Imam Tirmizi Muqallid hain | Sunan Tirmizi se Suboot

Imam Tirmizi bhi Taqleed karte hain. Iska Suboot main yahan is Post me khud unhi ke Qalam se de raha hun. Imam Tirmizi ne apni Mashhur kitab Sunan Tirmizi me Hadeesen Jama ki aur unme bahot sare masail me Hadees ke hote hue unhone Ahle-Ilm (Abdullah Ibn Mubarak, Sufiyan Sawri, Ishaq bin Rahwiya) ke Aqwal aur Khususan Imam Malik aur Imam Shafayi ke qaul ki Roshni me masle ko bayan kiya hai.
Yehi to Taqleed hai ki Hadeeson ke itne bade Mahir Imam Tirmizi ne Maslon ko samajhne ke liye Imamo ka sahara kyun liya?
Kyunki wo Jante the ki Hadeesen chahe jitni bhi Yaad hon, Imam ki Taqleed karna zaruri hai. Magar aaj ke so called Ahlehadees unhi ki book padh kar unhi ki Hadeesen copy karke kehte hain ki Hame kisi Imam ki zarurat nahi hai.

Yahan main Sunan Tirmizi me maujud un Hadeeson ka collection pesh kar raha hun jisme unhone Imamo ke sahare se masail ko bayan kiya hai.

 

حدیث نمبر 1434:

حدثنا قتيبة , حدثنا هشيم , عن منصور بن زاذان , عن الحسن , عن حطان بن عبد الله , عن عبادة بن الصامت , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خذوا عني فقد جعل الله لهن سبيلا , الثيب بالثيب جلد مائة , ثم الرجم , والبكر بالبكر جلد مائة , ونفي سنة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم منهم , علي بن ابي طالب , وابي بن كعب , وعبد الله بن مسعود , وغيرهم قالوا: الثيب تجلد وترجم , وإلى هذا ذهب بعض اهل العلم وهو قول: إسحاق , وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم منهم , ابو بكر , وعمر , وغيرهما , الثيب إنما عليه الرجم , ولا يجلد , وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل هذا في غير حديث في قصة ماعز وغيره , انه امر بالرجم , ولم يامر ان يجلد قبل ان يرجم , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , وهو قول: سفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد.

عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(دین خاص طور پر زنا کے احکام) مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ۱؎ راہ نکال دی ہے: شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ملوث ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے، اور کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اہل علم صحابہ کا اسی پر عمل ہے، ان میں علی بن ابی طالب، ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود وغیرہ رضی الله عنہم شامل ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں: شادی شدہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں گے اور رجم کیا جائے گا، بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،

۳- جب کہ صحابہ میں سے بعض اہل علم جن میں ابوبکر اور عمر وغیرہ رضی الله عنہما شامل ہیں، کہتے ہیں: شادی شدہ زنا کار پر صرف رجم واجب ہے، اسے کوڑے نہیں لگائے جائیں گے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح دوسری حدیث میں ماعز وغیرہ کے قصہ کے سلسلے میں آئی ہے کہ آپ نے صرف رجم کا حکم دیا، رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا، بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی اور احمد کا یہی قول ہے

 

حدیث نمبر: 1539

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ عُمَرَ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , قَالَ: " أَوْفِ بِنَذْرِكَ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ , قَالُوا: إِذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ , وَعَلَيْهِ نَذْرُ طَاعَةٍ , فَلْيَفِ بِهِ , وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ , وقَالَ آخَرُونَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ عَلَى الْمُعْتَكِفِ صَوْمٌ , إِلَّا أَنْ يُوجِبَ عَلَى نَفْسِهِ صَوْمًا , وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ أَنَّهُ نَذَرَ أَنْ يَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ , فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْوَفَاءِ , وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.

عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد الحرام میں اعتکاف کروں گا، (تو اس کا حکم بتائیں؟) آپ نے فرمایا: ”اپنی نذر پوری کرو“ ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،

۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،

۳- بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی اسلام لائے، اور اس کے اوپر جاہلیت کی نذر طاعت واجب ہو تو اسے پوری کرے،

۴- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ بغیر روزے کے اعتکاف نہیں ہے اور دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ معتکف پر روزہ واجب نہیں ہے الا یہ کہ وہ خود اپنے اوپر (نذر مانتے وقت) روزہ واجب کر لے، ان لوگوں نے عمر رضی الله عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے جاہلیت میں ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا (اور روزے کا کوئی ذکر نہیں کیا)، احمد اور اسحاق کا بھی یہی قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 408

حدثنا احمد بن محمد بن موسى الملقب مردويه، قال: اخبرنا ابن المبارك، اخبرنا عبد الرحمن بن زياد بن انعم، ان عبد الرحمن بن رافع، وبكر بن سوادة اخبراه، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا احدث يعني الرجل وقد جلس في آخر صلاته قبل ان يسلم فقد جازت صلاته ". قال ابو عيسى: هذا حديث إسناده ليس بذاك القوي وقد اضطربوا في إسناده، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا، قالوا: إذا جلس مقدار التشهد واحدث قبل ان يسلم فقد تمت صلاته، وقال بعض اهل العلم: إذا احدث قبل ان يتشهد وقبل ان يسلم اعاد الصلاة، وهو قول الشافعي، وقال احمد: إذا لم يتشهد وسلم اجزاه، لقول النبي صلى الله عليه وسلم " وتحليلها التسليم والتشهد اهون، قام النبي صلى الله عليه وسلم في اثنتين فمضى في صلاته ولم يتشهد " وقال إسحاق بن إبراهيم: إذا تشهد ولم يسلم اجزاه، واحتج بحديث ابن مسعود حين علمه النبي صلى الله عليه وسلم التشهد، فقال: " إذا فرغت من هذا فقد قضيت ما عليك "، قال ابو عيسى: وعبد الرحمن بن زياد بن انعم هو الافريقي، وقد ضعفه بعض اهل الحديث منهم يحيى بن سعيد القطان , واحمد بن حنبل.

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی کو سلام پھیرنے سے پہلے «حدث» لاحق ہو جائے اور وہ اپنی نماز کے بالکل آخر میں یعنی قعدہ اخیرہ میں بیٹھ چکا ہو تو اس کی نماز درست ہے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں: /p>

۱- اس حدیث کی سند کوئی خاص قوی نہیں، اس کی سند میں اضطراب ہے،

۲- عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم، جو افریقی ہیں کو بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ ان میں یحییٰ بن سعید قطان اور احمد بن حنبل بھی شامل ہیں،

۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی تشہد کی مقدار کے برابر بیٹھ چکا ہو اور سلام پھیرنے سے پہلے اسے «حدث» لاحق ہو جائے تو پھر اس کی نماز پوری ہو گئی،

۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب «حدث» تشہد پڑھنے سے یا سلام پھیرنے سے پہلے لاحق ہو جائے تو نماز دہرائے۔ شافعی کا یہی قول ہے،

۵- اور احمد کہتے ہیں: جب وہ تشہد نہ پڑھے اور سلام پھیر دے تو اس کی نماز اسے کافی ہو جائے گی، اس لیے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «وتحليلها التسليم» یعنی نماز میں جو چیزیں حرام ہوئی تھیں سلام پھیرنے ہی سے حلال ہوتی ہیں، بغیر سلام کے نماز سے نہیں نکلا جا سکتا اور تشہد اتنا اہم نہیں جتنا سلام ہے کہ اس کے ترک سے نماز درست نہ ہو گی، ایک بار نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم دو رکعت کے بعد کھڑے ہو گئے اپنی نماز جاری رکھی اور تشہد نہیں کیا،

۶- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: جب تشہد کر لے اور سلام نہ پھیرا ہو تو نماز ہو گئی، انہوں نے ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس وقت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں تشہد سکھایا تو فرمایا: جب تم اس سے فارغ ہو گئے تو تم نے اپنا فریضہ پورا کر لیا۔

 

حدیث نمبر: 283

حدثنا حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، اخبرني ابو الزبير، انه سمع طاوسا، يقول: قلنا لابن عباس في الإقعاء على القدمين، قال: " هي السنة "، فقلنا: إنا لنراه جفاء بالرجل، قال: " بل هي سنة نبيكم صلى الله عليه وسلم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، لا يرون بالإقعاء باسا، وهو قول بعض اهل مكة من اهل الفقه والعلم، قال: واكثر اهل العلم يكرهون الإقعاء بين السجدتين.

طاؤس کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی الله عنہما سے دونوں قدموں پر اقعاء کرنے کے سلسلے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے، تو ہم نے کہا کہ ہم تو اسے آدمی کا پھوہڑپن سمجھتے ہیں، انہوں نے کہا: نہیں یہ پھوہڑپن نہیں ہے بلکہ یہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- صحابہ کرام میں بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ اقعاء میں کوئی حرج نہیں جانتے، مکہ کے بعض اہل علم کا یہی قول ہے، لیکن اکثر اہل علم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء کو ناپسند کرتے ہیں ۱؎۔

 

حدیث نمبر: 470

حدثنا هناد، حدثنا ملازم بن عمرو، حدثني عبد الله بن بدر، عن قيس بن طلق بن علي، عن ابيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا وتران في ليلة " قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، واختلف اهل العلم في الذي يوتر من اول الليل، ثم يقوم من آخره، فراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ومن بعدهم نقض الوتر، وقالوا: يضيف إليها ركعة ويصلي ما بدا له، ثم يوتر في آخر صلاته لانه لا وتران في ليلة، وهو الذي ذهب إليه إسحاق، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: إذا اوتر من اول الليل ثم نام ثم قام من آخر الليل فإنه يصلي ما بدا له ولا ينقض وتره ويدع وتره على ما كان. وهو قول: سفيان الثوري , ومالك بن انس , وابن المبارك , والشافعي واهل الكوفة واحمد، وهذا اصح، لانه قد روي من غير وجه، ان النبي صلى الله عليه وسلم " قد صلى بعد الوتر ".

