2 Namazon ko Ek waqt me Jama Karna | Risala Hajizul Bahrain by AalaHazrat

 

رسالہ

حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلاتین(۱۳۱۳ ھ)

دو دریاؤں کو ملنے سے روکنے والا، دو۲ نمازوں کو جمع کرنے سے بچانے والا

 

مسئلہ (۲۸۶)    از بریلی محلہ قراولان    یکم رجب ۱۳۱۳ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سفر کے عذر سے جس میں قصر لازم آتا ہے دو۲ نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بینّوا توجرّوا۔

 

الجواب

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

 

الحمدللّٰہ الذی جعل الصلاۃ علی المؤمنین کتابا موقوتا، وامرھم ان  یحافظوا علیھا فیحفظوھا ارکانا وشروطا ووقوتا، مرج البحرین یلتقيٰن، بینھما برزخ لایبغيٰن، وافضل الصلوات، واکمل التحیات، علی من عین الاوقات وبین العلامات، وحرم علی امتہ اضاعۃ الصلوات، وعلی اٰلہ الکرام، وصحبہ العظام، ومجتھدی شرعہ الغر الفخام، لاسیما الامام الاقدم، والھمام الاعظم، امام الائمۃ، مالک الازمۃ، کاشف الغمۃ، سراج الامۃ، نائل علم الشرع الحنفی من اوج الثریا، ناشر علم الدین الحنیفی نشرا جلیا، نصراللّٰہ اتباعہ ورضی اتباعہ متبوعا تابعیا، وعلینا معھم، یاارحم الراحمین، الی یوم الدین۔

 

اللہ عزوجل نے اپنے نبی کریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کے ارشادات سے نماز فرض کا ایک خاص وقت جداگانہ مقرر فرمایا ہے کہ نہ اُس سے پہلے نماز کی صحت نہ اس کے بعد تاخیر کی اجازت، ظہرین عرفہ وعشائین مزدلفہ کے سوادو۲ نمازوں کا قصداً ایک وقت میں جمع کرنا سفراً حضراً ہرگز کسی طرح جائز نہیں۔ قرآن عظیم واحادیث صحاح سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُس کی ممانعت پر شاہد عدل ہیں۔ یہی مذہب ہے حضرت ناطق بالحق والصواب موافق الرائے بالوحی والکتاب امیرالمومنین عمرفاروق اعظم وحضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص احد العشرۃ المبشرۃ وحضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود من اجل فقہاء الصحابۃ البررۃ وحضرت سیدنا وابن سیدنا عبداللہ بن عمر فاروق وحضرت سیدتنا امّ المؤمنین صدیقہ بنت الصدیق اعاظم صحابہ کرام وخلیفہ راشد امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز وامام سالم بن عبداللہ بن عمرو امام علقمہ بن قیس وامام اسود بن یزید نخعی وامام حسن بصری وامام ابن سیرین وامام ابراہیم نخعی وامام مکحول شامی وامام جابر بن زید وامام عمروبن دینار وامام حماد بن ابی سلیمان وامام اجل ابوحنیفہ اجلہ ائمہ تابعین وامام سفٰین ثوری وامام لیث بن سعد وامام قاضی الشرق والغرب ابویوسف وامام ابوعبداللہ محمد الشیبانی وامام زفر بن الہذیل وامام حسن بن زیاد وامام دارالہجرۃ عالم المدینۃ مالک بن انس فی روایۃ ابن قاسم اکابر تبع تابعین وامام عبدالرحمن بن قاسم عتقی تلمیذ امام مالک وامام عیسٰی بن ابان وامام ابوجعفر احمد بن سلامہ مصری وغیرہم ائمہ دین کا، رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین۔

 

تحقیق مقام یہ ہے کہ جمع بین الصلاتین یعنی دو۲ نمازیں ملاکر پڑھنا دو۲ قسم ہے: جمع فعلی جسے جمع صوری بھی کہتے ہیں کہ واقع میں ہر نماز اپنے وقت میں واقع مگرر ادا میں مل جائیں جیسے ظہر اپنے آخر وقت میں پڑھی کہ اس کے ختم پر وقتِ عصر آگیا اب فوراً عصر اوّل وقت پڑھ لی، ہوئیں تو دونوں اپنے اپنے وقت اور فعلاً وصورۃً مل گئیں۔ اسی طرح مغرب میں دیر کی یہاں تک کہ شفق ڈوبنے پر آئی اُس وقت پڑھی ادھر فارغ ہُوئے کہ شفق ڈُوب گئی عشاء کا وقت ہوگیا وہ پڑھ لی، ایسا ملانا بعذر مرض وضرورت سفر بلاشبہہ جائز ہے۔ ہمارے علمائے کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم بھی اس کی رخصت دیتے ہیں۔ ردالمحتار میں ہے: للمسافر والمریض تاخیر المغرب للجمع بینھا وبین العشاء فعلاً، کمافی الحلیۃ وغیرھا، ای ان تصلی فی اٰخر وقتھاوالعشاء فی اول وقتھا ۱؎۔ مسافر اور مریض مغرب میں تاخیر کرسکتے ہیں تاکہ اس کو اور عشاء کو فعلاً اکٹھا کرلیں، جیسا کہ حلیہ وغیرہ میں ہے، یعنی مغرب آخری وقت میں پڑھی جائے اور عشاء اوّل وقت ہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ ردالمحتار        کتاب الصلٰوۃ    مطبوعہ المصطفٰی البابی مصر        ۱/۲۷۱)

 

اقول: تاخیر مغرب کا تو یہ خاص جزئیہ ہے اور اسی طرح تاخیر ظہر کہ عصر سے مل جائے بلکہ یہ بدرجہ اولٰی کہ ظہر میں تو کوئی وقت کراہت نہیں ۲؎ کماصرح بہ فی البحرالرائق وحققناہ فیما علقناہ علی ردالمحتار۔  (جیسا کہ بحرالرائق میں تصریح ہے اور ردالمحتار کے حاشیے پر ہم نے اس کی تحقیق کی ہے۔ ت) بخلاف مغرب کہ اُس کی اتنی تاخیر بے عذر مکروہ شدید ہے ۳؎ کمافی البحر والدر وغیرھما، ونطقت بکراھۃ ذلک احادیث۔ (جیسا کہ بحر اور در وغیرہ میں ہے، اور اس کی کراہت پر کوئی احادیث ناطق ہیں۔ ت)

 

 (۲؎ البحرالرائق    کتاب الصلٰوۃ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۴۹)

(۳؎ الدرالمختار   کتاب الصلٰوۃ     مجتبائی دہلی    ۱/۶۱)

 

پھر جزئیہ ظہرین بھی کتاب الجج میں نظر فقیر سے گزرا اس کتاب جلی الصواب حلی الخطاب رفیع النصاب میں کلام کلام امام ہمام محرر المذہب سیدنا محمد بن الحسن تلمیذ سید الائمہ امام اعظم ابوحنیفہ اور تالیف رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین فرماتے ہیں:

 

قال ابوحنیفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ: الجمع بین الصلاتین فی السفر فی الظھر والعصر، والمغرب والعشاء سواءٌ یؤخر الظھر الٰی اٰخر وقتھا ثم یصلی ویعجل العصر فی اول وقتھا فیصلی فی اول وقتھا، وکذلک المغرب والعشاء یؤخر المغرب الٰی اٰخر وقتھا فیصلی قبل ان یغیب الشفق وذلک اٰخر وقتھا، ویصلی العشاء فی اول وقتھا حین یغیب الشفق، فھذا الجمع بینھما ۴؎۔

 

امام فقیہ محدث عیسٰی بن ابان تلمیذ امام محمد ہے امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے کہ سفر میں دو۲ نمازوں کا جمع کرنا، خواہ ظہر اور عصر ہوں یا مغرب اور عشاء ہوں، یکساں ہے۔ یعنی ظہر کو آخر وقت مؤخر کرکے پڑھے اور عصر میں تعجیل کرکے اس کو اول وقت میں پڑھ لے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء میں مغرب کو اتنا مؤخر کرے کہ اس کے آخری وقت میں، یعنی شفق غائب ہونے سے تھوڑا پہلے پڑھے اور عشاء میں جلدی کرکے اس کو اول میں پڑھ لے، یعنی شفق غائب ہونے کے ساتھ ہی، یہ طریقہ ہے ان کو جمع کرنے کا۔ (ت)

 

 (۴؎ کتاب الحجۃ    باب جمع الصلاۃ فی السفرمطبوعہ دارالمعارف النعمانیہ لاہور ۱/۱۷۴)

 

اُسی میں ہے: قال ابوحنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی: من اراد ان یجمع بین الصلاتین بمطر اوسفر اوغیرہ، فلیؤخر الاولی منھما حتی تکون فی اٰخر وقتھا، ویعجل الثانیۃ حتی یصلیھا فی اول وقتھا فیجمع بینھما، فتکون کل واحدۃ منھما فی وقتھا ۱؎ الخ۔

 

ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص بارش،سفر یا کسی اور وجہ سے دو۲ نمازوں کو جمع کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ پہلی کو آخر وقت تک مؤخر کردے اور دوسری میں جلدی کرکے اول وقت میں اداکرے، اس طرح دونوں کو جمع کرلے، تاہم ہوگی ہر نماز اپنے وقت میں الخ (ت)

 

(۱؎ کتاب الحجۃ        باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۱/۱۵۹)

 

اس کلام برکت نظام امام کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ وعنہم سے ظاہر ہواکہ جواز جمع صوری صرف مرض وسفر پر متصور نہیں بضرورت شدت بارش بھی اجازت ہے مثلاً ظہر کے وقت مینہ برستا ہوتو انتظار کرکے آخر وقت حاضر مسجد ہوں جماعت ظہر اداکریں اور وقت عصر پر تیقن ہوتے ہی جماعت عصر کرلیں کہ شاید شدتِ مطر بڑھ جائے اور حضور مسجد سے مانع آئے، مطر شدید میں تنہا گھر پڑھ لینے کی بھی اجازت ہے تو اُس صورت میں تو دونوں نمازوں کے لئے جماعت ومسجد کی محافظت ہے واللہ تعالٰی اعلم۔

 

دوسری قسم جمع وقتی ہے جسے جمع حقیقی بھی کہتے ہیں۔ اقول یعنی بمعنی مصطلح قائلان جمع کہ جو معنی جمع اُن کا مذہب ہے وہ حقیقۃً اسی صورت میں ہے ورنہ جمع اپنے اصل معنی پر دونوں جگہ حقیقی ہے کمالایخفی، اور اسی لحاظ سے جمع فعلی کو صوری کہتے ہیں ورنہ حقیقۃً فرائض میں یہ جمع بھی جمع صوری ہی ہے اُن میں تداخل محال تو جب ملیں گے صورۃً ملیں گے اور معنیً جدا فافھم فانہ نفیس جدا (اس کو سمجھو کیونکہ یہ بہت نفیس ہے۔ ت) اس جمع کے یہ معنی ہیں کہ ایک نماز دوسری کے وقت میں پڑھی جائے جس کی دو۲ صورتیں ہیں:

 

جمع تقدیم کہ وقت کی نماز مثلاً ظہر یا مغرب پڑھ کر اُس کے ساتھ ہی متصلا بلافصل پچھلے وقت کی نماز مثلاً عصر یا عشاء پیشگی پڑھ لیں، اور جمع تاخیر کہ پہلی نماز مثلاً ظہر یا مغرب کو باوصف قدرت واختیار قصداً اٹھار رکھیں کہ جب اس کا وقت نکل جائے گا پچھلی نماز مثلاً عصر یا عشاء کے وقت میں پڑھ کر اس کے بعد متصلاً خواہ منفصلاً اُس وقت کی نماز اداکریں گے، یہ دونوں صورتیں بحالتِ اختیار صرف حجاج کو صرف حج میں صرف عصرعرفہ ومغرب مزدلفہ میں جائز ہیں اول میں جمع تقدیم اور دوم میں جمع تاخیر عام ازیں کہ وہ مسافر ہوں یا خاص سا کنانِ مکّہ ومنٰی وغیرہما مواضع قریبہ کی وہ بوجہ نسک ہے نہ بوجہ سفر اور بحالت اضطرار وعدمِ قدرت سفر حضر یا ظہر عصر وغیرہا کسی شے کی تخصیص نہیں جتنی نمازوں تک مشغولی جہاد یا شدّتِ مرض یا غشی وغیرہا کے سبب قدرت نہ ملے ناچار سب موخر رہیں گی اور وقت قدرت بحالت عدم سقوط ادا کی جائیں گی جس طرح حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے غزوہ خندق میں ظہر وعصر ومغرب وعشا کے وقت پڑھیں ان کے سوا کبھی کسی شخص کو کسی حالت میں کسی صورت جمع وقتی کی اصلاً اجازت نہیں اگر جمع تقدیم کرے گا نماز اخیرمحض باطل وناکارہ جائے گی جب اُس کا وقت آئیگا فرض ہوگی نہ پڑھے گی ذمے پر رہے گی اور جمع تاخیر کرے گا تو گنہ گار ہوگا عمداً نماز قضا کردینے والا ٹھہرے گا اگرچہ دوسرے وقت میں پڑھنے سے فرض سرسے اُترجائے گا۔ یہ تفصیل مذہب مہذب ہے اور اسی پر دلائل قرآن وحدیث ناطق بلکہ توقیت صلاۃ کا مسئلہ متفق علیہا ہے، ہر مسلمان جانتا ہے کہ نماز کو دانستہ قضا کردینا بلاشبہ حرام تو جس طرح صبح یا عشا قصداً نہ پڑھنی کہ ظہر یا فجر کے وقت پڑھ لیں گے حرام قطعی ہے یوں ہی ظہر یا مغرب عمداً نہ پڑھنی کہ عصر یا عشا کے وقت اداکرلیں گے حرام ہونا لازم اور وقت سے پہلے تو حرمت درکنار نماز ہی بیکار جیسے کوئی آدھی رات سے صبح کی نماز یا پہر دن چڑھے سے ظہر پڑھ رکھے قطعاً نہ ہوگی، یونہی جو ظُہر کے وقت عصر یا مغرب کے وقت عشاء نبٹا لے اس کا بھی نہ ہونا واجب، احادیث میں کہ حضور پُرنور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ سے جمع منقول اُس میں صراحۃً وہی جمع صوری مذکور یا مجمل ومحتمل اُسی صریح مفصل پر محمول، جمع حقیقی کے باب میں اصلاً کوئی حدیث صحیح صریح مفسر وارد نہیں جمع تقدیم تو اس قابل بھی نہیں کہ اُس پر کسی حدیث صحیح کا نام لیا جائے جمع تاخیر میں احادیث کثیرہ کے خلاف دو حدیثیں ایسی آئی ہیں جن سے بادی النظر میں دھوکا ہو مگر عندالتحقیق جب احادیث متنوعہ کو جمع کرکے نظرِ انصاف کی جائے فوراً حق ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ بھی وجوباً یا امکاناً اُسی جمع صوری کی خبر دے رہی ہیں غرض جمع وقتی پر شرع مطہر سے کوئی دلیل واجب القبول اصلاً قائم نہیں بلکہ بکثرت صحیح حدیثیں اور قرآن عظیم کی متعدد آیتیں اور اصول شرع کی واضح دلیلیں اُس کی نفی پر حجت مبین، یہ اجمال کلام ودلائل مذہب ہے۔ لہذا یہ مختصر کلم چار۴ فصل پر منقسم:

 

فصل ۱ میں جمع صوری کا اثبات جمیل،

فصل ۲ میں شبہات جمع تقدیم کا ابطال جلیل،

فصل ۳ میں جمع تاخیر کی تضعیف واضح البینات،

فصل ۴ میں دلائل نفی جمع وہدایت التزام اوقات۔

اس مسئلے میں ہمارے زمانے کے امامِ لامذہباں مجتہد نامقلداں مخترع طرز نوی مبتدع آزادروی میاں نذیر حسین صاحب دہلوی ہداہ اللہ الی الصراط السوی نے کتاب عجب العجاب معیار الحق کے آخر میں اپنی چلتی حد بھر کا کلام مشبع کیا مباحث مسئلہ میں اگلے پچھلے مالکیوں شافعیوں وغیرہم کا اُلٹا پُلٹا اُلجھا سُلجھا جیسا کلام حنفیہ کے خلاف جہاں کہیں ملا سب جمع کرلیا اور کھلے خزانے احادیثِ صحاح کو رَد فرمانے رواۃ صحیین کو مردود بتانے بخاری ومسلم کی صدہا حدیثوں کو واہیات بتانے محدثی کا بھرم عمل بالحدیث کا دھرم دن دہاڑے دھڑی دھڑی کرکے لٹانے میں رنگ رنگ سے اپنی نئی ابکار افکار کو جلوہ دیا تو بعون قدیر اُس تحریر عدیم التحریر حائز ہر غث ویابس ونقیر وقطمیر کے رد میں تمام مساعی نووکہن کا جواب اور مُلّا جی کے ادعاے باطل عمل بالحدیث ولیاقت اجتہاد وعلم حدیث کے روئے نہانی سے کشف حجاب بعض علمائے عصر عــہ۱  وعظمائے وقت غفراللہ تعالٰی لناولہ وشکر فی انتصارنا للحق سعینا وسعیہ نے ملاجی پر تعقبات کثیرہ بسیط کیے مگر اِن شاء اللہ العزیز الکریم ولاحول ولاقوۃ اِلّا باللہ العلی العظیم، یہ افاضات تازہ چیزے دیگر ہوں گے جنہیں دیکھ کر ہر منصف حق پسند بے ساختہ پکار اُٹھے کہ :

 

ع  کم ترک الاول للاٰخر

 

  (بہت سی چیزیں پہلوں نے پچھلوں کیلئے چھوڑ دی ہیں۔ ت)

 

عــہ۱: یعنی جناب مستطاب حامی السنن ماحی الفتن مولٰنا مولوی حافظ الحاج محمد ارشاد حسین صاحب رامپوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

 

فقیر حقیر غفرلہ المولی القدیر کو اپنی تمام تصانیف مناظرہ بلکہ اکثر اُن کے ماورا میں بھی جن کا عدد بعونہ تعالٰی اس عـــہ۲ وقت تک ایک سوچالیس سے متجاوز ہے ہمیشہ التزام رہا ہے کہ محل خاص نقل واستناد کے سوا محض جمع وتلفیق کلمات سابقین سے کم کام لیا جائے، حتی الوسع بحول وقوت ربانی اپنے ہی فائضات قلب کو جلوہ دیا جائے:

 

                                                ع      کہ حلوا چویکبار خورند وبس

 

عـــہ۲: یہ اُس وقت تھا اب کہ ۱۳۱۹ھ ہے بحمداللہ تعالٰی عدد تصانیف ایک سونوے۱۹۰ سے متجاوز ہے ۱۲ اور اب تو بحمدہ تعالٰی اگر احصا کیا جائے تو پانسوسے متجاوز ہوگا ۱۲ (م)

 

اگر اقامت دلائل یا ازاحت اقوال مخالف میں وہ امور مذکور بھی ہوتے ہیں کہ اور متکلمین فی المسئلہ ذکر کرگئے تو غالباً وہ وہی واضحات متبادرہ الی الفہم ہیں کہ ذہن بے اعانت دیگرے اُن کی طرف سبقت کرے۔ انصافاً ان میں سابق ولاحق دونوں کا استحقاق یکساں مگر ازانجا کہ کلمات متقدمہ میں اُن کا ذکر نظر سے گزرا اپنی طرف نسبت نہیں کیا جاتا پھر ان میں بھی بعونہ تعالٰی تلخیص وتہذیب وترصیب وتقریب وحذف زوائد وزیادت فوائد سے جدّت جگہ پائے گی اور کُچھ نہ ہو تو اِن شاء اللہ تعالٰی طرزِ بیان ہی احلی ووقع فی القلب نظر آئے گی اس وقت تو یہ اپنا بیان ہے جس سے بحمداللہ تعالٰی تحدیث بنعمۃ اللہ عزّوجل مقصود والحمداللہ الغفور الودود، اہلِ حسد جس معنے پر چاہیں محمول کریں مگر اربابِ انصاف اگر تصانیف فقیر کو مواز نہ فرمائیں گے بعونہٖ تعالٰی عیان موافق بیان پائیں گے باینہمہ اس اعتراف سے چارہ نہیں کہ الفضل للمتقدم (پہل کرنے والے کو فضیلت حاصل ہوتی ہے) خصوصاً علمائے سلف رضی اللہ تعالٰی عنا باکرامہم وحشرنا فی زمرۃ خدامہم کہ جو کچھ ہے اُنہیں کی خدمت کلمات برکت آیات کا نتیجہ اور اُنہیں کی بارگاہ دولت کا حصہ رسد بٹتا ہوا صدقہ:

 

   ع                            اے بادِ صبا! اینہمہ آوردہ تست

 

ہاں ہاں یہ کفش برادری خدام درگاہ فضائل پناہ اعلٰحضرت عظیم البرکت اعلم العلماء الربانین افضل الفضلاء الحقانیین حامی السنن السنیہ ماحی الفتن الدنیہ بقیہ السلف المصلحین حجۃ الخلف المفلحین آیۃ من آیات رب العٰلمین معجزۃ من معجزات سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وبارک وسلم اجمعین ذی التصنیفات الرائقہ والتحقیقات الفائقہ والتدقیقات الشائقہ تاج المحققین سراج المدققین اکمل الفقہاء المحدثین حضرت سیدنا الواجد امجد الاماجد اطیب الاطائب مولانا مولوی محمد نقی علی خان صاحب محمدی سنّی حنفی قادری برکاتی بریلوی قدس اللہ سرہ، وعم برّہ وثم نورہ واعظم اجرہ واکرم نزلہ وانعم منزلہ ولاحرمنا سعدہ ولم یفتنا بعدہ والحمداللہ دہرالداہرین ہاں ہاں یہ ادنٰی خاکبوسی آستان رفیع غلمان منیع بندگان بارگاہ عرفان پناہ اقدس حضرت آقائے نعمت دریائے رحمت اعرف العرفاء الکرام مرجع الاولیاء العظام السحاب الہا مربفیض القادر والعباب الزاخر بالفضل الباھر ذوالقرب الزاہر والعلو الظاہر والنسب الطاہر ملحق الاصاغر بالجلۃ الاکابر معدن البرکات مخزن الحسنات من آل محمد سید الکائنات علیہ وعلیہم افضل الصلوات وارث النجدات من حمزۃ الحمزات القمر المستبین بالنور المبین من شمس الدین ابی الفضل العظیم والشرف الکریم سیدنا ومولٰنا وملجانا وماوانا  شیخی ومرشدی کنزی وذخری لیومی وغدمی اعلحٰضرت سیدنا السید الشاہ آل رسول الاحمدی فاطمی حسینی قادری برکاتی واسطی بلجرامی مارہری رضی اللہ تعالٰی عنہ واجرل واعظم قربہ منہ واشرق علینا من نورہ التام وافاض علینا من بحرہ الطام وجعلنا من خدمہ فی دارالسلام بفضل رحمۃ علیہ وعلٰی آبائہ الکرام والحمداللہ ابدالآبدین۔ ؂

 

       عہد مابالب شیریں دہنان بست خداے

      ماہمہ  بندہ  وایں  قوم    خداوند   ا نند

 

 (خدا نے شیریں دہنوں کے لبوں سے ہمارا عہد باندھ دیا ہے، ہم سب بندے ہیں اور یہ لوگ ہمارے آقا ہیں۔ ت)

خیر کہنا یہ تھا کہ یہاں بھی اِن شاء اللہ تعالٰی یہی طریقہ رعایت عــہ پائے گا ولہذا ایک آدھ بحث کہ بقدر کافی طے کردی گئی اس سے تعرض اطناب سمجھا جائے گا کہ مقصود اظہار احقاق ہے نہ اکثار اوراق۔

 

عــہ: لاسیما اذاکان فيئی لاترتضیہ لوھن اوضعف نعلم فیہ ۱۲۔ (م)

 (حاشیہ کی اس عبارت سے غالباً اعلٰحضرت کی اپنی عبارت گزشتہ صفحہ ۱۶۴ کی طرف اشارہ ہے: فقیر حقیر غفرلہ المولی القدیر کو اپنی تصانیف مناظرہ بلکہ اکثر ان کے ماورا میں بھی حتی الوسع اپنے ہی فائضات قلب کو جلوہ دیا جائے، ملخصاً (نذیر احمد سعیدی)

 

ان چار فصل میں ملّا جی کے ادعائی بول یکسر برعکس ہیں سایہ بخت سے سب قابل نکس ہیں جابجا ثابت کو ناثابت ناثابت کو ثابت ساکت کو ناطق ناطق کو ساکت ضعیف کو صحیح صحیح کو ضعیف تحریف کو توجیہ توجیہ کو تحریف مؤول کو مفسر مفسر کو مؤول محتمل کو صریح صریح کو محتمل کہا اول تا آخر کوئی دقیقہ تحکم ومکابرہ وتعصب مدابرہ کا نامرعی نہ رہا یہاں بعونہٖ تعالٰی عز مجدہ ہر فصل میں قول فصل وحق اصل بدلائل قاہرہ وبیانات باہرہ ظاہر کیجئے کہ اگر زبان انصاف سالم وصاف ہوتو مکالف منکر مدعی مُصر کو بھی معترف ومقر لیجئے ۔

 

وماذلک علی اللّٰہ بعزیز، ان ذلک علی اللّٰہ یسیر، ان اللّٰہ علٰی کل شیئ قدیر۔

 

اور یہ اللہ کیلئے مشکل نہیں ہے، یہ اللہ پر آسان ہے، اللہ ہر شیئ پر قادر ہے۔ (ت)

 

یہ معارک جلیلہ تو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں رسالہ آپ کے پیشِ نظر ہے ملاحظہ کیجئے داد انصاف دیجئے

 

ع فی طلعۃ الشمس مایغنیک عن خبر

 

 (سُورج طلوع ہوجائے تو اس کی اطلاع دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ت)

 

اس کے سوا نفس مسئلہ میں ملّا جی نے اپنے موافق کہیں چودہ۱۴ کہیں پندرہ۱۵ صحابیوں سے روایات آنا بیان کیا اور خود ہی اُسے بگاڑ کر کمی کی طرف پلٹے اور چار سے زیادہ ظاہر نہ کرسکے اُن میں بھی عندالانصاف اگر کُچھ لگتی ہوئی بات ہے تو صرف ایک سے۔ میں بعونہٖ تعالٰی اپنے موافق روایات تئیس۲۳ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے لاؤں گا، ملّا جی صرف چار حدیثیں پیش خویش اپنے مفید دکھاسکے جن میں حقیقۃً کوئی بھی ان کے مفید نہیں اور آیت کا تو اُن کی طرف نام بھی نہیں، میں بحول اللہ تعالٰی اُن سے دُونی آیتیں اور دس گنی حدیثیں اپنی طرف دکھاؤں گا، میں یہ بھی روشن کردوں گا کہ حنفیہ کرام پر غیر مقلدوں کی طعنہ زنی ایسی پوچ ولچر بے بنیاد ہوتی ہے، میں یہ بھی بتادُوں گا کہ ان صاحبوں کے عمل بالحدیث کی حقیقت اتنی ہے، میں یہ بھی دکھادوں گا کہ ملّا جی صاحب جو آج کل مجتہد العصر اور تمام طائفہ کے استاد مانے گئے ہیں اُن کی حدیث دانی ایک متوسط طالب علم سے بھی گرے درجہ کی ہے

 

کل ذلک بعون الملک العزیز القریب المجیب وماتوفیقی الاّ باللّٰہ علیہ توکّلت والیہ انیب وھذا اوان الشروع فی المقصود متوکلا علی واھب الفیض والجود والحمدللّٰہ العلی الودود والصّلاۃ والسلام علٰی احمد محمود محمد واٰلہ الکرام السعود امین۔

 

فصل اول طلوع فجر نوری بہ اثبات جمع صوری:

 

حضور پُرنور سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے جمع صوری کا ثبوت اصلاً محل کلام نہیں اور وہی مذہب مہذب ائمہ حنفیہ ہے اس میں صاف صریح جلیل وصحیح احادیث مروی مگر ملّا جی تو انکارِ آفتاب کے عادی، بکمال شوخ چشمی بے نقط سُنادی کہ کوئی حدیث صحیح ایسی نہیں جس سے ثابت ہوکہ آنحضرت عــہ جمع صوری سفر میں کیا کرتے تھے ۱؎ ، بہت اچھا ذرانگاہ رُوبرُو۔

 

 (۱؎ معیار الحق مسئلہ پنجم جمع بین الصلٰوۃ    مکتبہ نذیریہ لاہور    ص۴۰۱)

 

عــہ صلی اللہ علیہ وسلم وعلٰی آلہٖ وصحبہ وبارک وکرم ۱۲ منہ (م)

 

حدیث ۱: جلیل وعظیم حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ اُس جناب سے مشہور ومستفیض ہے جسے امام بخاری وابوداؤد ونسائی نے اپنی صحاح اور امام عیسٰی بن ابان نے کتاب الجج علٰی اہلِ مدینہ اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار اور ذہلی نے زہریات اور اسمٰعیل نے مستخرج صحیح بخاری میں بطرق عدیدہ کثیرہ روایت کیا:

 

فالبخاری والاسمعیلی والذھلی من طریق اللیث بن سعد عن یونس عن الزھری، والنسائی من طریقی یزید بن زریع والنضربن شمیل عن کثیر بن قاروندا کلاھما عن سالم۔ والنسائی عن قتیبۃ والطحاوی عن ابی عامر العقدی والفقیہ فی الحجج ثلثتھم عن العطاف، وابوداؤد عن فضیل بن غزوان، وعن عبداللّٰہ بن العلاء، وایضا ھوعیسٰی والنسائی عن الولید والطحاوی عن بشر بن بکر، ھؤلاء الثلثۃ عن ابن جابر، والطحاوی عن اسامۃ بن زید، خمستھم اعنی العطاف وفضیلا وابن العلاء وجابر واسامۃ عن نافع۔ وابوداؤد عن عبداللّٰہ بن واقد۔ والطحاوی عن اسمٰعیل بن عبدالرحمٰن اربعتھم عن عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنھما۔

 

بخاری، اسمٰعیل اور ذہلی نے لیث ابن سعد کے طریقے سے یونس سے، اس نے زہری سے روایت کی ہے۔ اور نسائی نے یزید ابن زریع اور نضر ابن شمیل کے دو۲ طریقوں سے کثیر ابن قاروندا سے روایت کی ہے۔ دونوں (زہری اور کثیر) سالم سے راوی ہیں۔ نسائی نے قتیبہ سے، طحاوی نے ابوعامر عقدی سے اور فقیہ نے حجج میں یہ تینوں عطاف سے روایت کرتے ہیں۔ اور ابوداؤد نے فضیل ابن غزوان سے اور عبداللہ ابن علاء سے روایت کی ہے۔ اور ابوداؤد نے ہی عیسٰی سے، نسائی نے ولید سے، طحاوی نے بشر ابن بکر سے، یہ تینوں (عیسٰی، ولید، بشر) جابر سے روایت کرتے ہیں۔ اور طحاوی نے اسامہ ابن زید سے روایت کی ہے۔ یہ پانچوں یعنی عطاف، فضیل، عبداللہ، جابر اور اسامہ نافع سے راوی ہیں، نیز ابوداؤد عبداللہ ابن واقد سے راوی ہیں اور طحاوی اسمٰعیل ابن عبدالرحمن سے راوی ہیں۔ چاروں (سالم، نافع، عبداللہ  ابن واقد، اسمٰعیل) عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے (ناقل ہیں) (ت)

 

فقیر غفراللہ تعالٰی نے جس طرح یہاں جمع وتلخیص طرق کی اکمال المحجہ وایضاح الحجہ کیلئے اُن کے اکثر نصوص والفاظ بھی وارد کرے وباللہ التوفیق، سنن ابوداؤد میں بسند صحیح ہے: حدثنا محمد بن عبید المحاربی نامحمد بن فضیل عن ابیہ عن نافع وعبداللّٰہ بن واقد ان مؤذن ابن عمرقال: الصلاۃ، قال: سر، حتی اذاکان قبل غیوب الشفق نزل۔ فصلی المغرب، ثم انتظر حتی غاب الشفق فصلی العشاء، ثم قال: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان اذا عجل بہ امرصنع مثل الذی صنعت فسار فی ذلک الیوم واللیلۃ مسیرۃ ثلٰث ۱؎۔

 

یعنی نافع وعبداللہ بن واقد دونوں تلامذہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے مؤذن نے نماز کا تقاضا کیا، فرمایا چلویہاں تک کہ شفق ڈوبنے سے پہلے اُتر کر مغرب پڑھی پھر انتظار فرمایا یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی اُس وقت عشا پڑھی پھر فرمایا: حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے جیسا میں نے کیا۔ ابن عمر نے اس دن رات میں تین رات دن کی راہ قطع کی (م)

 

(۱؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ اصح المطابع کراچی    ۱/۱۷۱)

 

ابوداود نے فرمایا: رواہ ابن جابر عن نافع نحو ھذا باسنادہ حدثنا ابراھیم بن موسٰی الرازی انا عیسٰی ابن جابر بھذا المعنی ورواہ عبداللّٰہ بن العلاء عن نافع، قال: حتی اذاکان عندذھاب الشفق نزل فجمع بینھما ۲؎۔

 

اس کو ابن جابر نے نافع سے اسی طرح روایت کیا ہے مع اسناد کے حدیث بیان کی ہم سے ابراہیم ابن موسٰی رازی نے، اس نے کہا کہ خبر دی ہمیں عیسٰی ابن جابر نے اس مفہوم کے ساتھ اور روایت کیا ہے اسکو عبداللہ بن علاء نے نافع سے کہ انہوں نے کہا: جب شفق ڈوبنے کے نزدیک ہُوئی اتر کر دونوں نمازیں جمع کیں۔ (ت)

 

(۲؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ اصح المطابع کراچی ۱ /۱۷۱)

 

نسائی کی روایت بسند صحیح یوں ہے: اخبرنا محمود بن خالدثنا الولید ثنا ابن جابرثنی نافع قال: خرجت مع عبداللّٰہ بن عمر فی سفر، یرید ارضالہ، فاتاہآتٍ فقال: ان صفیۃ بنت ابی عبید لمابھا، فانظران تدرکھا۔ فخرج مسرعا، ومعہ رجل من قریش یسایرہ، وغابت الشمس فلم یصل الصلاۃ، وکان عھدی بہ وھو یحافظ علی الصلاۃ، فلما ابطاء قلت: الصلاۃ، یرحمک اللّٰہ، فالتفت ای ومضی، حتی اذاکان فی اٰخر الشفق نزل فصلی المغرب، ثم اقام العشاء وقد تواری الشفق فصلی بنا، ثم اقبل علینا، فقال: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان اذاعجل بہ السیر صنع ھکذا ۱؎۔

 

یعنی نافع فرماتے ہیں عبداللہ بن عمر اپنی ایک زمین کو تشریف لیے جاتے تھے کسی نے آکر کہا آپ کی زوجہ صفیہ عــہ بنت ابی عبید اپنے حال میں مشغول ہیں شاید ہی آپ انہیں زندہ پائیں۔ یہ سُن کر بہ سُرعت چلے اور اُن کے ساتھ ایک مرد قریشی تھا سُورج ڈوب گیا اور نماز نہ پڑھی اور میں نے ہمیشہ اُن کی عادت یہی پائی تھی کہ نماز کی محافظت فرماتے تھے جب دیر لگائی میں نے کہا نماز خدا آپ پررحم فرمائے میری طرف پھر کر دیکھا اور آگے روانہ ہُوئے جب شفق کا اخیر حصّہ رہا اُتر کر مغرب پڑھی پھر عشا کی تکبیر اس حال میں کہی کہ شفق ڈوب چکی اُس وقت عشا پڑھی پھر ہماری طرف منہ کرکے کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی ایسا ہی کرتے۔ (م)

 

(۱؎ سنن نسائی    الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی۱/۹۹)

 

عــہ: ھی اخت مختار الکذاب المشہور، وابوھا ابوعبید رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ من الصحابۃ، استشھد فی خلافۃ امیرالمؤمنین، اماھی، ففی عمدۃ القاری، ادرکت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وسمعت منہ۔ اھ وفی ارشاد الساری، الصحابیۃ الثقفیۃ اخت المختار، وکانت من العابدات۔ اھ لکن قال الحافظ فی التقریب: قیل لھا ادراک، وانکرہ الدارقطنی، وقال العجلی: ثقہ فھی من الثانیۃ۔ اھ وحقق فی الاصابۃ نفی السماع واثبات الادراک ظنا، فراجعہ۔ وقدحدث عن ازواج النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلیھن وسلم ۱۲ منہ (م)

صفیہ، مشہور مختار کذاب کی بہن تھیں۔ ان کے والد ابوعبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ صحابہ میں سے تھے، امیرالمومنین کی خلافت کے دوران شہید ہوگئے تھے۔صفیہ کے بارے میں عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا۔ اور ارشاد الساری میں ہے کہ یہ بنی ثقیف سے تعلق رکھنے والی صحابیہ تھیں اور مختار کی بہن تھیں، عبادت گزار خواتین میں سے تھیں۔ لیکن حافظ نے تقریب میں لکھا ہے کہ بعض نے کہا ہے کہ صفیہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا لیکن دارقطنی نے اس کا انکار کیا ہے اور عجلی نے کہا ہے کہ ثقہ تھیں۔ اس لحاظ سے یہ طبقہ ثانیہ میں ہوں گی (یعنی تابعیات سے) اصابہ میں ثابت کیا ہے کہ صفیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام تو نہیں سنا البتہ ہوسکتا ہے کہ آپ کا زمانہ پایا ہو۔ اس سلسلے میں اصابہ کی طرف رجوع کرو۔ صفیہ نے ازواجِ مطہرات سے احادیث بیان کی ہیں۔(ت)

 

اسی طرح امام طحاوی نے روایت کی فقال حدثنا ربیع المؤذن ثنا بشربن بکرثنی ابن جابر ثنی نافع ۱؎ فذکرہ۔ نیز نسائی نے بسند حسن بطریق اخبرنا قتیبۃ بن سعید حدثنا العطاف ۲؎ اور ابوجعفر نے بطریق حدثنا یزید بن سنان ثنا ابوعامر العقدی ثنا العطاف بن خالد المخزومی ۳؎ اور امام فقیہ نے حجج میں بلاواسطہ روایت کی کہ اخبرنا عطاف بن خالد المخزومی المدینی قال اخبرنا نافع قال اقبلنا مع ابن عمر من مکۃ، حتی اذاکان ببعض الطریق استصرخ علی زوجتہ، فقیل لہ انھا فی الموت، فاسرع السیر، وکان اذانودی بالمغرب نزل مکانہ فصلی، فلما کان تلک اللیلۃ نودی بالمغرب فسار حتی امسینا فظننا انہ نسی، فقلنا: الصلاۃ، فسار حتی اذاکان الشفق قرب ان یغیب نزل فصلی المغرب، وغاب الشفق فصلی العشاء ثم اقبل علینا فقال: ھکذا کنا نصنع مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاجدبنا السیر۔

 

 (۱؎ شرح معانی الآثار باب الجمع بین الصلٰوتین    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۲)

(۲؎ سنن النسائی الوقت الذی     مجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشائ    مکتبہ سلفیہ لاہور   ۱/۷۰)                                    (۳؎ شرح معانی الآثار باب الجمع بین الصلاتین الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۳)

 

(یعنی امام نافع فرماتے ہیں راہِ مکّہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جب شفق ڈوبنے کے قریب ہُوئی اُتر کر مغرب پڑھی اور شفق ڈوب گئی اب عشاء پڑھی پھر ہماری طرف مُنہ کرکے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے تھے جب چلنے میں کوشش ہوتی تھی) امام عیسٰی بن ابان نے اسے روایت کرکے فرمایا:

 

وھکذا قال ابوحنیفۃ فی الجمع بین الصلاتین ان یصلی الاول منھما فی اٰخر وقتھا، والاخری فی اول وقتھا، کما فعل عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا، ورواہ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۴؎

 

(۴؎ کتاب الحجۃ باب الجمع الصلٰوۃ فی السفردار المعارف نعمانیہ لاہور ۱/۱۷۴، ۱۷۵)

 

 (یعنی دو۲ نمازیں جمع کرنے میں یہی طریقہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مذہب ہے کہ پہلی کو اس کے آخر وقت اور پچھلی کو اُس کے اوّل وقت میں پڑھے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے خود کیا اور حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت فرمایا) نیز امام طحاوی نے اور طریق سے یوں روایت کی:

 

حدثنا فحدثنا الحمانی ثنا عبداللّٰہ بن المبارک عن اسامہ بن زید اخبرنی نافع، وفیہ حتی اذاکان عند غیبوبۃ الشفق فجمع بینھما وقال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یصنع ھکذا  اذاجدبہ السیر ۵؎

 

 (یعنی جب شفق ڈوبنے کے نزدیک ہوئی اُتر کر دونوں نمازیں جمع کیں اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یوں ہی کرتے دیکھا جب حضور کو سفر میں جلدی ہوتی)

 

 (۵؎ شرح معانی الآثار           باب الجمع بین الصلٰوتین الخ             ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۲)

 

یہ طرق حدیث نافع عن عبداللہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تھے، اور صحیح بخاری ابواب التقصیر باب ھل یؤذن اویقیم اذاجمع بین المغرب والعشاء میں یوں ہے: حدثنا ابو الیمان قال اخبرنا شعیب عن الزھری قال اخبرنی سالم عن عبداللّٰہ ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاعجلہ السیر فی السفر یؤخر صلاۃ المغرب حتی یجمع بینھا وبین العشاء۔ قال سالم، وکان عبداللّٰہ یفعلہ اذااعجلہ السیر، ویقیم المغرب فیصلیھا ثلثا ثم یسلم، ثم قلما یلبث حتی یقیم العشاء فیصلیھا رکعتین ۱؎۔ الحدیث۔

 

 ( ۱؎ جامع صحیح البخاری باب ھل یؤذّن اویقیم الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۴۹)

 

اُسی کے باب یصلی المغرب ثلثا فی السفر میں بطریق مذکور وکان عبداللّٰہ یفعلہ اذاعجلہ السیر تک روایت کرکے فرمایا ۲؎

 

(۲؎ جامع صحیح البخاری باب یصلی المغرب ثلثانی السفر    ۱/۱۴۸)

 

وزاد اللیث قال حدثنی یونس عن ابن شھاب قال سالم کان ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما یجمع بین المغرب والعشاء بالمزدلفۃ۔ قال سالم: واخر ابن عمرالمغرب، وکان استصرخ علٰی امرأتہ صفیۃ بنت ابی عبید، فقلت لہ: الصلاۃ، فقال: سر، فقلت لہ: الصلاۃ، فقال: سر، حتی سارمیلین اوثلٰثۃ، ثمّ نزل فصلی، ثم قال: ھکذا رأیت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذااعجلہ السیر یؤخر المغرب فیصلیھا ثلثا ثم یسلم، ثم قلما یلبث حتی یقیم العشاء فیصلیھا رکعتین ۳؎ الحدیث۔

 

(ان دونوں روایتوں کا حاصل یہ کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما ایامِ حج میں ذی الحجہ کی دسویں رات مزدلفہ میں مغرب وعشاء جمع کرکے پڑھتے اور جب اپنی بی بی کی خبر گیری کو تشریف لے گئے تھے تو یوں کیا کہ مغرب کو آخر کیا، میں نے کہا نماز، فرمایا چلو، میں نے پھر کہا نماز۔ فرمایا چلو، دو۲ تین۳ میل چل کر اُترے اور نماز پڑھی، پھر فرمایا میں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب سفر میں جلدی ہوتی ایسا ہی کرتے، مغرب اخیر کرکے تین۳ رکعت پڑھتے پھر سلام پھیر کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے پھر عشا کی اقامت فرماکر دو۲ رکعت پڑھتے)

 

نسائی کے یہاں یوں ہے: اخبرنی محمد بن عبداللّٰہ بن بزیع حدثنا یزید بن ذریع حدثنا کثیر بن قارَوَنْدا قال: سألت سالم بن عبداللّٰہ عن صلاۃ ابیہ فی السفر وسألناہ ھل کان یجمع بین شیئ من صلاتہ فی سفرہ؟ فذکر ان صفیۃ بنت ابی عبید کانت تحتہ فکتبت الیہ، وھو فی زراعۃ لہ، انی فی اٰخر یوم من ایام الدنیا واول یوم من الاخرۃ، فرکب فاسرع السیر الیھا، حتی اذاحانت صلاۃ الظھر قال لہ المؤذن: الصلاۃ یاابا عبدالرحمٰن! فلم یلتفت، حتی اذاکان بین الصلاتین نزل، فقال: اقم، فاذا سلمت فاقم، فصلی ثم رکب حتی اذاغابت الشمس ، قال لہ المؤذن: الصلاۃ، فقال: کفعلک فی صلاۃ الظھر والعصر، ثم سار حتی اذا اشتبکت النجوم نزل، ثم قال المؤذن: اقم فاذاسلمت فاقم، فصلی ثم انصرف فالتفت الینا فقال، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاحضر احدکم الامر الذی یخاف فوتہ فلیصل ھذہ الصلاۃ ۱؎۔

 

 (۱؎ سنن النسائی    الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱/۹۸)

 

 (خلاصہ یہ کہ جب صفیہ کا خط پہنچا کہ اب میرا دمِ واپسیں ہے ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما شتاباں چلے ،نماز کیلئے ایسے وقت اُترے کہ ظُہر کا وقت جانے کو تھا اور عصر کا وقت آنے کو، اُس وقت ظہر پڑھ کر عصر پڑھی اور مغرب کے لئے اُس وقت اُترے جب تارے خُوب کھِل آئے تھے (جس وقت تک بلاعذر مغرب میں دیر لگانی مکروہ ہے، اُسے پڑھ کر عشاء پڑھی اور کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں کسی کو ایسی ضرورت پیش آئے جس کے فوت کا اندیشہ ہوتو اس طرح نماز پڑھے) نیز اسی حدیث میں دوسرے طریق سے یوں زائد کیا: اخبرنا عبدۃ بن عبدالرحیم ثنا ابن شمیل ثنا کثیر بن قارَوَندا قال سألنا سالم بن عبداللّٰہ عن الصلاۃ فی السفر، فقلنا اکان عبداللّٰہ یجمع بین شیئ من الصلاۃ فی السفر؟ فقال لا الا یجمع ۲؎

 

(۲؎سنن النسائی      الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی       ۱/۹۹)

 

یعنی ہم نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے سوال کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سفر میں کسی نماز کو دُوسری کے ساتھ جمع فرماتے تھے کہا نہ سوا مزدلفہ کے) (جہاں کا ملانا سب کے نزدیک بالاتفاق ہے) پھر وہی حدیث بیان کی کہ اُس سفر میں اُس طریق سے نمازیں پڑھی تھیں۔ اس حدیث جلیل کے اتنے طُرق کثیرہ ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے سفر میں بحال شتاب وضرورت جمع صوری فرمائی ہے اور یہی ہمارے ائمہ کرام کا مذہب ہے۔

 

حدیث ۲:امام اجل احمد بن حنبل مسند اور ابوبکر بن ابی شیبہ استاذ بخاری ومسلم مصنف میں بسند حسن بطریق اپنے شیخ وکیل بن الجراح کے اور امام طحاوی معانی الآثار میں بطریق حدثنا فھدثنا الحسن بن البشیر ثنا المعافی بن عمران کلاھما عن مغیرہ بن زیاد الموصلی عن عطاء بن ابی رباح ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی قالت کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی السفر یؤخر الظھر ویقدم العصر، ویؤخر المغرب ویقدم العشاء ۱؎

 

 (۱؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین صلاتین الخ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۳)

 

 (حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سفر میں ظہر کو دیر فرماتے عصر کو اول وقت پڑھتے مغرب کی تاخیر فرماتے عشاء کو اوّل وقت پڑھتے)

 

حدیث ۳:ابوداؤد اپنی سنن باب متی یتم المسافر اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی مصنّف میں بسند حسن جید متصل حضرت عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب وہ اپنے والد ماجد محمد بن عمر بن علی وہ اپنے والد ماجد عمر بن علی مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ، سے روایت کرتے ہیں:

 

ان علیاً کان اذاسافر سار بعد ما تغرب الشمس حتی تکاد ان تظلم، ثم ینزل فیصلی المغرب، ثم یدعو بعشائہ فیتعشی، ثم یصلی العشاء، ثم یرتحل۔ ویقول: ھکذا کان رسول اللّٰہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یصنع ۲؎۔

 

 (۲؎ سنن ابی داؤد    باب متی تیم المسافر    مطبوعہ مجتبائی لاہور پاکستان    ۱/۱۷۳)

 

 (یعنی امیرالمومنین مولی المسلمین علی مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وبہہ الاسنی جب سفر فرماتے سورج ڈوبے پر چلتے رہتے یہاں تک کہ قریب ہوتا کہ تاریکی ہوجائے پھر اُتر کر مغرب پڑھتے پھر کھانا منگا کر تناول فرماتے پھر عشا پڑھ کر کُوچ کرتے اور کہتے اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیا کرتے تھے)۔

 

امام عینی نے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کی سند کو فرمایا: لاباس بہ (اس میں کوئی نقص نہیں)۔

 

حدیث ۴:طحاوی بطریق ابی خثیمہ عن عاصم الاحول عن ابی عثمٰن راوی قال وفدت انا وسعد بن مالک ونحن بنادر للحج، فکنا نجمع بین الظھر والعصر، نقدم من ھذہ ونؤخر من ھذہ، ونجمع بین المغرب والعشاء، نقدم من ھذہ ونؤخر من ھذہ، حتی قدمنا مکۃ ۳؎

 

 (۳؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین صلاتین الخ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۴)

 

 (یعنی میں اور حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ حج کی جلدی میں مکہ معظمہ تک ظہر وعصر اور مغرب وعشا کو یوں جمع کرتے گئے کہ ظہر ومغرب دیر کرکے پڑھتے اور عصر وعشا جلد)

 

حدیث ۵:نیز امام ممدوح عبدالرحمن بن یزید سے راوی صحبت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ  فی حجہ فکان یؤخر الظھر ویعجل العصر، ویؤخذ المغرب ویعجل العشاء، ویسفر بصلاۃ الغداۃ ۴؎۔

 

(۴؎ شرح معانی الآثار          باب الجمع بین صلاتین الخ      مطبوعہ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱/۱۱۴)

 

 (میں حج میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہمراہ رکاب تھا ظہر میں دیر فرماتے اور عصر میں تعجیل مغرب میں تاخیر کرتے عشاء میں جلدی اور صبح روشن کرکے پڑھتے) امام مدوح ان احادیث کو روایت کرکے فرماتے ہیں:

 

وجمیع ماذھبنا الیہ من کیفیۃ الجمع بین الصلاتین قول ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمدرحمھم اللّٰہ تعالٰی ۱؎۔

 

 (۱؎ شرح معافی الآثار        باب الجمع بین صلاتین الخ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی       ۱/۱۱۴)

 

نمازیں جمع کرنے کا یہ طریقہ جو ہم نے اس باب میں اختیار فرمایا یہ سب امام اعظم وامام ابویوسف وامام محمد کا مذہب  ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم (م)

 

الحمداللہ جمع صوری کا طریقہ حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وحضرت مولی علی وعبداللہ بن مسعود وسعد بن مالک وعبداللہ بن عمرو غیرہم صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روشن وجہ پر ثابت ہوا اور امام لامذہبان کا وہ جبروتی ادعاکہ اس میں کوئی حدیث صحیح  نہیں، اور اس سے بڑھ کر یہ  بانگ بے معنی کہ یہ  روایات جن  سےجمع صوری کرنی ابن عمر کی واضح ہوتا ہے سب واہیات اور مردود اور شاذ اور مناکیر ہیں اور بشدت حیایہ خاص جحود وافترا کہ ابن عمر نے اس کیفیت سے ہرگز نمازیں جمع نہیں کیں جیسا کہ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے ۲؎ اپنی سزائے کردار کو پہنچا اب ایضاح مرام وازاحت اوہام کو چند افادات کا استماع کیجئے۔

 

 (۲؎ معیارالحق مسئلہ پنجم    جمع بین الصلٰوتین    مکتبہ نذیریہ لاہور    ص۳۹۶)

 

افادہ اولٰی:لامذہب ملّا کو جب کہ انکار جمع صوری میں چاند پر خاک اُڑانی تھی اور احادیث مذکورہ صحاح مشہورہ میں موجود ومتداول تو بے رَد صحاح چارہ کار کیا تھا لہذا بایں پیرانہ سالی حضرت کے رقص جملی ملاحظہ ہوں:

 

لطیفہ ۱: ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث جلیل وعظیم کے پہلے طریق صحیح مروی سنن ابی داود کو محمد بن فضیل کے سبب ضعیف کیا۔

اقول اوّلاً: یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخاری وصحیح مسلم کے رجال سے ہے۔

ثانیاً: امام ابن معین جیسے شخص نے ابن فضیل کو ثقہ امام احمد نے حسن الحدیث، امام نسائی نے لاباس بہ (اس میں کوئی نقص نہیں۔ ت) کہا، امام احمد نے اُس سے روایت کی اور وہ جسے ثقہ نہیں جانتے اُس سے روایت نہیں فرماتے میزان میں اصلاً کوئی جرح مفسّر اُس کے حق میں ذکر نہ کی۔

ثالثاً:    یہ بکف چراغی قابل تماشا کہ ابن فضیل کے منسوب برفض ہونے کا دعوٰی کیا اور ثبوت میں عبارت تقریب رمی بالتشیع ملّاجی کو بایں سالخوردی ودعوٰی محدثی آج تک اتنی خبر نہیں کہ محاوراتِ سلف واصطلاح محدثین میں تشیع ورفض میں کتنا عـــہ فرق ہے ۔

 

عـــہ:  کماصرحوا بہ وتدل علیہ محاوراتھم، منھا مافی المیزان فی ترجمۃ الحاکم بعد ماحکی القول برفضہ، اللّٰہ یحب الانصاف، ماالرجل برافضی بل شیعی فقط اھ ۱۲ منہ (م)

جیسا کہ علماء نے تصریح کی ہے اور ان کے محاورات سے بھی واضح ہے۔ مثلاً میزان میں حاکم کے حالات میں کسی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ رافضی تھا۔ اس کے بعد کہا ہے ''اللہ انصاف کو پسند کرتا ہے، یہ آدمی رافضی نہیں ہے، صرف شیعہ ہے''۔ (ت)

 

زبان متاخرین میں شیعہ روافض کو کہتے ہیں خذلہم اللہ تعالٰی جمیعا بلکہ آج کل کے بیہودہ مہذبین روافض کو رافضی کہنا خلافِ تہذیب جانتے اور انہیں شیعہ ہی کے لقب سے یاد کرنا ضروری مانتے ہیں خود مُلّاجی کے خیال میں اپنی مُلّائی کے باعث یہی تازہ محاورہ تھا یا عوام کو دھوکا دینے کیلئے متشیع کو رافضی بنایا حالانکہ سلف میں جو تمام خلفائے کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ساتھ حُسنِ عقیدت رکھتا اور حضرت امیرالمومنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کو اُن میں افضل جانتا شیعی کہا جاتا بلکہ جو صرف امیرالمومنین عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر تفضیل دیتا اُسے بھی شیعی کہتے ہیں حالانکہ یہ مسلک بعض علمائے اہلسنّت کا تھا اسی بناء پر متعدد ائمہ کوفہ کو شیعہ کہاگیا بلکہ کبھی محض غلبہ محبت اہل بیت کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو شیعیت سے تعبیر کرتے حالانکہ یہ محض سنیت ہے امام ذہبی نے تذکرۃ الحفّاظ میں خود انہیں محمد بن فضیل کی نسبت تصریح کی کہ ان کا تشیع صرف موالات تھا وبس۔

 

حیث قال: محمد بن فضیل بن غزوان، المحدث الحافظ، کان من علماء ھذا الشان، وثقہ یحيٰی بن مَعین، وقال احمد: حسن الحدیث، شیعی۔ قلت: کان متوالیا فقط ۱؎۔

 

 (۱؎ تذکرۃ الحفاظ     فی ترجمۃ محمد بن فضیل    مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباددکن    ۱/۲۹۰)

 

چنانچہ ذہبی نے کہا ہے کہ محمد ابن غزوان، جوکہ محدّث اور حافظ ہے، حدیث کے علماء میں سے تھا یحیٰی ابن معین نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے اور احمد نے کہا ہے کہ اچھی حدیثیں بیان کرتا ہے مگر شیعہ ہے۔ میں نے کہا ''صرف اہلِ بیت سے محبت رکھتا تھا''۔ (ت)

 

رابعاً:ذرا رواۃ صحیحین دیکھ کر شیعی کو رافضی بناکر تضعیف کی ہوتی، کیا بخاری ومسلم سے بھی ہاتھ دھونا ہے ان کے رواۃ عــہ میں تیس۳۰ سے زیادہ ایسے لوگ ہیں جنہیں اصطلاحِ قدماء پر بلفظ تشیع ذکر کیا جاتا یہاں تک کہ تدریب میں حاکم سے نقل کیا کتاب مسلم ملاٰن من الشیعۃ ۱؎

 

 (۱؎ تدریب الرادی شرح تقریب النواوی    روایۃ المبتدع        مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور    ۱/۳۲۵)

 

 (مسلم کی کتاب شیعوں سے بھری ہوئی ہے۔ ت) دُور کیوں جائیے خود یہی ابن فضیل کہ واقع کے شیعی صرف بمعنی محب اہل بیت کرام اور آپ کے زعم میں معاذاللہ رافضی صحیحین کے راوی ہیں۔

 

عــہ: مثلاً ابان بن تغلب، اسمٰعیل بن ابان ورّاق، اسمٰعیل بن زکریا، اسمٰعیل بن عبدالرحمٰن سُدی صدوق یھم، بکیر بن عبداللّٰہ، جریر بن عبدالحمید، جعفر بن سلیمٰن، حسن بن صالح، خالد بن مخلد قطوانی، ربیئع بن انس صدوق لہ اوھام، زاذان کندی، سعید بن فیروز، سعید بن عمرو ھمدانی، عباد بن یعقوب رواجنی، عبادبن عوام کلابی، عبداللّٰہ بن عمر مشکدانہ، عبداللّٰہ بن عیسٰی کوفی، عبدالرزاق، صاحبِ مصنّف، عبدالملک بن اعین، عبیداللّٰہ بن موسٰی، عدی بن ثابت، علی بن الجعد، علی بن ھاشم بن البرید، فضل بن دُکین ابونعیم، فضیل بن مرزوق، فطربن خلیفۃ، مالک بن اسمٰعیل نھدی، محمد بن اسحٰق صاحبِ مغازی، محمد بن جحادہ اور یہی محمد بن فضیل، ھشام بن سعد، یحیی بن الجزار وغیرہم ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

 

خامساً:     اُس کے ساتھ ہی حدیث کی متابعتین دو۲ ثقات عدول ابن جابر وعبداللہ بن العلا سے ابوداود نے ذکر کردیں اور سنن نسائی وغیرہ میں بھی موجود تھیں پھر ابن فضیل پر مدار کب رہا ولکن الجھلۃ لایعلمون  (لیکن جاہل جانتے نہیں ہیں۔ ت) اور یہ تو ادنٰی نزاکت ہے کہ تقریب میں ابن فضیل کی نسبت صدوق عارف لکھا تھا ملّاجی نے نقل میں عارف اُڑادیا کہ جو کلمہ مدح کم ہو وہی سہی۔

 

لطیفہ ۲:     طرفہ تماشا کہ متابعت ابن جابر جو امام داؤد نے ذکر کی آپ اسے یوں کہہ کر ٹال گئے کہ وہ تعلیق ہے اور تعلیق حجت نہیں اب کون کہے کہ کسی سے آنکھیں قرض ہی لے کر دیکھیے کہ ابوداؤد نے رواہ ابن جابر عن نافع کہہ کر اُسے یوں ہی معلق چھوڑدیا یا وہیں حدثنا ابرھیم بن موسٰی الرازی اناعیسی عن ابن جابر ۲؎ فرماکر موصول کردیا ہے ولکن النجدیۃ لایبصرون

 

 (۲؎ سنن ابوداؤد        باب المجمع بین الصلٰوتین    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/۱۷۱)

 

لطیفہ ۳:    امام طحاوی کی حدیث بطریق ابن جابر عن نافع پر بشر بن بکر سے طعن کیا کہ وہ ف غریب الحدیث ہے ایسی روایتیں لاتا ہے کہ سب کے خلاف قالہ الحافظ فی التقریب۔

 

 (ف۔ معیارالحق    ص۳۹۶)

 

اقول اوّلاً:ذرا شرم کی ہوتی کہ یہ بشر بن بکر رجال صحیح بخاری سے ہیں صحیح حدیثیں رَد کرنے بیٹھے تو اب بخاری بھی بالائے طاق ہے۔

 

ثانیاً:اس صریح خیانت کو دیکھئے کہ تقریب میں صاف صاف بشر کو ثقہ فرمایا ۱؎ تھا وہ ہضم کرگئے۔

 

 (۱؎ تقریب التہذیب ترجمہ بشربن بکر التنیسی    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ    ص۴۴)

 

ثالثاً:محدث جی! تقریب میں ثقۃ یغرب ۲؎ ہے، کسی ذی علم سے سیکھوکہ فلاں یغرب اور فلاں غریب الحدیث میں کتنا فرق ہے۔

 

 (۲؎ تقریب التہذیب ترجمہ بشربن بکر التنیسی    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ    ص۴۴   )

 

رابعا:    اغراب کی یہ تفسیر کہ ایسی روایتیں لاتا ہے کہ سب کے خلاف محدث جی! غریب ومنکر کا فرق کسی طالب علم سے پڑھو۔

خامسا:    باوصف ثقہ ہونے کے مجرد اغراب باعث رد ہوتو صحیحین سے ہاتھ دھولیجئے، یہ اپنی مبلغ علم تقریب ہی دیکھی کہ بخاری ومسلم کے رجال میں کتنوں عــہ کی نسبت یہی لفظ کہا ہے اور وہاں یہ بشر خود ہی جو رجال بخاری سے ہیں۔

 

عـــہ: مثلاً ابرھیم بن طھمان، بشربن خالد، ابرھیم بن سوید بن حبان، بشیربن سلمان، حسن بن احمد بن ابی شبیب، محمد بن عبدالرحمٰن بن حکیم وغیرہم کہ سب ثقہ یغرب ہیں۔ احمد بن صباح حکام بن مسلم وغیرھما ثقۃ لہ غرائب خصوصا ازھر بن جمیل، خالدبن قیس، ابراھیم بن اسحٰق وغیرھم کہ صدوق یغرب یہ تینوں بشربن بکر سے بھی گئے درجے کے ہوئے کہ ثقہ سے اترکر طرف صدوق ہیں ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

 

سادسا:    ذرا میزان تو دیکھئے کہ اما بشربن بکر التنیسی فصدوق ثقۃ لاطعن فیہ ۳  (یعنی بشربن بکر تنیسی خُوب راست گوثقہ ہیں جن میں اصلاً کسی وجہ سے طعن نہیں)

 

 (۳؎ میزان الاعتدال فی ترجمۃ بشربن بکر ۱۱۸۶    مطبوعہ دارالمعرفت بیروت لبنان    ۱/۳۱۴)

 

کیوں شرمائے تو نہ ہوگے ایسی ہی اندھیری ڈال کر جاہلوں کو بہکادیا کرتے ہوکہ حنفیہ کی حدثیں ضعیف ہیں ع

شرم بادت ازخدا وازرسول

لطیفہ ۴:    طریق ابن جابر سے سنن نسائی کی حدیث کو ولید بن قاسم سے رَد کیا کہ روایت میں اُس سے خطا ہوتی تھی کہا تقریب میں صدوق یخطی۔

 

اقول اولا:    مسلمانو! اس تحریفِ شدید کو دیکھنا اسنادِ نسائی میں یہاں نام ولید غیر منسوب واقع تھا کہ اخبرنا محمود بن خالد ثنا الولید ثنا ابن جابر ثنا نافع الحدیث ۱؎۔

 

 (۱؎ سنن النسائی    الوقت الذی یجمع فیہ المسافر    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱/۹۹)

 

ملّا جی کو چالاکی کا موقع ملا کہ تقریب میں اسی طبقہ کا ایک شخص رواۃ نسائی سے کہ نام کا ولید اور قدرے متکلم فیہ ہے چھانٹ کر اپنے دل سے ولید بن قاسم تراش لیا حالانکہ یہ ولید بن قاسم نہیں ولید بن مسلم ہیں رجال صحیح مسلم وائمہ ثقات وحفاظ اعلام سے اسی تقریب میں ان کے ثقہ ہونے کی شہادت موجود، ہاں تدلیس کرتے ہیں مگر بحمداللہ اُس کا احتمال یہاں مفقود کہ وہ صراحۃً حدثنا ابن جابر قال حدثنی نافع فرمارہے ہیں۔ میزان میں ہے:

 

الولیدبن مسلم ابوالعباس الدمشقی، احدالاعلام وعالم اھل الشام۔ لہ مصنفات حسنۃ، قال احمد: مارأیت فی الشامیين اعقل منہ۔  وقال ابن المدینی : عندہ علم کثیر۔ قال ابومسھر : الولید مدلس، قلت : اذاقال الولید : عن ابن جریج اوعن الاوزاعی ، فلیس بمعتمد لانہ یدلس عن کذابین، فاذاقال: حدثنا فھو حجۃ ۲؎ اھ ملخصاً۔ ولید ابن مسلم ابوالعباس دمشقی۔ بلند مرتبہ لوگوں میں سے ایک، شام کا عالم، اس کی تصنیفات عمدہ ہیں احمد نے کہا ہے کہ میں نے شامیوں میں اس سے زیادہ عقل مند آدمی نہیں دیکھا۔ ابن مدینی نے کہا کہ اس کے پاس بہت علم ہے۔ ابومسہر نے کہا ہے کہ ولید مدلّس ہے۔ میں نے کہا: جب ولید عن ابن جریج یا عن الاوزاعی کہے تو قابلِ اعتماد نہیں ہے لیکن جب حدثنا کہے تو مستند ہے اھ ملخصاً۔ (ت)

 

 (۲؎ میزان الاعتدال فی ترجمۃ ولیدبن مسلم ۹۴۰۵    دارالمعرفت بیروت ، ۴/۳۴۷۔۳۴۸)

 

مُلّاجی! ؃

دربساط نکتہ داناں خود فروشی شرط نیست

یا سخن دانستہ گو اے مرد غافل یاخموش

 

 (نکتہ دانوں کی مجلس میں اپنے آپ کو بیچ دینا ضروری نہیں ہے  اے مردِ غافل! یا تو سوچ سمجھ کر بات کریاخاموش رہ )  تم نے جاناکہ آپ کے کید پر کوئی آگاہ نہ ہوگا ذرا بتائیے تاکہ آپ نے ولید کا ولید بن قاسم کس دلیل سے متعین کرلیا، کیا اس طبقہ میں اس نام کا رواۃ نسائی میں کوئی اور نہ تھا اگر اب عاجز آکر ہم سے پوچھنا ہوکہ تم نے ولیدبن مسلم کیسے جانا اوّل تو بقانون مناظرہ جب آپ غاصب منصب ہیں ہم سے سوال کا محل نہیں اور استفادۃً پُوچھو تو پہلے اپنی جزاف کا صاف صاف اعتراف کرو پھر شاگردی کیجئے تو ایک یہی کیا بعونہٖ تعالٰی بہت کچھ سکھادیں وہ قواعد بتادیں جس سے اسمائے مشترکہ میں اکثر جگہ تعین نکال سکو۔ ثانیا:    بفرض غلط ابن قاسم ہی سہی پھر وہ بھی کب مستحقِ رَد ہیں امام احمد نے اُن کی توثیق فرمائی، اُن سے روایت کی، محدثین کو حکم دیا کہ اُن سے حدیث لکھو۔ ابنِ عدی نے کہا: اذاروی عن ثقۃ فلاباس بہ ۱؎  (وہ جب کسی ثقہ سے روایت کریں تو اُن میں کوئی عیب نہیں) اور ابن جابر کا ثقہ ہونا خود ظاہر۔

 

 (۱؎ الکامل لابن عدی    فی ترجمۃ ولیدا بن قاسم        مطبوعہ المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل    ۷/۴۵، ۲۵)

 

ثالثا:    ذرا رواۃ صحیح بخاری ومسلم پر نظر ڈالے ہُوئے کہ اُن میں کتنوں عــہ کی نسبت تقریب میں یہی صدوق یخطئ بلکہ اس سے زائد کہا ہے کیا قسم کھائے بیٹھے ہوکہ صحیحین کا رَد ہی کردوگے!

