو چون(۱۵۴) پر تو آپ کی سرکار سے شاید صرف حکم بدعت وضلالت ہو ، اگر چہ وہ  بھی بتصریح امام الطائفہ مثل محل اصل ایمان ہے۔ باقی کنتے رہے ایک سو اکاون(۱۵۱) اور تین قول ابھی ابھی اسی تکملہ کے فائدے میں تازہ مذکور ہوئے۔ یہ پھر ایک سو چون(۱۵۴) ہوگئے جن کے مفاد مقاصد کی تفصیل اس جدول سے ظاہر۔

 

                                               

 

اب ان کی نسبت ارشاد ہو وہ ایک سو چون(۱۵۴) بدعت تھے،  یہ ایک سو چون آپ کے مذہب میں خالص شرک، اور ان کے قائل ائمہ و افاضل عیاذاً باﷲ پکے مشرک ٹھہریں گے  یا نہیں، اگر کہئے نہ ( خدا کرے ایسا ہی ہو) تو الحمد اللہ کہ ہدایت پائی اور کفر و شرک کی تیز وتند کہ مدتوں سے بیرنگ چڑھی تھی اتار  پر آئی، رب قدیر کو ہدایت فرماتے کیا دیر لگتی ہے۔ آخر کلمہ پڑھتے ہو، شاید پاس اسلام کچھ جھلک دکھا جائے، اور محبوبان خدا و ائمہ ہدی کو معاذاللہ کافر و مشرک کہتے جگر تھرائے،  ان ذلک علی اﷲ یسیر ان اﷲ علی کل شیء قدیر  ( بیشک وہ خدا پر آسان ہے یقینا اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ ت) اور اگر شاید اصرار مذہب وتعصب مشرب آڑے آئے، اور بے دھڑک آپ کے منہ سے ہاں نکل جائے، توآپ صاحبوں سے تو اتنا عرض کروں گا کہ حضرات! جنھیں آپ نے مشرک کہہ دیا ذرا نگاہ رُر برُو ان میں شاہ ولی اللہ و شاہ عبدالعزیز صاحبان اور ان کے اسلاف واخلاف یہاں تک کہ خود بانی مذہب امام اطائفہ مولوی اسمٰعیل دہلوی بھی ہیں، اب ان کی نسبت تصریحا استفسار، اگر یہاں جھجکے تو کہوں گا کیوں صاحب! اسی بات پر ائمہ ہُدٰی تو  پناہم بخدا چنین وچناں ٹھہریں اور یہ حضرات مطلق العنان

کیا ان کے لیے کوئی وحی آگئی ہے کہ احکام الٰہی سے مستثنٰی رہیں، یا انھوں نے رحمان سے عہد لے لیا ہے کہ ان کی امامت میں بال نہ آئے اگر چہ شرک کے بول کہیں۔ اٰﷲ اذن لکم بھذا ام علی اﷲ تفترون ۱؎ مالکم کیف تحکمون ام لکم کتٰب فیہ تدرسون ان لکم فیہ لما تخیرون۲؎ کیا خدا نے تم کو اس کا اذن دیا ہے یا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو، تمھیں کیا ہوا تم کیسا حکم لگاتے ہو؟ یاتمھارے لیے کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو کہ اس میں تمھارے لیے وہ ہے جو تم پسند کرتے ہو۔ (ت)

 

 (۱؎ القرآن   ۱۰ /۵۹ ) (۲؎ القرآن        ۶۸ /۳۶ تا ۳۸)

 

اور اگر شاید بات کی پچ ایسی ہی آپڑی کہ یہاں بھی کُھل کر شرک کی جڑی  ؎ شادم کہ از قیباں دامن کشاں گزشتی         گومشت خام ماہم برباد رفتہ باشد  (میں خوش ہوں کہ تم رقیبوں سے دامن کھینچ کر نکل گئے، گو اس میں ہماری خاک بھی برباد ہوگئی۔ ت)

 

غرض اس تقدیر پر اپ سے زیادہ عرض کا کیا محل ہوگا جز این کہ سلام علیکم لا نبتغی الجاھلین۳؎  (سوائے اس کے کہ تم پر سلام ہم نادانوں کو نہیں چاہتے۔ ت)

 (۳؎ القرآن        ۲۸ /۵۵)

 

ہاں عوام اہلسنت کو بیدار کروں گا کہ بھائیوں! اب بھی وضوح حق میں کچھ باقی ہے جس نامہذب ناپاک مشرب کی روح سے صحابہ وتابعین وائمہ مجتہدین وعلمائے دینوی و اولیائے کاملین قرون ثلٰثہ سے لے کر آج تک سب کے سب معاذا للہ مشرک کافر بدعتی خاسر ٹھہریں ع ؎

 

مذہب معلوم واہل مذہب معلوم ظاہر ہے کہ وہ طائفہ تالفہ کیسا ہوگا اور اسے سنت وجماعت سے کتنا علاقہ، سبحان اللہ سنت جماعت کو شرک بتائیں، جماعت سنت کو مشرک ٹھہرائیں، پھر سنی ہونے کا دعوٰی بجا۔ کلا ورب العرش الاعلی قل جاء الحق وزھق الباطن ان الباطن کان زھوقا والحمد ﷲ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین، سبحانک الھم وبحمدک اشھد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک والحمد للہ رب العالمین عرش اعلٰی کے رب کی قسم، ہر گز نہیں! فرمادو حق آیا اور باطل مٹا، بیشک باطل مٹنا ہی تھا، ساری تعریف خدا کے لیے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔ اور درود سلام رسولوں کے سردار حضرت محمد اور ان کے آل واصحاب پر،  اے اللہ! تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتاہوں، ۔ میں گواہی دینا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے مغفرت کا طالب اور تیری بارگاہ میں تائب ہوں، اور سب خوبیاں سارے جہانون کے مالک اللہ کے لیے ہیں (ت)

 

Post a Comment

Previous Post Next Post