طلق بن علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”ایک رات میں دو بار وتر نہیں“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،

۲- اس شخص کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے جو رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لیتا ہو پھر رات کے آخری حصہ میں قیام اللیل (تہجد) کے لیے اٹھتا ہو، تو صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کی رائے وتر کو توڑ دینے کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ وہ اس میں ایک رکعت اور ملا لے تاکہ (وہ جفت ہو جائے) پھر جتنا چاہے پڑھے اور نماز کے آخر میں وتر پڑھ لے۔ اس لیے کہ ایک رات میں دو بار وتر نہیں، اسحاق بن راہویہ اسی طرف گئے ہیں،

۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب اس نے رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لی پھر سو گیا، پھر رات کے آخری میں بیدار ہوا تو وہ جتنی نماز چاہے پڑھے، وتر کو نہ توڑے بلکہ وتر کو اس کے اپنے حال ہی پر رہنے دے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک، شافعی اور اہل کوفہ اور احمد کا یہی قول ہے۔ اور یہی زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ کئی دوسری روایتوں میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد نماز پڑھی ہے۔

 

حدیث نمبر: 472

حدثنا قتيبة، حدثنا مالك بن انس، عن ابي بكر بن عمر بن عبد الرحمن، عن سعيد بن يسار، قال: كنت امشي مع ابن عمر في سفر فتخلفت عنه، فقال: اين كنت؟ فقلت: اوترت، فقال: اليس لك في رسول الله اسوة، " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر على راحلته ". قال: وفي الباب عن ابن عباس، قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا، وراوا ان يوتر الرجل على راحلته، وبه يقول الشافعي , واحمد , وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: لا يوتر الرجل على الراحلة، وإذا اراد ان يوتر نزل فاوتر على الارض، وهو قول بعض اهل الكوفة.

سعید بن یسار کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں ابن عمر رضی الله عنہما کے ساتھ چل رہا تھا، میں ان سے پیچھے رہ گیا، تو انہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، انہوں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،

۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،

۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، ان کا خیال ہے کہ آدمی اپنی سواری پر وتر پڑھ سکتا ہے۔ اور یہی شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،

۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ آدمی سواری پر وتر نہ پڑھے، جب وہ وتر کا ارادہ کرے تو اسے اتر کر زمین پر پڑھے۔ یہ بعض اہل کوفہ کا قول ہے ۱؎۔

 

حدیث نمبر: 1422

حدثنا قتيبة , حدثنا الليث بن سعد , عن يحيى بن سعيد , عن بشير بن يسار , عن سهل بن ابي حثمة , قال يحيى: وحسبت عن رافع بن خديج , انهما قالا: خرج عبد الله بن سهل بن زيد , ومحيصة بن مسعود بن زيد , حتى إذا كانا بخيبر تفرقا في بعض ما هناك , ثم إن محيصة وجد عبد الله بن سهل قتيلا قد قتل فدفنه , ثم اقبل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم هو وحويصة بن مسعود , وعبد الرحمن بن سهل , وكان اصغر القوم ذهب عبد الرحمن ليتكلم قبل صاحبيه , قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كبر للكبر " , فصمت وتكلم صاحباه , ثم تكلم معهما , فذكروا لرسول الله صلى الله عليه وسلم مقتل عبد الله بن سهل , فقال لهم: " اتحلفون خمسين يمينا فتستحقون صاحبكم , او قاتلكم " , قالوا: وكيف نحلف ولم نشهد , قال: " فتبرئكم يهود بخمسين يمينا " قالوا: وكيف نقبل ايمان قوم كفار , فلما راى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطى عقله. حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا يحيى بن سعيد , عن بشير بن يسار , عن سهل بن ابي حثمة , ورافع بن خديج , نحو هذا الحديث بمعناه , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم في القسامة , وقد راى بعض فقهاء المدينة القود بالقسامة , وقال بعض اهل العلم من اهل الكوفة وغيرهم: إن القسامة لا توجب القود , وإنما توجب الدية.

سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی الله عنہما کہیں جانے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے، جب وہ خیبر پہنچے تو الگ الگ راستوں پر ہو گئے، پھر محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا، کسی نے ان کو قتل کر دیا تھا، آپ نے انہیں دفنا دیا، پھر وہ (یعنی راوی حدیث) حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، عبدالرحمٰن بن سہل ان میں سب سے چھوٹے تھے، وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے (اس معاملہ میں آپ سے) گفتگو کرنا چاہتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”بڑے کا لحاظ کرو، لہٰذا وہ خاموش ہو گئے اور ان کے دونوں ساتھیوں نے گفتگو کی، پھر وہ بھی ان دونوں کے ساتھ شریک گفتگو ہو گئے، ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبداللہ بن سہل کے قتل کا واقعہ بیان کیا، آپ نے ان سے فرمایا: ”کیا تم لوگ پچاس قسمیں کھاؤ گے (کہ فلاں نے اس کو قتل کیا ہے) تاکہ تم اپنے ساتھی کے خون بہا کے مستحق ہو جاؤ (یا کہا) قاتل کے خون کے مستحق ہو جاؤ؟“ ان لوگوں نے عرض کیا: ہم قسم کیسے کھائیں جب کہ ہم حاضر نہیں تھے؟ آپ نے فرمایا: ”تو یہود پچاس قسمیں کھا کر تم سے بری ہو جائیں گے“، ان لوگوں نے کہا: ہم کافر قوم کی قسم کیسے قبول کر لیں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ معاملہ دیکھا تو ان کی دیت ۱؎ خود ادا کر دی۔ اس سند سے بھی سہل بن ابو حثمہ اور رافع بن خدیج سے اسی طرح اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- قسامہ کے سلسلہ میں بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے،

۳- مدینہ کے بعض فقہاء قسامہ ۲؎ کی بنا پر قصاص درست سمجھتے ہیں،

۴- کوفہ کے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں: قسامہ کی بنا پر قصاص واجب نہیں، صرف دیت واجب ہے۔

 

حدیث نمبر: 1258

حدثنا احمد بن سعيد الدارمي، حدثنا حبان، حدثنا هارون الاعور المقرئ، حدثنا الزبير بن الخريت، عن ابي لبيد، عن عروة البارقي، قال: دفع إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم دينارا لاشتري له شاة، فاشتريت له شاتين، فبعت إحداهما بدينار، وجئت بالشاة والدينار إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فذكر له ما كان من امره، فقال له: " بارك الله لك في صفقة يمينك "، فكان يخرج بعد ذلك إلى كناسة الكوفة، فيربح الربح العظيم فكان من اكثر اهل الكوفة مالا. حدثنا احمد بن سعيد الدارمي، حدثنا حبان، حدثنا سعيد بن زيد، قال: حدثنا الزبير بن خريت فذكر نحوه، عن ابي لبيد. قال ابو عيسى: وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث، وقالوا به: وهو قول: احمد، وإسحاق، ولم ياخذ بعض اهل العلم بهذا الحديث منهم: الشافعي، وسعيد بن زيد اخو حماد بن زيد، وابو لبيد اسمه لمازة بن زبار.

عروہ بارقی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری خریدنے کے لیے مجھے ایک دینار دیا، تو میں نے اس سے دو بکریاں خریدیں، پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اور ایک بکری اور ایک دینار لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے تمام معاملہ بیان کیا اور آپ نے فرمایا: ”اللہ تمہیں تمہارے ہاتھ کے سودے میں برکت دے“، پھر اس کے بعد وہ کوفہ کے کناسہ کی طرف جاتے اور بہت زیادہ منافع کماتے تھے۔ چنانچہ وہ کوفہ کے سب سے زیادہ مالدار آدمی بن گئے۔ مؤلف نے احمد بن سعید دارمی کے طرق سے زبیر بن خریت سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

1-                     بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور وہ اسی کے قائل ہیں اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کو نہیں لیا ہے، انہیں لوگوں میں شافعی اور حماد بن زید سعید بن زید کے بھائی ہیں۔

 

حدیث نمبر: 1264

حدثنا ابو كريب، حدثنا طلق بن غنام، عن شريك، وقيس، عن ابي حصين، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " اد الامانة إلى من ائتمنك ولا تخن من خانك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث، وقالوا: إذا كان للرجل على آخر شيء فذهب به، فوقع له عنده شيء، فليس له ان يحبس عنه بقدر ما ذهب له عليه، ورخص فيه بعض اهل العلم من التابعين، وهو قول: الثوري، وقال: إن كان له عليه دراهم، فوقع له عنده دنانير فليس له، ان يحبس بمكان دراهمه إلا ان يقع عنده له دراهم فله حينئذ، ان يحبس من دراهمه بقدر ما له عليه.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے امانت لوٹاؤ ۱؎ اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ (بھی) خیانت نہ کرو“ ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،

۲- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کا کسی دوسرے کے ذمہ کوئی چیز ہو اور وہ اسے لے کر چلا جائے پھر اس جانے والے کی کوئی چیز اس کے ہاتھ میں آئے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس میں سے اتنا روک لے جتنا وہ اس کالے کر گیا ہے،