 

عــہ مثلاً اسمٰعیل بن مجالد، اشھل بن حاتم، بشربن عبیس، حارت بن عبید، حبیب بن ابی حبیب، حجاج بن ابی زینب، حسان بن ابرھیم، حسان بن حسان بصری، حسان بن عبداللّٰہ کندی، حسن بن بشربن سلم، حسن بن ذکوان ورمی بالقدر، خالد بن خداش، خالد بن عبدالرحمٰن السلمی، شریک بن عبداللّٰہ بن ابی بر، عبدالرحمٰن بن عبداللّٰہ بن دینار، عبدالمجیدبن عبدالعزیز، مسکین بن بکیر، معقل بن عبیداللّٰہ وغیرھم ان سب پر وہی حکم صدوق یخطئ لگایا ہے خلیفۃ بن خیاط، عبداللہ بن عمر نمیری،عبدالرحمن بن حرملہ اسلمی، عبدالرحمن بن عبداللّٰہ بن عبید، یحيٰی بن ابی اسحٰق حضرمی وغیرھم صدوق ربما اخطأ ہیں، اب زیادہ کی بعض مثالیں لیجئے حجاج بن ارطاۃ صدوق کثیر الخطاء والتدلیس، شریک بن عبداللّٰہ نخعی صدوق یخطئ کثیرا تغیر حفظہ، صالح بن رستم المزنی صدوق کثیرالخطاء، عبداللّٰہ بن صالح صدوق کثیرالغلط ثبت فی کتابہ وکانت فیہ غفلۃ، فلیح بن سلیمان صدوق کثیرالخطاء، مطرالوراق صدوق کثیرالخطاء وحدیثہ عن عطاء ضعیف، نعیم بن حماد صدوق یخطئ کثیرا ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

 

رابعاً: صحیح بخاری میں حسان بن حسان بصری سے روایت کی تقریب میں انہیں صدوق یخطئ ۱؎

 

 (۱؎ تقریب التہذیب فی ترجمہ ابن حسان الواسطی    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ    ص۶۸)

 

پھر حسان بن حسان واسطی کی نسبت لکھا خلطہ ابن مندۃ بالذی قبل فوھم، وھذا ضعیف ۲؎

 

 (۲؎تقریب التہذیب فی ترجمہ ابن حسان الواسطی    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ    ص۶۸)

 

 (ابن مندہ نے اسے پہلے کے ساتھ ملادیا ہے یہ اس کی غلطی ہے کیونکہ یہ ضعیف ہے۔ ت) دیکھو صاف بتادیا کہ جسے صدوق یخطی کہا وہ ضعیف نہیں، مُلّاجی اپنی جہالت سے مردود واہیات گارہے ہیں۔

 

لطیفہ ۵:    حدیث صحیح نسائی وطحاوی وعیسٰی بن ابان بطریق عطاف عن نافع کو عطاف سے معلول کیا ف کہ وہ وہمی ہے کہا تقریب میں صدوق یھم۔

 

 ( ف، معیار الحق     ص ۳۹۶)

 

اقول اوّلا:عطاف کو امام احمد وامام ابن معین نے ثقہ کہا وکفی بھما قدوۃ میزان میں ان کی نسبت کوئی جرح مفسّر منقول نہیں۔

ثانیاً:کسی سے پڑھو کہ وہمی اور صدوق یھم میں کتنا فرق ہے۔

ثالثاً: صحیحین سے عداوت کہاں تک بڑھے گی تقریب ملاحظہ ہوکہ آپ کے وہم کے ایسے وہمی عـــہ اُن میں کس قدر ہیں۔

 

عــہ: مثل ابرھیم بن یوسف بن اسحاق، اسامہ بن زید اللیثی، اسمٰعیل بن عبدالرحمٰن السدی، ایمن بن نابل، جابربن عمرو، جبربن نوف، حاتم بن اسمٰعیل، حرب بن ابی العالیہ، حرمی بن عمارہ، حزم بن ابی حزم، حسن بن الصباح، حسن بن فرات، حمیدبن زیاد، ربیعہ بن کلثوم، عبداللّٰہ بن عبداللّٰہ بن اویس وغیرھم سب صدوق یھم ہیں احوص بن جواب، حمزہ بن جیب زیات امام قراء ت، معاذ بن ھشام، عاصم بن علی بن عاصم وغیرھم سب صدوق ربما وھم بلکہ عطاء بن ابی مسلم صدوق یھم کثیرا ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

 

رابعاً:    بالفرض یہ سب رواۃ مطعون ہی سہی مگر جب بالیقین اُن میں کوئی بھی درجہ سقوط میں نہیں تو تعدّد طرق سے پھر حدیث حجت تامہ ہے ولکن الوھابیۃ قوم یجھلون (لیکن وہابی جاہل لوگ ہیں۔ ت)

لطیفہ ۶:    آپ کے امتحان علم کو پُوچھا جاتا ہے کہ روایت طحاوی حدثنا فھد  ثنا الحمانی ثنا ابن المبارک عن اسامۃ بن زید اخبرنی نافع میں آپ نے کہاں سے معین کرلیا کہ یہ اُسامہ بن زید عدوی مدنی ضعیف الحافظ ہے، اسی طبقہ سے اسامہ بن زید لیثی مدنی بھی توہے کہ رجال صحیح مسلم وسُنن اربعہ وتعلیقات بخاری سے ہے جسے یحیٰی بن معین نے کہا: ثقہ ۱؎ ہے۔

 

 (۱؎ میزان الاعتدال    ترجمہ اسامہ بن زید اللیثی ۷۰۵    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۱/۱۷۴)

 

ثقہ صالح ہے ثقہ حجت ہے دونوں ایک طبقہ ایک شہر ایک نام کے ہیں اور دونوں نافع کے شاگرد، پھر منشاء تعیين کیا ہے اور آپ کی تو شاید اس سوال میں بھی وقت پڑے کہ کہاں سے مان لیا کہ یہ حمانی حافظ کبیر یحیٰی بن عبدالحمید صاحب مسند ہے جس کی جرح آپ نے نقل کی اور امام یحیٰی بن معین وغیرہ کا ثقہ اور ابن عدی کا ارجو انہ لاباس ۲؎ بہ (مجھے امید ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ ت)

 

 (۲؎ میزان الاعتدال    ترجمہ یحیٰی بن عبدالحمید الحمانی ۹۵۶۷    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت   ۴/۳۹۲)

 

اور ابن نمیر کا ھواکبر من ھؤلاء کلھم، فاکتب عنہ  (وہ ان سب سے بڑا ہے، اس لئے میں اس سے حدیث لکھتا ہوں۔ ت) کہنا چھوڑ دیا اسی طبقہ تاسعہ سے اُس کا والد عبدالحمید بن عبدالرحمن بھی توہے کہ رجال صحیحین سے ہے اور دونوں حمانی کہلائے جاتے ہیں کمافی التقریب۔

 

لطیفہ ۷:    روایات نسائی بطریق کثیر بن قار وَندا عن سالم عن ابیہ میں جھُوٹ کو بھی کچھ گنجائش نہ ملی تو اُسے یوں کہہ کر ٹالاکہ  وہ شاذ ہے  ف  اس لئے کہ مخالف ہے روایات شیخین وغیرہما کے وہ ارجح ہیں سب سے بالاتفاق اور مقدم ہوتی ہیں سب پر جب کہ موافقت اور نسخ نہ بن سکے۔

 

 (ف معیار الحق    ص۳۹۷)

 

اقول اوّلا:    شیخین کا نام کس مُنہ سے لیتے اور اُن کی احادیث کو ارجح کہتے ہو  یہ وہی شیخین تو ہیں جو محمد بن فضیل سے حدیثیں لاتے ہیں جسے تمہارے نزدیک رافضی کہاگیا اور حدیثوں کا پلٹ دینے والا اور موقوف کو مرفوع کردینے کا عادی تھا۔

ثانیا ثالثا رابعا: یہ وہی شیخین توہیں جن کے یہاں سب کے خلاف حدیثیں لانے والے حدیثوں میں خطا کرنے والے وہمی کئی درجن بھرے ہُوئے ہیں۔

خامساً:مخالف شیخین کا دعوٰی محض باطل ہے جیسا کہ بعونہٖ تعالٰی عنقریب ظاہر ہوتا ہے۔

لطیفہ ۸:    اس حدیث جلیل صحیح کے رَد میں مُلّاجی نے جوجو چالاکیاں بیباکیاں برتیں اُن کا پردہ تو فاش ہوچکا، جابجا ثقات کو مجروح فرمایا، رواۃ بخاری ومسلم کو مردود ٹھہرایا، حدیث موصول کو معلق بنایا، متابعات سے آنکھیں بند کرلیں، نقلِ عبارت میں خیانتیں کیں، معانی میں تحریف کی راہیں لیں، راوی کو کچھ سے کچھ بنالیا، مشترک کو جزافاً معین کردیا جہاں کچھ نہ بن پڑا مخالفتِ شیخین کا اعادہ کیا، اب خود حدیث صحیح بخاری شریف کو کیا کریں رجال بخاری کو رَد کردینا اور بات تھی کہ عوام کو ان کی کیا خبر، مگر خود حدیث بخاری کا نام لیکر رَد کرنے میں سخت مشکل پیش نظر، لہذا یہ چال چلے کہ لاؤ اسے بزورِ زبان وزورِ بہتان اپنے موافق بنالیجئے اس لئے حدیث مذکور باب ھَل یوذن او یقیم کا ایک ٹکڑا جس میں وہ تین میل چل کر مغرب پڑھنے کا ذکر تھا اپنے ثبوت کی احادیث میں نقل کرکے فرمایا  ف

 

 (ف۔ معیار الحق    ص ۳۷۵)

 

یہ بات ادنٰی عاقل بھی جانتا ہے کہ بعد دخول وقت مغرب کے دوتین کوس مسافت چلیں تو اتنے میں شفق غائب ہوجاتی ہے اور وقت عشا کا داخل ہوجاتا ہے۔

اوّلاً:میل کا کوس بنایا کہ کچھ دیر بڑے دو۲ میل کا تو سواہی کوس ہوا، اور تین ہی لیجئے جب بھی دو۲ کوس پُورے نہیں پڑتے۔

ثانیاً اقول:فریبِ عوام کو چالاکی یہ کی کہ حدیث کا ترجمہ نہ کیا دوتین کوس مسافت چلیں لکھ دیا کہ جاہل سمجھیں غروب کے بعد پیادہ تین کوس چلے ہوں ترجمہ کرتے تو کھُلتا کہ سوار تھے اور کیسی سخت جلدی کی حالت میں تھے ہم نے حدیث ابوداؤد سے نقل کیا کہ اُنہوں نے اُس دن سہ۳ منزلہ فرمایا تو صرف میل بھر یا اُس سے بھی کم چلنے کی دیر رہ گئی اگر پیادہ ہی چلئے تو اتنی دیر میں ہرگز وقتِ عشاء نہیں آتا تو حدیث سے مغرب کا وقت مغرب ہی میں پڑھنا پیدا تھا جسے صاف کایا پلٹ کردیا مکہ معظمہ اور اُس کے حوالی میں جن کا عرض مابین کا حہ اـلت حہ ہے غروبِ شمس سے انحطاط حہ (کچھ لکھنا ہے) تک ہر موسم میں ایک ساعت فلکیہ سے زیادہ وقت رہتا ہے اور پھر مدینہ طیبہ کی طرف جنتے بڑھیے وقت بڑھتا جائے گا کمالایخفی علی العارف بالھیأۃ (جیسا کہ علمِ ہیئت جاننے والے پر ظاہر ہے۔ ت) تو غروب سے گھنٹے بھر بعد بھی نمازِ مغرب وقت میں ممکن، آپ کے نزدیک جبکہ دو۲ میل چلنے میں عشاء آجاتی ہے تو لازم کہ اتنی مسافت میں ایک گھنٹے سے زیادہ صرف ہونا واجب ہو، اور امام مالک مؤطا میں روایت فرماتے ہیں کہ حضرت امیرالمؤمنین عثمٰن غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینہ طیبہ میں نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکر سوار ہوئے اور موضع ملَل میں عصر کیلئے اُترے ۔

 

مالک عن عمروبن یحيٰی المازنی عن ابن ابی سلیط ان عثمٰن بن عفان صلی الجمعۃ بالمدینۃ وصلی العصر بملل ۱؎۔

 

 (۱؎ مؤطا امام مالک وقوت الصلواۃ، وقت الجمعۃ مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی ص۶)

 

مالک، عمروبن یحیٰی المازنی سے، وہ ابن سلیط سے راوی کہ عثمان ابن عفان نے جمعہ مدینہ میں پڑھا اور عصر مَلَل میں۔ (ت)

 

ملَلَ مدینہ طیبہ سے سترہ۱۷ میل ہے کمافی النھایۃ ۲؎ (جیسا کہ نہایۃ میں ہے۔ ت)

 

 (۲؎ النہایۃ لابن اثیر المیم مع اللام لفظ مَلَل مطبوعہ المکتبۃ الاسلامیہ ریاض    ۴/۳۶۲)

 

بعض نے کہا اٹھارہ۱۸ میل کماحکاہ الزرقانی (جیسا کہ زرقانی نے بیان کیا ہے۔ ت) ابن وضاح نے کہا بائیس۲۲ میل کمانقلہ ابن رشیق عن ابن وضاح ۱؎  (جیسا کہ ابن رشیق نے ابن وضاح سے نقل کیا ہے۔ ت)

 

 (۱؎ شرح الزرقانی علی المؤطا لامام مالک     زیرِ حدیث مذکور        مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر       ۱/۲۶)

 

بلکہ بعض نسخِ مؤطا میں خود امام مالک سے اسی کی تصریح ہے

 

قال مالک وبینھما اثنان وعشرون میلا (مالک نے کہا ہے کہ دونوں کے درمیان بائیس۲۲ میل کا فاصلہ ہے۔ ت) وہ سترہ۱۷ ہی میل سہی آپ کے طور پر کوئی رات کے نودس بجے تک عصرکا وقت رہا ہوگا کہ جمعہ پڑھنے سے آٹھ نو گھنٹے بعد امیرالمومنین نے عصر اداکی کہ مدینہ طیبہ اور اس کے حوالی میں جن کا عرض الہ حہ سے زائد نہیں مقدار نہار روز تحویل سرطان بھی صرف ح ت لح وّ ہے کمالایخفی علی من یعلم استخراج طول النھار من عرض البلاد  (جیسا کہ اس شخص پر مخفی نہیں ہے جو عرض بلاد سے دن کی لمبائی کا استخراج کرسکتا ہو۔ ت)

 

ثالثا اقول:اسی لئے خود آخر حدیث بخاری میں مذکور تھا کہ مغرب کے بعد کچھ دیر انتظار کرکے عشاء پڑھی اگر خود عشاءہی کے وقت میں مغرب پڑھتے تو ایسی جلدی واضطراب شدید کی حالت میں اب عشاء کیلئے انتظار کس بات کا تھا یہ ٹکڑا حدیث کا ہضم کرگیا کہ بھرم کھُلتا۔

 

رابعا اقول:آپ تو اسی بحث میں فرماچکے کہ تعلیقات حجت نہیں صحیح بخاری میں یہ ٹکڑا جو آپ اپنی سند بناکر نقل کررہے ہیں تعلیقاً ہی مذکور تھا اصل حدیث بطریق حدثنا ابوالیمان قال اخبرنا شعیب عن الزھری ذکر کی جس میں آپ کے اس مطلب کا کُچھ پتانہ تھا اس کے بعد یہ ٹکڑا تعلیقاً بڑھایا کہ وزاد اللیث قال حدثنی یونس عن ابن شہاب، اب تعلیق کیوں حجت ہوگئی، وہاں تو آخر حدیث کو ہضم کیا تھا یہاں اول کلام تناول فرمایا کہ اپنا عیب نہ ظاہر ہو۔

 

خامسا اقول: آپ تو رادی کو اس کے وہم وخطا بلکہ صرف اغراب پر رَد فرماتے ہیں اگرچہ رجال بخاری ومسلم سے ہو، اب یہ تعلیق کیونکر مقبول ہوگئی اس میں زہری سے راوی یونس بن یزید ہیں جنہیں اسی تقریب میں فرمایا: ثقۃ الا ان فی روایتہ عن الزھری وھما قلیلا وفی غیرالزھری خطا ۲؎۔ ہیں تو ثقہ مگر زہری سے ان کی روایت میں کچھ وہم ہے اور غیر زہری سے روایت میں خطا۔

 

 (۲؎ تقریب التہذیب    حرف الیاء    مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی    ص۲۸۷)

 

اثرم نے کہا: ضعف احمد امریونس (امام احمد نے یونس کا کام ضعیف بتایا) امام ابن سعدنے کہا: لیس بحجۃ (یونس قابل احتجاج نہیں) امام وکیع بن الجراح نے کہا: سیئ الحفظ (یونس کا حافظہ بُرا ہے) یوں ہی امام احمد نے ان کی کئی حدیثوں کو منکر بتایا کل ذلک فی المیزان ؎۱ (یہ سب میزان میں ہے۔ ت)

 

 (۱؎ میزان الاعتدال حرف الیاء ۹۹۲۴    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۴/۴۸۴)

 

تنبیہ:    یہ ہم نے آپ کا ظلم وتعصب ثابت کرنے کو آپ کی طرح کلام کیا ورنہ ہمارے نزدیک نہ تعلیق مطلقاً مردود نہ یونس ساقط نہ وہم وخطا جب تک فاحش نہ ہوں موجب رد نہ یہ حدیث بخاری اصلاً تمہارے موافق بلکہ صراحۃً ہمارے مؤید وباللّٰہ التوفیق چند اوہام یا کُچھ خطائیں محدّث سے صادر ہونا نہ اُسے ضعیف کردیتا ہے نہ اُس کی حدیث کو مردود نہ وہ کہتے ہیں جو بالکل پاک صاف گزر گئے ہیں، یہ ہیں تمام محدثین کے امام الائمہ سفیٰن بن عینیہ جنہوں نے زہری سے روایت میں بیس۲۰ سے زیادہ حدیثوں میں خطا کی امام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مجھ میں اور علی بن مدینی میں مذاکرہ ہوا کہ زہری سے روایت میں ثابت ترکون ہے، علی نے کہا سفیٰن بن عینیہ، میں نے کہا امام مالک کہ ان کی خطا سفیٰن کی خطاؤں سے کم ہے قریب بیس۲۰ حدیثوں کے ہیں جن میں سفیٰن نے خطا کی پھر میں نے اٹھارہ گِنا دیں اور اُن سے کہا آپ مالک کی خطائیں بتائیں وہ دوتین حدیثیں لائے پھر جو میں نے خیال کیا تو سفیٰن نے بیس۲۰ سے زیادہ حدیثوں میں خطاکی ہے ۲؎ ذکرہ فی المیزان (اسے میزان میں ذکر کیاگیا ہے۔ ت)

 

 (۲؎ میزان الاعتدال    ترجمہ سفیان بن عینیہ ۳۳۲۷ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت   ۲/۱۷۰)

 

بااینہمہ امام سفیٰن کے ثقہ ثبت حجت ہونے پر علمائے اُمت کا اجماع ہے۔

لطیفہ ۹:    مُلّاجی کی یہ ساری کارگزاریاں حیاداریاں حدیث صحیح عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے متعلق تھیں حدیث ام المؤمنین صدّیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مروی امام طحاوی ونیز امام احمد وابن ابی شیبہ استاذان بخاری ومسلم کے رَد کو پھر وہی معمولی شگوفہ چھوڑا  ف کہ ایک راوی اس کا مغیرہ بن زیادہ موصلی ہے اور یہ مجروح ہے کہ وہمی تھا قالہ الحافظ التقریب۔

 

(ف معیار الحق    ص ۴۰۱)

 

اقول اوّلا:    تقریب میں صدوق کہاتھا وہ صندوق میں رہا۔

ثانیا:    وہی اپنی وہمی نزاکت کہ لہ اوھام کو وہمی کہنا سمجھ لیا۔

ثالثا:    وہی صحیحین سے پُرانی عداوت تقریب دُور نہیں دیکھئے تو کتنے رجال عـــہ بخاری ومسلم کو یہی صدوق لہ اوھام (سچّا ہے، اس کے اوہام ہیں ت) کہا ہے۔

 

عـــہ: صدوق یھم وصدوق ربماوھم کی بکثرت مثالیں اوپر گزرچکیں مگر باتباع لفظ خاص امثلہ سُنیے احمد بن بشیر، حسن بن خلف، خالد بن یزید بن زیاد،رباح بن ابی معروف، ربیع بن انس ورمی بالتشیع، ربیع بن یحيٰی، ربیعہ بن عثمان، زکریا بن یحيٰی بن عمر، سعید بن زید بن درھم، سعید بن عبدالرحمٰن جمحی، شجاع بن الولید، مسلمہ بن علقمہ، مصعب بن المقدام، معاویہ بن صالح، معاویہ بن ھشام، ھشام بن حجیر، ھشام بن سعد ورمی بالتشیع اور ان کے سوا اور کہ سب صدوق لہ اوھام ہیں احمد بن ابی الطیب وغیرہ صدوق لہ اغلاط ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

 

رابعا: مغیرہ رجال سنن اربعہ سے ہے امام ابن معین وامام نسائی دونوں صاحبوں نے بآں تشدد شدید فرمایا: لیس بہ باس  (اس میں کوئی بُرائی نہیں) زاد یحيٰی لہ حدیث واحد منکر (اُس کی صرف ایک حدیث منکر ہے) لاجرم وکیع نے ثقہ، ابوداؤد نے صالح، ابن عدی نے عندی لاباس بہ ۱؎ (میرے نزدیک اس میں کوئی نقص نہیں ہے۔ ت) کہا تو اس کی حدیث حسن ہونے میں کلام نہیں اگرچہ درجہ صحاح پر بالغ نہ ہو جس کے سبب نسائی نے لیس بالقوی (اُس درجے کا قوی نہیں ہے۔ ت) ابو احمد حاکم نے لیس بمتین عندھم ۲؎  (اس درجے کا متین نہیں ہے ان کے نزدیک۔ ت) کہا لا انہ لیس بقوی لیس بمتین وشتان مابین العبارتین  (نہ یہ کہ سرے سے قوی اور متین نہیں ہے، ان دو عبارتوں میں بہت فرق ہے۔ ت) حافظ نے ثقہ سے درجہ صدوق میں رکھا اس قسم کے رجال اسانید صحیحین میں صدہا ہیں۔

 

(۱؎ میزان الاعتدال     ترجمہ مغیرہ بن زیاد موصلی ۸۷۰۹    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۴/۱۶۰)

(۲؎ میزان الاعتدال     ترجمہ مغیرہ بن زیاد موصلی ۸۷۰۹    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۴/۱۶۰)

 

لطیفہ ۱۰:    حدیث مولا علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم مروی سنن ابی داؤد کے رد کو طرفہ تماشا کیا مسند ابی داؤد میں یوں تھا:

 

قال اخبرنی عبداللّٰہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب عن ابیہ عن جدہ ان علیا کان اذاسافر الحدیث ۳؎۔

 

 (۳؎ سنن ابی داؤدباب یتم المسافر    مطبوعہ آفتاب عالم پریس۔ لاہور    ۱/۱۷۳)

 

جس کا صاف صریح حاصل یہ تھا کہ عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی اپنے والد محمد سے راوی ہیں اور وہ ان کے دادا یعنی اپنے والد عمر سے کہ ان کے والد ماجد مولٰی علی نے جمع صوری خود بھی کی اور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے بھی روایت فرمائی۔

ابیہ اور جدّہ دونوں ضمیریں عبداللہ کی طرف تھیں حضرت نے بزور زبان ایک ضمیر عبداللہ دوسری محمد کی طرف قرار دے کر یہ معنی ٹھہرائے ف ۱ کہ عبداللہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ محمد سے اور وہ محمد اپنے دادا علی سے۔  اور اب اس پر اعتراض جڑ دیا کہ محمد کو اپنے دادا علی سے ملاقات نہیں تو مرسل ہُوئی اور مرسل حجت نہیں۔ قطع نظر اس سے کہ مرسل ہمارے اور جمہور ائمہ کے نزدیک حجت ہے ایمان سے کہنا کہ ان ڈھٹائیوں سے صحیح وثابت حدیثوں کو رَد کرنا کون سی دیانت ہے،

 

 ۱ معیار الحق     ص۴۰۰، ۴۰۱)

 

میں کہتا ہوں آپ نے ناحق اتنی محنت بھی کی اور حدیث متصل کو صرف مرسل بنایا حدیثوں کو رَد کرنا کون سی دیانت ہے، میں کہتا ہوں آپ نے ناحق اتنی محنت بھی کی اور حدیث متصل کو صرف مرسل بنایا حیا ودیانت کی ایک ادنٰی جھلک میں بھی باطل وموضوع ہوئی جاتی تھی اور بات بھی مدلل ہوتی کہ ضمیر اقرب کی طرف پھرتی ہے اور ابیہ سے اقرب ابوطالب اور جدّہ سے اقرب ابیہ تو معنی یوں کہے ہوتے کہ عبداللہ نے روایت کی ابوطالب کے باپ حضرت عبدالمطلب سے اور عبدالمطلب نے اپنے دادا عبد مناف سے کہ مولا علی نے جمع صوری کی، اب ارسال بھی دیکھئے کتنا بڑھ گیا کہ مولا علی کے پرپوتے مولا علی کے دادا سے روایت کریں اور حدیث صراحۃً موضوع بھی ہوگئی کہ کہاں عبدالمطلب وعبد مناف اور کہاں مولٰی علی سے روایت حدیث مفید احناف ولاحول ولاقوۃ الّا باللہ العلی العظیم۔

مسلمانو! دیکھا یہ عمل بالحدیث کا جھُوٹا دعوٰی کرنے والے جب صحیح حدیثوں کے رد کرنے پر آتے ہیں تو ایسی ایسی بددیانتیوں بے غیرتیوں بیباکیوں چالاکیوں سے صحیح بخاری کو بھی پسِ پشت ڈال کر ایک ہانک بولتے ہیں کہ سب واہیات اور مردود  ف۲ ہیں انّاللّٰہ وانّا الیہ راجعون۔

 

 ۲ معیارالحق ص ۳۹۶)

 

افادہ ثانیہ:    احادیث وطرق پر نظرِ انصاف فرمائیے تو ارادہ جمع صوری پر متعدد قرائن پائیے مثلا:

(۱) یہ کہ احادیث جمع بین الصلاتین کے راویوں سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں کما سیأتی فی الحدیث التاسع من الافادۃ الرابعۃ  (جیسا کہ افادہ رابعہ کی نویں حدیث میں آرہا ہے۔ ت) حالانکہ یہی عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے عرفات ومزدلفہ کے سوا کبھی نہ دیکھا کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو نمازیں جمع فرمائی ہوں کماسیأتی تحقیقہ فی الفصل الرابع ان شاء اللّٰہ تعالٰی  (اس کی تحقیق اِن شاء اللہ تعالٰی چوتھی فصل میں آئے گی۔ ت) تو ضرور ہے کہ روایت جمع سے جمع صوری مراد ہو۔

 

 (۲) اقول: خود حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی جمع کرنا مروی ہوا حالانکہ ان کا مذہب معلوم کہ جمع حقیقی کو منسک حج کے سوا ناجائز جانتے۔

 

 (۳) اقول: مُلّاجی نے اُن پندرہ۱۵ صحابیوں میں جن کی نسبت دعوٰی کیا کہ انہوں نے جمع بین الصلاتینحضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی سعد بن ابی وقاس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھی گِنا حالانکہ اُن کا بھی مذہب وہی منع جمع ہے ان دونوں صحابی جلیل الشان کا یہ مذہب ہونا خود امام شافعی المذہب امام ابوالعزیز یوسف بن رافع اسدی حلبی شہیر بابن شداد متوفی ۶۳۱ھ نے کتاب دلائل الاحکام میں ذکر فرمایا:

 

کمافی عمدۃ القاری للامام البدر العینی عن التلویح شرح الجماع الصحیح للامام علاء الدین المغلطائی عن دلائل الاحکام لابن شداد۔

 

جیسے کہ امام بدرالدین عینی نے تلویح سے نقل کیا جوکہ امام علاء الدین المغلطائی کی کتاب الجامع الصحیح کی شرح ہے اور انہوں نے ابن شداد کی (کتاب) دلائل الاحکام سے نقل کیا ہے۔ (ت)

 

تو مراد وہی جمع صوری ہوگی جیسا کہ خود اُن کے فعل سے مروی ہوا کماتقدم فی الحدیث الرابع (جیسا کہ حدیث ۴ میں گزرا۔ ت)

 

(۴) اقول: بہت زور شور سے جمع کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما گنے جاتے ہیں وسیأتی بعض روایاتہ فی الحدیث الاول والباقی فی الفصل الثالث اِن شاء اللّٰہ تعالٰی  (عنقریب حدیث اول کے تحت ان سے بعض مرویات کا ذکر آئےگا اور بقیہ کا ذکر فصل ثالث میں آئے گا اِن شاء اللہ تعالٰی۔ ت) حالانکہ وہ خود فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مغرب وعشا کو سفر میں ایک بار کے سوا کبھی جمع نہ فرمایا کماسیأتی فی اٰخر الفصل الرابع اِن شاء اللّٰہ تعالٰی  (جیسا کہ چوتھی فصل کے آخر میں آرہا ہے اِن شاء اللہ تعالٰی۔ ت) ظاہر ہے کہ وہ بار حجۃ الوداع کی شب مزدلفہ تھی تو ضرور وہی جمع صوری منظور جیسا کہ اُن کی روایاتِ صحیحہ نے واضح کردیا جس کا بسط حدیث اوّل میں گزرا۔

 

 (۵)اقول: لُطف یہ کہ ان عبداللہ بن عمر سے قصہ صفیہ بنت ابی عبید میں عشائین کا جمع جو مروی ہوا اُس کے جمع حقیقی ہونے پر بہت زور دیاجاتا ہے حالانکہ خود اُن کے صاحبزادے سالم کو اُس شب بھی اُن کے ہمراہ تھے صراحۃً فرماچکے کہ حضرت عبداللہ نے مزدلفہ کے سوا کبھی جمع نہ کی جیسا کہ حدیث نسائی سے گزرا اور سالم کا اُس رات ساتھ ہونا وہیں حدیث بخاری سے ظاہر ہوچکا قلت لہ: الصلاۃ، قال: سر ۱؎۔ الحدیث  (میں نے ان سے نماز کے متعلق عرض کیا تو انہوں نے فرمایا: سفر جاری رکھو۔ الحدیث۔ ت) تو قطعاًیقینا جمع صوری ہی مراد ہے لاجرم روایات مفسرہ نے تصریح فرمادی یہ نکتہ یاد رکھنے کا ہے کہ بعونہٖ تعالٰی بہت سے خیالات مخالفین کا علاج کافی ہوگا۔

 

 (۱؎ صحیح البخاری    باب یصلی المغرب ثلثافی السفر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۴۸)

 

 (۶) رواۃ جمع میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی ہیں کمایأتی فی الحدیث الثانی  (جیسا کہ دوسری حدیث میں آرہا ہے۔ ت) اور ان کی حدیث اِن شاء اللہ آخر رسالہ میں آئے گی کہ دوسری نماز کا وقت آنے سے پہلی فوت ہوجاتی ہے۔

 

 (۷) یوں ہی حضرت ابُو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی جمع ہیں کمایجیئ فی الحدیث الخامس  (جیسا کہ پانچویں حدیث میں آئے گا۔ ت) اور ان کی حدیث بھی بمشیۃ اللہ تعالٰی آنے والی ہے کہ نماز میں تفریط یہ ہے کہ دوسری کا وقت آنے تک پہلی کی تاخیر کرے افاد ھذین الامام الطحاوی فی شرح معانی الاٰثار  (یہ دونوں فائدے امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں بیان کئے۔ ت)

 

افادہ ثالثہ:اب کہ ملّاجی نے پیٹ بھر کر رَدِ احادیث سے فراغت پائی عقل پر عنایت کی باری آئی فرماتے ہیں: ف جمع صوری سفر میں ازراہ عقل کے بھی واہی ہے کہ جمع رخصت ہے اور جمع صوری مصیبت کہ آخر جز اور اوّل جز نماز کا پہچاننا اکثر خواص کو نہیں ممکن چہ جائے عوام۔

 

 (ف معیار الحق ص۴۰۱)

 

اقول: ملّاجی بیچارے جو شامتِ ایام سے مقابلہ شیران حنفیہ میں آپھنسے وہ چوکڑی بھُولے ہیں کہ اپنی اجتہادی آزادی بھی یاد نہیں یاتو وہ جوش تھے کہ ابوحنیفہ وشافعی کی تقلید حرام بدعت شرک یا اب جابجا ایک ایک مقلد مالکی شافعی کے ٹھیٹ مقلد بنے ہیں رطب یا بس جہاں جو کچھ کلام کسی مقلد کامل جاتا ہے اگرچہ کیسا ہی پوچ اور ضعیف ہو اللہ بسم اللہ کہہ کر اُسے آنکھوں سے لگاتے سرپر رکھتے بے سمجھے بُوجھے ایمان لے آتے ہیں یہ اعتراض بھی حضرت نے بعض مالکیہ وشافعیہ کی تقلید جامد کے صدقہ میں پایا ہے مگر شوخ چشمی یہ کہ علمائے حنفیہ جو طرح طرح اس کی دھجیاں اُڑاچکے اُن سے ایک کان گونگا ایک بہرا کرلیا اور پھر اسی رَد شدہ بات باطل وبے ثبات کو پیش کردیا بہادری تو جب تھی کہ اُن قاہر جوابوں کے جواب دیتے پھر واہی تباہی جو چاہتے فرمالیتے خیراب بعض جوابات مع تازہ افاضات لیجئے وباللہ التوفیق۔

 

اوّلا  :اللہ عزوجل نے نماز خواص وعوام سب پر یکساں فرض کی اور اُس کے لئے اوقات مقرر فرمائے اور اُن کے لئے اول وآخر بتائے اور ان پر واضح وعام فہم نشان بنائے کہ اُن کا ادراک ہر خاص وعام کو آسان ہوجائے ہمارے دین میں کوئی تنگی نہ رکھی اور ہم پر کسی طرح دشواری نہ چاہی ماجعل علیکم فی الدین من حرج۔ یریداللّٰہ بکم الیسر ولایریدبکم العسر ۱؎  (اس نے دین کے معاملہ میں تم پر تنگی نہیں فرمائی، اللہ تعالٰی تم پر آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا۔ ت)

 

 (۱؎ القرآن۲/۱۸۵)

 

تو ہر وقت کے اول وآخر شرعی کا پہچاننا خواص وعوام سب کو آسان خصوصاً سفر میں جہاں اُفق سامنے اور صاف میدان جو نہ سیکھے یا توجہ نہ کرے الزام اُس پر ہے نہ شرع مطہر پر، ہاں فصل مشترک حقیقی کہ آنِ واحد وجزء لایتجزی ہے اُس کا علم بے طرق مخصوصہ انبیاء واولیاء عامہ بشر کی طاقت سے وراء ہے مگر نہ اس کے ادراک کی تکلیف نہ اس پر جمع صوری کی توقیف۔

 

ثانیاً اقول: اول وآخر کا پہچاننا تو شاید تم بھی فرض جانتے ہوکہ تقدیم وتاخیر بے عذر بالاجماع مبطل وحرام ہے کیا اللہ عزوجل نے امر محال کی تکلیف دی لایکلّف اللّٰہ نفساً الّا وسعھا ۱؎  (اللہ تعالٰی کسی کو اس بات کا حکم نہیں دیتا جو اس کی طاقت میں نہ ہو۔ ت) فافہم۔

 

 (۱؎ القرآن    ۲/۲۸۶)

 

ثالثا اقول: تحقیق تام یہ ہے کہ اوقات متصلہ میں عامہ کے لئے پانچ حالتیں ہیں: وقتِ اوّل پر یقین، اُس پر ظن، دونوں میں شک، آخر کا ظن، اُس کا یقین، فقہیات میں ظن ملتحق بیقین ہے اور یقین شک سے زائل نہیں ہوتا تو بین الوقتین حکماً بھی اصلاً فاصل نہیں مسئلہ تسحر ومسئلہ صلاۃ الفجر فی آخر الوقت وغیرہما میں تصریحاتِ علما دیکھیے۔

رابعا اقول: کس نے کہا کہ جمع صوری میں وصل حقیقی بے فصل آنی لازم ہے حدیث مذکور ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بروایت صحیح بخاری وحدیث امیرالمؤمنین مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم بروایت ابی داؤد دیکھیے مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رحمت پر نثار حضور نے عوام ہی کے ارشاد کو یہ طرز ملحوظ رکھی کہ مغرب آخر شفق میں پڑھ کر قدرے انتظار فرمایا پھر عشا پڑھی یا بین الصلاتین کھانا ملاحظہ فرمایا اور لطف الٰہی یہ کہ تمام احادیث جمع میں اگر منقول ہے تو حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فعل۔ اُس کے ساتھ اُمت کو بھی ارشاد کہ جسے ضرورت ہو ایسا ہی کرلے اسی حدیث ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما میں ہے جس میں بروایت صحیح بخاری ثابت کہ دو۲ نمازوں کے بیچ میں  قدر انتظار فرمایا تو آپ کے جہل کا خود رخصت عطا فرمانے والے رؤف رحیم خبیر علیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لحاظ کرلیا تھا مگر افسوس کہ اب بھی آپ شکایت اور رحمت کا نام معاذاللہ مصیبت ہے ہر عاقل جانتا ہے کہ مسافر کو باربار اُترنے چڑھنے وضو نماز کا جُداجُدا سامان کرنے سے یہ بہت آسان ہے کہ ایک بار اُترکر دفعۃً دونوں نمازوں سے فارغ ہولے اول قریب آخر پڑھے اور ایک لطیف انتظار کے بعد آکر اپنے اول میں اس کا انکار صریح مکابرہ ہے ہاں یہ کہئے کہ وقت گزار کر پڑھنے کی اجازت ملے تو اور آسانی ہے۔

 

اقول: دن ٹال کر گھر پہنچ کر اکٹھی پڑھ لینے کی رخصت ہو تو اور آسانی ہے اور بالکل معاف ہوجائے تو پُوری چھٹی رخصت میں آسانی درکار ہے پُوری آسانی کس نے مانی!

 

خامساً :احمد بخاری مسلم ابوداؤد ونسائی طحاوی وغیرہم بطریق عمروبن دینار عن جابر بن زید حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:وھذا لفظ مسلم، قال: صلیت مع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ثمانیا جمیعا وسبعا جمیعا، قلت: یاابا الشعثاء! اظنہ اخر الظھر وعجل العصر، واخر المغرب وعجبل العشاء، قال: وانا اظن ذلک ۱؎۔

 

اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں، کہا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہ میں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ اکٹھی آٹھ رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور اکٹھی سات رکعتیں بھی۔ اس حدیث کا راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا ''اے ابوالشعثاء ! میرا خیال ہے کہ انہوں نے ظہر وعصر کو اور مغرب وعشاء کو اکٹھا پڑھا ہوگا''۔ ابو الشعثاء نے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے''۔ (ت)

 

(۱؎ الصحیح لمسلم    جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی۱/۲۴۶)

 

مالک احمد، مسلم، ابوداؤد ترمذی نسائی طحاوی وغیرہم اُسی جناب سے بطرق شتی والفاظ عدیدہ راوی:

وھذا حدیث مسلم بطریق زھیرنا ابوالزبیر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الظھر والعصر جمیعا بالمدینۃ فی غیر خوف ولاسفر، قال ابوالزبیر: فسألت سعیدا لم فعل ذلک؟ فقال: سألت ابن عباس کماسألتنی، فقال: اراد ان لایحرج احد من اُمتہ ۲؎۔

 

اور یہ حدیث مسلم کی بواسطہ ابو الزبیر ہے کہ ہم سے بیان کیا سعید ابن جبیر نے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بغیر کسی خوف اور سفر کے مدینہ میں ظہر اور عصر اکٹھی پڑھیں، ابوالزبیر نے کہا کہ میں نے سعید سے پُوچھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس طرح کیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا کہ جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے اسی طرح میں نے ابن عباس سے پُوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ چاہتے تھے کہ آپ کی اُمت پر کوئی تنگی نہ ہو۔ (ت)

 

 (۲؎ الصحیح لمسلم    جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/۲۴۶)

 

وفی اخری لہ وللترمذی بطریق جیب ابن ابی ثابت عن سعید بن جبیر عن ابن عباس، قال: جمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بین الظھر والعصر، وبین المغرب والعشاء بالمدینۃ فی غیر خوف ولامطر ۱؎۔

 

مسلم نے ایک اور روایت میں اور ترمذی نے بواسطہ جیب ابن ابی ثابت، سعید ابن جبیر سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بغیر کسی خوف اور بارش کے مدینہ میں ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کیا۔ (ت)

 

(۱؎ جامع الترمذی    ماجاء فی الجمع بین الصلٰوتین        مطبوعہ امین کمپنی اردوبازار دہلی    ۱/۲۶)

 

وللطحاوی عن صالح مولی التوأمہ عن ابن عباس، فی غیر سفر ولامطر ۲؎۔ اور طحاوی نے صالح مولٰی التوأمہ کے واسطے سے ابن عباس کے یہ الفاط نقل کئے ہیں ''بغیر سفر اور بارش کے''۔ (ت)

 

 (۲؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین الصلٰوتین کیف سو    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۱)

 

وفی لفظ للنسائی اخبرنا قتیبۃ ثنا سفیٰن عن عمر وعن جابر بن زید عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما قال: صلیت مع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بالمدینۃ، ثمانیا جمیعا وسبعا جمیعا، اخر الظھر وعجل العصر، واخر المغرب وعجل العشاء ۳؎۔

 

اور نسائی کے الفاظ یوں ہیں: خبر دی ہمیں قتیبہ نے کہ حدیث بیان کی ہم سے سفیٰن نے عمرو سے، اس نے جابر سے کہ ابن عباس نے فرمایا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں اکٹھی آٹھ رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور سات رکعتیں بھی، آپ نے ظہر کو مؤخر کیا تھا اور عصر میں جلدی کی تھی، اسی طرح مغرب کو مؤخر کیا تھا اور عشاء میں جلدی کی تھی۔ (ت)

 

(۳؎ سنن النسائی    کتاب المواقیت        مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ۱/۶۹)

 

وفی لفظ لہ عن عمروبن ھرم عن جابر بن زید عن ابن عباس انہ صلی بالبصرۃ، الاولٰی والعصر، لیس بینھما شیئ، والمغرب والعشاء، لیس بینھما شیئ، فعل ذلک من شغل۔ نسائی کی اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ عمروابن ہرم، جابر ابن زید سے راوی ہیں کہ ابن عباس نے بصرہ میں ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھا، ان کے درمیان کوئی شَے حائل نہ تھی، اور مغرب وعشاء کو اکٹھا پڑھا ان کے درمیان کوئی شیئ حائل نہ تھی۔ اس طرح انہوں نے ایک مصروفیت کی وجہ سے کیا تھا۔

 

و زعم ابن عباس انہ صلی مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم  بالمدینۃ  الاولی والعصر، ثمان سجدات لیس بینھما شیئ ۱؎۔ ابن عباس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ بھی ظہر وعصر اکٹھی پڑھی تھیں یہ آٹھ رکعتیں تھیں اور ان دو کے درمیان اور کوئی شے نہ تھی۔

 

 (۱؎ سنن النسائی    کتاب المواقیت        مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ۱/۶۹)

 

ولمسلم بطریق الزبیر بن الخرّیت عن عبداللّٰہ بن شقیق ان التاخیر کان لاجل خطبۃ خطبھا ۲؎۔ مسلم نے زبیر ابن خرّیت کے واسطہ سے عبداللہ ابن شقیق سے روایت کی کہ یہ تاخیر ایک خطبہ دینے کی وجہ سے ہوئی تھی۔

 

(۲؎ صحیح لمسلم    جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۶)

 

ولہ بطریق عمران بن حُدیر عن عبداللّٰہ المذکور عن ابن عباس، فی القصۃ، قال: کنا نجمع بین الصلاتین علی عھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۳؎۔ اور مسلم نے بطریقہ عمران ابن حدیر، عبداللہ ابن شقیق سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے مذکورہ واقعے میں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانے میں ہم دو۲ نمازوں کو جمع کیا کرتے تھے۔

 

 (۳؎ صحیح لمسلم    جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۶)

 

وللطحاوی من ھذا الوجہ، قدکان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ربما جمع بینھما بالمدینۃ ۴؎۔ اور طحاوی اسی سند سے ناقل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بارہا دو نمازوں کو مدینہ میں اکٹھا پڑھا۔ (ت)

 

 (۴؎ شرح معانی الآثار باب الجمع بین الصلٰوتین الخ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۱)

 

ان روایاتِ صحاح سے واضح کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسی حالت میں کہ نہ خوف تھا نہ سفر نہ مرض نہ مطر محض بلاعذر خاص مدینہ طیبہ میں ظہر وعصر اور مغرب وعشا بجماعت جمع فرمائیں سفر وخطر ومطر کی نفی تو خود احادیث میں مذکور اور مرض بلکہ ہر عذر ملحی کی نفی سوق بیان سے صاف مستفاد معہذا جب نمازیں جماعت سے تھیں تو سب کا مریض ومعذور ہونا مستبعد پھر راوی حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا اسی بناء پر صرف طول خطبہ کے سبب تاخیر مغرب واستناد بجمع مذکور انتفائے اعذار پر صریح دلیل حالانکہ مقیم کیلئیبے عذر جمع وقتی ملّاجی بھی حرام جانتے ہیں، حدیثِ مسلم انما التفریط علی من لم یصل الصلاۃ حتی یجیئ وقت الصلاۃ الاخری ۱؎

 

 (۱؎ الصحیح لمسلم        باب قضاء الصلٰوۃ الفائتۃ الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/۲۳۹)

 

گناہ اس پر ہے جو نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہوجائے۔ ت) کے جواب میں کیا ف فرمائیں گے

 

 ۱ معیار الحق    ص۴۱۷)

 

یہ حدیث اُسی شخص کے حق میں ہے کہ بلاعذر نماز میں تاخیر کرے۔

 

حدیث امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ ان الجمع بین الصلاتین فی وقت واحد کبیرۃ من الکبائر ۲؎

 

 (۲؎ موطا امام محمد باب الجمع بین الصلٰوتین فی السفر والمطرمطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور۱/۱۷۹)

 

 (ایک وقت میں دو۲ نمازوں کو جمع کرنا کبائر میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے۔ ت) کے جواب میں کہہ چکے ہیں ف۲

 

 ۲معیار الحق    ص۴۰۰)

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جمع بین الصلاتین سے منع کرناحالتِ اقامت میں بلاعذر تھا جیسا کہ شاہد ہے اس تاویل پر اتفاق جمہور صحابہ ومن بعدہم کا اوپر عدم جواز بلاعذر کے، تو اس حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما میں جمع فعلی مراد لینے سے چارہ نہیں اور خود ملّاجی نے امام ابنِ حجر شافعی اور اُن کے توسط سے امام قرطبی وامام الحرمین وابن المامون وابن سید الناس وغیرہم سے یہاں ارادہ جمع فعلی کی تقویت وترجیح نقل کی معہذا قطع نظر اس سے کہ روایت صحیحین میں حضرت ابن عباس کے تلامذہ وراویانِ حدیث جابر بن زید وعمروبن دینار نے ظناً حدیث کا یہی محمل مانا

 

قال ابن سیدالناس: وراوی الحدیث ادری بالمراد من غیرہ  (ابن سیدالناس نے کہا ہے کہ حدیث کا راوی، دوسرے شخص کی نسبت حدیث کی مراد سے زیادہ آگاہ ہوتا ہے۔ ت) روایت نسائی میں خود ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اس جمع کے جمع فعلی ہونے کی تصریح فرمادی کہ ظہر ومغرب میں دیر کی اور عصر وعشاء میں جلدی یہ خاص جمع صوری ہے اب کسی کو محل سخن نہ رہا تھا تمہارے امام شوکانی غیر مقلد نے نیل الاوطار میں کہا:

 

ممایدل علی تعین حمل حدیث الباب علی الجمع الصوری، مااخرجہ النسائی عن ابن عباس (وذکر لفظہ قال) فھذا ابن عباس، راوی حدیث الباب، قدصرح بان مارواہ من الجمع المذکور ھو الجمع الصوری ۳؎۔

 

 (۳؎ نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار باب جمع المقیم لمطر اوغیرہ مطبوعہ مصطفی البابی مصرص ۱۳۲)

 

جو چیزیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اس باب سے متعلق حدیث کا جمع صوری پر حمل کرنا متعین ہے، ان میں سے ایک وہ روایت ہے جو نسائی نے ابن عباس سے نقل کی ہے (اس کے بعد شوکانی نے مذکورہ روایت بیان کی ہے اور کہا ہے) یہ ابن عباس، جو اس موضوع سے متعلق حدیث کے (اولین) راوی ہیں خود تصریح کررہے ہیں کہ انہوں نے جمع بین الصلاتین کی جو روایت بیان کی ہے اس سے مراد جمع صوری ہے۔ ت)

 

شوکانی نے اس ارادہ کے اور چند مؤیدات بھی بیان کیے اور انکار جمع صوری اور آپ کے زعم باطل مصیبت کی اپنی بساط بھر خوب خوب خبریں لی ہیں جی میں آئے تو ملاحظہ کرلیجئے بالجملہ شک نہیں کہ حدیث میں مراد صوری ہے اب اسی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی تصریح موجود ہے کہ جمع حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بنظرِ رحمت وآسانی اُمّت کی تھی، مُلّاجی! اب اپنی مصیبت کی خبریں کہئے۔

 

سادساً:    عجب تر یہ کہ یہی صاحب جنہوں نے جمع صوری کو باعثِ مشقت ومنافی رخصت ماناخود اسی حدیثِ ابن عباس کو جمع صوری سے تاویل کرگئے کما افاد الامام الزیلعی وغیرہ (جیسا کہ امام زیلعی وغیرہ نے اس کا افادہ کیا ہے۔ ت) یہ صریح منافقت ہے۔

 

اقول: مُلّاجی تو تقلید جامد کا جامہ پہنے بیٹھے ہیں اس تناقض میں بھی تقلید کرگئے حدیث طبرانی مفید جمع صوری کہ عنقریب آتی ہے حضرت اس کے جواب  میں اَن کہی بولتے ف۱ ہیں

 

 ۱ معیار الحق     ص۴۰۰  )

 

کہ اس میں کیفیت اُس جمع کی ہے جو حالتِ قیام میں بلاعذر آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جمع کی تھی جیسا کہ روایت میں ابن عباس کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حالت قیام میں مدینہ میں جمع صوری کی تھی۔ ملّاجی! ذرا آنکھ ملاکر بات کیجئے اب وہ مصیبت رحمت ورافت کیونکر ہوگئی۔

 

سابعاً:    حدیث حمنہ بنت حجش رضی اللہ تعالٰی عنہا مروی احمد وابوداؤد وترمذی جس میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے زنان مستحاضہ کے لئے جمع صوری پسند فرمائی ہے ملّاجی کو وہاں بھی یہی عذر معمولی پیش آیا ف۲  کہ وہ مقیم تھی پس مقیم پر مسافر کی نماز کو قیاس مع الفارق ہے۔

 

 (  ف۲ معیارالحق ص۴۱۸)

 

اقول :مُلّا جی جمع صوری تو عوام کیا اکثر خواص کو بھی نہ صرف دشوار بلکہ ناممکن تھی وہ بھی سفر کے کھُلے میدانوں میں، اب کیا دُنیا پلٹی کہ پردہ نشین زنان ؎۳ ناقصات العقل کے لئے گھر کی چار دیواریوں میں ممکن ہوگئی۔(؎۳ یعنی یہ حکم اب بھی ہر مستحاضہ کیلئے ہے تو ثابت ہوا کہ پردہ نشین زنان ناقصات العقل کو جمع صوری میسر ہے ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (م)

 

ثامناً:    عبدالرزاق مصنّف میں بطریق عمروبن شعیب راوی: قال، قال عبداللّٰہ: جمع لنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، مقیما غیر مسافر، بین الظھر والعصر، والمغرب، والعشائ، فقال رجل لابن عمر: لم تری النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فعل ذلک؟

 

اس نے کہا عبداللہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمارے لئے دو۲ نمازوں کو جمع کیا جبکہ آپ مقیم تھے، مسافر نہ تھے۔ یعنی ظہر وعصر کو اور مغرب وعشاء کو۔ ایک آدمی نے ابن عمر سے پُوچھا کہ آپ کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے اس طرح کيوں کيا تھا؟ تو انہوں نے جواب ديا تاکہ امت پر تنگی نہ ہو، اگر کوئی شخص جمع کرلے۔ (ت)

 

 (۱؎ مصنّف ابی بکر عبدالرزاق حديث ۴۴۳۷  مطبوعہ المکتب الاسلامی بيروت     ۲/۵۵۶)

 

ابن جرير اس جناب سے بايں لفظ راوی: خرج علينا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم، فکان يؤخر الظھر ويعجل العصر فيجمع بينھما، ويؤخر المغرب ويعجل العشاء فيجمع بينھما ۲؎۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ہم پر جلوہ فرما ہُوئے تو آپ ظہر ميں تاخير کرکے اور عصر ميں تعجيل کرکے دونوں کو جمع کرليتے تھے، اسی طرح مغرب ميں تاخير اور عشاء ميں تعجيل کرکے دونوں کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے۔ (ت)

 

 (۲؎ کنزالعمال     الاکمال من صلٰوۃ المسافر     حديث ۲۲۷۸۶    مطبوعہ موسۃ الرسالہ بيروت     ۸/۲۵۰)

 

نيز ابن جرير کی دُوسری روايت ميں اُسی جناب سے يوں ہے: اذابادر احدکم الحاجۃ فشاء ان يؤخر المغرب ويعجل العشاء ثم يصليھما جميعا فعل ۳؎۔ اگر تم ميں سے کسی کو کسی ضرورت کی بنا پر جلدی ہو اور وہ چاہے کہ مغرب کو مؤخر کرکے اور عشاء ميں جلدی کرکے دونوں کو يکجا پڑھ لے، تو ايسا کرلے۔ (ت)

 

 (۳؎ کنزالعمال       الاکمال من صلٰوۃ المسافر ۲۰۱۹۰        مطبوعہ موسۃ الرسالہ بيروت  ۷/۵۴۷)

 

ان حديثوں سے بھی ظاہر کہ جمع صوری ميں بےشک آسانی ورحمت اور وقت حاجت عام لوگوں کو اس کی اجازت۔ تاسعا:    عبدالرزاق صفوان بن سليم سے راوی قال جمع عمربن الخطاب بين الظھر والعصر في يوم مطیر ۴؎ ۔ يعنی امیرالمؤ منين فاروق اعظم نے مينہ کے سبب ظہر وعصر جمع کی۔

 

 (۴؎ المصنّف لعبدالرزاق ،باب جمع بين الصلٰوتين فی الحضر حديث ۴۴۴۰،مطبوعہ المکتب الاسلامی بيروت،۲/۵۵۶ )

 

اقول: ظاہر ہے کہ اميرالمؤمنين کے نزديک جمع وقتی حرام وگناہِ کبيرہ ہے جس کا بيان اِن شاء اللہ المنان فصل چہارم ميں آتا ہے لاجرم جمع صوری فرمائی۔

 

عاشراً:    طبرانی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علےہ وسلم کان يجمع بين المغرب والعشاء يؤخر ھذہ فی اٰخر وقتھا ويعجل ھذہ فی اوّل وقتھا ؎۱

 

حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم مغرب وعشاء کو جمع فرماتے، مغرب کو اس کے آخر وقت ميں پڑھتے اور عشاء کو اس کے اوّل وقت میں(م)۔

 

 (۱؎ المعجم الکبير للطبرانی    عن عبداللہ ابن مسعود حديث ۹۸۸۰    مطبوعہ المکتبۃ الفيصليۃ بيروت    ۱۰/۴۷)

 

يہ وہی حديث طبرانی ہے جس ميں جمع صوری ملّاجی ابھی ابھی مان چکے ہيں اس کی نسبت باقی کلام کا رَد اِن شاء اللہ العزيز آئندہ آتا ہے غرض شاباش ہے تمہارے جگرے کو کہ صحيح حديثوں کے رَد وابطال ميں کوئی دقيقہ مغالطہ جاہلين ومکابرہ عالمين وتقليد مقلدين کا اُٹھا نہ رکھو اور پھر عمل بالحديث کی شيشی کو ٹھيس تک نہ لگے ع

چوں وضو ئےمحکم بی بی تميز

 

افادہ رابعہ:الحمداللہ جب کہ احاديث جمع صوری کی صحت مہر نيمروزماہ نيم ماہ کی طرح روشن ہوگئی تو اب جس قدر حديثوں ميں مطلق جمع بين الصلاتين وارد ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے ظہر وعصر يا مغرب وعشاء کو جمع فرمايا يا عصر وعشا سے ملانے کو ظہر ومغرب ميں تاخير فرمائی وامثال ذلک کسی ميں مخالف کےلئے اصلاً حجت نہ رہی سب اسی جمع صوری پر محمول ہوں گی اور استدلال مخالف احتمالِ موافق سے مطرود ومخذول مثل

 

حديث(۱): بخاری ومسلم ودارمی ونسائی وطحاوی وبيہقی بطريق سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم ومسلم ومالک ونسائی وطحاوی بطريق نافع۔

عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما، کان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم يجمع بين المغرب والعشاء اذاجدبہ السيير ۲؎۔

 

ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کو جب چلنے ميں تيزی ہوتی تھی تو آپ مغرب وعشاء کو جمع کرتے تھے۔

 

 (۲؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بين الصلاتين الخ        مطبوعہ ايچ ايم سعيد کمپنی کراچی    ۱/۱۱۱)

 

وفی لفظ مسلم والنسائی من طريق سالم، رأيت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم اذااعجلہ السير فی السفر يؤخر صلاۃ المغرب حتی يجمع بينھا وبين صلاۃ العشاء ۳؎۔

 

اور مسلم کی ايک اور روايت اور نسائی کی بطريقہ سالم روايت کے الفاظ يوں ہں کہ ميں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کو ديکھا کہ جب آپ کو سفر کے دوران چلنے ميں جلدی ہوتی تو مغرب کی نماز کو اتنا مؤخر کرديتے تھے کہ عشا کے ساتھ ملاليتے تھے۔ (ت)

 

 (۳؎ الصحیح لمسلم۔   باب جواز الجمع يين الصلاتين فی السفر    مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۵)

 