۳- تابعین میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے، اور یہی ثوری کا بھی قول ہے، وہ کہتے ہیں: اگر اس کے ذمہ درہم ہو اور (بطور امانت) اس کے پاس اس کے دینار آ گئے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے دراہم کے بدلے اسے روک لے، البتہ اس کے پاس اس کے دراہم آ جائیں تو اس وقت اس کے لیے درست ہو گا کہ اس کے دراہم میں سے اتنا روک لے جتنا اس کے ذمہ اس کا ہے۔

 

 

انبانا محمد بن عبد الرحيم البغدادي، انبانا علي بن بحر، انبانا هشام بن يوسف، عن معمر، عن عمرو بن مسلم، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان امراة ثابت بن قيس، اختلعت من زوجها على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، " فامرها النبي صلى الله عليه وسلم ان تعتد بحيضة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، واختلف اهل العلم في عدة المختلعة، فقال: اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، إن عدة المختلعة عدة المطلقة ثلاث حيض، وهو قول: سفيان الثوري، واهل الكوفة، وبه يقول احمد، وإسحاق، قال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، إن عدة المختلعة حيضة، قال إسحاق: وإن ذهب ذاهب إلى هذا فهو مذهب قوي.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ثابت بن قیس کی بیوی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنے شوہر سے خلع لیا ۱؎ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حیض عدت گزار نے کا حکم دیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،

۲- «مختلعہ» (خلع لینے والی عورت) کی عدت کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ «مختلعہ» کی عدت وہی ہے جو مطلقہ کی ہے، یعنی تین حیض۔ یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے اور احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،

۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ «مختلعہ» کی عدت ایک حیض ہے،

۴- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس مذہب کو اختیار کرے تو یہ قوی مذہب ہے ۲؎۔

 

حدیث نمبر: 1150

حدثنا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني، قال: حدثنا المعتمر بن سليمان، قال: سمعت ايوب يحدث، عن عبد الله بن ابي مليكة، عن عبد الله بن الزبير، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تحرم المصة ولا المصتان ". قال: وفي الباب، عن ام الفضل، وابي هريرة، والزبير بن العوام، وابن الزبير، وروى غير واحد هذا الحديث، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن الزبير، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا تحرم المصة ولا المصتان "، وروى محمد بن دينار، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن الزبير، عن الزبير، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وزاد فيه محمد بن دينار البصري، عن الزبير، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهو غير محفوظ والصحيح عند اهل الحديث، حديث ابن ابي مليكة، عن عبد الله بن الزبير، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: حديث عائشة، حديث حسن صحيح، وسالت محمدا عن هذا فقال: الصحيح، عن ابن الزبير، عن عائشة، وحديث محمد بن دينار وزاد فيه، عن الزبير، وإنما هو هشام بن عروة، عن ابيه، عن الزبير، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله ليه وسلم وغيرهم. (حديث موقوف) وقالت عائشة: انزل في القرآن " عشر رضعات معلومات "، فنسخ من ذلك خمس، وصار إلى خمس رضعات معلومات، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، والامر على ذلك. حدثنا بذلك إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن عبد الله بن ابي بكر، عن عمرة، عن عائشة بهذا، وبهذا كانت عائشة تفتي، وبعض ازواج النبي صلى الله عليه وسلم وهو قول: الشافعي، وإسحاق، وقال احمد بحديث النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تحرم المصة ولا المصتان "، وقال: إن ذهب ذاهب، إلى قول عائشة في خمس رضعات، فهو مذهب قوي وجبن عنه، ان يقول فيه شيئا، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: يحرم قليل الرضاع، وكثيره إذا وصل إلى الجوف، وهو قول: سفيان الثوري، ومالك بن انس، والاوزاعي، وعبد الله بن المبارك، ووكيع، واهل الكوفة عبد الله بن ابي مليكة هو عبد الله بن عبيد الله بن ابي مليكة ويكنى ابا محمد، وكان عبد الله، قد استقضاه على الطائف، وقال ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، قال: ادركت ثلاثين من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک بار یا دو بار چھاتی سے دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی“ ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،

۲- اس باب میں ام فضل، ابوہریرہ، زبیر بن عوام اور ابن زبیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،

۳- اس حدیث کو دیگر کئی لوگوں نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ایک یا دو بار دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی“۔ اور محمد بن دینار نے بطریق: «هشام بن عروة عن أبيه عن عبد الله بن الزبير عن الزبير عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، اس میں محمد بن دینار بصریٰ نے زبیر کے واسطے کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن یہ غیر محفوظ ہے،

۳- محدثین کے نزدیک صحیح ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے جسے انہوں نے بطریق: «عبد الله بن الزبير عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے،

۴- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح ابن زبیر کی روایت ہے جسے انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے اور محمد بن دینار کی روایت جس میں: زبیر کے واسطے کا اضافہ ہے وہ دراصل ہشام بن عروہ سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والد عروہ سے اور انہوں نے زبیر سے روایت کی ہے،

۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

۶- عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قرآن میں (پہلے) دس رضعات والی آیت نازل کی گئی پھر اس میں سے پانچ منسوخ کر دی گئیں تو پانچ رضاعتیں باقی رہ گئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو معاملہ انہیں پانچ پر قائم رہا ۲؎،

۷- اور عائشہ رضی اللہ عنہا اور بعض دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اسی کا فتویٰ دیتی تھیں، اور یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

۸- امام احمد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ”ایک بار یا دو بار کے چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی“ کے قائل ہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی عائشہ رضی الله عنہا کے پانچ رضعات والے قول کی طرف جائے تو یہ قوی مذہب ہے۔ لیکن انہیں اس کا فتویٰ دینے کی ہمت نہیں ہوئی،

۹- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رضاعت تھوڑی ہو یا زیادہ جب پیٹ تک پہنچ جائے تو اس سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔ یہی سفیان ثوری، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، وکیع اور اہل کوفہ کا قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 1255

حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابي شجاع سعيد بن يزيد، عن خالد بن ابي عمران، عن حنش الصنعاني، عن فضالة بن عبيد، قال: اشتريت يوم خيبر قلادة باثني عشر دينارا فيها ذهب، وخرز ففصلتها، فوجدت فيها اكثر من اثني عشر دينارا. فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " لا تباع حتى تفصل ". حدثنا قتيبة، حدثنا ابن المبارك، عن ابي شجاع سعيد بن يزيد، بهذا الإسناد نحوه. قال ابو عيسى 12: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، لم يروا ان يباع السيف محلى، او منطقة مفضضة، او مثل هذا بدراهم حتى يميز ويفصل، وهو قول: ابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقد رخص بعض اهل العلم في ذلك من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم.

فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے دن بارہ دینار میں ایک ہار خریدا، جس میں سونے اور جواہرات جڑے ہوئے تھے، میں نے انہیں (توڑ کر) جدا جدا کیا تو مجھے اس میں بارہ دینار سے زیادہ ملے۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”(سونے اور جواہرات جڑے ہوئے ہار) نہ بیچے جائیں جب تک انہیں جدا جدا نہ کر لیا جائے“۔ اسی طرح مؤلف نے قتیبہ سے اسی سند سے حدیث روایت کی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ چاندی جڑی ہوئی تلوار یا کمر بند یا اسی جیسی دوسرے چیزوں کو درہم سے فروخت کرنا درست نہیں سمجھتے ہیں، جب تک کہ ان سے چاندی الگ نہ کر لی جائے۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔

۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے۔

 

حدیث نمبر: 1543

حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، عن هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي قلابة، عن ثابت بن الضحاك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حلف بملة غير الإسلام كاذبا، فهو كما قال "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد اختلف اهل العلم في هذا إذا حلف الرجل بملة سوى الإسلام، فقال: هو يهودي، او نصراني، إن فعل كذا وكذا، ففعل ذلك الشيء، فقال بعضهم: قد اتى عظيما ولا كفارة عليه، وهو قول اهل المدينة، وبه يقول مالك بن انس، وإلى هذا القول ذهب ابو عبيد، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين وغيرهم: عليه في ذلك الكفارة، وهو قول سفيان، واحمد، وإسحاق.

ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائی وہ ویسے ہی ہو گیا جیسے اس نے کہا“ ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جب کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی قسم کھائے اور یہ کہے: اگر اس نے ایسا ایسا کیا تو یہودی یا نصرانی ہو گا، پھر اس نے وہ کام کر لیا، تو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس نے بہت بڑا گناہ کیا لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہے، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، مالک بن انس بھی اسی کے قائل ہیں اور ابو عبید نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے،

۳- اور صحابہ و تابعین وغیرہ میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس صورت میں اس پر کفارہ واجب ہے، سفیان، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 917

حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا منصور يعني ابن زاذان، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ان يحرم، ويوم النحر قبل ان يطوف بالبيت بطيب فيه مسك ". وفي الباب عن ابن عباس. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، يرون ان المحرم إذا رمى جمرة العقبة يوم النحر وذبح وحلق او قصر، فقد حل له كل شيء حرم عليه إلا النساء، وهو قول الشافعي، واحمد، وإسحاق، وقد روي عن عمر بن الخطاب، انه قال: " حل له كل شيء إلا النساء والطيب ". وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول اهل الكوفة.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے احرام باندھنے سے پہلے اور دسویں ذی الحجہ کو بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے خوشبو لگائی جس میں مشک تھی ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،

۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،

۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ محرم جب دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی کر لے، جانور ذبح کر لے، اور سر مونڈا لے یا بال کتروا لے تو اب اس کے لیے ہر وہ چیز حلال ہو گئی جو اس پر حرام تھی سوائے عورتوں کے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،

۴- عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ اس کے لیے ہر چیز حلال ہو گئی سوائے عورتوں اور خوشبو کے،

۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، اور یہی کوفہ والوں کا بھی قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 1414

حدثنا قتيبة , حدثنا ابو عوانة، عن قتادة , عن الحسن , عن سمرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قتل عبده قتلناه , ومن جدع عبده جدعناه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب , وقد ذهب بعض اهل العلم من التابعين , منهم إبراهيم النخعي إلى هذا , وقال بعض اهل العلم منهم الحسن البصري , وعطاء بن ابي رباح: ليس بين الحر والعبد قصاص في النفس , ولا فيما دون النفس , وهو قول: احمد , وإسحاق , وقال بعضهم: إذا قتل عبده لا يقتل به , وإذا قتل عبد غيره قتل به , وهو قول: سفيان الثوري , واهل الكوفة.

سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم بھی اسے قتل کر دیں گے اور جو اپنے غلام کا کان، ناک کاٹے گا ہم بھی اس کا کان، ناک کاٹیں گے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،

۲- تابعین میں سے بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، ابراہیم نخعی اسی کے قائل ہیں،

۳- بعض اہل علم مثلاً حسن بصری اور عطا بن ابی رباح وغیرہ کہتے ہیں: آزاد اور غلام کے درمیان قصاص نہیں ہے، (نہ قتل کرنے میں، نہ ہی قتل سے کم زخم پہنچانے) میں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،

۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: اگر کوئی اپنے غلام کو قتل کر دے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جائے گا، اور جب دوسرے کے غلام کو قتل کرے گا تو اسے اس کے بدلے میں قتل کیا جائے گا، سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 1266

حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا ابن ابي عدي، عن سعيد، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " على اليد ما اخذت حتى تؤدي ". قال قتادة: ثم نسي الحسن، فقال: " فهو امينك لا ضمان عليه، يعني العارية ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، إلى هذا وقالوا: يضمن صاحب العارية، وهو قول: الشافعي، واحمد، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: ليس على صاحب العارية ضمان، إلا ان يخالف، وهو قول: الثوري، واهل الكوفة، وبه يقول إسحاق.

سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک وہ اسے ادا نہ کر دے اس کے ذمہ ہے“ ۱؎، قتادہ کہتے ہیں: پھر حسن بصری اس حدیث کو بھول گئے اور کہنے لگے ”جس نے عاریت لی ہے“ وہ تیرا امین ہے، اس پر تاوان نہیں ہے، یعنی عاریت لی ہوئی چیز تلف ہونے پر تاوان نہیں ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں یہ لوگ کہتے ہیں: عاریۃً لینے والا ضامن ہوتا ہے۔ اور یہی شافعی اور احمد کا بھی قول ہے،

۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عاریت لینے والے پر تاوان نہیں ہے، الا یہ کہ وہ سامان والے کی مخالفت کرے۔ ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

 

حدیث نمبر: 1791

حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، اخبرنا ابن جريج، عن عبد الله بن عبيد بن عمير، عن ابن ابي عمار قال: قلت لجابر: " الضبع صيد هي "، قال: نعم، قال، قلت: آكلها، قال: نعم، قال: قلت له: اقاله رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قال: نعم، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا ولم يروا باكل الضبع باسا وهو قول احمد وإسحاق، وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث في كراهية اكل الضبع وليس إسناده بالقوي وقد كره بعض اهل العلم اكل الضبع وهو قول ابن المبارك، قال يحيى القطان: وروى جرير بن حازم هذا الحديث، عن عبد الله بن عبيد بن عمير، عن ابن ابي عمار، عن جابر، عن عمر قوله وحديث ابن جريج اصح، وابن ابي عمار هو عبد الرحمن بن عبد الله بن ابي عمار المكي.

ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا لکڑبگھا بھی شکار ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے پوچھا: اسے کھا سکتا ہوں؟ کہا: ہاں، میں نے پوچھا: کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے؟ کہا: ہاں۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- یحییٰ قطان کہتے ہیں: جریر بن حازم نے یہ حدیث اس سند سے روایت کی ہے: عبداللہ بن عبید بن عمیر نے ابن ابی عمار سے، ابن ابی عمار نے جابر سے، جابر نے عمر رضی الله عنہ کے قول سے روایت کی ہے، ابن جریج کی حدیث زیادہ صحیح ہے،

۳- بعض اہل علم کا یہی مذہب ہے، وہ لوگ لکڑبگھا کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،

۴- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لکڑبگھا کھانے کی کراہت کے سلسلے میں ایک حدیث آئی ہے، لیکن اس کی سند قوی نہیں ہے،

۵- بعض اہل علم نے بجو کھانے کو مکروہ سمجھا ہے، ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 353

حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن انس يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا حضر العشاء واقيمت الصلاة فابدءوا بالعشاء " قال: وفي الباب عن عائشة وابن عمر , وسلمة بن الاكوع وام سلمة، قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، وعليه العمل عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابو بكر , وعمر , وابن عمر، وبه يقول احمد , وإسحاق يقولان: يبدا بالعشاء وإن فاتته الصلاة في الجماعة. قال ابو عيسى: سمعت الجارود، يقول: سمعت وكيعا يقول في هذا الحديث: يبدا بالعشاء إذا كان طعاما يخاف فساده والذي ذهب إليه بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم اشبه بالاتباع، وإنما ارادوا ان لا يقوم الرجل إلى الصلاة وقلبه مشغول بسبب شيء، وقد روي عن ابن عباس، انه قال: لا نقوم إلى الصلاة وفي انفسنا شيء.

انس رضی الله عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب شام کا کھانا حاضر ہو، اور نماز کھڑی کر دی جائے ۱؎ تو پہلے کھا لو“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،

۲- اس باب میں عائشہ، ابن عمر، سلمہ بن اکوع، اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،

۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ انہیں میں سے ابوبکر، عمر اور ابن عمر رضی الله عنہم بھی ہیں، اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے کھانا کھائے اگرچہ جماعت چھوٹ جائے۔

۴- اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ پہلے کھانا کھائے گا جب اسے کھانا خراب ہونے کا اندیشہ ہو، لیکن جس کی طرف صحابہ کرام وغیرہ میں سے بعض اہل علم گئے ہیں، وہ اتباع کے زیادہ لائق ہے، ان لوگوں کا مقصود یہ ہے کہ آدمی ایسی حالت میں نماز میں نہ کھڑا ہو کہ اس کا دل کسی چیز کے سبب مشغول ہو، اور ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ ہم نماز کے لیے کھڑے نہیں ہوتے جب تک ہمارا دل کسی اور چیز میں لگا ہوتا ہے۔

 

حدیث نمبر: 1548

حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن عطاء بن السائب، عن ابي البختري " ان جيشا من جيوش المسلمين كان اميرهم سلمان الفارسي حاصروا قصرا من قصور فارس، فقالوا: يا ابا عبد الله، الا ننهد إليهم؟ قال: دعوني ادعهم كما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعوهم، فاتاهم سلمان، فقال لهم: إنما انا رجل منكم فارسي، ترون العرب يطيعونني، فإن اسلمتم، فلكم مثل الذي لنا وعليكم مثل الذي علينا، وإن ابيتم إلا دينكم، تركناكم عليه، واعطونا الجزية عن يد وانتم صاغرون، قال: ورطن إليهم بالفارسية: وانتم غير محمودين، وإن ابيتم، نابذناكم على سواء، قالوا: ما نحن بالذي نعطي الجزية، ولكنا نقاتلكم، فقالوا: يا ابا عبد الله، الا ننهد إليهم؟ قال: لا، فدعاهم ثلاثة ايام إلى مثل هذا، ثم قال: انهدوا إليهم، قال: فنهدنا إليهم، ففتحنا ذلك القصر، قال: وفي الباب، عن بريدة، والنعمان بن مقرن، وابن عمر، وابن عباس، وحديث سلمان، حديث حسن لا نعرفه إلا من حديث عطاء بن السائب، وسمعت محمدا، يقول: ابو البختري لم يدرك سلمان، لانه لم يدرك عليا، وسلمان مات قبل علي، وقد ذهب بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا، وراوا ان يدعوا قبل القتال، وهو قول إسحاق بن إبراهيم، قال: إن تقدم إليهم في الدعوة فحسن، يكون ذلك اهيب، وقال بعض اهل العلم: لا دعوة اليوم، وقال احمد: لا اعرف اليوم احدا يدعى، وقال الشافعي: لا يقاتل العدو حتى يدعوا، إلا ان يعجلوا عن ذلك، فإن لم يفعل، فقد بلغتهم الدعوة.