يہ معنی مجمل بروايات سالم ونافع مستفيض ہيں۔

فرواہ البخاری عن ابی اليمان(۱)، والنسائی عن بقيۃ(۲) وعثمٰن(۳)، کلھم عن شعيب بن ابی حمزہ۔ ومسلم عن ابن وھب عن يونس(۴)۔ والبخاری عن(۵) علی بن المدينی، ومسلم عن يحيٰی(۶) بن يحيٰی وقتيبۃ(۷) بن سعيد وابی(۸) بکر بن ابی شيبۃ وعمر(۹) والناقد، والدارمی عن محمد(۱۰) بن يوسف، والنسائی عن محمد(۱۱) بن منصور، والطحاوی عن الحمانی(۱۲)، ثمانيتھم عن سفيٰن بن عيینۃ، ثلثتھم اعنی شعيبا ويونس وسفيٰن عن الزھری عن سالم، ومسلم عن(۱۳) يحيٰی بن يحيٰی، والنسائی عن قتيبۃ(۱۴)، والطحاوی عن ابن(۱۵) وھب، کلھم عن مالک، والنسائی بطريق عبدالرزاق ثنا معمر عن موسی(۱۶) بن عقبۃ، والطحاوی(۱۷) عن ليث، والبھيقی فی الخلافيات من طريق يزيد بن ھارون عن يحيٰی(۱۸) بن سعيد ، اربعتھم عن نافع، کلاھما عن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما۔

 

چنانچہ بخاری ابواليمان سے، نسائی بقيہ اورعثمان سے، يہ سب (ابواليمان، بقيہ، عثمان) شعيب ابن ابی حمزہ سے روايت کرتے ہيں۔ اور مسلم، ابن وہب سے، وہ يونس سے روايت کرتے ہيں۔ اور بخاری، علی ابن مدينی سے۔ اور مسلم، يحيٰی ابن يحيٰی، قتيبہ ابن سعيد، ابوبکر ابن ابی شيبہ اور عمرو الناقد سے۔ اور دارمی، محمد ابن يوسف سے۔ اور نسائی، محمد ابن منصور سے۔ اور طحاوی، حمانی سے۔ يہ آٹھويں (يعنی علی(۱)، يحيی(۲)، قتيبہ(۳)، ابوبکر(۴)، عمرو(۵)، ابن يوسف(۶)، ابن منصور(۷)، حمانی(۸) سفيان ابن عيينہ سے روايت کرتے ہيں۔ پھر تينوں (سلسلوں کے تين آخری راوی) يعنی شعيب، يونس اور سفيان، زہری کے واسطے سے، سالم سے راوی ہيں۔ اور مسلم، يحيٰی ابن يحيٰی سے۔ اور نسائی، قتيبہ سے۔ اور طحاوی، ابن وہب سے۔ تينوں مالک سے روايت کرتے ہیں۔ اور نسائی، بطريقہ عبدالرزاق، وہ معمر سے، وہ موسٰی ابن عقبہ سے روايت کرتے ہیں اور طحاوی ليث سے روايت کرتے ہیں۔ اور بيہقی خلافيت میں بطريقہ يزيد ابن ہارون، يحیٰی ابن سعيد  سے روايت کرتے ہیں۔ چاروں (آخری راوی يعني مالک(۱)، موسٰی(۲)، ليث(۳)، يحيٰی(۴) نافع سے راوی ہیں سالم اور نافع) دونوں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے حديث بيان کرتے ہیں۔ (ت)

 

حديث(۲) معلَّق بخاری :

ووصلہ البيھقی عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما، کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علي وسلم يجمع بين صلاۃ الظھر والعصر اذاکان علی ظھر سير، ويجمع بين المغرب والعشاء ۱؎۔ وھو عند مسلم واٰخرين بذکر غزوۃ تبوک،

 

بيہقی نے اس کو ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے موصولاً ذکر کيا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب چلنے والے ہوتے تھے تو ظہر اور عصر کی نماز یں جمع كر ليتے تھے۔ اسی طرح مغرب وعشاء بھی جمع کرليتے تھے يہ روايت مسلم اور ديگر محدثين کے نزديک غزوہ تبوک کے تذکرے سے متعلق ہے۔

 

 (۱؎ صحيح البخاری    باب الجمع فی السفر بين المغرب والعشاء    مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۴۹)

 

ولابن ماجۃ من طريق ابرٰھيم بن اسمٰعيل عن عبدالکريم عن مجاھد وسعيد بن جبير وعطاء بن ابی رباح وطاؤس،اخبروہ عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما انہ اخبرھم ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم کان يجمع بين المغرب والعشاء فی السفر من غيران يعجلہ شیئ ولايطلبہ عدو ولايخاف شيئا ۲؎۔

 

اور ابن ماجہ بطريقہ ابراہيم بن اسمٰعيل راوی ہیں۔ کہ عبدالکريم کو مجاہد، سعيد ابن جبير، عطاء ابن ابی رباح اور طاؤس نے خبر دی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ان کو بتايا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر ميں مغرب عشاء جمع کرليتے تھے حالانکہ نہ آپ کو جلدی ہوتی تھی نہ دشمن تعاقب ميں ہوتا تھا اور نہ کسی اور چيز کا خوف ہوتا تھا۔

 

 (۲؎ سنن ابن ماجہ    باب الجمع بين الصلٰوتين الخ        مطبوعہ ايچ ايم سعيد کمپنی کراچی    ۱/۷۶)

 

قلت: ابرٰھيم ھذا، ھو ابن اسمٰعيل ابن مجمع الانصاری، ضعيف۔ وعبدالکريم، ان لم يکن ابن مالک الجزری، فابن ابی المخارق، وھو اضعف واضعف۔ والمعروف حديثہ فی الجمع بالمدينۃ۔ رواہ الشيخان وجماعۃ، کماقدمناہ بطرقھا والفاظھا عماقريب۔

 

قلت (ميں نے کہا): يہ وہی ابن اسمٰعيل ابن مجمع انصاری ہے جو ضعيف ہے۔ اور عبدالکريم اگر ابن مالک جزری نہيں ہے تو ابن ابی المحارق ہوگا اور وہ بہت ضعيف اور بہت ہی ضعيف ہے۔ ابن عباس کی جو حديث معروف ہے وہ مدينہ ميں جمع کرنے کی ہے (نہ کہ سفر ميں) اس کو بخاری، مسلم اور محدثين کی ايک جماعت نے روايت کيا ہے۔ جيسا کہ تھوڑا ہی پہلے ہم اس کے تمام طريقے اور الفاظ بيان کرآئے ہيں۔ (ت)

 

وحديث(۳) بخاری تعليقاً ووصلاً وطحاوی وصلا:

 عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم کان يجمع بين ھاتين الصلاتين فی السفر، يعنی المغرب والعشاء ۳؎۔

 

انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم اِن دو۲ نمازوں کو سفر ميں جمع کرتے تھے، يعنی مغرب اور عشاء کو۔ (ت)

 

 (۳؎ شرح معانی الآثار   باب الجمع بين الصلٰوتين الخ ،   مطبوعہ ايچ ايم سعيد کمپنی کراچی  ۱/۱۱۱)

 

وحديث(۴) مالک وشافعی ودارمی ومسلم وابوداؤد وترمذی ونسائی وابن ماجہ وطحاوی مطولاً ومختصراً عن عامر بن واثلۃ ابی الطفيل عن معاذ بن جبل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم قال: جمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم فی غزوۃ تبوک بين الظھر والعصر وبين المغرب والعشاء، قال: فقلت، ماحملہ علی ذلک؟ قال، فقال: ارادان لايحرج امتہ ۱؎۔ عامر ابن واثلہ ابوالطفيل، معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے غزوہ تبوک ميں ظہر وعصر اور مغرب وعشا کو جمع کيا تھا۔ واثلہ نے کہا کہ ميں نے پُوچھا: ''اس کی وجہ کيا تھی؟'' تو معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواب ديا کہ آپ يہ چاہتے تھے کہ آپ کی اُمت کو کوئی تنگی نہ ہو۔ (ت)

 

 (۱؎ الصحيح لمسلم    باب جواز الجمع بين الصلٰوتين فی السفر            مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۶)

 

ھذا لفظ مسلم فی الصلاۃ، ومثلہ للطحاوی، وعند الترمذی صدرہ فقط، وھو احد لفظی الطحاوی ولمالک ومن طريقہ عند مسلم فی الفضائل، خرجنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم عام غزوۃ تبوک، فکان يجمع الصلاۃ، فصلی الظھر والعصر جميعا، والمغرب والعشاء جميعا حتی اذاکان يوما اخر الصلاۃ، ثم خرج فصلی الظھر والعصر جميعا، ثم دخل، ثم خرج بعد ذلک، فصلی المغرب والعشاء جميعا ۲؎، الحديث بطولہ، وھو بھذا القدر من دون زيادۃ عبدالباقين۔

 

يہ مسلم کے الفاظ ہيں کتاب الصلٰوۃ ميں، اور طحاوی نے بھی يونہی روايت کی ہے۔ ترمذی ميں صرف اس کا ابتدائی حصّہ ہے اور طحاوی کی ايک روايت بھی صرف ابتدائی حصّے پر مشتمل ہے۔ مالک کے ہاں، اور انہی کے طريقے سے مسلم کے ہاں روايت ہے کہ غزوہ تبوک کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے ساتھ نکلے تو آپ نمازوں کو جمع کياکرتے تھے، چنانچہ آپ نے ظہر وعصر کو ملاکر پڑھا اور مغرب وعشا کو ملاکر پڑھا حتّٰی کہ ايک روز آپ نے نماز کو مؤخر کيا، پھر تشريف لائے تو ظہر وعصر کو ملاکر پڑھا۔ پھر اندر تشريف لے گئے پھر باہر جلوہ افروز ہوئے اور مغرب وعشاء کو ملاکر پڑھا۔ مالک اور مسلم نے اس حديث کو آخر تک پوری طوالت سے ذکر کيا ہے۔ مگر ديگر محدثين کے ہاں اسی قدر ہے۔ اس سے زائد نہيں ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ الصحيح لمسلم    باب فی معجزات النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم    من کتاب الفضائل    مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی    ۲/۲۴۶)

 

وحديث(۵) مالک مرسلاً ومسنداً:

من طريق داؤد بن الحصين عن الاعرج عن ابی ھريرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم کان يجمع بين الظھر والعصر فی سفرہ الی تبوک ۱؎۔ بطريقہ داؤد ابن حصين، اعرج سے، وہ ابوھريرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر تبوک کے دوران ظہر وعصر کو جمع کيا کرتے تھے۔ (ت)

 

 (۱؎ مؤطا امام مالک        الجمع بين الصلٰوتين الخ    مطبوعہ مير محمد کتب خانہ کراچی        ص۲۵۔۱۲۴)

 

ھکذا روی عن يحيٰی مسندا، وھو عند محمد وجمھور رواۃ المؤطا عن عبدالرحمٰن بن ھرمز مرسلا۔ وعبدالرحمٰن، ھوالاعرج۔ يہ حديث يحيٰی سے بھی اسی طرح مسنداً مروی ہے، مگر محمد اور مؤطا کے اکثر راوی اس کو عبدالرحمن ابن ہرمز سے مرسلاً روايت کرتے ہيں، اور عبدالرحمن، وہی اعرج ہے۔

 

وھو عندالبزار عن عطاء بن يسار عن ابی ھريرۃ عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم کان يجمع بين الصلاتين فی السفر ۲؎۔ اور بزار کے ہاں عطاء ابن يسار ابوہريرہ سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر ميں دو۲ نمازوں کو جمع کرتے تھے۔ (ت)

 

 (۲؎ کشف الاستار عن زوائد البزار    باب الجمع بين الصلٰوتين    مطبوعہ مؤسۃ الرسالۃ بيروت   ۱/۳۳۰)

 

وحديث(۶) :

احمد وابن شبۃ بطريق حجاج ابن ارطاۃ، مختلف فيہ، عن عمروبن شعيب عن ابيہ عن جدہ وھو عبداللّٰہ بن عمروبن العاص رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما قال: جمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم بين الصلاتين فی غزوہ بنی المصطلق ۳؎۔ احمد اور ابن ابی شيبہ بطريقہ حجاج ابن ارطاۃ، جو مختلف فيہ ہے، عمرو ابن شعيب سے، وہ اپنے باپ سے، وہ اس کے دادا سے، يعنی عبداللہ ابن عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے غزوہ بنی مصطلق ميں دو۲ نمازوں کو جمع کيا۔ (ت)

 

(۳؎ المصنّف لابن ابی شيبہ      باب الجمع بين الصلٰوتين       مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلاميہ کراچی    ۲/۴۵۸)

 

وحديث(۷) ترمذی فی کتاب العلل:

حدثنا ابوالسائب عن الجريری عن ابی عثمٰن عن اسامۃ بن زيد رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم اذاجدبہ السير جمع بين الظھر والعصر، والمغرب والعشاء، قال الترمذی: سألت محمدا، يعنی البخاری عن ھذا الحديث، فقال: الصحيح، ھو موقوف عن اسامۃ بن زيد ۱؎۔

 

حديث بيان کی ہم سے ابوالسائب نے جريری سے، اس نے ابوعثمان سے، اس نے اسامہ ابن زيد رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کو جب چلنے ميں جلدی ہوتی تھی تو ظہر وعصر اور مغرب وعشا کو جمع کرتے تھے۔ ترمذی نے کہا کہ ميں نے محمد، يعنی بخاری سے اس حديث کے بارے ميں پُوچھا تو انہوں نے کہا کہ صحيح يہ ہے کہ اسامہ ابن زيد پر موقوف ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ عمدۃ القاری شرح بخاری    باب الجمع فی السفر بين المغرب والعشاء    مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنيريہ بيروت    ۷/۱۴۹)

نوٹ: يہ حوالہ مجھے ترمذی کی کتاب العلل ميں نہيں مل سکا اور بڑی کوشش سے عمدۃ القاری سے مِلا ہے۔ نذير احمد سعيدی

 

وحديث(۸) :

احمد بطريق ابن لھيعۃ عن ابن الزبير قال: سألت جابرا رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، ھل جمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم بين المغرب والعشاء ؟قال: نعم، عام غزونا بنی المصطلق ۲؎۔

 

احمد بطريقہ ابن لہيعہ، ابوالزبیر سے راوی ہيں کہ ميں نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پُوچھا: ''کيا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسم نے کبھی مغرب وعشاء کو جمع کيا تھا؟ انہوں نے جواب ديا: ہاں، جس سال ہم غزوہ بنی مصطلق کے لئے گئے تھے''۔ (ت)

 

(۲؎ مسند احمد بن حنبل    از مسند جابر بن عبداللہ        مطبوعہ دارالفکر بيروت لبنان    ۳/۳۴۸)

 

وحديث(۹) ابن ابی شيبہ وابوجعفر طحاوی :

اما الاول فبطريق ابن ابی ليلٰی عن ھذيل، واما الاٰخر فعن ابی قيس الاودی عن ھذيل بن شرجيل عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم جمع، ولفظ الاٰخر کان يجمع، بين الصلاتين فی السفر ۳؎۔

 

پہلے (يعنی ابن ابی شيبہ) بطريقہ ابن ابی ليلی، ہذ یل سے، اور دوسرے (يعنی طحاوی) ابوقيس اودی ہے وہ ہذيل ابن شرجيل سے، وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے سفر کے دوران جمع کيا طحاوی کے الفاظ يوں ہيں: ''جمع کيا کرتے تھے دو نمازوں کو سفر کے دوران ـ.''(ت)

 

 (۳؎ مصنّف ابن ابی شيبہ    من قال يجمع المسافر بين الصلٰوتين    مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی        ۲/۴۵۸)

 

وللطبرانی فی معجميہ الکبير والاوسط عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال: جمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلّم بين الظھر والعصر، والمغرب والعشاء، فقيل لہ فی ذلک، فقال: صنعت ذلک لئلا تحرج امتی ۱؎۔ اور طبرانی نے اپنی دونوں معجموں، يعنی کبير اور اوسط ميں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کیا  ۹ تو آپ سے اس بارے ميں پُوچھا گيا، آپ نے جواب ديا کہ ميں نے اس طرح اس لئے کيا ہے تاکہ ميری اُمّت پر کوئی تنگی نہ ہو۔ (ت)

 

 (۱؎ المعمجم الکبير للطبرانی    حديث ۱۰۵۲۵    مطبوعہ المکتبۃ الفيصليہ بيروت    ۱۰/۲۶۹)

 

وحديث(۱۰)

طبرانی فی المعجم الاوسط عن عطاعن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم کان يجمع بين الصلاتين فی السفر ۲؎۔

 

 (قدیم میں یہ روایت ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے اورترجمہ قدیم ہی کے مطابق کیا گیا ہے)

طبرانی معجم اوسط ميں ابونضرہ سے، وہ ابو سعيد خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر ميں دو۲ نمازوں کو جمع کيا کرتے تھے۔ (ت)

 

 (۲؎ معجم اوسط        حديث نمبر ۵۵۵۸    مکتب المعارف رياض        ۶/۲۶۲)

 

وحديث(۱۱) مرسل وبلاغ مالک:

انہ بلغہ عن علی بن حسين، ھو ابن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم انہ کان يقول: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم اذااراد ان يسير يومہ، جمع بين الظھر والعصر، واذا ارادان يسيرليلہ، جمع بين المغرب والعشاء ۳؎۔

 

مالک کو علی ابن حسين ابن علی رضی اللہ تعالٰی عنہم سے يہ بات پہنچی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم جب دن کو سفر کرنا چاہتے تھے تو ظہر وعصر کو جمع کرليتے تھے اور جب رات کو سفر کرنا چاہتے تھے تو مغرب وعشاء کو جمع کرليتے تھے۔ (ت)

 

 (۳؎ مؤطا امام مالک    جمع بين الصلاتين     مير محمد کتب خانہ کراچی        ص ۱۲۶)

 

ولہذا سيدنا امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ مؤطا شريف ميں حديث پنجم روايت کرکے فرماتے ہيں: بھذا ناخذ، والجمع بين الصلاتين ان تؤخر الاولٰی منھما فتصلی فی اٰخر وقتھا، وتعجل الثانيۃ فتصلی فی اول وقتھا، وتعجل الثانيۃ فتصلی فی اول وقتھا ۴؎۔

 

ہم اسی کو اختيار کرتے ہيں اور جمع بين الصلاتين کا طريقہ يہ ہے کہ پہلی کو مؤخر کرکے آخر وقت ميں پڑھا جائے اور دوسری کو جلدی کرکے اول وقت ميں۔ (ت)

 

 (۴؎ مؤطا امام محمد     باب الجمع بين الصلاتين فی السفر والمطر    مطبوعہ آفتاب عالم پريس لاہور    ص۱۳۱)

 

يعنی جو اس حديث ميں آياکہ سےيد عالم صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر تبوکِ ميں ظہر وعصر جمع فرماتے ہم اسی کو اختيار کرتے ہيں اور جمع کے معنی جمع صوری ہيں۔ ملّاجی تو ايک ہوشيار ان احاديث اور ان کے امثال کو محتمل وبے سُود سمجھ کر خود بھی زبان پر نہ لائے اور اغوائے عوام کےلئے يوں گول اور پردہ کہہ گئے  ف  کہ جمع بين الصلاتين فی سفر صحح اور ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سے بروايت جماعت عظيمہ کے صحابہ کبار سے۔

 

(  ف معيارالحق    ص ۳۶۶)

 

پھر پندرہ ۱۵ صحابہ کرام کے اسمائے طيبہ گناکر خود ہی کہا لاکن مجموعہ روايات ميں بعض ايسی ہيں کہ اُن ميں فقط جمع کرنا رسول  اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کا دو نمازوں کو بےان کيا ہے کيفيت جمع کی بيان نہيں کی پس حنفی لوگ اُن حديثوں ميں يہ تاويل کرتے ہيں کہ مراد اس سے جمع صوری ہے اسی لئے وہ حديثيں جن ميں تاويل کو مخالف کی دخل نہيں ذکر کرتے ہيں تو مصنفين بافہم اُن حديثوں مجمل الکيفيۃ کو بھی انہيں احاديث مبينۃ الکيفيۃ پر محمول سمجھیں اھ ملخصاً۔

اقول: بالفرض اگر جمع صوری ثابت نہ ہوتی تاہم محتمل تھی اور احتمال قاطع استدلال نہ کہ جب آفتاب کی طرح روشن دلیلوں سے جمع صوری کا احاديثِ صحيحہ سے ثبوت ظاہر تو اب براہِ تلبيس پندرہ۱۵ صحابہ کی روايت سے اپنے مطلب کا ثبوت صحيح بتانا اور جابجا عوام کو دہشت دلانے کےلئے کہيں چودہ کہيں پندرہ سُنانا کيا مقتضائے مُلّائيت ہے اب تو مُلّاجی کی تحرير خود اُن پر بازگشتی تير ہوئی کہ جب احاديث صحيحہ صريحہ سے جمع صوری ثابت تو منصفين بافہم اُن حديثوں مجمل الکيفيۃ کو بھی انہيں احاديث مبينۃ الکيفيۃ پر محمول سمجھيں، رہے وہ صحابہ جن کی روايات اپنے زعم ميں صريح سمجھ کر لائے اور نص مفسر ناقابل تاويل کہتے ناظرين نقاد کا خوف نہ لائے وہ صرف چار ہيں دو جمع تقديم دو جمع تاخير ميں، اُن روايات کا حال بھی عنقريب اِن شاء اللہ القريب المجيب کھلاجاتا ہے اُس وقت ظاہر ہوگا کہ دعوٰی کردينا آسان ہے مگر ثبوت ديتي تين ہاتھ پيراتا ہے وللہ الحجۃ الساميہ۔

 

فصل دوم ابطال دلائل جمع تقديم:

واضح ہوکہ جمع تقديم غايت درجہ ضعف وسقوط ميں ہے حتی کہ بہت علمائے شافعيہ ومالکيہ تک معترف ہيں کہ اُس کے باب ميں کوئی حديث صحيح نہ ہوئی مگر مُلّاجی اپنی مُلّائیت کے بھروسے بيڑا اٹھا کر چلے ہيں کہ اُسے احاديث صحيحہ صريحہ مفسرہ قاطعہ سے ثابت کر دکھائيں گے ؎

 

چلاتو ہے وہ بت سيمتن شب وعدہ

 

اگر حجاب نہ روکے حيانہ ياد آئے

جمع تقديم وتاخير دونوں کی نسبت حضرت کے يہی دعوے ہيں، ابھی سُن چکے کہ وہ حديثيں جن ميں تاويل کو مخالف کی دخل نہيں پھر بعد ذکرِ احاديث ف۱ فرمايا يہ ہيں دلائل ہمارے جواز جمع پر جن ميں کسی طرح عذر اور تاويل اور جرح اور قدح کو دخل نہيں۔

 

 ۱ معيارالحق    ص ۳۸۳ )

 

آخر کتاب ميں فرمايا ف۲: نصوص قاطعہ تاويل۔ اس سے اوپر لکھا: احاديث ف۳ صحاح جو جمع بين الصلاتين پر قطعاً اور يقينا دلالت کرتی ہيں۔

 

۲ معيارالحق   ص ۴۱۸ )  ( ف۳ معيارالحق    ص۴۰۳)

 

بہت اچھا ہم بھی مشتاق ہيں مگر بے حاصل ؎

 

بہت شور سُنتے تھے پہلو ميں دل کا

جو چپراتو اِک قطرہ خُوں نہ نکلا

حضرت بکمال عرقريزی دو۲ حديثيں تلاش کرکے لائے وہ بھی ثمرہ نظر شريف نہيں بلکہ مقلدين شافعيہ کی تقليد جامد سے۔  

حديث اوّل: بعض طرقِ حديث سيدنا معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ اُس جناب سے روايت صحيحہ معروفہ مشہورہ مرويہ کبار ائمہ تو وہ تھی جو ان احاديث مجملہ سے حديث چہارم ميں گزری جس ميں سوا جمع کے کوئی کيفيت مخصوصہ مذکور نہ تھی جماہےر ائمہ وحفّاظ نے اسے يوں ہی روايت کيا۔

 

رواہ عن ابی الزبير عن ابی الطفيل عن معاذ جماعۃ من الحفاظ، منھم سفيٰن الثوری وقرۃ بن خالد ومالک بن انس واٰخرون، اماسفيٰن فعند ابن ماجۃ، واماقرۃ فعنہ خالد بن الحارث عند مسلم، وعبدالرحمٰن بن مھدی عندالطحاوی، وامامالک فعنہ الشافعی فی مسندہ، وابن وھب عندالطحاوی، وابوالقاسم عندالنسائی، وابوعلی الحنفی عندالدارمی، وعن الدارمی، مسلم فی صحيحہ۔

 

اس حديث کو ابوالزبير سے، اس نے ابوالطفيل سے، اس نے معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، حفّاظ کی ايک جماعت نے روايت کيا ہے، جن ميں سفيان ثوری، قرۃ ابن خالد، مالک بن انس اور ديگر محدثين شامل ہيں۔ سفيان ثوری کی روايت ابن ماجہ کے ہاں ہے۔ قرۃ ابن خالد سے خالد ابن حارث نے جو  روايت لی ہے وہ مسلم ميں ہے، اور جو عبدالرحمان ابن مہدی نے لی ہے وہ طحاوی ميں ہے۔ مالک سے جو روايت شافعی نے لی ہے وہ ان کے مسند ميں ہے۔ جو ابنِ وہب نے لی ہے وہ طحاوی کے ہاں ہے۔ جو ابوالقاسم نے لی ہے وہ نسائی کے پاس ہے۔ جو ابوعلی حنفی نے لی ہے وہ دارمی کے ہاں ہے اور دارمی سے مسلم نے اپنی صحيح ميں ذکر کی ہے۔ (ت)

 

يہی اہلِ علم کے نزديک معروف ہے مگر ايک روايت غريبہ شاذہ بطريق ليث بن سعد عن يزيد بن ابی جيب عن ابی الطفيل يوں آئی: ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم کان فی غزوۃ تبوک، اذا ارتحل قبل ان تزيغ الشمس اخر الظھر حتی يجمعھا الی العصر فيصليھما جميعا، واذا ارتحل بعدزيغ الشمس صلی الظھر والعصر جميعا ثم صار، وکان اذاارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاھا مع المغرب ۱؎۔ رواہ احمد وابو داؤد والترمذی وابن حبان والحاکم والدارقطنی والبیھقی۔ زاد الترمذی بعد قولہ: اذا ارتحل بعدزيغ الشمس، عجل العصر الی الظھر وصلی الظھر والعصر جميعا۔ الحديث ۲؎

 

يعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم غزوہ تبوک ميں جب سورج ڈھلنے سے پہلے کُوچ فرماتے تو ظہر ميں دير کرتے يہاں تک کہ اُسے عصر سے ملاتے تو دونوں کو ساتھ پڑھتے اور جب دوپہر کے بعد کُوچ فرماتے تو عصر ميں تعجيل کرتے اور ظہر وعصر ساتھ پڑھتے پھر چلتے اور جب مغرب سے پہلے کُوچ کرتے مغرب ميں تاخير فرماتے يہاں تک کہ عشا کے ساتھ پڑھتے اور مغرب کے بعد کُوچ فرماتے تو عشا ميں تعجيل کرتے اُسے مغرب کے ساتھ پڑھتے۔

 

 (۲؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی الجمع بين الصلٰوتين    مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۷۲)

(۳؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی الجمع بين الصلٰوتين    مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۷۲)

 

امام ترمذی فرماتے ہيں يہ غريب ہے معروف روايت ابی ھريرہ ہے : حيث قال: حديث الليث  عن يزيد  بن  ابی حبيب عن ابی الطفيل عن معاذ ،حدیث حديث غریب والمعروف عند اھل العلم حدیث معاذ من حديث ابی الزبير عن ابی الطفيل عن معاذ ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم جمع فی غزوۃ تبوک بين الظھر والعصر، وبين المغرب والعشاء۔ رواۃ قرۃ بن خالد وسفيٰن الثوری ومالک وغير واحد عن ابی الزبير المکی ۳؎۔

 

چنانچہ ترمذی نے کہا کہ وہ حديث جو ليث نے يزيد ابن ابی حبيب سے، اس نے ابوالطفيل سے، اس نے معاذ سے روايت کی ہے، وہ غريب ہے اور اہلِ علم کے نزديک معروف معاذ کی وہ حديث ہے جو ابوالزبير نے بواسطہ ابوالطفيل معاذ سے روايت کی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے غزوہ تبوک ميں ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کيا۔ اس کو قرۃ ابن خالد، سفيان ثوری، مالک اور دوسروں نے ابوالزبير مکّی سے روايت کيا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بين الصلٰوتين        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۱۷۲)

(۴؎ نيل الاوطار شرح منتقی الاخبار    ابواب الجمع بين الصلٰوتين    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۳/۲۴۳)

 

پھر ائمہ شان مثل ابوداؤد وترمذی وابوسعيد بن يونس فرماتے ہيں اسے سوا  قتيبہ بن سعيد کے کسی نے روايت نہ کيا يہاں تک کہ بعض ائمہ نے اُس پر غلط ہونے کا حکم فرمايا ۴؎ کمانقلہ الامام البدر  في العمدۃ والشوکانی الظاھری فی شرح المنتقی عن الحافظ ابن سعيد بن يونس  (جيسا کہ امام بدر نے عمدۃ ميں اور شوکانی الظاہری نے شرح منتقی ميں حافظ ابن سعيد بن يونس سے نقل کيا۔ ت) امام ابوداؤد نےمنکر کہا ۱؎ کمافی البدر المنير وعنہ فی النيل  (جيسا کہ بدر منير ميں ہے اور اس سے نيل الاوطار نے نقل کيا ہے)

 

 (۱؎ نيل الاوطار شرح منتقی الاخبار    ابواب الجمع بين الصلٰوتين    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۳/۲۴۳)

 

بلکہ رئيس الناقدين امام بخاری نے اشارہ فرمايا کہ يہ حديث نہ ليث نے روايت کی نہ قتيبہ نے ليث سے سنی بلکہ خالد بن قاسم مدائنی متروک بالاجماع مطعون بالکذب نے قتيبہ کو دھوکا دے کر اُن سے روايت کرادی اُس کی عادت تھی کہ براہِ مکر وحيلہ شيوخ پر اُن کی ناشنيدہ روايتيں داخل کرديتا لاجرم حاکم نے علوم الحديث ميں اُس کے موضوع ہونے کی تصريح کی يہ سب باتيں علمائے حنفيہ مثل امام زيلعی شارح کنز وامام بدر عينی شارح صحيح بخاری وعلّامہ ابراہيم حلبی شارح منيہ کے سوا شافعيہ ومالکيہ وظاہريہ قائلان جمع بين الصلاتين مثلي امام قسطلانی شافعی شارح بخاری وعلّامہ زرقانی مالکی شارح مؤطا ومواہب وشوکانی ظاہری شارح منتقی وغيرہم نے امام ابن يونس وامام ابوداؤد وابوعبداللہ حاکم وامام المحدثين بخاری سے نقل کيں بلکہ انہيں نے اور ان کے غير مثل صاحب بدرمنير وغيرہ نے امام ابوداؤد سے حکم مطلق نقل کيا کہ جو مضمون اس روايت کا ہے اس باب ميں اصلاً کوئی حديث قابلِ استناد نہيں کماسيأتی اِن شاء اللّٰہ تعالٰی ( جيسا کہ اِن شاء اللہ تعالٰی آگے آئےگا۔ ت) تو باوصف تصريحات ائمہ شان خصوصاً بخاری کے پھر ملّاجی کا اس روايت کی تصحيح ميں عرق ريزی بے حاصل اور توثيق ليث وقتيبہ وغيرہما رواۃ وقبول تفرد ثقہ کے اثبات ميں تطويل لاطائل کرنا کيسی جہالتِ فاحشہ ہے کس نے کہا تھا کہ قتيبہ يا ليث يا يزيدبن ابی حبيب يا معاذاللہ حضرت ابوالطفيل رضی اللہ تعالٰی عنہ ضعيف ہيں، ملّاجی بايں  پيرانہ سالی ودعوے محدثی ابھی حديث معلول ہی کو نہيں جانتے کہ اُس کےلئے کچھ ضعفِ راوی ضرور نہيں بلکہ باوصف وثاقت وعدالت رواۃ حديث ميں علت قارحہ ہوتی ہے کہ اُس کا رَد واجب کرتی ہے جسے بخاری وابوداؤد وغيرہما سے ناقدين پہچانتے ہيں بخاری وابوسعيد وحاکم نے بھی تو قتيبہ پر جرح نہ کی تھی بلکہ يہ کہا تھا کہ اُنہيں دھوکا دياگيا غلط ميں پڑگئے پھر اس سے عدالتِ قتيبہ کو کيا نقصان پہنچا، وثاقتِ قتيبہ سے حديث کو کيا نفع ملا، ہاں يہ دفتر توثيق اپنے پےشوا ابن حزم غير مقلد لامذہب کو سنائيے جس خبيث اللسان نے آپ کو اس روايت کے رَد ميں سيدنا ابوالطفيل صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو عياذاً باللہ مقدوح  و مجروح بتايا جسے دوسرے غير مقلّد شوکانی نے نقل کيا، غير مقلدوں کی عادت ہے کہ جب حديث کے رَد پر آتے ہيں خوفِ خدا وشرمِ دُنيا سب بالائے طاق رکھ جاتے ہيں۔ اسی ابن حزم نے باجے حلال کرنے کےلئے صحيح بخاری شريف کی صحيح ومتصل حديث کو بزعمِ تعليق رَد کيا جس کا بيان امام نووی رحمۃ اللہ تعالٰی عليہ نے شرح صحيح مسلم شريف ميں فرمايا وہی ڈھنگ موصول کو معلق مسند کو مرسل بناکر احاديث صحيحہ جيدہ کو رَد کرنے کےلئے آپ نے سيکھے ہيں،

 

کماتقدم، ومن يشبہ اباء ہ فماظلم ثمّ اقول: وتحسين الترمذی يرجع الٰی حديث معاذ، لقولہ: حديث معاذ حديث حسن غريب۔ واذا اتی علی ھذہ الروايۃ لم يحسنہ، انما قال: وحديث الليث عن يزيد غريب۔ وافاد انہ خلاف المعروف، فقال: والمعروف عند اھل العلم حديث معاذ ۱؎۔ الخ جيسا کہ گزرا اور جو شخص اپنے آباؤ سے مشابہت رکھے اس کا کوئی قصور نہيں۔ ثم اقول پھر ميں کہتا ہوں) کہ ترمذی کا حسن قرار دينا حديث معاذ سے متعلق ہے کيونکہ ترمذی نے کہا ہے کہ معاذ کی حديث حسن غريب ہے اور جب اس روايت کا ذکر کيا اسے حسن نہيں کہا صرف يہ کہا کہ ليث کی يزيد سے مروی حديث غريب ہے۔ ترمذی نے يہ افادہ بھی کيا کہ يہ معروف حديث کے خلاف ہے۔ چنانچہ ترمذی نے کہا ہے کہ اہلِ علم کے نزديک معروف، معاذ کی وہ حديث ہے الخ۔

 

 (۱؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی الجمع بين الصلاتين    مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۷۲)

 

واما ابن حبان فلانعلم لہ فضلا علی ابی سعيد بن يونس، فانہ ايضا ثقۃ، ثبت، حافظ، امام من ائمۃ الشان، کلاھما من الاقران، من تلامذۃ الامام النسائی ابی عبدالرحمٰن۔ وابن يونس، لنزاھتہ من نفس فلسفی، احب الی الناس من ابن حبان۔ وقد قال الامام ابوعمرو بن الصلاح فی طبقات الشافعيۃ: ربما غلط الغلط الفاحش فی تصرفاتہ ۲؎، کمانقلہ الذھبی فی تذکرۃ الحفّاظ۔ فانی يدانی اباداؤد، فضلا ان يواذيہ، فضلا ان يباريہ، فضلا عن ذاک الجبل الجليل محمد بن اسمعيل يوقد عرف بالتساھل فی باب التصحيح؛ بل والتحسين، ھو والترمذی: کمانص عليہ الائمۃ وحققناہ فی رسالتنا مدارج طبقات ۱۳۱۳ھ الحديث علی ان الجرح مقدم فی مثل المقام، فان من اثبت فانما نظر الی ثقۃ الرواۃ، ولم يطلع علی مااطلع عليہ غيرہ من العلۃ، ومن يعلم قاض علی من لايعلم۔ واللّٰہ اعلم، من کل اعلم۔ رہا ابن حبان تو اسکی سعيد ابن يونس پر کوئی برتری ہمارے علم ميں نہيں ہے کيونکہ سعيد بھی ثقہ ہے ثبت ہے، حافظ ہے اور حديث کے اماموں ميں سے ايک امام ہے دونوں ہم زمان ہيں اور امام ابوعبدالرحمن نسائی کے شاگردوں ميں سے ہيں۔ تاہم ابن يونس فلسفی روح سے پاک ہونے کی وجہ سے لوگوں کے ہاں ابن حبان سے زيادہ پسنديدہ ہے۔ امام ابوعمر ابن صلاح نے طبقات الشافعيہ ميں کہا ہے کہ ابن حبان کو تصرفات حديث کے دوران بسا اوقات شديد غلطی لگ جاتی تھی، جيسا کہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ ميں بےان کيا ہے۔ تو پھر ابن حبان ابوداؤد کے قريب بھی کہاں پہنچ سکتا ہے، چہ جائےکہ اس کا ہمسر ہو، چہ جائےکہ اس کے مقابل ہو۔ اور علم کے عظيم پہاڑ محمد بن اسمٰعيل (بخاری) کا مقام تو پھر بہت ہی اونچا ہے، جبکہ ابن حبان احاديث کو صحيح قرار دينے ميں متساہل ہے۔ بلکہ حسن قرار دينے ميں بھی يہ اور ترمذی متساہل ہيں، جيسا کہ ائمہ نے تصريح کی ہے اور ہم نے اپنے رسالے ''مدارج طبقات الحديث'' ميں تحقيق کی ہے۔ علاوہ ازيں ايسے مقام پر جرح، تعديل سے مقدم ہوتی ہے کيونکہ جو علماء، حديث کو ثابت قرار ديتے ہيں وہ صرف راويوں کا ثقہ ہونا مدّنظر رکھتے ہيں اور اس خامی سے آگاہ نہيں ہوتے ہيں جس سے دوسرے واقف ہوتے ہيں اور آگاہی رکھنے والے، آگاہی نہ رکھنے والوں کی بنسبت فيصلہ کن ہوتے ہيں۔ واللہ تعالٰیاعلم من کل اعلم۔ (ت)

 

 (۲؎ تذکرۃ الحفاظ فی ترجمۃ ابن حبان            مطبوعہ حيدرآباد دکن    ۳/۱۲۶)

 

ثمّ اقول: اس روايت ميں اسی طرح مقال واقع ہوئی اور ہنوز کلام طويل ہے مگر فقير غفراللہ تعالٰی لہ کہتا ہے نظر تحقيق کو رخصت تدقيق ديجئے تو اس روايت کا کون سا حرف جمع حقيقی ميں نص ہے اُس کا حاصل تو صرف اس قدر کہ حضور والا صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر تبوک ميں ظہر وعصر کو جمع فرماتے اگر دوپہر سے پہلے کُوچ ہوتا تو راہ ميں اُتر کر ورنہ منزل ہی پر پہلی صورت ميں جمع بعد سير ہوتی ہے اور دوسری ميں سير بعد جمع پھر اس ميں جمع صوری کا خلاف کيا ہوا حديث کا کون سا لفظ حقيقی کا تعيین کررہا ہے اذا ارتحل بعدزيغ الشمس ميں خواہی نخواہی بعديت متصلہ پر کيا دليل ہے بلکہ اس کے عدم پر دليل قائم کہ جزا صلی ثم سار ہے بلکہ الفاظ اخر الظھر وعجل العصر سے جمع صوری ظاہر ہے ظہر دير کرکے پڑھی عصر جلد پڑھی اس سے يہی معنی مفہوم ومتبادر ہوتے ہيں کہ ظہر اپنے آخر وقت ميں عصر اپنے شروع وقت ميں نہ يہ کہ ظہر عصر ميں پڑھی جائے يا عصر ظہر ميں، ولہذا علمائے کرام مثل امام اجل طحاوی وابوالفتح ابن سيد الناس وغيرہما بلکہ ان کے علاوہ آپ کے امام شوکانی نے بھی ان الفاظ تاخير وتعجيل کو جمع صوری کی صريح دليل مانا، شرح منتقی ميں کہا:

 

ممايدل علی تعين حمل حديث الباب علی الجمع الصوری، مااخرجہ النسائی عن ابن عباس، بلفظ: صليت مع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم الظھر والعصر جميعا، والمغرب والعشاء جميعا، اخر الظھر وعجل العصر، واخر المغرب وعجل العشاء۔ فھذا ابن عباس،راوی حديث الباب، قدصرح بان ماوراہ من الجمع المذکور ھو الجمع الصوری ۱؎۔ جن وجوہات کی بنا پر اس باب کی حديث کو جمع صوری پر حمل کرنا متعين ہوجاتا ہے ان ميں سے ايک وجہ وہ روايت ہے جس کی نسائی نے ابن عباس سے ان الفاظ ميں تخريج کی ہے کہ ميں نے نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کے ساتھ ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھا اور مغرب وعشا کو بھی اکٹھا پڑھا۔ آپ نے ظہر ميں تاخير اور عصر ميں تعجيل فرمائی، اسی طرح مغرب ميں تاخير اور عشا ميں تعجيل فرمائی تو يہ ابن عباس جو حديث کے راوی ہيں خود ہی واضح کررہے ہيں کہ انہوں نے جمع کی جو روايت بےان کی ہے اس سے مراد جمع صوری ہے۔ (ت)

 

 (۱؎نيل الاوطار شرح منتفی الاخبار    باب الجمع المقيم لمطرا وغيرہ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۳/۲۴۶)

 

اُسی ميں ہے: ومن المؤيدات للحمل علی الجمع الصوری ايضا، مااخرجہ ابن جرير عن ابن عمر، قال: خرج علينا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلّم، فکان يؤخر الظھر ويعجل العصر فيجمع بينھما، ويؤخر المغرب ويعجل العشاء فيجمع بينھما۔ وھذا ھو الجمع الصوری ۲؎۔ جمع صوری پر حمل کرنے کی مؤيدات ميں سے وہ روايت بھی ہے جو ابن جرير نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بےان کی ہے وہ فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم ہمارے پاس باہر تشريف لائے تو ظہر کو مؤخر کرتے تھے اور عصر کو جلدی، اس طرح دونوں کو يکجا پڑھ ليتے تھے۔ اسی کو جمع صوری کہتے ہيں۔ (ت)

 

 (۲؎ نيل الاوطار شرح منتفی الاخبار    باب الجمع المقيم لمطرا وغيرہ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۳/۲۴۶)

 

معہذا ظہر ومغرب کا جب وقت کھودنا ٹہرا تو عصر وعشاء ميں جلدی کا ہے کی، اطمينان سے منزل پر پہنچ کر دونوں پڑھ لی جاتيں، ہاں جمع صوری اُن کی تعجيل ہی سے ممکن، تو حديث اُسی طرف ناظر، بالجملہ شک نہيں کہ يہ روايت بھی اُنہيں احاديث مجملۃ الکيفيۃ سے ہے جسے مُلّاجی نے خواہی نخواہی جمع حقيقی ميں نص مفسر ناقابل تاويل مان ليا، الحمداللہ اس تحرير کے بعد مرقاۃ شرح مشکٰوۃ کے مطالعہ نے ظاہر کيا کہ مولانا علی قاری عليہ رحمۃ الباری نے حديث کی يہی تفسير کی جو فقير نے تقرير کی، فرماتے ہيں:

 

(جمع بين الظھر والعصر) ای فی المنزل، بان اخر الظھر الٰی اٰخر وقتہ وعجل العصر فی اول وقتہ۔  (ظہر وعصر کو جمع کيا) يعنی قيام گاہ ميں، ظہر کو آخر وقت تک مؤخر کيا اور عصر کو تعجيل کرکے اول وقت ميں پڑھا۔ (ت)

 

پھر فرمايا:(جمع بين المغرب والعشاء) ای فی المنزل، کماسبق ۳؎۔  (مغرب وعشاء کو جمع کيا)يعنی جائے قيام ميں، جيسا کہ پہلے گزرا۔ (ت)

 

 (۳؎ مرقاۃ شرح مشکٰوۃ    باب صلٰوۃ السفر    مطبوعہ مکتبہ امداديہ ملتان        ۳/۲۲۵)

 

حديث دوم :اور تم نے کيا جانا کيا حديث دوم وہ حديث جسے جمع صلاتين سے اصلاً علاقہ نہيں جس ميں اثبات جمع کا نام نہيں نشان نہيں، بو نہيں، گمان نہيں۔ خود قائلينِ جمع نے بھی اُسے مناظرہ ميں پيش نہ کيا، ہاں بعض علمائے شافعيہ نے شرح حديث ميں استطراداً جس طرح شراح بعض فوائد زوائد حديث سے استنباط کرجاتے ہيں لکھ ديا کہ اس ميں جمع سفر پر دليل ہے ملّاجی چار طرف ٹٹول ميں تھے ہی تقليد جامد شافعيہ کی لاٹھی پکڑے انہيں بند کيے پہنچے فيہ دليل پر ہاتھ پڑا بحکم لکل ساقطۃ لاقطۃ (ہرگری ہوئی چيز کو کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے۔ ت) جھٹ خوش خوش اٹھالائے اور معرکہ مناظرہ ميں جمادی وہ کيا يعنی حديث صحيحين

 

عن ابی جحيفۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، خرج علينا النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم بالھاجرۃ الی البطحاء، فتوضأ فصلی لنا الظھر والعصر ۱؎۔ ابوجحيفہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم دوپہر کے وقت مقامِ بطحاء ميں ہمارے پاس باہر تشريف لائے تو وضو کيا اور ہميں ظہر وعصر کی نماز پڑھائی۔

 

 (۱؎ صحيح مسلم:   باب سترۃ المصلّی    مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۹۶)

 

ولفظ البخاری، خرج علينا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم بالھاجرۃ، فصلی بالبطحاء الظھر رکعتين والعصر رکعتين   ۲؎۔ اور بخاری کے الفاظ يوں ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس باہر تشريف لائے اور مقامِ بطحاء ميں ظہر کی دو۲ رکعتيں اور عصر کی بھی دو۲ رکعتيں اور فرمائيں۔ (ت)

 

 (۲؎ صحيح بخاری کتاب المناقب، باب صفت النبی صلی اللہ عليہ وسلم ،مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی ،۱/۵۰۲)

 

  سچ تو ہے مُلّاجی کی داد نہ فرياد، اب کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت اسے جمع حقيقی کی دليل نہ صرف دليل بلکہ صاف صريح نہ صالح تاويل بتانا کن کھلی آنکھوں کا کام ہے سبحان اللہ! حديث کا مفاد صرف اتنا کہ حضور والا صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے دوپہر کو يا ظہر کے اول وقت يا عصر سے پہلے خيمہ اقدس سے برآمد ہوکر وضو کيا اور ظہر وعصر دونوں اُسی موضع بطحاء ميں ادا فرمائيں اس ميں تو مطلق جمع بھی نہ نکلی نہ کہ جمع حقيقی ميں نص ہو، ملّاجی تو آپ جانيں ايک ہوشيار ہيں خود سمجھے کہ حديث مطلب سے محض بے علاقہ ہے لہذا يہ نامندمل زخم بھرنے کو بشرم عوام کچھ عربی بولے اور يوں اپنی نحودانی کے پردے کھولے کہ ف۱ ہاجرہ خروج ووضو وصلاۃ سب کی ظرف ہے اور فاترتيب بے مہلت کےلئے تو بمقتضائے فامعنی يہ ہُوئے کہ يہ سب کام ہاجرہ ميں ہوليے،

 

 ۱ معيارالحق    ص ۳۶۷۔۳۶۹)

 

ظاہر يہی ہے تو اس سے عدول بے مانع قطعی ناروا، علاوہ بريں عصر ظہر پر معطوف اور صلّٰی توضأ سے بے مہلت مربوط تو معطوفِ معمول کو جُدا کرلينا کيونکر جائز اھ ملخصا مھذبامترجما اس پر بہت وجوہ سے رَد ہيں، مثلاً

 

اول: فاکوترتيب ذکری کافی، مسلم الثبوت ميں ہے: الفاء للترتيب علٰی سبيل التعقيب ولوفی الذکر ۱؎۔ فاء ترتيب کے لئے بطور تعقيب ہے خواہ يہ ترتيب ذکر ميں ہو۔ (ت)

 

 (۱؎ مسلم الثبوت    مسئلہ الفاء للترتيب    مطبوعہ مطبع انصاری دہلی  ص۶۱)

 

ثانی: عدم مہلت ہر جگہ اُس کے لائق ہوتی ہے کمافی فواتح الرحموت ۲؎  (جيسا کہ فواتح الرحموت ميں ہے۔ ت) تزوج فولدلہ ميں کون کہے گا کہ نکاح کرتے ہی اُسی آن ميں بچّہ پيدا ہوتو جيسے وہاں تقريباً ايک سال کا فاصلہ منافی مقتضائے فانہیں، ظہر وعصر ميں دو۲ ساعت کا فاصلہ کيوں منافی ہوگا۔

 

 (۲؎ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت مع المستصفی ، بحث الفاء للتعقيب ،  مطبوعہ منشورات الشريف الرضی قم ايران۱/۲۳۴)

 

ثالث: ہاجرہ ظرف خروج ہے ممکن کہ خروج آخر ہاجرہ ميں ہوکہ وضو ونماز ظہر تک تمام ہوجائے اور نمازِ عصر بلامہلت اُس کے بعد ہو، ہاجرہ کچھ دوپہر ہی کو نہيں کہتے زوال سے عصر تک سارے وقتِ ظہر کو بھی شامل ہے کمافی القاموس۔ تو مخالفت ظاہر کا ادعا بھی محض باطل۔

 

رابع: حديث مروی بالمعنٰی ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے تصريح کی کہ ايسی حديث کے فا و  واو  وغيرہما سے استدلال صحيح نہيں کما فی الحجۃ البالغۃ۔ يہ تلخيص وتہذيب اجوبہ ہے وقد ترکنا مثلھا فی العدد (اور ہم نے اتنے ہی جوابات ترک کردئے ہيں۔ ت) وانا اقول وبحول اللّٰہ اصول۔

خامس :ہاجرہ کو ظرف افعال ثلثہ کہنا محض ادعائے بے دليل ہے ''و '' تعقيب چاہنی ہے۔ اتحاد زمانہ نہيں چاہتی بلکہ تعدد واجب کرتی ہے کہ تعقيب بے تعدد معقول نہيں۔

سادس :ظرفيت ثلٰثہ فاسے ثابت يا خارج سے اول بداہۃً باطل کماعلمت برتقدير ثانی حديث فالغومحض ہے کہ عصر فی الہاجرہ اُسی قدر سے ثابت، پھر باوصف لغويت اُسی کی طرف اسناد کہ بمقتضائے فا يہ معنی ہوئے اور عجيب تر۔

سابع: ذرا صفت حجۃ الوداع ميں حديث طويل سيدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما صحيح مسلم وغيرہ ميں ملاحظہ ہو، فرماتے ہيں:

 

فلما کان يوم الترويۃ توجھوا الی منٰی فاھلوا بالحج ورکب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم فصلی بھا الظھر والعصر والمغرب والعشاء والفجر ۳؎۔

 

جب آٹھويں ذی الحجہ کی ہُوئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم حج کا احرام باندھ کر منٰی کو چلے اور حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سوار ہوئے تو منٰی ميں ظہر وعصر ومغرب وعشا وفجر پانچوں نمازيں پڑھيں۔ (م)

 

 (۳؎ الصحيح لمسلم    باب حجۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم    مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی     ۱/۳۹۶)

 

ملّاجی وہی فا ہے وہی ترتيب وہی عطف وہی ترکيب۔ اَب يہاں کہہ دينا کہ سوار ہوتے ہی معاً بے مہلت پانچوں نمازيں ايک وقت ميں پڑھ ليں جو معنی صلی الظھر والعصر الخ کے يہاں ہيں وہی وہاں اور يہ قطعاً محاورہ عامہ شائعہ سائغہ ہے کہ اصلاً مفيد وصل صلوات نہيں ہوتا ومن ادعی فعليہ البيان (جو شخص دعوٰی کرتا ہے اس کے ذمّے دليل ہے۔ ت)

 

ثامن: کلام متناقض ہے کہ اوّل کلام ميں حکم وصل سے عصر کا فعل خلاف ظاہر مانا يہ دليل صحت ہے آخر ميں کيونکر جائز کہا يہ دليل فساد۔

تاسع: تاويل کے لئے قطعيتِ مانع ضروری جاننا عجب جہل ہے کيا اگر کسی حديث کے ظاہر سے ايک معنی متبادر ہوں اور دوسری حديث صحيح اُس کے خلاف ميں صريح تو حديث اول کو اس کے خلاف ہی پر حمل واجب ہے کہ بے مانع قطعی ظاہر سے عدول کيونکر ہو نقل کر لانا سہل ہے محل ومقام ومقصد کلام کا سمجھنا نصيب اعدا۔

عاشر :آپ جو اپنی نصرت خيالات کو احاديث صحيحہ ميں جابجا تاويلاتِ رکيکہ باردہ کرتے ہيں اُن کے جواز کا فتوٰی کہاں سے پايا، مجتہدات ميں قاطع کہاں، مثلاً وقتِ ظہر يک مثل بنانے کو جو حديث صحيح صريح بخاری حتی ساوی الظل التلول کے معنی بگاڑے جن کا ذکر اِن شاء اللہ تعالٰی عنقريب آتا ہے اُس کا عذر کيا معقول ارشاد ہوتا ہے: منشاء تاويلات کا يہی ہے کہ احاديثِ صحيحہ جن سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد ايک مثل کے وقت ظہرکا نہيں رہتا ثابت ہيں پس جمعاً بين الاولہ يہ تاويليں حقہ کی گئيں۱؎ اب خدا جانے بے قطعيت مانع يہ تاويليں حقہ کيونکر ہوئيں مخالفتِ ظاہر کے باعث سلفہ کيوں نہ ہوگئيں۔

 

 (۱؎ معيارالحق ،  مسئلہ چہارم ،  بحث آخر وقت ظہر الخ   مکتبہ نذيريہ لاہور    ص ۳۵۴)

 

حادی عشر :طرفہ نزاکت صدر کلام ميں يہ بيڑا ا ٹھا کر چلے کہ وہ حديثيں جن ميں تاويل مخالف کو دخل نہيں ذکر کرتے ہيں اور يہاں ايسے گرے کہ صرف ظاہر سے سند لائے تاويل خود ہی مان گئے۔

ثانی عشر :آپ کی فضوليات کی گنتی کہاں تک اصل مقصود کی دھجياں ليجئے صحيحين ميں حديث مذکور کے يہ لفظ تو ديکھيے جن ميں فاء سے يہ فی نکالی، مگر يہی حديث انہيں صحيحين ميں متعدد طرق سے بلفظ ثم آئی جو آپ کی تعقيب بے مہلت کو تعاقب سے دم لينے کی مہلت نہيں ديتی۔ صحيح بخاری شريف باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم۔

 

بطريق شعبۃ عن الحکم، قال: سمعت اباجحيفۃ، قال: خرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم بالھاجرۃ الی البطحاء فتوضأ، ثم صلی الظھررکعتين والعصر رکعتين ۱؎۔ بطريقہ شعبہ، وہ حکم سے راوی ہے کہ ميں نے ابوجحيفہ کو کہتے سُنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم دوپہر کے وقت بطحاء کی طرف نکلے تو وضو کيا، پھر ظہر کی دو۲ رکعتيں پڑھيں اورعصر کی دو۲ رکعتيں۔ (ت)

 

 (۱؎ صحيح بخاری کتاب المناقب،باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی،۱/۵۰۲)

 

نيز باب مذکوربطريق مالک بن مغول عن عون عن ابیہ، وفيہ، خرج بلال فنادی بالصلاۃ، ثم دخل فاخرج فضل وضوء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم، فوقع الناس عليہ ياخذون منہ، ثم دخل فاخرج العنزۃ، وخرج رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم، کانی انظر الی وبيض ساقيہ، فرکز العنزۃ، ثم صلی الظھر رکعتين والعصر رکعتين ۲؎۔ بطريقہ مالک ابن مغول، وہ عون سے، وہ اپنے والد سے۔ اس روايت ميں ہے کہ بلال (خيمے سے) نکلے اور نماز کے لئے پکارا، پھر اندر گئے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لے آئے تو اس کو حاصل کرنے کےلئے لوگ اس پر ٹوٹ پڑے، بلال پھر اندر گئے اور عصا نکال لائے، اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم بھی باہر تشريف لے آئے گويا کہ ميں اب بھی آپ کی ساقين کی چمک ديکھ رہا ہوں  بلال نے عصا (بطور سُترہ) زمين پر گاڑ ديا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے ظہر اور عصر کی دو۲ دو۲ رکعتيں پڑھيں۔ (ت)

 

 (۲؎ صحيح بخاری،کتاب المناقب،باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم ،مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی،۱/۵۰۳)

 

لے کہاں کو، ان دو۲ نے تو آپ کی تعقيب ہی بگاڑی ہے، تيسرا اور نہ لیے جاؤ جو خود ظہر وعصر مويں فاصلہ کر دکھائے،

 

صحيح مسلم شريف بطريق سفيٰن ناعون بن ابی جحيفۃ عن ابيہ، وفيہ، فخرج النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلّم فتوضأ، واذن بلال، ثم رکزت العنزۃ، فتقدم فصلی الظھر رکعتين،ثم صلی العصر رکعتين، ثم لم يزل يصلی رکعتين حتی رجع الی المدينۃ۳؎۔

 

بطريقہ سفيان، وہ عون سے، وہ اپنے والد ابوجحيفہ رضی اللہ عنہ سے۔ اس روايت ميں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم باہر تشريف لائے تو وضو کيا اور بلال نے اذان دی، پھر عصاگاڑا گيا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کھڑے ہوگئے، تو ظہر کی دو۲ رکعتيں  پڑھيں، پھر عصر کی دو۲ رکعتيں  پڑھيں، اس کے بعد مدينہ کو واپسی تک دوہی رکعتيں پڑھتے رہے۔ (ت)

 

(۳؎ صحيح مسلم     کتاب الصلوۃ    باب سترۃ المصلی الخ     مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۹۶)

 

ملّاجی! اب مزاج کا حال بتائیے ع

 

حفظت شیئا وغابت عنک اشياء

 

 (تُونے ايک چيز ياد رکھی اور بہت سی چيزيں تُجھ سے اوجھل رہ گئيں۔ ت)

 

الحمداللہ اس فصل کے بھی اصل کلام نے وصل ختام بروجہ احسن پايا۔ اب حسبِ فصل اول چند افاضات ليجئے:

افاضہ اولٰی: ہمارے اجلّہ ائمہ حنفيہ مالکيہ شافعيہ اور ملّاجی کے امام ظاہر يہ سب بالاتفاق اپنی کتب ميں نقل کررہے ہيں کہ امام اجل ابوداؤد صاحبِ سُنن نے فرمايا: ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ۱؎۔ جمع تقديم ميں کوئی حديث ثابت نہيں۔ (ت)

 

 (۱؎ شرح الزرقانی علی المؤطا    الجمع بين الصلاتين    مطبوعہ مطبعۃ الاستقامۃ قاہرہ مصر    ۱/۲۹۲)

 

امام زيلعی فرماتے ہيں:قال ابوداؤد: وليس فی تقديم الوقت حديث قائم ۲؎۔ ابوداؤد نے فرمايا: تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ تبيين الحقائق    اوقات الصلٰوۃ    مطبوعہ المطبعۃ الکبرٰی الاميريہ بولاق مصر    ۱/۸۹)

 

امام بدرمحمود عينی حنفی عمدۃ القاری شرح صحيح بخار ی میں فرماتے ہيں: قلت: حکی عن ابی داؤد انہ انکر ھذا الحديث، وحکی عنہ ايضا، انہ قال: ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ۳؎۔ ميں نے کہا: ابوداؤد سے منقول ہے کہ انہوں نے اس حديث کو منکر کہا ہے۔ ان سے يہ بھی منقول ہے کہ تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ عمدۃ القاری شرح بخاری     باب الجمع فی السفر الخ    مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنيريہ دمشق    ۷/۱۵۱)

 

اسی طرح علامہ سيد ميرک شاہ حنفی نے نفل فرمايا مولانا علی قاری مکّی مرقاۃ شرح مشکٰوۃ میں فرماتے ہيں: حکی عن ابی داؤد انہ قال: ليس فی تقديم الوقت حديث قائم۔ نقلہ ميرک۔ فھذا شھادۃ بضعف الحديث وعدم قيام الحجۃ للشافعيۃ ۴؎۔ ابوداؤد سے منقول ہے کہ تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے، يہ بات ميرک نے نقل کی ہے۔ يہ حديث کے ضعيف ہونے اور شافعيوں کی دليل قائم نہ ہونے پر شہادت ہے۔ (ت)

 

 (۴؎ مرقاۃ شرح مشکٰوۃ    باب صلٰوۃ السفر    مطبوعہ مکتبہ امداديہ ملتان        ۳/۲۲۵)

 

امام احمد قسطلانی ارشاد الساری شرع صحيح البخاری ميں فرماتے ہيں: قدقال ابوداؤد: وليس فی تقديم الوقت حديث قائم ۱؎۔  (ابو داؤد نے فرمايا: تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے۔ ت)

 

 (۱؎ ارشاد الساری شرح صحيح بخاری    باب يؤخر الظہر الی العصر الخ    مطبوعہ دارالکتاب العربيہ بيروت    ۲/۳۰۲)

 

بعينہٖ اسی طرح علّامہ زرقانی مالکی نے شرح مؤطائے امام مالک و نيز شرح مواہب لدنيہ ومنح محمديہ ميں فرمايا شوکانی غير مقلد کی نيل الاوطار ميں ہے: قال ابوداؤد: ھذا حديث منکر وليس فی جمع التقديم حديث قائم ۲؎۔

 

 (۲؎ نيل الاوطار شرح منتقی الاخبار    ابواب الجمع بين الصلويتين    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۳/۲۴۳)

 

بھلا ابوداؤد سا امام جليل الشان يہ تصريح فرماگيا جسے علمائے مابعد حتی کہ قائلانِ جمع بھی بلانکير وانکار نقل فرماتے آئے، نہ آج تک کوئی اس کا پتادے سکا، اب مُلّاجی چاہيں کہ ميں حديث صحيحين سے ثابت کردوں يہ کيونکر بنی مگر قيامت لطيفہ دلربا کھسيانی ادا يہ ہے کہ جھنجھلائی نظروں سے جل کر فرمايا ف: کُچھ غيرت آوے تو نشان دہی کريں کہ ابُوداؤد نے کون سی کتاب ميں يہ قول کہا ہے، يعنی نقول ثقات عدول محض مردود ونامقبول جب تک قائل خود اپنی کتاب ميں تصريح نہ کرے اُس سے کوئی نقل معتبر نہ ہوگی۔

 

 (ف معيارالحق    ص ۳۷۴)

 

اقول مُلّاجی! ان جھنجھلا ہٹوں ميں حق بجانب تمہارے ہے تم دلی کی ٹھنڈی سڑک پر ہوا کھلانے کے قابل نہ تھے يہ حنفی لوگ عبث تمہيں چھوڑ کر بوکھلائے ديتے ہيں بھلا اوّلا اتنا تو ارشاد ہوکہ بہت ائمہ جرح وتعديل وتصحيح وتضعيف وغيرہم ايسے گزرے جن کی کوئی کتاب تصنيف نہيں بيان سے نقل معتبر ہونے کا کيا ذريعہ ہوگا۔