ابوالبختری سعید بن فیروز سے روایت ہے کہ مسلمانوں کے ایک لشکر نے جس کے امیر سلمان فارسی تھے، فارس کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا، لوگوں نے کہا: ابوعبداللہ! کیا ہم ان پر حملہ نہ کر دیں؟، انہوں نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں ان کافروں کو اسلام کی دعوت اسی طرح دوں جیسا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں دعوت دیتے ہوئے سنا ہے ۱؎، چنانچہ سلمان فارسی رضی الله عنہ ان کے پاس گئے، اور کافروں سے کہا: میں تمہاری ہی قوم فارس کا رہنے والا ایک آدمی ہوں، تم دیکھ رہے ہو عرب میری اطاعت کرتے ہیں، اگر تم اسلام قبول کرو گے تو تمہارے لیے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے لیے ہیں، اور تمہارے اوپر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو ہمارے اوپر ہیں، اور اگر تم اپنے دین ہی پر قائم رہنا چاہتے ہو تو ہم اسی پر تم کو چھوڑ دیں گے، اور تم ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کرو ۲؎، سلمان فارسی رضی الله عنہ نے اس بات کو فارسی زبان میں بھی بیان کیا، اور یہ بھی کہا: تم قابل تعریف لوگ نہیں ہو، اور اگر تم نے انکار کیا تو ہم تم سے (حق پر) جنگ کریں گے، ان لوگوں نے جواب دیا: ہم وہ نہیں ہیں کہ جزیہ دیں، بلکہ تم سے جنگ کریں گے، مسلمانوں نے کہا: ابوعبداللہ! کیا ہم ان پر حملہ نہ کر دیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے تین دن تک اسی طرح ان کو اسلام کی دعوت دی، پھر مسلمانوں سے کہا: ان پر حملہ کرو، ہم لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور اس قلعہ کو فتح کر لیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- سلمان فارسی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ہم اس کو صرف عطاء بن سائب ہی کی روایت سے جانتے ہیں،

۲- میں نے محمد بن اسماعیل (امام بخاری) کو کہتے ہوئے سنا: ابوالبختری نے سلمان کو نہیں پایا ہے، اس لیے کہ انہوں نے علی کو نہیں پایا ہے، اور سلمان کی وفات علی سے پہلے ہوئی ہے،

۲- اس باب میں بریدہ، نعمان بن مقرن، ابن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،

۳- بعض اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کی یہی رائے ہے کہ قتال سے پہلے کافروں کو دعوت دی جائے گی، اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے کہ اگر ان کو پہلے اسلام کی دعوت دے دی جائے تو بہتر ہے، یہ ان کے لیے خوف کا باعث ہو گا،

۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس دور میں دعوت کی ضرورت نہیں ہے، امام احمد کہتے ہیں: میں اس زمانے میں کسی کو دعوت دئیے جانے کے لائق نہیں سمجھتا،

۵- امام شافعی کہتے ہیں: دعوت سے پہلے دشمنوں سے جنگ نہ شروع کی جائے، ہاں اگر کفار خود جنگ میں پہل کر بیٹھیں تو اس صورت میں اگر دعوت نہ دی گئی تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اسلام کی دعوت ان تک پہنچ چکی ہے۔

 

حدیث نمبر: 1523

حدثنا احمد بن الحكم البصري , حدثنا محمد بن جعفر , عن شعبة , عن مالك بن انس , عن عمرو او عمر بن مسلم , عن سعيد بن المسيب , عن ام سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من راى هلال ذي الحجة , واراد ان يضحي , فلا ياخذن من شعره , ولا من اظفاره " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والصحيح هو عمرو بن مسلم , قد روى عنه محمد بن عمرو بن علقمة , وغير واحد , وقد روي هذا الحديث عن سعيد بن المسيب , عن ام سلمة , عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه نحو هذا , وهو قول بعض اهل العلم , وبه كان يقول سعيد بن المسيب , وإلى هذا الحديث ذهب احمد , وإسحاق , ورخص بعض اهل العلم في ذلك , فقالوا: لا باس ان ياخذ من شعره واظفاره , وهو قول الشافعي , واحتج بحديث عائشة , ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يبعث بالهدي من المدينة , فلا يجتنب شيئا مما يجتنب منه المحرم.

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کرنا چاہتا ہو وہ (جب تک قربانی نہ کر لے) اپنا بال اور ناخن نہ کاٹے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- (عمرو اور عمر میں کے بارے میں) صحیح عمرو بن مسلم ہے، ان سے محمد بن عمرو بن علقمہ اور کئی لوگوں نے حدیث روایت کی ہے، دوسری سند سے اسی جیسی حدیث سعید بن مسیب سے آئی ہے، سعید بن مسیب ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،

۳- بعض اہل علم کا یہی قول ہے، سعید بن مسیب بھی اسی کے قائل ہیں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا مسلک بھی اسی حدیث کے موافق ہے،

۴- بعض اہل علم نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے، وہ لوگ کہتے ہیں: بال اور ناخن کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، شافعی کا یہی قول ہے، وہ عائشہ رضی الله عنہا کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا جانور مدینہ روانہ کرتے تھے اور محرم جن چیزوں سے اجتناب کرتا ہے، آپ ان میں سے کسی چیز سے بھی اجتناب نہیں کرتے تھے ۱

 

حدیث نمبر: 1386

حدثنا علي بن سعيد الكندي الكوفي , اخبرنا ابن ابي زائدة , عن الحجاج , عن زيد بن جبير , وعن خشف بن مالك , قال: سمعت ابن مسعود , قال: " قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في دية الخطإ عشرين بنت مخاض , وعشرين بني مخاض ذكورا , وعشرين بنت لبون , وعشرين جذعة , وعشرين حقة ". قال: وفي الباب , عن عبد الله بن عمرو , اخبرنا ابو هشام الرفاعي , اخبرنا ابن ابي زائدة , وابو خالد الاحمر , عن الحجاج بن ارطاة نحوه. قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود لا نعرفه مرفوعا , إلا من هذا الوجه , وقد روي عن عبد الله موقوفا , وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا , وهو قول: احمد , وإسحاق , وقد اجمع اهل العلم على ان الدية تؤخذ في ثلاث سنين , في كل سنة ثلث الدية , وراوا ان دية الخطإ على العاقلة , وراى بعضهم ان العاقلة قرابة الرجل من قبل ابيه , وهو قول: مالك , والشافعي , وقال بعضهم: إنما الدية على الرجال دون النساء والصبيان من العصبة , يحمل كل رجل منهم ربع دينار , وقد قال بعضهم: إلى نصف دينار , فإن تمت الدية , وإلا نظر إلى اقرب القبائل منهم فالزموا ذلك.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: ”قتل خطا ۱؎ کی دیت ۲؎ بیس بنت مخاض ۳؎، بیس ابن مخاض، بیس بنت لبون ۴؎، بیس جذعہ ۵؎ اور بیس حقہ ۶؎ ہے“۔ ہم کو ابوہشام رفاعی نے ابن ابی زائدہ اور ابوخالد احمر سے اور انہوں نے حجاج بن ارطاۃ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں اور عبداللہ بن مسعود سے یہ حدیث موقوف طریقہ سے بھی آئی ہے،

۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،

۳- بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،

۴- اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دیت تین سال میں لی جائے گی، ہر سال دیت کا تہائی حصہ لیا جائے گا،

۵- اور ان کا خیال ہے کہ دیت خطا عصبہ پر ہے،

۶- بعض لوگوں کے نزدیک عصبہ وہ ہیں جو باپ کی جانب سے آدمی کے قرابت دار ہوں، مالک اور شافعی کا یہی قول ہے،

۷- بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عصبہ میں سے جو مرد ہیں انہی پر دیت ہے، عورتوں اور بچوں پر نہیں، ان میں سے ہر آدمی کو چوتھائی دینار کا مکلف بنایا جائے گا،

۸- کچھ لوگ کہتے ہیں: آدھے دینار کا مکلف بنایا جائے گا،

۹- اگر دیت مکمل ہو جائے گی تو ٹھیک ہے ورنہ سب سے قریبی قبیلہ کو دیکھا جائے گا اور ان کو اس کا مکلف بنایا جائے گا۔

 

حدیث نمبر: 1057

حدثنا ابو كريب، ومحمد بن عمرو السواق، قالا: حدثنا يحيى بن اليمان، عن المنهال بن خليفة، عن الحجاج بن ارطاة، عن عطاء، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل قبرا ليلا فاسرج له سراج فاخذه من قبل القبلة، وقال: " رحمك الله إن كنت لاواها تلاء للقرآن، وكبر عليه اربعا ". قال: وفي الباب، عن جابر، ويزيد بن ثابت وهو اخو زيد بن ثابت اكبر منه. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا، وقالوا: يدخل الميت القبر من قبل القبلة، وقال بعضهم: يسل سلا، ورخص اكثر اهل العلم في الدفن بالليل.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر میں رات کو داخل ہوئے تو آپ کے لیے ایک چراغ روشن کیا گیا۔ آپ نے میت کو قبلے کی طرف سے لیا۔ اور فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے! تم بہت نرم دل رونے والے، اور بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔ اور آپ نے اس پر چار تکبیریں کہیں۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- ابن عباس کی حدیث حسن ہے،

۲- اس باب میں جابر اور یزید بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں اور یزید بن ثابت، زید بن ثابت کے بھائی ہیں، اور ان سے بڑے ہیں،

۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میت کو قبر میں قبلے کی طرف سے اتارا جائے گا ۱؎،

۴- بعض کہتے ہیں: پائتانے کی طرف سے رکھ کر کھینچ لیں گے ۲؎،

۵- اور اکثر اہل علم نے رات کو دفن کرنے کی اجازت دی ہے ۳؎۔

 

حدیث نمبر: 1011

حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وهب بن جرير، عن شعبة، عن يحيى إمام بني تيم الله، عن ابي ماجد، عن عبد الله بن مسعود، قال: سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المشي خلف الجنازة، قال: " ما دون الخبب فإن كان خيرا عجلتموه، وإن كان شرا فلا يبعد إلا اهل النار الجنازة متبوعة ولا تتبع وليس منها من تقدمها ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا يعرف من حديث عبد الله بن مسعود إلا من هذا الوجه، قال: سمعت محمد بن إسماعيل يضعف حديث ابي ماجد لهذا، وقال محمد: قال الحميدي: قال ابن عيينة: قيل ليحيى: من ابو ماجد هذا، قال: طائر طار فحدثنا، وقد ذهب بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا، راوا ان المشي خلفها افضل، وبه يقول: سفيان الثوري، وإسحاق. قال: إن ابا ماجد رجل مجهول لا يعرف، إنما يروى عنه حديثان عن ابن مسعود، ويحيى إمام بني تيم الله ثقة، يكنى ابا الحارث، ويقال له: يحيى الجابر، ويقال له: يحيى المجبر ايضا، وهو كوفي، روى له شعبة، وسفيان الثوري، وابو الاحوص، وسفيان بن عيينة.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازے کے پیچھے چلنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”ایسی چال چلے جو دلکی چال سے دھیمی ہو۔ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے جلدی قبر میں پہنچا دو گے اور اگر برا ہے تو جہنمیوں ہی کو دور ہٹایا جاتا ہے۔ جنازہ کے پیچھے چلنا چاہیئے، اس سے آگے نہیں ہونا چاہیئے، جو جنازہ کے آگے چلے وہ اس کے ساتھ جانے والوں میں سے نہیں“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے،

۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ابو حامد کی اس حدیث کو ضعیف بتاتے سنا ہے،

۳- محمد بن اسماعیل بخاری کا بیان ہے کہ حمیدی کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا: ابوماجد کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ایک اڑتی چڑیا ہے جس سے ہم نے روایت کی ہے، یعنی مجہول راوی ہے۔

 

حدیث نمبر: 821

حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن حميد، عن انس، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " لبيك بعمرة وحجة ". قال: وفي الباب عن عمر، وعمران بن حصين. قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا، واختاروه من اهل الكوفة وغيرهم.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،

۲- اس باب میں عمر اور عمران بن حصین سے بھی احادیث آئی ہیں،

۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، اہل کوفہ وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔

 

حدیث نمبر: 1114

حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا إسحاق بن عيسى، وعبد الله بن نافع الصائغ، قالا: اخبرنا مالك بن انس، عن ابي حازم بن دينار، عن سهل بن سعد الساعدي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءته امراة، فقالت: إني وهبت نفسي لك، فقامت طويلا، فقال رجل: يا رسول الله فزوجنيها إن لم تكن لك بها حاجة، فقال: " هل عندك من شيء تصدقها؟ " فقال: ما عندي إلا إزاري هذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إزارك إن اعطيتها جلست، ولا إزار لك فالتمس شيئا "، قال: ما اجد، قال: " فالتمس ولو خاتما من حديد "، قال: فالتمس فلم يجد شيئا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هل معك من القرآن شيء؟ " قال: نعم، سورة كذا، وسورة كذا لسور سماها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " زوجتكها بما معك من القرآن ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد ذهب الشافعي إلى هذا الحديث، فقال: إن لم يكن له شيء يصدقها فتزوجها على سورة من القرآن، فالنكاح جائز ويعلمها سورة من القرآن، وقال بعض اهل العلم: النكاح جائز ويجعل لها صداق مثلها، وهو قول: اهل الكوفة، واحمد، وإسحاق.

سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا کہ میں نے اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کر دیا۔ پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی (اور آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا) تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہ ہو تو اس سے میرا نکاح کر دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کوئی چیز ہے؟“، اس نے عرض کیا: میرے پاس میرے اس تہبند کے سوا کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اپنا تہبند اسے دے دو گے تو تو بغیر تہبند کے رہ جاؤ گے، تو تم کوئی اور چیز تلاش کرو“، اس نے عرض کیا: میں کوئی چیز نہیں پا رہا ہوں۔ آپ نے (پھر) فرمایا: ”تم تلاش کرو، بھلے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو“۔ اس نے تلاش کیا لیکن اسے کوئی چیز نہیں ملی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟“، اس نے کہا: جی ہاں، فلاں، فلاں سورۃ یاد ہے اور اس نے چند سورتوں کے نام لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہاری شادی اس عورت سے ان سورتوں کے بدلے کر دی جو تمہیں یاد ہے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- شافعی اسی حدیث کی طرف گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو اور وہ قرآن کی کسی سورۃ کو مہر بنا کر کسی عورت سے نکاح کرے تو نکاح درست ہے اور وہ اسے قرآن کی وہ سورۃ سکھائے گا،

۳- بعض اہل علم کہتے ہیں: نکاح جائز ہو گا لیکن اسے مہر مثل ادا کرنا ہو گا۔ یہ اہل کوفہ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 361

حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، انه قال: خر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن فرس، فجحش، فصلى بنا قاعدا فصلينا معه قعودا ثم انصرف، فقال: " إنما الإمام او إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد، وإذا سجد فاسجدوا، وإذا صلى قاعدا فصلوا قعودا اجمعون " قال: وفي الباب عن عائشة وابي هريرة وجابر وابن عمر ومعاوية، قال ابو عيسى: وحديث انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " خر عن فرس فجحش ". حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إلى هذا الحديث، منهم جابر بن عبد الله , واسيد بن حضير , وابو هريرة وغيرهم، وبهذا الحديث يقول احمد، وإسحاق: وقال بعض اهل العلم: إذا صلى الإمام جالسا لم يصل من خلفه إلا قياما، فإن صلوا قعودا لم تجزهم، وهو قول: سفيان الثوري , ومالك بن انس , وابن المبارك , والشافعي.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر پڑے، آپ کو خراش آ گئی ۱؎ تو آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر آپ نے ہماری طرف پلٹ کر فرمایا: ”امام ہوتا ہی اس لیے ہے یا امام بنایا ہی اس لیے گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے، جب وہ «الله أكبر» کہے تو تم بھی «الله أكبر» کہو، اور جب وہ رکوع کرے، تو تم بھی رکوع کرو، اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، اور جب وہ «سمع الله لمن حمده‏» کہے تو تم «ربنا لك الحمد‏» کہو، اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،

۲- اس باب میں عائشہ، ابوہریرہ، جابر، ابن عمر اور معاویہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،

۳- بعض صحابہ کرام جن میں میں جابر بن عبداللہ، اسید بن حضیر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم وغیرہ ہیں اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے،

۴- بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب امام بیٹھ کر پڑھے تو مقتدی کھڑے ہو کر ہی پڑھیں، اگر انہوں نے بیٹھ کر پڑھی تو یہ نماز انہیں کافی نہ ہو گی، یہ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے ۲؎۔

 

حدیث نمبر: 1246

حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن شعبة، عن قتادة، عن صالح ابي الخليل، عن عبد الله بن الحارث، عن حكيم بن حزام، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما "، هذا حديث صحيح وهكذا روي، عن ابي برزة الاسلمي وهكذا روي عن ابي برزة الاسلمي، ان رجلين اختصما إليه في فرس بعد ما تبايعا، وكانوا في سفينة، فقال: لا اراكما افترقتما، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا ". وقد ذهب بعض اهل العلم من اهل الكوفة وغيرهم، إلى ان الفرقة بالكلام، وهو قول: سفيان الثوري. وهكذا روي عن مالك بن انس، وروي عن ابن المبارك، انه قال: كيف ارد هذا؟ والحديث فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم صحيح وقوى هذا المذهب، ومعنى قول النبي صلى الله عليه وسلم: " إلا بيع الخيار " معناه: ان يخير البائع المشتري بعد إيجاب البيع، فإذا خيره فاختار البيع، فليس له خيار بعد ذلك في فسخ البيع، وإن لم يتفرقا هكذا فسره الشافعي، وغيره، ومما يقوي قول: من يقول الفرقة بالابدان، لا بالكلام حديث عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم.

حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) جب تک جدا نہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ کہیں اور سامان خوبی اور خرابی واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کر دی جائے گی۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث صحیح ہے،

۲- اسی طرح ابوبرزہ اسلمی سے بھی مروی ہے کہ دو آدمی ایک گھوڑے کی بیع کرنے کے بعد اس کا مقدمہ لے کر ان کے پاس آئے، وہ لوگ ایک کشتی میں تھے۔ ابوبرزہ نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ تم دونوں جدا ہوئے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”بائع اور مشتری کو جب تک (مجلس سے) جدا نہ ہوں اختیار ہے،

۳- اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ جدائی قول سے ہو گی، یہی سفیان ثوری کا قول ہے، اور اسی طرح مالک بن انس سے بھی مروی ہے،

۴- اور ابن مبارک کا کہنا ہے کہ میں اس مسلک کو کیسے رد کر دوں؟ جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد حدیث صحیح ہے،

۵- اور انہوں نے اس کو قوی کہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «إلا بيع الخيار» کا مطلب یہ ہے کہ بائع مشتری کو بیع کے واجب کرنے کے بعد اختیار دیدے، پھر جب مشتری بیع کو اختیار کر لے تو اس کے بعد اس کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہو گا، اگرچہ وہ دونوں جدا نہ ہوئے ہوں۔ اسی طرح شافعی وغیرہ نے اس کی تفسیر کی ہے،

۶- اور جو لوگ جسمانی جدائی (تفرق بالابدان) کے قائل ہیں ان کے قول کو عبداللہ بن عمرو کی حدیث تقویت دے رہی ہے جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں (آگے ہی آ رہی ہے)۔

 

حدیث نمبر: 1048

حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن شعبة، عن ابي حمزة، عن ابن عباس، قال: " جعل في قبر النبي صلى الله عليه وسلم قطيفة حمراء ". قال: وقال محمد بن بشار في موضع آخر، حدثنا محمد بن جعفر، ويحيى، عن شعبة، عن ابي جمرة، عن ابن عباس، وهذا اصح. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روى شعبة، عن ابي حمزة القصاب واسمه: عمران بن ابي عطاء، عن ابي جمرة الضبعي واسمه: نصر بن عمران، وكلاهما من اصحاب ابن عباس، وقد روى عن ابن عباس، انه كره ان يلقى تحت الميت في القبر شيء، وإلى هذا ذهب بعض اهل العلم.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں ایک لال چادر رکھی گئی۔ اور محمد بن بشار نے دوسری جگہ اس سند میں ابوجمرہ کہا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے بھی روایت کی ہے، ان کا نام عمران بن ابی عطا ہے، اور ابوجمرہ ضبعی سے بھی روایت کی گئی ہے، ان کا نام نصر بن عمران ہے۔ یہ دونوں ابن عباس کے شاگرد ہیں،

۳- ابن عباس سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے قبر میں میت کے نیچے کسی چیز کے بچھانے کو مکروہ جانا ہے۔ بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔

 

حدیث نمبر: 1034

حدثنا عبد الله بن منير، عن سعيد بن عامر، عن همام، عن ابي غالب، قال: " صليت مع انس بن مالك على جنازة رجل، فقام حيال راسه، ثم جاءوا بجنازة امراة من قريش، فقالوا: يا ابا حمزة، صل عليها، فقام حيال وسط السرير، فقال له العلاء بن زياد: هكذا رايت النبي صلى الله عليه وسلم قام على الجنازة مقامك منها، ومن الرجل مقامك منه، قال: نعم، فلما فرغ، قال: احفظوا ". وفي الباب: عن سمرة. قال ابو عيسى: حديث انس هذا حديث حسن، وقد روى غير واحد، عن همام مثل هذا، وروى وكيع هذا الحديث، عن همام فوهم فيه، فقال: عن غالب، عن انس، والصحيح عن ابي غالب، وقد روى هذا الحديث عبد الوارث بن سعيد، وغير واحد، عن ابي غالب مثل رواية همام، واختلفوا في اسم ابي غالب هذا، فقال بعضهم: يقال: اسمه نافع، ويقال: رافع، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا، وهو قول: احمد، وإسحاق.

ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کے ساتھ ایک آدمی کی نماز جنازہ پڑھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے۔ پھر لوگ قریش کی ایک عورت کا جنازہ لے کر آئے اور کہا: ابوحمزہ! اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئیے، تو وہ چارپائی کے بیچ میں یعنی عورت کی کمر کے سامنے کھڑے ہوئے، تو ان سے علاء بن زیاد نے پوچھا: آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عورت اور مرد کے جنازے میں اسی طرح کھڑے ہوتے دیکھا ہے۔ جیسے آپ کھڑے ہوئے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں ۱؎۔ اور جب جنازہ سے فارغ ہوئے تو کہا: اس طریقہ کو یاد کر لو۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- انس کی یہ حدیث حسن ہے،

۲- اور کئی لوگوں نے بھی ہمام سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ وکیع نے بھی یہ حدیث ہمام سے روایت کی ہے، لیکن انہیں وہم ہوا ہے۔ انہوں نے «عن غالب عن أنس» کہا ہے اور صحیح «عن ابی غالب» ہے، عبدالوارث بن سعید اور دیگر کئی لوگوں نے ابوغالب سے روایت کی ہے جیسے ہمام کی روایت ہے،

۳- اس باب میں سمرہ سے بھی روایت ہے،

۴- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 1032

حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث، حدثنا محمد بن يزيد الواسطي، عن إسماعيل بن مسلم المكي، عن ابي الزبير، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الطفل لا يصلى عليه، ولا يرث ولا يورث حتى يستهل ". قال ابو عيسى: هذا حديث قد اضطرب الناس فيه، فرواه بعضهم عن ابي الزبير، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرفوعا، وروى اشعث بن سوار، وغير واحد، عن ابي الزبير، عن جابر موقوفا، وروى محمد بن إسحاق، عن عطاء بن ابي رباح، عن جابر موقوفا، وكان هذا اصح من الحديث المرفوع، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا، قالوا: لا يصلى على الطفل حتى يستهل، وهو قول: سفيان الثوري، والشافعي.

جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچے کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھی جائے گی۔ نہ وہ کسی کا وارث ہو گا اور نہ کوئی اس کا وارث ہو گا جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت روئے نہیں“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- اس حدیث میں لوگ اضطراب کے شکار ہوئے ہیں۔ بعض نے اِسے ابو الزبیر سے اور ابو الزبیر نے جابر سے اور جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور اشعث بن سوار اور دیگر کئی لوگوں نے ابو الزبیر سے اور ابو الزبیر نے جابر سے موقوفاً روایت کی ہے، اور محمد بن اسحاق نے عطاء بن ابی رباح سے اور عطاء نے جابر سے موقوفاً روایت کی ہے گویا موقوف روایت مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے،

۲- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بچے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت نہ روئے یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 849

حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، ان ابن عباس اخبره، ان الصعب بن جثامة اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر به بالابواء او بودان، فاهدى له حمارا وحشيا، فرده عليه، فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما في وجهه من الكراهية، فقال: " إنه ليس بنا رد عليك ولكنا حرم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد ذهب قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا الحديث وكرهوا اكل الصيد للمحرم، وقال الشافعي: إنما وجه هذا الحديث عندنا إنما رده عليه، لما ظن انه صيد من اجله وتركه على التنزه، وقد روى بعض اصحاب الزهري، عن الزهري هذا الحديث، وقال: اهدى له لحم حمار وحش، وهو غير محفوظ، قال: وفي الباب عن علي، وزيد بن ارقم.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ صعب بن جثامہ رضی الله عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابواء یا ودان میں ان کے پاس سے گزرے، تو انہوں نے آپ کو ایک نیل گائے ہدیہ کیا، تو آپ نے اسے لوٹا دیا۔ ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا: ”ہم تمہیں لوٹاتے نہیں لیکن ہم محرم ہیں“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے اور انہوں نے محرم کے لیے شکار کا گوشت کھانے کو مکروہ کہا ہے،

۳- شافعی کہتے ہیں: ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے وہ گوشت صرف اس لیے لوٹا دیا کہ آپ کو گمان ہوا کہ وہ آپ ہی کی خاطر شکار کیا گیا ہے۔ سو آپ نے اسے تنزیہاً چھوڑ دیا،

 

حدیث نمبر: 800

حدثنا محمد بن إسماعيل، حدثنا سعيد بن ابي مريم، حدثنا محمد بن جعفر، قال: حدثني زيد بن اسلم، قال: حدثني محمد بن المنكدر، عن محمد بن كعب، قال: اتيت انس بن مالك في رمضان فذكر نحوه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، ومحمد بن جعفر هو ابن ابي كثير هو مديني ثقة، وهو اخو إسماعيل بن جعفر، وعبد الله بن جعفر هو ابن نجيح والد علي بن عبد الله المديني، وكان يحيى بن معين يضعفه، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث، وقالوا: للمسافر ان يفطر في بيته قبل ان يخرج، وليس له ان يقصر الصلاة حتى يخرج من جدار المدينة او القرية، وهو قول: إسحاق بن إبراهيم الحنظلي.

اس سند سے بھی محمد بن کعب سے روایت ہے کہ میں رمضان میں انس بن مالک رضی الله عنہ کے پاس آیا پھر انہوں نے اسی طرح ذکر کیا۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن ہے،

۲- اور محمد بن جعفر ہی ابن ابی کثیر مدینی ہیں اور ثقہ ہیں اور یہی اسماعیل بن جعفر کے بھائی ہیں اور عبداللہ بن جعفر علی بن عبداللہ مدینی کے والد ابن نجیح ہیں، یحییٰ بن معین ان کی تضعیف کرتے تھے،

۲- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مسافر کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے گھر سے نکلنے سے پہلے افطار کرے لیکن اسے نماز قصر کرنے کی اجازت نہیں جب تک کہ شہر یا گاؤں کی فصیل سے باہر نہ نکل جائے۔ یہی اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ حنظلی کا قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 1087

حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابن ابي زائدة، قال: حدثني عاصم بن سليمان هو: الاحول، عن بكر بن عبد الله المزني، عن المغيرة بن شعبة، انه خطب امراة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " انظر إليها فإنه احرى ان يؤدم بينكما ". وفي الباب: عن محمد بن مسلمة، وجابر، وابي حميد، وانس، وابي هريرة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث، وقالوا: لا باس ان ينظر إليها ما لم ير منها محرما، وهو قول: احمد، وإسحاق، ومعنى قوله احرى: ان يؤدم بينكما، قال: احرى ان تدوم المودة بينكما.

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک عورت کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے دیکھ لو“ ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن ہے،

۲- اس باب میں محمد بن مسلمہ، جابر، ابوحمید اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،

۳- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں: اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں جب وہ اس کی کوئی ایسی چیز نہ دیکھے جس کا دیکھنا حرام ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،

۴- اور «أحرى أن يؤدم بينكما» کے معنی یہ ہیں کہ یہ تم دونوں کے درمیان محبت پیدا کرنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔

 

حدیث نمبر: 192

حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا عفان، حدثنا همام، عن عامر بن عبد الواحد الاحول، عن مكحول، عن عبد الله بن محيريز، عن ابي محذورة، ان النبي صلى الله عليه وسلم " علمه الاذان تسع عشرة كلمة والإقامة سبع عشرة كلمة ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وابو محذورة اسمه: سمرة بن معير، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا في الاذان، وقد روي عن ابي محذورة انه كان يفرد الإقامة.

ابو محذورہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان کے انیس کلمات ۱؎ اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- بعض اہل علم اذان کے سلسلے میں اسی طرف گئے ہیں،

۳- ابو محذورہ سے یہ بھی روایت ہے کہ وہ اقامت اکہری کہتے تھے۔

 

حدیث نمبر: 1023

حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، اخبرنا شعبة، عن عمرو بن مرة، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، قال: كان زيد بن ارقم يكبر على جنائزنا اربعا، وإنه كبر على جنازة خمسا، فسالناه عن ذلك، فقال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبرها ". قال ابو عيسى: حديث زيد بن ارقم حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وغيرهم راوا التكبير على الجنازة خمسا، وقال احمد، وإسحاق: إذا كبر الإمام على الجنازة خمسا فإنه يتبع الإمام.