 

ثانياً: آپ جو اپنی مبلغ علم تقريب کے بھروسے رواۃ ميں کسی کو ثقہ کسی کو ضعيف کسی کو چنيں کسی کو چناں کہہ رہے ہيں ظاہر ہے کہ مصنف تقريب نے اُن ميں کسی کا زمانہ تک نہ پايا صدہا سال بعد پيدا ہوئے انہيں ديکھنا اور اپنی نگاہ سے پرکھنا تو قطعاً نہيں اسی طرح ہر غير ناظر ميں يہی کلام ہوگا، اب رہی ديکھنے والوں سے نقل سوا مواضع عديدہ کے ثبوت تو ديجئے کہ ناظرين مبصرين نے اپنی کس کتاب ميں اُن کی نسبت يہ تصريحيں کی ہيں۔

ثالثا: آپ کی اسی کتاب ميں اور بيسيوں نقول سلف سے ايسی نکليں گی کہ آپ حکايات متاخرين کے اعتقاد پر نقل کر لائے اور اُن سے احتجاج کيا کچھ غيرت رکھاتے ہو تو نشان دہی کروکہ وہ باتيں منقول عنہم نے کس کتاب ميں لکھی ہيں مگر يہ کہيے کہ يجوز للوھابی مالايجوز لغيرہ (وہابی کےلئے وہ کچھ جائز ہے جو دوسروں کےلئے جائز نہيں۔ ت)

 

افاضہ ثانيہ:رہی اس باب ميں حديثِ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما مروی احمد وشافعی وعبدالرزاق وبيہقی:وھذا حديث احمد  اذيقول حدثنا عبدالرزاق اخبرنا  ابن جريج اخبرنی حسين بن عبداللہ بن عبيداللّٰہ بن عباس عن عکرمۃ وکريب عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما قال: الا اخبرکم عن صلاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم فی السفر؟ قلنا: بلٰی۔ قال: کان اذا زاغت الشمس فی منزلہ جمع بين الظھر والعصر، قبل ان يرکب، واذا لم تزغ لہ فی منزلۃ سار، حتی اذاکانت العصر، نزل فجمع بين الظھر والعصر۔ واشار اليہ ابوداؤد تعليقا ۱؎، فقال: رواہ ھشام بن عروۃ عن حسين بن عبداللّٰہ عن کريب عن ابن عباس عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم، ولم يذکر لفظہ ۲؎۔

 

اور يہ احمد کی حديث ہے، حديث بےان کی ہم سے عبدالرزاق نے، اس کو خبر دی ابن جريج نے، اس کو خبر دی حسين بن عبداللہ بن عبيداللہ بن عباس نے کہ عکرمہ اورکريب، ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ ابن عباس نے ہم سے پُوچھا: ''کيا ميں تمہيں سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کی نماز کے بارے ميں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: ''کيوں نہيں (ضرور بتائيں) انہوں نے کہا کہ اگر جائے قيام پر زوال ہوجاتا تھا تو سوار ہونے سے پہلے ظہر اور عصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے اور اگر جائے قيام پر زوال نہيں ہوتا تھا تو چل پڑتے تھے اور جب عصر ہوتی تھی تو اتر کر ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے۔ اس روايت کی طرف ابوداؤد نے تعليقاً اشارہ کيا ہے اور کہا ہے کہ اس کو ہشام ابن عروہ نے حسين ابن عبداللہ سے، اس نے کريب سے، اس نے ابن عباس سے، انہوں نے نبی صلی اللہ عليہ وسلم سے۔ مگر ابوداؤد نے اس کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہيں۔ (ت)

 

 (۱؎ مسند امام احمد بن حنبل    از مسند عبداللہ بن عباس    مطبوعہ دارالفکر بيروت        ۱/۳۲۷)

(۲؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بين الصلاتين    مطبوعہ مطبع مجتبائی لاہور        ۱/۱۷۱)

(مصنف، ابی بکر عبدالرزاق بن ہمام    جمع بين الصلاتين    مطبوعہ المکتب الاسلامی بيروت    ۲/۵۴۸)

 

خود قائلانِ جمع اس کا ضعف تسليم کرگئے شايد اسی لئے کچھ سوچ سمجھ کر ملّاجی بھی اُس کا ذکر زبان پر نہ لائے لہذا اس ميں زيادہ کلام کی ہميں حاجت نہيں تاہم اتنا معلوم رہے کہ اُس کے راوی حسين مذکور ائمہ شان کے نزديک ضعيف ہيں۔ يحيٰی نے فرمايا: ضعيف۔ ابوحاتم رازی نے فرمايا:

 

ضعيف، يکتب حديثہ ولايحتج بہ ۳؎ (ضعيف ہے، اس کی حديث لکھی جائے مگر اس سے استدلال نہ کيا جائے۔ ت) ابوزرعہ وغيرہ نے کہا: ليس بقوی (قوی نہيں ہے۔ ت)

 

 (۳؎ ارشاد الساری    باب يؤخر الظہر الی العصر الخ     مطبوعہ دارالکتاب العربيہ بيروت        ۲/۵۴۸)

 

جوزجانی نے کہا: لايشتغل بہ ۴؎ (اس کے ساتھ مشغول نہيں ہونا چاہئے۔ ت)

 

 (۴؎ ميزان الاعتدال        ترجمہ حسين بن عبداللہ ۲۰۱۲    مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت    ۱/۵۳۷)

 

ابنِ حبان نے کہا: يقلب الاسانيد ويرفع المراسيل ۵؎ (اسنادوں کو پلٹ ديتا تھا اور مراسيل کو مرفوع بناديتاتھا۔ ت)

 

 (۵؎ نيل الاوطار شرح منتقی الاخبار    ابواب الجمع بين الصلاتين    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۳/۲۴۴)

 

محمد بن سعد نے کہا: کان کثير الحديث، ولم ارھم يحتجون بحديثہ (حديثيں بہت بيان کرتاتھا، علماء اس کی احاديث سے استدلال نہيں کرتے تھے۔ ت) يہاں تک کہ نسائی نے فرمايا: متروک الحديث امام بخاری نے فرمايا علی بن مدينی نے کہا: ترکت حديثہ ۱؎ (ميں نے اسکی حديث کو ترک کرديا ہے۔ ت)

 

 (۱؎ نيل الاوطار شرح منتقی الاخبار    ابواب الجمع بين الصلاتين    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۳/۲۴۴)

 

لاجرم حافظ نے تقريب ميں کہا: ضعيف۔ اس حديث کی تضعيف شرح بخاری قسطلانی شافعی وشرح مؤطا زرقانی مالکی وشرح منتقی شوکانی ظاہری ميں ديکھيے، ارشاد ميں فتح الباری سے ہے:

 

لکن لہ شاھد من طريق جماد عن ايوب عن ابی قلابۃ عن ابن عباس، لااعلمہ الا مرفوعا، انہ کان اذا انزل منزلا فی السفر فاعجبہ اقام فيہ، حتی يجمع بين الظھر والعصر، ثم يرتحل، فاذا لم يتھيألہ المنزل مدفی السير فسار حتی ينزل، فيجمع بين الظھر والعصر۔ خرجہ البيھقی، ورجالہ ثقات، الا انہ مشکوک فی رفعہ، والمحفوظ انہ موقوف۔ وقداخرجہ من وجہ اٰخر، مجزوما بوقفہ علی ابن عباس، ولفظہ: اذاکنتم سائرين، فذکر نحوہ ۲؎۔

 

ليکن اس کا ايک شاہد ہے جو بطريقہ حماد مروی ہے حماد ايوب سے، وہ ابوقلابہ سے، وہ ابن عباس سے روايت کرتے ہيں (اور کہتے ہيں کہ) ميرے خيال ميں يہ روايت مرفوع ہی ہے کہ جب سفر کے دوران کسی منزل پر اُترتے تھے اور وہ جگہ پسند آجاتی تھی تو وہاں ٹہر جاتے تھے يہاں تک ظہر وعصر کو يکجا پڑھتے تھے پھر سفر شروع کرتے تھے اور اگر کوئی ايسی منزل مہيا نہيں ہوتی تھی تو چلتے رہتے تھے يہاں تک کہ کسی جگہ اُتر کر ظہر وعصر کو جمع کرليتے تھے۔ اس کو بيہقی نے روايت کيا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہيں ليکن اس کا مرفوع ہونا مشکوک ہے، محفوظ بات يہ ہے کہ يہ روايت موقوف ہے۔ بيہقی نے ايک اور سند سے بھی اس کو روايت کيا ہے جس کے مطابق اس کا ابن عباس پر موقوف ہونا يقينی ہے، اس کے الفاظ اس طرح ہيں جب تم چلنے والے ہو (تو يوں کيا کروکہ۔۔۔۔۔۔) اس کے بعد درج بالا طريقہ مذکور ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ ارشاد الساری شرح بخاری    باب يوخر الظہر الی العصر اذاارتحل الخ مطبوعہ دارالکتاب العربی بيروت ۲/۲۰۳)

 

شرح مؤطا ميں اسے ذکر کرکے فرمايا: وقدقال ابوداؤد ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ۳؎ (ابوداؤد نے فرمايا، تقديم وقت پر کوئی حديث ثابت نہيں۔ ت)

 

 (۳؎ شرح الزرقانی علی المؤطا امام مالک ، الجمع بين الصلاتين والحضروالسفر  ، مطبوعہ المکتبۃ التجاريۃ الکبرٰی مصر  ۱/۲۹۲)

 

اقول: وہ ضعيف اور اُس کا يہ شاہد موقوف اگر بالفرض ومرفوع بھی ہوتے تو کيا کام ديتے کہ اُن کا حاصل تو يہ کہ جو منزل حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کو پسند آتی اور دوپہر وہيں ہوجاتا تو ظہر وعصر دونوں سے فارغ ہوکر سوار ہوتے اس ميں عصر کا پيش از وقت پڑھ لينا کہاں نکلا بعينہٖ اسی بيان سے شاہد کا سار حتی ينزل فيجمع جمع حقيقی پر اصلا شاہد نہيں اور کانت العصر کا جواب بعونہ تعالٰی بيانات آئندہ سے ليجئے وباللہ التوفيق اگر کہيے روايت شافعی يوں ہے:

 

اخبرنی ابن ابی يحيٰی عن حسين بن عبداللّٰہ بن عبيداللّٰہ بن عباس بن کريب عن ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما، فذکر الحديث، وفيہ جمع بين الظھر والعصر فی الزوال ۱؎۔

 

خبر دی مجھے ابن ابی يحيٰی نے حسين ابن عبداللہ سے کہ کريب نے ابن عباس سے روايت کی ہے، اس کے بعد مندرجہ بالا روايت مذکور ہے اور اس ميں ہے کہ زوال کے وقت ظہر وعصر کو جمع کرتے تھے۔ (ت)

 

(۱؎ مسند الشافعی)

  

اقول: اس کی سند ميں ابن ابی يحيٰیرافضی قدوری معتزلی جہمی بھی متروک واقع ہے امام اجل يحيٰی بن سعيد بن قطعان وامام اجل يحيٰی بن معين وامام اجل علی بن مدينی وامام يزيد بن ہارون وامام ابوداؤد وغيرہم  اکابر نے فرمايا: کذاب تھا۔ امام احمد نے فرمايا: ساری بلائيں اُس ميں تھيں۔ امام مالک نے فرمايا: نہ وہ حديث ميں ثقہ ہے نہ دين ميں۔ امام بخاری نے فرمايا: ائمہ محدثين کے نزديک متروک ہے۔ ميزان الاعتدال ميں ہے:

 

ابرھيم بن ابی يحيی، احدالعلماء الضعفاء، قال يحيی بن سعيد: سألت مالکاعنہ، اکان ثقۃ فی الحديث؟ قال: لا، ولافی دينہ۔ وقال يحيی بن معين: سمعت القطان يقول: ابرھيم بن ابی يحيی کذاب۔ وروی ابوطالب عن احمد بن حنبل، قال: ترکوا حديثہ، قدری، معتزلی، يروی احاديث ليس لھا اصل وقال البخاری: ترکہ ابن المبارک والناس۔ وروی عبداللّٰہ بن احمد عن ابيہ، قال: قدری، جھمی،کل بلاء فيہ، ترک النّاس حديثہ، وروی عباس عن ابن معين، کذاب، رافضی۔ وقال محمد بن عثمان بن ابی شييۃ: سمعت عليا يقول: ابرھيم بن ابی يحيٰی کذاب۔ وقال النسائی والدارقطنی وغيرھما، متروک ۱؎۔

 

ابراہيم بن ابی يحيٰی ضعيف علماء ميں سے ايک ہے۔ يحيٰی ابن سعيد نے کہا کہ ميں نے اس کے بارے ميں مالک سے پُوچھا کہ کيا وہ حديث ميں قابلِ اعتماد تھا؟ انہوں نے جواب ديا: نہ وہ حديث ميں قابلِ اعتماد تھا، نہ دين ميں۔ اور يحيٰی ابن معين نے کہا: ميں نے قطان کو کہتے سُنا ہے کہ ابرہيم ابن يحيٰی کذاب ہے۔ ابوطالب نے احمد ابن حنبل سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: علماء نے اس کی حديث کو ترک کرديا ہے، قدری ہے، معتزلی ہے، بے اصل حديثيں روايت کرتا ہے۔ بخاری نے کہا: ابن مبارک نے اور لوگوں نے اس کی حديث کو ترک کرديا ہے۔ عبداللہ ابن احمد اپنے والد سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا: قدری ہے، جہمی ہے، ہر بلا اس ميں پائی جاتی ہے، لوگوں نے اس کی حديث چھوڑدی ہے۔ عباس، ابنِ معين سے ناقل ہے کہ وہ کذاب ہے، رافضی ہے۔ محمد ابن عثمان ابن ابی شيبہ نے کہا ہے: ميں نے علی کو کہتے سُنا ہے کہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی کذاب ہے۔ نسائی، دارقطنی اور دُوسروں نے کہا کہ متروک ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ ميزان الاعتدال    ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی۱۸۹    مطبوعہ دارالمعرفت بيروت    ۱/۵۷۔۵۸)

 

اُسی ميں ہے:قال ابن حبان: کان يکذب فی الحديث ۲؎۔ ابن حبان نے کہا کہ حديث ميں جھُوٹ بولتا تھا۔ (ت)

 

 (۲؎ ميزان الاعتدال    ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی۱۸۹    مطبوعہ دارالمعرفت بيروت    ۱/۶۰)

 

اُسی ميں ہے : قال ابومحمد الدارمی: سمعت يزيد بن ھارون، يکذب ابرٰھيم بن ابی يحيٰی ۳؎۔ ابومحمد دارمی نے کہا کہ ميں نے يزيد ابن ہارون سے سنا کہ وہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی کو جھُوٹا قرار ديتے تھے۔ (ت)

 

 (۳؎ ميزان الاعتدال    ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی۱۸۹    مطبوعہ دارالمعرفت بيروت    ۱/۶۰)

 

تذہيب التہذيب ميں ہے: عن الزھری وصالح مولی التوأمۃ وعنہ الشافعی واٰخرون، قال عبداللّٰہ بن احمد عن ابيہ: کان قدريا، معتزليا، جھميا، کل بلاء فيہ۔ قال ابوطالب عن احمد بن حنبل: ترک الناس حديثہ، وکان يأخذ احاديث الناس فيضعفھا فی کتبہ۔ وقال يحيی القطان: کذاب۔ وقال احمد بن سعيد بن ابی مريم: قلت ليحيی بن معين، فابن ابی يحيٰی؟ قال: کذاب ۱؎۔

 

زہری اور صالح مولی التوأمہ سے اور اس سے شافعی اور ديگر علماء نقل کرتے ہيں کہ عبداللہ بن احمد اپنے والد سے بيان کرتے ہيں کہ (ابراہيم مذکور) قدری تھا، معتزلی تھا، جہمی تھا، ہر بلا اس ميں موجود تھی۔ ابوطالب نے احمد بن حنبل سے نقل کيا کہ لوگوں نے اس کیج حديث چھوڑدی تھی، وہ لوگوں کی حديثيں لے کر اپنی کتابوں ميں لکھ ليتا تھا۔ يحيٰی قطان نے کہا: جھُوٹا ہے۔ احمد ابن سعيد ابن ابی مريم نے کہا: ميں نےيحيٰی ابن معين سے ابن ابی يحيٰی کے بارے ميں پُوچھا تو انہوں نے کہا: کذّاب ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ خلاصہ تذھيب  تہذيب الکمال الخ  ، ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی۲۷۴ ، مطبوعہ مکتبہ اثريہ سانگلہ ہل (شیخوپورہ) ۱/۵۵)

 

تذکرۃ الحفاظ ميں ہے: قال ابن معين وابوداؤد: رافضی کذاب ۲؎  (ابن معين اور ابوداؤد نے کہا: رافضی ہے، کذاب ہے۔ ت)

 

 (۲؎ تذکرۃ الحفاظ    ترجمۃ ابراہيم بن محمد المدنی    مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن    ۱/۲۲۷)

 

لاجرم تقريب ميں ہے: متروک ۳؎ اھ الکل باختصار۔

 

 (۳؎ تقريب التہذيب ، ترجمۃ ابراہيم بن محمد المدنی  مطبوعہ الکتب الاسلاميہ گوجرانوالہ، پاکستان       ص۲۳)

 

يہاں تک کہ ابوعمر بن عبدالبر نے کہا اُس کے ضعف پر اجماع ہے کمانقلہ فی الميزان ۴؎ فی ترجمۃ عبدالکريم بن ابی المخارق واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

 

 (۴؎ ميزان الاعتدال    ترجمہ عبدالکريم ابن ابی المخارق ۱۵۷۲    مطبوعہ دارالمعرفت بيروت لبنان    ۲/۶۴۶)

 

افاضہ ثالثہ: يوں ہی حديث دارقطنی: حدثنا احمد بن محمد بن سعيد ثنا المنذر بن محمدثنا ابی ثنا ابی ثنا محمد بن الحسين بن علی بن الحسين ثنی ابن عن ابيہ عن جدہ عن علی رضی اللّٰہ تعالٰی قال كان صلی اللہ عليہ وسلم اذا ارتحل حين تزول الشمس جمع بين الظھر وعجل العصر، ثم جمع بينھما ۵؎۔

 

حديث بيان کی ہم سے احمد  ابن محمد  ابن سعيد نے منذر  ابن محمد سے، اس نے اپنے باپ سے، اس نے اپنے باپ سے، اس نے محمد سے، اس نے اپنے والد حسين سے، اس نے اپنے والد علٰی ابن امام حسين رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، انہوں نے اپنے دادا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم اگر زوال کے وقت روانگی اختيار فرماتے تھے تو ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے اور اگر روانگی ميں جلدی  ہوتی  تھی تو ظہر کو مؤخر کرکے اور  عصر کو مقدم کرکے دونوں کو يکجا  پڑھ ليتے تھے۔ (ت)

 

 (۵؎ سنن الدارقطنی ،  باب الجمع بين الصلٰوتين فی السفر    مطبوعہ نشہ السنّۃ ملتان   ۱/۲۹۱)

 

اس ميں سو اعترت طاہرہ کے کوئی راوی ثقہ معروف نہيں۔

 

عمدۃ القاری ميں فرمايا:لايصح اسنادہ، شيخ الدارقطنی ھو ابوالعباس بن عقدۃ، احدالحفاظ،لکنہ شيعی اس کا اسناد صحيح نہيں ہے کيونکہ دارقطنی کا استاد (احمد) ابوالعباس ابن عقدہ ہے، جو اگرچہ حفّاظِ حديث ميں سے ہے ليکن شيعہ ہے۔

 

 (قلت: بل نص فی موضع اخر من الميزان، فيہ وفی ابن خراش، ان فيھما رفضا وبدعۃ۔اھ ) وقد تکلم فيہ الدارقطنی وحمزۃ السھمی وغيرھما۔ وشيخہ المنذر بن محمد بن المنذر، ليس بالقوی ايضا قالہ الدارقطنی ايضا۔ وابوہ وجدہ يحتاج الٰی معرفتھما ۱؎۔

 

ميں نے کہا: بلکہ ميزان کے ايک اور مقام ميں اس کے اور ابن خراش کے متعلق لکھا ہے کہ ان ميں رفض اور بدعت پائی جاتی ہے۔ خود دارقطنی اور حمزہ سہمی وغيرہ نے بھی اس پر جرح کی ہے، اور اس کا استاد منذر ابن محمد بن منذر بھی زيادہ قوی نہيں ہے۔ يہ بات بھی دارقطنی نے کہی ہے۔ اور منذر کا باپ اور دادا دونوں غير معروف ہيں۔ (ت)

 

 (۱؎ عمدۃ القاری    باب الجمع فی السفر بين المغرب والعشاء    مطبوعہ الطباعۃ الخيريۃ دمشق    ۷/۱۴۹)

  

اقول: وہ صحيح ہی سہی تو انصافاً صاف صاف ہمارے مفيد وموافق ہے اُس کا صريح مفاد يہ کہ سُورج ڈھلتے ہی کُوچ ہوتا توظہرين جمع فرماتے پُرظاہر کہ زوال ہوتے ہی کوچ اور جمع تقديم کا جمع محال۔ کيا پيش از زوال ظہر وعصر پڑھ ليتے لاجرم وہی جمع مرادجس کاصاف بيان خود آگےموجود کہ ظہر بدير اور عصرجلد پڑھتے، يہی جمع صوری ہےکمالایخفی۔

افاضہ رابعہ: حديث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ اِن شاء اللہ العزيز جمع تاخير ميں آتی ہے اُس ميں معروف ومحفوظ ومروی جماہير ائمہ ثقات وعدول مذکور صحيح بخاری وصحيح مسلم وسُنن ابی داؤد وسنن نسائی ومصنّف طحاوی وغيرہا عامہ دوا دين اسلام صرف اس قدر ہے کہ حضور پُرنور صلوات اللہ تعالٰیوسلامہ عليہ اگر دوپہر ڈھلنے سے پہلے کُوچ فرماتے ظہر ميں عصر تک تاخير کرکے ساتھ ساتھ پڑھتے اور اگر منزل ہی پر وقت ظہر آجاتا صلی الظھر ثم رکب ۲؎ ظہر پڑھ کر سوار ہوجاتے جس سے بحکم مقابلہ وسکوت فی معرض البيان صاف ظاہر کہ تنہا ظہر پڑھتے عصر اس کے ساتھ نہ ملاتے ۔

 

 (۲؎ صحيح بخاری باب اذا ارتحل بعد مازاغت الشمس     قديمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۵۰ )

 

ولہذا نافيان جمع تقديم نے اُس سے تمسک کيا کمافی عمدۃ القاری وارشاد الساری وغيرھما مگر بعض روايات غريبہ ميں آيا کہ ظہر وعصر دونوں پڑھ کر سوار ہوتے۔ حاکم نے اربعين ميں

 

بطريق ابی العباس محمد بن يعقوب عن محمد بن اسحٰق الصاغانی عن حسان بن عبداللّٰہ عن المفضل بن فضالۃ عن عقيل عن ابن شھاب عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ روايت کیفان زاغت الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر والعصر ثم رکب ۱؎۔

 

ابوالعباس محمد ابن يعقوب نے محمد بن اسحٰق صاغانی سے، اس نے حسان ابن عبداللہ سے، اس نے مفضل ابن فضالہ سے، اس نے عقيل سے، اس نے ابن شہاب سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کی کہ اگر روانگی سے پہلے زوال ہوجاتا تو ظہر وعصر پڑھ کر سوار ہُواکرتے تھے۔ (ت)

 

 (۱؎ اربعين للحاکم)

 

جعفر فريابی نے بتفرد خود اسحٰق بن راہويہ سے روايت کی: عن شبابۃ بن سوار عن الليث عن عقيل عن الزھری عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، قال: کان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ  وسلم اذاکان فی سفر فزالت الشمس صلی الظھر والعصر جميعا ثم ارتحل ۲؎۔

 

شبابہ ابن سواد سے، اس نے ليث سے، اس نے عقيل سے، اس نے زہری سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم جب سفر ميں ہوتے تھے اور زوال ہوجاتا تھا، تو ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے پھر روانہ ہوتے تھے۔ (ت)

 

 (۲؎ ميزان الاعتدال بحوالہ جعفر فريابی ترجمہ (۷۳۳ دارالمعرفۃ بيروت     ۱/۸۳)

 

اوسط طبرانی ميں ہے: حدثنا محمد بن ابرھيم بن نصر بن شبيب الاصبھانی قال ثناھارون بن عبداللّٰہ الحمال ثنا يعقوب بن محمد الزھری ثنا محمد بن سعد ان ثنا ابن عجلان عن عبداللّٰہ بن الفضل عن انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم کان اذاکان فی سفر فزاغت الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر والعصر جميعا ۳؎۔

 

حديث بيان کی ہم سے محمد ابن ابراہيم ابن نصر بن سندر اصبہانی نے ہارون ابن عبداللہ حمال سے، اس نے يعقوب ابن محمد زہری سے، اس نے محمد ابن سوان سے، اس نے ابن عجلان سے، اس نے عبداللہ بن فضل سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم جب سفر ميں ہوتے تھے تو اگر روانگی سے پہلے سورج ڈھل جاتا تھا تو ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے۔ (ت)

 

(۳؎ معجم الاوسط    حديث ۷۵۴۸ مکتب المعارف رياض    ۸/۲۷۱۔۲۷۲)

 

روايت اسحٰق پر امام ابوداؤد نے انکار کيا اسمٰعيل نے اُسے معلول بتايا کمافی العمدۃ وغيرھا۔

 

اقول: الامام اسحٰق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ، لاکلام فی جلالۃ قدرہ وعظمۃ فخرہ، لکن نص الامام ابوداؤد انہ کان تغير قبل موتہ باشھر، قال: وسمعت منہ فی تلک الايام فرميت بہ۱؎ ۔ کمافی التذھيب ۔

 

ميں کہتا ہوں: امام اسحٰق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قدر  اور  عظمت  افتخار ميں کوئی شک نہيں ہے ليکن امام ابوداؤد نے تصريح کی ہے کہ وفات سےچند ماہ پہلے اس کے حافظے ميں تغيير آگيا تھا۔ ابوداؤد نے کہا کہ انہی دنوں ميں مَيں نے اُس سے کچھ سنا تھا اور اس کی وجہ سے مجھے مطعون کياگيا۔ جيسا کہ تذہيب ميں ہے۔

 

 (۱؎ ميزان الاعتدال بحوالہ ابوداؤد (ترجمہ اسحق بن راہويہ     مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت    ۱/۱۸۳ )

 

وذکر الحافظ المزی حديثہ الذی زاد فيہ علی اصحاب سفيٰن، فقال: اسحٰق اختلط فی اٰخر عمرہ ۲؎۔ کمافی الميزان۔ اور حافط مزی نے اس کی وہ حديث ذکر کرنے کے بعد، جس ميں اس نے اصحاب سفيٰن کے الفاظ پر اضافہ کيا ہے، کہا ہے کہ اسحٰق کے بارے ميں کہا گيا ہے کہ آخر عمر ميں اس کو اختلاط ہوگيا تھا، جيسا کہ ميزان ميں ہے۔

 

 (۲؎  ميزان الاعتدال بحوالہ ابوداؤد (ترجمہ اسحق بن راہويہ     مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت    ۱/۱۸۳ )

 

ولاشک انہ رحمہ اللّٰہ تعالٰی کان کثير التحديث عن ظھر قلبہ، املی المسند کلہ من حفظہ ۳؎۔ کمافی التذھيب، قال: قال احمد بن اسحٰق الضبعی: سمعت ابرھيم بن ابی طالب، يقول: فذکرہ۔ فلاغروان يعتريہ خطؤ فی حديث  او حديثين، ومن المعصوم عن مثل ذلک فی سعۃ ماروی وکثرتہ؟

 

اس ميں تو کوئی شک نہيں کہ اسحٰق (رحمہ اللہ تعالیٰ) بےشتر حديثيں محض ياد کے سہارے بيان کيا کرتے تھے۔ ايک مرتبہ انہوں نے پُورا مسند اپنی ياد سے املا کراديا تھا، جيسا کہ تذہيب ميں ہے کہ احمد بن اسحٰق ضبعی نے کہا ہے کہ ميں نے ابراہيم بن ابی طالب کو يہ بات کہتے سنا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے وہی (مسند کے املاء والی بات) ذکر کی ہے۔ تو اس صورت ميں اگر اسحٰق سے ايک يا دو حديثوں ميں خطا واقع ہوجائے تو کوئی تعجب کی بات نہيں ہے۔ اس قدر وسےع اور کثير روايات ميں اتنی تھوڑی سی خطا سے اور کون معصوم ہے؟ (ت)

 

 (۳؎ خلاصہ تذہیب تذہیب المکمال    ترجمہ اسحٰق بن راہویہ    مطبوعہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل    ۱/۶۹)

 

لاجرم امام ذہبی شافعی نے اس حدیث کو منکر کہا، اور امام اسحٰق کی لغزش حفظ واشتباہ سے گنا۔ حيث قال: وکذا حديث رواہ جعفر الفريابی ثنا اسحٰق بن راھويہ ثنا شبابۃ عن الليث عن عقيل عن ابی شھاب عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی عليہ وسلم اذاکان فی سفر فزالت الشمس صلی الظھر والعصر ثم ارتحل۔ فھذا علی نبل رواتہ منکر، فقد رواہ مسلم عن الناقد عن شبابۃ (وذکر لفظہ) تابعہ الزعفرانی عن شبابۃ، واخرجہ خ م من حديث عقيل عن ابن شھاب عن انس (وذکر لفظہ، ای وليس فی شیئ منھا: والعصر۔ قال:) ولاريب ان اسحٰق کان يحدث الناس من حفظہ، فلعلہ اشتبہ عليہ ۱؎۔

 

چنانچہ اس نے کہا ہے کہ اسی طرح وہ حديث جسے روايت کيا ہے فريابی نے اسحٰق ابن راہويہ سے، اس نے شبابہ سے، اس نے ليث سے، اس نے عقيل سے، اس نے ابن شہاب سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب سفر ميں ہوتے تھے اور سورج ڈھل جاتا تھا تو ظہر وعصر پڑھتے تھے پھر روانہ ہوتے تھے۔ تو يہ حديث راويوں کی عمدگی کے باوجود منکر ہے کيونکہ اس کو مسلم نے ناقد سے، اس نے شبابہ سے روايت کيا ہے (يہاں ذہبی نے اس کے الفاظ ذکر کيے ہيں) اسی طرح زعفرانی نے بھی اس کو شبابہ سے روايت کيا ہے اور مسلم نے بھی اس کو عقيل سے، اس نے ابن شہاب سے، اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کيا ہے (يہاں ذہبی نے مسلم کے الفاظ ذکر کيے ہيں، مقصد يہ ہے کہ بخاری ومسلم کی کسی روايت ميں عصر کا ذکر نہيں ہے (صرف ظہر کا ذکر ہے۔ ذہبی نے کہا) اس ميں کوئی شک نہيں کہ اسحٰق لوگوں کے سامنے اپنی ياد سے حديثيں بيان کيا کرتا تھا، ہوسکتا ہے کہ اس کو اشتباہ واقع ہُوا ہو۔ (ت)

 

 (۱؎ ميزان الاعتدال    ترجمہ اسحٰق بن راہويہ ۷۳۳    مطبوعہ دارالمعرفت بيروت    ۱/۱۸۳)

 

اس کے بعد ہميں شبابہ بن سوار ميں کلام کی حاجت نہيں کہ وہ اگرچہ رجال جماعہ وموثقين ابنائے معين وسعد وابی شيبہ سے ہے مگر مبتدع مکلّب تھا امام احمد نے اُسے ترک کيا، امام ابوحاتم رازی نے درجہ حجيت سے ساقط بتايا۔ تہذيب التہذيب امام ابنِ حجر عسقلانی ميں ہے:

 

شبابۃ بن سوار الفزاری، قال احمد بن حنبل: ترکتہ، لم اکتب عنہ للارجا۔ قيل لہ: يا اباعبداللّٰہ!وابومعويۃ، قال: شبابۃ کان داعيۃ۔ وقال زکريا الساجی: صدوق، يدعو الی الارجا، کان احمد يحمل عليہ ۲؎۔

 

شبابہ ابن سوار فزاری احمد بن حنبل نے کہا کہ ميں نے اس کو چھوڑديا اور اس سے حديثيں نہيں لکھيں کيونکہ وہ ارجاء کا عقيدہ رکھتا تھا۔ کسی نے کہا کہ (ارجاء کا عقيدہ تو) ابومعاويہ بھی رکھتا ہے۔ احمد نے کہا (ہاں، مگر) شبابہ ارجاء کا داعی تھا۔ زکريا ساجی نے کہا کہ سچّا ہے، ارجاء کا داعی ہے۔ احمد اس پر تنقيد کيا کرتے تھے۔ ت)

 

 (۲؎ تہذيب التہذيب عسقلانی    ترجمہ شبابہ بن سوار الفزاری    مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن         ۴/۳۰۱)

 

اُسی ميں ہے: قال ابوحاتم: صدوق، يکتب حديث ولايحتج بہ ۳؎ (ابوحاتم نے کہا ہےکہ سچّا ہے، اس کی حديث لکھی جائے مگر اس کو حجت نہ بنايا جائے۔ ت)

 

 (۳؎  تہذيب التہذيب عسقلانی    ترجمہ شبابہ بن سوار الفزاری    مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن ۴/۳۰۱)

 

اُسی ميں ہے: قال ابوبکر الاثرم عن احمد بن حنبل: کان يدعو الی الارجاء، وحکی عنہ قول اخبث من ھذہ الاقاويل، قال: اذا قال فقد عمل بجارحتہ۔ وھذا قول خبيث، ماسمعت احدا يقولہ ۱؎۔

  

ابوبکر اثرم نے احمد بن حنبل سے نقل کيا ہے کہ اسحٰق عقيدہ ارجاء کی دعوت ديتا تھا اور اس سے ايک ايسا قول بھی منقول ہے جو ان تمام باتوں سے زيادہ خبيث ہے۔ اس نے کہا کہ جب (اللہ تعالٰی) کوئی بات کہتا ہے تو يقينا اپنے ايک عضو (زبان) کو کام ميں لاتا ہے۔ يہ ايک خبيث قول ہے، ميں نے کسی کو يہ بات کہتے نہيں سُنا۔ (ت)

 

 (۱؎تہذيب التہذيب عسقلانی    ترجمہ شبابہ سوار الفزاری مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن    ۴/۳۰۲)

 

اُسی ميں ہے:قال ابوبکر محمد بن ابی الثلج، حدثنی ابوعلی بن سختی المدائنی، حدثنی رجل معروف من اھل المدائن، قال: رأيت فی المنام رجلا نظيف الثوب حسن الھيأۃ، فقال لی: من اين انت؟ قلت: من اھل المدائن، قال: من  اھل الجانب الذی فيہ شبابۃ؟ قلت: نعم! قال فانی ادعو اللّٰہ، فامن علی دعائی: اللھم! ان کان شبابۃ يبغض اھل نبيک فاضربہ الساعۃ  بفالج قال: فانتبھت، وجئت الی المدائن  وقت الظھر، واذا  الناس فی ھرج، فقلت، ماللناس؟ قالوا: فلج شبابۃ فی السحر،  ومات الساعۃ ۲؎۔

 

ابوبکر محمد بن ابی الثلج نے کہا کہ مجھے ابوعلی ابن سختی مدائنی نے بتایا کہ مجھ سے مدائن کے ايک مشہور آدمی نے بيان کيا کہ ميں نے خواب ميں ايک خوش لباس اور خوش شکل شخص کو ديکھا اس نے مجھ سے پُوچھا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ ميں نے کہا ميں ا ہلِ مدائن ميں سے ہوں۔ اس نے پوچھا مدائن کے اُس حصے ميں رہتے ہو جس ميں ابوشبابہ  رہتا ہے؟ ميں نے کہا ہاں، اس نے کہا کہ پھر ميں ايک دعا کرتا ہوں اور تم آمين کہو۔ (اس نے يوں دُعاکی:) اے اللہ! اگر شبابہ تيرے نبی کے اہل سے بغض رکھتا ہے تو اس کو اسی وقت فالج ميں مبتلا کردے۔ اس آدمی نے کہا کہ يہ ديکھ کر ميں جاگ گيا اور ظہر کے وقت مدائن (کے اس حصّے ميں جہاں شبابہ رہتا تھا) گيا تو ديکھا کہ لوگوں ميں اضطراب پايا جاتا ہے، ميں نے پوچھا کہ لوگ کيوں پريشان ہيں؟ انہوں نے جواب ديا کہ آج سحر کے وقت شبابہ پر فالج گرا اور ابھی ابھی مرگيا ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ تہذيب التہذيب عسقلانی    ترجمہ شبابہ سوار الفزاری مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن    ۴/۳۰۲)

 

روايت حاکم وطبرانی کو خود مُلّاجی بھی ضعيف مان چکے، فرماتے ہيں ف ۱: مؤلف نے دلائل ميں وہ حديثيں بيان کی ہيں جن کی طرف ہم کو کچھ التفات نہيں يعنی ايک روايت ابوداؤد جس کے راوی ميں ضعف تھا ايک روايت معجم اوسط طبرانی ايک روايت اربعين حاکم نقل کرکے اُن پر طعن کرديا اور جو روايتيں صحيحہ متداول تھيں نقل کرکے اُن کا جواب نہيں ديا يہ کيا دينداری ہے اور کيا مردانگی کہ بخاری ومسلم کو چھوڑ کر اربعين حاکم اور اوسط طبرانی کو جاپکڑا اور اُن سے دو۲ روايتيں ضعيف نقل کرکے اُن کا جواب ديا۔

 

 ۱ معيار الحق    ص ۳۶۵، ۳۶۶    )

 

لہذا ہميں ان کے باب ميں تفصيل کلام کی حاجت نہ رہی ع : مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تيری

خير يہ تو ملّاجی سے خدا جانے کس مجبوری نے کہلوا چھوڑ مگر ستم۔

 

لطيفہ: اس مافات کی تلافی يہ ہے کہ جب يہ روايتيں ناقابل احتجاج نکل گئيں خود روايت صحيحين ميں لفظ والعصر بڑھاديا، فرماتے ف۲  ہيں روايت کی بخاری اور مسلم نے انس سے (الی قولہ) فان زاغت الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر والعصر ثم رکب۔

 

   ۲ معيارالحق    ص ۳۷۹)

 

اقول: ملّاجی حنفیہ کی مروی تو بحمداللہ آپ نے دیکھ لی اب بعونہٖ تعالٰی اور دیکھئے گا یہاں تک کہ آپ کی سب ہوسوں کی تسکین ہوجائے مگر دینداری  و مردانگی اس کا نام ہوگا کہ مشہور و متداول کتب میں تحریف کےلئے مردانہ پن کا دعوٰی ہے تو صحیحین میں اس عبارت کا نشان دیجئے ایک زمانہ میں آپ کو خبط کفری جاگا تھا کہ زمین کے طبقاتِ زیریں میں حضور پُرنور منزہ عن المثل والنظیر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معاذاللہ چھ مثل موجود ہیں یہ بخاری مسلم شاید  اُنہیں طبقات کی ہوں گی۔

 

ثم اقول: وباللہ التوفیق یہ سب کلام بالائی تھی فرض کرلیجئے کہ یہ روایت صحیحہ بلکہ خود صحیحین  موجود سہی پھر تمھیں کیا نفع اور ہمیں کیا ضرر اُس کا تو اتنا حاصل کہ سورج منزل ہی میں ڈھل جاتا تو ظہر وعصر دونوں سے فارغ ہوکر سوار ہوتے اس سے عصر کا پیش از وقت پڑھ لینا کہاں سے نکلا۔

 

اوّلا :واو مطلق جمع کےلئے ہے نہ معیت وتعقیب کے واسطے، جمیعا بھی اُسی مطلق جمع کی تاکید کرتا ہے جو مفاد واو ہے اُس کا منطوق صریح اجتماع فی الحکم ہے عـہ نہ خواہی نخواہی اجتماع فی الوقت آیہ کریمہ وتوبوا الی اللّٰہ جمیعا ایھا المؤمنون لعلکم تفلحون ۲؂ (اور توبہ کرو اللہ تعالٰی کی طرف تم سب اے اہلِ ایمان! تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ت)

 

 (۱؎القرآن    ۴ ۲/۳۱ )

 

نے یہ ارشاد فرمایا کہ سب مسلمان توبہ کریں حکمِ توبہ سب کو شامل ہو یا یہ فرض کیا کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک وقت ایک ساتھ مل کر معاً توبہ کریں۔

 

عـہ: بیضاوی شریف میں زیر آیہ کریمہ قلنا اھبطوا منھا جمیعا ہے: جمیعا،حال فی اللفظ، تاکید فی المعنی، کانہ قیل: اھبطوا انتم اجمعون؛ ولذلک لایستدعی اجتماعھم علی الھبوط فی زمان واحد کقولک جاؤا جمیعا۔۱؎ اھ ۱۲ منہ رضی جاللّٰہ تعالٰی عنہ (م)۔

''جمیعا'' لفظاً حال ہے، معنیً تاکید ہے، گویا کہ کہا گیا، تم سب اترو۔ اسی لئے اس کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ سب ایک ہی وقت میں اتریں، جیسا کہ تم کہتے ہو کہ سب آئے اھ ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ت)

 

 (۲؎ انوار التنزیل علی ہامش القرآن الکریم     مصطفی البابی مصر    ص ۱۸)

 

ثانیاً :اجتماع فی الوقت کہ بذریعہ فردیتِ اجتماع فی الحکم مفاد ہویا خود اس کے لئے بھی وضع مانو اُس وقت سے وقتِ نماز مراد نہیں ہوسکتا کہ وضع الفاظ تعیین اوقات نماز سے مقدم ہے لفظ جمیعا اپنے معنی لغوی پر اہل جاہلیت بھی بولتے تھے جنہیں نماز سے خبر تھی نہ اُس کے وقت سے، تو لاجرم اس تقدیر پر اس کا مفاد اتحاد زمانہ وقوع ومقارنت فی الصدور ہوگا وہ دو۲ نماز فرض میں ناممکن اور اتصال بروجہ تعقیب اس معنی جمیعا کا فرد نہیں بلکہ صریح مباین، لاجرم پھر اُسی معنی واضح وروشن واقل متیقن یعنی اجتماع فی الحکم کی طرف رجوع لازم کہ تاصحت حقیقت مجاز کی طرف مصیر  نامجاز خصوصاً مستدل کو۔

 

ثالثاً :تعقیب ہی سہی پھر جمع صوری کی نفی کہاں سے ہوئی صلّی جمیعا یوں بھی صادق اور ادعائے تقدیم باطل وزاہق ھکذا ینبغی  التحقیق  واللّٰہ  ولی التوفیق بحمداللہ  آفتاب کی طرح روشن ہُوا کہ جمع تقدیم پر اصلاً کوئی دلیل نہیں کسی حدیث صحیح میں اس کی بُو بھی نہیں، ملّاجی کا قطعی ومفسر کہہ دینا خدا جانے کس نشہ کی ترنگ تھی، سبحٰن اللہ! کیا ایسی ہی ہوسوں  پر توقیت منصوص قرآن ونصوص اور پیش ازوقت نماز کے بطلان پر اجماعِ اُمت ترک کردئی جائیں گے اور خدا ورسول جل جلالہ، وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے باندھے ہُوئے اوقات اُلٹ پُلٹ ہوسکیں گے، یہ اچھا عمل بالحدیث ہے کہ اپنی خیال بندیوں  پر  رگ دعوٰی بلند اور قرآن عظیم وحدیث واجماع سب سے آنکھیں بند ولاحول ولاقوۃ الاباللّٰہ العلی العظیم وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سید المرسلین سیدنا ومولانا محمد واٰلہٖ وصحبہٖ اجمعین۔

 

فصل سوم تضعیف دلائل جمع تاخیر

الحمداللہ جمع تقدیم کے جواب سے فراغِ تام ملا، اب جمع تاخیر کی طرف چلیے۔ ملّاجی بہزار کاوش وکاہش یہاں بھی دو۲ ہی حدیثیں چھانٹ پائے جن کے الفاظ متعددہ کے ذکر سے شاید عوام کو یہ وہم دلانا ہوکہ اتنی حدیثیں ہیں، یہ دو۲ حدیثیں وہی احادیث ابن عمرو انس رضی اللہ تعالٰی عنہم مذکورہ صدر فصل اول وافاضہ ثالثہ ہیں جن کے بعض طرق والفاظ حدیث اول جمع صوری وحدیث اول ودوم حدیث مجملہ میں گزرے ان کے بعض الفاظِ بعض طرق کوملّاجی جمع حقیقی میں نص صریح سمجھ کر لائے اور بزعمِ خود بہت چمک چمک کر دعوے فرمائے ادھر کے متکلمین نے اکثر افادات علمائے سابقین اور بعض اپنے سوانح جدیدہ سے اُن کے جوابوں میں کلام طویل کیے، فقیر غفرلہ المولی القدیر کا یہ مختصر جواب نقل اقاویل وجمع ماقال وقیل کےلئے نہیں لہذا بعونہٖ تعالٰی وہ افادات تازہ سُنیے کہ فیض مولائے اجل سے قلب عبدِ اذل پر فائض ہُوئے اہلِ نظر اگر مقابلہ کریں جلیل وعظیم فرق پر خود ہی مطلع ہوں گے واللّٰہ یختص برحمتہ من یشاء واللّٰہ ذوالفضل العظیم  (اللہ تعالٰی اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہے مخصوص فرمادے اور اللہ تعالٰی علم وفضل والا ہے۔ ت)

 

اقول وبحول اللّٰہ اصول حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے چالیس سے زیادہ طرق اس وقت پیشِ نظر فقیر ہیں اُن میں نصف سے زائد تو محض مجمل جن میں اٹھارہ کی طرف ہم نے احادیث مجملہ میں اشارہ کیا ر ہے نصف سے کم اُن میں اکثر صاف صاف جمع صوری کی تصریح کررہے ہیں جن میں سے چودہ۱۴ روایات بخاری وابوداؤد ونسائی وغیرہم سے اُوپر مذکور ہُوئے، ہاں بعض میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا بعد غروب شفق جمع کرنا مذکور، ان میں بھی بعض محض موقوف مثل روایت(۱) موطائے امام محمد:

 

اخبرنا مالک عن نافع ان ابن عمر رضی اللّٰہ تعالی عنھما حین جمع بین المغرب والعشاء، سارحتی غاب الشفق ۱؎۔ مالک، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جب مغرب وعشاء کو جمع کیا تھا تو چلتے رہے تھے یہاں تک شفق غائب ہوگئی تھی۔ (ت)

 

 (۱؎ مؤطا امام محمد    باب الجمع بین الصلاتین فی السفر والمطر    مطبوعہ مجتبائی لاہور    ص۱۳۱)

  

اور بعض میں رفع ہے تو بالفاظ اجمال یعنی حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے تصریحاً اسی قدر منقول کہ جمع فرمائی قدر مرفوع میں غیبت شفق پر تنصیص نہیں مثل روایت(۲) بخاری:

 

حدثنا سعید بن ابی مریم اخبرنا محمد بن جعفر قال اخبرنی زید، ھو ابن اسلم، عن ابیہ، قال: کنت مع عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما بطریق مکّۃ، فبلغہ عن صفیۃ بنت ابی عبید شدۃ وجع، فاسرع السیر، حتی اذاکان بعد غروب الشفق، ثم نزل فصلی المغرب والعتمۃ، یجمع بینھما، فقال: انی رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاجدبہ السیر اخر المغرب وجمع بینھما ۱؎۔

 

حدیث بیان کی ہم سے سعید ابن ابی مریم نے، اس کو خبر دی محمد ابن جعفر نے، اس کو زید بن اسلم نے اپنے والدی سے کہ میں مکّہ کے راستے میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے ساتھ تھا تو ان کو صفیہ بنت ابی عبید کے بارے میں اطلاع ملی کہ وہ سخت درد میں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی رفتار تیز کردی یہاں تک کہ شفق غروب ہوگئی۔ اس کے بعد وہ اترے اورمغرب وعشاء کی نماز پڑھی، دونوں کو جمع کیا، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ جب انہیں سفر میں جلدی ہوتی تھی تو مغرب کو مؤخر کرکے دونوں کو جمع کرلیتے تھے۔ (ت)

 

 (۱؎ صحیح للبخاری    باب المسافر اذاجدبہ السیر وتعجل الٰی اہلہ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۳)

 

وروایت(۳) مسلم:حدثنا محمد بن مثنی نایحیی عن عبیداللّٰہ عن نافع ان ابن عمر کان اذاجدبہ السیر جمع بین المغرب والعشاء، بعد ان یغیب الشمس، ویقول: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان اذاجدبہ السیر جمع بین المغرب والعشاء ۲؎۔ ورواہ الطحاوی فقال: حدثنا ابن ابی داؤد ثنا مسدد ثنا یحییی ۳؎ بہ، سنداً ومتنا۔

 

حدیث بیان کی ہم سے محمد ابن مثنٰی نے یحٰیی سے، اس نے عبیداللہ سے، اس نے نافع سے کہ ابن عمر کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو شفق غائب ہونے کے بعد مغرب وعشا کو جمع کرلیتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بھی جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو مغرب وعشاء کو جمع کرلیتے تھے۔ طحاوی نے بھی ابن ابی داؤد سے، اس نے مسدد سے، اس نے یحیٰی سے یہی روایت کی ہے، ایک ہی سند اور متن کے ساتھ۔ (ت)

 

 (۲؎ صحیح لمسلم    باب جواز الجمع بین الصلاتین فی السفر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۵)

(۳؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین الصلاتین کیف ھو        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۲)

 

وروایت(۴) ابی داؤد:حدثنا سلیمٰن بن داود العتکی نا عماد نا ایوب عن نافع ان ابن عمر، استصرخ علی صفیۃ، وھو بمکۃ، فسار حتی غربت الشمس وبدت النجوم، فقال: ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان اذا عجل بہ امر فی سفربین ھاتین الصلاتین،فسار حتی غاب الشفق، فنزل فجمع بینھما ۱؎۔

 

حدیث بیان کی ہم سے سلیمان ابن داؤد عتکی نے عماد سے، اس نے ایوب سے، اس نے نافع سے کہ ابن عمر جب مکّہ میں تھے تو ان کو صفیہ کی شدید بیماری کی اطلاع ملی اور وہ چل پڑے، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے ظاہر ہوگئے، تو کہا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں کسی کام کی جلدی ہوتی تھی تو ان دو۲ نمازوں کو جمع کرلیتے تھے۔ پھر چلتے رہے، یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی تو اُترے اور دونوں کو اکٹھا پڑھا۔ (ت)

 

 (۱؎ سُنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ مجتبائی لاہور        ۱/۱۷۰)

 

ضمیر سار ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی طرف ہے بدلیل روایت طحاوی:حدثنا ابن مرزوق ثنا عازم بن الفضل ثنا حماد بن زید عن ایوب عن نافع ان ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما، استصرخ علی صفیۃ بنت عبید، وھو بمکۃ، فاقبل الی المدینۃ، فسار حتی غربت الشمس وبدت النجوم، وکان رجل ءیصحبہ، یقول: الصلاۃ 'الصلاۃ، وقال لہ سالم: الصلاۃ، فقال: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، کان اذاعجل بہ السیر فی سفر جمع بین ھاتین الصلاتین، وانی ارید ان اجمع بینھما، فسار حتی غاب الشفق، ثم نزل فجمع بینھما ۲؎۔

 

حدیث بیان کی ہم سے ابن مرزوق نے عازم ابن فضل سے، اس نے حماد ابن زید سے، اس نے ایوب سے، اس نے نافع سے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب مکّہ میں تھے تو آپ کو صفیہ بنت ابی عبید کی شدید علالت کی خبر ملی۔ چنانچہ آپ مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے اور مسلسل چلتے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے چمکنے لگے۔ ابن عمر کے ساتھ ایک شخص تھا جو کہہ رہا تھا ''نماز، نماز''۔ سالم نے بھی کہا ''نماز'' (یعنی نماز کا وقت جارہا ہے) تو ابن عمر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو ان دو۲ نمازوں کو اکٹھا پڑھ لیتے تھے اور میں بھی چاہتا ہوں کہ اکٹھّا پڑھ لُوں۔ پھر چلتے رہے، یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی، اس وقت اتر کر دونوں کو اکٹھا پڑھا۔ (ت)

 

 (۲؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۲)

 

ولہذا امامِ اجل ابوجعفر اس حدیث کو روایت کرکے فرماتے ہیں:انما اخبر بذلک من فعل ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما، وذکر عن النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الجمع، ولم یذکر کیف جمع ۳؎۔0

 

اس میں تو صرف ابنِ عمر کا عمل مذکور ہے اور انہوں نے اگرچہ یہ تو بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جمع کیا کرتے تھے مگر یہ ذکر نہیں کیا کہ کیسے جمع کیا کرتے تھے۔ (ت)

 

 (۳؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۲)

 

البتہ غیر صحیحین کی بعض روایات میں فعل یکتف کی طرف اشارہ کرکے رفع ہے وہ یہ ہیں، روایت(۵) ابی داؤد:

حدثنا عبدالملک ابن شعیب ناابن وھب عن اللیث، قال: قال ربیعۃ، یعنی کتب الیہ، حدثنی عبداللّٰہ بن دینار، قال: غابت الشمس، وانا عند عبداللّٰہ بن عمر، فسرنا، فلما رأیناہ قدامسی، قلنا: الصلاۃ، فسار حتی غاب الشفق وتصوبت النجوم، ثمّ انہ نزل فصلی صلاتین جمیعا، ثم قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذاجدبہ السیر صلی صلاتی ھذہ، یقول یجمع بینھما بعد لیل ۱؎۔

 

حدیث بیان کی ہم سے عبدالملک ابن شعیب نے، اس نے ابن وہب سے، اس نے لیث سے، اس نے کہا کہ ربیعہ، نے میری طرف لکھا کہ عبداللہ ابن دینار نے مجھے بتایا ہے کہ میں عبداللہ ابن عمر کے ساتھ تھا کہ سُورج ڈوب گیا تو ہم چلتے رہے یہاں تک کہ جب شام ہوگئی تو ہم نے کہا ''نماز''۔ مگر وہ چلتے رہے یہاں تک کہ شفق غائب ہوئی اور تارے نمایاں ہوگئے، اس وقت آپ اُترے اور دونوں نمازیں اکٹھی پڑھیں، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں جلدی ہوتی تھی تو جس طرح میں نے نماز پڑھی ہے اسی طرح آپ بھی پڑھا کرتے تھے، یعنی رات ہونے کے بعد اکٹھا پڑھتے تھے۔ (ت)

 

 (۱؎ سُنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین        مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۷۲)

 

روایت(۶) ترمذی:حدثنا ھناد نا عبدۃ عبیداللّٰہ  بن عمر عن  نافع عن  ابن عمر رضی  اللّٰہ تعالٰی عنھما،انہ استغیث علی بعض  اھلہ فجدبہ السیر ،واٰخر المغرب حتی غاب الشفق، ثم نزل فجمع بینھما، ثم اخبرھم: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان یفعل ذلک اذاجدبہ السیر۔ قال ابوعیسی: ھذا حدیث حسن صحیح ۲؎۔

 

حدیث بیان کی ہم سے ہناد نے عبدۃ سے، اس نے عبیداللہ بن عمر سے، اس نے نافع سے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کو اپنے اہل خانہ میں سے کسی کی سخت بیماری کی اطلاع ملی تو تیزی سے روانہ ہُوئے اور مغرب کو اتنا مؤخر کیا کہ شفق ڈوب گئی، پھر دونوں کو ملاکر پڑھا، بعد میں ساتھیوں کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو اسی طرح کرتے تھے۔ ابوعیسٰی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ امین کمپنی دہلی    ۱/۷۲)

 

کہ بے قصد مراجعت عدّت بڑھانے کے لئے رجعت نہ کرو،

 

وقال تعالٰی : فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوفارقوھن بمعروف ۱؎۔ جب طلاق والیاں اپنی عدت کو پہنچیں تو انہیں بھلائی کے ساتھ روک لو یا بھلائی کے ساتھ جُدا کردو۔ (ت)

 

 (۱؎ القرآن    ۶۵/۲)

 

ظاہر ہے کہ عورت جب عدّت کو پہنچ گئی نکاح سے نکل گئی اب رجعت کا کیا محل، اور اُسے روکنے چھوڑنے کا کیا اختیار، تو بالیقین قربِ وقت کو وقت سے تعبیر فرمایا ہے یعنی جب عدت کے قریب پہنچے اُس وقت تک تمہیں رجعت وترک دونوں کا اختیار ہے، یہ مثالیں تو آیاتِ قرآنیہ سے ہوئیں جنہیں امام طحاوی وغیرہ علماء مسئلہ وقتِ ظہر اور نیز اس مسئلہ میں افادہ فرماچکے۔ فقیر غفرلہ المولی القدیر احادیث سے بھی مثالیں اور علمائے قائلین بالجمع سے بھی اس معنی ومحاورہ کی تصریحیں ذکر کرے۔ فاقول وباللہ التوفیق:

حدیث ۱: جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے صبح اسرا بعد فرضیت نماز  اوقاتِ نماز معین کرنے اور اُن کا اوّل آخر بتانے کےلئے دو۲ روز حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی امامت کی، پہلے دن ظہر سے فجر تک پانچوں نمازیں اوّل وقت پڑھیں اور دوسری دن ہر نماز آخر وقت، اس کے بعد گزارش کی: الوقت مابین ھذین الوقتین ۲ ؎ ۔ وقت ان دونوں وقتوں کے بیچ میں ہے۔ (ت)

 

 (۲؂ سُنن ابی داؤد    کتاب الصّلٰوۃ        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۵۶)

 

اس حدیث میں ابوداؤد وترمذی وشافعی وطحاوی وابن حبان وحاکم کے یہاں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 

صلی بی العصر حین کان ظلہ مثلہ فلما کان الغد صلی بی الظھر حین کان ظلہ مثلہ ۳؎۔ میرے ساتھ عصر کی نماز پڑھی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا، جب دُوسرا دن ہُوا تو ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جبکہ سایہ ہر چیز کا اس کے برابر تھا۔ (ت)

 

 (۳؎ سُنن ابی داؤد    کتاب الصّلٰوۃ        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۵۶)

 

ترمذی کے الفاظ یوں ہیں: صلی المرۃ الثانیۃ، الظھر، حین کان ظل کل شیئ مثلہ، لوقت العصر بالامس ۴؎۔ دوسری مرتبہ ظہر کی نماز تب پڑھی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا یعنی گزشتہ کل جس وقت عصر پڑھی تھی۔ (ت)

 

 (۴؎ جامع الترمذی    باب ماجاء فی مواقیت الصلٰوۃ     امین کمپنی دہلی    ۱/۲۱)

  

شافعی کے لفظ یہ ہیں : ثم صلی المرۃ الاخری، الظھر، حین کان کل شیئ قدرظلہ، قدر العصر بالامس ۱؎۔ پھر دوسری مرتبہ نماز پڑھی ظہر کی، جب ہر چیز اپنے سائے کے ساتھ برابر تھی یعنی گزشتہ کل جس وقت عصر پڑھی تھی۔ (ت)

 

(۱؎ الاُمّ للشافعی        جماع مواقیت الصلٰوۃ    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت        ۱/۷۱)

 

حدیث ۲:نسائی وطحاوی وحاکم وبزار نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ھذا جبریل، جاء کم یعلمکم دینکم۔ وفیہ، ثم صلی العصر حین رأی الظل مثلہ، ثم جاء ہ الغد، ثم صلی بہ الظھر حین کان الظل مثلہ ۲؎۔ یہ جبریل ہیں، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے ہیں۔ اس روایت میں ہے کہ پھر عصر کی نماز پڑھی، جب دیکھا کہ سایہ ان کے برابر ہے۔ پھر دوسرے دن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے اور ظہر کی نماز پڑھی، جبکہ سایہ ان کے برابر تھا۔ (ت)

 

  (۲؎ سنن النسائی        آخر وقت الظہر    مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ، لاہور        ۱/۵۹)

 

بزار کے لفظ یوں ہیں :

جاء نی، فصلی بی العصر حین کان فیئی مثلی، ثم جاء نی من الغد، فصلی بی الظھر حین کان فیئی مثلی ۳؎۔ جبریل میرے پاس آئے اور مجھے عصر کی نماز پڑھائی جبکہ میرا سایہ میرے برابر تھا، پھر دوسرے دن آئے اور ظہر کی نماز پڑھائی جبکہ میرا سایہ میرے برابر تھا۔ (ت)

 

 (۳؎ کشف الاستار عن زوائد البزّار باب ای حین یصلی    مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت لبنان    ۱/۱۸۷)

 

حدیث ۳:نیز نسائی وامام احمد واسحٰق بن راہویہ وابن حبان وحاکم جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: ان جبریل اتی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، حین کان ظل الرجل مثل شخصہ فصلی العصر، ثم اتاہ فی الیوم الثانی حین کان ظل الرجل مثل شخصہ فصلی الظھر ۱؎۔

 

جبریل نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے جبکہ ہر شخص کا سایہ اس کے قد جتنا ہوتا ہے اور عصر کی نماز نہ پڑھی، پھر دوسرے دن آئے جبکہ ہر شخص کا سایہ اس کے قد جتنا ہوتا ہے اور ظہرکی نماز پڑھی۔ (ت)

 

 (۱؎ سنن النسائی     آخر وقت العصر    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ۱/۶۰)

 

حدیث ۴:امام اسحٰق بن راہویہ اپنی مسند میں حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بطریق حدثنا بشر بن عمرو النھرانی ثنی مسلمۃ بن بلال ثنا یحیٰی بن سعید ثنی ابوبکر بن عمرو بن حزم عن ابی مسعود الانصاری ۲؎ او ر بیہقی کتاب المعرفۃ میں بطریق ایوب بن عتبۃ ثنا ابوبکر بن عمروبن حزم عن عروہ بن الزبیر عن ابن ابی مسعود عن ابیہ ۳؎ راوی اور یہ لفظ حدیث اسحٰق ہیں:

 

قال: جاء جبریل الی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، فقال: قم، فصل! وذلک لدلوک الشمس حین مالت، فقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فصلی الظھر اربعا، ثم اتاہ حین کان ظلہ مثلہ، فقال: قم، فصل! فقام فصلی العصر اربعا، ثم اتاہ من الغد حین کان ظلہ مثلہ، فقال لہ: قم فصل! فقام فصلی الظھر اربعا ۴؎۔

 

کہا: جبریل نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز پڑھئے! اور یہ سُورج ڈھلنے کا وقت تھا، جب وہ ایک طرف جھُک گیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اٹھ کر ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں۔ پھر دوبارہ آئے جب اُن کا سایہ ان کے برابر تھا اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز پڑھئے! تو آپ نے اٹھ کر عصر کی چار رکعتیں پڑھیں۔ پھر دوسرے دن آئے، جب ان کا سایہ ان کے برابر تھا اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز پڑھئے، تو آپ نے اُٹھ کر ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں۔ (ت)

 

)۲؎ مسند ابن اسحاق) 

(۳؎ کتاب المعرفۃ)

(۴؎ مسند ابن اسحاق)

 

حدیث ۵:ابن راہویہ مسند میں عبدالرزاق سے اور عبدالرزاق مصنف میں بطریق اخبرنا معمر عن عبداللّٰہ بن ابی بکر بن محمد بن عمروبن حزم عن ابیہ عن جدّہ ۵؎ عمروبن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: قال: جاء جبریل، فصلی بالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، وصلی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بالناس، حین زالت الشمس، الظھر، ثم صلی العصر حین کان ظلہ مثلہ، قال: ثم جاء جبریل من الغد، فصلی الظھر بالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، وصلی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بالناس، الظھر، حین کان ظلہ مثلہ ۱؎۔

  

کہا: جبریل آئے اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ظہر کی نماز پڑھائی اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لوگوں کو نمازپڑھائی جب سورج کا زوال ہوگیا تھا، پھر عصر پڑھی جب ان کا سایہ ان کے برابر تھا۔ راوی نے کہا: پھر دوسرے دن جبریل آئے اور انہوں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی جب ان کا سایہ ان کے برابر ہوگیا تھا۔ (ت)

 

 (۵؎ المصنف لعبد الرزاق    باب المواقیت    مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت    ۱/۵۳۴)

(۱؎ المصنف لعبدالرزاق    باب المویقیت    مطبوعہ المکتب اسلامی بیروت        ۱/۴۳۵)

 

حدیث ۶:دارقطنی سنن اور طبرانی معجم کبیر اور ابن عبدالبر تمہید میں بطریق ایوب بن عتبۃ عن ابی بکر بن حزن عن عروۃ بن الزبیر حضرت ابو مسعود انصاری وبشیر بن ابی مسعود دونوں صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:

 

ان جبریل جاء الی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حین دلکت الشمس، فقال: یامحمد! صل الظھر، فصلی؛ ثم جاء حین کان ظل کل شیئ مثلہ، فقال: یامحمد! صل العصر، فصلی، ثم جاء ہ الغد حین کان ظل کل شیئ مثلہ، فقال: صلی الظھر۔ الحدیث ۲؎۔

 

جبریل، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے جب سورج ڈھل چکا تھا اور کہا: یامحمد! ظہر کی نماز پڑھئے! تو آپ نے ظہر پڑھی۔ پھر دوبارہ آئے جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا اور کہا: یا محمد! عصر کی نماز پڑھئے! تو آپ نے عصر پڑھی۔ پھر دوسرے دن آئے جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا اور کہا: ظہر پڑھئے! الحدیث۔ (ت)

 

 (۲؎ المعجم الکبیر للطبرانی    مسند ابومسعود انصاری    حدیث ۷۱۸    مطبوعہ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۸/۲۶۰(

 

والکل مختصر ان سب حدیثوں میں کل کی عصر کی نسبت یہ ہے کہ جب سایہ ایک مثل ہوا نماز پڑھائی اور بعینہٖ یہی لفظ آج کی ظہر میں ہیں کہ جب سایہ ایک مثل ہُوا پڑھائی اور روایت ترمذی تو صاف صاف ہے کہ آج کی ظہر اُس وقت پڑھی جس وقت کل عصر پڑھی تھی حالانکہ مقصود اوقات کی تمیز اور ہر نماز کا اول وآخر وقت میں جداجدا بنانا ہے لاجرم امام ابوجعفر وغیرہ نے ظہر امروزہ میں ان لفظوں کے یہی معنی لیے کہ جب سایہ ایک مثل کے قریب آیا پڑھائی،

 

معانی الآثار میں فرمایا: احتمل ان یکون ذلک علی قرب ان یصیر ظل کل شیئ مثلہ، وھذا جائز فی اللغۃ، قال عزوجل، فذکر الایۃ، وشرح المراد، وافاد واجاد ۱؎۔

 

احتمال ہے کہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھی ہو جب ہر چیزکا سایہ اس کے برابر ہونے کے قریب ہو۔ اور یہ لغت کے اعتبار سے جائز ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ یہاں طحاوی نے آیت ذکر کی (یعنی فاذا بلغن اجلھن) اور مراد کی تشریح کی اور مفید وعمدہ گفتگو کی۔ (ت)

 

 (۱؎ شرح معانی الاثار    باب مواقیت الصلٰوۃ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی    ۱/۱۰۳(

 

نیز اسی حدیث میں ارشادِ اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہے : فانہ لایؤذن حتی یطلع الفجر ۵؎۔

 

ابنِ اُمّ أ مکتوم اذان نہیں دیتے یہاں تک کہ فجر طلوع کرے۔

 

 (۵؎ صحیح البخاری باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لایمنعکم من سحورکم اذان بلال مطبوعہ قدیمی کتب خانہ

کراچی ۱/۲۵۷)

 

ارشاد شافعی کتاب الصیام میں ہے: ای حتی یقارب طلوع الفجر ۶؎ (یعنی یہاں تک کہ طلوعِ فجر قریب آئے)۔

 

 (۶؎ ارشاد الساری     باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لایمنعکم من سحورکم اذان بلال      مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت      ۳/۳۶۳)

 

بالجملہ اس محاورہ کے شیوع تمام سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا اگر بالفرض وہ روایات صحیحہ جلیلہ صریحہ صلاۃ مغرب پیش از غروب شفق میں نہ بھی آتیں تاہم جبکہ ہر نماز کے لئے جُدا وقت کی تعیین اور پیش ازوقت یا وقت فوت کرکے نماز پڑھنے کی تحریم یقینی قطعی اجماعی تھی ان روایات میں یہ مطلب بنظر محاورہ عمدہ محتمل اور استدلال مستدل بتطرق احتمال باطل ومختل اور آیات واحادیث تعیین اوقات کا ان سے معارضہ غلط ومہمل ہوتا نہ کہ خود اسی حدیث میں بالخصوص وہ صاف صریح مفسر نصوص اور اُنہیں بزورِ زبان بخاری ومسلم سب بالائے طاق رکھ کر مردود واہیات بتائے  یا الٹا ان محتملات کے معارض بتاکر شاذو مردود ٹہرائیے یہ کیا مقتضائے انصاف ودیانت ہے یہ کیا محدثی کی شان نزاکت ہے۔ اب تو بحمداللہ سب جعل کھُل گیا، حق وباطل میزانِ نظر میں تُل گیا، اور واضح ہوا کہ یہ ساتوں روایتیں بھی اُنہیں محاورات سے ہیں جن میں دو۲ آیتیں اور بارہ۱۲ حدیثیں ہم نے نقل کیں ان سات سے مل کر اکیس۲۱ مثالیں ہُوئیں وباللہ التوفیق۔

جواب دوم :جانے دو اُن میں قبل ان میں بعد یونہی سمجھو پھر ہمیں کیا مضر اور تمہیں کیا مفید۔ شفقین دو۲ ہیں: احمر وابیض۔ اُن روایات قبل میں سپید مراد ہے اُن روایات بعد میں سُرخ۔ یوں بھی تعارض مندفع اور سب طرق مجتمع ہوگئے۔ حاصل یہ نکلا کہ شفق احمر ڈوبنے کے بعد شفق ابیض میں نماز مغرب پڑھی اور انتظار فرمایا جب سپیدی ڈُوبی عشا پڑھی۔ یہ بعینہٖ ہمارا مذہب مہذب اور ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے طور پر جمع صوری ہے حقیقی تو جب ہوتی کہ مغرب بعد غروب سپیدی پڑھی جاتی اس کا ثبوت تم ہرگز نہ دے سکے۔ یہ جواب بنگاہِ اوّلین ذہنِ فقیر میں آیا تھا پھر دیکھا کہ امام ابن الہمام قدس سرہ، نے یہی افادہ فرمایا۔

 

رہی روایت ہفتم سار حتی ذھب بیاض الافق وفحمۃ العشاء ۱؎

 

(چلتے رہے یہاں تک کہ افق کی سفیدی اور عشا کی سیاہی ختم ہوگئی۔ ت) جس میں افق کی سپیدی جانے کے بعد نزول ہے۔

 

 (۱؎ سنن النسائی           الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء       مطبوعہ کارخانہ تجارت کتب نور محمد کراچی    ۱/۹۹)

 

اقول وباللہ استعین اوّلاً یہ بھی کب رہی اس میں بھی وہی تقریر جاری جیسے غاب الشفق بمعنی کادان یغیب یوں ہی ذھب البیاض بمعنی کادان یذھب۔

 

ثانیا حدیث میں بیاض افق ہے نہ بیاض شفق، کنارہ شرقی بھی افق ہے، بعد غروب شمس مشرق سے سیاہی اُٹھتی اور اُس کے اوپر سپیدی ہوتی ہے جس طرح طلوعِ فجر میں اس کا عکس، جسے قرآن عظیم میں حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر ۲؎ (یہاں تک کہ فجر کے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا تمہارے لیے واضح ہوجائے۔ ت)

 

 (۲؎ القرآن  ۲/۱۸۷)

 

فرمایا، جب فجر بلند ہوتی ہے وہ خیطِ اسود جاتا رہتا ہے، یونہی جب مشرق سے سیاہی بلند ہوتی ہے سپیدی شرقی جاتی رہتی ہے اور ہنوز وقت مغرب میں وسعت ہوتی ہے اور اس پر عمدہ قرینہ یہ کہ بیاض کے بعد فحمہ عشاء سر شام کا دھند لگا ہے کہ موسم گرما میں تیزی نور شمس کے سبب بعد غروب نظر کو ظاہر ہوتا ہے جب تارے کھل کر روشنی دیتے ہیں زائل ہوجاتا ہے جیسے چراغ کے سامنے سے تاریکی میں آکر کچھ دیر سخت ظلمت معلوم ہوتی ہے پھر نگاہ ٹہر جاتی ہے، زہرالربٰی میں ہے: فحمۃ العشاء، ھی اقبال اللیل واول سوادہ ۱؎ (فحمۃ العشاء رات کے آنے کو اور اس کی ابتدائی سیاہی کو کہتے ہیں۔ ت)

 

 (۱؎ زہرالربٰی مع سنن النسائی بین السطور زیر حدیث مذکور        مطبوعہ کارخانہ تجارت کتب نور محمد کراچی    ۱/۹۹)

 

شرح جامع الاصول للمصنف میں ہے : ھی شدّۃ سواد اللیل فی اولہ، حتی اذاسکن فورہ، قلت بظھور النجوم وبسط نورھا۔ ولان العین اذانظرت الی الظلمۃ ابتداء لاتکاد تری شیا ۲؎۔

 

وہ رات کا ابتدائی حصّے میں بہت سیاہ ہونا ہے۔ پھر جب اس کا جوش ٹھر جاتا ہے تو تاروں کے نکلنے اور ان کی روشنیاں پھیلنے سے سیاہی کم ہوجاتی ہے، اور اس لئے بھی کہ آنکھ جب ابتداء میں تاریکی کی طرف نظر کرتی ہے تو کچھ نہیں دیکھ پاتی۔ (ت)

 

 (۲؎ جامع الاصول للمصنف)

 

ظاہر ہے کہ اس کا جانا بیاضِ شفق کے جانے سے بہت پہلے ہوتا ہے تو بیاضِ شفق جانا بیان کرکے پھر اس کے ذکر کی کیا حاجت ہوتی، ہاں بیاض شرقی اس سے پہلے جاتی ہے تو اس معنی صحیح پر فحمہ عشاء کا ذکر عبث ولغو نہ ہوگا۔

ثالثاً یہی حدیث اسی طریق مذکور سفیان سے امام طحاوی نے یوں روایت فرمائی:

 

حدثنا فھد ثنا الحمانی ثنا ابن عیینۃ عن ابن ابی نجیح عن اسمٰعیل بن ابی ذویب قال: کنت مع ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما، فلما غربت الشمس، ھبنا ان نقول: الصلاۃ، فسار حتی ذھب فحمۃ العشاء ورأینا بیاض الافق، فنزل فصلی ثلثا المغرب، واثنتین العشاء، وقال: ھکذا رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یفعل ۳؎۔

 

حدیث بیان کی ہم سے فہد نے حمانی سے، اس نے ابن عینیہ سے، اس نے ابن ابی نجیح سے، اس نے اسمٰعیل بن ابی ذویب سے کہ میں ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب سورج ڈوب گیا تو ان کی ہیبت کی وجہ سے ہم انہیں نماز کا نہ کہہ سکے وہ چلتے رہے یہاں تک کہ عشاء کی سیاہی ختم ہوگئی اور ہم نے افق کی سفیدی دیکھ لی۔ اس وقت اُتر کر مغرب کی تین رکعتیں اور عشا کی دو۲ رکعتیں پڑھیں اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ (ت)

 

 (۳؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین الصلاتین الخ        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۱)

 

یہ بقائے شفق ابیض میں نص صریح ہے کہ سرشام کا دھند لکاجاتا رہا اور ہمیں افق کی سپیدی نظر آئی اُس وقت نماز پڑھی اور کہا اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کیا۔

رابعاً: ملّاجی! آپ تو بہت محدثی میں دم بھرتے ہیں صحیح حدیثیں بے وجہ محض تو رَد کرتے آئے بخاری ومسلم کے رجال ناحق مردود الروایہ بنائے اب اپنے لیے یہ روایت حجّت بنالی جو آپ کے مقبولہ اصولِ محدثین پر ہرگز کسی طرح حجت نہیں ہوسکتی اس کا مدار ابن ابی نجیح پر ہے وہ مدلس تھا اور یہاں روایت میں عنعنہ کیا اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار ومعتمد میں مردود ونامستند ہے اسی آپ کی مبلغ علم تقریب میں ہے:

 

عبداللّٰہ بن ابن نجیح یسار المکی ابویسار الثقفی، مولاھم، ثقۃ، رمی بالقدر، وربما دلس ۱؎۔ عبداللہ ابن ابی نجیح یسار مکی ابویسار ثقفی، بنی ثقیف کا آزاد کردہ، ثقہ ہے، قدری ہونے سے مہتم ہے، بسا اوقات تدلیس کرتا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ تقریب التہذیب        ترجمہ عبداللہ ابن نجیح    مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی     ص ۱۴۴)

 

وہ قسم مرسل سے ہے تقریب وتدریب میں ہے : الصحیح التفصیل، فمارواہ بلفظ محتمل لم یبین فیہ السماع، فمرسل لایقبل، ومابین فیہ، کسمعت، وحدثنا، واخبرنا، وشبھھا، فمقبول  یحتج بہ ۲؎۔

  

صحیح یہ ہے کہ اس میں تفصیل ہے، یعنی مدلس کی وہ روایت جو ایسے لفظ سے ہو جو سماع کا احتمال تو رکھتا ہو مگر سماع کی تصریح نہ ہو، تو وہ مرسل ہے اور غیر مقبول ہے، اور جس میں سماع کی صراحت ہو، جیسے سمعت، حدثنا، اخبرنا اور ان جیسے الفاظ، تو وہ مقبول ہے اور قابل استدلال ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ تدریب الراوی شرح تقریب النوا و ی القسم الثانی من النوع الثانی عشر    دار نشر الکتب الاسلامیہ لاہور ۱/۲۲۹)

 

اور مرسل کی نسبت آپ خود فرماچکے ف۱ روایت مرسل حجت نہیں ہوتی نزدیک جماعت فقہا وجمہور محدثین کے۔ یہ آپ نے اُس حدیث صحیح متصل کو مردود و مرسل بناکر فرما یا تھا جس کا ذکر لطیفہ دہم میں گزرا جھوٹے ادعائے ارسال پر تو یہ جوش وخروش اور سچّے ارسال میں یوں گنگ وخاموش، یہ کیا مقتضائے حیا ودیانت ہے۔

 

 ۱: معیارالحق    ص ۴۰۱)

 

جواب سوم : حدیث مذکور کے اصلاً کسی طریق میں نہیں کہ حضور پُرنور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بعد غروب شفق ابیض نماز مغرب پڑھی نہ ہرگز ہرگز کسی روایت میں آیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بعدازسفر وقت حقیقۃً قضا کرکے دوسری نماز کے وقت میں پڑھنے کو فرمایا۔ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا مذہب یہ ہے کہ وقت مغرب شفق احمر تک ہے

 

الدارقطنی عن ابن عمر، رفعہ، والصحیح وقفہ، افادہ البیھقی والنووی، انہ قال:الشفق الحمرۃ۔ دارقطنی نے ابن عمر سے مرفوعاً روایت کی ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، جیسا کہ بہیقی اور نووی نے افادہ کیا ہے کہ ابن عمر نے کہا ہے کہ شفق سُرخی کو کہتے ہیں۔ (ت)

 

اور ہمارے نزدیک شفق ابیض تک ہے ھو الصحیح روایۃ والرجیح درایۃ وقضیۃ الدلیل فعلیہ التعویل

 

 (یہی روایۃً صحیح ہے، اسی کو درایۃً ترجیح ہے اور دلیل کا تقاضا بھی یہی ہے اس لئے اسی پر اعتماد ہے۔ ت) ہمارا مذہب اجلّائے صحابہ مثل افضل الخلق بعدالرسل صدیق اکبر واُمّ المومنین صدّیقہ وامام العلماء معاذبن جبل وسید القرأ اُبی بّن کعب وسید الحفّاظ ابوہریرہ وعبداللہ بن زبیر وغیرہم رضی اللہ تعالٰی عنہم واکابر تابعین مثل امام اجل محمد باقر وامیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز واجلّائے تبع تابعین مثل امام الشام اوزاعی وامام الفقہاء والمحدثین والصالحین عبداللہ بن مبارک وزفر بن الہذیل وائمہ لغت مثل مبرد وثعلب وفرأ وبعض کبرائے شافعیہ مثل ابوسلیمان خطابی وامام مزنی تلمیذ خاص امام شافعی وغیرہم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم سے منقول کمافی عمدۃ القاری وغنیۃ المستملی وغیرھما۔ اب اگر ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے صراحۃً ثابت بھی ہوکہ انہوں نے بعد غروب ابیض مغرب پڑھی تو صاف محتمل کہ انہوں نے کسی سفر میں سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بعد شفقِ احمر شفق ابیض میں مغرب اور اُس کے بعد عشاء پڑھتے دیکھا اور اپنے اجتہاد کی بنا پر یہی سمجھا ہوکہ حضور والا صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ نے وقت قضا کرکے جمع فرمائی اب چاہے ابنِ عمر سے ثابت ہوجائے کہ انہوں نے پہر رات گئے بلکہ آدھی رات ڈھلے مغرب پڑھی یہ اُن کے اپنے مذہب پر مبنی ہوگا کہ جب وقت قضا ہوگیا تو گھڑی اور پہر سب یکساں مگر ہم پر حجت نہ ہوسکے گا کہ ہمارے مذہب پر وہ جمع صوری ہی تھی جسے جمع حقیقی سے اصلاً علاقہ نہ تھا یہ تقریر بحمداللہ تعالٰی وافی وکافی اور مخالف کے تمام دلائل وشبہات کی دافع ونافی ہے اگر ہمّت ہے تو کوئی حدیث صحیح صریح ایسی لاؤ جس سے صاف صاف ثابت ہوکہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حقیقۃً شفق ابیض گزار کر وقت اجتماعی عشاء میں مغرب پڑھی یا اس طور پڑھنے کا حکم فرمایا مگر بحول اللہ تعالٰی قیامت تک کوئی حدیث ایسی نہ دکھاسکوگے بلکہ احادیث صحیحہ صریحہ جن میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جمع فرمانا اور اس کا حکم دینا آیا وہ صراحۃً ہمارے موافق اور جمع صوری میں ناطق ہیں جن کا بیان واضح ہوچکا پھر ہم پر کیا جبر ہے کہ ایسی احتمالی باتوں مذبذب خیالوں پر عمل کریں اور اُن کے سبب نمازوں کی تعیین وتخصیص اوقات کہ نصوص قاطعہ قرآن وحدیث واجماعِ امت سے ثابت ہے چھوڑ دیں۔ ھکذا ینبغی التحقیق واللّٰہ تعالٰی اعلم۔

 

حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مروی بطریق عُقیل بن خالد عن ابن شھاب عن انس جس کے ایک لفظ میں ہے کہ ظہر کو وقتِ عصر تک تاخیر فرماتے،

 

الشیخان وابوداود والنسائی، حدثنا قتیبۃ، زاد ابوداؤد وابن موھب المعنی، قالانا المفضل ح والبخاری وحدہ، حدثنا حسان الواسطی، وھذا لفظہ، ثنا المفضل بن فضالۃ عن عقیل عن ابن شھاب عن انس بن مالک، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، اذا ارتحل قبل ان تزیغ الشمس، اخر الظھر الی وقت العصر، ثم یجمع بینھما، واذا زاغت الشمس قبل ان یرتحل،صلی الظھر ثم رکب ۱؎۔

 

بخاری، مسلم، ابوداؤد اور نسائی کہتے ہیں کہ حدیث بیان کی ہم سے قتیبہ نے ابوداؤد نے اضافہ کیا ہے ''اور ابن موہب المعنی نے'' دونوں مفضل سے روایت کرتے ہیں۔ یہی روایت بخاری نے بواسطہ حسان واسطی تنہا بھی کی ہے، اور آئندہ الفاظ اسی کے ہیں۔ حدیث بیان کی ہم سے مفضل نے عقیل سے، اس نے ابن شہاب سے، اس نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اگر زوال سے پہلے روانہ ہوجاتے تھے تو ظہر کو عصر تک مؤخر کردیتے تھے، پھر دونوں کو اکٹھا پڑھ لیتے تھے قتیبہ کے الفاظ یوں ہیں: ''پھر اُترتے تھے اور دونوں کو اکٹھا پڑھتے تھے'' او ر اگر  زوال ہوجاتا تھا قتیبہ کے الفاظ یوں ہیں: ''اور اگر روانگی سے پہلے زوال ہوجاتا تھا'' تو ظہر پڑھ کے سوار ہوتے تھے۔ (ت)

 

 (۱؎ صحیح البخاری    باب یؤخر الظہر الی العصر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۵۰)

 

دُوسرے لفظ میں ہے ظہر کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ عصر کا اوّل وقت داخل ہوتا پھر جمع کرتے۔

 

صحیح مسلم میں ہے، حدثنی عمروالناقد نا شبابۃ بن سوار المدائنی نالیث بن سعد عن عقیل، فذکرہ، وفیہ: اخر الظھر حتی یدخل اول وقت العصر، ثم یجمع بینھما ۲؎۔

 

حدیث بیان کی ہم سے عمرو الناقد نے شبابہ سے، اس نے لیث سے، اس نے سعد سے، اس نے عقیل سے، اس کے بعد روایت ذکر کی، اس میں ہے کہ ظہر کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ عصر کا ابتدائی وقت داخل ہوجاتا، پھر دونوں کو جمع کرلیتے۔ (ت)

 

 (۲؎ صحیح لمسلم    باب جواز الجمع بین الصلاتین      مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۵)

 

تیسرے لفظ میں یہ لفظ زائد ہے کہ مغرب کو تاخیر کرتے یہاں تک کہ شفق ڈوبنے کے وقت اُسے اور عشا کو ملاتے یا اُنہیں جمع فرماتے کہ شفق ڈوب جاتی۔

 

صحیح مسلم میں ہے، حدثنی ابوالطاھر وعمروبن السواد قالانا ابن وھب ثنی جابر بن اسماعیل عن عقیل، وفیہ: یؤخر المغرب حتی یجمع بینھا وبین العشاء حین یغیب الشفق ۱؎۔ ورواہ النسائی، قال: اخبرنی عمروبن سوّاد بن الاسود بن عمرو، وابوداود مختصرا، قال: حدثنا سلیمٰن بن داود المھری کلاھما عن ابن وھب، بہ، ورواہ الطحاوی حدثنا یونس، قال:انا ابن وھب،  وفیہ، حتی یغیب الشفق ۲؎۔ حدیث بیان کی مجھ سے ابوالطاہر اور عمروبن سواد نے ابن وہب سے، اس نے جابر سے، اس نے عقیل سے۔ اس میں ہے کہ مغرب کو مؤخر کرتے تھے یہاں تک کہ اس کو اور عشاء کو جمع کرلیتے جب شفق غائب ہوتی تھی۔ اس روایت کو نسائی نے بھی بواسطہ عمرو ابن سواد ابن اسود ابن عمر، اور ابوداود نے بھی مختصراً بواسطہ سلیمان ابن داود المہری بیان کیا ہے (عمرو اور سلیمان) دونوں نے یہ روایت ابن وہب سے لی ہے۔ اور طحاوی نے اس کو بواسطہ یونس، ابن وہب سے لیا ہے۔ اس میں ہے ''یہاں تک کہ شفق غائب ہوجاتی تھی''۔ (ت)

 

 (۱؎ الصحیح لمسلم    باب جواز الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۴۵

سنن ابی داؤد    ۱/۱۷۲        شرح معانی الآثار        ۱/۱۱۳)

(۲؎ سنن النسائی    الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء        مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب

کراچی    ۱/۹۹)

 

غیبتِ شفق کے جوابات شافعیہ تو بحمداللہ اوپر گزرے ملّاجی کو بڑا ناز یہاں ان لفظوں پر ہے کہ ظہر کو وقت عصر تک مؤخر فرماکر جمع کرتے اُس پر حتی کے معنی میں لاطائل س نحو یت بگھار کر فرما تے ہیں ف۱ پس مطلب یہ ہواکہ تاخیر ظہر کی اس حد تک کرتے کہ منتہ تاخیر کا اول وقت عصر کا ہوتا یعنی ابھی تک ظہر نہ پڑھتے کہ عصر کا وقت آجاتا ان معنی سے کسی کو انکار نہیں مگر محرفین للنصوص کو اوّل وقت عصر کا منتہی تاخیر کا ہے نہ نماز ظہر کا اگر ظہر کا ہوتو ثم یجمع بینہما کے کچھ معنی نہیں بنتے کہ بعد ہوچکنے ظہر کے اول وقت عصر تک پھر جمع کرنا ساتھ عصر کے کس طرح ہو اھ ملخصا مہذبا۔

اِن لن ترانیوں کا جواب تو بہت واضح ہے عصر یا وقت عصر یا اول وقت عصر یا دخول وقت عصر تک ظہر کو مؤخر کرنے کے جس طرح یہ معنے ممکن کہ ظہر نہ پڑھی یہاں تک کہ وقت عصر داخل ہوا یونہی یہ بھی متصور کہ ظہر میں اس قدر تاخیر فرمائی کہ اس کے ختم ہوتے ہی وقتِ عصر آگیا خود علمائے شافعیہ ان معنی کو تسلیم کرتے ہیں صحیح بخاری شریف میں فرمایا: باب تاخیر الظھر الی العصر ۳؎ امام عسقلانی شافعی نے فتح الباری پھر قسطلانی شافعی نے ارشاد الساری میں اس کی شرح فرمائی:

 

باب تاخیر الظھر الٰی اول وقت العصر، بحیث انہ اذافرغ منھا یدخل وقت تالیھا، لاانہ یجمع بینھما فی وقت واحد ۴؎۔ باب، ظہر کی تاخیر عصر کے ابتدائی وقت تک کہ جب ظہر سے فارغ ہو، عصر کا وقت داخل ہوجائے، نہ یہ کہ ایک ہی وقت میں دونوں کو جمع کرے۔ (ت)

 

 (۳؎ صحیح البخاری    باب تاخیر الظھر الی العصر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۷۷)

(۴؎ ارشاد الساری        باب تاخیر الظھر الی العصر   دارالکتاب العربیۃ بیروت    ۱/۴۹۱)

۱ معیارالحق    ص۳۷۷، ۳۷۸)

 

حافظ الشان کے لفظ یہ ہیں: المراد انہ عند فراغہ منھا دخل وقت العصر، کماسیاتی عن ابی الشعثاء ۱؎ الخ۔ مراد یہ ہے کہ ظہر سے فارغ ہوتے ہی عصر کا وقت داخل ہوگیا، جیسا کہ عنقریب ابوالشعثاء سے آرہا ہے۔ (ت)

 

(۱؎ فتح الباری شرح البخاری    باب تاخیر الظہر الی العصر    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۲/۱۹)

 

اور اُس سے فارغ ہوتے ہی جو عصر اپنے شروع وقت میں پڑھی جائے بداہۃً دونوں نمازیں مجتمع ہوجائیں گی تو اس معنے کو تحریف یا جمع بینہما کے مخالف کہنا صریح جہالت ہے۔

اقول وباللہ التوفیق تحقیق مقام یہ ہے کہ یؤخر الظھر میں ظہر سے صلاۃِ ظہر مراد ہونا تو بدیہی نماز ہی قابل تاخیر وتعجیل ہے نہ وقت جس کی تاخیر وتعجیل مقدورات عباد میں نہیں اور صلاۃ ظہر حقیقۃً تکبیر تحریمہ سے سلام تک مجموع افعا ل کا نام ہے نہ ہر فعل یا آغاز نماز کا کہ جزء نماز ہے اور ایسے حقائق میں جز شے شے نہیں جو اسم کسی مرکب مجموع اجزائے متعاقبہ فی الوجود کے مقابل موضوع ہو بنظرِ حقیقت اُس کا صدق جزء آخر کے ساتھ ہوگا نہ اُس سے پہلے مثلاً مکان اس مجموع جدران وسقف وغیرہا کا نام ہے تو جب نیو بھری گئی یا پہلی اینٹ چنائی کی رکھی گئی مکان نہ کہیں گے پس قبل فراغ حقیقت صلاۃ جسی شرع مطہر نماز گنے اور معتبر رکھے متحقق نہیں تو بحکم حقیقت انتہائے تاخیر نماز عین وقت فراغ پر ہے نہ وقت تکبیر کہ ہنوز زمانہ عدم صدق اسم باقی ہے اب حدیث کے الفاظ دیکھیے تاخیر نماز کی انتہا ابتدائے وقتِ عصر پر بتائی گئی ہے اور اُس کی انتہا فراغ پر تھی تو ثابت ہوا کہ ظہر سے فراغ وقت ظہر کے جزء اخیر میں ہوا یہی بعینہٖ ہمارا مقصود ہے اگر معنے وہ لیے جائیں جو ملّاجی بتاتے ہیں کہ اول وقت عصر میں نماز ظہر شروع کی تو تاخیر ظہر اول وقت عصر پر منتہی نہ ہوئی بلکہ اوسط وقت عصر تک رہی یہ خلاف ارشاد حدیث ہے تو بلحاظ حقیقت شرعیہ معنی حدیث وہی ہیں جنہیں ملّاجی تحریہ نصوص بتارہے ہیں ہاں مجازاً آغاز نماز پر بھی اسم نماز اطلاق کرتے ہیں تو ہمارے اورر ملّاجی کے معنی میں وہی فرق ہے جو حقیقت ومجاز میں۔ بحمداللہ اس بیان جلی البرہان سے واضح ہوگیا کہ ملّاجی کا منتہائے تاخیر ومنتہائے نماز ظہر میں تفرقہ پر حکم کرنا جہالت تھا ملّاجی نے اتنا سچ کہا کہ منتہے تاخیر کا اول وقت عصر کا ہوتا آگے جو یہ حاشیہ چڑھایا کہ یعنی ابھی تک ظہر نہ پڑھتے کہ وقت عصر آجاتا نرا ادعائے بے دلیل ہے طرفہ یہ کہ خود بھی حضرت نے اُنہیں لفظوں سے تعبیر کی جن میں دونوں معنی محتمل مگر عقل ووہابیت تو باہم اقصی طرفین نقیض پر ہیں وللہ الحمد۔

ثم اقول وبحول اللّٰہ اصول (پھر میں کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی ہی کی طاقت سے جرح کرتا ہوں) ظہر کی وقتِ عصر تک تاخیر درکنار اگر صاف یہ لفظ آتے کہ ظہر اول وقت عصر میں پڑھی مدعائے مخالف میں نص نہ تھی ظہرین وعشائین میں آخر وقتِ اول واول وقت آخر آن واحد فصل مشترک بین الزمانین ہے اور صلاۃ بمعنے ابتدائے صلاۃ اور فراغ عن الصلٰوۃ دونوں مستعمل تو بحکم مقدمہ اولٰی جس نماز کے فراغ پر اُس کا وقت ختم ہوجائے اُسے جس طرح یوں کہہ سکتے ہیں کہ اپنے وقت کے جز  اءخیر میں تمام ہوئی یونہی یہ بھی کہ وقت آئندہ کے جز ء اول میں اُس سے فراغ ہوا اور بحکم مقدمہ ثانیہ تعبیر ثانی کو ان لفظوں سے بھی ادا کرسکتے ہیں کہ نماز وقت آئندہ میں پڑھی کہ نماز پڑھنا فراغ عن الصلاۃ تھا اور فراغ عن الصلاۃ آخر وقت میں ہوا اور آخر وقت ماضی اولِ وقت آتی ہے ولہذا ساتوں احادیث مذکورہ امامت جبریل وسوال سائل میں جب کہ بظاہر عصر ماضی وظہر حال دونوں ایک وقت پڑھنا نکلتا تھا بلکہ حدیث امامت عندالترمذی وحدیث سائل عندابی داؤد میں صاف تصریح تھی کہ آج کی ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی خود امام شافعی وجمہور علمائے کرام رحمہم اللہ تعالٰی نے ان میں صلاۃ عصر دیروزہ کو ابتدائے نماز اور صلاۃ ظہر امروزہ کو فراغ نماز پر حمل کیا یعنی ایک مثل سایہ پر کل کی عصر شروع فرمائی تھی اور آج کی ظہر ختم، اسی کو یوں تعبیر فرمایاگیا کہ ظہر امروزہ عصر دیروزہ کے وقت میں پڑھی امام اجل ابوزکریا نووی شافعی رحمہ اللہ تعالٰی شرح صحیح مسلم شریف میں زیرحدیث

 

اذاصلیتم الظھر فانہ وقت الی ان یحضر العصر  (جب تم ظہر کی نماز پڑھنا ہوتو عصر تک سارا وقت ظہر ہی کا ہے۔ ت) فرماتے ہیں: احتج الشافعی والاکثرون بظاھر الحدیث الذی نحن فیہ، واجابوا عن حدیث جبریل علیہ السلام، بان معناہ فرغ من الظھر حین صارظل کل شیئ مثلہ، وشرع فی العصر فی الیوم الاول حین صار ظل کل شیئ مثلہ فلا اشتراک بینھما ۱؎۔

 

امام شافعی اور اکثر علمانے اسی حدیث کے ظاہر سے استدلال کیا ہے جس میں ہم گفتگو کررہے ہیں اور جبریل علیہ السلام کی حدیث سے یہ جواب دیا ہے کہ پہلے دن جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا تھا تو اس وقت ظہر کی نماز سے فارغ ہوگئے تھے اور دوسرے دن جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہُوا تھا تو اس وقت عصر کی نماز شروع کی تھی۔ اس طرح دونوں کا (ایک ہی وقت میں) اشتراک نہیں پایا جاتا۔ (ت)

 

 (۱؎ شرح الصحیح لمسلم مع مسلم    باب اوقات صلوات الخمس    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۲)

 

مرقات شرح مشکوٰۃ میں ہے : فی روایۃ، حین کان ظل کل شیئ مثلہ، کوقت العصر بالامس۔ ای فرغ من الظھر ح، کماشرع فی العصر فی الیوم الاول ح حینئذٍ قال الشافعی: وبہ نندفع اشتراکھا فی وقت واحد ۱؎۔

 

ایک روایت میں ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا تھا، جیسا کہ گزشتہ کل اسی وقت عصر کے وقت تھا۔ یعنی آج اُسی وقت ظہر سے فارغ ہوئے تھے جیسا کہ گزشتہ کل اسی وقت عصر میں شروع ہوئے تھے امام شافعی نے کہا کہ اسی سے ایک وقت میں ان کے اشتراک کا احتمال ختم ہوجاتا ہے۔ (ت)۔

 

 (۱؎ مرقات المفاتیح    الفصل الثانی من باب المواقیت    مکتبہ امدادیہ ملتان    ۲/۱۲۴)

 

ثم اقول ہاں میں علما سے کیوں نقل کروں خود ملّاجی اپنے ہی لکھے کو نہ روئیں

 

اقرء کتابک کفی بنفسک الیوم علیک شھیدا ۲؎

 

عــہ۔ (پڑھو اپنی کتاب کو، آج تم خود ہی اپنے آپ پر شہید کافی ہو۔ ت

 

 (۲؎ القرآن        ۱۷/۱۴)

 

عــہ اقتباس ومناسب المقام ھھنا الشھادۃ لا الحساب ۱۲ منہ (م)

قرآن کریم سے اقتباس ہے اور مقام کے مناسب یہاں پر شہادت ہے نہ کہ حساب (اس لئے حسیباً کی جگہ شھیداً لایاگیا ہے) (ت)

 

مسئلہ وقتِ ظہر میں جو ایک مثل کا اثبات پیشِ نظر تھا پاؤں تلے کی سوجھی آگا پیچھا بے سوچے سمجھے صاف صاف انہیں معنی کا اقرار کرگئے یہ کیا خبر تھی کہ دو۲ قدم چل کر یہ اقرار جان کا آزار ہوجائے گا حدیث سائل بروایت نسائی عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نقل کرکے فرماتے ہیں ف(۱): معنی اس کے یہ ہیں کہ پہلے دن عصر جب پڑھی کہ سایہ ایک مثل آگیا اور دوسرے دن ظہر سے ایک مثل پر فارغ ہوئے یہ معنی نہیں کہ ظہر پڑھنی شروع کی دُوسرے دن اُسی وقت میں جس میں پہلے دن عصر پڑھی تھی اھ ملخصا۔

 

 ۱ معیارالحق مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر الخ    مکتبہ نذیریہ لاہور     ص۳۱۶)

  

کیوں مُلّاجی ! جب صلاۃ بمعنی فراغ عن الصلاۃ آپ خود لے رہے ہیں تو آخر الظہر کے معنی آخر الفراغ عن الظہر لینا کیوں تحریف نصوص ہوگیا، ہاں اس کا علاج نہیں کہ شریعت تمہارے گھر کی ہے اپنے لئے تحریف تبدیل انکار تکذیب جو چاہو حلال کرلو۔ مزہ یہ ہے کہ فقط اسی پر قناعت نہ کی لاج کا بھلا ہو حدیث امامت جبریل عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی نقل کی اور ابو داؤد کے لفظ چھوڑ کر خاص ترمذی ہی کی روایت لی جس میں صاف نقل کیا کہ ظہر امروزہ عصر دیروزہ کے وقت میں پڑھی اور بکمال خوش طالعی اسے بھی لکھ ف(۲) دیا کہ معنے اس کے بھی وہی ہیں جو حدیث نسائی کے بیان کیے گئے یعنی پہلے دن عصر شروع کی ایک مثل پر اور دوسرے دن فارغ ہوئے ظہر سے ایک مثل پر۔

 

 ۲ معیارالحق    ص ۳۲۱)

 

مُلّاجی! جب ایک نماز دوسری کے وقت میں پڑھنا ان صریح لفظوں کے بھی خود یہ معنی لے رہے ہو کہ نماز پڑھی تو اپنے وقت میں مگر اس سے فراغ دوسری کے ابتدائے وقت پر ہوا تو اَب کس مُنہ سے یہ حدیثیں اثبات جمع میں پیش کرتے اور انہیں نص صریح ناقابل تاویل بتاتے ہو ان میں تصریح دکھا بھی نہ سکے جو صاف صاف اس حدیث ترمذی میں تھی جب اس کے یہ معنی بنارہے ہو ان کے بدرجہ اولٰی بنیں گے اور اول تا آخر تمہارے سب دعویقل موتوا بغیظکم سُنیں گے ا نصاف ہو تو ایک یہی حرف تمہاری ساری محنت کو پہلی منزل پہنچانے کے لئے بس ہے وللہ الحمد یہ کلام تو ملّاجی کی جہالتوں سے متعلق تھا اب مثل حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما اس حدیث کے بھی جواب بعون الوہاب اُسی طرز صواب پر لیجئے وباللہ التوفیق۔

 

جواب اول: دخول عصر سے قرب عصر مراد ہے جس کی اکیس مثالیں آیات واحادیث سے گزریں خصوصا حدیث ہشتم میں ہم نے روایت صحیحہ صحیح مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی سے روشن ثبوت دیا کہ دوسرے وقت تک تاخیر درکنار ایک نماز اپنے آخر وقت میں دوسرے وقت کے قریب پڑھنے کو کہا یہاں تک کہا جاتا ہے کہ دوسری نماز کے وقت میں پڑھی

 

الی ھذا الجواب اشار الامام الطحاوی رحمہ اللّٰہ تعالٰی، حیث قال: قدیحتمل ان یکون قولہ: الی اول وقت العصر، الی قرب اول وقت العصر ۱؎۔

 

اسی جواب کی طرف امام طحاوی نے اشارہ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اول وقت عصر سے مراد اول وقت عصر کا قریب ہونا ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین الصلاتین الخ        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۳)

 

جواب ثانی، اقول وقت ظہر دو مثل سمجھو خواہ ایک اُس کی حقیقت واقعیہ کا ادراک طاقت بشری سے خارج ہے آسمان بھی صاف ہو زمین بھی ہموار تاہم پیمائش اقدام یا کوئی چیز زمین میں کھڑی کرکے ناپنا تو ہرگز غایت تخمین مقدور تک بھی بالغ نہیں نہایت تصحیح عمل امثال دائرہ ہندیہ ہے وہ بھی حقیقت امر ہرگز نہیں بتاسکتا۔

اولا دائرے کی صحتِ سطح کا اسطوا سطحِ دائرۃ الافق سے اُس کی پوری موازات مقیاس کا سطحِ دائرہ نصف النہار سے ذرہ بھر مائل نہ ہونا مدخل ومخرج کے نقاط نامتجزیہ کی صحیح تعیین قوس محصورہ کی ٹھیک تنصیف پھر ظل کا خط نامتجزی پر واقعی انطباق پھر اُس کی حقیقی مقدار پھر اس پر مثل یا مثلین کی بے کمی بیشی زیادت ان میں سے کسی پر جزم متیسر نہیں۔

ثانیا بفرض محال عادی یہ سب حق حقیقت پر صحیح بھی ہوجائیں تاہم خط نصف النہار کا سطح عظیمہ نصف النہار میں ہونا معلوم نہیں بلکہ نہ ہونا ثابت ومعلوم ہے کہ شمس بوجہ تقاطعِ معدّل ومنطقہ اپنی سیر خاص سے لمحہ بھر بھی ایک مدار پر نہیں رہتا تو منتصف مابین المدخل والمخرج ہمیشہ خط نصف النہار سے شرقی یا غربی ہے مگر جبکہ دائرۃ الزوال پر مرکز نیّر کا انطباق اور احد الانقلابین میں حلول آنِ واحد میں ہو اور وہ نہایت نادر ہے۔

ثالثا اس نادر کو بھی فرض کرلیجئے تاہم علم کی طرف اصلا سبیل نہیں کہ حلولِ انقلاب یا وصول دائرہ جاننے کے طرق جوزیجات میں موضوع ہیں سب ظنی وتخمینی ہیں کسی کو کب کی تقویم حقیقی معلوم کرنا نہ حساب کا کام ہے نہ ارصاد کا، جداول جیوب وظلال ومیول واوساط وتعاویل مراکز ومواضع اوجات وتفاوت ایام حقیقیہ ووسطیہ وفصل مابین المرکزین وعروض واطوال بلاد درج واجزائے استوائیہ وطوالع ومطالع بلدیہ وغیرہا امور کہ اس ادراک کے ذرائع ہیں سب فی انفسہا محض تخمین ہیں اور اس پر اثباتِ زیجات برفع واسقاط حصصِ کسرات تخمین بالائے تخمین، پاکی ہے اسے جس نے بہر نقیر وقطمیر میں عجز وجہل بشرکو طاہر کیا اور ذرہ ذرہ عالم سے اپنے کمال علم وقدرت کو جلوہ دیا،

 

سبحٰنک لاعلم لنا الاماعلّمتنا انک انت العلیم الحکیم ۱؎۔

 

تُو پاک ہے ہمیں علم نہیں مگر جتنے کی تُونے تعلیم دی ہے تُو ہی علیم حکیم ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ القرآن    ۲/۳۲)

 

ولہذا ملتقی وقتین سے کچھ پہلے اور کچھ بعد تک عامہ خلق کے نزدیک وقت مشکوک ہے اسی کو وقت بین الوقتین کہتے ہیں اس میں نظرِ ناظر کبھی حالتِ شک میں رہتی ہے کبھی بقائے وقتِ اول کبھی دخولِ وقت آخر گمان کرتی ہے اور واقع وہ ہے جو رب العزۃ جل وعلا کے علم میں ہے صاحبِ وحی خصوصاً

 

عالم علوم الاولین والآخرین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب بحکم نبأنی العلیم الخبیر  (آگاہ کیا ہے مجھے علم والے اور خبر والے نے۔ ت) عین وقت حقیقی پر مطلع ہوکر نمازِ ظہر ایسے اخیر وقت میں ادا فرمائے اور سلام پھیرتے ہی معاً وقت عصر کی ابتدائے حقیقی جو خاص علمِ الٰہی میں تھی شروع ہوجائے اور دیگر ناظرین کو وحی سے بہرہ نہیں رکھتے براہِ اشتباہ اسے وقت آخر میں گمان کریں اصلا محل تعجب نہیں نہ معاذاللہ اس میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی کسرِ شان کہ علومِ خاصہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حضور کا شریک نہ ہونا کچھ منافِی صحابیت نہیں بلکہ واجب ولازم ہے فقیر غفرلہ المولی القدیر احادیث کثیرہ سے خاص اس جزئیہ کی نظیریں پیش کرسکتا ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسے وقت نمازیں پڑھیں یا سحری تناول فرمائی کہ ناظرین کو بقائے وقت میں شک یا خروجِ وقت کا گمان گزرتا بلکہ اجلہ حذاقِ صحابہ کی تمیز ومعرفت میں دیگر ناظرین شریک نہ ہُوئے علم محمدی تو علم محمدی ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، مثلاً:

 

حدیث ۱ :   حدیث سائل کہ صحیح مسلم وسُنن ابی داؤد وسنن نسائی ومسند امام احمد وحجج امام ابن ابان ومصنّف طحاوی میں سیدنا ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی اُس میں ظہر روزِ اوّل کی نسبت مسلم ونسائی کی روایت یوں ہے:

 

اقام بالظھر حین زالت الشمس، والقائل یقول: قدانتصف النھار، وھوکاناعلم منہم ۱؎۔ سورج ڈھلتے ہی ظہر کی اقامت کہی اس حال میں کہ کہنے والا کہے ٹھیک دوپہر ہے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُن سے زیادہ جانتے تھے۔

 

 (۱؎ الصحیح لمسلم    باب اوقات صلوات الخمس    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۳)

 

ابوداؤد کے یہ لفظ ہیں : حتی قال القائل: انتصف النھار، وھو اعلم ۲؎۔ یہاں تک کہ کہنے والے نے کہا دوپہر ہوا اور حضور کو حقیقت امر کی خُوب خبر تھی۔

 

 (۲؎ سنن ابی داؤد    باب المواقیت    مطبوعہ مجتبائی لاہور، پاکستان    ۱/۵۷)

 

احمد وعےسٰی وطحاوی کے لفظ یوں ہیں: والقائل یقول: انتصف النھار اولم، وکان اعلم منھم ۳؎۔ کہنے والا کہتا دوپہر ہے یا ابھی دوپہر بھی نہ ہوا اور حضور کے علم سے اُن کے علموں کو کیا نسبت تھی۔

 

 (۳؎ شرح معانی الآثار    باب مواقیت الصلوات    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۰۳)

  

حدیث ۲صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی وکتاب طحاوی میں پارہئ حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ دربارہئ انکار جمع بین الصلاتین کہ عنقریب اِن شاء اللہ القریب المجیب مذکور ہوگی یہ ہے: صلی الفجر یومئذ قبل میقاتھا ۴؎۔ صبح کی نماز اس کے وقت سے پہلے پڑھی (ت)

 

 (۴؎ صحیح البخاری    باب متی یصلی الفجر بجمع    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۸)

 

ابوداؤد کے لفظ یوں ہیں: صلی صلاۃ الصبح من الغد قبل وقتھا ۵؎۔ دسویں ذوالحجہ کو مزدلفہ میں فجر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت سے پہلے پڑھی۔ (ت)

 

 (۵؎ سنن ابی داؤد    باب الصلٰوۃ بجمع    مطبوعہ مجتبائی لاہور        ۱/۲۶۷)

 

طحاوی کی روایت یوں ہے: صلی الفجر یومئذ لغیر میقاتھا ۶؎ یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ذی الحجہ کی دسویں تارےخ مزدلفہ میں صبح کی نماز اُس کے وقت سے پہلے پڑھی بے وقت پڑھی۔

 

 (۶؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین الصلاتین    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۳)

 

امام بدر عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں: قولہ قبل میقاتھا، بان قدم علی وقت ظھورطلوع الصبح للعامۃ، وقد ظھر لہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم طلوعہ، اِمّا بالوحی اوبغیرہ ۱؎۔ یعنی قبل وقت پڑھنے کے یہ معنی ہیں کہ اور لوگوں پر صبح کاطلوع کرنا ظاہر نہ ہوا تھا حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو وحی وغیرہ سے معلوم ہوگیا۔

 

 (۱؎ عمدۃ القاری شرح بخاری    باب صلاۃ الفجر بالمزدلفۃ    مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۱۰/۲۰)

 

حدیث ۳صحیح بخاری شریف میں عبدالرحمن بن زید نخعی سے خود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت ہے : ثم صلی الفجر حین طلع الفجر، قائل یقول: طلع الفجر، وقائل یقول: لم یطلع الفجر، واولہ، قال: خرجنا مع عبداللّٰہ الی مکۃ، ثم قدمنا جمعا الحدیث ۲؎۔ یعنی ہم حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ حج کو چلے مزدلفہ پہنچے وہاں حضرت عبداللہ نے نمازِ فجرطلوع فجر ہوتے ہی پڑھی کوئی کہتا فجر ہوگئی ہے کوئی کہتا ابھی نہیں۔

 

 (۲؎ صحیح البخاری    باب متی یصلی الفجر بجمع     مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۸)

 

حدیث ۴امام ابوجعفر طحاوی انہیں عبدالرحمن نخعی سے راوی: قال صلی عبداللّٰہ باصحابہ صلاۃ المغرب، فقام اصحابہ یتراء ون الشمس، فقال: ماتنظرون؟ قالوا: ننظر اغابت الشمس! فقال عبداللّٰہ: ھذا، واللّٰہ الذی لاالٰہ الّا ھو، وقت ھذہ الصلاۃ الحدیث ۳؎۔

 

یعنی عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے اصحاب کو نمازِ مغرب پڑھائی اُن کے اصحاب اُٹھ کر سورج دیکھنے لگے، فرمایا: کیا دیکھتے ہو؟ عرض کی: یہ دیکھتے ہیں کہ سُورج ڈوبا یا نہیں! فرمایا: قسم اللہ کی جس کے سوا کوئی سچّا معبود نہیں کہ یہ عین وقت اس نماز کا ہے۔

 

نماز سے فارغ ہوکر بھی اُن کے اصحاب کو شبہہ تھا کہ سورج اب بھی غروب ہوا یا نہیں فان صلی حقیقۃً فی الفعل دون الارادۃ والفاء للتعقیب  (کیونکہ صلّٰی کا حقیقی معنی نماز پڑھنا ہے نہ کہ ارادہ کرنا اور فاء تعقیب کےلئے ہے۔ ت)

 

 (۳؎ شرح معانی الآثار    باب مواقیت الصلٰوۃ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۰۷)

 

حدیث ۵: بخاری مسلم ترمذی نسائی ابن ماجہ طحاوی بطریق انس رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: قال: تسحرنا مع رسول للّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ثمّ قمنا الی الصلاۃ، قلت: کم کان قدرما بینھما؟ قال: خمسین اٰیۃ ۱؎۔ ہم نے حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر نمازِ فجر کے لئے کھڑے ہوگئے میں نے پُوچھا بیچ میں کتنا فاصلہ دیا، کہا پچاس آیتیں پڑھنے کا۔

 

 (۱؎ صحیح البخاری    باب وقت الفجر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۸۱)

 

حدیث ۶:بخاری ونسائی بطریق قتادہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: ان نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم،  وزید بن ثابت تسحرا، فلما فرغا من سحورھما قام نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم الی الصلاۃ فصلی، قلت لانس: کم کان بین فراغھما من سحورھما ودخولھما فی الصلاۃ؟  قال: قدر  مایقرء  الرجل خمسین اٰیۃ ۲؎۔ یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وزید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سحری تناول فرمائی جب کھانے سے فارغ ہوئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نمازِ صبح کے لئے کھڑے ہوگئے نماز پڑھ لی میں نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے  پُوچھا سحری سے فارغ اور نماز میں داخل ہونے میں کتنا فصل ہوا، کہا اس قدر کہ آدمی پچاس آیتیں پڑھ لے۔

 

 (۲؎ صحیح البخاری    باب وقت الفجر    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۸۲)

 

امام طور پشتی حنفی پھر علامہ طیبی شافعی پھر علامہ علی قاری شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں: ھذا تقدیر لایجوز لعموم المؤمنین الاخذ بہ، وانما اخذہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاطلاع اللّٰہ تعالٰی ایاہ، وکان صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم معصوما عن الخطأ فی الدین ۳؎۔

 

یہ اندازہ ہے کہ عام اُمّت کو اسے اختیار کرنا جائز نہیں سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اُسے اس لئے اختیار فرمایا کہ رب العزۃ جل وعلا نے حضور کو وقت حقیقی پر اطلاع فرمائی تھی اور حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دین میں خطا سے معصوم تھے۔

 

 (۳؎ مرقاۃ المفاتیح    شرح مشکوٰۃ المصابیح     الفصل الاول من باب تعجیل الصلوات     مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان            ۲/۱۳۳)

 

حدیث ۷نسائی وطحاوی  زِرّ بن حبیش سے راوی:قال: قلنا لحذیفۃ، ای ساعۃ تسحرت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم؟ قال: ھو النھار، الا ان الشمس لم تطلع ۱؎۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پُوچھا آپ نےحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ کس وقت سحری کھائی تھی؟ کہا دن ہی تھا مگر یہ کہ سورج نہ چمکا تھا۔

 

 (۱؎ سنن النسائی    الحدث علی السحو رذکر الاختلاف الخ    مطبوعہ نور محمد کتب خانہ کراچی    ۱/۳۰۳)

 

امام طحاوی کی روایت میں یوں صاف تر ہے : قلت: بعد الصبح؟ قال: بعد الصبح، غیران الشمس لم تطلع ۲؎۔ میں نے کہا بعد صبح کے، کہا ہاں بعد صبح کے مگر آفتاب نہ نکلا تھا۔

 

 (۲؎ شرح معانی الآثار    کتاب الصیام        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۳۷۸)

 

رائے فقیر میں ان روایات کا عمدہ محل یہی ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے علم نبوت کے مطابق حقیقی منتہائے لیل پر سحری تناول فرمائی کہ فراغ کے ساتھ ہی صبح چمک آئی حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو گمان ہُوا کہ سحری دن میں کھائی بعد صبح اور واقعی جو شخص سحری کا پچھلا نوالہ کھاکر آسمان پر نظر اُٹھائے تو صبح طالع پائے وہ سوا اس کے کیا گمان کرسکتا ہے۔

 

حدیث ۸:ابوداؤد نے اپنی سُنن میں باب وضع کیا: باب المسافر وھو یشک فی الوقت ۳؎۔

 

اور اس میں انہیں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جن کی حدیث میں ہم یہاں کلام کررہے ہیں روایت کی:

 

 (۳؎ سنن ابی داؤد    باب المسافر یصلی الخ        مطبوعہ مجتبائی لاہور        ۱/۱۷۰)

 

قال: کنا اذاکنا مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی السفر، فقلنا: زالت الشمس اولم تزل، صلی الظھر ثم ارتحل ۴؎۔ جب ہم حضور اقدس سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ہمراہ رکاب سفر میں ہوتے تھے ہم کہتے سورج ڈھلا یا ابھی ڈھلا بھی نہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُس وقت نمازِ ظہر پڑھ کر کُوچ فرمادیتے۔

 

 (۴؎سنن ابی داؤد    باب المسافر یصلی الخ        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۱۷۰)

  

حدیث ۹:ابوداؤد اسی باب میں اور نیز نسائی وطحاوی انہیں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اذانزل منزلا لم یرتحل حتی یصلی الظھر، فقال لہ رجل: وان کان نصف النھار؟ قال: وان کان نصف النھار ۵؎۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب کسی منزل میں اُترتے بے ظہر پڑھے کُوچ نہ فرماتے۔ کسی نے کہا اگرچہ دوپہر کو، فرمایا: اگرچہ دوپہر کو

 

 (۵؎سنن ابی داؤد    باب المسافر یصلی الخ        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۱۷۰)

 

نسائی کے لفظ یوں ہیں: فقال رجل وان کانت بنصف النھار قال وان کانت بنصف النھار ۱؎۔ یعنی کسی نے پوچھا اگرچہ وہ نماز دوپہر میں ہوتی فرمایا اگرچہ دوپہر میں ہوتی۔

 

 (۱؎ سنن النسائی     اول وقت ظہر     حدیث ۴۹۹    مطبوعہ المکتبہ سلفیہ لاہور    ۱/۵۸)

 

لطیفہ۱:  اقول ملّاجی کو تو یہ منظور ہے کہ جہاں جےسے بنے اپنا مطلب بنائیں یہاں تو قول انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کہ وقت عصر کا آغاز ہوجاتا ایسی تحقیق یقینی پر عمل کیا جس میں اصلاً گنجائش تاویل نہیں اور مسئلہ وقت ظہر میں جب علمائے حنفیہ نے حدیث صحیح جلیل صحیح بخاری شریف سے استدلال کیا کہ ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ایک سفر میں ہم حاضر رکاب سعادت سلطان رسالت علیہ افضل الصلاۃ والتحیۃ تھے مؤذن نے ظہر کی اذان دینی چاہی فرمایا وقت ٹھنڈا کر، دیر کے بعد انہوں نے پھر اذان کا قصد کیا، پھر فرمایا وقت ٹھنڈا کر، ایک دیر کے بعد انہوں نے پھر ارادہ کیا، فرمایا ٹھنڈا کر، حتی ساوی الظل التلول  (یہاں تک کہ ٹےلوں کا سایہ ان کے برابر آگیا) سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ان شدۃ الحرمن فیح جھنم ۲؎  (گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہے) تو اس میں نماز ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو، ظاہر ہے کہ ٹھیک دوپہر خصوصاً موسم گرما میں کہ وہی زمانہ ابراد ہے ٹےلوں کا سایہ اصلا نہیں ہوتا بہت دیر کے بعد ظاہر ہوتا ہے، امام اجل ابوزکریا نووی شافعی شرح مسلم شریف میں فرماتے ہیں:

 

التلول منبطحۃ غیر منتصبۃ، ولایصیرلھا فیئ فی العادۃ، الابعد زوال الشمس بکثیر ۳؎۔ ٹیلے زمین پر پھیلے ہوتے ہیں نہ بلند عادۃً ان کا سایہ نہیں پڑتا مگر سورج ڈھلنے سے بہت دیر کے بعد۔

 

 (۲؎ صحیح البخاری    باب الابراد بالظہر فی السفر دارالمعرفۃ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۷۷)

(۳؎ شرح الصحیح لمسلم مع مسلم    باب استحباب الابراد بالظہر الخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۴)

 

امام ابن اثیر جزری شافعی نہایہ میں فرماتے ہیں : ھی منبطحۃ لایظھر لھا ظل، الا اذا ذھب اکثر وقت الظھر ۴؎۔ ٹیلے پست ہوتے ہیں ان کے لئے سایہ ظاہر ہی نہیں ہوتا مگر جب ظہر کا اکثر وقت جاتا رہے۔

 

 (۴؎ فتح الباری شرح البخاری    باب الابراد بالظہر فی السفر    بیروت        ۲/۱۷)

نوٹ:    یہ حوالہ سعیِ بسیار کے باوجود نہایہ سے نہیں مل سکا اس لئے فتح الباری سے نقل کیا ہے۔ نذیر احمد سعیدی۲

 

جب خود ائمہ شافعیہ کی شہادت سے ثابت اور نیز مشاہدہ وعقل وقواعد علم ظل شاہد کہ ٹیلوں کے سائے کی ابتدا زوال سے بہت دیر کے بعد ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ سایہ ٹیلوں کے برابر اُس وقت پہنچے گا جب بلند چیزوں کا سایہ ایک مثل سے بہت گزر جائے گا اُس وقت تک حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے گرمیوں میں ظہر ٹھنڈی کرنے کاحکم فرمایا اور اس کے بعد مؤذن کو اجازتِ اذان عطا ہوئی، تو بلاشُبہہ دوسرے مثل میں وقتِ ظہر باقی رہنا ثابت ہوا جیسا کہ ہمارے امام رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مذہب ہے یہ دلیل ساطع بحمداللہ لاجواب تھی یہاں ملّاجی حالتِ اضطراب میں فرماگئے کہ مساوی کہنا راوی یعنی سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سایہ ٹیلوں کو ظاہر ہے کہ تخمیناً اور تقریباً ہے نہ باینطور کہ گزرکھ کر ناپ لیا تھا۔ کیوں حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تو گزرکھ کر نہ ناپا تھا یونہی تخمیناً مساوات بتادی مگر انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا گز  رکھ کر ناپ لینا آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا آخر دخول وقت عصر یونہی تو معلوم ہوگا کہ سایہ اس مقدار کو پہنچ جائے اُس کا علم بے ناپے کیوں کر ہوا بلکہ یہاں تو غالباً دو ناپوں کی ضرورت ہے ایک وقت نصف النہار کہ سایہ اصلی کی مقدار ناپیں دوسری اس وقت کہ سایہ بعد ظل اصلی مقدار مطلوب کو پہنچایا نہیں، جب انہوں نے ایک ناپ نہ کی یونہی تخمیناً فرمادیا انہوں نے دو۲ ناپیں کا ہے کوکی ہوں گی، یونہی تخمیناً فرمادیا ہوگا کہ عصر اوّل وقت داخل ہوگیا جیسے آپ وہاں احتمال نکالا چاہتے ہیں کہ واقع میں مساوی نہ ہوا ہوگا اور ظہر ایک مثل کے اندر ہُوئی یہاں بھی وہی احتمال پیدا رہے گا کہ واقع میں وقت عصر نہ آیا تھا ظہر اپنے ہی وقت پر ہُوئی یہ کیا حیا داری ومکابرہ ہے کہ جابجا جو باتیں خود اختیار کرتے جاؤ دُوسرا کرے تو آنکھیں دکھاؤ تحریف نصوص بتاؤ اس تحکم کی کوئی حد ہے۔

 

لطیفہ ۲:    اقول خدا انصاف دے تو یہاں تخمینہ بھی اتنی ہی غلطی ہوگی جتنی دیر میں ظہر کی دو۲ رکعتیں پڑھی جائیں اور حدیث ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں سخت فاحش غلطی ماننی پڑے گی جسے ان کی طرف بے دلیل نسبت کردینا صراحۃً سُوءِ ادب ہے، خود امام شافعی کی تصریح سے واضح ہُوا کہ سایہ تلول کی ابتداء اس وقت ہوتی ہے جب بلند چیزوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا نصف مثل سے اکثر گزرجاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ٹیلوں کا سایہ ابھی نصف مثل تک بھی نہ پہنچے گا کہ اور چیزوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا ایک مثل سے گزرجائے گا کہ اول تو جس طرح ظہور ظل میں تفاوت شدید ہے کہ اتنی دیر کے بعد ان کا سایہ پیدا ہوتا ہے یونہی زیادت ظل میں فرق رہے گا بلند چیزوں کا سایہ اپنی نسبت پر جتنی دیر میں جتنا بڑھے گا ٹیلوں کا سایہ اپنی نسبت میں اُس سے کم بڑھے گا کمالایخفی علی العارف بقواعد الفن  (جیسا کہ قواعدِ فن کے جاننے والے پر مخفی نہیں۔ ت)

 

 (ف معیارالحق    مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر الخ    مکتبہ نذیریہ لاہور    ص ۳۵۳)

 