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔ انہوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا بھی کہتے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- زید بن ارقم کی حدیث حسن صحیح ہے،

۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جنازے میں پانچ تکبیریں ہیں،

۳- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب امام جنازے میں پانچ تکبیریں کہے تو امام کی پیروی کی جائے (یعنی مقتدی بھی پانچ کہیں)۔

 

حدیث نمبر: 1514

حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يحيى بن سعيد , وعبد الرحمن بن مهدي , قالا: اخبرنا سفيان , عن عاصم بن عبيد الله , عن عبيد الله بن ابي رافع , عن ابيه , قال: " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم اذن في اذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل في العقيقة على ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير وجه , عن الغلام شاتان مكافئتان , وعن الجارية شاة , وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم ايضا: انه عق عن الحسن بن علي بشاة , وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث.

ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی جب فاطمۃالزہراء رضی الله عنہم سے پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے کان میں نماز کی اذان کی طرح اذان دی۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،

۲- عقیقہ کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی سندوں سے آئی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے،

۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حسن کی طرف سے ایک بکری ذبح کی، بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے۔

 

حدیث نمبر: 777

حدثنا احمد بن منيع، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن يزيد بن ابي زياد، عن مقسم، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " احتجم فيما بين مكة والمدينة وهو محرم صائم ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابي سعيد، وجابر، وانس. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا الحديث، ولم يروا بالحجامة للصائم باسا، وهو قول سفيان الثوري، ومالك بن انس، والشافعي.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے وقت میں پچھنا لگوایا جس میں آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، آپ احرام باندھے ہوئے تھے اور روزے کی حالت میں تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،

۲- اس باب میں ابو سعید خدری، جابر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،

۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ صائم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس، اور شافعی کا بھی یہی قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 735

حدثنا احمد بن منيع، حدثنا كثير بن هشام، حدثنا جعفر بن برقان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: كنت انا وحفصة صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فاكلنا منه، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبدرتني إليه حفصة، وكانت ابنة ابيها، فقالت: يا رسول الله إنا كنا صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فاكلنا منه، قال: " اقضيا يوما آخر مكانه ". قال ابو عيسى: وروى صالح بن ابي الاخضر، ومحمد بن ابي حفصة هذا الحديث، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة مثل هذا، ورواه مالك بن انس، ومعمر، وعبيد الله بن عمر، وزياد بن سعد، وغير واحد من الحفاظ، عن الزهري، عن عائشة مرسلا، ولم يذكروا فيه عن عروة، وهذا اصح لانه روي عن ابن جريج، قال: سالت الزهري، قلت له: احدثك عروة، عن عائشة، قال: لم اسمع من عروة في هذا شيئا، ولكني سمعت في خلافة سليمان بن عبد الملك من ناس، عن بعض من سال عائشة عن هذا الحديث. حدثنا بذلك94 علي بن عيسى بن يزيد البغدادي، حدثنا روح بن عبادة، عن ابن جريج فذكر الحديث. وقد ذهب قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا الحديث، فراوا عليه القضاء إذا افطر، وهو قول مالك بن انس.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں اور حفصہ دونوں روزے سے تھیں، ہمارے پاس کھانے کی ایک چیز آئی جس کی ہمیں رغبت ہوئی، تو ہم نے اس میں سے کھا لیا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے، تو حفصہ مجھ سے سبقت کر گئیں - وہ اپنے باپ ہی کی بیٹی تو تھیں - انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم لوگ روزے سے تھے۔ ہمارے سامنے کھانا آ گیا، تو ہمیں اس کی خواہش ہوئی تو ہم نے اسے کھا لیا، آپ نے فرمایا: ”تم دونوں کسی اور دن اس کی قضاء کر لینا“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- صالح بن ابی اخضر اور محمد بن ابی حفصہ نے یہ حدیث بسند «زہری عن عروہ عن عائشہ» اسی کے مثل روایت کی ہے۔ اور اسے مالک بن انس، معمر، عبیداللہ بن عمر، زیاد بن سعد اور دوسرے کئی حفاظ نے بسند «الزہری عن عائشہ» مرسلاً روایت کی ہے اور ان لوگوں نے اس میں عروہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے زہری سے پوچھا: کیا آپ سے اسے عروہ نے بیان کیا اور عروہ سے عائشہ نے روایت کی ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے اس سلسلے میں عروہ سے کوئی چیز نہیں سنی ہے۔ میں نے سلیمان بن عبدالملک کے عہد خلافت میں بعض ایسے لوگوں سے سنا ہے جنہوں نے ایسے شخص سے روایت کی ہے جس نے اس حدیث کے بارے میں عائشہ سے پوچھا،

۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی نفل روزہ توڑ دے تو اس پر قضاء لازم ہے ۱؎ مالک بن انس کا یہی قول ہے۔

 

 

حدیث نمبر: 562

حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن الاسود بن قيس، عن ثعلبة بن عباد، عن سمرة بن جندب، قال: " صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم في كسوف لا نسمع له صوتا ". قال: وفي الباب عن عائشة. قال ابو عيسى: حديث سمرة حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا، وهو قول الشافعي.

سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گرہن کی نماز پڑھائی تو ہم آپ کی آواز نہیں سن پا رہے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،

۲- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،

۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔

 

حدیث نمبر: 338

حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا يونس بن عبيد، ومنصور بن زاذان، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن الصامت، قال: سمعت ابا ذر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صلى الرجل وليس بين يديه كآخرة الرحل او كواسطة الرحل، قطع صلاته الكلب الاسود والمراة والحمار " فقلت لابي ذر: ما بال الاسود من الاحمر من الابيض؟ فقال: يا ابن اخي سالتني كما سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " الكلب الاسود شيطان " قال: وفي الباب عن ابي سعيد , والحكم بن عمرو الغفاري , وابي هريرة , وانس، قال ابو عيسى: حديث ابي ذر حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم إليه، قالوا: يقطع الصلاة الحمار والمراة والكلب الاسود، قال احمد: الذي لا اشك فيه ان الكلب الاسود يقطع الصلاة، وفي نفسي من الحمار والمراة شيء، قال إسحاق: لا يقطعها شيء إلا الكلب الاسود.

ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی نماز پڑھے اور اس کے سامنے کجاوے کی آخری (لکڑی یا کہا: کجاوے کی بیچ کی لکڑی کی طرح) کوئی چیز نہ ہو تو: کالے کتے، عورت اور گدھے کے گزرنے سے اس کی نماز باطل ہو جائے گی“ ۱؎ میں نے ابوذر سے کہا: لال، اور سفید کے مقابلے میں کالے کی کیا خصوصیت ہے؟ انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! تم نے مجھ سے ایسے ہی پوچھا ہے جیسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا: ”کالا کتا شیطان ہے“۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،

۲- اس باب میں ابو سعید خدری، حکم بن عمرو بن غفاری، ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،

۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ گدھا، عورت اور کالا کتا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں: مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا کتا نماز باطل کر دیتا ہے لیکن گدھے اور عورت کے سلسلے میں مجھے کچھ تذبذب ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: کالے کتے کے سوا کوئی اور چیز نماز باطل نہیں کرتی۔

 

حدیث نمبر: 179

حدثنا هناد، حدثنا هشيم، عن ابي الزبير، عن نافع بن جبير بن مطعم، عن ابي عبيدة بن عبد الله ابن مسعود قال: قال عبد الله بن مسعود: " إن المشركين شغلوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اربع صلوات يوم الخندق حتى ذهب من الليل ما شاء الله، فامر بلالا فاذن، ثم اقام فصلى الظهر، ثم اقام فصلى العصر، ثم اقام فصلى المغرب، ثم اقام فصلى العشاء " قال: وفي الباب عن ابي سعيد , وجابر. قال ابو عيسى: حديث عبد الله ليس بإسناده باس، إلا ان ابا عبيدة لم يسمع من عبد الله وهو الذي اختاره بعض اهل العلم في الفوائت، ان يقيم الرجل لكل صلاة إذا قضاها، وإن لم يقم اجزاه، وهو قول الشافعي.

ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: مشرکین نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو خندق کے دن چار نمازوں سے روک دیا۔ یہاں تک کہ رات جتنی اللہ نے چاہی گزر گئی، پھر آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اذان کہی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ظہر پڑھی، پھر بلال رضی الله عنہ نے اقامت کہی تو آپ نے عصر پڑھی، پھر بلال رضی الله عنہ نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے عشاء پڑھی۔

امام ترمذی کہتے ہیں:

۱- اس باب میں ابوسعید اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،

۲- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث کی سند میں کوئی برائی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ابوعبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں سنا ہے،

۳- اور چھوٹی ہوئی نمازوں کے سلسلے میں بعض اہل علم نے اسی کو پسند کیا ہے کہ آدمی جب ان کی قضاء کرے تو ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت کہے ۱؎ اور اگر وہ الگ الگ اقامت نہ کہے تو بھی وہ اسے کافی ہو گا، اور یہی شافعی کا قول ہے۔

 

Dua ki Guzarish: Irfan Barkaati

1 Comments

  1. السلام علیکم


    وہ تقلید کرتے تھے یہ بات تو بجا ہے لیکن انکا مسلک کیا تھا ؟ کیا اس میں علماء کا اختلاف ہے ؟

    ReplyDelete
Previous Post Next Post