تو لاجرم جس وقت ٹیلوں کاسایہ پیدا ہوا اور بلندیوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا نصف مثل سے زائد تھا اب کچھ دیر کے بعد بلندیوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا نصف مثل سے زائد تھا اب کچھ دیر کے بعد بلندیوں کا سایہ نصف مثل سے کم بڑھ کر ایک مثل ظل اصلی سے گزرگیا اُس وقت ٹیلوں کا سایہ اُس کم ازنصف سے بھی کم ہوگا اور اس تحفّظ نسبت تفاوت کو نہ بھی مانئے تو خیر کم ازنصف ہی جانئے پھر بہرحال اس سے اتنی دیر اور مجرا کیجئے جس میں اذان کا حکم ہوا اور اُس کے بعد جماعت فرمائی گئی تو حساب سے آپ کے طور پر اُس وقت ٹیلوں کا سایہ کوئی چہارم ہی کی قدر رہتا ہے اُسے ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمادینا کہ سایہ برابر ہوگیا تھا کس قدر بعید وناقابل قبول ہے، کیا اچھا انصاف ہے کہ یا تو تخمین میں اُتنی غلطی نامسموع کہ جس میں دو۲ رکعتیں پڑھ لیجائیں یا اپنے داؤں کو یہ بھاری غلطی مقبول کہ سیر میں پسیری کا دھوکا۔ بحمداللہ تعالٰی اس تقریر سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ وہاں تخمین سے جواب دینا محض مہمل وباطل تھا۔

 

لطیفہ ۳:    اقول وہاں ایک ستم خوش ادائی یہ کی ہے ف۱ کہ وہ تخمیناً برابر ہونا بھی مع سایہ اصلی کے ہے نہ سایہ اصلی الگ کرکے

 

وھذا لایخفی من لہ ادنی عقل

 

 (اور یہ ادنٰی سی عقل رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں۔ ت) تو دراصل سایہ ٹیلوں کا بعد نکالنے سایہ اصلی کے تخمیناً آدھی مثل ہوگا یا کچھ زیادہ اور مثل کے ختم ہونے میں اتنی دیر ہوگی کہ بخوبی فارغ ہُوئے ہوں گے۔

 

 ۱ معیارالحق مسئلہ چہارم    ص ۳۵۴    )

 

ملّاجی! ذرا کچھ دنوں جنگل کی ہوا کھاؤ ٹیلوں کی ہری ہری ڈوب ٹھنڈے وقت کی سنہری دھوپ دیکھو کہ آنکھوں کے تیور ٹھکانے آئیں علماء تو فرمارہے ہیں کہ ٹیلوں کا سایہ پڑتا ہی نہیں جب تک آدھے سے زیادہ وقت ظہر نہ نکل جائے ملّاجی ان کے لئے ٹھیک دوپہر کا سایہ بتارہے ہیں اور وہ بھی تھوڑا نہ بہت آدھی مثل جبھی تو کہتے ہیں کہ وہابی ہوکر آدمی کی عقل ٹیلوں کا سایہ زوال ہوجاتی ہے۔

لطیفہ ۴:    اقول اور بڑھ کر نزاکت فرمائی ہے ف۲ کہ مساوات سایہ کے ٹیلوں سے مقدار میں مراد نہ ہو بلکہ ظہور میں یعنی پہلے سایہ جانب شرقی معدوم تھا اور مساوات نہ تھی ٹیلوں سے کیونکہ وہ موجود نہیں اور وقت اذان کے سایہ جانب شرقی بھی ظاہر ہوگیا پس برابر ہوگیا ٹیلوں کے ظاہر ہونے میں اور موجود ہونے میں نہ مقدار میں اس جواب کی قدر۔

 

 ۲معیارالحق مسئلہ چہارم    ص ۳۵۴    )

 

ملّاجی اپنے ہی ایمان سے بتادیں وقت ٹھنڈا فرمایا یہاں تک کہ ٹیلوں کا سایہ ان کے برابر آیا اس کے یہ معنی کہ ٹیلے بھی موجود تھے سایہ بھی موجود ہوگیا اگرچہ وہ دس۱۰ گز ہوں یہ جو برابر  اے سبحٰن اللہ اسے کیوں تحریف نصوص کہے گا کہ یہ تو مطلب کی گھڑت ہے۔ ایسا لقب تو خاص بےچارے حنفیہ کا خلعت ہے۔ ملّاجی! اگر کوئی کہے میں مُلّاجی کے پاس رہا یہاں تک کہ اُن کی داڑھی بانس برابر ہوگئی تو اس کے معنی یہی ہوں گے نہ کہ ملّاجی کا سبزہ آغاز ہوا کہ پہلے بانس موجود تھا اور ملّاجی کی داڑھی معدوم، جب رُواں کچھ کچھ چمکا چمکتے ہی بانس برابر ہوگیا کہ اب بانس بھی موجود بال بھی موجود، ع

 

مرغک ازبےضہ بروں آید ودانہ طلبد

 

 (مرغ جب انڈے سے باہر آتا ہے تو دانہ طلب کرتا ہے)

  

لطیفہ ۵: اقول یہ بکف چراغی وتحریف صریح قابل ملاحظہ کہ خود ہی حنفیہ وشافعیہ کے مسئلہ مختلف فیہا میں شافعیہ سے حجت لانے کو فتح الباری امام قسطلانی سے یہ عبارت نقل کی کہ:

 

یحتمل ان یراد بھذہ المساواۃ ظھور الظل بجنب التل بعد ان لم یکن ظاھرا ۱؎۔ ہوسکتا ہے اس مساوات سے مراد یہ ہوکہ ٹیلے کے پہلو میں سایہ ظاہر ہوگیا جبکہ پہلے ظاہر نہیں تھا۔ (ت)

 

 (۱؎ فتح الباری شرح البخاری    باب الابراد بالظہر فی السفر    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت    ۲/۱۷)

 

جس میں ٹیلوں کے لئے سایہ اصلی ہونے کے صاف نفی تھی حضرت تو وہ د عوی کرچکے تھے کہ ان کا سایہ اصلی آدھے مثل کے قریب ہوتا ہے لاجرم معدوم ہونے میں جانب شرق کی قید بڑھائی کہ مشرق کی طرف معدوم تھا اور اسے فتح الباری کی طرف نسبت کردیا کہ جیسا کہ فتح الباری میں ویحتمل ان یراد الخ ملّاجی! دھرم سے کہنا یہ تحریف تو نہیں۔

لطیفہ ۶: اقول فتح الباری کے طور پر تو مشارکت فی الوجود غایت بن سکتی ہے کہ دوپہر کو ٹیلوں کا سایہ اصلاً نہ تھا دیر فرمائی یہاں تک کہ موجود ہوا اگرچہ ٹیلوں سے سایہ متساوی ہونے کے ہرگز یہ معنی نہیں مگر آپ اپنی خبر لیجئے آپ کے نزدیک تو ٹھیک دوپہر کو ٹیلوں کا سایہ آدھا مثل تھا تو ظہور ووجود میں برابری صبح سے شام تک دن بھر رہی اس غایت مقرر کرنے کے کیا معنی کہ وقت ٹھنڈا فرمایا یہاں تک کہ سایہ وجود میں ٹیلوں کے برابر ہوگیا اور جانب شرقی کی قید حدیث میں کہاں، یہ آپ کی نری من گھڑت ہے، تاویل گھڑی مساوات فی الظہور، تفریع کی مساوات فی الوجود، اور مفرع علیہ وجود شرقی، کیا جب تک وجود غربی شمالی تھا مساوات فی الوجود نہ تھی، اب کہ وجود شرقی ملا مساوات ہُوئی کچھ بھی ٹھکانے کی کہتے ہو۔

لطیفہ ۷:اقول ملّاجی! جب آپ کے دھرم میں سایہ وقت نصف النہار بھی موجود تھا تو زوال ہوتے ہی قطعاً معاً شرقی ہوا تو یہ مساوات خاص آغاز وقت ظہر پر پیدا ہوئی اور حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ مؤذن نے تین بار ارادہ اذان کیا ہر بار حکمِ ابراد وتاخیر ملا یہاں تک کہ سایہ مساوی ہواکیا یہ ارادہ ہائے اذان وحکم ہائے ابراد سب پیش اززوال ہولیے تھے شاید پہردن چڑھے ظہر کا وقت ہوجانا ہوگا، ملّاجی! تحریف نصوص اسے کہتے ہیں، ع

 

چھائی جاتی ہے یہ دیکھو تو سراپا کس پر

 

لطیفہ ۸: اقول جب کچھ نہ بنی تو ہارے درجے یہ تیسری نزاکت اس حدیث کے جواب میں ف فرمائی کہ یہ تاخیر آنحضرت عــہ۱ سے سفر میں ہوئی شاید آنحضرت عــہ۲ نے اس ارادہ سے کی ہوکہ ظہر کو عصر سے جمع کریں گے پس سفر پر حضر کو قیاس مع الفارق ہے۔ ملّاجی! ایمان سے کہنا یہ حدیث ابراد ظہر کی ہے یعنی وقت ٹھنڈا کرکے پڑھنا یا تفویت ظہر کی کہ وقت کھوکر پڑھنا، حدیث میں علّتِ حکم یہ ارشاد ہوئی ہے کہ شدتِ گرمی جوشِ جہنم سے ہے تو گرمی میں ظہر ٹھنڈا کردیا یہ کہ ابھی اذان نہ کہو ہم عصر سے ملاکر پڑھیں گے۔

 

 (ف معیارالحق    ص ۳۵۴)

 

عــہ۱وعــہ ۲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہٖ وبارک وسلم ۱۲ منہ

 

ملّاجی! اس حدیث کی شرح میں خود علمائے شافعیہ کا کلام سُنو کہ معنی ابراد میں آپ کی یہ گھڑت بھی ٹوٹے اور سفر وحضر سے فرق کی بھی قسمت پھُوٹے ارشاد الساری امام قسطلانی شافعی شرح صحیح بخاری باب الابراد بالظہر فی السفر میں اسی حدیث ابوذررضی اللہ تعالٰی عنہ کے نیچے ہے:

 

 (قال: کنا مع النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فی سفر) قیدہ ھنا بالسفر، واطلقہ فی السابقۃ، مشیرا بذلک الی ان تلک الروایۃ المطلقۃ محمولۃ علی ھذہ المقیدۃ، لان المراد من الابراد التسھیل ودفع المشقۃ، فلاتفاوت بین السفر والحضر ۱؎۔

 

 (کہا: ہم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ تھے سفر میں) یہاں سفر کے ساتھ مقید کیا ہے اور سابقہ روایت میں مطلق رکھا ہے یہ بتانے کے لئے کہ سابقہ مطلق روایت اسی مقید پر محمول ہے کیونکہ ٹھنڈا کرنے کا مقصد آسانی پیدا کرنا اور مشقت دُور کرنا ہے اور اس میں سفر حضر کا کوئی فرق نہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ ارشاد الساری شرح البخاری    باب الابراد بالظہر فی السفر    مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت    ۱/۴۸۸)

 

اسی میں ہے:(فقال لہ: ابرد، حتی رأینا فیئ التلول) وغایۃ الابراد حتی یصیر الظل ذراعا بعد ظل الزوال، اوربع قامۃ اوثلثھا اونصفھا، وقیل غیر ذلک۔ ویختلف باختلاف الاوقات: لکن یشترط ان لایمتد الی اٰخر الوقت ۲؎۔  (اس کو کہا ٹھنڈا کر، یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیا) ابراد کی انتہا یہ ہے کہ سایہ ایک گز ہوجائے زوال کے سائے کے بغیر، یا قد کا چوتھائی یا تہائی یا نصف ہوجائے، اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ اور اختلاف اوقات کے ساتھ ابراد میں بھی اختلاف واقع ہوتا رہتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ابراد اتنا زیادہ نہ ہوکہ وقت آکر ہوجائے۔ (ت)

 

 (۲؎ ارشاد الساری شرح البخاری    باب الابراد بالظہر فی السفر    مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت    ۱/۴۸۸)

 

ہاں خوب یاد آیا علمائے شافعیہ کی کیوں سُنئے آپ اپنے ہی لکھے کو نہ دیکھئے مسئلہ وقت مستحب ظہر میں ف فرمائے گئے اگر ابراد اختیار کرے تو لازم ہے کہ ایسا ابراد نہ کرے کہ وقت ظہر کا خارج ہوجائے یا قریب آجائے حد میں ابراد کی علماء میں اختلاف ہے لیکن یہ سب کے نزدیک شرط ہے کہ ابراد اس مرتبہ کا نہ کرے کہ ظہر کے آخر وقت کو پہنچ جاوے کہا فتح الباری میں اختلف العلماء فی غایۃ الابراد؛ لکن یشترط ان لایمتدالی اخر الوقت ملخصاً  (ابراد کی انتہاء میں علماء کا اختلاف ہے لیکن یہ شرط ہے کہ آخر وقت تک نہ پہنچے۔ ت)

 

 (ف معیارالحق مسئلہ سوم وقت مستحب ظہر    ص ۳۱۱، ۳۱۲)

 

جب آخر وقت کے قریب تک نہ آنا لازم وشرطِ ابراد ہے تو حکم ابراد کو خارج وقت پر حمل کرنا کیساعذر بارد ہے، ملّاجی!

ایمان سے کہنا یہ حدیث سے جواب ہے یا اپنی سخن پروری کے لئے صراحۃً نص شرع کی تحریف حدیث صحیح کارد۔ شافعیہ حنفیہ کے مکالمات محض تفنن طبع کے لئے ہیں ورنہ مذاہب متقرر ہوچکے۔

علّامہ زرقانی مالکی شرح مواہب آخر جلد ہفتم میں فرماتے ہیں:

 

قداجاب الحافظ ابن حجر، عن ذلک وعن غیرہ من ادلۃ المانعین، وھی عشرۃ، بمایطول ذکرہ، مع انہ لاکبیر فائدۃ فیہ، اذالمذاھب تقررت، انما ھو تشحیذ اذھان ۱؎۔

 

ابن حجر نے اس دلیل کا بھی اور مانعین کی دیگر دس۱۰ دلیلوں کا بھی جواب دیا ہے مگر ان کے ذکر سے طوالت ہوتی ہے اور کوئی نمایاں فائدہ بھی نہیں ہے کیونکہ مذاہب تو مقرر ہوچکے ہیں (اور ایسے سوال جواب) محض ذہن کو تیز کرنے کا کام دیتے ہیں۔ (ت)

 

 (۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب    ذکر تہجد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطبوعہ مطبعۃ عامرہ مصر    ۷/۴۵۰)

 

آپ اپنی خبر لیجئے آپ تو محقق مجتہد ہیں سب ارباب مذاہب کی ضد ہیں آپ کیوں صحیح بخاری کی حدیث جلیل میں یوں کھلی تحریفیں کررہے ہیں دعوے باطلہ عمل بالحدیث کے چھلکے اُتررہے ہیں۔ ع

شرم بادت ازخدا وازرسول

(تم خدا اور رسول سے شرم کھاؤ)

لطیفہ ۹:    اقول ملّاجی خود جانتے تھے یہ تاویلیں نہیں محض مہمل پوچ تقریروں سے جیسے بنے حدیث کو رَد کرنا ہے لہذا عذر بدتر ازگناہ کیلئے ارشاد ہوتا ہے ف منشا تاویلات کا یہی ہے کہ احادیث صحیحہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد ایک مثل کے وقتِ ظہر نہیں رہتا ثابت ہیں پس جمیعا بین الادلہ یہ تاویلیں حقہ کی گئیں۔ ان تاویلوں کو حقہ کہنا تو دل میں خوب جانتے ہوگے کہ جھُوٹ کہہ رہے ہو خاک حقہ تھیں کہ ایک دم میں سُلفہ ہوگئیں مگر اس ڈھٹائی کا کہاں ٹھکانا کہ صحیح حدیث بخاری شریف کو بحیلہ جمع بین الادلہ یوں دانستہ بگاڑلے حالانکہ نہ قصد واحد نہ لفظ مساعد اور حدیث ابن عمر دربارہ غیبت شفق میں باوصف اتحاد قصہ جمع بین الا دلہ حرام اور رد احادیث صحاح واجب الالتزام۔

 

 (ف معیارالحق مسئلہ چہارم    ص ۳۵۴)

  

لطیفہ ۱۰: اقول جمع تقدیم کی نامندمل جراحت بھرنے کو حدیث ابوجحیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ میں وہ لَن ترانیاں تھیں کہ ظاہر پر حمل واجب ہے جب تک مانع قطعی نہ ہو اَب اپنے داؤں کو ظاہر نص صریح کے یوں ہاتھ دھوکر پیچھے پڑے خیر بحمداللہ آپ ہی کی گواہی سے ثابت ہولیا کہ جمع بین الادلہ کے لئے ایسی رکیک وپوچ ولچر تاویلات تک روا ہیں تو یہ صاف ونظیف وشائع ولطیف معانی ومحامل کہ ہم نے جمعا بین الادلہ احادیث ابن عمرو انس رضی اللہ تعالٰی عنہم میں اختیار کیے ان میں اپنی چُون وچرا کی گلی آپ نے خود بند کرلی، واللہ الحمد، ع:

 

عدد شود سبب خیر گر خدا خواہد

 

طرفہ یہ کہ آپ مستدل ہیں اور ہم خصم جب آپ کو ایسے لچریات نفع دیں گے ہمیں یہ واضحات بدرجہ اولٰی نافع اور آپ کے تمام ہوا حس و وساوس کے قاطع ہوں گے۔

 

فائدہ عائدہ: سُنن میں ایک حدیث اور ہے جس سے ناواقف کو جمع تاخیر کا وہم ہوسکے فقیر نے کلامِ فرےقین میں اُس سے استناداً جواباً اصلاً تعرض نہ دیکھا، ملّاجی بہت دُور دُور کے چکّر لگاآئے، جہاں کچھ بھی لگتی پائی بلکہ نری بے لگاؤ بھی جمع کرلائے سُنن کچھ دُور نہ تھیں اُس کے آس پاس گھُوما کئے مگر اُس سے دہنے بائیں کترائے اسی سے اس کا نہایت نامفیدی میں ہونا ظاہر مگر شاید اَب کسی نئے متوہم یا خود حضرت ہی کو تازہ وہم جاگے لہذا اس سے تعرض کردینا مناسب،

 

ففی سنن ابی داود، حدثنا احمد بن صالح نایحیی بن محمد الجاری ۱؎، وفی سنن النسائی، اخبرنا المؤمل بن اھاب، قال: حدثنی یحیی بن محمدن الجاری ۲؎، وفی مصنف الطحاوی، حدثنا علی بن عبدالرحمٰن ثنا نعیم بن حماد ۳؎ قالا عــہ نا عبدالعزیز بن محمد (زاد نعیم) الدراوردی، عن مالک عن ابن الزبیر عن جابر، ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم غربت لہ الشمس بمکۃ، فجمع بینھما بسرف ۱؎ (زاد نعیم) یعنی الصلاۃ۔ ولفظ المؤمل: غابت الشمس ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بمکۃ، فجمع بین الصلاتین بسرف ۲؎۔ قال ابوداود: حدثنا محمد بن ھشام جار احمد بن حنبل ناجعفر بن عون عن ھشام بن سعد، قال: بینھما عشرۃ امیال، یعنی بین مکۃ وسرف ۳؎۔

 

سنن ابی داؤد میں ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے احمد ابن صالح نے، اس نے کہا کہ خبر دی ہمیں یحیٰی ابن محمد جاری نے۔ اور سنن نسائی میں ہے کہ خبر دی ہمیں مؤمل ابن الوہاب نے، اس نے کہا حدیث بیان کی مُجھ سے یحیٰی ابن محمد جاری نے۔ اور مصنّف طحاوی میں ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے علی ابن عبدالرحمن نے، اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے نعیم ابن حماد نے۔ دونوں نے کہا کہ خبر دی ہم کو عبدالعزیز ابن محمد نے (نعیم نے ''دراوردی'' کا اضافہ کیا ہے) مالک بن ابی الزبیر سے، اس نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے  کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکّہ میں تھے تو سُورج غائب ہوگیا چنانچہ جمع کیا آپ نے دونوں کو سَرِف میں (نعیم نے اضافہ کیا) یعنی نماز کو۔ اور مؤمل کے الفاظ یوں ہیں سُورج غائب ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکہ میں تھے تو آپ نے دونوں نمازوں کو سَرفِ میں جمع کیا۔ ابوداؤد نے کہا کہ مجھ کو احمد ابن حنبل کے ہمسائے محمد بن ہشام نے بتایا کہ جعفر ابن عون نے ہشام ابن سعد سے روایت کی ہے کہ دونوں کے درمیان دس۱۰ میل کا فاصلہ ہے یعنی مکّہ اور سَرِف کے درمیان۔ (ت)

 

عــہ ای یحیی عندالاولین ونعیم عندالطحاوی ۱۲ منہ (م)

یعنی یحیٰی سے پہلے دو۲ (ابوداؤد اور نسائی) کے ہاں اور نعیم طحاوی کے ہاں ۱۲ منہ (ت)

 

 (۱؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین        مطبوعہ مجتبائی لاہور        ۱/۱۷۱)

(۲؎ سنن النسائی    الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ۱/۶۹)

(۳؎ شرح معانی الآثار    باب الجمع بین الصلاتین الخ        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۱)

(۱؎ شرح معانی الاثار    باب الجمع بین الصلاتین الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۱)

(۲؎ سنن النسائی    الوقت الذی یجمع المقیم الخ        مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور    ۱/۶۹)

(۳؎ سنن ابی داؤد    باب الجمع بین الصلاتین الخ        مطبوعہ مجتبائی لاہور    ۱/۱۷۱)

 

یعنی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو مکّہ معظمہ میں آفتاب ڈوباپس مغرب وعشا موضع سَرِف میں جمع فرمائیں ابوداؤد نے ہشام بن سعد سے (کہ ملّاجی کے حسابوں رافضی مجروح مردود الروایہ متروک الحدیث ہے تقریب میں کہا صدوق، لہ اوھام، ورمی بالتشیع) نقل کی کہ مکّہ وسَرِف میں دس۱۰ میل کا فاصلہ ہے۔

اقول وباللہ التوفیق اصول حدیث ونیز اصول محدثہ ملاجی پر یہ حدیث ہرگز قابل حجت نہیں اصولِ حدیث پر اُس کی سند ضعیف اور اصولِ مُلّائیہ پر ضعف درضعف درضعف کیا جانیے کتنے ضعفوں کی طومار اور نری مردود متروک ہے۔

اولاً دو طریق پیشین میں یحیٰی بن محمد جاری ہے تقریب میں کہا: صدوق ویخطیئ (سچّا ہے مگر خطا کرتا ہے۔ ت) امام بخاری نے فرمایا: یتکلمون فیہ (ائمہ محدثین اُس پر طعن کرتے ہیں۔ ت) میزان میں یہی حدیث اس کے ترجمہ میں داخل کی اور کتب ضعفا میں زیر ترجمہ ضعفا اُن کی منکر حدیثیں ذکر کرتے ہیں اور اس کے ساتھ طریق دوم میں مؤمل بن اہاب ہے تقریب میں کہا: صدوق لہ اوھام (سچّا ہے، اس کو اوہام ہیں۔ ت) طریق ثالث میں نعیم بن حماد ہے یہ اگرچہ فقیہ وفرائض وان تھا مگر حدیثی حالت میں یحیٰی سے بھی بدتر ہے تقریب میں کہا صدوق یخطئ کثیرا (سچّا ہے مگر خطا بہت کرتا ہے۔ ت) یہاں تک کہ ابوالفتح ازدی نے کہا: حدیثیں اپنے جی سے گھڑتا اور امام ابوحنیفہ کے مطاعن میں جھوٹی حکایتیں وضع کرتا تھا یہ اگرچہ مجازفات ازدی سے ہو مگر ذہبی نے طبقات الحفاظ ومیزان الاعتدال دونوں میں اُس کے حق میں قول اخیریہ قرار دیا کہ وہ باوصف امامت منکر الحدیث ہے قابل احتجاج نہیں جامع صحیح میں اس کی روایت مقرونہ ہے نہ بطور حجیت، امام جلال الدین سیوطی ذیل اللالی میں اُس کی حدیث اذا  اراداللّٰہ ان ینزل الی السماء الدنیا نزل عن عرشہ بذاتہ (جبب اللہ تعالٰی آسمانِ دنیا پر اُترنا چاہتا ہے تو بذاتہٖ عرش سے اُترآتا ہے۔ ت) ذکر کرکے فرماتے ہیں: اتعبنا نعیم بن حماد، من کثرۃ مایاتی بھذہ الطامات، وکم ندرؤ عنہ وعن الطرطوسی الراوی عنہ؟ فلاادری، البلاء فی الحدیث منہ، اومن شیخہ نعیم ۱؎! اھ ملخصا یعنی نعیم بن حماد اس کی کثرت سے یہ طامّات روایتیں لاتا ہے کہ ہم تھک گئے کہاں تک اُس کا اور اس کے شاگرد طرطوسی کا بچاؤ کریں مجھے نہیں معلوم کہ اس حدیث میں بَلا اُس کی طرف سے اُٹھی یا اُس کے اُستاد نعیم سے۔

 

 (۱؎ ذیل اللالی        کتاب التوحید     مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل        ص ۲ و ۳)

 

ثانیا پھر ان سب طرق میں عبدالعزیز بن محمد دراوردی ہے تقریب میں کہاـ صدوق، کان یحدث من کتب غیرہ فیخطیئ ۲؎  (سچّا ہے، مگر دوسروں کی کتابوں سے حدیثیں بیان کرتا ہے اس لئے خطا کرتا ہے۔ ت) تو ہر طریق میں دو۲ راوی صدوق یخطیئ (سچّا ہے مگر خطا کرتا ہے۔ ت) ہوئے خصوصاً ثالث میں تو ایک کثیر الخطاء اور ثانی میں تیسرا صدوق لہ اوھام (سچّا ہے، اس کو اوہام ہیں۔ ت) اور ملّاجی کے اصول پر ایسے رواۃ کی حدیثیں مردود ومتروک وواہیات ہیں۔

 

 (۲؎ تقریب التہذیب    ترجمہ عبدالعزیز بن محمد    مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ    ص ۲۱۶)

 

ثالثا مدار حدیث ابوالزبیر عن جابر پر ہے ابوالزبیر کی نسبت خود ملّاجی کہہ گئے کہ وہ فقط صدوق ہے اور اس کے ساتھ مدلس قال فی التقریب صدوق الا انہ یدلس ۳؎  (تقریب میں کہا کہ سچّا ہے مگر مدلس ہے۔ ت)

 

 (۳؎ تقریب التہذیب    محمد بن مسلم     مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ    ص ۳۱۸)

 

اور یہاں اُن عــہ سے راوی لیث بن سعد نہیں اور روایت میں عنعنہ کیا اور عنعنہ مدلس اصولِ محدثین پر نامقبول۔

 

عــہ قید بھذا، لان الرادی عنہ اذاکان اللیث، زال مایخشی من تدلیسہ، کماافادہ فی فتح المغیث وغیرہ، فلیحفظ فانھا فائدۃ نفیسۃ۔ وقد بین السبب فی ذلک فی المیزان فراجعہ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

یہ قید اس لئے لگائی ہے کہ اگر اس سے روایت کرنے والا لیث ہوتو پھر اس کی تدلیس کا خطرہ باقی نہیں رہتا، جیسا کہ فتح المغیث اور دوسری کتابوں میں افادہ کیا گیا ہے۔ اس کو یاد رکھو، کیونکہ یہ ایک نفیس فائدہ ہے۔ تدلیس کا خطرہ نہ ہونے کا سبب میزان میں مذکور ہے اس کا مطالعہ کرو۔ (ت)

 

رابعا میلوں کی گنتی حدیث میں نہیں نہ زید وعمرو کی ایسی حکایات پر وہ اعتماد ضرور جس کے سبب توقیت صلاۃ کا حکم معروف ومشہور ثابت بالقرآن العظیم والاحادیث الصحاح چھوڑ دیا جائے خصوصاً ملّاجی کے نزدیک تو یہ دس میل بتانے والا رافی متروک ہے زمینوں کا ناپنا میلوں کا گننا ان حملہ ورواۃ کا کام نہ تھا بلکہ سرے سے ان اعصار وامصار میں اس طریقہ کا اصلاً نام نہ تھا یونہی ہر شخص اپنے تخمینہ سے یا کسی اور کی سُنی سنائی بتادیتا ولہذا شمار میں اس قدر شدت سے اختلاف پڑتا ہے کہ ان گنتیوں سے امان اٹھائے دیتا ہے۔ ذوالحلیفہ کہ مکہ معظمہ کے راستے پر مدینہ طیبہ کے قریب ایک مشہور ومعروف مقام ہے اُس کے اختلاف دیکھئے امام اجل رافعی احد شیخین مذہب شافعی اور اُن سے پہلے امام ابوالمحاسن عبدالواحد بن اسمٰعیل بن احمد شافعی معاصر امام غزالی اور اُن سے بھی پہلے امام ابونصر عبدالسید بن محمد شافعی نے فرمایا: مدینہ سے ایک میل ہے۔ امام قسطلانی شافعی نے فرمایا: یہ وہم ہے بشہادت مشاہدہ مردود۔ بعض نے کہا دو۲ ایک میل۔ امام عینی نے فرمایا: چار۴ میل۔ امام حجۃ الاسلام شافعی نے فرمایا: چھ۶ میل ہے۔ اسی طرح امام مجد شافعی نے قاموس میں کہا۔ امام اجل ابوزکریا نووی شافعی نے فرمایا: یہی صحیح ہے۔ بعض علما نے کہا: سات میل۔ امام جمال اسنوی شافعی نے فرمایا: حق یہ کہ تین میل ہے یا کچھ قدرے قلیل زیادہ ہو مشاہد اس پر گواہ ہے۔ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں ہے:

 

بعدہ من المدینۃ میل، کماعندالرافعی، لکن فی البسیط انھا علٰی ستّۃ امیال، وصححہ فی المجموع، وھو الذی قالہ فی القاموس۔ وقیل: سبعۃ۔ وفی المھمات: الصواب، المعروف بالمشاھدۃ انھا علی ثلثۃ امیال اوتزید قلیلا ۱؎۔

 

 (۱؎ ارشاد الساری شرح البخاری    کتاب المواقیت    باب فرض مواقیت الحج والعمرۃ    مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ

بیروت۳/۹۸)

 

اُسی میں ہے: وقول من قال، کابن الصباغ فی الشامل، والرویانی فی البحر، انہ علی میل من المدینۃ وھم، یردہ الحس ۲؎۔

 

 (۲؎ ارشاد الساری شرح البخاری    باب مہل اہل مکہ للحج والعمرۃ    مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت    ۳/۹۹)

 

عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے: من المدینۃ علی اربعۃ امیال ومن مکۃ علی مائتی میل، غیر میلین وقیل: بینھما وبین المدینۃ میل اومیلان ۳؎ دیکھئے ایسے معروف مقام میں کہ شارع نے اُسے اہلِ مدینہ کے لئے میقات احرام مقرر فرمایا ایسے اجلہ ائمہ میں ایسے شدید اختلاف ہیں جنہیں ترازوئے تخمینہ کی جھونک کسی طرح نہیں سہار سکتی ایک۱ دو۲ تین۳ چار۴ چھ۶ سات۷ میل تک اقوال مختلف، پھر تصحیحوں میں بھی دونا دون کا تفاوت، ایک فرمائے چھ۶ میل صحیح ہے دوسری فرمائے تین میل حق ہے۔

 

 (۳؎ عمدۃ القاری شرح البخاری     باب قول اللہ تعالٰی یاتوک رجالا الخ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۹/۱۳۰)

  

موطائے امام مالک میں بسند صحیح علٰی شرط الشیخین ہے: عن یحیی بن سعید انہ قال لسالم بن عبداللّٰہ مااشد مارأیت اباک اخر المغرب فی السفر فقال سالم غربت الشمس ونحن بذات الجیش فصلی المغرب المغرب بالعقیق ۱؎ (یعنی یحیٰی بن سعید انصاری نے امام سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے پُوچھا آپ نے اپنے والد ماجد کو سفر میں مغرب کی تاخیر زیادہ سے زیادہ کس قدر کرتے دیکھا فرمایا ذات الجیش میں ہمیں سورج ڈُوبا اور مغرب عقیق میں پڑھی)

 

 (۱؎ مؤطا امام مالک    قصر الصلٰوۃ فی السفر    مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی    ص ۱۲۹)

 

اب رواۃ مؤطا تلامذہ امام مالک میں ان دونوں مقاموں کے فاصلہ میں اختلاف پڑا۔ یحیٰی کی روایت میں ہے دو میل یا کچھ زائد، عبداللہ بن وہب نے کہا چھ۶ میل، محمد بن وضاح اندلسی تلمیذ التلمیذ امام مالک نے کہا سات میل، عبدالرحمن بن قاسم نے کہا دس۱۰ میل، علامہ زرقانی نے جزم کیا کہ بارہ۱۲ میل شرح مؤطا میں فرمایا: بینھما اثنا عشرمیلا، وقال ابن وضاح: سبعۃ امیال، وقال ابن وھب: ستۃ، وقال القعنبی: ذات الجیش علی بریدین من المدینۃ، وقال البونی فی روایۃ یحیٰی: وبینھما میلان اواکثر قلیلا، وفی روایۃ ابن القاسم: عشرۃ امیال ۲؎۔ ان اختلافات کو خیال کیجئے کہاں دو۲ میل کہاں بارہ۱۲ میل۔

 

 (۲؎ شرح الزرقانی علی المؤطا    قصر الصلٰوۃ فی السفر    مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر        ۱/۲۹۷)

 

خامساًیہ واقعہ عین ہے اور وقائع عین مساغ ہرگونہ احتمالات سرعت سیر کے لئے کوئی حد محدود نہیں کہ اس سے زائد نامتصور ہو ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا سہ منزلہ کرنا اُوپر گزرا ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی حدیث میں ہے : اصبح النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بملل ثم راح وتعشی بسرف ۔ سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ملل میں صبح ہوئی پھر تشریف لے چلے اور شام کا کھانا سرف میں تناول فرمایا۔

فصل اول میں گزرچکا کہ مَلل مدینہ طیبہ سے سترہ۱۷ میل ہے اور یہیں کلام امام بدر محمود عینی سے منقول ہوا کہ مدینہ طیبہ مکہ معظمہ سے دو کم دو سومیل ہے اب سترہ وہ اور دس میل سرف کے نکال لیجئے تو ایک دن میں ایک سو اکہتر میل راہ طے ہوئی پھر غروب شمس سے اتنے قرب عشا تک کہ ہنوز بقدر تین رکعت پڑھ لینے کے مغرب کا وقت باقی ہو دس میل قطع ہوجانا کیا جائے عجب ہے خصوصاً اواخر جوزا و ا و ا ئل سرطان میں کہ ان دنوں حوالیِ مکّہ معظمہ میں وقت مغرب عــہ کم وبیش ڈےڑھ گھنٹا ہوتا ہے اعتبار نہ آئے تو آزما دیکھئے کہ عمدہ گھوڑے تیز ناقے ڈےڑھ چھوڑ ایک ہی گھنٹے میں دس۱۰ میل بلکہ زائد قطع کرلیں گے

 

عــہ اقول لتکن الشمس عنددخول العشاء فی اول السرطان میلہ الح الرتمام

 

عرض المکۃ المکرمۃ سح ک غایۃ الانحطاط بالتفریق مدفح جیبہ ک الدظل عرض مکۃ الح ماح لح * ظل المیل الوالہ الہ لامنحطا= ی حہ ک الح جیب تعدیل النھار قوسہ ط حہ نہ الح - صہ حہ = ف حہ ء لر نصف قوس اللیل سہمہ مط حہ لط لر* جیب انحطاط الوقت ح حہ الح= ع ک مہ الدح سو÷ ک الد= کا حہ مدمح- مط لطالر= الرحہ ندمط سھم فضل الدائر قوسہ نرحہ م ف حہ ء لر= حہ الدک دائر* ع قہ= ا ت الط لرھذا تقریب ووجوہ التدقیق تعلم ان شاء اللّٰہ تعالٰی من کتابنا زیج الاوقات للصوم والصلٰوۃ وفقنا اللّٰہ تعالٰی لاکمالہ ونفعنا والمسلمین باعمالہ اٰمین ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔ (م)

 

حدیث مؤطا میں کہ ابھی مذکور ہوئی جزم علّامہ زرقانی اور نیز روایت ابن القاسم تلمیذ امام مالک پر اس کی نظیر یہیں پیش نظر اوپر ثابت ہوچکا کہ سالم قائل جمع نہیں وہ تصریحاً فرماچکے کہ اُن کے والد ماجد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مزدلفہ کے سوا کبھی جمع نہ فرمائی تو لاجرم غروب آفتاب کے بعد دس بارہ میل چلے اور مغرب وقت میں پڑھی ولہذا ابوالولید باجی مالکی نے اس حدیث کی شرح میں کہا: ارادان یعرف اخر وقتھا المختار ۱؎ یحیٰی بن سعید انصاری کا اس سوال سے یہ ارادہ تھا کہ مغرب کا آخر وقت مختار معلوم کریں۔

 

 (۱؎بحوالہ المنتقی شرح الزرقانی علی المؤطا قصر الصلٰوۃ فی السفر    مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۱/۲۹۷)

 

نتقی میں کہا: وحمل ذلک علی المعروف من سیر من جد ۲؎ خروج وقت پر پڑھنا ہوتا تو کوشش سیر پر حمل کی کیا حاجت تھی بالجملہ حدیث برتقدیر صحت بھی اصلا جمع حقیقی کی مفید نہ جمع صوری سے جدا وبعید والحمداللہ العلی المجید۔

 

 (۲؎ بحوالہ المنتقی شرح الزرقانی علی المؤطا قصر الصلٰوۃ فی السفر    مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۱/۲۹۷)

 

الحمد للہ کلام اپنے ذروہ اقصے کو پہنچا اور جمع تقدیم وتاخیر دونوں میں ملّاجی کا ہاتھ بالکل خالی رہ گیا، ایک حدیث سے بھی جمع حقیقی اصلاً ثابت نہ ہوسکی وللہ الحجۃ السامیہ امید کرتا ہوں کہ اس فصل بلکہ تمام رسالہ میں ایسا کلام شافی ومتین وکافی ومبین برکات قدسیہ روح زکیہ طیبہ علیہ امام الائمہ مالک الازمہ کاشف الغمہ سراج الامہ سیدنا امام اعظم واقدم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حصّہ خاصہ فقیر مہین ہو والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔

 

فصل چہارم۴ نصوص نفی جمع وہدایت التزام اوقات میں۔

 

یہ نصوص دو۲ قسم ہیں اوّل عامہ جن میں تعیین اوقات کا بیان یا اُن کی محافظت کی ترغیب یا اُن کی محافظت سے ترہیب ہے جس سے ثابت ہوکہ ہر نماز کے لئے شرع مطہر نے جُدا وقت مقرر فرمایا ہے کہ اُس سے پہلے ہوسکے نہ اُسے کھوکر دوسرے وقت پر اٹھارکھی جائے بلکہ ہر نماز اپنے ہی وقت پر ہونی چاہے۔ دوم خاصہ جن میں بالخصوص جمع بین الصلاتین کی نفی ہے۔

قسم اول نصوص عامہ (الاٰیات) رب العزۃ تبارک وتعالٰی نے محافظت والتزامِ اوقات کا حکم سات۷ سورتوں میں نازل فرمایا:

(۱) بقرہ     (۲) نساء     (۳) انعام (۴) مریم (۵) مومنون (۶) معارج    (۷) ماعون

 

آیت ۱    قال بنا عزمن قائل: ان الصلٰوۃ کانت علی المؤمنین کتٰباً موقوتا ۱؂

 

بیشک نماز مسلمانوں پر فرض ہے وقت باندھا ہوا۔

 

 (۱؎ القرآن  ۴/ ۱۰۳)

 

کہ نہ وقت سے پہلے عــہ صحیح نہ وقت کے بعد تاخیر روا، بلکہ فرض ہے کہ نماز اپنے وقت پر ادا ہو۔ میں یہاں معنی آیت میں کلامِ علمائے کرام لاؤں اس سے بہتر یہی ہے کہ خود ملّاجی کی شہادت دلاؤں،

 

عــہ:  ھذا، لاخلاف فیہ بین العلمائ، الاشیئ روی عن ابی موسٰی الاشعری وعن بعض التابعین اجمع العلماء علی خلافہ، ولاوجہ لذکرہ ھھنا لانہ لایصح عنھم، وصح عن ابی موسٰی خلافہ مماوافق الجماعۃ، فصار اتفاقا صحیحا اھ عمدۃ القاری ۱۲ منہ (م)

 

اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ابوموسٰی اشعری اور بعض تابعین سے جو کچھ مروی ہے اس کے خلاف علماء کا اجماع ہے اور اس کو یہاں ذکر کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں کیونکہ وہ ابوموسٰی سے بصحت منقول نہیں نہیں ہے بلکہ ابوموسٰی سے، اس کے خلاف اور جمہور کے موافق قول صحیح طور پر ثابت ہے، اس لئے سب کا متفق ہونا ہی درست قرار پایا اھ عمدۃ القاری ۱۲ منہ (ت)

 

مسئلہ وقتِ ظہر میں ایک مثل تک تمامی وقت بتانے کیلئے فرماتے ہیں کہا اللہ تعالٰی نے ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتٰبا موقوتا

 

یعنی ہر نماز کا وقت علیحدٰہ علیحٰدہ ہے تفسیر مظہری میں ہے قولہ تعالٰی: کتٰباً موقوتا، یقتضی کون الوقت لکل صلٰوۃ وقتا علیحدہ تو مقتضا آیت کا یہی ہے کہ ایک نماز کے وقت میں دوسری نماز ادا نہیں ہوسکتی ۲؎۔ ع

مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری

 

 (۲؎ معیارالحق    مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر مکتبہ نذیریہ لاہور    ص ۳۱۷)

 

آیت ۲    قال مولٰنا جل وعلا: حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ الوسطٰی وقومواللّٰہ قانتین ۱؎o محافظت کرو سب نمازوں اور خاص بیچ والی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے۔

 

 (۱؎ القرآن الحکیم    ۲/۲۳۸)

  

محافطت کرو کہ کوئی نماز اپنے وقت سے اِدھر اُدھر نہ ہونے پائے، بیچ والی نماز نمازِ عصر ہے اُس وقت لوگ بازار وغیرہ کے کاموں میں زیادہ مصروف ہوتے ہیں اور وقت بھی تھوڑا ہے اس لئے اُس کی خاص تاکید فرمائی۔ بیضاوی شریف علّامہ ناصرالدین شافعی میں ہے: حافظوا علی الصلوات، بالاداء لوقتھا والمداومۃ علیھا ۲؎۔ نمازوں کی محافظت کرو، یعنی وقت پر اداکرو اور ہمیشہ کرو۔ (ت)

 

 (۲؎ انوار التنزیل المعروف تفسیر البیضاوی تحت آیۃ حافظوا علی الصلوات الخ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۱)

 

مدارک شریف میں ہے: حافظوا علی الصلوات، داوموا علیھا لمواقیتھا ۳؎۔ نمازوں پر محافظت کرو، یعنی ہمیشہ بروقت پڑھو۔ (ت)

 

 (۳؎ تفسیر النسفی المعروف تفسیر مدارک ،تحت آیۃ حافظوا علی الصلوات الخ مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت ۱/۱۲۱)

 

ارشاد العقل السلیم میں ہے : حافظوا علی الصلوات ای داوموا علٰی ادائھا لاوقاتھا من غیر اخلال بشیئ منھا ۴؎۔

 

نمازوں پر محافظت کرو، یعنی ہمیشہ بروقت پڑھو اور ان میں کسی قسم کا خلل نہ واقع ہونے دو۔ (ت)

 

(۴؎ ارشاد العقل السلیم        تحت آیۃ حافظوا علی الصلوات الخ مطبوعہ احیاء التراث العربی ۱/۲۳۵)

 

آیت ۳    قال العلی الاعلی تبارک وتعالٰی: والذین ھم علی صلاتھم یحٰفظونo اولٰئک ھم الوارثونo الذین یرثون الفردوس ھم فیھا خالدون ۵؎o اور وہ لوگ جو اپنی نماز کی نگہداشت کرتے ہیں کہ اُسے وقت سے بے وقت نہیں ہونے دیتے وہی سچّے وارث ہیں کہ جنّت کی وراثت پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

 

(۵؎ القرآن        ۲۳/۹ و ۲۳/۱۰ و ۲۳/۱۱)

 

معالم شریف امام بغوی شافعی میں ہے: یحافظون، ای یداومون علی حفظھا ویراعون اوقاتھا، کررذکر الصلاۃ لیتبین المحافظۃ علیھا واجبۃ ۱؎۔

 

محافظت کرتے ہیں یعنی ہمیشہ نگہبانی کرتے ہیں اور ان کے اوقات کا خیال رکھتے ہیں۔ نماز کا ذکر مکرر کیا ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ اس کی محافظت واجب ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ تفسیر البغوی المعروف معالم التنزیل مع الخازن    تحت آیۃ مذکورہ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۵/۳۳)

 

آیت ۴    قال المولی الاجل عزّوجل: والذین ھم علٰی صلاتھم یحافظونo اولئک فی جنّٰت مکرمون ۲؎۔ اور وہ لوگ کہ اپنی نماز کی محافظت کرتے ہیں ہر نماز اس کے وقت میں ادا کرتے ہیں وہ جنّتوں میں عزت کئے جائیں گے۔

 

 (۲؎ القرآن    ۷۰/۳۴ و ۷۰/۳۵)

 

جلالین شریف امام جلال الملّۃ والدّین شافعی میں ہے: یحافظون، بادائھا فی اوقاتھا ۳؎  (محافظت کرتے ہیں یعنی وقت پر ادا کرتے ہیں۔ ت)

 

 (۳؎ تفسیر جلالین    آیہ مذکورہ کے تحت        مطبوعہ مجتبائی دہلی        ۲/۴۷۲)

 

نسفی شریف میں ہے :المحافظۃ علیھا ان لاتضیع عن مواقیتھا ۴؎۔ نماز کی محافظت یہ ہے کہ اپنے اوقات سے ضائع نہ ہو۔ (ت)

 

 (۴؎ تفسیر النسفی    آیہ مذکورہ کے تحت        مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت    ۴/۲۹۲)

 

آیت ۵    قال المولی تقدس وتعالٰی: والذین یؤمنون بالاٰخرۃ یؤمنون بہ وھم علی صلاتھم یحافظون ۵؎o اور جنہیں آخرت پر یقین ہے وہ قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

 

ہ وقت سے باہر نہ ہوجائیں۔

 

 (۵؎ القرآن        ۶/۹۲)

 

تفسیر کبیر عــہ میں ہے : المراد بالمحافظۃ التعھد لشروطھا من  وقت  وطھارۃ  وغیرھما  والقیام علی ارکانھا واتمامھا حتی یکون  ذلک دابہ فی کل وقت ۶؎۔

 

محافظت سے مراد یہ ہے کہ وقت اور طہارت وغیرہ تمام شروط کو ملحوظ رکھا جائے، اس کے ارکان کو قائم کیا جائے اور اسے مکمل کیا جائے یہاں تک کہ جب نماز کا وقت آئے تو آدمی ان کاموں کو بطور عادت کرنے لگے۔ (ت)

 

عــہ: ذکرہ تحت ایۃ المؤمنون ۱۲ منہ (م) یہ انہوں نے سورۃ مومنون ۲۳ کی آیۃ ۹ کے تحت ذکر کیا ہے ۱۲ منہ (ت)

 

 (۶؎ التفسیر الکبیر    والذین ہم علٰی صلوٰتہم یحافظون کے تحت    مطبوعہ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر    ۲۳/۸۱)

 

محافظتِ وقت کے یہ معنی جو ہم نے علمائے حنفیہ کے سوا ہر آیت میں علمائے شافعیہ سے نقل کئے کہ ہر نماز اپنے ہی وقت پر ہو خود احادیث میں ارشاد ہوئے جن کا ذکر عنقریب آتا ہے اِن شاء اللہ تعالٰی۔ آیت ۶    قال رب العلی عزّوعلا : ثم خلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلٰوۃ ۱؎۔ پھر آئے ان کے بعد وہ برے پسماندہ جنہوں نے نمازیں ضائع کیں۔

 

 (۱؎ القرآن        ۱۹/۵۹)

 

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اخروھا عن مواقیتھا وصلوھا لغیر وقتھا ۲؎۔

 

 (یہ لوگ جن کی مذمّت اس آیہ کریمہ میں فرمائی گئی وہ ہیں جو نمازوں کو اُن کے وقت سے ہٹاتے اور غیر وقت پر پڑھتے ہیں)

 

ذکرہ الامام البدر فی عمدۃ القاری باب تضییع الصلوات عن وقتھا والامام البغوی فی المعالم۔

 

 (۲؎ عمدۃ القاری شرح البخاری    باب تضییع الصلواۃ    حدیث ۸    مطبوعۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت    ۵/۱۷)

 

افضل التابعین سیدنا سعید بن المسیب رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں: ھو ان لایصلی الظھر حتی اتی العصر ۳؎

 

 (نماز کا ضائع کرنا یہ ہے کہ ظہر نہ پڑھی یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا) اثرہ محی السنۃ۔

 

 (۳؎ تفسیر البغوی المعروف بمالم التنزیل مع الخازن    تحت آیۃ مذکورہ    مطبوعۃ مصطفی البابی مصر ۴/۲۵۲)

 

تفسیر انوار التنزیل میں ہے: اضاعوا الصلٰوۃ ترکوھا اواخروھا عن وقتھا ۴؎۔

 

(۴؎ انوار التنزیل المعروف بالبیضاوی    تحت آیۃ مذکورہ    مطبوعۃ مجتبائی دہلی    نصف ثانی ص۹)

 

آیت ۷    قال سبحٰنہ امام اعظم شانہ،: فویل للمصلّینo الذین ھم عن صلاتھم ساھون ۵؎o خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں (کہ وقت نکال کر پڑھتے ہیں)

 

 (۵؎ القرآن        ۱۰۷/۴)

 

تفسیر جلالین میں ہے: ساھون غافلون یؤخرونھا عن وقتھا ۶؎۔

 

(۶؎ تفسیر جلالین    تحت آیت مذکورہ        مطبوعہ مجتبائی دہلی  نصف ثانی ص ۵۰۵    )

 

تفسیر مفاتیح الغیب میں ہے: ساھون یفید امرین اخراجھا عن الوقت وکون الانسان غافلا فیھا ۷؎

 

(۷؎ مفاتیح الغیب    تفسیر کبیر ، میدان جامع ازہر۔ مصر        ۳۲/۱۱۵)

 

اس آیہ کریمہ کی یہ تفسیر خودحدیث میں وارد ہُوئی کماسیاتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی۔

(الاحادیث) اقول وباللہ التوفیق ملّاجی نے تو جھُوٹ ہی کہہ دیا تھا کہ احادیث جمع چودہ۱۴ صحابیوں سے مروی ہیں جنہیں خود بھی نہ گِنا سکے بلکہ صراحۃً تسلیم کرگئے کہ ان میں اکثر کی روایات اُن کیلئے مفید نہیں صرف چار مفید سمجھیں جن کا حال بتوفیقہ تعالٰی واضح ہوگیا کہ اصلاً انہیں مفید نہ تھیں اب فقیر اللہ تعالٰی کہتا ہے کہ اس مبحث میں ہمارے مفید حدیثیں جو اس وقت نظر میں جلوہ فرماہیں چالیس۴۰ سے زائد ہیں کہ تئیس۲۳ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مروی ہوئیں، (۱) عمر فاروق (۲) علی مرتضٰی (۳) سعد ابن وقاص (۴) عبداللہ بن مسعود (۵) عبداللہ بن عباس (۶) عبداللہ بن عمر (۷) عبداللہ بن عمرو (۸) جابر بن عبداللہ (۹) ابوذرغفاری (۱۰) ابوقتادہ انصاری (۱۱) ابودردأ (۱۲) ابوسعید خدری (۱۳) ابومسعود بدری (۱۴) بشیر بن عقبہ بن عمرو مدنی (۱۵) ابوموسٰی اشعری (۱۶) بریدہ اسلمی (۱۷) عبادہ بن صامت (۱۸) کعب بن عجرہ (۱۹) فضالہ زہرانی (۲۰) حنظلہ بن الربیع (۲۱) انس بن مالک (۲۲) ابوہریرہ (۲۳) ام المومنین صدیقہ بنت الصدیق صلی اللہ تعالٰی علی بعلہا وابیہا وعلیہا وعلیہم اجمعین وبارک وسلم۔ ان میں سات۷ حدیثیں اور مولی المسلمین ومحبوبہ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روایتیں تو جمع صوری میں گزریں باقی اکیس۲۱ صحابہ سے چھتیس۳۶ حدیثیں بتوفیقہٖ تعالٰی یہاں سُنےے، مُلّاجی کی طرح اگر مجملات کو بھی شامل کرلیجئے اور واقعی ہمیں اس کا استحقاق بروجہ حق وصحیح حاصل تو معاذ(۲۴) بن جبل واسامہ(۲۵) بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہم کو ملاکر عدد صحابہ پچیس۲۵ اور احادیث مجملہ شامل کرکے شمارِ احادیث پچاس۵۰ سے زائد ہوگا، خیر یہاں جو حدیثیں ہمیں لکھنی ہیں وہ چند نوع ہیں:

 

نوع اوّل:    احادیث محافظتِ وقت اور اس کی ترغیب اور اس کے ترک سے ترہیب۔

 

حدیث ۱:امام احمد بسند صحیح حضرت حنظلہ کاتب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یقول: من حافظ علی الصلوات الخمس رکوعھن وسجودھن ومواقیتھن، وعلم انھن حق من عنداللّٰہ، دخل الجنۃ، اوقال: وجبت لہ الجنۃ، اوقال: حرم علی النار ۱؎۔

 

(یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سُنا کہ جو شخص ان پانچوں نمازوں کی ان کے رکوع وسجود واوقات پر محافظت کرے اور یقین جانے کہ وہ اللہ جل وعلا کی طرف سے ہیں جنت میں جائے یا فرمایا جنّت اس کے لئے واجب ہوجائے یا فرمایا دوزخ پر حرام ہوجائے)

 

 (۱؎ مسند امام احمد بن حنبل     حدیث حنظلہ کاتب الاسدی    مطبوعہ دارالفکر بیروت        ۴/۲۶۷)

  

حدیث ۲:ابوداؤد وسُنن اور طبرانی معجم میں بسند جید ابودردأ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: خمس من جاء بھن مع ایمان دخل الجنّۃ، من حافظ علی الصلوات الخمس،علی وضوئھن ورکوعھن وسجودھن ومواقیتھن ۱؎۔ عــہ۱ الحدیث۔ پانچ چیزیں ہیں کہ جو اُنہیں ایمان کے ساتھ لائےگا جنّت میں جائے گا جو پنجگانہ نمازوں کی ان کے وضو اُن کے رکوع اُن کے سجود اُن کے اوقات پر محافظت کرے (اور روزہ وحج وزکوٰۃ وغسلِ جنابت بجالائے)

 

عــہ۱ تمامہ، وصام رمضان وحج البیت ان استطاع الیہ سبیلا واعطی الزکٰوۃ، طیبۃ بھانفسہ، وادی الامانۃ، قالوا: یا اباالدرداء مااداء الامانۃ؟ قال: الغسل من الجنابۃ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م) (اس کا ترجمہ متن میں موجود ہے)

 

 (۱؎ سنن ابی داؤد    حدیث نمبر ۴۲۹        دار احیاء السنۃ مصر    ۱/۱۱۶ و ۱۱۷)

 

حدیث ۳:    امام مالک وابوداؤد ونسائی وابن حبان اپنی صحاح میں عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: خمس صلوات افترضھن اللّٰہ تعالٰی، من احسن وضوء ھن وصلاھن لوقتھن واتم رکوعھن وخشوعھن، کان لہ علی اللّٰہ عھدان غفرلہ، ومن لم یفعل فلیس لہ علی اللّٰہ عھد، ان شاء غفرلہ، وان شاء عذبہ ۲؎۔ ھذا لفظ ابی داود عــہ۲

 

پانچ نمازیں اللہ تعالٰی نے فرض کی ہیں جو اُن کا وضو اچھی طرح کرے اور اُنہیں اُن کے وقت پر پڑھے اور اُن کا رکوع وخشوع پُورا کرے اُس کے لئے اللہ عزّوجل پر عہد ہے کہ اُسے بخش دے، اور جو ایسا نہ کرے تو اس کے لئے اللہ تعالٰی پر کچھ عہد نہیں چاہے بخشے چاہے عذاب کرے۔ یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ (ت)

 

عــہ۲ واوردہ المنذری عن فزاد: وسجودھن ۳؎، بعد قولہ: رکوعھن، ولیس فی شیئ من نسخ السنن التی عندی، وقدقال العلامۃ ابرھیم الحلبی فی غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مانصہ: اما لفظ ''وسجودھن'' بعد ''رکوعھن'' فغیر ثابت ۴؎ الخ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

منذری نے بھی ابوداؤد سے اس روایت کو لیا ہے مگر اس نے رکوعھن کے بعد سجودھن کے لفظ بڑھادئے ہیں، حالانکہ ابوداود کے میرے پاس موجود نسخوں میں سجودھن نہیں ہے، اور ابراہیم حلبی نے غنیۃ المستملی میں تصریح کی ہے کہ رکوعھن کے بعد سجودھن کا لفظ ثابت نہیں ہے۔ (ت)

 

 (۲؎ سنن ابی داؤد    حدیث نمبر ۴۲۵        داراحیاء السنۃ مصر    ۱/۱۱۵)

(۳؎ الترغیب والترہیب فی الصلوٰت الخمس الخ حدیث نمبر ۲۶    مصطفی البابی مصر    ۱/۱۴۲)

(۴؎ غنیۃ المستملی مقدمہ کتاب            سہیل اکیڈمی لاہور    ص ۱۲)

 

حدیث ۴:    ابوداود طریق ابن الاعرابی میں حضرت قتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ عزّوجل فرماتا ہے: انی فرضت علی امتک خمس صلوات، وعھدت عندی عہد انہ من جاء یحافظ علیھن لوقتھن ادخلتہ الجنۃ، ومن لم یحافظ علیھن فلاعھد لہ عندی ۱؎۔

 

میں نے تیری اُمت پر پانچ نمازیں فرض کیں اور اپنے پاس عہد مقرر کرلیا جو اُن کے وقتوں پر اُن کی محافظت کرتا آئے گا اُسے جنّت میں داخل کروں گا اور جو محافظت نہ کرے گا اس کے لئے میرے پاس کچھ عہد نہیں۔

 

 (۱؎ سنن ابی داؤد    حدیث نمبر ۴۳۰        داراحیاء السنۃ النبویۃ مصر        ۱/۱۱۷)

 

حدیث ۵:دارمی حضرت کعب ابن عجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے رب جل وعلا سے روایت فرماتے ہیں وہ ارشاد کرتا ہے:من صلی الصلاۃ لوقتھا فاقام حدھا کان لہ علی عھد ا دخلہ الجنۃ ومن لم یصل الصلاۃ لوقتھا ولم یقم حدھا لم یکن لہ عندی عھدان شئت ادخلتہ النار وان شئت ادخلتہ الجنّۃ ۲؎۔

 

جو نماز اُس کے وقت میں ٹھیک ٹھیک ادا کرے اُس کے لئے مجھ پر عہد ہے کہ اُسے جنّت میں داخل فرماؤں، اور جو وقت میں نہ پڑھے اور ٹھیک ادا نہ کرے اُس کے لئے میرے پاس کوئی عہد نہیں چاہوں اسے دوزخ میں لے جاؤں اور چاہوں تو جنّت میں۔

 

 (۲؎ سنن الدارمی ، باب استحبا ب الصلٰوۃ فی اول الوقت     حدیث ۱۲۲۸    مطبوعہ نشر السنۃ ملتان    ۱/۲۲۳)

 

حدیث ۶: طبرانی بسند صالح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ایک دن حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے فرمایا: جانتے ہو تمہارا رب کیا فرماتا ہے؟ عرض کی: خدا ورسول خُوب دانا ہیں۔ فرمایا: جانتے ہو تمہارا رب کیا فرماتا ہے؟ عرض کی: خدا ورسول خوب دانا ہیں۔ فرمایا: جانتے ہو تمہارا رب کیا فرماتا ہے؟ عرض کی: خدا ورسول خوب دانا ہیں۔ فرمایا: تمہارا رب جل وعلا فرماتا ہے: وعزتی وجلالی لایصلیھا عبد لوقتھا الاادخلتہ الجنّۃ ومن صلاھا لغیر وقتھا ان شئت رحمتہ وان شئت عذبتہ ۳؎۔ مجھے اپنے عزّت وجلال کی قسم جو شخص نماز وقت پر پڑھے گا اُسے جنّت میں داخل فرماؤں گا اور جو اس کے غیر وقت میں پڑھے گا چاہوں اس پر رحم کروں چاہوں عذاب۔

 

 (۳؎ المعجم الکبیر للطبرانی    حدیث ۱۰۵۵۵        مطبوعۃ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۱۰/۲۸۱)

 

حدیث ۷: نیز طبرانی اوسط میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:من صلی الصلواۃ لوقتھا واسبغ لھا وضؤھا واتم لھا قیامھا وخشوعھا ورکوعھا وسجودھا خرجت وھی بیضا مسفرۃ تقول حفظک اللّٰہ کماحفظتنی، ومن صلا الصلٰوۃ لغیر وقتھا فلم یسبغ لھا وضؤھا ولم یتم لھا خشوعھا ولارکوعھا ولاسجودھا خرجت وھی سوداء مظلمۃ تقول ضیعک اللّٰہ کما ضیعتنی حتّٰی اذاکانت حیث شاء اللّٰہ لفت کمایلفّ الثوب الخلق ثم ضرب بھا وجھہ ۱؎ جو پانچوں نمازیں اپنے اپنے وقتوں پر پڑھے اُن کا وضو وقیام وخشوع ورکوع وسجود پُورا کرے وہ نمازسفید روشن ہوکر یہ کہتی نکلے کہ اللہ تیری نگہبانی فرمائے جس طرح تُونے میری حفاظت کی اور جو غیر وقت پر پڑھے اور وضو وخشوع ورکوع وسجود پُورا نہ کرے وہ نماز سیاہ تاریک ہوکر یہ کہتی نکلے کہ اللہ تجھے ضائع کرے جس طرح تُونے مجھے ضائع کیا یہاں تک کہ جب اُس مقام پر پہنچے جہاں تک اللہ عزّوجل چاہے پُرانے چیتھڑے کی طرح لپیٹ کر اُس کے مُنہ پر ماری جائے (والعیاذ باللہ رب العالمین)

 

 (۱؎ معجم اوسط    حدیث نمبر ۳۱۱۹    مکتبہ المعارف    ریاض            ۴/۸۶)

 

حدیث ۸: ابُو داؤد حضرت فضالہ زہرانی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:    قال علمنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فکان فیما علمنی وحافظ علی الصلوات الخمس ۲؎۔

 

مجھے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسائلِ دین تعلیم فرمائے اُن میں یہ بھی تعلیم فرمایا کہ نماز پنجگانہ کی محافظت کر۔

 

 (۲؎ سن ابی داؤد    باب المحافظہ علے الصلوات        مطبوعہ مجتبائی پاکستان        ۱/۶۱)

 

حدیث ۹:بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، دارمی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: قال سألت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ای العمل احب الی اللّٰہ قال الصلاۃ علی وقتھا ۳؎۔

 

میں نے سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پُوچھا سب میں زیادہ کیا عمل اللہ عزّوجل کو پیارا ہے، فرمایا نماز اس کے وقت پر ادا کرنا۔

 

 (۳؎ بخاری شریف    باب فضل الصلٰوۃ لوقتہا        مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۷۶)

  

حدیث ۱۰: بیہقی شعب الایمان میں  بطریق عکرمہ امیر المؤمنین عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے  راوی :    قال جاء رجل فقال یارسول اللّٰہ ای شیئ احب الی اللّٰہ  فی الاسلام  قال  الصلاۃ لوقتھا ومن ترک الصلاۃ  فلادین لہ  والصلاۃ عماد الدّین ۴؎۔

 

ایک شخص نے خدمتِ اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کی یارسول اللہ! اسلام میں سب سے زیادہ کیا چیز اللہ تعالٰی کو پیاری ہے، فرمایا: نماز وقت پر پڑھنی، جس نے نماز چھوڑی اس کیلئے دین نہ رہا نماز دین کا ستون ہے۔

 

 (۴؎ شعب الایمان    باب فی الصلوات    حدیث ۲۸۰۷ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان    ۳/۳۹)

 

حدیث ۱۱:طبرانی معجم اوسط میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ثلث من حفظھن فھو ولی حقا، ومن ضیعھن فھو عدوی حقا، الصلاۃ والصیام والجنابۃ ۱؎۔

 

تین۳ چیزیں ہیں کہ جو ان کی حفاظت کرے وہ سچّا ولی ہے اور جو انہیں ضائع کرے وہ پکّا دشمن، نماز اور روزے اور غسلِ جنابت۔

 

 (۱؎ معجم اوسط        حدیث ۸۹۵۶    مکتب المعارف    ریاض    ۹/۴۴۵)

 

حدیث ۱۲:    امام مالک مؤطا میں نافع سے راوی: ان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کتب الی عُمّالہ ان اھم امرکم عندی الصلاۃ فمن حفظھا وحافظ علیھا حفظ دینہ ومن ضیعھا فھو لماسواھا اضیع الحدیث ۲؎۔

 

امیرالمومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے عاملوں کو فرمان بھیجے کہ تمہارے کاموں میں مجھے زیادہ فکر نماز کی ہے جو اسے حفظ اور اس پر محافظت کرے اس نے اپنے دین کی حفاظت کرلی اور جس نے اسے ضائع کیا وہ اور کاموں کو زیادہ تر ضائع کرے گا۔

 

 (۲؎ مؤطا امام مالک    وقوت الصلواۃ    مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی    ص ۵)

 

 (نوعِ آخر) حدیث امامت جبریل علیہ الصلٰوۃ والسّلام جس میں انہوں نے ہر نماز کے لئے جُدا وقت معین کیا۔

 

حدیث ۱۳: بخاری ومسلم صحاح اور امام مالک وامام ابن ابی ذئب مؤطا اور ابومحمد عبداللہ دارمی مسند میں حضرت ابومسعود نصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی جبریل نے بعد تعیین اوقات عرض کی: بھذا امرت ۳؎ (اسی کا حضور کو حکم دیا گیا ہے) ۔

 

 (۳؎ بخاری شریف    کتاب مواقیت الصلوات    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۷۵)

 

ابن ابی ذئب کے لفظ یوں ہیں: عن ابن شھاب انہ سمع عروۃ بن الزبیر یحدث عمر بن عبدالعزیز عن ابی مسعود الانصاری ان المغیرۃ بن شعبۃ اخر الصلاۃ فدخل علیہ ابومسعود فقال ان جبریل نزل علٰی محمد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم فصلی وصلی وصلی وصلی وصلی ثمّ صلی ثم صلی ثم صلی ثم صلی ثم صلی ثم قال ھکذا امرت ۴؎ (یعنی جبریل امین نے دونوں روز امامت سے تعیین اوقات کرکے عرض کی: ایسا ہی حضور کو حکم ہے)۔  (۴؎ شرح الزرقانی علی المؤطا    باب وقوت الصلٰوۃ    مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر    ۱/۱۵)

 

مسند امام ابن راہویہ میں مطول ومفصل ہے فی اخرہ ثم قال جبریل مابین ھذین وقت صلاۃ ۵؎ (پھر جبریل نے عرض کی ان دونوں کے درمیان وقت نماز ہے)۔

 

 (۵؎ نصب الرایۃ بحوالہ سند ابن راہویۃ    باب المواقیت    مکتبہ اسلامیہ ریاض الشیخ    ۱/۲۲۳)

 

حدیث ۱۴:    دارقطنی وطبرانی وابوعمر بن عبدالبر ابومسعود وبشیر بن ابی مسعود دونوں صحابیوں رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی جبریل نے عرض کی: مابین ھذین وقت ۱؎ یعنی امس والیوم ۔  (کل اور آج کے وقتوں کے درمیان ہر نماز کا وقت ہے )

 

(۱؎ مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی الکبیر    باب بیان الوقت        دارالکتاب بیروت        ۱/۳۰۵)

 

حدیث ۱۵:    ابوداؤد، ترمذی، شافعی، طحاوی، ابن حبان، حاکم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی جبریل نے گزارش کی: الوقت مابین ھذین الوقتین ۲؎ (وقت وہ ہے جو ان دو وقتوں کے درمیان ہے)۔

 

 (۲؎ جامع الترمذی        باب ماجاء فی مواقیت الصلوات    مطبوعہ رشیدیہ امین کمپنی دہلی        ۱/۲۱)

 

حدیث ۱۶:    نسائی وطحاوی وحاکم وبزار ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جبریل نے عرض کی: الصلاۃ مابین صلاتک امس وصلاتک الیوم ۳؎  (نماز دیر وزہ و امروزہ کے بیچ میں نماز ہے)

 

 (۳؎ سُنن النسائی        کتاب المواقیت آخر وقت الظہر    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ۱/۵۹)

 

بزار کے یہاں ہے: ثم قال مابین ھذین وقت ۴؎ (ان دو کے اندر وقت ہے)

 

 (۴؎ کشف الاستار عن زوائد البزار    باب ای حین یصلی        مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۱/۱۸۷)

 

حدیث ۱۷: نسائی واحمد واسحٰق وابن حبان وحاکم جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی جبریل نے گزارش کی: مابین ھاتین الصلاتین وقت ۵؎  (ان دو نمازوں کے اندر وقت ہے)

 

 (۵؎ سُنن النسائی         کتاب المواقیت ا خر وقت العصر    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور        ۱/۶۱)

 

حدیث ۱۸:    طحاوی ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جبریل نے گزارش کی: الصلاۃ فیما بین ھذین الوقتین ۶؎  (نماز ان دو۲ وقتوں کے درمیان ہے)۔

 

 (۶؎ شرح معانی الاثار        باب مواقیت الصلوات    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۰۲)

 

 (نوع آخر) حدیث سائل جسے حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے امامتیں فرماکر ہر نماز کا اول وآخر وقت بتایا۔

 

حدیث ۱۹:    مسلم ترمذی نسائی ابن ماجہ طحاوی حضرت بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: وقت صلاتکم بین مارأیتم ۷؎  (تمہاری نماز کا وقت اس کے درمیان ہے جو تم نے دیکھا) ۔

 

 (۷؎ صحیح مسلم    باب اوقات الصلوات الخمس    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/۲۲۳)

 

مسلم کے دوسرے طریق میں ہے: مابین مارأیت وقت ۸؎  (اے سائل جو تُونے دیکھا اس کے اندر وقت ہے)

 

 (۸؎ صحیح مسلم    باب اوقات الصلوات الخمس    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/۲۲۳)

 

ترمذی کے یہاں یوں ہے: مواقیت الصلاۃ کمابین ھذین ۱؎  (نمازوں کے وقت ایسے ہیں جیسے ان دو۲ کے درمیان)۔

 

 (۱؎ جامع ترمذی    باب ماجاء فی مواقیت الصلوات    مطبوعہ رشیدیہ امین کمپنی دہلی        ۱/۲۲)

 

حدیث ۲۰:    مسلم ابی داود نسائی ابن ابان طحاوی حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: الوقت بین ھذین ۲؎ (وقت ان دو۲ کے درمیان ہے)

 

(۲؎ صحیح مسلم    باب اوقات الصلوات الخمس     مطبوعہ قدیمی کتب خانہ اصح المطابع کراچی    ۱/۲۲۳)

 

حدیث ۲۱:    طحاوی بطریق عطاء بن ابی رباح بعض صحابہ یعنی جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اور امام عیسٰی بن ابان بلفظ عن عطاء بن ابی رباح قال بلغنی ان رجلا  اتی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم راوی حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: بین صلاتی فی ھذین الوقتین کلہ ۳؎  (جن دو۲ وقتوں پر میں نے نمازیں پڑھیں ان کے اندر اندر سب وقت ہے) ولفظ الحجج ثم قال مابینھما وقت ۴؎  (اور کتاب الحجج کے الفاظ یہ ہیں: پھر فرمایا ان دونوں کے درمیان وقت ہے)۔

 

 (۳؎ شرح معانی الاثار    باب مواقیت الصلوات    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/۱۰۲)

(۴؎ کتاب الحجۃ اختلاف اہل الکوفتہ والمدینۃ فی الصلواۃ        دارالمعارف نعمانیہ لاہور    ص ۱۲)

 

حدیث ۲۲:    مالک ونسائی وبزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: مابین ھذین وقت ۵؎ (ان دو۲ کے درمیان وقت ہے)۔

 

 (۵؎ النسائی ،کتاب المواقیت  ،  مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور     ۱/۶۲)

  

وفیہ الاقتصار علی ذکر الفجر فکانہ مختصر قلت فقد رواہ  الدار قطنی فی سننہ من حدیث قتادۃ  عن انس  مطولا واللّٰہ تعالٰی اعلم  (اس روایت میں صرف فجر کا ذکر ہے، شاید اس میں اختصار ہے میں نے کہا دارقطنی نے اپنے سنن میں سے انس سے بروایت قتادہ مفصل ذکر کیا ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

(نوعِ آخر) حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیشگوئی کہ کچھ لوگ وقت گزار کر نماز پڑھیں گے تم اُن کا اتباع نہ کرنا اسے مطلق فرمایا کچھ سفر وحضر کی تخصیص ارشاد نہ ہوئی۔

 

حدیث ۲۳: مسلم ابوداؤد ترمذی نسائی احمد دارمی حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: قال قال رسول اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وضرب فخذی کیف انت اذابقیت فی قوم یؤخرون الصلاۃ عن وقتھا قال قلت ماتامرنی قال صل الصلاۃ لوقتھا الحدیث ۱؎۔

 

حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے میری ران پر ہاتھ مار کر فرمایا تیرا کیا حال ہوگا جب تُو ایسے لوگوں میں رہ جائے گا جو نماز کو اس کے وقت سے تاخیرکریں گے، میں نے عرض کی حضور مجھے کیا حکم دیتے ہیں، فرمایا تُو وقت پر پڑھ لینا۔

 

 (۱؎ صحیح مسلم     باب کراھۃ تاخیر الصلوات    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ اصح المطالع کراچی    ۱/۲۳۱)

 

حدیث ۲۴:    احمد ابوداود ابن ماجہ بسند صحیح عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ستکون علیکم بعدی امراء تشغلھم اشیاء عن الصلاۃ لوقتھا حتی یذھب وقتھا فصلوا الصلاۃ لوقتھا ۲؎ الحدیث۔

 

میرے بعد تم پر کُچھ حاکم ہوں گے کہ اُن کے کام وقت پر انہیں نماز سے روکیں گے یہاں تک کہ وقت نکل جائے گا تم وقت پر نماز پڑھنا۔

 

 (۲؎ سنن ابنِ ماجہ    باب ماجاء فی اذااخر والصلواۃ عن وقتہا    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۹۰)

 

حدیث ۲۵:    ابوداؤد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی: قال قال لی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کیف بکم اذااتت علیکم امراء یصلون الصلاۃ لغیر میقاتھا قلت فماتامرنی اذاادرکنی ذلک یارسول اللّٰہ قال صلی الصلاۃ لمیقاتھا واجعل صلاتک معھم سبحۃ ۳؎۔

 

 (۳؎ سنن ابی داؤد ، اذا اخر الامام الصلواۃ عن الوقت ، مطبوعہ مجتبائی دہلی، ۱/۶۲)

 

فرمایا مجھ سے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگوں کا کیا حال ہوگا جب تم پر وہ حکام آئینگے کہ غیر وقت پر نماز پڑھیں گے۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ! جب میں ایسا وقت پاؤں تو حضور مجھے کیا حکم دیتے ہیں۔ فرمایا نماز وقت پر پڑھ اور اُن کے ساتھ نفل کی نیت سے شریک ہوجا۔

(نوع آخر) ارشادِ صریح کہ جب ایک نماز کا وقت آیا دوسری کا وقت جاتا رہا قضا ہوگئی اور اس کی ممانعت ومذمّت۔

 

حدیث ۲۶: مسلم وابوداؤد ونسائی وعیسٰی بن ابان حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: وقت الظھر مالم یحضر العصر ووقت المغرب مالم یسقط ثور الشفق ۴؎۔ ھذا مختصرظہر کا وقت جب تک ہے کہ عصر کا وقت نہ آئے اور مغرب کا وقت جب تک ہے کہ شفق نہ ڈوبے۔

 

 (۴؎ صحیح المسلم باب اوقات الصلوات الخمس        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۲۲۳)

 

حدیث ۲۷: ترمذی وطحاوی بسند صحیح بطریق محمد بن فضیل عن الاعمش عن ابی صالح ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ان للصلاۃ اولا واٰخرا وان اول وقت صلاۃ الظھر حین تزول الشمس واٰخر وقتھا حین یدخل وقت العصر وفیہ ان اول وقت المغرب حین تغرب الشمس وان اٰخر وقتھا حین ےغیب الشفق ۱؎۔

 

بیشک نماز کے لئے اوّل وآخر ہے اور بیشک آغاز وقت ظہر کا سورج ڈھلے سے اور ختم وقت ظہر کا وقتِ عصر آنے پر ہے اور بیشک ابتدا وقت مغرب کی سورج چھُپے ہے اور بیشک انتہا اُس کے وقت کی شفق ڈوبے۔

 

حدیث ۲۸:    مسلم واحمد وابوداود وابن ماجہ وطحاوی وابنِ حبان حضرت ابوقتادہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: لیس فی النوم تفریط انما التفریط فی الیقظۃ ان تؤخر صلاۃ حتی یدخل وقت صلاۃ اخری ۱؎۔ سوتے میں کچھ تقصیر نہیں تقصیر تو جاگتے میں ہے کہ تُو ایک نماز کو اتنا پیچھے ہٹائے کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔

 

 (۱؎ جامع ترمذی    باب ماجاء فی مواقیت الصلواۃ    مطبوعہ مطبع رشیدیہ     امین کمپنی دہلی        ۱/۲۲)

 

یہ حدیث خود حالتِ سفر میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی حین فاتتھم صلاۃ الصبح لیلۃ التعریس وھو عند ابی داود و ابن ماجۃ من دون قولہ ان توخر (جب ''لیلۃ التعریس'' کی صبح کو ان سے فجر کی نماز قضا ہوگئی تھی۔ یہ روایت ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے مگر اس میں '' ان تؤخر'' کا لفظ نہیں۔ ت)یہ حدیث نص صریح ہے کہ ایک نماز کی یہاں تک تاخیر کرنی کہ دوسری کا وقت آ جائے تقصیرہ گناہ ہے۔

 

 (۲؎ سنن ابی داؤد    باب فی من نام الخ            مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور        ۱/۶۴)

 

حدیث ۲۹:    بزار ومحی السنۃ بغوی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :قال سألت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن قول اللّٰہ عزّوجل الذین ھم عن صلٰوتھم ساھونo قال ھم الذین یؤخرون الصلاۃ عن وقتھا ۳؎۔ فرمایا میں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پُوچھا وہ کون لوگ ہیں جنہیں اللہ عزوجل قرآن مجید میں فرماتا ہے خرابی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں، ارشاد فرمایا وہ لوگ جو نماز کو اس کے وقت سے ہٹا کر پڑھیں۔

 

 (۳؎ کشف الاستار عن زوائد البزار     ،باب فی الذین یؤخرون الصلٰوۃ عن وقتہا، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱/۱۹۸)

 

بغوی کی روایت یوں ہے : اخبرنا احمد بن عبداللّٰہ الصالحی (فساق بسندہ) عن مصعب بن سعد عن ابیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما انہ قال سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن الذین ھم فی صلوٰتھم ساھون قال اضاعۃ الوقت ۱؎۔

 

ہمیں احمد بن عبداللہ الصالحی نے خبر دی (پُوری سند کو ذکر کیا) مصعب بن سعد سے وہ اپنے باپ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا، فرمایا اس سے مراد وقت کھونا ہے۔

 

 (۱؎ شرح السنۃ للامام البغوی        باب مراعاۃ الوقت    مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت    ۱/۲۳۶)

 

حدیث ۳۰:    امام ابن ابان حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: قال وقت الظھر الی وقت العصر ووقت العصر الی المغرب وقت المغرب الی العشاء و العشاء الی الفجر ۲؎۔ فرمایا ظہر کا وقت عصر تک ہے اور عصر کا وقت مغرب تک اور مغرب کا عشاء اور عشاء کا فجر تک۔

 

 (۲؎ کتاب الحجۃ اختلاف اہل الکوفۃ والمدینۃ فی الصلوات الخ دارالمعارف النعمانیۃ لاہور    ۱/۱۰،۱۱)

 

حدیث ۳۱:    امام طحاوی شرح معانی الاثار میں راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سوال ہُوا : ماالتفریط فی الصلاۃ  (نماز میں تفریط کیا ہے؟) فرمایا: ان تؤخر حتی یجیئ وقت الاخری ۳؎  (یہ کہ تُو ایک نماز کی تاخیر کرے یہاں تک کہ دوسری کا وقت آجائے)

 

 (۳؎ شرح معانی الاثار        باب جمع بین الصلاتین    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۴)

  

حدیث ۳۲:     نیز اُسی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی: قال تفوت صلاۃ حتی یجیئ وقت الاخری ۴؎ (فرمایا نماز فوت نہیں ہوتی جب تک دُوسری کا وقت نہ آجائے) یعنی جب دوسری کا وقت آیا پہلے قضا ہوگئی۔

 

 (۴؎ شرح معانی الاثار        باب جمع بین الصلاتین    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۱۱۴)

 

تنبیہ: ان آیات واحادیث سے جواب میں قائلین جمع کی غایت سعی ادعائے تخصیص ہے جسے ملّاجی نے کئی ورق کی طولانی تقریر میں بہت ہی چمک کر بیان کیا جس کا مآل یہ کہ اگرچہ متکاثرہ واحادیث متواترہ ہر نماز کے لے جُدا وقت بتارہی ہیں محافظت وقت کی نہایت تاکید شدید فرمارہی ہیں وقت ضائع کرنے کو گناہِ عظیم وموجبِ عذابِ الیم ٹھہرا رہی ہیں مگر ہمیں سفر وغیرہ حالات میں ظہر وعصر ومغرب وعشاء چا ر نمازوں کی پابندیِ وقت کچھ ضرور نہیں چاہے وقت سے پہلے پڑھ لیں چاہیں وقت کھوکر پڑھیں اصلاً محذور نہیں کہ دو چار روایتیں ہمارے خیال کے مطابق قرآن عظیم واحادیث متواترہ کے مخالف آگئیں وہ ہمیں بے قیدی بناگئی ہیں یہاں ملّاجی نے بہت کچھ ابحاثِ اصول کو خرچ کیا ہے جس کا جواب ایسا ہی عریض وطویل دیا گیا ہے وانا اقول (اور میں کہتا ہوں۔ ت) ثبّت العرش ثم انقش ارشاداتِ صریحہ قرآن عظیم واحادیث متواترہ کے مقابل ایسا ہی سامان جمع کرلیا ہوتا تو ان کے مقابلہ کا نام لینا تھا سبحـٰن اللہ چند محتمل روایات جن میں روایۃ درایۃ سو۱۰۰ احتمالات، نہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اُن کے ثبوت ہی پر یقین نہ بعد تسلیم ثبوت خواہی نخواہی معنی جمع حقیقی کی تعیین، احتمالی باتوں پر خدا ورسول کے صریح احکام کیونکر اُٹھادےے جائیں ایسے حکموں کے مقابلہ کو اُنہیں کے پایہ کاجلی واضح ثبوت درکار تھا نہ یہ کہ بزورِ زبان ابتداء میں کہہ دیجئے وہ حدیثیں جن میں تاویل کو مخالف کی دخل نہیں انتہا میں لکھ دیجئے احادیث صحاح جو جمع پر قطعاً ویقینا دلالت کرتی ہیں اور بس آپ کے فرمائے سے وہ نصوص قاطعہ یقینیہ مفسرہ ہوگئیں ملّاجی بس اسی ایک نکتہ پر بحث کا فیصلہ ہے ان روایات کا اثبات جمع حقیقی تقدیم وتاخیر میں نص قطعی یقینی مفسر ناقابلِ تاویل ہونا ثابت کردیجئے یا قرآن عظیم واحادیث متواترہ کے مقابل نری زباں زوریوں سے کام نکالنے کا اقرار کیجئے میں صرف نصوص قرآن وحدیث کا نام لیتا ہوں اے حضرت نمازوں کی توقیت اُن کے لئے اوقات کی تعیین تو ضروریاتِ دین سے ہے اور ہمارا آپ کا تمام اُمتِ مرحومہ کا اجماع قائم کہ وقت سے پہلے نماز باطل اور عمداً قضا کردینا وقت کھودینا حرام تو اب ظنیت وقطعیت عمومات کی بحث سے کچھ علاقہ نہ رہا۔ اس فعل جمع کا جو حاصل ہے یعنی نماز پیش ازوقت یا تفویت وقت اُس کی حرمت پر تو ہم اور آپ سب متفق ہولئے اب آپ مدعی ہیں کہ اس حرام قطعی کی یہ صورت خاص حلال ہے جیسا وہ حرام قطعی ہے ویسا ہی قطعی ثبوت اس کی حلّت کا دیجئے ورنہ یقینی کے حضور ظنی محتمل کا نام نہ لیجئے خدا کی شان اور تو اور جمع تقدیم میں بھی یہی جرأت کے ادعاکہ تاویل کو دخل نہیں احادیث صحاح قطعاً دلالت کرتی ہیں حالانکہ مفسر ویقینی ہونا درکنار ابوداؤد سا امام جلیل الشان تصریح فرماگیا کہ اس کے بارے میں اصلاً کوئی حدیث صحیح بھی نہ ہوئی مگر ہاں یہ کہے کہ اپنی زبان اپنا دعوٰی ہے ثبوت مانگنے والے کا کچھ دینا دہرایا ہے ولاحول ولاقوۃ الّا باللہ العلی العظیم۔

 

 ۱ معیارالحق    ص ۴۰۳)

 

لطیفہ: مُلّاجی نے ایک مثل پر انتہائے ظہر کے اثبات میں حدیث سائل بروایت نسائی عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ وحدیث امامت جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام سے استدلال کیا جن میں تھا کہ پہلے دن کی ظہر حضور اعلی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سُورج ڈھلتے ہی پڑھی اور دُوسرے دن کی اُس وقت کہ سایہ ایک مثل کو پہنچ گیا اس تمسک پر اعتراض ہوتا تھا کہ ان حدیثوں میں کل کی عصر بھی تو اسی وقت پڑھنی آئی ہے تو ایک مثل پر وقتِ ظہر ختم ہوجانا نہ نکلا بلکہ بعد مثل ظہر وعصر دونوں نمازوں میں وقت مشترک ہونا مستفاد ہوا ملّاجی اُس کے دفع میں فرماتے ہیں روایت نسائی کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت عــہ نے پہلے دن عصر جب پڑھی کہ ایک مثل سایہ آگیا اور دوسرے دن ظہر سے ایک مثل پر فارغ ہو لئے یہ معنے نہیں کہ کچھ وقت بطور چار رکعت دونوں نمازوں میں مشترک ہے دلیل مرجح باعث اختیار کرنے معنی اوّل کی یہ ہے کہ روایت کی ہے مسلم نے عبداللہ بن عمرو سے ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قال وقت الظھر الی ان یحضر العصر اور کہا اللہ تعالٰی نے ان الصلٰوۃ کانت علی المؤمنین کتٰبا موقوتا یعنی ہر نماز کا وقت علیحدٰہ علیحٰدہ ہے اسی واسطے فرمایا آنحضرت عــہ نے انما التفریط علی من لم یصل حتی یجیئ وقت الصلاۃ الاخری رواہ مسلم وغیرہ تو مقتضا احادیث اور اس آیت کا یہی ہے کہ ایک نماز کے وقت میں دوسری نماز ادا نہیں ہوسکتی پھر اگر حدیث جابر میں معنی وہ نہ کریں جو ہم نے کئے ہیں کہ پڑھ چکے ایک مثل میں بلکہ یہ کریں کہ پڑھنی شروع کی جب کہ ایک مثل ہوئی تو تعارض ہوگا درمیان ان احادیث کے جن سے امتیاز اوقات ہر نماز کی معلوم ہوتی ہے اور اس حدیث جابر میں جس سے اشتراک نکالتے ہیں اور وقت تعارض موافقت کرنی چاہے اور صورت موافقت کی یہ ہے جو ہم نے بیان کی اور شاہد اس کی حدیث جبریل ہے معنی اس کے بھی وہی ہیں بعینہٖ اُسی دلیل سے جو گزری حدیث نسائی میں ۱؎ اھ ملخصا۔

 

 (۱؎ معیارالحق    مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر    مکتبہ نذیریہ لاہور    ص ۳۱۶ تا ۳۲۱)

 

عــہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ

عــہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ

 

الحمداللہ یہ تو آیہ کریمہ اور ہماری حدیثوں سے حدیث ۲۶ و ۲۸ کی نسبت ملّاجی کی شہادت ہے کہ مقتضی احادیث وآیات کا یہی ہے کہ ایک نماز کے وقت میں دوسری ادا نہیں ہوسکتی مگر مجھے یہاں ملّاجی کا ظلم ظاہر کرنا ہے فاقول وباللہ التوفیق اوّلاً ۲؎

 

 (۲؎ واضح رہے کہ ''اوّلاً'' کے ذیل میں مذکور تمام روایات کا ترجمہ پہلے گزرچکا ہے۔ اگر ضرورت ہوتو صفحہ ۲۷۸ کی طرف رجوع کریں۔ دائم )

 

حدیث جبریل وحدیث سائل میں یہ معنے کہ ملّاجی نے شافعیہ کی تقلید جامد سے سیکھ کر جمائے ہرگز نہیں جمتے حدیث جبریل بروایت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں نسائی کے یہاں یوں ہے:

 

ان جبریل اتی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حین کان الظل مثل شخصہ فصلی العصر ثم اتاہ فی الیوم الثانی حین کان ظل الرجل مثل شخصہ فصلی الظھر ۳؎۔

 

 (۳؎ النسائی    کتاب المواقیت آخر وقت العصر    مطبوعہ سلفیہ لاہور    ۱/۶۰)

 

دوسری روایت میں ہے: ثم مکث حتی اذاکان فیئ الرجل مثلہ جاء ہ للعصر فقال قم یامحمد فصلی العصر ثم جاء ہ من الغدحین کان فیئ الرجل مثلہ فقال قم یاٰمحمد فصل فصلی الظھر ۴؎۔

 

(۴؎ النسائی کتاب المواقیت      اوّل وقت العشاء،  مطبوعہ سلفیہ لاہور    ۱/۶۲)

 

مسند اسحٰق میں ابی مسعود بدری رضی اللہ تعالٰی عنہ یوں ہے: اتاہ حین کان ظلہ مثلہ فقال قم فصل فقام فصلی العصر اربعا ثم اتاہ من الغدحین کان ظلہ مثلہ فقال لہ قم فصل فقام فصلی الظھر اربعا ۱؎۔

 

 (۱؎ نصب الرایۃ بحوالہ سند اسحٰق بن راہویہ باب المواقیت مکتبہ اسلامیہ ریاض الشیخ    ۱/۲۲۳)

 

دارقطنی وطبرانی وابوعمر کے یہاں بروایت عقبہ بن عمرو وبشیر بن عقبہ رضی اللہ تعالٰی عنہما یوں ہے : جاء ہ حین کان ظل کل شیئ مثلہ فقال یامحمد صلی العصر فصلی ثم جاء ہ الغدحین کان ظل کل شیئ مثلہ فقال صلی الظھر فصلی ۲؎

 

 (۲؎ دارقطنی     بحوالہ سند اسحٰق بن راہویہ باب المواقیت مکتبہ اسلامیہ ریاض الشیخ        ۱/۲۵۶)

 

یہ سب حدیثیں تصریح صریح ہیں کہ روحِ امیں علیہ الصلاۃ والتسلیم ظہر کے لئے حاضر اس وقت ہُوئے جب سایہ ایک مثل کو پہنچ چکا تھا اس وقت نماز پڑھنے کے لئے عرض کی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پڑھی اس کے یہ معنی کیونکر ممکن کہ ختمِ مثل تک نماز سے فارغ ہولےے تھے۔ حدیث سائل بروایت عبداللہ بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ابوداؤد کے یہاں یوں ہے:

 

امربلالافاقام الفجر حین انشق (الی قولہ) فاقام الظھر فی وقت العصر الذی کان قبلہ ۳؎۔

 

 (۳؎ ترمذی    باب المواقیت        مطبوعہ رشیدیہ دہلی    ۱/۲۵)

 

اس میں تصریح ہے کہ ایک مثل ہونے پر بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ظہر کی تکبیر کہی تو مثل تک فراغ کیسا۔

ثانیا آیہ کریمہ تو آپ کے نزدیک عام ہے اور احادیث جبریل وسائل خاص اور آپ کے اصول میں عام وخاص متعارض نہیں بلکہ عام اُس خاص سے مخصص ہوجائے گا ولہذا خود بھی یہاں معارضہ صرف احادیث میں مانا نہ آیت وحدیث میں پھر اُن حدیثوں کے مقابل آیت کا پیش کرنا کیا معنی، کیا آپ کے داؤں کو آیت عام نہیں رہتی تخصیص حرام ہوجاتی ہے۔

ثالثاً احادیث میں دفع معارضہ یوں بھی ممکن کہ حدیث تفریط میں وقت الصلاۃ الاخرٰی ۴؎ سے اُس کا وقت خاص مراد لیجئے یعنی نماز قضا جب ہوتی ہے کہ دوسری نماز کا وقتِ خاص آجائے جب تک وقتِ مشترک باقی ہے قضا نہ ہُوئی اور حدیث عبداللہ بن عمرو میں ظہر خواہ عصر دونوں سے جس میں چاہے وقت خاص لے لیجئے اور دوسری میں وقت مطلق یعنی ظہر کا وقت خاص وقت عصر آنے تک ہے جب عصر کا وقت آیا ظہر کا خاص وقت نہ رہا اگرچہ مشترک باقی ہو یا ظہر کا وقت عصر کے وقت خاص آنے تک ہے کہ اس کے بعد ظہر کا وقت خاص خواہ مشترک اصلاً نہیں رہتا تو صورت موافقت اسی میں منحصر نہ تھی جس سے آپ احتمالِ اشتراک عــہ کو دفع کرسکیں، ملّاجی مدعی بننا آسان ہے مگر اقامت دلیل کے گر انبار عہدوں سے سلامت نکل جانا مشکل۔

 

عــہ اقول ظاہر ہے کہ احتمال اشتراک مسئلہ مجمع میں قائل جمع کو اصلاً نافع نہیں جمع تقدیم سے تو اُسے مس ہی نہیں اور جمع تاخیر بھی اس کے قائل کے نزدیک صرف آغاز وابتدائے وقت آخر بقدر چار رکعت سے مخصوص نہیں معہذا جب وقت مشترک ٹھہرا پہلی نماز بھی اپنے وقت پر ہُوئی اور اس کے بعد دُوسری بھی اپنے وقت میں، یہ جمع صوری ہے نہ حقیقی کہ ایک نماز اپنے وقت سے خارج ہوکر دُوسری کے وقت میں پڑھی جائے کمالایخفی ۱۲ منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ (م)

اب اس صریح ظلم وناانصافی کو دیکھےے کہ مسئلہ وقتِ ظہر میں آیت واحادیث توقیت کے عموم وظواہر پر وہ ایمان کہ نہ آیت صالح تخصیص نہ یہ حدیثیں لائق تاویل نہ ان کے مقابل صحاح حدیث قابل قبول بلکہ واجب کہ وہ حدیثیں تاویلوں کی گھڑت سے موافق کرلی جائیں اگرچہ وہ اُس تاویل سے صاف ابا کرتی ہوں اور ان میں ہرگز تاویل نہ کی جائے اگرچہ بے دقّت اُسے جگہ دیتی ہوں۔ اور جب مسئلہ جمع کی باری آئے فوراً نگاہ پلٹ جائے اب آیت واحادیث واجب التخصیص، اور اُن کے مقابل نری احتمالی چند روایات واجب الاعتماد وقطعی التنصیص، اور ان کے لئے آیات واحادیث کے مطابق صاف ونظیف محامل مردود وباطل، غرض شریعت اپنے گھر کی ہے، اجتہاد کی کوٹھری دوہرے درکی ہے۔ دیانت کا ٹٹّو دونوں باگوں کستا ہے، پورب کی سڑک میں پچھم کا رستہ ہے

 

ع :گر میں گیا اِدھر سے اُدھر سے نکل گیا

 

لطیفہ حدیث بست وہشتم مروی صحیح مسلم شریف کے جواب میں ملّاجی کی نزاکتیں قابلِ تماشا۔

اوّلاً : ف۱ یہ حدیث اُسی شخص کے حق میں ہے کہ بلاعذر تاخیر کرے نہ اُس کے حق میں جو مسافر ہو، یہ وہی دعوٰی باطلہ تخصیص بے مخصص ہے۔

 

 ۱ معیارالحق مسئلہ پنجم جمع بین الصلاتین    ص ۴۱۷    )

 

 ۲ معیارالحق     ص ۴۱۷)

  

اقول:  ملّاجی! کسی پڑھے لکھے سے ظرف وسبب کا فرق سیکھو یہ نہیں کہا جاتا کہ حدیث سفر میں فرمائی تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ نمازِ سفر کا قضا ہونا سببِ ارشاد ہوا تو خود سببِ نص حکم نص سے کیونکر جُدا رہے گا کیا ظلم ہے کہ نص کا خاص جس مورد میں ورود وہی خارج ونامقصود، اور نص اس کے مباین پر مقصور ومحدود۔

رابعاً : قیامت دلربا نزاکت تو یہ کی کہ فرماتے ف۱ ہیں اگر ظرف کو دخل ہوتو کہا جائے گا کہ یہ قول آنحضرت عــہ نے وقت نماز فجر کے اور فوت ہوجانے نماز فجر کے نیند میں فرمایا تھا پس حکم سفر فجر ہی کا بیان کیا جس کا جمع کرنا کسی نماز سے ممکن نہ تھا نہ ظہر وعصر مغرب عشا سفر کی کا۔

 

عــہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱۲ منہ (م)

 

 ۱ معیارالحق    ص ۴۱۷)   ( ف۲ معیارالحق     ص ۴۱۷)

 

اقول:  بھئی یہ تو خوب ہی کِیکا، ہاں مُلّاجی! حدیث میں کا ہے کا ارشاد ہورہا ہے فجر سفر کی کا نہ اور نمازوں سفر کی کایعنی صبح کی نماز میں تقصیر اُس وقت ہوگی کہ تُو اُسے نہ پڑھے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آجائے بہت معقول سورج نکلے پہر دن چڑھے ٹھیک دوپہر ہو جب تک نمازِ فجر اُٹھا رکھئے کچھ تقصیر نہیں جب ظہر کا وقت آئے اس وقت تقصیر ہوگی انّا اللّٰہ وانّا الیہ راجعونo مُلّاجی! دِلّی میں تو اچھّے اچھے حکیم سُنے گئے ہیں، لکھنے چلے تھے تو پہلے دماغ کی نبض دکھالی ہوتی، نمازیں پانچ ہیں اُن میں چار متوالی الاوقات اور فجر جُدا سب کا حکم بیان کیجئے تو بطور تغلیب یہ کلمہ صحیح جیسا کہ حدیث ۳۱ و ۳۲ میں اقوالِ حضرت ابوہریرہ وابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے گزرا کہ خاص فجر کا حکم ان لفظوں سے ارشاد ہوکہ جب تک ظہر نہ آئے فجر نہ پڑھنے میں تقصیر نہیں۔

خامسا: اقول ملّاجی! اعتبار عموم لفظ کا ہے نہ خصوص سبب کا تو اخراج ظہر وعصر ومغرب وعشا کے کیا معنے، یہ کیا ستم جہالت ہے کہ آپ کا خصم اطلاق نص وشمول مورد سے تمسک کرے آپ جواب میں اقتصار علی المورد پیش کردیں یا وہ بے نمکی کہ دخول موردے سے راساً انکار یا یہ شورا شوری کہ اُسی پر انقطاع اُسی میں انحصار غرض سیدھا چلنا ہر طرح ناگوار۔

سادساً:  اب اور آنکھیں کھُلیں تو علاوہ کی پوٹ باندھی ف۲ کہ مسافر جمع کرنے والے کو ضرور ہے کہ ارادہ جمع کا پہلی نماز کے وقت کے اندراندر کررکھے جس نے ارادہ نہ کیا اُس کی جمع درست نہ ہوگی پس اگر مسافر کو بھی شامل کرو تو ایسا مسافر مورد ومحمل حدیث کا ہوگا۔

 

 ۲ معیار الحق صــ ۴۱۷)

 

اقول: یہ ایسا ویسا تم کہہ رہے ہو یا حدیث ارشاد فرمارہی ہے حدیث میں تو ایسے ویسے کی کہیں بُو بھی نہیں کہا اپنی ہوائے نفس پر احادیث کا ڈھال لانا ہی عمل بالحدیث ہے۔

سابعاً: اقول خود مسافر کو شامل کہہ رہے ہو نہ مسافر سے خاص تو لاجرم حدیث وہ حکم فرمارہی ہے جو مسافر ومقیم سب کو شامل کیا بھلا چنگا مقیم بھی اگر وقت کے اندر اندر نیت رکھے کہ یہ نماز وقت گزر جانے کے بعد پڑھ لوں گا تو تقصیر نہیں کھُلا کھُلا رافضیوں کا مذہب کیوں نہیں لکھ دیتے اور بعد خرابی بصرہ نہیں بلکہ تباہی کوفہ اگر حاصل ٹھہرے گا تو وہی کہ حدیث احادیث جمع سے مخصوص یہ شامت امام سے وہی آپ کا عذر معمولی جابجا ہے پھر اُسے علاوہ کس منہ سے کہہ رہے ہو، مُلّاجی! کبھی کسی کرّے سے پالا نہ پڑا ہوگا کہ عمل بالحدیث کا دعوٰی بھُلا دیتا، سبحٰن اللہ تحریف احادیث اور اُس کا نام عمل بالحدیث اسمٌ طیب وعملٌ خبیث، ولاحول ولاقوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔

 

قسم دوم نصوص خصوص،

 

حدیث ۳۳:    صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی ومصنّف طحاوی میں بطرق عدیدہ والفاظ مجملہ ومفصلہ مختصرہ ومطولہ مروی وھذا لفظ البخاری حدثنا عمر بن حفص بن غیاث ثنا ابی ثنا الاعمش ثنی عمارۃ عن عبدالرحمٰن عن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال مارأیت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم صلی صلاۃ لغیر میقاتھا الاصلاتین جمع بین المغرب والعشاء وصلی الفجر قبل میقاتھا ۱؎

 

 (۱؎ صحیح بخاری    باب متی یصلی الفجر بجمع    مطبوعہ مطبع ہاشمی میرٹھ    ۱/۲۲۸)

 

ولمسلم حدثنا یحیی بن یحیی وابوبکر بن ابی شیبۃ وابوکریب جمیعا عن ابی معویۃ قال یحیٰی اخبرنا ابومعویۃ عن الاعمش عن عمارۃ عن عبدالرحمٰن بن یزید عن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال مارأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم صلی صلاۃ الالمیقاتھا الاصلاتین صلاۃ المغرب والعشاء بجمع وصلی الفجر یومئذ قبل میقاتھا ۲؎

 

 (۲؎ صحیح مسلم    باب استحباب  زیادۃ التغلیس بصلٰوۃ الصبح    مطبوعہ اصح المطابع کراچی    ۱/۴۱۷)

 

وحدثناہ عثمٰن بن ابی شیبۃ واسحٰق بن ابرھیم جمیعا عن جریر عن الاعمش بھذا الاسناد قال قبل وقتھا بغلس ۳؎

 

 (۳؎ صحیح مسلم     باب استحباب زیادۃ التغلیس بصلٰوۃ الصبح    مطبوعہ اصح المطابع کراچی    ۱/۴۱۷)

 

 (یعنی حضرتِ حاضر سفر وحضر ومصاحب وملازم جلوت وخلوتِ سید البشر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ سابقین اوّلین فی الاسلام وملازمین خاص حضور سید الانام علیہ افضل الصلاۃ والسلام سے تھے بوجہ کمال قرب بارگاہ اہلبیت عــہ ۱ رسالت سے سمجھے جاتے اور سفر وحضرمیں خدمت عــہ۲ والا منزلت منزلت بسترگستری ومسواک ومطہرہ داری وکفش برداری محبوب باری صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے معزز وممتاز رہتے، ارشاد فرماتے ہیں میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی کوئی نماز اُس کے غیر وقت میں پڑھی ہو مگر دو۲ نمازیں کہ ایک اُن میں سے نماز مغرب ہے جسے مزدلفہ میں عشاء کے وقت پڑھا تھا اور وہاں فجر بھی روز کے معمولی وقت سے پیشتر تاریکی میں پڑھی)

 

عــہ۱ بخاری مسلم ترمذی نسائی ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے: قال قدمت اناواخی من الیمن فمکثنا حینا مانری الا ان عبداللّٰہ بن مسعود رجل من اھلبیت النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لما نری من دخولہ ودخول امّہ علی النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ۴؎۔ (م)

فرمایا: میں اور میرے بھائی یمن سے آئے تو مدت تک ہم سمجھا کئے کہ عبداللہ بن مسعود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اہلبیت سے ہیں اُنہیں اور اُن کی ماں کو جو بکثرت کا شانہ رسالت میں آتے جاتے دیکھتے تھے۔ ۱۲ منہ

 

 (۴؎ صحیح بخاری مناقب عبداللہ بن مسعود    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۵۳۱)

 

عــہ۲ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت علقمہ سے مروی مَیں ملک شام میں گیا دو۲ رکعت پڑھ کر دعا مانگی: الٰہی! مجھے کوئی نیک ہم نشین میسر فرما۔ پھر ایک قوم کی طرف گیا اُن کے پاس بیٹھا تو ایک شیخ تشریف لائے میرے برابر آکر بیٹھ گئے میں نے پُوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا ابودردأ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ میں نے کہا میں نے اللہ عزوجل سے دُعا کی تھی کہ کوئی نیک ہم نشین مجھے میسر کرے، اللہ تعالٰی نے آپ ملادئیے۔ فرمایا: تم کون ہو؟ میں نے کہا اہلِ کوفہ سے۔ فرمایا:اولیس عندکم ابن ام عبد صاحب النعلین والوسادۃ والمطھرۃ ۲؎۔ کیا تمہارے پاس عبداللہ بن مسعود نہیں وہ نعلین ومسند خواب وظروف وضو وطہارت والے۔

 

یعنی جن کے متعلق یہ خدمتیں تھیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جس مجلس میں تشریف فرما ہوں نعلین اُٹھا کر رکھیں اُٹھتے وقت سامنے حاضر کریں سوتے وقت بچھونا بچھائیں اوقاتِ نماز پر پانی حاضر لائیں ظاہر ہے کہ انہیں خلوت وجلوت ہر حالت میں کیسی ملازمت دائمی کی دولت عطا فرمائی پھر ان کے علم کے بعد کسی کی کیا حاجت ہے قالہ القاضی کمانقلہ فی المرقاۃ ۱۲ منہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (م)

 

 (۲؎ صحیح بخاری  مناقب عبداللہ بن مسعود    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۵۳۱)

 

حدیث ۳۴: سنن ابی داؤد میں ہے: حدثنا قتیبۃ ناعبداللّٰہ بن نافع عن ابی مودود عن سلیمن بن ابی یحیٰیعن ابن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنھا قال ما جمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بین المغرب والعشاء قط فی السفر الا مرۃ ۱؎

 

 (یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی کسی سفر میں مغرب وعشاء ملاکر نہ پڑھی سوا ایک بار کے) ظاہر ہے کہ وہ بار  وہی سفر حجۃ الوداع ہے کہ شب نہم ذی الحجہ مزدلفہ میں جمع فرمائی جس پر سب کا اتفاق ہے۔

 

 (۱؎ سنن ابی داؤد    کتاب الصلٰوۃ باب الجمع بین الصلاتین    آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/۱۷۱)

  

اقول: اس حدیث کی سند حسن جید ہے، قتیبہ توقتیبہ ہیں ثقہ ثبت رجال ستّہ سے، اور عبداللہ بن نافع ثقہ صحیح الکتاب رجال صحیح مسلم سے اور سلیمٰن بن ابی یحیٰی لاباس بہ (اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ ت) ابن حبان نے اُنہیں ثقات تابعین میں ذکر کیا، رہے ابومودود وہ عبدالعزیز بن ابی سلیمن مدنی ہذلی مقبول ہیں کمافی التقریب۔ حافظ الشان نے تہذیب التہذیب میں فرمایا:

 

سلیمٰن بن ابی یحیٰی حجازی روی عن ابی ھریرۃ وابن عمر، وعنہ ابن عجلان وداؤد بن قیس وابومودود عبدالعزیز بن ابی سلیمٰن، قال ابوحاتم، مابحدیثہ باس، وذکرہ ابن حبان فی الثقات، روی لہ ابوداود حدیثا واحدا فی الجمع بین المغرب والعشاء ۱؎۔

 

 (۱؎ تہذیب التہذیب    را وی ۳۷۹            مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد    ۴/۲۲۸)

 

ثمّ اقول: بعد نظافت سند مثل حدیث کا بروایت ایوب عن نافع عن ابن عمر بلفظ لم یرابن عمر جمع بینھما قط الاتلک اللیلۃ

 

(ابن عمر کو نہیں دیکھا کہ دو۲ نمازوں کو جمع کیا ہو سوائے اس رات کے۔ ت) مروی ہونا کچھ مضر نہیں اگر یہاں نافع فعل ابن عمر اور وہاں ابن عمر فعل سیدالبشر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روایت کریں کیا منافات ہے خصوصاً یروی عن ایوب معضل ہے اور معضل ملّاجی کے نزدیک محض مردود ومہل اور وہ بھی بصےغہ مجہول کو غالباً مشیر ضعف ہے تو ایسی تعلیق حدیث سند متصل کے کب معارض ہوسکتی ہے۔

 

حدیث ۳۵: مؤطائے امام محمد میں ہے: قال محمد بلغنا عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ انہ کتب فی الاٰفاق یناھھم ان یجمعوا بین الصلاۃ واخبرھم ان الجمع بین الصلاتین فی وقت واحد کبیرۃ من الکبائر اخبرنا بذلک الثقات عن العلاء بن الحارث عن مکحول ۲؎۔

 

 (یعنی امیرالمؤمنین امام العادلین ناطق بالحق والصواب عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تمام آفاق میں فرمان واجب الاذعان نافذ فرمائے کہ کوئی شخص دو۲ نمازیں جمع نہ کرنے پائے اور اُن میں ارشاد فرمادیا کہ ایک وقت میں دو۲ نمازیں ملانا گناہِ کبیرہ ہے)

 

 (۲؎ مؤطا امام احمد    باب الجمع بین اصلاتین فی السفر والمطر    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور    ص ۱۳۲)

 

الحمد للہ امام عادل فاروق الحق والباطل نے حق واضح فرمادیا اور اُن کے فرمانوں پر کہیں سے انکار نہ آنے نے گویا مسئلے کو درجہ اجماع تک مترقی کیا۔

اقول: یہ حدیث بھی ہمارے اصول پر حسن جید حجّت ہے علاء بن الحارث تابعی صدوق حقیہ رجال صحیح مسلم وسنن اربعہ سے ہیں۔

 

واختلاطہ لایضر عندنا مالم یثبت الاخذ بعدہ فقد ذکر المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر کتاب الصلاۃ باب الشھید حدیث احمد ثنا عفان بن مسلم ثنا حماد بن سلمۃ ثنا عطاء بن السائب ومعلوم ان عطاء بن السائب ممن اختلط فقال ارجوان حماد بن سلمۃ ممن اخذ  منہ قبل التغیر ثم ذکر الدلیل علیہ ثم قال وعلی الابھام لاینزل علی الحسن ۱؎۔ (ملخصاً)

 

علاء کا مختلط ہونا ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ یہ روایت اس سے اختلاط سے بعد لی گئی ہے۔ کیونکہ شیخ ابن ہمام نے فتح القدیر کی کتاب الصلٰوۃ باب الشہید میں احمد کی روایت ذکر کی ہے جس کا ایک راوی عطاء ابن سائب ہے۔ اور عطاء ابن سائب کا مختلط ہونا سب کو معلوم ہے، مگر ابن ہمام نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ حماد بن سلمہ نے یہ روایت عطاء کے اختلاط میں مبتلا ہونے سے پہلے اس سے اخذ کی ہوگی۔ پھر اس کی دلیل بیان کی اور کہا کہ اگر ابہام پایا بھی جائے تو حسن کے درجے سے کم نہیں ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ فتح القدیر    کتاب الصلٰوۃ باب الشہید    مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر    ۲/۱۰۴)

 

اور امام مکحول ثقہ فقیہ حافظ جلیل القدر بھی رجال مسلم واربعہ سے ہیں۔

 

والمرسل حجۃ عندنا وعند الجمھور اما ابھام شیوخ محمد فتوثیق المبھم مقبول عندنا کمافی المسلم وغیرہ لاسیما من مثل الامام محمد ومع قطع النظر عنہ فلقائل ان یقول قدانجبر بالتعدد فی فتح المغیث فی ذکر الملقوب رونیاھا فی مشایخ البخاری لابی احمد بن عدی قال سمعت عدۃ مشایخ یحکون وذکرھا ومن طریق ابن عدی رواھا الخطیب فی تاریخہ وغیرہ ولایضر جھالۃ شیوخ ابن عدی فیھا فانھم عدد ینجبر بہ جھالتھم ۲؎۔

 

مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک حجت ہے۔ رہا محمد کے اساتذہ کا مبہم ہونا، تو مبہم کی توثیق ہمارے نزدیک نزدیک مقبول ہے، جیسا کہ مسلم وغیرہ میں ہے، خصوصاً جب توثیق کرنے والی امام محمد جیسی ہستی ہو، اور اس سے قطع نظر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ متعدد اسنادوں سے مروی ہونے کی وجہ سے اس کی یہ خامی دور ہوگئی ہے۔ فتح المغیث میں مقلوب کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''مشائخ البخاری'' میں احمد ابن عدی سے مروی ہے کہ میں نے متعدد مشائخ کو یہ حدیث بیان کرتے سنا ہے۔ ابن عدی ہی کے واسطے سے یہ بات خطیب نے بھی اپنی تاریخ میں ذکر کی ہے اور دےگر علماء نے بھی۔ اور ابن عدی کے اساتذہ کا مبہم ہونا مضر نہیں ہے کیونکہ ان کی تعداد اتنی ہے کہ اس کی وجہ سے وہ مجہول نہیں رہتے۔ (ت)

 

 (۲؎ فتح المغیث المقلوب    دارالامام الطبری    مطبوعہ بیروت    ۱/۳۲۱)

 

حدیث ۳۶: امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ آثار ماثورہ کتاب الحجج عیسٰی بن ابان میں روایت فرماتے ہیں: اخبرنا اسمٰعیل بن ابرھیم البصری عن خالد الحذاء عن حمید بن ھلال عن ابی قتادۃ العدوی قال سمعت قراء ۃ کتاب عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ثلث من الکبائر الجمع بین الصلاتین والفرار من الزجف والنھبۃ ۱؎

 

 (یعنی حضرت ابوقتادہ عدوی کہ اجلہ اکابر وثقات تابعین سے ہیں بلکہ بعض نے اُنہیں صحابہ میں گنا، فرماتے ہیں میں نے امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا شقّہ وفرمان سنا کہ تین۳ باتیں کبیرہ گناہوں سے ہیں: دو۲ نمازیں جمع کرنا اور جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھاگنا اور کسی کا مال لُوٹ لینا)

 

 (۱؎ کتاب الحجۃ باب الجمع بین الصلاتین    دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۱/۱۶۵)

  

اقول: یہ حدیث اعلٰی درجہ کی صحیح ہے اس کے سب رجال اسمٰعیل بن ابراہیم ابن علیہ سے آخر تک ائمہ ثقات عدول رجال صحیح مسلم سے ہیں وللہ الحمد۔

لطیفہ: حدیث مؤطا کے جواب میں تو ملّاجی کو وہی اُن کا عذر معمولی عارض ہواکہ منع کرنا عمر کا حالت اقامت میں بلاعذر تھا۔

اقول: اگر ہرجگہ ایسی ہی تخصیص تراش لینے کا دروازہ کھُلے تو تمام احکام شرعیہ سے بے قیدوں کو سہل چھٹی ملے جہاں چاہیں کہہ دیں یہ حکم خاص فلاں لوگوں کے لئے ہے، حدیث صحیحین کو تین طرح رد کرنا چاہا:

اوّل : انکار جمع اس سے بطور مفہوم نکلتا ہے اور حنفیہ قائل مفہوم نہیں، اس جواب کی حکایت خود اُس کے رَد میں کفایت ہے اُس سے اگر بطور مفہوم نکلتی ہے تو مزدلفہ کی جمع کہ مابعد الا ہمارے نزدیک مسکوت عنہ ہے انکار جمع تو اس کا صریح منطوق ومدلول مطابقی ومنصوص عبارۃ النص ہے۔

اقول:  اولا اُس کی نسبت اگر بعض اجلہ شافعیہ کے قلم سے براہ بشریت لفظ مفہوم نکل گیا مُلّاجی مدعی اجتہاد وحُرمت تقلید ابوحنیفہ وشافعی کو کیا لائق تھا کہ حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم رَد کرنے کیلئے ایسی بدیہی غلطی میں ایک متأخر مقلد کی تقلید جامد کرتے شاید ردِ احادیث صحیحہ میں یہ شرک صریح جائز وصحیح ہوگا اب نہ اُس میں شائبہ نصرانیت ہے نہ

 

 اتخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللّٰہ ۲؎  (انہوں نے اپنے عالموں اور راہبوں کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنالیا۔ ت) کی آفت کبر مقتا عنداللّٰہ ان تقولوا مالاتفعلون ۳؎ (اللہ کے نزدیک بڑا جُرم ہے کہ تم اس کام کا کہو جو خود نہیں کرتے۔ ت)

 

 (۲؎ القرآن    ۹/۳۱    ۳؎ القرآن    ۶۱/۳)

 

ثانیا: بفرض غلط مفہوم ہی سہی اب یہ نامسلّم کہ حنفیہ اس کے قائل نہیں صرف عبارات شارع غیر متعلقہ بعقوبات میں اس کی نفی کرتے ہیں کلام صحابہ ومن بعدہم من العلماء میں مفہوم مخالف بے خلاف مرعی ومعتبر کمانص علیہ فی تحریر الاصول والنھر الفائق والدرالمختار وغیرھا من الاسفار قد ذکرنا نصوصھا فی رسالتنا القطوف الدانیۃ لمن احسن الجماعۃ الثانیۃ ۱۳۔ دوم: ایک رام پوری ملّا سے نقل کیا کہ ابنِ مسعود سے مسند ابی یعلی میں یہ روایت بھی ہے کہ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجمع بین الصلاتین فی السفر ۱؎  (رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سفر میں دو نمازیں جمع کرتے تھے۔ ت)

 

 (۱؎ مسند ابویعلی    مسند ابن مسعود    حدیث ۵۳۹۱    مطبوعہ علوم القرآن بیروت    ۵/۱۸۱)

 

تو موجہ ہے کہ حدیث صحیحین کو حالت نزول منزل اور روایت ابی یعلی کو حالت سیر پر حمل کریں یہ مذہب امام مالک کی طرف عود کرجائے گا۔

اوّلاً ملّاجی خود ہی اسی بحث میں کہہ چکے ف۱ ہوکہ شاہ صاحب نے مسند ابی یعلی کو طبقہ ثالثہ میں جس میں سب اقسام کی حدیثیں صحیح حسن غریب معروف شاذ منکر مقلوب موجود ہیں ٹھہرایا ہے، پھر خود ہی اس طبقے کی کتاب کو کہا ف۲ اس کتاب کی حدیث بدون تصحیح کسی محدّث کے یا پیش کرنے سند کے کیونکر تسلیم کی جاوے یہ کتاب اُس طبقے کی ہے جس میں سب اقسام کی حدیثیں صحیح اور سقیم مختلط ہیں یہ کیا دھرم ہے کہ اوروں پر منہ آؤ اور اپنے لیے ایک رام پوری ملّا کی تقلید سے حلال بتاؤ اتخذوا احبارھم ورھبانھم ۲؎۔

 

 (۲؎ القرآن    ۹/۳۱)

۱ معیارالحق    ص ۳۹۷        ف۲ معیارالحق     ص ۴۰۰    )

 

ثانیا:  اقول:  مُلّاجی! کسی ذی علم سے التجا کرو تو وہ تمہیں صریح ومجمل ومتعین ومحتمل کا فرق سکھائے حدیث صحیحین انکار جمع حقیقی میں نص صریح ہے اور روایت ابویعلٰی حقیقی جمع کا اصلاً پتا نہیں دیتی بلکہ احادیث جمع صوری میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیثیں صاف صاف جمع صوری بتارہی ہیں تمہاری ذی ہوشی کہ نص ومحتمل کو لڑاکر اختلاف محامل سے راہِ توفیق ڈھونڈتے ہو۔

لطیفہ: اقول مُلّاجی کا اضطراب قابلِ تماشا ہے کہ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کہیں راوی جمع ٹھہرا کر عدد رواۃ پندرہ بتاتے ہیں کہیں نافی سمجھ کر چودہ صدر کلام میں جہاں راویان جمع گنائے صاف صاف کہا ابن مسعود فی احدی الروایتین اب رامپوری ملّا کی تقلید سے وہ احدی الروایتین بھی گئی ابنِ مسعود خاصے مبثتان جمع میں ٹھہرگئے۔

سوم: جسے مُلّاجی بہت ہی علق نفیس سمجھے ہُوئے ہیں اُن دو کو عربی میں بولے تھے یہاں چمک چمک کر اردو میں چہک رہے ف۳ ہیں کہ اگر کہو جس جمع کو ابن مسعود نے نہیں دیکھا وہ درست نہیں تو تم پر یہ پہاڑ مصیبت کا ٹوٹے گاکہ جمع بین الظہر اور عصر کو عرفات میں کیوں درست کہتے ہو باوجودیکہ اس قول ابن مسعود کے سے تو نفی جمع فی العرفات کی بھی مفہوم ہوتی ہے پس جو تم جواب رکھتے ہو اُسی کو ہماری طرف سے سمجھو یعنی اگر کہو نہ ذکر کرنا ابنِ مسعود کا جمع فی العرفات کو بنا بر شہرت عرفات کے تھا تو ہم کہیں گے کہ جمع فی السفر بھی قرن صحابہ میں مشہور تھی کیونکہ چودہ صحابی سوا ابن مسعود کے اُس کے ناقل ہیں تو اسی واسطے ابنِ مسعود نے اس کا استشنا نہ کیا اور اب محمل نفی کا جمع بلاعذر ہوگی اور اگر کہو کہ جمع فی العرفات بالمقائسہ معلوم ہوتی ہے تو ہم کو کون مانع ہے مقائسہ سے وعلٰی ہذا القیاس جو جواب تمہارا ہے وہی ہمارا ہے۔

 

 ۳ معیارالحق    ص ۴۱۶ )

 

اس جواب کو مُلّاجی نے گُلِ سرسَبد بناکر سب سے اوّل ذکر کیا اُن دو کی تو امام نووی وسلام اللہ رامپوری کی طرف نسبت کی مگر اسے بہت پسند کرکے بلانقل ونسبت اپنے نامہ اعمال میں ثبت رکھا حالانکہ یہ بھی کلام امام نووی میں مذکور اور فتح الباری وغیرہ میں ماثور تھا شہرت جمع عرفات سے جو جواب امام محقق علی الاطلاق محمد بن الہمام وغیرہ علمائے اعلام حنفیہ کرام نے افادہ فرمایا اُس کا نفیس وجلیل مطلب ملّاجی کی فہم تنگ میں اصلاً نہ دھنسا اجتہاد کے نشہ میں ادعائے باطل شہرت جمع سفر کا آوازہ کسا، اب فقیر غفرلہ المولی القدیر سے تحقیق حق سُنےے فاقو ل وبحو ل ربی اصول اوّلاً ملّاجی جواب علماء کا یہ مطلب سمجھے کہ سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دیکھیں تو تین نمازیں غیر وقت میں مگر دو۲ ذکر کیں مغرب وصبح مزدلفہ ا ور تیسری یعنی عصر عرفہ کو بوجہ شہرت ذکر نہ فرمایا جس پر آپ نے یہ کہنے کی گنجائش سمجھی کہ یونہی جمع سفر بھی بوجہ شہرت ترک کی اس ادعائے باطل کا لفافہ تو بحمداللہ تعالٰی اوپر کھل چکا کہ شہرت درکنار نفس ثبوت کے لالے پڑے ہیں حضرت نے چودہ۱۴ صحابہ کرام کا نام لیا پھر آپ ہی دس۱۰ سے دست بردار ہوئے چار۴ باقی ماندہ میں دو۲ کی روایتیں نِری بے علاقہ اُتر گئیں، رہے دو۲، وہاں بعونہٖ تعالٰی وہ قاہر باہر جواب پائے کہ جی ہی جانتا ہوگا، اگر بالفرض دو۲ سے ثبوت ہوبھی جاتا تو کیا صرف دوکی روایت قرنِ صحابہ میں شہرت ہے، مگر یہاں تو کلامِ علماء کا وہ مطلب ہی نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے صرف انہیں دو۲ نمازوں عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ کا غیر وقت میں پڑھنا ثابت، انہیں دو۲ کو ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دیکھا انہیں دونوں کو صلاتین کہہ کر یہاں شمار فرمایا اگرچہ تفصیل میں بوجہ شہرت عامہ تامہ ایک کا نام لیا صرف ذکر مغرب پر اقتصار فرمایا ایسا اکتفا کلام صحیح میں شائع، قال عزوجل:وجعل لکم سرابیل تقیکم الحر ۱؎  (اور تمہارے لےے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں۔ ت)

 

(۱؎ القرآن    ۱۶/۸۱)

 

خود انہیں نمازوں کے بارے میں امام سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم کا ارشاد دیکھئے کہ پوچھا گیا کیا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سفر میں کوئی نماز جمع کرتے تھے؟ فرمایا: لا الابجمع (نہ مگر مزدلفہ میں) کماقدمنا عن سنن النسائی۔ ملّاجی! یہاں بھی کہہ دیجیو کہ جمع سفر کو شہرۃً چھوڑ دیا ہے، اور سُنےے امام ترمذی اپنی صحیح میں فرماتے ہیں:

 

العمل علی ھذا عند اھل العلم ان لایجمع بین الصلاتین الا فی السفر اوبعرفۃ ۱؎۔ اہل علم کے ہاں عمل اسی پر ہے کہ بغیر سفر کے اور یومِ عرفہ کے دو۲ نمازیں جمع نہ کرے۔ (ت)

 

 (۱؎ جامع ترمذی    ابواب الصلوٰہ باب ماجاء فی الجمع بین اصلاتین    مطبوعہ رشیدیہ دہلی    ۱/۲۶)

  

ترمذی نے صرف نماز عرفہ کا استشناء کیا نماز مزدلفہ کو چھوڑ دیا تو ہے یہ کہ دونوں جمعیں متلازم ہیں اور ایک کا ذکر دُوسری کا یقینا مذِکّر خصوصاً نمازِ عرفہ کہ اظہر واشہر تو مزدلفہ کا ذکر دونوں کا ذکر ہے غرض ان صلاتین کی دوسری نمازِ ظہر عرفہ ہے نہ فجر نحر وہ مسئلہ جُداگانہ کا افادہ ہے کہ دو۲ نمازیں تو غیر وقت میں پڑھیں اور فجر وقت معمول سے پیشتر تاریکی میں اور بلاشُبہہ اجماعِ اُمّت ہے کہ فجر حقیقۃً وقت سے پہلے نہ تھی نہ ہرگز کہیں کبھی اس کا جواز، اور خود اسی حدیث ابومسعود کے لفظ مسلم کے یہاں

 

بروایت جریر عن الاعمش قال قبل وقتھا بغلس ۲؎ اُس پر شاہد، اگر رات میں پڑھی جاتی ذکر غلس کے کیا معنی تھے

 

 (۲؎ صحیح مسلم    استحباب زیادۃ التغلیس الخ        مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۴۱۷)

 

صحیح بخاری میں تو تصریح صریح ہے کہ فجر بعد طلوع فجر پڑھی۔

 

اذقال حدثنا عبداللّٰہ بن رجاء ثنا اسرائیل عن ابی اسحٰق عن عبدالرحمٰن بن یزید قال خرجنا مع عبداللّٰہ الی مکۃ ثم قدمنا جمعا (وفیہ) ثم صلی الفجر حین طلع الفجر الحدیث ۳؎

 

کہا، حدیث بیان کی ہم سے عبداللہ ابن رجاء نے اسرائیل سے، اس نے ابواسحٰق سے، اس نے عبدالرحمن سے کہ ہم عبداللہ کے ساتھ مکّہ آئے، پھر مزدلفہ آئے۔ اس روایت میں ہے کہ پھر فجر پڑھی جب فجر طلوع ہُوئی، الحدیث۔

 

 (۳؎ بخاری شریف    کتاب المناسک باب متی یصلی الفجر بجمع    مطبوعہ قدیمی اصح المطابع کراچی    ۱/۲۲۸)

 

وقال حدثنا عمروبن خالد ثنا زھیر ثنا ابواسحٰق سمعت عبدالرحمٰن بن یزید یقول حج عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فاتینا المزدلفۃ (وفیہ) فلما طلع الفجر قال ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان لایصلی ھذہ الساعۃ الاھذہ الصلاۃ فی ھذا المکان من ھذا الیوم الحدیث ۴؎۔

 

اور کہا، حدیث بیان کی عمر بن خالد نے زہیر سے، اس نے ابواسحاق سے کہ میں نے عبدالرحمن ابن یزید سے سُنا ہے کہ عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حج کیا تو ہم مزدلفہ کو آئے۔ اس میں ہے جب فجر طلوع ہُوئی تو کہا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس وقت میں کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے مگر یہ نماز، اِسی جگہ، اِسی دن، الحدیث۔ (ت)

 

 (۴؎ بخاری شریف    باب من اذن واقام لکل واحدۃ منہما    مطبوعہ قدیمی اصح المطابع کراچی    ۱/۲۲۷)

 

اور یہ بھی اجماع موافق ومخالف ہے کہ عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ حقیقۃً غیر وقت میں پڑھیں تو فجر نحر ومغرب مزدلفہ کا حکم یقینا مختلف ہے ہاں عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ متحد الحکم اور غیر وقت میں پڑھنے کے حقیقی معنی انہیں کے ساتھ خاص اور جب تک حقیقت بنتی ہو مجاز کی طرف عدول جائز نہیں نہ جمع بین الحقیقۃ والمجاز ممکن خصوصاً ملّاجی کے نزدیک تو جب تک مانع قطعی موجود نہ ہو ظاہر پر حمل واجب اور شک نہیں کہ بے وقت پڑھنے سے ظاہر ومتبادر وہی معنی ہیں جو اُن عصر ومغرب میں حاصل نہ وہ کہ فجر میں واقع تو واجب ہوا کہ جملہ صلّی الفجر اُن صلاتین کا بیان نہ ہو بلکہ یہ جملہ مستقلہ ہے اور صلاتَین سے وہی عصر ومغرب مراد تو اُن میں اصلاً کسی کا ذکر ہرگز متروک نہیں، ہاں تفصیل میں پتے کیلئے ایک ہی کا نام لیا بوجہ کمال اشتہار دوسری کا ذکر مطوی کیا بحمداللہ یہ معنی ہیں جواب علماء کے جس سے ملّاجی کی فہم بمیس اور ناحق آنچہ انسان میکند کی ہوس، مُلاّجی! اب اُس برابری کے بڑے بول کی خبریں کہے کہ جو جواب تمہارا ہے وہی ہمارا سمجھئے خدا کی شان ؎

 

اوگمان بردہ کہ من کردم چواو

فرق راکے بیند آں استیزہ جو

 

فائدہ: یہ معنی نفیس فیض فتاح علیم جل مجدہ سے قلبِ فقیر پر القاء ہوئے پھر ارکانِ اربعہ ملک العلماء بحرالعلوم قدس سرّہ مطالعہ میں آئی دیکھا تو بعینہٖ یہی معنی افادہ فرمائے ہیں والحمدللّٰہ علی حسن التفھیم ارشاد فرماتے ہیں رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ:

 

وایضا،خبرالجمع انما نقلوا فی غزوۃ تبوک،وکان فی تلک الغزوۃ الاف من الرجال، و کان کل صلوا خلف رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم، ولم یخبر منھم الاواحد اواثنان، ولم یشتھر، ولم یروغیرہ، بل بعض الحاضرین انکروا ذلک، حتی قال ابن مسعود: مارأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم صلی صلاۃ لغیر میقاتھا؛ الاصلی صلٰوتین جمع بین المغرب والعشاء بجمع، وصلی الفجر یومئذ قبل میقاتھا، رواہ الشیخان وابوداود والنسائی، فنفی ابن مسعود، الذی قال فیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم: تمسکوا بعھد ابن اُمّ عبد، تقدیم صلاۃ عن الوقت وتاخیرھا، واخبر بانہ لم یقع الافی صلاتین، بین احدھما، وھو المغرب بجمع اخرھا الٰی وقت العشاء ، ولم یبین الاخر، وھو العصر یوم عرفۃ، بتقدیمہ فی وقت الظھر، لشھرتہ، ولیعلم بالمقایسۃ، واخبر خبرا اٰخر، وھو تقدیم الفجر عن الوقت المسنون المعتاد عندہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔ واذا کان حال خبر الجمع ماذکرنا وجب ردہ اوتاویلہ ۱؎۔

 

نیز دو نمازوں کو جمع کرنے کی خبر صرف غزوہ تبوک میں منقول ہے اور اس غزوے میں ہزاروں لوگ شامل تھے اور سب نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں تھیں، مگر ایک یا دو کے علاوہ کسی نے جمع کرنے کا ذکر نہیں کیا، نہ یہ بات مشہور ہُوئی، اس روایت کے علاوہ جمع کی کوئی روایت نہیں آئی ہے، بلکہ بعض حاضرین تبوک نے اس جمع سے صاف انکار کیا ہے، حتی کہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن ام عبد (یعنی ابن مسعود) کی باتوں سے تمسک کیا کرو نے فرمایا ہے کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کوئی نماز بغیر وقت کے پڑھی ہو مگر دو۲ نمازیں، مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو جمع کیا اور اس دن فجر کی نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھی۔ بحوالہ بخاری، مسلم، ابوداؤد، نسائی اس طرح ابن مسعود نے نماز کی اپنے وقت سے تقدیم وتاخیر کی نفی کردی ہے اور بتادیا ہے کہ ایسا صرف دو۲ نمازوں میں ہُوا تھا، جن میں سے ایک نماز کا تو انہوں نے ذکر کردیا، یعنی مزدلفہ کی مغرب، کہ اس کو عشاء تک مؤخر کیا تھا، مگر دوسری نماز کا ذکر نہیں کیا، یعنی عرفہ کی عصر کا، کہ اس کے ظہر کے وقت میں مقدم کرکے پڑھاتھا، عدمِ ذکر کی وجہ، اس کا مشہور ہونا ہے، نیز یہ بات قیاس سے بھی معلوم ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اس کی بجائے انہوں نے دوسرا واقعہ بیان کردیا کہ فجر کو، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسنون اور اپنے معتاد وقت سے پہلے پڑھا، تو جب جمع کی روایت کا حال یہ ہے جو ہم نے ذکر کیا، توضروری ہے کہ یاتو اس کو رَد کردیا جائے یا کوئی تاویل کی جائے۔ (ت)

 

 (۱؎ ارکان اربعہ    لبحر العلوم    تتمہ فی الجمع بین اصلاتین    مطبوعہ مطبع علوی انڈیا    ص ۱۴۶)

 

اور اس کے مطالعہ سے بحمداللہ تعالٰی ایک اور توارد حسن معلوم ہوا فقیر غفرلہ نے حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے پہلے جواب میں غروب شفق کو قرب غروب پر حمل اور اس محتمل کو اُن نصوص صریحہ مفسرہ کی طرف رد کیا اور قصہ مرویہ ابن عمر کو واحد بتایا تھا بعینہٖ یہی مسلک ملک العلماء نے اختیار فرمایا، فرماتے ہیں:

 

بل المراد بغروب الشفق، قرب غروبہ، لان القصۃ واحدۃ، وماذکرنا من قبل مفسرلا یقبل التاویل، فیاوّل بقرب غروب الشفق، اویقال: ھذا من وھم بعض الرواۃ، واماما ذکرنا اولا، فھو مطابقللامر المتقرر فی الشرع من تعیین الاوقات ۱؎۔

 

غروبِ شفق سے مراد غروب کے قریب ہونا ہے کیونکہ قصّہ ایک ہی ہے اور ہم نے پہلے جو روایت بیان کی ہے وہ مفسّر ہے، تاویل کا احتمال نہیں رکھتی، اس لئے یا تو غروب شفق کی، قربِ غروب سے تاویل کرنی پڑے گی، یا یہ کہا جائے گا کہ یہ کسی راوی کا وہم ہے اور پہلی جو ہم نے روایت ذکر کی ہے، وہ شرع میں جو کچھ مقرر ہوچکا ہے یعنی تعیین اوقات، اس کے مطابق ہے۔ (ت)

 

 (۱؎ رسائل الارکان تتمہ فی الجمع بین اصلاتین مطبوعہ مطبع علوی    ص ۱۴۷ و ۱۴۸)

  

بحمداللہ تعالٰی تیسرا توارد اور واضح ہوا حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ میں کلامِ فقیر یاد کیجئے کہ اس روایت میں اسی طرح مقال واقع ہوئی مگر فقیر کہتا ہے اس کا کون سا حرف جمع حقیقی میں نص ہے الخ بعینہٖ یہی طریقہ مع شی زائد مولانا بحر قدس سرہ، چلے بعد عبارت مذکور فرماتے ہیں:

 

اما جمع التقدیم فلم یرو الافی الروایات الشاذۃ لا اعتداد بھا عند سطوع شمس القاطع ثم لیس فی روایۃ ابی داود عن معاذ مایدل علی تقدیم العصر عن وقتھا؛ وانما فیہ، اذازاغت الشمس قبل ان یرتحل جمع بین الظھر والعصر، ویجوز انیکون الجمع بان یؤخر الظھر الٰی اٰخر وقتھا ویعجل العصر اول وقتھا۔ او ان المراد بالجمع، الجمع فی نزول واحد؛ وانکانتا ادیتا فی وقتیھا فافھم۔ ھکذا ینبغی ان یفھم المقام ۲؎۔

 

رہی جمع تقدیم، تو اس کا ذکر صرف شاذ روایات میں ہے اور قطعی دلیل کا سورج طلوع ہونے کے بعد ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ پھر ابوداود کی روایت میں ایسا لفظ ہے بھی نہیں جو عصر کی اپنے وقت سے تقدیم پر دلالت کرتا ہو۔ اس میں تو صرف اتنا ہے کہ اگر روانگی سے پہلے سُورج ڈھل جاتا تھا تو ظہر وعصر کو جمع کرلیتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ جمع اسی طرح کرتے ہوں کہ ظہر کو آخر وقت تک مؤخر کردیتے ہوں اور عصر اوّل وقت میں پڑھ لیتے ہوں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جمع سے مراد یہ ہے کہ دونوں کو پڑھنے کیلئے ایک ہی مرتبہ اُترتے تھے، اگرچہ ادا اپنے اپنے وقت میں کرتے تھے۔ اس کو سمجھو۔ اسی طرح اس مقام کو سمجھنا چاہے۔ (ت)

 

 (۲؎ رسائل الارکان تتمہ فی الجمع بین اصلاتین مطبوعہ مطبع علوی    صـــ ۱۴۸)

 

اور واقعی بحمداللہ تعالٰی یہ تینوں مطالب عالیہ وہ جواہر غالیہ ہیں جن کی قدر اہلِ انصاف ہی جانیں گے علامہ بحر قدس سرہ، سا فاضل جامع اجل واغر دقیق النظر اگر ایک بیان مسلسل مجمل مختصر میں اُنہیں افادہ فرماجائے ان کی شان تدقیق سے کیا مستبعد پھر بھی ایک رنگ افتخار اُن کے کلام سے مترشح کہ فرماتے ہیں ھکذا ینبغی ان یفھم المقام مگر فقیر حقیر قاصر فاتر پر ان جلائل قدسیہ زاہرہ اور اُن کے ساتھ اور دقائق وحقائق باہرہ مذکورہ کثیرہ وافرہ کا افادہ محض عطیہ علیہ حضرت وہاب جواد بے سبقت استحقاق وتقدم استعداد ہے

 

ذلک فضل اللّٰہ علینا وعلی الناس ولکن اکثر الناس لایشکرونo ربی لک الحمد کماینبغی لجلال وجھک وکمال الائک ودفور نعمائک صل وسلم وبارک علی اکرم انبیائک محمد واٰلہ وسائراصفیائک اٰمین۔ مولانا قدس سرہ، ان نفائس عزیزہ کو بیان کرکے فرماتے ہیں: انظر ماادق نظر ائمتنا حیث لاتفوت عنھم دقیقۃ ۱؎۔ دیکھ تو ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی نظر کیسی دقیق ہے کہ کوئی دقیقہ ان سے فروگزاشت نہیں ہوتا۔ (ت)

 

 (۱؎ ارکان اربعہ    لبحر العلوم    تتمہ فی الجمع بین اصلاتین    مطبوعہ مطبع علوی انڈیا    ص ۱۴۸)

 

فقیر کہتا ہے ہاں واللہ آپ کے ائمہ اور کیا جانا کیسے ائمہ مالکان ازمہ وکاشفانِ غُمہ ایسے ہی دقیق النظر وعالی مدارک وشاہان بزم وشیرانِ معارک ہیں کہ منازل دقیق اجتہاد میں اوروں کے مساعی جمیلہ اُن کے توسن برق رفتار کی گرد کونہ پہنچے اور کیوں نہ ہو کہ آخر وہ وہی ہیں کہ اگر ایمان وعلم ثریا پر معلق ہوتا لے آتے آج کل کے کو رانِ بے بصر اُن کے معارج علیہ سے بے خبر، اگر آئینہ عالمتاب میں اپنا منہ دیکھ کر طعن وتشنیع سے پیش آئیں کیا کیجئے ؎

 

مہ فشاند نوروسگ عوعو کند

کر کسے برخلقت خودمے تند

 

 (چاند روشنی پھیلاتا ہے اور کتّا بھونکتا ہے ہر کوئی اپنی فطرت کے مطابق چلتا ہے)

 

ان حضرات کی طویل وعریض بدزبانیوں کا نمونہ یہیں دیکھ لیجئے مسئلہ جمع میں مُلّاجی کے دعوے تھے کہ وہ دلائل قطعیہ سے ثابت ہے اور اُس کا خلاف کسی حدیث سے ثابت نہیں نہ جمع صوری پر اصلاً کوئی دلیل حنفیہ کے پاس ہے اب بحول وقوت رب قدیر سب اہلِ انصاف نے دیکھ لیا کہ کس ہستی پر یہ لن ترانی کس بِرتے پر تتّا پانی ولاحول ولاقوۃ الّا باللہ العلی العظیم۔

 

ثانیا اقول وباللہ التوفیق اگر نظر تتبّع کو رخصت جولاں دیجئے تو بعونہٖ تعالٰی واضح ہوکہ یہ جواب علما محض تنزّلی تھا ورنہ اسی حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ جمع عرفات بھی ذکر فرماچکے، یہی حدیث سُنن نسائی کتاب المناسک باب الجمع بین الظہر والعصر بعرفہ میں یوں ہے:

 

اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود عن خالد عن شعبۃ عن سلیمٰن عن عمارۃ بن عمیر عن عبدالرحمٰن بن یزید عن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یصلی الصلاۃ لوقتھا الا بجمع فی مزدلفۃ وعرفات ۲؎۔ ہمیں خبر دی اسمٰعیل بن مسعود نے خالد سے شعبہ سے عمارہ بن عمیر سے عبدالرحمن بن یزید سے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر نماز اس کے وقت ہی میں پڑھتے تھے مگر مزدلفہ وعرفات میں۔

 

 (۲؎ النسائی        کتاب الجمع بین الظہر والعصر بعرفۃ    مکتبہ سلفیہ لاہور    ۲/۳۹)

 

مُلّاجی! اب کہے مصیبت کا پہاڑ کس پر ٹوٹا! مُلّاجی! ابھی آپ کی نازک چھاتی پر دلّی کی پہاڑی آئی ہے سخت جانی کے آسرے پر سانس باقی ہوتو سر بچائےے کہ عنقریب مکّہ کا پہاڑ ابوقبیس آتا ہے۔ ملّاجی! دعوٰی اجتہاد پر ادھار کھائے پھرتے ہو اور علمِ حدیث کی ہوا نہ لگی احادیث مرویہ بالمعنی صحیحین وغیرہما صحاح وسنن مسانید ومعاجیم وجوامع واجزا وغیرہما میں دیکھےے صدہا مثالیں اس کے پائےے گا کہ ایک ہی حدیث کو رواۃ بالمعنی کس کس متنوع طور سے روایت کرتے ہیں کوئی پُوری کوئی ایک ٹکڑا کوئی دُوسرا کوئی کسی طرح کوئی کسی طرح جمع طرق سے پُوری بات کا پتا چلتا ہے ولہذا امام الشان ابوحاتم رازی معاصر امام بخاری فرماتے ہیں ہم جب تک حدیث کو ساٹھ۶۰ وجہ سے نہ لکھتے اُس کی حقیقت نہ پہچانتے۔ یہاں بھی مخرج حدیث اعمش بن عمارۃ عن عبدالرحمٰن عن عبداللّٰہ ہے اعمش کے بعد حدیث منتشر ہُوئی اُن سے حفص بن غیاث وابومعٰویہ وابوعوانہ وعبدالواحد بن زیاد وجریر وسفیان وداؤد وشعبہ وغیرہم اجلّہ نے روایت کی یہ روایتیں الفاظ واطوار وبسط واختصار وذکر واقتصار میں طرق شتی پر آئیں کسی میں مغرب وفجر کا ذکر ہے ظہر عرفہ مذکور نہیں کروایۃ الصّححین کسی میں ظہر عرفہ ومغرب کا بیان ہے فجر مزدلفہ ماثور نہیں کروایۃ النسائی کسی میں صرف مغرب کا تذکرہ ہے ظہر وفجر وصےغہ مارأیت وغیرہ کچھ مسطور نہیں کحدیث النسائی ایضا فی المناسک، باب جمع الصلاتین بالمزدلفۃ، اخبرنا القاسم بن زکریا ثنا مصعب بن المقدام عن داود عن الاعمش عن عمارۃ عن عبدالرحمٰن بن یزید عن ابن مسعود ان النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم جمع بین المغرب والعشاء بجمع ۱؎۔ جیسا کہ نسائی کی حدیث جو کتاب المناسک، باب جمع الصلاتین بمزدلفہ میں ہے حدیث بیان کی ہم سے قاسم ابن زکریا نے مصعب ابن مقدام سے، اس نے داؤد سے، اس نے اعمش سے، اس نے عمارہ سے، اس نے عبدالرحمن ابن یزید سے، اس نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مغرب وعشاء کو مزدلفہ میں جمع کیا۔ (ت)

 

 (۱؎ سنن النسائی    الجمع بین الصلواۃ بالمزدلفۃ    مطبوعہ مکتبہ سلفیہ لاہور    ۲/۴۰)

  

اکثر میں نمازِ فجر پیش ازوقت مذکور ہے وھو بطریق کل ماذکرنا من رواۃ الاعمش ماخلا جریرا (سوائے جریر کے، اعمش کے جتنے راوی ہم نے ذکر کےے ہیں وہ اسی طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ ت) کسی میں لفظ بغلس مفید واقع ومصرح مرام کی تصریح ہے کمامر لمسلم من حدیث الضبی  (جیسا کہ مسلم کے حوالے سے ضبی کی حدیث گزری ہے۔ ت) ان تنوعات سے نہ وہ حدیثیں متعدد ہوجائیں گی نہ ایک طریق دوسرے کا نافی ومنافی ہوگا بلکہ ان کے اجتماع سے جو حاصل ہو وہ حدیث تام قرار پائے گا۔ اب خواہ یہ اختلاف رواۃ اعمش کی روایت بالمعنی سے ناشَے ہُوا خواہ خود اعمش نے مختلف اوقات میں مختلف طور پر روایت بالمعنی کی اور ہر راوی نے اپنی مسموع پہنچائی چاہے یہ تنویع اعمش نے خود کی چاہے عمارہ یا عبدالرحمن سے ہوئی اور وہ سب اعمش نے سُنی یا اعمش کو پہنچی خواہ اصل منتہائے سند سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اوقات عدیدہ میں حسبِ حاجت مختلف طوروں پر ارشاد فرمائی مثلاً شبِ مزدلفہ راہِ مزدلفہ میں یا وہاں پہنچ کر آج کی مغرب وفجر کا مسئلہ ارشاد کرنے کیلئے صرف اُنہیں دو۲ کا ذکر فرمایا عصر تو سب کے سامنے ابھی جمع کرچکے تھے اُس کے بیان کی حاجت کیا تھی دوسرے وقت جمع بین الصلاتین کا مسئلہ پیش ہو وہاں ذکرِ فجر کی حاجت نہ تھی عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ کے ذکر پر قناعت کی کہ سوا ان دو۲ نمازوں کے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی جمع نہ فرمائی اور کسی وقت مغرب وعشائے مزدلفہ کا ذکر ہوکہ ان میں سنّت کیا ہے اس وقت یہ پچھلی حدیث مختصر افادہ کی۔

 

ثم اقول لطف یہ کہ یہی حدیث ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ دوسرے مخرج مروی صحیح بخاری وسنن نسائی سے سیدنا امام محمد نے آثار مرویہ کتاب الحجج میں بسندِ جلیل وصحیح جس کے سب رواۃ اجلّہ ثقات وائمہ اثبات ورجال صحیحین بلکہ صحاح ستّہ سے ہیں یوں روایت فرمائی:

 

اخبرنا سلام بن سلیم الحنفی عن ابی اسحٰق السبیعی عن عبدالرحمٰن بن الاسود عن علقمۃ بن قیس والاسود بن یزید قالا کان عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ یقول لاجمع بین الصلاتین الابعرفۃ الظھر والعصر ۱؎۔

 

 (۱؎ کتاب الحجۃ باب الجمع بین الصلاتین    دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۱/۱۶۵)

 

سلام بن سلیمٰن الحنفی ابواسحاق سبیعی سے وہ عبدالرحمن بن اسود سے وہ علقمہ بن قیس اور اسود بن یزید سے راوی ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے تھے جمع بین الصلاتین جائز نہیں مگر عرفہ میں ظہر وعصر۔

کیوں مُلّاجی! اب یہاں کہہ دینا کہ ابن مسعود نے فقط جمع عرفات دیکھی جمع مزدلفہ خارج رہی حالانکہ ہرگز نہ اس سے اعراض نہ اس پر اعتراض بلکہ ہر محل وموقع کلام میں وہاں کی قدر حاجت پر اقتصار ہے یہاں مسافر کے جمع بین الظہر والعصر کا ذکر ہوگا اُس پر فرمایا کہ ان میں جمع صرف روز عرفہ عرفات میں ہے اس کے سوا ناجائز، ولہذا الصلاتین معرف بلام فرمایا جس میں اصل عہد ہے۔ مُلّاجی! کُتبِ حدیث آنکھ کھول کر دیکھو روایات بالمعنٰی کے یہی انداز آتے ہیں خصوصاً امام بخاری تو بذاتِ خود اپنی جامع صحیح میں اس کے عادی ہیں حدیث کو ابواب مختلفہ میں بقدر حاجت پارہ پارہ کرکے لاتے ہیں اس سے ایک پارہ دوسرے کو رَد نہیں کرتا بلکہ وہ مجموع حدیث کامل ٹھہرتی ہے۔

اس سے بحمداللہ تعالٰی واضح وآشکار ہوا کہ یہ حدیث بھی تمام وکمال یوں ہے کہ میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو۲ نمازیں جمع فرمائی ہوں کبھی کوئی نماز اپنے وقت سے پہلے یا وقت کے بعد پڑھی ہو مگر صرف دو۲ عصر عرفہ وقت ظہر اور مغرب مزدلفہ وقت عشائ، اور اُس دن فجر کو بھی وقت مسنون ومعمول سے پہلے طلوعِ فجر کے بعد ہی تاریکی میں پڑھ لیا تھا اُس دن کے سوا کبھی ایسا بھی نہ کیا۔ الحمدللہ کہ آفتابِ حق وصواب بے پردہ وحجاب رابعۃ النہار پر پہنچا، اب اس حدیث نسائی جامع ذکر عرفہ ومزدلفہ پر مُلّاجی نے بکمال مکابرہ جو چوٹیں کی ہیں اُن کی خدمت گزاری کیجئے اور ماہ ضیا پناہ رسالہ کو باذنہٖ تعالٰی شب تمام کامثر د ہ دیجئے واللہ المعین وبہ نستعین۔

لطیفہ: یارب جہل جاہلین سے تیری پناہ، مُلّاجی تورَدِ احادیث وجرح ثقات وقدح صحاح کے دھنی ہیں۔ عمل بالحدیث کے ادعائی راج میں انہیں مکابروں کی دیواریں چُنی ہیں۔ حدیث صحیح نسائی شریف کو دیکھا کہ انہیں مصیبت کا پہاڑ توڑے گی۔ حضرت نے گُلِ سرسبد کو گِل تہ گلخن بنا چھوڑے گی لہذا نیامِ حیا سے تےغِ ادا نکالی اور احادیث صحاح میں تکمیل مضمون فریقا تکذبون وفریقا تقتلون کی یوں بناڈالی ف۱ حدیث نسائی کی نامقبول اور مجروح اور متروک ہے دو۲ راوی اس کے مجروح ہیں ایک سلیمٰن بن ارقم کہ اُس کی توثیق کسی نے نہیں کی بلکہ ضعیف کہا اس کو تقریب میں سلیمٰن بن ارقم ضعیف اور ایک خالد بن مخلد کہ یہ شخص رافضی تھا اور صاحبِ احادیث افراد کا کہا تقریب میں خالد بن مخلد صدوق متشیع ولہ افراد۔

 

 ۱ معیارالحق    ص ۳۸۴)

 

اقول:  اوّلاً وہی مُلّاجی کی قدیمی سفاہت تشیع ورفض کے فرق سے جہالت۔

ثانیا: صحیحین سے وہی پُرانی عداوت خالد بن مخلد نہ صرف نسائی بلکہ بخاری ومسلم وغیرہما جملہ صحاح ستہ کے رجال سے ہے امام بخاری کا خاص اُستاذ اور مسلم وغیرہ کا اُستاذ الاستاذ۔

ثالثاً : مُلّاجی! تم نے تو علم ِ حدیث کی الف بے بھی نہ پڑھی اور ادعائے اجتہاد کی یوں بے وقت چڑھی ذرا کسی پڑھے لکھے سے ضعیف ومتشیع وصاحبِ افراد اور متروک الحدیث میں فرق سیکھو، متشیع وصاحبِ افراد ہونا تو اصلاً موجبِ ضعف نہیں، صحیحین دیکھئے ان کے رواۃ میں کتنے متشیع عــہ۱ موجود ہیں اور لہ عــہ۲ افراد والوں کی کیا گنتی جبکہ ہم حواشی فصل اول میں بکثرت لہ اوھام یھم، ربما وھم، یخطیئ، یخطیئ کثیرا، کثیرالخطائ، کثیرالغلط وغیرہا والے ذکرکر آئے،

 

عــہ۱ مثل ابان خ بن یزید العطار، یزیدع بن ابی انیسۃ، عبدالرحمٰن خ بن غزوان وغیرہم ۱۲ منہ (م)

عــہ۲ جن میں تیس۳۰ سے زیادہ حواشی فصل اول پر مذکور ہوئے ۱۲ منہ (م)

 

رہا ضعیف اُس میں اور متروک میں بھی زمین وآسمان کابل ہے ضعیف کی حدیث معتبر ومکتوب اور متابعات وشواہد میں مقبول ومطلوب ہے بخلاف متروک اس معنی اور اس کے متعلقات کی تحقیقاتِ جلیلہ فقیر غفرلہ القدیر کے رسالہ الھاد الکاف فی حکم الضعاف میں مطالعہ کیجئے اور سردست اپنی مبلغ علم تقریب ہی دیکھے کہ ضعیف درجہ ثامنہ اور متروک اُس کے دو۲ پایہ نیچے درجہ عاشرہ میں ہے خود عــہ بعض ضعفا رجال شیخین میں اگرچہ متابعۃً یا یوں بھی واقع جس سے اُن کا نامتروک ہونا واضح۔

 

عــہ مثل اسید بن زید، اسباط ابوالیسع، عبدالکریم بن ابی المخار، والاشعث بن سوار، زمعۃ بن صالح، محمد بن یزید الرفاعی، محمد بن عبدالرحمٰن مولی بنی زھرۃ، احمد بن یزید الحرانی، ابی بن عباس وغیرھم، قال فی التقریب فی الخمسۃ الاول: ضعیف، والسادس لیس بالقوی، والسابع مجھول، والثامن ضعفہ ابوحاتم، والتاسع فیہ ضعف۔ وعبدالکریم، علم لہ المزی فی التھذیب خت، وتبعہ فی المیزان، فقال: اخرج لہ خ تعلیقا، وم متابعۃ۔ وکذا تابعہ الحافظ فی رموز التقریب، ثم نبہ ان الصواب خ، حیث ذکر مالہ فی الجامع الصحیح، ثم قال: ھذا موصول ولیس معلقا۔ وقال فی الرفاعی: ذکرہ ابن عدی فی شیوخ البخاری، وجزم الخطیب بان البخاری روٰی عنہ؛ لکن قدقال البخاری: رأیتھم مجمعین علی ضعفہ ۱؎۔ اھ قلت: المثبت اثبت، فلذاعلمنا علیہ خ، واخرناھا عن لمکان تردد الحافظ۔ والانصاف ان فلیحا وعبادا وامثالھا ایضا ضعفائ، والعذر ماافادہ الامام ابن الصلاح وتبعہ النووی وغیرہ فارجع واعرف۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم (م)

 

مثلاً (ا) اسید (۲) اسباط (۳) عبدالکریم (۴) اشعت (۵) زمعہ (۶) محمد ابن یزید رفاعی (۷) محمد بن عبدالرحمن (۸) احمد (۹) اُبَیّ اور دوسرے۔

تقریب میں کہا کہ پہلے پانچ ضعیف ہیں، چھٹا بھی خاص قوی نہیں ہے، ساتواں مجہول ہے، آٹھویں کو ابوحاتم نے ضعیف کہا ہے، نویں میں بھی ضعف ہے۔

عبدالکریم کے لئے مزی نے تہذیب میں ''خت'' کی علامت لگائی ہے (واضح رہے کہ ''خ'' سے مراد بخاری ہے اور ''ت'' سے تعلیق، یعنی بخاری نے بھی اس کی روایت تعلیقاً لی ہے) میزان میں بھی تہذیب کی پیروی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے بخاری نے تعلیقاً اور مسلم نے متابعۃً روایت کی ہے۔ اسی طرح حافظ نے بھی تقریب کی علامات میں اس کی پیروی کی ہے لیکن پھر متنبہ کیا ہے کہ صحیح ''خ'' ہے (''خت'' نہیں) چنانچہ حافظ نے پہلے تو عبدالکریم کی وہ روایت ذکر کی ہے جو بخاری میں ہے، پھر کہا ہے کہ یہ روایت وصل کے ساتھ ہے نہ کہ تعلیق کے طور پر۔ (اس لئے ''خ'' کے ساتھ ''ت'' نہیں ہونی چاہے کیونکہ ''ت'' تعلیق کی علامت ہے)(محمد ابن یزید) رفاعی کے بارے میں کہا ہیکہ اس کو ابن عدی نے بخاری کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے اور خطیب نے یقین ظاہر کیا ہے کہ بخاری نے اس سے روایت کی ہے، لیکن بخاری ہی نے کہا ہے کہ میں نے محدثین کو اس کے ضعف پر متفق پایا ہے اھ میں نے کہا ثابت کرنے والے کی بات زیادہ پختہ ہوتی ہے (اور ابن عدی نے اس کا شیخ بخاری ہونا ثابت کیا ہے) اس لئے ہم نے بھی اس کے نام پر ''خ'' کی علامت لگائی ہے۔ لیکن حافظ کو چونکہ اس کے شیخ بخاری ہونے میں تردّد ہے اس لئے ''خ'' کو ہم نے ''م'' کے بعد لگایا ہے (''م'' سے مراد مسلم ہے) اور انصاف کی بات یہ ہے کہ فلیح، عباد اور ان جیسے اور کوئی راوی بھی ضعیف ہیں (اس کے باوجود ان کی روایات صحاح میں پائی جاتی ہیں) امام ابن الصلاح نے اس کی معذرت خواہانہ وجہ بیان کی ہے اور نووی وغیرہ نے بھی ان کا اتباع کیا ہے، اس لئے ان کی طرف مراجعت کرو اور سمجھو! واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)

 

 (۱؎ تقریب التہذیب    ترجمہ نمبر ۶۴۲۱ محمد بن یزید دارالکتب العمیۃ بیروت    ۲/ ۱۴۸/۱۴۷)

 

رابعا:  یہ سب کلام ملّاجی کی غیبی بول عیبی احکام مان کرتھا حضرت کی اندرونی حالت دیکھےے تو پھر حسبِ عادت جو رواۃِ حدیث بے نسب ونسبت پائے ان میں جہاں تحریف وتصرف کا موقع ملا وہی تبدیل کا رنگ لائے سند میں تھا عن شعبۃ عن سلیمٰن۔ اب ملّاجی اپنی مبلغ علم تقریب کھول کر بیٹھے رواۃ نسائی میں شعبہ نام کا کوئی نہ ملا جس پر تقریب میں کچھ بھی جرح کی ہو لہذا وہاں بس نہ چلا سلیمٰن کو دیکھیں تو پہلی بسم اللہ یہی سلیمٰن بن ارقم ضعیف نظر پڑا حکم جڑ دیا کہ سند میں وہی مراد اور حدیث مردود، ملّاجی! اپنے دھرم کی قسم سچ بتانا یہ جبروتی حکم آپ نے کس دلیل سے جمایا، کیا اسی کا نام محدّثی ہے، سچّے ہوتو برہان لاؤ ورنہ اپنے کذب وعیب رحم بالغیب پر ایمان قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صٰدقین حق طلبان وحق نیوش کو اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ مخرج حدیث اعمش عن عمارۃ عن عبدالرحمٰن عن عبداللّٰہ بخاری مسلم ابوداؤد نسائی وغیرہم سب کے یہاں حدیث عمارہ بطریق امام اعمش ہی مذکور، صحیحین کی تین سندیں بطرق حفص بن غیاث وابی معٰویۃ وجریر کلھم عن الاعمش عن عمارۃ صدر کلام میں، اور ایک سند نسائی بطریق داود عن الاعمش عن عمارۃ اس کے بعد سُن چکے۔ پنجم نسائی کتاب الصلاۃ میں ہے:

 

اخبرنا قتیبۃ ثنا سفیان نا الاعمش عن عمارۃ ۱؎ الخ۔

 

 (۱؎ نسائی النسائی    الجمع بین المغرب والعشاء الخ    مطبوعہ نور محمد کتب خانہ کراچی    ۱/۱۰۰)

 

ششم: نسائی مناسک باب الوقت الذی یصلی فیہ الصبح بالمزدلفۃ اخبرنا محمد بن العلاء ثنا ابومعٰویۃ عن الاعمش عن عمارۃ ۱؎ الخ

 

 (۱؎ سُنن النسائی    الوقت الذی یصلی فیہ الصبح بالمزدلفہ    مطبوعہ نور محمد کتب خانہ کراچی    ۲/۴۶)

  

ہفتم:  سنن ابی داؤد حدثنا مسدد وان عبدالواحد بن زیاد وابا عوانۃ وابا معٰویۃ حدثوھم عن الاعمش عن عمارۃ ۲؎۔

 

 (۲؎ سنن ابی داؤد    باب الصلٰوۃ بجمع        آفتاب عالم پریس لاہور        ۱/۲۶۷)

 

ہشتم:  امام طحاوی حدثنا حسین بن نصرثنا قبیصۃ بن عقبۃ والفریابی قالا ثنا سفیٰن عن الاعمش عن عمارۃ بن عمیر ۳؎ الخ۔

 

 (۳؎ شرح معانی الاثار    الجمع بین اصلاتین        مطبوعہ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۱/۱۱۳)

 

یہ امام اعمش اجل ثقہ ثبت حجت حافظ ضابط کبیر القدر جلیل الفخر اجلہ ائمہ تابعین ورجال صحاح ستّہ سے ہیں جن کی وثاقت عدالت جلالت آفتاب نیمروز سے روشن تر ان کا اہم مبارک سلیمٰن ہے وہی یہاں مراد، کاش تضعیف ابن ارقم دیکھ پانے کی خوشی ملّاجی کی آنکھیں بند نہ کردیتی تو آگے سُوجھتا کہ دنیا میں ایک یہی سلیمٰن نہیں دو۲ ورق لوٹتے تو اسی تقریب میں تھا: سلیمٰن بن مھران الاعمش ثقۃ حافظ عارف بالقراء ات ورع ۴؎  (سلیمٰن ابن مہران اعمش، ثقہ ہے، حافظ ہے، قرأۃ کو جاننے والا ہے، متقی ہے۔ ت)

 

 (۴؎ تقریب التہذیب ترجمہ نمبر ۲۶۲۳    دارالکتب العلمیہ بیروت  ۱/۳۹۲)

 

جن حضرات کا جوشِ تمیز اس حد تک پہنچا ہو اُن سے کیا کہا جائے کہ ان سلیمٰن سے راوی بھی آپ نے دیکھے کون ہیں امیرالمومنین فی الحدیث امام شعبہ بن الحجاج جنہیں التزام تھا کہ ضعیف لوگوں سے حدیث روایت نہ کریں گے جس کی تفصیل فقیر کے رسالہ منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین میں مذکور وہ اور ابن ارقم سے روایت مگر ناواقفوں سے ان باتوں کی کیا شکایت!

خامساً حضرت کو اپنی پرانی مشق صاف کرنے کو اُسی طرح کا ایک اور نام ہاتھ لگایعنی خالد امام نسائی نے فرمایا تھا: اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود عن خالد عن شعبۃ بیدھڑک حکم لگادیا کہ اس سے مراد خالد بن مخلد رافضی ہے ملّاجی! پانچ پیسے کی شیرینی تو ہم بھی چڑھائیں گے اگر ثبوت دوکہ یہاں خالد سے یہ شخص مراد ہے، مُلّاجی! تم کیا جانو کہ ائمہ محدثین کس حالت میں اپنے شیخ کے مجرد نام بے ذکر ممیز پر اکتفا کرتے ہیں، ملّاجی صحابہ کرام میں عبداللہ کتنے بکثرت ہیں خصوصاً عبادلہ خمسہ رضی اللہ تعالٰی عنہم، پھر کیا وجہ ہے کہ جب بصری عن عبداللّٰہ کہے تو عبداللہ بن عمرو بن عاص مفہوم ہوں گے، اور کوئی کہے تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہم، پھر رواۃ مابعد میں تو عبداللہ صدہا ہیں مگر جب سوید کہیں حدثنا عبداللّٰہ تو خواہ مخواہ ابن المبارک ہیں، محمدین کا شمار کون کرسکتا ہے مگر جب بندار کہیں عن محمد عن شعبۃ تو غندر کے سوا کسی طرف ذہن نہ جائے گا وعلٰی ہذا القیاس صدہا مثالیں ہیں جنہیں ادنٰی ادنٰی خدامِ حدیث جانتے سمجھتے پہچانتے ہیں۔ مُلّاجی! یہخالد امام اجل ثقہ ثبت حافظ جلیل الشان خالد بن حارث بصری ہیں کہ امام شعبہ بن الحجاج بصری کے خُلّص تلامذۃ اور امام اسمٰعیل بن مسعود بصری کے اجل اساتذہ اور رجال صحاح ستّہ سے ہیں اسمٰعیل بن مسعود کو اُن سے اور اُنہیں شعبہ سے اکثار روایت بدرجہ غایت ہے، اسی سنن نسائی میں اسمٰعیل کی بیسیوں روایات اُن سے موجود، ان میں بہت خاص اسی طریق سے ہیں کہ اسمٰعیل خالد بن حارث سے اور خالد شعبہ بن الحجاج سے ان میں بہت جگہ خود اسمٰعیل نے نسبِ خالد مصرحاً بیان کیا ہے۔ بہت جگہ اُنہوں نے حسبِ عادت مطلق چھوڑا۔ امام نسائی نے واضح فرمادیا ہے بہت جگہ سابق ولاحق بیانوں کے اعتماد پر یوں ہی مطلق باقی رکھا ہے میں آپ کا حجاب ناواقفی توڑنے کو ہر قسم کی مصرح روایات سے بہ نشان کتاب وباب کچھ حاضر کروں۔

 

طریق شعبۃ: (۱) کتاب الافتتاح باب التطبیق اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ عن سلیمٰن ۱؎ الخ۔

 

 (۱؎ النسائی    باب التطبیق    مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۱۲۳)

 

 (۲)    کتاب الطہارۃ باب النضح اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ ۲؎ الخ۔

 

 (۲؎ النسائی    باب النضح        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۱۹)

 

 (۳)    کتاب المواقیت الرخصہ فی الصلاۃ بعد العصر اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود عن خالد بن الحارث عن شعبۃ ۳؎ الخ۔

 

 (۳؎ النسائی    الرخصۃ فی الصلٰوۃ بعد العصر    مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۶۷)

 

 (۴)    کتاب الامامۃ، الجماعۃ اذاکانوا اثنین اخبرنا اسمعیل بن مسعود ثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ ۴؎ الخ۔

 

 (۴؎ النسائی    الجماعۃ اذاکانوا اثنین    مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۹۷)

 

 (۵)    کتاب السہو باب التحری اخبرنا اسمٰعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ ۵؎ الخ۔

 

 (  ۵؎ النسائی    باب التحری        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۱۴۶)

 

(تصریح اسمعیل سوی مامر)

 

 (۶)    کتاب الامامۃ الرخصۃ للامام فی التطویل اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد بن الحارث ۶؎ الخ۔

 

 (۶؎ النسائی    الرخصۃ للامام فی التطویل    مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۹۴)

 

 (۷)    کتاب قیام اللیل، باب وقت رکعتی الفجر اخبرنا اسمعیل بن مسعود قال ثنا خالد بن الحارث ۱؎ الخ۔

 

 (۱؎ سنن النسائی    باب وقت رکعتی الفجر        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۲۰۶)

 

(۸)    کتاب الزکوٰۃ، عطیۃ المرأۃ بغیر اذن زوجھا اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد بن حارث ۲ ؎ الخ۔

 

 (۲؎ سنن النسائی    عطیۃ المرأۃ الخ        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۲۸۹)

 

 (۹)المزارعۃ احادیث النہی عن کری الارض بالثلث والربع اخبرنا اسمعیل بن مسعود قال ثنا خالد بن الحارث ۳؎ الخ۔

 

 (۳؎ سنن النسائی    الثالث من الشروط فیہ المزارعۃ والوثائق    مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۲/۱۴۴)

 

 (۱۰)القسامۃ والقود، باب عقل الاصابع اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث ۴؎ الخ۔

 

 (۴؎ سنن النسائی    باب عقل الاصابع        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۲/۲۴۷)

 

 (التصریح النسائی)

 

 (۱۱)    کتاب الحیض مضاجعۃ الحیض فی ثیاب حیضتہا اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد ھو ابن الحارث ۵؎ الخ۔

 

 (۵؎ سنن النسائی    مضاجعۃ الحیض الخ        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۴۳)

  

 (۱۲)    قبیل کتاب الجمعۃ با ب اذاقیل للرجل ھل صلیت اخبرنا اسمعیل بن مسعود ومحمد بن عبدالاعلی قالا حدثنا خالد ھو ابن الحارث ۶؎ الخ۔

 

 (۶؎ سنن النسائی    باب اذاقیل للرجل الخ        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۱۶۰)

 

 (۱۳)    کتاب الصیام التقدم قبل شھر رمضان اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد وھو ابن الحارث ۷؎۔

 

 (۷؎ سنن النسائی    التقدم قبل شھر رمضان        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۱/۲۴۹)

 

 (۱۴)    المزارعۃ من الاحادیث المذکورۃ اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد وھو ابن الحارث۸؎۔

 

 (۸؎ سنن النسائی    المزارعۃ من الاحادیث مذکورۃ    مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۲/۱۴۶)

 

 (۱۵)    کتاب الاشربۃ الترخیص فی انتباذ البسر اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد یعنی ابن الحارث ۹؎ الخ۔

 

 (۹؎ سنن النسائی    الترخیص فی انتباذ البسر الخ        مطبوعہ مطبع سلفیہ لاہور        ۲/۳۲۱)

 

کیوں مُلّاجی! یہ کیا دین ودیانت ہے کہ حدیثیں رَد کرنے کو ایسے جھُوٹے فقرے بناؤ اور بے تکان جزم کرتے ہوئے پلک تک نہ جھپکاؤ، وہ تو خدا نے خیر کرلی کہ امام نسائی نے اسمعیل بن مسعود کہہ دیا تھا کہیں نرا اسمعیل ہوتا تو مُلّاجی کو کہتے کیا لگتا کہ یہ حدیث تم اہل سنّت کے نزدیک سخت مردود کہ اس کی سند میں اسمعیل دہلوی موجود،

مُلّاجی! صرف ایک مسئلے میں اول تا آخر اتنی خرافات، علمِ حدیث کی کھُلی کھُلی باتوں سے یہ جاہلانہ مخالفات، اگر دیدہ ودانستہ ہیں تو شکایت کیا ہے کہ اخفائے حق وتلمیح باطل وتلبیس عامی واغوائے جاہل، طوائف ضالہ کا ہمیشہ داب رہا ہے، اور اگر خود حضرت کی حدیث دانی اتنی ہے تو خدارا خدا ورسول سے حیا کیجئے، اپنے دین دھرم پر دیا کیجئے یہ مُنہ اور اجتہاد کی لپک، یہ لیاقت اور مجتہدین پر ہمک، عمر وفا کرے تو آٹھ دس۱۰ برس کسی ذی علم مقلد کی کفش برداری کیجئے، حدیث کے متون وشروح واصول ورجال کی کتابیں سمجھ کر پڑھ لیجئے اور یہ نہ شرمائیے کہ بوڑھے طوطوں کے پڑھنے پر لوگ ہنستے ہیں، ہنسنے دو ہنستے ہی گھر بستے ہیں، اگر علم مل گیا تو عین سعادت یا طلب میں مرگئے جب بھی شہادت، بشرطِ صحت ایمان وحسن نیت واللّٰہ الھادی لقلب اخبت۔

الحمدللہ مہرِ حق متجلی ہوا اور آفتابِ صواب متجلی، جن جن احادیث سے جمع بین الصلاتین کا ثبوت نہ سہل ثبوت بلکہ قطعی ثبوت زعم کیا گیا تھا واضح ہُوا کہ اُن میں ایک حرف مثبت مقال نہیں مذہب حنفی اثبات صوری ونفی حقیقی دونوں میں بے دلیل بتادیا تھا، روشن ہُوا کہ قرآن وحدیث اُسی کے موافق دلائل ساطعہ اُسی پر ناطق جن میں رَد وانکار کی اصلاً مجال نہیں، اور بعونہٖ تعالٰی بطفیل مسئلہ وہ تازہ مجہلہ کہنہ مشغلہ ادعائے عمل بالحدیث کا اُشغلا اُس کا بھرم بھی من مانتا کھلاکہ ہواسے غرض ہوس سے کام اور اتباعِ حدیث کا نام بدنام، پُرانے پُرانے حد کے سیانے جب اپنی سخن پروری پر آئیں صحیح حدیثوں کو مردود بتائیں ثقہ ائمہ کو مطعون بتائیں، بخاری ومسلم پسِ پشت ڈالیں، اُن کے رواۃ واسانید میں شاخسانے نکالیں، ہزار چھل کریں سو ہزار پیچ جیسے بنے صحیح حدیثیں ہیچ، امام مالک وامام شافعی کی تقلید حرام نہ فقط حرام کہ شرک کا پےغام، مگر جب حنفیہ کے مقابل دم پر بنے مجتہد چھوڑ مقلدوں کی تقلید سے گاڑھی چھنے، اب ایک ایک شافعی مالکی کو جھک جھک کر سلام اُس کے پاؤں پکڑ اُس کا دامن تھام، یہ بڑا پیشوا وہ بھاری امام، اُن میں جس کا کلام کہیں ہاتھ لگ گیا اگرچہ کیسا ہی ضعیف کتنا ہی خطا، بس خضر مل گئے غنچے کھُل گئے، اندر کے جی کے کواڑ کھُل گئے سب کوفت سوخت کے غبار دُھل گئے، وحی مل گئی ایمان لے آئے اُسی سے حنفیہ پر حجت لائے، اب خبردار کوئی پیچھے نہ پڑو احبار ورہبان کی آیت نہ پڑھو، چھٹکارے کی گھڑی بچاؤ کا وقت ہے ، شرک بلا سے ہو اب تو مکت ہے۔ مسلمانو! حضرات کے یہ انداز دیکھے بھالے اپنا ایمان بچائے سنبھالے، فریب میں نہ آنا یہ زہر درجام ہیں دھوکا نہ کھانا، سبزہ بردام ہیں بے سہاروں کی چال ہر حال بُری ہے تقلید سے بری ائمہ سے بری ہے، بے راہ روی کا دھیان نہ لانا چادر سے زیادہ پاؤں نہ پھیلانا، اتباعِ ائمہ راہِ ہُدٰی ہے راہِ ہُدٰی کا والی خدا ہے، للّٰہ الحمد ولی الھدایۃ منہ البدایۃ والیہ النھایۃ۔

 

خلاصۃ الکلام وحسن الختام الحمدللہ سخن اپنے ذروہ اقصٰی کو پہنچا اب ملخص کلام وحاصل مرام چند باتیں یاد رکھئے:

اوّلا جمع صوری بدلائل صحیحہ روشن ثبوت سے بے پردہ وحجاب اور اُس کا انکار انکارِ آفتاب۔

ثانیا کسی حدیث صحیح میں جمع تقدیم کا نام کو بھی اصلاً پتا نہیں اُس کی نسبت ادعا ی قطعی ثبوت محض نسج العنکبوت۔

ثالثاً جمع تاخیر میں بھی کوئی حدیث صحیح صریح جیسا کہ ادعا کیا جاتا ہے ہرگز موجود نہیں یا ضعاف ومناکیر ہیں یا محض بے علاقہ یا صاف محتمل اور محتملات سے ہوسِ اثبات مہمل ومختل۔

رابعاً جب جمع صوری پر ثبوت مفسر متعین ناقابل تاویل قائم تو محتملات خصوصاً حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا اُسی کی طرف رجوع لازم کہ قاعدہ ارجاع محتمل بہ متعین ہے نہ عکس کہ سراسر نکس۔

 

خامساً نماز بعد شہادتین اہم فرائض واعظم ارکان اسلام ہے اور اُس میں رعایت وقت کی فرضیت اور اظہر ضروریاتِ دین سے جسے مسلمانوں کا ایک ایک بچّہ جانتا ہے یونہیں اوقاتِ خمسہ غایت شہرت واستفاضہ پر بالغ حد تو اتر ہیں اگر حضور پُرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حالتِ سفر میں جس کی ضرورت ہمیشہ ہر زمانہ میں ہر شخص کو رہی اور رہتی ہے چار نمازوں کے لئے اوقاتِ مشہورہ معلومہ معروفہ کے سوا قولاً یا فعلاً کوئی اور حکم عطا فرمایا ہوتا تو واجب تھا کہ جس شہرت جلیلہ کے ساتھ اوقاتِ خمسہ منقول ہوئے اُسی طرح یہ نیا وقت بھی نقل کیا جاتا آخر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ فعل کسی خلوت میں نہ کیا غزوہ تبوک میں ہزارہا صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ہمراہِ رکاب سعادت مآب تھے اگر حضور جمع فرماتے بلاشبہہ وہ سب کے سب دیکھتے اور کثرت رواۃ سے اسے بھی مشہور کر چھوڑتے یہ کیا کہ ایسی عظیم بات ایسے جلیل فرض کے ایسے ضروری لازم میں ایسی صریح تبدیل ایسے مجمع کثیر کے سامنے واقع ہو اور اُسے یہی دو ایک راوی روایت فرمائیں تو بلاشبہہ یہی جمع صوری فرمائی جس میں نہ وقت بدلا نہ کسی حکم میں تغیر نے راہ پائی کہ اُس کے اشتہار پر دواعی متوفر ہوتے نظرِ انصاف صاف ہو تو صرف ایک یہی کلام تمام دلائل خلاف کے جواب کو بس ہے کہ جب باوصف توفر دواعی نقل آحاد ہے تو لاجرمِ جمع صوری پر محمول کہ توفر مہجور اور بالفرض کوئی روایت مفسرہ ناقابل تاویل ملے تو متروک العمل کہ ایسی جگہ آحاد رہنا عقل سے دُور۔

سادساً نمازوں کے لئے تعیین وتخصیص اوقات وآیات قرآن عظیم واحادیث حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے قطعی الثبوت ہے اگر کہیں اُس کا خلاف مانیے تو وہ بھی ویسا ہی قطعی چاہے جیسے عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ کا اجماعی مسئلہ ورنہ یقینی کے مقابل ظنی مضمحل۔

سابعاً بالفرغ اگر مثل منع دلائل جمع بھی قابل سمع تسلیم کیجئے تاہم ترجیح منع کوہے کہ جب حاظر ومبیح مجتمع ہوں تو حاظر مقدم ہے۔

ثامناً جانب جمع صرف نقل فعل ہے قول اگر ہے تو جمع صوری میں اور جانب منع دلائل قولیہ وفعلیہ دونوں موجود اور قول فعل پر مرجح تو مجموع قول وفعل محض نقل فعل پر بدرجہ اولٰی۔

 

تاسعاً افقہیت راوی اور مرجح منع ہے کہ ابن عمر وانس میں کسی کو فقاہت جلیلہ عبداللہ بن مسعود تک رسائی نہیں رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین، یہ وہی ابن مسعود ہیں جن کی نسبت حدیث میں ہے، حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: تمسکوا بعھد ابن ام عبد ۱؎۔ (ابن اُم عبد کی باتوں سے تمسک کیا کرو) رواہ الترمذی عنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ۔

 

 (۱؎ جامع الترمذی    مناقب عبداللہ بن مسعود    مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی    ۲/۲۲۱)

(نوٹ: اصل متن ترمذی میں الفاظ یوں ہیں تمسکوا بعھد ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ۔ نذیر احمد)

 

مرقاۃ میں ہے اسی لئے ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اُن کی روایت وقول کو خلفائے اربعہ کے بعد سب صحابہ کے قول پر ترجیح دیتے ہیں ۲؎۔

 

 (۲؎ مرقات المفاتیح    جامع المناقب، الفصل الاول    مطبوعہ مکتبہ امدایہ ملتان     ۱۱/۴۰۹)

 

یہ وہی ابنِ مسعود ہیں جنہیں حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ صاحبِ سرِّ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے: ان اشبہ الناس دلاوسمتا وھدیا برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لابن ام عبد ۳؎۔ رواہ البخاری ف والترمذی والنسائی۔

 

 (۳؎ مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ بخاری    باب جامع المناقب    مطبع مجتبائی دہلی    ص ۵۷۴)

(جامع الترمذی، مناقب عبداللہ بن مسعود    امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی        ۲/۲۲۲)

 

ف۔ مشکوٰۃ میں بعینہٖ یہی الفاظ ہیں جبکہ ترمذی میں الفاظ یوں ہیں۔ کان اقرب الناس ھدیا ودلا وسمتا برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم ابن مسعود اور بخاری میں الفاظ یوں ہیں مااعلم احداً اقرب سمتا وھدیا ودلا بالنبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عن ابن ام عبد۔

 

بیشک چال ڈھال روش میں سب سے زیادہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مشابہ عبداللہ بن مسعود ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ۔

 

یہ وہی ابنِ مسعود ہیں جنہیں امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے: کیف ملئ علما ۴؎  (ایک گٹھری ہیں علم سے بھری ہُوئی)

 

 (۴؎ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ترجمہ عبداللّٰہ بن مسعودا مکتبہ اسلامیہ ریاض الشیخ     ۳/۲۵۹)

 

نہایت یہ کہ حضور اقدس سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: رضیت لامتی مارضی لھا ابن ام ۱؎ عبد۔  (میں نے اپنی اُمت کے لئے پسند فرمالیا جو کچھ عبداللہ بن مسعود اس کے لئے پسند کرے رواہ الحاکم بسند صحیح۔

 

 (۱؎ المستدرک کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت        ۳/۳۱۷)

  

لاجرم ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے نزدیک خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم کے بعد وہ جناب تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان سے علم وفقاہت میں زائد ہیں، مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے: ھو عند ائمتنا افقہ الصحابۃ بعد الخلفاء الاربعۃ ۲؎۔

 

 (۲؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ المصابیح     باب جامع المناقب الفصل الاول عن عبداللہ بن عمر،مطبوعہ امدادیہ ملتان۱۱/۴۰۹)

 

ہمارے ائمہ کے نزدیک ابنِ مسعود خلفاءِ اربعہ کے بعد سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔ (ت)

 

عاشراًعــہ اگر بالفرض براہین منع وا د لّہ جمع کانٹے کی تول برابر ہی سہی تاہم منع ہی کو ترجیح رہے گی کہ اس میں احتیاط زائد ہے اگر عنداللہ جمع درست بھی ہوئی تو ایک جائز بات ہے جس کے ترک میں بالاجماع گناہ نہیں بلکہ اتفاق اُس کا ترک ہی افضل ہے اور اگر عنداللہ نادرست ہے تو جمع تاخیر میں نماز دانستہ قضا کرنی ہوگی اور جمع تقدیم میں سرے سے ادا ہی نہ ہوگی فرض گردن پر رہے گا تو ایسی بات جس کا ایک پہلو خلاف اولٰی اور دوسری جانب حرام وگناہ کبیرہ ہو عاقل کا کام یہی ہے کہ اُس سے احتراز کرے، یہاں جو ملّاجی ایمان کی آنکھ پر ٹھیکری رکھ کر لکھ گئے ہیں کہ ف۱ تشکیک مذکور اُس صورت میں جاری ہوتی ہے جس میں طرفین کا مذہب مدلّل بدلائل ہو اور صورت اختلاف کی ہو حالانکہ مسئلہ جمع میں مانعین کا دعوٰی بے دلیل ہے اور ناجائز کہنا اُن کا خلاف ہے اختلاف نہیں پس اگر صحت میں عمل مدلل بدلائل کے قول بے دلیل شک ڈال دیا کرے تو سَیکڑوں اعمال باطل ہوجائیں اور حق وباطل میں کچھ تمیز نہ رہے،

 

عــہ یعنی نصوص منقول وقواعد اصول سے قطع نظر کرکے بہ مقتضائے عقول ہے۔ (م)

 

 ۱ معیارالحق    ص ۴۱۵)

 

ان جھُوٹی بالا خوانیوں سینہ زوری کی لَن ترانیوں کا کچّا چٹھّا بعونہ تعالٰی سب کُھل چُکا مگر حیا کا بھلا ہو جس کے آسرے جیتے ہیں یونہیں تو آفتاب پر خاک اُڑاکر اندھوں کو سُجھادیا کرتے ہیں کہ حنفیہ کا مذہب بے دلیل وخلاف حدیث ہے، خدا کی شان قرآن عظیم واحادیث رسول کریم علیہ وعلٰی آلہٖ افضل الصلاۃ والتسلیم کی اُن قاہر دلیلوں کو جنہیں سُن کر جگر تک دھمک پہنچی ہوگی بے دلیل ٹھہراؤ اور اپنے ضعیف وبے ثبوت قول کو قطعی یقینی مدلل بتاؤ اور عمل بالحدیث ودین ودیانت کا نام لیتے نہ شرماؤ انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون۔

 

ع : آدمیاں کم شدند ملک گرفت اجتہاد

 

فقیر غفرلہ المولی القدیر نے یہ چند اوراق کہ بنظرِ احقاق حق لکھے۔ مولٰی تعالٰی عزّوجل اپنے کرم سے قبول فرمائے شرِ حُسّاد وشامتِ ذنوب سے محفوظ رکھے۔ وجہ ثبات واستقامت مقلدین کرام بنائے، یہ امید تو ان شاء اللہ تعالٰی القریب المجیب نقد وقت ہے مگر دشمنانِ حنفیت کو ہدایت ملنے عناد حنفیہ کی راہ نہ چلنے کی طرف سے یاس سخت ہے کہ کھلے مکابروں میں جن صاحبوں کی یہ ہمتیں بڑھی ہیں یہ مشقیں چڑھی ہیں اُنہیں آئندہ ایسی اور ان سے بڑھ کر اور ہزار ہٹ دھرمیاں کرتے کیا لگتا ہے، تحریف تعصب مکابری تحکم کا کیا علاج ہے سوا اس کے کہ شرِ شریران سے اپنے رب عزوجل کی پناہ لُوں اور بتوسل روح اکرم امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اُس سے عرض کروں رب انّی اعوذبک من ھمزات الشیٰطین واعوذبک رب ان یحضرونo وصلی اللّٰہ تعالٰی علی الھادی الامین الامان المامون محمد واٰلہ وصحبہ الکرام والذین ھم بھدیھم یھتدون الحمد للہ کہ یہ مبارک رسالہ نفیس عجالہ پانزدہم ماہ رجب مرجب ۱۳۱۳ ؁ ہجریہ علٰی صاحبہا افضل الصلاۃ والتحیۃ کو تمام اور بلحاظ تاریخ حاجز البحرین ۱۳ الواقی ھ عن ۱۳جمع الصلاتین نام ہوا ربّنا تقبل منّا انک انت السمیع العلیم وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سید المرسلین محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین اٰمین سبحانک اللھم وبحمدک اشھد ان لاالٰہ الا انت استغفرک واتوب الیک واللّٰہ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔

 

 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post